زور سے رو ماہیا
افضل چوہان
جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید
خاموش نہ ہو ماہیا
گا کے سنادکھڑا
یا زور سے رو ماہیا
٭٭
چہروں پہ نہ جایا کر
ہر اک کو جا کر
دکھڑے نہ سنایا کر
٭٭
راتوں کو نہ رویا کر
سپنے ضروری ہیں
کچھ دیر تو سویا کر
٭٭
دن بھر وہ سوتا ہے
کیا دکھ ہے اس کو
شب بھر کیوں روتا ہے
٭٭
خاموشی گاؤں کی
توڑ نہ دے گوری
پائل تیرے پاؤں کی
٭٭
پائل نہیں پاؤں کی
کاٹتی رہتی ہے
ویرانی گاؤں کی
٭٭
چوپال ہے گاؤں کی
ٹھنڈک کتنی ہے
برگد کی چھاؤں کی
٭٭
ندیا میں باڑ آئی
فصلیں گاؤں کی
اک پل میں آ جاڑ آئی
٭٭
تندور جلانا ہے
ایندھن گیلا ہے
کھانا بھی پکانا ہے
٭٭
پنگھٹ پہ اداسی ہے
لب بھی ہیں تشنہ سے
مری دید بھی پیاسی ہے
٭٭
لو چاند ابھر آیا
آنکھ میں پھر میرے
اک چہرہ اتر آیا
٭٭
رنگین کہانی تھی
بس گئی آنکھوں میں
اک روپ کی رانی تھی
٭٭
کیا اچھا زمانہ تھا
اپنی محبت کا
خاموش فسانہ تھا
٭٭
نہروں میں نہاتے تھے
پاس کے مندر سے
پرشاد چراتے تھے
٭٭
خوشبو لی مَٹی سے
جھونگا لیتے تھے
آنندؔ کی ہٹی سے
٭٭
کوئی دیپک گائے ہے
آئی نہیں گوری
دل ڈوبا جائے ہے
٭٭
گرچہ ہم دور رہے
تجھ سے ملنے کو
کتنے مجبور رہے
٭٭
اچھا وہ زمانہ تھا
ملنا تھا تجھ سے
اور کھیل بہانہ تھا
٭٭
ایسی بھی گھڑی آئی
اس کو ملی محفل
ہم کو ملی تنہائی
٭٭
گاؤں کی وہ ہریالی
ہر گھر آسودہ
ہر جانب خوشحالی
٭٭
آنچل تیرا لہکے گا
تیرے آنے سے
ماحول بھی مہکے گا
٭٭
ترے ہاتھ میں چھتری ہے
گھورتا رہتا ہے
گاؤں کا جو کھتری ہے
٭٭
پنڈت کا چھورا ہے
نین شرابی ہیں
ظالم بڑا گورا ہے
٭٭
برگد کے تلے بیٹھو
کام نبیڑ آؤ
پھر آ کے بھلے بیٹھو
٭٭
اپنا تو یہی دل ہے
بے شک لے جاؤ
پر تھوڑا سا گھائل ہے
٭٭
وہ شہر سے آتا تھا
پاس بٹھاتا تھا
بیڑی بھی پلاتا تھا
٭٭
رعنائی دنیا کی
آپ کے دم سے ہے
زیبائی دنیا کی
٭٭
ساڑھی ہے بنارس کی
ہمت تو ہے بہت
بس لوڑ ہے ڈھارس کی
٭٭
سنگیت سناتا ہے
گاؤں کا بنجارا
کیا ٹھمری گاتا ہے
٭٭
اک دیپ جلایا تھا
ہم نے محبت کا
اک شہر بسایا تھا
٭٭
راتوں کی خموشی میں
راز اگ آتے ہیں
بنجر سر گوشی میں
٭٭٭
اک نور کا ہالہ ہے
ہجر کی تیرہ شب
بس آس آ جالا ہے
٭٭
انہونی کیوں ہووے
نا حق مت کرنا
نا حق کوئی کیوں رووے
٭٭
بے شک مر جائے گا
بن تیرے گوری
رانجھا نہیں جائے گا
٭٭
وہ لاج کی ماری ہے
اوڑھ کے چُپ اس نے
یہ عمر گزاری ہے
٭٭
رتھ پر مجھے جانا ہے
آ کر مل جانا
میرا دور ٹھکانا ہے
٭٭
بجلی جب چمکے گی
لمحے بھر کے لیے
بستی میری دمکے گی
٭٭
کیوں آج وہ بے کل ہے
اونچی حویلی میں
سنگیت کی محفل ہے
٭٭
دکھ سُکھ ہے نصیبوں کا
رب پہ بھروسہ کر
والی ہے غریبوں کا
٭٭
رُت ساون کی آئی
وصل کے موسم کا
پیغام نہیں لائی
٭٭
جے پور مجھے جانا ہے
دیکھنا ہے تجھ کو
اسکول بہانہ ہے
٭٭
پتھر کو لگی جونکیں
توڑتی رہتی ہیں
غیروں کی ہمیں ٹوکیں
٭٭
مندر کے دیپ جلے
سورج ڈھلتے ہم
تری بستی چھوڑ چلے
٭٭
بھگوان اکتارے میں
ساز سا بجتا ہے
جمنا کے دھارے میں
٭٭
مت آج بھلا دینا
اک بات ضروری ہے
بچوں کو سلا دینا
٭٭
حسرت ہے یہی اپنی
رہتی ہے جو دل میں
وہ ہو گی کبھی اپنی
٭٭
گوری اتراتی ہے
کھول کے زلفوں کو
خوشبو بکھراتی ہے
٭٭
گجرے لئے بانہوں میں
آج بھی بیٹھے ہیں
ساجن تری راہوں میں
٭٭
پتھر کا زمانہ تھا
آج بھی دل میں ہے
جو خوف پرانا تھا
٭٭٭
ماخذ: عکاس انٹرنیشنل ، اسلام آباد کے شماروں سے
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید