FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

دیدۂ حیراں ۔۱

 

کلیات بھولی بسری کہانیاں کا حصہ سوم

 

 

                مظفّرؔ حنفی

 

تہذیب و تدوین:فیروزؔ مظفر

 

 

 

 

 

 

پیش لفظ

 

مظفر حنفی سے میں غائبانہ طور پر متعارف ضرور ہوں۔ کون پڑھا لکھا نہیں ! مجھے اس کی نظمیں پڑھنے کا اکثر اتفاق ہوا ہے اور ساتھ ہی یہ احساس بھی کہ وہ ایک ذہین شاعر ہے جسے چاہے جدید نظمیں لکھنے کا جنون ہے لیکن جو کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اچھی غزل بھی کہہ لیتا ہے۔

جب مجھے اس کے افسانوں کا مسودہ ( ملاّ کی دوڑ) ملا تو مجھے خیال آیا یہ کوئی اور مظفرؔ حنفی ہے۔ یہ بات ناممکنات میں سے نہیں تھی۔ آخر جگرؔ دو ہو سکتے یں۔ ( جگرؔ مراد آبادی اور جگر بریلوی)اور آزاد تین ( محمد حسین آزادؔ، ابو الکلام آزادؔ، جگن ناتھ آزادؔ) اور ساحرؔ بے شمار تو مظفرؔ حنفی دو کیوں نہیں ہو سکتے، بعد ازاں مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ شاعر مظفرؔ حنفی اور افسانہ نویس مظفرؔ حنفی در اصل ایک ہی شخص ہے۔

عام طور پر شاعر، افسانہ نویس نہیں ہوتے اور افسانہ نویس (چاہے وہ کبھی کبھار نثر میں شاعری کرتے ہیں ) شاعر نہیں ہوتے۔ احمد ندیم قاسمی کی بات جدا ہے لیکن کیا آپ پریم چند، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور خواجہ احمد عباس سے کبھی توقع کر سکتے ہیں کہ وہ شعر تو کیا ایک کام کا مصرع بھی موزوں کر سکیں گے۔

مظفرؔ حنفی کا کلام دیکھا تھا، اس کے افسانے پڑھ کر میری نظروں میں اس کی توقیر دو چند ہو گئی۔ میں نے سوچا اس ادبی مجاہد کی نیام میں دو تلواریں ہیں اور دونوں کا وار کاری ثابت ہوتا ہے۔ مسودہ ختم کرنے کے بعد مجھے بے اختیار اسی کی غزل کے دو شعر یاد آ گئے:

اس کے دل و دماغ کی دُنیا ہی اور ہے

ظالم کے سوچنے کا طریقہ ہی اور ہے

مرتے ہیں لوگ زلف و لب و رُخ کے نام پر

حالات کا اگرچہ تقاضہ ہی اور ہے

میری دانست میں اس کے افسانوں پر جو صحیح ترین تبصرہ کیا جا سکتا ہے وہ ان اشعار میں مرکوز یا مرقوم ہے۔ واقعی اس کے سوچنے کا طریقہ انفرادی اور جداگانہ ہے۔ کیونکہ وہ زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا عادی ہے۔ چاہے وہ ظریف ہے یا شاعر، اس کے سر پر یہ دھُن سوار ہے کہ زندگی کی ستم ظریفیوں کو بے نقاب کرے۔ اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے وہ اکثر افسانے کے اختتام کو ایک ناگہانی موڑ دیتا ہے، جسے پیشِ عقرب ایسے مشابہت دی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں ’’ تشنگی دل کی‘‘، ’’ستاروں کا کھیل‘‘ اور ’’ ڈربہ‘‘ کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

بحیثیت افسانہ نگار مظفرؔ حنفی کو اپنی سماجی ذمہ داری کا بھرپور احساس ہے وہ پُرانی قدروں پر نہایت لطیف اور چابکدست انداز میں طنز کرنے کے فن میں مشّاق ہے۔ ’’ ملّا کی دوڑ‘‘ میں اس نے خدا کو نشانۂ مشق بنایا ہے۔ اُس خدا کو جو سنتا ہوا بھی نہیں سُنتا، دیکھتا ہوا بھی نہیں دیکھتا، جو بے کس اور مظلوم بندوں کی مدد نہیں کر سکتا۔ شاید اسی لیے کہ وہ خود بے بس ! بے حس ہے۔ ’’ہم شریف ہیں ‘‘ میں اس نے شرافت کے ہوائی پردے کی دھجّیاں اُڑائی ہیں اور ’’ بہک‘‘ میں بیگاری کے مسئلہ پر قلم اُٹھانے کے بعد اس دلچسپ نتیجہ پر پہنچا ہے:

’’ میں نے افسوس کیا جیسے واقعی اس بیکاری اور مصیبت کا واحد علاج جنگ ہے۔ صرف جنگ، جسے میں اور احمد جیسے لاکھوں بیگار اور بلند حوصلہ نوجوان مِل کر لڑیں گے اور پھر میرے اور احمد جیسے گندے انڈے اپنی ماؤں کے لال بن جائیں گے اور اُن کے لیے یہ دُنیا ہی سچ مچ ایسی جنّت بن جائے گی جو ماں کے قدموں میں ہوتی ہے اور پھر کوئی ماں اپنے بیٹے کو نہ کوسے گی۔ بھوک، بیکاری، افلاس، ظلم اور مصیبت کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کے بعد پھر امن کا جو پرچم لہرائے گا، اس کے بعد کوئی جنگ نہ ہو گی۔ ‘‘

مندرجہ بالا اقتباس اس کے اسلوبِ بیان کی بہت عمدہ مثال ہے۔ وہ نثر میں شاعری کرنے سے گریز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا طرزِ تحریر ہر قسم کے تصنع سے مبرّا ہے اور اُس پر آتشؔ کا یہ شعر صادق آتا ہے:

تکلّف سے بری ہے حسنِ ذاتی

قبائے گل میں گل بوٹہ کہاں ہے

چند اوراقتباسات ملاحظہ فرمائیے:

’’ اُس کی بیوی پنکھا جھلتے ہوئے حاشیہ لگاتی۔۔ اس مکان سے تو طبیعت اُوب گئی۔ نگوڑ مارا مکان ہے کہ مرغی کا ڈربہ۔۔ ‘‘      (ڈربہ)

’’حمید کو محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کا دل پکڑ کر نوچ لیا ہو، تقریباً بیہوشی کے عالم میں اس نے قبرستان جا کر نمازِ جنازہ ادا کی، واپس آیا تو ظہر کا وقت ہو چکا تھا۔ حمید نے جیسے تیسے اذان دے کر جماعت کی نماز پڑھائی اور جب اس نے نماز ختم کر کے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو اس کے دل میں پہلی بار خدا کے لیے بغاوت کا جذبہ پیدا ہوا۔۔ ‘‘

( ملّا کی دوڑ)

’’ بس پھر کیا تھا، یک نہ شد دو شد، میرا ایک دوست مجھے اس معاملہ میں حق بجانب سمجھتا تھا، دل پھول کی طرح کھل گیا، یادوں کے دریچے کھل گئے۔ تمام پچھلے واقعات کی یاد تازہ کی گئی اور ہر معاملے میں گھوم پھر کر جعفری خطاکار پایا گیا۔۔ ‘‘                              ( ہم شریف ہیں )

’’ جی چاہتا ہے شرافت کا لبادہ اُتار پھینکوں، میں بھی ان کے ساتھ مل کر خرمستیاں کروں، لڑوں اور لڑ کر ڈیک بجاؤں اور بھونڈی آواز میں الاپوں اور ۔۔ ۔۔ ۔۔ پھر سوچتا ہوں۔ میں تو شریف ہوں۔ ‘‘

( ہم شریف ہیں )

مظفرؔ حنفی محفلِ افسانہ نویسی میں نو وارد ضرور ہے لیکن نو مشق اور نو آموز ہرگز نہیں اس کے افسانے بڑے جاندار ہیں اور اُن کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ بادی النظر میں وہ سہل ممتنع کے نمونے نظر آتے ہیں لیکن اس سادگی میں غضب کی پُرکاری ہے۔ بقول ذوقؔ:

ہے ان کی سادگی بھی تو کس کس پھبن کے ساتھ

سیدھی سی بات بھی ہے تو اک بانکپن کے ساتھ

کنھیّا لال کپورؔ

ڈی۔ ایم کالج۔ موگا ( پنجاب)

۲۲؍ مارچ ۱۹۶۸ء

 

 

 

 

بوجھل پردہ۔ ننگی ذہنیت

 

آخر میں نے ہمت کر کے آواز لگا ہی دی۔۔ ۔۔

’’ حسین رضا صاحب!‘‘

اپنی پاٹ دار آواز پر میں اکثر جھنجھلایا کرتا ہوں لیکن آج وہی کام دے گئی۔

’’ امّی! دروازے پر کوئی آدمی آواز دے رہا ہے۔ ‘‘ کسی لڑکی نے گھر میں اعلان کیا۔

’’ اری چپ کمبخت! ماسٹر صاحب ہیں۔ ‘‘ اوپر جھلملی سے جھانک کر ایک محترمہ سہمے ہوئے لہجے میں بولیں اور میں نے اپنے جسم پر ایک نگاہ ڈالی۔۔ کیا میرے آدمی ہونے میں کوئی شک تھا۔

’’تشریف لائیے ماسٹر صاحب!‘‘ اندر سے کوئی بڑی بی مجھ سے بھی زیادہ بھاری آواز میں دہاڑیں۔ میں نے جیب سے رومال نکال کر چہرے کا پسینہ پونچھا اور چِق اٹھا کر اندر چلا گیا۔ لمبی سی ڈیوڑھی پار کر کے اندر صحن میں آیا تو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کروں ! کھڑا ہو کر پھٹی پھٹی نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

’’ ارجمند۔ ! کیا پردہ کر لیا۔ ؟‘‘ داہنی طرف باورچی خانے سے بڑی بی نے حلق پھاڑ کر پوچھا۔ میری نظر سہواً اس طرف اُٹھ گئی۔ دروازہ پھٹ سے بند ہو گیا۔

جی۔ آ جائیے۔ ماسٹر صاحب!‘‘ اوپر سے آواز آئی۔ جیسے بہت سی چاندی کی گھنٹیاں ایک ساتھ بج اُٹھی ہوں۔

’’ زینہ اُس طرف داہنے ہاتھ کو مُڑ کر ہے۔ ‘‘ بڑی بی نے باورچی خانے سے اس طرح رہبری کی جیسے اندھے کو راستہ دِکھلا رہی ہوں اور میں لپک کر زینے پر چڑھ گیا۔

کمرہ کافی سجا ہوا تھا۔ بیچوں بیچ ایک بوجھل کپڑے کا پردہ کمرے کو دو حصوں میں منقسم کر رہا تھا۔ میرے لیے پردے کے پاس ایک کرسی پڑی ہوئی تھی۔ ایک میز درمیان میں اس طرح رکھی ہوئی تھا کہ پردے کے دونوں طرف بیٹھنے والے اسے استعمال کر سکیں۔ میز کے پایوں کے بیچ سے دوسری طرف کا فرش دِکھائی پڑ رہا تھا۔

کرسی سرکا کر بیٹھا ہی تھا کہ نقرئی گھنٹیاں ایک بار پھر بجیں۔ مجھے سلام کیا گیا تھا۔ میں عجیب سی شش و پنج میں پڑ گیا۔ ماسٹر کی حیثیت سے مجھے اُن محترمہ کو وعلیکم السلام کہنا چاہیے یا دعائیں دینی چاہئیں ؟ کچھ سمجھ میں نہ آ رہا تھا آخر اس حملے کو میں نے خاموشی کی ڈھال پر روکا اور حفظ ماتقدم کے طور پر پوچھا۔

’’ کتنے سال فیل ہوئیں آپ میٹرک میں ؟‘‘

’’ چار سال۔ !‘‘ فخر کے ساتھ جواب دیا گیا۔

میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور میں دل ہی دل میں اس وقت کو کوسنے لگا جب میں نے اس جگہ ٹیوشن کرنے کی حامی بھری تھا۔

’’ کس مضمون میں کمزور ہیں آپ؟‘‘

’’ جی! ریاضی میں ۔۔ ‘‘

’’ اچھا۔۔ کتاب نکالیے۔ ‘‘

ایک نازک سا حسین ہاتھ، جو ریاضی کی ضخیم کتاب کے بار سے دوہرا ہوا جا رہا تھا پردے سے باہر نکلا اور کتاب میز پر میرے سامنے ڈال کر دوسرے لمحے پردے کی پشت پر اس طرح غائب ہو گیا جیسے کبوتر کابک میں دبک جاتے ہیں۔ مجھے بہت رحم آیا بے چاری پر۔ جس کا ہاتھ کتاب کے بار کو برداشت نہیں کر سکتا بھلا اس کا دماغ کس طرح اس بار کا متحمل ہو سکتا ہے۔ ؟

کتاب کھول کر دیکھی۔ نہایت معمولی سوالات تھے جن کے جواب میں زبانی دے سکتا تھا لیکن جب انھیں سمجھانے بیٹھا۔ تب معلوم ہوا کہ سوالات حد درجہ دقیق اور الجھے ہوئے ہیں۔ ایک ایک سوال پر کافی وقت صرف ہوتا تھا۔ تب جا کر میری شاگرد انھیں سمجھ پاتی تھی۔

’’ کہیے۔۔ یہ قاعدہ تو اچھی طرح سمجھ گئیں نا آپ؟‘‘

’’ جی ہاں۔ اچھی طرح۔ ‘‘

’’ اچھا تو یہ بائیسواں سوال حل کیجیے۔ ‘‘ میں نے کتاب پردے کے دوسری طرف داخل کی۔ انگلیوں کو روئی کے گالوں کا لمس محسوس ہوا۔ کتاب میرے ہاتھ سے لے لی گئی۔

پانچ منٹ بیتے۔ دس منٹ گزر گئے۔ پھر پانچ منٹ اور۔

کلاک نے ٹن سے آدھ گھنٹہ بجایا۔ آخر کار پوچھنا ہی پڑا۔

’’ آپ سے اب تک سوال حل نہیں ہوا؟‘‘

’’ جی۔ دیکھیے کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘ جیسے مجھ پر احسان کیا جا رہا ہو۔

’’ کس قاعدے سے کر رہی ہیں آپ؟‘‘

’’ جی قاعدہ۔ ؟ دیکھیے وہ تو ہم بھول گئے!‘‘ انھوں نے ٹھنکتے ہوئے کہا۔

’’ لائیے نوٹ بک مجھے دیجیے۔ ‘‘ میرے دل کی دھڑکن تیز تر ہو گئی۔

پانچ منٹ اور گزر جانے کے بعد۔

’ ’محترمہ! میں نے نوٹ بک مانگی تھی۔ ‘‘

پھر وہی خوبصورت ہاتھ میز پر نوٹ بک ڈال کر غائب ہو گیا۔ اف میرے خدا۔

اس ظالم نے سوال حل کرنے کی بجائے نوٹ بک پر کسی برِّ اعظم کا نقشہ تیار کر ڈالا تھا۔ جھنجھلا کر میں نے نوٹ بک زور سے میز پر پٹک دی اور وہ چمکدار چکنی میز پر پھسلتی ہوئی پردے کے دوسری طرف زمین پر جا رہی۔

میز کے پایوں کے درمیان سے میں نے دیکھا۔ ایک حد درجہ حسین، چھریرے بدن کی لڑکی جھکی ہوئی نوٹ بک اٹھا رہی تھی۔ جیسے۔۔ جیسے۔۔ کیا بتاؤں ۔۔ معلوم ہوتا تھا گلاب کے پھول پر چاند کی کرنیں رقص کر رہی ہوں۔ !

اور پھر نہ جانے کیسے اس کی نظریں میری نظروں سے ٹکرا گئیں اور میرے دل نے کسی غیر مرئی لَے پر رقص کرنا شروع کر دیا اور میں جیسے قوسِ قزح کے اس پار پہنچ گیا۔

چہرہ پھر پردے کی اوٹ میں ہو گیا اور میں خوابوں کی دنیا سے حقیقی دنیا میں لوٹ آیا۔

’’ ماسٹر صاحب! یہ سوال ایک بار پھر سمجھا دیجیے۔ ‘‘

وہی معمولی ساسوال اس بار خود میری سمجھ میں بڑی مشکل سے آیا۔ نہایت ہی نرم لہجے میں وہ سوال دوبارہ سمجھا کر نوٹ بک اندر داخل کی۔ نہ جانے کس انجان توقع نے مجھے اکسایا۔ ہاتھ جھک کر ترچھا ہو گیا۔ نوٹ بک پھرپھڑائی ہوئی فرش پر جا پڑی۔ میرے دل میں ہوس اور ضمیر کے مابین جنگ شروع ہو گئی۔ ہوس۔ جو دشواریوں کو آسان کر دیتی ہے۔ ضمیر، جو انسان کو خواہشوں اور ارادوں کی تکمیل سے روکتا ہے۔

ہوس جسے خدا نے دل میں اتارا ہے۔

ضمیر جس کا قیام دماغ میں رہتا ہے۔

لیکن اس حسین و جمیل چہرے کی جھلک دوبارہ نظر آنے سے قبل ہی ضمیر ہوس پر غالب آ چکا تھا۔ میں نے جلدی سے منہ پھیر لیا۔

پھر میں سوال سمجھاتا رہا۔ سود کے سوال، رقبہ کے سوال، نسبت کے سوال، نفع و نقصان کے سوال۔ نوٹ بک زمین پر گرتی رہی۔ زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑاتی رہی اور جب کبھی وہ اسے اٹھانے کے لیے جھکتی، میں گردن اٹھا کر دیوار پر آویزاں تصویروں کو دیکھنے لگتا۔

کامنی کوشل، دلیپ کی آغوش میں سسک رہی تھی۔ مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو کے ساتھ مسکرا رہے تھے۔ راج اور نرگس کے ہونٹوں کے درمیان محض ایک خنجر حائل تھا۔

پر پھُلا کر دو کبوتر چونچ ملائے بیٹھے تھے اور ڈالیوں کے پیچھے چاند چمک رہا تھا۔ وہ نوٹ بک لیتے ہوئے زمین پر گراتی رہی اور میں تصویریں دیکھتا رہا۔ اور یہ سب کچھ اس وقت تک ہوتا رہا جب تک کلاک نے دس نہ بجا دیے۔ متعینہ وقت ختم ہو چکا تھا، میں نے اسے دوسرے دن کا کام بتایا اور زینے سے اُتر کر صحن میں آ گیا۔ ایک تنو مند بڑی بی مصالحہ پیس رہی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی جھپاک سے اٹھیں اور بطخ کی سی چال چلتی ہوئی باورچی خانے میں اوجھل ہو گئیں۔ میں سڑک پر آ گیا۔

’’ لڑکی! ماسٹر صاحب اُترے تھے تو تو نے آواز کیوں نہیں دی؟‘‘ بڑی بی کی پاٹ دار آواز میرے کانوں میں پڑی۔

میرے قدم دھیمے پڑ گئے۔

دھیمی ہنسی کی نقرئی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ جیسے کسی نے رس گھول دیا ہو اور پھر۔

’’ امی!۔۔ پردہ ہم کس سے کریں جب مرد ہی۔۔ ‘‘

میں نے جھنجھلا کر سامنے پڑے ہوئے روڑے پر زور کی ٹھوکر لگائی اور بڑھتی ہوئی تاریکی میں لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگا۔

اور اب دس ماہ بعد۔۔ امتحانات جاری ہیں لیکن میری شاگرد ان میں شریک نہیں۔ وہ اپنی کسی خفیہ بیماری کا علاج کرانے کے لیے اپنے ماموں کے ہاں دہلی گئی ہوئی ہے!!!

( فروری ۱۹۵۳ء)

٭٭٭

 

 

 

نہلے پہ دہلا

 

ہم نے اخراجات کا گوشوارہ اور معائنے کی رپورٹ جاگیردار صاحب کے سامنے رکھی تو فرطِ حیرت سے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

لیکن ٹھہریے

اصل قصہ یوں نہیں یوں شروع ہوتا ہے کہ ہم جو کبھی جاگیردار کے زمانۂ عروج میں ان کے مصاحبِ خاص تھے اور خاتمۂ جاگیرداری کے بعد ان کے شناسا محض کی صورت اختیار کر چکے تھے (کیونکہ جب جاگیردار ہی پی۔ ڈبلیو۔ ڈی کا ٹھیکیدار ہو کر رہ جائے تو مصاحبِ خاص کا شناسا محض ہو جانا ہی بہتر ہوتا ہے) برسرِ تذکرہ انھیں وہ قصہ سنا بیٹھے جب ہمارے بہنوئی کو ہماری کارگزاری کی بدولت ایک انسپکٹر کے ظالمانہ چنگل سے رہائی نصیب ہوئی تھی۔

وہ قصہ کچھ یوں تھا کہ بہنوئی صاحب لپٹن کے ایجنٹ تھے اور اُن کے ڈپو کی چیکنگ کے لیے کوئی انسپکٹر صاحب نازل ہوئے تھے۔ ایجنٹ بیچارے زبانی جمع خرچ زیادہ اور کاغذی کارروائی کچھ مناسب سی ہی جانتے تھے چنانچہ انسپکٹر موصوف نے اُنھیں خاصا رگیدا۔ پھر یوں ہی نہیں کہ معاملہ صرف دفتر تک ہی محدود رہا ہو۔ بات سننے والا معقول ہاتھ لگا تھا چنانچہ انسپکٹر صاحب نے انھیں فیلڈ ورک کے متعلق ہدایات دینے کا فیصلہ کیا۔ طے یہ پایا کہ دوسرے دن انسپکٹرصاحب ایجنٹ صاحب کی معیت میں بازار تشریف لے جائیں گے اور انھیں گاہکوں سے برتاؤ کرنے کے رمز سے آگاہ فرمائیں گے۔ معاملہ اس اسٹیج پر تھا کہ ہمشیرہ محترمہ کی زبانی ہمیں بھنک ملی کہ کوئی نگوڑ مارا انسپکٹر ان کے ’’ ان‘‘ کو تنگ کیے ہوئے ہے اور اب دوکانداروں کے سامنے کل ’’ان‘‘ کی بھد اُڑائے گا۔ چنانچہ ہم نے بھی کل پُرزے تیز کیے اور تیار ہو کر بیٹھ رہے۔ دوسرے دن جب انسپکٹر صاحب ایجنٹ کے ساتھ نکلے تو ہم نے چوراہے پر روک لیا اور سوا پانچ آنے کی جگہ ساڑھے تین آنے اُن کے ہاتھ میں تھما کر چائے کی ایک پڑیا طلب کی۔ انھوں نے مسکرا کر غالباً ہمارے تعلیم یافتہ نظر آنے اور کمپنی کے ایک بھاؤ کی پالیسی پر کچھ تبصرہ فرمانا چاہا تھا کہ ہم اُن کا گریبان تھام بیٹھے کیونکہ ہماری ذاتیات کا چائے کی پُڑیا سے ناجائز تعلق پیدا کیا گیا تھا۔ مختصراً یہ کہ بہنوئی صاحب نے بیچ بچاؤ کیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ انسپکٹر صاحب اس شہر میں غنڈہ گردی کی شکایت کرتے ہوئے اپنا معائنہ اسی دن ختم کر کے مرکزی دفتر کو سدھار گئے۔

ہم سے یہ قصہ سن کر جاگیردار رتن کمار صاحب کی تو آنکھیں ہی پھیل گئیں۔ کہنے لگے:

’’بھئی تم آدمی کام کے ہو۔ میں جاگیرداری کے زمانے سے ہی جانتا ہوں۔ اب وہ دَور تو نہیں رہا کہ تمھیں مستقل تنخواہ پر اپنے ہاں رکھ سکوں، لیکن اگر اس قسم کا کام، جیسا تم نے اپنے بہنوئی کا نکالا تھا، ہمارا بھی بنا دو تو پانچ سو روپے ہم تمھیں دیتے ہیں۔ ‘‘

’’ جی روپے کی تو کوئی بات نہیں۔ اب بھی نام دلالی کا ہے لیکن دیا آپ ہی کا کھاتے ہیں۔ ‘‘

’’ تو پھر ہمارا کام؟‘‘

’’ لیکن حضور میرے !کام کیا ہے؟‘‘

انھوں نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر ہمارے ہاتھ میں تھما دیا۔ کچھ حسبِ ذیل قسم کا نوٹس تھا:

شری رتن کمار

ٹھیکیدار پی۔ ڈبلیو۔ ڈی

اطلاع ملی ہے کہ آپ کے ذریعہ محکمہ ہٰذا نے کولار ندی پر جو پُل تعمیر کرایا ہے اس کے درمیانی حصے میں کچھ نُقص ہے۔ مُعائنے کے لیے شری این۔ کے۔ سیٹھی ایگزیکیوٹیو انجینئر مؤرخہ پندرہ جون کو موقع پر پہنچ رہے ہیں۔ آپ یا آپ کا کوئی نمائندہ بوقتِ معائنہ پُل مذکورہ پر موجود ہونا چاہیے تاکہ تفتیش میں غیر ضروری تاخیر نہ ہو۔

دستخط

چیف ایگزیکیٹوٹیو انجینیر

ہم مندرجہ بالا مراسلہ پڑھ کر بڑے فنکارانہ انداز میں مسکرائے۔ جاگیر دار صاحب نے غالباً مطلب غلط لیا اور جلدی سے بولے۔

’’ بات یہ ہے کہ پل واقعی بڑی رواروی میں بنایا گیا ہے۔ میں نے بھائی صاحب کو سمجھا دیا تھا کہ پچیس فی صدی بچت کافی ہے لیکن انھوں نے تو تخمینے سے نصف میں کام نکالنے کی ٹھان رکھی تھی۔ اُدھر اپنے مقابلے میں نئے نئے ٹٹ پونجیے کھڑے ہو گئے ہیں۔ ایک وہ ٹھیکیدار ہنومنت سنگھ بھی ہے جس کی بابت مجھے یقین ہے کہ ٹھیکہ اپنے نام منتقل کروانے کی فکر میں ہے۔ یہ اطلاع محکمہ کو اسی نے دی ہے۔ ‘‘

’’ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟‘‘ ۔۔ ہم نے بدستور مسکراتے ہوئے عرض کیا۔ ’’یہ آپ کا ایگزیکیوٹیو انجینئر کوئی طرم شاہ تو ہے نہیں، کہیے تو وہیں پُل کے نیچے دفن کر دیا جائے۔ ‘‘

’’ ارے نہیں بھئی!‘‘ جاگیر دار کچھ زیادہ بوکھلا گئے۔ ’’ میرا یہ مطلب نہیں اس طرح تو ٹھیکہ اور ٹھیکیدار دونوں ہی جاتے رہیں گے۔ پکھ ایسا کرو کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ‘‘

’’ وہ کچھ لیتا دیتا بھی ہے؟‘‘ ہم نے ایک آنکھ دبا کر پوچھا۔

ٹھیکہ دار صاحب رومال سے پسینہ پونچھتے ہوئے بولے۔

’’یہی تو مصیبت ہے، ابھی تک کوئی ایسی اطلاع نہیں ملی کہ اس نے کہیں سے رشوت لی ہو۔ یہ آج کل کے نئے چھوکرے جو افسر ہو کر آتے ہیں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ایمانداری بگھارتے ہیں۔ ‘‘

’’ خیر۔ یہ سب آپ اس خادم پر چھوڑ دیجیے۔ ‘‘ ہم نے قصّے میں شارٹ کٹ مارتے ہوئے کہا۔۔

’’آپ تو صاف صاف بتلائیے کہ اگر وہ رشوت لینے پر رضامند ہو جائے تو آپ کیا دے سکیں گے اور اس سے کام کیا لینا ہو گا؟‘‘

انھوں نے ایک جیب سے نوٹوں کی گڈّی اور دوسری سے ایک نوٹ بُک نکال کر میز پر ڈال دی۔

’’ اگر وہ اس معائنہ بُک پر اپنے دستخط کے ساتھ لکھ دے کہ کام اطمینان بخش پایا گیا تو یہ دس ہزار اس کے۔ ‘‘

’’ ہم نے نوٹوں کا بنڈل اور معائنہ بک اپنے قبضے میں کرتے ہوئے کہا۔ ’’ آپ کو صرف اتنا ہی سرٹیفکٹ اس معائنہ بک پر چاہیے نا۔۔ ؟‘‘

’’ بس۔ بس۔ صرف اتنا ہی۔۔ ‘‘

’’ اور اس کے لیے آپ اُسے دس ہزار دیں گے؟‘‘

’’ اگر کچھ کم میں کام نکل جائے تو ٹھیک ہی ہے۔۔ ‘‘ وہ کچھ لالچ میں پڑ گئے ’’ ورنہ پھر دس ہزار ہی سہی۔ ‘‘

’’ اور اگر وہ ایک بار معائنہ بک پر لکھ دینے کے بعد پھر بدل جائے‘‘ ہم نے جرح کی۔

’’ وہ سب ہم دیکھ لیں گے۔ ایک بار اِتنا ہو جائے تو پھر کوئی دِقّت نہیں رہے گی۔ ‘‘

’’ آپ کو خادم پر بھروسہ ہے نا۔ ؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

اُنھوں نے بڑے سرپرستانہ انداز میں ہماری پیٹھ پر تھپکی دی اور بولے۔ ’’ پیسوں کے بارے میں تم پر بھروسہ ہے کہ درمیان میں کوئی گڑ بڑ نہ ہو گی۔ لیکن کام ہو جانا چاہیے۔ ‘‘

’’ ہو جائے گا۔ ‘‘ ہم نے دعویٰ کیا۔ ’’ممکن ہوا تو اس دس ہزار میں بھی بچت کی صورت نکال لی جائے گی۔ لیکن ساتھ ہی دو چار غنڈوں کے اخراجات بھی آپ کو برداشت کرنے ہوں گے۔ ‘‘

’’ بالکل بالکل۔ لیکن ایسی کوئی بات نہ ہو کہ ہم لوگوں پر آنچ آئے۔ ‘‘ انھوں نے برجستہ فرمایا۔

’’ آپ مطمئن رہیے۔ ‘‘ ہم نے انھیں جواب دیا۔

اور پھر اس مہم سے نمٹنے کے تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔

تاریخ مقررہ پر ہم اپنے چھ جوانوں کے ساتھ ایک جیب میں دس ہزار کی گڈی اور دوسری میں معائنہ بُک اور ایجنٹ نامہ لیے ہوئے کولار ندی کے اس پُل پر پہنچ گئے۔ جگہ کافی سنسان تھی۔ چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک مسافر لاری صبح اس پل سے گزر کر ہمارے شہر کی طرف جاتی تھی اور شام کو پلٹتے ہوئے اس پر سے گزرتی تھی، لہٰذا اس طرف سے کوئی خطرہ نہیں تھا کہ ہمیں مشتبہ حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ صبح جب لاری گزر چکی تو ہم لوگ جو پُل کے نیچے چھپے ہوئے تھے۔ باہر نکل آئے اور آفیسر مذکور کا انتظار کرنے لگے جو ٹھیک ڈیڑھ بجے جیپ سے تشریف لائے اور ٹھیکیدار کے پل پر اُترے۔ پہلے تو ہم جیپ پر سرکاری نمبر پلیٹ کی بجائے عام نمبر دیکھ کر کھنکے کہ کوئی شکار کا شوقین ہے لیکن پھر اُن کے پُر وقار چہرے، لباس اور افسروں کی، بھتّہ بنانے کے لیے نجی گاڑی استعمال کرنے کی بات کا خیال آیا۔ اس کے باوجود ہم نے آگے بڑھ کر تصدیق کر لینی مناسب سمجھی۔

’’ حضور کیا رام گڑھ سے تشریف لائے ہیں ؟‘‘

’’ نہیں میں شام پور سے آ رہا ہوں۔ کیوں !‘‘

’’ حضور۔ آپ۔ میرا مطلب ہے آپ کرتے کیا ہیں ؟‘‘

ہیٹ ہاتھ میں لے کر انھوں نے مجھے گھور کر دیکھا

’’ کیوں کیا بات ہے۔ میں پی۔ ڈبلیو۔ ڈی کا۔۔ ۔۔ ‘‘

’’ جی۔ کچھ بات نہیں۔ ‘‘ ہم نے اُن کا جملہ کاٹ دیا۔ ’’میں سمجھ گیا۔ آپ رتن کمار ٹھیکیدار کا بنوایا ہوا پُل دیکھنے کے لیے تشریف لائے ہیں ہے نا؟‘‘

’’ ہاں بھئی۔ لیکن تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘

ہم نے اُنھیں بتلایا کہ ہم سابقہ جاگیردار رتن کمار صاحب کے مصاحبِ خاص ہیں اور موجودہ ٹھیکیدار پی۔ ڈبلیو۔ ڈی رتن کمار کے ایجنٹ ہیں۔ ساتھ ہی ہم نے انھیں اپنا رام پوری چاقو بھی دکھایا۔ اپنے ساتھ کے چھ ہٹے کٹے جوان غنڈے دِکھائے۔ بہتا ہوا دریا دِکھایا، اس کی گہرائی بتائی، سنّاٹے کا تذکرہ کیا، اپنے خونخوار ہونے کا ذکر کیا، جان کی قیمت کا احساس دلایا، روپے کی اہمیت پر لیکچر دیا اور پھر آدھے گھنٹے بعد وہ حضرت پانچ ہزار روپے لے کر جدھر سے آئے تھے سیدھے ادھر کو سدھار گئے۔ معائنہ بُک پر انھوں نے واضح الفاظ میں سرٹیفکٹ درج کیا تھا کہ کولار ندی کے پل کا کام قطعی اطمینان بخش ہے۔

ہم نے چھ سو روپیہ جوانوں کو دے کر چلتا کیا، پانچ سو اپنے حق کے علیحدہ نکالے اور نہایت ایمان داری کے ساتھ حسابات درج کیے جو کچھ اس طرح تھے:

۱۔ اخراجات آمد و رفت معہ خوراک جوانان۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔      ۷۵ روپے

۲۔ جوانوں کو حق المحنت۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔    ۶۰۰ روپے

۳۔ میر بہادر خان ( خادم) کا معاوضہ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔        ۵۰۰ روپے

۴۔ آفیسر فلاں ( ہم نے نام درج کرنا مناسب نہیں سمجھا) کی نذر کیے  ۵۰۰۰روپے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

جملہ میزان۔۔ ۔۔    ۶۱۷۵ روپے

باقی ۔۔ ۔۔ ۔۔    ۳۸۲۵ روپے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

کل رقم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۱۰۰۰۰ روپے

اور اسی شام کو ہم نے بقیہ روپیوں کے ساتھ اخراجات کا گوشوارہ اور معائنے کی رپورٹ جاگیر دار صاحب کے سامنے رکھی تو فرطِ حیرت سے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بڑی دیر تک وہ کبھی ہمیں اور کبھی گوشوارہ اور معائنہ بک کو دیکھتے رہے اور ہم اس اثناء میں فخر سے سینہ پھلائے مسکراتے رہے۔ پھر انھوں نے دھیرے سے روپے، گوشوارہ اور معائنہ بک ایک طرف سرکا کر اپنی جیب سے دو تار نکال کر میز پر ڈال دیے۔

پہلے کا مضمون تھا۔۔

رتن کمار ٹھیکیدار پی۔ ڈبلیو۔ ڈی

ناگزیر حالات کی بناء پر معائنہ کولار پُل ۱۵؍ جون کی بجائے ۲۵؍ جون کو کیا جائے گا۔ موقعہ پر حاضر رہو۔                             چیف ایگزیکیو ٹیو انجینیر

اور دوسرا حسب ذیل تھا۔۔

جاگیر دار صاحب

آپ کا ایجنٹ کافی مردم شناس اور با اخلاق آدمی ہے۔

ہنومنت سنگھ

چُنانچہ اب ہمارے حیران ہونے کی باری تھی۔

(جنوری ۱۹۶۴ء)

٭٭٭

 

 

 

محبوب بانہہ کٹا

 

موسم گرما کے طویل اُکتا دینے والے دن اور دو ماہ کی تعطیل!

بورڈنگ کے سارے لڑکے اپنے اپنے گھر جا چکے تھے۔ کالج کی چہار دیواری میں، وہ رنگینی جو اس سے منسوب کی جاتی ہے، قطعاً مفقود ہو چکی تھی۔ مجبوراً مجھے بھی چچا میاں کے ان خطوط پر توجہ دینی پڑی جن میں انھوں نے مجھ سے بار بار دیہات چلے آنے کے لیے اصرار کیا تھا اور میں نے اپنی فرمانبرداری کا سکہ جمانے کے لیے لکھ دیا تھا کہ از حد مصروفیت کے باوجود محض ان کی خوشنودیِ خاطر کے لیے میں منگل کو گاؤں پہنچ رہا ہوں۔

ٹرین سے اُترا تو پلیٹ فارم پر چچا میاں ایک جوان دیہاتی کے ساتھ میرے منتظر تھے۔ دیکھتے ہی دوڑ کر مجھے سینے سے لپٹا لیا اور بولے:

’’ بہت نٹ کھٹ ہو گئے ہو برخوردار! دو ماہ کی چھٹیوں میں بھی تمھاری مصروفیت اِتنی بڑھی ہوئی تھی کہ گھر آنے سے ہچکچاتے تھے۔ ‘‘

میں مُسکرا کر چپ ہو رہا اور کہہ بھی کیا سکتا تھا۔

انھوں نے اپنے ہمراہی نوجوان سے کہا۔

’’محبوب! سوٹ کیس لے لو۔ چلیں۔ ‘‘

اُس نے لپک کر سوٹ کیس اُٹھا لیا اور ہمارا مختصر سا قافلہ اسٹیشن کی حدود سے باہر آ کر گاؤں جانے والی لمبی سُنسان پگڈنڈی پر ہو لیا۔ میں نے آگے چلتے ہوئے اپنے بچپن کے ساتھی محبوب کو دیکھا۔ اس کا بدن ویسا ہی بے ڈول تھا جیسا بچپن میں۔ شباب نے اس کی بد صورتی اور جسم کی بے ڈھنگی ساخت میں کوئی تغیر نہیں پیدا کیا تھا۔ ہاں بچپن میں اس کا پیٹ آگے نکلا ہوا تھا، لیکن اب اندر گھسا ہوا تھا۔ لمبا خوب ہو گیا تھا، تقریباً پونے چھ فیٹ۔ لیکن عرض بعینہ ا تنا ہی تھا جتنا میں نے دس سال پہلے دیکھا تھا۔ چہرے پر وہی معصومیت اور بھولا پن اب بھی برس رہا تھا، جس کا سہارا لے کر ہمجولی کھیلوں میں ہمیشہ اسے بیوقوف بنایا کرتے تھے۔ گھروندے بناتے ہوئے ہم لوگ ہمیشہ پتھر مٹی وغیرہ اسی سے اُٹھواتے تھے۔ اگر کھیل کے دوران میں گیند یا گلی کسی نالی میں چلی جاتی تو اسے نکالنے کا فرض محبوب کوسونپا جاتا۔ پہیلیاں بوجھنے میں اگر کوئی لڑکا مات کھا جاتا تو محبوب اس کی جگہ جیتنے والے لڑکے کا گھوڑا بننے پر بخوشی آمادہ ہو جاتا۔ غرض یہ کہ ہمیں اپنے کھیلوں میں محبوب کی وجہ سے کافی سہولت ملتی تھی اور جس دن محبوب کا بوڑھا باپ زبردستی پکڑ کر اس کا سر استرے سے گھٹوا دیتا، وہ دن ہم لوگوں کے لیے بڑی تفریح کا ہوتا تھا۔

’’ محبوب! آؤ پنچایت کا کھیل کھیلیں !‘‘ ہم میں سے کوئی لڑکا کہتا۔

’’ چلو۔ ‘‘ وہ حسبِ معمول رضامند ہو جاتا۔

’’ سرپنچ جانتے ہو کسے کہتے ہیں ؟‘‘

’’مجھے نہیں معلوم!‘‘ اس کا جواب ہوتا۔ حالانکہ کئی بار پہلے وہ ہمارے کھیلوں میں سر پنچ بن چکا ہوتا۔

’’ پنچوں کے سردار کو سرپنچ کہتے ہیں۔ ‘‘ ہم اسے بتلاتے۔

’’ بنو گے سرپنچ۔۔ ۔۔ ؟‘‘ کوئی ورغلاتا۔

اور وہ ہماری پیش کش قبول کر لیتا پھر اس کی آنکھیں بند کر کے ساری پنچایت سرپنچ کے سرکو پنچوں کا حق سمجھ کر اس کی گھٹی ہوئی چکنی چکنی چپت گاہ پر چپت جماتی اور وہ سرپنچ بنا چپتیں وصول کرتا رہتا حتیٰ کہ اس کھیل سے تنگ آ کر ہم کوئی دوسرا کھیل کھیلنے لگتے۔

اور اب وہی محبوب میرا سوٹ کیس لے کر چل رہا تھا۔ میری نگاہیں ایک بار پھر اس کے بے ڈول جسم کا جائزہ لینے لگیں۔ اس کاسر اب بھی استرے سے گھٹا ہوا تھا، لیکن اب اس نے بگلوں کے پروں جیسے سپید بے داغ گاندھی ٹوپی بھی لگا رکھی تھی۔ میلی چکٹ نیکر کی جگہ ایک گاڑھے کی دھوتی نے لے رکھی تھی، جو ٹوپی ہی کی طرح بے داغ، اُجلی اور بے شکن تھی البتہ قمیص کئی جگہ سے پھٹی ہوئی اور میلی تھی اور اس پر جگہ جگہ تیل کے بد نما دھبے نمایاں تھے۔

صاف ظاہر تھا کہ میرے بچپن کا لنگوٹیا یار اب تک اپنے دماغ کے ڈھیلے پرزوں کو کس نہیں پایا تھا۔ میں نے موٹے تلے کے کریپ سول جوتے پہن رکھے تھے لیکن پیر تھے کہ آگ کی طرح جل رہے تھے۔ چچا میاں بار بار اپنا چھاتا مجھ پر اس طرح جھکا دیتے تھے جیسے انھیں دھوپ کی چنداں پروا نہ ہو لیکن چند لمحوں بعد ہی دھوپ کی حِدّت اُن کا ہاتھ سیدھا کر دیتی تھی اور میں پسینہ پونچھ کر ان سے اس طرح سٹ کر چلنے لگتا تھا جیسے مجھے اُن سے بہت زیادہ محبت ہو حالانکہ اس طرح میں اُس محدود سائے کی پناہ حاصل کرنا چاہتا تھا جو چھاتے کی محبت میں اسٹیشن سے ہمارے ساتھ لگا چلا آتا تھا۔ لیکن۔ محبوب۔ ؟ چلچلاتی دھوپ میں شعلوں کی سی تپش رکھنے والی آفتاب کی سیدھی سرخ شعاعوں سے بے نیاز تپتی ہوئی ریتیلی زمین پر ننگے پاؤں سوٹ کیس لیے ہوئے اس اطمینان کے ساتھ چل رہا تھا جیسے وہ تپتی ہوئی ریتیلی ریت نہ ہو کسی پُر فضا باغ کی ٹھنڈی روش ہو، وہ سورج کی تند شعاعیں نہ ہوں بلکہ نرم و لطیف پھواریں ہوں اور لو کے جھکڑوں کی جگہ جاں فزا بادِ شمیم اٹکھیلیاں کر رہی ہو!

میں اسی طرح ماضی اور حال کے عمیق سمندروں میں غوطے کھاتا رہا اور پھر نہ جانے کب گھر آ گیا۔ وہاں ماں کی مامتا، بہنوں کی محبت اور اعزا کی شفقتوں میں میں محبوب کو بھول سا گیا۔ وہ دن احباب و اقارب سے ملاقاتوں اور آپ بیتیاں سُنانے اور جگ بیتیاں سُننے میں بیت گیا۔

دوسرے دن قدرے سکون نصیب ہوا تو سوچاکچھ مطالعہ ہی کر ڈالوں۔ گزشتہ امتحان میں سائنس میں میرے نمبر اطمینان بخش نہیں تھے اور میں اس سال کی یہ کمی دور کر لینا چاہتا تھا۔ فزکس کے فارمولے دیکھ رہا تھا کہ دروازے پر کسی نے آواز دی، باہر نکل کر دیکھا تو محبوب تھا۔ کچھ تعجب سا ہوا۔

’’ کیوں محبوب! کیا بات ہے؟ ‘‘

وہ سٹپٹایا ہوا سا تھا۔ کہنے لگا۔۔

’’کل چچا میاں کے سامنے آپ سے کوئی بات نہیں ہو سکی۔ آپ اچھے تو ہیں ؟‘‘

میں کھکھلا کر ہنسا۔۔

’’ اچھا نہ ہوتا تو یہاں کس طرح آتا بھائی!‘‘

وہ جھینپ سا گیا اور اپنی میلی قمیص کا دامن دانتوں سے چبانے لگا۔ یہ اس کی بچپن کی عادت تھی۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ میں نے پوچھا۔۔

’’ تم کیسے رہے محبوب!؟‘‘

’’ جی اچھا ہوں۔ پرسوں البتہ بخار آ گیا تھا۔ ‘‘

میں نے بمشکل ہنسی ضبط کی اور پھر جب دیکھا کہ وہ خاموش کھڑا ہے تو واپس جانے کے لیے مڑا کہ۔۔

’’ بابو جی۔ ‘‘

میں رُک کر بولا۔۔

’’ کہو۔ ‘‘

قمیص کا دامن چباتے ہوئے اس نے کہا۔۔

’’ آپ کو انگریزی آتی ہے؟‘‘

’’ تو کیا کالج میں بھاڑ جھونکا کرتا ہوں۔ کچھ کام ہے کیا؟‘‘

’’ مجھے محبوب کی انگریزی بتلا دیجیے۔ ‘‘

’’ نان سنس!‘‘

میں اس کی بکواس سے اُکتا کر اندر چلا گیا فارمولے جو یاد کرنے تھے۔

دوسرے دن پوسٹ آفس سے ٹکٹ منگوانے تھے۔ میں محبوب کی کوٹھری کی طرف گیا۔ وہ تو دکھلائی نہیں دیا، اس کا بوڑھا باپ برتن مانجھ رہا تھا۔ اسی سے پوچھا۔۔

’’ محبوب کہاں ہے؟‘‘

بوڑھے نے کوٹھری کی طرف اشارہ کیا اور پکارا۔۔

’’ محبوب!‘‘

اندر سے کسی کے غرّانے کی آواز آئی۔ بوڑھے نے پھر پُکارا۔۔

’’ محبوب! دیکھ بابو جی بُلا رہے ہیں۔ ‘‘

وہ بڑبڑاتا ہوا باہر نکلا۔۔

’’ ابّا کل سے کتنی بار سمجھا چکا ہوں کہ محبوب کو انگریزی میں نان سنس کہتے ہیں۔ مجھے نان سنس کہا کرو۔ ‘‘

مجھے دیکھ کر وہ بوکھلا سا گیا اور قمیص کا دامن چباتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ اس بار مجھ سے ہنسی ضبط نہ ہو سکی۔ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔

’’ تمہیں انگریزی سیکھنے کا بہت شوق ہے شاید؟‘‘

اس کے بوڑھے باپ نے بات کاٹی اور توا ہاتھ سے پٹک کر بولا۔ ’’ شوق کیا ہے بابو جی! پاگل پن ہے۔ اسکول میں نام لکھوا دیا تھا۔ چھٹی کلاس میں تین سال فیل ہوا اور پھر چھوڑ دیا۔ اب آپ کو دیکھ کر انگریزی پڑھنے کا شوق چرّایا ہے۔ ‘‘

میں نے اُسے پیسے دیتے ہوئے کہا۔۔

’’ ذرا پوسٹ آفس سے دس پیسے والے ٹکٹ لے آؤ۔ اور ہاں روزانہ شام کو مجھ سے تھوڑی دیر پڑھ لیا کرو۔ میرے یہاں رہنے تک تھوڑی بہت انگریزی سیکھ ہی جاؤ گے۔ ‘‘

وہ تیز تیز بے ڈھنگی چال چلتا ہوا پوسٹ آفس چلا گیا۔

اُسی دن شام کو وہ نوٹ بُک اور پنسل لیے ہوئے میری جان کھانے آ گیا۔ میں نے اُسے انگریزی کے حروف لکھ کر دے دیے اور دوسرے دن یاد کر کے سنانے کو کہا۔ دوسرے دن صبح چہل قدمی کرتے ہوئے محبوب کی کوٹھری کی طرف سے گزرا تو اس کا بوڑھا باپ صحن میں جھاڑو دیتے ہوئے چیخ رہا تھا۔۔

’’ اب بس بھی کر خدا کے بندے!رات بھر تو رٹتا رہا ہے۔ غضب خدا کا۔ اتنی سخت گرمی میں یہ رات بھر چراغ لیے کوٹھری کا دروازہ بند کر کے اندر۔ اے، بی، سی، ڈی رٹتا رہا۔ چل اب بس کر، صبح ہو گئی۔ چکّی پر جا کر باجرا پسوالا، ورنہ روٹی نہیں پکے گی۔ سُنا کہ نہیں۔ ‘‘

اور وہ کانوں میں تیل ڈالے اندر بیٹھا اپنا سبق یاد کرتا رہا۔ تیز تیز آواز کے ساتھ’ ’ ای، ایف، جی، ایچ، آئی، جے ۔۔ ۔۔ ‘‘

میں چپ چاپ وہاں سے کھسک آیا۔ اگر اس کا باپ مجھے دیکھ لیتا تو ضرور اس کی شکایت مجھ سے کرتا اور میں محبوب کی راہِ شوق کا روڑہ نہیں بننا چاہتا تھا۔

اُسی دن شام کو وہ منہ لٹکائے میرے پاس آیا میں نے سبق سُنا۔ بغیر سانس لیے ہوئے اس نے تیزی سے رٹے ہوئے الفاظ طوطے کی طرح دہرا دیے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس نے صرف یاد کیا ہے حروف بالکل نہیں پہچانتا۔ حد یہ کہ ’ اے‘ کو ’ کے‘ بتلاتا تھا اور ’ ایل‘ کو جی۔۔ !

اس دن میں نے اُسے کوئی سبق نہ دیا بلکہ دوسرے دن کافی لکھنے کا کام دیا۔ چھٹّی دے کر کھڑا ہوا تو اس نے کہا۔

’’ بابو جی۔۔ !‘‘

میں اس کا منہ دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر تک دانتوں سے قمیص کا دامن چبانے کے بعد اس نے کہا۔

’’ میں نہیں کہوں گا۔ شرم آتی ہے۔ ‘‘

میں سمجھ گیا۔ وہ تھکا تھا۔ صبح باپ نے اسے باجرا پسا کر لانے کو کہا تھا اور وہ نہیں گیا تھا اور وہ دونوں باپ بیٹے ضد میں بھوکے بیٹھے رہے تھے۔ گھر میں کوئی تیسرا فرد نہیں تھا جو انھیں مناتا کیوں کہ محبوب کی ماں اپنے اکلوتے بیٹے کو بچپن میں ہی ممتا سے محروم کر گئی تھی۔ میں نے گھر لے جا کر اسے کھانا کھلانا چاہا لیکن وہ رضامند نہ ہوا۔

’’ نہیں بابو جی! ابّا ناراض ہوں گے۔ ‘‘

اور مجھے اس کے باپ کو بھی منانے اور کھانا کھلانے کی ذمّہ داری اپنے سر لینی پڑی۔

ایک اور دن وہ پڑھنے آیا تو دیکھا کہ خلافِ دستور ایک صاف دھلی ہوئی کلف شدہ قمیص پہنے تھا لیکن دھوتی میلی اور پھٹی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا۔

’’ محبوب! تمھاری یہ کیا عادت ہے۔ اگر قمیص صاف پہنتے ہو تو دھوتی میلی ہوتی ہے اور اگر صاف دھوتی پہنتے ہو تو قمیص گندی لٹکا آتے ہو۔ ‘‘

اُس کی منطق نرالی تھی۔

’’ پھٹے ہوئے کپڑوں کو تو دھوبی نیا نہیں کر سکتا اس لیے میں اُن پر پیسے ضائع نہیں کرتا۔ اچھے کپڑے دھُلنے کے لیے دے دیتا ہوں اور بوسیدہ کپڑے ویسے ہی پہن لیتا ہوں !‘‘

میں بھلا ایسے فلسفی کو کیا سمجھا سکتا تھا۔

میری چھٹیاں ختم ہوتی جا رہی تھیں اور محبوب کا شوق روز افزوں ترقی پر تھا۔ اتنے ہی دنوں میں اس نے اتنے انگریزی الفاظ ازبر کر لیے تھے کہ اس کا ذخیرۂ الفاظ میرے ذخیرے سے کسی صورت کم نہ ہو گا۔ اگر میں کوئی چیز اس سے منگواتا تو وہ فوراً اس کی انگریزی مجھ سے دریافت کرتا۔

’’ محبوب ذرا پنساری کے ہاں سے ہلدی تو لا دو۔ ‘‘

’’ پنساری کی انگریزی بتائیے پہلے؟‘‘

اور بتلا دو تو۔

’’ ہلدی کی بھی۔ ؟‘‘

دماغ کے کسی کونے میں مجھے ہلدی کی انگریزی بھی تلاش کرنی پڑتی۔ وہ بازار سے سودا خرید کر پلٹتا تو میرے لیے بڑی مصیبت کا سامنا ہوتا۔

’’ بابو جی! تربوز کو کیا کہتے ہیں انگلش میں ؟‘‘

’’ اور خربوزے کو؟‘‘

’’ اور ککڑی کو؟‘‘

میں کچھ اپنے حافظے کی مدد سے کچھ لغت میں تلاش کر کے مطلوبہ الفاظ کے انگریزی معنے اسے لکھوا دیتا۔ امی کھانا لا کر سامنے رکھتیں اور پہلا ہی لقمہ اٹھاتا کہ دروازے پر زنجیر کھٹکتی اور۔

’’ بابو جی۔۔ !‘‘

خدا تیرا بیڑا غرق کرے۔ مجبوراً باہر آتا اور قہر آلود نگاہوں سے محبوب کو دامن چباتے ہوئے دیکھتا۔

’’ صرف ایک بات بتا دیجیے۔ ‘‘

’’ پوچھو۔ ‘‘

’’ چٹھی رساں کو تو پوسٹ مین کہتے ہیں نا؟‘‘

’’ ہاں پھر۔۔ ؟‘‘

’’ لیکن اپنے ہاں کے چٹھی رساں کو تو میٹری لال کہتے ہیں ‘‘

’’ آخر تمھارا مطلب کیا ہے؟‘‘

’’ میٹری لال کی انگریزی؟‘‘

’’ نان سنس!‘‘ میں اُکتا کر کہتا لیکن وائے مصیبت۔ وہ دامن گیر ہو جاتا۔

’’ نان سنس تو آپ نے محبوب کی انگریزی بتائی تھی‘‘

’’ ارے بھائی! نان سنس تو ناسمجھ کو کہتے ہیں۔ انگریزی میں محبوب اور میٹری لال کو محبوب اور میٹری لعل ہی کہیں گے۔ ‘‘

’’لیکن میں نے تو کسی انگریز کا نام میٹری لال یا محبوب نہیں پڑھا۔ نہ کہیں سننے میں آیا۔ ‘‘

’’ میرے یار! ولایت میں ایسے نام نہیں رکھے جاتے۔ ‘‘

’’ اور اگر ہم لوگ ولایت پہنچ جائیں تو؟‘‘

میں زچ ہو کر اسے باہر کھڑا چھوڑ کر اندر چلا جاتا۔

لیکن لطف تو یہ تھا کہ اتنے الفاظ اور معنی رٹنے کے باوجود محبوب کوئی ایک جملہ بھی انگریزی میں نہیں بول سکتا تھا۔ انگریزی میں زمین کو کیا کہتے ہیں اور آسمان کو اور جنت کو اور دوزخ کو۔۔ آپ پوچھتے جائیے وہ سب کی انگلش بتلا سکتا تھا لیکن آپ اس سے کوئی ایک جملہ انگریزی کا پوچھیے تو وہ جواب نہ دے پاتا۔ جواب دیتا بھی کیسے جب اسے وہ جملہ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ ایسی صورت میں وہ صرف سر ہلا دینے پر اکتفا کر لیتا مثلاً

’’ محبوب تم نے کھانا کھایا؟‘‘

سر ہلا دیتا۔

’’ تمھارا باپ کہاں ہے؟‘‘ انگریزی میں اس سے سوال ہوتا۔

’’ یس۔ ‘‘ وہ بغیر سمجھے ہوئے سر ہلا کر زوردار لہجے میں کہتا۔

ایک مزیدار بات اور بھی تھی۔ اگر اس کا نام پوچھا جاتا تو وہ سوال کرتا:

’’ اردو نام یا انگلش۔ ؟‘‘

’’ پہلے اردو بتاؤ۔ ؟‘‘

’’ محبوب بانہہ کٹا۔ ‘‘

’’ اب انگریزی میں ‘‘

وہ میرے بتلائے ہوئے الفاظ طوطے کی طرح دہرا دیتا۔

’’ مسٹر ایم۔ شاہ!‘‘

حالانکہ نان سنس کی جگہ مسٹر ایم۔ شاہ رٹانے میں مجھے اس کے ساتھ کافی مغز پچی کرنی پڑی تھی۔

اور پھر چھٹّیاں ختم ہونے کے کچھ دن پہلے میرے بچپن کے دو تین دوست اور آ گئے جو باہر دوسرے شہروں میں پڑھتے تھے۔ دو ایک شامیں مجھے ان کی صحبت میں بھی گذارنی پڑیں۔

معین نے پوچھا۔

’’مظفر صاحب! سنا ہے آپ افسانے خوب لکھتے ہیں۔ ‘‘

’’ ہاں کچھ یوں ہی کاغذ سیاہ کر لیتا ہوں۔ ‘‘

’’لیکن سُنا ہے ان میں رومانس بالکل نہیں ہوتا۔ ‘‘

وہ براہِ راست جملہ کسنے کی کوشش کرتا اور ایک با معنی مُسکراہٹ کے ساتھ اپنے دوسرے دوستوں کی طرف دیکھتا۔ پھر محمود کہتا۔

’’ مسٹر ! آپ کس کالج میں پڑھتے ہیں ؟‘‘

میں اپنی مشہورِ زمانہ یونیورسٹی کا نام بتلا دیتا۔

’’ اور آپ قمیص پاجامہ پہنتے ہیں ؟‘‘ اس کی آنکھیں مصنوعی حیرت سے کھلی کی کھلی رہ جاتیں۔

’’ کوئی حرج ہے۔ ؟‘‘

’’ نہیں کوئی خاص نہیں۔ ‘‘ وہ کہتا۔ ’’ لیکن ہمارے کالج میں خاکروب بھی سوٹ پہنتے ہیں !‘‘

میں اس کے سوٹ کو مصنوعی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا تاکہ وہ جی بھر کر خوش ہو لے اور فرسٹ ایئر میں تین سال لگاتار فیل ہونے والا محمود فخر سے اپنا سینہ پھلا کر کبک دری بن جاتا۔ علیم اختر بھلا کیوں چوکتا۔

’’ مظفر بھائی! ‘ج کل آپ محبوب کے ساتھ بہت رہتے ہیں ؟‘‘

’’ کوئی اعتراض ہے جناب کو؟‘‘

’’ شاید آپ کو معلوم نہیں وہ بانہہ کٹا ہے!‘‘

’’ مجھے تو اس کی کوئی بانہہ کٹی ہوئی نہیں معلوم ہوتی۔ ‘‘

ایک فرمائشی قہقہے سے کمرہ گونج اٹھتا۔ مجتبیٰ میدان میں آتا۔

’’ حضرت! آپ کو افسانہ نگار ہونے کا دعویٰ ہے لیکن معلومات کا یہ عالم ہے کہ فقیروں کی ذات بانہہ کٹوں سے آپ ناواقف ہیں ؟‘‘

’’ خیر! آج معلوم ہو گئی ذات بھی۔ بہر حال یہ تو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہی بانہہ کٹا آپ سب حضرات کے ساتھ آج سے دس پندرہ سال پہلی گلی ڈنڈا اور گولیاں کھیلا کرتا تھا!‘‘

وہ لوگ چیخ اٹھے۔۔

’’ وہ بچپن کی باتیں تھیں۔ ‘‘

’’ یہ انسانیت کی باتیں ہیں۔ ‘‘

میں وہاں سے اُٹھ آتا وہ سمجھتے میں جھینپ کر جا رہا ہوں۔ اب انھیں کیا بتلاتا کہ جسے وہ اپنی لفاظی سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں وہ اپنے کالج کا تیز طرار مقرر ہے اور ان کی گندی ذہنیت پر نفریں بھیج کر اُٹھا ہے۔

اور پھر میں محبوب کی کوٹھری میں جا کر اس ٹوٹے ہوئے ٹین کے بکس پر بیٹھ کر جس پر اس نے از راہِ تعظیم ایک پھٹی ہوئی چادر بچھا رکھی تھی، اُسے دُنیا بھر کی الم غلّم چیزوں کی انگریزی لکھاتا رہتا۔

اور چھٹیاں ختم ہو گئیں۔

یونیورسٹی اور کالج کھل چکے ہیں۔ میں اور میرے سارے کلاس فیلوز اپنے اپنے گھروں سے واپس آ چکے ہیں لیکن نہ جانے کالج کی رنگینی اب تک کیوں نہیں لوٹی ہے۔ کم از کم میرے لیے۔ اب حیدر جعفری کی پُر لطف باتیں طنز آلود معلوم ہوتی ہیں۔ ظفر احمد کی سادگی میں تصنع کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ قمر کی معصومیت کے پیچھے ریاکاری کا گھناؤنا چہرہ نظر آتا ہے۔ میں دوستوں کے دلوں میں اُتر کر خلوص تلاش کرتا ہوں لیکن وہاں مکر، ریا، فریب، کینہ، بغض، خود غرضی، حسد، بناوٹ اور خود ستائی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ خلوص میرے لیے صرف ان خطوط سے فراہم ہوتا ہے جن میں نیم پاگل محبوب گھما پھرا کر ہر بار یہ ضرور لکھتا ہے۔

بابو جی! آپ کب آئیں گے؟

میں بانہہ کٹا کی انگریزی بھول گیا ہوں !

(جون ۱۹۵۴ء)

٭٭٭

 

 

 

 

دِل اور دل

 

نواب صاحب کے کارخانے میں لوئر ڈویژن کلرکوں کا انتخاب ہو رہا تھا۔

’’ حنیف مضطر!‘‘ کمرے میں ڈائرکٹر صاحب نے لسٹ دیکھ کر اگلا نام پڑھا اور چق کے باہر کھڑے ہوئے چپراسی نے چونک کر صدا لگائی۔

’’ حنیپ مُجتر!‘‘

اُمیدواروں کی قطار میں ہلکی سی بھنبھناہٹ ہوئی۔ سب سے آگے کھڑے ہوئے حنیف مُضطر نے جلدی سے مولوی صاحب کی ہدایت کو یاد کیا۔ مٹھی میں دبی ہوئی شکر پھانک کر جیب سے تعویذ نکالا اور ایک نظر اسے دیکھ کر پھر جیب میں رکھ لیا اور کمرے میں داخل ہو گیا۔

’’ آداب عرض صاحب!‘‘ میز کے سامنے مؤدب کھڑے ہو کر اس نے کہا۔

سامنے بیٹھے ہوئے تین افسروں میں سے دو بُت بنے بیٹھے رہے۔ تیسرے نے جس کی ایک آنکھ بھینگی تھی، سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔

’’ کیا نام ہے آپ کا؟‘‘

’’ حنیف مضطر۔ ‘‘

’’ تمھیں بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے کام کیا کرو گے؟‘‘

’’ جی۔ جی۔ ‘‘ حنیف مضطر نے بوکھلا کر کہا۔ ’’ میں سمجھا نہیں جناب!‘‘

’’ جواب پورے جملے میں دینا چاہیے۔ ‘‘

’’ بہتر ہے جناب۔ اس خاکسار کو حنیف مضطر کہتے ہیں جناب!‘‘

’’ کوالیفیکیشن۔ ؟‘‘

’’ گریجویٹ ہوں سر! انگریزی میں امتیاز۔۔ ‘‘

بات بیچ ہی میں کٹ گئی۔ دوسرے افسر نے فائل دیکھتے ہوئے کہا۔

’’گریجویٹ تو نہیں معلوم ہوتے ورنہ اس طرح ہر بات پر ’’ جناب ‘‘ اور ’’سر‘‘ کہہ کر بات نہ کرتے۔ ‘‘

حنیف نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ڈگری کھول کر میز پر رکھ دی، جِسے کسی نے دیکھا تک نہیں۔ تھوڑی دیر تک خاموشی رہی پھر بھینگے افسر نے اس کی ڈگری سرکاتے ہوئے کہا:

’’ تم جا سکتے ہو۔ ‘‘

’’ کیا مجھے منتخب کر لیا گیا ہے سر؟‘‘ حنیف مضطر نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ دریافت کیا۔

ڈائرکٹر نے مسکرا کر سکریٹری کی طرف دیکھا۔ مطلب یہ کہ اس لا یعنی بکواس کا جواب وہ نمٹائے۔

دیکھو بھئی۔ ‘‘ سکریٹری نرم لہجے میں بولا’’ ہمارا اصول یہ ہے کہ اول تو ہم اپنی ہی ریاست کے مقامی امیدواروں کو لیتے ہیں اور اس کے بعد یوپی والوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ‘‘

حنیف مضطر کی آنکھیں جگمگا گئیں اور دل میں آشاؤں نے ہلکورے لیے۔

’’ صاحب! میں نے بی۔ اے یو۔ پی سے کیا ہے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے۔ ‘‘اس نے ڈگری پھر آگے بڑھائی جو پیچھے دھکیل دی گئی۔

’’ وہاں سے بی۔ اے کرنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم یو پی کے ہی ہو!‘‘ تیسرا افسر بولا۔

’’ ویسے بھی صاحب! ابھی کل ہی ایک بنگالی کو ملازم رکھا گیا ہے۔ ‘‘

’’صاحبزادے !تمھیں ہمارے انتظامیہ پر تنقید کے لیے نہیں طلب کیا گیا ہے۔ ‘‘ ڈائرکٹر نے آنکھیں نکالیں۔

’’ ارے بھئی۔ ‘‘ سکریٹری نے وضاحت کی۔ ’’ وہ ہمارے آفس کے سپرنٹنڈنٹ کا سالا تھا جنھیں یہاں کی شہریت کے حقوق حاصل ہیں۔ ‘‘

’’ بہتر ہے صاحب! شکریہ۔ ‘‘ حنیف مضطر نے اپنے کاغذات سنبھالتے ہوئے دروازے کی طرف قدم بڑھایا۔

’’ اُدھر نہیں مسٹر!۔ اِدھر۔ باہر جانے کا راستہ یہ ے۔ ‘‘ بھینگے افسر نے انگلی اٹھا کر رہنمائی کی اور وہ بوکھلا کر باہر نکل گیا۔ کمرہ قہقہوں سے گونج رہا تھا۔

باہر آ کر حنیف مضطر نے تعویذ کو چپکے سے چاک کر کے پھینک دیا۔ بخشش عباس جو کھمبے سے ٹیک لگائے اس کا انتظار کر رہا تھا، اس کے پاس لپکتا ہوا آیا اور شانے پر ٹھونگا مارتے ہوئے بولا۔

’’ دیکھو بیٹا! کوئی اچھی سی خبر سنانا۔ انٹرویو میں کیا رہا!‘‘

’’ پہلے اپنی کہو؟‘‘

’’ جس طرف جاتا ہوں امید یہی کہتی ہے۔۔ ‘‘ بخشش عباس نے شعر سنانا چاہا۔

حنیف مضطر نے دوسرا مصرع جلدی سے خود پڑھ دیا۔

’’ آرزو کیوں لیے آتا ہے یہاں کچھ بھی نہیں۔ ‘‘

دونوں قہقہے لگانے لگے۔ کھوکھلے قہقہے۔

’’ یعنی تم کو بھی کورا جواب مل گیا؟‘‘ حنیف مضطر نے اچانک سنجیدہ ہو کر پوچھا۔ ’’کیوں جوڈیشیل سیکریٹری نے کیا کہا؟‘‘

’’ ہاں یار۔ ‘‘ بخشش عباس نے جواب دیا۔ ’’ سالے کے پاس گیا تو کہنے لگا ہمیں ایسے ماسٹر کی ضرورت ہے جو ہائر کلاسیز کو اچھی طرح ہندی پڑھا سکے۔ ‘‘

’’ پھر تم نے ہندی میں ایم۔ اے کی ڈگری نہیں دکھلائی۔ ؟‘‘ حنیف نے بے چینی سے پوچھا۔

’’دکھائی تھی بے! کیا بالکل ہی احمق سمجھتا ہے۔ کہنے لگا وہ اس شخص کو ترجیح دے گا جو ساتھ میں اردو بھی پڑھا سکے۔ ‘‘

’’ ابے تو پھر کیا گڑ بڑ ہو گئی؟‘‘ حنیف مضطر بولا۔ ‘‘ تو نے کہا نہیں کہ میں اردو کا مانا ہوا ادیب ہوں !‘‘

’’ کہا تھا یار۔ ‘‘ بخشش عباس منہ لٹکا کر بولا۔ ’’ وہ سالا امتحان لینے بیٹھ گیا۔ بولا بتاؤ یہ شعر کس کا ہے۔

ریختہ کے تمھیں استاد نہیں ہو غالبؔ کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

میں نے عرض کیا صاحب! غالبؔ کا ہے۔ بس بھیا اتنا کہنا غضب ہو گیا ہتھے سے ہی اکھڑ گیا وہ تو۔ کہنے لگا آج کل کے نوجوانوں کے سر پر تو غالبؔ بھوت کی طرح سوار ہے۔ جہاں کوئی اچھا شعر سنا اسے غالبؔ سے منسوب کر دیتے ہیں۔ تم اچھے خاصے میرؔ کے شعر کو غالب کا شعر کہہ رہے ہو۔ نکلو کمرے سے تم تو طالب علموں کی مٹی پلید کر دو گے۔ ‘‘

’’ خوب! بڑے پہنچے ہوئے معلوم ہوتے ہیں وہ تو۔ اچھا پھر کیا ہوا؟‘‘

’’ پھر یہ ہوا کہ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ ‘‘ بخشش عباس منہ پچکا کر بولا۔

تبھی چپراسی آ کر دونوں کو دھکے دینے لگا۔

’’ ارے۔ ارے۔۔ ۔۔ ناراض کیوں ہوتے ہو بھئی!‘‘ دونوں بیک وقت چیخے۔

’’ صاحب ناراض ہوتے ہیں ‘‘ چپراسی کڑک کو بولا۔ ’’ چق کے سامنے سے ہٹو!‘‘

وہ دونوں مٹکتے ہوئے کمپاؤنڈ سے باہر نکل آئے۔

تھوڑی دیر تک سڑک پر اِدھر اُدھر بھٹکتے رہنے کے بعد بخشش عباس پر سنجیدگی کا دورہ پڑا اور وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔

’’ یار میں تو تنگ آ گیا ہوں اس نامراد زندگی سے۔ ‘‘

’’ اررر۔۔ ۔۔ یہ کیا؟‘‘ حنیف مضطر نے اس کی پیٹھ پر دھپ مارتے ہوئے کہا۔ ’’ تم تو کسی عاشقِ نامراد کی طرح ٹھنڈی سانسیں بھرنے لگے۔ گرمی پہنچانی چاہیے تمہیں۔ آؤ عیاشی کرنے چلیں !‘‘

وہ اسے چوراہے کے سڑیل سے ریستوراں میں پکڑ لے گیا۔ کھولتی ہوئی بودار چائے اور چار مینار سگرٹ پی کر انھوں نے آخری چونّی سے عیاشی کی۔

’’ بیٹے ! ملازمت نہایت جفا پیشہ محبوبہ ہے۔ تم ابھی سے ہمت ہار بیٹھے۔ کیا رائے صاحب مرحوم کا کہنا بھول گئے۔ ‘‘ حنیف نے چائے کی چھوٹی سی چسکی لیتے ہوئے کہا۔

’’ کیا کہا تھا رائے صاحب مرحوم نے مرتے وقت؟‘‘ بخشش عباس نے اس کی طرف مضحکہ خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’ زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔ ‘‘ ترنم کے ساتھ جواب ملا۔

’’ مجھے افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج ان حضرت نے بھی منہ پھاڑ دیا۔ ‘‘

’’ غم نہ کر۔ ‘‘ حنیف مضطر نے بخشش عباس کے پھٹے ہوئے جوتوں کو ترحّم آمیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ڈھارس بندھائی۔ ’’ ابھی میرے پاس باٹا کی ایک چپّل فالتو پڑی ہے۔ ‘‘

’’ لیکن بھائی! اس طرح کب تک کام چلے گا؟‘‘

’’ ہاں یار یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟‘‘

’’ پھر۔ ؟‘‘

’’ سوچو۔ ؟‘‘

دونوں چار مینار سگرٹ کے کش پر کش کھینچنے لگے۔

’’ کیوں نہ نواب صاحب سے ملیں ؟‘‘ بخشش عباس نے چٹکی بجا کر کہا۔ حنیف مضطر اچھل پڑا۔

’’ واہ میرے شیر۔ بڑی دور کی کوڑی لائے ہو۔ چلو چلیں۔ ‘‘

’’ ہونھ۔ چلو چلیں !‘‘ حنیف مضطر نے آنکھیں مٹکا کر منہ چڑایا۔ ’’ بھیا! راجہ بھوج کا معاملہ ہے گنگو تیلی کا نہیں۔ پہلے فون کر کے ان سے ملاقات کا وقت تو لے لو۔ ‘‘

’’ بھئی جو کچھ بھی کرنا ہو جلدی کر ڈالو۔ نیک کام میں دیر نہیں کیا کرتے۔ ‘‘

دونوں پوسٹ آفس کے پبلک کال بوتھ کی طرف بھاگے۔ کیبن میں پہنچ کر حنیف مضطر نے ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا۔

’’ ہلو ایکسچینج!‘‘

’’ الٹا ہے احمق آدمی!‘‘ بخشش عباس ریسیور چھین کر اپنے کان سے لگاتے ہوئے بولا۔ ’’ نہیں ۔۔ نہیں مس آپریٹر! احمق میں نے تمہیں نہیں اپنے ساتھی کو کہا ہے۔ نمبر نہیں معلوم۔ ہز ہائینس سے ملا دو۔ ‘‘

’’ ساری مسٹر!‘‘ جواب ملا۔ ’’ ہمارے ہاں ہز ہائینس کے نام سے کوئی نمبر نہیں۔ ‘‘

’’ کوئی بات نہیں۔ ان کا پرائیویٹ سکریٹری سہی۔ ‘‘

’’ ویری گڈ!‘‘

دور کہیں گھنٹی بجنے کی آواز بخشش عباس کے کان میں پڑی اور پھر۔۔

’’ ہلو۔ ! ہو اِسپیکس؟‘‘

’’ آپ کون ہیں ؟‘‘

’’ چوپڑہ۔ پرنسپل سلطانیہ کالج۔ ‘‘

’’ اوہ معاف کیجئے گا۔ بخشش عباس نے ریسیور ہلاتے ہوئے معذرت چاہی۔ ‘‘ مجھے تو ہز ہائینس کے پرائیویٹ سکریٹری کا نمبر چاہیے۔ ‘‘

’’ نیور مائنڈ۔ آپریٹر کو فائیو زیرو ملانے کے لیے کہیے۔ ‘‘

لائن کٹ گئی۔ بخشش عباس ایکسچینج سے کچھ کہنے ہی ولا تھا کہ حنیف مضطر نے ریسیور چھین لیا۔

’’ اتنا بوکھلا کیوں رہے ہو؟ لائن کٹ چکی ہے۔ آپریٹر کو پھر رنگ کرو۔ ‘‘

دونوں نے باری باری سٹ کا سوئچ کئی بار دبایا۔

’’ نمبر پلیز۔ ؟‘‘ آپریٹر گرل کی جھنجھلائی ہوئی لیکن شیریں آواز تیرتی ہوئی آئی۔

’’زیرو فائیو پلیز۔ ‘‘ حنیف مضطر نے اضطراب کے ساتھ کہا۔

چند لمحوں کی کھٹ پٹ کے بعد پھر کہیں دور گھنٹی بجی۔

’’ ہلو۔ !‘‘ بہت بھاری آواز میں کوئی دوسری طرف سے بولا۔

’’ کون صاحب بول رہے ہیں ؟‘‘ حنیف نے سہم کر پوچھا۔

’’ کرنل قریشی۔ پرائیویٹ سکریٹری آف ہز ہائی نس!‘‘

بخشش عباس نے بھی ریسیور سے کان بھڑا لیے۔

’’ صاحب! ہم دونوں آدمی ہز ہائی نس سے ملنا چاہتے ہیں ‘‘۔ حنیف مضطر نے ہمت سے کام لیا۔

’’ کون دو آدمی؟‘‘

’’ حنیف مضطر اور بخشش عباس!‘‘

’’ کس لیے۔ ؟‘‘

’’بس یوں ہی۔ میرا مطلب ہے کہ ۔۔ ‘‘ حنیف ہکلانے لگا۔

’’ بس یوں ہی۔ یہ کیا جواب ہوا۔ ہز ہائینس کو آپ نے کھلونا سمجھ رکھا ہے کیا۔ کچھ تو مقصد ہو گا؟‘‘

اب تک ریسیور بخشش عباس چھین چکا تھا۔

’’ جی! ہم لوگ ایک نجی کام سے ملنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’ کیسا نجی کام؟‘‘

’’ معاف کیجیے۔ وہ صرف ہز ہائی نس کو ہی بتایا جا سکتا ہے۔ ‘‘

معاف کیجیے۔ ملاقات کا مقصد بتائے بغیر آپ ان سے نہیں مل سکتے!‘‘

’’ میں نے عرض کیا نا کہ وہ ایک نجی کام ہے اور نواب صاحب ہی کو بتایا جا سکتا ہے۔ ‘‘

’’ میں انھیں کا پرائیویٹ سکریٹری ہوں۔ ‘‘

’’ یہی تو میں بھی کہنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ بخشش عباس جھلا کر بولا۔ ’’ کہ آپ محض پرائیویٹ سکریٹری ہیں۔ ‘‘

’’ نواب صاحب کا پرائیویٹ سکریٹری۔ ‘‘ بہت اطمینان کے ساتھ جواب ملا۔

بخشش عباس بوکھلایا ہوا نظر آنے لگا۔ حنیف مضطر نے ریسیور اس سے جھپٹ لیا۔

’’ دیکھیے صاحب ! ہم لوگ ملک کے مشہور ادیب اور شاعر ہیں۔ ‘‘

’’ اوہ۔ تب تو ہز ہائی نس سے آپ کی ملاقات قطعاً ناممکن ہے۔ ‘‘

’’ جیَ وہ کیوں ؟‘‘ حنیف مضطر نے گھبرا کر پوچھا۔

’’ وہ شاعروں اور ادیبوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ ‘‘

’’کیا بات کرتے ہیں آپ بھی۔ ‘‘ حنیف مضطر نے طنز آلودہ ہنسی کے ساتھ کہا۔ ’’ ابھی پچھلے مہینے ہی ان کا ضخیم دیوان چھاپ کر مفت تقسیم کیا گیا ہے۔ ‘‘

جواب میں ایک بھاری طنزیہ قہقہہ وصول ہوا۔

’’ وہ چیزیں ملک کے مختلف شاعروں سے خریدی ہوئی تھیں۔ اب ہز ہائینس نے فیصلہ کیا ہے کہ اس فضول مد میں ایک نیا پیسہ بھی ضائع نہ کریں گے۔ ‘‘

صاحب ! کافی دیر ہو گئی ہے۔ ‘‘ درمیان میں آپریٹر گرل نے لقمہ دیا۔

’’شٹ اپ۔ ‘‘ سکریٹری دہاڑا۔ ’’ ہاں مسٹر اب آپ کو اور کیا کہنا ہے۔ ‘‘

’’ محض یہ۔ ‘‘ حنیف مضطر نے ملتجیانہ انداز میں جواب دیا۔ ’’ ہمیں صرف معمولی آدمیوں کی حیثیت سے ملنے کا وقت دے دیجیے۔ ‘‘

’’ ملاقات کا مقصد بتلائیے۔ ‘‘ گھوڑا گھوم پھر کر اپنے تھان پر آ گیا۔

’’ ہمیں ملازمت کے لیے درخواست پہنچانی ہے ان کے پاس۔ ‘‘

’’ اوہ۔ دیکھیے مسٹر۔ میں نواب عالی شان جنگ ہی بول رہا ہوں۔ ‘‘ سکرٹری کی آواز   اور بھی بھاری ہو گئی۔ ’’ میرا وقت ضائع نہ کیا کیجیے۔ ‘‘

ساتھ ہی لائن ڈسکنیکٹ ہو گئی۔

دونوں کیبن سے منہ لٹکائے ہوئے باہر نکلے اور کھسک لینے کا ارادہ ہی کر رہے تھے کہ پوسٹ ماسٹر جو کاؤنٹر کلرک کا کام بھی سر انجام دے رہا تھا انھیں پکارنے لگا۔

سنیے مسٹر پندرہ نئے پیسے چارج دیتے جائیے۔ ‘‘

دونوں کی روح فنا ہو گئی۔ کھڑکی کے پاس آ کر دبی زبان میں بولے۔

’’ صاحب ہمارے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ ‘‘

’’ تو پھر کیا باپ کا۔۔ ۔۔ ‘‘ پوسٹ ماسٹر مغلظات بکھیرنے ہی والا تھا کہ ایک پیکر لپکتا ہوا آیا۔۔

’’ نہیں صاحب نہیں ۔۔ ‘‘ اس نے پوسٹ ماسٹر کا ہاتھ تھام لیا۔ ’’ یہ ہمارے یہاں کے مشہور شاعر عباس صاحب ہیں ۔۔ یہ لیجیے پندرہ پیسے!‘‘

پوسٹ ماسٹر رسید کاٹنے لگا اور وہ دونوں سینہ پھلا کر باہر آ گئے۔۔

(۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

مشاہداتِ ارسطو ثانی

(افسانچے)        

 

                روشنی کے بعد

 

’’ جانِ تمنا! میں رُوح کی تمام تر گہرائیوں کے ساتھ تم سے پیار کرتا ہوں۔ ‘‘

’’ لیکن میں بہت غریب ہوں !!‘‘

’’محبت غریبی اور امیری میں کوئی فرق نہیں سمجھتی۔ ‘‘

’’ لیکن میں ۔۔ ۔۔ ‘‘

’’لیکن کیا؟ ۔۔ اگر تم حکم دو تو میں تمھارے لیے تارے توڑ لاؤں۔ ‘‘

قمقمے پندرہ منٹ کے لیے گُل ہو گئے۔

اور جب روشنی ہوئی۔۔

’’ پیارے ! مجھے پندرہ روپیوں کی سخت ضرورت ہے۔ ‘‘

’’ دور ہو جا میری نظروں سے۔۔ کمینی! خود غرض! محبت کو روپیوں سے تولتی ہے!!‘‘

 

                پاگل اور پولیس

 

پاگل ڈنڈے سے کھمبے کو پیٹ رہا تھا۔

ایک لمبا آدمی آ کر پاگل کو پیٹنے لگا۔

’’کیوں مارتے ہو مجھے؟‘‘ پاگل نے پوچھا۔

’’ تم کھمبا کیوں پیٹ رہے ہو؟‘‘

’’میں تو پاگل آدمی ہوں !‘‘

’’ میں پولیس کا آدمی ہوں !!‘‘

 

                اخلاقیات

 

وہ دونوں فوارے کی کارنس پر بیٹھے بڑی دیر سے اخلاقیات پر بحث کر رہے تھے۔

’’ دیکھیے نا! کیا زمانہ آ لگا ہے۔ شارعِ عام پر اس قسم کے عریاں مجسمے نصب کرنا کہاں کی تہذیب ہے؟‘‘

’’ اجی صاحب! کیا عرض کروں۔ ابھی کل ہی ۔۔ ۔۔ ۔۔ ارے!‘‘

اور وہ دونوں سامنے سے گزرتی ہوئی برہنہ پگلی کو ٹکٹکی لگا کر دیکھنے لگے۔

 

                گنتی داناؤں کی

 

ارسطو نے پینترا بدلا اور چاند کو منہ چِڑانے لگا۔ ذرا سی دیر میں اس کے گرد خاصہ مجمع اکٹھا ہو گیا۔

’’ یہ کیا کر رہا ہیَ‘‘

’’ معلوم نہیں، کوئی پاگل معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘

’’ ارسطو بولا۔ ’’میں پاگل نہیں ہوں، ‘‘

’’ پھر یہ کیا حرکت ہے؟‘‘

’’ میں شہر کے پاگلوں کی تعداد جاننا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’ پھر۔۔ ‘‘

’’ معلوم ہوا کہ پاگلوں کی لا یعنی حرکتوں سے دلچسپی رکھنے اور اپنا وقت ضائع کرنے والے لا تعداد پاگل یہاں موجود ہیں۔ گنتی ممکن نہیں !‘‘

 

                سلام اور داد

 

ارسطو نے بڑا حسین سا شعر سُنایا۔ حاضرین پھڑک اُٹھے، بڑی دیر تک پنڈال واہ وا کے نعروں سے گونجتا رہا۔ ارسطو بے چارا بار بار شعر سُناتے سُناتے اور سلام کرتے کرتے تھک گیا۔ خدا خدا کر کے شور تھما۔ ارسطو نے دوسرا شعر پڑھا تو ایک گوشے سے اچانک کوئی کتّا بھونکنے لگا۔ لوگ جوتے لے کر مارنے دوڑے۔ تو ارسطو نے کہا۔

’’ خدا کے لیے اسے مت ماریے۔ مجھے بغیر سلام کے داد مل رہی ہے!‘‘

 

                بہت زیادہ عقل

 

ایک بہت زیادہ عقلمند آدمی نے ارسطو کا گریبان پکڑ لیا اور بولا:

’’ لوگ تمھیں شیر کا عقلمند ترین آدمی سمجھتے ہیں لیکن سب سے زیادہ عقل مند در اصل میں ہوں۔ ‘‘

’’ کیا ثبوت ہے تمھارے پاس؟‘‘

عقلمند بولا: ’’ ہوشمند کے لیے اشارہ کافی ہے۔ اب تمہی بتاؤ کیا تم یہ سوٹ پہن کر گندے نالے میں کود سکتے ہو یا اپنا پرس کنوئیں میں پھینک سکتے ہو؟‘‘

’’ نہیں ۔۔ ‘‘

’’ لیکن میں یہ دونوں حرکتیں کر سکتا ہوں !‘‘

’’پھر۔۔ ؟‘‘

’’ ثابت ہوا کہ میں کپڑوں کو پہنتا ہوں اور کپڑے تمھیں پہنتے ہیں۔ میں پیسوں کو خرچ کرتا ہوں اور پیسے تمھیں خرچ کرتے ہیں اور اس طرح میں تم سے زیادہ عقلمند ہوں۔ ‘‘

ارسطو نے جھٹکا دے کر گریبان چھڑا لیا ’’ جا بھائی اپنا کام کر! حد سے زیادہ عقلمندی حماقت کی دلیل ہے۔ ‘‘

 

                دھکّے

 

ارسطو نے چھوکرے کو بلا کر پوچھا:

’’ اس جوتے میں تلا لگانے کے کتنے پیسے لو گے؟‘‘

’’ آٹھ آنے حضور!‘‘

’’چل نکل ! سور کہیں کا۔۔ لوٹنے آیا ہے!‘‘

اس نے دھکّے مار کر چھوکرے کو باہر نکال دیا اور جوتوں کی ایجنسی میں پہنچا۔

’’ اس جوتے میں سول لگانے کا کیا لیجیے گا؟‘‘

’’ ساڑھے تین روپے!‘‘

’’ کچھ کم نہ ہو گا؟‘‘

’’ بورڈ پڑھ کر اندر آیا کرو۔ ‘‘

اور ایجنٹ نے دھکّے مار کر ارسطو کو باہر نکال دیا!

 

                بندر

 

پروفیسر ڈارون کا فلسفہ سمجھا رہا تھا۔

’’ انسان بندر کی اولاد ہے۔ ‘‘

’’ ارسطو بولا: ’’ جی ہاں ! آپ کے صاحبزادے بھی یہی فرماتے تھے۔ ‘‘

پرفیسر جھلا کر اس کی طرف لپکا لیکن ارسطو بندر کی طرح اچھل کر نو دو گیارہ ہو گیا۔

 

                دیا دھرم

 

تین فاقے ہو گئے تو ارسطو اپنا ہینڈ بیگ گروی رکھنے چلا۔

بنیا اس وقت اپنی چارپائی کے کھٹمل مار رہا تھا۔ ہینڈ بیگ کو دیکھ کر دور ہی سے چھی چھی کرنے لگا۔

’’ رام رام! اپن چمڑے کی چیز نہیں چھوتے۔ جیو ہتّیا کے بھاگی ہو جائیں گے!‘‘

 

                پڑوسی

 

’’ اتنی رات گئے کون آیا ہے بھئی!‘‘

’’ جی! میں ہوں آپ کی پڑوسن۔ ‘‘

’’ اوہ! کہیے کیا خدمت کروں ؟‘‘

’’ میرا بچہ بھوکا ہے تھوڑا سا دودھ ہو تو دے دیجیے۔ ‘‘

ارسطو نے لوٹا بھر دیا۔

دوسرے دن کافی رات گئے ارسطو کو پڑوسن کے گھر میں بچے کے رونے کی آواز سُنائی دی تو وہ دودھ لے کر اس کے گھر جا پہنچا۔

’’ یہ رات کے تین بجے کون دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے؟‘‘

’’ جی! میں ہوں آپ کا پڑوسی ارسطو! دودھ لایا ہوں بچے کے لیے۔ ‘‘

مکان سے تین موٹے تازے دوسرے پڑوسی نکلے اور ارسطو پر پل پڑے۔

’’ کمینے! آوارہ! رات کو پرائی عورت کے گھر میں گھستا ہے!‘‘

 

                شریف آدمی

 

اور ساتویں دن جب پارک میں وہ پھر اس کے سامنے سے مٹکتی ہوئی گزری تو ارسطو سے نہ رہا گیا اور اس نے ایک گلاب کا پھول حسینہ پر کھینچ مارا۔ حسینہ نے پلٹ کر دیکھا تو وہ جھوم جھوم کر گانے لگا۔

’’ آیا کرو اِدھر بھی مری جاں کبھی کبھی۔۔ ‘‘

’’ آپ نے مجھ سے کچھ کہا۔۔ ؟‘‘ حسینہ نے قریب آ کر پوچھا۔

’’ جی میں کہہ رہا تھا کہ آپ کے پاؤں کے نیچے دل ہے، اِک ذرا۔۔ ۔۔ ‘‘

حسینہ آنکھیں مٹکا کر بولی۔

’’ صاف صاف بات کیجیے۔ میں ایک رات کے پچیس روپے لیتی ہوں۔ ‘‘

اور اس نے چونک کر کہا۔

’’ معاف کرو بائی!میں شریف آدمی ہوں !‘‘

 

                چھچھور

 

ایک اچکّا اجنبی کا تھیلا لے بھاگا۔ ارسطو نے پکڑنا چاہا تو اجنبی نے منع کر دیا۔

’’ لے جانے دو بیچارے کو۔ ضرورتمند ہو گا۔ ‘‘

لیکن اُچکاّ تھوڑی دیر بعد آ کر اجنبی سے معافی مانگنے لگا۔

’’ بخدا مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ بھی میرے بھائی ہیں۔ یہ لیجیے آپ کی جیب کترنے کی قینچی!‘‘

اور اجنبی جوتوں سے اُچکّے کی مرمت کرتے ہوئے بولا:

’’ کمینے! اپنے ساتھ میری بھی پول کھولتا ہے!‘‘

 

                یکسوئی

 

ایک طرف مندر تھا، دوسری طرف مسجد اور گھنٹہ گھر دونوں کے درمیان تھا۔ ارسطو گھنٹہ گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھا اپنے مشاہدات قلمبند کر رہا تھا۔ مسجد میں اذان ہوئی اور نمازی ایک صف میں کھڑے ہو گئے۔ مندر میں پجاریوں نے ناقوس اور گھنٹے بجانے شروع کیے۔

’’ بند کرو ناقوس اور گھنٹے۔ ‘‘

’’ کیوں بند کریں ؟‘‘

’’ ہماری یکسوئی میں خلل پڑتا ہے۔ ‘‘

’’ ہم تو بجائیں گے۔ ‘‘

اور فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا۔

ارسطو نے کام سے فراغت پا کر سر اُٹھایا تو چند لاشیں اِدھر پڑی تھیں، چند اس طرف۔ اُس نے ایک زخمی سے پوچھا۔

’’ یہ کیسے اور کب ہو گیا؟‘‘

’’ اتنی دیر سے تو یہاں بیٹھے ہوئے ہو۔ ‘‘ زخمی بولا۔ ’’ تمھیں کچھ پتہ ہی نہیں ـ؟‘‘

’’نہیں بھائی! میں اپنے کام میں محو تھا۔ ‘‘

 

                پیمانے

 

مسافر خانے کے لیے چندہ جمع کیا جا رہا تھا۔

سیٹھ الفؔ نے پانچ سو روپے دیے کیونکہ انھیں سٹّے میں پانچ ہزار روپے ملے تھے۔

سیٹھ بےؔ نے ایک ہزار عطا فرمائے۔ انھیں بلیک مارکیٹ سے دس ہزار کی بچت ہوئی تھا۔

ارسطو نے اٹھنی دینی چاہی لیکن وہ حقارت کے ساتھ واپس کر دی گئی۔

ارسطو بے حد خوش تھا۔

’’ چلو اچھا ہوا ورنہ آج پھر فاقہ کرنا پڑتا۔ ‘‘

 

                اپنے

 

’’ بیٹے! انھیں سلام کرو!‘‘

’’ یہ کون ہیں ابّا؟‘‘

’’ ارسطو صاحب! تمھارے چچا۔ ‘‘

بیٹے نے سلام کیا۔

’’ بیٹے! انھیں اپنا سبق تو سُناؤ۔ ‘‘

’’ کون سا ابّا؟‘‘

’’ بندر اور بلّی والا۔ ‘‘

بیٹے نے سبق سُنایا۔

ارسطو بہت خوش ہوا اور جب اُس نے اپنا جان کر بیٹے کو اکنّی دینی چاہی تو ابّا بول پڑے۔

’’ نہیں۔ نہیں ! یہ کیا کرتے ہو بیٹے! دوسروں سے پیسے نہیں لیا کرتے!‘‘

 

                خلوص کار

 

ارسطو لپک کر اس سے بغل گیر ہوا۔

’’ مزاج کیسے ہیں آپ کے؟‘‘

’’ نوازش ہے آپ کی۔ ‘‘

’’ بال بچے تو اچھے ہیں ؟‘‘

’’ اللہ کا کرم ہے‘‘

’’ کہاں تشریف لے جائیے گا؟‘‘

’’ ذرا کانجی ہاؤس تک جانا ہے۔ ‘‘

’’ اچھا تو پھر اجازت دیجیے۔ میں عجائب گھر تک جاؤں گا۔ ‘‘

رخصت ہوتے ہوئے ارسطو نے آواز دبا کر کہا۔

’’ معاف کیجیے۔ آپ کے پیسے وقت پر ادا نہیں کر سکا، کل ضرور پہنچا دوں گا۔ ‘‘

’’ اوہ وہ تو میں بھول بھی چکا۔ تین روپے اٹھتّر پیسے ہوتے ہی کتنے ہیں۔ ‘‘

اور ارسطو دن بھر بڑبڑاتا رہا۔

’’خبیث ایک نیا پیسہ بھی تو نہیں بھولا!‘‘

 

                ساختہ بے ساختہ

 

کون کہتا ہے کہ اردو جنتا کی بھاشا ہے؟‘‘ایک مہاشے تقریر فرما رہے تھے۔ ’’ یہ تو ایک جاتی کی بھاشا ہے جو بدیش سے لائی گئی ہے اور۔۔ ۔۔ ‘‘

تب تک ارسطو کا پتھر ان کے ٹخنے پر پڑ چکا تھا۔

’’ ٹھہر جا! حرامزادے۔ نالائق، کمینے!‘‘

وہ اس کی طرف لپکے لیکن ارسطو بھاگنے کی بجائے وہیں کھڑے رہ کر تالیاں بجانے لگا۔

’’ بولا۔۔ ۔۔ اردو بولا۔ ‘‘

 

                لوک لاج

 

ارسطو سیٹھ کے پاس چندہ مانگنے گیا اپنے لیے نہیں انجمن کے لیے۔ سیٹھ نے انکار کر دیا۔ دوسری بار گیا تو سیٹھ نے بُری طرح جھڑک دیا۔

تیسری بار گیا تو سیٹھ نے دھکّے دے کر نکلوا دیا۔

لیکن جب وہ چوتھی بار پہنچا تو سیٹھ انکار نہ کر سکا۔ اس نے اپنے نزدیک بیٹھے ہوئے منسٹر، ڈپٹی منسٹر اور میونسپل کے صدر کے طرف دیکھتے ہوئے تجوری کھولی اور ارسطو کو دو سو روپے عنایت فرمائے۔

 

                باقی کل

 

استاد بچوں کو پڑھا رہا تھا:

’’ زندگی کی دوڑ میں کامیابی انھیں کو حاصل ہوتی ہے جو عزمِ مستحکم رکھتے ہیں اور منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے مسلسل جد و جہد کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ جب بھی کوئی کام شروع کرو اُسے ختم کر کے ہی دم لو۔ آج کا کام کل پر ٹالنے والے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور۔۔ ۔۔ ‘‘

چھٹّی کی گھنٹی بجنے لگی تو ماسٹر صاحب نے کتاب بند کر دی۔ ایک لڑکے نے کہا:

’’ماسٹر صاحب! ابھی سبق پورا نہیں ہوا۔ ‘‘

’’ باقی کل دیکھیں گے!‘‘

 

                انسان اور برہمن

 

ایک پنڈت جی ہندو مسلم اتحاد پر تقریر فرما رہے تھے۔

’’ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ مذہبی دیوانگی میں مبتلا ہو کر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ انسان پہلے ہیں اور ہندو یا مسلمان بعد میں۔ آخر خون تو سب میں ایک ہی جیسا ہے۔ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں ۔۔ ۔۔ پانی لانا۔ ‘‘

ارسطو نے لپک کر پانی کا گلاس پیش کرنا چاہا۔ پنڈت جی نے اس کی داڑھی کو دیکھا، شش و پنچ میں پڑ گئے۔

’’ ہندو ہو یا مسلمان؟‘‘

’’جی میں صرف انسان ہوں۔

پنڈت جی برہم ہو گئے۔

’’ ارے بھئی کیا جلسے میں کوئی برہمن نہیں ہے؟‘‘

(۱۹۵۹ء)

٭٭٭

 

 

 

پتلون کی مد

 

اے جان!

خدا کے لیے اس بُری طرح نہ مچل!

تجھے تو معلوم ہے کہ میں تیرا شوہر نامدار ہوتے ہوئے بھی تیرے حسنِ طرحدار کا عاشقِ زار ہوں !

لیکن اب جو مجبوراً گیہوں کی مد میں سترہ روپے تجھے کم دے رہا ہوں تو للہ یہ نہ سمجھ کہ میں انھیں اپنے آفس کی لیڈی ٹائپسٹ کے لیے تحفہ خریدنے پر صرف کروں گا۔

اے میرے تین بچوں کی ماں !

میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے تجھ سے اب بھی ویسی ہی محبت ہے جیسی شادی سے قبل تھی۔

میں تیری ڈھلتی ہوئی جوانی اور اُترے ہوئے جھری دار چہرے کو نہیں بلکہ تیرے نازک دل کے روشن گوشے میں اپنے لیے چھپے ہوئے خلوص کو دیکھتا ہوں۔

لیکن ڈارلنگ کروں کیا۔۔ ؟‘‘

سچ کہتا ہوں۔ مجبور ہوں گیہوں کی مد میں سترہ روپیہ کم کرنے کے لیے۔

اڑسٹھ روپے کا گیہوں خریدنے کی بجائے اکاون روپے میں اتنی ہی جوار بھی تو خریدی جا سکتی ہے۔

اور اے میری فہیم و حساب داں شریکِ زندگی!

مجھے تیری فراست میں کوئی شک و شبہ نہیں، گو کہ مفکر ہمیشہ صنفِ نازک کو ناقص العقل کہتے آئے ہیں، پھر بھی میں تجھے ذہین کہتا ہوں۔

تجھے خدا کا واسطہ ! میرے اس جذبۂ ایثار کی قدر کر۔

اور گیہوں کی مد سے سترہ روپے مجھے بخش دے۔

پیاری! میں نہیں سمجھتا کہ تجھے یہ ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہو گی کہ پیٹ میں پہنچ کر گیہوں اور جوار دونوں مساوی ہوتے ہیں بلکہ میں نے آٹھویں کلاس میں یہ تک پڑھا تھا کہ جوار میں گیہوں کی بہ نسبت زیادہ حیاتین ہوتے ہیں لیکن فی الحال حیاتین کو تو چولھے میں ڈال!

کہ مجھے اس وقت وٹامن کی نہیں سترہ روپیوں کی ضرورت ہے۔

اشد ضرورت۔

اے دل آرام! میں تجھے کس طرح یقین دلاؤں کہ میں نے آج تک اپنے دل میں تیرے سوا اور کسی محبوبہ کے خیال تک کو جگہ نہیں دی۔ تیرا یہ شک قطعی بے بنیاد ہے کہ میں کسی پری چہرہ حسینہ کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہو گیا ہوں۔

بھلا یہ تو سوچ!ایک مڈل اسکول کا ہیڈ ماسٹر! جو محض ڈیڑھ سو روپے تنخواہ پاتا ہو باہر عشق لڑانے کی جرأت کیسے کر سکتا ہے؟

تو کتنی نادان، ارے بھولی، معصوم ہے!

جانِ من! مجھے تو غمِ دوراں ہی سے فرصت نہیں۔ تجھ سے پیار کے دو بول اسی قسم کے خاص مواقع پر بولتا ہوں۔ باہر کے لیے وقت کہاں سے آئے گا۔ تو پھر کیا مجھے صاف صاف بتانا پڑے گا کہ مجھے ایک پتلون بنوانی ہے۔

کیوں کہ میں ایک انگریزی مڈل اسکول کا ماسٹر ہوں۔

ہیڈ ماسٹر!

آج مجھے اس پھٹے ہوئے پاجامہ میں دیکھ کر معائنہ فرماتے ہوئے انسپکٹر آف اسکولس بری طرح بگڑے۔

وہ تو ان کا کرم تھا کہ انھوں نے لڑکوں کے سامنے پھٹکار نہیں بتائی بلکہ الگ کمرے میں لے جا کر گرم ہوئے ورنہ بڑی کِرکری ہوتی۔

اور انصاف تو یہ ہے کہ وہ بگڑنے میں بالکل حق بجانب تھے۔ انسپکٹر آف اسکولس جو ہیں۔

بھلا یہ بھی کوئی تک ہے کہ ایک اینگلو مڈل اسکول کا ہیڈ ماسٹر پھٹا ہوا پاجامہ پہن کر ڈیوٹی پر جائے۔ ڈوب مرنے کی بات ہے۔ انگریزی اسکول نہ ہوا، یتیم خانہ ہو گیا۔

لیکن سب سے بڑی مشکل تو یہ ہے کہ انھیں صاحب کا معائنہ پر سوں پھر ہونے والا ہے۔ اس لیے اے میری شریکِ زندگی( اور شریکِ موت) میری جان ابھی سے نکلی جا رہی ہے۔ کیونکہ میرے پاس اس پھٹے ہوئے پینٹ کے علاوہ کوئی پتلون نہیں ہے۔

یوں تو قمیص بھی بالکل پھٹ گئی ہے لیکن اس کی مجھے پروا نہیں۔

اس پر تو وہ ملگجا کتھئی رنگ کا کباڑیے کی دوکان سے خریدا ہوا کوٹ پہنا جا سکتا ہے۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے اس پھٹے ہوئے پاجامے کو کوٹ سے نہیں ڈھانپا جا سکتا۔ کاش وہ کوٹ نہیں السٹر ہوتا۔

اے میری پیاری رفیقۂ حیات!

تو یقین کر کہ اگر وہ السٹر ہوتا تو میں گیہوں کی مد سے روپیے لینے کی بجائے پاجامے پر ہی اس گرمی کے موسم میں وہ السٹر پہن کر پرسوں اسکول چلا جاتا گو کہ اس حالت میں مجھے اپنے آپ کو ملیریا بخار میں مبتلا ظاہر کرنا پڑتا۔

مگر پیاری!

میں تیری ان حسین زلفوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔

میں واقعی بالکل مجبور ہوں

پتلون کی مد میں سترہ روپے خرچ کرنا میرے لیے اشد ضروری ہے۔

تو تو جانتی ہے کہ میں نے فضول خرچی کے لیے کبھی اپنے بچوں کا پیٹ نہیں کاٹا۔

شاید تجھے معلوم نہ ہو ابھی پچھلے ہفتے ماموں کے لڑکے کی شادی کا دعوت نامہ آیا تھا اور میں نے انھیں معذرت نامہ لکھ دیا تھا کہ علالت کے باعث شادی میں شرکت کرنے سے معذور ہوں۔ کتنی معیوب بات ہے ؟ہے نا!

انھوں نے ہماری شادی کے موقع پر ایک سو ایک روپیہ نیوتہ دیا تھا۔

اور ہم ان کے اکلوتے لڑکے کی شادی میں شامل ہونے سے کترا گئے۔

لیکن میری مجبوریوں کو کچھ تو ہی خوب سمجھ سکتی ہے۔

یہ محدود تنخواہ ہمارے ماہواری بجٹ کی ہی کفیل نہیں ہو پاتی۔

ہم اس شادی میں نیوتہ دینے کے لیے روپے کس مد سے لاتے؟

اور نیوتہ کی بات تو بہت دور رہی۔ ہمارے پاس تو ڈھنگ کے کپڑے بھی نہیں۔

یقیناً تو انکار نہیں کر سکتی اور للہ! تو اس امر سے بھی انکار نہ کر کہ میرے لیے پتلون کی مد میں سترہ روپیہ خرچ کرنا اشد ضروری ہے۔

کیونکہ وہ تو خیر ماموں کے لڑکے کی شادی کا دعوتی رقعہ تھا اور اس کے لیے معذرت لکھ بھیجنے پر صرف میرے ضمیر نے لعنت ملامت کی تھی اور یہ تو انسپکٹر آف اسکولس کا حکم ہے۔

نوکری کا معاملہ!

اس سلسلے میں معذرت پیش کرنے کی جرأت میں ہرگز نہیں کر سکتا۔ باقاعدہ پھٹکار پڑنے کا اندیشہ ہے اسکول کے ساڑھے تین سو لڑکوں کے سامنے۔ اور اسی پر بس نہیں، ہو سکتا ہے مجھے باقاعدہ نوکری سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں۔ افسروں کا کیا بھروسہ؟

اور میں تجھے کیسے سمجھاؤں میری جان کہ میں بہانے تراشنے میں کسی طرم خان سے کم نہیں۔ ثبوت تیرے سامنے موجود ہیں۔

دونوں بچے کب سے جان کھا رہے ہیں بستوں کے لیے اور میں کتنے بہترین بہانے تراش لیتا ہوں انھیں بہلانے کے لیے۔

کلو قصائی اور رام کھلاون بنیا جو اس محلے میں قرض کو سختی سے وصول کرنے کے سلسلے میں شیطان کی طرح مشہور ہیں لیکن میں انھیں متواتر چار ماہ سے بھلاوے دے رہا ہوں۔

مگر تو یقین کر کہ اسکول کے انسپکٹر صاحب اتنے بھولے نہیں کہ انھیں اپنے بچوں یا کلو قصائی اور رام کھلاون بنیے کی طرح بہلا پھسلا کر ٹالا جا سکے۔

اس لیے اے جان! اچھی طرح سوچ لے!سمجھ لے!

کہ تجھے گیہوں کی مد سے سترہ روپے مجھے دینے ہی ہوں گے۔

اس ماہ جوار کھانی ہی ہو گی۔

کیونکہ مجھے ایک پتلون بنوانی ہے۔

اے جان!

( ۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

اسرارِ خُداوندی

 

’’جھگڑا!‘‘

مولانا شیر خاں کے لبوں سے ایک سہمی سہمی چیخ بلند ہوئی اور وہ فرطِ دہشت سے زمین پر قلابازی کھا گئے اور ان کی دستارِ مبارک لڑھکتی ہوئی قریبی نالی میں جا پڑی۔ سچ پوچھیے تو میرا دل بھی سینے میں زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ جیسے کوئی لوہار تاؤ میں دھونکنی دھونک رہا ہو۔ مولانا شیر خاں کوئی معمولی آدمی نہ تھے۔ ڈیل ڈول اور جسم کی ساخت کے لحاظ سے اسمِ با مسمّیٰ تھے۔ خلافت تحریک، عدم تعاون اور تحفظ ناموسِ رسولؐ کے سلسلے میں وقتاً فوقتاً جتنی ہنگامی تحریکیں شہر میں اٹھتیں ان میں ان کا نام نامی ہمیشہ پیش پیش رہتا تھا۔ میں ان کی دھواں دھار تقاریر سننے کا شرف بھی بارہا حاصل کر چکا تھا۔ گھونسہ تان تان کر منہ سے کف اُڑاتے ہوئے ایسی جوشیلی تقریر فرماتے کہ سماں سا بندھ جاتا۔ معلوم ہوتا کہ ایک برہنہ شمشیر چمک رہی ہے۔ جس کی روانی کے سامنے دشمن کے چھکّے چھوٹ جاتے۔ اسلام کے تمام ارکان میں جہاد کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اور آج وہ حواس باختہ چوراہے پر چت پڑے تھے اور دستارِ مبارک نالی میں غسل کر رہی تھی۔ پھر میرے جیسے نحیف الجثہ آدمی کا یہ یقین کر لینا کوئی غیر فطری بات نہیں تھی کہ واقعی معاملہ بہت سنگین ہو گا غالباً شہر میں شاید فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا ہے۔ معاملے کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے میں ان کے پاس گیا اور سہارا دیتے ہوئے ادب سے پوچھا۔

’’ کہیے قبلہ! کیسا جھگڑا؟ کہاں ہوا؟ کس سے؟ کب؟‘‘

معلوم نہیں دہشت نے ان کے لب سی دیے تھے یا میرے اتنے بہت سے سوالات نے انھیں بوکھلا دیا تھا۔ انھوں نے زبانی کچھ کہے بغیر بائیں سڑک کی طرف اشارہ کیا اور جھپٹ کر نالی سے اپنی پگڑی اٹھا کر یہ جا وہ جا!

میں نے دیکھا۔

تقریباً ڈیڑھ فرلانگ کی دوری پر ایک مجمع نظر آ رہا تھا اور غُل گپاڑے کے بھنبھناہٹ یہاں تک سنائی دینے لگی تھی۔ تجسس بُری شے ہے، مجھے یاد نہ رہا کہ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں اور بڑی ذمہ داریاں میرے سر ہیں۔ اس لیے خطرے سے دور رہنا چاہیے۔ لپکتا ہوا مجمع کے قریب پہنچ ہی تو گیا۔ محفوظ جگہ پر پنجوں کے بل کھڑے ہو کر دیکھا تو ایک شخص درمیان میں کھڑا تھا، کپڑوں کی جگہ بدن پر خراشیں، آنکھوں سے شعلے لپک رہے تھے۔ وہ دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر اور اچھل اچھل کر چیخ رہا تھا۔

’’ کہاں ہے خدا؟ کدھر ہے خدا؟میں نہیں مانتا کسی خدا کو۔ بڑا آیا خدا کہیں کا۔ اگر ہے تو اس وقت کہاں تھا جب میری ماں نے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بھوک سے دم توڑ دیا۔ اسے رحم کرنے والا کہتے ہو۔ تب اس کی رحمت کہاں سو گئی تھی جا کر۔ ؟‘‘

’’ استغفر اللہ!‘‘ میرے پاس کھڑے ہوئے ایک صاحب جگہ خالی کرتے ہوئے بولے۔ ’’ اللہ شرک سے محفوظ رکھے۔ ‘‘

چند شریر لڑکوں نے اس پر پتھر پھینکے لیکن وہ اس طرح لا ابالیانہ انداز میں تقریر کرتا رہا جیسے اس پر پتھر نہیں پھول برس رہے ہوں۔

’’ کہتے ہیں وہ بڑا جبّار بھی ہے۔ میری نوجوان لڑکی کی عصمت دن دہاڑے کپاس کے کھیت میں لوٹ لی گئی، لیکن وہ خاموش رہا اس کی قہاری کا مظاہرہ تو اس وقت ہوا جب مل مالک کی لڑکی سے ایک نوجوان غلطی سے ٹکرا گیا تھا اور پھر اس نوجوان کی لاش ہی تھانے تک پہنچائی جا سکی تھی مگر میری لڑکی چیختی رہی اور میں دہائیاں دے دے کر بیہوش ہو گیا۔ لیکن زمیندار پر کوئی قہر نہ توڑا خدا نے۔ الٹے میری بیٹی نے ہی کنویں میں چھلانگ لگا دی اس لیے کہ وہ ایک غریب فاقہ کش کسان کی بیٹی تھی۔ کیا ہو گیا تھا اس وقت خدا کے قہر و غضب کو؟‘‘

جواب میں اس پر پھر پتھروں کی بوچھار ہوئی۔ ایک اینٹ اس کے داہنے ابرو پر پڑی اور خون کی دھار اس کی پلکوں سے ٹپک ٹپک کر ڈاڑھی میں جذب ہونے لگی۔ وہ اتنی زور سے چیخا کہ اس کی آواز پھٹ گئی۔

’’ تم سمجھتے ہو اس طرح مجھے خدا کے وجود کا قائل کر دو گے؟ ہونہہ!۔ خدا!‘‘

اُس نے مُنہ پچکا کر ایک طرف تھوک دیا۔ اس کی اس حرکت پر مجمع بُری طرح مُشتعل ہو گیا اور پھر اس پر لاتوں، گھونسوں اور جوتوں کی اتنی تیز بارش ہوئی کہ میں نے چپکے سے وہاں سے کھسک جانے میں ہی خیر سمجھی لیکن اس رات دل میں بڑی دیر تک ایک خلش سی ہوتی رہی۔

کیا خدا اتنا ہی کمزور ہے کہ ایک دُکھیارے مظلوم پاگل بوڑھے کو اپنا معترف بنانے کے لیے اسے سیکڑوں لوگوں سے پٹواتا ہے۔ پھر خیال آیا اس کی ایک صفت قہاری بھی تو ہے۔

دوسرے دن صبح ندی کی طرف جا رہا تھا کہ وہی کل والا پاگل شیو جی کے مندر میں دکھلائی دیا۔ احاطے کے وسط میں شیو جی کی عظیم الشان مورت نصب تھی اور پاگل لپک لپک کر کونے میں پتھر جمع کر رہا تھا۔ میں نے دیکھا اس کا بایاں ہاتھ بے جان ہو کر جھول رہا ہے جِسے شاید کل مجمع میں کسی خدائی فوجدار نے توڑ دیا ہو گا۔ سوچا پاگل ٹھہرا کہیں جنون میں ایک آدھ پتھر مجھے ہی نہ جڑ دے، اپنی راہ لی۔

آدھ گھنٹے بعد واپس پلٹا تو احاطے کے گرد ایک بھیڑ سی لگی ہوئی تھی اور پاگل اپنی دھُن میں مست مورتی پر لگاتار پتھر برسا رہا تھا۔ ہر پتھر کے ساتھ اس کے منہ سے گالیوں کا ایک فوارہ سا ابلتا تھا۔

’’ کیوں۔ ایشور اور اللہ تیرے ہی نام ہیں نا! اچھا۔ اب روک ان پتھروں کو اپنی طاقت سے۔ دیکھو لوگو! میں نے تمھارے بھگوان کو کانا کر دیا ہے اور وہ خاموش ہے۔ یہ لو دوسرا کان بھی گیا۔ واہ رے میرے مٹی کے بھگوان ! ایک انسان سے اس طرح پِٹ رہا ہے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ کہاں گئی وہ تیری اپرم پار شکتی۔ کِدھر ہیں وہ تیرے بھگت۔ خبردار۔ سالے کوئی میری سامنے آیا تو کھوپڑی ہی توڑ دوں گا۔ ایک پتھر پڑ گیا تو سات پشتیں اردو بولیں گی۔ ‘‘

چند جوشیلے نوجوان جو دھیرے دھیرے پاگل کی طرف بڑھ رہے تھے پھر پیچھے دبک گئے اور جب پتھروں کا وہ ڈھیر جو پاگل کے سامنے تھا، ختم ہو گیا تو میں وہاں نہ ٹھہر سکا۔ بھگوان کے بھگتوں نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی توڑ دیا۔

لیکن آج جب میں اپنے شہر کو واپس لوٹا ہوں تو اس پاگل کی یاد پوری شدت سے اُبھر کر سطحِ ذہن پر آ گئی ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ خدا کو لوگ جبار و قہار کیوں کہتے ہیں، وہ خدا جو اپنے برتر بندوں پر اس طرح رحمت نازل کرتا ہے۔ جبار و قہار کیسے ہو سکتا ہے!

ہندو مسلم اتحاد کا اتنا متاثر کن منظر میری آنکھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ صبح سے تانگے پر ایک مولانا اور ایک پنڈت جی لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کرتے پھر رہے ہیں جگہ جگہ اردو اور ہندی میں پوسٹر چسپاں ہیں۔

’’ ایشور اللہ تیرے نام‘‘۔۔ ۔۔ حضرت صوفی مجذوب شاہ رحمۃ اللہ علیہ عرف سورگیہ باورے بابا کا عرس اور میلہ پولیس گراؤنڈ پر آج رات سے شروع ہو رہا ہے۔ شرکت کر کے ثواب دارین حاصل کیجیے اور پدھار کر اپنی ایشور بھگتی کا پتہ دیجیے۔

تفتیش سے معلوم ہوا کہ مجذوب شاہ عرف باورے بابا وہی پاگل تھا۔ دماغ نے دل سے سوال کیا یہ سب کیا ہے اور اس نے بغیر سوچے جواب دیا؟ خدا کی باتیں خدا ہی جانے۔

( ۱۹۵۹ء)

٭٭٭

 

 

 

گندی چادر

 

وہ ایک افسانہ نگار تھا۔

اس نے ابھی حال ہی میں لکھنا شروع کیا تھا، لیکن اس مختصر سی مدت میں ہی اسے وہ کامیابی حاصل ہو گئی تھی جو بڑے بڑے ادیبوں کو نصیب نہ تھی۔ اس کے افسانے سماج کی برائیوں پر ضربِ کلیم کا اثر رکھتے تھے۔ انوپ چند لین میں رہتا تھا وہ۔ عام طور پر اس جگہ دن میں سنّاٹا اور ویرانی سی رہتی تھی۔ شام کو البتہ کچھ دیر کے لیے چہل پہل ہو جاتی تھی۔ اس دن بھی وہ بارہ بجے دن میں اپنے مطالعہ کے کمرے میں میز پر جھکا ہوا ایک طنزیہ افسانہ لکھنے میں مصروف تھا کہ باہر گلی میں دور سے آتا ہوا مکھیوں کی بھنبھناہٹ کا سا شور سُنائی دیا اور وہ چونک پڑا۔ اس کے خیالات کا سلسلہ منتشر ہو گیا۔ بات غیر معمولی تھی۔ عام حالت میں دوپہر میں ایسا موت کا سا سکون اس گلی پر اپنا تسلط جما لیتا تھا جس میں اسے افسانہ لکھنے کے سُنہرے مواقع دستیاب ہو جاتے تھے۔ اس کا دماغ اِدھر اُدھر بھٹکنے لگا اس شور کو سن کر۔ چیخ پکار بتدریج بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے جھنجھلا کر قلم پیڈ پر ڈال دیا اور اٹھ کر کھڑکی کی جھلملی سرکا کر نیچے جھانکنے لگا۔

داہنی طرف کی چمپا اسٹریٹ سے بچوں کا ایک جھنڈ جیسے اُبل پڑا تھا۔ چیختا ہوا اور نعرے لگاتا ہوا۔ بچوں کے آگے ایک برہنہ عورت بے تحاشہ بد حواسی کے عالم میں بھاگتی چلی آ رہی تھی۔ کلّو موچی کے دروازے کے سامنے پڑے ہوئے ایک بڑے سے پتھّر سے ٹھوکر کھا کر وہ دھڑام سے نیچے آ رہی۔ افسانہ نگار کا دل دہل گیا۔ شریر بچوں کے جھنڈ نے پگلی کو گھیر لیا اور سب مل کر زور زور سے چیخنے لگے۔

’’ کالی مرچیں۔ دھیلے سیر۔۔ ‘‘

’’ پگلی ہے بھئی پگلی ہے۔ ‘‘

’’ پگلی کا دولھا تھانیدار۔ ‘‘

اور اسی قسم کے نہ جانے کتنے بے معنی جملے۔ دماغ بھنّا دینے والے بڑھتے ہوئے شور سے تنگ کر افسانہ نگار کو اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لینا پڑیں۔ نہ جانے ان چھوٹے شیطانوں کا غول اور کتنی دیر تک پگلی کو دق کرنے کے ساتھ ساتھ اسے بھی تنگ کیے رہتا کہ کلو موچی گھر سے ایک بڑا سا ڈنڈا لیے ہوئے برآمد ہوا۔۔ بچے اسے دیکھ کر سہم گئے۔ کچھ نٹ کھٹ جو اب تک چیخے جا رہے تھے انھیں ڈانٹ کر اور دوسرے بچوں کو سمجھا کر کلو نے پگلی کو ان کے نرغے سے باہر نکالا، وہ میدان صاف پا کر بے تحاشہ بھاگی اور گلی کے دوسرے موڑ پر پہنچ کر نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ بچوں کا غول اپنے دلچسپ مشغلے میں کلّو موچی کی دخل اندازی پر اسے کوستا ہوا بے دلی کے ساتھ تتر بتر ہونے لگا اور پھر تھوڑی دیر بعد گلی پہلے ہی کی طرح سنسان ہو گئی۔ افسانہ نگار نے اطمینان کا سانس لیا اور کھڑکی سے ہٹ کر اپنی کرسی پر آ گیا۔

اور پھر اس واقعہ کے بعد اُس نے پگلی کو مختلف حالتوں میں کئی جگہ دیکھا۔ پارکوں میں، مسجد کی سیڑھیوں پر، مندر کے پیچھے، تنگ و تاریک گلیوں میں۔ غرضیکہ شیلانگ کے تقریباً ہر حصّے میں اُس نے پاگل لڑکی کو برہنہ بھٹکتی ہوئی دیکھا تھا۔ ہمیشہ وہ مادر زاد ننگی ہی ملتی۔ موٹے موٹے ہونٹ، سیاہ جلد، بکھرے ہوئے بال، بدن پر جما ہوا سیروں میل اور اس پر برہنگی۔ اس مجموعی ہیئت کذائی سے بجائے ہمدردی کے لوگوں کو اس پگلی سے کراہیت اور نفرت سی ہو گئی تھی۔ لوگ اس سے اس طرح بدکتے تھے جیسے وہ کوئی خارش زدہ کُتیا ہو۔ البتہ شریر بچوں کے لیے وہ ایک دلچسپ تماشہ تھی۔ اسے پریشان کرنا، پتھر مارنا اور چڑانا ان کا بہترین مشغلہ تھا۔ بچے جتنا زیادہ اس میں دلچسپی لیتے، بڑے اتنا ہی اس سے بچتے تھے۔ شاید اس کی بدصورتی، گندگی اور غلاظت سے زیادہ اس کی برہنگی کی وجہ سے۔ بہر حال کوئی اسے اپنے گھر یا دوکان کے قریب کھڑا تک نہ ہونے دیتا تھا۔ اسے تعجب تھا جب کوئی اسے بھیک تک نہیں دیتا تو وہ اب تک زندہ کیسے ہے۔ اگر یہی پگلی کچھ حسین ہوتی اور اپنے کو ریشمیں ملبوسات میں پنہاں کر سکتی تو اُس کے بھی سیکڑوں پروانے ہوتے۔

ایک دن وہ کسی اچھے افسانے کے لیے پلاٹ اور مواد کی فکر میں کمرے میں بیٹھا دماغ اِدھر اُدھر دوڑا رہا تھا۔ اس دن اُس کی طبیعت صبح سے ہی مضمحل تھی۔ کوئی کام کرنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ آفس سے رخصت اس لیے لی تھی کہ سکون سے بیٹھ کر ان پرچوں کے لیے افسانے لکھے گا جنھوں نے تقاضے کے ساتھ ساتھ خلاف دستور پیشگی معاوضے بھی بھیج دیے تھے لیکن طبیعت کچھ لکھنے کی طرف راغب ہی نہ ہوتی تھی۔ قلم ہاتھ میں لیے وہ سامنے پڑی ہوئی نوٹ بُک پر کچھ لکھنے کی بجائے آڑی ترچھی لکیریں کھینچ رہا تھا۔ نہ جانے وہ کب تک اسی طرف صفحات خراب کرتا رہا کہ اس کا دوست وید سرین آ گیا۔

’’ کیوں بیٹے!‘‘ وہ اس کی پیٹھ پر دھول جماتا ہوا بولا۔ ’’کیا پلاٹ نہیں مل رہا ہے کسی افسانے کا؟ رونی صورت بنائے کیوں پڑے ہو؟‘‘

وہ جھنجھلا کر کھڑا ہو گیا۔

’’ ابے وید کے بچے! مجھے یہ بے وقت کی شہنائی اچھی نہیں لگتی۔ ‘‘

’’ اچھا جی۔۔ ‘‘ وید نے آنکھیں مٹکائیں ’’ یہ نخرے ہیں آپ کے۔ کوئی بات نہیں۔ بیٹھے بسورتے رہو۔ ما بدولت تو سیر کو جا رہے ہیں۔ ‘‘

’’ کیا سچ۔۔ ‘‘ وہ قلم جیب میں کھونستا ہوا بولا۔ ’’ ٹھہرو۔ باپ بدولت کا موڈ بھی بن رہا ہے۔ ‘‘

اور پھر وہ انھیں بے ڈھنگے کپڑوں اور بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ وید سرین کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے باہر آ گیا اور تب اسے معلوم ہوا کہ وہ کتنی دیر تک بیکار پڑا رہا تھا۔ شام کے پانچ بج رہے تھے۔ سورج کی سنہری کرنیں شیلانگ کی سڑکوں، گلیوں اور پہاڑیوں کو منور کیے تھیں۔ انوپ چند لین سے نکل کر وہ دونوں جی۔ ایس روڈ پر آ گئے۔ کھاسی پہاڑیوں کا سارا حسن سمٹ کر شاید آج شیلانگ کی گلیوں اور سڑکوں میں بکھر گیا تھا۔ ہر چہرا نکھرا ہوا نظر آتا تھا۔ ساریاں، اسکرٹ، پہاڑی لہنگے اور بھانت بھانت کی صورتیں دیکھتے ہوئے وہ دونوں گاڑی خانہ، مکھار اور لائی مکھڑا وغیرہ تمام گندے محلوں میں گھومتے پھرے جہاں سماج کی غلاظت بکھری پڑی تھی لیکن باشندے حسین اور حسن پرست تھے۔ اور جب وہ اِدھر اُدھر بھٹک کر نکلسن روڈ پر آئے تو انھیں ناگی گیریج کے سامنے سیکڑوں آدمیوں کا مجمع نظر آیا۔ وہ دونوں مجمع کے قریب پہنچے تو افسانہ نگار چونک پڑا۔ وہی پگلی جسے چند ماہ پہلے اس نے انوپ چند لین میں دیکھا تھا، ایک شریف صورت اپٹو ڈیٹ نوجوان سے بری طرح لپٹی ہوئی تھی۔ پہلے سے بدرجہا سیاہ اور گندی حالت میں اس کے جسم سے تعفن کے بھپکے نکل رہے تھے اور وہ حسب دستور برہنہ تھی۔

دو تین آدمیوں نے کافی جد و جہد کے بعد اس نوجوان کو پگلی کے چنگل سے نکالا اور وہ بے چارہ سر پر پیر رکھ کر بھاگا۔ جیسے دنیا کی تمام بد ارواح مل کر اس کا پیچھا کر رہی ہوں اور پھر لوگ اس پگلی سے بچ بچ کر نکلنے لگے۔ چلتے چلتے افسانہ نگار نے نوٹ کیا کہ پگلی کا پیٹ پھولا ہوا ہے۔ لوگوں سے معلوم ہوا کہ وہ حاملہ تھی۔ افسانہ نگار کی کنپٹی کی رگیں چٹخنے لگیں۔ اُف۔ لوگ اس سے اتنی نفرت کا مظاہرہ کرتے ہیں پھر بھی جانے کس شریف ا بنِ شریف، کس مولانا یا پنڈت صفت بزرگ نے رات کی سیاہی میں اس پگلی کے ساتھ منھ کالا کیا ہو گا۔

اور یہ واقعہ بعد میں آنے والے کئی دنوں تک اس کے دماغ کو پریشان کرتا رہا۔ دل میں خلش پیدا کرتا رہا۔ پھر ایک دن وید سرین عجیب سی صورت بنائے اس کے پاس آیا۔

’’ منظور! تم خاک افسانہ نگاری کرتے ہو۔ جی۔ ایس۔ روڈ پر تمہاری سیاہ رو پگلی برہنہ بے ہوش پڑی ہے۔ ابھی آدھ گھنٹہ قبل اس نے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ ہاں اسی سڑک پر، سب لوگوں کے سامنے اور لوگ ناک پر رومال رکھ رکھ کر ادھرسے نکل رہے ہیں۔ شاید انھیں میں اُس معصوم رُوح کا باپ بھی ہو گا جس نے اس ننگی سڑک پر ننگی ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور تم یہاں خاموش بیٹھے ہو۔ کیا تم اس پگلی پر ایک افسانہ نہیں لکھ سکتے۔ ‘‘

اور پھر کئی پلاٹ اس کے خیالوں میں ناچ گئے اور اسی وقت وہ قلم اُٹھا کر افسانہ لکھنے لگا۔ لکھتا رہا۔ صفحات سیاہ ہوتے رہے۔ الفاظ قلم کے منہ سے اُبلتے رہے۔ افسانہ تیار ہو گیا اور وہ اسی وقت اسے ایک مشہور رسالے کو پوسٹ کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔

اور جب وہ افسانہ پوسٹ کر کے واپس آ رہا تھا تو جی۔ ایس۔ روڈ کے فٹ پاتھ پر اس نے دیکھا ایک بوڑھی بھکارن اپنی پھٹی چکٹ چادر سے بے ہوش پگلی کا جسم ڈھانکے ہوئے نوزائیدہ بچے کو پچکارتے ہوئی بیٹھی ہے۔

اور اس کے دل کو زور کا دھکا سا لگا اور کسی نے اس کے اندر سے کہا:

’’ تمھارا افسانہ اس پگلی کے کس کام آیا؟ تم نے تو اسے اور بھی ننگا کر دیا ہے۔ افسانہ نگار! اس کا پردہ تو اس بھکارن کی پھٹی چکٹ چادر ڈھانکے ہوئے ہے!!‘‘

(۱۹۵۴ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

مول گنج کی صبحیں

 

شاید آپ پہلی بار تشریف لائے ہیں کانپور۔ تبھی تو دن دہاڑے مول گنج کا ذکر کر رہے ہیں ورنہ مول گنج کا ذکر تو یار لوگ چوری چھپے کرتے ہیں۔ ابھی پرسوں ہی کی تو بات ہے میں نے اپنے ہم عمر ماموں بشارت سے مول گنج چلنے کو کہا تو وہ اس بُری طرح مجھ پر بگڑے جیسے میں نے ان کے سامنے جہنم میں چلنے کی پیشکش کی ہو۔ حالانکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ ہر رات جو اِتنی دیر تک غائب رہتے ہیں اور واپس آ کر اپنی بیوی کو صلواتیں سُناتے ہیں، مارتے پیٹتے ہیں تو اس کی خاص وجہ مول گنج کی سیر ہی ہوتی ہے اور پھر اس دن میں انھیں لے کر مول گنج کے بالا خانے پر نہیں بلکہ اس محلے میں واقع ہوٹل ’’ نشاط افزا‘‘ کے منیجر سے چند باتیں طے کرنا چاہتا تھا جن سے ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ پھر بھی وہ مجھ پر برس پڑے تھے۔ جانے کیا سمجھا تھا انھوں نے۔ اور ایک آپ ہیں صاحب! کہ اس طرح شاہراہِ عام پر کھڑے ہو کر مول گنج کا راستہ پوچھ رہے ہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے بات کچھ اور ہی ہو اور میں نے بھی اپنے ماموں کی طرح آپ کو غلط سمجھا ہو۔ ایں !۔ کیا کہتے ہیں آپ؟۔ آپ مول گنج کسی دوسرے کام سے نہیں جانا چاہیے۔ آپ وہاں کے بالا خانوں کا ہی معائنہ فرمائیں گے۔ کمال ہے جناب! آپ بھی بڑے صاف گو انسان ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عجیب بھی۔ نہیں نہیں، میں آپ کو پاگل تو خیر نہیں سمجھتا۔ پھر بھی بھلا کوئی تُک ہے اس وقت مول گنج کی سیر کی۔ صُبح کے سات بجے مول گنج کی سیر۔ کیا خاک لطف آئے گا اس وقت وہاں۔ اجی صاحب مول گنج چلنا ہے تو شام کو تشریف لے چلیے گا۔ اِندر کا اکھاڑہ اور قاف کی پریاں نوک پلک سنوارے آپ کی آنکھوں کو نور، دل کو سرور، خون کو گرمی اور جذبات کو ہیجان بخشنے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتی ہوئی دکھائی دیں گی۔۔ جی! ۔۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ میں تو حکم کا بندہ ہوں، گائیڈ جو ٹھیرا۔ رہنمائی میرا کام ہے!۔ آپ حکم دیجیے۔ جدھر کہیے گا چلوں گا۔ پھر بھی آپ صبح ہی صبح۔ اوہ!۔ آپ ناراض کیوں ہوتے ہیں !

اے رکشا۔۔ ادھر آنا۔۔ دو سواری۔۔ مول گنج۔۔ چل چل آگے بڑھا اپنا رکشا۔ ابے! دس آنے تو اسٹیشن کے نہیں دیتے ہم۔ یہ تو برہانہ روڈ ہے، یہاں سے ہے ہی کتنی دور۔ نہ آٹھ آنے بھی نہیں۔ چھ آنے ملیں گے۔ اچھا خیر اب انھوں نے کہہ دیا ہے تو سات آنے ہی سہی۔ آئیے صاحب! تشریف رکھیے۔ جی ہاں میں یوں ہی ٹھیک ہوں۔ در اصل یہ رکشا والے انجان آدمیوں کو اسی طرح ٹھگ لیتے ہیں۔ ابے چل چپ رہ۔ تجھ سے تھوڑی ہی بول رہا ہوں میں۔ کیا پہلی بار مول گنج جا رہا ہوں۔ تین آنے سواری عام طور پر جاتی ہے۔ اجی! کیا فرمایا آپ نے؟۔ جی ہاں بس اگلے موڑ سے کوتوالی کے سامنے سے مسٹن روڈ شروع ہو جاتی ہے۔ اس شہر کی سب سے زیادہ با رونق اور دولتمند سڑک، عام طور پر بڑے بڑے بینک، فرموں کے دفاتر اور شوروم اور عالی شان دوکانیں اسی سڑک پر واقع ہیں۔ اے یہ لیجیے!۔ دیکھیے کیا کیا فلک بوس عمارتیں ہیں۔ ابھی تو صبح ہی ہوئی ہے۔ تھوڑا اور دن چڑھنے دیجیے پھر یہاں اِتنی چہل پہل ہو گی، اتنا شور و غُل کہ کان پڑی آواز نہ سُنائی دے گی۔ بس تھوڑی دور اور اب روک لے میرے بھائی!۔۔ ۔۔ دیجیے صاحب سات آنے اس کو۔ مول گنج آ گیا۔۔ !

لیجیے جناب! دیکھ لیجیے۔ یہ ہے آپ کا مول گنج۔ آپ ناراض ہوں گے۔ لیکن کہنے والی بات کہنے میں آتی ہے۔ آپ قطعاً ناوقت تشریف لائے ہیں یہاں۔ کیا ملے گا اس وقت اس جگہ۔ ہر شکل اُجڑی ہوئی نظر آئے گی۔ صبح کا وقت اس چمن کا عہدِ خزاں ہے۔ اس گلشن میں تو کچھ شام ہی کو بہار آتی ہے حسین مکھڑے۔ رنگین آنچل۔ مخمور نگاہیں، دلکش ادائیں، دل پھینک لوگ اور دلربا نظارے تو کچھ اُسی وقت مِل سکتے ہیں۔ بس یہ کہیے کہ حسن و عشق کا بازار گرم ہوتا ہے یہاں سرِشام سے جس کے گاہک نیم شب تک رخصت ہو جاتے ہیں یہاں سے اور دوکاندار صبح کاذب ہوتے ہوتے اپنی دوکان بڑھا دیتے ہیں دیکھیے تو کیسی دھُول اُڑ رہی ہے یہاں ۔۔ !

نیچے کیا دیکھ رہے ہیں آپ؟ یہ جو لائن یہاں سے وہاں تک چلی گئی ہے۔ ! دوکانوں کی ہے۔ عام دوکانوں کی۔ حسن کی دوکانیں اور عصمت کے خوانچے ان بالائی منزلوں پر سجتے ہیں۔ لیکن اس وقت وہاں کیا دھرا ہے؟ ذرا ادھر دیکھیے۔ وہ۔ جو بکھرے بالوں اور جھرّی دار چہرے والی ادھیڑ عمر کی عورت چھجے پر بیٹھی ہوئی کمر دبوا رہی ہے۔ آہستہ آہستہ کراہ رہی ہے۔ در اصل اُسے اس طرح کراہنے اور دبی دبی سسکیاں لیتے رہنے کی ایک عادت سی پڑ گئی ہے۔ رات کو بھی اور دن کو بھی۔ ہاں تو اس وقت تو وہ آپ کو بالکل چڑیل لگ رہی ہے۔ لیکن شام کو اس کے رنگ ہی دوسرے ہوتے ہیں۔ بس معلوم ہوتا ہے دوبارہ شباب پر آ گئی ہے۔ سیکڑوں مرتے ہیں اس پر۔ لکھ پتی ہے سالی۔ آٹھ نو سال قبل اسی شہر میں بھیک مانگا کرتی تھی۔ لیکن تھی بڑی اکڑباز۔ کسی کو پُٹھے پر ہاتھ نہ رکھنے دیتی تھی۔ اس وقت بڑے خون خرابے اور چھیچھا لیدر ہوئی صاحب اس کے پیچھے۔ لیکن آخر بٹیر کو پنے ٹیکنے ہی پڑے۔ ایک بابو اسے شادی کا چکمہ دے کر اُڑا لے گئے۔ دو چار مہینے مزے کیے اور پھر اس کو نعمت دلال کے ہاتھ بیچ دیا اور اس نے اس پھول کو لا کر مول گنج کے گلدستے میں سجا دیا۔

کون۔۔ ؟ اس تیسری کھڑکی پر۔۔ ! یہاں کی مشہور نائکہ ہے وہ۔ خورشید نام ہے حرامزادی کا۔ پہنچی ہوئی حرافہ ہے۔ اچھے اچھے شریف خاندانوں کی بہو بیٹیوں کو لا بٹھایا ہے اس نے اس بازار میں ۔۔ ایک چھوکری کے پیچھے ہزاروں خرچ کرنے پر آمادہ رہتی ہے۔ معلوم نہیں سچ ہے یا جھوٹ۔ میں نے بھی سنا ہے یہ کسی غریب باپ کی بیٹی تھی جس نے بر نہ ملنے کی وجہ سے اسے ایک بوڑھے کلرک سے بیاہ دیا تھا اور وہ خود اطمینان سے ملکِ عدم کو سدھار گیا۔ پھر عین شباب کے عالم میں اس کا بوڑھا شوہر بھی مر گیا۔ مجبوراً اسے اس بازار میں پناہ لینی پڑی اور اب یہ ہر اس مصیبت زدہ لڑکی کو جس کا دُنیا میں کہیں ٹھکانہ نہ ہو۔ بڑی فراخ دلی کے ساتھ اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیتی ہے۔ اور پھر اس کے جوہر عصمت کو اپنے پُرانے مستقل گاہکوں کے شہوانی جذبات کی دہلیز پر بھینٹ چڑھا کر منہ مانگے دام وصول کرتی ہے!

آئیے اس طرف بائیں ہاتھ کو گھوم جائیے۔

یہ روٹی والی گلی ہے۔ لا حول ولا قوت۔ اِدھر کہاں جھانکنے لگے آپ؟ آخ تھو!۔ کیا کہتے ہیں آپ؟ یہ انسانیت کی عصمت کا خون ہے۔ ہی ہی ہی۔ انسانیت کی عصمت کا خون!۔ اوہ معاف کیجیے گا۔ میں آپ کی ہنسی نہیں اڑاتا۔ لیکن بات ہی کچھ ایسی مضحکہ خیز تھی۔ انسانیت کی عصمت کا۔۔ خیر جانے دیجیے۔

یہ کون چلا آ رہا ہے سامنے سے؟ ارے! یہ تو رئیس ہے۔ کیوں بھئی رئیس! خیریت تو ہے نا؟۔۔ ہاں بھائی ! ہم بھی جِیے جا رہے ہیں تمھیں لوگوں کے سہارے۔ کہو کاروبار کا کیا حال ہے؟ کیا کہتے ہو؟۔۔ نیا مال لائے ہو کشمیر سے۔۔ صرف دو سو روپے میں !۔ اماں سچ کہو؟۔۔ عقل باور نہیں کرتی کہ اتنی نفیس چیز اتنی مندی مل گئی ہو۔ اچھا یہ بات ہے۔ مہاجر کیمپ سے لائے ہو۔ آفیسروں کو رشوت دے کر۔ ہاں بھائی! اپنی اپنی قسمت ہے۔ اور وہ جو جے پور کے ودھوا آشرم سے تین پھلجھڑیاں لائے تھے۔ ان کا کیا ہوا۔ افّوہ۔ ستّرہ ہزار میں۔ یتیم خانہ کا منیجر میرا شناسا نہیں ورنہ ضرور تمھاری سفارش کرتا۔ اجی تمھیں سفارش کی ضرورت ہی کیا ہے۔ مٹھی گرم کر دینا اور چھانٹ لانا دوچار لا وارث جوان پھول۔ کیا باتیں کرتے ہو۔ آج کل تو پیٹ بھرنا دو بھر ہو رہا ہے ہمیں۔ ان جیسے دوچار شریف بابو لوگوں کو شہر میں گھما لاتا ہوں تو دو چار روپے مل جاتے ہیں۔ یہ تو بھائی تم ان سے خود کہو۔ میں بھلا کیا سمجھا سکتا ہوں انھیں۔ وہ تو میں پہلے ہی سمجھتا تھا۔ یہ تو صرف گھومنے کی غرض سے نکل آئے ہیں اِدھر۔ ناچ گانے سے انھیں کیا مطلب۔ ارے بھائی جان!جب انکار کر دیا صاف تو کیوں گلے پڑتے ہو بیچاروں کے۔ اگر یہ رات کو آنے والی اسامی ہوتے تو یوں صُبح ہی صبح یہاں کے چکر کیوں کاٹتے۔ ؟ہاں بھائی۔ اپنا اپنا مزاج ہے۔ یہ صرف دیکھنے پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ وہ بھی رات میں نہیں دن کو۔ اچھا چل دیے۔ وعلیکم السلام و رحمت اللہ۔

جی کون۔۔ ؟ جو ابھی باتیں کر رہا تھا۔ جی ہاں دلال ہے۔ تبھی تو آپ کو آج رات کو بالاخانے پر آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ نہیں جناب یہ بڑے اچھے گھرانے کا چشم و چراغ ہے۔ وہ دیکھیے۔ جہاں اب غریب نواز ہوٹل کا بورڈ لٹک رہا ہے دس سال پہلے اس جگہ جوتوں کا ایک بڑا سا کارخانہ تھا اس کے پروپرائٹر تھے غفور خان صاحب۔ بڑے ہی عیاش طبع تھے۔ ساری آمدنی رنڈیوں پر صرف کرتے تھے۔ تب یہ رئیس مجھ سے پڑھتا تھا۔ جی نہیں اسکول میں نہیں۔ گھر پر ٹیوشن پڑھاتا تھا میں۔ جی ہاں کچھ دنوں یہ کام بھی کیا ہے میں نے۔ صاحب! بیکاری بڑی بُری بلا ہے۔ کون سا کام مجھ سے چھوٹا ہے۔ اب تو یہ گائیڈ والا دھندا بھی ٹھپ ہوتا نظر آتا ہے۔ کسی دوسرے اچھے دھندے کی تلاش میں ہوں۔ اوہ! میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ ہاں تو اس وقت میں اس رئیس کو ٹیوشن پڑھا یا کرتا تھا۔ کیا بتاؤں بابو جی! میں تو ایک گوشے میں بیٹھا لڑکے کو پڑھاتا رہتا اور غفور خاں مرحوم بالکل سامنے والی کھڑکی میں کھڑے ہو کر پڑوسی طوائفوں سے ایسے ایسے فحش مذاق کیا کرتے کہ وہ لڑکا تو کیا میں خود شرم سے پانی پانی ہو جاتا تھا۔ پھر بھلا لڑکے پر کیوں نہ اثر پڑتا۔ ان باتوں کا۔ نتیجہ دیکھ لیجیے۔ اچھا خاصہ جوتوں کا کارو بار تھا۔ کئی مکانات تھے۔ سب کچھ چوپٹ ہو گیا۔ مال و دولت خاک میں مل گئی۔ اب صاحبزادے حسن کے دلال ہیں۔ ہمیشہ اس فکر میں غلطاں رہتے ہیں کہ مول گنج کی منڈی میں ان کے توسط سے گلستانِ حسن کے نئے پھول پہنچتے رہیں۔ اب دیکھیے مجھ غریب کو ہی پھانس رہا تھا۔ یتیم خانے کے منیجر سے سفارش کے لیے کہتا تھا۔ اوہ! آپ کے کان پک گئے سنتے سنتے۔ اچھا صاحب! لیجیے چپ ہوا جاتا ہوں !

جی نہیں ! میں آپ کی بات کا بُرا کیسے مان سکتا ہوں ؟ فی الحال تو آپ ہی میرے آقا ہیں۔ آپ نے حکم دیا تھا اسی لیے خاموش تھا۔ شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آہا۔ کیسی لطیف بُو اورمسحور کن ذائقہ ہے اس سگریٹ کا۔ طبیعت خوش ہو گئی سگرٹ تو صاحب ۵۵۵ ہی ہوتی ہے۔

اُف بابو جی! آپ شاید اپنے ساتھ مجھے بھی پٹوائیں گے۔ یہ چق اٹھا کر مکان میں کیوں جھانکنے لگے تھے آپ۔ وہاں چند حسین لڑکیاں ہوں گی اور کچھ جوان عورتیں۔ عورتیں سو رہی ہوں گی۔ رات بھر محنت جو کرتی ہیں بیچاریاں ! اور لڑکیاں نتھنیاں پہنے گھر کے کام کاج میں مشغول ہوں گی۔ واہ اس میں پٹنے کی کوئی بات ہی نہیں۔ بابو صاحب! آپ ہیں کس پھیر میں ؟۔ رنڈیوں کا گھر ہے تو کیا ہوا؟ جب تک ان طوائف زادیوں کی نتھ نہیں اُترتی یہ اتنی ہی عصمت مآب ہوتی ہیں جتنی کہ اچھے اچھے گھرانوں کی دوشیزائیں۔ بلکہ بعض اوقات تو اونچے گھرانے کی لڑکیاں بھی وقتی طور پر جذبات کی رو میں بہہ کر اپنا جوہرِ عصمت گنوا بیٹھتی ہیں، لیکن ان طوائف زادیوں کی مائیں اور استاد جی بڑی جانفشانی کے ساتھ ہر لمحے ان کی پاسبانی کرتے ہیں۔ کیونکہ انھیں اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنی ہوتی ہے۔ وہ دیکھیے۔ پردے کے پیچھے، بنّے استاد اس لڑکی کو گانا سکھلا رہے ہیں۔ اگر ان کو آپ جھانکتے ہوئے دکھائی دے جاتے تو ہم دونوں کی شامت ہی آ گئی ہوتی۔ خیر۔ آئندہ احتیاط برتیے گا۔

یہ جو اس بوڑھی عورت کے سر سے جوئیں نکالنے میں محو ہے، یہ ریشماں ہے۔ آئیے مزہ دیکھیے گا بابو جی۔ کیسے منمنا کر باتیں کرے گی۔ !

اے ریشماں بائی! ہاں بھائی! اب ہم غریبوں کو کیوں پہچاننے لگیں ! اوہ! تم نے بھی کون سا زمانہ یاد دلا دیا بائی جی!۔ آج کل تو ہم۔ یادِ ماضی عذاب ہے یا رب۔ قسم کے اشعار کا وِرد کیا کرتے ہیں۔ وہ زمانہ ہی لد گیا۔ جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے۔ اب تو منہ پر سے مکھیاں بھی نہیں اڑائی جاتیں۔ پچھلے وقت کو یاد کر کے تھوڑی سی آہیں بھر لیا کرتے ہیں۔ نئی نئی جوانی تھی تب۔ دل میں کھلتی ہوئی امنگیں تھیں۔ بپھرتے ہوئے ولولے۔ جیبوں میں باپ کا چھوڑا ہوا روپیہ بھرا تھا۔ سب کچھ تو بھینٹ چڑھا دیا تم لوگوں کی چوکھٹ پر۔ بھئی اپنی نظروں میں تو تم آج بھی وہی بارہ سال پہلی والی ریشماں ہو جس پر شہر کے تمام گبرو مرتے تھے۔ مگر بائی جی! اس وقت تو تمھارے بھی عجیب ٹھاٹ تھے۔ تب تم اونچے بالا خانے پر بیٹھا کرتی تھیں جہاں آج کل وہ بنگالی ناگن بیٹھتی ہے۔ ہزاروں کے وارے نیارے ہوتے تھے۔ اب اس سے کیا ہوتا ہے۔ میرے نہ آنے سے تم نے یہ اندازہ کیسے کر لیا کہ محبت میں کمی آ گئی ہے۔ روپیہ آنے دو جیب میں، پھر وہی ہم ہوں گے اور وہی تم۔ بس اب زیادہ شرمندہ نہ کرو۔ تمھاری ناک کٹ گئی اس لیے اب صرف دو ہی روپے لیتی ہو۔ مجھ سے کچھ اور بھی کم لے لیا کرو گی!۔ پُرانا گاہک ہوں۔ نوازش ہے بائی جی تمھاری! سالا شرابی فوجی نشے میں تمھاری ناک پر دانت سے نہ کاٹ لیتا اور اس میں سیپٹک ہو جانے سے تمھیں آپریشن میں ناک نہ کٹوا دینی پڑتی تو تمھارے وہی پہلے جیسے ٹھاٹ ہوتے۔ کیا کہا۔ ؟ اس کو گالی نہ دوں ؟ بھلا کیوں۔ ؟ فوجیوں سے تمھیں بہت آمدنی ہوتی تھی اس لیے۔ ؟ تو پھر کس لیے گالی نہ دوں اسے؟وہ کا بچہ حرامی۔ سالا فوجی کہیں کا۔ یہ ساری تباہی اسی کے کارن تو آئی ہے تم پر۔ جب تک تم نہ بتاؤ گی اسی طرح گالی بکتا جاؤں گا۔ سالے کی تو۔۔ کیوں نہ دوں گالی۔ اوہ! تمھیں اس سے محبت ہے اب تک۔ رنڈیاں بھی محبت کر لیتی ہیں۔ ایں۔ سچی محبت!۔ کیوں بناتی ہو مجھے۔ ارے یہ کیا۔ معاف کرنا بائی جی!۔ وہ میرے ساتھ والے بابو جی بھاگے جا رہے ہیں۔ پھر ملوں گا۔

اجی بابو جی!۔ میں نے کہا بابو صاحب! ذرا سنیے تو۔ ابھی آپ نے مدقوق شیریں اور چیچک زدہ لیلیٰ کو تو دیکھا ہی نہیں۔ ایک سوہنی بھی دوکان لگاتی ہے یہاں جس کے سیکڑوں مہیوال ہیں۔ اب آپ صبح کو آئے ہیں یہاں تو اس میں میری کیا خطا ہے۔ کیا کہا آپ نے۔ کسی ایک ایسی روشن اور تابناک صبح کو آئیں گے آپ اس طرف۔ جب۔ ارے باپ رے۔ کیوں اپنے ساتھ ہی مجھے بھی گرفتار کروانا چاہتے ہیں۔ اُف کتنے گندے خیالات ہیں آپ کے۔ ان فاحشہ عورتوں، عصمت فروش فاحشہ عورتوں اور سماج کے سینے پر رِستے ہوئے ناسوروں کو آپ اپنی بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کا درجہ دلوانا چاہتے ہیں۔ ارے آپ تو بھاگتے ہی چلے جا رہے ہیں !

ارے باپ رے! میں بوڑھا آدمی۔ پیر میں جوتا الگ کاٹ رہا ہے۔ کس طرح پیچھا کروں۔ او بابو صاحب! ابے او سوّر کے بچے!۔ اے بھیّا۔ ارے سالے حرامزادے۔ سن تو۔ میں نے پرسوں رات سے کھانا نہیں کھایا۔ میرا محنتانہ تو دیتا جا!

او بھیا! میں پرسوں سے بھوکا ہوں !!!

( فروری ۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

مرنے دو

 

صبح ہی صبح ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے اخبار کھولا تو ایک موٹی سی سرخی نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔

’’ مُردے نے ٹھگ لیا۔

لکھنؤ۔ ۲۰ نومبر۔ ہمارا سٹی رپورٹر فریب دہی کی ایک بڑی دلچسپ خبر دیتا ہے۔ کل شام ایک مفلوک الحال شخص سیٹھ چندمل سورج رام کی دوکان پر پہنچا اور بتایا کہ وہ ایک پردیسی ہے اور اپنے بھائی کو علاج کے لیے دیہات سے لکھنؤ لایا تھا۔ اس کا بھائی راہیِ ملکِ عدم ہو گیا۔ تمام جمع پونجی وہ اپنے بھائی کے علاج پر پہلے ہی صرف کر چکا ہے اور اب لاش کی کِریا کرم کے لیے اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ سیٹھ جی نے اپنے مُنشی کو ڈھائی سو روپیے دے کر اس شخص کے ہمراہ کر دیا کہ جا کر کریا کرم کا انتظام کر دیں۔ وہ اجنبی منشی جی کو ساتھ لے کر امین آباد کے ایک کمرے میں پہنچا جہاں ایک پلنگ پر چادر سے ڈھکی ہوئی لاش کے قریب بیٹھ کر شلوک پڑھنے لگے۔ لیکن ان کی حیرت کا ٹھکانہ نہ رہا جب دس پندرہ منٹ بعد ہی مردہ اٹھ بیٹھا اور چادر لے کر بھاگ گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کمرہ بھی عرصے سے کرایہ کے لیے خالی پڑا تھا۔ پولیس تحقیقات میں مصروف ہے۔ ‘‘

میں نے جھنجھلا کر اخبار پٹک دیا۔

عرصے سے اس قسم کی وارداتیں دیکھنے، سننے اور پڑھنے میں آ رہی تھیں۔ بد معاشوں نے دھوکہ دینے کے نت نئے طریقے کھوج نکالے تھا۔ جیسے جیسے زمانہ ترقی کر رہا تھا اسی تیز رفتاری سے چور اُچکے اپنے فن میں جدت طرازیاں کر رہے تھے۔ بذاتِ خود میں ان لوگوں کی چالاکیوں کا کئی بار شکار ہو چکا تھا۔ ایک دن ریلوے بک اسٹال پر کھڑا مختلف رسائل کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ پیچھے سے کسی نے میرا کندھا تھپتھپایا۔ مُڑ کر دیکھا تو وہ ایک فیشن ایبل نوجوان تھا۔ چہرے پر بد حواسیاں رقصاں تھیں۔ میں نے رسالہ کاؤنٹر پر ڈال کر اس سے پوچھا۔

’’ کہیے۔ ؟‘‘

وہ اکٹھا بہہ نکلا۔

’’ جی! میں فیروز آباد کا رہنے والا ہوں۔ غریب گھرانے کا فرد ہوں۔ تھرڈ ایئر کا طالب علم ہوں۔ یہاں جو ایئر فورس میں ٹیکنیکل کورس کے مقابلے کا امتحان ہو رہا ہے اس میں شرکت کی غرض سے آیا تھا۔ ‘‘

میں نے اس کی تقریر کو روکنے کی غرض سے کہا۔۔

’’ صاحب! میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ تفصیل میں جانے سے قبل یہ بتائیے آپ کو کوئی غلط فہمی تو نہیں ہوئی؟‘‘

’’ نہیں صاحب!‘‘ وہ جلدی سے مطلب پر آتا ہوا بولا۔ ’’میں در اصل چاہتا تھا کہ ۔۔ ۔۔ کہ آپ میری کچھ مدد کر دیتے۔ ریکروٹنگ آفیسر نے چار دن کے لیے بلوایا تھا لیکن امتحان کے لیے آٹھ دن رکنا پڑا۔ پھر بھی مجھے بھرتی نہیں کیا۔ کہتے ہیں میرا سینہ کم ہے۔ جو کچھ گھر سے لایا تھا سب ختم ہو چکا ہے۔ کل صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ گھر خط لکھے لیکن جواب نہیں آیا اب تک۔ والدین بھی پریشان ہوں گے۔ کالج کی غیر حاضریاں بھی ہو رہی ہیں۔ بہت زیادہ پریشان ہوں۔ شریف ہوں۔ بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہوئے خوف آتا ہے کہ جیل جانے کی نوبت نہ آ جائے۔ ‘‘

اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور میرا ہاتھ بے اختیار جیب میں چلا گیا۔ رسالے خریدنے اور متفرق اخراجات کے لیے جیب میں چودہ روپے چھ آنے پڑے تھے، اسے تھماتے ہوئے لرزتی ہوئی آواز میں میں نے کہا؛

’’ معاف کیجیے گا میرے پاس اس وقت یہی کچھ ہے۔ مجھے آپ سے بے حد ہمدردی ہے۔ خدا آپ کی مدد کرے۔ ‘‘

اس نے اطمینان کے ساتھ نوٹ گن کر جیب میں رکھتے ہوئے مجھے مشکور نگاہوں سے دیکھا اور کہنے لگا۔

’’ آپ انسان نہیں، فرشتہ ہیں۔ ‘‘

’’ ظاہری رسمیں رہنے دیجیے۔ یہ تو میرا اخلاقی فرض تھا۔ ‘‘

میں اپنا پسندیدہ پرچہ جو خریدنے کے لیے الگ رکھا تھا، وہیں بک اسٹال پر واپس رکھ کر چلا آیا۔ پھر اس ماہ میں کوئی رسالہ نہ خرید سکا۔ ضروری اخراجات پر بھی کافی کنٹرول رکھنا پڑا کیونکہ اس مد کے روپے تو میں فرشتہ بننے پر صرف کر چکا تھا اور پھر کچھ دنوں بعد۔۔ ’’ بصرہ ریسٹورانٹ‘‘ میں ناشتہ کرتے ہوئے میری نظر مقابل کی سنگ مرمر کے ٹیبل کو گھیرے بیٹھے ہوئے فیشن ایبل نوجوانوں کی ٹولی پر جا پڑی۔ ان میں وہ نوجوان بھی تھا جس نے اسٹیشن پر خود کو فیروز آباد کا مصیبت زدہ انسان ظاہر کر کے مجھ سے چودہ روپے چھ آنے اینٹھ لیے تھے۔ مجھے قہر آلود نگاہوں سے خود کو گھورتے پا کر وہ بڑے سکون کے ساتھ مسکرا دیا اور چہکتی ہوئی آواز میں اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا۔

’’ یہ حضرت، جو ناشتہ کر رہے نا۔ انسان نہیں ہیں !‘‘

’’ پھر۔ ؟‘‘ ساتھیوں میں سے کئی ایک نے سوال کیا۔

’’ فرشتہ ہیں !‘‘ وہ بولا اور میز پر جھک کر جلدی جلدی کچھ کہنے لگا۔ شاید اس نے نمک مرچ لگا کر اسٹیشن والا واقعہ سنایا تھا۔ پھر وہ سب زور زور سے قہقہے لگانے لگے اور میں خجل ہو کر ناشتہ ادھورا ہی چھوڑ کر باہر چلا گیا تھا۔

اور پھر مجھے وہ خوبصورت عورت یاد آئی۔ میں ٹیوشن پڑھا کر گھر واپس پلٹ رہا تھا۔ رات کے کوئی دس بجے ہوں گے۔ برفیلی ہوائیں سائیں سائیں کرنے لگی تھیں۔ میں اپنے اکلوتے پُرانے اور شکستہ چسٹر کو سینے سے چمٹائے ہوئے لمبے لمبے ڈگ بھر رہا تھا کہ اچانک رُک جانا پڑا تھا۔ پیچھے سے کسی نے بڑی ہی سریلی آواز میں التجا کی تھی۔

’’ اے مسٹر! ذرا سنیے۔ ‘‘

اور ایک لمحے بعد ہی وہ مجھ سے آملی تھی۔

’’ میں اس شہر میں اجنبی ہوں۔ ‘‘ اس نے کہا تھا۔ ‘‘ دلّی کے مشہور صراف سیٹھ نِگم کی اکلوتی بیتی ہوں۔ انٹر میڈیٹ پاس کر چکی ہوں۔ مجھے بچپن ہی سے فلموں کا بے حد شوق رہا ہے اور فلم ایکٹریس بننے کی تمنا رہی ہے۔ میرے ایک بوائے فرینڈ نے مجھے بتایا کہ ایک مشہور فلم ڈائرکٹر اپنی فلم کے لیے نئی ہیروئن کی تلاش میں بڑے بڑے شہروں کا دورہ کر رہا ہے اور آج کل کانپور میں ہے۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں اپنے زیور، کپڑے اور تقریباً ساڑھے سات ہزار روپیہ لے کر اس کے ساتھ یہاں چلی آئی۔ ہم یہاں ’’ پرنسس لاجنگس‘‘ میں ٹھہرے۔ بہت دنوں تک وہ مجھے طرح طرح کے بہانے بنا کر ٹالتا رہا اور پھر ایک دن مجھ سے روپے لے کر ڈائریکٹر سے ملنے گیا تو آج تک لوٹ کر نہیں آیا۔ میں اب تک اس کا انتظار کرتی رہی۔ لیکن اب لاج والوں نے پریشان کرنا شروع کر دیا ہے۔ مجھ سے بِل کی ادائیگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ میرے پاس نقد ایک پائی نہیں۔ زیور میں بیچنا نہیں چاہتی کہ گھر والوں کو کیا جواب دوں گی۔ آج جب ان لوگوں نے بہت پریشان کیا تو سونے کا یہ کڑا لے کر نکلی ہوں۔ اس نے ہینڈ بیگ سے ایک کڑا نکال کر مجھے دکھایا اور اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے بولی۔

’’ ۔۔ سوچا تھا کسی صرّاف کے ہاں رہن رکھ دوں گی اور دہلی پہنچ کر روپے بھیج کر منگوا لوں گی لیکن کوئی راضی نہیں ہوتا۔ کچھ تو کہتے ہیں کہ خریداری کی رسید دکھلاؤ اور کچھ اتنی کم رقم دیتے ہیں کہ ہوٹل کا بل بھی ادا نہیں ہو سکتا۔۔ سخت پریشانی ہے۔ آپ شکل صورت سے شریف معلوم ہوتے ہیں اس لیے روک کر آپ کو یہ طویل داستان سنا دی ہے۔ خدا کے لیے مجھے اس دکھ سے نجات دلوائیے۔ اگر جلد ہی گھر نہیں پہنچ گئی تو کہیں کی نہ رہ جاؤں گی۔ لوگوں میں طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہوں گی۔ ابھی تو خیر بہانہ کر دوں گی کہ اپنی سہیلی کے یہاں چلی گئی تھی شادی کے سلسلے میں ۔۔ بھگوان کے لیے آپ مجھے سہارا دیجیے۔ ‘‘

وہ میرے شانے پر سر رکھ کر سسکنے لگی میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ پگھل کر میں نے پوچھا۔ ’’ کتنے کی ضرورت ہے آپ کو؟‘‘

’’ جی ڈیڑھ سو روپے میں کام چل جائے گا۔ ‘‘ اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

میں نے گھر سے لا کر ڈیڑھ سو روپے، جو چھ ماہ سے ایک ایک پیسہ کر کے جمع کر رہا تھا، اس کی نذر کیے اور جب وہ شکریہ ادا کرنے لگی تو میں نے کہا۔

’’ اس میں شکریے کی کیا بات ہے؟ یہ تو میرا فرض تھا اور آپ ضمانت کے طور پر اپنا سونے کا کڑا بھی تو میرے پاس چھوڑ کر جا رہی ہیں۔ روپئے میرے ٹرنک میں پڑے تھے۔ چند دنوں بعد آپ بھیج ہی دیں گی۔ آپ کافی الحال کام نکل رہا ہے تو کیا بُرائی ہیَ‘‘

اس نے ممنون نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور جب وہ رخصت ہونے لگی تو میں نے اس کے سرخ سرخ لبوں کا بوسہ لے لینا ضروری سمجھا ورنہ یہ ایک نوجوان دوشیزہ کی توہین ہوتی۔

اور پھر اس واقعہ کے چوتھے دن مول گنج سے ریحانہ شبنم کے کوٹھے سے گانا سن کر واپس آ رہا تھا کہ مجھے اس کی ایک جھلک نظر آ گئی۔ وہ کسی گاہک سے سودا طے کر رہی تھی۔

’’ رات بھر یا۔ ؟‘‘

نہیں۔ رات بھر!‘‘

’’ پندرہ روپے۔ ‘‘

’’ اخاہ! ایسی کہاں کی پری ہو؟‘‘

میں آگے بڑھ گیا۔ دل و دماغ میں آگ سی لگی ہوئی تھی۔ تو یہ تھی دہلی کے سیٹھ نِگم کی اکلوتی بیٹی!

میں نے گھر پہنچ کر اس کا سونے کا کڑا نکالا۔ اب اس کی میرے پاس کوئی ضرورت نہ رہ گئی تھی۔ دوسرے دن صرّافے سے اس کے تین روپے پانچ آنے مل گئے۔ کیونکہ چاندی کا تھا۔ سونے کا تو صرف ملمع تھا اس پر۔ اس طرح ایک سو چھیالیس روپے گیارہ آنے کی چپت پڑی مجھ پر۔ لیکن نہیں بھولتا ہوں۔ میں نے ایک بوسہ بھی تو لیا تھا اس کا۔ ایک طوائف کا بوسہ ایک سو چھیالیس روپے گیارہ آنے میں !

اور پھر وہ معین۔۔ ۔۔ !

کیا وہ اس طوائف سے کچھ کم دغا باز تھا۔ ؟

کمبخت سے میری بچپن کی دوستی تھا۔ کیا خبر تھی کہ مجھ ہی سے داؤں کھیلے گا۔ ایک دن صادق صدیقی سردھنوی کا ناول ’’ سنگدل ملکہ‘‘ پڑھ رہا تھا کہ وہ آ دھمکا۔

’’ کس مصنف کی کتاب ہے؟‘‘

’’ صادق صدیقی کی ۔۔ سنگدل ملکہ!‘‘

’’ یار! تو مولانا کی کتابیں نہ پڑھا کر!‘‘

’’ کیوں ؟‘‘

’’ یہ کتابیں مسلمانوں کے لیے ہیں !‘‘

’’ اچھا۔۔ ! تو گویا ہم کافر ہیں ؟‘‘

’’ افوہ! تو آپ خود کو مسلمان سمجھتے ہیں ؟‘‘ وہ ابل پڑا۔

’’ کون سا کام کیا ہے تو نے اسلام کے حق میں ؟ عید کے عید نماز پڑھ لینے ہی سے تو کوئی مسلمان نہیں ہو جاتا۔ ‘‘

’’ تو پھر مسلمان بننے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ نکال پچیس روپے۔ کچھ تو کارِ خیر کر۔ محلے کی مسجد شکستہ حالت میں ہے۔ اگر ابھی سے مرمت نہ کرائی گئی تو دو ایک سال میں بالکل کھنڈر ہو جائے گی۔ ‘‘

’’ لیکن یار! محض پچیس سے کیا ہو گا؟‘‘

’’ شروع کر دیئے نا حیلے بہانے!۔۔ رسیدیں چھپوائیں گے ان پیسوں سے۔ چندہ وصول کرنے کے لیے۔ چل اب جلدی کر۔ مجھے پریس جانا ہے۔ ‘‘

مجبوراً دینے پڑے۔

دوسرے دن اس نے چھپی ہوئی رسیدوں کا بنڈل لا کر مجھے دکھایا اور پھر روزانہ حساب بتاتا رہا۔

’’ آج گھسیا نہ سے چالیس روپے ملے۔ ‘‘

’’مصری بازار سے ڈیڑھ سو روپے وصول ہوئے۔ ‘‘

’’ بابو پوروہ سے ایک سو ساٹھ وصول کیے۔ ‘‘

’’ شفیع آباد والوں نے تین سو پانچ روپیے دیے۔ ‘‘

اور اس طرح اس نے ڈیڑھ ہزار روپیہ مسجد کے لیے اکٹھا کر لیا۔

پھر اس کی لڑکی کی شادی کے ہنگامے شروع ہو گئے۔ شادی ختم ہو جانے پر ایک دن موقع پا کر میں نے اس سے دریافت کیا۔

’’معین بھائی! مسجد کی مرمت کب ہو گی؟‘‘

’’ کس مسجد کی؟‘‘ اس نے متعجبانہ لہجے میں سوال کیا۔

’’ وہی جس کے بارے میں تم کہہ رہے تھے کہ فوری مرمت نہ ہوئی تو دو ایک سال میں کھنڈر ہو جائے گی۔ ‘‘

اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔

’’ یار! تو بھی عجیب ہے۔ بھلا ایسی کون سی مسجد ہے اپنے محلے میں ؟‘‘

میں کبھی نماز پڑھنے گیا ہوتا تو اسے بتاتا۔ پوچھا۔

’’ پھر وہ چندہ کس لیے جمع کیا تھا؟

’’ لونڈیا کی شادی کے لیے۔ ایک اچھی جگہ سے پیغام آ گیا تھا۔ سوچا اس کام سے بھی فارغ ہو لوں !‘‘

اور میں ہکّا بکّا اس کی طرف دیکھتا رہ گیا۔

آج یہ سب واقعات رہ رہ کر یاد آ رہے تھے اور میں اس مکار و پُر فریب دنیا کی اخلاقی گراوٹ پر پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ اچانک خیال آیا کہ کل رات کو جس تازہ افسانے کا مسودہ صاف کیا ہے اسے رجسٹری سے رسالے کے دفتر روانہ کرنا ہے باقی ماندہ ٹھنڈی چائے ایک گھونٹ میں اندر انڈیلی۔ جلدی سے کاؤنٹر پر آ کر بل چکایا اور جیب کا جائزہ لیا۔ جیب میں صرف بارہ آنے بچ رہے تھے۔ یعنی صرف اتنے پیسے کہ افسانہ رجسڑی سے بھیج سکوں اور پھر شام سے اُدھار کھانے اور پینے کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا اور پھر قرض کا پہاڑ آنے والے ماہ کی پہلی تاریخ کو مسکرا مسکرا کر میرا استقبال کرے گا۔

انھیں خیالات میں کھویا ہوا فٹ پاتھ پر بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ اچانک کسی نے پاؤں پکڑ لیے۔ میں گرتے گرتے بچا۔ غصے سے اس طرف دیکھا۔ پھٹے چیتھڑے پہنے ایک بد صورت سیاہ فام بھکارن جس کی آنکھیں اندر دھنسی جا رہی تھیں، ایک گھناؤنے مکروہ بچے کو لیے بیٹھی تھی۔ بچے کی گردن لٹکی پڑ رہی تھی شاید بیمار تھا۔ میں نے جھنجھلا کر کہا۔

’’ یہ کیا بد تمیزی ہے؟‘‘

’’ بابو جی۔۔ !‘‘ بھکارن کی آواز بمشکل نکل رہی تھی۔ ’’ میرا بچہ۔ میرا لال۔ چھ آنے سرکار۔ دوا لاؤں گی۔ ‘‘

میں نے ایک نظر بچے کو دیکھا۔ ہاتھ جیب میں پہنچ چکا تھا۔ اچانک یاد آیا کہ وہاں تو صرف بارہ آنے ہیں اور گھر پر ایک افسانہ تیار پڑا ہے جسے آج ہی رجسٹری سے بھیج دینا ہے اور پھر آج کا اخبار، وہ فیروز آباد کا مصیبت زدہ نوجوان، صراف کی طوائف بیٹی اور معین الدین بھی یاد آ گئے۔ میں نے جلدی سے ہاتھ جیب سے نکال لیا اور آگے بڑھنے لگا۔ بھکارن نے پھر پیر پکڑ لیے۔

’’ بابو جی! صرف چھ آنے۔۔ میرا لال مر جائے گا!‘‘

’’ مرنے دو!‘‘

میں اسے جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔

دو دن بعد اسی سڑک سے پھر گزر ہوا۔ دیکھا وہی بھکارن اپنے بچے کی گھناؤنی لاش کو سینے سے چمٹائے بلک بلک کر رو رہی تھی۔ قدم منوں وزنی ہو گئے۔ محسوس ہوا کوئی انجانی آواز میرے کانوں کے پاس مسلسل چیخ رہی ہے۔۔

’’ بابو جی۔۔ صرف چھ آنے۔۔ میرا لال مر جائے گا۔ ‘‘

( مئی ۱۹۵۲ء)

٭٭٭

 

 

 

 

دیدۂ حیراں

 

مُنّے! اپنی آنکھیں بند کر لو ورنہ آسمان پھٹ پڑے گا۔

اپنے باپ کے صبر و ضبط کا امتحان نہ لو منّے! خدا کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لو۔ دیکھو نا! تمھاری بِن بیاہی ماں جس کار میں سفر کر رہی ہے وہ میلوں دور نکل گئی۔ اور اب تو اس کے عقب میں سر دھُنتی ہوئی خاک بھی تھک کر بیٹھ گئی ہے۔ للہ ! اب تو اپنی ننھی منی حیران آنکھیں اس طرف سے ہٹا لو۔ مجھے دیکھو منّے! حیران تو مجھے ہونا چاہیے کیوں کہ میں نے اس عالمِ عجائبات کو پورے چالیس سال تک دیکھا ہے اور خوب گہرائیوں میں اُتر کر دیکھا ہے۔ فرطِ حیرت سے میری آنکھوں کو پھٹ جانا چاہیے لیکن میں ہوں کہ آنکھوں میں آنسو لیے تمھارے پاس بیٹھا ہوں اور تم ہو کہ اپنی بے نور آنکھوں سے ٹکر ٹکر اس طرف تکے جا رہے ہو۔ منّے! میں بھی حیرانیوں کے دور سے گزرا ہوں۔ کئی بار میری ویران زندگی پر بھی حیرانیوں نے پورے زور شور سے حملہ کیا ہے اور میرے ہوش و حواس گم ہو گئے ہیں۔ لیکن میں تمھاری طرح پھٹی پھٹی نگاہوں سے آسمان کو تاکتا نہیں رہ گیا۔

معلوم نہیں تم میری جگہ ہوتے تو تمھاری کیا حالت ہوتی۔ وہ میرا تیسرا فاقہ تھا۔ مجھے ملازمت سے جواب مل چکا تھا۔ اپنا حق تسلیم کرانے کی کوشش باغی ہونے کی دلیل سمجھی گئی تھی۔ اس لیے دوسری جگہ نوکری حاصل کرنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی تھی لیکن تمھارے باپ کی سرشت میں ناکامیوں سے مرعوب ہونا شامل نہیں۔ اس لیے میں اس دن تمھارے ماموں کے دفتر میں جا نکلا تھا۔ میں حیران ہوں کہ تمھیں حیرانی کس بات کی ہے۔ تم نے اپنی سوا ماہ کی عمر میں دیکھا ہی کیا ہے۔ اپنے ماموں کے دفتر میں پہنچ کر تم حیران ہوتے تو کوئی بات تھی لیکن مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی وہاں کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر۔ اتنی عالی شان ملوں کے مالک کا دفتر جیسا ہونا چاہیے ویسا ہی تھا۔ فرش پر قیمتی دبیز قالین، چمکیلے فرنیچر کی افراط، جس میں دس بارہ حسین ٹائپسٹ لڑکیاں بھی شامل تھیں اور نہ جانے کیا الا بلا اس کمرے میں تھی لیکن میں تو بھوک سے ہلکان تھا حیران کہاں سے ہوتا۔ سیدھے جا کر تمھارے ماموں کے پیروں پر گر پڑا۔ سچ کہتا ہوں منّے! تم اپنے ماموں کو دیکھتے تو مجسمۂ حیرت بن جاتے۔ یہ جو پُل کا کھمبا ہے کم و بیش اسی قد و قامت کے ہیں اور غالباً اسی رعایت سے کاٹن مارکیٹ کا ستون کہلاتے ہیں۔ بے تحاشہ قسم کے دولتمند ہیں لیکن عام امیروں کی طرح کنجوس نہیں۔ بڑے نرم دل ہیں اور بڑی دریا دلی کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کو چندہ دیتے ہیں۔ اس دن جب میں ان کے قدموں پر گر پڑا تو تھوڑی دیر تک تو انھوں نے پنڈلی میں لپٹا رہنے دیا اور جب میں نے اپنی گردن اٹھائی تو مسکرا دیے۔

’’ میرا خیال ہے کرسی زیادہ آرام دہ ہوتی ہے۔ ‘‘

میں نے کہا۔۔

’’ میں آرام نہیں کام چاہتا ہوں۔ ‘‘

پوچھا۔۔

’’ اب تک کیا کرتے رہے؟‘‘

’’ پرسوں تک ایکس وائی کاٹن مل میں کلرک تھا، اب فاقے کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’ کوالیفکیشن؟‘‘

’’ گریجویٹ ہوں۔ ‘‘

’’ وہاں سے استعفیٰ کیوں دے دیا؟‘‘

’’ جی۔ استعفیٰ نہیں دیا۔ بونس حاصل کرنے کے لیے ہڑتال کی تحریک چلانے کے جرم میں نکال دیا گیا۔ ‘‘

’’ پھر میں تمھیں اپنی مل میں کیسے رکھ سکتاہوں ؟‘‘ تمھارے ماموں نے کہا۔

مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی یقین تھا یہی جواب ملنے والا ہے۔ لڑکھڑاتا ہوا اُٹھا اور بوجھل بوجھل قدموں کے ساتھ باہر جانے لگا۔

ذرا سنیے۔ ‘‘ پیچھے سے تمھارے ماموں نے آواز دی۔ تھوڑی سی حیرانی ہوئی۔ مڑ کر دیکھا تو بولے۔

’’ یہ پانچ روپے لیتے جائیے اور شام کو مجھ سے گھر پر ملیے گا۔ ‘‘

اس دن جیب میں اکٹھے پانچ روپے آئے تو تاؤ میں آ کر پورا ڈیڑھ روپیہ کھا گیا۔ پورے چھ آنے دے کر حجامت بنوائی اور ایک دم ڈھائی روپے کی چپلیں خرید ڈالیں کیونکہ پُرانے جوتے نوکری کی تلاش میں دیدۂ حیراں بن چکے تھے۔ پھر شام کو میں رگڑتا ہوا تمھارے ماموں کی کوٹھی پر پہنچا۔ کیونکہ پیٹ میں میٹھا میٹھا درد تھا۔ پیٹ بھرا تھا اس لیے وہ سات منزلہ عظیم الشان عمارت دیکھ کر حیران بھی ہوا اور یہ جان کر مزید تعجب ہوا کہ اس عظیم الشان عمارت میں صرف تمھارے ماموں اور تمھاری ماں رہتے ہیں۔ مجھے تمھارے ماموں کے کمرے میں پہنچا دیا گیا جہاں ان کے ساتھ ایک غیر معمولی طور پر صحتمند قسم کی عورت بھی بیٹھی ہوئی تھی جس کی پیشانی اگر کچھ اور چوڑی ہوتی اور آنکھیں اتنی چھوٹی نہ ہوتیں تو حسین کہی جا سکتی تھی۔ عمر یہی ستائیس اٹھائیس سال ہو گی۔ غیر معمولی جنسی کشش کی حامل تھی۔ چہرے پر غضب کی معصومیت تھی۔ مجھے گہری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ تمھاری ماں تھی۔

’’ یہ میری چھوٹی بہن شاہدہ ہے۔ ‘‘ تمھارے ماموں نے بتلایا۔ ’’ میں نے تمھیں یہاں اس لیے بلایا ہے کہ شاہدہ کو ادب سے گہرا لگاؤ ہے۔ شادی کے چھ مہینے بعد ہی شریر نے اپنے شوہر کو طلاق دینے پر مجبور کر دیا جس کا ایک ہی سبب سمجھ میں آتا ہے کہ اسے ادب سے لگاؤ ہے۔ شاید گھر گرہستی کی الجھنوں میں پڑنا نہیں چاہتی تھی۔ سات سال سے اردو ادب کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اب انگریزی اور ہندی کی بھی خبر لینا چاہتی ہے۔ آپ اسے ٹیوشن دیجیے میں آپ کو معقول تنخواہ دوں گا۔ ‘‘

اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے فوراً حامی بھر لی۔

’’ بہتر ہے۔ کب سے حاضر ہو جاؤں۔ ؟‘‘

’’ کل ہی سے بسم اللہ کر دیجیے۔ ‘‘ تمھارے ماموں نے کہا۔

اچانک تمھاری ماں نے، جو شروع سے اب تک خاموش رہی تھی، دریافت کیا۔

’’ کیا آپ کسی اسکول میں ماسٹر ہیں ؟‘‘

’’ جی نہیں۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ ایک مِل میں کلرک تھا، نکال دیا گیا۔ ‘‘

’’ تو فی الحال آپ بیکار ہیں ؟‘‘

’’ جی یہ ٹیوشن مل جانے کے بعد بیکار نہیں رہا!‘‘

اس نے اپنے بھائی کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’ تو پھر آپ کہیں اور نوکری نہ کیجیے گا۔ آپ کو مل سے جو تنخواہ ملتی تھی ہم پیش کریں گے۔ ‘‘

اور پھر کچھ سوچ کر بولی۔۔

’’ آپ رہتے کہاں ہیں ؟‘‘

میں ہنسنے لگا۔ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’کیوں اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟‘‘

میں نے کہا:

’’کھانا ہوٹل میں کھا لیتا ہوں، سوتا فٹ پاٹھ پر ہوں۔ ‘‘

’’ یہ کیا بات ہوئی؟‘‘

’’ جی ہاں، بمبئی میں ایسی انہونی بات مجھ جیسے بہت سے کرتے ہیں۔ ‘‘

بات اس کی سمجھ میں نہ آئی تو تمھارے ماموں نے کہا۔

’’ خیر کوئی بات نہیں۔ آپ کو نچلی منزل میں ایک کمرہ دے دیا جائے گا۔ اس طرح شاہدہ بھی آپ سے زیادہ بہتر طور پر مستفید ہو سکے گی۔ ‘‘

تو مُنّے! اس طرح میں تمھاری ماں کے قریب پہنچا اور ڈیڑھ سال تک اس کے قریب رہا۔ اس ڈیڑھ سال میں مجھے بہت کچھ معلوم ہوا۔ تمھاری ماں نے اپنے پہلے شوہر سے چھ ماہ بعد اس لیے طلاق لے لی تھی کہ وہ ایک اچھا رفیقِ حیات تو تھا لیکن شوہر کسی کونے سے نہ تھا۔ اور تمھارے ماموں نے اب تک شادی کیوں نہ کی تھی۔ یہ بھی ایک کھلا ہوا راز تھا۔ تمھارے ماموں نے اس وقت تک تمھاری ماں کی شادی اس لیے نہیں کی تھی کہ ان کے خاندان میں اس وقت تک کسی لڑکی کی شادی دوبارہ نہیں ہوئی تھی اور تمھاری ماں میں جنسی کشش بہت تھی اور اس میں جنسی بھوک نے بُری طرح اُتھل پتھل مچا رکھی تھی۔ چنانچہ تمھاری ماں کا مجھ ایسے مرد کے قریب آنا جسے چالیس سال تک معاشرے نے عورت کے قرب سے محروم رکھا تھا، صرف ایک بات کی طرف اشارہ تھا جو ہو کر رہی۔ ہم دونوں اپنی اپنی جگہ مطمئن تھے۔ اگر سماج اور زمانے نے ہمیں جنس کی طرف سے بھوکا رکھا تھا تو ہم چرا کر کھانا کھائیں گے پیٹ بھرنا گناہ نہیں۔ چنانچہ تمھاری ماں کا پیٹ بھر گیا۔ میں گھبرایا لیکن وہ عجیب دل گردے کی عورت تھی۔ انجام سے بے پروا۔ تمھارے تصور میں کھوئی رہتی۔ میں نجات حاصل کرنے کی تدبیریں بناتا تو میری طرف ایسی خشمناک نظروں سے دیکھتی کہ میں لرز کر رہ جاتا۔ میری حالت پر غور کرو منّے! وہ مدّت جو تم نے اپنی ماں کے پیٹ میں گزاری ہے میرے لیے سوہانِ روح رہی ہے۔ تمھارے ماموں کو حقیقت کا علم ہوا تو وہ مجھے گولی مار دینے پر تل گئے۔ لیکن اس طرح تو واقعہ اور شہرت پکڑ تا لہٰذا بیٹا!مجھے پانچ ہزار روپیہ دے کر پونا روانہ کر دیا گیا۔ میں کر بھی کیا سکتا تھا؟ مہرے کا کام ہے اسے جہاں اُٹھا کر رکھ دیا جائے، رکھا رہے اور جب ہٹایا جائے، ہٹ جائے میں ہٹ گیا۔ پانچ ہزار جیب میں تھے، دل میں رنج و غم کا طوفان، سر پر پراگندہ خیالات کو بوجھ۔ میں نے پونا کے چکلے اور شراب خانے خوب خوب آباد کیے۔ چشم ساقی سے پی پی کی سیراب ہو چکا تھا۔ اب ساغروں سے پینے لگا۔ سات آٹھ ماہ پونا میں گزرے۔ اس زندگی کا عادی ہو چلا تھا کہ ایک اور گل کھلا۔

آج صدر اسپتال کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ تمھارے ماموں نکلتے ہوئے دکھائی دیے۔ میں ایک دوکان میں چھپ گیا ان کے گزر جانے پر ذوقِ تجسس نے اسپتال کے دروازے تک پہنچا دیا۔ دس روپیوں نے ریکارڈ اور رجسٹر کھول کر سامنے رکھ دیے۔ شاہدہ سلطان بسلسلہ زچگی کئی دن سے اسپتال میں ٹھہری ہوئی تھی۔ ریکارڈ میں سیول میریج کے سرٹیفکٹ کی نقل بھی چسپاں تھی جسے دیکھ کر شاید تم تصویر حیرت بن جاتے کیوں کہ اس میں شاہدہ کے شوہر کی جگہ میرا نام درج تھا۔ مجھے سر ٹیفکیٹ میں مجسٹریٹ کا مسکراتا ہوا چہرہ اور نوٹوں کے بنڈل نظر آئے۔ لیکن پوری کوشش کے باوجود میں اس کمرے تک نہ پہنچ سکا۔ جس میں تم اپنی ماں کے ساتھ موجود تھے۔ تم سوا ماہ کے بچے میری اس کیفیت کا کیا اندازہ کر سکتے ہو۔ میں جو چالیس سال تک ایک گھر کے لیے بھٹکا کیا ہوں جسے سماج نے شوہر ہونے کے باوجود شوہر تسلیم نہیں کیا اور جو ایک بچے کا باپ ہونے کے بعد بھی اپنے بیٹے سے دور تھا۔ تمھارے دیدار کی خواہش نے خوف و ہراس کا ہر جذبہ میرے دل سے دھو ڈالا اور میں تن کر اسپتال کے دروازے پر کھڑا ہو گیا کہ تمھارے ماموں کے ملنے پر ان سے تمھارے دیدار کی بھیک مانگوں گا، ممکن ہوا تو تمھیں مانگوں گا، تمھاری ماں کو مانگوں گا۔ وہ تقریباً چار گھنٹے بعد اسٹیشن ویگن پر واپس پلٹے۔ میں نے آگے بڑھ کر انھیں روکنا چاہا۔ لیکن وہ قدم جنھیں چالیس سالوں سے دوسروں کے احکام پر اٹھنے کی عادت تھی اٹھ نہ سکے۔ شدتِ جذبات نے زبان تھام لی اور میں بُت بنا کھڑا رہ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ پھر واپس لوٹتے ہوئے نظر آئے ان کے پیچھے سیاہ برقعے میں کوئی فربہ اندام عورت تھی اور برقعے کے اندر عورت کے سینے سے لگی ہوئی کوئی چیز کلبلا رہی تھی۔ میرا دل سینے میں ہمکنے لگا۔ دماغ نے بیٹا بیٹا کی گردان شروع کر دی اور میں اس کیفیت سے اس درجہ مخمور ہوا کہ موٹر اسٹارٹ ہونے کی آواز سے قبل محویت ہی نہ ٹوٹی۔ اور جب میں نے شاہدہ کا نام لے کر زور سے چیخ ماری اس وقت تک اسٹیشن ویگن اسپیڈ پکڑ چکی تھی۔ پھر مجھے ٹھیک طرح یاد نہیں کہ میں کیسے ایک چلتی ہوئی ٹیکسی میں بیٹھا ڈرائیور کے سامنے پسماندہ نوٹ پھینک پھینک کر اسٹیشن ویگن کا تعاقب کرنے کی التجا کر رہا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی برق رفتاری کے بعد جب وہ اسٹیشن ویگن اس پُل پر رُکی ہوئی نظر آئی تو میری جان میں جان آئی۔ لیکن جب تک میں ٹیکسی سے اُتر کر اسٹیشن ویگن تک پہنچتا اس وقت تک تمھارے مامون تمھیں نیچے پھینک چکے تھے۔ تمھاری ماں پاگلوں کے سے انداز میں مجھے تک رہی تھی اور پھر اسٹیشن ویگن سن سے نکل گئی اور دھیرے دھیرے اس کے پیچھے سر دھننے والی دھُول خود بھی تھک ہار کر بیٹھ گئی اور تم ہو کہ پل کے نیچے اس گندے نالے کے کنارے خاک و خون میں لتھڑے ہوئے پڑے ہو اور تمھاری آنکھیں ٹکر ٹکر اسی سمت دیکھ رہی ہیں۔

منے! خدا کے لیے اس طرح حیرانی سے اس طرف ٹکٹکی لگا کر نہ دیکھو۔ تین ملوں کے مالک اس نامرد انسان کو کیا معلوم کہ تم میرے لیے کیا تھے۔ منّے! میرے بیٹے! تم میری طرف دیکھو میں تمھیں بتاتا ہوں کہ تم میری ناکام آرزو ہو۔ اُف میرے خدا! یہ سن کر بھی تمھاری آنکھیں کھلی کی کھلی ہیں !

لیکن آہ اب میں سمجھا تم کیا دیکھنا چاہتے ہو۔ اچھا تو بیٹا! میں تمھاری ان کھلی ہوئی ننھی منی آنکھوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اب شاہدہ کے پیٹ سے پیدا ہونے والا تمھارا چھوٹا بھائی کسی گندے نالے کے کنارے خاک و خوں میں لتھڑا ہوا پھٹی پھٹی آنکھوں سے آسمان کی طرف نہیں تاکے گا۔ وہ میری گود میں ہمکے گا۔ تم نے سنا بیٹا! میں اس آسمانی باپ کی طرح سنگدل نہیں ہوں جس کا بیٹا اس کی نگاہوں کے سامنے صلیب پر چڑھا دیا گیا اور دہ دیکھتا رہا۔ اے میرے چالیس دن کے مسیح! تیری قربانی نے ایک مردہ دل میں روح پھونک دی ہے۔ امید کا ایک دیپ جلایا ہے اور اب اس دیپ سے کئی دیپ جلیں گے، امید کی ہزاروں مشعلیں روشن ہوں گی۔ تو اب میں تمھاری ان کھلی ہوئی آنکھوں پر الوداعی بوسے دیتا ہوں اور بیٹا خدا کے لیے ان بوسوں پر اعتماد کر کے تم اپنی آنکھیں بند کر لینا ورنہ پھر حشر یہیں سے اُٹھے گا!

(جولائی ۱۹۵۸ء)

٭٭٭

 

 

 

 

بھکاری

 

’’ شوفر۔۔ !‘‘

تین نوکر عمارت کے مختلف گوشوں سے دوڑتے ہوئے آئے اور ان کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو گئے۔

’’ کہاں مر گیا شوفر؟‘‘

’’ جی! اس کی ماں کی حالت آج زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ خیراتی اسپتال میں بھرتی کرنے گیا ہے۔ ‘‘ بوڑھے نوکر نے لرزتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

’’ ہوں ۔۔ ! آتے ہی اُسے میرے پاس بھیجو۔ ‘‘

حکم صادر فرما کر فہیم سیٹھ مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ اندر مسہری پر بیٹھی ہوئی نیم عُریاں اینگلو انڈین دوشیزہ جس کی بہکی ہوئی نگاہیں اور آنکھوں میں پڑے ہوئے سُرخ سُرخ ڈورے حد سے زیادہ مخمور ہونے کی غمازی کر رہے تھے، ڈگمگاتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

’’ ابھی کچھ دیر انتظار کرنا ہو گا۔ ‘‘ اور ان کے لہجے کی خفگی کسی نامعلوم طریقے پر نرمی میں تبدیل ہو گئی۔

’’ اوہ۔۔ لیکن ۔۔ ‘‘ دوشیزہ نے پریشانی کا اظہار کیا۔

سیٹھ نے بڑھ کر اس کی کمر میں ہاتھ ڈال دیا اور اپنی طرف کھینچ کر زور سے بھینچا۔ وہ لچک کر کسی شاخِِ ثمر بار کی طرح دوہری ہو گئی اور اس کی نیلگوں آنکھیں کچھ اور بھی مخمور نظر آنے لگیں۔ فرطِ جذبات سے سیٹھ صاحب کی مونچھیں پھڑکنے لگیں۔ انھوں نے اس کے سرخ سرخ رسیلے اور دبیز ہونٹوں کو ایک بار اور چچوڑا اور اسے مسہری کی طرف کھینچنے لگے۔

’’ نہیں ۔۔ اب نہیں۔ ‘‘ لڑکی نے بڑے ملتجیانہ لہجے میں کہا۔

’’ اتنی گھبراہٹ کا ہے کی ہے میری جان!‘‘

’’ ڈیڈی کے دفتر سے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’ ابھی شوفر موجود نہیں ہے۔ تھوڑی دیر اور۔۔ ۔۔ ‘‘ سیٹھ نے لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔

’’ کہاں چلا گیا۔۔ ؟‘‘ لڑکی کے لہجے سے اضطراب ٹپک رہا تھا۔

’’ ماں بیمار ہے اُس کی۔۔ ‘‘ سیٹھ نے بیزاری کے ساتھ کہا۔۔ ‘‘ اسپتال گیا ہے۔ ‘‘

’’ اوہ۔۔ !‘‘ لڑکی کھو سی گئی۔

سیٹھ صاحب اس کی زلفوں سے کھیلتے رہے اس کے رسیلے ہونٹوں کے شہد اور گلابی گالوں کے رس سے محظوظ ہوتے رہے اور وہ کسی حسین لیکن بے جان مجسمے کے طرح ویسی ہی کھوئی سی بیٹھی رہی۔ سیٹھ صاحب اس کی سرد مہری سے اوب گئے۔

’’ ڈیر! کیا زیادہ چڑھا گئیں ۔۔ ؟‘‘

’’ آں ۔۔ ؟ ‘‘ وہ چونک کر بولی۔

’’ میں نے کہا بہت زیادہ پی لی کیا؟‘‘

لڑکی کے ہونٹوں کے گوشے کپکپائے اور جواب میں ایک پھیکی مسکراہٹ ٹوٹ کر بکھر گئی۔

’’ اتنی کھوئی ہوئی سی کیوں ہو۔۔ ؟‘‘ سیٹھ نے پوچھا۔

’’ نہیں تو۔۔ ‘‘ لڑکی نے اپنی پلکیں اوپر اُٹھائیں۔ اُس کی آنکھوں میں ستارے سے لرز رہے تھے۔ وہ بھیگی بھیگی سی نیلگوں آنکھیں جن میں لال لال ڈورے تیر رہے تھے۔ سیٹھ فہیم کو پہلی کی بہ نسبت کہیں زیادہ پیاری لگیں اور انھوں نے جھک کر ان آنکھوں کو چوم لیا اور پھر ان کی نیلی گہرائیوں میں کھو گئے۔

تھوڑی دیر بعد دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔

’’ کون ہے۔۔ ؟ ‘‘ سیٹھ کی آواز میں رعونت اور تمکنت تھی۔

’’ جی سرکار۔۔ میں ہوں شاہد!‘‘ کانپتی ہوئی آواز میں جواب ملا۔

سیٹھ فہیم غصے میں لپکتے ہوئے باہر آئے۔

’’ کہاں غائب رہا سوًر!‘‘

’’ حضور میری ماں ۔۔ ۔۔ ‘‘ سوّر نے کہنا چاہا لیکن اس کی بات پوری نہ ہو سکی۔

’’ مر جائے سالی۔۔ ڈیوٹی از ڈیوٹی!‘‘

’’ حضور!‘‘

’’ چپ رہ کمینے! حرام خور‘‘ انھوں نے اپنی پوری قوت سے شوفر کے بائیں گال پر چپت جمایا۔ کمینہ حرامخور بُت بنا چپ چاپ کھڑا رہا اور سیٹھ صاحب اپنا ہاتھ سہلانے لگے۔ اسی وقت انھیں اپنے شانے پر لطیف سا دباؤ محسوس ہوا۔ مُڑ کر دیکھا تو لڑکی باہر نکل آئی تھی۔ سیٹھ فہیم کی آنکھیں جو اب تک شعلے برساتی رہی تھیں، پھول لٹانے لگیں۔

’’ مجھے دیر ہو رہی ہے ڈارلنگ!‘‘

سیٹھ صاحب شوفر کی طرف مڑے اور اس کے کان پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے بولے۔

’’ دیکھ بے! اب ایسی غلطی برداشت نہیں کروں گا جا کر گاڑی لگا۔ ‘‘

وہ اپنے کان سہلاتا ہوا چلا گیا۔ سیٹھ صاحب وہیں کھڑے ہوئے لڑکی سے راز و نیاز میں مصروف ہو گئے۔

چند منٹ بعد اودے رنگ کی بیوک بے آواز رینگتی ہوئی پورٹیکو پر آ کر ہچکولے کے ساتھ ٹھہر گئی۔ شوفر نے اُتر کر کھڑکی کھولی اور یہ بے ہنگم بے جوڑ جوڑا اس کی پچھلی نشستوں میں دھنس گیا اور شوفر فرنٹ سیٹ پر جم گیا۔

’ مال روڈ ہوتے ہوئے بلیو ویو ہوٹل۔۔ ‘‘ سیٹھ صاحب نے حکم صادر فرمایا۔

کار پھسلنے لگی اور وہ لڑکی سیٹھ صاحب کی خوشامد کرنے لگی۔

’’ ہنی! میں تمھارے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے چوراہے پر اُتار دینا۔ ‘‘

’’ ڈارلنگ! تم تو بالکل بچوں کی سی ضد کرتی ہو۔ ‘‘ سیٹھ نے اُسے پھسلانا چاہا۔ ’’ آج بلیو ویو میں اسپیشل آئٹمس ہوں گے۔ ‘‘

لیکن لڑکی بُری طرح مچل گئی۔ اس نے ان کے پیر پکڑ لیے۔

’’ نہیں پیارے۔ مجھے جانے دو بہت ضروری کام ہے۔ ‘‘

’’ میں بھی تو سُنوں۔ ؟‘‘

لڑکی نے آنکھیں جھکا لیں۔

’’ تم نے بتایا نہیں ؟‘‘ فہیم سیٹھ نے اصرار کیا۔

شوفر نے سائیڈ مرر میں جھانکا۔ اس وقت لڑکی پر بے پناہ تقدس کا سایہ جھلملا رہا تھا۔ اس کی نیلی نیلی گہری آنکھوں کی تہہ میں بیکراں درد جھلک رہا تھا۔

اور پھر اس نے لڑکی کی بہت دور سے آتی ہوئی سونے کی گھنٹیوں جیسی سریلی آواز سنی۔

’’ مجھے ٹیلی گراف آفس جانا ہے منی آرڈر کرنے کے لیے۔ بھائی کو اگر کل روپیہ نہ ملا تو اس کا نام انجینئرنگ کالج سے خارج کر دیا جائے گا۔ یہ اس کا فائنل ایئر ہے۔ ‘‘

شوفر کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے بدن سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا گیا ہے۔ اسٹیئرنگ اس کے ہاتھوں میں ڈگمگانے لگا اور اس نے لگاتار ہارن بجانا شروع کر دیا۔

پوں ۔۔ ۔۔ ۔۔ پوں ۔۔ ۔۔ ۔۔ پیں ۔۔ ۔۔ پیں

لیکن سیٹھ کی آنکھیں اُسی طرح چمک رہی تھیں اور ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ تھی اور پھر بیوک ایک خوشگوار ہچکولے کے ساتھ رک گئی۔ شوفر نے چونک کر دیکھا نہ جانے کس دھن میں وہ کار کو ٹیلی گراف آفس لے آیا تھا۔

’’ بس۔ !‘‘ اُسے پچھلی سیٹ سے سیٹھ فہیم کی آواز سنائی دی۔

’’ صرف پچیس اور، بھائی کو سوا تین سو درکار ہوں گے۔ ‘‘

’’ میرے پاس چھوٹے نوٹ نہیں ہیں۔ خیر سو کا ہی لے جاؤ‘‘

لڑکی اُتر کر جانے لگی۔ شافر نے کنکھیوں سے دیکھا چند نیلے نیلے نوٹ اس کے ہاتھوں میں پھڑپھڑا رہے تھے۔

اور پھر وہ چلی گئی۔

اور شوفر کو یوں محسوس ہوا جیسے ابھی ابھی اس کی بہن موٹر سے اُتر کر گئی ہو۔ پھر اچانک چونک کر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور گیئر بدل کر بیک کرنے لگا۔

’’ اب کہاں موڑ رہا ہے سالے!‘‘ سیٹھ غرائے۔

’’ حضور! بلیو ویو ہوٹل نہ جائیے گا کیا؟‘‘ اس نے گھگھیا کر کہا۔

’’ گدھے! اب وہاں کیا رکھا ہے۔ تجھے یہاں آنے کو کس نے کہا تھا۔ ؟‘‘

شوفر نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے یوں ہی مشین پر جھکا رہا۔

’’ خیر۔۔ ’ للی جیولرز‘ چلو۔ ‘‘

کار پھر فراٹے بھرنے لگی۔

عالی شان عمارتوں، چوراہوں، ٹھیلے کھینچتے ہوئے مزدوروں اور رینگتے ہوئے ہجوم کے درمیان سے شاہانہ تمکنت کے ساتھ گزرتی ہوئی بیوک للی جیولرز کے پورٹیکو میں پہنچ کر رُکی۔ سیٹھ صاحب اپنی تمامتر رعونت کے ساتھ کار سے باہر آئے اور اکڑتے ہوئے دوکان میں داخل ہوئے۔ جواہرات اور جڑاؤ زیوروں کی چمک دمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی تھی۔ چاروں طرف قارون کا خزانہ سا بکھرا ہوا تھا۔ سیٹھ فہیم شو ہال میں شہر کے ایک دوسرے رئیس جگی لال کو دیکھ کر ذرا ٹھٹکے وہ ہیروں کے چار پانچ کیس لیے ہوئے تھا۔

’’ جے ہند! مسٹر جگی لال۔۔ ۔۔ ۔۔ !‘‘

’’ فہیم بھائی! آداب عرض ہے۔ کہیے کیسے؟‘‘ جگی لال اخلاقِ مجسم بن گیا۔

’’ کچھ نہیں سوچا کوئی نئی چیز آئی ہو تو بیگم کے لیے لیتا چلوں۔ ‘‘

اسی وقت منیجر آ گیا لیکن سیٹھ نے اس کی طرف ذرا بھی توجہ نہ دی۔ سیٹھ جگی لال نے کہا۔

’’ جی ہاں کئی اچھی چیزیں آئی ہیں۔ نیلم کی انگوٹھیاں، فیروزے کی جھمکیاں، جڑاؤ نکلس اور ہیروں کے کنگن۔ ‘‘

’’ آپ نے کتنا خریدا؟‘‘

’’ صرف سینتالیس ہزار کا۔ باقی شریمتی آ کر اپنی پسند سے لے جائیں گی۔ ‘‘ جگی لال نے اکھاڑ ڈالنے کی حد تک مونچھیں مروڑتے ہوئے قہقہہ لگایا۔

’’ خوب۔ آئیے ذرا مجھے بھی پسند کرنے میں مدد دیجیے۔ ‘‘ سیٹھ فہیم بولے اور پھر اپنے ہم عصر رئیس پر محض اپنی فضول خرچی کی دھاک بٹھانے کے لیے انھوں نے ٹھیک چورانوے ہزار کے زیورات خرید ڈالے۔ پیکٹ بنایا گیا۔ چیک کاٹ کر کیشیر کو دیا گیا اور جگی لال کو حیران و سراسیمہ پیچھے چھوڑ کر سیٹھ فہیم شاہانہ چال سے چلتے ہوئے جوہری کی دوکان سے باہر نکلے۔

سیڑھیوں پر ایک بڑھیا اپنا تھرتھراتا ہوا ہاتھ پھیلا کر کھڑی ہو گئی۔

’’ سرکار! تین دن سے بھوکی ہوں۔ ‘‘

سرکار کا ہاتھ جیب میں گیا۔ کھڑکھڑاتے ہوئے سو کے نوٹ ہاتھ میں آ گئے۔ سکہ ایک بھی نہ تھا۔ انھوں نے شوفر کو اشارہ کیا اور وہ دوڑ کر آ گیا۔

تمھارے پاس چینج ہے؟‘‘

ساڑھے بارہ آنے اس کی جیب میں ماں کی دوا لانے کے لیے پڑے تھے۔ اس نے سب ہتھیلی پر پھیلا کر سیٹھ کے سامنے پیش کیے اور انھوں نے چٹکی سے پانچ نئے پیسے کا سکہ اٹھا کر بھکارن کے ہاتھ پر رکھ دیا اور آگے بڑھ گئے۔

شوفر نے بھوک سے نڈھال لاغر بُڑھیا کو دیکھا تو اُسے اپنی ماں یاد آ گئی اور اس نے سارے سکے اس کی جھولی میں اُنڈیل دیے اور سوچنے لگا۔ اصل بھکاری کون ہے؟ وہ جو ہزاروں کے زیورات کا پیکٹ بغل میں دبائے سیکڑوں نوٹ جیب میں ڈالے بیوک میں بیٹھنے جا رہا ہے یا یہ بڑھیا جو اس کے دیے ہوئے چند سکوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی ہے۔

اسی وقت اسے سیٹھ فہیم کی غراہٹ سنائی دی اور وہ اپنے خیالات کو دماغ میں واپس ٹھونس کر کار کی طرف جھپٹا!

(ستمبر ۱۹۵۷ء)

٭٭٭