فہرست مضامین
- زادِ راہِ عشق
- انتساب
- پیش لفظ
- ڈاکٹر نگہت نسیم کا شعری سفر۔ ایک جائزہ
- حمد
- حمد
- نعت مبارک
- سلام و منقبت
- غزلیات
- اے ارضِ وطن میری جنت تو اس جنت پر قربان نسیم
- کسی جہاں میں ہوں تیرا خیال رکھتی ہوں
- ہمارے عزم کے باعث تمہارا عشق کامل ہے
- یہ کیسا رنگ مجھ میں بھر دیا ہے
- درد سہنے کی بات کرتا ہے
- وہ خواب کیا تھا جو تعبیر کر دیا ہے مجھے
- زمیں کے پاؤں میں رقصاں خوشی کی جھانجھر ہے
- اس نے خواب میں مجھکو جب دو کنول دئیے
- ٹکڑوں سے اپنے دل کے جُدا ہو گئی ہے ماں
- دل کی حالت وہ جب چھپاتا ہے
- تجھ سے رفاقتوں کا ثمر مل گیا مجھے
- میرا اس کا ساتھ زمانے بھر کا ہے
- سوچتی ہوں کیوں ملا دیر سے یاور میرا
- ایک مطلع
- قومی نغمات
- متفرق اشعار
- قطعات
زادِ راہِ عشق
ڈاکٹر نگہت نسیم
ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
اپنے رفیق سفر محمد آفتاب کے نام جن کی رفاقت پر میں خوش نصیب ہوئی۔
دیکھو میری آنکھ سے تو اک گہر ہے آفتاب
منفرد اک باپ بیٹا اور شوہر ہے آفتاب
اتنے برسوں کی رفاقت میں یہ نگہت طے ہوا
عمر بھر کا دوست بھی اور ہم سفر ہے آفتاب
(ڈاکٹر نگہت نسیم)
پیش لفظ
یادوں کے میٹھے کھارے دریا۔۔
مجھے کبھی بھی ڈر نہیں لگا۔۔!
نا محبت کرتے ہوئے
نا اعتبار کرتے ہوئے
نا پیار بانٹے ہوئے
نا رستوں کے گم ہو جانے پر
نا اپنے تنہا رہ جانے پر
مجھے کبھی بھی ڈر نہیں لگا۔۔!
مشکل سے مشکل کام کرتے ہوئے بھی یقین کا دیا میرے اندر جلتا رہتا ہے۔۔
حوصلوں کے یہ سفر بغیر محبت اور دعاؤں کے بھلا کب طے ہوتے ہیں۔۔
میں خوش نصیب ہوں یقین کا دیا جلانے والے آفتاب کی شریک سفر ہوں، جنہوں نے اپنے نام کی چادر اوڑھا کر مجھے با عزت کیا۔۔ جسم و جاں کے ہر سکھ پر میرا نام لکھ دیا۔ پیار، مان، اعتبار اور خلوص کی چار دیواری سے گھر بنا کر دیا۔ ہر جگہ اپنی ہمراہی اور راہبری کو میسر کیا۔۔ وفا اور شفا کے یہ گہر آبدار نظموں، غزلوں اور قطعات کی صورت تفسیر حیات ہیں۔۔ ۔۔ تین دہائیوں سے ہم دونوں ایک دوسرے کی کہانی کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔۔ اپنے رب سے دعا گزار ہوں تا حیات ہمارے درمیان یادوں کے میٹھے کھارے دریا عمر کے سمندر میں گرتے رہیں۔۔۔ اور ہم حوصلوں کے اس سفر میں شکر گزاری کے ساتھ محبتیں اور دعائیں لیتے اور بانٹتے جائیں۔۔
(الٰہی آمین)
‘‘ زادِ راہِ عشق ‘‘
رفیق من
میری امیدوں کے
آسمان کا
تم
آخری امکان ہو
ڈاکٹر نگہت نسیم
ڈاکٹر نگہت نسیم کا شعری سفر۔ ایک جائزہ
ڈاکٹر نگہت نسیم کی تازہ کتاب۔۔۔ زادِ راہِ عشق۔۔ اس وقت میرے سامنے ہے اور میں اسے دوسری بار اس لئیے پڑھ رہا ہوں کہ خوبیاں تو ان کی اپنی ہیں لیکن میں کسی بھی قسم کی خامیاں تلاش کر کے حق دوستی اور حق استاد ادا کر سکوں۔ استاد کا دوست ہونا بذات خود ایک بہت بڑا امتحان ہے کہ کہیں دوستی کی عینک کا نمبر استاد کی عینک کے نمبر پر غالب نہ آ جائے۔ میرے وہ سب دوست جو تخلیق کے معاملے میں اس کم علم اور فقیر در باب علم سے بقدر ظرف کچھ حاصل کرتے ہیں وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ رائے دیتے ہوئے میرے سامنے صرف اور صرف تخلیق ہوتی ہے تخلیق کار نہیں اس لئیے سارے روابط اور رشتے ایک طرف رہ جاتے ہیں۔
میں خوش قسمت ہوں کہ اس سے قبل ڈاکٹر نگہت نسیم اپنی ایک کتاب کا انتساب میرے نام کر چکی ہیں جو میرے لئیے اعزاز بھی ہے اور باعث فخر بھی کہ اپنی تخلیقات کو کسی سے منسوب کرنا مشکل کام بھی ہے اور منفرد بھی۔ یہ نگہت کی قلبی وسعت اور بڑائی ہے کہ وہ مجھے اپنا استاد کہتی ہی نہیں بلکہ سمجھتی بھی ہیں اور اس سفر میں میرا تلخ و تُرش برداشت بھی کرتی ہیں۔ شاید یہی وصف ہے ان کا کہ انہوں نے بہت طویل سفر بہت کم عرصے میں طے کیا ہے۔
مجھے سڈنی میں ان کے گھر میں قیام کا وہ دن یاد ہے جب انہوں نے اپنے گھر پر میرے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں شہر کے چنیدہ اہل علم نے شرکت کی اور جہاں اپنی گفتگو کے دوران میں نے نگہت نسیم کی نظم نگاری پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے ان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ نظم کی شاعرہ ہیں اور نظم پر ہی توجہ دیں اور غزل کہنے کی کوشش نہ کریں کہ غزل ان کے مزاج میں نہیں ہے۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ ہے کہ اس وقت مجھے یہ احساس تھا کہ نگہت میں قوافی، بحور، ردیف اور الفاظ کے ذخیرے کے اعتبار سے وہ وسعت نہیں جو غزل یا پابند شاعری کا خاصہ ہے۔ اگر چہ انہوں نے اس وقت میری بات مان لی اور کچھ عرصے تک اس مشورے پر عمل بھی کیا لیکن ان کے اندر کی شاعرہ میری بات تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی اور اسی اندر کی شاعرہ نے انہیں مسلسل بے چین رکھا تا آنکہ ایک عرصے بعد انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ میری رائے کا احترام کرنے کے باوجود اس کو چیلنج کے طور پر لینا چاہتی ہیں اور پابند شاعری باقاعدہ شعوری طور پر پورے التزام سے سیکھنا چاہتی ہیں۔ میں نے ان کے اس استحکام کو دیکھتے ہوئے ان کو اس کی اجازت دے دی اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بہت کم عرصے میں انہوں نے ایک بہت اچھے شاگرد کی طرح سب کچھ قلم کے راستے روح میں اتار لیا۔
میں اگرچہ بالخصوص شاعری کے معاملے میں تخلیق کار کو نظم کے شاعر اور غزل کے شاعر میں تقسیم کرنے کے حق میں نہیں کیونکہ تخلیق تو تخلیق ہے اور پھر ادب بنیادی طور پر دو اصناف پر ہی مشتمل ہے نثر اور نظم جبکہ اصناف کی باقی تقسیم ذیلی اور ثانوی ہے لیکن اس حد تک ضرور اس تقسیم کا حامی ہوں کہ لکھنے والے کا مزاج ایک اہم عنصر ہے کہ وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے کس ذیلی صنف میں آسانی سے اور ابلاغ کی مناسبت سے زیادہ بہتر طور پر لکھ سکتا ہے۔ بس یہی وجہ تھی مزاج کی جو میں نے نگہت کو غزل سے دور رہنے کا یوں کہوں کہ پابند شاعری سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن نگہت نے اسے چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور ان کی یہ تازہ کتاب پابندی شاعری پہ ان کی دسترس کا ایک ثبوت ہے۔
وہ نظم کی منفرد اور مستند شاعرہ ہیں اس میں کوئی دوسری رائے نہیں لیکن اس کتاب میں اسی وجہ سے ان کی کوئی نظم شائع نہیں کی گئی کہ قاری دوسری اصناف میں بھی ان کے قلمی، فکری اور تخلیقی سفر کا جائزہ لے۔ پابند شاعری کی مختلف زیادہ سے زیادہ ذیلی اصناف اس کتاب میں موجود ہیں جن کو دیکھ اور پڑھ کر ان کے ہمہ جہت تخلیقی سفر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے
یوں تو نگہت نسیم کو شروع شروع میں فقط افسانہ نگار ہی سمجھا گیا لیکن پھر انہوں نے بہت محنت سے نظم نگاری میں اپنا مقام پیدا کیا اور ایسا کیا کہ ان کے مخالفین کو بھی تسلیم کرنا پڑا اور اس کے بعد ان کا سفر پابند شاعری طرف رواں دواں ہوا جس میں انہوں نے مزید محنت سے اعلی پائے کی تخلیقات قلمبند کیں۔
میں ذاتی طور پر نگہت نسیم کے اس تخلیقی سفر سے بخوبی آگاہ ہوں اور اس سفر کے ایک رُخ کو اپنے قارئین تک ضرور پہچانا چاہتا ہوں کہ نگہت نسیم میرے اُس تخلیقی فلسفے کی تصویر ہیں کہ شاعری خاص طور پر کوئی جُزوقتی کام نہیں بلکہ یہ کُل وقتی سے بھی زیادہ طلب کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نگہت کے ہاں کمٹمنٹ کا عنصر ان کو اپنی تخلیقات کے حوالے سے اپنے بہت سے ہم عصروں میں نمایاں کرتا ہے۔ وہ جب کوئی تخلیق شروع کرتی ہیں تو اس کو ختم کئیے بغیر سکون نہیں لیتی ہیں اور اکثر رات کے دو بجے بھی فون کر کے مشورہ کر رہی ہوتی ہیں اگرچہ اگلے روز صبح سات بجے ان کو ایک ڈاکٹر کے طور پر ڈیوٹی پہ ہسپتال بھی جانا ہوتا ہے اور دوسری طرف ہسپتال میں اپنے مریض کے بارے میں بھی وہ اتنی ہی کمٹڈ ہیں کہ ڈیوٹی کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی اس وقت تک مریض کے علاج میں مصروف رہتی ہیں جب تک مریض یا اس کے لواحقین مطمئن نہ ہو جائیں۔
نگہت کے اس تازہ شعری مجموعے میں لگ بھگ وہ سب کچھ ہے جو انہوں نے گزشتہ چند برسوں میں سیکھا اور بہت محنت سے لکھا ہے۔ اس میں حمد، نعت، قطعات سے لے کر غزلیات تک موجود ہیں اور اب وہ پابند شاعری کرتے ہوئے بھی اتنی بہادر اور نڈر ہو گئی ہیں کہ انہوں نے اس میں ایک تجرباتی غزل بھی شائع کیا ہے۔ یہ تجربہ کیسا ہے مجھے اس پر بحث نہیں کرنی لیکن اتنا ضرور کہنا ہے کہ تخلیق کار تجربے کے میدان میں قدم اس وقت رکھتا ہے جب وہ یقین کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے اور یہ یقین اسے مطالعے اور مسلسل محنت سے ملتا ہے ۔
اس مجموعے میں شامل قطعات بھی ہر رخ سے وسعت کے حامل ہیں اور یہی خوبی غزلیات کی بھی ہے۔ آپ قاری کے طور پر خود ان کا مطالعہ کیجئے اور اپنی رائے قائم کریں، میں نے اپنی رائے دی ہے اور آپ کا اس سے اتفاق ضروری نہیں۔
نگہت نسیم کی نظموں کے بارے میں ان کی کتاب میں مجھے یاد ہے میں نے لکھا تھا کہ وہ بلاوجہ نظم کو طول نہیں دیتی ہیں بلکہ جہاں ان کا خیال بات مکمل کرتا ہے وہ قلم وہیں روک لیتی ہیں۔ اب یہی خوبی مجھے ان کی پابند شاعری میں بھی نظر آئی ہے کہ اس کا ایک گوشہ ان اشعار پر مشتمل ہے جو بقول ان کے غزل نہیں بن سکے ہیں اور اس گوشے کو انہوں نے سادہ اور سلیس الفاظ میں بہت آسان سا عنوان دیا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ اشعار جو غزل نہ بن سکے۔۔۔!۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ اس گوشے کا ایک شعر پڑھئیے اور لطف لیجئے اور مجھے اجازت دیجئے۔
ایسے تم کو خود میں بسایا ہے میں نے
سچ کہہ دوں اب تم جیسی ہی لگتی ہوں
دعا گو
صفدر ہمدانی
سرے، یو کے
جنوری، دو ہزار اٹھارہ
حمد
میرے خدا یہ ترے حسن کی نشانی ہے
ہر ایک پھول میں پتے میں اک جوانی ہے
فقط ترے ہی کرم کا سوال ہے مولا
ہر اک مراد ترے آستاں سے پانی ہے
میں تجھ سے لفظوں کی خیرات مانگتی ہوں شہا
زمیں پہ رہ کے یہ دولت فقط کمانی ہے
جہاں جہاں یہ بھی جاری ہے ظلم و جور و جفا
مرے قلم نے قیامت وہ سب دکھانی ہے
ہاں جانتی ہے یہ نگہت نسیم راز الست
ترے ہی حکم سے سانسوں کی یہ روانی ہے
حمد
زمینیں سب تری یا رب ہیں سارے آسماں تیرے
تو خالق سب کا ہے لاریب ہیں سارے جہاں تیرے
ہر اک جانب سے آتی ہے صدا تیری ہی تسبیح کی
ہیں خوشبوئیں تری ہیں گل ترے ہیں گلستاں تیرے
اگر چہ شک نہیں اس میں خدایا بے نشاں ہے تو
جدھر دیکھوں وہاں پر ہیں مرے خالق نشاں تیرے
بھنور تیرے ترے طوفاں ترے دریا ترے ساحل
شجر تیرے حجر تیرے یہ بحر بے کراں تیرے
تو ظاہر میں تو باطن میں تو سوچوں میں ارادے میں
جو پوشیدہ ہے سب تیرا نہاں تیرے عیاں تیرے
محمد ہے ترا محبوب تفسیرِ کتاب اللہ
جلی آیات قرآں ہیں حقیقت میں بیاں تیرے
دلیل اک یہ ہی نگہت ہے خدائی کی بہت کافی
خدایا لا مکاں ہے تو مگر سارے مکاں تیرے
نعت مبارک
1
نعتِ سرورِ کونین کے بحضور فخر انبیا، تاجدار مدینہ، ختم الرُسل، مولائے کُل، باعثِ خلق کائنات، آقائے دو جہاں کے نام کہ جنہوں نے میرے قلم کو اپنا اسمِ پاک لکھنے کی اجازت بخشی اور مجھے اذنِ کلام دیا۔
اللہ کی عطا ہے محبت رسول کی
ورثۂ انبیا ہے فضیلت رسول کی
دیتا رہا جو جان کے دشمن کو بھی دعا
درکار پھر ہے آج وہ سیرت رسول کی
عشقِ رسول عشقِ خدا کا ہے آئینہ
دیکھا خدا کو دیکھ لی صورت رسول کی
انکار اہل بیتِ نبوت سے الاماں
دعوت یہ کارِ شر ہے عداوت رسول کی
یاسین کا وجود محمد کا ہے وجود
تطہیر کا مزاج طہارت رسول کی
خوشبو نبیِ پاک کی ہر لفظ لفظ میں
قرآن کر رہا ہے تلاوت رسول کی
اپنے عمل کو زینتِ کردار کرنا ہے
گر چاہتے ہو تم بھی شفاعت رسول کی
کس سے بیاں ہوں رحمتِ کُل کی فضیلتیں
قرآں کا حرف حرف فضیلت رسول کی
مدحت رسولِ پاک کی لکھنے کا یہ شرف
تم پر نسیم خاص عنایت رسول کی
2
ہر اک قدم پہ میرا مقدر سنوارا ہے
آنکھوں میں ان کی دید کے منظر اُتارا ہے
عشاق مصطفی کی یہ پہلی نشانی ہے
مشکل میں صرف نام محمد پکارا ہے
نام رسول پاک ہے ہر خوف سے نجات
طوفاں تو میرے واسطے جیسے کنارا ہے
عشق رسول، عشق ہے آل رسول سے
ان کے بغیر زندگی کیا ہے؟ خسارہ ہے
یہ در درِ رسول درِ فاطمہ بھی ہے
اس در پہ سجدہ ریز فلک کا ستارا ہے
آقا مرے حضور مرے مصطفی مرے
بعد از خدا حضور کی رحمت سہارا ہے
لاریب ایک یہ ہی سند مغفرت کی ہے
پیارا جو فاطمہ کا نبی کا وہ پیارا ہے
میرے حضور میری یہ فریاد بھی سُنیں
اُمت کو آپ کی یہاں نفرت نے مارا ہے
نگہت گزاریں گے وہی پُل صراط سے
ہر عاشق حسین و حسن کو گزارا ہے
3
عشق الٰہی کا پیمانہ، سرکار مری سرکارِ مدینہ
حشر میں بخشش کا پروانہ، سرکار مری سرکارِ مدینہ
رنج و الم ہیں جہاں بھی جاؤں، آقا میں بس گھبرا جاؤں
بنیں مری تسکیں کا بہانہ، سرکار مری سرکارِ مدینہ
پاک نبی کی سواری آئی، جگ مگ جگ مگ ساری خدائی
پڑھا ہواؤں نے شکرانہ، سرکار مری سرکارِ مدینہ
کیا ہو بیاں سرکار کی مدحت، میرا نبی آفاق پہ رحمت
اپنا بنے ہر ایک بیگانہ، سرکار مری سرکارِ مدینہ
اندر دنیا عشق رسالت، باہر دنیا آل سے الفت
پیش کروں جاں کا نذرانہ، سرکار مری سرکارِ مدینہ
سیدہ کاحسنین کا صدقہ، میرا بھرم رکھ لیجئے آقا
دنیا کہے مجھ کو دیوانہ، سرکار مری سرکارِ مدینہ
مدحتِ آلِ محمد لب پر، دل میں درود نبی پر رب پر
یہی ہے جنت کا پروانہ، سرکار مری سرکارِ مدینہ
علی، نبی، حسنین کی باتیں، بی بی فاطمہ کی سوغاتیں
یہ ہے نماز مری پنجگانہ۔ سرکار مری سرکارِ مدینہ
عشق میں مولا جان سے جاؤں، وقت نزع معراج سناؤں
قبر میں ہو لب پہ یہ ترانہ، سرکار مری سرکارِ مدینہ
حشر کے روز نسیم کی قسمت، سامنے ہوں سرکارِ شفاعت
کملی پکارے بے تابانہ، سرکار مری سرکارِ مدینہ
4
نبی کی نعت لکھوں یہ کہاں مجال مجھے
خدا کرے کہ ملے یہ بھی اب کمال مجھے
قلم میں اب مرے خوشبو ہے نامِ احمد کی
میں جانتی ہوں نہ آئے گا اب زوال مجھے
یہ کیا کہ چاروں طرف ہے منافقوں کا ہجوم
میں گر رہی ہوں خداوندا اب سنبھال مجھے
اے خاکِ بطحا رگوں میں اُتر لہو کی طرح
محبتوں کے سمندر کبھی اچھال مجھے
مدینے والے سے جس دن سے ہے سوال کیا
کسی سے آتا نہیں کرنا اب سوال مجھے
ہو میری روح کے زخموں پہ سایۂ رحمت
مرے وجود سے باہر دے اب نکال مجھے
سوائے ارضِ مدینہ کے روئے جنت کی
زمیں پہ ملتی نہیں ہے کوئی مثال مجھے
جمالِ خالقِ اکبر نبی کے نام میں ہے
اے کاش مرتے نظر آئے یہ جمال مجھے
زمینِ شہرِ مدینہ کو اوڑھ کر سو لوں
نصیب میں جو زیارت ہو اگلے سال مجھے
یہی تمنا ہے نگہت نسیم کے دل میں
بروز حشر بچا لے نبی کی آل مجھے
5
جن سے بغیر عشق کے سجدہ فضول ہے
اس مصطفیٰ مزاج کی بیٹی بتول ہے
ہم عاصیوں کے واسطے رحمت کا سائباں
کیا ایسا کوئی اور خدا کا رسول ہے
یاسین ہو یا احمد و طہ و مصطفیٰ
ہر نام جس طرح کوئی جنت کا پھول ہے
بطحا کی خاک دوڑ مرے خوں میں اس طرح
جیسے لہو میں عشق نبی کا نزول ہے
جینے کے واسطے ہے سہارا انہی کا نام
یہ نام ہو زباں پہ تو مرنا قبول ہے
بیٹھا ہو بوریے پہ مگر ہو فلک نشیں
جُز مصطفیٰ کے کیا کوئی ایسا رسول ہے
یوں لگ رہا ہے جیسے منور ہے یہ جبیں
چہرے پہ میرے شہر نبی کی جو دھول ہے
جیسے مدینہ اترا ہے میرے وجود میں
نام رسول اس طرح روح میں حلول ہے
ہر سانس کہہ رہی ہے نبی یا نبی نسیم
مجھ پر یہ برکتوں کا عجب سا نزول ہے
6
میرے آقا مرے مولا مرے سرکار مدینے والے
ایک دن میں بھی کروں گی ترا دیدار مدینے والے
اب شفا صدقہ نواسوں کا عطا کر دیجے مجھے
گنبد سبز کی ہوں آپ کے بیمار مدینے والے
میرے الفاظ قلم فکر سبھی آپ سے ہیں
آپ کے نام سے وابستہ ہے اظہار مدینے والے
چار سو اپنے ہیں اغیار کے کردار کے ساتھ
کیسے اب توڑیں گے نفرت کی یہ دیوار مدینے والے
دعویٰ ہے آپ سے الفت کا مگر دل ہیں سیاہ
کاش ہو جائے ضمیر اب تو یہ بیدار مدینے والے
صدقہ نعلین کا سر پہ ہے میرے تاج سخن
آپ کے در سے ملے ہیں مجھے افکار مدینے والے
صدقہ حسنین کا مجھ کو بھی یہ ہمت ہے ملی
وقت کے جابروں سے ہے مجھے انکار مدینے والے
فقر بوذر کہ جسے آپ نے عزت بخشی
ہے وہی فقرِ ابو ذر ہمیں درکار مدینے والے
علم کے در سے یہ وعدہ ہے میرا اب نگہت
ہاں گراؤں گی میں ہر جہل کی دیوار مدینے والے
7
نعت محمد و علی
(حدیث مبارک؛ میں علی سے اور علی مجھ سے ہیں )
علم کا شہر محمد ہیں تو در ہیں حیدر
جسم اسلام ہے، اسلام کا سر ہیں حیدر
عکس اللہ کا دونوں میں نظر آیا ہمیں
ہاں صدف گر ہیں محمد تو گوہر ہیں حیدر
ہر قدم سوئے محمد ہی رواں ان کا رہا
منزل عشق محمد ہیں سفر ہیں حیدر
گھر میں اللہ کے پیدا ہے محمد کا وصی
اس نسبت سے تو اللہ کا گھر ہیں حیدر
خم کے میداں میں محمد نے جو اعلان کیا
اسی اعلان میں مولائے دہر ہیں حیدر
نفس اپنا کہا بھائی کہا یاور بھی کہا
ہاں محمد کے فقط زیر اثر ہیں حیدر
دے کے حیدر کو علم بولے محمد سن لو
دشمن کفر علی قاتل شر ہیں حیدر
نعت لکھنے کے لئیے بیٹھی محمد کی نسیم
اور قلم لکھتا رہا نعت مگر ہیں حیدر
8
عشق رسول پاک کا زینہ ملے مجھے
سمجھو کہ دو جہاں کا خزینہ ملے مجھے
سر رکھ کے ورد کرتی رہوں یا رسول کا
پھر ایک بار ماں کا جو سینہ ملے مجھے
اللہ سے رسول سے آل رسول سے
اے کاش عاشقی کا قرینہ ملے مجھے
اے والی مدینہ مری التجا کو سُن
یثرب کی سرزمین میں جینا ملے مجھے
آل رسول سچ ہیں سفینہ نجات کا
بخشش کو کاش یہ ہی سفینہ ملے مجھے
نگہت یہی دعا ہے مری ہر نماز میں
مرنے کے واسطے جو مدینہ ملے مجھے
9
جو دیکھوں گنبد خضریٰ پکاروں یا رسول للہ
میں اپنی جان تیرے در پہ واروں یا رسول للہ
مری سانسوں میں آقا اب محمد ہی محمد ہو
اسی خیرات پر جیون گزاروں یا رسول اللہ
بس اک دیدار کی حسرت کہ آقا خواب میں دیکھوں
پھر ان لمحوں کا جاں صدقہ اتاروں یا رسول اللہ
محبت آپ سے سیکھی عبادت آپ سے سیکھی
اسی سے اپنی اب عقبیٰ سنواروں یا رسول اللہ
وہی لکنت بلالی جس پہ آقا تھے فدا بے شک
اسی لکنت کو اب روح میں اتاروں یا رسول اللہ
خدائی اک طرف ساری محمد اک طرف بیشک
محبت آپ کی میں خود کو ماروں یا رسول اللہ
مری آل محمد سے رہے نسبت سدا قائم
انہی کے پیار میں اب جان ہاروں یا رسول اللہ
فقط اک التجا ہے آپ سے سن لیجئے آقا
اٹھوں جب حشر میں بس یہ پکاروں یا رسول اللہ
حقیقت تھی کھڑی تھی سامنے روضے کے میں تنہا
نسیم اس لمحے کو روح میں اتاروں یا رسول اللہ
10
شاہ بطحا شاہ مدینہ
پار لگا دو میرا سفینہ
زخمی زخمی میرا سینہ
اور شفا ہی شفا مدینہ
علم کا شہر ہیں پاک محمد
باب العلم ہیں علم کا زینہ
نام محمد سے وابستہ
میرا مرنا میرا جینا
مرنے کے ہیں لاکھوں رستے
جینے کا بس ایک قرینہ
فکر کی طالب آپ سے آقا
فکر کا آقا آپ مدینہ
نعت لکھوں تو آ جاتا ہے
ماتھے پر حیرت سے پسینہ
کشتی ہے منجدھار میں مولا
لیکن تیری یاد سفینہ
بے شک میرے دل کی بستی
یادِ محمد کا ہے خزینہ
چھان لیا سب بحر و بر کو
کوئی نہیں ہے تجھ سا نگینہ
وقت دعا ہے مانگ نسیم اب
کاش سفر ہو سوئے مدینہ
سلام و منقبت
1
سلام کرب و بلا پر مدینے پر بھی سلام
لُٹا جو دشت میں ہاں اُس خزینے پر بھی سلام
مثال نوح کی کشتی سے جس کو دیتے ہیں
جو مغفرت کا ہے اُس اک سفینے پر بھی سلام
وہ اک مہینہ محرم کے نام سے موسوم
مصیبتوں کے امیں اُس مہینے پر بھی سلام
کہیں ہیں اکبر و عباس، اصغر و قاسم
سلگتی ریت کے ہر اک دفینے پر بھی سلام
حسین پاک پہ لاکھوں سلام ہوں نگہت
سکینہ بی بی کے بابا کے سینے پر بھی سلام
2
پہنچے سلام میرا شہیدِ عظیم کو
دی جس نے بددعا بھی نہ اپنے غنیم کو
کر کے سلام سیدہ زہرا کے لال کو
میں چومتی رہی ہوں محمد کے میم کو
انگلی کے اک اشارے سے دو نیم جو ہوا
میرا سلام ہو اسی ماہِ دو نیم کو
مولا اے کاش اذنِ حضوری ملے مجھے
ضامن بنا رہی ہوں میں موسیٰ کلیم کو
روضے کی جالی چوم لوں مولا حسین کی
کی ہے یہ عرض میں نے بھی ربِ کریم کو
مولا قبول کیجئے یہ حاضری مری
کرب و بلا بلائیے نگہت نسیم کو
3
اللہ سے دعا ہے سلامت رہیں حسینی
دل کی مرے صدا ہے سلامت رہیں حسینی
بعد از صدائے گریہ خُلد بریں سے ہم کو
پیغام یہ ملا ہے سلامت رہیں حسینی
عاشور کی وہ شب اور اک رات کی وہ مہلت
اُس شب کا یہ صلہ ہے سلامت رہیں حسینی
ظالم کے ظلم پر وہ چُپ رہ نہیں سکے گا
قدرت کا فیصلہ ہے سلامت رہیں حسینی
ام البنین صدقے بیٹے کی ہر ادا پر
عباس با وفا ہے سلامت رہیں حسینی
نگہت ملا ہے ہم کو انعامِ مجلسِ شہ
جنت میں بھی لکھا ہے سلامت رہیں حسینی
4
علی کے گلشن خوش رنگ کی کلی زینب
امام ذات میں اپنی ہیں اور ولی زینب
دلیل جن کی ہر اک بات کی خدا کا کلام
عمل میں اپنے ہیں تطہیر کی گلی زینب
وہ قافلے کا بھی منظر عجیب منظر تھا
جو بن کے قیدی سوئے شام تھیں چلی زینب
سکینہ کرتی تھیں جب یاد اپنے بابا کو
بس ایسے وقت میں سہتی تھیں بے کلی زینب
وہ اپنے عزم میں بے شک حسین ابن علی
ہاں نور فاطمہ میں سرتاسر ڈھلی زینب
وہاں تھیں خُلد میں بے حال مادر حسنین
کھلے سروں میں تھی ہاں خاک جب ملی زینب
علی کے لہجے میں نگہت کہا گیا خطبہ
خدا گواہ تھیں دربار میں علی زینب
5
زمیں پہ پا لیا جنت کا راستہ میں نے
سلام آل محمد پہ جب لکھا میں نے
حسین لکھنا بھی پروردگار کی ہے عطا
قلم پہ نور تھا شبیر جب کہا میں نے
عطا ہوئی ہے مجھے خواب میں جو خاک شفا
ابھی تو کی تھی فقط نیت دعا میں نے
یہ طے ہے مجھکو سفر کربلا کا کرنا ہے
کیا ہے اپنے سے وعدہ میرے خدا میں نے
ہوا سوال جو عشق حسین کا در پیش
خود اپنے حق میں لکھا آپ فیصلہ میں نے
بتاؤ کون ہے وہ کائنات میں جو کہے
غم حسین کا حق کر دیا ادا میں نے
قلم کی نوک سے نگہت لہو ٹپکنے لگا
ابھی سلام کی کی ہی تھی ابتدا میں نے
6
ہے تا روز محشر امامت علی کی
سناتا ہے خیبر شجاعت علی کی
فقط ایک رستہ ہے عشق علی کا
فقط شیر مادر محبت علی کی
ہمارے محمد کا فرمان ہے یہ
اطاعت خدا کی اطاعت علی کی
وہ ناز خطابت وہ ناز سخاوت
ہے حد عبادت، عبادت علی
یونہی تو نہیں ہے وہ نفس محمد
بمثل محمد طبیعت علی
وہ در علم کا ہے نبی نے کہا ہے
ہے جنت کی کُنجی ہدایت علی کی
نہیں بھولی نگہت غدیر دشمنوں کو
گواہی ابد تک شہادت علی کی
7
ذکر شبیر سے جو فرد بجنگ ہوتا ہے
صرف دنیا نہیں آخر میں بھی ننگ ہوتا ہے
ذکر شبیر جو سنتا ہے مگر روتا نہیں
ایسا دل، دل نہیں ہوتا ہے وہ سنگ ہوتا ہے
فکر ہوتی ہے مدینے کی مرے شعروں میں
کربلا کا مرے اشعار میں رنگ ہوتا ہے
ایک پہچان منافق کی یہی کافی ہے
مجلس آل محمد سے وہ تنگ ہوتا ہے
رات دن کرتا ہے جو ذکر حسینی وہ نسیم
سب کی قسمت نہیں، یہ کار ملنگ ہوتا ہے
8
میرا عشق کربلا میرا یقین کربلا
کربلا کے بعد اب میرا ہے دین کربلا
فاطمہ کے باغ کے پھول دفن ہیں یہاں
ایسی سب امانتوں کی ہے امین کربلا
ریت پر پڑے ہوئے چاند سب رسول کے
دیکھی نہ کائنات نے ایسی حسین کربلا
خون سے لکھا ہوا ہے جبینِ وقت میں
سب زمینوں کی ہے ماں اک زمین کربلا
ہاں اسی جگہ حیات پائی ہے نماز نے
ہے سجدے میں جو آسمان وہ جبین کربلا
اس کے ذرے ذرے میں خونِ آلِ مصطفیٰ
ہے اندھیری رات میں مہرِ مبین کربلا
مطمئن ہوں اسقدر نگہت نسیم با خدا
دل میں میرے حشر تک جیسے مکین کربلا
9
سلام کرب و بلا پر مدینے پر بھی سلام
لُٹا جو دشت میں ہاں اُس خزینے پر بھی سلام
مثال نوح کی کشتی سے جس کو دیتے ہیں
جو مغفرت کا ہے اُس اک سفینے پر بھی سلام
وہ اک مہینہ محرم کے نام سے موسوم
مصیبتوں کے امیں اُس مہینے پر بھی سلام
کہیں ہیں اکبر و عباس، اصغر و قاسم
سلگتی ریت کے ہر اک دفینے پر بھی سلام
حسین پاک پہ لاکھوں سلام ہوں نگہت
سکینہ بی بی کے بابا کے سینے پر بھی سلام
10
ہاں روئے جس کے لئیے کائنات وہ ہے حسین
وہ جس نے دین کو دی ہے ثبات وہ ہے حیسن
غم حسین کی دولت ہے میرا سرمایہ
جو مشکلات سے دے ہے نجات وہ ہے حسین
حسین ذکر ترا بر تر از عبادت ہے
خدا کی جس پہ کرے ناز ذات وہ ہے حسین
بجھا کے سارے دئیے روشنی ضمیر کو دی
وہ جس کا نام یزیدوں کی مات وہ ہے حسین
وہ جس نے ریت پہ اپنے لہو سے پیاس لکھی
وہ جس کو روتی ہے اب تک فرات وہ ہے حسین
فنا کے معنی بدل کر جو کامیاب ہوا
وہ جس کے قبضے میں ہیں شش جہات وہ ہے حسین
حسین وہ نہیں نگہت کہ جس کو موت آئے
وہ جس سے موت بھی پائے حیات وہ ہے حسین
غزلیات
اے ارضِ وطن میری جنت تو اس جنت پر قربان نسیم
ایمان ہے گر الفت تیری پھر یہ ہی مرا ایمان نسیم
یہ ارض خدا سب میری ہے سرمہ مری آنکھ کا خاک تری
ہے سارا جہان وطن میرا اور میرا وطن ہے جہان نسیم
ہے پاک وطن جنت میری یہ جنت میرے دل میں ہے
یہ ہے قائد کا تحفہ بے شک پر اللہ کا احسان نسیم
لکھوں جو قلم سے پاکستان ہر حرف چمکنے لگتا ہے
اس معجزۂ فن پر میرے سب دنیا ہے حیران نسیم
اے پاک وطن میرے دل میں بسی ترے نام کی بستی رہتی ہے
ہر فرد ترا ہے تیری قسم اس بستی کا سلطان نسیم
تری مٹی کا ذرہ ذرہ مجھے خاک مدینہ لگتا ہے
اک جان کی کیا پرواہ ہے بھلا قرباں تجھ پر سو جان نسیم
پہچان جہاں میں رہتی ہوں میری پاکستان سے ہوتی ہے
سڈنی میں رہے یا لندن میں ترے نام کی ہے پہچان نسیم
کسی جہاں میں ہوں تیرا خیال رکھتی ہوں
ترے خیال سے دل کو اجال رکھتی ہوں
نگہ کی تشنگی ایسی کہ سیر ہوتی نہیں
میں تشنہ آنکھوں میں تیرا جمال رکھتی ہوں
میں تیرے فیل کو ماروں گی اپنے پیادے سے
بساط وقت پہ خود اپنی چال رکھتی ہوں
یہ میرے شعر جو ہر ایک کی زباں پر ہیں
میں اپنے شعروں میں تیرا کمال رکھتی ہوں
میں تیری آنکھوں سے اپنا وجود دیکھتی ہوں
ترے لبوں کی ہنسی بھی سنبھال رکھتی ہوں
محاذ عشق پہ قربت کی جنگ لڑتے ہوئے
میں فرقتوں کے مماثل وصال رکھتی ہوں
غنیم جان سے نگہت مقابلے کے لئے
میں اپنے سامنے تیری مثال رکھتی ہوں
ہمارے عزم کے باعث تمہارا عشق کامل ہے
وگرنہ دل تو سینے میں فقط پتھر کی اک سِل ہے
عجب سی بات کہہ دی ہے تمہیں شاید گراں گزرے
تری دھڑکن سے سرگوشی مری سانسوں کی منزل ہے
سبب گلشن میں نا جانے کا میں اب منکشف کر دوں
میرے شعروں میں تیری گفتگو کی خوشبو شامل ہے
میں اپنی بند آنکھوں سے بھی تم کو دیکھ سکتی ہوں
مجھے بھولا نہیں اب تک ترے سینے پہ جو تِل ہے
ذرا کھولو تو بند مُٹھی ہوا تھوڑی سی آنے دو
تری مُٹھی میں نگہت کا جو یہ ٹھہرا ہوا دل ہے
یہ کیسا رنگ مجھ میں بھر دیا ہے
مجھے تم نے سمندر کر دیا ہے
میرے ہاتھوں کا بوسہ کیا لیا ہے
مجھے بے زر سے بوزر کر دیا ہے
جہاں پر صرف تم ہی بس رہے ہو
خدا نے مجھ کو ایسا گھر دیا ہے
وہ اک شب ساتھ جو گزری ہے تیرے
اسی شب نے مہ و اختر دیا ہے
میں ہی عاقل تھی سارے شہر بھر میں
مجھے ہی تم نے پاگل کر دیا ہے
شراب عشق سے لب لب بھرا ہے
شب قربت نے جو ساغر دیا ہے
میرے اندر کھلے ہیں چاند تارے
میرے اندر کیا تم نے کر دیا ہے
محبت کا یہ نگہت معجزہ ہے
ہر اک دیوار میں اک در دیا ہے
درد سہنے کی بات کرتا ہے
وہ مجھے آشنائے ذات کرتا ہے
بوسہ دیتا ہے میرے ہاتھوں کو
موت کو یوں حیات کرتا ہے
سامنے بیٹھ کر جو بولتا ہے
صرف اپنی ہی بات کرتا ہے
پوچھتی ہوں میں اپنے آپ سے یہ
کیسے دن کو وہ رات کرتا ہے
اس کی مٹھی میں بند سانس میری
وسعت کائنات کرتا ہے
کاسہ چشم اس کا بھرتا نہیں
یوں تو ذکر نجات کرتا ہے
جب بھی کرتا ہے عشق کی باتیں
وارث شش جہات کرتا ہے
عکس کر کے مجھے وہ شخص نسیم
رات دن مجھ سے بات کرتا ہے
وہ خواب کیا تھا جو تعبیر کر دیا ہے مجھے
اندھیرے رستوں میں تنویر کر دیا ہے مجھے
میں لخت لخت تھی جب تک نہ وہ ملا تھا مجھے
وہ شخص جس نے کہ تعمیر کر دیا ہے مجھے
میرے وجود کا ہر سانس اس کے نام ہوا
وہ رانجھا من کا میرے ہیر کر دیا ہے مجھے
میرے سوا نہ کسی کو ملا یہ فیضِ نظر
عجب کہ مالکِ تقدیر کر دیا ہے مجھے
خدائے عشق و محبت غرورِ نگہت دیکھ
نگاہِ یار نے تصویر کر دیا ہے مجھے
انتیس جولائی 2017، سڈنی میں اپنے بڑے بیٹے محمد منیب آفتاب کی شادی پر
زمیں کے پاؤں میں رقصاں خوشی کی جھانجھر ہے
گلے میں بیٹا تمہارے گلوں کا زیور ہے
ستارے اترے ہوئے ہیں ہمارے آنگن میں
ہمارے گھر میں فقط آج بوئے عنبر ہے
دلوں کو کرتا ہے تسخیر جو زمانوں میں
تمہارے پاس محبت کا ایسا جوہر ہے
ہاں ساتھ بھائی، بہن، باپ کی دعائیں ہیں
سروں پہ دونوں کے تمہاری ماں کی چادر ہے
شریک زندگی تیری ہے تیرے ساتھ کھڑی
زمیں کے سینے پہ کیسا حسین منظر ہے
دعا خدا سے جسیکا منیب کی خاطر
ہر ایک لمحۂ موجود روح پرور ہے
یہ ساعتیں ہیں مسرت کی جانفزا نگہت
خوشی کے لمحوں میں پروردگار یاور ہے
اس نے خواب میں مجھکو جب دو کنول دئیے
جیون کی ندیا کے دھارے بدل دئیے
ان پھولوں کی اب بھی یاد ستاتی ہے
پھول جو اپنے ہاتھوں خود ہی مسل دئیے
میں نے جھیل کنارے اس کا نام لیا
جھیل نے ہنس کے نیلے موتی اگل دئیے
سارے ارماں کب نکلے ہیں سینے سے
ایسے بھی ہیں سینے میں جو مچل دئیے
ایسے بھی تھے لوگ جو گر کے سنبھلے کم
ہم نے ٹھوکر کھائی اور پھر سنبھل دئیے
اُس دکھ نے رکھا ہے مجھ کو ابد تلک
جس دکھ نے ہاں مجھ کو جامِ ازل دئیے
اس نے ہنس کر مجھ سے میری باتیں کیں
لمحے بھر میں سارے موسم بدل دئیے
اس سے نگہت قائم میرا پیار رہے
جس نے یہ اشعار بصورت غزل دئیے
جواں سال مصنفہ اور شاعرہ فرزانہ ناز چوبیس اپریل 2017، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہونے والے قومی کتاب میلے کی اختتامی تقریب میں پاک چائینا فرینڈ شپ ہال کے اسٹیج سے 12 فٹ کی اونچائی سے نیچے گر کر شہید ہو گئیں۔ ابھی ان کا ایک ہی مجموعہ کلام ” ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے ” منظر پر آیا تھا۔
ٹکڑوں سے اپنے دل کے جُدا ہو گئی ہے ماں
یوں لگ رہا ہے جیسے بہت رو گئی ہے ماں
صورت کو تیری دیکھنا ممکن نہیں رہا
یہ بیج کیا جدائی کا تو بو گئی ہے ماں
اہل ادب بے حس ہیں خدایا دہائی ہے
ان کے گناہ کا بوجھ مگر ڈھو گئی ہے ماں
بچے یہ پوچھتے ہیں خلاؤں میں گھور کر
کل تک یہاں تھی آج کہاں کھو گئی ہے ماں
فرزانہ تیرے بچوں کو نگہت بتائے گی
تھک کر مسافتوں سیسنو سو گئی ہے ماں
دل کی حالت وہ جب چھپاتا ہے
بات کرنا ہی بھول جاتا ہے
اس قدر گہرے پانیوں میں ہوں
اب تو جینے سے خوف آتا ہے
دل کے دریا میں ڈوب جانے کا
خواب ہر روز وہ دکھاتا ہے
پھول ہونٹوں پہ رقص کرتے ہیں
زیر لب جب بھی مسکراتا ہے
آسماں پر چمکتا ایک تارہ
اپنی جانب مجھے بلاتا ہے
میں جدائی کا گیت ہوں لیکن
وہ مجھے روز گنگناتا ہے
قربتوں میں جدائی کا لمحہ
تیری نگہت کو آزماتا ہے
تجھ سے رفاقتوں کا ثمر مل گیا مجھے
حد ہے کہ شکوہ خود سے ہی کرنا پڑا مجھے
ایسے گیا ہے میرے بدن سے نکل کے وہ
کرتا نہ تھا جو ایک بھی لمحے خفا مجھے
ہر سانس اس کے نام سے موسوم ہو چکا
شدت کی دھوپ میں ہے وہ باد صبا مجھے
ایمان ہے یقین ہے یہ اعتقاد ہے
اس سے جدا کبھی نہ کرے گا خدا مجھے
تو نے طلوع فجر میں جو گنگنائی تھی
اک بار پھر سے آج غزل وہ سنا مجھے
نگہت مرے وجود میں لیتا ہے سانس وہ
رکھے ہوئے ہے زندہ اسی کی دعا مجھے
میرا اس کا ساتھ زمانے بھر کا ہے
جس کے دل میں گُنبد اک بے در کا ہے
برسوں کی چاہت کے بعد لگا ایسے
پیار تمہارا جیسے لمحے بھر کا ہے
گھر کی دیواروں سے قائم رشتے ہیں
سب سے بڑھ کر رشتہ بے شک گھر کا ہے
ایک عجیب سی وحشت ہے بند کمرے کی
دھوکا شب پہ جیسے آج سحر کا ہے
کھلی پوئی آنکھوں میں چہرہ اس کا ہے
بند آنکھوں میں خواب اُسی دلبر کا ہے
نگہت جی اب لمبی تان کے سو جاؤ
جیتے جی کیوں خوف بھلا محشر کا ہے
سوچتی ہوں کیوں ملا دیر سے یاور میرا
دیر سے لکھا اسے رب نے مقدر میرا
ریت پر پاؤں دھرا ہے تو خیال آیا ہے
پاوں کیوں چومتا رہتا ہے سمندر میرا
محفلوں میں مجھے تکتا ہے وہ خاموشی سے
ذکر کرتا ہے وہ تنہائی میں اکثر میرا
قرب نے اس کے مرے من میں مچا دی ہلچل
میری سانسوں میں بسا رہتا ہے دلبر میرا
میرا باہر بھی پریشان مجھے رکھتا ہے
مجھ کو دیتا ہے صدائیں سنو اندر میرا
قُرب کے لمحوں کا الہام ہوا ہے مجھ پر
راز دارِ شبِ قربت ہے یہ بستر میرا
معجزہ ہے یہ ترے عشق کا ایک جان غزل
بہتے جھرنوں کا ہر اک لگتا ہے منظر میرا
اس یقیں پر میرے سانسوں کی روانی ہے نسیم
لوٹ کر آئے گا اک روز مسافر میرا
ایک مطلع
عکس در عکس اس شباب کا رقص
تم نے دیکھا ہے کیا گلاب کا رقص
دربار شہہ سے جاری فرماں نہیں محبت
ازسر تا سر یقین ہے امکاں نہیں محبت
ایسے بھی درد ہیں کہ جن کا علاج الفت
ہر درد کا مگر ہاں درماں نہیں محبت
یہ تو کرم ہے اس کا اس کی عطا ہوئی ہے
اے جان جان تم پہ احساں نہیں محبت
تم کس لئیے بتاؤ افسردہ پھر رہے ہو
یہ تو سکون دل ہے طوفان نہیں محبت
محفل میں تم نے مجھ کو دیکھا نہیں پلٹ کے
اس بے رخی پہ تیری حیراں نہیں محبت
ملکیت محبت دیوار قبر تک ہے
تقسیم جو کریں وہ ساماں نہیں محبت
ہر قطرہ لہو میں آتش فشاں اگے ہیں
یہ طے ہوا ہے نگہت آساں نہیں محبت
تجرباتی غزل
میرے اندر لگی ہے آگ جیسے
میرے اندر کیا اس نے کر دیا ہے
میرے اندر اگا ہے شہر الفت
میرے اندر کیا اس نے کر دیا ہے
میرے صحرا پر بارش ہو رہی ہے
میرے اندر کیا اس نے کر دیا ہے
میرے اندر کھلے ہیں چاند تارے
میرے اندر کیا اس نے کر دیا ہے
میرے اندر اگے ہیں کتنے سورج
میرے اندر کیا اس نے کر دیا ہے
میرے اندر لگی ہے آگ نگہت
میرے اندر کیا اس نے کر دیا ہے
کسں نے پھول سے ہاتھوں میں اوزار دئیے
کھیل ہی کھیل میں سارے جگنو مار دئیے
کوڑا کرکٹ چُننے والے بچے نے
حوصلے اپنے بچپن میں ہی ہار دئیے
جنگوں میں بھی بچے جھونکے جاتے ہیں
اس دنیا نے جنگ پہ بچے وار دئے
روٹی ڈھونڈتی ہے جو بچی کچرے سے
سوچیئیاس کو کس کس نے آزار دئیے
ان چہروں پر کیوں یہ جہالت لکھی ہے
بچپن میں یہ خواب ہیں کس نے مار دئیے
جرم بتاؤ آخر کو یہ کس کا ہے
پھولوں کے بدلے میں ان کو خار دئیے
جدت کے اس عہد کے تحفے دیکھو تو
غربت اور جہالت دی، بیمار دئیے
میری آنکھوں میں وہ سب بچے ہیں نسیم
جن کو دکھوں کے ہم سب نے انبار دئیے
لگ گئی ہے چُپ خداوندا دل ناشاد کو
اب ابابیلوں کا لشکر بھیج دے امداد کو
کیوں مسلماں آج خود ہی دشمنِ اسلام ہے
کھا گئی کس کی نظر اس خانۂ آباد کو
ایک انساں پر درندوں نے کیا ہے وہ ستم
طول کس نے دے دیا ہے ظلم کی میعاد کو
سُن نہیں سکتی ہوں میں کیونکر صدائے احتجاج
نذرِ آتش کیوں نہ کر دوں گلشنِ برباد کو
دل گرفتہ ہوں میں نگہت سوچتی ہوں رات دن
کیوں خدا سنتا نہیں مظلوم کی فریاد کو
قومی نغمات
جان ہے میرا وطن
جان ہے میرا وطن
ایمان ہے میرا وطن
سچ کہوں اللہ کا
فیضان ہے میرا وطن
اس کے پہاڑ اس کے چمن
اس کے شہر اور اس کے بن
اس کے گلستاں کی پھبن
ہر شہر ہے مثل عدن
میرا وطن جنت نشاں
اس کے پہاڑ اور وادیاں
سب ہیں یہ عظمت کے نشاں
اس کی زمیں بھی آسماں
اس کے قلمکاروں کی خیر
ہو سارے فنکاروں کی خیر
در کی، دیواروں کی خیر
اس کے معماروں کی خیر
ہم دعا گو ہیں سدا
تیرا ضامن ہو خدا
ہر گلی میں ہو صبا
فرد ہو ہر با وفا
جان ہے میرا وطن
ایمان ہے میرا وطن
میرا دیس میری تقدیر بھی ہے
ہر دل پر یہ تحریر بھی ہے
میرا دیس میری تقدیر بھی ہے
یہ عاشقوں کی جاگیر بھی ہے
تاریکیوں میں تنویر بھی ہے
میرا دیس یہ دیس اقبال کا ہے
میرا دیس یہ جھولے لعل کا ہے
یہ رانجھے کا مہینوال کا ہے
اک خواب کی یہ تعبیر بھی ہے
میرا دیس میری تقدیر بھی ہے
یہ دیس جو اہل قلم کا ہے
صدقہ غازی کے علم کا ہے
یہاں خاتمہ ہر اظلم کا ہے
یہاں ظالم پر تعزیر بھی ہے
میرا دیس میری تقدیر بھی ہے
میرا دیس مصوروں شاعروں کا
سائینس کے اعلی ماہروں کا
پاکیزہ، مطہر، طاہروں کا
ہر شعر میں ایک تاثیر بھی ہے
میرا دیس میری تقدیر بھی ہے
یہ دیس ہے پنج دریاؤں کا
سندر سندر آشاؤں کا
اور پیار میں ڈوبی ماؤں کا
یہاں نیکی کی تشہیر بھی ہے
میرا دیس میری تقدیر بھی ہے
سوہنا دیس امانت رب کی ہے
کوئی مثل نہ اس کی چھب کی ہے
بیشک عزت ہم سب کی ہے
یہ آیتوں کہ تفسیر بھی ہے
میرا دیس میری تقدیر بھی ہے
ہم اس کے دم سے سلامت ہیں
بیشک دھرتی کی ضمانت ہیں
ہم اس کے عدو پہ قیامت ہیں
نگہت یہ میری توقیر بھی ہے
میرا دیس میری تقدیر بھی ہے
متفرق اشعار
وہ اشعار جو غزل نہ بن سکے۔۔۔!
ہم مشکلوں میں بھی یونہی ہنستے رہیں مدام
یونہی ہمارے سر پہ ہو بارش کا سائباں؟
تم بات کرو صاف مرا دل نہ جلاؤ
الجھی ہوئی بیلوں سی کہانی نہ سناؤ
دو قدم اور چلیں گے تو ملے گی ہم کو
یونہی منزل میرے اجداد جو کھو بیٹھے تھے
یہاں پہ روز لہو بہہ رہا ہے اپنوں کا
ہمارے شہروں میں اسیب بس گیا ہے کوئی
واعظ کے پاس حرف ملامت نہیں نسیم
گھر جل رہے ہیں اور یہ سجدے میں غرق ہے
ایسے تم کو خود میں بسایا ہے میں نے
سچ کہہ دوں اب تم جیسی ہی لگتی ہوں
سبب گلشن میں نا جانے کا میں اب منکشف کر دوں
میرے شعروں میں اس کی گفتگو کی خوشبو شامل ہے
دریا تھا میری مٹھی میں پیاسی تھی پھر بھی میں
لمحے کو لگ رہا تھا کہ میں کربلا میں ہوں
خدا گواہ کہ جھپکی نہیں نظر میں نے
وہ تجھ سے ملنے کا لمحہ مری نگاہ میں ہے
ہزار سال کی یہ زندگی بہت ہو گی
تمہارے پیار کی خاطر حیات تھوڑی ہے
تو نے کیا کہہ دیا ہے چپکے سے
پھول شرما رہے ہیں تیرے سے
میری تسبیح، مرا ذوق عبادت تم ہو
سرد ہاتھوں کے لئے میرے حرارت تم ہو
پھر آ گئی ہوں لوٹ کے تیری جانب میں
اب تو مرے خیال کو رعنائی کر عطا
غور سے دیکھ کے بتلاؤ
مجھ میں تیرا عکس نہیں کیا
اس کی نا میں بھی مجھے ہاں کا ملا ہے پرتو
ہاں میں بھی نا کا سلیقہ کوئی اس سے سیکھے
اب بھی تازہ ہے میرے ہاتھوں میں
تیرے ہاتھوں کی جاگتی خوشبو
گھر میں اتری ترے آیۂ فاطمہ
آیت فاطمہ پر رہے سایہ فاطمہ
تتلی کے پروں پر نظر آتے ہیں ستارے
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
گھر کو جلا ڈالے جو وہ آگ نہیں
من کی ہے یہ آگ جو در تک آ پہنچی
اے خاکِ بطحا رگوں میں اُتر لہو کی طرح
محبتوں کے سمندر کبھی اچھال مجھے
وہ مصرعہ جو شعر میں نا ڈھل سکا۔۔!
جو میرے نام آیا ہے وہ خط میں نے نہیں کھولا
٭٭٭
قطعات
مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی شان میں (8)
سمجھ میں نکتہ عجب آیا انما کی قسم
قسم ہے گل کی شجر کی قسم صبا کی قسم
علاوہ نامِ خدا و رسول و حیدر کے
فقیر بھیک بھی لیتا نہیں خدا کی قسم
اک آہ و بُکا ہے کہ علی مارے گئے ہیں
غُل ہے کہ محمد کے وصی مارے گئے ہیں
اُمت نے عجب اجر رسالت دیا نگہت
سجدے میں امام ازلی مارے گئے ہیں
خانہ رب میں ہوئی دین محمد کی اذاں
گھر میں اللہ کے پیدا ہوئی اللہ کی زباں
چاہا دنیا نے مٹانا اسے بے شک نگہت
آج بھی کعبے کی دیوار میں ہے در کا نشاں
علی ہے محبت، محبت علی ہے
سخاوت، سیادت، شفاعت علی ہے
خدا کی طرح میرا ایمان نگہت
کہ دونوں جہانوں کی نعمت علی ہے
تیرہ رجب کا جشن منانا نصیب ہے
یہ دن نبی پاک کے دل کے قریب ہے
بغض علی میں سانس جو لیتا ہے بد نصیب
اس کو خبر نہیں علی شان حبیب ہے
تھے سجدہ ریز پیش خداوند کردگار
قاتل علی کا ضرب لگانے کو بے قرار
مولا کا سر تھا سجدے میں تلوار چل گئی
نگہت وہ زہر میں بجھی ہوئی تلوار کا تھا وار
سر پر علی کے ہائے غضب وار ہو گیا
لت پت لہو میں دین کا سردار ہو گیا
نگہت عجیب درد تھا زینب کے بین میں
دروازہ شہر علم کا مسمار ہو گیا
ہے لاکٹ نام حیدر کا گلو میں
قلم کی ہے مرے ہیبت عدو میں
قسم ہے مجھ کو نگہت فاطمہ کی
رواں ہیں سیدہ زینب لہو میں
مولا حسین علیہ السلام کی شان میں
سچ کی کھری دلیل شہادت حسین کی
اللہ کی وکیل شہادت حسین کی
حق سرخرو نسیم ہے مولا حسین سے
بے مثل بے مثیل شہادت حسین کی
اے شاہ کربلا مجھے اذن عریض ہو
یہ دل حسینی عشق میں دائم مریض ہو
اک آرزو ہے میری یہ مرنے سے پیشتر
نگہت نسیم آپ کے در کی کنیز ہو
کمال دین محمد حسین ہے نگہت
جمال دین محمد حسین ہے نگہت
مثالِ علمِ محمد فقط علی و علی
مثال دین محمد حسین ہے نگہت
حسین فاطمہ زہرا کے دل کی دھڑکن ہے
حسین حبس کے موسم میں جیسے ساون ہے
حسین عشق خدا کا عروج ہے نگہت
رسول کہتے ہیں جنت کا یہ ہی ضامن ہے
ہر ایک سچ کی ضمانت مرے حسین کا نام
خدا کے دیں کی حفاظت مرے حسین کا نام
تا روز حشر خدا کی قسم مجھے نگہت
یزید پر ہے قیامت مرے حسین کا نام
یہ دودھ میں جو پلایا ہے ہاں حسین حسین
درود پاک کا سایہ ہے ہاں حسین حسین
وہ دودھ دیتے بھی نگہت یہ نام لیتی تھی
مجھے تو ماں نے سکھایا ہے ہاں حسین حسین
کربلا والے کرم کر دیں جو در پر میرے
مجلس شاہ بپا ہو کبھی گھر پر میرے
حشر کی دھوپ میں بھی یہ ہی تمنا ہے نسیم
سایہ چادر زینب رہے سر پر میرے
درد کی شدت سے میرا دل دو نیم
دشمنوں کے درمیاں ہوں اے کریم
خون کے قطرے بھی میرے جسم کے
ماتم شبیر کرتے ہیں نسیم
آسماں پر دیکھ لو بدلی ستم کی چھا گئی
کربلا میں موت جیسے زندگی کو کھا گئی
جلتے خیموں نے پکارا دشت میں رو کر نسیم
لٹ گئی سادات لو شام غریباں آ گئی
عشق شبیری کی اوڑھوں گی گلیم
میری بھی سن لے کریم ابن کریم
کب بلاتے ہیں مجھے مولا حسین
کربلا جانے کی خواہش ہے نسیم
روئی غم حسین میں بینائی جل گئی
یوں لگ رہا ہیجیسے مری روح پگھل گئی
دیکھا نسیم جلتے ہوئے آفتاب نے
پیاسے گلے پہ شمر کی تلوار چل گئی
مولا عباس علمدار علیہ السلام کی شان میں
لُغت میں ہم وفا کی آپ کو احساس لکھیں گے
سکینہ کے لئیے پانی کی زندہ آس لکھیں گے
کبھی بھی مرحلہ جب پیاس کا آ جائے گا نگہت
قلم کی نوک سے دریا پہ ہم عباس لکھیں گے
علی کا لال ہے وا جراتوں کے باب کرتا ہے
وہ اپنی پیاس سے کشتِ وفا سیراب کرتا ہے
یہ وہ غازی ہے نگہت ناز جس پہ آلِ احمد کو
یہ وہ عباس ہے دریا کو جو سیراب کرتا ہے
متفرق قطعات
قلم سے کرتی ہوں جب بات میں کبھی دل کی
فلک سے کرتی ہے فکر رسا سلام مجھے
غریب شہر کی خاطر ہیں سارے حرف میرے
امیر شہر سے کب ہے کوئی کلام مجھے
منافقت کا رویہ اگر نہیں ہے تو پھر
قلم کی نوک پہ حق و اصول اگتا ہے
بدل گیا ہے مزاج ایسا اپنی مٹی کا
گلاب اگتا نہیں ببول اگتا ہے
اتنے دنوں سے وہ جو مسلسل خموش ہے
رانی میں اس کے دل کی ہوں وہ سربدوش ہے
نگہت یہ یوں تو کہنے کو احسان مند ہے
سچ پوچھیئے اگر تو یہ احساں فروش ہے
مرے قاتل مرے سر پر کھڑے ہیں
مرے دشمن مرے قد سے بڑے ہیں
ہے نگہت کربلا لاہور میں بھی
لہو میں تر بتر بچے پڑے ہیں
دربار میں یزید کے بھی تھے قصیدہ گو
لیکن خدا گواہ یہ ان کے بھی باپ ہیں
نگہت نسیم فیصلہ خود میں نے لکھ دیا
ماتھے پہ یہ ادب کے نجاست کی چھاپ ہیں
خاک ہو کے بھی جنت ہے یہ جلتا ہوا کشمیر
آزادی کی چاہت ہے یہ جلتا ہوا کشمیر
جمہور پہ بھارت کے میں یہ سچ کہوں نگہت
اک داغ ندامت ہے یہ جلتا ہوا کشمیر
رمضان میں سنا تھا کہ ابلیس بند ہے
لیکن سعودیوں کی قطر پہ کمند ہے
نگہت یہ ظلم کیسا ہے ماہ صیام میں
قطری عوام پر ہی ستم کی زقند ہے
پروردہ جہالت کے ہیں یہ انسان کا سودا کرتے ہیں
یہ نام محمد بیچتے ہیں قرآن کا سودا کرتے ہیں
یہ نگہت امت آقا کے ہیں ہیں نام پہ ایک سیاہ دھبہ
یہ نام پہ پیری فقیری کے ایمان کا سودا کرتے ہیں
انسان کا ضمیر کیوں سویا ہوا ہے آج
کیوں بیچ نفرتوں کا یہ بویا ہوا ہے آج
نگہت مناؤں عید میں کیسے بتائیے
پارہ چنار خون میں ڈوبا ہوا ہے آج
گردن پہ مسلماں کی مسلمان کا خنجر
سینوں میں اتارا گیا ایمان کا خنجر
نگہت یہ عذاب امت احمد میں زیادہ
لہراتا ہے ہر سر پہ یاں سلطان کا خنجر
لہو کے سمندر اچھالے ہوئے ہیں
ہم اپنوں کی لاشیں سنبھالے ہوئے ہیں
پٹاری سے جو سانپ نکلے ہیں نگہت
انہیں حاکموں کے تو پالے ہوئے ہیں
ہر ایک راز کھولتا ہے ظلم کے خلاف
ہر لفظ لفظ تولتا ہے ظلم کے خلاف
جس کی رگوں میں خون رواں کربلا کا ہو
نگہت وہی تو بولتا ہے ظلم کے خلاف
خون بہنے کا رکتا نہیں سلسلہ
شام کا ملک جیسے کھنڈر بن گیا
سوچتی ہوں میں نگہت کہ اس ملک کو
کربلا کے اسیروں کی ہے بددعا؟
سمجھنے سے میں قاصر ہوں کوئی نگہت یہ سمجھائے
کیا ویلنٹائن ڈے سے دین کی بدنامی ہی سب ہے
محبت کرنے والوں پر یہ سب پابندیاں کیوں ہیں
کھلے پھرتے ہیں دہشت گرد کوئی روکتا کب ہے
جولائی 2106 کو پاکستان کی ماڈل قندیل بلوچ کے بے رحمانہ قتل پر
قندیل کی صورت میں ہے میزان کا یہ قتل
حیوانوں کی بستی میں ہے انسان کا یہ قتل
نگہت مجھے پاکیزہ قلم ہی کی قسم ہے
سچ پوچھو تو ہے ملک کے سلطان کا یہ قتل
ان پیاروں کے نام جو آج ہم میں نہیں ہیں۔۔
جس سے کبھی بھی کوئی نہ انکار ہو سکا
اس عید پر بھی اس کا نہ دیدار ہو سکا
نگہت نسیم فیض محبت ہے مجھ پہ بھی
اس جیسا کوئی بھی تو نہ دلدار ہو سکا
کوئی قہقہہ چار سو نہیں تھا
کوئی معرکۂ ہاؤ ہو نہیں تھا
عید پر یوں تو سب جمع تھے نسیم
کیا عید تھی کہ جب تو نہیں تھا
خدا سے آج ہم کہتے ہیں سائیں
عذاب فکر کیوں سہتے ہیں سائیں
چلو ہم ڈگریاں اپنی جلا کر
بڑے سکھ چین سے رہتے ہیں سائیں
6 دسمبر 2016؛ ہندوستانی ریاست تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جیارام جے للیتا کے انتقال پر
سفر وہ کر گئی ہیں جے للیتا
خدا کے گھر گئی ہیں جے للیتا
کہا ہے جس نے بھی نگہت غلط ہے
کہ کل شب مر گئی ہیں جے للیتا
4 نومبر 2015؛ افغانستان کے وسطی علاقے میں انیس سالہ رخسانہ کو مبینہ ناجائز تعلقات رکھنے کے الزام میں سنگسار کر دیا گیا۔
بھیڑئیے ہیں سب کے سب انساں نہیں خونخوار ہیں
حیف ہے اسلام میں یہ لوگ بھی دیں دار ہیں
پتھروں سے جنہوں نے مارا اسے نگہت نسیم
با خدا یہ سب کے سب خود قابل سنگسار ہیں
آج کے دانشوروں کے نام
الزام کس لئیے خبر اخبار پر جناب
لکھا ہوا پڑھیں ذرا دیوار پر جناب
نگہت بتائیں آج کے دانشوروں کو آپ
ہم ہنس رہے ہیں آپ کے کردار پر جناب
حیات جس کو سمجھتے ہیں ہم حیات نہیں
کسی کو نام خدا کے سوا ثبات نہیں
یہ چند روز کی دنیا فریب ہے نگہت
جو جی رہا ہے اسے موت سے نجات نہیں
پھندا پھانسی والا ہو گا ہر ظالم کی گردن میں
نیزہ عدل عدالت والا ہر مجرم کی گردن میں
پاناما لیکس نے نگہت سارے راز جو کھولے ہیں
ذلت والا طوق پڑا ہے ہر حاکم کی گردن میں
دشمن ہیں انسان کے یہ سب قاتل یہ مزدور کے ہیں
سر تا پا کردار سے عاری چہرے یہ بے نور کے ہیں
نگہت ان کی اولادوں میں زہر کرپشن کا شامل
نام کے حاکم ہیں یہ سارے دشمن یہ جمہور کے ہیں
16 دسمبر 2014؛ صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں واقعہ آرمی پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان کے عسکریت پسندوں نے حملہ کر کے 132 بچوں سمیت 141 افراد کو ہلاک کر دیا۔
کیسی ہوا ہے گھر میں مرے بد دعاؤں کی
شدت کی دھوپ میں ہے ہوئی موت چھاؤں کی
پھولوں کو کس نے نوک سناں پر پرو دیا
نگہت نسیم جھولیاں خالی ہے ماؤں کی
معصوم چہرے اٹ گئے مرقد کی دھول سے
پوچھوں گی روز حشر خدا کے رسول سے
نگہت نسیم پھٹتا ہے دل ماں کے بین سے
آیا نہیں ہے بچہ مرا کیوں سکول سے؟
ہم گنہ گاروں پہ بے شک ہے عنایت اس کی
ہم کو مایوس نہیں کرتی محبت اس کی
سچ اگر پوچھو تو سچ ہے نگہت
اک نئے سال کا آغاز ہے رحمت اس کی
معروف شاعرہ آل بیت ڈاکٹر ثروت حسین رضوی محبت کی تہذیب کا ایک کرشماتی تسلسل ہے۔ عزیزی دوست میں اپنی خوش نصیبی پر نازاں ہوں کہ تمہاری دعاؤں میں ہوں۔
آج تک میں نے جو لکھا ہے محبت لکھا
صبر کو عشق کے میزان کی طاقت لکھا
لکھنا چاہا ہے کبھی میں نے جو نگہت تہذیب
بے دھڑک نام فقط ایک ہی ثروت لکھا
یہ پہلی بار کسی نے کہا شفا کی سفیر
ہے صدقہ غازی علمدار کا وفا کی سفیر
سند کمال یہ نگہت ملی ہے ثروت سے
کنیز زینب و زہرا ہوں میں دعا کی سفیر
معروف افسانہ نگار و شاعرہ دلاری دوست شاہین حیدر رضوی جب پیا دیس کی خبر لائیں۔
محبت کے سفر کو روح کی تسکین کہتے ہیں
مبارکباد سب مل کر تمہیں شاہین کہتے ہیں
خدا آباد رکھے گھر کی خوشیاں صدقہ زینب
دعا پر آئیے نگہت کی سب آمین کہتے ہیں
میری امی جی (قابل صد احترام محترمہ رقیہ بیگم) 29 نومبر 2014 میں راہ عدم ہوئیں۔۔ بس اب ان کی یاد ہی برکتوں کا تسلسل ہے۔
میں اپنے رب کی خدمت میں یہاں عشقِ فزوں سے ہوں
ہر اک لمحہ ہوں شاداں میں یہاں نازِ دروں سے ہوں
مری ماں نے مجھے نگہت یہی پیغام بھیجا ہے
مری بیٹی نہ گھبراؤ میں جنت میں سکوں سے ہوں
کوئی آس جیسے جواں نہیں تھی
مسجد تو تھی پر اذاں نہیں تھی
نسیم سینے میں برپا کوئی مُحرم تھا
کیا عید تھی جب ماں نہیں تھی
عید عیسی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ میری کرسمس
اللہ کا نبی عیسی اعجاز الٰہی ہے
مُردوں کو کیا زندہ کیا سطوت شاہی ہے
اک سورہ مریم ہی نگہت ہے بہت کافی
عیسی کی نبوت کی قرآن گواہی ہے
چلیں اک ساتھ مل کر آئیے ہم سب یہ رستہ بھی
محبت بانٹنے کا دوستو سیکھیں سلیقہ بھی
شریعت دے کے بھیجا تھا خدا نے اُن کو بھی نگہت
مسلماں کے نبی بے شک محمد بھی ہیں عیسی بھی
یہ عید بھی تو صاحب ایماں کی عید ہے
عقل و خرد کی عید ہے عرفاں کے عید ہے
نگہت نسیم بات یہ ایمان کی کہوں
عید مسیح بھی سچ ہے مسلماں کی عید ہے
طب کے شعبے میں عالمی شہرت یافتہ اپنے استاد مکرم پاکستان کے بابائے اناٹومی مظفر جلال خاں نیازی کی خدمت میں
میرے استاد کے چہرے سے عیاں علم کا نور
دل میں بھی نور ہے لاریب زباں علم کا نور
یہ بھی ہے فیض مظفر کہ مسیحا نگہت
میرے تا حشر زمیں اور زماں علم کا نور
اپنے بڑے بیٹے محمد منیب آفتاب کی شادی 29 جولائی 2017 کے دن پر
خوشی کی گھڑیاں مبارک رہیں منیب تمہیں
رکھے گا یونہی ہمیشہ جواں نصیب تمہیں
تمہارے دل میں محبت کا اک سمندر ہے
ہمیشہ رکھے جسیکا کے یہ قریب تمہیں
عزیز دوست معروف افسانہ نگار اور شاعرہ فرخندہ رضوی کی کتاب ” قلم خندہ ” کے اجراء پر
تمہاری روح میں لفظِ محبت ہو گیا کندہ
تم ہر مشکل پہ رہتی ہو بمثلِ گُل سدا خندہ
سنو نگہت نسیم ہے دوست اپنے آپ پر نازاں
بھرم رکھا ہے میری دوستی کا تم نے فرخندہ
8 ستمبر 2014؛ علامہ عباس کمیلی کے بیٹے علی اکبر کمیلی کی شہادت پر
صدقۂ اکبر علی اکبر شہادت پا گئے
واہ رے قسمت کہ جنت کی بشارت پا گئے
بات جو حق کی ہے وہ کہہ دوں گی میں نگہت نسیم
ذاکر شبیر کے قاتل کہ لعنت پا گئے
محترم المقام جناب صفدر ہمدانی میرے ادبی استاد اس لئے ہیں کہ انہیں نثر و اشعار میں وہ بھی لکھا مل جاتا ہے جو لکھا نہیں ہوتا۔
نگہت نسیم کرتی ہے خالق سے دعا
پھیلائیں نور علم کو صفدر یونہی سدا
استاد بھی ہیں دوست بھی اور دستگیر بھی
ان کی محبتوں کی نہیں کوئی انتہا
اپنے باپ مماثل قابل صد احترام سسر جناب غلامٍ مصطفی کے نام جن سے میں کبھی نہیں ملی
صالحین میں ہوں گے وہ روز جزا
مہربان ان پر سدا ہو گا خدا
جانتی ہوں میں یہ نگہت ہیں مکیں
باغ جنت میں غلامٍ مصطفی
اپنے رفیق سفر محمد آفتاب کے نام جن کی رفاقت پر میں خوش نصیب ہوئی۔
دیکھو میری آنکھ سے تو اک گہر ہے آفتاب
منفرد اک باپ بیٹا اور شوہر ہے آفتاب
اتنے برسوں کی رفاقت میں یہ نگہت طے ہوا
عمر بھر کا دوست بھی اور ہم سفر ہے آفتاب
ہم گنہگاروں پہ بے شک ہے عنایت اس کی
ہم کو مایوس نہیں کرتی محبت اس کی
سچ اگر پوچھو تو سچ ہے نگہت
اک نئے سال کا آغاز ہے رحمت اس کی
اپنے قابل صد احترام ابا جی جناب محمد نسیم احمد اشرفی جن سے مجھے روحانی ادراک کی تعلیم ملی، ہمیشہ دعا دیتے ہوئے کہتے ہیں ” اللہ پاک تمہیں پیار بانٹنے والوں میں رکھے ”۔
آمد ہو آپ سب کو مبارک نسیم کی
نیندیں اُڑی ہیں جس کے قلم سے غنیم کی
اوصاف بے شمار فقط ایک شخص میں
احسان ہے خدا کا عنایت رحیم کی
مسلمان کے ہاتھوں جاری مسلم کشی پر۔۔۔
امن کی تعلیم دیں کی کس طرح بد نام کی
سامنے تاریخ ہے ہر ظلم کے انجام کی
کر دیا نگہت مسلماں نے مسلمانوں کا قتل
خادمین حرمین نے کیا خدمت اسلام کی
کیوں مجھ سے بچھڑ کر وہ پریشان ہوا ہے
ہنستا ہوا تھا شہر جو ویران ہوا ہے
نگہت اُسے مل کے جو میں اب آئی ہوں واپس
آئینہ مجھے دیکھ کے حیران ہوا ہے
میری جھولی میں پیار ڈالے گی
میری زلفیں سنوار ڈالے گی
یوں تو مرنا نہیں مجھے نگہت
زندگی مجھ کو مار ڈالے گی
٭٭٭
تشکر: شاعرہ جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای نک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں