FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

معنی فانی

 

 

 

                   دانیال طریرؔ

 

 

 

 

 

 ’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے!‘‘
الرحمن

 

 

کمپوزنگ :انجیل صحیفہ، وصاف باسط

تزئین :صائمہ طریر، بطاش ولید

رابطہ:

مکان نمبر ۲۸۶، ایل۵، بلاک ۴، سٹیلائٹ ٹاؤن، کوئٹہ

۰۳۴۶۸۳۶۲۱۳۶

tareer@yahoo.com

 

 

 

 

 

                      امی کے نام

 

 

 

 

نہیں میں کوی بھی نہیں ہوں

مجھے نظم لکھتی ہے

میں نظم لکھتا نہیں ہوں

دانیال طریرؔ

 

 

 

 

وسعت گیر متخیلہ کا شاعر

 

دانیال طریر کی نظموں میں مضامین کی کثرت اور بیش تر موضوعات پر عصری طرز حسیت کی چھاپ خاصی نمایاں ہے۔ وہ آج کا غمِ مشترک اپنے شعور کے زورِ استدلال سے اپنے لہجے میں بیان کرتا ہے۔ یہ بیانیہ بہ راہِ راست ہونے کے باوجود ،تازہ کاری کا تاثر پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور عنصر جو اِن نظموں کو توانا اور بے حد قابل توجہ بناتا ہے،وہ شاعر کی قوتِ متخیلہ اور تخلیقی استعداد ہے جس کی بدولت خیال کہیں بھی حسنِ تخلیق سے عاری نہیں ہوتا اور ایک تخلیقی رچاؤ ہمیں اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ یہ نظمیں اپنی آسان زبان میں آج کے مشکل عہد کی سچائیاں تلاش کرتی ہیں۔ اور کہیں کہیں ایسے سوال بھی اٹھاتی ہیں جو ہمیں مضطرب کر دیتے ہیں۔ اس جستجو میں شاعر کو جو دشواریاں در پیش ہیں وہ کہیں فکری اور کہیں وجودی سطح پر خاصی پیچیدہ نوعیت کی ہیں۔ مثلاً نظم ’میں نفی میں ‘میں شاعر خود اپنی پہچان کی دشواری اور نظم سے اپنے بدلے ہوئے تعلق کے مسئلے سے دوچار ہے:

نہیں میں نہیں ہوں

کسی دوسرے نے مجھے میں کہا ہے

تو میں ہو گیا ہوں

………

(میری کمائی فقط نا رسائی ہے)

………

نہیں میں کوئی بھی نہیں ہوں

مجھے نظم لکھتی ہے

میں نظم لکھتا نہیں ہوں

ایسی متعدد نظمیں ہیں جن میں شاعر صنف نظم کے ساتھ ایک نئے سمبندھ کا متلاشی ہے۔ کہیں پر نظم کے ساتھ ہلکی سی چھیڑ چھاڑ اور کہیں پر نظم کے بارے میں فکری کش مکش کی کیفیت ہمیں کئی نظموں میں اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ دانیال طریر کی شاعری میں اس موضوع کی تکرار ایک علیحدہ مضمون کی متقاضی ہے۔ دو نظمیں ……’نظم بازی کے گُر‘ اور ’نظم گو کے لیے مشورہ ‘ایک سنجیدہ کاوش کا درجہ رکھتی ہیں۔ پہلی نظم میں رائجہ اور مقبول فنِ نظم نگاری کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جب کہ دوسری نظم میں شاعر نظم گو شاعروں کو در پیش ایک مسئلہ بیان کرتا ہے۔ اور سچ بھی یہی ہے کہ نظم ایک ایسی اڑیل اور خود سر صنفِ سخن ہے کہ شاعر سے مفاہمت کی راہ پر اتنی آسانی سے نہیں آتی۔ نظم کہتے کہتے سانس اکھڑ جاتی ہے اور آخر میں کبھی آدھی ،کبھی ادھوری نظم ہاتھ لگتی ہے۔ ’پینترہ باز‘ اور ’رموزِ اوقاف کی نظم ‘بھی اسی قبیل کی نظمیں ہیں۔

ہماری نئی نظم جدید تر کی دھُن میں معروضی صورت حال کو نظر انداز کرنے کے عمومی رویے کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن جب معروضی مسئلہ گھمبیر ہو اور سر پر منڈلاتا نظر آ رہا ہو تو شاعر اس سے صرفِ نظر کیسے کرے!اس ضمن میں دانیال طریر کی نظم ’موج ہے دریا میں ‘ایک منفرد اسلوب میں لکھی ہوئی غم انگیز نظم ہے۔ یہ ہماری ہی دھرتی کے اس بنجر خطۂ زمیں کا نوحہ ہے،جہاں شاعر رہتا ہے:

میں جہاں ہوں

جہاں رہ رہا ہوں

وہاں اِن دنوں برف بھی آگ ہے

……اور کیسا الم ناک منظر ہے کہ اس خطۂ زمیں میں فقط بھوک کی سرسوں پھولتی ہے اور آنکھیں خوابوں سے یکسر خالی ہیں۔ لہو رنگ چشمے سمندر میں اترتے ہیں لیکن اس مرکزِ آب کو اس کی خبر تک نہیں۔ پانی سمندر سے ناراض ہے اور پانی کی پانی سے جنگ ہے۔ یہ نظم کتنے ہی اخباری کالموں پر بھاری ہے۔

دانیال طریر اپنے عہد کی فکری اور وجودی نا آسودگیوں کے بارے میں بے حد حساس ہے اور اپنی نظموں کے مختلف النوع موضوعات میں ،جو حد عصر تک پھیلے ہوئے ہیں ،انسانی حالتِ زار کا جائزہ لیتا ہے۔

’الرجی‘، ’جیو جنگل‘  اور ’شامہ نامہ‘ میں جانوروں اور درندوں کی تمثالیں اپنے علامتی اطلاق میں ہمارے معاشرے اور عمومی طور پر انسانی اقدار کے گرتے ہوئے گراف کی نشان دہی کرتی ہیں۔ یہ نظمیں براہِ راست جنگل کی کسی واردات کا ذکر نہیں کرتیں لیکن انہیں پڑھتے ہوئے زور آور اور زیردست کے درمیان ٹکراؤ، گوانتاناموبے، ابو غریب جیل، تورا بورا اور خود ہماری سر زمین پر جبر کی کار فرمائیاں ہمیں فوری طور پر متوجہ کرتی ہیں۔ اور ان تین نظموں کو اگر ایک اور نظم ’اسطورہ‘سے جوڑ کر پڑھا جائے تو ہم آج کے جبر کو تاریخ کے جبر کا تسلسل ہی قرار دیں گے۔

شاید اسی حوالے سے مختصر سی نظم ’اندھیرا ہے خدا‘ ایک کڑا سوال اٹھاتی ہے۔ اس نظم میں شکلیں بدلتا ہوا اندھیرا کتنے ہی روپ دھارتا ہوا نظر آتا ہے۔ چمگادڑ جیسا، ریچھ کے بالوں کی مانند، آدم خور کا ہم شکل، ازل سے پہلے اور ابد کے بعد پر محیط……کیا خدا کے جہاں سے بھی اس کا جہاں بڑا ہے؟ اندھیرے کا طبعی وجود واقعی بہت بڑا ہے اور اٹھایا ہوا سوال بلا جواز نہیں۔

نظم ’برائے فروخت‘ کی آخری چار لائنیں ……

جانے کس زمانے سے

اس زماں میں آئے ہو

یہ جہاں نہیں صاحب

تم دکاں میں آئے ہو

یہ نظم ہماری منافقتوں پر گہری طنز کرتی ہے اور ہمارے عہد کے کمرشلزم کا نوحہ لگتی ہے۔

’کتھارسس‘بظاہر ایک مختصر سی نظم ہے لیکن کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ اور ہم میں اضطراب پیدا کرتی ہے۔ وجود کے معنی اور بے معنویت کے تضاد کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ مختصر سی نظم تنہائی کی وحشت، اندر کے خلا، باہر کے خلا، نہیں اور ہاں، جینے اور مرنے کے درمیان فیصلہ نہ کر سکنے کی معذوری کے اظہار کے وہ سوال اٹھاتی ہے جو پل صراط سے گزرنے کا حوصلہ مانگتا ہے۔

چیخنا ہے مجھے

……

ان وجودوں کی لا میں

خلا میں

مجھے چیخنا ہے

انا کی انا میں

مگر کس سزا میں ؟

کہ جیون بتایا ہے اس کربلا میں

یہ ایک زمیں زاد کے وجودی کرب اور اتنی بڑی کائنات میں فرد کی تنہائی کا نوحہ ہے۔ ایک بڑے اور کڑے سوال کو دانیال طریر نے جس شاعرانہ حسن سے ادا کیا ہے، وہ قابلِ داد ہے۔

’تمنا کا دوسرا قدم‘ اور ’آئینے سے مکالمہ‘جیسی نظمیں شاعر کی ایک اور جہت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ حد، لا حد کا اندازہ لگانے اور بھید بھنور سے نکلنے کی تمنا ہی شعور میں لا شعور کی ہلکی سی رمق کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔ دانیال طریر کی تازہ ترین نظموں میں نارسائی کی کسک، وجود کے ممنوعہ علاقے میں قدم رکھنے کی خواہش اور طے شدہ سوچ کے کلیشے سے نکلنے کی تمنا، شاعر کے اگلے اور مشکل تر سفر کی پیش گوئی کرتی ہیں۔ ’بے سروپا سراپا‘بھی اسی قبیل کی ایک نظم ہے جو لفظ اور معنی میں موجود بے معنویت کے تجربے کا سراغ دیتی ہے۔

اس مجموعے کی آخری نظموں ’سنگِ بنیاد‘، ’کولاژ‘، ’قاشیں ‘ اور’ اتمام‘ میں بلا کی شعریت ہے۔ یہ نظمیں عام نظموں کی ڈگر سے ہٹ کر کہیں ہائیکو کے انداز میں اور کہیں امیجز کی تازہ کاری سے ایک تخلیقی وفور پیدا کرتی ہیں۔ یہ خالص نظمیں باور کراتی ہیں کہ جب تک دانیال طریر تخلیقیت کی اس ثروت سے مالا مال ہے، وہ اچھی نظمیں لکھتا رہے گا۔

آفتاب اقبال شمیم

اسلام آباد

۵جون ۲۰۱۲ء

 

 

 دانیال طریر کا طریق کار

 

آزاد نظم کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس وسعت میں ہر قدم ناپ تول کر آہستہ آہستہ بھی چلا جاتا ہے اور قلابازیاں بھی کھائی جا سکتی ہیں۔ شاعری کھیل کا میدان نہیں ہے۔ اس میں تجربے کے نام پر استعارات کاآڑا ترچھا پن، اسلوب کی واژگونی، سطروں کی تراش میں صوت و آہنگ سے انحراف، ژولیدہ اصطلاحات کا بہ کثرت استعمال اور نظم کے اسٹرکچر کو بیت العنکبوت بنانے کی کاوش، سب کچھ در آیا ہے۔ یہ صحت مند رویہ نہیں ہے اور میں اس کے  بارے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔

مجھے دانیال طریر کی نظمیں پڑھ کر دلی مسرت ہوئی۔ ان کی نظمیں نسبتاً مختصر ہیں، اور چھوٹی چھوٹی سطروں کی تراش سے، پھانک پھانک آپس میں پیوست ہوتی ہوئی آگے بڑھتی ہیں۔ ایک مرکزی استعارہ پوری نظم کا احاطہ کرتا ہے، یا پوری نظم میں دل کی صورت بیٹھا ہوا دھڑکتا ہے، جیسے سائیکل کا پہیہ رواں ہو اور بیچ کی دھُری سے بیسیوں spokes یعنی تاریں نکل کر امیجز  images  کی شکل میں اسے قائم بھی رکھے ہوئے ہوں اور اس عمل میں اسے تقویت بھی دے رہی ہوں۔ شاعر یہ جانتا ہے کہ امیج پیٹرن اپنے آپ میں مکمل نہیں ہے، وہ صرف بنیادی استعارے کو کچھ مبہم، کچھ واضح کرنے کا، یا اس کی نوک پلک سنوارنے کا،  یا پھر اس میں رنگ بھرنے کا عمل ہے۔ میں ایک نظم سے اس طریقِ  کار کو واضح کروں گا۔

الرجی

وہ کہتا ہے

اس جانب کچھ کتے بھیجو

سونگھنے والے

بو آئی ہے

آدم زاد کی بو آئی ہے

آدم زاد کی بو سے میرا دم گھٹتا ہے

سانس کی تنگی مجھ کو وحشی کر دیتی ہے

مجھ کو اپنے وحشی پن سے ڈر لگتا ہے

جلدی بھیجو، دیر ہوئی تو خونی وحشی

جاگ اٹھے گا

جاگ اٹھا تو جس جس بستی سے گزرے گا

موت لکھے گا

 

لومڑیوں سے کہہ دو میرے پاس آ جائیں

چیتے کی خوراک گھٹا دو

کہاں گئے ہیں گدھ بلواؤ

 

آؤ آؤ لومڑیو !اس بو کو سونگھو

اور بتاؤ کیا کرنا ہے؟

 

میرے محل میں پھولوں کی تعداد بڑھا دو

آکسیجن کے سلنڈر بھر دو

جو کہتا ہوں جلدی کر دو

دیر نہ کرنا دن ڈھلتا ہے

جنگل ایسے کب چلتا ہے

استعارہ تو جنگل کا ہے لیکن اس سے مراد ایک شہر بھی ہو سکتا ہے اور ایک ملک بھی۔ ہم ’جنگل کا قانون‘  ایک اصطلاح کے طور پر اس ضابطے کے لیے استعمال کرتے ہیں جس میں ایک فرد واحد، ایک بادشاہ، یا ایک آمر صرف وہی قوانین نافذ کرتا ہے، جو خود اس کے یا اس کے محل کی بہبودی کی خاطر ہوں۔ ایک مانولاگ کی شکل میں یہ نظم بین السطور بہت کچھ کہتی ہے۔ ہر ایک امیج خود کفیل ہے اور اپنے لغوی یا استعاراتی معانی کی مدد سے بنیادی استعارے  ’’جنگل کا قانون‘‘  کو تقویت پہنچاتا ہے۔ کتے، لومڑیاں، گدھ مردار خور ہیں۔ آمر یا بادشاہ کے یہ صلاح کار جنگل کے راج کی شطرنج میں بنیادی مہروں کا کام دیتے ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی یہ دیکھ کر  ’’ سانس کی تنگی مجھ کو وحشی کر دیتی ہے ‘‘  (سطر، ۹) کی سیاقی کفالت آٹھ دس سطروں کے بعد یہ سطریں کرتی ہیں۔  ’’میرے محل میں پھولوں کی تعداد بڑھا دو  ؍  آکسیجن کے سلنڈر بھر دو۔ ‘‘   گویا یہ قادر الکلام شاعر نظم کی بُنت میں کوئی تاگا بھی نہیں بھولتا۔

میں نے صرف ایک نظم کے حوالے سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ نوجوان شاعر استعارے، امیج اور سمبل کا زاد راہ لے کر اپنے شعری سفر پر روانہ ہوا ہے، وہ جدید عالمی شاعری کے معیار کے عین مطابق بھی ہے اور اردو نظمیہ شاعری کے تناظر میں اس کا ایک جدا گانہ اور منفرد مقام بھی ہے۔ اس کی نظموں میں مجھے آنے والے وقت کی دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔

ستیہ پال آنند

کینیڈا

۱۳ جون ۲۰۱۲ء

 

 

   ادب اسطورہ

 

خزاں اور زوال کے دنوں میں اداسی اور بے یقینی کی دھول اڑتی رہتی ہے۔ اس تہذیبی پت جھڑ میں  ’’معنی فانی‘‘  پیلے پڑتے چہروں اور پتوں کا ایسا تخلیقی اظہاریہ ہے جو اپنے اندر حسیاتی، جمالیاتی اور فکری افق پر نئے سوالات ہی نہیں اٹھاتا بل کہ ایک نئے تہذیبی اقداری نظام کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ دانیال طریر کا مسئلہ صرف وجود اور ترتیب وجود ہی نہیں۔ نا موجود نے ان کی تخلیقی کائنات کو جو وسعت دی ہے اس کا اثبات جتنا سائنسی ادراک چاہتا ہے اتنی ہی فکری ریاضت اور فن کارانہ توانائی کا خواست گار بھی ہے ان کا شعری ڈی این اے نا آسودگیوں کے بیان پر مطمئن نہیں ہوتا۔ یہ اضطراب انسان کے ازلی ابدی سوالات کے ساتھ ساتھ مستقبل نا آشنا سمتوں کی طرف محو سفر ہے۔  ’’معنی فانی‘‘  تعینات شکن معروضیت میں کلبلاتی پیاس کا عصری اشاریہ ہے جو تازہ خیالات کا نامانوس تخلیقی اثاثہ ہے۔ جو کسی ترتیب میں ڈھلنے کے بعد بھی بے ترتیب جہانِ نو کا غماز ہے۔

ان کی نظموں کے مسخ شد عنوانات میں اسطورہ، dog&?، الرجی، جیو جنگل، تابوت ساز کا احتجاج، اک اور اندھا کباڑی، لفظ ازم، معزز مرحومین اور نظام زادہ، مسخ شدہ ادب نہیں، ایک مسخ شدہ تہذیب کا سرنامہ ہے۔  ’’معنی فانی‘‘  محض سیاسی یا سماجی اہمیت ہی نہیں لیے ہوئے بل کہ یہ ایک فلسفیانہ المیہ کی طرف کھلتی ہوئی کھڑکی ہے۔ جو قبل از تخلیق محرکات اور بعد تخلیق تاثرات کے علاوہ تخلیقی فنا کاری کے عمل میں ادب کی اطلاقی فضا کی تبدیلی کا عندیہ بھی ہے۔ احساس کے فلک پار کرتی ان نظموں میں فرشتوں کی آنکھوں میں بھری بیلے کی خوشبو اور ہوا کی اداس دھُن سناتی بانسری کی آواز، نا مطمئن ساعتوں کا احساس اجاگر کرتی ہے۔

ادب کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ وہ عصری اطلاق میں اپنی مفاہیم کی پرتیں کھولتا اور معنی کی تہیں بدلتا رہتا ہے اور جدید تر ہوتا رہتا ہے۔ کارپوریٹ کلچر نے ادبی سرمایہ کاری کی دھار کند کر دی ہے یا کلچر مارکیٹنگ میں انسان کے جبلی اختیار کے استرداد پر احتجاج!

یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اقتصادی نزاع کی شکار ثقافتیں ادب کو عالمی احساس کی منڈی میں رکھنے کی اہل بھی رہی ہیں یا نہیں۔ آنسو، ہجر، انتظار کے اثاثے کس مسابقت کے لیے رکھے جائیں۔

کسی کو نہیں پتہ شعر کبھی مارکیٹ ویلیو بن سکے گا یا نہیں۔ جذبوں کی خریداری کنزیومر ایکسپولائٹیشن کا محض حربہ بن جائے گی یا امن، مساوات، انسان دوستی، رواداری اور انصاف کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی جدوجہد کا استعارہ۔ میڈیا کی ہیرو ساز مہم میں ادب اور ادیب دونوں شامل نہیں۔ گلیمر، مصنوعی تمناؤں کی تخلیق اور خواہشات کو تحریص میں تبدیل کرنے کی صلاحیت سے بنیادی سوالات پر کتنے رنگین پردے گرا پائے گی یا نہیں ؟

دانیال طریر نے جو لکھا آپ کے سامنے ہے مجھے اس پر گفتگو نہیں کرنی۔ مجھے اس ماحول پر گفتگو کرنی ہے جس میں دانیال طریر لکھ رہا ہے۔ ٹیری ایگلٹن نے سوشلزم اور مذہب کو ادب کے ذریعے سمجھنے کی ترغیب دی ہے اور مظہریات، معنویات اور استقبالی نظریے کے تناظر میں ادب کی عصری تفہیم کی کوشش کی ہے۔ مظہریاتی تنقید فن پارے کی زبان کے تہذیبی اور سماجی تفاعل کو موضوع بناتی ہے۔ جب کہ ان کے ہاں استقبالی نظریہ ادب میں قاری کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مشرق میں تنقید کی نبضیں ڈوبنے کے بعد ادبی معیاریت کا سوال بڑا گھمبیر ہو گیا ہے۔ سماجی ماحول سے اخذ و مستعار ادب فہمی کی اس تحریک نے کم از کم مشترک انسانی اثاثوں کے ادبی تصور میں دراڑ ضرور ڈال دی اور سماجی نا برابری کو ادب سے الگ کر کے سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ اگر سماجی تفہیم ہی اصل اصول ہے تو پھر  ’’سرمایہ‘‘ سب سے زیادہ اسے تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اور ٹیکنالوجی، تخلیقی اثاثوں کے حقوق دانش پر قبضہ کرنے کے قانونی اختیار کی کلید فراہم کرتا ہے۔ ادب کے ذریعے سماجی تبدیلی اور انسانی اقدار کی پرورش کیا محض دیوانے کا خواب ہے؟

دانیال طریر ہمارا یقین بھی ہے اور بھرم بھی۔ جس کی نظم، غزل اور تنقید کے سارے حوالے اپنے نظریہ زندگی سے پھوٹے اور اپنی مٹی سے رنگ اور خوشبو پاتے ہیں۔ عقائد کی لکنت کے عہد میں اس نے روحانی تقدس کو تخلیقی سر چشمے سے متصف رکھ کر خوف میں ڈوبے ماحول اور انسانی بے اعتباری کے موسم میں بھروسے، اعتماد اور شعری استدلال کے تازہ پھول قرطاس وقت پر رکھ دیے ہیں۔ جس کے معنی کبھی فانی نہیں ہوں گے۔ گلیمر، منڈی کی اسطورہ ہے اور خواب، محبت کی۔ دانیال طریر نے ہمارے خواب لکھے ہیں۔

بیرم غوری

کوئٹہ

آغاز خزاں ۲۰۱۲ء

 

 

 

پیش لفظ

 

’’معنی فانی‘‘ کی شاعری کا جنم اکیسویں صدی کے پہلے عشرے اوردوسرے عشرے کے پہلے دو سالوں میں ہوا ہے بڑی حد تک یہی صدی اس کے معانی کا تناظر ہے مگراس صدی کا جنم کیلنڈر کے عین مطابق نہیں ہوا، اس نے اپنے وقت سے قبل جنم لیا ہے جس کا تعین آسان نہیں۔  ’’میں سمجھتا ہوں کہ اس صدی کے آغاز کو مابعد جدید عہد کے آغاز سے تسلیم کیا جانا چاہیے جس کے آغاز کے سلسلے میں اختلاف موجود ہے اور اسے بالترتیب بیسوی صدی کی دوسری، پانچویں اور ساتویں دہائی سے اختلاف کے ساتھ تسلیم کیا جاتا ہے یعنی ایک مظہر کے طور پر اس کے آغاز کو پانچ چھ دہائیوں سے زیادہ عمر نہیں ہوئی لگ بھگ یہی پانچ چھ گزشتہ دہائیاں اکیسوں صدی کے خدو خال پیدا کرنے میں بھی اساسی اہمیت رکھتی ہیں اور یہ خدو خال وہی ہیں جنہیں مابعد جدید عہد کے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ خدوخال جن واقعات، علوم اور کلامیوں کے زیر اثر تشکیل ہوئے یا ہورہے ہیں ان کی فہرست بڑی طویل ہے جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں تاہم اکیسویں صدی جن بنیادی حوالوں سے بیسوی صدی سے ممتاز و مختلف ہے یعنی وہ حوالے جو پانچ چھ دہائیوں پہلے دنیا کے منظر نامے پر اس طرح موجود نہیں تھے جس طرح آج نہ صر ف موجود ہیں بل کہ انسانی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں بل کہ زیادہ بہتر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی زندگی کو جہت دے رہے ہیں ایک ایسی جہت جسے  ’’ بے جہتی‘‘  سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے ان حوالوں کو بہ ہر حال نشان زد کیا جا سکتا ہے۔ ان حوالوں میں ایک انتہائی اہم اور غیر معمولی حوالہ  ’’ نائن الیون‘‘  ہے۔ جس نے دنیا کو تبدیل بھی کیا ہے اور اس جبر کی شدت میں بے پناہ اضافہ بھی جو پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی تقدیر ہے۔  ’’نائن الیون‘‘  نے  ’’دہشت گکر دی‘‘  کے حوالے سے ایک ایسا کلامیہ تشکیل دیا ہے جس کا مقصد ایک مخصوص آئیڈیالوجی کا نفاذ ہے جو بذات خود ایک  ’’ وحشی ریاست‘‘  کی طاقت کا مظہر بھی ہے اور اس کے لیے مزید طاقت کے حصول کا ذریعہ بھی، اس لیے بہت سے کلامیوں کو عدم رائج کرنے کی کوشش ہوئی ہے اور ان کے بدلے نئے کلامیے رائج کیے گئے ہیں اس کے لیے ہر ممکنہ ذریعے کو استعمال کیا گیا ہے اور اس طرح انسانی فکر کو تبدیل کر کے اس کی نئی تشکیل کے ذریعے اسے گرفت میں لینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے اوراسے اپنی من چاہی حدود تک محدود کر دیا گیا ہے۔ عالمی سیاسی بساط پر نائن الیون کے بعد وہ چالیں چلی گئی ہیں کہ پیادے وزیر اور وزیر پیادے میں تبدیل ہو گئے ہیں تمام مہروں کی حیثیت اور کارکردگی اور اس کارکردگی کا دائرہ کار بدل گیا ہے اور دنیا انتہائی غیر یقینی صورت حال کی شکار ہو گئی ہے سیاسی طور پر مستحکم معاشرے عدم استحکام کا شکار ہوئے ہیں جب کہ غیر مستحکم معاشرے مزید ابتری میں مبتلا ہو گئے ہیں معاشی طور پر حالات بد سے بد ترہونے لگے ہیں اور غریب ریاستوں میں جہالت اور بھوک میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس نے جرائم کو ہوا دی ہے اور لاء اینڈ آرڈر کے شدید مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اس شدید بحرانی صورت حال میں انسانی فکر کا جو رد عمل متوقع تھا وہ سامنے نہیں آسکا اور عملی جد و جہد بھی اس بڑے پیمانے پر دیکھنے میں نہیں آئی جس کی توقع کی جا سکتی تھی۔ انٹر نیٹ، کیبل، سیل فون اور ٹی وی وغیرہ نے ان معاشروں کو کنٹرول کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے جہاں سے مثبت خطو ط پر دنیا کی تعمیر کا امکان پیدا ہوسکتا تھا۔ اس تعمیر کے امکان کی جنم دہی کے لیے جتنا وقت انسانی غور و فکر کے لیے درکار تھا وہ اس سے چھین لیا گیا ہے اور اسے بے معنی تفریحات میں الجھا کر اس کی آزادی سلب کی گئی ہے۔ وہ اپنی آواز تک سننے سے محروم ہو گیا ہے، قتل و غارت گری کو اس کو ضمیر پر دستک کے بجائے کھیل تماشے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اسے رنگوں اور آوازوں کی ایک ایسی پر کشش دنیا کا باسی بنا دیا گیا ہے جہاں اس کے تمام ذاتی اوصاف دھندلا گئے ہیں وہ دوسروں کی طرح سوچنے اور جینے پر مجبور ہو گیا ہے اور اسے فرصت تک نہیں ملی ہے کہ وہ سوچ سکے کہ وہ اس اندھے سفرپر کب، کیسے اور کیوں روانہ ہو گیا ہے۔ دنیا اس کے لے گاؤں ضرور بن گئی ہے مگر وہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے اپنی شناخت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ڈبلیو ٹی او اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نیز گلوبلائزیشن وغیرہم نے جس  ’’ صارفیت کلچر‘‘ کو فروغ دیا ہے اس نے انسان سے اس کے  ’’اشرف المخلوقات‘‘  ہونے کا منصب چھین لیا ہے اور اسے ایک  ’’صارف‘‘  کی نئی حیثیت تفویض کی ہے جس پر آٹا، چینی، دال سے لے کر عورت، کتاب اور مذہب تک سب کچھ بیچا جا سکتا ہے۔ اس کلچر نے نظام اقدار کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے اور پرانے نظام اقدار کی وہ بیخ کنی کی ہے کہ انسان سے وہ زمین ہی چھن گئی ہے جس میں اس کی جڑیں پیوست تھیں نتیجتاً انسان ان اشجار میں تبدیل ہو گئے ہیں جو زمین سے ہر طرح کا رشتہ توڑ چکے ہیں اور ان کے وہ تمام قوی مضمحل ہو چکے ہیں جن کی قوت کا انحصار زمین پر تھا۔ یہ شجر بار آوری کی صفت سے محروم اور اپنی برہنگی کو مانگے تانگے کے برگ و بار سے چھپانے کی کوشش لا حاصل میں مشغول ہیں تاہم ان پر اس لا یعنی کوشش کے کھلنے کا امکان بھی نہیں ہے کیوں کہ حقیقت کے تصور کو تشکیلی حقیقت(ہائپر رئیلٹی )سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ انسان اب اسی تشکیلی حقیقت(ہائپر رئیلٹی)کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تاہم وہ اپنی اس مجبوری سے بھی واقف نہیں، سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں ان سے چھینی جاچکی ہیں۔ انسانی زندگی کی یہ انفعالیت بھی سابقہ انفعالیت سے مختلف ہے جس سے نجات کی بھی کوئی صورت سر دست موجود نہیں ہے کیوں کہ اس نے دوسروں کی تشکیلی حقیقت کو اپنی حقیقت کے طور پر قبول کر لیا ہے اور فی الوقت اس طرز زندگی سے بے زاری کا کوئی احساس بھی ظاہر نہیں ہوا ہے۔ تشکیلی حقیقت (ہائپر رئیلٹی) سے نکلنے کی کوئی صورت اس لیے بھی نا ممکن ہے کیوں کہ حقیقت اس قدر سفاک ہوچکی ہے کہ اس کا سامنا بیدار انسانی ضمیرکے لیے قابل برداشت نہیں رہا۔ دوسری طرف فکری سطح پر بھی اس سے نبرد آزمائی کو انسان کے لیے ناممکن بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تکثیریت اور بین العلومیت وغیرہم کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ تکثیریت نے مرکزیت کو صرف سیاسی طور پر چیلنج نہیں کیا۔ کسی واحد نظریے کی ا تھارٹی چیلنج کرنا مثبت اقدام سہی مگر لا مرکزیت کی حامل ایسی تکثیریت کی راہ ہم وار کرنا جس کی کوئی انتہا نہ ہو مثبت اقدام نہیں یہ راستوں کو اتنا کثیر کر دینے کے مترادف عمل ہے جس میں منزل کا تصور ہی باقی نہیں رہتا اسی لیے آغاز میں اس جہت کو  ’’بے جہتی ‘‘  سے تعبیر کیا گیا تھا۔ بین العلومیت نے بھی بہ ظاہر تو علوم کے دامن کو کشادہ کیا ہے اور ایک دوسرے سے استفادے کی راہ ہم وار کی ہے مگر بہ باطن علم کی اس حیثیت کو نقصان بھی پہنچا یا ہے جس کے ذریعے وہ واضح حد بندی اور فکر و فلسفہ کے معین نقطۂ نظر کا حامل ہونے کے با وصف انسانی فکر کو انتشار سے بچاتا ہے اور اسے معاصر صورت حال کے مقابل اپنا موقف تشکیل دینے کی صلاحیتوں سے بہرہ مند بھی کرتا ہے۔

مختصر یہ کہ اکیسویں صدی میں کوئی بھی مظہر شفافیت کا حامل نہیں، ہر لفظ میں کئی الفاظ کی گونج ہے، ہر تصویر میں کئی شبیہیں جلوہ نما اور ہر آواز میں بے شمار لہجے شامل ہیں، ایک بے انت ہنگام اور انتشار کی سی صورت ہے، ایک الجھی ہوئی ڈور ہے جس کا کوئی سرا نہیں، ایک گور کھ دھندا ہے ما یا جال ہے، ایک حلقہ دام خیال ہے، ہر طرف فریب، دھوکے اور سراب کی سی کیفیت ہے، ایک بے معنی کھیل تماشا ہر سو جاری ہے، ایک دوڑ ہے جس کی نہ کوئی سمت ہے نہ کوئی منزل، ایک سیل بلا ہے جس میں سب بے دست و پا ہیں اور کوئی اپنی بے دست و پائی سے آگاہ بھی نہیں، سر دست ایک شور برپا ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ‘‘ ۔ ہر طرف بے معنویت کا سیلاب امڈا ہوا ہے اس سیلاب نے تمام اشیاء کو اپنی لپیٹ میں لے کران کے معنی فانی کر دیے ہیں۔  ’’معنی فانی‘‘ کی نظموں کا جنم اسی تناظر میں ہوا ہے جس میں ژاک دریدا کی ’’ رد تشکیل ‘‘ کا فلسفہ بھی شامل ہے اور رولاں بارت کی  ’’مصنف کی موت ‘‘ کی تھیوری بھی۔ یہ نظمیں انفرادی اور اجتماعی المیوں کو پیش کرتے ہوئے، بے معنویت کی زد میں آئے ہوئے انسان، زندگی اور خدا کے ساتھ لکھاری اور لکھت کی معنویت کی تلاش میں بھی سرگرداں ہیں۔ میں نہیں جانتا یہ کوشش کتنی بار آور ہوئی ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں نے یہ تلاش پوری دیانت سے کی ہے اور اس تلاش کے لیے اپنی متخیلہ کو آزاد رکھا ہے تاکہ اس شاعری کا جغرافیہ حد لا حد تک وسیع ہو سکے۔ یہ ممکن ہو سکا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ بہ ہر حال مجھے نہیں عوام کو کرنا ہے کیوں کہ یہ شاعری عوام ہی کی امانت ہے۔

(یہ اقتباس راقم کے مضمون  ’’اکیسویں صدی، مابعد جدیدیت اور کلام غالب کی معنویت‘‘  سے پیش کیا گیا ہے)

دانیال طریر

کوئٹہ

۹اگست۲۰۱۲ء

 

 

 

 

 

 

 

    اظہارِ تشکر

میں شکر گزار ہوں

ابو

امی

قندیل، تمثیل، انجیل

صائمہ

اور بلال کا

جنھوں نے مجھے بے پناہ محبت دی

میں شکر گزار ہوں

جمیل، وسیم اور ارشد کا

جنھوں نے مجھے دوستی کے حقیقی مفہوم سے آگاہ کیا

میں شکر گزار ہوں

چچا محمود ایاز کا اور ماموں سرور سودائی کا

جنھوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی

میں شکر گزار ہوں

جناب آفتاب اقبال شمیم، جناب ستیہ پال آنند اور جناب بیرم غوری کا

جنھوں نے اپنی قیمتی آراء سے نوازا

اور میں شکر گزار ہوں عابد میر اور پروین ناز کا جنھوں نے اس مجموعے کا اشاعتی اہتمام کیا

دانیال طریر

 

 

انتساب

بہ اسم اللہ

میں آغاز کرتا ہوں

میں نظموں کے علاقے کی طرف

در باز کرتا ہوں

میں علم نافع اور حظ مطہر کے لیے

اپنے لکھے کو عام کرتا ہوں

یہ سب احساس پارے

خاص پارے

میں خدا کے نام کرتا ہوں

 

 

 

 

نعت سوغات

بہت دن سے میں نے

بدن کو کھجور اور پانی سوا

سب کے سب ذائقوں سے

بہت دور رکھا ہوا تھا

خیالوں کو غار حرا کے اجالوں میں

رہنے کی تاکید کی تھی

لہو سے کہا تھا

تو طائف کی مٹی کو چھونا

ضیا لے کے آنا

محبت سے حسان کے دل میں رہنے

اور آداب شعر و سخن سیکھ آنے

کا وعدہ لیا تھا

صدا کو اذان بلالی کی دھن میں

روانہ کیا تھا

غنی واویس وعمر کے مکانوں میں

پلکوں کو جھاڑو لگانے

اور آنکھوں کو کچرا اٹھانے کے

میں نے فرائض دیئے تھے

بہت دن تلک میں نے

باب علوم نبی ؐپر

شعور اور دانش کے دربان دونوں

کھڑے کر دیئے تھے

 

زمینوں کو اپنے تخیل مطابق کشادہ کیا تھا

سب الفاظ زم زم میں رکھے ہوئے تھے

بہت دن سے میں نے

ارادہ کیا تھا

نبیؐ جی کو اک نعت سوغات دینے کا وعدہ کیا تھا

٭٭٭

 

 

 

بے سروپا سراپا

 

لفظ کے اندر گھور اندھیرا

اس جنگل میں سانپ سپیرا

پیڑ پرندے اور پرندے

وحشی اور خونخوار درندے

سایہ گہرا، اندھی راہیں

جن کا پہرا، چیخیں آہیں

ایک سے بڑھ کر ایک لٹیرا

لفظ کے اندر لفظ کا ڈیرا

کوئی علامت، کوئی نشانی

تیز بگولہ، بہتا پانی

مطلب سب لایعنی یعنی

معنی فانی، معنی فانی

٭٭٭

 

 

 

 

کتھارسس

چیخنا ہے مجھے

اس زمیں پر

نہیں

آسماں میں

نہیں

ان وجودوں کی لا میں

خلا میں

مجھے چیخنا ہے

انا کی انا میں

مگر کس سزا میں ؟

کہ جیون بتایا ہے اس کربلا میں

مجھے چیخنا ہے خلا میں

جہا ں اپنی چیخیں میں خود ہی سنوں

فیصلہ خود کروں

ان وجودوں کو کیا میں جیوں یا مروں

٭٭٭

 

 

 

 

اسطورہ

میں نے اس عفریت کا قصہ سنا ہوا ہے

جس نے سورج پھانک لیا تھا

 

پربت پربت آگ بھری تھی

خشک رگوں میں

جس نے دھرتی کے سینے میں لاگ بھری تھی

زرد رتوں میں

 

گہری خاموشی کے منہ میں شور بھرا تھا

کال کنوئیں کا

جس نے فضا کی انگیٹھی پر تھال دھرا تھا

سرخ دھوئیں کا

 

رستہ رستہ ویرانی کے جال بچھائے

سائے اگائے

جس نے پیڑوں کی شاخوں پر سانپ بٹھائے

پھن پھیلائے

 

میں نے ماضی کا وہ حصہ چنا ہوا ہے

جس نے فردا جھانک لیا تھا

٭٭٭

 

 

 

dog&?

حرفوں کی ترتیب الٹ کر

کان کو ناک بنا سکتا ہوں

ناک کو کان بنا سکتا ہوں

 

شیر کو ایک اشارے پر میں

بندر ناچ نچا سکتا ہوں

بندر کو جنگل کا راج دلا سکتا ہوں

 

سچ کو جھوٹ بنا سکتا ہوں

جھوٹ کو سچ منوا سکتا ہوں

 

جس کو جیون دینا چاہوں

دے سکتا ہوں

جس سے جیون لینا چاہوں

لے سکتا ہوں

 

برف کو آگ اور آگ کو پانی کر سکتا ہوں

لا فانی کو پل میں فانی کر سکتا ہوں

 

آبادی اور بربادی کے

جنتر منتر یاد ہیں مجھ کو

جادو گر ہوں

 

لہو اور آنسو

مجھ پر کیسے اثر کریں گے

میں پتھر ہوں

 

پتھر کے منہ سے نکلی کالی آواز ہوں

دہشت ساز ہوں

٭٭٭

 

 

 

الرجی

وہ کہتا ہے

اس جانب کچھ کتے بھیجو

سونگھنے والے

بو آئی ہے

آدم زاد کی بو آئی ہے

آدم زاد کی بو سے میرا دم گھٹتا ہے

سانس کی تنگی مجھ کو وحشی کر دیتی ہے

مجھ کو اپنے وحشی پن سے ڈر لگتا ہے

جلدی بھیجو دیر ہوئی تو خونی وحشی

جاگ اٹھے گا

جاگ اٹھا تو جس جس بستی سے گزرے گا

موت لکھے گا

 

لومڑیوں سے کہہ دو میرے پاس آ جائیں

چیتے کی خوراک گھٹا دو

کہاں گئے ہیں گدھ بلواؤ

 

آؤ آؤ لومڑیو !اس بو کو سونگھو

اور بتاؤ کیا کرنا ہے؟

 

میرے محل میں پھولوں کی تعداد بڑھا دو

آکسیجن کے سلنڈر بھر دو

جو کہتا ہوں جلدی کر دو

دیر نہ کرنا دن ڈھلتا ہے

جنگل ایسے کب چلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جیو جنگل

سارا امبر چیلوں کا ہے

دھرتی سانپوں کی ہے ساری

 

خوف کی ماری

بھول گئیں منزل کا رستہ

بھیڑیں ساری

 

رنگ بدلتے گرگٹ گھومیں

جھومیں ناچیں باری باری

 

کائیں کائیں کوے آئیں

خبریں لائیں

 

’’……کتے کا بلی پر حملہ

……نیولے کی ناگن سے لڑائی

……سارس کو لومڑ کی دعوت

……کچھوے اور خرگوش کی دوڑمیں

اب بازی خرگوش نے ماری

آج کی سب سے خاص خبر ہے

چیونٹی کی ہاتھی سے یاری‘‘

 

چل وے کبوتر

مار اُڈاری

چل وے کبوتر

مار اُڈاری

 

 

مگر…

اگر

نیند کی گھاس میں

دودھیا روشنی سے بھرے تیرے پاؤں

ستارے بچھاتے

تو جگنو اتر کر ستاروں پہ جھکتے

بہت دیر رکتے

ہوا بانسری پر کوئی گیت گاتی

حیا آبشار ضیا میں نہاتی

دعا مسکراتی

پرندے گھنے سبز پیڑوں پہ آتے

خوشی گنگناتے

 

میں بیلے کی خوشبو سے مصرعے سجاتا

میں نظموں کی دنیا میں دنیا بساتا

میں نظمیں کہاتا

وہ نظمیں فرشتے نگاہوں میں بھرتے

فلک پار کرتے

فلک پار کر کے خدا کو سناتے

تو اس کو زمانوں کے غم بھول جاتے

٭٭٭

 

 

 

ایک سب آگ ایک سب پانی

ہمارے غم جدا تھے

قریہ ء دل کی فضا، آب و ہوا

موسم جدا تھے

شام تیرے جسم کی دیوار سے چمٹی ہوئی تھی

مجھ کو کالی رات کھاتی تھی

تجھے آواز دیتی تھی ترے اندر سے اٹھتی ہوک

مجھ کو بھوک میری روح سے باہر بلاتی تھی

تجھے پاؤں میں پڑتی بیڑیوں کا روگ لاحق تھا

مجھے آزادی پہ شک تھا

تجھے اپنوں نے اپنے گھیر کا قیدی بنایا تھا

مجھے بے رشتگی نے ذات کا بھیدی بنایا تھا

مسلسل لیکھ پر گردش میں رہنا، ناچنا

تیرا وتیرہ تھا

مری اک اپنی دنیا تھی

مرا اپنا جزیرہ تھا

کوئی دریا تھا اپنے بیچ

ہم دونوں کنارے تھے

الگ دو کہکشائیں تھیں

جہاں کے ہم ستارے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

اندھیرا ہے خدا

اندھیرا کاٹتا ہے، نوچتا ہے

ماس کے ٹکڑے چباتا، چیختا ہے

گونجتا ہے

چار دیواروں سے سر کو باری باری پھوڑتا ہے

خون ہاتھوں پر لگا کر چاٹتا ہے

دہاڑتا ہے، بھونکتا ہے، شوکتا ہے

چیل بنتا ہے کبھی چمگادڑوں کا روپ دھارن

کر کے آتا ہے

مرے کمرے میں رہتا ہے

مجھے کھڑکی سے اپنی آنکھ کی سرخی دکھاتا ہے

بدن سے توڑتا ہے

ریچھ جیسے بال

بستر پر بچھاتا ہے

ڈراتا، وسوسے بیدار کرتا، دندناتا ہے

کرن کوئی ابھرتی ہے تو پل بھر میں نگلتا ہے

نہ جلتا ہے نہ گلتا ہے

نہ اس کو آگ کا ڈر ہے

نہ سکر دی سے لرزتا ہے

خدا پر اس کا ایماں ہے

نہ یہ بت کا پجاری ہے

مرے اعصاب پر

صدیوں سے اس کا خوف طاری ہے

ازل اس کا

ابد اس کا

زمیں اس کی

زماں اس کا

خدا تیرے جہاں سے بھی بڑا ہے

کیا جہاں اس کا

٭٭٭

 

 

 

آواز کا نوحہ

گڑیا !بولو

گڑیا!اپنی آنکھیں کھولو

گڑیا!دل پہ بوجھ ہے کوئی

تو جتنا جی چاہے رو لو

گڑیا!یہ خاموشی مجھ کو کاٹ رہی ہے

گڑیا۱موت کی دیمک مجھ کو چاٹ رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

والعصر!

وقت میرے سامنے تصویر ہے اک چیل کی، جس کے پروں سے شام کی سرخی نکل کر ڈھانپتی ہے پربتوں کو، پربتوں سے آگ کے شعلے نکل کر پھیل جاتے ہیں زمیں پر، خاک سے باہر نکل کر اژدھے پیڑوں کو ڈستے ہیں تو ان کی روح سے چیخیں نکل کر زہر کی نیلاہٹیں ساری فضا میں گھولتی ہیں، بولتی ہیں جب فضائیں تو یہی نیلاہٹیں منہ سے نکل کر بننے لگتی ہیں بلائیں جبر کی تمثیل کی، اس عہد کی انجیل کہتی ہے سیاہی رات تقدیر ہے قندیل کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

نا رسیدہ

 

میں اک دیا جلا ہوا

مجھے بجھا سکا کوئی

مجھے نہ پا سکا کوئی

نجانے کتنے وقت سے

میں وقت سے ملا نہیں

مگر مجھے گلا نہیں

 

وہ ہاتھ کب کے کھو گئے

جو مجھ کو رکھ کے سو گئے

 

میں جاگتا رہا مگر

میں بولتا رہا مگر

مجھے کوئی نہ سن سکا

 

میں آب و گل کا ساز تھا

میں بت کے دل کا راز تھا

٭٭٭

 

 

نظم بازی کے گُر

 

جو آنکھوں کے اندر ابلتا رہا ہے

جو دل پہ دھواں بن کے چلتا رہا ہے

جو سوچوں میں چہرے بدلتا رہا ہے

میں اب سب لکھوں گا

دلوں میں ہمارے کدورت ہے کتنی

محبت پری خوب صورت ہے کتنی

بدن کو بدن کی ضرورت ہے کتنی

میں اب سب لکھوں گا

کہاں سے کہاں تک ہے امکاں کی وسعت

مکاں لا مکاں کے سوالوں کی حیرت

زماں لا زماں میں ہے کیا سر وحدت

میں اب سب لکھوں گا

جہاں ہندسوں کے ترانے میں گم ہے

ہوا جشن وحشت منانے میں گم ہے

یہ شب کیوں اجالا مٹانے میں گم ہے

میں اب سب لکھوں گا

یہ زر کے پجاری کہاں جا رہے ہیں

زمیں کے ذخائر کو ہتھیا رہے ہیں

تو کیا خود کو دولت میں دفنا رہے ہیں

میں اب سب لکھوں گا

خدا کیوں کہانی سے باہر کھڑا ہے

یہ کیا ہو رہا ہے وہ کیا سوچتا ہے

وہ کیا چاہتا ہے یہ کیا ماجرا ہے

میں اب سب لکھوں گا

بہت دن سے تو یاد آئی نہیں ہے

کوئی رات رو کر بتائی نہیں ہے

تو کیا یہ جدائی، جدائی نہیں ہے

میں اب سب لکھوں گا

 

مجھے نظم لکھنے کا فن آ گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

برائے فروخت

 

روح چاہیے تم کو

یا بدن خریدو گے

 

موت سب سے سستی ہے

 

سامنے کی شیلفوں میں

رنگ رنگ آنکھیں ہیں

ساتھ نیند رکھی ہے

خواب اس طرف کو ہیں

 

سب سے آخری صف میں

حسن کی کتابیں ہیں

خیر کے فسانے ہیں

 

فرسٹ فلور پر سائنس

میگزین فیشن کے

اور علم دولت ہے

آج کی ضرورت ہے

سب سے بیش قیمت ہے

 

فرش پر جو رکھا ہے

دین ہے تصوف ہے

فلسفہ ہے منطق ہے

باعث تپ دق ہے

 

ڈسک کاؤنٹر کے پاس

شیش داں میں رکھی ہے

جیسے قیمتی چیزیں

آسماں میں رکھی ہیں

 

آسمان والا بھی

کیا یہاں پہ ملتا ہے

کیسے بھاؤ بکتا ہے

 

پہلے خوب چلتا تھا

لوگ لینے آتے تھے

اب خدا نہیں بکتا

 

جانے کس زمانے سے

اس زماں میں آئے ہو

یہ جہاں نہیں صاحب

تم دکاں میں آئے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

تمنا کا دوسرا قدم

وقت اور نا وقت کے مابین

کتنا فاصلہ

کتنا خلا

کتنی گھنیری خامشی ہے

جاننے کی کوششوں میں

آنکھ کی اور دل کی اجلی آنکھ کی

بینائیاں کم پڑ گئی ہیں

سوچتاہوں

سوچ کا کوئی پرندہ بھیج کر

اس حد لا حد کا

کوئی اندازہ کر لوں

 

خودسے کہتا ہوں

تجھے معلوم ہے

یہ کام سوچوں کے پرندوں کا نہیں

تخئیل کا ہے

جو پرندہ غیب کی اس جھیل کا ہے

جس میں سب نادیدگاں کے

عکس بنتے رقص کرتے ہیں

انھی نادیدگاں میں

وقت اور نا وقت کے مابین کا

وہ فاصلہ اور وہ خلا اور وہ گھنیری خامشی

بھی ہو تو کیا معلوم

بہتے عکس ان کے طائر تخئیل کے شہپر سے لپٹے ساتھ آ جائیں

یہ گہرے بھید میرے ہاتھ آ جائیں

٭٭٭

 

 

 

آئینے سے مکالمہ

 

بھید    بھنور   سے کوئی

اس نگری کی حد سے باہر

پاؤں کسی کے دیکھے تم نے

دیکھا تم نے روپ کسی کا

جھلمل دیکھی بینائی کی

جوت خیال کی دیکھی تم نے

پالکی میں کوئی سپنا دیکھا

دیکھا نہیں، تو سنا تو ہو گا

ساز سنا ہو گا جھرنے کا

کوک سنی ہو گی کوئل کی

وہم کوئی تو گزرا ہو گا

گیت کی لے کا، وقت کی نے کا

سنا نہیں تو چھوا تو ہو گا

عکس کسی کا، جسم کسی کا

جسم نہیں تو طلسم کسی کا

یاد ہے تم کو اسم کسی کا

 

بھید بھنور سے کوئی نکلا

نہیں تو تم کیسے نکلو گے

٭٭٭

 

 

 

جبر کا اختیار

اس کے قلم نے کیوں لکھا ہے

میرے بھاگ میں

اپنی آگ میں جلتے رہنا

اپنے بارے سوچتے رہنا

اپنے بھید کو کھوجتے رہنا

اپنے بھید میں ایسا کیا ہے

سوچ رہا ہوں

لیکن سوچ کو سمتیں دینا

اس کے دست رسا میں کیوں ہے

سب کچھ ایک گپھا میں کیوں ہے

جس پر اس کا پہرے دار ہے

پہرے دار کا کیا کردار ہے

دنیا سٹیج نہیں بازار ہے

ہم سب شاید بازاری ہیں

نہیں نہیں ہم انکاری ہیں

ہم قیدی ہیں

ہم سارے اس کے بھیدی ہیں

اس کے بھید میں ایسا کیا ہے

اس کے قلم نے کیا لکھا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

۴؍۳

 

کہانی کہانی

فسانہ  فسانہ

یہ پانی پرانا

 

خدا کی نشانی

ہوا کا نشانہ

یہ پانی پرانا

 

وہ پہلی حقیقت

وہ سپنا سہانا

یہ پانی پرانا

 

بنی جس میں دنیا

وہی کارخانہ

یہ پانی پرانا

 

چلا ہے، چلے گا

زمانہ زمانہ

یہ پانی پرانا

 

زمین یقیں پر

گماں کا ٹھکانہ

یہ پانی پرانا

 

تری راجدھانی

مرا آشیانہ

یہ پانی پرانا

٭٭٭

 

 

 

  شامہ نامہ

 

رات سونگھتی جائے

 

جاگتی صداؤں کو

بھاگتی ہواؤں کو

راستوں کی وحشت کو

منظروں کی حیرت کو

 

رات سونگھتی جائے

 

چاند کو، گھٹاؤں کو

خوف کو، بلاؤں کو

جھیل کے کناروں کو

سب کے سب ستاروں کو

 

رات سونگھتی جائے

 

بے لباس سایوں کو

اپنوں کو، پرایوں کو

بستروں کو، جسموں کو

روح کے طلسموں کو

 

رات سونگھتی جائے

 

کاغذوں کو، لفظوں کو

روشنی کی  نظموں کو

شیلف کی کتابوں کو

شاعروں کے خوابوں کو

 

رات سونگھتی جائے

 

رات سونگھ لے جس کو

تیرگی میں کھو جائے

گہری نیند سو جائے

آپ رات ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

نظم گو کے لیے مشورہ

نظم کہو گے

کہہ لو گے کیا؟

دیکھو اتنا سہل نہیں ہے

بنتی بات بگڑ جاتی ہے

اکثر نظم اکڑ جاتی ہے

 

چلتے چلتے

’’لا ‘‘  کو مرکز مان کے

گھومنے لگ جاتی ہے

 

لڑتے لڑتے

لفظوں کے ہاتھوں کو

چومنے لگ جاتی ہے

 

سیدھے رستے پر مڑتی ہے

موڑ پہ سیدھا چل پڑتی ہے

 

حرف کو برف بنا دیتی ہے

برف میں آگ لگا دیتی ہے

 

چپ کا قفل لگا کر گونگی ہو جاتی ہے

دھیما دھیما بولتے یکدم غراتی ہے

 

نظم کہو گے

کہہ لو گے کیا؟

دیکھو اتنا سہل نہیں ہے

بنتی بات بگڑ جاتی ہے

راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

تعاقب سوال کی منزل

یہ کیسی صدا ہے

جسے میں نے اور خامشی نے سنا ہے

یہ میری نہیں

کیا کوئی دوسرا ہے

مگر دوسرا کیا کوئی میرا دیکھا ہوا ہے

عجب سر پھرا ہے

صدا دے رہا ہے

صدا جس کو سن سن کے سر پھر گیا ہے

 

زمیں آسماں

مجھ کو مرکز بنائے ہوئے

روشنی جیسی رفتار میں گھومنے لگ گئے ہیں

 

یہ کیا ماجرا ہے

یہ کیسی صدا ہے

یہ میری نہیں کیا کوئی دوسرا ہے

مگر دوسرا کوئی ہوتا تو کچھ بولتا

اپنے لب کھولتا

بات کرتا کوئی

کیا کوئی بھی نہیں

واہمہ ہے مرا

 

واہمہ ہی کہیں دوسرا تو نہیں

 

اس کہانی کا کوئی سرا تو نہیں

یہ کہانی فقط ڈور ہی ڈور ہے

میرے چاروں طرف

اب سوالات کا

شور ہی شور ہے

٭٭٭

 

 

 

فرشتوں کا گناہ

سن رہے ہو!

سات بج کر چھ منٹ پر

آسماں گرنے لگا تھا

اک طرف کو جھک گیا تھا پانیوں پر

بادلوں پر رک گیا تھا

اور اس ڈھلوان سے جنت پھسل کر

گر رہی تھی خاکداں میں

سن رہے ہو!

اس زمیں کے آسماں کو تھامنے والے فرشتو!

تم کہاں تھے؟

پوچھنے والا اگر پوچھے گا اس سے کیا کہو گے

اونگھ جانا

نیند آنے کا فسانہ

بھول جانے کا بہانہ

یہ تمھارے واسطے ممکن نہیں ہے

اس سے کہنا

سچ بتانا

ایک بوڑھی، بے سہارا، اندھی عورت

ایک بینا شخص سے ٹکرا گئی تھی

گر رہی تھی

آسماں کو تھامنے سے تھامنا اس کو

تمھیں بہتر لگا تھا

زندگی میں

دل کی ٹھہری جھیل کے آئینے کواحساس کا یہ

اولیں پتھر لگا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

عجائب

عجب گھٹا تھی

لہو بہاتی

عجب ہوا تھی

تمام رستوں میں ناچتی اور موت گاتی

عجب دعا تھی

جو لوٹتی تو ہزار ہا کر گسوں کو بھی اپنے ساتھ لاتی

عجب بقا تھی

قریب آتی تو اپنی ہر اک ادا سے ہم کو فنا دکھاتی

عجب سزاتھی

کہ پھر بھی غم سے پھٹی نہ چھا تی

٭٭٭

 

 

 

 

نا ممکنہ رسائی

اک پری ہے گھاس پر لیٹی ہوئی

اور دھند میں سوئی ہوئی

اور میں اس کی سمندر جیسی گہری گہری آنکھوں کے

کسی سپنے میں ہونا چاہتا ہوں

رات بھر شبنم میں رونا

گھاس کی نرمی میں بونا چاہتا ہوں

سانس اپنی

اس کی پلکیں اپنی آنکھوں میں ڈبونا چاہتا ہوں

میں بھی سونا چاہتا ہوں

نیند اس کی

خواب اس کا

میں بھی ہونا چاہتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

تابوت ساز کا احتجاج

 

میں تابوت بناتا ہوں

تابوتوں کو بھرنے والی موت نہیں

موت کے کاروبار کا سارا سود تمھارا

یہ سارا بارود تمھارا

کیوں دیتے ہو مجھے الزام

جانتے ہیں سب میرا کام

میں تابوت بناتا ہوں

تابوتوں کو بھرنے والی موت نہیں

٭٭٭

 

 

 

اُمید کی تردید

 

ہر سو بے پایاں ویرانی

چاروں جانب گھور اندھیرا

وقت کے گہرے سناٹے میں

سانپوں کی پھنکار کا ڈیرا

مٹی پر آسیب کی دہشت

پانی پر چیلوں کا بسیرا

پھونک دیا ہے صور کسی نے

ڈال دیا ہے موت نے گھیرا

اس مرگھٹ میں سانس کی خوشبو

وہم ہے میرا، وہم ہے میرا

٭٭٭

 

 

 

اے وحشتِ دل کیا کروں

جی کرتا ہے

تنہائی کی چھت پر جاؤں

زہری رات کی نیلاہٹ کو

نس نس میں محسوس کروں

پوروں سے دیکھوں

مجبوری کی بالشتوں سے

ایک سرے سے دوجے سرے تک

حرص و ہوس کا امبر ناپوں

سچائی کے تیز اور نوکیلے دانتوں سے

جھوٹی روشنی بانٹنے والے

سارے نقلی تارے نوچوں

چاند کی پھٹی ہوئی گڈی کو

شوکیں مارنے والی زرد ہوا سے کھینچوں

دو کشکول نما آنکھوں سے

پورے سات سمندرروؤں

٭٭٭

 

 

 

 

عدم تسلسل کی خواہش

سنو! یہ چاپ سنتے ہو

اندھیرا چل رہا ہے

گھر سے بن تک

بن سے گھر تک

خاک کے ذرے تارے تک

سمندر سے جزیرے تک

جزیرے سے کنارے تک

اندھیرا چل رہا ہے

اور اس کی چاپ میں کیسا تسلسل ہے

کہ وقفہ تک نہیں آتا

مجھے اک سانس لینا ہے

مگر اک سانس لینے کے لیے کتنی گھٹن جھیلوں

گھٹن میں نظم چلتی ہے

اندھیرے کی طرح نظم کو رکنا نہیں آتا

تسلسل کیسے توڑوں

سانس کیسے لوں

سنو ! میں چاپ سنتا ہوں

سماعت چاپ سننا بند آخر کیوں نہیں کرتی

سماعت کیوں نہیں مرتی

٭٭٭

 

 

 

 

بے خدا عہد میں خود کلامی

 

ڈور کیسی الجھی ہے

کیوں سرا نہیں ملتا

خواب دیکھ سکتا ہوں

اور کھینچ سکتا ہوں

میں ہوا سے سانسیں بھی

میرا جسم میرا ہے

نوک پا سے بالوں تک

پر مری دعاؤں کو

اب خدا نہیں ملتا

٭٭٭

 

 

 

اشکبار استعارے

خموشی کے کمرے کے کونے میں چھپ کر

صدا رو رہی ہے

اندھیرے کے شیشے کے اس پار تک کر

ضیا رو رہی ہے

چراغوں کی قبروں کے کتبوں سے لگ کر

ہوا رو رہی ہے

مری اوک کی سیپ میں پھول رکھ کر

دعا رو رہی ہے

فنا بن کے پیڑوں کے سائے میں رک کر

بقا رو رہی ہے

 

 

ہماری ہتھیلیاں آسماں کی طرف ہیں

یہ جو پاتال سے

تیرگی اٹھ رہی ہے

نشیبوں کے تالاب کا آب چھوتے ہوئے

مردہ مچھلی کی بدبو لہو میں بسائے ہوئے

اپنی کالک میں زہریلے مادے ملاتے

زمیں کی طرف

آسماں سے اتاری نہیں

یہ نحوست کے جنگل کے اشجار کا بخت ہے

جس کے سارے ثمر زہر ہی زہر ہیں

پات خدشات ہیں

ڈال ناگن ہے اور گھونسلے

ناگ ہیں کنڈلی مارے ہوئے

روشنی کے جہاں پر پرندے نہیں

یہ ہماری نہیں

ہم درندے نہیں

ہم نے اب تک لوؤں کو چھپایا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

اک اور اندھا کباڑی

خواب اٹھائے کیا پھرتے ہو

خواب کے گاہک کب آئیں گے

خواب کباڑ ہیں

سخت پہاڑ ہیں

خواب اٹھائے کیا پھرتے ہو

کیوں پھرتے ہو

تم جو زمانہ دیکھ رہے ہو

یہ بازار ضرور ہے لیکن

اس کا نظم و طور جدا ہے

اس کا اپنا دین، پیمبر اور خدا ہے

یہاں پہ کاروبار جمانا چاہتے ہو تو عورت بیچو

عورت سب سے مہنگے داموں میں بکتی ہے

وہ جس کو چیز کو چھو لیتی ہے اس کو سونا کر دیتی ہے

اس کی چھون کو ڈھال بناؤ

جتنا چاہے مال بناؤ

صابن بیچنا ہو تو اس کے گال دکھاؤ

شیمپو بیچنا ہو تو اس کے بال دکھاؤ

روحوں کی بد بو کو گھٹانے والی

تن مہکانے والی

خوشبو بیچنی ہو تو اس کا جسم دکھاؤ

اس کے سارے طلسم دکھاؤ

سوئمنگ پول میں اس کے برہنہ جسم پہ پانی کی

لرزش کرتی بوندوں کی جھلمل کو ہتھیار بناؤ

ایک اور دو کے چار بناؤ

عورت لے لو

شاپنگ مال میں یہ آواز لگا کر دیکھو

کتے، سور، گدھ اور کاگے

سب آئیں گے اڑتے بھاگے

دانت چباتے

رال گراتے

گھٹنوں تک جیبیں لٹکاتے

کوئی پیچھے

کوئی آگے

چھور ی گوری کسی کی چاہت

کسی کی خواہش عمر میں چھوٹی

تکہ تکہ بوٹی بوٹی

مانگیں گے سارے بازاری

مت لے جاؤ دل کی بھٹی

خواب بریدہ

خاک میں لتھڑے

اعضاء ٹیڑھے، صورت بھدی

چھوڑو یہ سب کر دی ودی

عورت لے لو

شاپنگ مال میں یہ آواز لگا کر دیکھو

اس کے نازک ماس کے گاہک سب آئیں گے

خواب اٹھائے کیا پھرتے ہو

خواب کے گاہک کب آئیں گے

٭٭٭

 

 

 

لفظ ازم

لفظ جڑتے نہیں

کوئی مصرع بناتے نہیں

بوجھ اٹھاتے نہیں

مجھ سے کہتے ہیں

ہم کوئی مزدور ہیں

گٹھڑیاں

کترنوں سے بھری گٹھڑیاں

کیوں اٹھاتے پھریں

کوئی مجبور ہیں

ہم سے کس نے کہا ہے

کہ ہم بار ڈھونے پہ مامور ہیں

خواب اوروں کے سارے

پہ شانے ہمارے

بہت خوب

جاؤ کسی اور کو ڈھونڈ لاؤ

جو معنی کی بجری بھری یہ تغاری

اٹھا بھی سکے

سر جھکا بھی سکے

جا تلاشو انھیں

وہ جو احساس کی ریت کی بوریوں کے لیے

ریڑھ کی ہڈیوں کو کماں کر سکیں

کار لا حاصلی بے تکاں کر سکیں

ہم بہت تھک چکے

اور تنگ آ گئے

اپنے شانوں پہ خوابوں کے زنگ آ گئے

ہڈیوں میں بھی معنی کے رنگ آ گئے

زنگ بھی اتنا گہرا کہ کٹتا نہیں

رنگ بھی ایسے پکے کہ اڑتے نہیں

ہاتھ جوڑے مگر

لفظ جڑتے نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

حال استقبال

زمیں پر پن گرے گی

اور صدا ساری فضا میں گونج اٹھے گی

پرندے خون کی الٹی کریں گے

جس کی بد بو سے شجر تک سانس لینا بھول جائیں گے

حجر ایسے چھناکے سے شکستہ ہو کے بکھریں گے

کہ میخوں خاک کے اندر گڑی میخوں کے دل بھی کانپ                                                 جائیں گے

بشر کیڑوں مکوڑوں کے قدو قالب میں ڈھل جائیں گے

اپنے بل تلاشیں گے

پڑے گی ریت

بادل سے مسلسل لو جھڑے گی

آسماں سے خوف اترے گا

گرے گی آگ

دس تک گن

گرے گی

٭٭٭

 

 

 

 

ابو

جب میں تنہا ہو جاتا ہوں

جب خود سے، جہان سے

زمین سے، آسمان سے جدا ہو جاتا ہوں

جب میں خلا ہو جاتا ہوں

تو ابو سے باتیں کرتا ہوں

وہ باتیں جو مجھے رنگوں اور نئی نظموں

سے بھر دیتی ہیں

نئی نظمیں جو غیب کے اشاروں اور استعاروں

سے مزین ہوتی ہیں

جن میں اسرافیل باتیں کرتا ہے اور آیتیں پڑھتا ہے

اور کبوتر ان کے مفہوم سے زیتون کو آگاہ کرتے ہیں

یہ فضا مجھے موت کی حقیقت بتاتی ہے

زندگی کو زندگی سے آگاہ کرتی ہے

جب میں فنا ہو جاتا ہوں

تو ابو سے باتیں کرتا ہوں

(اپنی پشتو نظم سے ترجمہ)

٭٭٭

 

 

 

 

امی کے لیے

میں نہیں تھا

ترے رحم کی روشنی میں اترنے سے پہلے

نہیں تھا

نہیں کے مساوی نہیں

اسم کیا

جسم تک میں نہیں تھا

نہیں میری تکمیل تھی

اپنے ہونے کے احساس کی

ساعت اولیں

وقت سے معرفت

قرأت نقش بے نقش ہائے ادق

زندگی کے شب و روز کے

پہلے پہلے ورق

اولیں سب سبق

میں نے تیرے مقدس، طہارت بھرے

رحم میں پڑھ لیے

اور ازبر کیے

سانس لینے سے پہلے

مجھے تو نے زندہ کیا

روشنی آنکھ پتلی پہ گرنے سے پہلے

مجھے تو نے فردا کے باغوں میں اڑتا

پرندہ کیا

تو نے پیدا کیا

جنم دینے سے پہلے مجھے

چشم بینا کے وا ہونے سے پیش تر

مجھ کو مجھ پر ہویدا کیا

میں نہیں تھا

نہیں کے مساوی نہیں

ہو چکا ہوں تو کیا

میرے اوصاف میں اپنا کچھ بھی نہیں

تو دروں

تو بروں

میرے اطراف میں اپنا کچھ بھی نہیں

تو جو ہے تو زمانے پہ حاوی ہوں میں

تو نہیں تو نہیں کے مساوی ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

جمیل کے لیے

میں سالوں بعد آیا ہوں

مگر اس کے بدن کی آگ پوروں میں دہکتی ہے

مجھے محسوس ہوتا ہے

مری پلکوں کے پیچھے آئینوں میں عکس ہے کوئی

جو اب تک مسکراتا ہے

مجھے لگتا ہے

وہ پہلو میں بیٹھا ہے

شرارت اس کے ہونٹوں پر تبسم کی کلی رکھتی ہے

پھر آنکھوں تک آتی ہے

میں اس کی بولتی آنکھوں کی ٹھنڈی روشنی

عینک کے شیشوں پر چمکتی دیکھتا ہوں تو

یہ دنیا خوب صورت لگنے لگتی ہے

میں وہ دن یاد کرتا ہوں

جب اس کی گود میں سررکھ کے میں

گہرا سکوں محسوس کرتا تھا

نہیں، محسوس کرتا ہوں

ابھی محسوس کرتا ہوں

 

وہ آیا ہے

اور اس نے اپنے دل کی روشنی سے

میرے دل میں بجھتی قندیلیں جلائی ہیں

میں سالوں بعد آیا ہوں

مگر وہ روز آتا ہے

ہمیشہ کی طرح اک بار مجھ کو گد گداتا ہے

مجھے جینا سکھاتا ہے

پھر اپنی قبر میں آرام کرنے لوٹ جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اقبال

شاعر خوش نوا

آشنائے خلائے سکوت و صدا

محرم راز ہائے مکاں لا مکاں

اے سفیر تمنائے پیغمبراں

 

دیکھتا ہوں

پس حرف و معنی

تری ضو فشانی

 

صدی در صدی

روشنی بانٹتے سورجوں کی ضیا

جذب کرتی ہوئی

تیری فکر رسا

جو ہے قلب مطہر کی تابندگی سے نتھاری ہوئی

صاف شفاف آنکھوں کے پانی میں رکھی

لہو میں اتاری ہوئی

اور اسپ تخیل پہ حد زمین و زماں سے گزاری ہوئی

تیری فکر رسا

پاک اوراق پڑھ کر سنواری ہوئی

 

اے مغنی سوز دروں

اے صدا کار کوہ ندا

علم اور آگہی

تیرے نام و نسب

لا الہ اور اذاں

تیری روح ادب

با شعور اک جنوں

تیرے جینے کا ڈھب

ورد صل علی

تیرے دل کا سکوں

اور لب کی طلب

اے زمانوں کی دانش سے گزرے ہوئے

مرد خود آشنا

تو نے پہچان دی

فکر تازہ کو طرز کہن سے جدا

شاعر خوش نوا

یہ زبوں حالیاں

یہ شب و روز ملت کی پا مالیاں

کوئی تدبیر کر

پھر دلوں میں اتر

اس نئی نیند میں

اس نئے کرب میں

کچھ اجالا دکھا

کوئی رستہ سجھا

دن گزرتا نہیں

رات ڈھلتی نہیں

اک دعا تک لبوں سے نکلتی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ثروت حسین کے لیے

روشنی کے لیے لکھ

روشنی آگہی کے لیے لکھ

روشنی آگہی آشتی کے لیے لکھ

روشنی آگہی آشتی زندگی کے لیے لکھ

روشنی آگہی آشتی زندگی آدمی کے لیے لکھ

آدمی کی طرح جس کو جینے کی خواہش ہے

اس کے لیے لکھ

آدمی کی طرح جس کو مرنے کی خواہش ہے

اس کے لیے لکھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

لا یعنیت کا انکار

میں

ت

ہ

ذ

ی

ب

کس طرح لکھوں

مجھے معلوم کب ہیں اس کے معنی

یہ کہانی

میں نے

یا

اجداد نے میرے

کبھی لکھی، پڑھی یا پھر سنی ہے کیا

کہیں محفوظ بھی ہے یہ

لہو میں، دل میں یا پھر ذہن کی اس کالی کھائی میں

اگر محفوظ ہے

تو میں نے کیوں دیکھی نہیں اس کی جھلک

اب تک کے خوابوں میں

نہیں دیکھا ابھی تک کیوں اسے

میں نے کتابوں میں

میں

ت

ہ

ذ

ی

ب

کس طرح لکھوں

کہ بے معنی مجھے لکھنا نہیں آتا

کہ لا یعنی مجھے لکھنا نہیں آتا

٭٭٭

 

 

 

 

رزمیے کا فالتو کردار

 

میں شہر رزم میں

ہر بزم سے باہر

خود اپنی نظم سے باہر

بہت بے کار بے مصرف پڑا ہوں

سوچتا ہوں

وقت کا پہیہ تو گردش میں ہے

میں کیوں رک گیا ہوں

کیا سبب ہے میری اس مفعولیت کا

میرے کرنے  کے لیے کردار

قاتل کا بھی ہے

مقتول کا بھی

سوچتا ہوں

راستہ ڈھونڈوں کوئی مشغولیت کا

مار دوں یا آپ مر جاؤں

نہیں تو مجھ کو لاشوں میں گنا جائے گا

وہ لاشیں جو کفنائی نہیں جاتیں

جو دفنائی نہیں جاتیں

 

میں زندہ ہوں

تو کیوں اپنے بدن کی قبر کے اندر گڑا ہوں

سوچتا ہوں

کیوں بہت بے کار بے مصرف پڑا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

     معزز مرحومین!

بول رے چندا

بول رے چندا

ہم ہیں کس پتھر پر کندا

چاہتا ہے کیوں قابض ہونا

لاشوں کے انبار پہ بندا

اپنی روح کو چھیل رہا ہے

پیڑ کو جیسے چھیلے رندا

عشق، محبت، خواب، عبادت

دھندا، دھندا، دھندا، دھندا

انساں کیسے ہو سکتا ہے

اتنا گھٹیا، اتنا گندا

کیسے زمانے میں زندہ ہیں

ہر لمحہ ہے گلے کا پھندا

 

بول رے چندا

بول رے چندا

ہم ہیں کس پتھر پر کندا

٭٭٭

 

 

 

 

پینترہ باز

کھیل

تیرے پاس تو الفاظ ہیں

تو جانتا ہے

حرف سے حرفوں کا میل

بیلنے پر رکھ تخیل کے

نئی اک نظم بیل

جوڑ مصرعے

کھینچ ریل

اور پھر گھماتا جا اسے من چاہے رستوں پر

نہیں مت ڈر

کہ لفظوں پر کوئی بندش نہیں ہوتی

نہیں ہوتی کسی کو جیل

وہ دن جا چکے

جب حرف کی حرمت بھی ہوتی تھی

نئی ہر نظم کی وقعت بھی ہوتی تھی

کوئی سچائی بھی اور اس میں کڑواہٹ بھی ہوتی تھی

مٹھائی بانٹ

یہ کنکر اٹھا

اور تان دے اپنی غلیل

کھیل

تیرے پاس تو الفاظ ہیں

٭٭٭

 

 

 

رموزِ اوقاف کی نظم

 

 

کہاں پر لفظ لکھ کر فاصلہ دینا

کہاں کومہ لگانا ہے

کہاں قوسین میں لکھنا

کہاں پیرا بنانا ہے

کہاں احساس کو لکھنا ہے بس اس کے الف جتنا

کہاں احسا

کہاں احساس کو پورا دکھانا ہے

طریقہ ہی نہیں آتا

تمھیں تو نظم لکھنے کا سلیقہ ہی نہیں آتا

٭٭٭

 

 

 

 

موج ہے دریا میں

 

 

میں جہاں ہوں

جہاں رہ رہا ہوں

وہاں ان دنوں برف بھی آگ ہے

ان دنوں شعلہ رو ہیں وہاں ندیاں

کوہساروں میں بہنے کی خو

ترک کرنے پہ مجبور چشمے لہو رنگ ہیں

پانی آنکھوں میں ہو

جسم میں ہوکہ بادل میں ہو

پانی کی جتنی اشکال ہیں

جتنے بھی رنگ ہیں

ان دنوں سب وہاں شامل جنگ ہیں

اور پانی کی یہ جنگ پانی سے ہے

اپنے ہم نام سے اپنے ثانی سے ہے

موج کی جنگ اپنی روانی سے ہے

پانی پاگل نہیں

پانی ناراض ہے

اپنے اندر ہی رہتا ہے جو

بے نیازانہ بہتا ہے جو

اس سمندر سے ناراض ہے

کیا سمندر کو معلوم ہے

اس تک آتی ہوئی ندیاں

یہ لہو سے بھری ندیاں

کس علاقے سے ہیں

راز داں کشتیاں

راز کو ڈھونڈنے

بھوک سرسوں کے پھولوں سے آگے گزرتی ہیں تو

خواب سے خالی آنکھیں نظر آتی ہیں

خواب سے خالی آنکھوں کی بنجر زمیں

کس قبیلے کی ہے

بھوک سرسوں کے پھولوں کی خوشبو کا سردار کوئی نہیں

راز داں کشتیاں

یہ نہیں جانتی

میں جہاں رہ رہاہوں

وہاں ان دنوں بھوک ہے

بھوک نفرت زمینوں میں بوتی نہیں

بھوک بارود سے ختم ہوتی نہیں

کیا سمندر کو معلوم ہے

اس کے ہونے کا انکار کرتی ہوئی

کس کی آواز ہے

پانی ناراض ہے

میں جہاں رہ رہا ہوں

وہاں ان دنوں برف بھی آگ ہے

ان دنوں شعلہ رو ہیں وہاں ندیاں

تپ رہی ہیں وہاں ان دنوں سردیاں

٭٭٭

 

 

 

 

بخت بد بخت

تیرا بین

اندھیری رین

تیری چیخیں

نیلی

پیلی

کالی

گالی

تیرا رونا

کھوٹا سونا

تیری سینہ کوبی

دھوکا

غم گیں دل

اک خالی کھوکا

کیا بولوں تجھے قسمت سالی

جا وے رُدھالی

جا وے رُدھالی

٭٭٭

 

 

 

 

نظام زادہ

نظام غلام نے کیا بولا تھا

جب بارود کی بارش برسے

کوئی نہ نکلے اپنے گھر سے

جب اندام اڑائے جائیں

گنگ ملیں اس وقت صدائیں

جب خال و خد کہیں مٹا دو

اس لمحے تم سر کو جھکا دو

وقت نازک کو پہچانو

میری سنو اور میری مانو

اپنے حق کی بات نہ کرنا

اور کسی کے ساتھ نہ کرنا

کیا بولا تھا نظام غلام نے

جیسے کئی پرندے دام میں

ہم ہیں ایک غلام نظام میں

ادھیڑے سپنے سینا چھوڑو

آزادی سے جینا چھوڑو

٭٭٭

 

 

 

میں نفی میں

نہیں میں نہیں ہوں

کسی دوسرے نے مجھے میں کہا ہے

تو میں ہو گیا ہوں

نفس کھینچتا ہوں

مگر زندگی میری خواہش نہیں ہے

مجھے زندگی نے چنا ہے

لہٰذا مرے فیصلے زندگی کر رہی ہے

میں روتا نہیں ہوں

مری آنکھ سے اوس کے پھول

غم کی ہوائیں گراتی ہیں

کلیاں ہنسی کی

مرے لب پہ کھلتی نہیں ہیں

خوشی کی بہاریں کھلاتی ہیں

خود آتی جاتی ہیں دل میں تمنائیں

میں کب بلاتا ہوں

(میری کمائی

فقط نا رسائی ہے)

میں نے محبت بھی کب منتخب کی ہے

اس نے مجھے اپنی فہرست میں لکھ لیا ہے

مجھے خواب آتے نہیں ہیں

سو خوابوں نے طے کر لیا ہے

کہ آیندہ وہ میری آنکھوں کے بوسوں سے

کوسوں کے لمبے سفر پر چلیں گے

 

نہیں میں کوی بھی نہیں ہوں

مجھے نظم لکھتی ہے

میں نظم لکھتا نہیں ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

ابر نا آلودہ موسم میں

زمیں کی آنکھوں میں دکھ کا پانی کہیں نہیں ہے

وہ زخم کے جو خواب کے بدن پر کبھی لگا تھا

ابھی ہرا ہے

نمک بھرا ہے

مگر نمک کی یہ کھار

خنجر کی دھار

اور وہ لہو روانی کہیں نہیں ہے

میں کس کنوئیں میں صدا لگاؤں

میں کون غاروں میں جاکے چیخوں

میں اپنی آہوں کو اور کراہوں کو

کیسے دریاؤں رہنے والی ڈراؤنی مچھلیوں کی

قیدشکم میں رکھوں

پیمبری وقت آپڑا ہے

میں کس دعا کے حروف چکھوں

زبور معنی کہیں نہیں ہے

وہ سبز پوشاک پر ستارے سجانے والی

وہ دودھ تالاب میں بدن پر دھنک لگا کر

نہانے والی

وہ تتلیوں کی اڑان میں مسکرانے والی

ڈری تو خود اپنے ڈر کے قابو میں آ گئی تھی

وہ سب کو اپنے فسوں کرشمے دکھانے والی

کسی کے جادو میں آ گئی تھی

یہ داستاں سب کے علم میں ہے

مری کہانی کہیں نہیں ہے

زمیں کی آنکھوں میں دکھ کا پانی کہیں نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

سنگِ بنیاد

ہوا نے سانس لیا تھا

ابھی کہانی میں

فلک کی آنکھ میں شعلے

ابھی دہکتے تھے

تھکن کی گوند نے چپکا رکھے تھے

جسم سے پر

شفق کے لوتھڑے بکھرے ہوئے تھے

پانی میں

 

نماز عصر ادا ہونی تھی

ہوئی کہ نہیں

پرند جھیل پر اترے

مگر وضو نہ کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کولاژ

 

چاند کے گرد اک دائرہ بن گیا

رات تاروں کے صفحے پلٹنے لگی

خاک اپنے گھروندے الٹنے لگی

 

طاق سے فرش پر آگرا اک دیا

روشنی پورے کمرے میں بہنے لگی

تیرگی اک دریچے میں رہنے لگی

 

آسماں خالی ہوتے نہ دیکھا گیا

شام جس وقت زینہ اترنے لگی

رات آکر خلاؤں کو بھرنے لگی

 

خشک پربت کو چھو کر ڈھلا سوریا

اس کے اندر کا لاوا ابلنے لگا

پھر وہ آندھی بنا اور چلنے لگا

 

وہ چلی تو چمن ساتھ چلنے لگا

ابر بھیگا ہوا دھوپ میں رک گیا

سب سے پھلدار تھا جو شجر جھک گیا

 

اس نے پانی میں دست حنائی رکھے

رنگ کی تازگی دیدنی ہو گئی

جھیل کے نیل میں روشنی ہو گئی

 

جس جبیں پر ستارا سجایا گیا

اس سے پہلے وہ اتنی حسیں بھی نہ تھی

اس کے چہرے میں وہ تو کہیں بھی نہ تھی

 

دیر تک مسکراتا رہا رات بھر

ہجر کا درد کمرے میں جگنو بنا

نیند کے ہاتھ پر خواب آنسو بنا

 

اس طرح آئی سج دھج کے کوئی دلہن

خواب زیور بنے چاند گہنا ہوا

رات کا حسن ہے اس نے پہنا ہوا

٭٭٭

 

 

 

قاشیں

 

سورج تیاگ دیا

جان چکا تھا میں شاید

میرا بھاگ دیا

 

اب کے ہولی پر

جانے کس کا نام لکھا ہو

اندھی گولی پر

 

پیڑ سے ٹوٹے پات

جیسے ہوں گلیوں میں بچے

میلے اور انات

 

دیے نہ جلتے دیپ

تیری آنکھیں لگتی ہیں

مجھ کو خالی سیپ

 

اے بھگوان سمان

تو کیسے کر سکتا ہے

داسی کا اپمان

 

دھرتی کے اوتار

تجھ کو شوبھا دیتا ہے

اتنا اتیاچار

انگیٹھی میں آگ

اور قریب نشے میں ڈوبے

رات، عورت اور ناگ

 

منظر نامہ ہے

خالی سٹیج ہے خالی تھیٹر

اچھا ڈرامہ ہے

تجھے مبارک رنگ

لوح فلک پر لکھ کر آئی

کٹتی ہوئی پتنگ

 

رشتہ توڑ گئی

لیکن سانسیں کاٹنے والی

چوڑی چھوڑ گئی

 

شاید مرنا تھا

آگ اگلتی ہوئی زمیں پر

سجدہ کرنا تھا

‎٭٭٭

 

 

 

 

اِتمام

 

سانس جیسے موم بتی کانچ پر رکھی ہوئی

زندگی ہے ہلکی ہلکی آنچ پر رکھی ہوئی

میرا سرمایہ ہے تھوڑی روشنی تھوڑا دھواں

٭٭٭

 

 

 

تعارف

 

 

نام             :       مسعود دانیال

تخلص          :       طریرؔ

پیدائش:               ۲۴؍فروری  ۱۹۸۰؁ء

جائے پیدائش   :       لورالائی (بلوچستان)

تعلیم           :       ایم۔ اے (اردو)

پیشہ            :       لیکچرر شعبہ اردو ،  جامعہ بلوچستان کوئٹہ

پتہ               :     مکان نمبر ۲۸۶، لین ۵، بلاک نمبر ۴، سیٹلائٹ                             ٹاؤن کوئٹہ

ای میل         :tareer@yahoo.com

فون            :

گھر     ۲۴۴۰۸۰۳۔ ۰۸۱

آفس   ۹۲۱۱۲۴۴۔ ۰۸۱

سیل    ۰۳۴۶۸۳۶۲۱۳۶

تصانیف        :

مطبوعہ  :       ۱:آدھی آتما     (شاعری )   (۲۰۰۵)

(صوبائی ادبی ایوارڈ یافتہ)

۲:بلوچستانی شعریات کی تلاش   (جلد اول)   (۲۰۰۹)

۳:معنی فانی     (شاعری)      (۲۰۱۲)

۴:معاصر تھیوری اور تعین قدر(تحقیق و تنقید)      (۲۰۱۲)

زیر طبع:       جدیدیت، ما بعد جدیدیت اور غالب (تحقیق و تنقید)

زیرِ تکمیل       :       بلوچستان شعریات کی تلاش   (جلد دوم )

 

٭٭٭

تشکر: سدرہ سحر عمران جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید