FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

رومن اردو کا ایک جامع نظام

 

 

 

سرور عالم رازسرور

 

 

 1.0  ابتدائیہ

 

انگریزی رسم خط میں اردو زبان کی کتابت کو” رومن اردو” کہا جاتا ہے۔ رومن اردو کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ ہندوستان پر اپنی حکومت کے دوران انگریز اپنی تحریروں میں مقامی زبانوں کے الفاظ استعمال کیا کر تے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی پروپیگنڈہ کی خاطر حکومت کی جانب سے رومن اردو میں اخبارات و رسائل شائع ہوا کرتے تھے جو جنگ کے اختتام پر اپنے فطری انجام کو پہنچے اور بند ہو گئے۔ حال ہی میں اخبار جنگ (پاکستان) نے جزوی طور پر رومن اردو میں اشاعت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ کمپیوٹر انٹرنیٹ (internet) کی اردو محفلوں میں بھی تقریباً سارا کام رومن اردو میں ہی ہوتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ رومن اردو کے ایک سکہ بند اور ٹکسالی نظام (standard system) کی عدم موجودگی میں رومن اردو کے متعدد طریقے رائج ہیں جو نہ صرف مکمل اور جامع نہیں ہیں بلکہ اندرونی نا ہمواری اور تضادات کا شکار بھی ہیں ۔ اب تک کوئی ایسا نظام تحریر تجویز نہیں کیا گیا ہے جو اردو کتابت اور تلفظ کے جملہ رموزو نکات کا احاطہ کرتا ہو اور اپنے اندر ایک ٹکسالی نظام بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔

اردو کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اس میں کسی سطح پر کوئی ایسا فعال ادارہ نہیں ہے جو ایک ٹکسالی نظام تحریر کی تشکیل، تہذیب اور اشاعت کا کام سنبھال سکے اور اردو کو جدید دور کے تقاضوں سے عہدہ بر آ ہونے میں مدد دے سکے۔ فی زمانہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے وقت اور فاصلوں کی طنابیں کھینچ کر دنیا کو نہایت مختصر کر دیا ہے۔ انٹرنیٹ کی زبان دنیا بھر میں انگریزی ہی ہے۔ چنانچہ اس کے رسم خط کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا دانشمندی کی دلیل ہے۔ زیر نظر مقالہ کا مقصد رومن اردو کا ایک جامع (Comprehensive) مکمل اور قابل عمل (practical) نظام تجویز کرنا ہے۔ مجوزہ نظام تحریر کے مقاصد حسب ذیل ہیں :

(۱) اردو کتابت اور تلفظ کے جملہ رموزو نکات کا احاطہ کر تے ہوئے رومن اردو کتابت کے اصول منضبط کرنا۔

(۲) نظام تحریر کو اندرونی نا ہمواریوں اور تضادات سے پاک رکھنا۔

(۳) اردو اور رومن اردو کے ما بین نقل تحریر (transliteration) کو آسان اور قابل عمل رکھنا تا کہ ایک معمولی پڑھا لکھا شخص بھی ایک زبان کی تحریر کو دوسری زبان میں صحیح نقل کر سکے۔

یہاں یہ وضاحت نہایت ضرورسی ہے کہ رومن اردو کے مجوزہ نظام کا مقصد اردو رسم خط کو کسی طرح بدلنا ہرگز نہیں ہے۔ راقم الحروف اردو رسم خط کے قیام و ثبات کا سختی سے قائل ہے اور ہر اس تحریک کا مخالف ہے جو کسی سطح پر بھی اردو رسم خط کو دیوناگری، انگریزی، یا کسی اور رسم خط سے بدلنے پر مبنی ہے۔ مجوزہ نظام تحریر وقت کی بدلتی ہوئی اقدار اور تقاضوں کے عملی اعتراف کی ایک شکل ہے اور اس کا واحد مقصد اردو کو ان تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت فراہم کرنا ہے۔

 

2.0 مروجہ رومن اردو کتابت کی مشکلات

 

 

ذیل میں رومن اردو کتابت کے مروجہ طریقوں کے چند نمونے پیش کئے جا رہے ہیں ۔ ان پر ایک نظر ہی ان کی مشکلات اور خامیوں کی نشاندہی کے لئے کافی ہے۔ ان طریقوں سے ایسے معمولی پڑھے لکھے لوگوں کا کام تو کم و بیش چل سکتا ہے جن کو زبان و ادب سے دلچسپی نہیں ہے لیکن اہل ادب کی تشفی ان سے ممکن نہیں ہے۔

 

(یہاں الگ صفحہ پر دئے گئے مروجہ رومن اردو کے نمونوں کو لکھئے۔ Roman Urdu examples to be inserted here)

 

رومن طریق تحریر کی ان مثالوں میں درج ذیل مشکلات نظر آتی ہیں :

(۱) بیشتر نظام تحریر اردو کے ہم صوت حروف (ا، ع) ؛ (ذ، ز، ض، ظ)؛ (ت، ط)؛ (ث، س، ص) میں تمیز نہہیں کرتے ہیں اور ان کی ادائیگی کے لئے کسی ایک رومن حرف کو ہی استعمال کرتے ہیں ۔ مثلاً ـ ذ، ز، ض، ظ کے لئے  z لکھا جاتاہے۔ اس طرز عمل سے نہ صرف یہ کہ اردو کا صحیح املا مسخ ہو جاتاہے بلکہ ایسے بہت سے الفاظ کی ادائیگی اور افہام و تفہیم بھی غیر ممکن ہو جاتی ہے جو املا بدلنے سے غیر واضح ہو جاتے ہیں اور اکثر مختلف معانی بھی اختیار کرلیتے ہیں ، مثلا ’’ اِسم اور اِثم؛ اَرَب اور عَرَب؛ اَرض اور عَرض؛ ثواب اور صواب؛ اَلَم اور عَلَم وغیرہ۔

(۲) ان میں سے کوئی نظام بھی اعراب و حرکات لگانے کا ایک معقول و مربوط طریقہ استعمال نہیں کرتا ہے اور اکثر صرف اندازہ سے ہی تحریر پڑھنی پڑتی ہے۔ اردو میں بہت سے ایسے الفاظ ہیں جن کا املا تو ایک ہی ہے لیکن جن پر اعراب بدلنے سے ان کے معانی بدل جاتے ہیں ۔ مثلاً بَری (آزاد) اوربرّی (زمینی)؛ بَس (کافی) اور بِس (زہر)؛ دَرد(تکلیف) اور دُرد (تلچھٹ)؛ مَلِک (بادشاہ)، مَلَک (فرشتہ)، مُلک (دیس) اور مِلک (جائداد)۔

(۳) بعض نظام حروف ہجا اور اعراب کے لئے ایسی مشکل اور عجیب و غریب علامات استعمال کرتے ہیں کہ ان کو سمجھنا، پڑھنا اور پھر استعمال کرنا عوام تو کیا اہل علم کے لئے بھی آسان نہیں ہے۔

(۴) اکثر نظام اندرونی نا ہمواری اور تضاد کا شکار ہیں جو بجائے خود ایک ٹکسالی نظام کی ترویج اور نفاذ کی راہ میں حائل ہیں ۔

(۵) یہ نظام اردو اور رومن کے مابین آسان اور قابل عمل نقل تحریر (transliteration) کی سہولت فراہم نہیں کرتے ہیں ۔

 

 

 3.0 مجوزہ نظام کے بنیادی اصول

 

زیر نظر نظام اوپر دی ہوئی سب مشکلات اور خامیوں کا مناسب، آسان اور جامع حل پیش کرتا ہے۔ اس نظام تحریر کی جامعیت اور آسانی مندرجہ ذیل اصولوں پر مبنی ہے:

(۱) اردہ کے تمام حروف ہجا اور علامات و اعراب کے لئے منفرد رومن حروف و علامات استعمال کئے جائیں گے اور یہ حروف و علامات پھر کسی اور مقصد کے لئے استعمال نہیں ہوں گے۔

(۲) اردو کے ہم صوت الفاظ کی کتابت کے امتیاز کو رومن اردو میں قائم رکھا جائے گا یعنی ایک ہی رومن حرف سے اردو کے متعدد ہم صوت حروف نہیں دکھائے جائیں گے۔

(۳) اردو اور رومن اردو کے مابین نقل تحریر کی آسانی ایک بنیادی ضرورت ہے جسے یہ نظام پورا کرے گا۔

(۴) مجوزہ نظام میں اس کی بنیادی صورت کو مجروح کئے بغیر اصلاح و ترمیم کی گنجائش رکھی جائے گی۔

اس نظام کی تفاصیل بیان کرنے میں اس کا خیال رکھا گیا ہے کہ رومن اردو کا کوئی اصول کتابت یا تفصیل بیان کرنے سے قبل اس سے متعلقہ تمام نکات واضح کر دئے جائیں تا کہ بلا ضرورت مضمون کے صفحات پلٹنے کی ضرورت نہ ہو۔

 

 

4.0  اردو کے حروف ہجا

 

 

اردو کے بنیادی حروف ہجا عربی سے مستعار ہیں ۔ عربی حروف ہجا میں اہل فارس کے چند اضافوں کے بعد اہل ہند نے بھی ان میں اپنی ضرورت کی بنا پر چند حروف کا اضافہ کیا ہے۔ اس طرح اردو کے جو حروف ہجا وجود میں آئے وہ حسب ذیل ہیں :

 

4.1 : عربی سے مستعار بنیادی حروف:

 

ان حروف کی کل تعداد انتیس (۲۹) ہے:

۱

ب

ت

ث

ج

ح

خ

د

ذ

ر

ز

س

ش

ص

ض

ط

ظ

ع

غ

ف

ق

ک

ل

م

ن

و

ہ

ھ

ی

 

 4.2 :اہل ایران کے وضع کردہ اضافی حروف:

 

درج بالا حروف میں اہل ایران نے پانچ نئے حروف کا اضافہ کیا ہے۔ اس طرح یہ تعداد چونتیس

(۳۴ ) ہو گئی :

پ

چ

ژ

گ

ے

ان حروف میں سے ژ کے علاوہ سب ہندی میں مستعمل ہیں ۔ ژ فارسی کا خاص حرف ہے جو اس زبان میں بھی معدودے چند الفاظ ہی میں استعمال کیا جاتا ہے۔

 

 

4.3 : اہل ہند کے وضع کردہ اضافی حروف

 

 

مندرجہ بالا چونتیس ( ۳۴ ) حروف ہجا میں اہل ہند نے تین حروف کا اضافہ کیا اور اس طرح ان کی تعداد سینتیس (۳۷) ہو گئی :

ٹ

ڈ

ڑ

یہ درشت آوازیں مقامی زبانوں کا حصہ تھیں اور ان کی شمولیت نے اردو کو نئی آوازوں کی ادائیگی کی صلاحیت سے آشنا کیا۔ اس ضروری اضافہ کے باوجود ہندی کے بہت سے ایسے الفاظ تھے جن کی ادائیگی درج بالا سینتیس(۳۷) حروف سے بھی ممکن نہیں تھی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے دس (۱۰)  مرکب حروف وضع کئے گئے:

بھ

پھ

تھ

ٹھ

جھ

چھ

دھ

ڈھ

کھ

گھ

ان حروف میں سے ہر ایک حرف الفاظ کے شروع میں آ سکتا ہے اور اکثر حروف الفاظ کے درمیان اور آخر میں بھی آتے ہیں : ( بھول، دوبھر، لابھ)؛ (پھر، بپھر)؛ (تھم، گتھی، ہاتھ)؛ (ٹھیک، گٹھری، کاٹھ)؛ (جھرنا، مجھے، بانجھ)؛ (چھرا، اچھا، کچھ)؛ (دھن، آدھا، دودھ)؛ (ڈھیر، گڈھا)؛ (کھانا، دیکھنا، ایکھ)؛ (گھر، بگھارنا، میگھ)۔

ان مرکب حروف کے علاوہ پانچ ایسے مرکب حروف مزید وضع کئے گئے جو الفاظ کے درمیان یا آخر میں تو آتے ہیں لیکن ان کے شروع میں کبھی نہیں استعمال ہوتے ہیں :

رھ

ڑھ

لھ

مھ

نھ

تیرھواں

آڑھت، گڑھ

کولھو

کمھار

ننھا، منھ

ان سب حروف کو شمار کیجئے تو مجموعی تعداد باون(۵۲) قرار پاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ بنیادی حروف وہی سینتیس (۳۷) ہیں جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے اور جن میں مرکب حروف شامل نہیں ہیں ۔

 

 

5.0  اردو حروف سے رومن حروف کی تطبیق

 

یہ ظاہر ہے کہ تمام اردو حروف کو ادا کرنے کے لئے محض چھبیس (۲۶) رومن حروف ناکافی ہیں اوراس مقصد کے لئے رومن حروف کی کچھ اور ترمیم شدہ صورتیں وضع کرنی ضروری ہیں ۔ نیچے دئے ہوئے نقشہ میں اردو حروف کے لئے رومن حروف کی وہ متبادل شکلیں دی جا رہی ہیں جو مجوزہ نظام میں استعمال کی گئی ہیں :

   ۱   ب   پ   ت   ٹ   ث   ج   چ
a    b  p     t  T     c     j ch
  ح   خ   د    ڈ    ذ    ر   ڑ   ز
H Kh  d  D Z  r    R  z
   ژ   س   ش   ص   ض   ط   ظ   ع
zh    s sh    S Z^ t^ z^ a’
  غ   ف    ق  ک  گ   ل   م   ن
Gh  f  q  k  g  l    m  n
   و   ہ   ھ   ی   ے   ں  
v,w  h h~  y Y    N    
  بھ   پھ   تھ   ٹھ   جھ   چھ   دھ   ڈھ
bh~ ph~ th~ Th~ jh~ ch~ dh~ Dh~
  کھ   گھ   رھ   ژھ   لھ   مھ   نھ  
kh~ gh~ rh~ Rh~ lh~ mh~ nh~  

 

حواشی

 

 

(۱) یہاں خ اور غ کو بالترتیب  (K  اور G سے دکھانے کی بجائے) Kh اور Gh سے ادا کیا گیا ہے تاکہ ان مرکب حروف کو دیکھتے ہی ذہن متعلقہ اردو حروف کی جانب منتقل ہو جائے۔ مزید یہ کہ کھ  اور گھ کو  kh~ اور gh~ سے ادا کرنے کے بعد خ اور غ کو  Kh  اور Gh سے ادا کرنا ایک فطری امر بھی ہے۔

(۲) ض، ط اور ظ  کے لئے بالترتیب  t^, Z^  اور z^  استعمال کئے گئے ہیں ۔ ان حروف پر لگا ہوا امتیازی نشان (^ )

کمپیوٹر کی بورڈ  computer keyboard  پر آسانی سے ٹائپ ہو سکتا ہے اور ہاتھ سے بھی بنایا جا سکتا ہے۔

(۳) ہائے دو چشمی ھ ( h~) کو ہائے ہوز (ہ  h )  سے ممتاز رکھا گیا ہے کیونکہ مرکب ہندی حروف کا استعمال ہائے دو چشمی کے ساتھ ہی صحیح ہے۔ اس کی ایک متبادل شکل h` بھی ہے۔  اگر اس کے بجائے ہائے ہوز لکھی جائے تو وہ علحدہ حرف کی طرح ادا ہو گی جب کہ ہائے دو چشمی الفاظ میں گھل مل جاتی ہے، مثلاً بُھن اور بہن؛ پھاڑ اور پہاڑ؛ ٹھوکا اور ٹہوکا؛ چھرا اور چہرا؛ گھر اور گہر وغیرہ۔ یہ تفریق اردو اور رومن اردو کے مابین نقل تحریر (transliteration) کے لئے اشد ضر وری ہے۔ ظاہر ہے کہ صرف اردو کی حد تک اس نفاست کی شاید ضرورت نہیں ہے اور ہائے دو چشمی کو نظر انداز کر کے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ گویا ہائے دو چشمی کو تین مختلف صورتوں میں لکھا جاسکتاہے: h, h`, h~

(۴) الف کے لئے a اور عین کے لئے  a’ کے استعمال کی وجہ ان حروف کی آوازوں کی مماثلت ہے۔ اردو میں ان حروف کی آوازوں میں تفریق نہیں کی جاتی ہے لیکن چونکہ الف اور عین کی مکتوبی صورت مختلف ہے اس لئے رومن اردو میں یہ امتیاز قائم رکھنا ضروری ہے تاکہ اردو اور رومن اردو کے ما بین نقل تحریر (transliteration) آسان اور واضح رہے۔

(۵) یہاں یہ وضاحت بھی اشد ضروری ہے کہ apostrophe  کی علامت (‘) اس نظام میں حرف عین کے لئے مختص کر دی گئی ہے۔ یعنی جہاں کہیں بھی یہ علامت نظر آئے گی وہاں متعلقہ حرف یا علامت کو عین سے وابستہ سمجھا جائے گا۔ اس اصول کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔

 

 

6.0  اعراب اور حرکات

 

حروف ہجا کو آپس میں مختلف اعراب و حرکات (زیر، زبر، پیش وغیرہ) سے ملا کر الفاظ بنائے جاتے ہیں ۔ رومن اردو میں ان اعراب کی متبادل صورتیں ظاہر کرنا اشد ضروری ہے تاکہ صحیح کتابت، تلفظ اور نقل تحریر بخوبی ہو سکیں ۔ آوازوں کو یہاں دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

(۱) چھوٹی آوازیں مثلاً اَب، اِس، اُس

(۲) لمبی آوازیں مثلاً اَور، اوس، دِیر، خَیر، اِیکھ

اعراب و حرکات کی درج ذیل تفصیل اردو املا اور تلفظ کے تقریباً تمام رموز و جزویات کا احاطہ کرتی ہے۔ اپنی ظاہری طوالت کے باوجود یہ تفصیل آسان اور عام فہم ہے اور ذرا سی توجہ اور محنت سے اس پر عمل ممکن ہے۔ رومن تحریر کے ہر نظام کے استعمال سے قبل اس کے کلیدی اصول ذہن نشین کرنے ضروری ہیں ۔ مجوزہ نظام کے اصولوں کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اس نظام تحریر کی جامعیت تفصیل کی متقاضی ہے۔ ان تفاصیل سے اعراض کر کے کوئی بھی نظام جامعیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا ہے۔

 

6.1 اعراب کی چھوٹی آوازیں

 

یہ آوازیں تقریباً ہمیشہ ہی الفاظ کے شروع یا درمیان میں آتی ہیں ۔ الف اور عین کے علاوہ اور تمام حروف ہجا پر ان آوازوں کے عمل کا اظہار آسان ہے۔ البتہ الف اور عین کے تعلق سے کچھ دقت پیش آتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ان حروف کی آوازوں کی مماثلت ہے اور دوسری وجہ تلفظ اور املا کی وہ مخصوص صورتیں ہیں جو ان کے اشتراک سے ظہور پذیر ہوتی ہیں ۔ ان صورتوں کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔

 

6.1-a زبر (فتح) کی چھوٹی آواز

 

یہ آواز جو کسی حرف پر زبر (فتح) لگا کر ادا کی جاتی ہے (مثلاً  اَب، سَبَب) رومن اردو میں a سے دکھائی جائے گی اور اس کو متعلقہ حرف کے فوراً بعد لکھا جائے گا۔ الف اور عین کے علاوہ اس اصول کا اطلاق سب حروف پر ہو گا، مثلاً:

 سَبَب  بَرزَخ  زَخم  بَرحَق
sabab barzaKh zaKhm barHaq

 

 

6.1-b الف پر زبر کی چھوٹی آواز

 

چونکہ اس نظام تحریر میں الف کے لئے a  استعمال کیا گیا ہے اس لئے زبر کے لئے بھی a لکھنے سے غلطی کا احتمال ہو سکتا ہے۔ لیکن ذرا سے تفکر سے یہ خیال بے بنیاد ثابت ہو تا ہے۔ اردو میں الف زبر کی چھوٹی آواز کے ساتھ الفاظ کے صرف شروع ہی میں آتا ہے، درمیان یا آخر میں کبھی نہیں آتا۔ چنانچہ الف پر زبر لگانے کے اصول یوں بیان کئے جا سکتے ہیں :

( ۱ ) جب رومن تحریر میں a کسی لفظ کے شروع میں آئے گا تو وہ ہمیشہ اَلِفِ مفتوح (زبر والا الف) کا رومن متبادل مانا جائے گا۔

( ۲ ) جب رومن تحریر میں a کسی لفظ کے درمیان میں آئے گاتو اس سے متعلقہ حرف پر زبر متصور ہو گا۔

اَب  اَفسرَ  اَدَب  اَگرَ مَگَر
ab afsar adab agar-magar

 

 

 6.1-c عین پر زبر کی چھوٹی آواز

 

چونکہ اس نظام تحریر میں عین کے لئے a’ استعمال کیا گیا ہے اس لئے اس کو زبر کی آواز دینا بہ ظاہر دقت طلب ہے۔ عین کی مفتوح (زبر والی) صورت الفاظ کے شروع، درمیان اور آخر میں آ سکتی ہے۔ چنانچہ عین پر زبر لگانے کا اصول درج ذیل شکل میں معین کیا جا سکتا ہے:

جب رومن اردو میں a’کہیں بھی اپنی چھوٹی آواز کے ساتھ آئے گا تو وہ عینِ مفتوح (زبر والا عین) مانا جائے گا۔ اس استعمال کی بنیاد apostrophe ( ‘ ) کو عین سے مختص کرنا سہے۔ گویا a’ سے زبر کی علامت  a کا عین پر لگا ہونا ( ‘ )  سے ظاہر کیا جائے گا۔

 عَرض  عَجَب َ لَعَب  اَبعَد  شَمع
a’rZ^ a’jab laa’b aba’d shama’

 

 

 

 6.1-d زیر (کسرہ) کی چھوٹی آواز

 

اردو میں کسی حرف پر زیر (کسرہ) لگا کر جو آواز ادا کی جاتی ہے (مثلاً کِس، تِل) وہ رومن اردو میں i  سے ادا کی جائے گی اور اس کو متعلقہ حرف کے فوراً بعد لکھا جائے گا۔ الف اور عین کے علاوہ اس اصول کا اطلاق سب حروف پر ہو گا :

 بِس (زہر)  کِشمِش  نَجِس
bis kishmish najis

 

6.1-e الف پر زیر کی چھوٹی آواز

 

الف زیر کی چھوٹی آواز کے ساتھ الفاظ کے صرف شروع ہی میں آتا ہے (مثلاً  اِس، اِدھر)۔ الفاظ کے درمیان میں یا آخر میں کبھی نہیں آتا۔ اس حقیقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رومن اردو میں a (الف)پر زبر لگانے کا اصول درج ذیل ہے:

جب  iکسی لفظ کے شروع میں آئے گا تو ہمیشہ وہ الفِ مکسور (زیر والا الف) کا رومن متبادل سمجھا جائے گا۔

 اِس  اِدھر  اِردگِرد
is idh~ar ird-gird

 

6.1-f عین پر زیر کی چھوٹی آواز

 

عین زیر کی چھوٹی آواز کے ساتھ الفاظ کے شروع اور درمیان میں آتا ہے۔ الفاظ کے آخر میں یہ صرف تراکیب میں ہی آتا ہے (مثلاً شمعِ مزار)۔ چونکہ زیر نظر نظام میں عین کو a’ سے ظاہر کیا گیا ہے اس لئے اس پر زیر لگانے کا درج ذیل اصول معین کیا گیا ہے:

رومن اردو میں i’ سے مراد عین مکسور (زیر والی عین ) ہو گی خواہ وہ عبارت میں کسی جگہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس اصول کی بنیاد بھی apostrophe ( ‘ )کو عین کے ساتھ مختص کر دینا ہے۔ گویا i’  سے زیر کی علامت کا عین پر لگا ہوناapostrophe ( ‘ )  سے ظاہر کیا گیا ہے۔

 

 عِشرت  بَعِث(شب بیدار)  عِبرت  تَعِب(تھکا ہوا)
i’shrat bai’c i’brat tai’b

 

 

6.1-g حروف ہجا پر پیش (ضمہ) کی چھوٹی آواز

 

اردو میں کسی حرف پر پیش (ضمہ) لگا کر جو آواز ادا کی جاتی ہے (مثلاً  اُس، بُت) اس کو رومن اردو میں  u سے ادا کیا جائے گا اور اس کو متعلقہ حرف کے فوراً  بعد لکھا جائے گا۔ الف اور عین کے علاوہ اس اصول کا اطلاق سب حروف پر ہو گا، مثلاً :

 

 بُت  گُُذر  شَگُن  بُلبُل
but guZar shagun bulbul

 

 6.1-h  الف پر پیش کی چھوٹی آواز

 

الف پیش کی چھوٹی آواز کے ساتھ الفاظ کے شروع میں ہی آتا ہے (مثلاً  اُس، اُدھر)، درمیان میں یا آخر میں کبھی بھی نہیں آتا۔ چنانچہ رومن اردو میں a (الف) پر پیش لگانے کے مندرجہ اصول بنائے گئے ہیں :

(۱ )  جب  u کسی لفظ کے شروع میں آئے گا تو وہ ہمیشہ الف مضموم (پیش والا الف) مانا جائے گا۔

(۲) جب  u کسی لفظ کے درمیان میں یا آخر میں آئے گا تو وہ متعلقہ حرف پر پیش کی علامت مانا جائے گا۔

 

 اُس  اُدھر  اُثر (پیچھے)  شُدبُد
us udh~ar ucr shud-bud

 

 

6.1-i عین پر پیش کی چھوٹی آواز

 

عین پیش کے ساتھ الفاظ کے شروع یا درمیان میں آتا ہے۔ زیر نظر نظام تحریر میں عین کو  a’ سے ظاہر کیا گیا ہے اور اس پر پیش لگانے کا مندرجہ

ذ یل اصول اپنایا گیا ہے:

رومن اردو میں عین مضمومہ کو u’ سے دکھایا جائے گا۔

اس اصول کی بنیاد اس بات پر ہے کہ یہاں  u سے پیش کی علامت دکھائی گئی ہے اور  apostrophe ( ‘ ) عین کی شناخت کے لئے مختص کر دیا گیا ہے۔ گویا u’ سے پیش کی علامت کا عین پر لگا ہونا اس پر apostrophe ( ‘ )  لگا کر کیا گیا ہے۔

 

 عُذر  عُجلت  عُسرت  سُعُر (عذاب)
u’Zr u’jlat u’srat suu’r

 

 6.2 اعراب کی لمبی آوازیں

 

اردو میں اعراب کی لمبی آوازیں مختلف صورتوں میں مستعمل ہیں ۔ ان آوازوں کی تفصیل اور رومن اردو میں ان کی ادائیگی کے اصول پر یہاں مختصر روشنی ڈالی گئی ہے۔

 

6.2-a زبر کی لمبی آوازیں : اردو میں زبر کی لمبی آوازیں پانچ طرح سے آتی ہیں :

(۱) الفاظ کے شروع میں ، مثلاً  آج، آم

(۲) الفاظ کے درمیان میں مثلاً  آغاز، دلنواز

(۳) الفاظ کے آخر میں مثلاً  خدا، برملا

(۴) حروف کو ے کے ساتھ زبر سے ملا کر مثلاً  جَیسا، مابَین

(۵) حروف کو واو کے ساتھ زبر سے ملا کر مثلاً  جَور، ضَو

6.2-a1 مختلف حروف پر لمبا زبر: مختلف حروف ہجا پر لمبا زبر لگانے کی تفصیل درج ذیل گروہوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔

(ا) عین کے علاوہ اس نظام میں الفاظ کے شروع، درمیان یا آخر میں آنے والے دوسرے حروف کے ساتھ والی لمبے زبر کی آوازیں aa سے ادا کی جائیں گی۔

 

 باور  آم آغاز  دلنواز  خدا  برملا
baawar aam aaGhaaz dilnawaaz Khudaa barmalaa

 

(ب) عین کے علاوہ دوسرے سب حروف ہجا کو یائے مجہول (ے) کے ساتھ زبر سے ملانے سے جو آواز پیدا کی جاتی ہے (مثلاً  جَیسا، دَیر) اس کو رومن اردو میں ai سے ادا کیا جائے گا اور یہ علامت متعلقہ حر ف کے فوراً بعد لگائی جائے گی۔

 

 جَیسا  مابَین  فَیض  خُیرات  اَیسا
jaisaa maabain faiZ^ Khairaat aisaa

 

(پ) عین کے علاوہ دوسرے سب حروف ہجا کو واو کے ساتھ زبر سے ملانے سے جو آواز پیدا کی جاتی ہے (مثلاً  اَ ور، غَور) اس کو رومن اردو میں au سے ادا کیا جائے گا اور یہ علامت متعلقہ حرف کے فوراً بعد لگائی جائے گی۔

 

 اَور  بَغَور  ضَو  طَوق  دَوران
aur baGhaur Z^au t^auq dauraan

 

 6.2-a2 عین پر لمبا زبر

 

عین کو الف، واو اور ے سے زبر کے ذریعہ ملا کر جو آوازیں پیدا کی جاتی ہیں وہ اوپر دی ہوئی آوازوں کی طرح ہی ہیں ۔ البتہ الف اور عین کو بالترتیب  a اور a’ سے دکھانا ان کو آپس میں ملانے اور زبر کی مختلف صورتوں کی وضاحت کے عمل کو مشکل بنا دیتا ہے۔ اگر یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ اس نظام میں عین سے کسی حرف یا علامت کی نسبت apostrophe ( ‘ ) سے ظاہر کی گئی ہے تو درج ذیل اصول بنائے جا سکتے ہیں :

(ا) عین اور الف کے اشتراک سے جو لمبی آوازیں پیدا ہوتی ہیں وہ a’a  یا aa’  سے ادا کی جائیں گی، مثلاً  :

 

 شُعاع عَادَت عَارِض عام shua’a,a’
a’adat a’ariZ^ a’am    

 

یہاں comma ( , )کااستعمال تلفظ کی صراحت کے لئے کیا گیا ہے۔ اگر اس کو نہ لکھا جائے تو a’aa’  کی متصل شکل افہام و تفہیم میں مانع ہو سکتی ہے۔

(۲) عین کو واو کے ساتھ زبر سے ملا کر جو آواز پیدا ہوتی ہے اس کو a’u سے ادا کیا جائے گا:

 

 عَورت  عَورہ  عَون  فرعَون a’urat
a’urah a’un fira’un    

 

(۳) عین کو یائے مجہول ے کے ساتھ زبر سے ملا کر جو آواز پیدا کی جاتی ہے اس کو a’i سے ادا کیا جائے گا:

 

 عَینک  عَیب  عَیش  عَین
a’inak a’ib a’ish a’in

 

6.2-b زیر کی لمبی آوازیں :

 

اردو میں زیر کی لمبی صورتوں کی دو صورتیں مستعمل ہیں ۔ پہلی صورت میں حروف ہجا کو یائے معروف ی کے ساتھ ملا کر ایک لمبی نیچی آواز پیدا کی جاتی ہے مثلاً  عجِیب، اِیمان وغیرہ۔ دوسری صورت میں حروف ہجا کو یائے مجہول ے کے ساتھ زیر سے ملا کر ایک درمیانی سی آواز پیدا کی جاتی ہے مثلاً  نیک، درویش وغیرہ۔ زیر نظر نظام میں ان صورتوں کے اصول درج ذیل ہیں :

6.2b-1 : حروف ہجا کو یائے معروف ی سے ملا کر جو آواز پیدا کی جاتی ہے ( مثلاً  عجِیب، غرِیب) اس کو رومن اردو میں ee سے ادا کیا جائے گا اور یہ علامت متعلقہ حرف کے فوراً بعد لگائی جائے گی۔ الف اور عین کی مخصوص صورتوں کے علاوہ یہ اصول ہر حرف تہجی پر کاربند ہو گا۔

 

 عجِیب  غرِیب  سَرسَرِی  پھِیکی
 نَمکِین a’jeeb Ghareeb sarsaree
ph~eekee namkeen    

 

6.2b-2 : الف پر زیر کے استعمال سے لمبی آواز الفاظ کے شروع یا درمیان میں آ سکتی ہے۔

(ا) الفاظ کے شروع میں الف پر زیر کی لمبی آواز ہمیشہ  ee سے دکھائی جائے گی۔

 

 اِیمان  اِیجاز  اِیثار  اِیماء
eemaan eejaaz eecaar eemaa

 

(ب) الفاظ کے درمیان میں آنے والے الف کے ساتھ زیر کی لمبی آواز ہمزہ کی وساطت سے آتی ہے (مثلاً  آئی، دہائی)۔ یہاں بھی یہ آواز ee سے ہی ادا کی جائے گی اور اس کو ی ( y ) سے وابستہ کر کے ادائیگی کی جائے گی۔ وضاحتی comma ( , ) کا استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنا ضروری نہیں ہے۔ راقم خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کا استعمال پڑھنے میں سہولت کا باعث ہو گا کہ نہیں :

آئی دُہائی زائیدہ تائید
aa,yee duhaayee zaayeedah taa,yeed

 

6.2b-3 :  عین پر زیر کے استعمال سے لمبی آواز الفاظ کے شروع یا درمیان میں ا ٓ سکتی ہے۔ عین کے حوالہ سے سب اصول اس حقیقت پر مبنی ہیں کہ اس نظام میں عین کی آواز اور شناخت کے لئے apostrophe ( ‘ ) کو مختص کر دیاگیا ہے۔ چنانچہ یہاں عین کی لمبی آواز ہمیشہ e’e سے دکھائی جائے گی خواہ وہ لفظ کے شروع میں ہویا درمیان میں یا آخر میں ۔

 

  عِید   عِیسوی   بَعِید  سَعِید
 سَعِی e’ed e’esawee bae’ed
sae’ed sae’e    

 

:6.2b-4 حروف ہجا کو یائے مجہول ے کے ساتھ زیر سے ملا کر جو آواز پیدا کی جاتی ہے (مثلاً  نیک) اس کو رومن اردو میں e سے ادا کیا جائے گا اور اس علامت کو متعلقہ حرف کے فوراً  بعد لگایا جائے گا۔

 

نیک ایک درویش شکیب
nek ek darvesh shakeb

 

6.2-c  پیش کی لمبی آوازیں : اردو میں پیش کی جو دو صورتیں مستعمل ہیں رومن اردو میں ان کی ادائیگی کے اصول حسب ذیل ہیں :

(ا) مختلف حروف ہجا کو واو سے پیش کے ذریعہ ملا کر نکالی جانے والی وہ آواز جو ’’سوگ’’ میں ظاہر ہے رومن اردو میں o سے ادا کی جائے گی اور اس علامت کو متعلقہ حر ف کے فوراً  بعد دکھایا جائے گا۔ اگر o لفظ کے شروع میں آئے گا تو اس کو ’’ الف، واو پیش او ’’ سمجھا جائے گا۔ باقی ہر مقام پر اس کو متعلقہ حر ف پر پیش مانا جائے گا۔

 

سوز بوجھ لوگو دیکھو
اوچھا soz bojh~ logo
dekh~o och~aa    

 

(۲) حروف ہجا کو واو سے پیش کے ذریعہ ملا کر نکالی جانے والی آواز جو ’’اوپر’’ میں ظاہر ہے اس کو رومن اردو میں  oo سے ادا کیا جائے گا اور یہ علامت متعلقہ حرف کے فوراً بعد لگائی جائے گی۔ اگرoo  لفظ کے شروع میں آئے گا تو اس کو ’’ الف پیش او’’ سمجھا جائے گا۔ باقی ہر مقام استعمال پر اس کو متعلقہ حرف پر پیش مانا جائے گا۔ نیز یہ کہ ’’عین پیش عو’’ کو  o’o سے ادا کیا جائے گا، گویا  o’o میں apostrophe    یعنی (‘) کی موجودگی اس آواز کی عین سے وابستگی کو ظاہر کرے گی۔

 

 اُوپر   وُضُو   مجبور   عُود  مَوعُود  طاعُون
oopar vuZ^oo majboor o’od mauo’od t^aao’on

 

 

 

 

7.0 چند مخصوص صورتیں

 

اس عنوان کے تحت اردو املا اور تلفظ کی چند مخصوص صورتوں کی رومن اردو میں ادائیگی کے قوانین کا انضباط مقصود ہے۔ یہ اقدام اردو اور رومن اردو کے مابین نقل تحریر (transliteration) اور نظام کی جامعیت کے لئے اشد ضروری ہے۔

 

7.1 اسمائے خاص: اردو کے اسمائے خاص انگریزی رسم خط میں متعدد شکلوں میں لکھے جاتے ہیں ۔ اس نظام میں انگریزی میں اسمائے خاص لکھنے کی سب صورتیں قابل قبول ہوں گی اور ان میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔

 

 رحمٰن  صدیقی  محمد  ابراہیم  نظامی  چودھری
Rehman/ Rahman Siddiqui/ Siddiqee Muhammad/ Mohammad Ibraheem/ Ibrahim Nizamee/ Nizami Choudhry/Chaudhry

 

7.2 : اردو میں غیر زبانوں کے جو الفاظ عام طور سے مستعمل ہیں اور جن کا کوئی اردو متبادل نہیں ہے ان کے املا میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔

 

 کار  ریفریجریٹر  پلیٹ  سایکل  اسٹیڈیم  اسکول
car refrigerater plate cycle stadium school

 

7.3 مشدد حروف:

 

رومن اردو میں مشدد حروف کی ادائیگی ان کو دو مرتبہ لکھ کر کی جائے گی:

 

 شدت  تعجب  حجام  رویہ  تکلفات  مصوری
shiddat ta,a’jjub Hajjam rawayyah takallufaat muSawwiree

 

 7.4 تنوین:

 

رومن اردو میں تنوین متعلقہ حرف پر (  ’’  ) لگا کر ظاہر کی جائے گی جیسا کہ اردو کا بھی قاعدہ ہے۔

 

 فرداً  غالباً  مثلاً  اجمالاً
farda” Ghaaliba” macla” ijmaala”

 

7.5 جڑواں الفاظ، سابقے اور لاحقے:

 

اردو میں ایسے سیکڑوں الفاظ مستعمل ہیں جو دو مختلف الفاظ سے مرکب ہیں ۔ ایسے سب الفاظ کو رومن اردو میں dash ( – ) سے الگ کر کے واضح کیا جائے گا۔

 

الم غلم اوبڑکھابڑ غل غپاڑہ اردگرد
allam-Ghallam oobaR-kh~aabaR Ghul-GhapaaRah ird-gird
ہوحق گناچنا تام جھام دھوم دھڑکا
hoo-Haq ginaa-chunaa taam-jh~aam dh~oom-dh~aRakka

 

7.6 تراکیب:

 

اردو میں تراکیب فارسی یا عربی کے اصولوں پر بنائی جاتی ہیں ۔ یہ تراکیب الفاظ یا ان کے مشتقات سے تشکیل دی جاتی ہیں ۔ کتابت کی آسانی اور وضاحت کے پیش نظر تراکیب کی رومن اردو میں کتابت کے درج ذیل اصول بنائے جا رہے ہیں :

(۱) کچھ تراکیب الفاظ سے تشکیل پذیر ہوتی ہیں ۔ ایسی تراکیب کے اجزا ء کو  dash ( – )  سے الگ الگ کر کے دکھایا جائے گا تاکہ پڑھنے میں آسانی ہو۔

 

 زمانہ ساز  غزل نواز  ستم پیشہ  خزاں گزیدہ
zamaanah-saaz Ghazal-nawaaz sitam-peshah KhizaaN-gazeedah

 

(۲) کچھ تراکیب الفاظ اور ان کے مشتقات سے تشکیل دی جاتی ہیں ۔ یہ بغیر dash ( – ) کے بھی لکھی جا سکتی ہیں اور وضاحتی dash کے ساتھ بھی۔

 ستم گر  ہم سفر  سخن ور  دل سوز
sitam-gar ham-safar suKhanwar dilsoz

 

7.7 واو عطف:

اردو میں دو الفاظ کو جوڑنے کے لئے واو عطف کا استعمال کیا جاتا ہے۔ رومن اردو کی کتابت میں اس کو -o-  سے دکھایا جائے گا۔

 

 شب و روز  دل و جان  خواب و خیال  جنت و دوزخ
shab-o-roz dil-o-jaan Khwaab-o-Khayaal jannat-o-dozaKh

 

7.8  اضافت:

 

اردو میں اضافت کی جو متعدد صورتیں مستعمل ہیں ان سب کو رومن اردو میں -e- سے دکھایا جائے گا۔

 

 شہر نگار  دوریء منزل  ترانہء محبت
shehr-e-nigaar dooree-e-manzil taraanah-e-muHabbat
جذبہء تشکر آبنائے غزل رعنائیء خیال
jaZbah-e-tashakkur aabnaaY-e-Ghazal ra’naayee-e-Khayaal

 

7.9 متفرق اصول:

 

(۱) اردو میں بہت سے الفاظ کا املا الف اور ہائے ہوز ( ہ ) دونوں سے مستعمل ہے۔ رومن اردو میں دونوں ہی صورتیں قابل قبول ہوں گی۔

 

کنارہ۔ کنارا سہارہ۔ سہارا پردہ ۔ پردا دعوہ ۔ دعویٰ
kinaarah/kinaaraa sahaarah/sahaaraa pardah/pardaa da’wah/da’waa

 

(۲) جن الفاظ کے آخر میں ہائے ہوز ( ہ ) آتی ہے مگر تلفظ میں واضح نہیں کی جاتی ہے وہ رومن اردو میں بھی h کے ساتھ لکھے جائیں گے۔

 

محترمہ مروجہ مشاہدہ تبصرہ
muHtarimah muravvajah mushaahidah tabSirah

 

( ۳ ) ایسے الفاظ جن میں و ائو لکھا تو جاتا ہے لیکن کہنے میں واضح طور سے ادا نہیں ہوتا ہے رومن اردو میں بھی واو (v,w)  کے ساتھ لکھے جائیں گے۔

 

 خواب  خواہ مخواہ  دلخواہ Khvaab
Khwaah-maKhwaah dilKhwaah    

 

(۴) وہ الفاظ جن کے شروع میں ’’بے، الف، لام’’ کا مرکب آتا ہے لیکن ادائیگی میں الف کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے رومن اردو میں حسب ذیل صورت سے واضح کئے جائیں گے۔

 

 بالاتفاق  بالفرض  بالمشافہ  بالکل
b.ilittifaaq b.ilfarZ^ b.ilmushaafah b.ilkul

 

(۵) اردو کے وہ الفاظ جو ’’افعال متعلقہ ( علت )’’ کی تعریف میں آتے ہیں (مثلاً  جبکہ، چنانچہ وغیرہ ) رومن اردو میں درج ذیل طریقہ سے دکھائے جائیں گے:

 

 جبکہ  چونکہ  حالانکہ  چنانچہ
 اگر چہ jab_k chooN_k HaalaaN_k
chunaan_ch agar_ch    

 

8.0 اختتامیہ

 

ہر انسانی کوشش کی طرح رومن اردو کا یہ نظام تحریر بھی حرف آخر کا حکم نہیں رکھتا ہے۔ راقم الحروف انٹرنیٹ (internet) پر بہت سی اردو محفلوں میں سرگرمی سے حصہ لیتا ہے۔ وہیں اس کو یہ احساس ہوا کہ رومن اردو کی کتابت کے لئے ایک ٹکسالی نظام کی سخت ضرورت ہے۔ یہ نظام اسی ضرورت کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہاں جو نظام پیش کیا گیا ہے وہ ایک بہت مشکل مسئلہ کا ایک آسان، کم و بیش جامع اور عام فہم حل پیش کرتا ہے۔ اس پر عمل اردو اور رومن اردو کے مابین نقل تحریر (transliteration)  کو آسان بنا دیتا ہے اور یہی اس کاوش کا سب سے بڑا مقصد بھی ہے۔ یہاں بیان کردہ اصول اردو املا اور تلفظ کے تمام جزویات پر حاوی نہیں ہیں ۔ غور و فکر سے چند ایسی صورتیں ضرور نکل آئیں گی جن کے قوانین یہاں نہیں دئے جا سکے ہیں ۔ لیکن راقم الحروف کی رائے میں یہ صورتیں تعداد میں اتنی کم اور اپنے استعمال میں اتنی شاذ ہیں کہ ان کے اصول کا انضباط اہل علم پر چھوڑا جا سکتا ہے۔ یوں بھی ارباب فکرو نظر سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اس مقالہ کے مشمولات پر ناقدانہ نظر ڈالیں گے اور صحت مند تنقید و تبصرہ کے بعد مجوزہ نظام کو بہتر اور مزید موثر بنانے میں راقم الحروف کی مدد کریں گے۔

طے کر چکا ہوں راہ محبت کے مرحلے

اس سے زیادہ حاجت شرح و بیاں نہیں

(ابو الفاضل راز چاند پوری )

٭٭٭

فائل کے لئے مصنف کے تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید