FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ریختہ ۔۔ کچھ مباحث

               تصنیف حیدر

 

دکنی غزل کا جائزہ (ولی اور اس سے پیشتر دکنی شاعری کے حوالے سے)

اردو شاعری میں دکنی غزل کو اردو کی ترویج کے مراحل میں اولین قدم کی سی حیثیت حاصل ہے۔اردو شاعری میں دکن کی غزل کے حوالے سے کئی ایسی باتیں ہیں جو غور طلب ہیں اور ان کے تعلق سے بحث کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس سے ہمیں ہماری شاعری کے قدیم ترین نقوش حاصل ہوسکتے ہیں۔ولی ؔ کو عام طور پر ہمارے اکابرین نے اردو کے پہلے شاعر کے طور پر تسلیم کیا ہے مگر میری دانست میں ہمیشہ سے ولی کے لیے پہلے اردو شاعر کے ساتھ ساتھ فصیح و بلیغ کا سابقہ لازمی قرار پاتا ہے۔یہ بات تو جگ ظاہر ہے کہ اردو شاعری ولی سے پہلے بھی ہو رہی تھی اور جنوبی ہند کے ساتھ ساتھ شمالی ہند میں بھی یہ رفتہ رفتہ اپنے قدم جما رہی تھی۔اس مضمون میں ہمیں جن باتوں کے تعلق سے غور کرنا ہے اُن میں ولی کے کلام سے دہلی والوں کا متاثر ہونا اور ولی کے کلام کے دوسروں سے ممتاز ہونے کے اسباب تلاش کرنا سرِ فہرست ہے۔ولی کی شاعری کے تعلق سے یہ مفروضہ اول اول ہی قائم ہو چکا تھا کہ ولی نے سعد اﷲ گلشن ؔ کے کہنے سے مضامینِ فارسی کو اردو شاعری میں استعمال کیا تھا۔اس بیان کی تردید ہمارے جید اکابرین کے ساتھ معتبر معاصرین نے بھی کی ہے۔لیکن اس بیان پر ذرا سی روشنی ایک اور زاویے سے بھی ڈالنے کی ضرورت ہے۔اب تک کی معلومات کے حساب سے یہ بات صاف ہے کہ ولی ؔ کے تعلق سے اس بیان کا مآخذ میر کے نکات الشعرا کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔میر نے اپنے تذکرے میں ولی کے ترجمے میں لکھا ہے کہ

’’ولی شاعرِ ریختہ، (زبردست) صاحبِ دیوان، شہرِ اورنگ آباد سے ہے۔کہتے ہیں کہ شاہ جہان آباد دہلی آیا تھا ۔اُس نے( شاہ) گلشنؔ صاحب کی خدمت میں حاضری دی اور اپنے اشعار پڑھ کر سنائے۔میاں صاحب نے کہا کہ یہ سارے مضامینِ فارسی بیکار و ناکارہ ہیں انہیں تم نے اپنے ریختہ میں جس طرح استعمال کیا ہے ان کا بھی محاسبہ ہونا چاہیے۔(میاں نے تعریف و توصیف کی۔)اس کے کمالِ شہرت کو تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔پورے احوال اس کے مجھے نہیں معلوم۔‘‘

(ترجمۂ راقم، ص 91نکات الشعرا، میر تقی میرؔ ، مرتب ڈاکٹر محمود الہٰی، اتر پردیش اردو اکادمی)

جہاں تک ولی کے تعلق سے شاہ گلشن والی بات کے علم کا تعلق ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ بات میرؔ کے بھی علم میں براہِ راست نہیں تھی بلکہ انہوں نے اسے ضرور عزلت کی بیاض سے نقل کیا ہوگا۔میر ؔ نے عزلتؔ کی بیاض سے استفادہ کرتے ہوئے ہی تما م دکنی شاعروں کے ترجمے لکھے تھے ۔اس بات کو ڈاکٹر محمود الٰہی نے نکات الشعرا کے مقدمے میں یوں بیان کیا ہے کہ

’’میرؔ نے یہ تذکرہ بڑی رواروی میں لکھا۔ان کے سامنے شعرا کی ترتیب کا کوئی اصول نہیں تھا۔انہوں نے نہ تو شعرا کی تقسیم طبقات کے لحاظ سے کی اور نہ ان کا ذکر حروف تہجی یا حروف ابجد کی ترتیب سے کیا۔شعرائے دکن کا ذکر یکایک ایک مختصر سی تمہید کے ساتھ وسط کتاب میں آ جاتا ہے اور پھر اس کے بعد کسی تمہید کے بغیر شمالی ہند کے شعرا جگہ پاتے ہیں۔شعرائے دکن والے حصے کی بات کسی قدر سمجھ میں آ جاتی ہے۔یہ حصہ عبدالولی عزلتؔ کا رہینِ منت معلوم ہوتا ہے۔عزلتؔ 1164 ؁ہجری کے وسط میں دہلی آئے۔ان کی ملاقات میر سے بھی ہوئی۔میرؔ نے ان کی بیاض سے بھر پور استفادہ کیا۔جوں ہی میرؔ کو عزلتؔ کی یہ بیاض ملی ہوگی، انہوں نے اس کی مدد سے اپنے تذکرے میں شعرائے دکن کا حصہ شامل کر لیا اور پھر شمالی ہند کے باقی شعرا کا ذکر مکمل کیا۔‘‘

(نکات الشعرا، ص 15-16 میر تقی میرؔ ، مرتب ڈاکٹر محمود الٰہی، اتر پردیش اردو اکادمی)

رواروی میں لکھے جانے والے اس تذکرے سے اردو ادب کی تاریخ میں ولی کے تعلق سے ایک بڑی غلط فہمی یہ پیدا ہوئی کہ انہیں شاعری میں شاہ گلشن کا شاگرد قرار دیا جانے لگا ۔شاہ گلشن سے ولی کے شاگرد ہونے کا یہ مفروضہ ’’آبِ حیات ‘‘ سے اور مشہور ہوا مگر محمد حسین آزاد نے شاہ گلشن کا نام صاف طور پر استادِ ولی ؔ کے طور پر نہیں لیا اوراپنے تذکرے میں اس معاملے میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے لکھا کہ

’’۔۔یہ(ولیؔ ) اپنے وطن سے ابوالمعالی کے ساتھ دلّی میں آئے۔یہاں شاہ سعد اﷲ گلشن کے مرید ہوئے ۔شاید اُن سے شعر میں اصلاح لی ہو۔مگر دیوان کی ترتیب فارسی کے طور پر یقینا ان کے اشارے سے کی۔‘‘

(آب حیات، ص84، محمد حسین آزادؔ ، اترپردیش اردو اکادمی)

آب حیات میں ولی کے دیوان کی ترتیب فارسی کے اعتبار سے ہونے والی بات یقیناً نکات الشعرا کی مرہونِ منت ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کو لکھتے ہوئے آزاد نے تحقیق میں احتیاط سے کام نہیں لیا اور شاید میر کے نکات الشعرا کو خو د نہیں دیکھا ۔سعد اﷲ گلشن کے بارے میں بھی اُن کی لکھی ہوئی بات بے بنیاد معلوم ہوتی ہے۔اول تو آزاد نے ان کا نام صحیح نہیں لکھا ہے ۔اس بارے میں نورالحسن ہاشمی کے ذریعے شاہ گلشن کی صحیح معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ لکھتے ہیں کہ

’’شاہ گلشن کا پورا نام شیخ سعدالدین دہلوی تھا ۔یہ شاہ گل سرہندی کے مرید تھے۔پیر کے نام کی رعایت سے شاہ گلشن کے استاد مرزا بیدل ؔ نے ان کا تخلص گلشن تجویز کیا تھا۔شاہ گلشن کا آبائی وطن برہان پور(گجرات )تھا۔بعد میں ترکِ سکونت کر کے دلی آ گئے تھے۔۔۔(الخ)یہاں دہلی میں (ولیؔ کی)شاہ گلشن سے ضرور ملاقات ہوئی ہوگی۔یہ بھی ممکن ہے کہ ولیؔ کی ملاقات شاہ صاحب مذکور سے اس سے پیشتر بھی ہوئی ہو کیونکہ شاہ مذکور اپنے عزیزوں سے ملنے کے لیے اکثر گجرات جاتے تھے۔‘‘

(مقدمہ ص2-3، کلیات ولی، مرتبہ ڈاکٹر سید نورالحسن ہاشمی، لکھنؤ)

اس تفصیل کے لیے ہاشمی صاحب نے سروِ آزاد کا حوالہ دیا ہے ۔سروِ آزاد پر اس لیے بھروسہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ آزاد بلگرامی کی تالیف ہے جو کہ 1111 ؁ ہجری میں پیدا ہوئے اور سعدالدین دہلوی متخلص گلشنؔ ، مرزا بیدل ؔ کے ہم عصر تھے اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ولی کا بھی بڑا قریبی زمانہ پایا ہے۔نور الحسن ہاشمی ایک محتاط محقق تھے مگر گلشن والے معاملے میں اُن سے بھی ایک جگہ چوک ہوئی ہے یعنی وہ ولی ؔ کو شاہ گلشن کا شاگرد شاعری میں بھی تسلیم کرتے ہیں۔اول تو اس بات کی تصدیق کسی بھی تذکرے سے نہیں ہوتی اور اگر کہیں ایسا لکھا بھی ہو تو اسے بعینہ ٖ تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شاہ گلشن خود زبانِ ریختہ میں شاعری نہیں کرتے تھے ۔البتہ آبِ حیات میں اُن کا ایک فارسی قطعہ ضرور موجود ہے ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ مرزا بیدل (متوفی1133 ؁ ہجری)ولیؔ کے ہم عصر تھے اور ان کی شاعری کی شہرت دور دور تک تھی ۔ایسے اعلیٰ پائے کے شاعر کی موجود گی میں ولی ؔ کا بیدل کے شاگرد سے شاعری میں اصلاح لینا سمجھ میں نہیں آتا۔اور پھر ایسا بھی نہیں تھا کہ بیدل اس دور میں ریختہ سے بالکل نا آشنا تھے یا اُس کے مخالف تھے کیونکہ اردو کے پرانے تذکروں سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے خود ریختہ میں تھوڑی بہت شاعری کی تھی۔آبِ حیات میں آزاد نے خود اس بات پر شک ظاہر کیا ہے کہ آیا ولی نے سچ میں شاہ گلشن سے شاعری میں اصلاح لی تھی یا نہیں ۔نور الحسن ہاشمی نے ولی ؔ کے شاگردِ گلشن ہونے کے ثبوت میں ولی ؔ کے ایک تصوف کے رسالے ’’نور المعرفت ‘‘ پر اُن کی اپنی تحریر پیش کی ہے ۔جس میں لکھا ہے کہ

’’مصنف ایں عبارت کہ بہ یمن ثنا پردازمی بزرگاں بہ خطاب ولی سرفراز است و از شاگردی زبدۃ العارفین حضرت شاہ گلشن ممتاز۔‘‘

اس عبارت سے یہ بات کسی بھی حال میں مترشح نہیں ہوتی کہ ولی ؔ نے شاہ گلشن سے شاعری میں بھی اصلاح لی تھی اسی وجہ سے آزاد نے لکھا ہے کہ

’’(ولی نے)رسالہ نور المعرفت تصوف میں بھی لکھا ہے۔اُس میں کہتے ہیں کہ میں محمد نورالدین صدیقی سہروردی کے مریدوں کا خاک پا ہوں اور شاہ سعد اﷲ گلشن کا شاگرد۔مگر یہ نہیں لکھا کہ کس امر میں؟‘‘

(آبِ حیات، ص88، محمد حسین آزاد، اتر پردیش اردو اکادمی)

بات صاف ہے ہاشمی صاحب کی پیش کی ہوئی فارسی عبارت اور آبِ حیات کا شک دونوں ایک بات کی جانب دھیان لے جاتے ہیں اور وہ بات یہ ہے کہ ولیؔ نے شاعری میں شاہ گلشن سے کسی بھی طرح کی اصلاح نہیں لی تھی ۔یہ اس لیے بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ ولی نے 1112ہجری میں دہلی کا سفر کیا۔اب یہ بات سوچنے کی ہے کہ اتفاقِ رائے سے ولی کا سالِ وفات 1119ہجری قرار پایا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ولی نے اپنی بیشتر شاعری (خاص کر وہ جس پر ہم ولی ؔ کو غزل کے ریفارمر کے طور پر جانتے ہیں)اپنی زندگی کے بقیہ سات سالوں میں ہی کی ہومگر اس طرح کا کوئی زمانی اور زبانی امتیاز ولی کی شاعری میں نہیں پایا جاتا ہے جس سے اس بات کا تعین ہوسکے کہ انہوں نے شاہ گلشن کی رائے سننے کے بعد اس پر عمل کرتے ہوئے اپنی شاعری کا رخ فصاحت کی جانب نئے سرے سے موڑ دیا ہو۔البتہ ولی ؔ دہلی آنے کے بعد جس طرح کی شاعری کر رہے ہیں اس میں بھی کسی طرح فصاحت کی کمی نہیں ہے اور جو شاعری انہوں نے اس سے پہلے دکن میں کی تھی اس میں بھی بلاغت کی کمی نظر نہیں آتی ہے۔دو ایک ناقدین کا ماننا یہ بھی ہے کہ ولی ؔ کے ساتھ شاہ گلشن والی روایت کو جوڑنا دراصل میرؔ کی سازش ہے اور انہوں نے دکن کے شاعروں کو کم مایہ منوانے کے لیے اس طرح کی بات گڑھی جس سے یہ لگے کہ دکن کے پہلے فصیح شاعر کو اس طرح کا کلام لکھنے کے لیے بھی ایک دہلوی شاعر یا شخص نے راغب کیا تھا۔مگر یہ بات صاف نہیں ہے اور بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے میرؔ پر اس طرح کا الزام لگانا بھی صحیح نہیں ہے ۔یہاں وہی قیاس یقین میں بدلتا ہوا معلوم ہوتا ہے جس میں ہم اس غلط فہمی کا قصوروار عزلت ؔ کو تسلیم کرتے ہیں۔عزلتؔ 1104ہجری میں پیدا ہوئے تھے ۔یعنی جب ولیؔ نے دہلی کا سفر کیا اس وقت ان کی عمر آٹھ سال اور ولیؔ کے انتقال کے وقت اُن کی عمر تقریباً (اب تک کے حوالوں کے مطابق)پندرہ سال کی تھی۔عزلتؔ جب 1164ہجری میں دہلی آئے تو اُن کی بیاض میں دکن کے تقریباً تمام معاصر و غیر معاصر شعرا کا کلام جمع تھااس حوالے سے یہ قیاس لگایا جا سکتا ہے کہ عزلتؔ نے ولی ؔ کے بارے میں دہلی آنے سے پہلے ہی یعنی اپنی بیاض میں شاہ گلشن والی بات لکھی تھی ۔ہو سکتا ہے اس میں انہوں نے ولی کے ساتھ فراقیؔ اور آزادؔ کے بھی دہلی کے سفر کرنے کی بات لکھی ہو۔جس کا اعادہ قائم نے اپنے تذکرے مخزنِ نکات میں کیا ہے۔اس بات کو مکمل طور پر اگر نہ بھی تسلیم کیا جائے تو اسے ماننے میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ جس وقت عزلتؔ دہلی آئے اس وقت اُن کی بیاض ہرگز مکمل نہیں ہوئی ہوگی اور وہ دہلی کے شعرا کے کلام کے حصول کی کوشش میں بھی رہے ہونگے۔ممکن ہے کہ عزلت ؔ نے دہلی آنے سے پہلے اورنگ آباد کے قیام میں بھی بہت سے شاعروں کا ذکر اپنے تذکرے میں کیا ہو اور اس حساب سے اُن کی بیاض کی تالیف کا زمانہ 1160ہجری کے قبل سے 1165ہجری کے بعد تک متعین کیا جا سکتا ہے۔اس بات کی تصدیق میرؔ صاحب کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے ولی ؔ کو اورنگ آباد کا باشندہ لکھا ہے ۔اس لیے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ عبدلولی عزلت کو ولی ؔ کے بارے میں بھی اورنگ آباد سے ہی معلومات حاصل ہوئی ہونگی اور یہ معلومات دراصل صحیح اور غلط تاریخ کا ایک ملغوبہ تھیں جنہیں عزلت نے یقیناًکسی تحقیق کے بغیر اپنی بیاض میں رقم کر لیا تھا۔ابوالمعالی والی بات بھی عزلت کے تذکرے سے ہی شعرائے دہلی کو معلوم ہوئی ہوگی اور اسی طرح اس بیاض کا کچھ حصہ میرؔ کے یہاں اور کچھ حصہ قائمؔ کے یہاں بٹ کر رہ گیا۔ہاشمی صاحب نے ہماری توجہ ’نور المعرفت ‘ کی جس عبارت کی جانب دلوائی ہے اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ولی ؔ 1112ہجری سے پہلے ہی شاہ گلشن کے شاگرد ہو گئے تھے مگر یہ شاگردی شعروسخن کے ذیل میں نہیں شمار ہوتی بلکہ وہ تصوف کا علم حاصل کرنے کے لیے شاہ گلشن کے شاگرد ہوئے ہونگے۔شاعری میں شاگردی کی غلط فہمی اس بیان سے بھی پیدا ہوسکتی ہے جس میں ولی نے اپنے رسالے کے عوض میں بزرگوں کی جانب سے ملنے والے خطاب ’ولی‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔بہت ممکن ہے کہ اسی کے بعد ولیؔ نے اپنا تخلص ہی ولی کر لیا ہو۔اس پر ابھی مزید بحث کی گنجائش ہے مگر معلوم یہی ہوتا ہے کہ ولی ؔ شاہ گلشن سے اُس وقت ہی متاثر ہو چکے تھے جب انہوں نے شاعری میں اپنا کوئی تخلص بھی متعین نہیں کیا تھا۔ولیؔ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ اوائل جوانی یا بچپن سے ہی شاعری کی جانب متوجہ تھے اس وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی ملاقات شاہ گلشن سے دہلی میں ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو مگر یہ بہت ممکن ہے کہ اُن دونوں کی ملاقات گیارہ سو بارہ ہجری سے بہت پہلے ہی دکن یا گجرات میں ہو چکی تھی۔جہاں تک بات فارسی کے مضامین کی ہے تو ولی ؔ وہ پہلے شاعر ہرگز نہیں ہیں جنہوں نے انہیں اپنی شاعری میں استعمال کیا ہو۔اس ضمن میں شاید سب سے بہتر یہ ہوگا کہ ہم لفظ مضمون کو اچھی طرح سمجھ لیں۔اس لفظ کی تشریح میں شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے کہ

’’اس مسئلے کو آسان زبان میں یوں بیان کرسکتے ہیں کہ شعر میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ اس کے معنی Ideaیا Themeیا مضمون میں شامل ہے۔لیکن اس کو آسانی کے لیے دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ایک تو اس سوال کا جواب ہوگا کہ شعر کس چیز کے بارے میں ہے؟ اور دوسرا اس سوال کا جواب ہوگا (کہ) کسی چیز کے بارے میں جو کہا گیا ہے اس سے ہم کیا نتیجہ نکال سکتے ہیں، یا کائنات کے بارے میں وہ ہمیں کیا بتاتا ہے۔پہلے حصے کو مضمون ، اور دوسرے حصے کو معنی کہیں گے۔لہٰذا مضمون کا اصل کام اور مقصد یہ ہے کہ معنی کی پیدائش کے لیے موقع فراہم کرتا ہے۔ایک بنیادی معنی تو مضمون میں ہوتے ہیں۔جنہیں ہم آسانی کے لیے لغوی معنی کہہ سکتے ہیں۔پھر اس لغوی معنی کے ذریعے معنی پیدا ہوسکتے ہیں اور ان کو متن کے مضمون سے براہِ راست علاقہ ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔لسانیات کی زبان میں مضمون کو SignیاSignifierاور معنی کو SignantیاSignifier کہہ سکتے ہیں۔لیکن اس کی ضرورت نہیں ، کیونکہ دال اور مدلول کا رشتہ ہمیشہ بے اصولہ ہوتا ہے اور مضمون و معنی کے درمیان رشتہ رسومیاتی ، نحوی، لغوی، طرح طرح کا ہوسکتا ہے۔‘‘

(ایہام رعایت اور مناسبت، شمس الرحمن فاروقی، ص 18-19، سوغات شمارہ 11، بنگلور)

اس اقتباس کی روشنی میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ مضمون دراصل کسی بھی شعر سے حاصل ہونے والے نتیجے کا نام ہے جسے ہم کسی خاص عنوان کے ذیل میں رکھ سکتے ہیں۔فارسی مضامین کی کوئی خاص فہرست تو ہماری نظر میں نہیں ہے مگر شیخ و شباب، زہد  و رندی، حسن و عشق، نامہ بری، پند و نصیحت سے بیزاری، کوچۂ دلدار، موکمری، عشقِ مجازی، عشقِ حقیقی، تصوف، حکمرانیِ قلب، قتلِ عاشق بدستِ معشوق، یادِ یار، کوششِ بسیار، شیریں گفتاری، لغزشِ مستانہ، امرد پرستی، سنگ دلی، ستم پروری، ساقی، مغبچے، جام، جامِ جم، صراحی، لذتِ گناہ، زلفِ عنبریں، گلِ رخسار، لبِ لعل ، شانۂ گیسوئے یار اور حالتِ نزع میں بھی یادِ محبوب وغیرہ کو سرِ فہرست رکھا جا سکتا ہے۔ولی ؔ کو شاہ گلشن کی دی جانی والی روایت کے تعلق سے تو اسی بات کا احساس ہوتا ہے گویا ولیؔ سے پہلے اس طرح کے مضامین کسی اور اردو کے شاعر نے نہیں باندھے ہونگے ۔مگر ایسا بالکل نہیں ہے۔ہم یہاں صرف دکن کے شاعروں کی بات کریں گے اور خاص کر وہ جنہوں نے غزل میں طبع آزمائی کی ہے۔مذہبی غزل دکن میں سب سے پہلے کہی گئی اس لیے اس دور کو ہمیں یہاں شاملِ مضمون نہیں کرنا ہے جس میں مذہبی شاعری کی گئی ہے۔ایسی شاعری میں غزل کے علاوہ حمدیں، نعتیں، قصیدے اور منقبتیں بھی غزل کے فارمیٹ میں پیش کی جاچکی تھیں۔دکن میں خالص غزل کے تعلق سے جس شاعر کا نام سب سے پہلے لیا جا سکتا ہے وہ قطب شاہی دور کا شاعراسداﷲ وجہیؔ ہے۔وجہی ؔ ایک اچھا نثرنگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین غزل گو شاعر بھی تھا ۔اس حساب سے غزل کا دور دکن میں سب سے پہلے 1011ہجری کے آس پاس کا ہے۔اس کے بعد اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ کی غزلیں بھی نمونے کے طو ر پر پیش کی جا سکتی ہیں۔قلی قطب شاہ کا کلیات 1014ہجری میں اس کے بھتیجے اور داماد محمد قطب شاہ کے ذریعے ترتیب دیا گیا۔ان دونوں شاعروں کے ساتھ عبد اﷲ قطب شاہ کا نام بھی اسی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جس کی غزل کا دور 1040ہجری کے آس پاس کا ہے۔ان تینوں شاعروں کا نمونۂ کلام حاضر ہے اس کے بعد ہم اس دور کی دکنی غزل پر مزید بحث کریں گے۔

               وجہی ؔ

طاقت نہیں دوری کی اب توں بیگی آمل رے پیا

تج بن سنجے جینا بہوت ہوتا ہے مشکل رے پیا

کھانا برہ کیتی ہوں میں، پانی انجھوں پیتی ہوں میں

تج تے بچھڑ جیتی ہوں میں کیا سخت ہے دل رے پیا

ہردم توں یاد آتا منجے، سب عیش نئیں بھاتا مجھے

بڑھایو سنتا منجے تج باچ تل تل رے پیا

تو جیو مرا میں سودل تج سات رہتا کیوں نہ مل

دن رات میں میں ایک تل بن تج نے غافل رے پیا

               قلی قطب شاہ

جہاں توں واں ہوں میں پیارے منج کیا کام ہے کس سوں

نہ بت خانہ کا منج پروا نہ مسجد کا خبر منج کوں

جنت ہور دوزخ ہور اعراف کج نیں ہے میرے لیکھے

جدھر توں واں مرا جنت جدھر نیں واں سقر مجکوں

جنت کوں ہور دوزخ کوں سو مسجد بت خانہ کیا

کسے تا جانوں میں معلوم نیں کوئی تج بغیر مجکوں

               عبد اﷲ قطب شاہ

تو پیاری عشق بھی تیرا ہے پیارا

لگیا ہے بھوت تج سوں دل ہمارا

سکھی کچ بھی سمجھ تو دل میں اپنے

کتا منت کرے عاشق بچارا

اپجتے ہیں نچھل یاقوت کے کھان

جہاں توں پان کھا سٹتی غرارا

تجے چاند ہور تارے سوں غرض کیا

تو آپچ چاندہے آپیچ تارا

یہ شاعری ولیؔ دکنی کی شاعری کے ظہور سے تقریباً پچاس ساٹھ برس پہلے کی ہے۔اس میں بھی اپنے وقت کے لحاظ سے بہت زیادہ فصاحت اور بلاغت پائی جاتی ہے۔اس دور کی شاعری کا اگر عمیق نظر سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ غزل کے معاملے میں جو روایت وجہی اور قلی قطب شاہ نے قائم کی تھی ، اُسے ولیؔ نے آگے بڑھایا ہے۔اسی لیے میں نے شروع میں کہا تھا کہ ولی ؔ کے نام کے آگے فصیح و بلیغ کا سابقہ ہونا بہت ضروری ہے۔دکن کے ان اولین شاعروں میں سے آگے جا کر جو شہرت قلی قطب شاہ کو نصیب ہوئی وہ دوسروں کو نہیں ملی۔اس کی دو صاف وجہیں ہو سکتی ہیں ، اول تو یہ ہے کہ قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر ہے مگر یہ وجہ اس کی غزل گوئی کی مہارت کو ظاہر نہیں کرتی میری نظر میں قلی قطب شاہ کو دکنی غزل کی روایت میں ایک Trendsetterکے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔قلی قطب شاہ نے اپنی شاعری میں جو نئے مضامین استعمال کیے ہیں اُن کو نہ صرف اردو میں پہلے پہل استعمال ہونے کا شرف حاصل ہے بلکہ بعد میں بھی انہیں اسی صورت میں ہمارے بڑے کلاسیکل شعرا نے بھی اپنایا ہے اور عبوری دور کے شاعروں نے بھی۔ایک مثال دیکھیے اور میری بات کا محاسبہ خود کیجیے۔

قلی قطب شاہ:

میں نہ جانوں کیوں اچھے گی حورِ جنت

حسن تیرا مج عجب دیوانہ کیتا

ولیؔ :

آرزوئے چشمۂ کوثر نئیں

تشنہ لب ہوں شربتِ دیدار کا

غالبؔ :

سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست

لیکن خدا کرے وہ تری جلوہ گاہ ہو

اصغر گونڈوی:

منظور ہم کو خانۂ کعبہ کی منزلت

سب کچھ سہی مگر وہ ترا آستاں نہیں

قلی قطب شاہ کی شاعری میں ایسے کئی مضامین ہیں جن کو بعد میں جنوبی ہند اور شمالی ہند کے شاعروں نے بھی بہت نکھار کر پیش کیا ہے۔اسے سرقہ یا توارد نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ہمارے شاعروں کی ایک خاص روش رہی ہے جو کہ شاید ہی دنیا کی کسی دوسری زبان کی پوئٹری میں پائی جائے۔ہمارے شاعر ایک ہی مضمون یا  خیال کو لفظوں کے نئے سے نئے ملبوس عطا کرتے رہتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ قلی قطب شاہ نے بھی یہ مضامین خود اختراع نہیں کیے ہیں بلکہ ان کے لیے فارسی شاعروں کے یہاں سے خوشہ چینی کی گئی ہے۔اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ قلی قطب شاہ نے حافظ اور دوسرے کئی شاعروں کو پڑھا ہوگا ان کے کلام میں جا بجا فارسی غزلوں کے ترجمے بھی مل جاتے ہیں جس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ان کے کلام کو فارسی شاعروں سے بہت قریبی نسبت رہی ہے اور انہوں نے نہ صرف وہاں سے مضامین حاصل کیے ہیں بلکہ جہاں انہیں اس Litratureکو ترجمہ کرنے کا موقع ملا وہ اس سے بھی نہیں چوکے۔اسی وجہ سے مکمل طور پر یہ بات کہنا ہرگز صحیح نہیں ہے کہ ولی دکنی وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے فارسی کے مضامین کو اردو شاعری میں استعمال کیا ہے۔قلی قطب شاہ کی غزلوں میں انہی فارسی مضامین کی وجہ سے وہ سوزوگداز پیدا ہو ا ہے کہ ان کی شاعری آج بھی یعنی تقریباً تین سو برس بعد بھی کسی تر و تازہ گلاب کی طرح مہکتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔اس بات سے ایک اور خیال کی تردید ہوتی ہے اور وہ خیال یہ ہے کہ جب ولیؔ کا دیوان دہلی پہنچا تو یہاں کے شاعروں نے اردو شاعری کی جانب توجہ کی۔یہ بات اس لیے ناقابلِ قبول ہے کیونکہ فارسی غزل یکساں طور پر جنوبی ہند اور شمالی ہند میں اپنا جادوئی اثر رکھتی تھی۔ جس کے دامِ سحر میں دونوں خطوں کے شاعر گرفتار تھے۔فارسی غزلوں کے ترجموں کا جو رواج جنوبی ہند میں جڑ پکڑ رہا تھا اُس نے شمالی ہند میں بھی وہی صورتِ حال قائم کی تھی۔ولی کا دیوان 1720ء میں جس وقت دہلی پہنچا ہے وہاں کئی شاعر اردو زبان میں شاعری کر رہے تھے بس مسئلہ یہ تھا کہ ان کی شاعری کا بڑا حصہ منظرِ عام پر نہیں آیا تھا۔یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ولیؔ کے دیوان کی دہلی میں مقبولیت ان شمالی ہند کے شاعروں کے لیے بھی اپنے اردو کلام کے سلسلے کو آگے بڑھانے کی محرک ثابت ہوئی ہوگی۔خیر، بات ہو رہی تھی قلی قطب شاہ کی، قلی قطب شاہ نے اپنی شاعری میں عشق کے جو خوبصورت فلسفے پیش کیے ہیں اور حسن کی جس طرح تعریف کی ہے وہ واقعی تحسین کے لائق ہے۔بس فرق اتنا ہے کہ اس نے اپنی شاعری میں ہندوستان کے قدرتی اور مصنوعی حسن کو برابر سے غزل کا شریک ٹھہرایا ہے ۔اس کی شاعری کے تعلق سے سیدہ جعفر نے لکھا ہے کہ

’’محمد قلی کی شاعری میں پیاریوں اور محبوباؤں کے مرقعے ایلورا، اجنتا اور کھجوراہو کے وہ خوبصورت مجسمے ہیں جن کی اخلاقی حیثیت سے بحث کی جا سکتی ہے لیکن ان میں کلاسیکی آرٹ کے جو جوہر چھپے ہوئے ہیں ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔محمد قلی کی شاعری میں مادی حسن اپنے اصلی اور حقیقی روپ میں موجود ہے۔تصنع ، تکلف اور ملمع کاری کا رجحان ہر شاعری کے ابتدائی دور میں کم ہوتا ہے محمد قلی کی شاعری بھی اس سے مستثنٰی نہیں ہے۔محمد قلی اپنے کلام میں محبوب کا جو سراپا پیش کرتا ہے وہ اس کی بے لاگ حقیقت نگاری اور واقعیت پسندی کا غماز ہے۔‘‘

(ص 10، انتخابِ کلام قلی قطب شاہ، اتر پردیش اردو اکادمی)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قلی قطب شاہ نے اردو شاعری میں خالص ہندی اصطلاحات کو شامل کر کے اسے اور زیادہ خوبصورت اور معنی آفریں بنایا ہے۔اُسکی شاعری میں ’چندر مکھ(چاند چہرہ)، سکھی(سہیلی)، پریت(عشق)، درپن(آئینہ)، جگت(دنیا)، نین(چشم)، ہندوی(ہندوستانی)، انت(آخر)، سیس(پیشانی)، کیس(زلف)، کرتار(بال)، باس(بو)، نیر(شبیہ)، پگ(پانو)، دیس(ملک)، سُرج(سورج)، برہ(جدائی)، پیو(محبوب)، لگن(وصل) جیسے کئی الفاظ استعمال کیے ہیں۔اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے ان لفظیات کی ترتیب سے اپنے یہاں ایک ایسی شعری کہکشاں تیار کی ہے جس کی چمک نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے اور فارسی مضامین کی ترتیب میں بھی ان الفاظ کی غنائیت کسی بھی طرح مجروح نہیں ہوتی۔عبد اﷲ قطب شاہ مجھے قلی قطب شاہ کے بعد ایک ایسا مضبوط لہجے کا شاعر معلوم ہوتا ہے جسے ولی اور قلی قطب شاہ کے درمیانی عہد کے ایک بڑے شاعر کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔اس نے عوامی تہوار ، قدرتی موسم اور مصنوعی حسن کی ملی جلی ایسی دنیا کی آرائش اپنے کلام میں کی ہے کہ معلوم ہوتا ہے آپ کسی جدید دکنی شاعر کا مطالعہ کر رہے ہیں۔مثال کے طور پر اس کے چند اشعار دیکھیے۔

ادا یاں سب کی تو دیکھیا ولیکن یو ادا تیرا

عجب کچ ہے خدا تج کوں عجب کچ یوں ادا دیتا

مکھ تجے درپن میں تل تل دیکھنے عادت ہے کر

نین کوں میں عین تج دیدار کا درپن کیا

ہر طاق یاں خوش طرح کا دستادریچا فرح کا

عاجز ہواس کی شرح کا حیران سنسارا ہوا

روپ میرے لال کا آئے نہ تحریر میں

چاند عطارد اگر ہوویں قلم اور دوات

اس کے قداں کے ستم کرنے سرو کوں خجل

یاد اڑاتا پھر ے چمن چمن پات پات

عبد اﷲ قطب شاہ کے حالات کے بارے میں نصیرالدین ہاشمی نے اپنی کتاب دکن میں اردو میں لکھا ہے کہ

’’سلطان کی طبیعت رنگین تھی ، عیش و عشرت کی فراوانی تھی، صاحب علم بھی تھا۔میر قطب الدین جو مولانا نعمت اﷲ کے رشتہ دار تھے، جیسے صاحبِ ذوق بزرگ نے اس کو تعلیم دی تھی۔علم دوست تھا اور علما و فضلا اور شعرا کی قدردانی میں ممتاز تھا۔اس کے دربار میں عرب اور عجم کے علما اور اہلِ فن جمع رہتے تھے۔برہانِ قاطع جیسی مشہور لغت اسی کے عہد میں تالیف ہوئی ہے۔‘‘

(ص 101، نصیرالدین ہاشمی، دکن میں اردو، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان)

شاید ایسے علم پرور ماحول میں ہی وہ نئے اور خوبصورت خیال سامنے آسکتے تھے جو اس کے دور میں سامنے آئے۔غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے عبداﷲ اپنے معاصرین میں وہ ممتاز شاعر ہے جو غزل کو سنسکرت اور برج کی لفظیات سے باہر نکال کر بہت آہستگی سے شانۂ لفظ سے گیسوئے غزل کو سنوارتے ہوئے غزل کی ایک الگ Vocabularyتیار کر رہا تھا۔اس وجہ سے اگر ہم سلطان کے اس دور کو جنوبی ہند میں اردو شاعری کے ٹرننگ پوائنٹ سے تعبیر کریں تو بے جا نہ ہوگا۔اسی دور میں شاعری میں نئے الفاظ بھی داخل ہوئے اور ایسے الفاظ بھی جن کے لغوی معنی کچھ اور تھے اور انہیں اصطلاحاً کسی اور طرح سے اردو شاعری میں برتا گیا تھا۔عبد اﷲ کے بعد غزل کے معاملے میں جس شاعر پر ہماری نظر فوراً ٹھہرتی ہے وہ غواصی ہے۔غلط نہیں ہوگا اگر ہم یہ تسلیم کریں کہ غواصی نے شعوری طور پر غزل کو جنوب کی پچھلی روایت سے آگے لے جاتے ہوئے اس کو ایک نئے آہنگ کا پیرہن عطا کیا۔اس کی تائید کے لیے میں یہاں غواصی کی ایک پوری غزل نقل کرتا ہوں۔

عشق کی آگ میں جل کر راک ہونا

عشق بازی میں چاک چاک ہونا

خاک ہونا تو سچ ہے آخر کو

خاک نا ہوے لک پنچ خاک ہونا

اس سجن کے وصال کی خاطر

آرزو دل میں لاک لاک ہونا

دل کے انکھیاں میں لانے تیں سر

اس کی پلکاں منج تلاک ہونا

ہے غواصیؔ یو عاشقانہ غزل

یو غزل سنے دردناک ہونا

غزل میں غواصی کا مقام وہ نہ سہی جو قلی قطب شاہ کا ہے مگر اس نے اردو شاعری کو ایک نئی سمت میں لے جانے کی کوشش ضرور کی ہے اور اس سے کسی بھی حال میں انکار نہیں کیا جا سکتا ہے دراصل دکن کے ان ابتدائی شاعروں کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ یہ اپنے دور کے دوسرے شاعروں سے ہٹ کر غزل کی طرف متوجہ ہوئے ورنہ دکن کا ابتدائی شعری سرمایہ زیادہ تر مذہبی مثنویوں اور شاہی قصیدوں کی آماجگاہ معلوم ہوتا ہے۔یہ بہت اتفاق کی بات ہے کہ دکن کی شاعری کے اول دور کا مطالعہ کرنے پر ہمارے ہاتھ صرف ایسے دوتین شاعر ہی لگتے ہیں جنہیں غزل سے رغبت ہے ورنہ زیادہ تر شاعر مثنوی میں اپنے جوہر دکھانے کو کمال ہنر قرار دیتے معلوم ہوتے ہیں۔ وجہیؔ ، قلی قطب شاہ، عبداﷲ قطب شاہ اور غواصی کے بعد ہمیں قطب شاہی دور میں ایسا کوئی دوسرا شاعر نظر نہیں آتا ہے جس کی طبیعت غزل کی طرف مائل نظر آتی ہو۔البتہ اس دور میں ابنِ نشاطیؔ ، فائزؔ اورشوقی ؔ وغیرہ کے یہاں اکا دکا غزلوں کے نمونے مل جاتے ہیں مگر وہ اتنے اچھے نہیں ہیں کہ انہیں اس دور کی شاعری کا نمائندہ قرار دیا جائے مگر عادل شاہی دور میں ہاشمیؔ ، ایاغیؔ اور مومنؔ وغیرہ ایسے شاعر ہیں جن کو دکن کے اولین غزل گو شعرا کا مقلد کہا جا سکتا ہے۔اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اردو شاعری میں ہاشمیؔ نے ریختی کی بھی ایجاد کی اور بہت آگے جا کر یہ سلسلہ شمالی ہند میں سعادت یار خاں رنگین اور انشا اﷲ خاں انشا کی بدولت عروج حاصل کرسکا۔نصیر صاحب نے ریختی کے اس موجد کی تعریف میں لکھا ہے کہ

’’ریختی کا بھی اس کو موجد تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے پہلے کسی شاعر نے ریختی میں اظہارِ خیال نہیں کیا تھا۔‘‘

(ص 232، نصیرالدین ہاشمی، دکن میں اردو، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان)

لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ نصیر صاحب نے ہاشمی کا جو غزلیہ نمونہ ریختی کے طور پر پیش کیا ہے وہ ایسا ٹھوس نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر اس کو ریختی کا موجد تسلیم کیا جائے۔البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ لڑکی بن کر اپنی سکھی سے بات کرتے ہوئے پیا کو یاد کرنے کا جو رجحان دکن کی شاعری میں ہمیں وجہیؔ اور اس کے معاصر شعرا کے یہاں ملتا ہے، اس کو ہاشمی نے تھوڑا سا Moderateضرور کیا ہے۔ریختی ہو یا ریختہ(بمعنی غزل)مکمل طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو شاعری میں دکن کے ان ابتدائی شاعروں نے بھی ہر طرح سے اپنی خدمات پیش کی ہیں اور ان کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مضامین شمالی ہند کے شعرا سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں، زبان ضرور تھوڑی بہت مختلف ہوسکتی ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ یعنی اورنگ آباد کے آباد ہونے تک اس میں بھی بہت حد تک کمی واقع ہو گئی اور دکن والے دہلی کی زبان میں شاعری کرنے لگے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی لکھتے ہیں کہ

’’اِن حالات کو ذرا غور سے دیکھیے تو یہ بات صاف دکھائی دینے لگتی ہے کہ دسویں صدی ہجری کے آخر تک دکن میں ہندوستانی زبان کی دو صورتیں ہو گئی تھیں، ایک وہ جو دولت آباد کے علاقے سے باہر دکن کے دراوڑی علاقوں میں رائج تھی اور جسے دلی کی زبان کے ساتھ تعلقات کو تازہ کرنے کے موقعے بہت کم ملے اور جس میں ایک طرف گول کنڈے کے قطب شاہیوں اور دوسری طرف صوفیوں نے ایک خاص دکنی ادب پیدا کر دیا تھا۔دوسری صورت زبان کی وہ صورت تھی جو دولت آباد اور اس کے نواح میں رائج تھی۔گیارہویں صدی کے آغاز میں مغلوں نے دکن کا رخ کیا اور اس کا اثر تیزی سے بڑھتا گیا۔انہوں نے اپنا مرکز دولت آباد ہی کو بنایا اور اورنگ زیب نے دولت آباد سے چند میل ہٹ کر اورنگ آباد بسایا۔شاہ جہاں اور اورنگ زیب کے زمانے میں لوگ دلّی سے جوق در جوق اورنگ آباد آئے اور اپنے ساتھ دلّی کی اردوئے معلّا لائے ، جس نے دولت آبادی علاقے کی زبان کو تازگی بخشی اور دلی کی نئی زبان کو اورنگ آبادیوں نے شوق سے اختیار کیا’ جس پر وہ آج تک فخر کرتے ہیں۔‘‘

(ص-30 29، کلیات ولی ؔ ، ولیؔ کی زبان، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، لکھنؤ)

اورنگ آباد سے پہلے ہی محمد تغلق کے ذریعے دکن میں دولت آباد(دیوگیر) کا علاقہ آباد ہونے کے ساتھ ساتھ اردوئے معلی اپنے قدم جما چکی تھی۔اس وجہ سے اس وقت کی شاعری میں دہلی والوں کی زبان کے شامل ہونے کا زمانہ کم وبیش وہی قرار پاتا ہے جو کہ غواصی اور اس کے بعد کے دوسرے عادل شاہی دور کے شعرا کا زمانہ ہے۔اس بیان کی تائید میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے لکھا ہے کہ

’’ولی ؔ کی زبان کے بارے میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے یہ نقطۂ نظر قائم کیا تھا کہ محمد تغلق کے دور میں دولت آباد وہ مقام ہے جہاں دلی کے لوگ آباد ہوئے اور ان کی آمد سے دولت آباد ایک چھوٹی دلی بن گیا ہوگا اور وہاں کی زبان وہی ہوگی جو اس وقت دلی اور اس کے اطراف میں بولی جاتی تھی۔مغلیہ عہد میں دولت آباد سے چند میل دور اورنگ زیب نے اورنگ آباد شہر بسایا۔شاہجہاں اور اورنگ زیب کے زمانے میں دلی کی بڑی آبادی تسلسل کے ساتھ اورنگ آباد کا رخ کرتی ہے اور اپنے ساتھ دلی کی زبان لاتی ہے۔یہی زبان بعد میں اورنگ آباد میں رائج ہو جاتی ہے۔‘‘

(ص227، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، اردو ادب کی تاریخ، ایم آر پبلیکشنز، نئی دہلی)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس زبان نے گولکنڈہ اور بیجا پور میں بھی اپنا اثر ضرور دکھایا ہوگا اور اس کا اثر ہمیں اس دور کے شاعروں میں نظر بھی آتا ہے۔حیرت اس بات پر ہے کہ ولیؔ کا دیوان جب دہلی پہنچا تو کیا دہلی والوں نے اس زبان کو پہچانا نہیں ہوگا جو ان کی اپنی زبان سے بہت قریب تھی یا صاف الفاظ میں کہا جائے تو یہ وہی زبان تھی جس میں دہلی والے شاعری کر رہے تھے۔اس کے باوجود ہمیں نظر آتا ہے کہ دلی کے شاعروں نے دکن کے شاعروں کو نہ صرف کم رتبہ گردانا بلکہ اردو شاعری کو فروغ دینے کا سہرا بھی اپنے سرآپ ہی باندھ لیا۔مزید ستم یہ ہے کہ اس ظلم کے خلاف ہمیں دکن کے شاعروں میں بھی کوئی خاص احتجاجی آواز اٹھتی ہوئی نہیں معلوم ہوتی ہے جس سے پتہ چل سکے کہ ادب میں دکن کے شاعروں کی خدمات کو دکن والوں نے منوانے پر زور دیا ہو بلکہ رفتہ رفتہ ہوا یہ کہ دلی والوں نے اردو شاعری کو اپنا سرمایہ سمجھ کر اس کی اجارہ داری کو خود سے منسوب کر لیا۔اس معاملے میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دکن والے شاید اس تاریخی حقیقت سے آشنا تھے کہ انہوں نے دلی کی زبان میں ہی شاعری کی ہے اور وہ جس زبان میں اپنے غزل کے نت نئے جوہر دکھا رہے ہیں وہ اصل میں دہلی والوں کی دین ہے اور یہی احساسِ کمتری تھا جس نے اردو شاعری کی تاریخ میں دکن والوں پر دہلی والوں کو فوقیت دے دی اور دکن کے شاعروں میں ولی ؔ کے بعد اکا دُکا شاعروں کے علاوہ کوئی شاعر اس کی روایت کو بڑھانے تو کجا اس کی پیروی کے دعوے بھی کھل کر نہ کر سکا۔دہلی والوں کا یہ تعصب زیادہ دن قائم رہا ہو یا نہ رہا ہو مگر اس نے اردو ادب کی تاریخ پر اپنا ایسا اثر دکھایا کہ ادب کی تاریخ کا قاری قائم کی اس بات پر صدقِ دل سے ایمان لے آیا کہ

قائمؔ میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ

اک بات لچر سی بہ زبانِ دکنی تھی

٭٭٭

 

نظریۂ غزل اور چند مباحث

اردو ادب کی تاریخ بہت بار لکھی گئی ہے مگر ابھی ایسی کتابوں کا فقدان ہے جن میں غزل صنف کے ناموں اور اس کے متعلق تاریخی بحث کو طوالت کے ساتھ محققین نے پیش کیا ہو۔اس مضمون کے آغاز میں ہی عرض کر دوں کہ یہ مضمون سراسر اردو غزل کے تعلق سے ہے اور یہاں میں جو بھی باتیں کروں گا وہ اسی کے حوالے سے ہونگی۔ ہمیں اس مضمون میں یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ غزل کو ریختہ کے نام سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ریختہ کا لفظ غزل کے لیے کیوں رائج ہوا اور اس کے پیچھے کون سے اسباب کارفرما ہیں، اس کے علاوہ یہ لفظ اول اول کون سی غزلوں کے لیے مستعمل رہا ہوگا۔محمود شیرانی نے اپنی کتاب پنجاب میں اردو میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ ریختہ کا لفظ سب سے پہلے حضرت امیر خسروؒ نے موسیقی کے ایک راگ کے طور پر استعمال کیا تھا۔دوسرے راگوں کی طرح ریختہ کی بھی اپنی خصوصیت ہے اور اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ صرف شکستہ بحروں کے لیے مختص ہے۔اس بات کا اطلاق یقینی طور پر تبھی کیا جا سکے گا جب ریختہ پر میری چھیڑی ہوئی اس بحث کو محققین اور آگے تک لے جائیں گے تاہم یہ خیال مجھے اس لیے بھی آیا ہے کیونکہ محمود شیرانی نے اپنی تحقیق کے مطابق جتنی غزلیں یا نغمے ریختہ کے طور پر دریافت کیے ہیں ان پر ابھی تک تو یہی بات پوری اترتی نظر آتی ہے۔محمود شیرانی نے موسیقی کی اس نئی اصطلاح کی تلخیص میں حضرت علاؤالدین ثانی برناوی کی تصنیف کتاب چشتیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ

’’اس اصطلاح سے موسیقی میں یہ مقصد قرار پایا کہ جو فارسی ، خیال ہندوی کے مطابق ہو اور جس میں دونوں زبانوں کے سرود ایک تال اور ایک راگ میں بندھے ہوں، اس کو ریختہ کہتے ہیں۔ریختہ کے لیے کسی پردے کی قید نہیں ہے۔وہ ہر پردے میں باندھی جاتی ہے۔‘‘

(پنجاب میں اردو، ص32، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان)

محمود صاحب نے ریختہ کی اصطلاح پر موسیقی کے قاعدوں کے اعتبار سے کوئی خاص تحقیق نہیں کی ہے البتہ وہ اس میں موجود کلام کی تحقیق کر کے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ریختہ اک ایسے نمونۂ کلام کا نام ہے جس میں فارسی اور ہندوی کلام کی آمیزش ہو اور ان کی ترتیب سے اسے پرویا گیا ہو۔لیکن میرا قیاس اس معاملے میں کچھ اور ہے۔بات دراصل یہ ہے کہ ہم ریختہ کی وجہِ تسمیہ کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔اگر موسیقی کے علم کے مطابق اس لفظ کو شکستہ بحروں یا پھر الگ الگ جگہوں پر pauseلینے والے لفظوں سے مربوط مصرعوں کے لیے مختص سمجھا جائے تو ہم کو اسے سمجھنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔چونکہ ریختن کے قریبی معنی بکھرنے کے ہیں اس لیے ہمیں اس نکتے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ حضرت امیر خسروؒ نے اس اصطلاح کو ریختہ کا ہی نام کیوں دیا۔اس باب میں سب سے پہلے ان مثالوں کو دیکھنا ضروری ہے جو ہمارے اکابرینِ ادب کی نظر میں ریختہ کی synonymمیں شامل ہیں۔محمود شیرانی نے جن غزلوں کو ریختہ کے طور پر پیش کیا ہے اُن کی بحریں مندرجہ ذیل ہیں

مصرع : زحالِ مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں

بحر : مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن

مصرع : سعدی کہ گفتہ ریختہ در ریختہ در ریختہ

بحر : مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن

مصرع : سن لے یشودا رانی تو لال کی بڈائی

بحر : مفعول فاعلاتن، مفعول فاعلاتن

مصرع : سوکھ چین کے منڈل موں ، سبھ جا کرو پکارا

بحر : مفعول فاعلاتن ، مفعول فاعلاتن

یہ ساری بحریں شکستہ ہیں اور اب تک میرے اس قیاس کی تصدیق کرتی ہیں کہ ریختہ اول اول اس کلام کو کہا گیا ہوگا جس میں بحر کے اعتبار سے شکستن اور ریختن کے عناصر پوری طرح کارفرما نظر آئیں۔ سعدی والی غزل پر محمود صاحب کو مغالطہ ہوا ہے کہ یہ غزل کسی شیخ سعدی کی ہے جو کہ اکبر کے زمانے کے ایک بزرگ ہیں۔اس کی صحیح تفصیل اور تحقیق نورالحسن ہاشمی نے اپنی کتاب ’دہلی کا دبستانِ شاعری‘ میں بیان کی ہے۔وہ اس غزل کی بابت لکھتے ہیں۔

’’۔۔۔۔۔ریختہ کی ایک غزل جو عام طور پر سعدیؔ کے نام سے تذکروں میں ملتی ہے۔ مجھے انجمن ترقی اردو دہلی کے کتب خانے کے ایک قلمی نسخے، مکتوبہ 1020ھ(بمطابق 1610 ؁ء) میں ملا شیری کے نام پر لکھی نظر آئی۔ملا شیری پنجاب کے کسی قصبہ یا موضع گلوال کے شیخ زادوں میں سے تھے ۔ اپنے والد مولانا یحیےٰ سے علوم مروجہ سیکھے۔اکبر بادشاہ ان کی زود گوئی سے خوش ہوا اور اپنے دربار میں اچھے منصب پر رکھ لیا۔قصیدہ گوئی و قطعہ گوئی میں اپنے معاصرین میں ممتاز تھے۔‘‘

(دہلی کا دبستانِ شاعری، ص38، مطبوعہ اتر پردیش اردو اکادمی)

خیر سعدی و شیری کی بحث تو یونہی درمیان میں آ گئی تو میں نے بھی صراحت ضروری سمجھی ، چونکہ میرا اس بحث سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ یہ مصرع محمود صاحب نے کس طرح نقل کیا اور جن شیخ سعدی کی وہ بات کر رہے ہیں اکبر کے دور میں ان کی موجودگی کو انہوں نے کیونکر تسلیم کر لیا اس لیے یہاں اس بات سے صرفِ نظر کرنا ہی بہتر ہوگا مگر جو بات یہاں ہو رہی ہے وہ ہے ریختہ کی اور اس کے اصطلاحی معنی کی اصل دریافت کی۔محمود صاحب نے اپنی کتاب میں کچھ اور مثالیں بھی دی ہیں۔جن میں عہدِ ہمایوں کے ایک شاعر شیخ جمالی سے منسوب یہ ریختہ کی ایک غزل بھی شامل کی ہے ، جس کا ایک شعر یوں ہے ۔

خوار شدم زار شدم لت گیا

در رہِ عشق تو کمر تتا ہے

اس شعر میں ہندی اور فارسی کی آمیزش تو نظر آتی ہے مگر اسے سراسر ریختہ ماننے میں اختلاف کی بھی گنجائش ہے ۔اول تو یہ بات کہیں سے ثابت نہیں ہے کہ یہ شعر شیخ جمالی کا ہی ہے اور اگر اس کا تدارک نہ کر پانے کی بنا پر ہمیں یہ تسلیم ہی کرنا پڑے تو اس میں بہرحال شک باقی رہتا ہے کہ شیخ جمالی نے خود اسے ریختہ کہا ہو۔آخر میں جو بات سب سے زیادہ موثر معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شیخ جمالی کے عہد میں اور حضرت امیر خسروؒ کے دور میں کئی صدیوں کا فرق ہے اس لیے ممکن ہے کہ ریختہ اس دور تک پہنچتے پہنچتے اپنی اصل حالت سے بگڑ گیا ہو اور شمالی ہند کے کچھ شاعروں نے کچھ ہندوی اور فارسی کلام کے ملے جلے نمونوں کو ریختہ کا نام دے دیا ہو۔حالانکہ اس غزل کو پوری طرح سے ریختہ کی شرط کے برخلاف بھی نہیں کہا جا سکتا ہے ، جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ غزل فاعلتن فاعلتن فاعلن کی بحر میں کہی گئی ہے اور اس میں ہم صاف طور پر کئی جگہ بحر کی ریخت کو محسوس بھی کرسکتے ہیں مثلاً

خوارشدم+زار شدم+لت گیا

اس لیے بہت ممکن ہے کہ اس زمانی امتیاز کی بنا پر کئی شاعروں نے ریختہ کی زمین میں اپنے اپنے تجربوں سے کام لے کر اسے وسیع تر کرنے کی کوشش کی ہو ، بہر حال اس دور تک ہمیں ریختہ کی وہ تعریف صاف نظر آتی ہے جو ہم نے قیاسی طور پر اس کے لیے قائم کی ہے۔شیخ باجن کی ایک غزل کا شعر بھی محمود صاحب نے اپنی اس تحریر میں شامل کیا ہے جسے بقولِ محمود شیرانی خود شیخ باجن ریختہ قرار دیتے ہیں۔ غزل کا مطلع ہے‘

باجن یہ وہ روپ نہ ہوئے جو کوئی بکھانے

بکھانے آپ کو جیوں سبہ کوئی جانے

اول بات تو یہ ہے کہ اسے ریختہ قرار دینے میں خود ریختے کی وہ بنیادی شرط آڑے آتی ہے جس میں فارسی کلام کا ہندی سے ہم آغوش ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔عروضی نقطۂ نظر سے بھی اس مطلع کو مکمل اور صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔عروض کی اس بحث کو اگر یہاں سے ادھورا بھی چھوڑ دیا جائے تب بھی ہمیں یہ بات ضرور ملحوظِ نظر رکھنی ہوگی کہ باجن نے خود اس غزل کو ریختہ کے ذیل میں نہیں رکھا ہے۔ہمیں جہاں تک ریختہ کی تعریف اور اس کے اوصاف کا اندازہ ہے اس کے لحاظ سے اس غزل کو ریختوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔بہت سے ناقدین ادب کی طرح محمود صاحب کا خود بھی یہی ماننا ہے کہ اس دور تک ریختہ کا لفظ نثرِ اردو کے لیے مستعمل نہیں ہوا تھا، شیخ باجن کے تعلق سے جو اہم بات ہمارے پیشِ نظر ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ انہوں نے غزلیں کہی ہی نہیں ہیں اس لیے اس مغا لطے کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ریختہ لفظ سے مراد ان کی کہی ہوئی غزل ہے یا ہوگی ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے اپنی کتاب ’’اردو ادب کی تاریخ، ابتدا سے 1857تک‘‘میں باجن کے کلام کی تفصیل یوں بیان کی ہے کہ

’’شیخ باجن کے کلام میں نظمیں، گیت، دوہرے، قطعے اور جکریاں ملتی ہیں۔جکری، ذکری کی بگڑی ہوئی شکل ہے اور اس کا ماخذ ’ذکر‘ ہے۔شمالی ہند کے صوفیا کی مجالس میں نظم کی اس قسم نے چودھویں، پندرھویں صدی میں بہت مقبولیت حاصل کی تھی۔اس کا اطلاق ایسی نظموں پر ہوتا تھا جن میں اور مضامین کے علاوہ سلسلے کا شجرہ اور مشائخ کی مدح ہوتی تھی۔‘‘

(اردو ادب کی تاریخ، ابتدا سے 1857تک، ص63، مطبوعہ ایم ۔آر۔پبلی کیشنز، دہلی)

اسی بات کو شمس الرحمان فاروقی صاحب نے بھی بیان کیا ہے۔آپ شیخ بہاؤالدین باجن کے کلام کے معاملے میں یوں رقم طراز ہیں کہ

’’شیخ باجن کو اردو کا پہلا باقاعدہ ادیب کہا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔(الخ)شیخ موصوف نے اپنے فارسی اور ہندوی کلام کا ایک مجموعہ اپنے پیر شیخ رحمت اﷲ کے نام سے مرتب کیا ۔اس مجموعے میں انہوں نے اپنی تصنیف کردہ ہندی؍ ہندوی جکریاں بھی شامل کیں۔جکری اس زمانے میں شمال و جنوب کی معروف و مقبول صوفی صنف سخن تھی۔‘‘

(اردو کا ابتدائی زمانہ، ص69، مطبوعہ آج کی کتابیں، کراچی)

اسی کے ساتھ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے اپنی تحقیق کے ذریعے باجن کے کلام ’’خزائن رحمۃ اﷲ‘‘ کے ذیل میں محمود شیرانی کے اس قول کی تردید کی ہے کہ باجن نے اپنے کلام پر ہندی اور گجری کے ساتھ دہلوی کا بھی اضافہ کیا تھا۔کاشمیری صاحب کا ماننا ہے کہ شیخ فرید اور ظہیرالدین مدنی نے باجن کے قلمی نسخوں کو دیکھا تھا اور اس پر دہلوی کے لفظ کی موجودگی سے صاف طور پر اپنے تحقیقی مضامین میں انکار کیا تھا۔تاہم ان جکریوں کو ریختہ سے تعبیر کرنے کے پیچھے وہی خاص بحور والی شرط کارفرما ہے۔میری اس بات کو اس حوالے سے بھی تقویت ملتی ہے جس کو فاروقی صاحب نے اپنی کتاب اردو کا ابتدائی زمانہ میں باجن کے دیوان کے ہفتم باب سے پیش کیا ہے اور جس کی تلخیص یہ ہے کہ ان میں سے کچھ جکریاں شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی شان میں کہی گئی ہیں ، کچھ گجرات کی ثنا میں اور کچھ خاص باجن کے نجی مطالب کی ہیں اور قوال انہیں الگ الگ موقعوں پر مختلف سرود کے ذریعے گاتے ہیں۔ان تمام شواہد کے باوجود اگر ریختہ بہ معنی غزل کو شیخ باجن سے منسوب بھی کیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر باجن جو کہ ایک گجراتی نژاد ہندوی شاعر تھے صنفِ ریختہ میں طبع آزمائی کر رہے تھے تو پھر اس لفظ کے استعمال کو دکن یا گجرات میں ولیؔ سے پیشتر موجود دوسرے شاعروں نے غزل کے طور پر کیوں استعمال نہیں کیا؟اس بات کی تصدیق خود ’دکن میں اردو‘ کے مصنف نصیرالدین ہاشمی اس طرح کرتے ہیں کہ

’’میرا خیال ہے کہ جس طرح دکن میں اردو کا نام دکھنی رکھا گیا تھا اسی طرح شمالی ہند میں وہ پہلے پہل ریختہ کے نام سے موسوم ہوئی ہوگی اور ولیؔ نے بھی اس کا استعمال اپنے سفرِ دہلی کے بعد کیا ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ دکھنی شعرا کے قطعِ نظر شمالی ہند کے شعرا نے لفظ ریختہ کو عام طور سے استعمال کیا ہے۔‘‘

(دکن میں اردو، ص39، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان)

یہاں یہ نکتہ نظر میں رہنا ضروری ہے کہ نصیر جس ریختہ لفظ کی بات کر رہے ہیں وہ زبان کا مرادف ہے نہ کہ غزل کا جبکہ میری رائے میں دکن کے شاعروں میں ولی سمیت کسی نے بھی اسے زبان کے معنی میں استعمال نہیں کیا ہے اس سے بھی میرے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ریختہ کا لفظ ولی کے یہاں پہلی بار خالص غزل کے لیے استعمال ہوا ہے حالانکہ ریختہ کے جو اول نمونے ہمارے سامنے موجود ہیں ان کو بنیاد بنا کر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صنف کے طور پر اس لفظ کا استعمال پہلے شمالی ہند میں ہی ہوا ہوگا۔اول اس کی صورت یہ رہی ہوگی کہ اسے صرف شکستہ بحروں کے لیے مخصوص کیا گیا ہوگا مگر بعد میں زمانی انقلاب نے اس میں ایسی بحروں کو بھی شامل کیا جن میں ایک سے زیادہ بار شکستن کا عمل موجود ہو۔فنونِ لطیفہ کی تاریخ میں اس بات کے بہت سے شواہد ملتے ہیں کہ پہلے پہل جن راگ راگنیوں، سازوں اور رقص وغیرہ کی حالت کچھ اور ہوتی ہے وقت کے ساتھ ان کے قواعد و قوانین میں فرق آ جاتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ یہ فرق خاص عوامی دلچسپی اور کم فہمی کی بنیاد پر ہی اپنی جگہ لوگوں کے دلوں میں بنا لے بلکہ اس میں بہت کچھ ان فنون کے ماہرین کا بھی دخل ہوتا ہے جو نئے تجربات کی دھن میں اپنی ہنر مندیوں سے ان میں کچھ کمی بیشی کرتے رہتے ہیں اور سچ پوچھا جائے تو تجربہ ہی ہر زمانے میں نئی دریافت کو سامنے لانے کا محرک ہوتا ہے جس طرح حضرت امیر خسروؒ نے پکھاوج کو درمیان میں سے تقسیم کر کے طبلے کو دریافت کیا اسی طرح شاعری کے نئے تجربے ہی دراصل نئی اصناف کی دریافت اور تشکیل کے اسباب میں شمار ہوتے ہیں اور پھر اردو شاعری تو شروعات سے ہی نئے نئے تجربات کی آماجگاہ رہی ہے اور آئے دن ہمارے یہاں غزل، رباعی اور قطعہ جیسی اصناف میں تجربے بھی کیے جاتے ہیں۔اس سے قطعِ نظر کہ یہ تجربے تاریخ میں کتنے کامیاب رہے ہوں ان کا کچھ نہ کچھ فرق ہماری اصناف پر ضرور پڑتا ہے۔لفظ کی ساخت اورنظم کی ہئیت کی طرح اردو غزل بھی طرح طرح کے ادوار میں بنتی اور بگڑتی رہی ہے۔اردو میں اس کا وجود یونہی قائم نہیں ہوا ہے بلکہ آہستہ آہستہ اس کے گیسوؤں کو شانۂ مشق سے سنوارا گیا ہے۔ہوسکتا ہے میری اس بحث میں ریختے کی صحیح تعریف بیان ہونے میں کچھ کوتاہی ہوئی ہو مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ریختہ ابتدا میں غزل کے کسی خاص فارمیٹ کانام رہا ہوگا جس کی صحیح تحقیق بے حد ضروری ہے اور جہاں تک اس لفظ کے سفر کی داستان ہمارے سامنے موجود ہے اس کے ذریعے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ غزل کے طور پر ریختہ کا لفظ ہندوی کلام میں جب استعمال ہوا ہے وہ زمانہ گیارھویں ہجری کی ابتدا کا ہے، خاص طور پر ابھی تک کی تحقیق تو یہی ثابت کرتی ہے کہ اس دور میں غزل ، گیت، بھجن یا مناجات کی ایک خاص قسم کو ریختہ کا نام دیا جاتا تھا۔ابھی یہ بات تحقیق طلب ہے کہ اس لفظ کو سب سے پہلے اپنی اصل راہ سے الگ ہٹ کر کس شاعر نے غزل کے طور پر استعمال کیا اور وہ کون سا شاعر، نثار یا تاریخ دان تھا جس نے اردو زبان کو سب سے پہلے ریختہ کے نام سے موسوم کیا۔اگر نصیر الدین ہاشمی کو ریختہ بمعنی غزل کے لیے اردو میں اپنی تحقیق کا بنیادی رکن بنایا جائے تو ریختہ کو ولی نے 1700 ؁ء کے بعد یعنی اٹھارہویں صدی کے بالکل آغاز میں اپنے سفرِ دہلی کے بعد گجرات یا دکن میں غزل کے طور پر استعمال کیا ہوگا۔یہاں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ لفظ ولی ؔ نے دہلی میں ہی استعمال کیا ہواور بعد میں اسے جاری رکھا ہو۔اس بات پر چونکہ تفصیل سے ابھی کسی ماہر ادیب و ناقد نے کوئی روشنی نہیں ڈالی ہے اس لیے یہاں اس بات کو اس بحث کے آغاز کے طور پر ہی تسلیم کیا جائے اور جب تک یہ بات ثابت نہیں ہوتی ہے تب تک کسی بھی طرح سے اسے وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا البتہ ریختہ بمعنی غزل کا لفظ نورالدین ہاشمی کی تحقیق کے مطابق اس سے پہلے پنجاب میں ملا شیری کے ذریعے ایک صدی قبل یعنی ستررہویں صدی کے شروعاتی دور میں استعمال ہوچکا تھا۔اس طرح لفظ ریختہ بمعنی غزل کا تاریخی سفر پنجاب سے دہلی اور دہلی سے دکن تک کا قرار پائے گا مگر سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس لفظ کا رشتہ دکنی غزل سے کچھ اس طرح قائم ہوا کہ بعد میں اسے دکن کے شاعروں نے یا کہا جائے کہ ولی کے معاصرین نے غزل کے طور پر زیادہ استعمال کیا ہے اور رفتہ رفتہ ریختہ نے دکن یا گجرات کے شعرا میں غزل لفظ کی جگہ لے لی۔یہاں ایک اور بات کا ذکر خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ ہم جس ریختہ لفظ کا استعمال شمالی ہند میں پہلے دیکھتے چلے آرہے تھے اس میں شکستہ بحر کی شرط بدستور قائم تھی لیکن جس شاعر کو ہم سب سے پہلے دونوں بنیادی شرطوں سے انحراف کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ ولیؔ ہے۔ولی ؔ نے ریختہ کے لیے نہ تو شکستہ بحر کی کوئی شرط ملحوظ رکھی ہے اور نہ ہی فارسی اور ہندی کلام کی آمیز ش کی کوئی بندش خود پہ لگائی ہے اور مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے اپنے کلام کو ریختہ کا نام دینے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے مثال کے طور پر اس کا ایک شعر دیکھیے

امید مجھ کوں یوں ہے ولیؔ کیا عجب اگر

اس ریختے کو سن کے ہو معنی نگار بند

اک بڑا نکتہ ریختے کے معاملے میں یہ ہے کہ اس بات کا خیال آناکسی بھی ذی فہم کے لیے ناگزیر ہے کہ جب غزل کی اصطلاح شاعری میں موجود تھی تو پھر ریختے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور کن وجوہات کی بنا پر ریختے نے غزل کی جگہ لے لی۔اس سے یہ بات تو صاف ہو جاتی ہے کہ اول اول ریختہ کسی ایسی صنفِ سخن کا نام ہوگا جس کے قواعد غزل سے کچھ منفرد ہونگے، اب اٹھارہویں صدی عیسوی کے وسط میں میر کے ریختہ کے بارے میں اُن بیانات کی طرف آئیے جنہیں محمود شیرانی ان کی ذہنی اُپج قرار دیتے ہیں۔میر نکات الشعرا کے خاتمے میں ریختہ کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ

اول آنکہ یک مصرعش فارسی و یک ہندی چنانچہ قطعہ حضرت امیر خسرو علیہ الرحمۃ نوشتہ شد

دویم آنکہ نصف مصرعش ہندی و نصف فارسی چنانچہ شعر میر معز (موسوی مرقوم)

سویم آنکہ حرف و فعل فارسی بکارمی برند وایں قبیح است

چہارم آنکہ ترکیباتِ فارسی می آرند

غور کیجیے کہ ریختہ کی یہ جو شرطیں میر نے بیان کی ہیں اُن پر خود اُن کا وہ کلام پورا نہیں اُترتا جسے وہ ریختہ کی صف میں شامل کرتے ہیں، کم از کم مجھے یہاں میر کے جو ریختہ والے اشعار یاد آرہے ہیں اُن پر تو اِن چاروں میں سے کوئی شرط بھی پوری اترتی نظر نہیں آتی۔یہ اشعار دیکھیے

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ

مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں

کس کس طرح سے میرؔ نے کاٹا ہے عمر کو

اب آخر آخر ان کنے یہ ریختہ کہا

سرسبز ملک ہند میں ایسا ہوا کہ میرؔ

یہ ریختہ لکھا ہوا تیرا دکن گیا

ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے

معتقد کون نہیں میرؔ کی استادی کا

دل کس طرح نہ کھینچیں اشعار ریختہ کے

بہتر کیا ہے میں نے اس عیب کو ہنر سے

میرؔ کس کو اب دماغِ گفتگو

عمر گزری ریختہ چھوٹا گیا

ان اشعار کے علاوہ بھی میر کی غزلوں میں فارسی تراکیب کو گڑھنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی گئی ہے مندرجہ بالا اشعار میں بھی اگر ریختہ کا لفظ نظر انداز کر دیا جائے تو میر کے یہ شعر آسان ہندوی زبان کے ہیں جن کا اُن تمام شرطوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جن کو خود میرؔ نے بیان کیا ہے، ذرا سوچیے اگر ان شعروں میں سے ریختہ لفظ کو ہٹا دیا جائے اور پھر انہیں میر کے قواعدِ ریختہ کی کسوٹی پر گھس کر دیکھا جائے تو کیا یہ کسی طرح بھی ریختہ کہلا سکیں گے۔شیرانی صاحب نے اسی الجھن کے سبب یا پھر کسی اور وجہ سے میر کی ان شرطوں کو ان کی ذہنی اُپج سے تعبیر کیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ میر نے اول جو دو شرطیں بیان کی ہیں ان میں ان سے سہو ضرور ہوا ہے کہ انہوں نے اول شرط کو قطعۂ امیر خسروؒ کی طرف منسوب کیا ہے جبکہ خسروؒ کے کلام پر دوسری شرط صادق آتی ہے اور یہی دوسری شرط ریختہ کی بنیادی شرطوں میں سے اول اول ایک رہی ہوگی۔ہم اس بات کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایسی شرطوں کا التزام اکثر شعرا کے یہاں دیکھنے کو مل جاتا ہے جو وہ اپنے ساتھ ساتھ معاصر کلام پربھی عائد کرتے ہیں مگر وہ یہ نہیں دیکھ پاتے کہ خود ان کے یہاں بھی اس شرط کا اہتمام صرف اس لیے نہیں ہوسکا ہے کیونکہ شاعری کے اپنے تقاضے کچھ اور ہیں اور وہ ان نام نہاد معائبِ شعری سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتی، اس کی سب سے بہتر مثال جو میرے ذہن میں سب سے پہلے آئی وہ حسرت موہانی کے کلام کی ہے۔معروف ناقد شمس الرحمان فاروقی نے اپنی کتاب عروض آہنگ اور بیان میں حسرت کی عائد اور ایجاد کردہ شرط یا عیب شکستِ ناروا پر خاصی طویل بحث کی ہے، فاروقی صاحب نے حسرت ؔ موہانی کی اس شرط کو اپنی کتاب میں رقم کیا ہے ، حسرتؔ شکستِ ناروا کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ

’’فارسی اور اردو کی شاعری میں جو بحریں مروج ہیں ان میں سے بعض کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر مصرعے کے دو ٹکڑے ہو جایا کرتے ہیں۔ایسے تمام اشعار میں اگر مصرعے کے ٹکڑے علیحدہ علیحدہ نہ ہوسکیں بلکہ ایسا ہو کہ کسی لفظ یا فقرے کا ایک حصہ ایک ٹکڑے میں اور دوسرا حصہ دوسرے ٹکڑے میں لازمی طور پر آتا ہو تو یہ بات یقیناً معیوب سمجھی جائے گی اور شاعر کی کمزوری پر دلالت کرے گی۔شکستِ ناروا اسی عیب کا نام ہے۔‘‘

(بحوالہ عروض آہنگ اور بیان، ص97، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان)

حسرت نے اس بیان کے ذیل میں اقبال اور دوسرے شاعروں کے مصرعوں پر بھی بحث کی ہے جس کی تلخیص یہ ہے کہ مثال کے طور پر اقبال کے مصرعے ’کہ ہزاروں جلوے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں‘ میں آدھا مصرعہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہزاروں جلوے تڑپ رہے ہیں پر بات ختم ہونی چاہیے تھی مگر یہ بات جگ ظاہر ہے کہ شاعری میں ان باریکیوں کا خیال رکھنا ایک تو ممکن نہیں اور دوسرے اگر ہو بھی تو اس کی پیروی سے شعری حسن کے پائمال ہونے کا اندیشہ بہر صورت ہوتا ہے، خیر حسرت ؔ نے اس عیب کو بیان کیا ہے تو گمانِ غالب ہے کہ ان کے یہاں خود یہ عیب نہیں ہوگا ، لیکن ایساکچھ نہیں ہے ، میں یہاں اُن کی ایک غزل جس کا پہلا مصرع ’بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں’ ہے کا عروضی جائزہ لیتا ہوں تو کچھ مصرعے خود ان کے یہاں شکستِ ناروا کی موجودگی پر دلالت کرتے ہیں۔ملحوظ رہے کہ حسرت کی یہ غزل ’مفاعیلن، مفاعیلن، مفاعیلن، مفاعیلن‘ کے ذیل میں آتی ہے، میں یہاں صرف وہ مصرعے نقل کروں گا جن میں شکستِ ناروا کا عیب موجود ہے، ملاحظہ ہو

ع نہ چھیڑ اے ہم نشیں کیفی؍ یتِ صہبا کے افسانے

ع شرابِ بے خودی کے مجھ؍ کو ساغر یاد آتے ہیں

ع رہا کرتے ہیں قید وہو؍ ش میں اے وائے ناکامی

ع نہیں آتی تو یاد اُن کی؍ مہینوں بھر نہیں آتی

ع تجھے تو اب وہ پہلے سے ؍ بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حسرتؔ کے یہاں ان مثالوں کی بہتات ہے، ذاتی طور پر مجھے خود یہی لگتا ہے کہ شاعری پر کسی بھی طرح کی قید و بند لگانا ٹھیک نہیں کیونکہ جو مصرع طبیعت کوجس طرح بھلا معلوم ہوتا ہے اُسی انداز میں رقم ہو جاتا ہے، سچ پوچھا جائے تو حسرتؔ کے یہ مصرعے سننے میں ایسے برے بھی نہیں معلوم ہوتے مگر شکستِ ناروا کی پخ لگانے سے انہیں معیوب قرار دیا جا سکتا ہے ، مگر عروض دان حضرات، حتٰی کہ خود حسرت بھی ان کے شعری حسن کو نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں، اس مثال سے میری مراد یہ تھی کہ آپ کو یہ بات سمجھا سکوں کہ شاعری میں شرطیں وضع کر لینا اور بات ہے اور ان کا باقاعدگی سے احترام کرنا اور بات، دراصل ہمارے دور میں جس طرح کی شاعری ہو رہی ہے یا شاعری کے وسیع کینوس پر جو نئے رنگ شامل ہو چکے ہیں اُن کو کسی بھی طرح شہر بدر نہیں کیا جا سکتا۔اس بات کو نہ ماننے والوں کی مثال ایسی ہے جس طرح ابو جہل کے ہاتھوں میں موجود کنکروں کی کلمۂ شہادت کی گردان کے باوجود اُس کو اسلام کی حقانیت سے انکار تھا۔شاعری کے باب میں بھی یہ فطرت کے بنائے ہوئے اصول ہیں جنہیں نہ تو ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کم کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح جب ہم میرؔ کے عرصۂ شاعری پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ میرؔ کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اور ان کے ہم عصر شاعر جس شاعری کا تتبع کر رہے ہیں وہ ولی ؔ کی ہے اور اس نے ریختہ کے قاعدوں میں پھیر بدل کر کے اٹھارہویں صدی میں اسے ایک نئے لغوی معنی دیے تھے اور وہ معنی تھے اردو غزل کے۔میر کی اگلی دو شرطوں کو بھی سرے سے خارج نہیں کیا جا سکتا، بات دراصل وہی ہے کہ ریختہ کے لیے ہندی اور فارسی کلام کی آمیزش کا جو قاعدہ ابتدا سے طے ہے وہ ذہنوں سے یونہی نکل نہیں سکتا تھا اور اسی وجہ سے ایک لمبے زمانی فرق کے باوجود میرؔ کے زمانے میں بھی یہ شرطیں ذرا سی ترمیم شدہ شکلوں کے ساتھ اور جگہوں پر دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔اب آئیے ریختہ اور دہلی کے تعلق کی طرف تو اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہلی والوں نے جب ولی ؔ کو اپنا استادِ معنوی تسلیم کیا تو ان میں بہت سے ایسے تھے جنہیں ریختہ لفظ کو اردو غزل کے طور پر ماننے سے لاشعوری طور پر کچھ اعتراض تھا اور اس کی وجہ تھی فارسی کی وہ غزل جو دہلی والوں کے ذہنوں سے کسی بھی طرح دیس نکالا نہیں پاسکتی تھی۔اس بات پر سب سے پہلے اردو کے مشہور محقق جناب شمس الرحمان فاروقی نے اپنی کتاب ’’اردو کا ابتدائی زمانہ ‘‘ میں بحث کی تھی ، دہلی میں ریختہ اور غزل کی مناسبت سے آپ لکھتے ہیں کہ

’’فارسی کی طرف جھکاؤ اور فارسی (یا سبک ہندی) کی غیر معمولی توقیر و مقبولیت کا ایک ثبوت اس بات میں بھی ملتا ہے کہ دلی والے ایک عرصۂ دراز تک ’غزل‘ اور ’ریختہ ‘ میں فرق کرتے رہے۔یعنی وہ ریختہ میں کہی ہوئی غزل کو غزل نہیں صرف ریختہ قرار دیتے تھے۔غزل کی اصطلاح صرف فارسی غزل کے لیے تھی۔‘‘

(اردو کا ابتدائی زمانہ، ص116، مطبوعہ آج کی کتابیں، کراچی1999 ء)

فاروقی صاحب کے اس بیان کا مآخذ قائم ؔ اور مصحفی ؔ کے مندرجہ ذیل شعر ہیں

قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ

اک بات لچر سی بہ زبانِ دکنی تھی

مصحفی ریختہ کہتا ہوں میں بہتر زغزل

معتقد کیونکے کوئی سعدیؔ و خسروؔ کا ہو

مصحفی کے شعر میں یہ بات صاف ہے کہ انہوں نے ریختہ اور غزل کی لفظی مناسبت کا اہتمام کرتے ہوئے شعر میں حسن پیدا کرنے کے لیے اردو غزل کو ریختہ اور فارسی غزل کو غزل سے پکارا ہے مگر اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ تمام دہلوی شعرا اس دور میں اس بات کو ملحوظِ نظر رکھتے ہونگے اور اس طرح کی غلط فہمی بھی پیدا نہ ہونے پائے کہ دہلی میں باقاعدہ کسی شعوری منصوبہ بندی کے ساتھ غزل اور ریختہ کی اس تقسیم کا کوئی لحاظ رکھا گیا تھا، اول تو اس بات کو ذہن تسلیم نہیں کرتا اور دوئم کسی بھی تاریخی شعر و ادب کی کتاب میں اس طرح کی کسی بات کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا اس لیے فقط دو شعروں کی بنیاد پر اس طرح کا نظریہ قائم کر لینا شاید مناسب نہیں ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ قائمؔ کے شعر میں جو بات کہی گئی ہے وہ عام طور پر اس زمانے کا اندازِ تفخر ہے جو کہ کئی شاعروں کے یہاں مل جاتا ہے اور یہاں قائم نے غزل لفظ کو فارسی غزل کے طور پر نہیں برتا ہے بلکہ وہ دہلوی غزل او ر دکنی ریختہ کے فرق کو بڑی خوبصورتی سے واضح کر رہے ہیں۔اور اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ دہلی والے غزل لفظ سے صرف فارسی غزل مراد لیتے تھے تو پھر قائم اور ان کے معاصر شعرا کو یہ چاہیے تھا کہ وہ اردو غزل کا ذکر جہاں بھی کرتے اس بات کا خیال رکھتے کہ وہاں صرف ریختہ کا ہی لفظ آئے ، غزل کا لفظ شامل نہ ہونے پائے۔ظاہر ہے کہ یہ شعر اس دور میں دہلی کی پوری اردو شاعری کا نمائندہ نہیں ہے بلکہ مصحفی ہی کی طرح قائم کی بھی ایک ایسی کوشش ہے جس نے مناسبتِ لفظی سے کام لیتے ہوئے ریختہ اور غزل کے الفاظ کا رتبہ بتایا ہے اور پھر اس معاملے میں قائم ؔ کے دوسرے مصرعے’ اک بات لچر سی بہ زبانِ دکنی تھی‘ سے یہ صاف ظاہر ہے کہ قائم نے دکن کے ریختے کو دہلی کی غزل کا ہم پایہ بنانے میں جو رول ادا کیا ہے وہ اس کا اعلان کر رہے ہیں۔اس دور کے کئی دوسرے شاعروں نے بھی غزل لفظ کو بطورِ شاعری ، اظہارِ فن شعر کے استعمال کیا ہے ، مثالیں ملاحظہ ہوں

روانی دریا کی پانی ستی کچھ کم نہیں ناجی

بھریں پانی ہم ایسی جو کوئی لاوے غزل کہہ کے

(ناجیؔ )

جی میں آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزوں کیجے

دردِ دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا

(میرؔ )

مانوں گا شاعری کو میں قائم تری تبھی

سرسبز یہ غزل ہو جو نواب کے حضور

(قائم)

انشا ؔ غزل جو طرح ہوئی ہے سو اب وہ پڑھ

اس کی تو ہم نے خوب سجاوٹ سے غش کیا

(انشاؔ )

جرأت کی غزل جس نے سنی اس نے کہا واہ

کیا بات ہے کیا بات ہے کیا بات ہے واﷲ

(جرأت)

فکرِ غزل میں لاکھوں سے بہتر ہے مصحفی

(مصحفیؔ )

یہ مثالیں یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ ان سارے شعروں میں غزل سے مراد ’اردو غزل ‘ ہی ہے نہ کہ فارسی غزل ، اس حوالے سے سوداؔ کا ایک اور شعر بھی پیش کیا جا سکتا ہے جس میں غزل اور ریختہ کے الفاظ ایک ساتھ آئے ہیں، سوداؔ لکھتے ہیں کہ

ہر بیت رکھے ہے یہ غزل ایسی ہی مربوط

سوداؔ کوئی جوں ریختے کے گھر پہ کرے گچ

بات یہاں بھی اسی لفظی مناسبت کی ہے مگر سوداؔ کے شعر میں لطف یہ ہے کہ ریختہ کے گھر پہ گچ کرنے میں انہوں نے زبردست لفظی ایہام سے بھی کام لیا ہے۔چونکہ ریختہ کا ایک مطلب ٹوٹا اور بکھرا ہوا بھی ہے اس لیے یہاں اس شعر کے معنی میں کسی ویران کدے کو آباد کرنے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے، شعر کا جودوسرا آسان اور صاف مطلب نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ میری اس مربوط غزل نے بوسیدہ غزل کدے(ریختہ کے گھر) کو رنگ و روغن عطا کیا ہے۔ان مثالوں کو پیش کرنے سے میری مراد یہی تھی کہ آپ کی سمجھ میں یہ بات آ جائے کہ اس دور میں ایسا کوئی خاص نظریہ موجود نہیں تھا جس میں اردو غزل کو ریختہ اور فارسی غزل کو ہی غزل کہا جائے اور یہ اس لیے بھی ممکن نہیں تھا کیونکہ غزل اور ریختہ اس دور میں ایک دوسرے کے مرادف الفاظ کے طور پر آئے تھے ، البتہ جب کبھی شاعر کو اپنے فن کا انتہائی کمال دکھانا ہوتا تھا تو وہ غزل اور ریختے میں اس فرق کو کبھی فارسی اور اردو غزل اور کبھی شمالی ہند اور جنوبی ہند کی اردو غزل کے امتیاز کے ساتھ پیش کر دیتا تھا۔یہ بات صاف ہے کہ ریختہ کا زیادہ استعمال دکن میں ہونے کے باوجود غواصی سے ولی تک لفظ غزل کی جو مقبولیت برابر چلی آ رہی تھی وہ کسی بھی حال میں کم نہیں ہوئی تھی ۔مثالیں ملاحظہ ہوں

ہے غواصی یو عاشقانہ غزل

یو غزل سنے درد ناک ہونا

(غواصیؔ )

اے ولی اس گل بدن کے عشق میں

شغلِ بلبل ہے غزل خوانی ہنوز

(ولیؔ )

غزل اور ریختہ کی اس مماثلت کے لیے نثر سے بھی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ، میر نے نکات الشعرا میں مصحفی نے تذکرۂ ہندی میں اور قاسم نے مجموعۂ نغز میں کئی مقامات پر اردو غزل کے لیے غزل کا لفظ بھی استعمال کیا ہے ، یہ بات صرف انہی لوگوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس زمانے کے کئی دوسرے مؤلفین اور مصنفین نے بھی اس لفظ کو ریختہ کی جگہ پر تحریر کیا ہے جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کا کوئی امتیاز شعوری طور پر دہلی کے شاعروں اور سخندانوں کے یہاں نہیں پایا جاتا جس کا ذکر فاروقی صاحب نے اردو کا ابتدائی زمانہ میں کیا ہے۔ریختہ اور غزل پر ہونے والی اس گفتگو میں ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا اور وہ یہ ہے کہ عام طور پر ہم ریختہ کو مذکر ہی سمجھتے ہیں اور اسے ہمارے کلاسیکل شعرا نے زیادہ تر مذکر ہی باندھا ہے مگر سراسر ایسا نہیں ہے اور شروعات کی ایک دو مثالیں ایسی بھی ہیں جن سے یہ بات

سمجھ میں آتی ہے کہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں لفظِ ریختہ جہاں ایک طرف اپنے لغوی اور اصطلاحی معنی کی تشکیل میں گم تھا وہیں اس کے مذکر اور مونث ہونے پر بھی اختلاف کی صورتیں موجود تھیں اس باب میں جرأت کا ایک شعر میری نظر میں آیا ہے

کہہ غزل اور اس انداز کی جرأت اب تو

ریختہ جیسے کہ اگلی تری مشہور ہوئی

(جرأت)

میرے سامنے اس بات کو تحریر کرتے وقت جرأت کا دیوان نہیں ہے اس لیے میں یہ بات پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتا مگر قیاس چاہتا ہے کہ جرأت نے جس لفظِ ریختہ کو مونث استعمال کیا ہے اس کی تاریخ بڑی عجیب اور دلچسپ رہی ہوگی۔اس لفظ کا استعمال بارھویں صدی ہجری کی ابتدا سے تیرھویں صدی کے آخر تک ہوتا رہا اور غالب اور ان کے معاصرین کے یہاں بھی اس لفظ کو اردو غزل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔میرا یہ مضمون اس بحث کا آغاز سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاصرین ناقد اور محقق حضرات غزل کی تاریخ پر توجہ دیں اور ریختہ اور غزل کے سفر کی روداد کو مفصل بیان کرنے کی کوشش کریں تاکہ یہ بات صاف ہوسکے کہ ریختہ کا لفظ معنوی طور پر کب بگڑا اور غزل کے مرادف کے طور پر کون سے دور میں صحیح طور پر اس کو قبولیت عوام و دوام ملی۔

مطبوعہ ’’آج کل ‘‘ نئی دہلی

٭٭٭

 

سراج کی غزل گوئی

 

فن کی نوعیت زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے۔ ہوسکتا ہے آج جس علم اور جس طریقے کا نام ہمارے لیے فن ہے، آنے والے عہد کے لیے وہ تصور ایک ہلکے اور سطحی رویے سے زیادہ اور کچھ نہ ہو۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ با شعور ہوتے گئے ہیں مگر یہ شعور اور یہ ادراک ہی اگر ایک خاص نسل یا قوم کے نزدیک فن کا ناقص اور غلط تصور ہو تو ہماری ساری کوششیں اور خیالات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور ہم دستارِ فن کو الٹ کر اُس نسل کے آگے شناسائی کی بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ ہمارے روایتی یا کلاسیکل شعرا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ تقلید کے عمل سے تو ہمارے ادب کو شاید ہی کہیں چھٹکارا حاصل ہوا ہو۔ کیونکہ ہم فارسی کا غبار دامن سے جھاڑ کر انگریزی کے غاروں میں جا کر پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ہمارے پاس اپنا کیا تھا اور جو اپنا تھا اسے ہم نے کسی لائق نہیں سمجھا تھا۔ ایسے خستہ حال اور نامانوس شاعروں کی تو ایک لمبی فہرست ہے جن کے گم ہو جانے سے ان کی اولادوں پر بھی ایسا کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہو گا، ادب تو پھر بھی دور کی بات ہے مگر ہمارے یہاں غازی پور کے ایک سیدزادے کی تربیت نے ترقی کا ایسا شور مچایا کہ فن تو کیا ہمیں اپنے تن اور من پر بھی شبہ ہونے لگا اور ہم نے جب تن اور من دونوں کو ان کے کہنے سے تبدیل کرنے کا ارادہ کر ہی لیا تو پھر فن کا بدلنا کیسے ناممکن ہوتا۔ فن بدلا، فن پارے بدلے۔ غزل کی گلیوں پر راج کرنے والا معشوق، نظم کے چوباروں تک پہنچتے پہنچتے مطعون ہوا، مردود ہوا۔ جب معشوق کا حال ایسا ہوا تو شاعر کی اوقات بساط کیا تھی۔ اُس نے بھی نئے فن کاروں سے گالیاں کھائیں اور روایت کے کھونٹے سے بندھی ہر چیز ایک خاص عہد تک آ کر دم توڑ گئی۔ محبوب کے محل کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے۔ اس کے ظلم، جبر اور جفا کی اداؤں کو سرمایہ دار اور حکومتِ وقت کے حوالے کر دیا گیا۔ ترقی پسندوں نے تنزل کا الزام لگا کر بے چارے روایتی شاعر کی لاش اٹھا کر وقت کے سرد خانے میں رکھ دی، جس کی وجہ سے وہ سڑنے گلنے سے تو محفوظ رہ گیا مگر اس کی موت اردو ادب کی پیشانی پر سجدے کے داغ کی طرح ثبت ہو گئی۔ ایک علامت ، جو بے حد سیاہ تھی مگر ترقی پسندوں کو اسی سیاہی سے قیامت میں بے انتہا اجالوں کی امید تھی۔ انسان کے اقتصادی، معاشی اور سماجی معاملات سمجھنے کا دور آیا تو فن کے کاسے میں مسائل کے سکے گرنے شروع ہو گئے۔ نصیحت کی ضربیں سہنے والے روایتی شاعر کی آخری سسکیاں رومانوی شاعروں کی سلمیٰ، غزالہ اور عذرا سے کہاں رکنے والی تھیں کہ وہ بے چارہ تو امرد پرست تھا اور اس سزا کی پاداش میں آج اس کی لاش کو ہمارے ادیب گلیوں میں کھینچتے پھر رہے ہیں کہ اس کا چہرہ اتنا مسخ ہو جائے کہ اسے پہچاننے میں بھی آنے والی نسلوں کو دشواری ہو۔ اس لیے نئے اردو ادب کا آغاز قلی قطب شاہ، وجہی، غواصی، فائز اور میر و غالب سے نہیں بلکہ فیض احمد فیض سے ہوتا ہے۔

سراج اورنگ آبادی کی غزل اسی بدلے ہوئے اردو ادب کے پردے میں کہیں چھپی ہوئی ہے۔ میں اس کو ہاتھ لگاتا ہوں تو اس کا سرد جسم مجھے ایک پورے عہد کی موت کا احساس دلاتا ہے۔ نئی نظم کا ناقد چیخ چیخ کر مجھے اس کی جانب بلا رہا ہے۔ اس کا نعرہ ہے کہ وقت کی اس تیز دھار میں الٹی جانب بہنے کی کوشش کرنے والا بہادر نہیں، بے وقوف ہے۔ مجھے اپنی کم عقلی پر کوئی شبہ نہیں، تبھی تو میں نے سراج پر کچھ سطریں لکھنے کا ارادہ کیا ہے۔ سراج اورنگ آبادی، اردو ادب کے بیشتر ناقدین جس کی ایک غزل پر چار باتیں کر کے اپنے آپ کو یہ تسلی دیتے نظر آتے ہیں کہ ہم نے بھی میر کی طرح سراج کے حق میں کم از کم یہ تو کہہ ہی دیا کہ ’شعر او خالی از مزہ نیست۔ ‘مگر اس جملے کی حقیقت تو خود بے چارے میر کو بھی نہیں معلوم۔ اس نے تو خود سراج کو پڑھنے کے لیے عزلت کا سہارا لیا تھا۔ اگر وہ میری طرح سراج کو پڑھتا تو سراج کے لیے یہ دو ٹکے کا جملہ لکھ کر ہاتھ نہیں جھاڑ لیتا۔

معاف کیجیے گا میر کے لیے میرے اس زہر میں بجھے لہجے کے پیچھے دراصل کلیم الدین احمد کی وہ تنقید ہے جس میں انہوں نے تذکرہ نگاروں کو اٹھک بیٹھک کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کو پڑھ کر مجھے اس بات کا احساس ہو چلا تھا کہ تذکرے تو کیا ہی سراج کا حق ادا کریں گے۔ مگر جب میں آگے بڑھا تو مجھے تصوف کو شاعری کا زیور بتانے والے کچھ ڈھکوسلے باز ناقدین بھی ملے جن کے ہاتھ میں مٹی کا ایک ڈھیلہ تھا اور جو سمجھ رہے تھے کہ استنجہ کرنے کے بعد جب وہ سلطان باہو ؒ کی طرح اس ڈھیلے کو زمین پر دے ماریں گے تو حد نگاہ تک زمین سونے کی ہو جائے گی، مگر نتیجہ تو یہ نکلا کہ زمین بنجر ہو گئی اور ڈھیلہ خاک کی سطح پر گھسٹتا ہوا نہ جانے کتنی زرخیز زمینوں پر اپنی نحوست کے اثرات چھوڑتا گیا۔ اس کے بعد ناقدین کی ایک اور جماعت تھی۔ جس کا طرز ہی نرالا تھا جنہوں نے سراج جیسے شاعروں کو خاک میں ملانے کا ایک دوسرا ہی راستہ ڈھونڈا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہاں آؤ اور ہمارے جادوئی آئینے میں سراج اورنگ آبادی کی شاعری کا چہرہ دیکھو، اس میں تصوف کی ہلکی سی شباہت بھی نہیں ہے، بلکہ اس کے یہاں صنعت مراعات النظیر ہے، تلمیح ہے، احتجاج بدلیل ہے، تشبیہ ہے اور استعارہ ہے ، اصلی زندگی سے فرار ہے اور خیالی دنیا کی تلاش ہے، وغیرہ وغیرہ۔

لیکن یہ دونوں قسم کے ناقدین بھولے بیٹھے تھے کہ صوفی ہو، ولی ہو، فلسفی ہو یا نبی۔ یہ سب بھی بہرحال آدمی ہوتے ہیں، خدا نہیں۔ ان کی ضروریات بھی اتنی ہی زمینی ہوتی ہیں جتنی کہ ایک عام آدمی کی۔ مگر یہ آدمیت کی اسی عمومیت کے بہتے ہوئے دریا میں کچھ خاص لہروں کو پہچان لیتے ہیں۔ اس لیے یہ ولی کہلاتے ہیں، صوفی ہو جاتے ہیں یا پھر یہ کہوں کہ انسان بن جاتے ہیں۔ انسانیت سے ماورا کچھ نہیں ہے، اور اگر ہے تو ملکوتی ہے، خدائی ہے۔ شاعری بھی الہام کے درخت سے پھوٹی ہوئی ایک ایسی شاخ ہے جس میں باطن کے اشتعال کو جتانے کے لیے خارج کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ سہارا عارضی ہو تو تماشہ اور ابدی ہو تو فن بن جاتا ہے۔

 اس مضمون کی لائنوں پر آنکھیں گاڑنے سے پہلے ہی میں آپ کو بتا دوں کہ اگر آپ نے اس مضمون کو پڑھتے وقت بھی اپنے زمانے والے ’فن‘ کا مطلب ہی ذہن میں بٹھا رکھا ہے اور آپ حقوقِ انسانی کمیٹی کے کسی ممبر کی طرح انسان کے دکھ درد کا مداوا شاعری میں ڈھونڈنے کے خواہاں ہیں تو میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ اس مضمون کو پڑھ کر اپنا وقت برباد مت کیجیے۔

جب اتنی صاف بات ہو ہی چکی ہے تو یہ بھی سن لیجیے کہ شاعروں میں تقابل اور درجہ بندی کا بھی میں صرف اسی حد تک قائل ہوں جہاں اپنی بات منوانے کے لیے اس طرح کے نمونے پیش کرنا ضروری ہو جائیں۔ سراج کے یہاں مجھے اس کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ان کی خبر تحیر عشق والی غزل پر تو اتنی تنقید ہو چکی ہے کہ اگر اسے اس وقت میں ذرا دیر کے لیے دیوان سے باہر بھی رکھ دوں تو نہ سراج کو کوئی فرق پڑے گا اور نہ غالباً آپ کو۔ سراج کی غزل گوئی کا جائزہ لینے سے پہلے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ان کی شاعری کا دور کم سے کم پانچ یا زیادہ سے زیادہ چوبیس پچیس سال پر محیط ہے۔ جیسا کہ عبدالقادر سروری لکھتے ہیں:

’’سراج نے 1146یا 1147میں حضرت شاہ عبدالرحمن سے بیعت کی، اور یہی زمانہ ان کی اردو شاعری کے آغاز اور عروج کاہے۔ (الخ)1151یا1152اور 1169کے درمیان ، انہوں نے شعر گوئی ترک کر دی۔ ‘‘

(مقدمۂ عبدالقادر سروری، کلیات سراج اورنگ آبادی، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، صفحات نمبر 48-56)

ان پانچ یا پچیس برسوں میں سراج نے تقریباً پونے دو سو اردو غزلیں لکھیں۔ ان کے احوال و آثار کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات بآسانی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ جس دور میں انہوں نے شاعری شروع کی وہ ان کی کچی جذباتیت کا دور تھا اور اسی زمانے میں وہ کسی لالہ کے لڑکے پر کچھ اس طرح فدا ہوئے کہ اس کے عشق میں سب کچھ بھلا بیٹھے۔ دورانِ عشق انہوں نے بہت سی مصلحتوں سے بھی کام لیا اور عشق کے وہ سارے پینترے اپنائے جس سے محبوب کے وصل کے مواقع ہاتھ آتے رہیں۔ سراج اورنگ آبادی خود بھی حسین تھے اس لیے تذکرے بتاتے ہیں کہ ان کے گھروں پر امردوں کا ہجوم رہا کرتا تھا۔ عشق میں سماج اور دل کی جنگ کے درمیان انہیں بہت کچھ جھیلنا پڑا، زنجیروں سے باندھے گئے، جنونی ٹھہرائے گئے ، مذہب اور ایمان کی قسموں سے انہیں مجبور کیا گیا اور ان کی شاعری وصل میں ذاتی لطف اور ہجر میں ذاتی کرب کی عکاس بن کر رہ گئی۔ اس لیے سراج کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت ان کی زندگی کے پہلوؤں پر نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ انہوں نے عشق میں واقعی بہت کچھ جھیلا ہے اور تجربوں کی اس قلمرو میں جذبوں کی املاک کو شعر کی تجوری میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس ذاتی مسئلے سے آگے بڑھ کر وہ کچھ اور زیادہ کہتے اور ایسا کہتے کہ اپنے المیے کے سبب میر کے ہم پلہ قرار پاتے مگر ان کے پیر و مرشد نے انہیں شاعری سے روک دیا۔ جذبات کے دریا میں ابال آنے کا دور تو ان کی شاعری کا حصہ بنا مگر اس دریا پر سکوت طاری ہونے کے بعد سراج خود بھی چپکے ہو کر بیٹھ رہے اور اس طرح ان کی پونے دوسو غزلوں میں ذاتی لطف و انبساط اور کرب کی جھلکیاں تو موجود ہیں مگر جذبات کی کچی آنچ نے بہت سی جگہوں پر اسے آفاقی بننے سے محروم کر دیا ہے۔ پھر بھی اس دور میں فن کے جتنے تقاضے تھے، سراج کی شاعری ان تمام کو پورا کرتی ہے۔

اس زمانے میں مشاہدہ بھی فن کی ایک جہت کے طور پر مقبول ہے۔ اس مشاہدے میں جو بھی چیز شاعر کی نظر میں آتی ہے اسے محبوب کے تصور سے جوڑ کر دیکھنا ان شعرا کی عادت ہے۔ سراج کے یہاں صفت اوروں کے مقابلے میں زیادہ ہے، ایسا کہنا مناسب نہیں، بلکہ ایسے معاملات میں ہمیں خیال کی باریکی پر غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کسی بھی شے کا تعلق محبوب سے ظاہر کرنے کے لیے شاعر جو دلیل فراہم کر رہا ہے وہ کتنی درست، مبہم یا مبتذل ہے۔ مثال کے طور پر سراج کے چند اشعار دیکھیے:

اس لب شیریں سے مگس دور ہے

کیوں نہ ملے ہاتھ وہ افسوس کا

ترے ابرو پہ نقطہ خال کا دیکھ

ہوا معلوم بیت منتخب ہے

خطِ شب رنگ سیں تیرے لب رنگیں کوں قیمت ہے

اگرچہ لعل جو مودار ہے معیوب ہوتا ہے

اور یہ جو لوگوں نے اڑا رکھی ہے کہ ایک خاص دور کے بعد ایہام گوئی ختم ہو گئی اور لوگوں نے شمالی ہند میں ناجی، آبرو اور حاتم کے بعد ایہام کو برتنا بند کر دیا۔ یہ غلط نظریہ ہے اور اس کا ادراک جنوب کے اس شاعر کو پڑھ کر بھی ہوتا ہے جس نے اپنے کلام میں بعض جگہوں پر ایہام کی حد کر دی اور جسے پڑھ کر ایسا بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ یہ شعر وحیِ الہٰی کی طرح سراج اورنگ آبادی پر نازل ہوئے ہونگے بلکہ یہ اُن کی سخت ذہنی مشقت اور صلابت روی کا احساس پڑھنے والے کے ذہن پر طاری کر دیتے ہیں۔ ایہام سراج کے یہاں صرف ایک اتفاق کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ان کی غزلوں کا مطالعہ دو غلط فہمیوں کا ازالہ کرتا ہے۔ اول تو یہ کہ سراج اورنگ آبادی نرے تصوف کے شاعر تھے اور ان کے کلام میں صرف ایسے مضامین ہیں جو تصوف کے پیچیدہ اسرار کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں، میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ ان کے یہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں ہے مگر اس بات سے مجھے اختلاف ہے کہ سراج کی شاعری کے دوسرے رخ پر نظر نہ ڈالی جائے اور فن میں ان کی محنت کو صرف اوپر اوپر سے پڑھ کر نظر انداز کر دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ ایہام گوئی شمال کے ساتھ ساتھ جنوب میں بھی ناجی اور آبرو جیسے شعرا کے بعد بھی قائم تھی اور اس بات کے ثبوت میں شمال میں میر اور سودا جیسے شاعر کے علاوہ جنوب میں سراج جیسے شاعر کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے یہاں موجود ایہام گوئی کے رجحان کو ان اشعار کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے

عاشق زار کوں بس چاہ زنخداں تیرا

بوالہوس آرزوئے چشمۂ تسنیم کیا

بھیک منگنے تمہارے ابرو پاس

ماہ نو جام ہے گدائی کا

دل نہیں ہے بلکہ ہے سولی کا پھول

دوسرا منصور کہلانے لگا

پہلے شعر میں چاہ بمعنی محبت اور کنواں اور دوسرے شعر میں جام بمعنی پیالہ اور کٹورا سے فائدہ اٹھایا ہے۔ تیسرے شعر میں ایہام کا لطیف پہلو یہ ہے کہ سولی کے پھول کی رعایت سے منصور کا لفظ استعمال کیا اور لفظ منصور کو اس صورت میں برتا کہ صور کا ایک مطلب ناقوس بھی ہوتا ہے اس لیے من کی آواز یا ایسی آواز جو باخبر کرے اور بیدار کرے سے اس طرف بھی خیال جاتا ہے کہ ایسا من(یہ لفظ آتما کا بھی متبادل ہے) صور کہلانے لگا ہے۔ بوسہ سراج کے یہاں ایک زبردست اظہار کا ذریعہ بنا ہے اور اس جرات کے پیچھے بھی دراصل ان کی وہی جوانی رنگ دکھا رہی ہے جو عشق کے مسائل میں زمانے کو اپنی ٹھوکر پر مارتی ہے۔ اس کے لیے ذہن ایک کال کوٹھری ہے اور دل کشادہ، وسیع اور سرسبز میدان جہاں جو جی میں آئے کرتے پھریے۔ نہ کوئی حساب کتاب کرنے والا ہے، نہ کوئی روک ٹوک کرنے والا۔ لیکن بوسے کو اپنی شاعری کی بڑی علامت بنانے کے پیچھے سراج نے صرف اس بے مطلب آزادی کے گن نہیں گائے ہیں بلکہ وہ بوسے کی کیفیت سے بھی خدا اور خدائی دونوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے قاری کو بھی اس لذت سے آشنا کرتے ہیں۔ بوسہ انسان کی ہستی پر جمود طاری کر دیتا ہے، اس کی مدت کم ہوتی ہے، جنس کے دوسرے عوامل کے مقابلے میں تو بہت مختصر مگر یہ ان میں سب سے ارفع مقام رکھتا ہے۔ اول تو اس کا مقام ابتدائی ہے ، اس لیے جو سرشاری اس سے طاری ہوتی ہے وہ انسان کو فریز کر دیتی ہے۔ لمس کا بنیادی اور پہلا احساس۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح انسان دنیا کو پہلی بار اپنی شعور کی نگاہوں سے دیکھتا ہے اور حسن فطرت یا مظاہر سے اس کا تعارف ہوتا ہے۔ بوسہ دراصل اس خوبصورتی کو چھونے، محسوس کرنے اور اس سے حظ حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ بوسہ خود سپردگی سکھاتا ہے۔ سراج کہتے ہیں کہ

کبھی اس دلبرِ یاقوت لب نے منہ لگایا ہے

نہ پوچھو خود بخود آیا ہے رنگِ سرخ پاؤں میں

رنگِ سرخ پاؤں میں آ جانے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے پاؤں میں مہندی لگ گئی ہے ، مگر یہ مہندی وہ سبز مہندی نہیں ہے جس سے چلنا پھرنا محال ہو جائے بلکہ یہ تو مہندی کے رنگ کھلنے اور اس کے خوبصورت نتیجے کے طور میں ظاہر ہوئی ہے۔ یعنی اس کیفیت کو محسوس کرنے والا تھم گیا ہے بلکہ جم گیا ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جب حسن کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور اتصال کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے۔ دنیا کے ساتھ ہم سب بھی ایک ایسے ہی بوسے کی کیفیت میں گرفتار ہیں جہاں حسین و غیر حسین کا فرق مٹ گیا ہے۔ بس ایک سرشاری کی کیفیت ہے۔

کیفیت سے یاد آیا کہ یہ بھی شاعری کا ایک وصف ہے اور سراج کے اشعار کی ایک بڑی خصوصیت کیفیت بھی ہے۔ میں فن کی اس خاص اصطلاح کی بات کر رہا ہوں جس کو پڑھتے ہوئے حظ تو اٹھایا جائے مگر جس کی تہوں میں ایسے کوئی فلسفیانہ نکات موجود نہ ہوں جو ذہن و دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیں۔ سراج نے اپنے کلام میں بیشتر جگہوں پر اس طرح کے اشعار سے جو کام لیا ہے اس سے ان کی حس لطیف کا اندازہ صاف طور پر ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف ذاتیات کی گتھیوں کو سلجھانے والے آفاقی عشقیہ معاملات کوہی اپنے شعر کا موضوع نہیں بناتے، بلکہ ہنسی مذاق سے تھوڑا آگے جا کر بے ہودہ ٹھٹھول بازی بھی ان کی شاعری میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے جو اکیسویں صدی کے ناقد کی نظر میں ہزار وقت کی بربادی صحیح مگر اٹھارہویں صدی کا ناقد تو اسے فن کے ایک خاص حصے میں شمار کرتا ہے۔ ویسے فن کے معاملے میں کسی بھی طرح کے سماجی، سیاسی اور معاشی فائدے کی بات کرنے والے میرے نزدیک بونے ہیں اور بونوں کی عقل گھٹنوں سے کچھ ہی اوپر ہوتی ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ سچن تیندولکر کی سینچری سے سماج کا کتنا بھلا ہونے والا ہے؟عاطف اسلم کی آواز کون سی سیاسی جماعت کو سپورٹ کرتی ہے اور نکولس کیج کی اداکاری کتنے غریبوں کے منہ میں نوالے ٹھونس دیتی ہے۔ مگر اس کے باوجود جب اسپورٹ، گلوکاری اور اداکاری کو سرآنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے تو کلاسیکل شاعری پر فالتو ہونے کا الزام کیوں ہے؟اپنے فنی سرمایے پر بات کرنے سے گھبرانے والے اور اس کی مثالیں دیتے وقت بغلیں جھانکنے والے اردو والوں کے سامنے سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ وہ فن کو سمجھتے بھی ہیں یا نہیں۔ بیداری ایک لت ہے جو انسان کو لگ جائے تو سوالوں کے سانپ اسے ڈس ڈس کر پورے بدن میں احتجاج کا زہر بھر دیتے ہیں۔

میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ ہمارے دور میں لوگ سوال کیوں نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ دور تقلید کا دور ہے۔ اس نسل کے پاس اپنا کچھ نہیں۔ فکر ہو، حکمت ہو یا فلسفہ۔ ہمیں دوسروں کی طرف اس لیے دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ ہم نے اپنے ادیبوں کو جی بھر کر کوسا ہے اور اب ان کے افکار پر لعنت بھیج کر ہماری کم مائیگی کا احساس اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہماری حالت نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن کی سی ہو گئی ہے۔ ٹھیک ہے مان لیتا ہوں کہ پرانی شاعری بڑافلسفہ دینے میں زیادہ تر کامیاب نہیں ہو گی مگر اس دور کا فن ہمارے لیے باعثِ شرم کیوں ہے؟ باعثِ فخر کیوں نہیں۔ ہم ان پرانے بوڑھوں سے اتنا گھبرائے ہوئے کیوں ہیں جن کے اشعار اکثر بادشاہوں کی محفلوں پر سناٹا طاری کر دیتے تھے اور جن کے قصیدوں کے بدلے ہاتھی کے برابر سونا تولا جاتا تھا۔ اب تو دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں یا تو اس دور کے بادشاہ اتنے اجڈ ، جاہل اور گنوار تھے کہ انہیں اپنی تعریف سنتے ہی شاعر کا منہ موتیوں سے بھر دینے کا شوق تھا یا پھر ہمارا معاشرہ ایسے شاعروں سے بھرا پڑا تھا جن کے یہاں فن کا تصور قصیدے اور غزل کے نام پر محبوب یا بادشاہ کی کھوکھلی تعریفیں کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر سچ کہیے یہ بات کہتے ہوئے کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ نے کلاسیکل شاعری کا مطالعہ ڈھنگ سے کیا ہے۔ کیونکہ زبان ہو، بیان ہو، فکر ہو، جمالیات ہو، خیر ہو یا شر ہو۔ ہمارے محققین تو انہیں کھوکھلی سیپیوں سے صدف ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے رہے ہیں اور رفتہ رفتہ جواہرات کا ایک ایسا انبار لگ گیا ہے کہ اگر اردو شاعری میں اٹھارہویں صدی کے بعد کا سارا حصہ راکھ کر دیا جائے تب بھی یہ لوگ اردو کو تا قیامت زندہ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خیر کیفیت کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں

بے بو ہوا ہے بس کہ وو زلفوں کی شرم سیں

ہوے کیوں نہ رنگ اصلیِ مشکِ ختن سفید

زُلف کالی ہوتی ہے اس رعایت سے اصل مشکِ ختن کے سفید ہونے کی دلیل دی ہے اور رنگ سفید ہونا محاورہ بھی ہے، یعنی زلفوں کی خوشبو سے مشک بھی حیران ہوا جاتا ہے۔ اس حیرانی میں انتشار کا وہ خوبصورت لطف بھی ہے جو حس شامہ کی بدولت شعر میں ایک الگ طرح کی بوباس پیدا کر رہا ہے۔

ہائے رہ گئی دل میں دامنگیریوں کی آرزو

سبزۂ تربت مرا ہے پنجۂ گیرا ہنوز

’پنجہ گیرا‘ ایک قسم کی گھانس جو مٹھی کی شکل کی ہوتی ہے اور پانی میں ڈالنے سے کھلتی ہے۔ اس طرح کے بہت سے مزے مزے کے اشعار مجموعۂ احوال میں جا بجا پڑھنے کو ملتے ہیں۔

غزل میں بیانیہ کے تعلق سے سراج کا فن ایک مخصوص اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے یہاں شعروں میں نت نئے تماشے ہیں۔ وہ اشعار جو لائبریریوں کی الماریوں میں دھول چاٹتے رہتے ہیں، ادب کے طالبِ علم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ کبھی ان سے آشنائے راز ہونے کی کوشش کی جائے۔ یہ اشعار کچھ خاص قسم کے حسین حرکی ، سماعی اور بصری پیکر بناتے ہیں اور ان پیکروں میں الفاظ کے حک و اضافے سے جان پیدا کر دیتے ہیں۔ سراج کے یہاں کبھی کبھی تو شعر پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا شعر نہیں پڑھا بلکہ کسی فلم کا کوئی دلفریب سین دیکھ لیا ہے اور یہی سین اس پوری غزل کا حاصل حصول ہوتا ہے۔ دیدۂ بینا چاہیے ورنہ کلاسیکل شاعری کے اس سرمائے میں کیسی کیسی ہنگامہ آرائیاں موجود ہیں ان سے خود ہمیں واقفیت نہیں ہے۔ اردو تنقید سراج کی گنہگار اس لیے بھی ہے کیونکہ اس نے کبھی سراج کے اس خوبصورت پہلو پر بھی غور نہیں کیا۔ اس طرح جب میں غور کرتا ہوں تو یقین جانیے مجھے محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس معاملے میں دیکھنے والوں سے زیادہ دکھانے والوں کا قصور ہے۔ ہمارے یہاں تنقید کے طالبِ علم کی بھی ایسی تربیت نہیں ہوئی کہ وہ قدیم شاعروں کی کلیات میں گم ایسے اشعار کو سامنے لاتا اور اس پر سیر حاصل گفتگو کرتا۔ یہ کام نظم کے تربیت یافتہ قارئین کرسکتے تھے مگر ان کو نظم سے ہی فرصت نہیں تھی جیسا کہ میں نے کہا کہ اردو کی نئی پود کی عقل تو بس فیض احمد فیض اور ان کے ہم عصروں کی دہلیز پر سر مارتی رہتی ہے۔ یہاں صرف نمونے کے طور پر سراج کے یہاں سے ایک مثال درج کرتا ہوں۔

قاتل نے ادا کا کیا جب وار اچھل کر

میں نے سپرِ دل کوں کیا اوٹ سنبھل کر

سراج کے یہاں موجود تصوف کے افکار پر بات کرنے سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ یہ سراج کا ایک خاص وصف ہے مگر یہی ان کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے کیونکہ میرا یہ ماننا ہے کہ تصوف ایک علم ہے اور شاعری اگر کسی مخصوص علم کا آئینہ بن جائے تو ایک حد تک تو لطف دیتی ہے مگر اس کے بعد خیالات کے دوہرانے سے بات بگڑ جاتی ہے اور سراج کے یہاں بھی ایسا معاملہ پیش آیا ہے۔ ایک جگہ نہیں بلکہ کئی جگہ۔ ان کے یہاں بھی دوسرے شاعروں کی طرح اچھے برے شعر دونوں موجود ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ برے شعر زیادہ ہیں اور اچھے شعر کم۔ لیکن برے شعروں کی بھی دوقسمیں ہیں۔ ایک تو برے ہیں اور دوسرے بہت برے۔ ہوسکتا ہے میرے بعد جب کوئی شخص سراج پر تنقید کرنے بیٹھے تو اسے یہ اشعار کسی خاص وجہ سے اچھے معلوم ہوں مگر میرے تنقیدی پیمانے کے حساب سے ان کو میں نہ اچھا سمجھ سکتا ہوں اور نہ ہی سمجھا سکتا ہوں۔ دو ایک مثالیں دے کر سراج کے یہاں موجود تصوف پر باتیں کرتا ہوں۔

آتش میں جدائی کی جلاتا ہے شب و روز

کب لگ میں لکھوں صفحۂ دل پر گلۂ غم

بولتا ہوں جو وہ بلاتا ہے

تن کے پنجرے میں اس کا طوطا ہوں

کسی کی یاد میں جلنے کا مضمون ایسا پست ہے کہ کیا بتایا جائے دوسری بات یہ کہ اس شعر میں ایسا مبالغہ ہے جو کسی طرح کا حسن بیان پیدا نہیں کرتا۔ نہ کوئی ایسی ترکیب استعمال ہوئی ہے جس سے شعر کی اہمیت بڑھ جاتی اور نہ ہی کوئی ایسا لفظ جس کے باندھنے کے لیے مجبور ہو کر سراج کو یہ شعر کہنا پڑا ہو۔ دوسرا شعر بھی خدا کی حاکمیت کو ثابت کرنے کے لیے ایک نامکمل سی کوشش ہے، انسان کی مختاری کو توتے کی قید سے تشبیہ دینا نامناسب ہے۔ اس میں کوئی ایسی سجاوٹ یا بناوٹ بھی نہیں کہ شعر کو اچھا سمجھا جائے۔ ایسے نہ جانے کتنے شعر سراج کے یہاں موجود ہیں۔ مگر ان کی موجودگی سے ان کے اچھے اشعار کو برطرف نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے یہاں موجود تصوف کی جھلکیاں بھی دیکھتے چلیے۔ یاد رکھیے سراج کے تصوف میں ہند ایرانی صوفیانہ تعلیمات کا اثر خاص طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔

ترکِ مقصد عین مقصد ہے اسے

جس کوں دل کا مدعا درکار ہے

ہر اک ناقوس سے آتی ہے آواز

کہ ہے پرکٹ وو ہر ہر ہر کے گھٹ میں

تجلیاتِ الہٰی کا اس میں پرتو ہے

ہوا ہے جب سیں دل آئینہ دارِ گلشنِ حسن

آئینہ سکندریِ دل اگر ملے

ہرگز تلاشِ چینیِ مغفور مت کرو

ان چار اشعار میں تصوف کی تعلیمات کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سراج دل کے مدعا کو حاصل کرنے کے لیے دوسرے اہم صوفیا کی طرح مقصد کی اہمیت سمجھنے پر زور دیتے ہیں اور یکسوئی کے عمل کا یہ طریقہ بتاتے ہیں کہ عرفانِ حقیقی کا واحد راستہ ، ماسوا کو بھول جانے کی منزل سے شروع ہوتا ہے۔ دوسرے شعر سے غالب یاد آتے ہیں کہ انہوں نے بھی یہ بات کہی تھی کہ محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا؍ یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا۔ سراج کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے اس مضمون کو خالص ہندی لبادہ اڑھا کر پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اصلاحِ عمل کے لیے جو صدا بھی لگائی جائے اور جس میں اچھائی کی طرف بلانے کا اشارہ ہو وہ آواز لوگوں کے دلوں کی آواز ہے، دل(گھٹ)خدا کا گھر ہے اور اس طرح یہ صدا کسی اور کی نہیں بلکہ خدا کی ہے۔ تیسرا شعر’ اللہ جمیل ویحب الجمال‘ کی سیدھی سادی تشریح ہے، بس دیکھنے والی نگاہ چاہیے کیونکہ جب دیکھنے کا ہنر آتا ہے تو ہر شے کی حقیقت میں ایک ہی شے نظر آتی ہے بقول میر خورشید میں بھی اس کا ہی ذرہ ظہور تھا اور بقول درد تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا۔ چوتھا شعر تصوف کی اس خاص تعلیم پر مبنی ہے جس میں اپنے دل کو چمکانے پر زور دیا جاتا ہے۔ یعنی باطن کی صفائی، اور یہی تزکیۂ باطن انسان کو عرفان کے اہم مدارج تک لے جانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اسی طرح تصوف کی بہت سی تعلیمات سے سراج اورنگ آبادی کی غزل ’جمال آباد‘ بنی ہوئی ہے۔

روایت کے تعلق سے اردو والوں کا ذہن اتنا صاف نہیں ہے۔ وہ بس کسی بھی طرح پرانی شاعری کو روایت کا لبادہ اڑھا دیتے ہیں۔ اس معاملے پر حسن عسکری نے بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں مغرب اور روایت کے مفہوم کی کشمکش کو بیان کرنے کے بعد مشرق کے یہاں روایت کے جس تصور کی بات کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرق میں روایت دراصل دین سے ملحق ہے اور اسی وجہ سے سماج کی رگوں میں خون بن کر بہنے والی روایت نے ادب اور آرٹ کے دوسرے شعبوں کو بھی رنگین کر دیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’مشرق کی حد تک تو مسئلہ بالکل واضح ہے۔ مسلمان ہوں یا ہندو یا بدھ سب کا اتفاق دو چیزوں پر تو ہے ہی۔ پہلی بات یہ ہے کہ معاشرتی روایت، ادبی روایت، دینی روایت یہ الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک بڑی اور واحد روایت ہے جو سب کی بنیاد ہے اور باقی چھوٹی روایتیں اسی کا حصہ ہیں اور اسی سے نکلی ہیں۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق اس بنیادی روایت کا نام ’’دین ‘‘ہے۔ ثانوی روایتوں میں شامل ہونے کے لیے اس بنیادی روایت میں شامل ہونا لازمی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ بنیادی روایت نکلتی ہے کسی آسمانی یا مقدس کتاب سے‘ پھر اس کی وضاحت کرتے ہیں اس روایت کے مستند نمائندے اور صرف انہیں نمائندوں کا قول استناد کے قابل ہوتا ہے۔ پھر ایک تیسری بات ہے جو ہر زبان میں خود لفظ ’’روایت‘‘ کے مفہوم کا لازمی جز ہے یعنی روایت وہ چیز ہے جو ایک آدمی سے دوسرے آدمی تک پہنچائی جائے۔ ‘‘

(اردو ادب کی روایت کیا ہے، محمد حسن عسکری، مشمولہ مجموعۂ محمد حسن عسکری ، مطبوعہ سنگ میل پبلیکشنز لاہور، صفحہ نمبر645)

میرے نزدیک روایت انسان کے سماجی تجربوں کا رد عمل اور اس کی تقلید محض ہے۔ اسے مانیے تو عقیدہ اور نہ مانیے تو وہم ہے۔ دین پر اس کا اطلاق یوں بھی ہوتا ہے کیونکہ دین کو ما بعدالطبعیات کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ عقل ہر معاملے میں کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ انسان کی روحانی تسلی کے لیے اوہام کی دنیا بسانا اس کی ازلی مجبوری ہے۔ اردو ادب کی روایت بھی ہندوستان اور ایران کے متھ میں گتھی ہوئی ہے۔ یہاں کی دیومالائی روایتیں رفتہ رفتہ دین اور سماج کے رشتوں کو مضبوط کرنے میں کامیاب ثابت ہوئی ہیں۔ تصوف اس رشتے میں قائم اس مضبوط گانٹھ کی طرح ہے جس نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھا ہے۔ دین میں قائم خدا کا مذکر تصور اور سماج میں مرد کے رتبے کی اہمیت بیک وقت قوت، اقتدار ، حفاظت اور جمال کی ایک ملی جلی روایت کو قائم کرتے ہیں جس سے ایک طرف تو دین کا علمبردار علمِ تصوف کنارہ کش نہیں ہوسکتا اور دوسری جانب سماج بھی اس کی عظمت کو آسانی سے نہیں ٹال سکتا۔ سماج پر مرد کے تسلط اور شمولیت کی بنا پر جو روایتیں ایران سے ہندوستان کے شمالی اور جنوبی حصوں میں جڑ پکڑ چکی تھیں اس میں بھی مرد کا تصور عورت پر حاوی تھا۔ دکن بھی اس سے بچا ہوا نہیں تھا۔ یہاں حسن کا تصور یوسف سے، طمانیت کا تصور خدائی کلام سے اور صبر کی انتہا کا تصور حضرت امام حسینؓ سے قائم تھا۔ سراج کے یہاں بھی اسی روایت کا استحکام پایا جاتا ہے۔ ان کی شاعری ان توہمات یا عقیدوں کی بنیاد پر خود کو رنگین کرنے کا کام کرتی ہے۔ یہ اشعار دیکھیے:

ہیں چاہ میں دو میٹھے لبوں کی مدام ہم

رکھتے نہیں ہیں یوسفِ مصری سے کام ہم

شربت وصل پلا جا، لبِ شیریں کی قسم

جان جاتا ہے مرا سورۂ یٰسیں کی قسم

جاں بلب ہوں تشنگی سیں وصل کا پانی پلا

ہے تجھے حسنین کے تیجے کے شربت کی قسم

دلِ دیوانہ میرا آگیا ہے

ترے زلفوں کے سایے کی جھپٹ میں

گوپی چند نارنگ نے امرد پرستی کا رجحان ہندوستانی شاعری کے زیرِ اثر رفتہ رفتہ معدوم ہو جانے پر اصرار کیا ہے۔ ان کی عبارت بھی دیکھتے چلیے:

’’ہندوستانی آنے کے بعد تصوف میں مظہر پرستی کی روش تو کچھ کچھ باقی رہی لیکن جمالیاتی شعور سے امرد پرستی بڑی حد تک خارج ہو گئی کیونکہ ہندوستانی ذہن جنس کے تصور کو مذموم یا ممنوع قرار نہیں دیتا۔ چنانچہ اردو غزل میں عشق کے جو تصورات کارفرما رہے ہیں ان کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ وہ تصورات خواہ عشق حقیقی کے ہوں خواہ عشق مجازی کے ان کا تعلق امرد پرستی سے بہت کم اور مجازی عشق کی فطری انسانی روش سے زیادہ ہے۔ ‘‘

(اردو غزل اورہندوستانی ذہن و تہذیب، گوپی چند نارنگ، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان صفحہ نمبر 115)

پہلی بات تو یہ کہ امرد پرستی خارج ہو گئی کہنے کا کیا مطلب۔ گوپی چند نارنگ تو اسی جملے سے قاری کے دل پر اس بات کا بالراست یہ اثر بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ حرکت گویا بہت مخربِ اخلاق ہے اور اردو کے کلاسیکل شاعر کے یہاں اول تو امرد پرستی ہے نہیں اور اگر ہے تو بس ایرانی شاعری کے زیرِ اثر ہے یعنی جو گناہ اس بے چارے سے سرزد ہو گیا وہ اتنا بڑا نہیں کہ اس پر دھیان دیا جائے۔ اس بات کی شدید مخالفت کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیونکہ اس سے نہ صرف کلاسیکل شاعر کے یہاں موجود معشوق کا تصور گمراہ کن طریقے سے امرد سے عورت کے جامے میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور دوسری جانب اس گہرے ہند ایرانی تمدن کو نظر انداز کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے جس کی طرزِ تعمیر، موسیقی ، مصوری اور بیشتر ادبی روایتوں کو تو ہم سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں مگر امرد پرستی کو ایک بدنما داغ سمجھ کر چھپائے پھرتے ہیں۔ ایران نے ہندوستان کو صرف شعری مضامین ہی نہیں دیے بلکہ وہاں کی تہذیب یہاں کی عوامی زندگی سے کچھ ایسے گتھم گتھا ہوئی کہ ا؂یک خاص عہد میں دونوں میں کسی قسم کا افتراق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ عہدِ عالمگیری کے بعد اس اختلاط کو پھلنے پھولنے کا موقع صرف شمال میں ہی نہیں ملا بلکہ جنوب میں بھی اس نہال کی زبردست نشوونما ہوئی۔ امرد پرستی کا دور اردو کے ابتدا سے داغ کے عہد تک یعنی کم از کم تین صدیوں پر محیط ہے اور اتنے بڑے عرصے میں اس رجحان کے زیر اثر ہونے والی تمام شاعری کے لیے یہ کہہ دینا کہ ہندوستان آتے ہی تصوف سے امرد پرستی کا رجحان بڑی حد تک خارج ہو گیا ادبی، ثقافتی اور تاریخی غلطی بھی ہے اور بددیانتی بھی۔

ایسے ناقدین سے سراج اورنگ آبادی (جو کہ تصوف اور ادب دونوں ہی معاملات میں دکن کا نمائندہ شخص ہے)کا معشوق یہ سوال کرسکتا ہے کہ اس کی شناخت کو کیونکر گم کیا جا رہا ہے؟سراج کے یہاں موجود امرد کا تصور ان کے شعروں سے بہت زیادہ واضح ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس عہد میں اپنی بات کہنے کے لیے سماج سے کسی طرح کا کوئی کریکٹر سرٹیفیکٹ جاری نہیں کرانا پڑتا تھا۔ تہذیب کے نام پر خود کو چھپانے کا جو رویہ ہم نے اپنایا ہوا ہے وہ دراصل ہماری دوہری زندگی کا ایک ایسا ہالہ بن گیا ہے جس سے چاہ کر بھی ہم کبھی باہر نہیں نکل سکتے۔ مگرسراج نکلے تھے، ان کے یہاں موجود امرد پرستی کا رجحان وصل کے لیے تڑپتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس رجحان کا ذہنی اور جسمانی نقصان خواہ کتنا ہی ہو مگر شعر میں یہ تڑپ ہمیشہ فائدہ ہی پہنچاتی ہے۔ اردو شاعری نے اس تڑپ سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ سراج کہتے ہیں

مثال ماہئ بے آب تلملاتا ہوں

زلالِ لطف و کرم ایکدم پلا جاناں

یہاں ایک دم کو اس بھولے بھالے قاری کی طرح صرف کسی لحظے، لمحے یا چھن سے عبارت مت کیجیے بلکہ اسے اس تیزی سے تعبیر کیجیے جو جنسیت کی خاص اصطلاح میں وائلڈ سیکس کے نام سے جانی جاتی ہے۔ وائلڈ سیکس کا رجحان ایک دم سے کسی کو اپنے اندر اتار لینے یا اس کے اندر سماجانے کی ایک ایسی کیفیت کو پروان چڑھاتا ہے جس میں وصل کی مدت بہت کم اور تیزی بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس تیزی میں جو شدت اور کلفت ہے اس کو امرد پرستی میں تو خاص ایک اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہاں تو ویسے ہی وصل کا مکمل تصور ممکن نہیں ہے اور ناقص جنسیت کے نتیجے میں وائلڈ سیکس کا رویہ اور حاوی ہو جاتا ہے اب اس معاملے سے دنیا کو سمجھتے رہیے مگر کیا آپ اس بات کا ہلکا سا بھی اعتراف کیے بغیر یونہی روا روی میں اس شعر سے گزر جائیں گے کہ ہم دنیا کو جس تیزی کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ترقی، قوت، اقتدار اور دولت کو جتنی تیزی سے اپنی جانب گھسیٹتے ہیں کیا اس کا تعلق ہمارے اندر دنیا کے ساتھ قائم اسی جنگلی جنسیت کے رویے کا غالب نظریہ نہیں ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ ہمارے پیش رو ناقدین نے تو ہمیں اس طرح کے اشعار سے بس سرسری گزر جانے کا مشورہ دیا ہے اور ہم نے بھی ذہن میں اتنی استطاعت کب پائی تھی کہ اس پر یہ بوجھ لادنے کی ہمت کر پاتے۔

خیر میں ذکر کر رہا تھا سراج کے یہاں موجود وائلڈ سیکس کے اس نظریے کی جس کو امرد پرستی میں اہمیت حاصل ہے۔ اب ذکر کرتے ہیں سراج کے امرد کا۔ سراج نے اپنی شاعری میں جس امرد کا نقشہ کھینچا ہے اور جس جس طرح سے کھینچا ہے تو مجھے اس کا آدھا دیوان نقل کرنا پڑے گا اور اس کی نہ میں ضرورت سمجھتا ہوں اور نہ ایسے اشعار پیش کر کے اپنے مضمون کے صفحات بڑھانا چاہتا ہوں۔ بس کچھ ضروری شعر پیش کرتا ہوں جس سے آپ کو سراج کے معشوق کا کچھ کچھ سراپایا حلیہ نظر آسکے۔

جبیں اور زلف:

اے آفتابِ زہرہ جبیں عاشقوں کا دل

تجھ زلف نے کیا ہے پریشاں ہزار بار

چہرہ، بھویں اور زلف:

رخ ہے مصحف، بھویں ہیں بسم اللہ

زلف تیری ہے سورۂ اخلاص

آنکھ:

درکار نئیں ہے شیشۂ مے بزم شوق میں

پائے ہیں اس کی چشم کی گردش سیں جام ہم

لب:

کہا ہر جوہری نے لب ترے دیکھ

کہ یہ جوہر ہے اور یاقوت ہے عرض

دہن:

دہن ترا ہے مگر خاتم سلیمانی

ہوئے ہیں دیو و پری جن سب ترے محکوم

پاؤں:

ترے ہے پائے نزاکت میں فرش گل جیوں خار

چمن کی سیر سوں زنہار توں نہ جا، جاناں

چاہوں تو اور بہت سے شعر لکھ سکتا ہوں مگر اتنے کافی ہیں، ان شعروں کے علاوہ بھی جو شعر ہیں ان سے اس لڑکے کا جو نقشہ سامنے آتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ وہ سر پر بڑی خوبصورت پگڑی پہنتا ہے، اچھا لباس زیب تن کرتا ہے، اس کی بھنویں گھنی ہیں، چہرہ صاف یعنی گورا ہے، خط سبز ہے، ہونٹ لال ہیں، آنکھیں سرخ ہیں، ناک ستواں ہے، دہن چھوٹا ہے، گردن صراحی دار ہے، سینہ آئینے کی طرح صاف ہے، کمر بہت پتلی ہے، ساق بہت گوری ہے جس میں شاعر اپنا منہ دیکھ لے اور پاؤں بہت نازک ہیں جو ذرا سا چلنے سے چھل سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو لڑکے کا یہ تصور عربی اور ایرانی تصور غلمان کا ملغوبہ ہے۔ سراج کے یہاں ہندی لڑکے سے بھی پینگیں لڑائی گئی ہیں اور ان کی شاعری میں جس موہن کو پیار کی نظر سے دیکھا گیا ہے اس کی ہندی شناخت یعنی سانولے پن کو بھی ملحوظ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر اس لڑکے کی جھلک زیادہ نہیں ہے بلکہ غور کرنے پر معلوم یہ ہوتا ہے کہ جس امرد کو سراج کے تخیل نے تراشا ہے اس کی خارجی صورت چاہے عرب و ایران سے تعلق رکھتی ہو مگر وہ ہندوستانی ریت رواجوں، مذہبی اور غیر مذہبی حکایتوں اور ہندی طرزِ زندگی میں ایسا گھل مل گیا ہے کہ سراج خود اسے دیکھ کر حیرت میں پڑ گئے ہیں۔ یہ ہے سراج کے تخیل کی وہ پری جس نے اپنا خانہ ہندوستان میں آباد کر لیا ہے اور سراج اس آئینہ رو کے سامنے حیرانی سے کھڑے اسے دیکھ رہے اور عش عش کر رہے ہیں۔ اب اس امرد کے سامنے سراج کی تڑپ کروٹیں مارتی ہے تو کیا کیا آواز بلند ہوتی ہے، کیا کیا شعر نکلتے ہیں اور آخر میں سراج اس امرد کے سہارے خود کو تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں جہاں سے اس امرد کا مصرف ختم ہوتا ہے اور ذات میں ذات کو ڈھونڈنے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ تڑپ، جنس کی اعلیٰ ترین منزل ہے۔ وصال سے اشتہا کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھ جاتی ہے اور غیر ممکن وصال کی صورت عشق کا روپ لے لیتی ہے۔ عشق جو کسی خاص شخص سے جنسی تعلق قائم کرنے اور تسکین حاصل کرنے کے لیے اکساتا ہے اور ایسا نہ ہو پانے پر رد عمل کے طور پر عاشق کے ذہن و دل میں آگ لگا دیتا ہے اگر اس میں وصال کی ٹریجڈی یہ ہو کہ ملنے والا مل کر بھی اختلاط کے عمل سے محروم رہے تو اس دشواری سے کیسی حزنیہ کیفیت طاری ہوتی ہے اس کا اندازہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے یہ شاعر ہی لگا سکتے ہیں۔ اس موقع پر تاباںؔ کا ایک شعر یاد آتا ہے

اکثر جو اس زمین کو ہوتا ہے زلزلہ

شاید گڑا ہے جسم کسی بے قرار کا

لیکن معاملہ وہی ہے کہ یہ احساس خالص ہو، سچا ہو بصورتِ دیگر سارا کھیل ہی بگڑ جائے گا اور ہم صرف ایک خاص دور کے شاعروں کو دیکھ کر یہی بتا سکیں گے کہ اس دور کے کتنے شاعر لونڈے باز تھے لیکن یہ کہنا ممکن نہیں ہو گا کہ دیکھو اس سماج میں رہنے والے کتنے لونڈے باز واقعی شاعر تھے۔ سراج نے اس کیفیت کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اس سے اپنے شعری مجسمے کو بہت حد تک تراشنے میں مدد بھی لی ہے۔ سراج کی سب سے بڑی کمزوری ان کی شاعری کا مختصر پیریڈ ہے۔ مجھے ان کی شاعری پڑھ کر یہ احساس بڑی شدت سے ستاتا ہے کہ جس شخص نے اپنے ابتدائی دور میں اس طرح کی شاعری کی ہو اگر اس کو پچیس چھبیس سال کی عمر میں پیر کے کہنے سے شعر و شاعری پر روک نہ لگانی پڑتی تو نہ جانے کتنے اسرافیل حضورِ حق میں اس بندے کی وقت سے پہلے قیامت برپا کر دینے کی شکایت کرتے نظر آتے۔ ایسا نہیں کہ اس مختصر عرصے میں سراج کی شاعری اس زمانے کی معاشرت پر نگاہ نہ دوڑاتی ہو، مانیے نہ مانیے شاعری کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ شعرا غیر شعوری طور پر اپنے سماج کو اشاروں میں بیان کر دیتے ہیں۔ جان بوجھ کر ایسا کرنے والے ترقی پسند ہوتے ہیں اور غیر شعوری طور پر ایسا کرنے والے شاعر۔ خیر، سراج نے بھی اپنی غزل میں خود کو معشوق کے مرتبے پر بھی فائز کیا ہے اور جنسیت کی طرف مائل کرتی اس دور کی رس بھری نگاہیں انہیں بہکانے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جس کا اعتراف وہ کچھ یوں کرتے ہیں۔

معلوم ہوئے وہ چشم سخن گو سے مجھ کوں رمز

ہرگز چھپی رہی نہیں حراف کی نظر

اس حراف کو اپنے دور میں رائج صرف ایک گالی سمجھ کر نظر انداز مت کر دیجیے بلکہ اس میں دشنام طرازی کا وہ لطیف پہلو ہے جس کے پسِ پشت خود معشوق کی ہوس اور عشق ، دونوں کا راز موجود ہے۔ یہاں دشنام گالی نہیں بلکہ اعزاز ہے بقولِ سراج

عاشقوں کوں ہے لذتِ دشنام

ہر کمینے کو یہ خطاب نہ دے

سراج کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک جانب تو وہ اپنے محبوب کو فارسی تصوف کے غالب رجحان کے سبب امرد کی صورت میں ہی قائم رکھنا چاہتے ہیں

مگر یہاں ان کی ہندویت بالکل معدوم نہیں ہوتی بلکہ ذہن کی چھوٹی چھوٹی درازوں سے اکثر جھانکتی ہے۔ یہاں وہ خود رادھا بن کر اپنے کرشن کی خوبصورتی کے گن گانے لگتے ہیں اور اس کے ثبوت میں گاہ گاہ کسی گوپی کا ذکر بھی کر دیتے ہیں۔ یہاں خارج میں فارسی زدہ لہجہ، اسطور میں عربی حکایت اور اس حکایت کے اندرون میں مسکراتی خالص ہندوی روایت ، تین زبانوں کے دریاؤں کا ایک سنگم قائم کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہو

زلیخا قبر میں سیں سن کر آئی

کہ نور دیدۂ یعقوب ہو تم

سراج کی غزل کا مطالعہ کرنے پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ جہاں پہنچ سکتے تھے وہاں نہیں پہنچے، مگر جہاں وہ پہنچے وہاں تک بہت سوں کی پہنچ ممکن نہیں ہوئی۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ سراج نے شاعری جلدی چھوڑ دی اور اس کا خمیازہ یہ ہوا کہ جو شاعری انہوں نے اردو ادب کو عطا کی اس کا بیشتر حصہ اس فن کو پیش کرتا ہے جسے ترقی کے اس زرق برق عہد میں فن سے تعبیر ہی نہیں کیا جاتا۔ لیکن مکمل طور پر انہیں پڑھنے اور سمجھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شاعر زندگی کا شاعر ہے۔ اس کے یہاں صرف تصوف کی فکری سنجیدگی نہیں بلکہ جوانی کی ہٹ دھرمیاں اور رنگ رلیاں بھی ہیں۔ معاش کی فکر میں لشکر میں شامل ہو جانے کے سبب عسکری علائم بھی اس کی شاعری کا زیور بنے ہیں اور مشاہدے کی عادت نے اسے باغات، جنگلات اور دریاؤں کی بھی سیر کروائی ہے۔ تبھی تو یاقوت، لعل، عقیق، ابرک اور زمرد جیسے پتھروں، ریحان، گلاب، کنول، سمن، لالہ، سنبل، شب رنگ، سولی، عباس، سودا، یاسمن اور ثمن جیسے پھولوں، تیغ، نیمچہ، بھالا، سپر، نیزہ، تیر، کمان، خنجر، برچھی، تیشہ، زرہ اور کٹاری جیسے فوجی سازوسامان اور بلبل، توتا، مینا، ہدہد، قمری، کبوتر، فاختہ، شہباز، شاہین، چکور اور کبک جیسے پرندوں سے ان کا کلام بھرا پڑا ہے۔ ایسی شاعری کے لیے سیاحت بھی ضروری ہے اور ان کو غمِ دل کے رشتے میں پرونے کے لیے سلیقہ بھی۔ شاعری محض کوئی فلسفے کی چوٹی نہیں جس پر پہنچنے کے لیے ذہن میں اتھل پتھل مچانی ضروری ہو بلکہ اس کے لیے اصلی زندگی کے تجربے بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، سراج کا عشق انہی تجربوں کی آگ میں جل کر سونا ہوا تھا۔ سراج کو پہلے ایک ہندو لڑکے سے انسیت ہوئی بعد میں اپنے ایک دوست عبدالرسول سے محبت۔ اس طرح ان کے یہاں عشق نے ایک سے زائد مرتبہ دستک دی ہے۔ مگر یہ بات کہنا سراسر غلط ہو گی کہ ایک مخصوص عہد کے علاوہ وہ زندگی میں کبھی ایسے جنون کا شکار ہوئے ہوں کہ اس کیفیت میں سب کچھ بھلا بیٹھے ہوں۔ وہ اپنی شاعری میں سماجی، سیاسی اور عدالتی معاملات کا جس طرح ذکر کرتے ہیں اور بہت سے غیر شاعرانہ عوامل سے فائدہ اٹھا کر ان سے ایک نیا عشقیہ مضمون پیدا کر لیتے ہیں یہ ہنر بھی ان کے یہاں کمال کا درجہ اختیار کر گیا ہے پھر بھی سراج کو اپنے زمانے میں بھی ایسی کوئی خاص مقبولیت نہیں ملی تھی ، ان کو خود اس بات کا احساس تھا کہ آج نہیں تو کل ان پر بات ضرور ہو گی اور اس کا اظہار انہوں نے اپنے ایک شعر میں کچھ اس طرح کیا ہے کہ

شاید کہ بعد مرگ کریں یاد خاص و عام

مشہور نئیں سراج کا شیریں سخن ہنوز

٭٭٭

 

نئی شاعری، ایک سوال اور ہمارا فرض

شمس الرحمن فاروقی اردو ادب کا ایک اہم نام ہے۔مجھے یقین ہے کہ کوئی اس کا اعتراف کرے یا نہ کرے مگر مجھ سمیت کئی لوگوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔تنقید، تعریف، تعبیر اور ترسیل ، ان جیسے تمام ادبی معاملات کو سمجھنے کے لیے فاروقی صاحب کی تحریروں کو ہم نے پڑھا ہے اور کہیں نہ کہیں ہمارے اعتماد کی جڑوں میں ان کی سطروں کا رس آب حیات کا سا کام کرتا رہا ہے۔مخالفت بڑوں سے بھی کی جاتی ہے، چھوٹوں سے بھی کی جاتی ہے۔ہم زندگی اور ادب کے معاملات میں پوری طرح اکثر اوقات خود سے اتفاق نہیں کر پاتے تو دوسروں سے تو مکمل طور پر متفق ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔فاروقی صاحب کی اہمیت ادب میں اس لیے بھی مسلم ہے کیونکہ وہ اپنے فیصلوں سے کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں (جس کا نام اردو زبان و ادب کی صورت حال ہے)نئی نسل کو اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ناقد جب گریبان میں جھانکنے کے لیے مجبور کرتا ہے تووہ ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ان لوگوں کے لیے جو زندہ ہوتے ہیں، میری مراد ان لوگوں سے ہے جن کی سماعت مردہ نہیں ہوئی ہوتی، جن کی عقلیں گم نہیں ہوئی ہوتیں یاجن کی زبانوں کو لقوہ نہیں مار گیا ہوتا ہے۔ناقد جب فیصلہ سناتا ہے تو دراصل وہ ایک سوال پوچھتا ہے، وہ سوال جن لوگوں کو گریبان جھانکنے پر مجبور کرتا ہے، وہ جواب ڈھونڈتے ہیں اور جنہیں بغلیں جھانکنے پر مجبور کرتا ہے ، وہ پلٹ کر اسے گالیاں دینے لگتے ہیں۔میں نئی نسل کے تعلق سے خود بہت زیادہ خوش فہم نہیں ہوں۔فاروقی صاحب کی بات اس حد تک بالکل صحیح ہے کہ اخباروں کی زبان بری طرح بگڑ چکی ہے۔اردو صحافت کے شعبے میں اب زبان پر بالکل توجہ نہیں دی جاتی۔مگر زبان  و ادب میں ایسے نان جینوین لوگوں کو انگلیاں پکڑ کر چلاتے رہنے والی سیاست پر فاروقی صاحب کی شاید نظر نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ اس مسئلے پر کسی خاص مصلحت کی بنیاد پر کچھ کہنا نہیں چاہتے۔اب رہی ادب کی بات تو میں فاروقی صاحب سے اس معاملے میں ذاتی طور پر ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ادب کی صورت حال جیسی ابتر ہوئی ہے اس کے دھاگے کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ ہی لوگوں کی کچھ غلطیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔آپ نے جس زمانے کی بات کی ہے، اس زمانے میں یونیورسٹیز اور کالجز میں ایسی مصلحت اندیشی سے کام نہیں لیا جاتا تھا جیسا کہ اب لیا جاتا ہے۔پھر گروہ بندی کا وہ سہرا کس کے سر جائے گا جس نے ایک زمانے تک آپ کو اور آپ کے ایک فریق خاص کو بس آپ لوگوں کے نام کا نعرہ لگانے والوں کی اسی صلاحیت پر پیٹھ تھپتھپانے پر مائل رکھا۔دنیا بھر کے ادب میں گروہ بندیاں ہونگی۔لوگ ایک دوسرے سے حسد رکھتے ہونگے، ایک دوسرے کے خلاف لکھتے ہونگے۔یہ سب کچھ ہوتا ہوگا، لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اردو کی حد تک یہ چھینٹا کشی کا عمل کچھ زیادہ ہی بدکردار ہو گیا اور اس نے بڑے چھوٹوں کی تمیز بھلا کر سرے سے ہر جاہل کو یہ اعتماد عطا کر دیا کہ وہ خود کو بڑا ناقد یا بڑاشاعرسمجھے اور اس پر آپ سے یا آپ کے فریق سے سند حاصل کر لے۔میں یہاں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا، مگراس بات کے گواہ آپ خود ہیں کہ آپ نے اس معاملے میں کوئی کسرنہیں اٹھا رکھی۔آج جب ظفر اقبال ہندوستانی شاعری کو گالی دیتا ہے(اور جس شاعری کو پڑھ کروہ گالیاں دے رہا ہے، اس میں وہ حق بجانب بھی ہے)تو ہمیں برا بہت لگتا ہے۔مگر وہ گالی دراصل وہ ہندوستانی شاعری کو نہیں دے رہا ہے بلکہ آپ لوگوں سے جڑی اپنی اس توقع کودے رہا ہے ۔جس میں خالص ادب کو نمایاں مقام دلوانے کی اچھی خاصی صلاحیت موجود ہے۔یہ تو بڑی عجیب بات ہوئی کہ مروت، مصلحت اور گروہ بندی کے چکر میں آپ ہی لوگ ادب کا ستیہ ناس کریں اور پھر خود ہی ادب کی سالمیت کا اعلان کر کے بیٹھ جائیں کہ بس صاحب ادب ودب لکھا جا چکا۔اب نہ تو شاعری ہو رہی ہے اور نہ ہی افسانہ لکھا جا رہا ہے۔میرا مقصد ہرگز ترکی بہ ترکی کا نہیں ہے، بلکہ میں چاہتا ہوں کہ کبھی آپ ان اسباب پربھی اپنی زبان کھولیں جن کی بنیاد پر ادب کی صورت حال آپ سے شاعری پر ایسے فیصلے صادر کروا رہی ہے کہ نئی شاعری کوئی کارنامہ انجام دے رہی ۔

آپ نے جن لوگوں کے نام لیے ہیں۔کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس فصل بہار میں یقینی طور پر نمائندہ شاعر و ادیب کتنے تھے۔کیا بمل کرشن اشک، کمار پاشی ، پرکاش فکری، وہاب دانش اور فضیل جعفری ایسے ہی نام ہیں جو اس نسل کے نمائندہ شاعر ہیں جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں۔آج کتنے لوگ ہیں جو ان کی شعری تخلیقات کو گفتگو کا موضوع بناتے ہیں اور پھر ہمیں یہ بھی بتائیے کہ جینت پرمار اور شائستہ یوسف نے وہ کون سا شعری کارنامہ انجام دیا ہے ، جس کی عدم موجودگی کی شکایت آپ نئی نسل سے کر رہے ہیں، کیونکہ مجھے تو ان کے یہاں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی۔آپ نے پوچھا ہے کہ آج کی شاعری unbornحیثیت کی حامل کیوں نہیں ہے۔اور کیوں ایسی تخلیقات موجود نہیں ہیں جو آج لکھی جائیں اور1988میں بھی ریلیونٹ ہوں۔پہلی بات تو ادب کے تعلق سے یہ نقطۂ نظر بڑا عجیب و غریب ہے۔ادب میں تخلیقی حس اور تخلیقی کاوشوں کے فیصلے زمانی فاصلوں کی بنیاد پر کب سے کیے جانے لگے۔آپ نے میر تقی میر اور غالب کوسمجھانے کے لیے بیشتر اوقات جن لغات کا سہارا لیا ہے۔وہ آج کے عہد میں کتنی ریلیونٹ ہیں۔پھر وہ خاص معاشرتی معاملات جو اسی زمانے کی تاریخ پڑھ کر سمجھے جا سکتے ہیں، اور وہ ادب جو اسی دور کے کچھ خاص معاشی، سماجی اور سیاسی ادوار کی نمائندگی کرتا ہے کس قدر تخلیقی ہے۔میر اور غالب کو تو رہنے دیجیے کہ آپ انہیں پھر بھی بچا لے جائیں گے۔ہم ان قصیدوں کو کیا اٹھا کر کہیں دفن کر آئیں جن کے لکھنے میں سودااور ذوق کو ہمارے ادب میں طرۂ امتیاز حاصل ہے۔شخصی مرثیے تو اس معاملے میں ویسے ہی دریا برد ہونے کے لائق ہیں رہی بات کربلائی مرثیوں کی تو ایک انیس کے علاوہ کس نے اس میدان میں ایسا تیر مار لیا ہے جس کو ہم بلاغت کارکن اعظم تخلیق کرنے والا کہہ سکیں۔پھر بتائیے اس تمام سرمائے کا کیا کریں۔میر، غالب، مصحفی، انشا کوتو چلیے محفوظ رکھتے ہیں۔لیکن جرأت تو بقول عسکری صاحب صرف ایک مزیدار شاعر ہے۔اس کی ادبی حیثیت پرکیا آپ کا یہ فیصلہ سوال نہیں قائم کرتا۔سوائے ایک دو شعروں کے کیاساق سیمیں اور کچوں کا بکھان کرنے والا یہ شاعر قابل گردن زدنی نہیں  ہے۔ جگر، جوش، اصغر، اکبر، فانی، شاد اورایسے بہتیرے شاعر جو آپ کی تنقید کا بھی نشانہ بنتے رہتے ہیں کس درجے کے شاعر کہلائیں گے؟یگانہ کو تو خیر ظفر اقبال بھی رد کر چکے ہیں۔ اب ذرا ترقی پسندی کی طرف آئیے، ان بیچاروں کی تاریخ اردو ادب میں کون سے زمانی دائرے پر محیط ہے۔پچاس سال؟ ان پچاس سالوں میں بھی(ہر چند کہ یہ زیادہ برس ہیں)مزدور، عورت، کمزور اور غریب کو مساوات دلانے پر کمربستہ ادیبوں کی جماعت کی اہمیت آج کتنی ہے؟ وامق جونپوری کی شاعری کو ہندوستان کی کس جھیل میں لے جا کر پھینکا جائے؟فراق کو تو خیر آپ خود رد کر چکے ہیں، عزیز احمد کے افسانوں کو کیا جلا دینا چاہیے اور عصمت کے ناولوں کو محض سلیم احمد جیسے ناقدوں کے لیے مخصوص کر دینا چاہیے ؟جدیدیوں میں ظفر اقبال، احمد مشتاق، عادل منصوری، بانی، عرفان صدیقی اور محمد علوی وغیرہ کے علاوہ کچھ ایسے نام بتائیے جن کے شعر آج بھی اسی شوق اور انبساط کے ساتھ پڑھے جاتے ہوں، یہ بھی تو سوچیے کہ کیا آپ کی شاعری کو شاعری تسلیم نہ کیے جانے کے بعد آج تک کسی شخص نے یہ سوال قائم کیا کہ شمس الرحمن فاروقی کی شاعری نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ہے ، چنانچہ اس کو ضبط کر لینا چاہیے۔ابھی لوگ ادب کے حوالے سے ایسے بھی پست ہمت نہیں ہیں کہ نئی نظم کا سفر میں آپ کی نظموں کو شامل دیکھ کر خلیل الرحمن اعظمی کی نیت پر شک کرنا شروع کر دیں۔

آپ لوگوں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے پہلے ہی نئی شاعری کے تعلق سے ایک ہوا بنا لی ہے۔میں آپ کی اطلاع کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان میں اچھی شاعری ہونا بند نہیں ہوئی ہے۔نئی شاعری کو ایک نظر ٹھیک سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔اسی حوالے سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا، ایک بار میں زبیر صاحب کے یہاں بیٹھا تھا اور ان سے نئی نسل کی شاعری پر بات چیت ہو رہی تھی۔ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ نئی نسل میں وہ رمق نہیں ہے جو ہمارے عہد میں تھی، آپ لوگ بس ذرا ذرا ساچمک کر رہ جاتے ہیں۔میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس ذرا ذرا سا چمک کر رہ جانے میں آپ لوگوں کے ایسے بیانات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔دراصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ پہلے غیر ضروری اور غیر شاعروں پر مروت میں فلیپ لکھتے ہیں، بعد ازاں آپ کو اس غلطی کا احساس ہوتا ہے تو نئی نسل کے مذہب شاعری کے تعلق سے ایک فتویٰ دے دیتے ہیں۔مجھے ایک بات بتائیے! کیا کسی جینوین آدمی کو یہ پڑی ہے کہ وہ آپ کے پاس جا کر یہ کہے کہ فاروقی صاحب میری شاعری کو دیکھیے! امید ہے کہ نئی نسل سے آپ کو جو مایوسی ہوئی ہے، وہ یہ کلام دیکھ کر (کچھ حد تک ہی سہی)دور ہو جائے گی۔ہم آپ کے پاس کیوں جائیں گے۔آپ نے شب خون بند کر دیا اور خبر نامے میں شاعری اور افسانہ نہیں شائع ہوتے، ورنہ ہماری تخلیقات آپ تک ضرور پہنچ جاتیں اور آپ کو پتہ چلتا کہ اچھا ادب لکھنے والے مرے نہیں، پیدا بھی ہوئے ہیں۔میں اس دلیل کے لیے یہاں کچھ لوگوں کے نام اور ان کا مختصر کلام پیش کر رہا ہوں، امید ہے کہ ان تک آپ کی نگاہ پہنچے گی اور آپ ان کی فنی صلاحیت کا اعتراف بھی کریں گے اگر آپ کے رویے میں کسی قسم کی rigidityنہیں ہے اور آپ اچھا ادب پڑھنے اور لکھنے دونوں پر یقین رکھتے ہیں۔

پاکستان میں: علی اکبر ناطق، زاہد امروز، ضیا المصطفیٰ ترک، بلال احمد، مبشر سعیدوغیرہ

ہندوستان میں: معید رشیدی، سالم سلیم، امیر حمزہ ثاقب، امیر امام، مہیندر کمار ثانی، شیخ خالد کرار، ابھیشیک شکلا، غالب ایاز اور صابر وغیرہ

اس میں ہوسکتا ہے کہ بہت سے نام میں اس وقت بھول گیا ہوں جونئی نسل کے نمائندہ شاعروں کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔مگر ’کھڑکی میں خواب‘ جیسے ننھے منے انتخابات ان کا حق نہیں ادا کرسکتے۔

علی اکبر ناطق، زاہد امروز یہ دونوں اجمل کمال کے رسالے ’’آج‘‘ میں نمایاں طور پر شائع ہو چکے ہیں۔چنانچہ امید ہے کہ آپ نے انہیں پڑھا ہوگا۔ناطق اور ضیا المصطفی ترک پر آپ کی جو رائے تھی وہ ڈھکی چھپی نہیں ہے۔آپ نے ان کی شاعری کی خود بھی بہت تعریف کی تھی، کیا وہ بغیر کسی ادبی و تخلیقی کارنامے کے ہی اس تعریف کے مستحق ہو گئے؟باقی لوگوں میں سے بیشتر کے اشعار یہاں درج کر رہا ہوں۔ان میں سے بیشتر کے شعری مجموعے شائع نہیں ہوئے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کسی قسم کا کارنامہ نہیں انجام دے رہے ہیں۔

تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا

تو ابھی رقص کراؤں ہو کے دکھاؤں تجھ کو

(مبشر سعید)

میں زمانے کی لکیروں میں الجھتا کیسے

آسمانوں سے مری گردش پا لگتی ہے

(معید رشیدی)

اپنے جیسی کوئی تصویر بنانی تھی مجھے

مرے اندر سے سبھی رنگ تمہارے نکلے

(سالم سلیم)

ورنہ اس خاک کے تودے کی کوئی وقعت تھی

ہم نے تعظیم بدن تیری بدولت کی ہے

(امیر حمزہ ثاقب)

درمیاں آیا ایسے وہ لمحہ کہ بس عشق کے در کی زنجیر ہلتی رہی

اڑ گیا لے کے ہم کو براق بدن اور کھلا ہم نئے آسمانوں میں ہیں

(امیر امام)

روشنی کے لفظ میں تحلیل ہو جانے سے قبل

اک خلا پڑتا ہے جس میں گھومتا رہتا ہوں میں

(مہیندر کمار ثانی)

ترے ہونے سے بھی اب کچھ نہیں ہونے والا

مجھ میں باقی ہی نہیں ہے کوئی رونے والا

(سرفراز خالد)

میں اک خطا کی طرح تجھ سے ہو گیا تھا کبھی

اب اک سزا کی طرح خود کو کاٹتا ہوا ہوں

(ابھیشیک شکلا)

حکایتیں تھیں مری راویوں کے نرغے میں

پھر اس کے بعد جہاں مجھ سے بدگمان ملا

(غالب ایاز)

کارنامہ کہہ کر تو آپ نے ہمیں ایسا ڈرا دیا تھا کہ ہم سمجھے کہ تخلیقی سطح پر شاعر کو کوئی سینچری مارنی پڑتی ہے۔اچھے تخلیق کار کی پہچان صرف اس کے مشاہدے سے ہوتی ہے ، اس کا علمی، منطقی اور شعری رویہ جتنا پائدار ہوگا ، شاعر اتنی ہی دیر تک زندہ رہ سکے گا۔پڑھنے والے کم ہوئے یا لکھنے والے۔اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ذرا مشکل ہے۔ایک شعر میں کیا کچھ چھپا ہے یہ کسی ناقد سے زیادہ اور کون سمجھے گا۔تخلیقی ادب ہمارے لیے زندہ تحریروں اور شعروں کا نام ہے، اسی وجہ سے ہم عابد منصوری کے اس شعر کو بھی تخلیقی سطح پر بڑا کارنامہ ہی تصور کرتے ہیں، جس نے تاریخ کے ایک اہم واقعے بڑی خوبصورتی سے شعر کے قالب میں ڈھال دیا ہے اور شعر بھی بنا لیا ہے۔

میں سرجھکائے اس کی گلی سے گزر گیا

چلغوزے پھینکتی رہی وہ مجھ پہ بام سے

(اتمام)

٭٭٭

ماخذ:

http://rekhtaurdupoetry.blogspot.in/2013/09/blog-post_19.html

http://tasneefsayyed.blogspot.in

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید