فہرست مضامین
- دینِ حق
- دینِ حق
- الدین کا مفہوم
- الاسلام کا مفہوم
- قرآن کا دعویٰ کیا ہے
- طریقِ زندگی کی ضرورت
- زندگی کا انقسام پذیر نہ ہونا
- زندگی کی جغرافی و نسلی تقسیم
- زندگی کی زمانی تقسیم
- انسان کیسے طریق زندگی کا حاجت مند ہے
- کیا انسان ایسا نظام خود بنا سکتا ہے؟
- الدین کی نوعیت
- انسانی ذرائع کا جائزہ
- خواہش
- عقل
- سائنس
- تاریخ
- مایُوس کن نتیجہ
- امید کی ایک ہی کرن
- قرآن کے دلائل
- خدائی ہدایت کے پرکھنے کا معیار
- توحید و رسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت
- سلامتی کا راستہ
- شہادتِ حق ۔ اُمتِ مسلمہ کا فرض اور مقصدِوجود
دینِ حق
ابو الاعلیٰ مودودی
مولانا مودودی کی کتاب’اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات‘ کا ایک حصہ
دینِ حق
(یہ خطبہ ۲۱ مارچ ۱۹۴۳ء کو جامعہ ملّیّہ، دہلی میں دیا گیا تھا)
قرآن جس دعوے کے ساتھ نوع انسانی کو اپنے پیش کردہ مسلک کی طرف دعوت دیتا ہے وہ خود اس کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہ ا لْاِسْلَام
یہی ذرا سا فقرہ میری اس تقریر کا موضوع ہے۔ زیادہ تفصیل کا موقع نہیں۔ بہت اختصار کے ساتھ میں پہلے اس کے معنی کی تشریح کروں گا جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ اس فقرہ میں دراصل کس چیز کا دعویٰ کیا گیا ہے، پھر اس سوال پر بحث کروں گا کہ یہ دعویٰ تسلیم کیا جانا چاہیے یا نہیں، اور آخر میں یہ بیان کروں گا کہ اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو پھر اس کو تسلیم کر لینے کے مقتضیات کیا ہیں۔
عموماً اس فقرے کا جو سیدھا سادہ مفہوم بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’سچا مذہب تو اللہ کے نزدیک بس اسلام ہی ہے‘‘ اور ’’اسلام‘‘ کا جو تصوّر عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ ایک مذہب کا نام ہے جو اب سے تیرہ سو برس پہلے عرب میں پیدا ہوا تھا اور جس کی بنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈالی تھی۔ ۔ ۔ ’’بنا ڈالی تھی‘‘ کا لفظ میں قصداً اس لیے استعمال کر رہا ہو کہ صرف غیرمسلم ہی نہیں بلکہ بکثرت مسلمان اور اچھے خاصے ذی علم مسلمان بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’بانیِ اسلام‘‘ کہتے اور لکھتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک اسلام کی ابتدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہوئی اور آپ ہی اس کے بانی (Founder) ہیں۔ لہٰذا جب ایک غیرمسلم قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے اس فقرے پر پہنچتا ہے تو وہ یہ گمان کر کے سرسری طور پر اس سے گزر جاتا ہے کہ جس طرح ہر مذہب صرف اپنے ہی برحق ہونے اور دوسرے مذہبوں کے باطل ہونے کا مُدعی ہے اسی طرح قرآن نے بھی اپنے پیش کردہ مذہب کے برحق ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے اور جب ایک مسلمان اسے پڑھتا ہے تو وہ اس وجہ سے اس پر غور کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں سمجھتا کہ جس مذہب کو اس فقرہ میں برحق کہا گیا ہے اسے وہ خود بھی برحق مانتا ہے۔ یا اگر غور و فکر کے لیے اس کے ذہن میں کوئی تحریک پیدا ہوتی بھی ہے تو وہ بالعموم یہ رُخ اختیار کر لیتی ہے کہ عیسائیت، ہندومت، بودھ مت اور ایسے ہی دوسرے مذاہب سے اسلام کا مقابلہ کر کے اس کی حقانیت ثابت کی جائے۔ لیکن درحقیقت قرآن میں یہ مقام ایسا ہے جس پر ایک سنجیدہ طالب علم کو ٹھہر کر بہت غور کرنا چاہیے، اُس سے زیادہ غور کرنا چاہیے جتنا اب تک اس پر کیا گیا ہے۔
قرآن کے اس دعوے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں ’’الدین‘‘ اور ’’الاسلام‘‘ کا مفہوم متعین کر لینا چاہیے۔
الدین کا مفہوم
عربی زبان میں لفظ ’’دین‘‘ کئی معنوں میں آتا ہے۔ اس کے ایک معنی غلبہ اور استیلاء کے ہیں۔ دوسرے معنی اطاعت اور غلامی کے۔ تیسرے معنی جزاء اور بدلہ کے۔ چوتھے معنی طریقہ اور مسلک کے۔ یہاں یہ لفظ اسی چوتھے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی دین سے مراد وہ طریق زندگی یا طرزِ فکر و عمل ہے جس کی پیروی کی جائے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ قرآن محض دین نہیں کہہ رہا ہے بلکہ الدین کہہ رہا ہے۔ اس کے معنی میں وہی فرق واقع ہو جاتا ہے جو انگریزی زبان میں This is a way of life کہنے کے بجائے This is the way of life کہنے سے واقع ہوتا ہے۔ یعنی قرآن کا دعویٰ یہ نہیں ہے کہ اللہ کے نزدیک اسلام ایک طریق زندگی ہے بلکہ اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اسلام ہی ایک حقیقی اور صحیح طریق زندگی یا طرز فکر و عمل ہے۔
پھر یہ ذہن نشین رہے کہ قرآن اس لفظ کوکسی محدود معنی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ وسیع ترین معنی میں استعمال کرتا ہے۔ طریقِ زندگی سے اس کی مراد زندگی کے کسی خاص پہلو یا کسی خاص شعبہ کا طریق نہیں بلکہ پوری زندگی کا طریق ہے، الگ الگ ایک ایک شخص کی انفرادی زندگی ہی کا طریق نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی سوسائٹی کا طریق بھی ہے۔ ایک خاص ملک یا ایک خاص قوم یا ایک خاص زمانہ کی زندگی کا طریق نہیں بلکہ تمام زمانوں میں انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا طریق ہے۔ لہٰذا قرآن کے دعوے کا مفہوم یہ نہیں کہ اللہ کے نزدیک پوجا پاٹ اور عالمِ بالا کے اعتقاد اور حیات بعد الممات کے تصور کا ایک ہی صحیح مجموعہ ہے، جس کا نام اسلام ہے۔ نہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ افراد انسانی کے مذہبی طرز خیال و عمل (جیسا کہ لفظ ’’مذہبی‘‘ کا مفہوم آج کل کی مغربی اصطلاح میں لیا جاتا ہے) کی ایک صحیح صورت وہی ہے جسے اسلام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ عرب کے لوگوں، یا فلاں صدی تک کے انسانوں، یا فلاں دور مثلاً صنعتی انقلاب سے پہلے تک کے آدمیوں کے لیے ایک صحیح نظامِ زندگی وہی ہے جس کو اسلام سے موسوم کیا گیا ہے۔ بلکہ صریح طور پر اس کا دعویٰ یہ ہے کہ ہر زمانے اور ہر دور میں پُوری نوع انسانی کے لیے زمین پر زندگی بسر کرنے کا ایک ہی ڈھنگ اللہ کے نزدیک صحیح ہے، اور وہ ڈھنگ وہی ہے جس کا نام ’’الاسلام‘‘ ہے۔
مجھے یہ سُن کر بڑا تعجب ہوا کہ ایشیا اور یورپ کے درمیان کسی مقام پر قرآن کی کوئی نئی تفسیر کی گئی ہے جس کی رُو سے ’’دین کا مفہوم صرف بندے اور خدا کے انفرادی تعلق تک محدود ہے اور تمدن و ریاست کے نظام سے اس کا کوئی علاقہ نہیں ‘‘۔ یہ تفسیر اگر خود قرآن سے اخذ کی گئی ہے تو یقیناً بڑی دلچسپ چیز ہو گی لیکن میں نے اٹھارہ سال تک قرآن کا جو تحقیقی مطالعہ کیا اس کی بنا پر میں بلا خوف تردید کہتا ہوں کہ قرآن اپنے تمام جدید مفسرین کی خواہشات کے علی الرغم، الدین کے لفظ کو محدود معنی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ اس سے تمام زمانوں کے تمام انسانوں کے لیے ان کی پُوری زندگی کا نظامِ فکر و عمل مراد لیتا ہے۔
الاسلام کا مفہوم
اب لفظ ’’اسلام‘‘ کو لیجیے۔ عربی زبان میں اس کے معنی ہیں سپرڈال دینا، جھک جانا، اطاعت قبول کر لینا، اپنے آپ کو سپرد کر دینا مگر قرآن محض اسلام نہیں بولتا بلکہ اَلْاِسلام بولتا ہے جو اس کی خاص اصطلاح ہے۔ اس مخصوص اصطلاحی لفظ سے اس کی مراد خدا کے آگے جھک جانا، اس کی اطاعت قبول کر لینا، اس کے مقابلے میں اپنی آزادی سے دستبردار ہو جانا، اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دینا ہے۔ اس کی تسلیم و اطاعت اور سپردگی و حوالگی کے معنی یہ نہیں کہ قانون طبیعیت (Law of Nature) کے آگے سپر ڈال دی جائے، جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا مفہوم قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ نہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے تخیل یا اپنے مشاہدات و تجربات سے خدا کی مرضی اور اس کے منشاء کا جو تصور بطورِ خود اخذ کرے اس کی اطاعت کرنے لگے، جیسا کہ کچھ اور لوگوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے خود اپنے رسولوں کے ذریعہ سے انسان کے لیے جس طریقِ فکر و عمل کی طرف رہنمائی کی ہے اس کو وہ قبول کر لے اور اپنی آزادیِ فکر و عمل۔ ۔ ۔ یا بالفاظِ صحیح تر، آوارگیِ فکر و عمل۔ ۔ ۔ چھوڑ کر اس کی پیروی و اطاعت اختیار کر لے۔ اسی چیز کو قرآن ’’الاسلام‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ درحقیقت کوئی جدید العہد مذہب نہیں ہے جس کی بنا اب سے ۱۳۶۳ برس پہلے عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈالی ہو۔ بلکہ جس روز پہلی مرتبہ اس کرۂ زمین پر اسلام کا ظہور ہوا اسی روز خدا نے انسان کو بتا دیا تھا کہ تیرے لیے صرف یہ ’’الاسلام‘‘ ہی ایک صحیح طرز عمل ہے۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف گوشوں میں وقتاً فوقتاً جو پیغمبر بھی خدا کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لیے مامور ہوئے ہیں اُن سب کی دعوت بھی بلا استثناء اسی الاسلام کی طرف رہی ہے جس کی طرف بالآخر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دعوت دی۔ یہ اور بات ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں نے بعد میں بہت سی مختلف چیزوں کی آمیزش کر کے ایک نظام یہودیت کے نام سے اور مسیح علیہ السلام کے پیروؤں نے ایک دوسرانظام مسیحیت کے نام سے، اور اسی طرح ہندوستان، ایران، چین اور دوسرے ممالک کے پیغمبروں کی امتوں نے مختلف مخلوط و مرکب نظامات دوسرے ناموں سے بنا لیے ہوں۔ لیکن موسیٰ اور مسیح اور دوسرے تمام معروف و غیر معروف انبیاء علیہم السلام جس دین کی دعوت دینے آئے تھے وہ خالص اسلام کا تھا نہ کہ کچھ اور۔
قرآن کا دعویٰ کیا ہے
ا س تشریح کے بعد قرآن کا دعویٰ بالکل صاف اور واضح صورت میں ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔
نوعِ انسان کے لیے خدا کے نزدیک صرف یہی ایک صحیح طریق زندگی ہے کہ وہ خدا کے آگے سرِتسلیم خم کر دے اور فکر و عمل کی اس راہ پر چلے جس کی طرف خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے رہنمائی کی ہے۔ ‘‘
یہ ہے قرآن کا دعویٰ۔ اب ہمیں تحقیق کرنا ہے کہ آیا یہ دعویٰ قبول کیا جانا چاہیے؟ خود قرآن نے اپنے اس دعوے کی تائید میں جو دلائل قائم کیے ہیں، ان پر تو ہم غور کریں گے ہی، مگر کیوں نہ اس سے پہلے خود اپنی جگہ تلاش و تجسس کر کے یہ دریافت کر لیں کہ آیا ہمارے لیے اس دعوے کو قبول کرنے کے سوا کوئی اور چارۂ کار بھی ہے؟
طریقِ زندگی کی ضرورت
یہ ظاہر ہے کہ دنیا میں انسان کو زندگی بسر کرنے کے لیے بہرحال ایک طریقِ زندگی درکار ہے، جسے وہ اختیار کرے۔ انسان دریا نہیں ہے جس کا راستہ زمین کے نشیب و فراز سے خود معین ہو جاتا ہے۔ انسان درخت نہیں ہے جس کے لیے قوانینِ فطرت ایک راہ طے کر دیتے ہیں۔ انسان نرا جانور نہیں ہے جس کی رہنمائی کے لیے تنہا جبلت ہی کافی ہو جاتی ہے۔ اپنی زندگی کے ایک بڑے حصے میں قوانینِ طبیعت کا محکوم ہونے کے باوجود انسان زندگی کے بہت سے ایسے پہلو رکھتا ہے جن میں اسے کوئی لگا بندھا راستہ نہیں ملتا کہ حیوانات کی طرح بے اختیار اس پر چلتا رہے، بلکہ اس کو اپنے انتخاب سے خود ایک راہ اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اس کو فکر کی ایک راہ چاہیے جس پر وہ اپنے اور کائنات کے اُن بہت سے مسائل کو حل کرے جنہیں فطرت اس کے سوچنے والے دماغ کے سامنے پیش تو کرتی ہے مگر اُن کا کوئی حل غیر مشتبہ زبان میں نہیں بتاتی۔ اس کو علم کی ایک راہ چاہیے جس پر وہ اُن معلومات کو منظم کرے جنہیں فطرت اس کے حواس کے ذریعے سے اس کے ذہن تک پہنچاتی تو ہے مگر انہیں بطور خود منظم کر کے اس کے حوالے نہیں کر دیتی۔ اس کو شخصی برتاؤ کے لیے ایک راہ چاہیے جس پر وہ اپنی ذات کے بہت سے ان مطالبات کو پُورا کرے جن کے لیے فطرت تقاضا تو کرتی ہے مگر انہیں پورا کرنے کا کوئی مہذب طریقہ معین کر کے نہیں دیتی۔ اس کو گھر اور زندگی کے لیے، خاندانی تعلقات کے لیے، معاشی معاملات کے لیے، ملکی انتظام کے لیے، بین الاقوامی ربط و تعلق کے لیے اور زندگی کے بہت سے دوسرے پہلوؤں کے لیے بھی ایک راہ درکار ہے جس پر وہ محض ایک شخص ہی سے نہیں بلکہ ایک جماعت، ایک قوم، ایک نوع کی حیثیت سے بھی چلے اور ان مقاصد تک پہنچ سکے جو اگرچہ فطرتاً اس کے مقصود و مطلوب ہیں مگر فطرت نے نہ تو ان مقاصد کو صریح طور پر اس کے سامنے نمایاں کیا ہے اور نہ ان تک پہنچنے کا ایک راستہ معین کر دیا ہے۔
زندگی کا انقسام پذیر نہ ہونا
زندگی کے یہ مختلف پہلو جن میں کوئی ایک طریق اختیار کرنا انسان کے لیے ناگزیر ہے، بجائے خود مستقل شعبے اور ایک دوسرے سے بے نیاز محکمے نہیں ہیں۔ اسی بنا پر یہ ممکن نہیں ہے کہ ان مختلف شعبوں کے لیے انسان ایسی مختلف راہیں اختیار کر سکتا ہو جن کی سمتیں الگ ہوں، جن کے زاد راہ الگ ہوں، جن پر چلنے کے ڈھنگ اور انداز الگ ہوں، جن کی راہ نور دی کے متقضیات الگ ہوں، اور جن کی منازلِ مقصود الگ ہوں۔ انسان اور اس کی زندگی کے مسائل کو سمجھنے کی ایک ذرا سی دانشمندانہ کوشش ہی آدمی کو اس پر مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے کہ زندگی بحیثیتِ مجموعی ایک کُل ہے جس کا ہر جز دوسرے جز سے اور ہر پہلو دوسرے پہلو سے گہرا ربط رکھتا ہے، ایسا ربط جو توڑا نہیں جا سکتا۔ اس کا ہر جزء دوسرے جزء پر اثر ڈالتا ہے اور اس سے اثر قبول کرتا ہے۔ ایک ہی روح تمام اجزاء میں سرایت کیے ہوتی ہے اور وہ سب مل کر وہ چیز بناتے ہیں جسے انسانی زندگی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا فی الواقع جو چیز انسان کو درکار ہے وہ زندگی کے مقاصد نہیں بلکہ مقصد ہے، جس کے ضمن میں سارے چھوٹے بڑے مقاصد پوری موافقت کے ساتھ اپنی اپنی جگہ لے سکیں اور جس کے حصول کی کوشش میں وہ سب حاصل ہو جائیں۔ اس کو راستے نہیں بلکہ راستہ درکار ہے جس پر وہ اپنی پوری زندگی کو اس کے تمام پہلوؤں سمیت کامل ہم آہنگی کے ساتھ اپنے مقصودِ حیات کی طرف لے چلے۔ اس کو فکر، علم، ادب، آرٹ، تعلیم، مذہب، اخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست، قانون وغیرہ کے لیے الگ الگ نظامات نہیں بلکہ ایک جامع نظام درکار ہے جس میں یہ سب ہمواری کے ساتھ سموئے جا سکیں، جس میں ان سب کے لیے ایک مزاج اور ایک ہی طبیعت رکھنے والے مناسب اصول موجود ہوں، اور جس کی پیروی کر کے آدمی اور آدمیوں کا مجموعہ اور من حیث الکل پوری آدمیت اپنے بلند ترین مقصود تک پہنچ سکے۔ وہ جاہلیت کا تاریک دور تھا جب زندگی کو مستقل جداگانہ شعبوں میں تقسیم کرنا ممکن خیال کیا جاتا تھا۔ اب اگر کچھ لوگ اس طرز خیال کی مہمل گفتگو کرنے والے موجود ہیں تو وہ بے چارے یا تو اخلاص کے ساتھ پرانے خیالات کی فضا میں اب تک سانس لے رہے ہیں اس لیے قابلِ رحم ہیں، یا پھر وہ ظالم حقیقت کو خوب جانتے ہیں مگر جان بوجھ کر یہ گفتگو صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ جس ’’دین‘‘ کو وہ کسی انسانی آبادی میں رائج کرنا چاہتے ہیں ۱ اس کے اصولوں سے اختلاف رکھنے والوں کو انہیں یہ اطمینان دلانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اس دین کے تحت تمہیں زندگی کے فلاں فلاں شعبوں میں، جو بدقسمتی سے تم کو عزیز تر ہیں، پورا تحفظ حاصل رہے گا۔ حالانکہ یہ تحفظ عقلاً محال، فطرۃً ممتنع، عملاً ناممکن ہے اور اس طرح کی گفتگو کرنے والے غالباً خود بھی جانتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے ۲۔ ہر دین غالب زندگی کے تمام شعبوں کو اپنی روح اور اپنے مزاج کے مطابق ڈھا ل کر رہتا ہے۔ جس طرح ہر کان نمک ان تمام چیزوں کو مبدل بہ نمک کر کے ہی رہتی ہے جو اس کے حدود میں داخل ہو جائیں۔
زندگی کی جغرافی و نسلی تقسیم
پھر جس طرح یہ بات مہمل ہے کہ انسانی زندگی کو جُداگانہ شعبوں میں تقسیم کر دیا جائے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ مہمل بات یہ ہے کہ اسے جغرافی حلقوں یا نسلی دائروں میں تقسیم کیا جائے۔ انسان بلاشبہ زمین کے بہت سے حصوں میں پایا جاتا ہے۔ جن کو دریاؤں نے، پہاڑوں نے، جنگلوں اور سمندروں نے یا مصنوعی سرحدوں نے تقسیم کر رکھا ہے۔ اور انسان کی بہت سی مختلف نسلیں اور قومیں بھی ضرور پائی جاتی ہیں جن کے درمیان تاریخی، نفسیاتی اور دوسرے اسباب سے انسانیت کے نشو و ارتقاء نے مختلف صورتیں اختیار کی ہیں۔ لیکن اس اختلاف کو حجت قرار دے کر جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہر نسل، ہر قوم، اور ہر جغرافی آبادی کے لیے ’’دین‘‘ یعنی نظامِ زندگی الگ ہونا چاہیے وہ سراسر ایک مہمل بات کہتا ہے۔ اُس کی محدُود نگاہ مظاہر اور عوارض کے اختلافات میں اُلجھ کر رہ گئی ہے۔ اس ظاہری کثرت کے اندر جوہر انسانیت کی وحدت کو وہ نہیں پا سکا۔ اگر فی الواقع یہ اختلافات اتنی اہمیت رکھتے ہیں کہ ان کی بنا پر دین الگ الگ ہونے چاہئیں تو میں کہوں گا کہ زیادہ سے زیادہ جو اختلافات ایک ملک اور دوسرے ملک، ایک نسل اور دوسری نسل کے درمیان آپ پاتے ہیں، اُن سب کو جس قدر مبالغہ کے ساتھ چاہیں قلمبند کریں، اور پھر اُن اختلافات کا خالص علمی جائزہ لیں جو عورت اور مرد میں پائے جاتے ہیں، جوہر انسان اور دوسرے انسان میں پائے جاتے ہیں، جو ایک ماں اور باپ کے دو بچوں میں پائے جاتے ہیں۔ شاید میں مبالغہ نہ کروں گا اگر یہ دعویٰ کروں کہ علمی تحلیل و تجزیہ میں پہلی قسم کے اختلافات سے یہ دوسری قسم کے اختلافات بہرحال شدید تر ہی نکلیں گے۔ پھر کیوں نہ کہہ دیجیے کہ ہر فرد کا نظامِ زندگی الگ ہونا چاہیے؟ مگر جب آپ انفرادی، جنسی، خاندانی کثرتوں کے اندر وحدت کا ایک عنصر اور پائیدار عنصر ایسا پاتے ہیں جس کی بنیاد پر قوم، وطن یا نسل کا تصور قائم ہو سکتا ہے اور اس تصور کی بنا پر ایک قوم یا ایک ملک کی کثیر آبادی کے لیے ایک نظامِ زندگی ہونا ممکن خیال کیا جاتا ہے، تو آخر کس چیز نے آپ کو روک دیا ہے کہ قومی نسلی، وطنی کثرتوں کے درمیان ایک بڑی اور بنیادی وحدت کا عنصر آپ نہیں پا سکتے۔ جس پر انسانیت کا تصور قائم ہو اور جس کی بنا پر تمام عالمِ انسانی کا ایک دین یا نظامِ زندگی ہونا ممکن خیال کیا جائے؟ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ تمام جغرافی، نسلی اور قومی اختلافات کے باوجود اصل بنیادی اُمور میں سب انسان بالکل یکساں ہیں ؟ کیا وہ قوانینِ طبعی یکساں نہیں ہیں جن کے تحت انسان دنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے؟ کیا وہ نظامِ جسمانی یکساں نہیں ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے؟ کیا وہ خصوصیات یکساں نہیں ہیں جن کی بنا پر انسان دوسری موجودات سے الگ ایک مستقل نوع قرار پاتا ہے؟ کیا وہ فطری داعیات اور مطالبات یکساں نہیں ہیں جو ان کے اندر ودیعت کیے گئے ہیں ؟ کیا وہ قوتیں یکساں نہیں ہیں جن کے مجموعے کو ہم نفسِ انسانی کہتے ہیں ؟ اور کیا بنیادی طور پر وہ تمام طبعی، نفسیاتی، تاریخی، تمدنی اور معاشی عوامل بھی یکساں نہیں ہیں جو انسانی زندگی میں کارفرما ہیں ؟ اگر یہ واقعہ ہے کہ اُن تمام امور میں سب انسانوں کے درمیان یکسانی پائی جاتی ہے۔ تو پھر یقیناً اُن اصولوں کو بھی، جو انسان بحیثیت انسان، کی فلاح کے لیے صحیح ہوں، عالمگیر ہونا چاہیے۔ اُن کے قومی یا نسلی یا وطنی ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ قومیں اور نسلیں ان اصولوں کے تحت اپنی خصوصیات کا اظہار اور جزوی طور پر اپنے معاملات زندگی کا بندوبست مختلف طریقوں سے کر سکتی ہے۔ اور ان کو ایسا کرنا چاہیے۔ مگر انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے جس صحیح دین یا نظامِ زندگی کی ضرورت ہے وہ بہرحال ایک ہی ہونا چاہیے۔ عقل یہ باور کرنے سے انکار کرتی ہے کہ جو چیز ایک قوم کے لیے حق ہو وہ دوسری قوم کے لیے باطل ہو جائے اور جو ایک قوم کے لیے باطل ہو وہ دوسری قوم کے لیے حق ہو جائے۔
زندگی کی زمانی تقسیم
ان مہملات اور جدید زمانہ کے عالمانہ مہملات میں سے ایک اور بات، جو حقیقت کے اعتبار سے مہمل ترین ہے مگر حیرت ہے کہ یقینیت کے پورے وثوق کے ساتھ پیش کی جاتی ہے، انسانی زندگی کی زمانی تقسیم ہے۔ یعنی کہا جاتا ہے، کیونکہ زندگی کے مسائل و معاملات ہر دور میں بدل جاتے ہیں، اور نظامِ زندگی کا حق یا باطل ہونا سراسر ان مسائل و معاملات ہی کی نوعیت پر منحصر ہے۔ یہ بات اسی انسانی زندگی کے متعلق کہی جاتی ہے جس کے متعلق، ساتھ ہی ارتقا کی گفتگو بھی کی جاتی ہے، جس کی تاریخ میں کارفرما قوانین بھی تلاش کیے جاتے ہیں، جس کے گزشتہ تجربات سے حال کے لیے سبق اور مستقبل کے لیے احکام بھی مستنبط کیے جاتے ہیں، اور جس کے لیے ’’انسانی فطرت‘‘ نامی ایک چیز بھی ثابت کی جاتی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کیا آپ کے پا س کوئی ایسا آلۂ پیمائش ہے جس سے آپ نوعِ انسانی کی اس مسلسل تاریخی حرکت کے درمیان دور یا زمانے یا عہد کی واقعی حد بندیاں کر سکتے ہوں ؟ اور کیا ممکن ہے کہ ان حد بندیوں میں سے کسی ایک خط پر انگلی رکھ کر آپ کہہ سکتے ہوں کہ اس خط کے اس پار جو مسائلِ زندگی تھے وہ اس پار آ کر تبدیل ہو گئے، اور جو حالات اس پار تھے وہ اس پار بھی باقی نہیں رہے؟ اگر فی الواقع انسانی سرگزشت ایسے ہی الگ الگ زمانی ٹکڑوں میں منقسم ہے تب تو یوں سمجھنا چاہیے کہ ایک ٹکڑا جو گزر چکا ہے وہ بعد والے ٹکڑے کے لیے محض ایک فضول و لایعنی چیز ہو گیا۔ اس کے گزرتے ہی وہ سب کچھ ضائع ہو گیا جو انسان نے اس حصۂ دہر میں کیا تھا۔ اس زمانے میں جو تجربات انسان کو ہوئے وہ بعد والے زمانے کے لیے کوئی سبق اپنے اندر نہیں رکھتے۔ کیونکہ وہ حالات و مسائل ہی فنا ہو گئے جن میں انسان نے بعض طریقوں کا، بعض اصولوں کا، بعض قدروں کے لیے سعی و جہد کا تجربہ کیا تھا۔ پھر یہ ارتقاء کی گفتگو کیوں ؟ یہ قوانینِ حیات کی تلاش کس لیے؟ یہ تاریخی استنباط کس بنا پر؟ جب آپ ارتقاء کا نام لیتے ہیں تو لامحالہ یہ اس بات کو متضمن ہے کہ وہاں کوئی چیز ضرور ہے جو تمام تغیرات کا موضوع بنتی ہے اور ان تغیرات کے اندر اپنے آپ کو باقی رکھتے ہوئے پیہم حرکت کرتی ہے۔ جب آپ قوانینِ حیات پر بحث کرتے ہیں تو یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ ان نا پائیدار حالات میں، ان رواں دواں مظاہر میں، ان بننے اور بگڑنے والی صورتوں میں کوئی پائیدار اور زندہ حقیقت بھی ہے جو اپنی ایک ذاتی فطرت اور اپنے کچھ مستقل قوانین بھی رکھتی ہے۔ جب آپ تاریخی استنباط کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تاریخ کے اس طول طویل رستے پر جو مسافر مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا آ رہا ہے اور منزلوں پر منزلیں طے کرتا چلا آ رہا ہے، وہ خود اپنی کوئی شخصیت اور اپنا کوئی مستقل مزاج رکھتا ہے جس کے متعلق یہ حکم لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مخصوص طور پر کام کرتا ہے، ایک وقت میں بعض چیزوں کو قبول کرتا ہے اور دوسرے وقت میں انہیں رد کر دیتا ہے اور بعض دوسری چیزوں کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ زندہ حقیقت، یہ پائیدار موضوعِ تغیرات، یہ شاہراہ تاریخ کا مستقل مسافر وہی تو ہے جس سے آپ راستے کی منزلوں اور ان میں پیش آنے والے حالات اور اُن سے پیدا ہونے والے مسائل پر گفتگو شروع کرتے ہیں تو اس گفتگو میں ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ خود مسافر آپ کو یاد نہیں رہتا؟ کیا یہ سچ ہے کہ منزلیں اور ان کے حالات اور اُن کے مسائل بدل جانے سے مسافر اور اس کی حقیقت بھی بدل جاتی ہے؟ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک اس کی ساخت بالکل نہیں بدلی۔ اس کے عناصر ترکیبی وہی ہیں، اس کی فطرت کے تقاضے وہی ہیں، اس کی صفات و خصوصیات وہی ہیں، اس کے رجحانات و میلانات وہی ہیں، اس کی قوتیں اور صلاحیتیں وہی ہیں، اس کی کمزوریاں اور قابلیتیں وہی ہیں، اس پر کارفرمائی کرنے والی قوتیں وہی ہیں، اور اس کا کائناتی ماحول بھی وہی ہے۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی ابتدائے آفرینش سے آج تک ذرہ برابر فرق نہیں آیا ہے۔ کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ تاریخ کے دوران میں حالات اور اُن سے پیدا ہونے والے مسائلِ زندگی کے تغیر سے خود انسانیت بھی بدلتی چلی آئی ہے۔ یا وہ بنیادی چیزیں بھی متغیر ہوتی رہی ہیں جو انسانیت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پھر جب حقیقت یہ ہے تو اس دعوے میں کیا وزن ہو سکتا ہے کہ انسان کے لیے جو چیز کل تریاق تھی وہ آج زہر ہے، جو چیز کل حق تھی وہ آج باطل ہے، جو چیز کل قدر رکھتی تھی وہ آج بے قدر ہے۔
انسان کیسے طریق زندگی کا حاجت مند ہے
اصل یہ ہے کہ انسانی افراد اور جماعتوں نے تاریخ کے دوران میں نفس انسانیت کو اس سے تعلق رکھنے والی بنیادی چیزوں کو سمجھنے میں دھوکا کھا کر اور بعض حقیقتوں کے اعتراف میں مبالغہ اور بعض کے ادراک میں قصور کر کے جو غلط نظامِ زندگی وقتاً فوقتاً اختیار کیے، اور جنہیں انسانیت کبریٰ (Humanity at large) نے تجربے کے بعد غلط پا کر دوسرے ایسے ہی نظامات کے لیے جگہ خالی کرنے پر مجبور کر دیا، ان کی سرگذشت کے مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا گیا ہے کہ انسانیت کے لیے لازماً ہر دور میں ایک الگ نظامِ زندگی درکار ہے جو صرف اُسی دور کے حالات و مسائل سے پیدا ہو اور انہی کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ حالانکہ زیادہ صحت کے ساتھ اس سرگزشت سے اگر کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکتاہے تو وہ یہ ہے کہ اس قسم کے زمانی اور دوری نظاماتِ زندگی، یا بالفاظِ دیگر موسمی حشرات الارض کو بار بار آزمانے اور ہر ایک کی ناکامی کے بعد اس کے دوسرے جانشین کا تجربہ کرنے میں انسانیت کُبریٰ کا وقت ضائع ہوتا ہے، اس کی ر اہ ماری جاتی ہے۔ اس کے نشو و ارتقاء اور اپنے کمالِ مطلوب کی طرف اس کے سفر میں سخت رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ وہ درحقیقت محتاج اور سخت محتاج ہے، ایسے نظامِ زندگی کی جو خود اس کو اور اس سے تعلق رکھنے والی تمام حقیقتوں کو جان کر عالمگیر، دائمی اور پائیدار اصولوں پر قائم کیا جائے۔ جسے لے کر وہ حال و مستقبل کے تمام متغیر حالات سے بخیریت گزر سکے، ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کر سکے اور زندگی کے راستے پر افتاں و خیزاں نہیں بلکہ رواں اور دواں اپنی منزلِ مقصود کی طرف بڑھ سکے۔
کیا انسان ایسا نظام خود بنا سکتا ہے؟
یہ ہے اس ’’دین‘‘ یا طریقِ زندگی یا نظامِ زندگی کی نوعیت جس کا انسان حاجت مند ہے۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اگر انسان خدا کی مدد سے بے نیاز ہو کر خود اپنے لیے اس نوعیت کا ایک دین بنانا چاہے تو کیا وہ اس کوشش میں کامیاب ہو سکتا ہے؟ میں آپ کے سامنے یہ سوال پیش نہ کروں گا کہ آیا انسان اب تک ایسا دین خود بنانے میں کامیاب ہوا ہے؟ کیونکہ اس کا جواب تو قطعاً نفی میں ہے۔ خود وہ لوگ بھی جو آج بڑے بڑے بلند بانگ دعووں کے ساتھ اپنے اپنے دین پیش کر رہے ہیں اور ان کے لیے ایک دوسرے سے لڑ مر رہے ہیں، یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ان میں سے کسی کا پیش کردہ دین ان ضرورتوں کو پور اکرتا ہے جن کے لیے انسان من حیث الانسان ایک ’’الدین ‘‘ کا محتاج ہے۔ کسی کا دین نسلی و قومی ہے، کسی کا جغرافی، کسی کا طبقاتی اور کسی کا دین پیدا ہی اس دور کے تقاضوں سے ہوا ہے جو ابھی کل ہی گزر چکا ہے، رہا وہ دور جو کل آنے والا ہے اس کے حالات و مسائل کے متعلق کچھ پیشگی نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں بھی وہ کام دے سکے گا یا نہیں، کیونکہ جو دور اب گزر رہا ہے ابھی تو اسی کے تاریخی تقاضوں کا جائزہ لینا باقی ہے۔ اس لیے میں سوال یہ نہیں کر رہا ہوں کہ انسان ایسا دین بنانے میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں، بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ کامیاب ہو سکتا ہے یا نہیں ؟
یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جس سے سرسری طور پر بحث کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ انسانی زندگی کے فیصلہ کن سوالات میں سے ایک ہے۔ اس لیے پہلے خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ چیز کیا ہے جسے وضع کرنے کا سوال درپیش ہے، اور اس شخص کی قابلیتیں کیا ہیں جس کے متعلق پوچھا جا رہا ہے کہ وہ اس کو وضع کر سکتا ہے یا نہیں ؟
الدین کی نوعیت
انسان کے لیے جس ’’ الدین‘‘ کی ضرورت میں نے ابھی ثابت کی ہے اس سے مراد کوئی ایسا تفصیلی ضابطہ نہیں ہے جس میں ہر زمانے اور ہر قسم کے حالات کے لیے تمام چھوٹے بڑے جزئیات تک مرتب ہوں اور جس کی موجودگی میں انسان کا کام صرف اس کے مطابقِ عمل کرنا ہو بلکہ دراصل اس سے مرادایسے ہمہ گیر ازلی و ابدی اصول ہیں جو تمام حالات میں انسان کی رہنمائی کر سکیں۔ اس کی فکر و نظر، سعی و جہد اور پیش قدمی کے لیے صحیح رُخ متعین کر سکیں، اور اسے غلط تجربات میں وقت اور محنت اور قوت ضائع کرنے سے بچا سکیں۔
اس غرض کے لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا علم قیاس و گمان نہیں بلکہ علم ہو کہ اس کی اور کائنات کی حقیقت کیا ہے اور کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے۔
پھر وہ اس بات کے جاننے کا سمجھ بیٹھنے کا نہیں بلکہ جاننے کا ؛ حاجت مند ہے کہ آیا زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے یا یہ پوری زندگی کا ایک ابتدائی حصہ ہے۔ آیا سفر بس پیدائش سے لے کر موت تک کی مسافت کا ہے یا یہ پورے سفر میں سے محض ایک مرحلہ ہے۔
پھر اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ایک ایسا مقصدِ زندگی اس کے لیے متعین ہو جو حقیقت کے اعتبار سے’’نہ کہ محض خواہش کی بنا پر‘‘ واقعی حیاتِ انسانی کا مقصود ہو جس کے لیے دراصل انسان پیدا کیا گیا ہو، اور جس کے ساتھ ہر فرد، ہر مجموعہ افراد، اور بحیثیتِ کلی تمام انسانیت کے مقاصد تمام زمانوں میں بلاکسی تصادم و مزاحمت کے ہم آہنگ ہو سکیں۔
پھر اس کو اخلاق کے ایسے پختہ اور ہمہ گیر اصولوں کی ضرورت ہے جو اس کی فطرت کی تمام خصوصیات کے ساتھ مناسبت بھی رکھتے ہوں اور تمام ممکن حالات پر نظری و عملی حیثیت سے منطبق بھی ہو سکتے ہوں، تاکہ وہ انہی اصولوں کی بنیاد پر اپنی سیرت کی تعمیر کر سکے، انہی کی رہنمائی میں سفر زندگی کی ہر منزل پر پیش آنے والے مسائل کو حل کر سکے اور کبھی اس خطرے میں مبتلا نہ ہو کہ تغیر پذیر حالات و مسائل کے ساتھ اس کے اخلاقی اصول ٹوٹتے اور بنتے چلے جائیں اور وہ محض ایک بے اصولا اور نرا ا بن الوقت بن کر رہ جائے۔
پھر اس کو تمدن کے ایسے جامع اور وسیع اصولوں کی ضرورت ہے جو انسانی اجتماع کی حقیقت و غایت اور اس کے فطری تقاضوں کو سمجھ کر بنائے جائیں جن میں افراط و تفریط اور بے اعتدالی نہ ہو۔ جن میں تمام انسانوں کی مجموعی مصلحت ملحوظ رکھی گئی ہو۔ جن کی پیروی کر کے ہر زمانے میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کی تشکیل، تعمیر اور ترقی کے لیے سعی کی جا سکے۔
پھر اسے شخصی کردار اور اجتماعی رویے اور انفرادی و اجتماعی سعی و عمل کو صحیح سمتِ سفر کا پابند اور بے راہ روی سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسے جامع حدود کی ضرورت ہے جو شاہراہ زندگی پر نشاناتِ راہ کا کام دیں اور ہر موڑ، ہر دو راہے، ہر خطرناک مرحلے پر اسے آگاہ کر دیں کہ تیرا راستہ اُدھر نہیں ہے بلکہ اِدھر ہے۔
پھر اس کو چند ایسے عملی ضابطوں کی ضرورت ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے دائمی اور عالمگیر پیروی کے قابل ہوں اور انسانی زندگی کو اُس حقیقتِ نفس الامری، اُس مآلِ زندگی، اُس مقصد حیات، اُن اصولِ اخلاق، اُن اصول تمدن اور ان حدودِ عمل سے ہمیشہ وابستہ رکھیں جن کی تعیین اُس الدین میں کی گئی ہو۔
یہ ہے وہ چیز جسے وضع کرنے کا سوال درپیش ہے۔ اب غور کیجیے۔ کیا انسان ایسے ذرائع رکھتا ہے جن سے وہ خود اپنے لیے ایک ایسا الدین وضع کر سکے؟
انسانی ذرائع کا جائزہ
انسان کے پاس اپنا ’’دین‘‘ یا طریقِ زندگی اخذ کرنے کے ذرائع چار سے زیادہ نہیں ہیں۔ پہلا ذریعہ خواہش ہے، دوسرا ذریعہ عقل ہے، تیسرا ذریعہ مشاہدہ و تجربہ ہے، چوتھا ذریعہ پچھلے تجربات کا تاریخی ریکارڈ ہے۔ غالباً ان کے سوا کسی پانچویں ذریعہ کی نشان دہی نہیں کی جا سکتی۔ ان چاروں ذرائع کا جتنا مکمل جائزہ لے کر آپ دیکھ سکتے ہوں دیکھیے، کیا یہ ’’الدین‘‘ کے ایجاد کرنے میں انسان کی مدد کر سکتے ہیں ؟ میں نے اپنی عمر کا متعدبہ حصہ اس کی تحقیق میں صرف کیا ہے۔ اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ ذرائع الدین کی ایجاد میں تو مدد نہیں دے سکتے البتہ اگر کوئی غیر انسانی رہنما الدین کو پیش کر دے تو اسے سمجھنے، پرکھنے، پہچاننے اور اس کے مطابق زندگی کے تفصیلی نظام کو وقتاً فوقتاً مرتب کرتے رہنے میں ضرور مدد گار بن سکتے ہیں۔
خواہش
پہلے خواہش کو لیجیے۔ کیا یہ انسان کی رہنما بن سکتی ہے؟ اگر چہ یہ انسان کے اندر اصلی محرکِ عمل ہے، مگر اس کی عین فطرت میں جو کمزوریاں موجود ہیں ان کی بنا پر یہ رہنمائی کے قابل ہر گز نہیں ہو سکتی۔ تنہا رہنمائی کرنا تو درکنار، عقل اور علم کو بھی اکثر اسی نے گمراہ کیا ہے۔ اس کو تربیت سے خواہ کتنا ہی روشن خیال بنا دیا جائے، فیصلہ جب کبھی اس پر چھوڑا جائے گا یہ بلا مبالغہ ۹۹ فیصد حالات میں غیرمستقیم فیصلہ کرے گی۔ کیونکہ اس کے اندر جو تقاضے پائے جاتے ہیں وہ اس کو صحیح فیصلہ کرنے کے بجائے ایسا فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں جس سے مطلوب کسی نہ کسی طرح جلد اور بآسانی حاصل ہو جائے۔ یہ بجائے خود ’’خواہش نفسانی‘‘ کی طبعی کمزوری ہے۔ لہٰذا خواہ ایک فرد کی خواہش ہو یا ایک طبقہ کی، یا وہ خواہش عام (General will) جس کا روسو نے ذکر کیا ہے، بہرحال کسی قسم کی انسانی خواہش میں بھی فطرتاً یہ صلاحیت نہیں ہے کہ ایک الدین کے وضع کرنے میں مددگار بن سکے بلکہ جہاں تک مسائل عالیہ (Ultimate Problems) مثلاً حیات انسانی کی حقیقت، اس کے مآل اور اس کی غایت کا تعلق ہے، ان کو حل کرنے میں تو وہ کسی طرح مددگار بن ہی نہیں سکتی۔
عقل
پھر عقل کو لیجیے اس کی تمام بہترین صلاحیتیں مسلّم۔ انسانی زندگی میں اس کی اہمیت بھی ناقابلِ انکار۔ اور یہ بھی تسلیم کہ انسان کے اندر یہ بہت بڑی رہنما طاقت ہے۔ لیکن قطع نظر اس سوال کے کہ انسان کے لیے ’’الدین‘‘ کس کی عقل وضع کرے گی، زید کی؟ بکر کی؟ تمام انسانوں کی یا انسانوں کے کسی خاص گروہ کی؟ اس زمانہ کے لوگوں کی؟ یا کسی پچھلے زمانہ والوں کی؟ یا آئندہ آنے والوں کی؟ سوال صرف یہ ہے کہ بجائے خود عقلِ انسانی کے حدود کا جائزہ لینے کے بعد کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’’الدین‘‘ کے وضع کرنے میں اُس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ اس کے تمام فیصلے منحصر ہیں اُس مواد پر جو حواس اُس کو فراہم کر کے دیں۔ وہ غلط مواد فراہم کر کے دیں گے تو یہ غلط فیصلہ کر دے گی، اور جن امور میں وہ کوئی مواد فراہم کر کے نہ دیں گے، ان میں اگر یہ خودشناس ہے تو کوئی فیصلہ نہ کرے گی اور اگر بر خود غلط ہے تو اندھیرے میں چوبائی تیر چلاتی رہے گی۔ یہ محدودیتیں جس بیچاری عقل کے ساتھ لگی ہوئی ہیں وہ آخر کس طرح اس کی اہل ہو سکتی ہے کہ نوعِ انسانی کے لیے ’’الدین ‘‘بنانے کی تکلیف اسے دی جائے۔ ’’الدین‘‘ بنانے کا انحصار جن مسائلِ عالیہ کے حل پر ہے ان میں حواس سرے سے کوئی مواد فراہم ہی نہیں کرتے ہیں۔ پھر کیا عقل سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ناقص مواد پر صحیح و کامل قدریں متعین کرے گی۔ اسی طرح ’’الدین‘‘ کے جو دوسرے اجزائے ترکیبی، میں نے بیان کیے ہیں ان میں سے کسی ایک جزء کے لیے بھی حواس سے بالکل صحیح اور مکمل مواد حاصل نہیں ہو سکتا جس کی بناء پر عقل ایک جامع اور مکمل نظام بنا سکے۔ اور اس پر مزید یہ ہے کہ عقل کے ساتھ خواہش کا عنصر مستقل طور پر لگا ہوا ہے جو اسے ٹھیٹھ عقلی فیصلے دینے سے روکتا ہے اور اس کی راست روی کو کچھ ٹیڑھ کی طرف مائل کر کے ہی چھوڑتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ عقلِ انسانی حوا س کے فراہم کردہ مواد کی ترتیب اور اس سے استدلال کرنے میں کوئی غلطی نہ کرے گی، تب بھی اپنی کمزوریوں کی بنا پر وہ اتنا بل بوتا نہیں رکھتی کہ اتنے بڑے کام کا بوجھ اس پر ڈالا جا سکے۔ یہ بوجھ اس پر ڈالنا اس پر بھی ظلم کرنا ہے اور خود اپنے اوپر بھی۔
سائنس
اب تیسرے ذریعہ کو لیجیے، یعنی وہ علم جو مشاہدات و تجربات سے حاصل ہوتا ہے۔ میں اس علم کی قدر و قیمت کا اعتراف کرنے میں کسی طالب علم سے پیچھے نہیں ہوں اور نہ ذرہ برابر اس کی تحقیر کرنا پسند کرتا ہوں لیکن اس کی محدودیتوں کو نظرانداز کر کے اسے وہ وسعت دینا جو فی الواقع اسے حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک بے علمی ہے۔ ’’علم انسانی‘‘ کی حقیقت پر جس شخص کی بھی نظر ہو گی وہ اس بات کو ماننے سے انکار نہ کرے گا کہ جہاں تک مسائلِ عالیہ کا تعلق ہے، ان کی تہہ تک اس کی رسائی محال ہے کیونکہ انسان کو وہ ذرائع حاصل ہی نہیں ہیں جن سے وہ اس تک پہنچ سکے۔ نہ وہ اس کا براہ راست مشاہدہ کر سکتاہے اور نہ مشاہدہ و تجربہ کے تحت آنے والی اشیاء سے استدلال کر کے اس کے متعلق ایسی رائے قائم کر سکتا ہے جس پر ’’علم‘‘ کا اطلاق ہو سکتا ہو۔ لہٰذا ’’الدین‘‘ وضع کرنے کے لیے جن مسائل کا حل معلوم کرنا سب سے پہلی ناگزیر ضرورت ہے وہ تو علم کی دسترس سے باہر ہی ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ اخلاقی قدریں، تمدن کے اصول، اور بے راہ روی سے بچانے والے حدود معین کرنے کا کام آیا علم کے حوالے کیا جا سکتا ہے یا نہیں، تو اس بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ یہ کام کس شخص یا گروہ یا کس زمانہ کا علم انجام دے گا، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ علمی طور پر یہ کام انجام دینے کے لیے ناگزیر شرائط کیا ہیں۔ اس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ ان تمام قوانینِ فطرت کا علم ہو جن کے تحت انسان اس دنیا میں جی رہا ہے۔ اس کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ خود انسان کی اپنی زندگی سے جو علوم تعلق رکھتے ہیں وہ مکمل ہوں۔ اس کے لیے تیسری شرط یہ ہے کہ ان دونوں قسم کے علوم یعنی کائناتی اور انسانیاتی علوم کی معلومات یکجا ہوں اور کوئی ذہنِ کامل ان کو صحیح ترتیب دے کر، اُن سے صحیح استدلال کر کے، انسان کے لیے اخلاقی قدروں کا، تمدن کے اصولوں کا، اور بے راہ روی سے بچانے والی حدوں کا تعین کرے۔ یہ شرائط نہ اس وقت تک پوری ہوئی ہیں، نہ امید کی جا سکتی ہے کہ پانچ ہزار برس بعد پوری ہو جائیں گی ممکن ہے کہ انسانیت کی وفات سے ایک دن پہلے یہ پوری ہو جائیں، مگر اس وقت اس کا فائدہ ہی کیا ہو گا۔
تاریخ
آخر میں اُس ذریعۂ علم کو لیجیے جسے ہم پچھلے تجربات کا تاریخی ریکارڈ یا انسانیت کا نامۂ اعمال کہتے ہیں۔ اس کی اہمیت اور اس کے فائدوں سے مجھے انکار نہیں ہے۔ مگر میں کہتا ہوں، اور غور کریں گے تو آپ بھی مان لیں گے کہ ’’الدین‘‘ وضع کرنے کا عظیم الشان کام انجام دینے کے لیے یہ بھی ناکافی ہے۔ میں یہ سوال نہیں کرتا کہ یہ ریکارڈ ماضی سے حال کے لوگوں تک صحت اور جامعیت کے ساتھ پہنچا بھی ہے یا نہیں ؟ میں یہ بھی نہیں پوچھتا کہ اس ریکارڈ کی مدد سے ’’الدین‘‘ وضع کرنے کے لیے انسانیت کا نمائندہ کس ذہن کو بنایا جائے گا؟ ہیگل کے ذہن کو؟ مارکس کے ذہن کو؟ ارنسٹ ہیکل کے ذہن کو؟ یا کسی اور ذہن کو؟ میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ماضی، حال، یا مستقبل میں کس تاریخ تک کا ریکارڈ ایک ’’الدین‘‘ وضع کرنے کے لیے کافی مواد فراہم کر سکے گا؟ اُس تاریخ کے بعد پیدا ہونے والے خوش قسمت ہیں۔ باقی رہے اس سے پہلے گزر جانے والے تو ان کا بس اللہ ہی حافظ ہے۔
مایُوس کن نتیجہ
یہ مختصر اشارات جو میں نے کیے ہیں، مجھے توقع ہے کہ میں نے ان میں کوئی علمی یا استدلالی غلطی نہیں کی ہے۔ اور اگر انسان کے ذرائع کا یہ جائزہ جو میں نے لیا ہے، صحیح ہے تو پھر ہمیں کوئی چیز اس یقین تک پہنچنے سے باز نہیں رکھ سکتی کہ انسان اپنے لیے کوئی کچا پکا، غلط سلط، وقتی اور مقامی ’’دین‘‘ تو وضع کر سکتا ہے، لیکن وہ چاہے کہ ’’الدین‘‘ وضع کر لے، تو یہ قطعی محال ہے۔ پہلے بھی محال تھا۔ آج بھی محال ہے، اور آئندہ کے لیے بھی اس کے امکان سے پوری مایوسی ہے۔
اب اگر کوئی خدا رہنمائی کے لیے موجود نہیں ہے جیسا کہ منکرینِ خدا کا خیال ہے تو انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ خود کشی کر لے۔ جس مسافر کے لیے نہ کوئی رہنما موجود ہو اور نہ جس کے اپنے پاس راستہ معلوم کرنے کے ذرائع موجود ہوں، اس کے لیے یاس اور کامل یاس کے سوا کچھ مقدر نہیں۔ اس کا کوئی ہمدرد اس کے سوا اسے اور کیا مشورہ دے سکتاہے کہ سر راہ ایک پتھر سے اپنی مشکل آسان کر لے۔ اور اگر خدا ہے لیکن رہنمائی کرنے والا خدا نہیں ہے جیسا کہ بعض فلسفیانہ اور سائنٹیفک طرز کے مثبتینِ خدا کا گمان ہے تو یہ اور بھی افسوس ناک صورت حال ہے۔ جس خدا نے موجوداتِ عالم کے بقا و نشوونما کے لیے ہر اس چیز کی فراہمی کا انتظام کیا ہے جس کی ضرورت کا تصور کیا جا سکتا ہو، لیکن ایک نہیں کیا تو صرف انسان کی اُس سب سے بڑی ضرورت کا انتظام، جس کے بغیر پوری نوع کی زندگی غلط ہوئی جاتی ہے، اس کی بنائی ہوئی دنیا میں رہنا ایک مصیبت ہے، ایسی سخت مصیبت جس سے بڑھ کر کسی دوسری مصیبت کا تصور ممکن نہیں۔ آپ غریبوں اور مفلسوں، بیماروں اور زخمیوں، مظلوموں اور دُکھی جنتاؤں کی مصیبت پر کیا روتے ہیں، روئیے اس پوری نوع کی مصیبت پر جو اس بیچارگی کے عالم میں چھوڑ دی گئی ہے کہ بار بار غلط تجربہ کر کے ناکام ہوتی ہے، ٹھوکریں کھا کر گرتی ہے اور پھر اٹھ چلتی ہے تاکہ پھر ٹھوکر کھائے، ہر ٹھوکر پر ملک کے ملک اور قومیں کی قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اُس غریب کو اپنے مقصدِ زندگی تک کی خبر نہیں ہے، کچھ نہیں جانتی کہ کاہے کے لیے سعی و عمل کرے اور کس ڈھنگ پر کرے۔ یہ سب کچھ وہ خد ا دیکھ رہا ہے جو اسے زمین پر وجود میں لایا ہے، مگر وہ بس پیدا کرنے سے مطلب رکھتا ہے، رہنمائی کی پرواہ نہیں کرتا۔
امید کی ایک ہی کرن
اس تصویر کے برعکس قرآن ہمارے سامنے صورتِ حال کا ایک دوسرا نقشہ پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا محض پیدا ہی کر دینے والا نہیں ہے بلکہ رہنمائی کرنے والا بھی ہے اس نے موجودات عالم میں سے ہر چیز کو وہ ہدایت بخشی ہے جو اس کی فطرت کے لحاظ سے اس کے لیے ضروری ہے۔ الَّذِیْ اَعْطیٰ کُلَّ شَیْیئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدَیٰ اگر اس کا ثبوت چاہو تو جس چیونٹی، جس مکھی، جس مکڑی کو چاہو پکڑ کر دیکھ لو۔ جو خدا ان مخلوقات کی رہنمائی کر رہا ہے وہی خدا انسان کی بھی رہنمائی کرنے والا ہے۔ لہٰذا انسان کے لیے صحیح طریقِ کار یہ ہے کہ خود سری چھوڑ کر اس کے آگے سرِتسلیم خم کر دے اور جس جامع اور مکمل نظام زندگی یا ’’الدین‘‘ کی ہدایت اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے بھیجی ہے، اس کی پیروی اختیار کر لے۔
دیکھیے! ایک طرف تو وہ نتیجہ ہے جو انسان کی قوتوں اور اس کے ذرائع کا بے لاگ جائزہ لینے سے ہم کو حاصل ہوتا ہے، اور دوسری طرف قرآن کا یہ دعویٰ ہے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ یا تو اس دعوے کو قبول کریں، یا پھر اپنے آپ کو مایوسی اور اُس مایوسی کے حوالے کر دیں جس کے اندھیرے میں کہیں برائے نام بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ دراصل صورتِ حال یہ ہے ہی نہیں کہ ’’الدین‘‘ حاصل ہونے کے دو وسیلے موجود ہوں، اور سوال یہ ہو کہ ہم ان میں سے کس وسیلے سے مدد لیں۔ اصلی صورتِ حال یہ ہے کہ ’’الدین‘‘ جس وسیلے سے ہم کو مل سکتا ہے وہ صرف ایک ہے اور انتخاب کا سوال صرف اس امر میں ہے کہ آیا ہم اس تنہا وسیلے سے مدد لیں یا اس کی دستگیری کا فائدہ اٹھانے کے بجائے تاریکی میں بھٹکتے پھرنے کو ترجیح دیں۔
قرآن کے دلائل
یہاں تک جو استدلال میں نے کیا ہے وہ تو ہم کو محض اس حد تک پہنچاتا ہے کہ ہماری فلاح کے لیے قرآن کے اس دعوے کو قبول کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے یعنی بالفاظ دیگر کافر نتوانی شُد، ناچار مسلمان شو (کافر بننے کی سکت نہیں تھی مجبوراً مسلمان ہی بن گیا)۔ لیکن قرآن اپنے دعوے کی تائید میں جو دلائل پیش کرتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ اعلیٰ و اشرف ہیں، کیونکہ وہ ہمیں بادل نخواستہ مسلمان ہونے کے بجائے برضا و رغبت مسلمان ہونے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس کی بہت سی دلیلوں میں سے چار سب سے زیادہ پر زور ہیں اور انہی کو اس نے بار بار بتکرار پیش کیا ہے:
(۱) انسان کے لیے اسلام ہی ایک صحیح طریقِ زندگی ہے۔ اس لیے کہ یہی حقیقتِ نفس الامری کے مطابق ہے اور اس کے سوا ہر دوسرا رویہ خلافِ حقیقت ہے۔
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللہ یَبْغُوْنَ وَلہؒٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّاِلَیْہ یُرْجَعُوْن (آل عمران ۳: آیت۸۳)
کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں حالانکہ وہ سب چیزیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں چار و ناچار اسی کے آگے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہیں اور اسی کی طرف انہیں پلٹ کر جانا ہے۔
(۲) انسان کے لیے یہی ایک صحیح طریقِ زندگی ہے، کیوں کہ یہی حق ہے اور از روئے انصاف اس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صحیح نہیں ہو سکتا۔
اِنَّ رَبَّکُمُ اللہ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّاٍم ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ۔ یُغْشِی الَّیلَ النَّھَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ م بِاَمْرِہ۔ اَلَا لَہ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۔ تَبٰرَکَ اللہ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (الاعراف ۷: آیت ۵۴)
حقیقت میں تمہارا رب (مالک و فرمانروا) تو اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں (یا دوروں ) میں پیدا کیا۔ پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ گر ہوا جو دن کو رات کا لباس اڑھاتا ہے اور پھر رات کے تعاقب میں دن تیزی کے ساتھ دوڑتا ہے۔ سورج اور چاند تارے سب کے سب جس کے تابع فرمان ہیں۔ سنو! خلق بھی اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا۔ بڑا برکت والا ہے وہ کائنات کا رب۔
(۳) انسان کے لیے یہی رویہ صحیح ہے، کیونکہ تمام حقیقتوں کا صحیح علم صرف خدا ہی کو ہے اور بے خطا ہدایت وہی کر سکتا ہے۔
اِنَّ اللہ لَا یَخْفٰی عَلَیْہ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ (آلِ عمران ۳: آیت ۵)
درحقیقت اللہ سے نہ زمین کی کوئی چیز چھپی ہوئی ہے اور نہ آسمان کی۔
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ۔ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ۔ (البقرۃ ۲: آیت ۲۵۵)
جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، وہ بھی اس کے علم میں ہے، اور لوگ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر حاوی نہیں ہو سکتے، بجز ان چیزوں کے جن کا علم وہ خود ان کو دینا چاہیے۔
قُلْ اِنَّ ھُدَی اللہ ھُوَ الْھُدٰی (الانعام ۶: آیت ۷۱)
اے پیغمبر ﷺ کہہ دو کہ اصلی ہدایت صرف خدا ہی کی ہدایت ہے۔
(۴) انسان کے لیے یہی ایک راہ راست ہے، کیونکہ اس کے بغیر عدل ممکن نہیں۔ اس کے سوا جس راہ پر بھی انسان چلے گا وہ بالآخر ظلم ہی کی طرف جائے گی۔
وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ (الطلاق ۶۵: آیت ۱)
جو اللہ کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کرے اس نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا۔
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (المائدہ۵: آیت ۴۵)
جو اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی ظالم ہیں۔
یہ دلائل ہیں جن کی بناء پر معقول انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اللہ کے آگے سرِتسلیم خم کر دے اور ہدایت کے لیے اسی کی طرف رجوع کرے۔
خدائی ہدایت کے پرکھنے کا معیار
اب آگے بڑھنے سے پہلے میں ایک سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں جو لازماً اس مرحلہ پر پہنچ کر ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے اور اپنی تحقیق کے دوران میں خود میرے دل میں بھی پیدا ہو چکا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہر اس شخص کی بات مان لیں جو ایک دین ہمارے سامنے اس دعوے کے ساتھ پیش کر دے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو آخر ہمارے پاس وہ کیا معیار ہے جس سے ہم انسانی ساخت کے دین اور خدائی ہدایت کے دین میں فرق کر سکیں۔ اس کا جواب اگرچہ بڑی مفصل تحقیقی بحث چاہتا ہے، مگر میں یہاں مختصر اشاروں میں وہ چار بڑے معیار بیان کروں گا جو انسانی فکر اور خدائی فکر کو ممیز کرتے ہیں۔
انسانی فکر کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علم کی غلطی، اور محدودیت کا اثر لازماً پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خدائی فکر میں غیر محدود علم اور صحیح علم کی شان بالکل نمایاں ہوتی ہے۔ جو چیز خدا کی طرف سے ہو گی اس میں آپ ایسی کوئی چیز نہیں پا سکتے جو کبھی کسی زمانے میں کسی ثابت شدہ علمی حقیقت کے خلاف ہو، یا جس کے متعلق یہ ثابت کیا جا سکے کہ اس کے مصنف کی نظر سے حقیقت کا فلاں پہلو اوجھل رہ گیا۔ مگر اس معیارِ تحقیق کو استعمال کرتے ہوئے یہ بات نہ بھول جائیے کہ علم، اور علمی قیاس، اور نظریۂ علمی میں بڑا فرق ہے۔ ایک وقت میں جو علمی قیاسات اور علمی نظریات دماغوں پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں، اکثر غلطی سے ان کو ’’علم‘‘ سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کے غلط ہونے کا بھی اتنا ہی امکان ہوتا ہے جتنا ان کے صحیح ہونے کا۔ تاریخ علم میں ایسے بہت کم قیاسات و نظریات کی نشان دہی کی جا سکتی ہے جو بالآخر ’’علم‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔
انسانی فکر کی دوسری بڑی کمزوری نقطۂ نظر کی تنگی ہے۔ اس کے برخلاف خدائی فکر میں وسیع ترین نقطۂ نظر پایا جاتا ہے۔ جب آپ خدائی فکر سے نکلی ہوئی کسی چیز کو دیکھیں گے تو آپ کو ایسا محسوس ہو گا جیسے اس کا مصنف ازل سے ابد تک دیکھ رہا ہے، پوری کائنات کو دیکھ رہا ہے، تمام حقیقتوں کو بیک نگاہ دیکھ رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں بڑے بڑے فلسفی اور مفکر کی فکر بھی ایک بچے کی فکر محسوس ہو گی۔
انسانی فکر کا تیسرا اہم خاصہ یہ ہے کہ اس میں حکمت و دانش، جذبات و خواہشات کے ساتھ کہیں نہ کہیں سازباز اور مصلحت کرتی نظر آ ہی جاتی ہے۔ بخلاف اس کے خدائی فکر میں بے لاگ حکمت اور خالص دانشمندی کی شان اتنی نمایاں ہوتی ہے کہ اس کے احکام میں کہیں آپ جذباتی جھکاؤ کی نشان دہی نہیں کر سکتے۔
انسانی فکر کی ایک اور کمزوری یہ ہے کہ جو نظامِ زندگی وہ خود تصنیف کرے گا اس میں جانبداری، انسان اور انسان کے درمیان غیر عقلی امتیاز اور غیر عقلی بنیادوں ہی پر ترجیح، بعضٌ، علیٰ بعض کا عنصر لازماً پایا جائے گا کیونکہ ہر انسان کی کچھ ذاتی دلچسپیاں ہوتی ہیں جو بعض انسانوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں اور بعض کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتیں۔ بخلاف اس کے خدائی فکر سے نکلا ہوا نظامِ زندگی ایسے ہر عنصر سے بالکل پاک ہو گا۔
اس معیار پر آپ ہر اس نظامِ زندگی کو جانچ کر دیکھیے جو اپنے آپ کو خدا کی طرف سے ’’الدین‘‘ کہتا ہو۔ اگر وہ انسانی فکر کی ان تمام خصوصیات سے خالی ہو اور پھر جامعیت اور ہمہ گیری کی وہ شان بھی رکھتا ہو جو اس سے پہلے میں نے ’’الدین‘‘ کی ضرورت ثابت کرتے ہوئے بیان کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ اس پر ایمان لانے میں تامّل کریں۔
توحید و رسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت
عقل کا فیصلہ
بڑے بڑے شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں کارخانے بجلی کی قوت سے چل رہے ہیں۔ ریلیں اور ٹرام گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ شام کے وقت دفعتاً ہزاروں قمقمے روشن ہو جاتے ہیں۔ گرمی کے زمانہ میں گھر گھر پنکھے چلتے ہیں۔ مگر ان واقعات سے نہ تو ہمارے اندر حیرت و استعجاب کی کوئی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور نہ ان چیزوں کے روشن یا متحرک ہونے کی علت میں کسی قسم کا اختلاف ہمارے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ کیوں ؟ اس لیے کہ ان قمقموں کا تعلق جس بجلی گھر سے ہے اس کا حال بھی ہم کو معلوم ہے۔ اس بجلی گھر میں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کے وجود کا ہم کو علم ہے۔ ان کام کرنے والوں پر جو انجینئر نگرانی کر رہا ہے، ا س کو بھی ہم جانتے ہیں۔ ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ انجینئر بجلی بنانے کے کام سے واقف ہے، اس کے پاس بہت سی کلیں ہیں اور ان کلوں کو حرکت دے کر وہ اس قوت کو پیدا کر رہا ہے جس کے جلوے ہم کو قمقموں کی روشنی، پنکھوں کی گردش، ریلوں اور ٹرام گاڑیوں کی سیر، چکیوں اور کارخانوں کی حرکت میں نظر آتے ہیں۔ پس بجلی کے آثار کو دیکھ کر اس کے اسباب کے متعلق ہمارے درمیان اختلاف رائے واقع نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان اسباب کا پورا سلسلہ ہمارے محسوسات میں داخل ہے اور ہم اس کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔
فرض کیجیے کہ یہی قمقمے روشن ہوتے، اسی طرح پنکھے گردش کرتے، یونہی ریلیں اور ٹرام گاڑیاں چلتیں، چکیاں اور مشینیں حرکت کرتیں، مگر وہ تار جن سے بجلی ان میں پہنچتی ہے ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوتے، بجلی گھر بھی ہمارے محسوسات کے دائرے سے خارج ہوتا، بجلی گھر میں کام کرنے والوں کا بھی ہم کو کچھ علم نہ ہوتا اور یہ بھی معلوم نہ ہو تاکہ اس کارخانہ کا کوئی انجینئر ہے جو اپنے علم اور اپنی قدرت سے اس کو چلا رہا ہے۔ کیا اس وقت بھی بجلی کے ان آثار کو دیکھ کر ہمارے دل ایسے ہی مطمئن ہوتے ؟ کیا اس وقت بھی ہم اسی طرح ان مظاہر کی علتوں میں اختلاف نہ کرتے؟ ظاہر ہے کہ آپ اس کا جواب نفی میں دیں گے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ جب آثار کے اسباب پوشیدہ ہوں اور مظاہر کی علتیں غیر معلوم ہوں تو دلوں میں حیرت کے ساتھ بے اطمینانی کا پیدا ہونا، دماغوں کا اس راز سربستہ کی جستجو میں لگ جانا، اور اس راز کے متعلق قیاسات و آراء کا مختلف ہونا ایک فطری بات ہے۔
اب اس مفروضے پر سلسلہ کلام کو آگے بڑھایئے۔ مان لیجیے کہ یہ جو کچھ فرض کیا گیا ہے درحقیقت عالم واقعہ میں موجود ہے۔ ہزاروں لاکھوں قمقمے روشن ہیں۔ لاکھوں پنکھے چل رہے ہیں، گاڑیاں دوڑ رہی ہیں، کارخانے حرکت کر رہے ہیں اور ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان میں کون سی قوت کام کر رہی ہے اور وہ کہاں سے آتی ہے۔ لوگ ان مظاہرو آثار کو دیکھ کر حیران و ششدر ہیں۔ ہر شخص ان کے اسباب کی جستجو میں عقل کے گھوڑے دوڑا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ سب چیزیں آپ سے آپ روشن یا متحرک ہیں، ان کے اپنے وجود سے خارج کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو انہیں روشنی یا حرکت بخشنے والی ہو۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ چیزیں جن مادوں سے بنی ہوئی ہیں، انہی کی ترکیب نے ان کے اندر روشنی اور حرکت کی کیفیتیں پید اکر دی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس عالم مادہ سے ماوراء چند دیوتا ہیں جن میں سے کوئی قمقمے روشن کرتا ہے، کوئی ٹرام اور ریلیں چلاتا ہے، کوئی پنکھوں کو گردش دیتا ہے اور کوئی کارخانوں اور چکیوں کا محرک ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو سوچتے سوچتے تھک گئے ہیں اور آخر میں عاجز ہو کر کہنے لگے ہیں کہ ہماری عقل اس طلسم کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتی۔ ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور جو کچھ ہماری سمجھ میں نہ آئے اس کی نہ ہم تصدیق کر سکتے ہیں اور نہ تکذیب۔
یہ سب گروہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں مگر اپنے خیال کی تائید اور دوسرے خیالات کی تکذیب کے لیے ان میں سے کسی کے پاس بھی قیاس اور ظن و تخمین کے سوا کوئی ذریعہ علم نہیں ہے۔
اس دوران میں کہ یہ اختلافات برپا ہیں، ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ بھائیو! میرے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے، اس ذریعہ سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان سب قمقموں، پنکھوں، گاڑیوں، کارخانوں اور چکیوں کا تعلق چند مخفی تاروں سے ہے جن کو تم محسوس نہیں کرتے۔ ان تاروں میں ایک بہت بڑے بجلی گھر سے وہ قوت آتی ہے جس کا ظہور روشنی اور حرکت کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس بجلی گھر میں بڑی بڑی عظیم الشان کلیں ہیں جنہیں بے شمار اشخاص چلا رہے ہیں۔ یہ سب اشخاص ایک بڑے انجینئر کے تابع ہیں اور وہی انجینئر ہے جس کے علم اور قدرت نے اس پورے نظام کو قائم کیا ہے۔ اسی کی ہدایت اور نگرانی میں یہ سب کام ہو رہے ہیں۔
یہ شخص پوری قوت سے اپنے اس دعوے کو پیش کرتا ہے۔ لوگ اس کو جھٹلاتے ہیں، سب گروہ مل کر اس کی مخالفت کرتے ہیں، اس کو دیوانہ قرار دیتے ہیں۔ اس کو مارتے ہیں، تکلیفیں دیتے ہیں، گھر سے نکال دیتے ہیں۔ مگر وہ ان سب روحانی اور جسمانی مصیبتوں کے باوجود اپنے دعوے پر قائم رہتا ہے۔ کسی خوف یا لالچ سے اپنے قول میں ذرہ برابر ترمیم نہیں کرتا۔ کسی مصیبت سے اس کے دعوے میں کمزوری نہیں آتی۔ اس کی ہر ہر بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو اپنے قول کی صداقت پر کامل یقین ہے۔
اس کے بعد ایک دوسرا شخص آتا ہے اور وہ بھی بجنسہٖ یہی قول، اسی دعوے کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ پھر تیسرا، پھر چوتھا، پانچواں آتا ہے اور وہی بات کہتا ہے جو اس کے پیشروؤں نے کہی تھی۔ اس کے بعد آنے والوں کا ایک تانتا بندھ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں سے متجاوز ہو جاتی ہے، اور یہ سب اسی ایک قول کو اسی ایک دعوے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ زمان و مکان اور حالات کے اختلاف کے باوجود ان کے قول میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ سب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ سب کو دیوانہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہر طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہر طریقہ سے انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ اپنے قول سے باز آ جائیں مگر سب کے سب اپنی بات پر قائم رہتے ہیں اور دنیا کی کوئی قوت ان کو اپنے مقام سے ایک انچ نہیں ہٹا سکتی۔ اس عزم و استقامت کے ساتھ ان لوگوں کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ ان میں سے کوئی جھوٹا، چور، خائن، بدکار، ظالم اور حرام خور نہیں ہے۔ ان کے دشمنوں اور مخالفوں کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ ان سب کے اخلاق پاکیزہ ہیں۔ سیرتیں انتہا درجہ کی نیک ہیں اور حسن خلق میں یہ اپنے دوسرے ابنائے نوع سے ممتاز ہیں۔ پھر ان کے اندر جنون کا بھی کوئی اثر نہیں پایا جاتا بلکہ اس کے برعکس وہ تہذیبِ اخلاق، تزکیہ نفس اور دنیوی معاملات کی اصلاح کے لیے ایسی ایسی تعلیمات پیش کرتے اور ایسے ایسے قوانین بناتے ہیں جن کے مثل بنانا تو درکنار بڑے بڑے علماء و عقلاء کو ان کی باریکیاں سمجھنے میں پوری پوری عمریں صرف کر دینی پڑتی ہیں۔
ایک طرف وہ مختلف الخیال مکذبین ہیں اور دوسری طرف یہ متحد الخیال مدعی۔ دونوں کا معاملہ عقل سلیم کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ جج کی حیثیت سے عقل کا فرض ہے کہ پہلے اپنی پوزیشن کو خوب سمجھ لے پھر فریقین کی پوزیشن کو سمجھے، اور دونوں کا موازنہ کرنے کے بعد فیصلہ کرے کہ کس کی بات قابل ترجیح ہے۔
جج کی اپنی پوزیشن یہ ہے کہ خود اس کے پاس امر واقعی کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ وہ خود حقیقت کا علم نہیں رکھتا۔ اس کے سامنے صرف فریقین کے بیانات، ان کے دلائل، اُن کے ذاتی حالات اور خارجی آثار و قرائن ہیں۔ انہی پر تحقیق کی نظر ڈال کر اسے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کا برحق ہونا اغلب ہے۔ مگر اغلبیّت سے بڑھ کر وہ بھی کوئی حکم نہیں لگا سکتا کیونکہ مِسل پر جو کچھ مواد ہے اس کی بنا پر یہ کہنا اس کے لیے مشکل ہے کہ امر واقعی کیا ہے۔ وہ فریقین میں سے ایک کو ترجیح دے سکتا ہے لیکن قطعیت اور یقین کے ساتھ کسی کی تصدیق یا تکذیب نہیں کر سکتا۔
مکذبین کی پوزیشن یہ ہے:۔
۱۔ حقیقت کے متعلق ان کے نظریئے مختلف ہیں اور کسی ایک نکتہ میں بھی ان کے درمیان اتفاق نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ایک ہی گروہ کے افراد میں بسا اوقات اختلاف پایا گیا ہے۔
۲۔ وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ ان کے پاس علم کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو دوسروں کے پاس نہ ہو۔ ان میں سے کوئی گروہ اس سے زیادہ کسی چیز کا مدعی نہیں ہے کہ ہمارے قیاسات دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ وزنی ہیں۔ مگر اپنے قیاسات کاقیاسات ہونا سب کو تسلیم ہے۔
۳۔ اپنے قیاسات پر ان کا اعتقاد، ایمان و یقین اور غیر متزلزل وثوق کی حد تک نہیں پہنچا ہے۔ ان میں کا ایک شخص کل تک جس نظریہ کو پورے زور کے ساتھ پیش کر رہا تھا، آج خود اسی نے اپنے پچھلے نظریہ کی تردید کر دی اور ایک دوسرا نظریہ پیش کر دیا۔ عمر، عقل، علم اور تجربے کی ترقی کے ساتھ ساتھ اکثر ان کے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔
۴۔ مدعیوں کی تکذیب کے لیے ان کے پاس بجز اس کے اور کوئی دلیل نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی صداقت کا کوئی یقینی ثبوت نہیں پیش کیا۔ انہوں نے وہ مخفی تار ہم کو نہیں دکھائے جن کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ قمقموں اور پنکھوں وغیرہ کا تعلق انہی سے ہے، نہ انہوں نے بجلی کا وجود تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت کیا، نہ بجلی گھر کی ہمیں سیر کرائی، نہ اس کی کلوں اور مشینوں کا معائنہ کرایا، نہ اس کے کارندوں میں سے کسی سے ہماری ملاقات کرائی، نہ کبھی انجینئر سے ہم کو ملایا، پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ یہ سب کچھ حقائق ہیں ؟
مدعیوں کی پوزیشن یہ ہے:
۱۔ وہ سب آپس میں متفق القول ہیں۔ دعوے کے جتنے بنیادی نکات ہیں ان سب میں ان کے درمیان کامل اتفاق ہے۔
۲۔ ان سب کا متفقہ دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہے۔
۳۔ ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم اپنے قیاس یا گمان کی بناء پر ایسا کہتے ہیں بلکہ سب نے بالاتفاق کہا ہے کہ ا نجینئر سے ہمارے خاص تعلقات ہیں، اس کے کارندے ہمارے پاس آتے ہیں، اس نے اپنے کارخانے کی سیر بھی ہم کو کرائی ہے اور ہم جو کچھ کہتے ہیں علم و یقین کی بنا ء پر کہتے ہیں۔ ظن و تخمین کی بنا پر نہیں کہتے۔
۴۔ ان میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے اپنے بیان میں ذرہ برابر بھی تغیر و تبدل کیا ہو۔ ایک ہی بات ہے جو ان میں کا ہر شخص دعوے کے آغاز سے زندگی کے آخری سانس تک کہتا رہا ہے۔
۵۔ ان کی سیرتیں انتہا درجہ کی پاکیزہ ہیں، جھوٹ، فریب، مکاری، دغا بازی کا کہیں شائبہ تک نہیں ہے اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کچھ لوگ زندگی کے تمام معاملات میں سچے اور کھرے ہوں، وہ خاص اسی معاملہ میں بالاتفاق کیوں جھوٹ بولیں۔
۶۔ اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ دعوے پیش کرنے سے ان کے پیش نظر کوئی ذاتی فائدہ تھا۔ برعکس اس کے یہ ثابت ہے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر نے اس دعوے کی خاطر سخت مصائب برداشت کیے ہیں۔ جسمانی تکلیفیں سہیں، قید کیے گئے، مارے اور پیٹے گئے، جلاوطن کیے گئے، بعض قتل کر دیئے گئے، حتیٰ کہ بعض کو آرے سے چیر ڈالا گیا، اور چند کے سوا کسی کو بھی خوش حالی اور فارغ البالی کی زندگی میسر نہ ہوئی۔ لہذا کسی ذاتی غرض کا الزام ان پر نہیں لگایا جا سکتا۔ بلکہ ان کا ایسے حالات میں اپنے دعوے پر قائم رہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کو اپنی صداقت پر انتہا درجہ کا یقین تھا۔ ایسا یقین کہ اپنی جان بچانے کے لیے بھی ان میں سے کوئی اپنے دعوے سے باز نہ آیا۔
۷۔ ان کے متعلق مجنوں یا فاتر العقل ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ زندگی کے تمام معاملات میں وہ سب کے سب غایت درجہ کے دانشمند اور سلیم العقل پائے گئے ہیں۔ ان کے مخالفین نے بھی اکثر ان کی دانشمندی کا لوہا مانا ہے۔ پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ ان سب کو اسی خاص معاملہ میں جنون لاحق ہو گیا ہو؟ اور وہ معاملہ بھی کیسا؟ جو ان کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن گیا ہو، جس کے لیے انہوں نے دنیا بھر کا مقابلہ کیا ہو، جس کی خاطر وہ سالہا سال دنیا سے لڑتے رہے ہوں، جو ان کی ساری عاقلانہ تعلیمات کا (جن کے عاقلانہ ہونے کا بہت سے مکذبین کو بھی اعتراف ہے) اصل الاصول ہو۔
۸۔ انہوں نے خود بھی یہ نہیں کہا کہ ہم انجینئر یا اس کے کارندوں سے تمہاری ملاقات کرا سکتے ہیں، یا اس کا مخفی کارخانہ تمہیں دکھا سکتے ہیں، یا تجربہ اور مشاہدہ سے اپنے دعوے کو ثابت کر سکتے ہیں۔ وہ خود ان تمام امور کو غیب سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ہم پر اعتماد کرو اور جو کچھ ہم بتاتے ہیں اسے مان لو۔
فریقین کی پوزیشن اور ان کے بیانات پر غور کرنے کے بعد اب عقل کی عدالت اپنا فیصلہ صادر کرتی ہے۔
وہ کہتی ہے کہ چند مظاہر و آثار کو دیکھ کر ان کے باطنی اسباب و علل کی جستجو دونوں فریقوں نے کی ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ بادی النظر میں سب کے نظریات اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ اولاً: ان میں سے کسی میں استحالہ عقلی نہیں ہے۔ یعنی قوانینِ عقلی کے لحاظ سے کسی نظریہ کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا صحیح ہونا غیر ممکن ہے۔ ثانیاً : ان میں سے کسی کی صحت، تجربے یا مشاہدے سے ثابت نہیں کی جا سکتی نہ فریقِ اول میں سے کوئی گروہ اپنے نظریات کا ایسا سائنٹفک ثبوت دے سکتا ہے جو ہر شخص کو یقین کرنے پر مجبور کرے اور نہ فریق ثانی اس پر قادر یا اس کا مدعی ہے۔ لیکن مزید غور و تحقیق کے بعد چند امور ایسے نظر آتے ہیں جن کی بنا ء پر تمام نظریات میں سے فریق ثانی کا نظریہ قابل ترجیح قرار پاتا ہے۔
اولا ً، کسی دوسرے نظریے کی تائید اتنے کثیر التعداد عاقل، پاک سیرت، صادق القول آدمیوں نے متفق ہو کر اتنی قوت اور اتنے یقین و ایمان کے ساتھ نہیں کی ہے۔
ثانیاً، ایسے پاکیزہ کریکٹر اور اتنے کثیر التعداد لوگوں کا مختلف زمانوں اور مختلف مقامات میں اس دعوے پر متفق ہو جانا کہ ان سب کے پاس ایک غیر معمولی ذریعہ علم ہے، اور ان سب نے اس ذریعہ سے خارجی مظاہر کے باطنی اسباب کو معلوم کیا ہے، ہم کو اس دعوے کی تصدیق پر مائل کر دیتا ہے۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ اپنی معلومات کے متعلق ان کے بیانات میں کوئی اختلاف نہیں ہے، جو معلومات انہوں نے بیان کی ہیں ان میں کوئی استحالہ عقلی بھی نہیں ہے اور نہ یہ بات قوانین عقلی کی بناء پر محال قرار دی جا سکتی ہے کہ بعض انسانوں میں کچھ ایسی غیر معمولی قوتیں ہوں جو عام طور پر دوسرے انسانوں میں نہ پائی جاتی ہوں۔
ثالثا ً، خارجی مظاہر کی حالت پر غور کرنے سے اغلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ فریق ثانی کا نظریہ صحیح ہو۔ اس لیے کہ قمقمے، پنکھے، گاڑیاں، کارخانے وغیرہ نہ تو آپ سے آپ روشن اور متحرک ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ان کا روشن اور متحرک ہونا ان کے اپنے اختیار میں ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ نہ اُن کی روشنی و حرکت ان کے مادہ جسمی کی ترکیب کا نتیجہ ہے کیونکہ جب وہ متحرک اور روشن نہیں ہوتے، اس وقت بھی یہی ترکیب جسمی موجود رہتی ہے۔ نہ ان کا الگ الگ قوتوں کے زیر اثر ہونا صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ بسا اوقات جب قمقموں میں روشنی نہیں ہوتی تو پنکھے بھی بند ہوتے ہیں، ٹرام کاریں بھی موقوف ہو جاتی ہیں اور کارخانے بھی نہیں چلتے۔ لہذا خارجی مظاہر کی توجیہہ میں فریق اول کی طرف سے جتنے نظریات پیش کیے گئے ہیں وہ سب بعید از عقل و قیاس ہیں۔ زیادہ صحیح یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ ان تمام مظاہر میں کوئی ایک قوت کار فرما ہو اور اس کا سر رشتہ کسی ایسے حکیم توانا کے ہاتھ میں ہو جو ایک مقررہ نظام کے تحت اس قوت کو مختلف مظاہر میں صرف کر رہا ہو۔
باقی رہا مشککّین کا یہ قول کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی، اور جو بات ہماری سمجھ میں نہ آئے اس کی تصدیق یا تکذیب ہم نہیں کر سکتے، تو حاکم عقل اس کو بھی درست نہیں سمجھتا کیونکہ کسی بات کا واقعہ ہونا اس کا محتاج نہیں ہے کہ وہ سننے والوں کو سمجھ میں بھی آ جائے۔ اس کے وقوع کو تسلیم کرنے کے لیے معتبر اور متواتر شہادت کافی ہے۔ اگر ہم سے چند معتبر آدمی آ کر کہیں کہ ہم نے زمینِ مغرب میں آدمیوں کو لوہے کی گاڑیوں میں بیٹھ کر ہوا پر اڑتے دیکھا ہے، اور ہم اپنے کانوں سے لندن میں بیٹھ کر امریکہ کا گانا سن آئے ہیں، تو ہم صرف یہ دیکھیں گے کہ یہ لوگ جھوٹے اور مسخرے تو نہیں ہیں ؟ ایسا بیان کرنے میں ان کی ذاتی غرض تو نہیں ہے؟ ان کے دماغ میں کوئی فتور تو نہیں ہے؟ اگر ثابت ہو گیا کہ وہ نہ جھوٹے ہیں، نہ مسخرے، نہ دیوانے، نہ ان کا کوئی مفاد اس روایت سے وابستہ ہے، اور اگر ہم نے دیکھا کہ اس کو بلا اختلاف بہت سے سچے اور عقلمند لوگ پوری سنجیدگی کے ساتھ بیان کر رہے ہیں تو ہم یقیناً اس کو تسلیم کر لیں گے، خواہ لوہے کی گاڑیوں کا ہوا پر اڑنا اور کسی محسوس واسطہ کے بغیر ایک جگہ کا گانا کئی ہزار میل کے فاصلہ پر سنائی دینا کسی طرح ہماری سمجھ میں نہ آتا ہو۔
یہ اس معاملہ میں عقل کا فیصلہ ہے، مگر تصدیق و یقین کی کیفیت جس کا نام ’’ایمان‘‘ ہے، اس سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے لیے وجدان کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دل کے ٹُھک جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ اندر سے ایک آواز آئے جو تکذیب، شک اور تذبذب کی تمام کیفیتوں کا خاتمہ کر دے اور صاف کہہ دے کہ لوگوں کی قیاس آرائیاں باطل ہیں، سچ وہی ہے جو سچے لوگوں نے قیاس سے نہیں بلکہ علم و بصیرت سے بیان کیا ہے۔
نبوت محمدؐی کا عقلی ثبوت
تھوڑی دیر کے لیے جسمانی آنکھیں بند کر کے تصور کی آنکھیں کھول لیجیے اور ایک ہزار چار سو برس پیچھے پلٹ کر دنیا کی حالت پر نظر ڈالیے۔ یہ کیسی دنیا تھی؟ انسان اور انسان کے درمیان تبادلہ خیالات کے وسائل کس قدر کم تھے۔ قوموں اور ملکوں کے درمیان تعلق کے ذرائع کتنے محدود تھے، انسان کی معلومات کس قدر کم تھیں، اس کے خیالات کس قدر تنگ تھے، اس پر وہم اور توحش کا کس قدر غلبہ تھا۔ جہالت کے اندھیرے میں علم کی روشنی کتنی دھندلی تھی اور اس اندھیرے کو دھکیل دھکیل کر کتنی دقتوں کے ساتھ پھیل رہی تھی۔ دنیا میں نہ تار تھا، نہ ٹیلیفون تھا، نہ ریڈیو تھا، نہ ریل اور ہوائی جہاز تھے، نہ مطابع اور اشاعت خانے تھے، نہ مدرسوں اور کالجوں کی کثرت تھی، نہ اخبارات اور رسالے شائع ہوتے تھے، نہ کتابیں کثرت سے لکھی جاتی تھیں، نہ کثرت سے ان کی اشاعت ہوتی تھی۔ اس زمانے کے ایک عالم کی معلومات بھی بعض حیثیات سے موجودہ زمانے کے ایک عامی کی بہ نسبت کم تھیں۔ اس زمانے کی اونچی سوسائٹی کا آدمی بھی موجودہ زمانے کے ایک مزدور کی بہ نسبت کم شائستہ تھا۔ اس زمانے کا ایک نہایت روشن خیال آدمی بھی آج کل کے تاریک خیال آدمی سے زیادہ تاریک خیال تھا۔ جو باتیں آج ہر کس و ناکس کو معلوم ہیں وہ اس زمانہ میں برسوں کی محنت اور تلاش و تحقیق کے بعد بھی بمشکل معلوم ہو سکتی تھیں۔ جو معلومات آج روشنی کی طرح فضا میں پھیلی ہوئی ہیں اور ہر بچے کو ہوش سنبھالتے ہی حاصل ہو جاتی ہیں، ان کے لیے اس زمانہ میں سینکڑوں میل کے سفر کیے جاتے تھے اور عمریں ان کی جستجو میں بیت جاتی تھیں۔ جن باتوں کو آج اوہام و خرافات سمجھا جاتا ہے وہ اس زمانے کے ’’حقائق‘‘ تھے، جن افعال کو آج ناشائستہ اور وحشیانہ کہا جاتا ہے وہ اس زمانہ کے عام معمولات تھے جن طریقوں سے آج انسان کا ضمیر نفرت کرتا ہے وہ اس زمانے کے اخلاقیات میں نہ صر ف جائز تھے، بلکہ کوئی شخص یہ خیال بھی نہ کر سکتا تھا کہ ان کے خلاف بھی کوئی طریقہ ہو سکتا ہے۔ انسان کی عجائب پرستی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ وہ کسی چیز میں اس وقت تک کوئی صداقت، کوئی بزرگی، کوئی پاکیزگی تسلیم ہی نہ کر سکتا تھا جب تک کہ وہ فوق الفطرت نہ ہو، خلاف عادت نہ ہو، غیر معمولی نہ ہو۔ حتیٰ کہ انسان خود اپنے آپ کو اس قدر ذلیل سمجھتا تھا کہ کسی انسان کا خدا رسیدہ ہونا اور کسی خدا رسیدہ ہستی کا انسان ہونا اس کے تصور کی رسائی سے بہت دور تھا۔
اس تاریک دور میں زمین کا ایک گوشہ ایسا تھا جہاں تاریکی کا تسلط اور بھی زیادہ بڑھا ہوا تھا۔ جو ممالک اس زمانے کے معیار تمدن کے لحاظ سے متمدن تھے ان کے درمیان عرب کا ملک سب سے الگ تھلگ پڑا ہوا تھا۔ اس کے اردگرد ایران، روم اور مصر کے ملکوں میں علوم و فنون اور تہذیب و شائستگی کی کچھ روشنی پائی جاتی تھی۔ مگر ریت کے بڑے بڑے سمندروں نے عرب کو اس سے جدا کر رکھا تھا۔ عرب سوداگر اونٹوں پر مہینوں کی راہ طے کر کے ان ملکوں میں تجارت کے لیے جاتے تھے اور صرف اموال کا مبادلہ کر کے واپس آ جاتے تھے۔ علم و تہذیب کی کوئی روشنی ان کے ساتھ نہ آتی تھی۔ ان کے ملک میں نہ کوئی مدرسہ تھا، نہ کتب خانہ تھا، نہ لوگوں میں تعلیم کا چرچا تھا، نہ علوم و فنون سے کوئی دلچسپی تھی۔ تمام ملک میں گنتی کے چند آدمی تھے جنہیں کچھ لکھنا پڑھنا آتا تھا، مگر وہ بھی اتنا نہیں کہ اس زمانہ کے علوم و فنون سے آشنا ہوتے۔ ان کے پاس ایک اعلیٰ درجہ کی باقاعدہ زبان ضرور تھی جس میں بلند خیالات کو ادا کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ ان میں بہترین ادبی مذاق بھی موجود تھا مگر ان کے لٹریچر کے جو کچھ باقیات ہم تک پہنچے ہیں ان کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی معلومات کس قدر محدود تھیں، تہذیب و تمدن میں ان کا درجہ کس قدر پست تھا، ان پر اوہام کا کس قدر غلبہ تھا، ان کے خیالات اور ان کی عادات میں کتنی جہالت اور وحشت تھی، ان کے اخلاقی تصورات کتنے بھدے تھے۔
وہاں کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی۔ کوئی ضابطہ اور قانون نہ تھا۔ ہر قبیلہ اپنی جگہ خود مختار تھا اور صرف ’’جنگل کے قانون‘‘ کی پیروی کی جاتی تھی۔ جس کا جس پر بس چلتا اسے مار ڈالتا اور اس کے مال پر قابض ہو جاتا۔ یہ بات ایک عرب بدوی کے فہم سے بالاتر تھی کہ جو شخص اس کے قبیلہ کا نہیں ہے اُسے وہ کیوں نہ مار ڈالے اور اس کے مال پر کیوں نہ متصرف ہو جائے۔
اخلاق اور تہذیب و شائستگی کے جو کچھ بھی تصورات ان لوگوں میں تھے وہ نہایت ادنیٰ اور سخت نا تراشیدہ تھے۔ پاک اور ناپاک، جائز اور ناجائز، شائستہ اور ناشائستہ کی تمیز سے وہ تقریباً نا آشنا تھے۔ ان کی زندگی نہایت گندی تھی۔ ان کے طریقے وحشیانہ تھے۔ زنا، جواء، شراب، چوری، رہزنی اور قتل و خون ریزی ان کی زندگی کے معمولات تھے۔ وہ ایک دوسرے کے سامنے بے تکلف برہنہ ہو جاتے تھے۔ ان کی عورتیں تک ننگی ہو کر کعبہ کا طواف کرتی تھیں۔ وہ اپنی لڑکیوں کو اپنے ہاتھ سے زندہ دفن کر دیتے تھے، محض اس جاہلانہ خیال کی بنا پر کہ کوئی ان کا داماد بنے۔ وہ اپنے باپوں کے مرنے کے بعد اپنی سوتیلی ماؤں سے نکاح کر لیتے تھے۔ انہیں کھانے اور لباس اور طہارت کے معمولی آداب تک معلوم نہ تھے۔
مذہب کے باب میں وہ ان تمام جہالتوں اور ضلالتوں کے حصہ دار تھے جس میں اس زمانہ کی دنیا مبتلا تھی۔ بت پرستی، ارواح پرستی، کواکب پرستی، غرض ایک خدا کی پرستش کے سوا اس وقت دنیا میں جتنی پرستیاں پائی جاتی تھیں وہ سب ان میں رائج تھیں۔ انبیائے قدیم اور ان کی تعلیمات کے متعلق کوئی صحیح علم ان کے پاس نہ تھا۔ وہ اتنا ضرور جانتے تھے کہ ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ ان کے باپ ہیں مگر یہ نہ جانتے تھے کہ ان دونوں باپ بیٹوں کا دین کیا تھا اور وہ کس کی عبادت کرتے تھے۔ عاد اور ثمود کے قصے بھی ان میں مشہور تھے، مگر ان کی جو روایتیں عرب کے مورخین نے نقل کی ہیں ان کو پڑھ جایئے، کہیں آپ کو صالح ؑ اور ہود ؑ کی تعلیمات کا نشان نہ ملے گا۔ ان کو یہودیوں اور عیسائیوں کے واسطے سے انبیائے بنی اسرائیل کی کہانیاں بھی پہنچی تھیں، مگر وہ جیسی کچھ تھیں ان کا اندازہ کرنے کے لیے صرف ایک نظر ان اسرائیلی روایات پر ڈال لینا کافی ہے جو مفسرین اسلام نے نقل کی ہیں۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اہل عرب اور خود بنی اسرائیل جن انبیاء سے واقف تھے وہ کیسے انسان تھے اور نبوت کے متعلق ان لوگوں کا تصور کس قدر گھٹیا درجے کا تھا۔
ایسے زمانہ میں، ایسے ملک میں ایک شخص پیدا ہوتا ہے۔ بچپن ہی میں ماں باپ اور دادا کا سایہ اس کے سر سے اٹھ جاتا ہے اس لیے اس گئی گزری حالت میں ایک عرب بچے کو جو تھوڑی بہت تربیت مل سکتی تھی وہ بھی اس کو نہیں ملتی۔ ہوش سنبھالتا ہے تو بدوی لڑکوں کے ساتھ بکریاں چرانے لگتا ہے۔ جوان ہوتا ہے تو سوداگری میں لگ جاتا ہے۔ اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا سب کچھ انہی عربوں کے ساتھ ہے جن کا حال اوپر آپ نے دیکھ لیا۔ تعلیم کا نام تک نہیں، حتیٰ کہ پڑھنا لکھنا تک نہیں آیا، کسی عالم کی صحبت میسر نہ ہوئی کہ ’’عالم‘‘ کا وجود اس وقت تمام عرب میں کہیں نہ تھا۔ چند مرتبہ اسے عرب سے باہر قدم نکالنے کا اتفاق ضرور ہوا مگر یہ سفر صرف شام کے علاقے تک تھے اور ویسے ہی تجارتی سفر تھے جیسے اس زمانہ میں عرب کے تجارتی قافلے کیا کرتے تھے۔ بالفرض اگر ان اَسفار کے دوران میں اس نے کچھ آثار علم و تہذیب کا مشاہدہ کیا اور کچھ اہل علم سے ملاقات کا اتفاق بھی ہوا تو ظاہر ہے کہ ایسے منتشر مشاہدات اور ایسی ہنگامی ملاقاتوں سے کسی انسان کی سیرت نہیں بن جاتی، ان کا اثر کسی شخص پر اتنا زبردست نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے ماحول سے بالکل آزاد، بالکل مختلف اور اتنا بلند ہو جائے کہ اس میں اور اس کے ماحول میں کچھ نسبت ہی نہ رہے۔ ان سے ایسا علم حاصل ہونا ممکن نہیں ہے جو ایک ان پڑھ بدوی کو ایک ملک کا نہیں، تمام دنیا کا اور ایک زمانہ کا نہیں، تمام زمانوں کا لیڈر بنا دے۔ اگر کسی درجہ میں اس نے باہر کے لوگوں سے علمی استفادہ کیا بھی ہو تو جو معلومات اس وقت دنیا میں کسی کو حاصل ہی نہ تھیں، مذہب، اخلاق، تہذیب اور تمدن کے جو تصورات اور اُصول اس وقت دنیا میں کہیں موجود ہی نہ تھے، انسانی سیرت کے جو نمونے اس وقت کہیں پائے ہی نہیں جاتے تھے، ان کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا تھا۔
صرف عرب ہی کا نہیں تمام دنیا کا ماحول پیش نظر رکھیے اور دیکھیے۔ یہ شخص جن لوگوں میں پیدا ہوا، جن میں بچپن گزرا، جن کے ساتھ پل کر جوان ہوا، جن سے اس کا میل جول رہا، جن سے اس کے معاملات رہے، ابتدا ہی سے عادات میں، اخلاق میں، وہ ان سب سے مختلف نظر آتا ہے۔ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اس کی صداقت پر اس کی ساری قوم گواہی دیتی ہے۔ اس کے کسی بدترین دشمن نے بھی کبھی اس پر الزام نہیں لگایا کہ وہ فلاں موقع پر جھوٹ بولا تھا۔ وہ کسی سے بدکلامی نہیں کرتا۔ کسی نے اس کی زبان سے کبھی گالی یا کوئی فحش بات نہیں سنی۔ وہ لوگوں سے ہر قسم کے معاملات کرتا ہے، مگر کبھی کسی سے تلخ کلامی اور تو تومیں میں کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اس کی زبان میں سختی کے بجائے شیرینی ہے اور وہ بھی ایسی کہ جو اس سے ملتا ہے، گرویدہ ہو جاتا ہے۔ وہ کسی سے بد معاملگی نہیں کرتا۔ کسی کی حق تلفی نہیں کرتا۔ برسوں سوداگری کا پیشہ کرنے کے باوجود کسی کا ایک پیسہ بھی ناجائز طریقہ سے نہیں لیتا۔ جن لوگوں سے اس کے معاملات پیش آتے ہیں وہ سب اس کی ایمان داری پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں۔ ساری قوم اس کو ’’امین‘‘ کہتی ہے۔ دشمن تک اس کے پاس اپنے قیمتی مال رکھواتے ہیں اور وہ ان کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ بے حیا لوگوں کے درمیان وہ ایسا حیا دار ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد کسی نے اس کو برہنہ نہیں دیکھا۔ بد اخلاقوں کے درمیان وہ ایسا پاکیزہ اخلاق ہے کہ کبھی کسی بدکاری میں مبتلا نہیں ہوتا، شراب اور جوئے کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ ناشائستہ لوگوں کے درمیان وہ ایسا شائستہ ہے کہ ہر بدتمیزی اور گندگی سے نفرت کرتا ہے اور اس کے ہر کام میں ستھرائی اور پاکیزگی پائی جاتی ہے۔ سنگدلوں کے درمیان وہ ایسا نرم دل ہے کہ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے۔ یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرتا ہے، مسافروں کی میزبانی کرتا ہے، کسی کو اس سے دکھ نہیں پہنچتا اور وہ دوسروں کی خاطر دکھ اٹھاتا ہے۔ وحشیوں کے درمیان وہ ایسا صلح پسند ہے کہ اپنی قوم میں فساد اور خونریزی کی گرم بازاری دیکھ کر اس کو اذیت ہوتی ہے، اپنے قبیلہ کی لڑائیوں سے دامن بچاتا ہے اور مصالحت کی کوششوں میں پیش پیش رہتا ہے۔ بت پرستوں کے درمیان وہ ایسا سلیم الفطرت اور صحیح العقل ہے کہ زمین وآسمان میں کوئی چیز اسے پوجنے کے لائق نظر نہیں آتی، کسی مخلوق کے آگے اس کا سر نہیں جھکتا، بتوں کے چڑھاوے کا کھانا بھی وہ قبول نہیں کرتا، اس کا دل خود بخود شرک اور مخلوق پرستی سے نفرت کرتا ہے۔
اس ماحول میں یہ شخص ایسا ممتاز نظر آتا ہے جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک شمع روشن ہے یا پتھروں کے ڈھیر میں ایک ہیرا چمک رہا ہے۔
تقریباً چالیس برس تک ایسی پاک، صاف، شریفانہ زندگی بسر کرنے کے بعد اس کی زندگی میں ایک انقلاب شروع ہوتا ہے۔ وہ اس تاریکی سے گھبرا اٹھتا ہے جو اس کو ہر طرف سے محیط نظر آ رہی ہے۔ وہ جہالت، بد اخلاقی، بدکرداری، بد نظمی، شرک اور بت پرستی کے اس ہولناک سمندر سے نکل جانا چاہتا ہے جو اس کو گھیرے ہوئے تھا۔ اس ماحول میں کوئی چیز بھی اس کو اپنی طبعیت کے مناسب نظر نہیں آتی۔ وہ سب سے الگ ہو کر آبادی سے دور پہاڑوں کی صحبت میں جا جا کر بیٹھنے لگتا ہے۔ تنہائی اور سکون کے عالم میں کئی کئی دن گزارتا ہے۔ روزے رکھ رکھ کر اپنی روح اور اپنے دل و دماغ کو اور زیادہ پاک صاف کرتا ہے۔ سوچتا ہے، غور و فکر کرتا ہے، کوئی ایسی روشنی ڈھونڈھتا ہے جس سے وہ اس چاروں طرف چھائی ہوئی تاریکی کو دور کر دے۔ ایسی طاقت حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے اس بگڑی ہوئی دنیا کو توڑ پھوڑ کر پھر سے سنوار دے۔
یکایک اس کی حالت میں ایک عظیم الشان تغیر رونما ہوتا ہے۔ ایک دم سے اس کے دل میں وہ روشنی آ جاتی ہے جو پہلے اس میں نہ تھی۔ اچانک اس کے اندر وہ طاقت بھر جاتی ہے جس سے وہ اس وقت تک خالی تھا۔ وہ غار کی تنہائی سے نکل آتا ہے۔ اپنی قوم کے پاس آتا ہے۔ اس سے کہتا ہے کہ یہ بت جن کے آگے تم جھکتے ہو یہ سب بے حقیقت چیزیں ہیں، انہیں چھوڑ دو۔ کوئی انسان، کوئی درخت، کوئی پتھر، کوئی روح، کوئی سیارہ اس قابل نہیں کہ تم اس کے آگے سر جھکاؤ۔ اس کی بندگی و عبادت کرو اور اس کی فرمانبرداری و اطاعت کرو۔ یہ زمین، یہ چاند، یہ سورج، یہ ستارے، یہ زمین اور آسمان کی ساری چیزیں ایک خدا کی مخلوق ہیں۔ وہی تمہارا اور ان سب کا پیدا کرنے والا ہے۔ اسی کی بندگی کرو، اسی کا حکم مانو اور اسی کے آگے سر جھکاؤ۔ یہ چوری، یہ لوٹ مار یہ قتل و غارت، یہ ظلم و ستم، یہ بد کاریاں جو تم کرتے ہو، سب گناہ ہیں۔ انہیں چھوڑ دو۔ خدا انہیں پسند نہیں کرتا۔ سچ بولو، انصاف کرو، نہ کسی کی جان لو، نہ کسی کا مال چھینو۔ جو کچھ لو حق کے ساتھ لو، جو کچھ دو حق کے ساتھ دو۔ تم سب انسان ہو۔ انسان اور انسان سب برابر ہیں۔ نہ کوئی ذلت کا داغ لے کر پیدا ہو ا اور نہ کوئی عزت کا تمغہ لے کر دنیا میں آیا۔ بزرگی اور شرف، نسل اور نسب میں نہیں، صرف خدا پرستی اور نیکی اور پاکیزگی میں ہے۔ جو خدا سے ڈرتا ہے اور نیک اور پاک ہے، وہی اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور جو ایسا نہیں وہ کچھ نہیں۔ مرنے کے بعد تم سب کو اپنے خدا کے پاس حاضر ہونا ہے۔ تم میں سے ہر ہر شخص اپنے اعمال کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے، اس خدا کے سامنے جو سب کچھ دیکھتا جانتا ہے۔ تم کوئی چیز اس سے نہیں چھپا سکتے۔ تمہاری زندگی کا کارنامہ اس کے سامنے بے کم و کاست پیش ہو گا اور اسی کارنامے کے لحاظ سے وہ تمہارے انجام کا فیصلہ کرے گا۔ اُس عادل حقیقی کے ہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی، نہ رشوت چلے گی، نہ کسی کا نسب پوچھا جائے گا۔ وہاں صرف ایمان اور نیک عمل کی پوچھ ہو گی۔ جس کے پاس یہ سامان ہو گا۔ وہ جنت میں جائے گا اور جس کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہ ہو گا وہ نامراد دوزخ میں ڈالا جائے گا۔
یہ تھا وہ پیغام جسے لے کر وہ غار سے نکلا۔
جاہل قوم اس کی دشمن ہو جاتی ہے۔ گالیاں دیتی ہے۔ پتھر مارتی ہے۔ ایک دن دو دن نہیں اکٹھے تیرہ برس تک اس پر سخت سے سخت ظلم توڑتی ہے۔ یہاں تک کہ اسے وطن سے نکال باہر کرتی ہے اور پھر نکالنے پر بھی دم نہیں لیتی، جہاں وہ جا کر پناہ لیتا ہے وہاں بھی اُسے ہر طرح ستاتی ہے۔ تمام عرب کو اس کے خلاف اُبھار دیتی ہے اور کامل آٹھ برس اس کے خلاف برسر پیکار رہتی ہے۔ وہ ان سب تکلیفوں کو سہتا ہے مگر اپنی بات سے نہیں ٹلتا۔
یہ قوم اس کی دشمن کیوں ہوئی، کیا زر اور زمین کا کوئی جھگڑا تھا ؟ کیا خون کا کوئی دعویٰ تھا؟ کیا وہ ان سے دنیا کی کوئی چیز مانگ رہا تھا؟ نہیں، ساری دشمنی صرف اسی بات پر تھی کہ وہ ایک خدا کی بندگی اور پرہیز گاری اور نیکو کاری کی تعلیم کیوں دیتا ہے، بت پرستی اور شرک اور بد عملی کے خلاف تبلیغ کیوں کرتا ہے، پجاریوں اور پروہتوں کی پیشوائی پر کیوں ضرب لگاتا ہے۔ سرداروں کی سرداری کا طلسم کیوں توڑتا ہے، انسان اور انسان کے درمیان سے اونچ نیچ کا فرق کیوں مٹانا چاہتا ہے، قبائلی اور نسلی تعصبات کو جاہلیت کیوں قرار دیتا ہے، زمانہ قدیم سے سوسائٹی کا جو نظام بندھا چلا آ رہا ہے اُسے کیوں توڑنا چاہتا ہے۔ قوم کہتی تھی کہ یہ باتیں جو تو کہہ رہا ہے۔ یہ سب خاندانی روایات اور قومی طریقہ کے خلاف ہیں۔ تو ان کو چھوڑ دے ورنہ ہم تیرا جینا مشکل کر دیں گے۔
اچھا تو اس شخص نے یہ تکلیفیں کیوں اٹھائیں ؟ قوم اس کو بادشاہی دینے پر آمادہ تھی، دولت کے ڈھیر اس کے قدموں میں ڈالنے کو تیار تھی بشرطیکہ وہ اپنی اس تعلیم سے باز آ جائے۔ مگر اس نے ان سب کو ٹھکرا دیا اور اپنی تعلیم کی خاطر پتھر کھانا اور ظلم سہنا قبول کیا۔ یہ آخر کیوں ؟ کیا ان کے خدا پرست اور نیکوکار بن جانے میں اس کا کوئی ذاتی فائدہ تھا ؟ کیا کوئی ایسا فائدہ تھا جس میں ریاست اور امارت اور دولت اور عیش کے سارے لالچ بھی ناقابل التفات تھے؟ کیا کوئی ایسا فائدہ تھا جس کی خاطر ایک شخص سخت سے سخت جسمانی اور روحانی اذیتوں میں مبتلا ہونا اور کامل ۲۱ سال مبتلا رہنا بھی گوارا کر سکتا ہو؟ غور کرو! کیا نیک نفسی، ایثار اور ہمدردی بنی نوع کا اس سے بھی بلند تر کوئی مرتبہ تمہارے تصور میں آ سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی فائدہ کی خاطر نہیں، دوسروں کے بھلے کی خاطر تکلیفیں اٹھائے؟ جن کی بھلائی اور بہتر ی کے لیے وہ کوشش کرتا ہے وہی اس کو پتھر ماریں، گالیاں دیں، گھر سے بے گھر کر دیں، غریب الوطنی میں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑیں، اور ان سب باتوں پر بھی وہ ان کا بھلا چاہنے سے باز نہ آئے۔
پھر دیکھو! کیا کوئی جھوٹا شخص کسی بے اصل بات کے پیچھے ایسی مصیبتیں برداشت کر سکتا ہے؟ کیا کوئی تیر تکے لڑانے والا انسان محض گمان اور قیاس سے کوئی بات کہہ کر اس پر اتنا جم سکتا ہے کہ مصیبتوں کے پہاڑ اس پر ٹوٹ جائیں، زمین اس پر تنگ کر دی جائے، تمام ملک اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہو، بڑی بڑی فوجیں اس پر امنڈ امنڈ کر آئیں مگر وہ اپنی بات سے یک سر مو ہٹنے پر آمادہ نہ ہو ؟ یہ استقامت، یہ عزم، یہ ثبات، خود گواہی دے رہا ہے کہ اس کو اپنی صداقت پر یقین اور کامل یقین تھا۔ اگر اس کے دل میں شک اور شبہ کا ادنی شائبہ بھی ہوتا تو وہ مسلسل ۲۱ سال تک مصائب کے ان پے در پے طوفانوں کے مقابلہ میں کبھی نہ ٹھہر سکتا۔
یہ تو اس شخص کے انقلاب حال کا ایک پہلو تھا۔ دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے۔
چالیس برس کی عمر تک وہ ایک عرب تھا، عام عربوں کی طرح۔ اس دوران میں کسی نے اس سوداگر کو ایک خطیب، ایک جادو بیان مقرر کی حیثیت سے نہ جانا، کسی نے اس کو حکمت اور دانائی کی باتیں کرتے نہ سنا، کسی نے اس کو الٰہیات اور فلسفہ اخلاق اور قانون اور سیاسیات، اور معاشیات اور عمرانیات کے مسائل پر بحث کرتے نہ دیکھا۔ کسی نے اس سے خدا اور ملائکہ اور آسمانی کتابوں اور پچھلے انبیاء اور امم انبیاء اور قیامت اور حیات بعد الموت اور دوزخ جنت کے متعلق ایک لفظ بھی نہ سنا۔ وہ پاکیزہ اخلاق، شائستہ اور بہترین سیرت تو ضرور رکھتا تھا مگر چالیس برس کی عمر کو پہنچنے تک اس کی ذات میں کوئی بھی غیر معمولی بات نہ پائی گئی، جس سے لوگ متوقع ہوتے کہ یہ شخص اب کچھ بننے والا ہے۔ اس وقت تک جاننے والے اس کو محض ایک خاموش، امن پسند اور نہایت شریف انسان کی حیثیت سے جانتے تھے۔ چالیس برس کے بعد جب وہ اپنے غار سے ایک نیا پیغام لے کر نکلا تو یک لخت اس کی کایا ہی پلٹی ہوئی تھی۔
اب وہ ایک حیرت انگیز کلام سنا رہا تھا جس کو سن کر سارا عرب مبہوت ہو گیا۔ اس کلام کی شدت تاثیر کا یہ حال تھا کہ اس کے کٹر دشمن بھی اس کو سنتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں یہ دل میں اتر نہ جائے۔ اس کی فصاحت و بلاغت اور زور بیان کا یہ عالم تھا کہ تمام قوم عرب کو جس میں بڑے بڑے شاعر، خطیب اور زبان آوری کے مدعی موجود تھے، اس نے چیلنج دیا اور بار بار چیلنج دیا کہ تم سب مل کر ایک ہی سورۃ اس کے مانند بنا لاؤ مگر کوئی اس کے مقابلہ کی جرات نہ کر سکا۔ ایسا بے مثل کلام کبھی عرب کے کانوں نے سنا ہی نہ تھا۔
اب یکایک وہ ایک بے مثل حکیم، ایک لاجواب مصلح اخلاق و تمدن ایک حیرت انگیز ماہر سیاست، ایک زبردست مقنن، ایک اعلیٰ درجہ کا جج، ایک بے نظیر سپہ سالار بن کر ظاہر ہوا۔ اس ان پڑھ صحرا نشین نے حکمت اور دانائی کی وہ باتیں کہنی شروع کر دیں جو نہ اس سے پہلے کسی نے کہی تھیں، نہ اس کے بعد کوئی کہہ سکا۔ وہ امی الہیات کے عظیم الشان مسائل پر فیصلہ کن تقریریں کرنے لگا۔ تاریخ اقوام سے عروج و زوال امم کے فلسفہ پر لکچر دینے لگا۔ پرانے مصلحین کے کارناموں پر تبصرے اور مذاہب عالم پر تنقید اور اختلافات اقوام کے فیصلے کرنے لگا۔ اخلاق اور تہذیب اور شائستگی کا درس دینے لگا۔
اس نے معاشرت اور معیشت اور اجتماعی معاملات اور بین الاقوامی تعلقات کے متعلق قوانین بنانے شروع کر دیئے اور ایسے قوانین بنائے کہ بڑے بڑے علماء اور عقلاء غور و خوض اور عمر بھر کے تجربات کے بعد بمشکل ان کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں اور دنیا کے تجربات جتنے بڑھتے جاتے ہیں، ان کی حکمتیں اور زیادہ کھلتی جاتی ہیں۔
وہ خاموش پر امن سوداگر جس نے تمام عمر کبھی تلوار نہ چلائی تھی، کبھی کوئی فوجی تربیت نہ پائی تھی، حتیٰ کہ جو عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ ایک لڑائی میں محض ایک تماشائی کی حیثیت سے شریک ہوا تھا، دیکھتے دیکھتے وہ ایک ایسا بہادر سپاہی بن گیا جس کا قدم سخت سے سخت معرکوں میں بھی اپنے مقام سے ایک انچ نہ ہٹا۔ ایسا زبردست جنرل بن گیا جس نے ۹ سال کے اندر تمام ملک عرب کو فتح کر لیا۔ ایسا حیرت انگیز ملٹری لیڈر بن گیا کہ اس کی پیدا کی ہوئی فوجی تنظیم اور جنگی روح کے اثر سے بے سروسامان عربوں نے چند سالوں میں دنیا کی دو عظیم الشان فوجی طاقتوں کو الٹ کر رکھ دیا۔
وہ الگ تھلگ رہنے والا سکون پسند انسان، جس کے اندر کسی نے چالیس برس تک سیاسی دلچسپی کی بو بھی نہ پائی تھی، یکایک اتنا زبردست ریفارمر اور مدبر بن کر ظاہر ہوا کہ ۲۳ سال کے اندر اس نے ۱۲ لاکھ مربع میل میں پھیلے ہوئے ریگستان کے منتشر، جنگجو، جاہل، سرکش، غیر متمدن اور ہمیشہ آپس میں لڑنے والے قبائل کو، ریل اور تار اور ریڈیو اور پریس کی مدد کے بغیر ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک قانون اور ایک نظام حکومت کا تابع بنا دیا۔ اس نے ان کے خیالات بدل دیئے۔ ان کے خصائل بدل دیئے۔ ان کے اخلاق بدل دیئے۔ ان کی ناشائستگی کو اعلیٰ درجہ کی شائستگی میں، ان کی وحشت کو بہترین مدنیت میں، ان کی بدکرداری اور بد اخلاقی کو صلاح و تقویٰ اور مکارم اخلاق میں، ان کی سرکشی اور انار کی کو انتہا درجہ کی پابندی قانون اور اطاعت امر میں تبدیل کر دیا۔ اس بانجھ قوم کو، جس کی گود میں صدیوں سے کوئی ایک بھی قابل ذکر انسان پیدا نہ ہوا تھا، اس نے ایسا مردم خیز بنایا کہ اس میں ہزار در ہزار عاظمِ رجال اٹھ کھڑے ہوئے اور دنیا کو دین، اور اخلاق اور تہذیب کا درس دینے کا لیے چار دانگ عالم میں پھیل گئے۔
اور یہ کام اس نے ظلم اور جبر، دغا اور فریب سے انجام نہیں دیا بلکہ دل موہ لینے والے اخلاق اور روحوں کو مسخر کر لینے والی شرافت اور دماغوں پر قبضہ کر لینے والی تعلیم سے انجام دیا۔ اس نے اپنے اخلاق سے دشمنوں کو دوست بنایا۔ رحم اور شفقت سے دلوں کو موم کیا۔ عدل اور انصاف سے حکومت کی۔ حق اور صداقت سے کبھی یک سرموانحراف نہ کیا۔ جنگ میں بھی کسی سے بدعہدی اور دغا نہ کی۔ اپنے بدترین دشمنوں پر بھی ظلم نہ کیا جو اس کے خون کے پیاسے تھے جنہوں نے اس کو پتھر مارے تھے، اس کو وطن سے نکالا تھا، اس کے خلاف تمام عرب کو کھڑا کر دیا تھا، حتیٰ کہ جنہوں نے جوش عداوت میں اس کے چچا کا کلیجہ تک نکال کر چبا ڈالا تھا، ان کو بھی اس نے فتح پا کر بخش دیا۔ اپنی ذات کے لیے کبھی اس نے کسی سے بدلہ نہ لیا۔
ان سب باتوں کے ساتھ اس کے ضبط نفس بلکہ بے نفسی کا یہ عالم تھا کہ جب وہ تمام ملک کا بادشاہ ہو گیا اس وقت بھی وہ جیسا فقیر پہلے تھا ویسا ہی فقیر رہا۔ پھونس کے چھپر میں رہتا تھا۔ بوریے پر سوتا تھا۔ موٹا جھوٹا پہنتا تھا۔ غریبوں کی سی غذا کھاتا تھا۔ غریبوں اور مصیبت زدوں کی خدمت کرتا تھا۔ ایک مزدور کی طرح کام کرنے میں بھی اسے تامل نہ تھا۔ آخر وقت تک اس کے اندر شاہانہ تمکنت اور امیرانہ ترفُّع اور بڑے آدمیوں کے سے تکبر کی ذرا سی بو بھی پیدا نہ ہوئی۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح لوگوں سے ملتا تھا۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہوتا تھا۔ عوام کے درمیان اس طرح بیٹھتا تھا کہ اجنبی آدمی کو یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا تھا کہ اس محفل میں قوم کا سردار اور ملک کا بادشاہ کون ہے۔ اتنا بڑا آدمی ہونے کے باوجود چھوٹے چھوٹے آدمی کے ساتھ بھی ایسا برتاؤ کرتا تھا کہ گویا وہ اسی جیسا ایک انسان ہے۔ تمام عمر کی جدوجہد میں اس نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑا۔ اپنا پورا تر کہ اپنی قوم پر وقف کر دیا۔ اپنے پیروؤں پر اُس نے اپنے یا اپنی اولاد کے کچھ بھی حقوق قائم نہ کیے۔ حتیٰ کہ اپنی اولاد کو زکوٰۃ لینے کے حق سے بھی محروم کر دیا محض اس خوف سے کہ کہیں آگے چل کر اس کے پیرو اس کی اولاد ہی کو ساری زکوٰۃ نہ دینے لگ جائیں۔
ابھی اس عظیم الشان آدمی کے کمالات کی فہرست ختم نہیں ہوئی۔ اس کے مرتبہ کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے آپ کو تاریخ عالم میں بحیثیت مجموعی ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ آپ دیکھیں گے کہ صحرائے عرب کا یہ ان پڑھ بادیہ نشین، جو چودہ سو برس پہلے اس تاریک دور میں پیدا ہوا تھا، دراصل دور جدید کا بانی اور تمام دنیا کا لیڈر ہے۔ وہ نہ صرف ان کا لیڈر ہے جو اسے لیڈر مانتے ہیں، بلکہ ان کا بھی لیڈر ہے جو اسے نہیں مانتے۔ ان کو اس امر کا احساس تک نہیں کہ جس کے خلاف وہ زبان کھولتے ہیں اس کی رہنمائی کس طرح ان کے خیالات میں، ان کے اصول حیات اور قوانین عمل میں، اور ان کے عصر جدید کی روح میں پیوست ہو گئی ہے۔
یہی شخص ہے جس نے دنیا کے تصورات کا رخ و اہمیت اور عجائب پرستی اور رہبانیت کی طرف سے ہٹا کر عقلیت اور حقیقت پسندی اور متقیانہ دنیاداری کی طرف پھیر دیا۔ اسی نے محسوس معجزے مانگنے والی دنیا میں عقلی معجزوں کو سمجھنے اور انہی کو معیار صداقت ماننے کا مذاق پیدا کیا۔ اسی نے خرق عادات میں خدا کی خدائی کے آثار ڈھونڈنے والوں کی آنکھیں کھولیں اور انہیں آثار فطرت) (Natural Phenomena میں خدا کی نشانیاں دیکھنے کا خوگر بنایا۔ اسی نے خیالی گھوڑے دوڑانے والوں کو قیاس آرائی) (Speculation سے ہٹا کر تعقل اور تفکر اور مشاہدہ اور تحقیق کے راستے پر لگایا۔ اسی نے عقل اور حس اور وجدان کے امتیازی حدود انسان کو بتائے- مادیت اور روحانیت میں مناسبت پیدا کی۔ دین سے علم و عمل کا ربط قائم کیا۔ مذہب کی طاقت سے دنیا میں سائنٹفک اسپرٹ سے صحیح مذہبیت پیدا کی۔ اسی نے شرک اور مخلوق پرستی کی بنیادوں کو اکھاڑا اور علم کی طاقت سے توحید کا اعتقاد ایسی مضبوطی کے ساتھ قائم کیا کہ مشرکوں اور بت پرستوں کے مذہب بھی وحدانیت کا رنگ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اسی نے اخلاق اور روحانیت کے بنیادی تصورات کو بدلا۔ جو لوگ ترک دنیا اور نفس کشی کو عین اخلاق سمجھتے تھے، جن کے نزدیک نفس و جسم کے حقوق ادا کرنے اور دنیوی زندگی کے معاملات میں حصہ لینے کے ساتھ روحانی ترقی اور نجات ممکن ہی نہ تھی، ان کو اسی نے تمدن اور سماجی اور دنیوی عمل کے اندر فضیلت اخلاق اور ارتقائے روحانی اور حصول نجات کا راستہ دکھایا۔ پھر وہی ہے جس نے انسان کو اس کی حقیقی قدر و قیمت سے آگاہ کیا۔ جو لوگ بھگوان اور اوتار اور ابن اللہ کے سوا کسی کو ہادی و رہنما تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے، ان کو اسی نے بتایا کہ انسان اور تمہارے جیسا انسان آسمانی بادشاہت کا نمائندہ اور خداوند عالم کا خلیفہ ہو سکتا ہے۔ جو لوگ ہر طاقت ور انسان کو اپنا خدا بناتے تھے ان کو اسی نے سمجھایا کہ انسان بجز انسان کے اور کچھ نہیں، نہ کوئی شخص تقدس اور حکمرانی اور آقائی کا پیدائشی حق لے کر آیا ہے اور نہ کسی پر نا پاکی اور محکومیت اور غلامی کا پیدائشی داغ لگا ہوا ہے۔ اسی تعلیم نے دنیا میں وحدت انسانی اور مساوات اور جمہوریت اور آزادی کے تخیلات پیدا کیے ہیں۔
تصورات سے آگے بڑھیے۔ آپ کو اس اُمّی کی لیڈر شپ کے عملی نتائج دنیا کے قوانین اور طریقوں اور معاملات میں اس کثرت سے نظر آئیں گے کہ ان کا شمار مشکل ہو جائے گا۔ اخلاق اور تہذیب، شائستگی اور طہارت و نظافت کے کتنے ہی اصول ہیں جو اس کی تعلیم سے نکل کر تمام دنیا میں پھیل گئے ہیں۔ معاشرت کے جو قوانین اس نے بنائے تھے۔ دنیا نے کس قدر ان کی خوشہ چینی کی اور اب تک کیے جا رہی ہے۔ معاشیات کے جو اصول اس نے سِکھائے تھے ان سے دنیا میں کتنی تحریکیں پیدا ہوئیں اور اب تک پیدا ہوئے جا رہی ہیں۔ حکومت کے جو طریقے اس نے اختیار کیے تھے ان سے دنیا کے سیاسی نظریات میں کتنے انقلاب برپا ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ عدل اور قانون کے جو اصول اس نے وضع کیے تھے انہوں نے دنیا کے عدالتی نظامات اور قانونی افکار کو کس قدر متاثر کیا اور اب تک ان کی تاثیر خاموشی کے ساتھ جاری ہے۔ جنگ اور صلح اور بین الاقوامی تعلقات کی تہذیب جس شخص نے عملاً دنیا میں قائم کی وہ دراصل یہی عرب کا اُمّی ہے۔ ورنہ پہلے دنیا اس سے ناواقف تھی کہ جنگ کی بھی کوئی تہذیب ہو سکتی ہے اور مختلف قوموں میں مشترک انسانیت کی بنیاد پر بھی معاملات ہونے ممکن ہیں۔
انسانی تاریخ کے منظر میں اس حیرت انگیز انسان کی بلند و بالا شخصیت اتنی ابھری ہوئی نظر آتی ہے کہ ابتدا سے لے کر اب تک کے بڑے بڑے تاریخی انسان جن کو دنیا اکابر (Heroes ) میں شمار کرتی ہے، جب اس کے مقابلہ میں لائے جاتے ہیں تو اس کے آگے بونے نظر آتے ہیں۔ دنیا کے اکابر میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے کمال کی چمک دمک انسانی زندگی کے ایک دو شعبوں سے آگے بڑھ سکی ہو۔ کوئی نظریات کا بادشاہ ہے مگر عملی قوت نہیں رکھتا۔ کوئی عمل کا پتلا ہے مگر فکر میں کمزور ہے۔ کسی کے کمالات سیاسی تدبیر تک محدود ہیں۔ کوئی محض فوجی ذہانت کا مظہر ہے۔ کسی کی نظر اجتماعی زندگی کے ایک پہلو پر اتنی زیادہ گہری ہے کہ دوسرے پہلو اوجھل ہو گئے ہیں۔ کسی نے اخلاق اور روحانیت کو لیا تو معیشت و سیاست کو بھلا دیا کسی نے معیشت و سیاست کو لیا تو اخلاق و روحانیت کو نظر انداز کر دیا۔ غرض تاریخ میں ہر طرف یک رخے ہیرو ہی نظر آتے ہیں مگر تنہا یہی ایک شخصیت ایسی ہے جس میں تمام کمالات جمع ہیں وہ خود ہی فلسفی اور حکیم بھی ہے اور خود ہی اپنے فلسفہ کو عملی زندگی میں نافذ کرنے والا بھی۔ وہ سیاسی مدبر بھی ہے، واضع قانون بھی ہے، معلم اخلا ق بھی ہے، مذہبی اور روحانی پیشوا بھی ہے۔ اس کی نظر انسان کی پوری زندگی پر پھیلتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات تک جاتی ہے۔ کھانے اور پینے کے آداب اور جسم کی صفائی کے طریقوں سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک ایک ایک چیز کے متعلق وہ احکام اور ہدایات دیتا ہے، اپنے نظریات کے مطابق ایک مستقبل تہذیب (Civilisation ) وجود میں لا کر دکھا دیتا ہے، اور زندگی کے تمام مختلف پہلوؤں میں ایسا صحیح توازن قائم کرتا ہے کہ افراط و تفریط کا کہیں نشان تک نظر نہیں آتا۔ کیا کوئی دوسرا شخص اس جامعیت کا تمہاری نظر میں ہے؟
دنیا کی بڑی بڑی تاریخی شخصیتوں میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جو کم و بیش اپنے ماحول کی پیدا کردہ نہ ہو۔ مگر اس شخص کی شان سب سے نرالی ہے۔ اس کے بنانے میں اس کے ماحول کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا اور نہ کسی دلیل سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ عرب کا ماحول اس وقت تاریخی طور پر ایسے ایک انسان کی پیدائش کا مقتضی تھا۔ بہت کھینچ تان کر تم جو کچھ کہہ سکتے ہو وہ اس سے زیادہ کچھ نہ ہو گا کہ تاریخی اسباب عرب میں ایک ایسے لیڈر کے ظہور کا تقاضا کرتے تھے جو قبائلی انتشار کو مٹا کر ایک قوم بناتا، اور ممالک کو فتح کر کے عربوں کی معاشی فلاح و بہبود کا سامان کرتا۔ ۔ ۔ یعنی ایک نیشنلسٹ لیڈر جو اس وقت کی تمام عربی خصوصیات کا حامل ہوتا۔ ظلم، بے رحمی، خون ریزی اور مکر و دغا، غرض ہر ممکن تدبیر سے اپنی قوم کو خوش حال بناتا اور ایک سلطنت پیدا کر کے اپنے پس ماندوں کے لیے چھوڑ جاتا۔ اس کے سوا اس وقت کی عربی تاریخ کا کوئی تقاضا تم ثابت نہیں کر سکتے۔ ہیگل کے فلسفہ تاریخ یا مارکس کی مادی تعبیر تاریخ کے نقطۂ نظر سے تم حد سے حد یہی حکم لگا سکتے ہو کہ اس وقت اس ماحول میں ایک قوم اور ایک سلطنت بنانے والا ظاہر ہونا چاہیے تھا، یا ظاہر ہو سکتا تھا مگر ہیگلی یا مارکسی فلسفہ اس واقعہ کی توجیہہ کیونکر کرے گا کہ اس وقت اس ماحول میں ایسا شخص پیدا ہوا جو بہترین اخلاق سکھانے والا، انسانیت کو سنوارنے اور نفوس کا تزکیہ کرنے والا، اور جاہلیت کے اوہام و تعصبات کو مٹانے والا تھا جس کی نظر قوم اور نسل اور ملک کی حدیں توڑ کر پوری انسانیت پر پھیل گئی۔ جس نے اپنی قوم کے لیے نہیں بلکہ عالم انسانی کے لیے ایک اخلاقی و روحانی اور تمدنی و سیاسی نظام کی بنا ڈالی۔ جس نے معاشی معاملات اور سیاست مدن اور بین الاقوامی تعلقات کو عالم خیال میں نہیں بلکہ عالم واقعہ میں اخلاقی بنیادوں پر قائم کر کے دکھایا اور روحانیت و مادیت کی ایسی معتدل اور متوازن آمیزش کی جو آج بھی حکمت و دانائی کا ویسا ہی شاہکار ہے جیسا اس وقت تھا۔ کیا ایسے شخص کو تم عرب جاہلیت کے ماحول کی پیداوار کہہ سکتے ہو۔
یہی نہیں کہ وہ شخص اپنے ماحول کی پیداوار نظر نہیں آتا۔ بلکہ جب ہم اس کے کارنامے پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہے۔ اس کی نظر وقت اور حالات کی بندشوں کو توڑتی ہوئی صدیوں اور ہزاروں (Millennium)کے پردوں کو چاک کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ وہ انسان کو ہر زمانے اور ماحول میں دیکھتا ہے اور اس کی زندگی کے لیے ایسی اخلاقی اور عملی ہدایات دیتا ہے جو ہر حال میں یکساں مناسبت کے ساتھ ٹھیک بیٹھتی ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہے جن کو تاریخ نے پرانا کر دیا ہے، جن کی تعریف ہم صرف اس حیثیت سے کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے زمانے کے اچھے رہنما تھے۔ سب سے الگ اور سب سے ممتاز وہ انسانیت کا ایسا رہنما ہے جو تاریخ کے ساتھ حرکت (March) کرتا ہے اور ہر دور میں ویسا ہی جدید (Modern) نظر آتا ہے جیسا اس سے پہلے دور کے لیے تھا۔ تم جن لوگوں کو فیاضی کے ساتھ ’’تاریخ بنانے والے‘‘ (Makers of History) کا لقب دیتے ہو وہ حقیقت میں تاریخ کے بنائے ہوئے (Creatures of History) ہیں۔ دراصل تاریخ بنانے والا پوری انسانی تاریخ میں یہی ایک شخص ہے۔ دنیا کے جتنے لیڈروں نے تاریخ میں انقلاب برپا کیے ہیں ان کے حالات پر تحقیقی نگاہ ڈالو۔ تم دیکھو گے کہ ہر ایسے موقع پر پہلے سے انقلاب کے اسباب پیدا ہو رہے تھے، وہ اسباب خود ہی اس انقلاب کا رخ اور راستہ بھی معین کر رہے تھے جس کے برپا ہونے کے وہ مقتضی تھے۔ انقلابی لیڈر نے صرف اتنا کیا کہ حالات کے اقتضاء کو قوت سے فعل میں لانے کے لیے اس ایکٹر کا پارٹ ادا کر دیا جس کے لیے اسٹیج اور کام دونوں پہلے سے معین ہوں۔ مگر تاریخ بنانے والوں یا انقلاب برپا کرنے والوں کی پوری جماعت میں یہ اکیلا شخص ہے کہ جہاں انقلاب کا مواد موجود نہ تھا وہاں اس نے خود مواد تیار کیا۔ جہاں اس انقلاب کی اسپرٹ اور عملی استعداد لوگوں میں نہ پائی جاتی تھی وہاں اس نے خود اپنے مطلب کے آدمی تیار کیے، اپنی زبردست شخصیت کو پگھلا کر ہزارہا انسانوں کے قالب میں اتار دیا اور ان کو ویسا بنایا جیسا وہ بنانا چاہتا تھا۔ اس کی طاقت اور قوت ارادی نے خود ہی انقلاب کا سامان کیا۔ خود ہی اس کی صورت اور نوعیت معین کی، اور خود ہی اپنے ارادے کے زور سے حالات کی رفتار کو موڑ کر اس راستے پر چلایا جس پر وہ اسے چلانا چاہتا تھا۔ اس شان کا تاریخ ساز اور مرتبے کا انقلاب انگیز تم کو اور کہاں نظر آتا ہے؟
آیئے اب اس سوال پر غور کیجیے کہ ۱۴ سو برس پہلے کی تاریک دنیا میں، عرب جیسے تاریک تر ملک کے ایک گوشہ میں، ایک گلہ بانی اور سوداگری کرنے والے ان پڑھ بادیہ نشین کے اندر یکایک اتنا علم، اتنی روشنی، اتنی طاقت، اتنے کمالات، اتنی زبردست تربیت یافتہ قوتیں پیدا ہو جانے کا کون سا ذریعہ تھا ؟ آپ کہتے ہیں کہ سب اس کے اپنے دل و دماغ کی پیداوار تھی۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہ اسی کے دل و دماغ کی پیدا وار تھی تو اس کو خدائی کا دعویٰ کرنا چاہیے تھا اور اگر وہ ایسا دعویٰ کرتا تو وہ دنیا جس نے رام کو خدا بنا ڈالا۔ جس نے کرشن کو بھگوان قرار دینے میں تامل نہ کیا، جس نے بودھ کو خود بخود معبود بنا لیا، جس نے مسیحؑ کو آپ اپنی مرضی سے ابن اللہ مان لیا، جس نے آگ اور پانی اور ہوا تک کو پُوج ڈالا، وہ ایسے زبردست با کمال شخص کو خدا مان لینے سے کبھی انکار نہ کرتی۔ مگر دیکھو، وہ خود کیا کہہ رہا ہے۔ وہ اپنے کمالات میں سے ایک کا کریڈٹ بھی خود نہیں لیتا۔ کہتا ہے کہ میں ایک انسان ہوں تمہیں جیسا انسان۔ میرے پاس کچھ بھی اپنا نہیں۔ سب کچھ خدا کا ہے اور خدا ہی کی طرف سے ہے۔ یہ کلام جس کی نظیر لانے سے تمام نوع انسانی عاجز ہے، میرا کلام نہیں ہے۔ میرے دماغ کی قابلیت کا نتیجہ نہیں ہے، لفظ بلفظ خدا کی طرف سے میرے پاس آیا ہے اور اس کی تعریف خدا ہی کے لیے ہے۔ یہ کارنامے جو میں نے دکھائے، یہ قوانین جو میں نے وضع کیے، یہ اصول جو میں نے تمہیں سکھائے، ان میں سے کوئی چیز بھی میں نے خود نہیں گھڑی ہے۔ میں کچھ بھی اپنی ذاتی قابلیت سے پیش کرنے پر قادر نہیں ہوں۔ ہر ہر چیز میں خدا کی رہنمائی کا محتاج ہوں۔ اُدھر سے جو اشارہ ہوتا ہے، وہی کرتا ہوں اور وہی کہتا ہوں۔
دیکھو یہ کیسی حیرت انگیز صداقت ہے۔ کیسی امانت اور راست بازی ہے۔ جھوٹا انسان تو بڑا بننے کے لیے دوسروں کے ایسے کمالات کا کریڈٹ بھی لے لینے میں تامّل نہیں کرتا جن کے اصل ماخذ کا پتہ بآسانی چل جاتا ہے لیکن یہ شخص ان کمالات کو بھی اپنی طرف منسوب نہیں کرتا، جن کو اگر وہ اپنے کمالات کہتا تو کوئی اس کو جھٹلا نہ سکتا تھا، کیونکہ کسی کے پاس ان کے اصلی ماخذ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں۔ سچائی کی اس سے زیادہ کھلی ہوئی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے؟ اس شخص سے زیادہ سچا اور کون ہو گا جس کو ایک نہایت مخفی ذریعہ سے ایسے بے نظیر کمالات حاصل ہوں، اور وہ بلا تکلف اپنے اصلی ماخذ کا حوالہ دے دے؟ بتاؤ کیا وجہ ہے کہ ہم اس کی تصدیق نہ کریں ؟
زندگی بعد موت
موت کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے یا نہیں ؟ اور ہے تو کیسی ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہمارے علم کی رسائی سے دور ہے۔ ہمارے پاس وہ آنکھیں نہیں جن سے ہم موت کی سرحد کے اس پار جھانک کر دیکھ سکیں کہ وہاں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہمارے پاس وہ کان نہیں جن سے ہم اُدھر کی کوئی آواز سن سکیں۔ ہم کوئی ایسا آلہ بھی نہیں رکھتے جس کے ذریعے سے تحقیق کے ساتھ معلوم کیا جا سکے کہ ادھر کچھ ہے یا کچھ نہیں ہے۔ لہذا جہاں تک سائنس کا تعلق ہے، یہ سوال اس کے دائرے سے قطعی خارج ہے۔ ۔ ۔ جو شخص سائنس کا نام لے کر کہتا ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے، وہ بالکل ایک غیر سائنٹفک بات کہتا ہے۔ سائنس کے رو سے نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی زندگی ہے اور نہ یہ کہ کوئی زندگی نہیں ہے۔ جب تک کہ ہم کوئی یقینی ذریعہ علم نہیں پاتے کم از کم اس وقت تک تو صحیح سائنٹفک رویہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہم زندگی بعد موت کا انکار کریں نہ اقرار۔
مگر کیا عملی زندگی میں ہم اس سائنٹفک رویے کو نباہ سکتے ہیں ؟ شاید نہیں، بلکہ یقیناً نہیں۔ عقلی حیثیت سے تو یہ ممکن ہے کہ جب ایک چیز کو جاننے کے ذرائع ہمارے پاس نہ ہوں تو اس کے متعلق ہم نفی اور اثبات دونوں سے پرہیز کریں، لیکن جب اسی چیز کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہو تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یا تو انکار پر اپنا طرز عمل قائم کریں یا اقرار پر۔ مثلاً ایک شخص ہے جس سے آپ واقف نہیں ہیں۔ اگر اس کے ساتھ آپ کا کوئی معاملہ درپیش نہ ہو تو آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ اس کے ایمان دار ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حکم نہ لگائیں۔ لیکن جب آپ کو اس سے معاملہ کرنا ہو تو آپ مجبور ہیں کہ یا تو اسے ایمان دار سمجھ کر معاملہ کریں یا بے ایمان سمجھ کر۔ اپنے ذہن میں آپ ضرور یہ خیال کر سکتے ہیں کہ جب تک اس کا ایمان دار ہونا یا نہ ہونا ثابت نہ ہو جائے، اس وقت تک ہم شک کے ساتھ معاملہ کریں گے۔ مگر اس کی ایمان داری کو مشکوک سمجھتے ہوئے جو معاملہ آپ کریں گے عملاً اس کی صورت وہی ہو گی جو اس کی ایمان داری کا انکار کرنے کی صورت میں ہو سکتی تھی۔ لہٰذا فی الواقع انکار اور اقرار کے درمیان شک کی حالت صرف ذہن ہی میں ہو سکتی ہے۔ عملی رویہ کبھی شک پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے تو اقرار یا انکار بہرحال ناگزیر ہے۔
یہ بات تھوڑے ہی غور و فکر سے آپ کی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک فلسفیانہ سوال نہیں ہے بلکہ ہماری عملی زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ دراصل ہمارے اخلاقی رویے کا سارا انحصار ہی اس سوال پر ہے۔ اگر میرا خیال یہ ہو کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے اور اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، تو میرا اخلاقی رویہ ایک طرح کا ہو گا، اور اگر میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے۔ جس میں مجھے اپنی موجودہ زندگی کا حساب دینا ہو گا، اور وہاں میرا اچھا یا برا انجام میرے یہاں کے اعمال پر منحصر ہو گا، تو یقیناً میرا اخلاقی طرز عمل بالکل ایک دوسری ہی طرح کا ہو گا۔ اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے ایک شخص یہ سمجھتے ہوئے سفر کر رہا ہے کہ اسے بس یہاں سے کراچی تک جانا ہے، اور کراچی پہنچ کر نہ صرف یہ کہ اس کا سفر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا، بلکہ وہ وہاں پولیس اور عدالت اور ہر اس طاقت کی دسترس سے باہر ہو گا جو اس سے کسی قسم کی باز پرس کر سکتی ہو اور اس کے برعکس ایک دوسرا شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہاں سے کراچی تک تو اس کے سفر کی صرف ایک ہی منزل ہے۔ اس کے بعد اُسے سمندر پار ایک ایسے ملک میں جانا ہو گا جہاں کا فرماں روا وہی ہے جو پاکستان کا فرماں روا ہے اور اس کے دفتر میں میرے اس پورے کارنامے کا خفیہ ریکارڈ موجود ہے جو میں نے پاکستان کے اس حصے میں انجام دیا ہے، اور وہاں میرے ریکارڈ کا جانچ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ میں اپنے کام کے لحاظ سے کس درجے کا مستحق ہوں۔ آپ بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان دونوں شخصوں کا طرز عمل کس قدر ایک دوسرے سے مختلف ہو گا۔ پہلا شخص یہاں سے کراچی تک کے سفر کی تیاری کرے گا۔ اور دوسرے کی تیاری بعد کی طویل منزلوں کے لیے بھی ہو گی۔ پہلا شخص یہ سمجھے گا کہ نفع یا نقصان جو کچھ بھی ہے کراچی پہنچنے تک ہے، آگے کچھ نہیں اور دوسرا یہ خیال کرے گا کہ اصل نفع و نقصان سفر کے پہلے مرحلے میں نہیں ہے، بلکہ آخری مرحلے میں ہے۔ پہلا شخص اپنے افعال کے صرف انہی نتائج پر نظر رکھے گا جو کراچی تک کے سفر میں نکل سکتے ہیں لیکن دوسرے شخص کی نگاہ ان نتائج پر ہو گی جو سمندر پار دوسرے ملک میں پہنچ کر نکلیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں شخصوں کے طرز عمل کا یہ فرق براہ راست نتیجہ ہے ان کی اس رائے کا جو وہ اپنے سفر کی نوعیت کے متعلق رکھتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہماری اخلاقی زندگی میں بھی وہ عقیدہ فیصلہ کن اثر رکھتا ہے جو ہم زندگی کے بعد موت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ عمل کے میدان میں جو قدم بھی ہم اٹھائیں گے، اس کی سمت کا تعین اس بات پر منحصر ہو گا کہ آیا ہم اسی زندگی کو پہلی اور آخری زندگی سمجھ کر کام کر رہے ہیں، یا کسی بعد کی زندگی اور اس کے نتائج کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ پہلی صورت میں ہمارا قدم ایک سمت اٹھے گا اور دوسری صورت میں اس کی سمت بالکل مختلف ہو گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک عقلی اور فلسفیانہ سوال نہیں ہے، بلکہ عملی زندگی کا سوال ہے اور جب بات یہ ہے تو ہمارے لیے اس معاملے میں شک اور تردد کے مقام پر ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں۔ شک کے ساتھ جو رویہ ہم زندگی میں اختیار کریں گے وہ بھی لامحالہ انکار ہی کے رویے جیسا ہو گا۔ لہٰذا ہم بہر حال اس امر کا تعین کرنے پر مجبور ہیں کہ آیا موت کے بعد کوئی اور زندگی ہے یا نہیں۔ اگر سائنس اس کے تعین میں ہماری مدد نہیں کرتا تو ہمیں عقلی استدلال سے مدد لینی چاہیے۔
اچھا تو عقلی استدلال کے لیے ہمارے پاس کیا موا د ہے؟
ہمارے سامنے ایک تو خود انسان ہے، اور دوسرے یہ نظام کائنات۔ ہم انسان کو اس نظام کائنات کے اندر رکھ کر دیکھیں گے کہ جو کچھ انسان میں ہے آیا اس کے سارے مقتضیات اس نظام میں پورے ہو جاتے ہیں، یا کوئی چیز بچی رہ جاتی ہے، جس کے لیے کسی دوسری نوعیت کے نظام کی ضرورت ہو۔
دیکھیے، انسان ایک تو جسم رکھتا ہے، جو بہت سے معدنیات، نمکیات، پانی اور گیسوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے جواب میں کائنات کے اندر بھی مٹی، پتھر، دھاتیں، نمک، گیسیں، دریا اور اس جنس کی دوسری چیزیں موجود ہیں۔ ان چیزوں کو کام کرنے کے لیے جتنے قوانین کی ضرورت ہے، وہ سب کائنات کے اندر کار فرما ہیں اور جس طرح وہ باہر کی فضا میں پہاڑوں، دریاؤں اور ہواؤں کو اپنے حصے کا کام پورا کرنے کا موقع دے رہے ہیں، اسی طرح انسانی جسم کو بھی ان قوانین کے تحت کام کرنے کا موقع حاصل ہے۔
پھر انسان ایک ایسا وجود ہے جو گرد و پیش کی چیزوں سے غذا لے کر بڑھتا اور نشوونما حاصل کرتا ہے۔ اسی جنس کے درخت، پودے اور گھاس پھونس کائنات میں بھی موجود ہیں، اور وہ قوانین بھی یہاں پائے جاتے ہیں جو نشوونما پانے والے اجسام کے لیے درکار ہیں۔
پھر انسان ایک زندہ وجود ہے جو اپنے ارادے سے حرکت کرتا ہے، اپنی غذا خود اپنی کوشش سے فراہم کرتا ہے، اپنے نفس کی آپ حفاظت کرتا ہے اور اپنی نوع کو باقی رکھنے کا انتظام کرتا ہے۔ کائنات میں اس جنس کی بھی دوسری بہت سی قسمیں موجود ہیں۔ خشکی، تری اور ہوا میں بے شمار حیوانات پائے جاتے ہیں اور وہ قوانین بھی بہ تمام و کمال یہاں کار فرما ہیں جو ان زندہ ہستیوں کے پورے دائرہ عمل پر حاوی ہونے کے لیے کافی ہیں۔
ان سب سے اوپر انسان ایک اور نوعیت کا وجود بھی رکھتا ہے جس کو ہم اخلاقی وجود کہتے ہیں۔ اس کے اندر نیکی اور بدی کرنے کا شعور ہے۔، نیک اور بد کی تمیز ہے، نیکی اور بدی کرنے کی قوت ہے اور اس کی فطرت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ نیکی کا اچھا اور بدی کا برا نتیجہ ظاہر ہو۔ وہ ظلم اور انصاف، سچائی اور جھوٹ، حق اور ناحق، رحم اور بے رحمی، احسان شناسی اور احسان فراموشی، فیاضی اور بخل، امانت اور خیانت اور ایسی ہی مختلف اخلاقی صفات کے درمیان فرق کرتا ہے۔ یہ صفات عملاً اس کی زندگی میں پائی جاتی ہیں اور یہ محض خیالی چیزیں نہیں ہیں بلکہ بالفعل ان کے اثرات انسانی تمدن پر مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا انسان جس فطرت پر پیدا ہوا ہے اس کا شدت کے ساتھ تقاضا یہ ہے کہ جس طرح اس کے افعال کے طبعی نتائج رونما ہوتے ہیں، اسی طرح اخلاقی نتائج بھی رونما ہوں۔
مگر نظامِ کائنات پر گہری نگاہ ڈال کر دیکھیے، کیا اس نظام میں انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح رونما ہو سکتے ہیں ؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہاں اس کا امکان نہیں ہے، اس لیے کہ یہاں کم از کم ہمارے علم کی حد تک کوئی دوسری ایسی مخلوق نہیں پائی جاتی جو اخلاقی وجود رکھتی ہو۔ سارا نظامِ کائنات طبعی قوانین کے ماتحت چل رہا ہے۔ اخلاقی قوانین اس میں کسی طرف کار فرما نظر نہیں آتے۔ ہاں روپئے میں وزن اور قیمت ہے، مگرسچائی میں نہ وزن ہے نہ قیمت۔ یہاں آم کی گٹھلی سے ہمیشہ آم پیدا ہوتا ہے، مگر حق پر ستی کا بیج بونے والے پر کبھی پھولوں کی بارش ہوتی ہے، اور کبھی بلکہ اکثر جوتیوں کی۔ یہاں مادی عناصر کے لیے مقرر قوانین ہیں جن کے مطابق ہمیشہ مقرر نتائج نکلتے ہیں۔ مگر اخلاقی عناصر کے لیے کوئی مقرر قانون نہیں ہے کہ ان کی فعلیت سے ہمیشہ مقرر نتیجہ نکل سکے۔ طبعی قوانین کی فرماں روائی کے سبب سے اخلاقی نتائج کبھی تو نکل ہی نہیں سکتے، کبھی نکلتے ہیں تو صرف اس حد تک جس کی اجازت طبعی قوانین دے دیں۔ اور بار ہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ اخلاق ایک فعل سے ایک نتیجہ نکلنے کا تقاضا کرتا ہے، مگر طبعی قوانین کی مداخلت سے نتیجہ بالکل برعکس نکل آتا ہے۔ انسان نے خود اپنے تمدنی و سیاسی نظام کے ذریعے سے تھوڑی سی کوشش اس امر کی کی ہے کہ انسانی اعمال کے نتائج ایک مقرر ضابطے کے مطابق برآمد ہو سکیں۔ مگر یہ کوشش بہت محدود پیمانے پر ہے، اور بے حد ناقص ہے۔ ایک طرف طبعی قوانین اس کو محدود اور ناقص بناتے ہیں، اور دوسری طرف انسان کی اپنی بہت سی کمزوریاں اس انتظام کے نقائص میں اور زیادہ اضافہ کر دیتی ہیں۔
میں اپنے مدعا کی توضیح چند مثالوں سے کروں گا۔ دیکھیے، ایک شخص اگر کسی دوسرے شخص کا دشمن ہو اور اس کے گھر میں آگ لگا دے تو اس کا گھر جل جائے گا۔ یہ اس کے فعل کا طبعی نتیجہ ہے۔ اس کا اخلاقی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اس شخص کو اتنی ہی سزا ملے جتنا اس نے ایک خاندان کو نقصان پہنچایا ہے مگر اس نتیجے کا ظاہر ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آگ لگانے والے کا سراغ ملے، وہ پولیس کے ہاتھ آ سکے، اس پر جرم ثابت ہو، عدالت پوری طرح اندازہ کر سکے کہ آگ لگنے سے اس خاندان کو اور اس کی آئندہ نسلوں کو ٹھیک ٹھیک کتنا نقصان پہنچا ہے اور پھر انصاف کے ساتھ اس مجرم کو اتنی ہی سزا دے۔ اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط بھی پوری نہ ہو تو اخلاقی نتیجہ یا تو بالکل ہی ظاہر نہ ہو گا یا اس کا صرف ایک تھوڑا سا حصہ ظاہر ہو کر رہ جائے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے حریف کو برباد کر کے وہ شخص دنیا میں مزے سے پھولتا پھلتا رہے۔
اس سے بڑے پیمانے پر ایک اور مثال لیجیے۔ چند اشخاص اپنی قوم میں اثر پید ا کر لیتے ہیں اور ساری قوم ان کے کہے پر چلنے لگتی ہے۔ اس پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر وہ لوگوں میں قوم پرستی کا اشتعال اور ملک گیری کا جذبہ پیدا کرتے ہیں، گرد و پیش کی قوموں سے جنگ چھیڑ دیتے ہیں، لکھو کھا آدمیوں کو ہلاک کرتے ہیں، ملک کے ملک تباہ کر ڈالتے ہیں اور کروڑوں انسانوں کو ذلیل اور پست زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ پر ان کی ان کارروائیوں کا ایسا زبردست اثر پڑتا ہے جس کا سلسلہ آئندہ سینکڑوں برس تک پشت درپشت اور نسل در نسل پھیلتا جائے گا کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ چند اشخاص جس جرم عظیم کے مرتکب ہوئے ہیں اس کی مناسب اور منصفانہ سزا ان کو کبھی اس دنیوی زندگی میں مل سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر ان کی بوٹیاں بھی نوچ لی جائیں، اگر ان کو زندہ جلا ڈالا جائے یا کوئی اور ایسی سزا دی جائے جو انسان کے بس میں ہے تب بھی کسی طرح وہ اس نقصان کے برابر سزا نہیں پا سکتے جو انہوں نے کروڑ ہا انسانوں کو اور ان کی آئندہ بے شمار نسلوں کو پہنچایا ہے۔ موجودہ نظام کائنات جن طبعی قوانین پر چل رہا ہے، اُن کے تحت کسی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے جرم کے برابر سزا پا سکیں۔
اسی طرح ان نیک انسانوں کو لیجیے جنہوں نے نوع انسانی کو حق اور راستی کی تعلیم دی اور ہدایت کی روشنی دکھائی جن کے فیض سے بے شمار انسانی نسلیں صدیوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور نہ معلوم آئندہ کتنی صدیوں تک اٹھاتی چلی جائیں گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کی خدمات کا پورا صلہ ان کو اس دنیا میں مل سکے؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ موجودہ طبعی قوانین کی حدود کے اندر ایک شخص اپنے اس عمل کا پورا صلہ حاصل کر سکتا ہے جس کا رد عمل اس کے مرنے کے بعد ہزاروں برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیل گیا ہو؟
جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں، اول تو موجودہ نظام کائنات جن قوانین پر چل رہا ہے۔ ان کے اندر اتنی گنجائش ہی نہیں ہے کہ انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح مرتب ہو سکیں۔ دوسرے یہاں چند سال کی زندگی میں انسان جو عمل بھی کرتا ہے اس کے رد عمل کا سلسلہ اتنا وسیع ہوتا ہے اور اتنی مدت تک جاری رہتا ہے کہ صرف اسی کے پورے نتائج وصول کرنے کے لیے ہزاروں بلکہ لاکھوں برس کی زندگی درکار ہے اور موجودہ قوانین قدرت کے ماتحت انسان کو اتنی زندگی ملنی ناممکن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسانی ہستی کے خاکی، عضوی اور حیوانی عناصر کے لیے تو موجودہ طبعی دنیا (Physical world) اور اس کے طبعی قوانین ہیں، مگر اس کے اخلاقی عنصر کے لیے یہ دنیا بالکل ناکافی ہے۔ اس کے لیے ایک دوسرا نظام عالم درکار ہے- جس میں حکمران قانون (Governing Law)، اخلاق کا قانون ہو اور طبعی قوانین اس کے ماتحت محض مدد گار کی حیثیت سے کام کریں۔ جس میں زندگی محدود نہ ہو، بلکہ غیر محدود ہو۔ جس میں وہ تمام اخلاقی نتائج جو یہاں مرتب ہونے سے رہ گئے ہیں یا الٹے مرتب ہوئے ہیں، اپنی صحیح صورت میں پوری طرح مرتب ہو سکیں۔ جہاں سونے اور چاندی کے بجائے نیکی اور صداقت میں وزن اور قیمت ہو، جہاں آگ صرف اس چیز کو جلائے جو اخلاقاً جلنے کی مستحق ہو۔ جہاں عیش اس کو ملے جو نیک ہو اور مصیبت صرف اس کے حصے میں آئے جو بد ہو۔ عقل چاہتی ہے فطرت مطالبہ کرتی ہے کہ ایک ایسا نظام عالم ضرور ہونا چاہیے۔
جہاں تک عقلی استدلال کا تعلق ہے وہ ہم کو صرف ’’ہونا چاہیے‘‘ کی حد تک لے جا کر چھوڑ دیتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ آیا واقعی کوئی ایسا عالم ہے بھی تو ہماری عقل اور ہمارا علم، دونوں اس کا حکم لگانے سے عاجز ہیں۔ یہاں قرآن ہماری مدد کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تمہاری عقل اور تمہاری فطرت جس چیز کا مطالبہ کرتی ہے، فی الواقع وہ ہونے والی ہے، موجودہ نظام عالم جو طبعی قوانین پر بنا ہے ایک وقت میں توڑ ڈالا جائے گا۔ اس کے بعد ایک دوسرا نظام بنے گا جس میں زمین وآسمان اور ساری چیزیں ایک دوسرے ڈھنگ پر ہوں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے تھے، دوبارہ پیدا کر دے گا اور بیک وقت ان سب کو اپنے سامنے جمع کرے گا۔ وہاں ایک ایک شخص کا، ایک ایک قوم کا اور پوری انسانیت کا ریکارڈ، ہر غلطی اور ہر فرو گزاشت کے بغیر محفوظ ہو گا۔ ہر شخص کے ایک ایک عمل کا جتنا رد عمل دنیا میں ہوا ہے۔ اس کی پوری روداد موجود ہو گی۔ وہ تمام نسلیں گواہوں کے کٹہرے میں حاضر ہوں گی جو اس رد عمل سے متاثر ہوئیں، ایک ایک ذرہ جس پر انسان کے اقوال اور افعال کے نقوش ثبت ہوئے تھے اپنی داستان سنائے گا۔ خود انسان کے ہاتھ اور پاؤں اور آنکھ اور زبان اور تمام اعضاء شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کس طرح کام لیا۔ پھر اس روداد پر وہ سب سے بڑا حاکم پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا کہ کون کتنے انعام کا مستحق ہے اور کون کتنی سزا کا۔ یہ انعام اور یہ سزا دونوں چیزیں اتنے بڑے پیمانے پر ہوں گی جس کا کوئی اندازہ موجودہ نظام عالم کی محدود مقداروں کے لحاظ سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں وقت اور جگہ کے معیار کچھ اور ہوں گے، وہاں کی مقداریں کچھ اور ہوں گی، وہاں کے قوانین قدرت کسی اور قسم کے ہوں گے۔ انسان کی جن نیکیوں کے اثرات دنیا میں ہزاروں برس چلتے رہے ہیں وہاں وہ ان کا بھرپور صلہ وصول کر سکے گا، بغیر اس کے کہ موت اور بیماری اور بڑھاپا اس کے عیش کا سلسلہ توڑ سکیں اور اسی طرح انسان کی جن برائیوں کے اثرات دنیا میں ہزار ہا برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیلتے رہے ہیں۔ وہ اُن کی پوری سزا بھگتے گا، بغیر اس کے کہ موت اور بے ہوشی آ کر اسے تکلیف سے بچا سکے۔
ایسی ایک زندگی اور ایسے ایک عالم کو جو لوگ ناممکن سمجھتے ہیں، مجھے ان کے ذہن کی تنگی پر ترس آتا ہے۔ اگر ہمارے موجودہ نظام عالم کا موجودہ قوانین قدرت کے ساتھ موجود ہونا ممکن ہے تو آخر ایک دوسرے نظام عالم کا دوسرے قوانین کے ساتھ وجود میں آنا کیوں ناممکن ہو ؟ البتہ یہ بات کہ واقع میں ایسا ضرور ہو گا، تو اس کا یقین نہ دلیل سے ہو سکتا ہے اور نہ علمی ثبوت سے، اس کے لیے ایمان بالغیب کی ضرورت ہے۔
***
سلامتی کا راستہ
ہستی باری تعالیٰ
صاحبو! اگر کوئی شخص آپ سے کہے کہ بازار میں ایک دکان ایسی ہے جس کا کوئی دکان دار نہیں ہے، نہ کوئی ا س میں مال لانے والا ہے، نہ بیچنے والا اور نہ کوئی اس کی رکھوالی کرتا ہے، دکان خود بخود چل رہی ہے، خود بخود اس میں مال آ جاتا ہے اور خود بخود خریداروں کے ہاتھوں فروخت ہو جاتا ہے، تو کیا آپ اس شخص کی بات مان لیں گے؟ کیا آپ تسلیم کر لیں گے کہ کسی دکان میں مال لانے والے کے بغیر خود بخود بھی مال آ سکتا ہے، مال بیچنے والے کے بغیر خود بخود فروخت بھی ہو سکتا ہے؟ حفاظت کرنے والے کے بغیر خودبخود چوری اور لوٹ سے محفوظ بھی رہ سکتا ہے؟ اپنے دل سے پوچھیے ایسی بات آپ کبھی مان سکتے ہیں ؟ جس کے ہوش و حواس ٹھکانے ہوں کیا اس کی عقل میں یہ بات آ سکتی ہے کہ کوئی دکان دنیا میں ایسی بھی ہو گی؟
فرض کیجیے۔ ایک شخص آپ سے کہتا ہے کہ اس شہر میں ایک کارخانہ ہے جس کا نہ کوئی مالک ہے، نہ انجینئر، نہ مستری۔ سارا کارخانہ خودبخود قائم ہو گیا ہے۔ ساری مشینیں خود بخود بن گئی ہیں، خود ہی سارے پرزے اپنی اپنی جگہ لگ گئے ہیں، خود ہی سب مشینیں چل رہی ہیں، اور خود ہی ان میں سے عجیب عجیب چیزیں بن بن کر نکلتی رہتی ہیں۔ سچ بتایئے جو شخص آپ سے یہ بات کہے گا۔ آپ حیرت سے اس کا منہ نہ تکنے لگیں گے! آپ کو یہ شبہ نہ ہو گا کہ اس کا دماغ تو کہیں خراب نہیں ہو گیا ہے؟ کیا ایک پاگل کے سوا ایسی بے ہودہ بات کوئی کہہ سکتا ہے؟
دور کی مثال کو چھوڑیئے، یہ بجلی کا بلب جو آپ کے سامنے جل رہا ہے کیا کسی کے کہنے سے آپ یہ مان سکتے ہیں کہ روشنی اس بلب میں آپ سے آپ پیدا ہو جاتی ہے؟ یہ کرسی جو آپ کے سامنے رکھی ہے، کیا کسی بڑے سے بڑے فاضل فلسفی کے کہنے سے بھی آپ یہ باور کر سکتے ہیں کہ یہ خود بخود بن گئی ہے؟ یہ کپڑے جو آپ پہنے ہوئے ہیں، کیا کسی علامۂ دہر کے کہنے سے بھی آپ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں کہ ان کو کسی نے بنایا نہیں ہے، یہ خود بن گئے ہیں ؟ یہ گھر جو آپ کے سامنے کھڑے ہیں اگر تمام دنیا کی یونیورسٹیوں کے پروفیسر مل کر بھی آپ کو یقین دلائیں کہ ان گھروں کو کسی نے نہیں بنایا ہے بلکہ یہ خود بن گئے ہیں، تو کیا ان کے یقین دلانے سے آپ کو ایسی لغو بات پر یقین آ جائے گا؟
یہ چند مثالیں آپ کے سامنے کی ہیں۔ رات دن جن چیزوں کو آپ دیکھتے ہیں انہیں میں سے چند ایک میں نے بیان کی ہیں۔ اب غور کیجیے، ایک معمولی دکان کے متعلق جب آپ کی عقل یہ نہیں مان سکتی کہ وہ کسی قائم کرنے والے کے بغیر چل رہی ہے، جب ایک ذرا سے کارخانے کے متعلق آپ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے کہ وہ کسی بنانے والے کے بغیر بن جائے گا اور کسی چلانے والے کے بغیر چلتا رہے گا تو یہ زمین وآسمان کا زبردست کارخانہ جو آپ کے سامنے چل رہا ہے، جس میں چاند اور سورج اور بڑے بڑے ستارے گھڑی کے پرزوں کی طرح حرکت کر رہے ہیں، جس میں سمندروں سے بھاپیں اٹھتی ہیں، بھاپوں سے بادل بنتے ہیں، بادلوں کو ہوائیں اڑا کر زمین کے کونے کونے میں پھیلاتی ہیں، پھر ان کو مناسب وقت پر ٹھنڈک پہنچا کر دوبارہ بھاپ سے پانی بنایا جاتا ہے، پھر وہ پانی بارش کے قطروں کی صورت میں گرایا جاتا ہے، پھر اس بارش کی بدولت مردہ زمین کے پیٹ سے طرح طرح کے لہلہاتے ہوئے درخت نکالے جاتے ہیں۔ قسم قسم کے غلے، رنگ برنگ کے پھل اور وضع وضع کے پھول پیدا کیے جاتے ہیں، اس کارخانے کے متعلق آپ یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی بنانے والے کے بغیر خود بن گیا اور کسی چلانے والے کے بغیر خود چل رہا ہے؟ ایک ذرا سی کرسی، ایک گز بھر کپڑے، ایک چھوٹی سی دیوار کے متعلق کوئی کہہ دے کہ یہ چیزیں خود بنی ہیں تو آپ فوراً فیصلہ کر دیں گے کہ اس کا دماغ چل گیا ہے۔ پھر بھلا اس شخص کے دماغ کی خرابی میں کیا شک ہو سکتا ہے جو کہتا ہے کہ زمین خود بن گئی، جانور خود پیدا ہو گئے، انسان جیسی حیرت انگیز چیز آپ سے آپ بن کر کھڑی ہو گئی۔
آدمی کا جسم جن اجزاء سے مل کر بنا ہے ان سب کو سائنس دانوں نے الگ الگ کر کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ کچھ لوہا ہے، کچھ کوئلہ، کچھ گندھک، کچھ فاسفورس، کچھ کیلشیم، کچھ نمک، چند گیسیں اور بس ایسی ہی چند اور چیزیں جن کی مجموعی قیمت چند روپوں سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ چیزیں جتنے جتنے وزن کے ساتھ آدمی کے جسم میں شامل ہیں، اتنے ہی وزن کے ساتھ انہیں لے لیجیے اور جس طرح جی چاہے ملا کر دیکھ لیجیے۔ آدمی کسی ترکیب سے نہ بن سکے گا۔ پھر کس طرح آپ کی عقل مان سکتی ہے کہ ان چند بے جان چیزوں سے دیکھتا، سنتا، بولتا، چلتا پھرتا انسان، جو ہوائی جہاز اور ریڈیو بناتا ہے، کسی کاریگر کی حکمت کے بغیر خود بخود بن جاتا ہے؟
کبھی آپ نے غور کیا کہ ماں کے پیٹ کی چھوٹی سی فیکٹری میں کس طرح آدمی تیار ہوتا ہے؟ باپ کی کارستانی کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ ماں کی حکمت کا اس میں کوئی کام نہیں۔ ایک ذرا سی تھیلی میں دو کیڑے جو خوردبین کے بغیر دیکھے تک نہیں جا سکتے، نہ معلوم کب آپس میں مل جاتے ہیں۔ ماں کے خون ہی سے ان کو غذا پہنچنی شروع ہو جاتی ہے۔ وہیں سے لوہا، گندھک، فاسفورس وغیرہ تمام چیزیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ایک خاص وزن اور خاص نسبت کے ساتھ وہاں جمع ہو کر لوتھڑا بنتی ہیں۔ پھر اس لوتھڑے میں جہاں آنکھیں بننی چاہئیں وہاں آنکھیں بنتی ہیں، جہاں کان بننے چاہئیں وہاں کان بنتے ہیں، جہاں دماغ بننا چاہیے وہاں دماغ بنتا ہے، جہاں دل بننا چاہیے وہاں دل بنتا ہے۔ ۔ ۔ ہڈی اپنی جگہ پر، گوشت اپنی جگہ پر، غرض ایک ایک پرزہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک بیٹھتا ہے۔ پھر اس میں جان پڑ جاتی ہے۔ دیکھنے کی طاقت، سننے کی طاقت، چکھنے اور سونگھنے کی طاقت، بولنے کی طاقت، سوچنے اور سمجھنے کی طاقت اور نہ جانے کتنی بے حدوحساب طاقتیں اس میں بھر جاتی ہیں۔ اس طرح جب انسان مکمل ہو جاتا ہے تو پیٹ کی وہی چھوٹی سی فیکٹری جہاں نو مہینے تک وہ بن رہا تھا خود زور کر کے اسے باہر دھکیل دیتی ہے۔ اس فیکٹری سے ایک ہی طریقے پر لاکھوں انسان روز بن کر نکل رہے ہیں۔ مگر ہر ایک کا نمونہ جدا ہے۔ شکل جدا، رنگ جدا، آواز جدا، قوتیں اور قابلیتیں جدا، طبیعتیں اور خیالات جدا، اخلاق اور صفات جدا۔ ایک ہی ماں کے پیٹ سے نکلے ہوئے دو سگے بھائی تک ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ یہ ایک ایسا کرشمہ ہے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کرشمے کو دیکھ کر بھی جو شخص یہ کہتا ہے کہ یہ کام کسی زبردست حکمت والے، زبردست قدرت والے، زبردست علم اور بے نظیر کمالات والے خدا کے بغیر ہو رہا ہے یا ہو سکتا ہے، یقیناً اس کا دماغ درست نہیں اس کو عقل مند سمجھنا عقل کی توہین کرنا ہے۔ کم از کم میں تو ایسے شخص کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ کسی معقول مسئلے پر اس سے گفتگو کروں۔
توحید
اچھا اب ذرا اور آگے چلیے۔ آپ میں سے ہر شخص کی عقل اس بات کی گواہی دے گی کہ دنیا میں کوئی کام بھی خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، کبھی باضابطگی باقاعدگی سے نہیں چل سکتا جب تک کہ کوئی ایک شخص اس کا ذمہ دار نہ ہو۔ ایک مدرسہ کے دو ہیڈ ماسٹر، ایک محکمہ کے دو ڈائریکٹر، ایک فوج کے دو سپہ سالار، ایک سلطنت کے دو رئیس یا بادشاہ کبھی آپ نے سنے ہیں ؟ اور کہیں ایسا ہو تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک دن کے لیے بھی انتظام ٹھیک ہو سکتا ہے؟ آپ اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں اس کا تجربہ کرتے ہیں کہ جہاں کوئی کام ایک سے زیادہ آدمیوں کی ذمہ داری پر چھوڑا جاتا ہے وہاں سخت بد انتظامی ہوتی ہے، لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، اور آخر ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹ کر رہتی ہے۔ انتظام، باقاعدگی، ہمواری اور خوش اسلوبی دنیا میں جہاں کہیں بھی آپ دیکھتے ہیں وہاں لازمی طور پر ایک طاقت کارفرما ہوتی ہے، کوئی ایک ہی وجود با اختیار و اقتدار ہوتا ہے، اور کسی ایک کے ہاتھ میں سر رشتہ کار ہوتا ہے۔ اس کے بغیر انتظام کا آپ تصور نہیں کر سکتے۔
یہ ایسی سیدھی بات ہے کہ کوئی شخص جو تھوڑی سی عقل بھی رکھتا ہو اسے ماننے میں تامل نہ کرے گا۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر ذرا اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نظر ڈالیے۔ یہ زبردست کائنات جو آپ کے سامنے پھیلی ہوئی ہے، یہ کروڑوں سیارے جو آپ کو گردش کرتے نظر آتے ہیں، یہ زمین جس پر آپ رہتے ہیں، یہ چاند جو راتوں کو نکلتا ہے، یہ سورج جو صبح کو طلوع ہوتا ہے، یہ زہرہ، یہ مریخ، یہ عطارد، یہ مشتری اور یہ دوسرے بے شمار تارے جو گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں، دیکھیے ! ان سب کے گھومنے میں کیسی سخت باقاعدگی ہے۔ کبھی رات اپنے وقت سے پہلے آتی ہوئی آپ نے دیکھی؟ کبھی دن وقت سے پہلے نکلتے دیکھا؟ کبھی چاند زمین سے ٹکرایا؟ کبھی سورج اپنا راستہ چھوڑ کر ہٹا؟ کبھی کسی اور ستارے کو آپ نے ایک بال برابر بھی اپنی گردش کی راہ سے ہٹتے ہوئے دیکھا یا سنا؟ یہ کروڑ ہا سیارے جن میں سے بعض ہماری زمین سے لاکھوں گنا بڑے ہیں اور بعض سورج سے بھی ہزاروں گنا بڑے، یہ سب گھڑی کے پرزوں کی طرح ایک زبردست ضابطے میں کسے ہوئے اور ایک بندھے ہوئے حساب کے مطابق اپنی اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ راستے پر چل رہے ہیں۔ نہ کسی کی رفتار میں ذرہ برابر فرق آتا ہے، نہ کوئی اپنے راستے سے بال برابر ٹل سکتا ہے۔ ان کے درمیان جو نسبتیں قائم کر دی گئی ہیں، اگر ان میں ایک پل کے لیے بھی ذرا سا فرق آ جائے تو سارا نظام عالم درہم برہم ہو جائے، جس طرح ریلیں ٹکراتی ہیں اسی طرح سیارے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔
یہ تو آسمان کی باتیں ہیں۔ ذرا اپنی زمین اور اپنی ذات پر نظر ڈال کر دیکھیے۔ اس مٹی کی گیند پر یہ سارا زندگی کا کھیل جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ سب چند بندھے ہوئے ضابطوں کی بدولت قائم ہے۔ زمین کی کشش نے ساری چیزوں کو اپنے حلقے میں باندھ رکھا ہے۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اگر وہ اپنی گرفت چھوڑ دے تو سارا کارخانہ بکھر جائے۔ اس کارخانہ میں جتنے کل پرزے کام کر رہے ہیں، سب کے سب ایک قاعدے کے پابند ہیں۔ اس قاعدے میں کبھی فرق نہیں آتا۔ ہوا اپنے قاعدے کی پابندی کر رہی ہے، پانی اپنے قاعدے میں بندھا ہوا ہے۔ روشنی کے لیے جو قاعدہ ہے اس کی وہ مطیع ہے۔ گرمی اور سردی کے لیے جو ضابطہ ہے اس کی وہ غلام ہے۔ مٹی، پتھر، دھاتیں، بجلی، اسٹیم، درخت، جانور کسی میں یہ مجال نہیں کہ اپنی حد سے بڑھ جائے یا اپنی خاصیتوں کو بدل دے، یا اس کام کو چھوڑ دے جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ پھر اپنی حد کے اندر، اپنے ضابطہ کی پابندی کرنے کے ساتھ، اس کارخانے کے سارے پرزے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، اور دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، سب اسی وجہ سے ہو رہا ہے کہ یہ ساری چیزیں اور ساری قوتیں مل کر کام کر رہی ہیں۔
ایک ذرا سے بیج کی ہی مثال لے لیجیے جس کو آپ زمین میں بوتے ہیں۔ وہ کبھی پرورش پا کر درخت بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ زمین اور آسمان کی ساری قوتیں مل کر اس کی پرورش میں حصہ نہ لیں۔ زمین اپنے خزانوں سے اس کو غذا دیتی ہے۔ سورج اس کی ضرورت کے مطابق اس کو گرمی پہنچاتا ہے۔ پانی سے جو کچھ وہ مانگتا ہے وہ پانی دیتا ہے۔ ہوا سے جو کچھ وہ طلب کرتا ہے، وہ ہوا دیتی ہے۔ راتیں اُسے ٹھنڈک اور اوس بہم پہنچاتی ہیں۔ دن اسے گرمی پہنچا کر پختگی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس طرح مہینوں اور برسوں تک مسلسل ایک باقاعدگی کے ساتھ یہ سب مل جل کر اسے پالتے پوستے ہیں، تب جا کر کہیں درخت بنتا ہے اور اس میں پھل آتے ہیں۔ آپ کی یہ ساری فصلیں جن کے بل بوتے پر آپ جی رہے ہیں، انہی بے شمار مختلف قوتوں کے بالاتفاق کام کرنے ہی کی وجہ سے تیار ہوتی ہیں۔ بلکہ آپ خود زندہ اسی وجہ سے ہیں کہ زمین اور آسمان کی تمام طاقتیں متفقہ طور پر آپ کی پرورش میں لگی ہوئی ہیں۔ اگر تنہا ایک ہوا ہی اس متفقہ کاروبار سے الگ ہو جائے تو آپ ختم ہو جائیں۔ اگر پانی، ہوا اور گرمی کے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کر دے تو آپ پر بارش کا ایک قطرہ نہ برس سکے۔ اگر مٹی، پانی کے ساتھ اتفاق کرنا چھوڑ دے تو آپ کے باغ سوکھ جائیں، آپ کی کھیتیاں کبھی نہ پکیں اور آپ کے مکان کبھی نہ بن سکیں۔ اگر دیا سلائی کی رگڑ سے آگ پیدا ہونے پر راضی نہ ہو تو آپ کے چولھے ٹھنڈے ہو جائیں اور آپ کے سارے کارخانے یک لخت بیٹھ جائیں۔ اگر لوہا آپ کے ساتھ تعلق رکھنے سے انکار کر دے تو آپ ریلیں اور موٹریں تو درکنار ایک سوئی اور چھری تک نہ بنا سکیں۔ غرض یہ ساری دنیا جس میں آپ جی رہے ہیں، یہ صرف اسی وجہ سے قائم ہے کہ اس عظیم الشان سلطنت کے سارے محکمے پوری پابندی کے ساتھ ایک دوسرے سے مل کر کام کر رہے ہیں اور کسی محکمے کے کسی اہل کار کی یہ مجال نہیں ہے کہ اپنی ڈیوٹی سے ہٹ جائے یا ضابطہ کے مطابق دوسرے محکموں کے اہل کاروں سے اشتراک عمل نہ کرے۔
جو کچھ میں نے آپ سے بیان کیا ہے، کیا اس میں کوئی بات جھوٹ یا خلاف واقعہ ہے ؟ شائد آپ میں سے کوئی بھی اسے جھوٹ نہ کہے گا۔ اچھا اگر یہ سچ ہے تو مجھے بتایئے کہ یہ زبردست انتظام، یہ حیرت انگیز باقاعدگی، یہ کمال درجہ کی ہمواری، یہ زمین و آسمان کی بے حد و حساب چیزوں، اور طاقتوں میں کامل موافقت آخر کس وجہ سے ہے؟ کروڑوں برس سے یہ کائنات یونہی قائم چلی آ رہی ہے۔ لکھو کھا سال سے اس زمین پر درخت اگ رہے ہیں، جانور پیدا ہو رہے ہیں، اور نہ معلوم کب سے انسان اس زمین پر جی رہا ہے۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ چاند زمین پر گر جاتا یا زمین سورج سے ٹکرا جاتی۔ کبھی رات اور دن کے حساب میں فرق نہ آیا۔ کبھی ہوا کے محکمے کی پانی کے محکمے سے لڑائی نہ ہوئی۔ کبھی پانی مٹی سے نہ روٹھا۔ کبھی گرمی نے آگ سے رشتہ نہ توڑا۔ آخر اس سلطنت کے تمام صوبے، تمام محکمے، تمام ہر کارے اور کارندے کیوں اس طرح قانون اور ضابطے کی پابندی کیے چلے جا رہے ہیں ؟ کیوں ان میں لڑائی نہیں ہوتی؟ کیوں فساد برپا نہیں ہوتا؟ کس چیز کی وجہ سے یہ سب ایک انتظام میں بندھے ہوئے ہیں ؟ اس کا جواب اپنے دل سے پوچھیے۔ کیا وہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ ایک ہی خدا اس ساری کائنات کا بادشاہ ہے، ایک ہی ہے جس کی زبردست طاقت نے سب کو اپنے ضابطے میں باندھ رکھا ہے؟ اگر دس بیس نہیں دو خدا بھی اس کائنات کے مالک ہوتے تو یہ انتظام اس باقاعدگی کے ساتھ کبھی نہ چل سکتا۔ ایک ذرا سے مدرسے کا انتظام تو دو ہیڈ ماسٹروں کی ہیڈ ماسٹری برداشت نہیں کر سکتا پھر بھلا اتنی بڑی زمین و آسمان کی سلطنت دو خداؤں کی خدائی میں کیسے چل سکتی تھی؟
پس واقعہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ دنیا کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بنی ہے بلکہ یہ بھی واقعہ ہے کہ اس کو ایک ہی نے بنایا ہے۔ حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ حاکم ایک ہی ہے۔ انتظام کی باقاعدگی صاف کہہ رہی ہے کہ یہاں ایک کے سوا کسی کے ہاتھ میں حکومت کے اختیارات نہیں ہیں۔ ضابطہ کی پابندی منہ سے بول رہی ہے کہ اس سلطنت میں ایک حاکم کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا۔ قانون کی سخت گیری شہادت دے رہی ہے کہ ایک ہی بادشاہ کی حکومت زمین سے آسمان تک قائم ہے۔ چاند، سورج اور سیارے اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ زمین اپنی تمام چیزوں کے ساتھ اُسی کے تابع فرمان ہے۔ ہوا اسی کی غلام ہے۔ پانی اسی کا بندہ ہے۔ دریا اور پہاڑ اسی کے محکوم ہیں۔ درخت اور جانور اسی کے مطیع ہیں۔ انسان کا جینا اور مرنا اسی کے اختیار میں ہے۔ اس کی مضبوط گرفت نے سب کو پوری قوت کے ساتھ جکڑ رکھا ہے۔ کوئی اتنا زور نہیں رکھتا کہ اس کی حکومت میں اپنا حکم چلا سکے۔
درحقیقت اس مکمل تنظیم میں ایک سے زیادہ حاکموں کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ تنظیم کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ حکم میں ایک شمہ برابر بھی کوئی دوسرا حصہ دار نہ ہو۔ تنہا ایک ہی حاکم ہو اور اس کے سوا سب محکوم ہوں۔ کیونکہ کسی دوسرے کے ہاتھ میں فرمانروائی کے ادنیٰ سے اختیارات ہونے کے معنی بھی بدنظمی اور فساد کے ہیں۔ حکم چلانے کے لیے صرف طاقت ہی درکار نہیں ہے، علم بھی درکار ہے۔ اتنی وسیع نظر درکار ہے کہ تمام کائنات کو بیک وقت دیکھ سکے اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ کر احکام جاری کر سکے۔ اگر خداوند عالم کے سوا کچھ چھوٹے چھوٹے خدا ایسے ہوتے جو نگاہ جہاں بیں تو نہ رکھتے، لیکن انہیں دنیا کے کسی حصے یا کسی معاملہ میں اپنا حکم چلانے کا اختیار حاصل ہوتا تو یہ زمین و آسمان کا سارا کارخانہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔ ایک معمولی مشین کے متعلق بھی آپ جانتے ہیں کہ اگر کسی ایسے شخص کو اس میں دخل اندازی کا اختیار دے دیا جائے جو اس سے پوری طرح واقف نہ ہو تو وہ اسے بگاڑ کر رکھ دے گا۔ لہٰذا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے، اور زمین و آسمان کے نظام سلطنت کا انتہائی باقاعدگی کے ساتھ چلنا اس کی گواہی دیتا ہے کہ اس سلطنت کے اختیاراتِ شاہی میں ایک خدا کے سوا کسی کا ذرہ برابر حصہ نہیں ہے۔
یہ صرف ایک واقعہ ہی نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ خدا کی خدائی میں خود خدا کے سوا کسی کا حکم چلنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔ جن کو اس نے اپنے دست قدرت سے بنایا ہے، جو اس سے بے نیاز ہو کر خود اپنے بل بوتے پر ایک لمحہ کے لیے بھی موجود نہیں رہ سکتے، ان میں سے کسی کی یہ حیثیت کب ہو سکتی ہے کہ خدائی میں اس کا حصہ دار بن جائے؟ کیا کسی نوکر کو آپ نے ملکیت میں آقا کا شریک ہوتے دیکھا ہے؟ کیا آپ کی عقل میں یہ بات آتی ہے کہ کوئی مالک اپنے غلام کو اپنا ساجھی بنا لے ؟ کیا خود آپ میں سے کوئی شخص اپنے ملازموں میں سے کسی کو اپنی جائیداد میں یا اپنے اختیارات میں حصہ دار بناتا ہے؟ اس بات پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ خدا کی اس سلطنت میں کسی بندے کو خود مختارانہ فرماں روائی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ ایسا ہونا نہ صرف واقعہ کے خلاف ہے، بلکہ عقل اور فطرت کے خلاف بھی ہے۔ بلکہ حق کے خلاف بھی ہے۔
انسان کی تباہی کا اصل سبب
صاحبو! یہ بنیادی حقیقتیں ہیں جن پر اس دنیا کا پورا نظام چل رہا ہے۔ آپ اس دنیا سے الگ نہیں ہیں، بلکہ اس کے اندر اس کے ایک جز کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ لہٰذا آپ کی زندگی کے لیے بھی یہ حقیقتیں اسی طرح بنیادی ہیں جس طرح کُل جہان کے لیے ہیں۔
آج یہ سوال آپ میں سے ہر شخص کے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک پریشان کن گتھی بنا ہوا ہے کہ آخر ہم انسانوں کی زندگی سے امن چین کیوں رخصت ہو گیا؟ کیوں آئے دن مصیبتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں ؟ کیوں ہماری زندگی کی کَل بگڑ گئی ہے؟ قومیں قوموں سے ٹکرا رہی ہیں۔ ملک ملک میں کھینچا تانی ہو رہی ہے۔ آدمی، آدمی کے لیے بھیڑیا بن گیا ہے۔ لاکھوں انسان لڑائیوں میں برباد ہو رہے ہیں۔ کروڑوں اور اربوں کے کاروبار غارت ہو رہے ہیں۔ بستیوں کی بستیاں اجڑ رہی ہیں۔ طاقت ور کمزوروں کو کھائے جاتے ہیں۔ مال دار غریبوں کو لوٹے لیتے ہیں۔ حکومت میں ظلم ہے۔ عدالت میں بے انصافی ہے۔ دولت میں بدمستی ہے۔ اقتدار میں غرور ہے۔ دوستی میں بے وفائی ہے۔ امانت میں خیانت ہے۔ اخلاق میں راستی نہیں رہی۔ انسان پر سے انسان کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ مذہب کے جامے میں لا مذہبی ہو رہی ہے۔ آدم کے بچے لاتعداد گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر گروہ دوسرے گروہ کو دغا، ظلم، بے ایمانی ہر ممکن طریقہ سے نقصان پہنچانا کار ثواب سمجھ رہا ہے۔ یہ ساری خرابیاں آخر کس وجہ سے ہیں ؟ خدا کی خدائی میں اور جس طرف بھی ہم دیکھتے ہیں امن ہی امن نظر آتا ہے۔ پانی میں امن ہے۔ درختوں اور جانوروں میں امن ہے۔ تمام مخلوقات کا انتظام پورے امن کے ساتھ چل رہا ہے۔ کہیں فساد یا بدنظمی کا نشان نہیں پایا جاتا۔ مگر ایک انسان ہی کی زندگی کیوں اس نعمت سے محروم ہو گئی؟
یہ ایک بڑا سوال ہے جسے حل کرنے میں لوگوں کو سخت پریشانی پیش آ رہی ہے۔ مگر میں پورے اطمینان سے اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ میرے پاس اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ:۔
آدمی نے اپنی زندگی کو حقیقت اور واقعہ کے خلاف بنا رکھا ہے اس لیے وہ تکلیف اٹھا رہا ہے۔ اور جب تک وہ پھر سے اسے حقیقت کے مطابق نہ بنائے گا کبھی چین نہ پا سکے گا۔
آپ چلتی ہوئی ریل کے دروازے کو اپنے گھر کا دروازہ سمجھ بیٹھیں، اور اسے کھول کر بے تکلف اس طرح باہر نکل آئیں جیسے اپنے مکان کے صحن میں قدم رکھ رہے ہوں تو آپ کی اس غلط فہمی سے نہ ریل کا دروازہ گھر کا دروازہ بن جائے گا اور نہ وہ میدان جہاں آپ گریں گے گھر کا صحن ثابت ہو گا۔ آپ کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت ذرا بھی نہ بدلے گی۔ تیز دوڑتی ہوئی ریل کے دروازے سے جب آپ باہر تشریف لائیں گے تو اس کا جو نتیجہ ظاہر ہونا ہے، وہ ظاہر ہو کر ہی رہے گا۔ خواہ ٹانگ ٹوٹنے اور سر پھٹنے کے بعد بھی آپ یہ تسلیم نہ کریں کہ آپ نے جو کچھ سمجھا تھا غلط سمجھا تھا۔
بالکل اسی طرح اگر آپ یہ سمجھ بیٹھیں کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے یا آپ خود اپنے خدا بن بیٹھیں یا خدا کے سوا کسی اور کی خدائی مان لیں، تو آپ کے ایسا سمجھنے یا مان لینے سے حقیقت ہر گز نہ بدلے گی۔ خدا خدا ہی رہے گا۔ اس کی زبردست سلطنت جس میں آپ محض رعیت کی حیثیت سے رہتے ہیں، پورے اختیارات کے ساتھ اُسی کے قبضہ میں رہے گی۔ البتہ آپ اپنی غلط فہمی کی وجہ سے جو طرز زندگی اختیار کریں گے اس کا نہایت برا خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ خواہ آپ تکلیفیں اٹھانے کے بعد بھی اپنی اس غلط زندگی کو بجائے خود صحیح ہی سمجھتے رہیں۔
پہلے میں جو کچھ بیان کر چکا ہوں اسے ذرا اپنی یاد میں پھر تازہ کر لیجیے۔ خداوندِ عالم کسی کے بنائے سے خداوند عالم نہیں بنا ہے۔ وہ اس کا محتاج نہیں ہے کہ آپ اس کی خدائی مانیں تو وہ خدا ہو۔ آپ خواہ مانیں یا نہ مانیں وہ تو خود خدا ہے۔ اس کی خدائی خود اپنے زور پر قائم ہے۔ اس نے آپ کو اور اس دنیا کو خود بنایا ہے۔ یہ زمین، یہ چاند اور سورج اور یہ ساری کائنات اُسی کے حکم کی تابع ہے۔ اس کائنات میں جتنی قوتیں کام کر رہی ہیں سب اُسی کے زیر حکم ہیں۔ وہ ساری چیزیں جن کے بل پر آپ زندہ ہیں، اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ خود آپ کا اپنا وجود اس کے اختیار میں ہے۔ اس واقعہ کو آپ کسی طرح بدل نہیں سکتے۔ آپ اس کو نہ مانیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ آپ اس سے آنکھیں بند کر لیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ آپ اس کے سوا کچھ اور سمجھ بیٹھیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ ان سب صورتوں میں واقعہ کا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ البتہ فرق یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ اس واقعہ کو تسلیم کر کے اپنی وہی حیثیت قبول کر لیں جو اس واقعہ کے اندر دراصل آپ کی ہے تو آپ کی زندگی درست ہو گی، آپ کو چین ملے گا، اطمینان نصیب ہو گا، اور آپ کی زندگی کی ساری کَل ٹھیک چلے گی، اور اگر آپ نے واقعہ کے خلاف کوئی اور حیثیت اختیار کی تو انجام وہی ہو گا جو چلتی ہوئی ریل کے دروازے کو اپنے گھر کا دروازہ سمجھ کر باہر نکلنے کا ہوتا ہے۔ چوٹ آپ خود کھائیں گے۔ ٹانگ آپ کی ٹوٹے گی۔ سر آپ کا پھٹے گا۔ تکلیف آپ کو پہنچے گی۔ واقعہ جیسا تھا ویسا ہی رہے گا۔
آپ سوال کریں گے کہ اس واقعہ کے مطابق ہماری صحیح حیثیت کیا ہے۔ میں چند لفظوں میں اس کی تشریح کیے دیتا ہوں۔ اگر کسی نوکر کو آپ کی تنخواہ دے کر پال رہے ہوں تو بتایئے اس نوکر کی اصلی حیثیت کیا ہے؟ یہی ناکہ آپ کی نوکری بجا لائے۔ آپ کے حکم کی اطاعت کرے۔ آپ کی مرضی کے مطابق کام کرے اور نوکری کی حد سے نہ بڑھے۔ نوکر کا کام آخر نوکری کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ آپ اگر افسر ہوں اور کوئی آپ کا ماتحت ہو تو ماتحت کا کام کیا ہے؟ یہی نا کہ وہ ماتحتی کرے، افسری کی ہوا میں نہ رہے۔ اگر آپ کسی جائیداد کے مالک ہیں تو اس جائیداد میں آپ کی خواہش کیا ہو گی؟ یہی ناکہ اس میں آپ کی مرضی چلے۔ جو کچھ آپ چاہیں وہی ہو اور آپ کی مرضی کے خلاف پتہ نہ ہل سکے۔ آپ پر اگر کوئی بادشاہی مسلط ہو اور تمام قوتیں اس کے ہاتھ میں ہوں تو ایسی بادشاہی کی موجودگی میں آپ کی حیثیت کیا ہو سکتی ہے؟ یہی ناکہ آپ سیدھی طرح رعیت بن کر رہنا قبول کریں اور شاہی قانون کی فرمان برداری سے قدم باہر نہ نکالیں۔ بادشاہ کی سلطنت کے اندر رہتے ہوئے اگر آپ خود اپنی بادشاہی کا دعویٰ کریں گے یا کسی دوسرے کی بادشاہی مان کر اس کے حکم پر چلیں گے تو آپ باغی ہوں گے اور باغی کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ آپ کو معلوم ہی ہے۔
ان مثالوں سے آپ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کی اس سلطنت میں آپ کی اصلی حیثیت کیا ہے؟
آپ کو اس نے بنایا ہے۔ قدرتی طور پر آپ کا کوئی کام اس کے سوا نہیں ہے کہ اپنے بنانے والے کی مرضی پر چلیں۔
آپ کو وہ پال رہا ہے، اور اسی کے خزانے سے آپ تنخواہ لے رہے ہیں آپ کی کوئی حیثیت اس کے سوا نہیں ہے کہ آپ اس کے نوکر ہیں۔
آپ کا اور ساری دنیا کا افسروہ ہے۔ اس کی افسری میں آپ کی حیثیت ماتحتی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔
یہ زمین اور آسمان سب اس کی جائیداد ہیں۔ اس جائیداد میں اسی کی مرضی چلے گی اور چلنی چاہیے۔ آپ کو یہاں اپنی مرضی چلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اپنی مرضی آپ چلانے کی کوشش کریں گے تو منہ کی کھائیں گے۔
اس سلطنت میں اس کی بادشاہی اس کے اپنے زور پر قائم ہے۔ زمین اور آسمان کے سارے محکمے اس کے قبضہ میں ہیں۔ آپ خود چاہے راضی ہوں یا ناراض، بہرحال اس کی رعیت ہیں۔ آپ کی اور کسی انسان کی بھی، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، کوئی دوسری حیثیت رعیت ہونے کے سوا نہیں ہے۔ اسی کا قانون، اس سلطنت میں قانون ہے اور اسی کا حکم، حکم ہے۔ رعیت میں سے کسی کو یہ دعویٰ کرنے کا حق نہیں ہے کہ میں ہزمیجسٹی ہوں یا ہز ہائی نس ہوں یا ڈکٹیٹر اور خود مختار ہوں۔ نہ کسی شخص یا پارلیمنٹ یا اسمبلی یا کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس سلطنت میں خدا کے بجائے خود اپنا قانون بنائے اور خدا کی رعیت سے کہے کہ ہمارے اس قانون کی پیروی کرو۔ نہ کسی انسانی حکومت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ خدا کے حکم سے بے نیاز ہو کر خود حکم چلائے اور خدا کے بندوں سے کہے کہ ہمارے اس حکم کی اطاعت کرو۔ نہ کسی انسان یا انسانوں کے کسی گروہ کے لیے یہ جائز ہے کہ اصلی بادشاہ کی رعیت بننے کے بجائے بادشاہی کے جھوٹے مدعیوں میں سے کسی کی رعیت بننا قبول کرے، اصلی بادشاہ کے قانون کو چھوڑ کر جھوٹے قانون سازوں کا قانون تسلیم کرے، اور اصلی حکمران سے منہ موڑ کر جھوٹ موٹ کی ان حکومتوں کا حکم ماننے لگے۔ یہ تمام صورتیں بغاوت کی ہیں۔ خود بادشاہی کے اختیارات کا دعویٰ کرنا یا ایسے کسی مدعی کے دعوے کو قبول کرنا، دونوں حرکتیں رعیت کے لیے بغاوت کا حکم رکھتی ہیں اور اس کی سزا ان دونوں کو ملنی یقینی ہے، خواہ جلدی ملے یا دیر میں۔
آپ کی اور ایک ایک انسان کی پیشانی کے بال خدا کی مٹھی میں ہیں۔ جب چاہے پکڑ کر گھسیٹ لے۔ زمین و آسمان کی اس سلطنت میں بھاگ جانے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔ آپ اس سے بھاگ کر کہیں پناہ نہیں لے سکتے۔ مٹی میں مل کر آپ کا ایک ایک ذرہ بھی منتشر ہو جائے، آگ میں جل کر خواہ آپ کی راکھ ہوا میں پھیل جائے، پانی میں بہہ کر خواہ آپ مچھلیوں کی خوراک بنیں یا سمندر کے پانی میں گھل جائیں، ہر جگہ سے خدا آپ کو پکڑ لے گا۔ ہوا اس کی غلام ہے، زمین اس کی بندی ہے، پانی اور اس کی مچھلیاں سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ ایک اشارے پر سب طرف سے آپ پکڑے ہوئے آ جائیں گے اور پھر وہ آپ میں سے ایک ایک کو بلا کر پوچھے گا کہ میری رعیت ہو کر بادشاہی (Sovereignty) کا دعویٰ کرنے کا حق تمہیں کہاں سے پہنچ گیا تھا؟ میرے ملک میں اپنا حکم چلانے کے اختیارات تم کہا ں سے لائے تھے؟ میری سلطنت میں اپنا قانون جاری کرنے والے تم کون تھے؟ میرے بندے ہو کر دوسروں کی بندگی کرنے پر تم کیسے راضی ہو گئے؟ میرے نوکر ہو کر تم نے دوسروں کا حکم مانا، مجھ سے تنخواہ لے کر دوسروں کو ان داتا اور رازق سمجھا۔ میرے غلام ہو کر دوسروں کی غلامی کی، میری بادشاہی میں رہتے ہوئے دوسروں کے قانون کو قانون سمجھا اور دوسروں کے فرامین کی اطاعت کی۔ یہ بغاوت کس طرح تمہارے لیے جائز ہو گئی تھی؟ فرمایئے آپ میں سے کسی کے پاس اس الزام کا جواب ہے؟ کون سے وکیل صاحب وہاں اپنے قانونی داؤ پیچ سے بچاؤ کی صورت نکال سکیں گے؟ اور کون سی سفارش پر آپ بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ آپ کو اس بغاوت کے جرم کی سزا بھگتنے سے بچا لے گی؟
ظلم کی وجہ
صاحبو! یہاں صرف حق ہی کا سوال نہیں ہے۔ یہ سوال بھی ہے کہ خدا کی اس خدائی میں کیا انسان بادشاہی یا قانون سازی یا حکمرانی کا اہل ہو سکتا ہے؟ جیسا کہ ابھی عرض کر چکا ہوں، ایک معمولی مشین کے متعلق بھی آپ یہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اناڑی شخص جو ا س کی مشینری سے واقف نہ ہو، اسے چلائے گا تو بگاڑ دے گا۔ ذرا کسی ناواقف آدمی سے ایک موٹر ہی چلوا کر دیکھ لیجیے۔ ابھی آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس حماقت کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اب ذرا خود سوچیے کہ لوہے کی ایک مشین کا حال جب یہ ہے کہ صحیح علم کے بغیر اس کو استعمال نہیں کیا جا سکتا تو انسان، جس کی نفسیات انتہا درجہ کی پیچیدہ ہیں، جس کی زندگی کے معاملات بے شمار پہلو رکھتے ہیں اور ہر پہلو میں لاکھوں گتھیاں ہیں، اس کی پیچ در پیچ مشینری کو وہ لوگ چلا سکتے ہیں جو دوسروں کو جاننا اور سمجھنا تو درکنار خود اپنے آپ کو بھی اچھی طرح نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے؟ ایسے اناڑی جب قانون ساز بن بیٹھیں گے اور ایسے نادان جب انسانی زندگی کی ڈرائیوری پر آمادہ ہوں گے تو کیا اس کا انجام کسی اناڑی شخص کے موٹر چلانے کے انجام سے کچھ بھی مختلف ہو سکتا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجائے انسانوں کا بنایا ہوا قانون مانا جا رہا ہے اور جہاں خدا کی اطاعت سے بے نیاز ہو کر انسان حکم چلا رہے اور انسان ان کا حکم مان رہے ہیں، کسی جگہ بھی امن نہیں ہے۔ کسی جگہ بھی آدمی کو چین نصیب نہیں۔ کسی جگہ بھی انسانی زندگی کی کل سیدھی نہیں چلتی۔ کشت و خون ہو رہے ہیں۔ ظلم اور بے انصافی ہو رہی ہے۔ لوٹ کھسوٹ برپا ہے۔ آدمی کا خون آدمی چوس رہا ہے۔ اخلاق تباہ ہو رہے ہیں۔ صحبتیں برباد ہو رہی ہیں۔ تمام طاقتیں جو خدا نے انسان کو دی تھیں، انسان کے فائدے کے بجائے اس کی تباہی اور بربادی میں صرف ہو رہی ہیں۔ یہ مستقل دوزخ جو اسی دنیا میں انسان نے اپنے لیے آپ اپنے ہاتھوں بنا لی ہے، اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس نے بچوں کی طرح شوق میں آ کر اس مشین کو چلانے کی کوشش کی جس کے کل پرزوں سے وہ واقف ہی نہیں۔ اس مشین کو جس نے بنایا ہے وہی اس کے رازوں کو جانتا ہے۔ وہی اس کی فطرت سے واقفیت رکھتا ہے۔ اسی کو ٹھیک ٹھیک معلوم ہے کہ یہ کس طرح صحیح چل سکتی ہے۔ اگر آدمی اپنی حماقت سے باز آ جائے اور اپنی جہالت تسلیم کر کے اس قانون کی پابندی کرنے لگے جو خود اس مشین کے بنانے والے نے مقرر کیا ہے، تب تو جو کچھ بگڑا ہے وہ پھر بن سکتا ہے، ورنہ ان مصیبتوں کا کوئی حل ممکن نہیں۔
بے انصافی کیوں ہے؟
آپ ذرا اور گہری نظر سے دیکھیں تو آپ کو جہالت کے سوا اپنی زندگی کے بگاڑ کی ایک اور وجہ بھی نظر آئے گی۔
ذرا سی عقل یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کسی ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کا نام نہیں ہے۔ تمام دنیا کے انسان بہرحال انسان ہیں۔ تمام انسانوں کو جینے کا حق ہے۔ سب اس کے حق دار ہیں کہ ان کی ضرورتیں پوری ہوں سب امن کے، انصاف کے، عزت اور شرافت کے مستحق ہیں۔ انسانی خوش حالی اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ کسی ایک شخص یا خاندان یا قوم کی خوش حالی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی خوش حالی ہے۔ ورنہ ایک خوش حال ہو اور دس بدحال ہوں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان خوش حال ہے۔ فلاح اگر کسی چیز کو کہتے ہیں تو وہ تمام انسانوں کی فلاح ہے نہ کہ کسی ایک طبقہ کی یا ایک قوم کی۔ ایک کی فلاح اور دس کی بربادی کو آپ انسانی فلاح نہیں کہہ سکتے۔
اس بات کو اگر آپ صحیح سمجھتے ہیں تو غور کیجیے کہ انسانی فلاح اور خوش حالی کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ انسانی زندگی کے لیے قانون وہ بنائے جس کی نظر میں تمام انسان یکساں ہوں۔ سب کے حقوق، انصاف کے سا تھ وہ مقرر کرے جو نہ تو خود اپنی کوئی ذاتی غرض رکھتا ہو اور نہ کسی خاندان یا طبقہ کی یا کسی ملک یا قوم کی اغراض سے اس کو خاص دلچسپی ہو۔ سب کے سب اس کا حکم مانیں۔ جو حکم دینے میں نہ اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی کرے، نہ اپنی خواہش کی بناء پر حکمرانی کے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور نہ ایک کا دشمن اور دوسرے کا دوست، ایک کا طرف دار اور دوسرے کا مخالف، ایک کی طرف مائل اور دوسرے سے منحرف ہو۔ صرف اسی صورت میں عدل قائم ہو سکتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں، تمام قوموں، تمام طبقوں اور تمام گروہوں کو ان کے جائز حقوق پہنچ سکتے ہیں۔ یہی ایک صورت ہے جس سے ظلم مٹ سکتا ہے۔
اگر یہ بات بھی درست ہے تو پھر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا بے لاگ، ایسا غیر جانبدار، ایسا بے غرض، اور اس قدر انسانی کمزوریوں سے بالاتر ہو سکتا ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی شخص میرے اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی جرات نہ کرے گا۔ یہ شان صرف خدا ہی کی ہے۔ کوئی دوسرا اس شان کا نہیں ہے۔ انسان خواہ کتنے ہی بڑے دل گردے کا ہو، بہرحال وہ اپنی کچھ ذاتی اغراض رکھتا ہے۔ کچھ دلچسپیاں رکھتا ہے۔ کسی سے اس کا تعلق زیادہ ہے اور کسی سے کم، کسی سے اس کو محبت ہے اور کسی سے نہیں ہے۔ ان کمزوریوں سے کوئی انسان پاک نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجائے انسانوں کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہے۔ وہاں کسی نہ کسی صورت میں ظلم اور بے انصافی ضرور موجود ہے۔
ان شاہی خاندانوں کو دیکھیے جو زبردستی اپنی طاقت کے بل بوتے پر امتیازی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے لیے وہ عزت، وہ ٹھاٹھ، وہ آمدنی، وہ حقوق، اور وہ اختیارات مخصوص کر رکھے ہیں جو دوسروں کے لیے نہیں ہیں۔ یہ قانون سے بالاتر ہیں۔ ان کے خلاف کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ چاہے کچھ کریں ان کے مقابلہ میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی۔ کوئی عدالت ان کے نام سمن نہیں بھیج سکتی۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ غلطیاں کرتے ہیں مگر کہا جاتا ہے اور ماننے والے مان بھی لیتے ہیں کہ ’’بادشاہ غلطی سے پاک ہے‘‘، دنیا دیکھتی ہے کہ یہ معمولی انسان ہیں، جیسے اور سب انسان ہوتے ہیں۔ مگر یہ خدا بن کر سب سے اونچے بیٹھتے ہیں اور لوگ ان کے سامنے یوں ہاتھ باندھے، سرجھکائے، ڈرے سہمے کھڑے ہوتے ہیں گویا ان کا رزق، ان کی زندگی، ان کی موت سب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ رعایا کا پیسہ اچھے اور برے ہر طریقے سے گھسیٹتے ہیں اور اسے اپنے محلوں پر، اپنی سواریوں پر اپنے عیش و آرام اور اپنی تفریحوں پر بے دریغ لٹاتے ہیں۔ ان کے کتوں کو وہ روٹی ملتی ہے جو کما کر دینے والی رعایا کو نصیب نہیں ہوتی۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ طریقہ کسی ایسے عادل کا مقرر کیا ہوا ہو سکتا ہے جس کی نگاہ میں سب انسانوں کے حقوق اور مفاد یکساں ہوں ؟ کیا یہ لوگ انسانوں کے لیے کوئی منصفانہ قانون بنا سکتے ہیں ؟
ان برہمنوں اور پیروں کو دیکھیے۔ ان نوابوں اور رئیسوں کو دیکھیے۔ ان جاگیرداروں اور زمینداروں کو دیکھیے۔ ان ساہوکاروں اور مہاجنوں کو دیکھیے۔ یہ سب طبقے اپنے آپ کو عام انسانوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین دنیا میں بنے ہیں وہ انہیں ایسے حقوق دیتے ہیں جو عام انسانوں کو نہیں دیئے گئے۔ یہ پاک ہیں اور دوسرے ناپاک۔ یہ شریف ہیں اور دوسرے کمین۔ یہ اونچے ہیں اور دوسرے نیچے۔ یہ لوٹنے کے لیے ہیں اور دوسرے لٹنے کے لیے۔ ان کے نفس کی خواہشوں پر لوگوں کی جان، مال، عزت، آبرو ہر ایک چیز قربان کر دی جاتی ہے۔ کیا یہ ضابطے کسی منصف کے بنائے ہوئے ہو سکتے ہیں ؟ کیا ا ن میں صریح طور پر خود غرضی اور جانبداری نظر نہیں آتی؟ کیا اس سوسائٹی میں منصفانہ قوانین بن سکتے ہیں جس پر یہ لوگ چھائے ہوئے ہوں ؟
ان حاکم قوموں کو دیکھیے جو اپنی طاقت کے بل پر دوسری قوموں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا کونسا قانون اور کونسا ضابطہ ایسا ہے جس میں خود غرضی شامل نہیں ہے؟ یہ اپنے آپ کو انسان اعلیٰ کہتے ہیں۔ بلکہ درحقیقت صرف اپنے ہی کو انسان سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کمزور قوموں کے لوگ یا تو انسان ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو ادنیٰ درجے کے ہیں۔ یہ ہر حیثیت سے اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا ہی رکھتے ہیں اور اپنی اغراض پر دوسروں کے مفاد کو قربان کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے زورو اثر سے جتنے قوانین اور ضوابط دنیا میں بنے ہیں، ان سب میں یہ رنگ موجود ہے۔
یہ چند مثالیں میں نے محض اشارے کے طور پر دی ہیں۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ میں صرف یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی انسان نے قانون بنایا ہے، وہاں بے انصافی ضرور ہوئی ہے۔ کچھ انسانوں کو ان کے جائز حقوق سے بہت زیادہ دیا گیا ہے اور کچھ انسانوں کے حقوق نہ صرف پامال کیے گئے ہیں بلکہ انہیں انسانیت کے درجہ سے گرا دینے میں بھی تامل نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ جب کسی معاملہ کا فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر اپنی ذات، یا اپنے خاندان، یا اپنی نسل، یا اپنے طبقے یا اپنی قوم ہی کے مفاد کا خیال مسلط رہتا ہے۔ دوسروں کے حقوق اور مفاد کے لیے اس کے پاس وہ ہمدردی کی نظر نہیں ہوتی جو اپنوں کے لیے ہوتی ہے۔
مجھے بتایئے، کیا اس بے انصافی کا کوئی علاج اس کے سوا ممکن ہے کہ تمام انسانی قوانین کو دریا برد کر دیا جائے، اور اس خدائی قانون کو ہم سب تسلیم کر لیں جس کی نگاہ میں ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف اس کے اخلاق، اس کے اعمال، اور اس کے اوصاف کے لحاظ سے ہے، نہ کہ نسل یا طبقے یا قومیت یا رنگ کے لحاظ سے۔
امن کس طرح قائم ہو سکتا ہے؟
صاحبو! اس معاملہ میں ایک اور پہلو بھی ہے جسے میں نظر انداز نہیں کر سکتا۔ آپ جانتے ہیں کہ آدمی کو قابو میں رکھنے والی چیز صرف ذمہ داری کا احساس ہی ہے۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو جائے کہ وہ جو چاہے کرے، کوئی اس سے جواب طلب کرنے والا نہیں ہے اور نہ اس کے اوپر ایسی کوئی طاقت ہے جو اسے سزا دے سکے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ شتر بے مہار بن جائے گا۔ یہ بات جس طرح ایک شخص کے معاملہ میں صحیح ہے۔ اسی طرح ایک خاندان، ایک قوم اور تمام دنیا کے انسانوں کے معاملہ میں بھی صحیح ہے۔ ایک خاندان جب یہ محسوس کرتا ہے کہ اس سے کوئی جواب طلب نہیں کر سکتا تو وہ قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ ایک طبقہ بھی ذمہ داری اور جواب دہی سے بے خوف ہو جاتا ہے تو دوسروں پر ظلم ڈھانے میں اسے کوئی تامل نہیں ہوتا۔ ایک قوم یا ایک سلطنت بھی جب اپنے آپ کو اتنا طاقتور پاتی ہے کہ زیادتی کے کسی برے نتیجہ کا خوف اسے نہیں ہوتا تو وہ جنگل کے بھیڑیئے کی طرح کمزور بکریوں کو پھاڑنا شروع کر دیتی ہے۔ دنیا میں جتنی بدامنی پائی جاتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ جب تک انسان اپنے سے بالاتر کسی اقتدار کو تسلیم نہ کرے، اور جب تک اسے یقین نہ ہو کہ مجھ سے اوپر کوئی ایسا ہے جس کو مجھے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور جس کے ہاتھ میں اتنی طاقت ہے کہ مجھے سزا دے سکتا ہے، اس وقت تک یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ظلم کا دروازہ بند ہو اور صحیح امن قائم ہو سکے۔
اب مجھے بتایئے کہ ایسی طاقت سوائے خداوند عالم کے اور کون سی ہو سکتی ہے؟خود انسانوں میں سے تو کوئی ایسا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جس انسان، یا جس انسانی گروہ کو بھی آپ یہ حیثیت دیں گے، اس کے شتر بے مہار ہو جانے کا امکان ہے۔ خوداس سے یہ اندیشہ ہے کہ تمام فرعونوں کا ایک فرعون وہ ہو جائے گا اور خود اس سے یہ خطرہ ہے کہ خود غرضی اور جانبداری سے کام لے کر وہ بعض انسانوں کو گرائے گا اور بعض کو اٹھائے گا۔ یورپ نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مجلس اقوام بنائی تھی مگر بہت جلدی وہ سفید رنگ والی قوموں کی مجلس بن کر رہ گئی اور اس نے چند طاقت ور سلطنتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن کر کمزور قوموں کے ساتھ بے انصافی شروع کر دی۔ اس تجربے کے بعد کوئی ایسی طاقت برآمد ہونی ناممکن ہے جس کی باز پرس کا خوف فرداً فرداً ایک شخص سے لے کر دنیا کی قوموں اور سلطنتوں تک کو قابو میں رکھ سکتا ہو۔ ایسی طاقت لامحالہ انسانی دائرہ سے باہر اور اس سے اوپر ہی ہونی چاہیے اور وہ صرف خداوند عالم ہی کی طاقت ہو سکتی ہے۔ ہم اگر اپنی بھلائی چاہتے ہیں تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں کہ خدا پر ایمان لائیں، اس کی حکومت کے آگے اپنے آپ کو فرماں بردار رعیت کی طرح سپرد کر دیں، اور اس یقین کے ساتھ دنیا میں زندگی بسر کریں کہ وہ ہمارے چھپے اور کھلے سب کاموں کو جانتا ہے اور ایک دن ہمیں اس کی عدالت میں اپنی پوری زندگی کے کارنامے کا حساب دینا ہے۔ ہمارے شریف اور پرامن انسان بننے کی بس یہی ایک صورت ہے۔
ایک شبہ
اب میں اپنی تقریر کو ختم کرنے سے پہلے ایک شبہ کو صاف کر دینا ضروری سمجھتا ہوں جو غالباً آپ میں سے ہر ایک کے دل میں پیدا ہو رہا ہو گا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے جب خدا کی حکومت اتنی زبردست ہے کہ خاک کے ایک ذرہ سے لے کر چاند اور سورج تک ہر چیز اس کے قابو میں ہے اور جب انسان اس کی حکومت میں محض ایک رعیت کی حیثیت رکھتا ہے تو آخر یہ ممکن کس طرح ہوا کہ انسان اس کی حکومت کے خلاف بغاوت کرے اور خود اپنی بادشاہی کا اعلان کر کے اس کی رعیت پر اپنا قانون چلائے ؟ کیوں نہیں خدا اس کا ہاتھ پکڑ لیتا اور کیوں اسے سزا نہیں دیتا؟
اس سوال کا جواب میں آپ کو ایک سیدھی مثال سے دوں گا۔
فرض کیجیے کہ ایک بادشاہ کسی شخص کو اپنے ملک کے کسی ضلع کا افسر بنا کر بھیجتا ہے۔ ملک بادشاہ ہی کا ہے۔ رعیت بھی اسی کی ہے۔ ریل، ٹیلیفون، تار، فوج اور دوسری تمام طاقتیں بھی بادشاہ کے ہاتھ میں ہیں۔ بادشاہ کی سلطنت اس ضلع پر چاروں طرف سے اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ اس چھوٹے سے ضلع کا افسر اس کے مقابلہ میں بالکل عاجز ہے۔ اگر بادشاہ چاہے تو اس کو پوری طرح مجبور کر سکتا ہے کہ اس کے حکم سے بال برابر منہ نہ موڑ سکے۔ لیکن بادشاہ اس افسر کی عقل کا، اس کے ظرف کا اور اس کی لیاقت کا امتحان لینا چاہتا ہے اس لیے وہ اس پر سے اپنی گرفت اتنی ڈھیلی کر لیتا ہے کہ اسے اپنے اوپر کوئی بالاتر اقتدار محسوس نہیں ہوتا۔
اب اگر وہ افسر عقل مند، نمک حلال، فرض شناس اور وفادار ہے تو اس ڈھیلی گرفت کے باوجود اپنے آپ کو رعیت اور ملازم ہی سمجھتا رہے گا۔ بادشاہ کے ملک میں اسی کے قانون کے مطابق حکومت کرے گا اور جو اختیارات بادشاہ نے اسے دیئے ہیں انہیں خود بادشاہ کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا رہے گا۔ اس وفا دارانہ طرز عمل سے اس کی اہلیت ثابت ہو گی اور بادشاہ اسے زیادہ بلند مرتبوں کے قابل پا کر ترقیوں پر ترقیاں دیتا چلا جائے گا۔
لیکن فرض کیجیے کہ ایک افسر بے وقوف، نمک حرام، کم ظرف اور شریر ہے اور رعیت کے وہ لوگ جو اس ضلع میں رہتے ہیں جاہل، بزدل اور نادان ہیں۔ اپنے اوپر سلطنت کی گرفت ڈھیلی پا کر وہ بغاوت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اس کے دماغ میں خودمختاری کی ہوا بھر جاتی ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو ضلع کا مالک سمجھ کر خود سرا نہ حکومت کرنے لگتا ہے اور جاہل رعیت کے لوگ محض یہ دیکھ کر اس کی خود مختارانہ حکومت تسلیم کر لیتے ہیں کہ تنخواہ یہ دیتا ہے، پولیس اس کے پاس ہے، عدالتیں اس کے ہاتھ میں ہیں جیل کی ہتھکڑیاں اور پھانسی کے تختے اس کے قبضے میں ہیں، اور ہماری قسمت کو بنانے، یا بگاڑنے کے اختیارات یہ رکھتا ہے۔
بادشاہ اس اندھی رعیت اور اس باغی افسر دونوں کے طرز عمل کو دیکھتا ہے۔ چاہے تو فوراً پکڑ لے اور ایسی سزا دے کہ ہوش ٹھکانے نہ رہیں۔ مگر وہ اس حاکم ضلع اور اس رعیت دونوں کی پوری آزمائش کرنا چاہتا ہے، اس لیے وہ نہایت تحمل اور بردباری کے ساتھ انہیں ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے تاکہ جتنی نالائقیاں ان کے اندر بھری ہوئی ہیں پوری طرح ظاہر ہو جائیں۔ اس کی طاقت اتنی زبردست ہے کہ اسے اس بات کا خوف ہی نہیں ہے کہ یہ افسر کبھی زور پکڑ کر اس کا تخت چھین لے۔ اسے اس بات کا بھی کوئی اندیشہ نہیں کہ یہ باغی اور نمک حرام لوگ اس کی گرفت سے نکل کر کہیں بھاگ جائیں گے۔ اس لیے اسے جلد بازی کے ساتھ فیصلہ کر دینے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ سالہاسال تک ڈھیل دیتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب یہ لوگ اپنی پوری خباثت کا اظہار کر چکتے ہیں اور کوئی کسرا س کے اظہار میں باقی نہیں رہتی، تب وہ ایک روز اپنا عذاب ان پر بھیجتا ہے، اور وہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ کوئی تدبیر اس وقت انہیں اس کے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔
صاحبو! میں اور آپ اور خدا کے بنائے ہوئے یہ افسر، سب کے سب اسی آزمائش میں مبتلا ہیں۔ ہماری عقل کا، ہمارے ظرف کا، ہماری فرض شناسی کا، ہماری وفاداری کا سخت امتحان ہو رہا ہے۔ اب ہم میں سے ہر شخص کو خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے اصلی بادشاہ کا نمک حلال افسر یا رعیت بننا پسند کرتا ہے یا نمک حرام ؟ میں نے اپنی جگہ نمک حلالی کا فیصلہ کیا ہے اور میں ہر اس شخص سے باغی ہوں جو خدا سے باغی ہے۔ آپ اپنے فیصلہ میں مختار ہیں۔ چاہیں یہ راستہ اختیار کریں یا وہ۔ ایک طرف وہ نقصانات اور وہ فائدے ہیں جو خدا کے یہ باغی ملازم پہنچا سکتے ہیں۔ دوسری طرف وہ نقصانات اور وہ فائدے ہیں جو خود خدا پہنچا سکتا ہے۔ دونوں میں سے آپ جس کا انتخاب کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔
شہادتِ حق ۔ اُمتِ مسلمہ کا فرض اور مقصدِوجود
(یہ تقریر ۳۰ دسمبر ۱۹۴۶ء کو جماعت اسلامی لاہور کمشنری کے اجتماع میں بمقام مراد پور متصل سیالکوٹ کی گئی)
ساری تعریف اس خدا کے لیے ہے جو کائنات کا تنہا خالق، مالک اور حاکم ہے۔ جو کمال درجہ کی حکمت، قدرت اور رحمت کے ساتھ اس میں فرماں روائی کر رہا ہے۔ جس نے انسان کو پیدا کیا، اس کو علم و عقل کی قوتیں بخشیں، اسے زمین میں اپنی خلافت سے سرفراز کیا اور اس کی رہنمائی کے لیے کتابیں اتاریں اور پیغمبر بھیجے۔ پھر خدا کی رحمتیں ہوں اس کے ان نیک اور برگزیدہ بندوں پر جو انسان کو انسانیت سکھانے آئے۔ جنہوں نے آدمی کو ان کے مقصدِ زندگی سے خبردار کیا۔ اور اسے دنیا میں جینے کا صحیح طریقہ بتایا۔ آج دنیا میں ہدایت کی روشنی، اخلاق کی پاکیزگی اور نیکی و پرہیز گاری جو کچھ بھی پائی جاتی ہے۔ وہ سب خدا کے انہی برگزیدہ بندوں کی رہنمائی کی بدولت ہے اور انسان کبھی ان کے بارِ احسان سے سبکدوش نہیں ہو سکتا۔
عزیزو اور دوستو! ہم اپنے اجتماعات کو دو حصوں میں تقسیم کیا کرتے ہیں ایک حصہ اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ ہم خود آپس میں بیٹھ کر اپنے کام کا جائزہ لیں۔ اور اسے آگے بڑھانے کے لیے باہم مشورہ کریں۔ دوسرا حصہ اس مقصد کے لیے ہوتا ہے کہ جس مقام پر ہمارا اجتماع ہو، وہاں کے عام باشندوں کے لیے ہم اپنی دعوت کو پیش کریں۔ اس وقت کا یہ اجتماع اسی دوسری غرض کے لیے ہے۔ ہم نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ کو بتائیں کہ ہماری دعوت کیا ہے اور کس چیز کی طرف ہم بلاتے ہیں۔
ہماری دعوت کا خطاب ایک تو ان لوگوں سے ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں۔ دوسرے ان عام بندگانِ خدا سے جو مسلمان نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے ہمارے پاس ایک پیغام ہے۔ مگر افسوس یہ کہ یہاں دوسرے گروہ کے لوگ مجھے نظر نہیں آتے۔ یہ ہماری پچھلی غلطیوں اور آج کی بے تدبیریوں کا نتیجہ ہے کہ خدا کے بندوں کا یک بہت بڑا حصہ ہم سے دُور ہو گیا ہے اور مشکل ہی سے کبھی ہم یہ موقع پاتے ہیں کہ ان کو اپنے پاس بلا کر یا خود ان کے قریب جا کر وہ پیغام ان کو سنائیں جو اُن کے اور ہمارے خدا نے ہم سب کی رہنمائی کے لیے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ بہرحال اب کہ وہ موجود نہیں ہیں، میں دعوت کے صرف اس حصہ کو پیش کروں گا جو مسلمانوں کے لیے خاص ہے۔
مسلمانوں کو ہم جس چیز کی طرف بلاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ادا کریں جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ آپ صرف اتنا کہہ کر نہیں چھوٹ سکتے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم نے خدا کو اور اس کے دین کو مان لیا ہے۔ بلکہ جب آپ نے خدا کو اپنا خدا اور اس کے دین کو اپنا دین مانا ہے تو اس کے ساتھ آپ پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ جن کا آپ کو شعور ہونا چاہیے۔ جن کے ادا کرنے کی آپ کو فکر ہونی چاہیے۔ اگر آپ انہیں ادا نہ کریں گے تو اس کے وبال سے دنیا میں چھوٹ سکیں گے نہ آخرت میں۔
وہ ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ وہ صرف یہی نہیں کہ آپ خدا پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آئیں وہ صرف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ معاملات میں اسلام کے مقر رکیے ہوئے ضابطے پر عمل کریں، بلکہ ان سب کے علاوہ ایک بڑی اور بہت بھاری ذمہ داری آپ پر یہ عائد ہوتی ہے کہ آپ تمام دنیا کے سامنے اس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں، جس پر ایمان لائے ہیں۔ ’’مسلمان‘‘ کے نام سے آپ کو ایک مستقل امت بنانے کی واحد غرض جو قرآن میں بیان کی گئی ہے، وہ یہی ہے کہ آپ تمام بندگانِ خد اپر شہادتِ حق کی حجت پوری کریں۔
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُٰوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (البقرہ ۲: ۱۴۳)
اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک بیچ کی امت بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
یہ آپ کی امت کا عین مقصد وجود ہے جسے آپ نے پور انہ کیا تو گویا اپنی زندگی ہی اکارت گنوا دی۔ یہ آپ پر خدا کا عائد کیا ہوا فرض ہے کیونکہ خدا کا حکم ہے کہ:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ للہ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ (المائدہ۵: ۸)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا کی خاطر اٹھنے والے اور ٹھیک ٹھیک راستی کی گواہی دینے والے بنو۔
اور یہ نرا حکم ہی نہیں بلکہ تاکیدی حکم ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَھَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللہ۔ (البقرہ ۲: ۱۴۰)
اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس فرض کو انجام نہ دینے کا نتیجہ کیا ہے۔ آپ سے پہلے اس گواہی کے کٹہرے میں یہودی کھڑے کیے گئے تھے۔ مگر انہوں نے کچھ تو حق کو چھپایا اور کچھ حق کے خلاف گواہی دی اور فی الجملہ حق کے نہیں بلکہ باطل کے گواہ بن کر رہ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے انہیں دھتکار دیا اور ان پر وہ پھٹکار پڑی کہ:
ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہ (البقرۃ ۲: ۶۱)
ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔
یہ شہادت جس کی ذمہ داری آپ پر ڈالی گئی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ جو حق آپ کے پاس آیا ہے، جو صداقت آپ پر منکشف کی گئی ہے، آپ دنیا کے سامنے اس کے حق اور صداقت ہونے پر اور اس کے راہ راست ہونے پر گواہی دیں۔ ایسی گواہی جو اس کے حق اور راستی ہونے کو مبرہن کر دے اور دنیا کے لوگوں پر دین کی حجت پوری کر دے۔ اسی شہادت کے لیے انبیاء علیہم السلام دنیا میں بھیجے گئے تھے اور اس کا ادا کرنا ان پر فرض تھا۔ پھر یہی شہادت تمام انبیاء کے بعد ان کی امتوں پر فرض ہوتی رہی۔ اور اب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ فرض امتِ مسلّمہ پر بحیثیت مجموعی اسی طرح عائد ہوتا ہے جس طرح حضورؐ پر آپ کی زندگی میں شخصی حیثیت سے عائد تھا۔
اس گواہی کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ نوعِ انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے بازپرس اور جزا و سزا کا جو قانون مقرر کیا ہے اس کی ساری بنیاد اس گواہی پر ہے۔ اللہ تعالیٰ حکیم و رحیم اور قائم بالقسط ہے۔ اس کی حکمت و رحمت اور اس کے انصاف سے یہ بعید ہے کہ لوگوں کو اس کی مرضی نہ معلوم ہو اور وہ انہیں اس بات پر پکڑے کہ وہ اس کی مرضی کے خلاف چلے۔ لوگ نہ جانتے ہوں کہ راہ راست کیا ہے اور وہ ان کی کج روی پر ان سے مواخذہ کرے۔ لوگ اس سے بے خبر ہوں کہ ان سے کس چیز کی بازپرس ہونی ہے اور وہ انجانی چیز کی ان سے بازپرس کرے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آفرینش کی ابتدا ہی ایک پیغمبر سے کی اور پھر وقتاً فوقتاً بے شمار پیغمبر بھیجے۔ تاکہ وہ نوعِ انسانی کو خبردار کریں کہ تمہارے معاملہ میں تمہارے خالق کی مرضی یہ ہے۔ تمہارے لیے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے، یہ رویہ ہے جس سے تم اپنے مالک کی رضا کو پہنچ سکتے ہو، یہ کام ہیں جن سے تم کو بچنا چاہیے اور یہ امور ہیں جن کی تم سے بازپرس کی جائے گی۔
یہ شہادت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں سے دلوائی، اس کی غرض قرآن مجید میں صاف صاف یہی بتائی گئی ہے کہ لوگوں کو اللہ پر یہ حجت قائم کرنے کا موقع باقی نہ رہے کہ ہم بے خبر تھے۔ اور آپ ہمیں اس چیز پر پکڑتے ہیں، جس سے ہم کو خبردار نہ کیا گیا تھا۔
رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہ حُجَّۃٌ م بَعْدَ الرُّسُلِ۔ وَکَانَ اللہ عَزِیْزًا حَکِیْمًا (النساء ۴: ۱۶۴)
رسول خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی حجت اپنے اوپر سے اتار کر پیغمبروں پر ڈال دی اور پیغمبر اس اہم ذمہ داری کے منصب پر کھڑے کر دیئے گئے کہ اگر وہ شہادتِ حق کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کر دیں تو لوگ اپنے اعمال پر خودبازپرس کے مستحق ہوں، اور اگر ان کی طرف سے ادائے شہادت میں کوتاہی ہو تو لوگوں کی گمراہی و کج روی کا مواخذہ پیغمبروں سے کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں پیغمبروں کے منصب کی نزاکت یہ تھی کہ یا تو وہ حق کی شہادت ٹھیک ٹھیک ادا کر کے لوگوں پر حجت قائم کریں ورنہ لوگوں کی حجت اُلٹی ان پر قائم ہوئی جاتی تھی کہ خدا نے حقیقت کا جو علم آپ حضرات کو دیا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ پہنچایا۔ اور جو صحیح طریقِ زندگی اس نے آپ کو بتایا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ بتایا۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنے اوپر اس ذمہ داری کے بار کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے تھے اور اسی بنا پر انہوں نے اپنی طرف سے حق کی شہادت ادا کرنے اور لوگوں پر حجت تمام کر دینے کی جان توڑ کوششیں کیں۔
پھر انبیاء کے ذریعہ سے جن لوگوں نے حق کا علم اور ہدایت کا راستہ پایا وہ ایک امّت بنائے گئے اور وہی منصبِ شہادت کی ذمہ داری، جس کا بار انبیاء پر ڈالا گیا تھا، اب اس امت کے حصہ میں آئی۔ انبیاء کی قائم مقام ہونے کی حیثیت سے اس کا یہ مقام قرار پایا کہ اگر یہ امت شہادت کا حق ادا کر دے اور لوگ درست نہ ہوں تو یہ اجر پائے گی اور لوگ پکڑے جائیں گے۔ اور یہ حق کی شہادت دینے میں کوتاہی کرے، یا حق کے بجائے الٹی باطل کی شہادت دینے لگے تو لوگوں سے پہلے یہ پکڑی جائے گی۔ اس سے خود اس کے اعمال کی بازپرس بھی ہو گی اور ان لوگوں کے اعمال کی بھی جو اس کے صحیح شہادت نہ دینے یا غلط شہادت دینے کی وجہ سے گمراہ اور مفسد اور غلط کار رہے۔
حضرات! یہ ہے شہادت حق کی وہ نازک ذمہ داری جو مجھ پر، آپ پر اور ان سب لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو اپنے کو امتِ مسلمہ کہتے ہیں اور جن کے پاس خدا کی کتاب اور ان کے انبیاء کی ہدایت پہنچ چکی ہے۔ اب دیکھیے کہ اس شہادت کے ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے۔
شہادتیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک قولی شہادت، دوسرے عملی شہادت۔ قولی شہادت کی صورت یہ ہے کہ ہم زبان اور قلم سے دنیا پر اس حق کو واضح کریں، جو انبیاء کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے۔ سمجھانے اور دل نشین کرنے کے جتنے طریقے ممکن ہیں ان سب سے کام لے کر، تبلیغ و دعوت اور نشر و اشاعت کے جتنے ذرائع ممکن ہیں ان سب کو استعمال کر کے، علوم و فنون نے جس قدر مواد فراہم کیا ہے وہ سب اپنے ہاتھ میں لے کر ہم دنیا کو اس دین کی تعلیم سے روشناس کریں جو خدا نے انسان کے لیے مقرر کیا ہے۔ فکر و اعتقاد میں، اخلاق و سیرت میں، تمدن و معاشرت میں، کسب معاش اور لین دین میں، قانون اور نظم عدالت میں، سیاست اور تدبیر مملکت میں اور بین الانسانی معاملات کے تمام دوسرے پہلوؤں میں، اس دین نے انسان کی رہنمائی کے لیے جو کچھ پیش کیا ہے اسے ہم خوب کھول کھول کر بیان کریں۔ دلائل اور شواہد سے اس کا حق ہونا ثابت کریں اور جو کچھ اس کے خلاف ہے اس پر معقول تنقید کر کے بتائیں کہ اس میں کیا خرابی ہے۔ اس قولی شہادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا جب تک کہ امت مجموعی طور پر ہدایتِ خلق کے لیے اسی طرح فکر مند نہ ہو جس طرح انبیاء علیہم السلام انفرادی طور اس کے لیے فکرمند رہا کرتے تھے۔ یہ حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کام ہماری تمام اجتماعی کوششوں اور قومی سعی و جہد کا مرکزی نقطہ ہو۔ ہم اپنے دل و دماغ کی ساری قوتیں، اور اپنے سارے وسائل و ذرائع اس پر لگا دیں۔ ہمارے تمام کاموں میں یہ مقصد لازماً ملحوظ رہے اور اپنے درمیان سے کسی ایسی آواز کے اٹھنے کو تو کسی حال میں ہم برداشت ہی نہ کریں جو حق کے خلاف شہادت دینے والی ہو۔
رہی عملی شہادت تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ان اصولوں کا عملاً مظاہرہ کریں جن کو ہم حق کہتے ہیں۔ دنیا صرف ہماری زبان ہی سے ان کی صداقت کا ذکر نہ سنے بلکہ خود اپنی آنکھوں سے ہماری زندگی میں ان کی خوبیوں اور برکتوں کا مشاہدہ کر لے۔ وہ ہمارے برتاؤ میں اُس شیرینی کا ذائقہ چکھ لے جو ایمان کی حلاوت سے انسان کے اخلاق و معاملات میں پیدا ہوتی ہے۔ وہ خود دیکھ لے کہ اس دین کی رہنمائی سے اچھے انسان بنتے ہیں۔ کیسی عادل سوسائٹی تیار ہوتی ہے۔ کیسی صالح معاشرت وجود میں آتی ہے۔ کس قدر ستھرا اورپاکیزہ تمدن پیدا ہوتا ہے کیسے صحیح خطوط پر علوم و آداب اور فنون کا نشوونما ہوتاہے۔ کیسا منصفانہ، ہمدردانہ اور بے نزاع معاشی تعاون رونما ہوتا ہے۔ انفرادی و اجتماعی زندگی کا ہرپہلو کس طرح سدھرجاتا ہے، سنور جاتا ہے اور بھلائیوں سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ اس شہادت کا حق صرف اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ ہم فرداً فرداً بھی اور قومی حیثیت سے بھی اپنے دین کی حقانیت پر مجسم شہادت بن جائیں۔ ہمارے افراد کا کردار اس کی صداقت کا ثبوت دے۔ ہمارے گھر اس کی خوشبو سے مہکیں۔ ہماری دوکانیں اور ہمارے کارخانے اس کی روشنی سے جگمگائیں۔ ہمارے ادارے اور ہمارے مدرسے اس کے نور سے منور ہوں۔ ہمارا لٹریچر اور ہماری صحافت اس کی خوبیوں کی سند پیش کرے۔ ہماری قومی پالیسی اور اجتماعی سعی و جہد اس کے برحق ہونے کی روشن دلیل ہو۔ غرض ہم سے جہاں اور جس حیثیت میں بھی کسی شخص یا قوم کو سابقہ پیش آئے، وہ ہمارے شخصی اور قومی کردار میں اس بات کا ثبوت پا لے کہ جن اصولوں کو ہم حق کہتے ہیں وہ واقعی حق ہیں اور ان سے فی الواقع انسانی زندگی اصلح اور اعلیٰ و ارفع ہو جاتی ہے۔ پھر یہ بھی عرض کروں کہ اس شہادت کی تکمیل اگر ہو سکتی ہے تو صرف اُس وقت جبکہ ایک اسٹیٹ انہی اصولوں پر قائم ہو جائے اور پُورے دین کو عمل میں لا کر اپنے عدل و انصاف سے، اپنے اصلاحی پروگرام سے، اپنے حسنِ انتظام سے، اپنے امن سے، اپنے باشندوں کی فلاح و بہبود سے، اپنے حکمرانوں کی نیک سیرت سے، اپنی صالح داخلی سیاست سے، اپنی راستبازانہ خارجی پالیسی سے، اپنی شریفانہ جنگ سے اور اپنی وفادارانہ صلح سے ساری دنیا کے سامنے اس بات کی شہادت دے کہ جس دین نے اس اسٹیٹ کو جنم دیا ہے۔ وہ درحقیقت انسانی فلاح کا ضامن ہے اور اس کی پیروی میں نوعِ انسانی کی بھلائی ہے۔ یہ شہادت جب قولی شہادت کے ساتھ مل جائے تب وہ ذمہ داری پوری طرح ادا ہو جاتی ہے جو امتِ مسلمہ پر ڈالی گئی ہے۔ تب نوعِ انسانی پر بالکل اتمامِ حجت ہو جاتا ہے۔ تب ہی ہماری امت اس قابل ہو سکتی ہے کہ آخرت کی عدالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کھڑی ہو کرشہادت دے سکے کہ جو کچھ حضورؐ نے ہم کو پہنچایا تھا، وہ ہم نے لوگوں تک پہنچا دیا اور اس پر بھی جو لوگ راہ راست پر نہ آئے وہ اپنی کج روی کے خود ذمہ دار ہیں۔
حضرات! یہ تو وہ شہادت ہے جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں قول و عمل میں دینی چاہیے تھی۔ مگر اب دیکھیے کہ آج ہم فی الواقع شہادت دے کیا رہے ہیں۔
پہلے قولی شہادت کا جائزہ لیجیے۔ ہمارے اندر ایک بہت ہی قلیل گروہ ایسا ہے جو کہیں انفرادی طور پر زبان و قلم سے اسلام کی شہادت دیتا ہے، اور اس میں بھی ایسے لوگ شاید انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو اس شہادت کو اس طرح ادا کر رہے ہیں، جیسا اس کے ادا کرنے کا حق ہے۔ اس قلیل گروہ کو اگر آپ الگ کر لیں تو آپ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کی عام شہادت اسلام کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف جا رہی ہے۔ ہمارے زمیندار شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کا قانون وراثت غلط ہے اور جاہلیت کے رواج صحیح ہیں۔ ہمارے وکیل اور جج اور مجسٹریٹ شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کے سارے ہی قوانین غلط ہیں۔ بلکہ اسلامی قانون کا بنیادی نظریہ ہی قابل قبول نہیں ہے۔ صحیح صرف وہ قوانین ہیں جو انسان نے وضع کیے ہیں اور انگریزوں کی معرفت ہمیں پہنچے ہیں۔ ہمارے معلم اور پروفیسر اور تعلیمی ادارے شہادت دے رہے ہیں کہ فلسفہ و حکمت، تاریخ و اجتماعیات، معاشیات و سیاسیات اور قانون و اخلاق کے متعلق وہی نظریات برحق ہیں جو مغرب کی ملحدانہ تعلیم سے ماخوذ ہیں۔ ان امور میں اسلام کا نقطۂ نظر قابلِ التفات تک نہیں ہے۔ ہمارے ادیب شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس بھی ادب کا وہی پیغام ہے جو امریکہ، انگلستان، فرانس اور روس کے دہری ادیبوں کے پاس ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کے ادب کی سرے سے کوئی مستقل روح ہی نہیں ہے۔ ہمارا پریس شہادت دے رہا ہے کہ ان کے پاس بھی وہی مباحث اور مسائل و پروپیگنڈا کے وہی انداز ہیں جو غیرمسلموں کے پاس ہیں۔ ہمارے تاجر اور اہل صنعت شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام نے لین دین پر جو حدود قائم کی ہیں وہ ناقابل عمل ہیں اور کاروبار صرف انہی طریقوں پر ہو سکتا ہے جن پر کفار عامل ہیں۔ ہمارے لیڈر شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس بھی قومیت اور وطنیت کے وہی نعرے ہیں، وہی قومی مقاصد ہیں، قومی مسائل کو حل کرنے کے وہی ڈھنگ ہیں، سیاست اور دستور کے وہی اصول ہیں جو کفار کے پاس ہیں۔ اسلام نے اس بارے میں کوئی رہنمائی نہیں کی ہے جس کی طرف رجوع کیا جائے۔ ہمارے عوام شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس زبان کا کوئی مصرف دنیا اور اُس کے معاملات کے سوا نہیں ہے اور وہ کوئی ایسا دین رکھتے ہی نہیں، جس کا وہ چرچا کریں یا جس کی باتوں میں وہ اپنا کچھ وقت صرف کریں۔ یہ ہے وہ قولی شہادت جو مجموعی طور پر ہماری پوری امّت اس ملک ہی میں نہیں، ساری دنیا میں دے رہی ہے۔
اب عملی شہادت کی طرف آئیے، اس کا حال قولی شہادت سے بدتر ہے بلاشبہ کہیں کہیں کچھ صالح افراد ہمارے اندر ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنی زندگی میں اسلام کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مگر سواداعظم کا حال کیا ہے؟ انفرادی طور پر عام مسلمان اپنے عمل میں اسلام کی جو نمائندگی کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کے زیر اثر پرورش پانے والے افراد کسی حیثیت سے بھی کفر کے تیار کیے ہوئے افراد سے بلند یا مختلف نہیں ہیں۔ بلکہ بہت سی حیثیتوں سے ان کہ بہ نسبت فروتر ہیں۔ وہ جھوٹ بول سکتے ہیں، وہ خیانت کر سکتے ہیں، وہ ظلم کر سکتے ہیں، وہ دھوکہ دے سکتے ہیں، وہ قول و قرار سے پھر سکتے ہیں، وہ چوری اور ڈاکہ زنی کر سکتے ہیں، وہ دنگا فساد کر سکتے ہیں، وہ بے غیرتی اور بے حیائی کے سارے کام کر سکتے ہیں۔ ان سب بداخلاقیوں میں ان کا اوسط کسی کا فر قوم سے کم نہیں ہے۔
پھر ہماری معاشرت، ہمارا رہن سہن، ہمارے رسم و رواج، ہماری تقریبات، ہمارے میلے اور عرس، ہمارے جلسے اور جلوس، غرض ہماری اجتماعی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں ہم اسلام کی کسی حد تک بھی صحیح نمائندگی کرتے ہوں۔ یہ چیز گویا اس بات کی زندہ شہادت ہے کہ اسلام کے پیروخود ہی اپنے لیے اسلام کے بجائے جاہلیت کو زیادہ قابلِ ترجیح سمجھتے ہیں۔
ہم مدرسے بناتے ہیں تو علم اور نظام تعلیم اور روحِ تعلیم سب کچھ کفار سے لیتے ہیں۔ ہم انجمنیں قائم کرتے ہیں تو مقصد، نظام اور طریق کار سب کچھ وہی رکھتے ہیں جو کفار کی کسی انجمن کا ہو سکتا ہے۔ ہماری پوری قوم بحیثیت مجموعی کوئی جدوجہد کرنے اٹھتی ہے تو اس کا مطالبہ، اس کی جدوجہد کا طریقہ، اس کی جمعیت کا دستور و نظام، اس کی تجویزیں، تقریریں اور بیانات سب کچھ ہو بہو کافر قوموں کی جدوجہد کا چربہ ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ جہاں ہماری آزاد یا نیم آزاد حکومتیں موجود ہیں وہاں بھی ہم نے اساس حکومت، نظامِ حکومت اور مجموعۂ قوانین کفار سے لے لیا ہے۔ اسلام کا قانون بعض حکومتوں میں صرف پرسنل لاء کی حد تک رہ گیا ہے اور بعض نے اس کو بھی ترمیم کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ حال میں ایک انگریز مصنف (Lawrence Bron) نے اپنی کتاب (The Prospects of Islam) میں طعنہ دیا ہے کہ:
ہم نے جب ہندوستان میں اسلام کے دیوانی اور فوجداری قوانین کو دقیانوسی اور ناقابل عمل سمجھ کر منسوخ کیا تھا اور مسلمانوں کے لیے صرف ان کے پرسنل لاء کو رہنے دیا تھا تو مسلمانوں کو یہ سخت ناگوار ہوا تھا۔ کیونکہ اس طرح ان کی پوزیشن وہی ہوئی جاتی تھی جو کبھی اسلام کی حکومت میں ذمّیوں کی تھی۔ لیکن اب صرف یہی نہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اسے پسند کر لیا ہے۔ بلکہ خود مسلمان حکومتوں نے بھی اس معاملہ میں ہماری تقلید کی ہے۔ ٹرکی اور البانیہ نے تو اس سے تجاوز کر کے قوانین نکاح و طلاق و وراثت تک میں بھی ہمارے معیارات کے مطابق ’’اصلاحات‘‘ کر دی ہیں۔ اب یہ بات کھل گئی ہے کہ مسلمانوں کا یہ تصور کہ قانون کا ماخذ ارادۂ الٰہی ہے، ایک مقدس افسانے (Pious Fiction) سے زیادہ کچھ نہ تھا۔
یہ ہے وہ عملی شہادت جوتمام دنیا کے مسلمان تقریباً متفق ہو کر اسلام کے خلاف دے رہے ہیں۔ ہم زبان سے خواہ کچھ کہیں مگر ہمارا اجتماعی عمل گواہی دے رہا ہے کہ اس دین کا کوئی طریقہ ہمیں پسند نہیں۔ اور اس کے کسی قانون میں ہم اپنی فلاح و نجات نہیں پاتے۔
یہ کتمانِ حق اور شہادتِ زُور جس کا ارتکاب ہم کر رہے ہیں، اس کا انجام بھی ہمیں وہی کچھ دیکھنا پڑا ہے جو ایسے سخت جرم کے لیے قانونِ الٰہی میں مقرر ہے۔ جب کوئی قوم خدا کی نعمت کو ٹھکراتی ہے اور اپنے خالق سے غداری کرتی ہے تو خدا دنیا میں بھی عذاب دیتا ہے اور آخرت میں بھی۔ یہودیوں کے معاملہ میں خدا کی یہ سنت پوری ہو چکی ہے اور اب ہم مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ خدا کو یہود سے کوئی ذاتی پرخاش نہ تھی کہ وہ صرف انہی کو اس جرم کی سزا دیتا۔ اور ہمارے ساتھ اس کی کوئی رشتہ داری نہیں کہ ہم اسی جرم کا ارتکاب کریں اور سزا سے بچ جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم حق کی شہادت دینے میں جتنی جتنی کوتاہی کرتے گئے ہیں اور باطل کی شہادت ادا کرنے میں ہمارا قدم جس رفتار سے آگے بڑھا ہے۔ ٹھیک اسی رفتار سے ہم گرتے چلے گئے ہیں۔ پچھلی ایک ہی صدی کے اندر مراکش سے لے کر شرق الہند تک ملک کے ملک ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ مسلمان قومیں ایک ایک کر کے مغلوب اور محکوم ہوتی چلی گئیں۔ مسلمان کا نام فخر و عزت کا نام نہ رہا، بلکہ ذلت و مسکنت اور پسماندگی کا نشان بن گیا۔ دنیا میں ہماری کوئی آبرو باقی نہ رہی۔ کہیں ہمارا قتلِ عام ہوا، کہیں ہم گھر سے بے گھر کیے گئے۔ کہیں ہم کو سوء العذاب کا مزہ چکھایا گیا اور کہیں ہم کو چاکری اور خدمت گاری کے لیے زند ہ رکھا گیا۔ جہاں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں باقی رہ گئیں وہاں بھی انہوں نے شکستوں پر شکستیں کھائیں اور آج ان کا حال یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کے خوف سے لرز رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اسلام کی قولی و عملی شہادت دینے والے ہوتے تو کفر کے علمبرداران کے خوف سے کانپ رہے ہوتے۔
دور کیوں جائیے۔ خود ہندوستان میں اپنی حالت دیکھ لیجیے ۱۔ ادائے شہادت میں جو کوتاہی آپ نے کی بلکہ الٹی خلافِ حق شہادت جو آپ اپنے قول و عمل سے دیتے رہے۔ اسی کا تو نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کا ملک آپ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ پہلے مرہٹوں اور سکھوں کے ہاتھوں آپ پامال ہوئے۔ پھر انگریز کی غلامی آپ کو نصیب ہوئی۔ اور اب پچھلی پامالیوں سے بڑھ کر پامالیاں آپ کے سامنے آ رہی ہیں۔ آج آپ کے سامنے سب سے بڑا سوال اکثریت و اقلیت کا ہے اور آپ اس اندیشے سے کانپ رہے ہیں کہ ہندو اکثریت آپ کو اپنا محکوم نہ بنا لے اور آپ وہ انجام نہ دیکھیں جو شودر قومیں دیکھ چکی ہیں۔ مگر خدارا بتائیے کہ اگر آپ اسلام کے سچے گواہ ہوتے تو یہاں کوئی اکثریت ایسی ہو سکتی تھی جس سے آپ کو کوئی خطرہ ہوتا؟ یا آج بھی اگر آپ قول و عمل سے اسلام کی گواہی دینے والے بن جائیں تو کیا یہ اقلیت و اکثریت کا سوال چند سال کے اندر ہی ختم نہ ہو جائے؟ عرب میں ایک فی لاکھ کی اقلیت کو نہایت متعصب اور ظالم اکثریت نے دنیا سے نیست و نابود کر دینے کی ٹھانی تھی۔ مگر اسلام کی سچی گواہی نے دس سال کے اندر اُسی اقلیت کو سو فی صدی اکثریت میں تبدیل کر دیا۔ پھر جب یہ اسلام کے گواہ عرب سے باہر نکلے تو پچیس سال کے اندر ترکستان سے لے کر مراکش تک قوموں کی قومیں ان کی شہادت پر ایمان لاتی چلی گئیں۔ جہاں سو فیصدی مجوسی، بت پرست اور عیسائی رہتے تھے، وہاں سو فیصدی مسلمان بسنے لگے۔ کوئی ہٹ دھرمی، قومی عصبیت، اور کوئی مذہبی تنگ نظری اتنی سخت ثابت نہ ہوئی کہ حق کی زندہ اور سچی شہادت کے آگے قدم جما سکتی۔ اب آپ اگر پامال ہو رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس سے شدید پامالی کے خطرے میں مبتلا پاتے ہیں تو یہ کتمانِ حق اور شہادتِ زور کی سزا کے سوا اور کیا ہے۔
یہ تو اس جرم کی وہ سزا ہے جو آپ کو دنیا میں مل رہی ہے۔ آخرت میں اس سے سخت تر سزا کا اندیشہ ہے۔ جب تک آپ حق کے گواہ ہونے کی حیثیت سے اپنا فرض انجام نہیں دیتے اس وقت تک دنیا میں جو گمراہی پھیلے گی، جو ظلم و فساد اور طغیان بھی برپا ہو گا، جو بداخلاقیاں اور بدکرداریاں بھی رواج پائیں گی۔ ان کی ذمہ د اری سے آپ بری نہیں ہو سکتے۔ آپ اگر ان برائیوں کے پیدا کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں تو ان کی پیدائش کے اسباب باقی رکھنے اور انہیں پھیلنے کی اجازت دینے کے ذمہ دار ضرور ہیں۔
حضرات! یہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس سے آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں کرنا کیا چاہیے تھا اور ہم کیا کر رہے ہیں۔ اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کا خمیازہ ہم کیا بھگت رہے ہیں۔ ا س پہلو سے اگر آپ حقیقت معاملہ پرنگاہ ڈالیں گے تو یہ بات خود ہی آپ پر کھل جائے گی کہ مسلمانوں نے اس ملک میں اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں جن مسائل کو اپنی قومی زندگی کے اصل مسائل سمجھ رکھا ہے اور جنہیں حل کرنے کے لیے وہ کچھ اپنے ذہن سے گھڑی ہوئی اور زیادہ تر دوسروں سے سیکھی ہوئی تدبیروں پر اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، فی الواقع ان میں سے کوئی بھی ان کا اصل مسئلہ نہیں ہے اور اس کے حل کی تدبیر میں وقت، قوت اور مال کا یہ سارا صرفہ محض ایک زیاں کاری ہے۔ یہ سوالات کہ کوئی اقلیت ایک غالب اکثریت کے درمیان رہتے ہوئے اپنے وجود اور مفاد اور حقوق کو کیسے محفوظ رکھے، اور کوئی اکثریت اپنے حدود میں وہ اقتدار کیسے حاصل کرے جو اکثریت میں ہونے کی بنا پر اسے ملنا چاہیے اور ایک محکوم قوم کسی غالب قوم کے تسلط سے کس طرح آزادہو، اور ایک کمزور قوم کسی طاقتور قوم کی دست برد سے اپنے آپ کو کس طرح بچائے اور ایک پسماندہ قوم وہ ترقی و خوش حالی اور طاقت کیسے حاصل کرے جو دنیا کی زور آور قوموں کو حاصل ہے، یہ اور ایسے ہی دوسرے مسائل غیرمسلموں کے لیے تو ضرور اہم ترین اور مقدم ترین مسائل ہو سکتے ہیں۔ مگر ہم مسلمانوں کے لیے یہ بجائے خود مستقل مسائل نہیں ہیں۔ بلکہ محض اس غفلت کے شاخسانے ہیں جو ہم اپنے اصل کام سے برتتے رہے ہیں۔ اور آج تک برتے جا رہے ہیں۔ اگر ہم نے وہ کام کیا ہوتا تو آج اتنے بہت سے پیچیدہ اور پریشان کن مسائل کا یہ جنگل ہمارے لیے پیدا ہی نہ ہوتا۔ اور اگر اب بھی اس جنگل کو کاٹنے میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے بجائے ہم اس کام پر اپنی ساری توجہ اور سعی مبذول کر دیں تو دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف ہمارے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے پریشان کن مسائل کا یہ جنگل خودبخود صاف ہو جائے۔ کیونکہ دنیا کی صفائی و اصلاح کے ذمہ دار ہم تھے۔ ہم نے اپنا فرضِ منصبی ادا کرنا چھوڑا تو دنیا خاردار جنگلوں سے بھر گئی اور ان کا سب سے زیادہ پُرخار حصہ ہمارے نصیب میں لکھا گیا۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور سیاسی رہنما اس معاملہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور ہر جگہ ان کو یہی باور کرائے جا رہے ہیں کہ تمہارے اصل مسائل وہی اقلیت و اکثریت اور آزادی< وطن اور تحفظِ قوم اور مادی ترقی کے مسائل ہیں۔ نیز یہ حضرات ان مسائل کے حل کی تدبیریں بھی مسلمانوں کو وہی کچھ بتا رہے ہیں جو انہوں نے غیرمسلموں سے سیکھی ہیں۔ لیکن میں جتنا خدا کی ہستی پر یقین رکھتا ہوں، اتنا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ یہ آپ کی بالکل غلط رہنمائی کی جا رہی ہے۔ اور ان راہوں پر چل کر آپ کبھی اپنی فلاح کی منزل کو نہ پہنچ سکیں گے۔ میں آپ کا سخت بدخواہ ہوں گا اگر لاگ لپیٹ کے بغیر آپ کو صاف صاف نہ بتا دوں کہ آپ کی زندگی کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ میرے علم میں آپ کا حال اور آپ کا مستقبل معلق ہے اس سوال پر کہ آپ اس ہدایت کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں جو آپ کو خدا کے رسول کی معرفت پہنچی ہے۔ جس نسبت سے آپ کو مسلمان کہا جاتا ہے اور جس کے تعلق سے آپ؛ خواہ چاہیں یا نہ چاہیں ؛ بہرحال دنیا میں اسلام کے نمائندے قرار پائے ہیں۔
اگر آپ اُس کی صحیح پیروی کریں اور اپنے قول اور عمل سے اس کی سچی شہادت دیں اور آپ کے اجتماعی کردار میں پورے اسلام کاٹھیک ٹھیک مظاہرہ ہونے لگے تو آپ دنیا میں سربلند اور آخرت میں سرخرو ہو کر رہیں گے۔ خوف اور حزن، ذلت اور مسکنت، مغلوبی اور محکومی کے یہ سیاہ بادل جو آپ پرچھائے ہوئے ہیں، چند سال کے اندر چھٹ جائیں گے۔ آپ کی دعوتِ حق اور سیرت صالحہ دلوں کو اور دماغوں کو متاثر کرتی چلی جائے گی۔ آپ کی ساکھ اور دھاک دنیا پر بیٹھتی جائے گی۔ انصاف کی امیدیں آپ سے وابستہ کی جائیں گی۔ بھروسا آپ کی امانت و دیانت پر کیا جائے گا۔ سند آپ کے قول کی لائی جائے گی۔ بھلائی کی توقعات آپ سے باندھی جائیں گی۔ ائمہ کفر کی کوئی ساکھ آپ کے مقابلہ میں باقی نہ رہ جائے گی۔ ان کے تمام فلسفے اور سیاسی و معاشی نظرئیے آپ کی سچائی اور راست روی کے مقابلے میں جھوٹے ملمع ثابت ہوں گے۔ جو طاقتیں آج ان کے کیمپ میں نظر آ رہی ہیں ٹوٹ ٹوٹ کر اسلام کے کیمپ میں آتی چلی جائیں گی۔ حتیٰ کہ ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہو گا۔ سرمایہ دارا نہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہو گی۔ مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہو گا۔ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پا سکے گی۔ اور یہ آج کا دور صرف تاریخ میں ایک داستانِ عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا کہ اسلام جیسی عالمگیر و جہاں کشا طاقت کے نام لیوا کبھی اتنے بیوقوف ہو گئے تھے کہ عصائے موسیٰ بغل میں تھا اور لاٹھیوں اور رسیوں کو دیکھ دیکھ کر کانپ رہے تھے۔ یہ مستقبل تو آپ کا اس صورت میں ہے جبکہ آپ اسلام کے مخلص پیرواور سچے گواہ ہوں۔ لیکن اس کے برعکس اگر آپ کا رویہ یہی رہا کہ خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت پر بار بنے بیٹھے ہیں، نہ خود اس سے مستفید ہوتے ہیں نہ دوسروں کو اس کا فائدہ پہنچنے دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر نمائندے تو اسلام کے بنے ہوئے ہیں مگر اپنے مجموعی قول و عمل سے شہادت زیادہ تر، جاہلیت، شرک، دنیا پرستی اور اخلاقی بے قیدی کی دے رہے ہیں۔ خدا کی کتاب طاق پر رکھی ہے اور رہنمائی کے لیے ہر امام کفر اور ہر منبع ضلالت کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے۔ دعویٰ خد اکی بندگی کا ہے اور بندگی ہر شیطان اور طاغوت کی، کی جا رہی ہے۔ دوستی اور دشمنی نفس کے لیے ہے اور فریق دونوں صورتوں میں اسلام کو بنایاجا رہا ہے اور اسی طرح اپنی زندگی کو بھی اسلام کی برکتوں سے محروم کر رکھا ہے اور دنیا کو بھی اس کی طرف راغب کرنے کے بجائے الٹا متنفر کر رہے ہیں۔ اور بعید نہیں کہ مستقبل اس حال سے بھی بدتر ہو۔ اسلام کالیبل اتار کر کھلم کھلا کفر اختیار کر لیجیے تو کم از کم آپ کی دنیا تو ویسی ہی بن جائے گی جیسی امریکہ، روس اور برطانیہ کی ہے۔ لیکن مسلمان ہو کر نامسلمان بنے رہنا اور خدا کے دین کی جھوٹی نمائندگی کر کے دنیا کے لیے بھی ہدایت کا دروازہ بند کر دینا وہ جرم ہے جو آپ کو دنیا میں بھی پنپنے نہ دے گا۔ اس جرم کی سزا جو قرآن میں لکھی ہوئی ہے۔ جس کا زندہ ثبوت یہودی قوم آپ کے سامنے موجود ہے، اس کو آپ ٹال نہیں سکتے۔ خواہ متحدہ قومیت کے ’’اہون البلیتین‘‘ کو اختیار کریں یا اپنی الگ قومیت منوا کر وہ سب کچھ حاصل کر لیں جو مسلم قوم پرستی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ٹلنے کی صورت صرف یہی ہے کہ اس جرم سے باز آ جائیے۔
اب میں چند الفاظ میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ہم کس غرض کے لیے اٹھے ہیں۔ ہم سب ان لوگوں کو جو اسلام کو اپنا دین مانتے ہیں یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس دین کو واقعی اپنا دین بنائیں۔ اس کو انفرادی طور پر ہر ہر مسلمان اپنی ذاتی زندگی میں بھی قائم کرے اور اجتماعی طور پر پوری قوم اپنی قومی زندگی میں بھی نافذ کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے گھروں میں، اپنے خاندان میں، اپنی سوسائٹی میں، اپنی تعلیم گاہوں میں، اپنے ادب اور صحافت میں، اپنے کاروبار اور معاشی معاملات میں، اپنی انجمنوں اور قومی اداروں میں اور بحیثیت مجموعی اپنی قومی پالیسی میں عملاً اسے قائم کریں اور اپنے قول و عمل سے دنیا کے سامنے اس کی سچی گواہی دیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمہاری زندگی کا اصل مقصد اقامتِ دین اور شہادت حق ہے۔ اس لیے تمہاری تمام سعی و عمل کا مرکز و محور اسی چیز کوہونا چاہیے۔ ہر ا س بات اور کام سے دست کش ہو جاؤ جو اس کی ضد ہو اور جس سے اسلام کی غلط نمائندگی ہوتی ہو۔ اسلام کو سامنے رکھ کر اپنے پورے قولی اور عملی رویہ پر نظرثانی کرو۔ اور اپنی تمام کوششیں اس راہ میں لگا دو کہ دین پورا کا پورا عملاً قائم ہو جائے۔ اس کی شہادت تمام ممکن طریقوں سے ٹھیک ٹھیک ادا کر دی جائے، اور اس کی طرف دنیا کو ایسی دعوت دی جائے جو اتمام حجت کے لیے کافی ہو۔
***
ناشر کی اجازت سے، تشکر: ایم بلال
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید