FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

مُلّا کی دوڑ اور دوسری کہانیاں

 

کلیات بھولی بسری کہانیاں کا حصہ دوم (دو غنڈے)

 

 

                مظفّرؔ حنفی

 

تہذیب و تدوین:فیروزؔ مظفر

 

(اصل کتاب سے ’دو غندے‘ نامی کہانی کو الگ شائع کیا جا رہا ہے، اس لئے اس ای بک کا نام بدلنے کی جسارت کی گئی ہے)

 

 

 

 

دو غنڈے

 

 

 

 

 

 

 

تعارف

 

یہ واقعی مختصر افسانے ہیں۔ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے، اس درجہ کہ کہیں کہیں بخیلی کا شبہ ہونے لگتا ہے اور کہیں کہیں پر جذبہ تنگیِ داماں کی شکایت کرتا ہوا الفاظ پھاڑ کر باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ افسانہ نگار نے کہیں بھی لفظوں سے کھیلنے کی کوشش نہیں کی، سوائے ایک افسانے کے، کہ ’’ الماس کا محبوب‘‘ جس کا نام ہے، لیکن اس افسانے کے الفاظ نرم رو اور لچکیلے ہیں تو محض اس لیے کہ یہاں پر ایک نرم ریشم کی طرح ملائم جذبے کا اظہار مقصود ہے۔

مظفر حنفی کو بات کہنے کا ڈھب آتا ہے اور افسانے کی تخلیق کے سارے لوازم معلوم ہیں۔ کون سی بات قاری سے کس وقت کہنا ہو گی، کون سی بات چھپا کر رکھنا ہو گی، اور صرف آخری سطر میں مٹھی کھول دینا ہو گی۔ حالانکہ آج کل قاری بہت ہوشیار ہو چلا ہے، اکثر اوقات افسانہ ختم ہونے سے پہلے ہی اس کا انجام معلوم کر لیتا ہے مگر مظفر حنفی، مصنف اور قاری کی اس شطرنجی لڑائی میں اکثر و بیشتر اپنے قاری کو مات دے جاتے ہیں۔ بالخصوص ’’ الماس کا محبوب‘‘ کا انجام مصنف کی فن شناسی اور تخلیق کاری کے عمدہ نمونے ہیں۔

ان افسانوں میں ظلم کوئی حادثہ نہیں ہے، روز مرہ کی حقیقت ہے۔ مصنف اس ظلم پر خود چونکتا ہے نہ پڑھنے والے کو چونکاتا ہے۔ ظلم، افلاس، بیکاری، نا امیدی، قحط سالی، دھوکا، فریب، جعلسازی جیسے موجودہ زندگی کے شب و روز ہوں، ان کا وجود اتنا ہی ناگزیر ہے جتنا ماہ و سال کا چکر، مصنف کہیں پر احتجاج کرتا ہوا معلوم نہیں ہوتا۔ یہ اس کی فنکاری کی دلیل ہے کہ احتجاج نہ کرتے ہوئے بھی پورا افسانہ بولتا ہوا معلوم ہوتا ہے، اسی احتجاج کی داستان جس کا سارے فسانے میں ذکر نہیں۔ بات کہنے کا یہ بھی ایک انداز ہے اور بہت مشکل ہے یعنی یوں کہ ہونٹ سی لیے جائیں اور آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہ ٹپکے لیکن افسانے کے آخر میں قاری دل مسوس کر رہ جائے۔ ایک اداس کیفیت محسوس کرنے کے بعد تشنگی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ کچھ اور کہا ہوتا۔ زیادہ کھل کے کہا ہوتا۔ مگر اسی تشنگی پر ہے افسانے کا مدار۔ سیری نہ ہو تو دوسرے مجموعے کا انتظار بھی ہو گا۔

لگتا ہے مصنف نے اس زندگی کو خود جھیلا ہے۔ اس زندگی کے بیچ میں بیٹھ کر یہ افسانے لکھے ہیں۔ کسی اوپر کے ٹیلے پر بیٹھ کر نیچے بہنے والی زندگی کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ صرف اس کا خامہ خونچکاں نہیں ہوا ہے، اس کی انگلیوں کی پوروں سے یہ لہو بہا ہے۔ خود اس کا دل جھلسا ہے۔ ممکن ہے حقیقت اس کے برعکس ہو مگر زندگی پر حنفی کی بے تکان گرفت کچھ یہی کہتی ہے۔

مظفر حنفی نے اندھیرے کنوئیں میں ڈول نہیں ڈالے ہیں، لا شعور کی بھول بھلیوں میں گم نہیں ہوا ہے، حد سے بڑھی ہوئی دروں بینی کا شکار نہیں ہوا ہے، تجزیاتی ٹامک ٹوئیوں میں الجھ کر نہیں رہ گیا ہے۔ وہ زبان و بیان کے الجھاوے دے دے کر زندگی سے آنکھیں چرانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ آنکھیں چار کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک عجب لا پروا تیقن کے ساتھ۔ بظاہر ایک سنگدل قریب قریب قنوطی پیرایہ بیان کے ساتھ۔ جی ہاں یونہی ہوتا ہے زندگی میں۔ یونہی ہوتا رہا ہے۔ آج کل بھی یونہی ہو رہا ہے۔ کہیے کوئی اعتراض ہے۔ خارج و باطن یونہی حالات و واقعات کے تابع رہیں گے۔ بہت بری بات ہے۔ مگر کیا کروں، یہ حقیقت نہ بیان کروں تو پھرکیا کروں ؟ پھٹے چیتھڑوں والی زندگی میں حریر و دیبا کہاں سے لاؤں ؟

ان افسانوں کے کردار مثبت نہیں ہیں، مثالی بھی نہیں ہیں، محض منفٖی بھی نہیں ہیں، گوناگوں اضداد کا مجموعہ ہیں جیسے کہ انسان ہوتے ہیں۔ اکثر و بیشتر حالات کی رو میں بہہ جاتے ہیں جیسے کہ تمام انسان بہہ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی مایوسیوں کے درمیان جھو لیا بھیل کے کلہاڑے کی طرح تن کر کھڑے ہو جاتے ہیں کبھی محض اپنی خود غرضی میں ڈوب کر دوسرے کی کھلی محرومی بھی نہیں دیکھ سکتے( تشنگی دل کی)۔ کبھی اپنی محروم زندگی کی ہر لعنت برتتے ہوئے کسی دوسرے کی خود غرضی کو روک دینے کے لیے اپنی جیب تک خالی کر دیتے ہیں (چالیس کا خون)۔ ان افسانوں کے کردار فلمی ہیرو نہیں ہیں۔ وہ پرانی فکشن کے بھی ہیرو نہیں ہیں۔ ایک سرے سے پُرانے ہیرو اور ہیروئن کا زمانہ ختم ہو گیا۔ پرانی وضعداریاں، سچی محبت کی دلداریاں، ہجر و حرماں کی فسانہ طرازیاں ہوا ہوئیں۔ لگتا ہے ہیرو اور ہیروئن کے سینے کے اندر کوئی دل نہیں ہے محض ایک جیب ہے۔ غور سے آس پاس بہتی ہوئی زندگی پرنگاہ ڈالیے کچھ ایسی غلط بات بھی نہیں کہی ہے مظفر حنفی نے۔۔ !

مظفرؔ حنفی شعر بھی کہتے ہیں، فسانہ بھی۔ دونوں کا انداز بیان الگ الگ رکھتے ہیں۔ فسانے کو شعر اور شعر کو فسانہ نہیں بناتے اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ میدان آخر شاعری کے ہاتھ رہے گا یا افسانے کے ۔۔ ۔۔ نوجوان ہیں، نو واردان محن میں سے ہیں۔ دشت پیمائی ان کا حق ہے۔ یہ قافلۂ نو بہار جہاں جا کے رُکے گا وہی اس کی منزل ہے۔

کرشن چندر

 

 

 

ڈربہ!

 

بارہ سال!

جی ہاں۔ پورے بارہ سال سے ارشد اس ڈربہ نما مکان میں رہتا تھا جو کمال خاں کے احاطہ میں ایک تنگ و تاریک گلی میں واقع تھا جس کے ارد گرد بد بو دار گندی نالیوں میں گھناؤنے کیڑے رینگا کرتے تھے، دو بیٹیوں، دو بیٹوں، ایک بیوہ بہن، ساس اور بیوی کے ساتھ دو چھوٹے چھوٹے کمروں اور ننھے سے آنگن والے اس مکان میں اتنے گندے ماحول کے درمیان رہتے ہوئے اسے اپنی زندگی بھی ایسی ہی حقیر معلوم ہوتی جیسے کمال خاں کا یہ احاطہ ایک گندہ نالہ ہو اور وہ اس میں بجبجاتا ہوا ایک مکروہ کیڑا!

بارہ سال قبل وہ اس شہر میں سیل ٹیکس کے ایک کلرک کی حیثیت سے آیا تھا۔ تب اس کی تنخواہ صرف ایک سو دس روپیہ تھی۔ اس وقت اس کے ساتھ بیوی بچے کوئی نہ تھے۔ اکیلا دم تھا۔ کھانا ہوٹل میں کھا لیتا تھا۔ تھوڑے ہی دن کی بھاگ دوڑ کے بعد اسے یہ مکان مل گیا تھا۔ کرایہ بھی کچھ ایسا زیادہ نہ تھا صرف بائیس روپیے ماہانہ ادا کرنا پڑتے تھے اور پھر کون اسے دن رات اسی مکان میں رہنا پڑتا تھا؟ صبح سے شام تک دفتر میں کام کرتا۔ وہاں سے چھوٹتا تو کسی سستے ہوٹل میں کھانا کھا لیتا اور کوئی فلم دیکھنے چلا جاتا یا اِدھر اُدھر سیر کیا کرتا۔ رات گئے گھر واپس آتا، محض رات بسر کرنے کے لیے۔ اور پھر صبح اُٹھ کر گھر میں تالا لگا دیتا اور دفتر چلا جاتا۔ اسی طرح یہ چکّر چل رہا تھا۔ اپنے خرچ سے جو پیسے بچ رہتے وہ اپنی ماں کو دیہات بھیج دیتا تھا۔ زندگی کسی نہ کسی طرح بسر ہو رہی تھی۔

وہ تو ماں کی موت نے سارا نظام درہم برہم کر دیا۔ دیہات کے اکیلے مکان میں جو ان بیوی کو کسی طرح چھوڑا نہیں جا سکتا تھا نہ جانے کس وقت کون سی افتاد پڑ جائے۔ اسی خیال سے وہ بیوی کو یہاں لے آیا۔ اس گھر میں۔ پہلے پہل تو بیوی کا اس چھوٹے سے گھر میں جی ہی نہ لگتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ اس ماحول سے مانوس سی ہو گئی اور جب وہ ایک لڑکے کی ماں بن گئی تو اس مکان میں اس کا جی لگ گیا۔ پانچ سال میں وہ دو بچوں کی ماں بن گئی۔ جی بچوں میں بہلا رہتا۔ کبھی کبھی جب طبیعت زیادہ اُلجھنے لگتی تو اپنی پڑوسن کو جو ایک مستری کی بیوی تھی، بات کرنے کے لیے بلا بھیجتی اور دن کٹ جاتا۔ گھر کے کام دھندے، بچوں کی دیکھ بھال اور میاں کی خبر گیری، اس کی ساری کائنات اسی محور پر گھوما کرتی۔

پھر ارشد کے بہنوئی کا کم عمری میں ہی انتقال ہو گیا اور چھوٹی بہن کا بار بھی اس کے شانوں پر آن پڑا، وہ اسے بھی اس مکان میں لے آیا۔ کچھ دن بعد حالات نے اسے اپنی ساس کو بھی اپنے پاس بلا لینے پر مجبور کیا۔۔ اور اب وہ ہیڈ کلرک تھا، چار بچوں کا باپ، ( اس اثناء میں دو لڑکیوں کا اور اضافہ ہو گیا تھا) ایک عدد بیوی کا شوہر، جس کے سرپر اپنی چھوٹی بہن اور ساس کا بار بھی تھا۔ لیکن وہ اخراجات کا اتنا زیادہ شاکی نہ تھا۔ پونے دو سو روپے تنخواہ، سو سوا سو کی بالائی آمدنی ہو جاتی تھی اور وہ اتنے ہی پر قانع تھا۔ لیکن اسے اس مکان میں ضرور تکلیف ہوتی تھی۔ ایک سرکاری دفتر کا ہیڈ کلرک اور اتنے غلیظ ماحول میں رہتا ہو۔ اسے بیحد شرم محسوس ہوتی تھی۔

ارشد کے پڑوسیوں میں زیادہ تر ملوں میں کام کرنے والے مزدور، مستری، خوانچہ لگانے والے اور اسی قماش کے دوسرے لوگ تھے، جن میں خلوص ہو تو ہو تہذیب اور شائستگی نام کو نہ تھی۔ پھر مکان بھی ایسا تھا جس میں ہر موسم میں تکلیف ہی اٹھانی پڑتی تھی۔ گرمیوں میں سارا مکان آگ کی طرح تپتا۔ دن میں کھپریلوں کی چھت سے دھوپ کی تیز کرنیں چھن چھن کر اندر آیا کرتیں، اور رات کو وہ تو خیر سڑک پر پلنگ ڈال کر پڑ رہتا لیکن عورتوں کو بڑی زحمت ہوتی تھی۔ ملی ہوئی چھتوں پر مزدوروں اور ان کی بیویوں کے بستر پڑ جاتے جہاں سے آنگن میں سامنا پڑتا ایسی کھلی ہوئی جگہ پردہ نشین عورتوں کا لیٹنا ایک تو ویسے ہی معیوب تھا دوسرے اس چھوٹے سے صحن میں بمشکل دو پلنگ آتے تھے۔ پھر اتنا گھرا ہوا مکان جہاں ہوا کا گزر بڑی دقت سے ہوتا تھا۔ وہ اپنے پلنگ پر پڑا پڑا عورتوں کی باتیں سنا کرتا۔

’’ افوہ! کتنی سخت گرمی ہے بھابی جان!‘‘ اس کی بہن کہتی۔

’’ اُف۔۔ !‘‘اس کی بیوی پنکھا جھلتے ہوئے حاشیہ لگاتی۔ ’’ اس مکان سے طبیعت اوب گئی۔ نگوڑا مکان ہے کہ مرغی کا ڈربہ!‘‘

اور ساس چھالیہ کترتے ہوئے فیصلہ کرتی۔

’’ نا بابا۔۔ ہم نے تو اپنی زندگی میں یہ نرالا ہی مکان دیکھا ہے۔ نگوڑا جیتے جی دوزخ ہے!‘‘

اور پھر وہ اپنے دیہاتی مکانوں کی خوبیوں پر تبصرے فرماتیں جنھیں سنتے ہوئے وہ اپنے پلنگ پر کروٹیں بدل بدل کر بدن پر رینگتے ہوئے کھٹمل ٹٹولا کرتا جو اسے بہ مشکل سونے دیتے۔ مچھر الگ رات بھر بھنبھناتے رہتے تھے۔ ہوا یوں ہی کبھی کبھی کبھار چلتی تھی۔ کوئی بھولا بھٹکا جھونکا اگر اتفاقاً آ بھی نکلتا تو دماغ بھنّا جاتا کیونکہ اس کے ساتھ گندے نالے کی بدبو کا بھپکا ضرور شامل ہوتا۔

سردیوں میں جان اور ضیق میں پڑ جاتی۔ چھوٹے سے آنگن میں دھوپ اتنی کم آتی کہ سوا انگیٹھی کے اور کہیں پناہ نہ ملتی مکان دھوئیں سے بھر جاتا۔ دو چھوٹے چھوٹے کمروں میں دروازے بند کر کے جب آٹھ نفوس سوتے تو اسے بے ساختہ وہ باڑے یاد آ جاتے جن میں بھیڑیں بند کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی قسمت کو کوسا کرتا۔

اور برسات سب سے زیادہ غضب ڈھاتی۔ رات کو کھپریلوں کی چھت بارش ہو جانے کے باوجود مسلسل ٹپکتی رہتی۔ مچھر کاٹا کرتے اور چار پائیاں ادھر سے اُدھر سرکا کرتیں حالانکہ سرکانے کی گنجائش بہت ہی کم ہوتی۔ دن میں بھی انھیں کمروں میں بند رہنا پڑتا۔ صحن میں کیچڑ ہوتا کہ ٹخنوں تک پیر دھنس جاتے۔ اس کا کوئی بچہ پھسل کر گرتا اور اپنا ہاتھ یا پیر زخمی کر لاتا تو وہ جھنجھلا کر ان پر بگڑتا۔

’’ تو تم لوگ آخر باہر جاتے ہی کیوں ہو؟‘‘ اور اس کی ساس اُسے آڑے ہاتھوں لیتی۔

’’ بچے دن بھر گھر میں تو گھسے نہیں رہ سکتے۔ ‘‘

ایسی جگہ پر رہنے کی وجہ سے جہاں سیلن، مچھر، کھٹمل اور گندگی کی بہتات ہو۔ کھلی تازہ ہوا نہ نصیب ہوتی ہو، سورج کا گزر نہ ہو، اس کے گھر میں بیماری ایک مستقل مہمان کی طرح براجمان رہتی تھی۔ کبھی لڑکے کو ٹائیفائڈ ہے تو کبھی بہن کو ملیریا۔ آج بچی بیمار ہے تو کل ساس مریض۔ بیوی مستقل اختلاج کی مریضہ ہو کر رہ گئی تھی۔ اس کی آمدنی کا خاصا حصہ دوا علاج کی نذر ہو جاتا۔ پھر ان سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ اس مکان میں وہ اپنی بیوی سے ہنس بول بھی نہ سکتا تھا۔ فطرتاً وہ شرمیلا تھا۔ بہن اور ساس کی موجودگی میں بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے بھی اسے حجاب سا آتا اور وہ دل مسوس کر رہ جاتا۔ اور جب کبھی اس کا کوئی دوست یا دور افتادہ عزیز ان کے گھر مہمان بن کر آتا تو اس کا جی چاہتا اپنے ہاتھوں اپنا گلا گھونٹ لے۔ عورتیں اندرونی کمرے میں دن بھر گھسی رہتیں وہیں کھانا پکتا۔ دروازے پر پردہ ٹانگ دیا جاتا اور سڑک کی طرف والا کمرہ مہمان کے لیے وقف ہو جاتا۔

پھر جب اس کی چھوٹی بچی ملیریا کا شکار ہوئی اور ہزار علاج کے باوجود چل بسی تو اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ اس مکان میں سکونت کا انعام ہے، ساس کا خیال تھا مکان میں کوئی آسیبی خلل ہے۔ بیوی نے آخری فیصلہ سنا دیا۔

’’ نہ بھئی۔ اب تو میں اس منحوس مکان میں نہ رہوں گی۔ ‘‘ اور اس کی بہن نے اسے سمجھایا۔

’’ بھیا! آخر تم کوشش کر کے کوئی دوسرا مکان کیوں نہیں لے لیتے۔ ٹھیک ہے کہ اس کا کرایہ صرف بائیس روپیہ ماہوا رہے لیکن دیکھیے تو یہاں کتنی اڑچن ہوتی ہے۔ دوسری جگہ دو چار دس روپیہ زیادہ کرایہ دینا پڑے گا تو کیا ہوا۔ آرام تو ملے گا۔۔ ‘‘

اب وہ اس پاگل کو کیا سمجھاتا؟ وہ تو خود ہی مدت سے اس فکر میں تھا۔ اپنے دوستوں سے لے کر دفتر کے چپراسیوں تک سے اس نے کہہ رکھا تھا کہ بھئی کوئی ٹھکانے کا مکان دلاؤ۔

لیکن اس دن وہ واقعی اس بری طرح جھنجھلایا ہوا تھا کہ سیدھا کمال خاں کی عالی شان بلڈنگ میں پہنچا وہ اپنے سجے ہوئے شاندار ڈرائنگ روم میں براجمان تھے۔ ارشد نے ساڑھے سولہ روپے انھیں دے کر منہ بناتے ہوئے کہا۔

’’ یہ آپ کا بائیس دن کا کرایہ ہے۔ میں کل وہ ڈربہ خالی کر رہا ہوں !‘‘ اور کمال خاں نے اس طرح حیرت سے ایسے گھورا جیسے وہ پاگل ہو گیا ہے اور دیدہ و دانستہ جنت سے نکلنے کی غلطی کر رہا ہے۔

’’ کیوں ؟تبادلہ ہو گیا۔ ؟‘‘

’’ نہیں صاحب مکان میں تکلیف بہت ہے، میں کوئی دوسرا مکان تلاش کر لوں گا۔ ‘‘

’’ اچھی بات ہے!‘‘ کہہ کر کمال خاں نے روپے بغیر گنے ہوئے جیب میں ڈال لیے اور واپس آتے ہوئے اس نے سُنا۔ کمال خان اپنے منشی سے کہہ رہے تھے۔

’’ معلوم ہوتا ہے بالائی آمدنی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ آج کل دماغ ساتویں آسمان پر ہیں میاں کے، کیوں منشی جی؟‘‘

واپسی پر ارشد اپنے ماموں زاد بھائی کے مکان پر گیا۔ یہ مکان کافی کشادہ اور ایک کھلی ہوئی جگہ پر تھا۔ اس نے ایک ہفتہ کے لیے اس مکان میں رہنے کی اجازت حاصل کر لی۔

’’ بھائی صاحب! میں بہت جلد مکان تلاش کر لوں گا آپ اطمینان رکھیں۔ ‘‘ اسی دن وہ اپنا تمام سامان بمعہ لواحقین تانگوں پر لدوا کر ماموں زاد بھائی کے مکان میں منتقل ہو گیا۔ وہاں ان لوگوں کی اتنی خاطر تواضع کی گئی اور اس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا گیا کہ وہ بغیر سوچے نہ رہ سکا۔

’’ آخر مصیبت میں اپنا ہی خون کام آتا ہے۔ ‘‘

دوسرے دن اس نے دفتر سے ایک ہفتے کی چھٹی لی اور تندہی سے مکان تلاش میں جٹ گیا۔

پھر وہ ایک ہفتہ پرلگا کر اُڑ گیا۔ مکان کہیں نہ مل سکا۔

اس نے پندرہ دن کی مزید رخصت حاصل کی اور جد و جہد کی رفتار تیز کر دی۔ مکانوں کے مالک بات سننے کو تیار نہ تھے، کوئی رضا مند ہوتا تو مکان پہلے ڈربہ سے بھی بد تر نکلتا۔ اگر رہائش کے قابل ہوتا تو کرایہ اتنا زیادہ طلب کیا جاتا کہ اس کی تنخواہ کفالت نہ کر سکتی۔ ارشد پریشان آ کر رینٹ کنٹرول آفس گیا تو وہاں سے جواب ملا ’’ صاحب ہم مجبور ہیں۔ مکان صرف شرنارتھیوں کو الاٹ کر سکتے ہیں۔ فی الحال درخواست دے دیجیے سال دو سال بعد نمبر آنے پر کوارٹر الاٹ کرنے کے بارے میں غور کیا جائے گا۔

کوئی کلرک کام کرنے پر رضا مند بھی ہوتا تو رشوت کی رقم اتنی بڑی طلب کی جاتی جو ارشد کے بس کی بات نہ تھی۔ کچھ لوگ اچھے اور سستے مکانات دلانے پر آمادہ ہوئے لیکن ساتھ میں دو چار ہزار روپیہ پگڑی کی پخ لگی ہوتی لوگوں کی خوشامد کر کر کے اور اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کر ارشد بُری طرح اُوب گیا۔ شہر میں بہت کم لوگ ایسے تھے جنھیں رہنے کے لیے اچھے مکانات نصیب تھے۔ اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو جانوروں سے بھی گئی گزری حالت میں رہ رہے تھے۔ ڈربہ نما مکانات کا ایک لامتناہی سلسلہ لاکھوں افراد کو پناہ دیتا تھا۔ ہزاروں آدمی ہیضہ، ملیریا یا چیچک اور ٹی بی کا شکار ہو کر مرتے تھے۔ البتہ سول لائن اور دو چار محلوں میں اسے ایسی عظیم الشان عمارات دکھائی دیں جن میں دس دس کنبے بہ آسانی رہ سکتے تھے لیکن معلوم ہوا ان میں گنتی کے دو تین ہی افراد رہتے ہیں۔

وہ اسی طرح بھٹکتا اور ناکام جد و جہد کرتا رہا! شام کو گھر آتا تو اس کے ماموں زاد بھائی استفسار کرتے۔

’’ کیوں بھئی ارشد! مکان ملا کہیں ؟‘‘

’’ جی کوشش کر رہا ہوں ۔۔ ‘‘

’’ اماں تم تلاش بھی کرتے ہو یا یونہی ہانک دیتے ہو۔ ‘‘ ارشد انھیں یقین دلاتا کہ اس نے دوڑ دھوپ میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ پھر کچھ دن بعد انھوں نے ارشد کے بچوں کی شکایتیں شروع کر دیں۔

’’ ارشد آج تمھارے چھوٹے صاحبزادے نے میرے پیڈ پر سیاہی انڈیل دی۔ بہت شریر ہے کمبخت۔ ‘‘ ارشد نے دانت پیس کر کہا’’ آج میں اس کی خبر لوں گا۔ ‘‘

’’ خبر کیا لو گے جی۔ ‘‘بھائی بولے۔ ’’ بچپن سے تربیت ہی غلط لوگوں میں ہوئی ہے۔ ‘‘

اس دن ارشد نے واقعی چھوٹے بیٹے کی خوب پٹائی کی۔

دوسرے دن بھابی نے ناک چڑھا کر کہا:’’ ارشد میاں سنتے ہو۔ یہ تمہاری صاحبزادی نے نیا کا نیا پردہ پھاڑ ڈالا ہمارا۔ ‘‘

اس دن ارشد نے تینوں بچوں کی خوب خبر لی۔ بیوی، بہن اور ساس تک کو پھٹکار ڈالا۔

لیکن تیسرے دن بھائی صاحب بُری طرح جھنجھلائے ہوئے تھے۔ تنک کر بولے۔

’’ افوہ! میرا اچھا خاصا مکان بالکل کباڑیے کی دوکان معلوم ہونے لگا ہے۔ ‘‘

’’ جی ہاں بھائی صاحب!‘‘ ارشد نے گردن جھکا کر کہا۔ ’’ واقعی آپ لوگوں کو بیحد زحمت ہو رہی ہے۔ ‘‘

’’ وہ تو ہے ہی۔ تم تو یہ بتلاؤ مکان کب تک مل رہا ہے تمھیں ؟‘‘ بھائی نے بے رخی سے پوچھا۔

ارشد کے دل پرجیسے کسی نے زور سے گھونسا مار دیا۔ اس نے وعدہ کیا ’’ کل شام تک میں مکان ضرور حاصل کر لوں گا بھائی جان! آپ یقین کیجیے۔ ‘‘

’’ ہاں دیکھو۔ یقین تو اب مجبوراً کرنا پڑے گا۔ ‘‘

دوسرے دن ارشد نے بھائی کو خوشخبری سُنائی۔

’’ بھائی صاحب! یہ دیکھیے آج مکان مل گیا! چالیس روپیہ ماہوار پر!‘‘

اُس نے پیشگی کرائے کی رسید سامنے رکھ دی۔ بھائی صاحب نے سوچا چلا اچھا ہوا جان چھوٹی۔ کمبخت اتنے دنوں سے دھرنا دیے پڑا تھا مکان کی درگت کر دی اب پھر سے سفیدی کرانا پڑے گی۔

اور جب ارشد کے بچے، بیوی، بہن اور ساس تانگے سے اُترے تو انھوں نے حیرت و استعجاب سے دیکھا ارشد ہوم، ہوم، سویٹ ہوم گاتا ہوا اپنے پُرانے مکان میں لگا ہوا تالہ کھول رہا تھا۔

(۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

بہک!

 

دروازے پر عصا اور قدموں کی ملی جلی مخصوص آوازیں پھر سنائی دے رہی تھیں۔ میں سمجھ گیا کہ کلثوم بوبو تشریف لا رہی ہیں اور پھر چند لمحوں بعد دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئیں۔ میں نے دیکھا آج ان کے چہرے پر چھائی رہنے والی مایوسی اور اُداسی کچھ اور گہری ہو گئی تھی۔ ان کی دھندلی دھندلی بے نور آنکھوں کے پپوٹے سرخ اور سوجے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ ڈیوڑھی پر عصا کے سہارے ٹھہر کر تھوڑی دیر لمبی لمبی سرد آہیں بھرتی رہیں اور پھر دالان کو پار کر کے صحن میں آ گئیں۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کا سایہ کر کے اِدھر اُدھر دیکھنے کی ایکٹنگ کی حالانکہ اس وقت وہ کام اپنے کانوں سے لے رہی تھیں پھر جب کوئی آہٹ سنائی دی تو بولیں۔

’’کہاں ہو ممانی؟ اب کیا میرا آنا بھی بُرا لگتا ہے؟‘‘

’’ کون۔۔ ؟ کلثوم۔۔ ! ‘‘ امی نے اوپر کمرے سے جھانک کر کہا۔ ’’ آؤ۔ آؤ۔ میں نے تمھیں دیکھا نہیں ۔۔ ذرا بُوٹیاں کاڑھ رہی تھی۔ خورشید کی شادی کو اب دو ہی دن رہ گئے ہیں۔ نگوڑا دوپٹہ ختم ہونے ہی کو نہیں آتا۔ اور ختم ہو تو کیسے؟ فرصت تو ملے۔ جب لے کر بیٹھتی ہوں کوئی نہ کوئی کام نکل آتا ہے۔ ‘‘

کلثوم بوبو لگڑی ٹیکتے ہوئے زینے پر چڑھ کر کمرے میں داخل ہو گئیں۔

کلثوم بوبو ہمارے پڑوس ہی میں رہتی تھیں۔ سارا محلہ انھیں بوبو کہتا تھا اور وہ امی کو ممانی۔ حالانکہ عمر میں وہ امی سے دو چار سال بڑی ہی ہوں گی۔ لمبا قد، چھریرا بدن، بڑی بڑی آنکھیں جن میں بینائی برائے نام ہی باقی رہ گئی تھی۔ تنگ موری کا چست پاجامہ جس میں جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے اور پھٹا ہوا میلا چیکٹ دوپٹہ۔ جب وہ کھڑا ویں پہن کر اور عصا ٹیک ٹیک کر پاؤں رگڑتے ہوئے چلتیں تو ان کی چال سے ایک عجیب طرح کی سطوت اور رعونت ٹپکتی تھی۔ باتیں یوں تو بہت کم کرتی تھیں لیکن جب جوش میں آ جائیں تو گھنٹوں دھواں دار لکچر دیتی رہتیں۔ ان کی گفتگو سے ہمیشہ گہرا طنزیہ انداز مترشح ہوتا تھا۔ خدا جانے کیوں وہ ساری دنیا کو اپنا دشمن خیال کرتی تھیں۔

میں دوبارہ مطالعہ میں مشغول ہو گیا تھا کہ اوپر سے ایک تیکھی آواز کا جھرنا سا گرتا محسوس ہوا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے آواز کا وہ آبشار سیدھے میرے کانوں میں گر رہا ہے۔ شاید امی کی کسی بات پر کلثوم بوبو کو تاؤ آ گیا تھا اور وہ لاوے کی طرح پھوٹ پڑی تھیں۔

’’کیسی باتیں کرتی ہو ممانی؟ جب وہ جہنمی اس حالت میں ہمارا خیال نہیں کرتا تو اور کب کرے گا؟ جب میں مر جاؤں گی! جب سے احمد آباد گیا ہے، دو مہینے تو دس دس روپیے کا منی آرڈر بھیجا اور سمجھ لیا کہ دودھ کا حق ادا ہو گیا بیس روپیوں سے۔ تم کو معلوم ہے اس کا باپ حرامی مجھے کوئی رو کڑ تو کما کر بھیج نہیں دیتا پچیس روپے پنشن کے جو میرے نام آ جاتے ہیں، وہ بھی سب کی نظروں میں کھٹکتے ہیں۔ تین جوان جہان چھوکریاں، ایک چھوٹا لڑکا اور میں۔ بھلا پچیس روپیوں میں کہیں گزر ہوتا ہے۔ خون پسینہ ایک کر کے، محنت مزدوری کی اور میں نے احمد کو پالا۔ مڈل تک پڑھایا، لوگوں کے کپڑے سیتے سیتے اندھی ہو کر بیٹھ گئی۔ سوچا تھا کسی لائق ہو گا تو کچھ آرام ملے گا۔ باپ نے قلی کی عورت کو بٹھا لیا ہے اور میری طرف سے لا پرواہ ہو گیا ہے تو کیا ہوا؟ یہ میری مدد کرے گا۔ تم بھی تو تھیں اس وقت جب احمد آباد جانے لگا تھا تو وداع ہوتے وقت نگوڑا کس طرح میرے گلے میں بانہیں ڈال کر لیٹ گیا تھا۔ اماں تم گھبرانا نہیں۔ مجھے یاد مت کرنا۔ میں تمھیں خوش کرنے کے لیے اپنی جان لڑا دوں گا۔ اور پھر جب میری نوکری لگ جائے گی تو تم کو بھی اپنے پاس بلا لوں گا۔ مقصود کو وہیں کسی مدرسے میں داخل کر دیں گے، بہنوں کی شادیاں بھی ہو جائیں گی اور پھر ہماری اماں راج کرے گی راج۔۔ ابّا کی پنشن انھیں کے منہ پر پھینک دینا۔۔ کہنا میرا احمد جوان ہو گیا۔ نوکر ہو گیا سنبھالو اپنے روپے اور قلی کی عورت کے ساتھ موج کرو۔ پھر احمد آباد پہنچ کر جب چار مہینے نوکر نہیں ہوا تو کیسے کیسے تسلی کے خط بھیجتا رہا اور میں یہاں سے اپنا تن پیٹ کاٹ کر اُلٹا اُسے خرچ بھیجتی رہی اور جب تنگ آ کر آخر میں میں نے اسے خط لکھوایا کہ نوکری نہیں ملتی تو گھر واپس چلے آؤ تو لکھا کہ نوکری مل گئی ہے ایک ہوٹل میں کام کرتا ہوں۔ ساٹھ روپے ماہوار ملیں گے اور جلد ہی تنخواہ بڑھا دی جائے گی۔ پھر اس کا دس روپے کا منی آرڈر آیا۔ تم کو معلوم ہے وہ تو میں نے سب کے سب میلاد میں ہی خرچ کر ڈالے تھے۔ کتنی خوشی ہوئی تھی اس وقت۔۔ سمجھی تھی اب سارے دلدّر دھُل گئے۔ ابھی دس بھیجے ہیں تنخواہ بڑھ جانے پر اور زیادہ بھیجے گا۔ پچیس پنشن کے اور دس یہ ملا کر پینتیس روپے میں کسی نہ کسی طرح گزر بسر ہو ہی جائے گی۔ سو دیکھو دو مہینے ہی بھیج کر لا پرواہ ہو گیا۔ کوئی بازاری عورت ڈال لی ہو گی گھر میں۔ مقصود پانچویں میں اچھا بھلا پڑھتا تھا اس سال پاس ہو کر چھٹی میں چلا جاتا اور دو سال بعد مڈل پاس کر لیتا مگر اب مجبوراً اس کا نام اسکول سے کٹانا پڑا۔ گھر ہی میں کھانے کے لالے پڑے ہیں پڑھائی کی فیس کہاں سے دوں ؟اب تو وہ چنے مونگ پھلی وغیرہ لے کر اسکول کے پھاٹک پر جا بیٹھتا ہے تو شام ہوتے ہوتے دو چار آنے کما ہی لاتا ہے دال ترکاری ہی ہو جاتی ہے۔ اب ان نگوڑی آنکھوں سے کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا کہ کچھ سلائی ہی کر لیا کروں۔ لڑکیوں کے مارے الگ جان ضیق میں ہے۔ جوان ہیں، کہیں محنت مزدوری کرنے کے لیے نکل جائیں تو کل کو کوئی شادی کرنے کو تیار نہ ہو گا۔ اب تمہی بتاؤ احمد کی جان کو نہ روؤں تو کیا کروں ! وہی حرامزادہ لائق ہوتا تو پھر رونا کاہے کا تھا؟ ماں بہنوں کو سمیٹ کر بیٹھتا، مجھ جنم جلی کو کچھ سُکھ دیتا تو میری دل سے بھی اس کے لیے دعا نکلتی۔ اس طرح ماں کو کلپا کر کیا پائے گا اس دنیا میں۔ دیکھ لیناسدا اپنی قسمت کو نہ روتا رہے تو میرا نام کلثوم نہیں۔ جو اپنی ماں کا نہیں جس نے اسے خون پلا پلا کر پالا اس سے خدا کیسے راضی ہو سکتا ہے؟ خدا تو نامراد ہی اٹھائیو اس احمد کو۔۔ جس طرح یہ مجھے ترسارہا ہے تو بھی اسے دانے دانے کو ترسائیو!‘‘

وہ اور نہ جانے کتنا کوستیں کہ میں نیچے سی دو تین سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر کمرے میں جا پہنچا۔ ’’ امی! آپ بھی نہ جانے کس بلا کو بلا لیتی ہیں۔ امتحان کو کل ایک مہینہ رہ گیا ہے اور مجھے اطمینان سے پڑھنا نصیب نہیں ہوتا۔ ‘‘

امّی کو بھی غصہ آ رہا تھا۔۔ بولیں

’’ لو اب چپ بھی رہو کلثوم! تم سے تو دھیرے دھیرے بات ہی نہیں کرتے بنتی۔۔ اور پھر لے دے کر تمھارے دو ہی تو بیٹے ہیں انھیں بھی تم سات غیروں کی طرح کوستی ہو۔۔ نابہن! میں نے ایسی کٹّر دل ماں نہیں دیکھی دنیا میں۔ ‘‘

کلثوم بوبو ادھ کچلے سانپ کی طرح پیچ و تاب کھا کر اٹھیں۔

’’ یا اللہ! گریبوں کے دُکھ درد کوئی بھی نہیں سنتا۔ ہم کو رونے کی بھی اجازت نہیں ہے۔۔ میں تو پانی پی پی کر کوسوں گی احمد کو۔۔ میرا بیٹا ہے کسی اور کے بیٹوں کو کوسوں تو میرا منہ پکڑا جائے۔ جب کسی کے دیک انڈا ہو اور وہ بھی گندہ نکل جائے تو دل سے دعا کیسے نکلے گی جب اپنے پیر میں بوائی پھٹے گی تو درد معلوم ہو گا۔ ابھی کیا ہے۔ ‘‘

وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے نکل کر زینہ اُترنے لگیں کہ بھڑ بھڑا کر گر پڑیں۔ میں نے دوڑ کر انھیں سہارا دیا اور باہر نکلا کر دروازہ بند کر دیا!

۔۔ ۔۔ ۔۔

میں بی اے نہ کر سکا۔۔ خانگی حالات نے کچھ ایسی صورت اختیار کی کہ والد صاحب ہزار کوششوں کے با وجود امتحان میں داخلہ کی فیس نہ جمع کر اسکے۔ میں نے اِدھر اُدھر بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے لیکن کوئی سہارا نہ مل سکا اور میں گریجویٹ ہوتے ہوتے رہ گیا کیونکہ میں نے کافی محنت سے تیاری کی تھی اور سکنڈ ڈویژن سے تو یقیناً کامیاب ہو جاتا۔

بیکار مباش کچھ کیا کر۔

سوچا بیکار بیٹھنے سے بہتر ہے کہیں نوکری ہی تلاش کی جائے۔ کانپور چلا آیا۔ اسٹیشن ہی پر احمد سے ملاقات ہو گئی۔ مجھے دیکھتے ہی لپک کر بستر کا بنڈل اور سوٹ کیس میرے ہاتھ سے لے لیا اور خاموشی سے میرے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ پلیٹ فارم سے باہر نکل کر خاموشی سے اکتاتے ہوئے میں نے پوچھا۔

’’ احمد تم یہاں کیسے آ گئے؟‘‘

اس نے ایک ٹھنڈی سانس کھینچتے ہوئے جواب دیا۔

’’ کیا کرتا بابو جی! احمد آباد میں ہزار کوشش کے باوجود بھی کوئی جگہ نہ ملی تو یہاں چلا آیا۔ ‘‘

’’ لیکن میرا خیال ہے وہ خط میں نے ہی پڑھ کر کلثوم بوبو کو سنایا تھا جس میں تم نے کسی ہوٹل میں ملازمت مل جانے کی اطلاع دی تھی۔ ‘‘ اس نے ایک کھوکھلا قہقہہ لگایا۔

’’ وہ سب جھوٹ تھا۔ میں گھر سے آتے ہوئے اماں سے لمبے چوڑے وعدے کر آیا تھا۔ سوچا تھا دنیا کی ساری مسرتیں اپنی ماں کے قدموں میں لا ڈالوں گا کیوں کہ اس نے اپنا خون چوسا کر مجھے اتنا بڑا کیا ہے پھر احمد آباد میں مجھے متواتر اس کے خط ملتے رہے جن سے معلوم ہوا کہ وہ اور میری تینوں بہنیں دن رات خدا سے میری ملازمت کی دعائیں مانگا کرتی ہیں اور میں کام کرنا چاہتا تھا۔ میرے بازوؤں کی مچھلیاں محنت کے لیے تڑپتی رہیں لیکن مجھے کام نہ ملا۔ تم ہی بتاؤ بابو کیا میں اپنی ماں کو جھوٹی تسلی بھی نہ دیتا۔ اس طرح کہ کم از کم اسے تھوڑے دن خوش ہو لینے کا موقع تو مل گیا۔ انھیں دنوں میں نے جوئے میں کچھ روپے جیت لیے تھے۔ ۔ دو مہینے تک دس دس کا منی آرڈر گھر بھیج دیا تاکہ اماں کو میری ملازمت کا یقین آ جائے۔ اور پھر کم از کم وہ میری طرف سے تو مطمئن ہو جائے کہ اس کا احمد اب نوکر ہو گیا ہے اور آرام کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ ‘‘

احمد کے خلوص پر میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ میں اسے نہ بتا سکا کہ احمد، ماں کو خوش کرنے کے لیے بھی روپے کی ضرورت ہے اس کی محبت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ماہ اسے منی آرڈر بھیجے جائیں۔ صرف اتنا ظاہر کر دینے سے ہی کہ تم کو آرام کی زندگی بسر کر رہے ہو، تمہاری ماں خوش نہیں ہو سکتی۔ تمھارے علاوہ بھی اس کے چار بچے ہیں اور جب تک وہ سب خوش نہ ہوں ان سب کے پیٹ نہ بھرے ہوں تم اپنی ماں کی دعائیں حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ تمھیں دودھ نہ بخشے گی۔ ہمیشہ تمھیں بد دعائیں ہی دیتی رہے گی کیوں کہ تم اس کے گندے انڈے ہو۔ اور میرے بہت اصرار کے باوجود اس نے مجھ سے مزدوری کے پیسے بھی نہیں لیے!

مختلف دفاتر کے چکر لگا لگا کر میرے جوتے پھٹ گئے۔ ملازمت عنقا ہو گئی تھی۔ ہر جگہ امید واروں کی بھیڑ دکھائی دیتی۔ لوگ رائے دیتے تھے کہ میں تجارت کروں لیکن تجارت کے لیے بھی تو کچھ روپیہ چاہیے۔ خوانچہ لے کر اِدھر اُدھر پھیری لگانے کا نام تجارت نہیں ہے اور پھر اس ادھوری تعلیم نے مجھے اس قسم کی تجارت کے لائق بھی تو نہ چھوڑا۔ بفرض محال میں خوانچہ لگانا بھی شروع کر دیتا توکیا اس سے اتنی آمدنی ہو سکتی تھی کہ میں اپنے اخراجات بھی پورے کروں اور اپنے والدین کو بھی ہر ماہ کچھ نہ کچھ روانہ کر دیا کروں ؟

اِدھر والد صاحب کے خط آ رہے ہیں۔

’’ اس فصل میں غلہ بہت کم ملا ہے۔ قرضدار بری طرح تقاضہ کر رہے ہیں۔ خرچ کی بہت تنگی ہے۔ زیور بیچنے کی نوبت آ گئی ہے۔ ‘‘

انھیں دنوں معلوم ہوا کہ ایر فورس میں بھرتی ہو رہی ہے۔ میں سرٹیفیکٹ لے کر ریکروٹنگ آفس پہنچ گیا۔ آخر فوجی ملازمت میں خرابی ہی کیا ہے۔ اپنے والدین کی خدمت بھی کر لو اور مادرِ وطن کی بھی۔۔ ۔۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔

وہاں بھی امیدواروں کی ایک بڑی جماعت سے مقابلہ کرنا پڑا۔ ملازمت کے لیے میٹرک پاس ہونے کی قید تھی لیکن اکثریت گریجویٹوں کی تھی۔ مقابلے کا امتحان بہت سخت تھا۔ پانچ سو میں دس امید وار کامیاب ہوئے۔ خوش قسمتی سے ابتداء ہی سے ریاضی اور سائنس میرے پسندیدہ مضامین رہے تھے حالانکہ کالج میں میں انھیں اختیار نہ کر سکا تھا۔ کامیاب دس امیدواروں میں ایک میں بھی تھا۔ ہم ڈاکٹری معائنے کے لیے ملٹری اسپتال میں بھیج دیے گئے اور وہاں ہم میں سے پانچ کو جواب مل گیا۔ میرے بدن کو ٹھونک پیٹ کر جانچ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے کہا۔

’’ ویری ساری! تمھارا سینہ دو انچ کم ہے!‘‘

میرے چہرے کی اداسی دیکھ کر اس نے مارک لسٹ پر نظر ڈالی۔

’’ اوہ ! تم مقابلے میں فرسٹ رہا۔ اچھا تم تین مہینے بعد آؤ۔ خوب کسرت کرو۔ بکرے کا گوشت کھاؤ سینہ بڑھ جائے گا تو ہم لے لے گا۔ ‘‘

میرے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ بکھر گئی۔

’’ ڈاکٹر! بکرے کا گوشت ڈھائی روپیہ سیر ملتا ہے۔ اگر وہی خرید سکتے تو ایئر فورس میں بھرتی ہونے کیوں آتے؟‘‘

’’ اوہ! ہم کو رنج ہے۔ ہم لاچار ہے۔۔ ‘‘

میں واپس چلا آیا۔ کمرے میں پڑا والد صاحب کا ایک اور خط ملا وہی پرانی باتیں۔ امی میری ملازمت کے لیے دن رات دعا مانگتی ہیں۔ والد صاحب میں اب کنبے کی گاڑی کھینچنے کی سکت نہیں۔ وہ اس کا جوا میرے جوان کاندھوں پر رکھ کر سبکدوش ہو جانا چاہتے ہیں۔

میں نے انھیں خط لکھ دیا۔

’’ نوکری مل گئی۔ تنخواہ ملنے پر خرچ روانہ کروں گا۔ ‘‘

خط لیٹر بکس میں ڈالتے ہوئے مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے میرا وجود ایک گندے انڈے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ ایک ایسا گندہ انڈا جسے اٹھا کر گھورے پر پھینک دیا جاتا ہے۔

خط ڈال کر یہ سوچتے ہوئے واپس آ رہا تھا کہ آج بنارسی بابو کی دوکان پر پچاس روپیہ کی منشی گیری ہی قبو ل کر لوں گا راستے میں۔ راستے میں احمد مل گیا۔

کیوں بابو جی کوئی سلسلہ لگا؟‘‘

میں نے اسے ایئر فورس والی بات بتا دی۔ کہنے لگا۔

’’یہ سب بہانے ہیں۔ ابھی لڑائی چھڑ جائے تو سب لنگڑے لولے بھرتی کر لیے جائیں۔ میں بھی ایک بار سولجرس بورڈ گیا تھا، سالوں نے کہا تمھاری اونچائی کم ہے اور وہ اپنے ضلع کا شیر خان کہاں کا دس فیٹ لمبا ہے مجھ سے چار پانچ انچ چھوٹا ہی ہو گا۔ سیکنڈ لفٹیننٹ بنا پھرتا ہے۔ ‘‘

میں نے محسوس کیا جیسے واقعی اس بیکاری اور مصیبت کا واحد علاج جنگ ہے، صرف جنگ جسے لڑ کر میں اور احمدجیسے گندے انڈے اپنی ماؤں کے لال بن جائیں گے اور ان کے لیے یہ دنیا سچ مچ ایسی جنت بن جائے گی جو ماں کے قدموں میں ہوتی ہے اور پھر کوئی ماں اپنے بیٹے کو نہ کوسے گی اور ہر ماں کے دل سے اپنے لال کے لیے دعائیں پھوٹ پڑیں گی۔

بھوک، بیکاری، افلاس، ظلم اور مصیبت کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کے بعد پھر امن کا جو پرچم لہرائے گا اس کے بعد کوئی جنگ نہ ہو گی۔ ہر چہار سمت امن ہو گا۔

امن ہی امن!

(۱۹۵۴ء)

٭٭٭

 

 

 

 

ستاروں کا کھیل

 

کار فیکٹری کے کمپاؤنڈ میں داخل ہو رہی تھی۔

میں نے زبردستی اپنے چہرے پر تمکنت اور درشتی طاری کر لی، اس فیکٹری کا منیجر جو تھا۔ پورٹیکو میں پہنچ کر بریک بہت زور سے چیخے اور کار ایک خوشگوار ہچکولے کے ساتھ رک گئی۔ پھر نیلی وردی پوش شوفر نے تیزی سے فرنٹ سیٹ سے اتر کر کار کا دروازہ کھولا اور میں اپنا ہینڈ بیگ سنبھالتے ہوئے کار سے اتر کر برآمدے میں آ گیا۔

برآمدے سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا ویٹنگ روم میں نوجوانوں کی اچھی خاصی بھیڑ جمع تھی۔ کچھ فیشن ایبل تھے۔ کچھ خستہ حال۔ کوئی یوسف ثانی تھا تو کوئی اتنا بد صورت کہ دیکھ کر گھن آئے۔ ہر طرح کے نوجوان اس مجمع میں شامل تھے اور تقریباً سبھی کے ہاتھوں میں اعمالنامے تھے۔ یونیورسٹیوں سے ملے ہوئے سرٹیفکیٹ!

مجھے دیکھتے ہی وہ سب ادب سے سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔ کچھ نے جرأت سے کام لیتے ہوئے سلام علیکم، گڈ مارننگ، آداب عرض اور جے ہند قسم کے جملے بھی میری طرف مخاطب ہو کر کہے لیکن میں ایک نگاہِ غلط انداز ان پر ڈال کر بے نیازی کے ساتھ سامنے سے نکل گیا اور اپنے آفس میں گھومنے والی اسپرنگ دار کرسی پر ڈٹ گیا۔ ۵۵۵ کے ٹن سے ایک سگرٹ نکال کر ہونٹوں میں دبائی، جیب سے لائٹر نکال کر اسے سلگایا اور پھر اطمینان سے ایک لمبا کش لے کر آج کا پروگرام دیکھنے لگا جو سکریٹری نے پہلے ہی تیار کر کے میری ٹیبل پر سجا رکھا تھا۔ پھر میں نے دائیں جانب اسٹول پر رکھے ہوئے ٹرے میں درخواستوں کے ڈھیر کو دیکھا۔ یہ اس جگہ کے لیے امیدواروں کی درخواستیں تھیں جو ہماری فرم کے ہیڈ کیشیر کی خود کشی کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ مجھے مرحوم ہیڈ کیشیر پر خواہ مخواہ غصہ سا آنے لگا۔ کم بخت کو اچھی خاصی جگہ مل گئی تھی تین سو چالیس روپیہ ماہوار پاتا تھا۔ پھر بھی مر گیا۔ اب جانے کیسا شخص اس کی جگہ آئے۔ ایمان داری تو زمانے سے مفقود ہی ہو گئی ہے۔۔ محمود۔۔ مرحوم ہیڈ کیشیر مجھے اپنی نظروں کے سامنے گھومتا ہوا نظر آیا۔

عجیب آدمی تھا۔ وہ بھی میرے ہی ذریعے اس جگہ کے لیے منتخب ہوا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس نے پانچ سو روپے مجھے نذرانے میں دیے تھے اور میں نے اس کے بارے میں ایک تگڑی سی سفارش لکھ کر سیٹھ صاحب کے سامنے پیش کر دی تھی اور سیٹھ صاحب نے اس پر رسمی منظوری دے کر محمود کی ترقی کے راستے کھول دیے تھے۔

اور پھر پانچ سال تک محمود اپنی جگہ پر نہایت ایمانداری سے کام کرتا رہا۔ اس کی بیوی بانجھ تھی، یا اس میں کوئی خرابی تھی یہ مجھے آج تک معلوم نہ ہو سکا، ہاں یہ معلوم ہے کہ اس کے کوئی اولاد نہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی بیوی کو بہت چاہتا تھا، جیسا کہ اس کی باتوں سے اکثر ظاہر ہوتا تھا، مکان نہ ملنے کی وجہ سے وہ اسے دیہات سے شہر نہ لا سکا تھا، پھر بھی وہ کسی نئے نویلے دولھا کی طرح اسے ہر ہفتے خطوط اور بسا اوقات آرائش کی چیزیں بھیجا کرتا تھا۔ لیکن وہ دیانت دار بہت تھا۔

کئی بار ایسا ہوا کہ اس نے کوئی غلط حساب میرے سامنے پیش کیا اور میں نے کسی بڑی فیکٹری کے مصروف منیجر کی طرح بغیر جانچ کیے ہوئے سرسری انداز میں اس پر دستخط کر دیے۔ لیکن دوسرے یا تیسرے د ن جب کبھی اسے اپنی غلطی کا علم ہوتا وہ سر جھکائے، فائل بغل میں دبائے میرے آفس میں حاضر ہو جاتا۔

’’ صاحب۔۔ !‘‘ وہ سہمے ہوئے لہجے میں کہتا۔

میں قلم اٹھا لیتا دستخط کرنے کے لیے۔ وہ بغل میں دبی ہوئی فائل میز پر رکھتا اور اس میں سے وہ غلط حساب نکال کر ڈرتے ڈرتے میرے سامنے پیش کرتا۔

’’ سات سو باسٹھ روپے کیش میں بڑھتے ہیں۔ کل یہ حساب غلط ہو گیا تھا۔ صحیح کر لایا ہوں، دستخط کر دیجیے۔ ‘‘

میرے لیے دستخط کر دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ اس کی غلطی پر سرزنش کرنے کو جی تو چاہتا لیکن یہ سوچ کر خاموش ہو رہتا کہ کسی میمو، بجٹ، یا حساب کو چیک کرنے کے بعد دستخط کر دینے پر تمام تر ذمہ داریوں کا بار کلرک کے کاندھوں سے اٹھ کر آفیسر کے شانوں پر آ رہتا ہے۔

اور ایک بار تو عجلت میں میں نے ایک ایسے بجٹ پر دستخط کر دیے جس کی آڑ میں محمود باآسانی ساڑھے بارہ ہزار کا غبن کر سکتا تھا اور پھر بھی سارا الزام مجھ پر عائد ہوتا لیکن دو ہی دن بعد وہ کاغذ لیے ہوئے میرے سامنے آ موجود ہوا اور اس دن پہلی بار مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ ایسے ایمان دار اور محنتی شخص سے ملازمت کے سلسلے میں پانچ سو روپیہ رشوت لے کر میں نے زیادتی کی ہے۔ وہ ہر لحاظ سے اس جگہ کا مستحق تھا۔

پھر پچھلے جمعہ کو وہ میرے پاس ایک تار لے کر آیا جو اس کے گاؤں سے آیا تھا۔ اس کی بیوی سخت بیمار تھی اور وہ ایک ماہ کی رخصت چاہتا تھا بیوی کے علاج کے لیے۔ اس وقت مجھے یاد آیا کہ وہ بیحد ایمان دار ہے۔ بہت محنتی ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں مجھے سخت دقت ہو گی۔ سب حساب کتاب باقاعدہ چیک کرنا پڑے گا۔ بہت ممکن ہے پھر بھی گڑبڑ ہو جائے کیونکہ میری ریاضی خاصی کمزور ہے اور میں نے اپنا قیمتی چشمہ ناک پر چڑھاتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا تھا۔

’’ محمود اتنا پریشان کیوں ہوتے ہو تم۔۔ تمھاری بیوی تمھیں بہت چاہتی ہے نا۔۔ ؟‘‘

اس نے شرم سے سر جھکا لیا۔

’’ تم سے ملنا چاہتی ہو گی۔ ‘‘ میں نے کہا تھا۔۔ بیماری کا بہانہ کیا ہے۔ ایسا ہی ہے تو علاج کے لیے روپے بھیج دو خود کیا کرو گے جا کر۔ یہاں کام میں گڑبڑ ہو گی۔ ‘‘

اور میں اسے مایوس و ملول چھوڑ کر دفتر سے اٹھ گیا تھا۔ یہ سوچتا ہوا کہ اعلیٰ افسران کا منظور نظر ہو جانا بھی بعض اوقات ماتحتوں کے لیے وبال جان ہو جاتا ہے۔

پھر پرسوں وہ ڈیوٹی پر نہیں آیا۔ دریافت حال پر معلوم ہوا کہ اس نے خود کشی کر لی۔ بیوی کے انتقال کی خبر پانے پر، جو اس لا محدود دنیا میں اس کی تنہا رشتے دار تھی۔ بیچارہ محمود!

لیکن کم بخت خود کشی کر کے میرے لیے ایک مصیبت کھڑی کر گیا اور کسی فیکٹری کا ہیڈ کیشیر چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے خود کشی کر لیتا تو یقین ہے پولیس اس کے مالکان کو بہت تنگ کرتی لیکن ہمارے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر نے کی پولیس میں سکت نہ تھی۔ سیٹھ صاحب کانگرس کے فنڈ میں دل کھول کر چندہ یوں ہی نہیں دیا کرتے تھے۔

لیکن سب سے بڑی مصیبت تو یہ تھی کہ مجھے ایک ہیڈ کیشیر منتخب کرنا تھا جس کے سارے اختیارات اس بار سیٹھ صاحب نے مجھے ہی سونپ دیے تھے۔ پندرہ دن قبل ہی فیکٹری کے لیے ایک نوجوان ہیڈ کیشیر کے لیے جو کم از کم بی۔ کام ہو، اشتہار دیا گیا تھا اور آج آتے ہوئے میں امیدواروں کی ریل پیل ویٹنگ روم میں دیکھ آیا تھا۔ ویٹنگ روم سے اٹھتا ہوا شور و غل بڑھتا ہی جا رہا تھا میں نے درخواستوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور سیکریٹری کو بلا کر ان امیدواروں کے نام فہرست میں درج کرائے جو فرسٹ ڈویژن بی۔ کام یا سکنڈ ڈویژن ایم۔ کام تھے۔ اس کام سے فارغ ہو کر میں نے گھنٹی کا بٹن دبا دیا اور تنو مند چپراسی الٰہ دین کے مشہور چراغ کے جِن کی مانند فوراً حاضر ہو گیا۔ امیدواروں کی فہرست اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے میں نے کہا۔

’’ ویٹنگ روم میں امید واروں کو یہ نام پڑھ کر سنا دو اور کہو کہ ان کے علاوہ باقی سب لوگ جا سکتے ہیں۔ ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔ ‘‘

اس نے فہرست میرے ہاتھ سے لے لی اور باہر چلا گیا۔ پھر میں نے اس کی آواز سنی وہ زور زور سے امید واروں کے نام پڑھ رہا تھا۔ فہرست ختم کر کے اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔

’’ ان کو چھوڑ کر باقی سب بابا لوگ جا سکتا ہے۔۔ صاحب کا حوکم ہے!‘‘

ایک ساتھ کئی آوازیں بلند ہوئیں

’’ ہمارا نام تو اس میں نہیں ہے۔ ‘‘

’’ میں بی۔ ایس۔ سی ہوں ۔۔ ‘‘

’’ ہونہہ! میں نے بھی ایم۔ ایس۔ سی کیا ہے۔ فرسٹ ڈیویژن !‘‘

’’میں ایل۔ ایل۔ بی ہوں جناب! ود ڈسٹنکشن (With Distinction) ‘‘

اور پھر بی۔ اے اور ایم۔ اے کی آوازوں کا ایک تانتا بندھ گیا۔ چپراسی اس بپھرے ہوئے مجمع کو خاموش کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ کلرک اپنی اپنی میزیں چھوڑ کر اس ہنگامے سے لطف اندوز ہونے کے لیے کھڑکیوں اور دروازوں پر آ کھڑے ہوئے تھے۔ شور بتدریج بڑھتا ہی جا رہا تھا۔

میں پیر پٹکتا ہوا اپنے آفس روم سے نکل کر برآمدے میں گیا۔ کلرک سہم سہم کر اپنی میزوں پر جا بیٹھے اور سر جھکا کر کام میں مشغول نظر آنے لگے۔ مجمع مجھے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ میں نے چشمہ اتار کر ہاتھ میں لے لیا۔ گھور کر مجمع کی طرف دیکھا اور پھر زور سے پیر پٹک کر چیخا۔

’’ کیوں شور مچا رکھا ہے تم لوگوں نے۔۔ ؟‘‘

سب ایک دوسرے کے پیچھے دیکھنے لگے کسی میں جواب دینے کی ہمت پیدا نہ ہو سکی۔ میں نے ٹائی درست کرتے ہوئے پھر زور سے کہا۔

’’ جن کے نام اس فہرست میں نہیں ہیں وہ فوراً باہر چلے جائیں۔ ‘‘

تقریباً تین چوتھائی مجمع ایک بھنبھناہٹ کی آواز کے ساتھ پھاٹک کی طرف سرکا۔ ایک تیز و طرار نوجوان نے اپنا سر ٹیفکیٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔

آپ نے میری درخواست دیکھی تھی جناب؟ ‘‘ آخر مجھے کیوں واپس کیا جا رہا ہے؟‘‘

میں نے سرٹیفکیٹ اس کے ہاتھ سے لے کر دیکھا۔ عبد القیوم ایم اے فرسٹ ڈویژن۔

’’تم نے ہمارا اشتہار غور سے پڑھا تھا؟‘‘میں نے سوال کیا۔

’’ جی ہاں۔ کم از کم بیس بار۔ ‘‘

’’ تم جھوٹ بکتے ہو۔ ‘‘ میں گرجا۔ کچھ باہر جانے والے جو قیوم اور میری گفتگو سننے کے لیے ٹھہر گئے تھے، مڑ مڑ کر دیکھنے لگے میں نے اپنا چشمہ ناک پر جماتے ہوئے لہجے کو با رعب بنا کر کہا۔ ’’ بر خور دار تم نے اشتہار کو غور سے ایک بار بھی نہیں پڑھا۔ ہم نے امیدوار کے لیے بی۔ کام ہونے کی قید لگا رکھی ہے اور تم ایم۔ اے ہو۔ ہمیں کامرس میں گریجویٹ درکار ہیں سمجھے؟ اب جاؤ۔ میرا وقت قیمتی ہے۔ ‘‘

میں تیزی سے چلتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہو گیا۔ کرسی سرکا کر بیٹھا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی گھنگھنا اٹھی۔ رسیور اٹھا کر کانوں سے لگایا تو سیٹھ صاحب کی کان چھیل دینے والی مخصوص آواز سنائی دی۔

’’ ہلو! کون ہے۔ !‘‘

’ ہلو سیٹھ صاحب! جی میں منیجر بول رہا ہوں۔ ‘‘

’’ کہیے؟ ہیڈکیشیر سلکٹ کر لیا آپ نے؟‘‘

’’ جی ابھی تک تو نہیں ۔۔ اسی کام میں مشغول ہوں۔ ‘‘

’’ خوب! ‘‘ سیٹھ صاحب دوسرے سرے سے بولے ’’ رام کمار! دیکھیے۔ آپ تو گھر کے آدمی ہیں آپ سے کیا پردہ!‘‘

وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر خاموش ہو گئے۔ میں نے کان کھڑے کر لیے، معاملہ اہم معلوم ہوتا تھا۔ کھنکار تے ہوئے میں نے کہا۔

’’ جی ہاں۔ جی ہاں۔ فرمائیے میں تو آپ کا ادنیٰ خادم ہوں۔ ‘‘

سیٹھ صاحب ایک چبھتی ہوئی ہنسی ہنسے۔ بولے۔

’’دیکھیے۔ میں ایک کارو باری آدمی ہوں۔ شادی بیاہ کے معاملات سے قطعاً ناواقف، بیگم کا خیال ہے بیٹی عقیلہ کے لیے کوئی تعلیم یافتہ لیکن غریب لڑکا تلاش کر کے شادی کر دی جائے۔ ‘‘

وہ پھر کھانسنے لگے۔ میں حیران و ششدر کھڑا تھا کہ ہیڈ کیشیر کے انتخاب کا تعلق سیٹھ صاحب کی اکلوتی لڑکی عقیلہ کے شوہر کے انتخاب سے کیسے ہو سکتا ہے۔ لیکن مجھے خاموش پا کر سیٹھ صاحب نے یہ مشکل خود ہی آسان کر دی۔ کہنے لگے۔

’’ ہیلو منیجر صاحب! سن رہے ہیں آپ؟ دیکھیے امیدواروں میں سے کسی ایسے نوجوان کو منتخب کیجیے جو حسن اخلاق میں بے مثل ہو۔ حسن ظاہری میں بھی اگر یوسفِ ثانی نہیں تو کم از کم وجیہ ضرور ہو۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس کے والدین یا رشتہ دار نہ ہوں۔ میں اسے اپنے گھر میں ہی رکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

میرے شانے اس عظیم ذمہ داری کے بار کا احساس کر کے ابھی سے لرزنے لگے۔ میں نے جلدی سے کہا۔۔ ’’ سیٹھ صاحب! یہ آپ کیا فرما رہے ہیں ؟ عقیلہ بیگم کے لیے کوئی رئیس شوہر تلاش کیجیے۔ ایسے کنگال شخص کو جو ہیڈ کیشیر کے امید وار کی حیثیت سے سامنے آئے عقیلہ کا شوہر بنا دینا میری ناقص رائے میں جچتا نہیں۔ ‘‘

’’ تمھاری رائے واقعی ناقص ہے!۔۔ اور۔۔ ‘‘

’’ صاحب ذرا جلدی کیجیے۔ ‘‘ آپریٹر گرل نے دبی زبان سے ایکسچینج سے کہا۔

سیٹھا صاحب بپھر گئے۔ میں نے ان کی آواز سنی۔

’’ مس! شاید تم نئی آئی ہو۔ دخل انداز ہونے سے قبل اتنا معلوم کر لیا کرو کہ تم کس سے مخاطب ہو۔ میں سیٹھ رشید احمد چوڑی والا بول رہا ہوں۔ ‘‘

’’ ایم ساری سر۔۔ ویری ساری۔ ‘‘ بیکس لڑکی نے رندھی ہوئی آواز میں معذرت پیش کی۔ سیٹھ صاحب پھر مجھ سے مخاطب ہو گئے۔

’’ ہاں تو منیجر صاحب! میں نے اس بارے میں آپ کی صلاح نہیں دریافت کی۔ آپ حکم کی تعمیل کیجیے۔ ‘‘ پھراپنے لہجے میں کچھ ملائمت لاتے ہوئے انھوں نے کہا۔۔ ’’ بات یہ ہے منیجر صاحب کہ میں ایک دفعہ اسی طرح کے ایک معاملے میں ٹھوکر کھا چکا ہوں۔ رجینا کو شاید تم نہیں جانتے۔ وہ میری پہلی لڑکی تھی۔ میری ضد کی وجہ سے اس کی شادی شہر کے مشہور رئیس عبدالماجد سے ہوئی تھی۔ پھر ان کی بد سلوکی سے کڑھ کڑھ کر رجینا ٹی۔ بی کا شکار ہو گئی۔ ‘‘ مجھے فون پر سیٹھ صاحب کی سسکی سنائی دی۔ کچھ توقف کے بعد و ہ پھر بولے۔۔ ’’ اس معاملے کو لے کر بیگم آج تک مجھ پر طعن و تشنیع کیا کرتی ہیں اب میں اس قسم کی ایک اور ذمہ داری اپنے سر نہیں لینا چاہتا۔ تم سوچ سمجھ کر کوئی اچھا لڑکا منتخب کر لو عقیلہ اب میری اکلوتی بچی ہے۔ آگے چل کر اس کی زندگی نہ تلخ ہو جائے۔ !‘‘

انھوں نے کنکشن کٹ کر دیا۔

میں نے میز پر پڑی ہوئی باقی ماندہ درخواستوں کو نئے سرے سے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اٹھارہ درخواستیں سرسری انٹرویو لے کر ٹال دینے کی غرض سے الگ رکھیں اور تین درخواستیں دوسری طرف۔ انھیں آخری تین میں سے بظاہر فیکٹری کے ہیڈ کیشیر اور در اصل عقیلہ کے شوہر کو منتخب کرنے کا فیصلہ میں نے دل میں کر لیا تھا۔

گھنٹی کا بٹن دبا کر میں نے چپراسی کو بلایا اور جسونت سنگھ کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ پھر صغیر احمد کا نمبر آیا، پھر معین الدین کا، پھر ایس کے جوزف کا۔ اور جلد ہی الٹے سیدھے دو دو چار سوالات کر کے میں نے ان اٹھارہ نوجوانوں کو رخصت کر دیا گو کہ ان میں سے ہر ایک سے مجھے یہ وعدہ کرنا پڑا کہ جب کبھی ہماری فرم میں کوئی ایسی جگہ ہو گی جس کا وہ واقعی اہل ہے تو میں اُسے ضرور مطلع کروں گا۔

اور پھر اُن تین آخری امید واروں کا نمبر آیا جن کے انتخاب پر عقیلہ کی ساری زندگی کی خوشی اور مسرت کا انحصار تھا۔

اُن میں سے پہلا امیدوار ایک سانولے رنگ، منحنی قد اور گھنگھریالے بالوں والا نوجوان تھا جس کی آنکھیں عجیب سی کشش رکھتی تھیں۔

’’ تم فروغ بنی عباسی ہو۔ ؟‘‘

’’ جی ہاں، فروغ بنی عباسی! ایم۔ کام۔ سیکنڈ ڈیویژن۔ ‘‘

’’ تمھارے والد کا نام۔ ؟‘‘

’’ منیر حسن عباسی!‘‘

’’ کیا کرتے تھے۔ ؟‘‘

اس نے قہر آلود نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔

’’ خدا کے فضل و کرم سے بقید حیات ہیں اور انسپکٹر آف اسکولس ہیں۔ ‘‘

جی میں آیا اُسے کان پکڑ کر ابھی کمرے سے باہر نکال دوں کہ جا کمبخت کہیں سیدھے سیدھے ماسٹری کر، عقیلہ جیسی دولتمند لڑکی کا شوہر ہونا تیری قسمت میں نہیں، لیکن ایک بہانہ تراشنا پڑا۔

’’ تم نے معاشیات میں بہت کم نمبر حاصل کیے۔ مجھے افسوس ہے تم نہیں لیے جا سکتے۔ ‘‘

’’ لیکن جناب میں تو۔۔ ‘‘

اس کا چہرہ سُت گیا۔ نہ جانے کیا کہنا چاہتا تھا۔

’’ چپراسی! ‘‘ میں نے گھنٹی بجائی۔ ’’ انھیں باہر لے جاؤ‘‘

’’ وہ مایوس و دل گرفتہ باہر چلا گیا۔

دوسرا نمبر منظور الٰہی کا تھا۔ سرخ و سپید، تندرست و توانا، وجیہ و شکیل اور سریلی آواز والا ایک جی لگتا نوجوان تھا وہ۔

’’ تم نے کس ڈویژن سے پاس کیا ہے بی۔ کام؟‘‘

’’ فرسٹ ڈویژن۔ یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن اکاؤنٹینسی اور معاشیات میں اعزاز کے ساتھ!‘‘

’’ بہت اچھے۔ کیا نام ہے تمھارے والد کا۔ ؟‘‘

اس بار فعل استعمال کرنے میں میں نے خاص احتیاط برتی اور اس کے جواب کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ عقیلہ کا خوبصورت معصوم چہرہ ملتجیانہ انداز میں میری نگاہوں کے سامنے ناچ رہا تھا۔ اس نے پہلے تو بُرا سا منہ بنایا پھر تھوک نگلتے ہوئے بولا۔

’’ جی میرے والد صاحب کا نام اسلم علی ہے!‘‘ بے اختیار خواہش ہوئی کہ منحوس لڑکے کے منہ پر زور کا ایک گھونسہ لگاؤں لیکن وہ اپنی رو میں کہتا رہا۔

’’ وہ موٹروں کے ایک بہت بڑے گیراج کے مالک ہیں لیکن میرا اب ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ‘‘ میں نے اطمینان کی ایک لمبی سانس لی اور پوچھا۔

’’ کیوں ۔۔ ؟

’’ جی مجھے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا ارمان تھا اور وہ چاہتے تھے کہ میں ان کی کمائی ہوئی دولت کے سہارے عیش کروں۔ بس میں شہر چھوڑ کر چل دیا۔ ‘‘

’’ یہ تم نے بُرا کیا بیٹے! چھوٹوں کا فرض ہے کہ بڑوں کے کہنے پر عمل کریں ۔۔ ‘‘ میں نے کچھ بولنا ضروری جان کر کہا ورنہ باپ سے اس کی نافرمانی پر مجھے بے حد خوشی ہوئی تھی۔ میں نے اس سے کہا۔

’’ خیر تم باہر جا کر انتظار کرو۔ میں تمھارے بارے میں سوچوں گا۔ ‘‘

انتخاب کا مرحلہ تو تکمیل کو پہنچ ہی گیا تھا لیکن تیسرا امید وار ظفر احمد باقی تھا۔ اسے بھی کسی نہ کسی طرح ٹالنا ضروری تھا۔ ایک گھنٹہ متواتر بحث کرنے کے بعد جب میں اسے یہ نہ سمجھا سکا کہ ہم سکنڈ ڈویژن ایم۔ کام کی ڈگری رکھنے والے اس جیسے نا معقول نوجوان کو ہیڈ کیشیر جیسا ذمہ دارانہ عہدہ نہیں دے سکتے تو مجبوراً مجھے اپنے دیو ہیکل چپراسی کو حکم دینا پڑا کہ وہ دھکے مار کر اسے کارخانے کی حدود سے باہر کر دے۔

اس مرحلے سے فارغ ہو کر میں نے چپراسی کو دوبارہ حکم دیا کہ وہ منظور الٰہی کو کمرے میں حاضر کرے اور خود اسے تمام تفصیلات سے آگاہ کرنے کے لیے تیار ہو کر بیٹھ گیا۔ آخر وہ میرا ہونے ولا مالک تھا۔

اور تھوڑی دیر بعد کمرے میں ایک نوجوان داخل ہوا۔ لیکن وہ منظور الٰہی نہیں تھا، وہ ظفر احمد بھی نہیں تھا بلکہ ویٹنگ روم میں مجھ سے بحث کرنے والا تیز طرار نوجوان عبدالقیوم تھا۔ مجھے بھونچکا دیکھ کر وہ مسکرایا اور بے تکلفی سے کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھتے ہوئے بولا۔

آپ نے میری پوری بات تو سنی ہی نہ تھی اس وقت۔۔ میں نے ڈبل ایم۔ اے کیا ہے لٹریچر میں بھی اور کامرس میں بھی۔ اور دونوں میں فرسٹ ڈویژن ہوں۔ ‘‘

میں نے چپراسی سے جھنجھلا کر کہا۔

’’ تمھیں منظور الٰہی کو بلانے کے لیے کہا گیا تھا؟‘‘

’’ وہ بابو تو آپ کے پاس سے نکل کر سیدھا چلا گیا تھا۔ جاتے ہوئے یہ پرچہ لکھ کر دے گیا ہے اور ویٹنگ روم میں صرف یہی ایک بابو تھا۔ زبردستی چلا آیا۔

وہ آستین چڑھا تا ہوا عبد القیوم کی طرف بڑھا جیسے اٹھا کر اسے کھڑکی کے باہر ہی تو پھینک دے گا لیکن میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا اور پرچہ پڑھنے لگا۔

’’ منیجر صاحب!

آپ نے واقعی سچ کہا۔ میں نے والد صاحب کی حکم عدولی کر کے واقعی بُرا کیا اور اس کا خمیازہ بھی بھگت رہا ہوں۔ چھ ماہ سے ادھر اُدھر بھٹک کر نوکری تلاش کر رہا ہوں بد قسمتی ساتھ ہے کہیں ٹھکانہ نہیں لگا۔ آپ کے یہاں بھی کوئی اُمید نہیں۔ اب میں والد صاحب کے پاس جا رہا ہوں۔ معافی مانگنے کے لیے۔

آپ کا مخلص

منظور الٰہی‘‘

اے نوجوان ! تیری بد نصیبی میں کسے کلام ہو سکتا ہے؟‘‘ سیٹھ رشید احمد چوڑی والا کی جائداد کا مالک اور عقیلہ جیسی خوبرو نیک سیرت دوشیزہ کا شوہر بننا تیری قسمت میں نہ تھا۔ میں نے منتخب امید وار کے خانے سے منظور الٰہی کا نام کاٹ دیا اور پھر یونہی ٹالنے کے لیے عبد القیوم سے پوچھا۔

’’ تمھارے والد کا کیا نام ہے؟‘‘

اچانک اس کے چہرے پر شوخی کی جگہ اداسی نے لے لی۔

’’ عبد الشکور انصاری ان کا نام تھا۔ افسوس مجھے تین سال ہی کا چھوڑ کر ملکِ عدم کو سدھار گئے۔ ماں گزشتہ سال ختم ہو گئی۔ دنیامیں اب میرا کوئی اپنا نہیں۔ کوئی بھی تو نہیں۔ ‘‘

اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں اپنی ہنسی پر قابو نہ پا سکا۔ جلدی جلدی اسے حالات سے آگاہ کرنے کے بعد میں نے فون اٹھا لیا۔

ہیلو سیٹھ جی! جی میں منیجر بول رہا ہوں۔ جی ہاں میں نے اسے منتخب کر لیا ہے وہ آج کا خوش قسمت ترین نوجوان ہے، دنیا میں اس کا کوئی بھی نہیں۔ جی ہاں نہ باپ زندہ ہے نہ ماں۔ مبارک ہو۔۔ !‘‘

(۱۹۵۶ء)

٭٭٭

 

 

 

الماس کا محبوب

 

اتنے دن انتظار کرنے کے بعد مجھے محبوب کا خط ملا لیکن بجائے شادی کی دعوت کے اس نے کچھ اور ہی لکھا تھا۔

لیکن نہیں، میرا خیال ہے یہ داستان میں نے غلط طور پر شروع کر دی ہے پہلے مجھے آپ کو محبوب سے متعارف کرانا چاہیے۔

ان غدّار شہروں سے دور، گنگا کی شاداب وادی کے دامن میں ایک بہت چھوٹا سا موضع ہے جس کا نام ہے الماس۔ پورا نام پورۂ الماس تھا جسے ایک زمیندار نے اپنی اکلوتی بیٹی الماس کے نام پر آباد کیا تھا لیکن آج کل وہ صرف الماس ہی کہلاتا ہے۔ یہ در حقیقت ایک ایسا رومان پرور مقام ہے کہ شہر کے ہیجان آفریں ماحول سے گھبرائی ہوئی مضطرب روحیں اگر وہاں پہنچ جائیں تو انھیں وہ شے، سکونِ دل جس کا نام ہے اور جو ان شہروں میں عنقا ہے، بہ افراط دستیاب ہو گی۔ اپنے ذہن میں ایک ایسے مقام کا تصوًر کیجیے جو چاروں طرف سے نیلے نیلے سبز پوش ٹیلوں سے گھرا ہوا ہو، چمکیلے آبشار جن کی بلندیوں سے کود کر زمین کو چومتے ہوں، خوشبودار خود رو پھولوں کے تختے جن کی فضا کو رنگین و معطر رکھتے ہوں۔ شفاف میٹھے پانی کی جھیلیں جس کے سینے پر نگینوں کی طرح جڑی ہوں، خوش رنگ، خوش گلو، شوخ پرندے جہاں چہچہاتے پھرتے ہوں، ندی کے حسین کنارے پر جہاں خوبصورت پودے حسین دو شیزاؤں کی طرح پانی میں جھک جھک کر اپنا عکس دیکھنے کی کوشش کرتے معلوم ہوتے ہوں۔ جہاں قوس قزح اپنے تمام رنگ فراخ دل سے بکھیر دیا کرتی ہو اور گلابی شفق اپنے سہاگی رنگ میں رنگ کر فضا کو ایک نئی نویلی شرمیلی دلہن بنایا کرتی ہو، جہاں شب کو تارے اپنی پوری تابانی سے جگمگا کر لوگوں کے دلوں میں سنہرے سپنوں کی جوتیں جگاتے ہوں اور مہتاب اپنی چمکیلی نرم کرنوں سے وادی کو نور میں نہلائے رکھتا ہو اور جہاں سورج چمک چمک کر جھرنوں کے روپہلے پانی میں اپنی مہربان سنہری کرنوں سے چاندی گھولا کرتا ہو، لطیف عطر بیز ہوائیں جہاں دلوں کو تازگی اور طراوت بخشتی ہوں، مزیدار لطیف اور رسیلے پھولوں کی بو سے آسودگی حاصل ہوتی ہو اور حدِّ نگاہ تک ہری بھری لہلہاتی ہوئی کھیتیاں اور پکے ہوئے اناج کی سنہری بالیاں بھولے بھالے کسانوں کے دلوں کو پھول کی طرح کھلائے رکھتی ہوں۔ سنہری جلد والے شوخ ہرنوں کی ڈاریں کلیلیں کرتی پھرتی ہوں۔ جہاں کے باشندے مَکر و ریا کے نام سے بھی نا آشنا ہوں، محبت جن کی زندگی ہو، جن کے دل خلوص سے معمور ہوں، جہاں ہندو مسلمان نہیں صرف انسان بستے ہوں، جہاں کی بھولی بھالی سلونی لجیلی دوشیزائیں محبت، عفت اور پاکیزگی کے زندہ مجسمے ہوں، جہاں ہر چہار طرف خوشی ہو، محبت، سکون، حرارت اور زندگی ہو اور امن ہو۔

اگر آپ کے تخیل میں ایسا کوئی گوشہ ابھر سکے تو وہ الماس کا ایک دھندلا سا عکس ہو گا اور محبوب اسی موضع کا ایک بھولا بھالا نوجوان ہے!

گزشتہ سال مجھے بھی شکار کا خبط سوار ہوا تھا اور میں اپنی بندوق لے کر انجانی منزلوں کی طرف چل پڑا تھا اور پھر بھٹکتے بھٹکتے اس فردوسی مقام پر جا نکلا تھا۔

وہ ایک بڑا ہی حسین دن تھا۔ ڈاک بنگلے سے نکل کر اپنی بندوق لیے ہوئے میں ان نیلی پہاڑیوں میں سے ایک کی چوٹی پر کھڑا ہوا میٹھے پانی کے حسین آبشاروں کی روانی سے آنکھیں سیراب کر رہا تھا۔ نہ جانے اس بہ ظاہر لا پرواہ چشمے کو کس شے کی جستجو ہے کہ جس کے لیے یہ پہاڑیوں کو کاٹتا، چٹانوں پر سر پٹکتا، گہرائیوں میں کودتا، لپکتا، پیچ و تاب کھاتا ہوا، پھر کہیں گنگناتا، اٹھکھیلیاں کرتا، خود رو حسین پودوں کو چھیڑتا ہوا ایک نامعلوم منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ میری یہ محویت اس وقت ٹوٹی جب سامنے والی گہری چمکیلی نیلی جھیل میں سفید چمکدار پروں اور گلابی پیرو ں والے نازک نازک چہوں کا ایک جھرمٹ نظر آیا۔ اور میں اپنی بندوق سنبھالے لمبے لمبے ڈگ بھرتا جھاڑیوں سے الجھتا، چھوٹے چھوٹے چشموں کو پھلانگتا اس جھیل کے قریب پہنچ گیا۔ چہے کچھ چوکنّے سے ہو گئے تھے مجھے ڈر تھا کہیں اڑ نہ جائیں۔ جھیل کے آس پاس کوئی مینڈ بھی نہ تھی جس کی آڑ لے کر میں ان کی نظروں سے پوشیدہ رہتا۔ پاس ہی دو کانٹے دار ہری جھاڑیوں کے بیچ کچھ خالی جگہ نظر آئی اور دوسرے لمحے میں ان کے درمیان تھا۔ میری قیمتی برجس جگہ جگہ سے پھٹ رہی تھی جلد پر بھی کہیں کہیں خراشیں آئی تھیں لیکن مجھے اس کی چنداں پرواہ نہ تھی۔ سوچتا تھا اس شاندار غول کے سات آٹھ چہے بھی اگر ہاتھ لگ گئے تو ساری محنت وصول سمجھوں گا۔ جلدی سے بندوق لوڈ کی، شست لی اور دھائیں !

بندوق کی آواز سے آس پاس کی ساری پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ جھیل کے کنارے کھڑے ہوئے تناور درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے سہمی ہوئی آواز یں پیدا کر کے فضا میں منڈلانے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا اس پگھلے ہوئے سونے کی جھیل کے کنارے کھڑے ہوئے یہ پہرے دار درخت ایک اجنبی شکاری کی گستاخی پر آپس میں سرگوشیاں کر رہے ہوں کہ اس کی کیا سزا ہو سکتی ہے۔ آسمان پر شفق پھولی ہوئی تھی۔

جھیل میں سات آٹھ زخمی چہے پھڑپھڑا رہے ہیں ان کے باقی ماندہ ساتھی فضا میں اِدھر اُدھر پرواز کرتے ہوئے جھیل کے گرد چکر کاٹ رہے تھے۔ بندوق وہیں کنارے چھوڑ کر میں نے جھیل میں چھلانگ لگ دی اور تیرتا ہوا اس خشک مقام پر پہنچا جو جھیل کے عین وسط میں تھا۔ چہوں کو اِدھر اُدھر سے نکال کر ذبح کیا اور بیگ میں رکھ لیا اور پھر دوبارہ کنارے پر پہنچنے کے لیے پانی میں اترا۔ دو ہی چار قدم چلا تھا کہ کوئی چیز ٹانگوں سے لپٹ گئی غوطہ لگا کر چھڑانے کی کوشش کی تو ہاتھ بھی پھنس گئے۔ پھر میں نے جتنے زیادہ ہاتھ پیر پھینکے پانی کی اس بیل میں اتنا ہی الجھتا چلا گیا۔ جلد ہی ڈبکیاں لگانے اور پانی پینے لگا۔ بمشکل تمام سر پانی سے نکال کر ابھرنے کی کوشش کی لیکن پیٹھ پر لدے ہوئے وزنی جھولے، برجس اور لپٹی ہوئی بیل نے اجازت نہ دی۔ ڈوبتے ہوئے، آسمان پر نظر پڑی تو پھولی ہوئی شفق خون برساتی ہوئی محسوس ہوئی۔ پھر میری آنکھوں کے آگے گیلا گیلا اندھیرا چھاتا گیا۔ !

پیٹھ میں سوئیاں سی چبھ رہی تھیں اور سینے پر بوجھ محسوس ہوتا تھا۔ بمشکل تمام آنکھیں کھولیں، کوئی دھندلی سی شکل میرے سینے پر چڑھی بیٹھی تھی۔ پہلا خیال جو اس وقت میرے ذہن میں آیا، یہ تھا کہ میں مر چکا ہوں اور یہ وہی مشہور داروغہ لوگ منکر اور نکیر ہیں جو مرنے کے بعد براہِ راست مردے سے تفتیش شروع کرتے ہیں۔ آنکھیں جھپکاتے ہوئے میں نے ذہن پر زور ڈالا اور کلمہ پڑھنے لگا۔

’’ شکر ہے تمھیں ہوش آ گیا۔ مجھے متواتر ایک گھنٹے تک تمھارے پیٹ سے پانی نکالنے کی کوشش کرنی پڑی ہے۔ ‘‘ میرے کانوں میں آواز آئی اور بوجھ میرے سینے پر سے ہٹ گیا اس بار میں نے اچھی طرح آنکھیں کھول کر دیکھا۔ اور میرا دل احساس مسرت سے لبریز ہو گیا۔ آہ میرے خدا! میں تو اپنی اسی جیتی جاگتی رنگین اور حسین دنیا میں ہوں۔ شاید مجھے ڈوبنے سے بچا لیا گیا تھا۔ !

چاند نکل آیا تھا اور پوری رعنائیوں کے ساتھ آسمان پر چمک رہا تھا۔ اس کی نورانی شعاعوں کے درمیان میں نے اپنے اوپر جھکے ہوئے اس سڈول بدن والے شکیل نوجوان کو دیکھ لیا جو سفید چاندنی میں نہایا ہوا کسی دوسری ہی دنیا کی مخلوق معلوم ہوتا تھا۔ میں نے اس کا مضبوط گرم ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر دبایا۔

’’ تم نے مجھے ڈوبنے سے بچا لیا ہے دوست! میں کس طرح تمھارا شکریہ۔۔ ‘‘ اس نے بیچ ہی میں میری بات کاٹ دی۔

’’ تم شہریوں میں بدلہ چکانے والی یہی عادتیں تو خراب ہوتی ہیں۔ اگر میں تمھاری جگہ ہوتا تو کیا تم مجھے ڈوب جانے دیتے؟ اس میں شکریے کی کیا بات ہے؟‘‘

میں اس کی سادہ لوحی پر مسکرایا۔ قدرے توقف کے بعد وہ پھر بولا۔

’’ بہت دنوں کے بعد یہاں بندوق کی آواز سنائی دی۔ میں اس وقت اپنے کھیتوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ دیکھنے کے لیے بھاگا کہ کس بیچارے جانور کا خون ہوا اور یہاں آ کر دیکھا تو جناب ڈبکیاں لگا رہے تھے۔ خیر تمھیں تو نکال لایا لیکن افسوس تمہارا جھولا بہت بھاری تھا اسے وہیں پھینکنا پڑا۔ اچھا تم یہ تو بتاؤ میری پیٹھ پر لد کر گاؤں چل سکتے ہو؟ یا ڈولی لینے گاؤں جاؤں ؟ گاڑی تو اس علاقے میں نہیں آسکے گی۔ ‘‘

’’ دلہن کی طرح ڈولی میں بیٹھ کر یا بچے کی طرح پیٹھ پر لد کر تو میں جا نہیں سکتا۔ ‘‘میں نے اسی کے بے تکلف لہجے کی نقل کی۔

’’ تو پھر کیا چارپائی پر لیٹ کر چلنے کا ارادہ ہے؟‘‘

’’ بڑے بے تکلف ہو دوست!‘‘ میں نے کہا۔ اس کے چہرے پر ندامت کے آثار جھلکنے لگے تو مجھے پھر کہنا پڑا۔ ’’ کسی ایسے ہی مخلص دوست کی مجھے عرصے سے تلاش تھی۔ ‘‘

اس کے لبوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ میں نے اسے جھاڑیوں سے بندوق اٹھا لانے کو کہا اور پھر اس کا سہارا لے کر اٹھ کر کھڑا ہوا۔ بمشکل تمام گھسٹتے ہوئے ہم اس چھوٹے سے خوبصورت گاؤں میں پہنچے۔ دوسرے دن میں نے اپنا سامان جو کچھ ایسا زیادہ نہ تھا پرچہ لکھ کر ڈاک بنگلے سے منگوا لیا۔ وہاں پہنچ کر نقاہت اور زیادہ پانی پی جانے کی وجہ سے میری طبیعت خراب ہو گئی اور پانچ دن تک مسلسل بسترِ علالت پر پڑا رہا۔ اسی دوران میں اس نوجوان اور اس کے بوڑھے باپ نے جس تندہی سے میری تیمار داری کی اسے میں تمام عمر نہ بھلا سکوں گا۔ جب تک میری حالت سنبھلے، میں اس کا بیحد بے تکلف دوست ہو چکا تھا۔

وہی نوجوان الماس کا محبوب تھا۔

ہم دونوں تین چار دن تک ایک ساتھ خوب گھومے۔ کبھی اس کے حدِ نگاہ تک پھیلے ہوئے لہلہاتے کھیتوں مین سرسبز بیلوں سے ڈھکی ہوئی جھونپڑی میں بیٹھے غروب آفتاب کا سہانا منظر دیکھا کرتے اور پیلے پیلے پھولوں کے گچھے ہمارے اوپر برسا کرتے۔ کبھی گھنے درختوں کے سائے تلے بیٹھ کر لومڑیوں، خرگوشوں، ہرنوں اور پرندوں پر نشانہ بازی کرتے کبھی جھیل میں پیر لٹکا کر چپ چاپ بیٹھ جاتے اور گھنٹوں نکلتے ہوئے چاند کا عکس دیکھا کرتے جو جھیل کی عمیق گہرائی سے ہماری طرف جھانک جھانک کر مسکرایا کرتا اور اگر ہم پانی کو ذرا سا ہلکورا دے دیتے تو اس طرح بل کھا کھا کر دوہرا ہو جاتاجیسے کسی نے چاند کو زور سے گدگدا دیا ہو اور اس کے ساتھ ہی کائنات پر پھیلی ہوئی چاندنی بھی مسکرایا کرتی۔

اور ایک ایسی ہی سرور انگیز خواب آلود رات میں محبوب نے مجھ سے اپنی محبوبہ کا ذکر کیا تھا۔ مجھے لڑکیوں کے ذکر میں دلچسپی نہیں اس لیے میں شاید صحیح طور پر بیان نہ کر سکوں گا کہ اس نے اپنی الھڑ محبوبہ کی کون کون سی خوبیاں میرے سامنے بیان کی تھیں۔

’’ اس کی رنگت میں شفق کی ہلکی سی سرخی اور چاندنی کی منور سپیدی کاحسین امتزاج ہے۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں جیسے کسی گہری نیلی جھیل میں کھلے ہوئے کنول ہوں، اس کی چال میں غزال رعنا کا سا الھڑ پن اور جسم مین چھوئی موئی کی سی نزاکت ہے، حوروں کی سی معصومیت اور پاکیزگی ہے اس میں۔ اس کی بانہوں میں روئی کے گالوں کا سا گداز ہے اور اس کی سیاہ زلفیں برسات کی گھنیری تاریک راتوں سے زیادہ سیاہ اور مخمور کن اور کسی کنواری ناگن کی طرح چمکیلی ہیں۔ وہ دنیا کی سب سے زیادہ حسین اور شرمیلی دوشیزہ ہے۔ ‘‘

کبھی وہ کہتا۔

’’ وہ اس حسین وادی کی معصوم شہزادی ہے۔ میری روح ہے وہ!‘‘

اور اسی طرح وہ نہ جانے کتنی دیر تک اس دوشیزہ کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملایا کرتا جو کسی قریبی گاؤں کے زمیندار کی اکلوتی لڑکی تھی جسے اس نے چھپ چھپ کر تو کئی بار اچھی طرح دیکھا تھا لیکن جس کے رو برو بات کرنے کی اس نے آج تک ایک بار بھی ہمت نہیں کی تھی کیونکہ یہ ان کے یہاں معیوب سمجھا جاتا تھا اور پھر وہ خود بھی بیحد شرمیلا تھا۔ اور پھر جب رحمان کا ذکر آتا تو وہ چاروں طرف دیکھ کر ہولے سے کہتا۔

’’ مجھے اس رحمان سے بہت ڈر لگتا ہے شکاری! وہ کہیں میری محبت کا گلا نہ گھونٹ دے۔ وہ میری روح کو مجھ سے چھین نہ لے کہیں ۔۔ !‘‘

رحمان اس کی محبوبہ ہی کے گاؤں کا ایک نوجوان تھا اور محبت کے میدان میں محبوب کا کامیاب رقیب تھا۔ یہ تمام باتیں مجھے محبوب ہی سے معلوم ہوئیں لیکن ایک عجیب بات یہ تھی کہ رحمان اس بات سے ناواقف تھا کہ محبوب بھی ریشماں کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہے اور یہ بات تھی بھی تقریباً نا ممکن سی۔ محبوب نے ہر ممکن احتیاط برتی تھی کہ ریشماں کے متعلق اس کے خیالات کا کسی کو علم نہ ہو۔ وہ صرف تصور ہی تصور میں پیکر جاناں سے اٹھکھیلیاں کر لینے پر قناعت کرتا تھا۔ اس سے آگے دست درازی کرنا اس کے تئیں معیوب بات تھی۔ برخلاف اس کے رحمان کئی بار ریشماں کے سامنے اظہارِ محبت کر چکا تھا گو کبھی ریشماں نے اپنی زبان سے اس کی ہمت افزائی نہیں کی تھی۔

محبوب کے لیے وہ لمحات انتہائی روح فرسا اور صبر آزما ہوتے تھے جب رحمان اپنے گاؤں سے چل کر اس کے پاس آتا اور ریشماں کے بارے میں اپنے خیالات اس کے سامنے پیش کرتا۔ مانی ہوئی بات ہے ایسا شخص جس سے ہمیں خفیہ عناد ہو ہمیں اپنا دوست جان کر اپنی مسرتوں اور عیش کی گھڑیوں کا ذکر ہمارے سامنے کرتا ہے اور ہمیں مجبوراًاس کی ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے تو دل ایک انجانی آگ میں سلگنے لگتا ہے۔ رحمان بہ ظاہر اپنے لنگوٹیے یار محبوب کے روبرو، جس کے ساتھ اس نے پرائمری اسکول کی چار جماعتوں میں پڑھا تھا، اپنی محبت کی داستانیں سنا کر دل کی بھڑاس نکالا کرتا تھا۔ اسے کیا خبر کہ اس کا معصوم دوست خود اسی آگ میں جل رہا ہے اور چپ چاپ سینے سے لگائے ہوئے رہتا ہے اور وہ آ کر اس کی سوزش میں کئی گنا اضافہ کر جاتا ہے۔ !

پھر ایک دن محبوب نے مجھے رحمان سے بھی ملا دیا، جو ایک معمولی خد و خال کا تندرست نوجوان تھا جسے محبوب جیسے خوبرو اور تنومند نوجوان کے مقابلے میں کسی دوشیزہ کے متعلقین عام حالت میں ہرگز پسند نہ کر سکتے تھے۔ اس دن تالاب کے کنارے خنک و شفاف نیلے پانی میں روپہلی مچھلیوں کا رقص دیکھتے ہوئے میں نے محبوب کو دلاسہ دیا۔

’’ نہ گھبراؤ دوست! وہ کوئی نادان باپ ہو گا جو اپنی لڑکی کے لیے تمہاری جگہ رحمان کو منتخب کرے گا!‘‘ اس نے میری طرف ایسی ممنون نگاہوں سے دیکھا جیسے میں نے اس پر کوئی بہت بڑا احسان کیا ہو۔

’’ تم ہمت کر کے ریشماں کے روبرو اپنی محبت کا اظہار کیوں نہیں کرتے؟‘‘ میں نے اس کی پیٹھ تھپکتے ہوئے پوچھا۔

’’ نہیں شکاری! شادی سے قبل یہ نہ ہو گا۔ ‘‘ اس نے آخری جواب دیا۔ ’’ یہ توسچی محبت کی توہین ہو گی!‘‘

میں خاموش ہو رہا۔

پھر کچھ دن بعد الماس سے واپس آتے ہوئے میں نے راستے میں محبوب کے باپ کو تاکید کی کہ وہ کسی دن ریشماں کے باپ سے جا کر ملے اور لڑکی لیے محبوب کا پیغام دے۔

’’ اور تم محبوب!‘‘ میں نے اپنا پتہ لکھوا کر اسے دیتے ہوئے کہا۔۔ ’’ اپنی شادی میں مجھے تو بلاؤ گے ہی!‘‘ اور اس نے کسی لڑکی طرح شرما کر اپنا سر جھکا لیا تھا۔

اور اب میرے سامنے اس کا خط پڑا ہوا ہے۔

لیکن یہ شادی کا دعوت نامہ نہیں ہے مجھے عرصہ سے اس کی شادی کے دعوت نامے کا انتظار ہے خیال تھا اس سلسلے میں ایک بار پھر اس حسین وادی کی سیر کا موقع ملے گا۔ لیکن محبوب نے لکھا ہے۔

’’ شکاری!

ابّا ریشماں کے باپ سے ملے تھے۔ وہ تو شادی کے بارے میں بڑے ہی اونچے خیالات رکھتا ہے اس نے ابّا سے کہا وہ اپنی بیٹی کی شادی کسی معمولی کسان سے نہ کرے گا۔ شہر کے بابو سے کرے گا جو سرکاری دفتر میں نوکر ہو۔ اس کی بیٹی کو عیش و ؤرام سے رکھ سکے۔ رحمان آج کل شہر گیا ہوا ہے اور سرکاری نوکری کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ میں نہ کہتا تھا شکاری! کہ رحمان میری روح کو مجھ سے چھین لے گا۔     محبوب‘‘

خط پڑھ کر مجھے کچھ خوشی ہی ہوئی۔ شاید اس لیے کہ اس طرح مجھے اس احسان سے سبکدوش ہونے کا موقع مل رہا تھا جو محبوب نے مجھے ڈوبنے سے بچا کر مجھ پرکیا تھا۔ ہم شہری لوگ اس انداز سے سوچنے پر مجبور بھی تو ہیں !

میرا کلاس فیلو قیوم محبوب کے ضلع میں ڈپٹی کمشنر تھا۔ میں نے اس کے نام ایک پر زور خط لکھا کہ وہ حاملِ رقعہ ہٰذا کو کسی سرکاری دفتر میں کوئی مستقل ملازمت دلوا دے۔ اور یہ رقعہ محبوب کو ایک خط کے ہمراہ بھیج دیا۔ اس خط میں میں نے محبوب کو لکھا تھا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں وہ میرا پرچہ لے کر اپنے ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے پاس چلا جائے اور ملازمت ملنے کے بعد دوبارہ پھر ریشماں کے لیے پیغام بھیجے۔

یہ خط محبوب کو بھیج کر میں ایک ماہ انتظار کرتا رہا لیکن اس کی طرف سے کوئی اطلاع مجھے نہیں موصول ہوئی دو تین خط بھی لکھے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ قیوم کو خط لکھ کر دریافت کیا تو اس نے لکھا کہ میری سفارش لے کر آنے والے نوجوان کو اس نے اپنے ہی دفتر میں جمعدار مقرر کر دیا ہے اور وہ آج کل رخصت لے کر اپنی شادی کرنے گیا ہے۔

میں حیران تھا۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ کیا محبوب مجھے مدعو کیے بغیر ہی شادی کر لے گا! آخر ایک دن میں الماس کے لیے روانہ ہو گیا۔ بس موضع سے دو میل جنگل کی پگڈنڈی پر مجھے اتار کر آگے چلی گئی اور میں تحائف و بندوق وغیرہ سے لدا پھندا اس پتلی سی پگڈنڈی پر ہو لیا جو اونچے نیچے ٹیلوں کے دامن سے لپٹی ہوئی الماس کی طرف جاتی تھی۔ دورِ مشرق میں ماہتاب ایک تناور درخت کے عقب سے طلوع ہوا۔ بتدریج اس کی تابانی بڑھتی گئی۔ چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں چاندنی کی روپہلی کرنیں چاندی کی مچھلیوں کی طرح اِدھر اُدھر جھلمل کرتی تیرتی پھرتی تھیں۔ اور پھر میرا دل خوشی سے لبریز ہو گیا۔ دور سے آتی ہوئی شہنائی کی آواز نے میرے دل کو گدگدایا تھا۔ میری کوششیں شاید بار آور ہوئی تھیں شاید محبوب کی شادی ہو رہی تھی۔

الماس بالکل قریب آ گیا تھا میں نے لمبے لمبے ڈگ بھرنے شروع کیے۔ ایک ٹیلے سے نیچے اترتے ہوئے املتاس کے درخت کے سائے تلے مجھے ایک سایہ نظر آیا، میں اس کے پاس جا پہنچا۔

’’ یا خدا! وہ تو محبوب تھا!

وہ یونہی کھڑا خلا میں جانے کیا دیکھ رہا تھا۔ دریافت کرنے پر اس نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے بتایا کہ اس نے اپنی جگہ پر رحمان کو نوکر کروا دیا تھا کیونکہ وہ واقعی ریشماں سے محبت کرتا تھا۔ سچی محبت اور اس نے اپنی پریشانیوں کا ذکر محبوب سے کیا تھا جسے وہ اپنا دوست اور سچا رفیق سمجھتا تھا۔

اور اب ریشماں اور رحمان کی شادی ہو رہی تھی۔ میں نے اس کے پر سکون چہرے پر نگاہ ڈالی۔ اس پر عجیب سی چمک تھی۔ نہ جانے اس ظاہری سکون کے پردے میں کتنے ارمان دم توڑ رہے تھے۔ کتنی آرزوئیں مچل رہی تھیں۔ میں نے سوچا کتنا بڑا دل ہے اس دیہاتی نوجوان کا۔ وہ بدستور خلا میں نظریں جمائے کھڑا رہا۔ ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ملی جلی شہنائی کی آواز اس طرح سنائی دے جاتی تھی جیسے کوئی زخمی روح کراہ رہی ہو۔ آس پاس کی چیزوں کو سپید چاندنی نے اس طرح آغوش میں لے رکھا تھا جیسے کسی نے انھیں سفید سفید کفن پہنا دیا ہو، آسمان سے زمین تک خلا میں درد ہی درد تھا۔ میں نے بے چین ہو کر کہا۔

’’ محبوب ! یہ تم نے کیا کر دیا بے وقوف آدمی۔۔ ‘‘

وہ مسکرایا۔ بہت پھیکی سی مسکراہٹ۔

’’مجھے یہی کرنا چاہیے تھا شکاری! میں ریشماں سے ملا تھا، وہ بھی رحمان سے محبت کرتی ہے!۔

(۱۹۵۴ء)

٭٭٭

 

 

 

 

دیوی کی قرقی

 

شیلا بہت پریشان تھی۔

اور معاملہ واقعی پریشان کن تھا۔ گھر کی حالت ویسے بھی نازک تھی۔ نہ معلوم کتنے مصائب کا سامنا کرتے ہوئے اپنے بیٹے رمیش کو بی۔ اے تک پڑھا کر اس نے اس لائق کیا تھا کہ وہ دو پیسے کمائے اور اس گھر میں اس لکشمی دیوی کو منا لائے جو پندرہ سال قبل اس کے پتا جی کے سورگ باش کے وقت روٹھ گئی تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ لکشمی دیوی بی۔ اے کی ڈگری سے بھی مطمئن نہ ہو سکیں اور رمیش ڈگری لے کر نگری نگری، دفتر دفتر بھٹک آیا۔ ملازمت نام کی چڑیا بازار میں عنقا ہو رہی تھی اگر کہیں کامیابی کی صورت نظر آتی تو اس کے ساتھ شرط یہ ہوتی کہ ڈگری بعد میں پہلے رشوت پیش کی جائے۔ ۔ شیلا نے رمیش کی فیس داخل کرنے اور تعلیم کے دوسرے اخراجات کے لیے تین سو روپے چند سال قبل مہاجن سے قرض لے رکھے تھے۔ شرط یہ تھی کہ رمیش کے بی۔ اے کر لینے پر چھ سات ماہ کے اندر اندر ہی روپے مع سود ادا کر دیے جائیں گے لیکن بجائے چھ مہینے کے نو مہینے گزر چکے تھے اور رمیش کو ابھی تک ملازمت نہیں ملی تھی۔ گھر میں کھانے کے لالے پڑے ہوئے تھے، قرض کہاں سے ادا ہوتا۔ ادھر مہاجن آنے والے حالات کی بو پاچکا تھا۔ پہلے اس نے شیلا کو ایک مہینے کے اندر اندر روپیہ ادا کرنے کا نوٹس دیا اور پھر عدم ادائیگی سے جھنجھلا کر مقدمہ دائر کر دیا۔ لکھا پڑھی پکّی تھی، فیصلہ شیلا کے خلاف سنایا گیا۔ اگر وہ متعینہ وقت تک قرض مع سود چکا نہیں دیتی تو اس کے گھر کا سامان قرق کر کے نیلام پر چڑھا دیا جائے گا۔ اس کی گریہ و زاری عدالت کو متاثر نہ کر سکی نہ ہی انگلش میں لکھی ہوئی رمیش کی رحم کی درخواست پرکوئی غور کیا گیا۔ اندھے انصاف نے دودھ اور پانی الگ الگ کر دیا۔

شیلا نے گھبراہٹ میں بہت سا پانی آنکھوں سے نکالا۔ رمیش نے اپنی کوشش تیز تر کر دی لیکن چھپن کروڑ کی چوتھائی نے شیلا کے مکان کی چھت پر ظلم ڈھانا قبول نہیں کیا۔ نہ کسی افسر نے رمیش کو ملازمت کی بندش میں جکڑنا پسند کیا۔ جب مقررہ تاریخ کو صرف تین دن رہ گئے تو شیلا نے رونا اور رمیش نے بھٹکنا ترک کر دیا۔ دونوں سر جوڑ کر گئی رات تک بیٹھے رہے اور آخر دونوں نے مل کر ایک آخری کوشش کر دیکھنے کی بات طے کی۔ شیلا کا ایک منہ بولا بھائی قریب کے گاؤں میں دوکان کرتا تھا اس نے راتوں رات رمیش کو اس کے پاس بھیجا کہ منت سماجت کر کے اس سے پانچ سو روپے لے آئے مزید احتیاط کے طور پر اس نے رمیش کو ہدایت کر دی کہ وہ اپنے ماما کو اطمینان دلا دے کہ روپیہ رمیش کی ملازمت لگتے ہی ورنہ پھر اسے جہیز میں ملنے والی رقم میں سے ضرور ادا کر دیا جائے گا۔

شیلا رمیش کو اپنے بھائی کے پاس بھیج کر مطمئن سی ہو گئی تھی لیکن آج اس کی پریشانی دوبالا ہو گئی۔ صبح ہی صبح مہاجن نے آ کر یاد دلایا کہ آج متعینہ تاریخ کا آخری دن ہے۔ اگر بارہ بجے تک روپیہ ادا نہ کر دیا گیا تو سارا سامان قرق کر لیا جائے گا۔ رمیش گیارہ بجے کی گاڑی سے آنے والا تھا۔

شیلا صبح ہی سے لکشمی دیوی کی مورتی کے سامنے بیٹھی پرارتھنا کر رہی تھی۔ وہ لکشمی دیوی کی پُرانی بھگت تھی۔ ان پر اس کا اٹل وشواش تھا۔ وہ من کی پوری لگن کے ساتھ ان کے چرنوں میں پڑی ہوئی دعائیں مانگ رہی تھی۔

’’ دیوی رمیش کو پانچ سو روپے دلوا کر جلدی بھیج دو۔ ‘‘

دور کہیں گھنٹہ گھر نے گیارہ بجائے۔ شیلا نے اپنے تمام خیالات مجمتمع کر کے مورتی کے قدموں میں ڈال دیے اور یکسوئی کے ساتھ دعائیں مانگنے لگی۔ ایک گھنٹہ اپنے ساٹھ پر پھڑپھڑا تا ہوا اڑ گیا اور ادھر ٹھیک بارہ بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ شیلا نے آنکھیں کھول کر دیوی کے چہرے پر نظر ڈالی، وہ مسکرا رہی تھیں۔ اسے پورا یقین ہو گیا کہ رمیش روپے لے کر آ گیا لیکن جب اس نے دروازہ کھولا تو مہاجن قرق امین اور کارندوں کو لیے دروازے پر کھڑا تھا۔ ایک لمحے کے لیے تو اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا لیکن جب اسے حالات کی سنجیدگی کا احساس ہوا تو وہ چیخ مار کر مورتی کی طرف بھاگی اور دیوی کے چرنوں میں گر کر بلکنے لگی۔

’’ ہائے دیوی! تم کتنی نِردئی ہو!‘‘

مہاجن قرق امین اور کارندوں کی امداد سے گھر کا تمام قابلِ فروخت سامان اکٹھا کر چکا تو اس کی نظر چینی کی اس چمکیلی مورتی پر پڑی جس کے سامنے شیلا اب تک سسک رہی تھی اس نے لپک کر مورتی کو آسن سے اٹھا لیا!

شیلا کے صبر کا پیمانہ اپنی ایشٹ دیوی کے اس طرح اپمان سے لبریز ہو گیا۔ اس نے بھوکی شیرنی کی طرح لپک کر مورتی مہاجن کے ہاتھوں سے چھین لی اور غرّا کر بولی۔

’’ پاپی تیری اتنی ہمت!‘‘

مہاجن نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

’’ تمھیں اتنی ہی عقیدت اس مورتی سے ہے تو رہنے دو لیکن اتنی شکتی مان ہوتی تو آج گھر کا سامان قرق نہ ہوتا!‘‘

جانے ان فقروں میں کون سا جادو بھرا تھا۔ شیلا کے ذہن میں بجلی سی لپک گئی۔ اس نے مورتی کو اٹھا کر ایک کونے میں پھینک دیا پھر وہ خود کو بھی نہ سنبھال سکی اور غش کھا کر گر پڑی۔

تھوڑی دیر بعد رمیش آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی ماں بے ہوش ہے۔ اس نے پانی کے چھینٹے دے کر ماں کی بے ہوشی دور کی اور بولا۔

’’ماں ! تم نے لکشمی دیوی کو ٹھکرا دیا لیکن وہ تمھیں نہیں ٹھکرا سکیں۔ یہ لو پانچ ہزار روپے! ماما جی نے اپنے سالے کی لڑکی لکشمی کے لیے مجھے پسند کر لیا ہے۔ !‘‘

(۱۹۵۷ء)

٭٭٭

 

 

 

 

مُلّا کی دوڑ

 

واقعی اس کا ہی دل گردہ تھا کہ ایسے روح فرسا سانحات سے گزرنے کے بعد بھی خدا کے وجود میں اس کا اعتقاد متزلزل نہ ہوا تھا۔

نماز کی ابتدا اس نے اس وقت کی تھی جب آٹھ سال کی عمر میں اس کے والد پر نمونیہ کا حملہ ہوا۔ اس کی والدہ ایک مثالی مسلم خاتون تھیں۔ جب وہ خاوند کی صحت یابی کے لیے دعا مانگنے کو مصلّٰی بچھا کر بیٹھتیں تو اسے بھی بلا لیتیں۔

’’ حمید بیٹے آؤ! کیا ابّو جان کی صحت یابی کے لیے اللہ میاں سے دعا نہیں مانگو گے۔ ؟‘‘

حمید جلدی جلدی پانی کے الٹے سیدھے چھینٹے منہ پر مار کر وضو کرتا اور اپنی ماں کے پلو میں بیٹھ کر ان کی حرکات و سکنات کی نقل کرتے ہوئے اس خدا کی درگاہ میں جس کے بارے میں اس کا نا پختہ ذہن ابھی تک کوئی تصور قائم نہ کر سکا تھا، سر بسجود ہو جاتا اور پھر اپنے ننھے ننھے ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتا۔

’’ اے اللہ میاں ! ہمارے ابو جان کو اچھا کر دونا! میرے پیارے اللہ میاں تو!‘‘

لیکن شاید پیارے اللہ میاں تک اس کی نحیف اور باریک آواز نہیں پہنچ سکی اور اس کے ابو جان کا مناسب علاج نہ ہو سکا اور نتیجے کے طور پر اسے چند دن بعد ایک جنازے کے پیچھے روتے ہوئے پہلی بار قبرستان تک جانا پڑا۔

پھر اسی دن رات کو سونے سے قبل جب اس نے ماں کے گلے میں ننھی ننھی بانہیں حمائل کرتے ہوئے کہا۔

’’ امی! یہ اللہ میاں بہت بُرا ہے!‘‘

تو اس کی امّی کے اندر سوئی ہوئی نیک اور مثالی نیک خاتون جاگ اٹھی۔

’’ ارے ارے! یہ کیا بکتے ہو حمید میاں ؟‘‘

’’کیوں پھر انھوں نے ہمارے ابو جان کو کیوں مار ڈالا؟‘‘

’’ نہیں بیٹے! کفر نہیں بکا کرتے۔ ‘‘ امی نے اسے سمجھایا۔ ’’ اللہ میاں بڑا کارساز ہے۔ اس کے کھیل نرالے ہیں !‘‘

لیکن یہ کھیل ہمیں اچھا نہیں لگا امی!‘‘ اس نے منہ بنا کر کہا۔

’’ ہمارے یا تمھارے اچھا نہ لگنے سے کیا ہوتا ہے؟ اس میں بھی اس کی کوئی مصلحت ہو گی۔ پھر اللہ کی مرضی میں کس کی چلتی ہے۔ ‘‘

اس وقت یہی سیدھی سی باتیں حمید کے ذہن کی پہنچ سے بہت بلند تھیں۔ تب تک اس کی سمجھ میں یہ نہیں آیا تھا کہ انسان اتنا مجبور ہے۔ پھر ابو جان کے انتقال کے بعد اس کی امی نے ہر طرف سے منہ موڑ کر مذہب کا سہارا لے لیا کیونکہ بعض اوقات دنیا میں زندہ رہنے کے لیے مذہب کا سہارا ہی واحد سہارا رہ جاتا ہے۔ ابو جان کی موت کے فوراً بعد انھیں ملنے والی پنشن بھی بند ہو گئی۔ حمید کا بڑا بھائی، جو کان پور کی کسی مل میں ملازم تھا، اتنی تنخواہ پاتا تھا کہ اپنے خرچ سے پس انداز کر کے بہت ہی معمولی سی رقم انھیں بھیج سکتا تھا۔ ایسے آڑے وقتوں میں مذہب ہی حمید کی امی کے کام آیا۔ انھوں نے محلے کے بچوں کو کلام مجید پڑھانے اور مذہبی تعلیم دینے کا کام شروع کر دیا۔ اس طرح پچیس تیس روپیہ ماہوار کی آمدنی ہو جاتی اور خدا کی عبادت کرتے ہوئے ان لوگوں کے دن کسی طرح بسر ہو جاتے۔

لازمی تھا کہ اس قسم کی فضا میں پروان چڑھتے ہوئے حمید کا ذہن بھی وہی اثر قبول کرتا۔ اس نے تین سال میں ہی قرآن شریف حفظ کر لیا اور پنج وقتہ نماز کا پابند ہو گیا۔ پھر خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ چودہ برس کی عمر کو پہنچ کروہ شفقتِ مادری سے بھی محروم ہو گیا لیکن تب تک وہ خدا کی ہستی سے اس حد تک مرعوب ہو چکا تھا کہ جی چاہنے پر بھی وہ خدا کی اس ناانصافی کا گلہ تک نہ کر سکا۔ جب بھی اس کا دل بُری طرح ڈوبنے لگتا اور جی چاہتا کہ خوب بلک بلک کر رویا جائے، حمید اپنی ماں کی پرانی شکستہ جا نماز بچھا کر خدا کی درگاہ میں جھک جاتا اور صدق دل سے دعا مانگتا۔

’’ اللہ میاں ! شکر ہے تمھارا۔ یا اللہ میری امی کو جنت کے سب سے اونچے محل میں بھیجنا!‘‘

نہیں معلوم اللہ میاں نے اس کی امی کو کتنے اونچے محل میں بھیجا لیکن اس کے لیے یہ دنیا دوزخ بن کر رہ گئی۔ محلے والے اس بات پر رضا مند نہ تھے کہ ان کے بچے اپنے ہی ہم عمر لڑکے سے تعلیم حاصل کریں۔ گھر کے ٹوٹے پھوٹے برتن اور بچا کھچا سامان بکتا رہا اور پھر ایک دن وہ بھی آیا جب حمید اپنے ٹوٹے ہوئے پلنگ پر بھوکا ہی سویا۔

دوسرے دن حمید کا اعتقاد خدا کی رحمت پر اور بھی پختہ ہو گیا کیونکہ اس کا بڑا بھائی اسے لینے کے لیے کانپور سے آ گیا تھا۔ دونوں بھائی ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے لیکن حمید کے بڑے بھائی نے محسوس کیا جیسے وہ اپنے چھوٹے بھائی سے بغل گیر نہیں ہے بلکہ کوئی بزرگ اسے اپنے سینے سے لگا کر تشفی دے رہا ہے۔

’’ ارے بھیا! تم روتے کیوں ہو؟ امی مر گئیں تو کیا ہوا ؟ اس میں بھی اللہ میاں کی کوئی مصلحت ہو گی!‘‘

بھیّا نے حمید کو اور زور سے چمٹا لیا۔

’’ ہاں حمید! میں تو پاگل ہوں۔ خدا کرے تمھارے حوصلے اسی طرح بلند رہیں۔ ‘‘

’’ مگر بھیّا ! اب ہم یہاں نہیں رہیں گے۔ ‘‘

’’ میں تم کو لینے ہی کے لیے آیا ہوں حمید!‘‘

اور یہ بات سن کر حمید نے فوراً مسجد جا کر چار رکعت نماز شکرانہ ادا کی۔

پھر دونوں بھائی کان پور چلے گئے۔ حمید کو کوشش کر کے پانچویں کلاس میں داخل کر دیا گیا۔ لڑکا ذہین اور حساس تھا چل نکلا۔ زمین اپنے محور پر گھومتی رہی، وقت گزرتا گیا۔ ہر سال کامیابی حاصل کرنے پر حمید کا زہد و تقویٰ بھی بڑھتا گیا اور جب اس نے اکیس سال کی عمر میں میٹرک پاس کیا تو اس کی ٹھوڑی پر ایک چگی داڑھی اور پیشانی پر ایک نشان سجدہ کا اضافہ ہو چکا تھا۔ اب اسے ملازمت کی فکر پیدا ہوئی۔ ایمپلائمنٹ ایکسچینج کی معرفت سرکاری دفاتر سے کئی بار اسے بلاوا بھی آیا لیکن ہر جگہ محض اس کی ظاہری وضع قطع دیکھ کر ہی افسروں نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے رد کر دیا۔ حمید ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتا رہا۔ لیکن دوسری طرف اس کے بھیا نے اپنی مل کے منیجر سے خوشامد شروع کر رکھی تھی۔ اب معلوم نہیں، یہ خدا کی رحمت حمید پر نازل ہوئی یا بھیا کی خوشامدوں نے آخرش منیجر کا دل پگھلا دیا۔ بہر حال ایک دن حمید اس مل کے دفتر میں فائلوں کے سامنے کرسی پر نظر آیا۔

اب اس نے ہر جمعرات کو روزہ رکھنا بھی شروع کر دیا۔

اسی دوران مل کے جاہل مزدوروں میں اپنی حق تلفی کا احساس پیدا ہوا۔ پہلے مالکان کی خدمت میں وفد بھیجے گئے۔ اس سے کام نہ چلا تو جلسے کیے گئے۔ جلوس نکلے اور جب یہ حربہ بھی کارگر نہ ہوا تو آخر کار ایک عام ہڑتال کا اعلان کر دیا گیا۔ دوسرے دن حمید اپنی سیاہ شیروانی زیب تن کیے، ترکی ٹوپی لگائے، ڈیوٹی پر جانے کے لیے مل کے دروازے پر پہنچا تو مزدوروں کے ایک بڑے ہجوم نے اسے گھیر لیا۔

’’ نہیں حمید صاحب! آپ کام پر نہیں جا سکتے۔ ‘‘ کئی آوازیں ایک ساتھ بلند ہوئیں۔

’’کیوں بھئی؟‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’ آخر بات کیا ہے؟‘‘

’’ مل والے ہمارے حقوق ادا نہیں کرتے۔ ‘‘

’’ آپ سب کی اجرت تو برابر ادا کی جاتی ہے۔ ‘‘

’’ لیکن ہمارا بونس روک لیا گیا ہے۔ ‘‘

’’ تو اس کے لیے منیجر سے کہیے۔ ‘‘

’’ وہ کوئی بات سننے کے لیے رضا مند نہیں۔ ‘‘ آوازیں آئیں۔ ’’وہ ہماری ایک بھی نہیں سنتا۔ ‘‘

’’ آپ مالکوں سے ملے؟‘‘

’’ وہ ملنے کے لیے رضا مند نہیں ہوتے۔ ‘‘

’’ تو پھر صبر کیجیے۔ ان اللہ مع الصابرین!‘‘ حمید نے سمجھایا۔

’’ کیوں صبر کریں ؟‘‘ ایک شکستہ حال بوڑھے مزدور نے غرّا کر پوچھا۔ ’’ ہم جان توڑ کر محنت کرتے ہیں ہمیں اس کا معاوضہ ملنا چاہیے۔ ‘‘

’’ جہاں آپ کی محنت کا معقول معاوضہ نہیں ملتا، وہاں کی ملازمت ہی چھوڑ دیجیے۔ ‘‘

’’ ملازمت نہ کریں تو کھائیں گے کیا۔ ہڑتال کی کامیابی ہی ہماری کامیابی ہے۔ ‘‘

’’ آپ ہڑتال کیجیے میں آپ کو نہیں روکتا۔ میں کام پر جاتا ہوں آپ مجھے مت روکیے۔ ‘‘

’’ تم کو بھی کم تنخواہ ملتی ہے۔ تم بھی ہمارا ساتھ دو۔ ‘‘

’’ نہیں !‘‘ حمید بولا۔ ’’ مجھ سے نمک حرامی نہیں ہو گی۔ میں اپنی موجودہ تنخواہ پر ہی قانع ہوں۔ اللہ کو قناعت مرغوب ہے۔ ‘‘

’’ یہ سب سرامایہ داروں کا پروپگنڈا ہے!‘‘

ابھی بحث اور بڑھتی لیکن اسی وقت پولیس نے لاٹھی چارج کر دیا۔ مجمع تتر بتر ہو گیا۔ حمید اور مزدوروں کی ایک بہت ہی قلیل سی تعداد مل میں کام کرنے کے لیے داخل ہو گئی۔

شام کو وہ کام سے لوٹا تو دیکھتا کیا ہے بھیا پلنگ پر لیٹے ہوئے کراہ رہے ہیں۔ ان کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔

’’ یہ کیا ہوا بھیا؟‘‘ حمید نے بے چین ہو کر پوچھا۔

بھیا نے اس کے سوال کو ان سنا کر کے کہا۔

’’ کیا تم آج بھی کام پر گئے تھے؟‘‘

’’ ہاں۔ لیکن یہ آپ کے سر میں ۔۔ ‘‘

’’ اس کی فکر مت کرو تم!‘‘ بھیا غرا کر بولے۔ ’’ وکٹوریہ مل کے پھاٹک پر پکٹینگ کرتے ہوئے لاٹھی چارج میں چوٹ آ گئی۔ لیکن میں پوچھتا ہوں تم آج کام پر کیوں گئے تھے؟‘‘

’’ کیوں ؟ مجھے تنخواہ ہی اس بات کی ملتی ہے۔ ‘‘

’’ نہیں۔ یہ تنظیم سے غداری ہے۔ ‘‘ بھیا نے کہا۔

’’ کس تنظیم سے۔ ؟‘‘

’’ مزدور یونین سے!‘‘

’’ لیکن بھیا!‘‘ حمید نے کہا۔۔ ’’ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ان لوگوں کو کام پر جانے سے کیوں روکا جاتا ہے جو اپنی موجودہ اجرت پر ہی کام کرنے کے لیے تیار ہیں !‘‘

’’ وہ خود غرض ہیں۔ بزدل ہیں۔ ہمیں اپنے حق کے لیے پُر امن طریقے پر لڑنا چاہیے۔ حمید! مجھے بہت افسوس ہے کہ تم آج بھی ڈیوٹی پر گئے تھے۔ ‘‘

’’ بھیا! اللہ پاک خود فرماتا ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘

’’ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ہم کو اپنا حق خود حاصل کرنا ہو گا اور ہاں ۔۔ کل سے تم کام پر نہیں جاؤ گے۔ ‘‘

’’ یہ تو کھلی ہوئی نمک حرامی ہو گی۔ آپ کہیے تو میں اپنا استعفیٰ البتہ بھیج دوں ۔۔ ‘‘

’’ کچھ بھی کرو۔۔ ‘‘ اس کے بھیا نے جھنجھلا کر کراہتے ہوئے کہا۔۔ لیکن کل سے تم کام پر نہیں جاؤ گے۔ میں نے جہاں اتنے دن تمھیں کھلایا ہے اور بھی بٹھا کر کھلا سکتا ہوں۔ ‘‘

اس دن واقعی حمید نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا اور عبادت گزاری میں مصروف ہو گیا۔

تلاوتِ کلام پاک کر رہا تھا کہ اچانک مسجد میں دو بچوں کی آوازیں سنائی دیں ۔۔ اس نے بوسہ دے کر کلام پاک بند کر دیا اور اپنے حجرے کے دروازے پر آ کر کھڑا ہو گیا۔

ایک سات سالہ بچی، تقریباً پانچ سالہ بھولے سے بچے کے ساتھ ممبر کے سامنے دامن پھیلائے کھڑی تھی۔

’’ ہاں منّے بولو۔۔ ‘‘ اس نے بچے سے کہا۔

’’ اب تو دعا مانگ چکے۔۔ ‘‘ بچہ ٹھنکا۔ ’’ اب چلو کھیلیں۔ ‘‘

’’ نہیں ۔۔ ‘‘ لڑکی نے کہا۔ ’’ امی نے کہا تھا خوب دعا مانگنا۔ ابھی تو ایک ہی بار مانگی ہے۔ ‘‘

’’ اچھا ایک بار اور مانگ لو۔۔ ‘‘ بچہ رضا مند ہو گیا۔

وہ دونوں طوطے کی طرح پڑھنے لگے۔

’’ اے اللہ میاں ! ہمارے ابّو جان کو اچھا کر دو، ان کی عمر میں برکت دو، ہم معصوم بچوں کی دعا قبول کرو!‘‘

وہ دعا ختم کرتے ہی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ حمید نے حجرے سے مسجد کے صحن میں آتے ہوئے کہا۔

’’ بچو!‘‘ مسجد میں جوتے پہن کر نہیں آتے۔۔ اچھا۔۔ اللہ میاں ناراض ہوتے ہیں۔ ‘‘

وہ دونوں سہم کر اپنے گرد سے اَٹے ہوئے جوتوں کو دیکھنے لگے۔ حمید نے پیار سے دونوں کی پیٹھ تھپک کر کہا۔

’’ جاؤ۔ ‘‘

اس دن کے بعد حمید روزانہ دیکھتا کہ جب دوپہر کو مسجد میں سناٹا ہو جاتا، وہ دونوں بچے آتے، ممبر کے سامنے دامن پھیلا کر دو تین بار طوطے کی طرح وہی دعا مانگتے اور اچھلتے کودتے باہر چلے جاتے۔ کچھ دن تو حمید پر کوئی اثر نہ ہوا لیکن جب ان بچوں کا ہر روز آنا ایک معمول ہی بن گیا تو اس نے نمازیوں سے پوچھ گچھ کی۔

معلوم ہوا کہ وہ شیر خاں کے بچے ہیں جو مل مزدور تھا اور آج کل سخت بیمار ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں اُسے ٹی۔ بی ہے اور اسے سینی ٹوریم میں داخل ہونا چاہیے ورنہ کوئی طاقت اُسے موت سے نہیں بچا سکے گی۔ ‘‘

’’ ارے توبہ کرو میاں !‘‘ حمید نے اطلاع دینے والے کو ہدایت کی۔ ’’ کمبخت ڈاکٹر تو بڑے دہریے ہوتے ہیں۔ اللہ بڑا کارساز ہے۔ کوئی بات اس کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں۔ ‘‘

درست فرمایا آپ نے مولانا صاحب!‘‘

وہ شخص چلا گیا دوپہر کو دونوں بچے پھر دعا مانگنے آئے تو حمید کو اپنے ابو جان کی علالت کا واقعہ یاد آ گیا۔ اس نے سوچا، یہ بچے کتنے لا ابالی انداز میں دعا مانگتے ہیں۔ ان کی نگاہوں میں دعا کی اہمیت ایک کھیل سے زیادہ نہیں ہے اس نے اپنی تمام تر عقیدت اور خلوص کو سمیٹ کر بچوں کی دعا کے ساتھ آمین کہنا شروع کر دیا۔ دوسرے دن بھی اس نے یہی عمل دہرایا لیکن شام کو جب حمید نے سُنا کہ شیر خاں کی حالت اور بھی زیادہ نازک ہو گئی ہے تو اس نے اس شب کا ایک ایک لمحہ دعا مانگنے میں صرف کیا۔

دوسرے دن جب حمید اس انتظار میں بیٹھا تھا کہ کوئی آ کر اسے شیر خاں کے مرض میں افاقہ کی خبر سُنائے گا کہ ایک شخص نے آ کر کہا۔۔

’’ مولانا صاحب! ذرا قبرستان تک چلیے۔ ‘‘

’’ انا للہ و انا الیہ راجعون!‘‘ حمید کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ’’کیوں بھئی کس کا انتقال ہو گیا؟‘‘

’’ شیر خاں کا۔۔ ‘‘

حمید کو محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کا دل پکڑ کر نوچ لیا ہو۔ تقریباً بے ہوشی کے عالم میں اس نے قبرستان جا کر نماز جنازہ ادا کی، واپس آیا تو ظہر کا وقت ہو چکا تھا، حمید نے جیسے تیسے اذان دے کر جماعت کو نماز پڑھائی اور جب اس نے نماز ختم کر کے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو اُس کے دل میں پہلی بار خدا کے لیے بغاوت کا جذبہ پیدا ہوا۔

’’ ہونہہ! اب تجھ سے کس بات کی دعا مانگوں !؟‘‘

اس نے جلدی سے ہاتھ سمیٹ لیے اور اپنے حجرے میں جا کر پڑ رہا۔ نہ معلوم کیسے کیسے الٹے سیدھے خیالات اس کے ذہن میں اتھل پتھل مچا رہے تھے۔ اسے ایک ایک کر کے اپنی زندگی کے تمام خاص واقعات یاد آئے۔ باپ کی بیماری، علاج کے لیے روپے کی کمی، اس کا انتقال، ماں کی موت، اس کی ملازمت، ہڑتال، بھائی کا قتل اور۔۔ ۔۔ ‘‘

اچانک اس کے خیالات کا تانا بانا ٹاٹ گیا۔ باہر مسجد میں کچھ آوازیں سُنائی دے رہی تھیں۔ اس نے حجرے کے دروازے پر آ کر دیکھا۔ وہی شیر خاں کے بچے تھے۔ لڑکی کہہ رہی تھی۔

’’ ہاں منیّ ! دعا مانگو۔ ‘‘

دونوں کے ہاتھ مشین کی طرح اوپر اٹھ گئے اور وہ طوطے کی طرح بولنے لگے۔

’’ اے اللہ میاں، ہمارے ابّو جان کو اچھا کر دو، ان کی عمر میں برکت دو‘‘۔ ہم معصوم بچوں کی دعا قبول کرو۔ ‘‘

حمید کا جی چاہا کہ وہ زور زور سے روئے لیکن اس نے ہونٹ کاٹ کر اپنے امنڈتے ہوئے جذبات کو دبا لیا اور بچوں کے پاس جا کر بولا۔

’’ آؤ بچو چلیں ! تمہاری دعا قبول ہو گئی۔ !‘‘

اسی دن عدّت کے ایام گذرنے کا انتظار کیے بغیر حمید نے شیر خاں کی بیوہ سے نکاح کر لیا، پیش امامی ترک کر دی اور دوبارہ مل میں ملازم ہو گیا۔

غریب اور کرتا بھی کیا، مذہب سے فرار میں ملاّ کی دوڑ یہیں تک تھی۔

(۱۹۵۸)

٭٭٭

 

 

 

 

ضربِ کلیم

 

وہ تعداد میں کل چالیس تھے۔ سارے کے سارے مفلوک الحال اور قلاش۔ !

میں بیحد پریشان تھا۔ پریشانی کی بات بھی تھی۔ اگر میں رینج آفیسر یا کم از کم ڈپٹی رینجر ہی ہوتا تو البتہ کوئی خاص دِقت نہ ہوتی۔ ان افسروں کا اپنا ایک مخصوص اثر ہوتا ہے، ایک خاصہ وسیع حلقہ ہوتا ہے جہاں ہزار غربت کے باوجود کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے لوگ نکل ہی آتے ہیں جن سے اس قسم کے مواقع پر امداد ملتی ہے اور ایک میں تھا۔ معمولی سا فارسٹر جسے ابھی چند ماہ قبل ہی فارسٹ گارڈسے ترقی ملی تھی اور ایک سو ایک ایکڑ کا قطعۂ جنگل سپرد کر دیا گیا تھا کہ سرحدوں کا تعین کر کے درختوں پر معقول نشانات لگوا کر، اور سیکشن وغیرہ قائم کر کے آئندہ نیلام میں رکھے جانے کے لیے کوپ (Coup)تیار کر دوں۔ ساڑھے گیارہ سو روپے کی قلیل رقم اس کام کے لیے منظور ہوئی تھی۔ زیادہ سے زیادہ پندرہ دنوں میں کام مکمل کرنا تھا۔ اس لیے کوشش کر کے زیادہ مزدور اکٹھا کیے تھے اور آج کام تکمیل کو بھی پہنچ چکا تھا۔ میں مزدوری کی آخری قسط چکانے کوپ میں آیا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ ایک مہم در پیش تھی۔

چین نے ہندوستا ن پر حملہ کر دیا تھا، مرکزی حکومت نے عوام سے امداد کی اپیل کی تھی اور ہماری صوبائی حکومت نے تین کروڑ روپیہ جمع کر کے مرکز کو بھیجنا طے کیا تھا۔ اس سلسلے میں حکومت نے ملازمین سرکار سے درخواست کی تھی کہ عوام کو ہنگامی حالات سے باخبر کر کے امدادی رقوم اکٹھا کی جائیں۔ اس معاملے میں سرکاری طور پر نہ سہی، ایک ہندوستانی ہونے کے ناتے میرا بھی بہت بڑا فرض تھا۔ اپنی تنخواہ کا ایک معقول حصہ چندے میں دے کر بھی میرا ضمیر مطمئن نہ ہوا تھا۔ خون دینے والوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوا کر بھی میرے ضمیر کو تسکین نہ ہوئی تھی۔ کاش کہ مجھے مورچے پر بھیجا جا سکتا۔ لیکن سرکار کے پاس تربیت یافتہ نوجوانوں کی فی الحال کوئی کمی نہ تھی۔ اس وقت تو صحیح امداد صِرف روپے سے ہی کی جا سکتی تھی اور اسی فکر نے مجھے پریشان کر رکھا تھا۔

فی کس دو روپیہ یومیہ کے حساب سے چالیس آدمیوں کی ساڑھے چھ دن کی مزدوری کے چار سو روپیہ تقسیم کر کے ( کیونکہ ایک سو بیس روپے انھیں پہلے ہی پیشگی تقسیم ہو چکے تھے) میں نے رسماً چندے کی اپیل والے قضیے سے نمٹ لینا ہی مناسب سمجھا۔ اوّل تو میں یونہی محکمۂ جنگل کی ملازمت میں رہ کر تقریر وغیرہ قسم کی چیزیں بھول چکا تھا، دوسرے طبیعت پر مایوسی کا غلبہ تھا کہ ان غریبوں سے، جنھیں ہفتے بھر کے لیے چالیس گھرانوں کا پیٹ بھرنے کو کل چار سو روپے ملے ہیں، وصولی کی کیا اُمید ہو سکتی ہے۔ بہر طور کسی طرح چند جملے میں نے کہہ ہی ڈالے۔

’’ بھائیو ہمارے ملک پر چین نے حملہ کر دیا ہے ہم ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں لیکن دیش کو لڑائی کے ہتھیاروں اور دوسری ضرورتوں کے لیے روپے کی ضرورت ہے۔ آپ لوگ اگر اپنی خوشی سے کچھ چندہ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں !‘‘

یہ باتیں میں نے بہت اٹک اٹک کر ساگوان کے درخت پرلگے ہوئے شہد کے چھتّے کو دیکھتے ہوئے کہیں۔ اب جو ان پر نگاہ ڈالی تو سب ٹکر ٹکر ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ انھیں خاموش دیکھ کر میں پھر بولا۔

’’مجھے معلوم ہے آپ سب لوگ بیحد غریب اور پریشان حال ہیں اور دیوالی جیسے تہوار کا موقع ہے جب خرچ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے پھر بھی اگر کوئی اپنی خوشی سے۔۔ ‘‘

’’ صاحب!‘‘ رامو گونڈ جو اونچا سنتا تھا میرے قریب آ کر بولا۔۔ ’’ یہ کاہے کا چندہ ہے؟‘‘

’’ لڑائی کا بابا۔۔ ‘‘ میں نے جواب دیا حالانکہ مجھے اپنے جواب پر خود ہنسی آ رہی تھی۔

’’ ’’ کیسی لڑائی۔۔ ؟ کس سے لڑائی۔۔ ؟‘‘

’’ چین سے۔۔ ‘‘

’’ لیکن ہم لڑ کیوں رہے ہیں صاحب؟ آپ جانو لڑائی تو بُری چیز ہوتی ہے۔ ‘‘

’’ ہاں بابا!‘‘ میں نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔ ‘‘ لڑائی بُری چیز ہے۔ کسی سے زبردستی لڑنا گناہ ہے لیکن اگر کوئی خود ہی ہم پر چڑھ دوڑے تو وہاں بزدلی دکھانا اس سے بھی بُرا ہے۔ چین کو ہم نے اپنا دوست سمجھ۔ گلے سے لگایا۔ ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے بلند کیے اور جواب میں اس نے کیا کیا معلوم ہے تمھیں۔ ؟‘‘

’’ کیا کیا اس حرامجادے نے!؟‘‘ رامو گونڈ، جمون بھیل، اور گلدار خان بیلدار ایک ساتھ چیخے۔

’’ اس نے ہماری بہت سی زمین دبا لی۔ !‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’ وہ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔ پھر کالو گوجر نے بڑھ کر ایک روپیہ میرے ہاتھ تھما دیا، اس کے پیچھے سے چاند خاں نے آٹھ آنے دینے چاہے لیکن میرے بتلانے پر کہ ایک روپیہ سے کم رقم سرکار قبول نہیں کر رہی ہے، جلدی سے ایک روپیہ نکال کر دے دیا۔ پھر ہمت جُٹا کر رامو بلائی آیا پھر اشرف بنجارہ۔ پھر۔۔

میرے پاس انتالیس روپے جمع ہو گئے۔ میں نے سوچا ان غریبوں سے اور زیادہ کی اُمید بھی عبث ہے۔ روپے گن کر تھیلی میں رکھ رہا تھا کہ جھولیا بھیل نے آ کرپیر تھام لیے۔

’’ صاحب! یہ میری اٹھنی تو سرکار کو قبول ہی کرنی ہو گی۔ ‘‘

’’ نہیں جھولو۔ !‘‘ میں نے اس کا شانہ تھپک کر کہا۔ ’’ روپے سے کم لینے کا مجھے حکم نہیں ہے۔ ‘‘

’’ لیکن صاحب!‘‘ وہ گڑگڑایا۔ ’’ مجھے تو صرف یہی ایک اٹھنی ملی ہے۔ ساڑھے بارہ روپے پیشگی کے کٹ گئے۔ ‘‘

’’ کوئی بات نہیں۔ تم رہنے دو۔۔ ‘‘

’’ کیسے رہنے دوں صاحب؟‘‘ وہ باقاعدہ رونے لگا۔ ’’ اس سالے چین نے ہماری دھرتی دبا لی ہے۔ اس نے ہماری ماتا پر ہاتھ ڈالا ہے۔ عزت کو للکارا ہے اور آپ کہتے ہو میں رہنے دوں۔ آپ یہ اٹھنی لے لو، میرا تمام خون بھی لے لو اور مجھے لڑائی پر بھی بھیج دو۔ ‘‘

میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ سمجھ میں نہ آ رہا تھا کیا جواب دوں ؟ کسی طرح سمجھانے کی کوشش کی۔

’’ دیکھو بابا! تم ساٹھ سال کے ہو گئے ہو تمھارا خون کسی کام کا نہیں اور لڑائی پر بھیج کر کیا حاصل ہو گا تم سے؟البتہ یہ اٹھنی میں لیے لیتا ہوں۔ آٹھ آنے تمھاری طرف سے میں خود ملا دوں گا۔ ‘‘

اس نے اٹھنی میرے ہاتھ سے چھین لی۔

’’تم کیوں ملا دو گے اپنے پاس سے صاحب؟ اپنی ماں کی حفاظت کے لیے ہم اتنے مجبور بھی نہیں ہیں ۔۔ کیوں رے!‘‘ اس نے اپنے انتالیس ساتھیوں کی طرف دیکھ کر للکارا۔ تم سب جانتے ہو میرے گھر میں ایسا کچھ نہیں جو بیچا جا سکے۔ یہ ایک کلہاڑی ہے جو میری روزی کا ذریعہ ہے اسے آٹھ آنے میں کون خریدتا ہے؟‘‘

اس نے کلہاڑی مجمع کی طرف اچھال دی۔

وہ تھوڑی دیر سکتے میں کھڑے رہے، پھر کھسر پھسر کرنے لگے۔ پھر زور سے بولنے لگے۔ پھر بہت زور سے بولنے لگے، پھر چیخنے لگے، پھر نعرے لگانے لگے۔

’’بھارت ماتا کی جے!۔۔ ۔۔ جھولیا بابا کی جے!‘‘

تھوڑی دیر بعد ہی میری تھیلی میں چار سو روپے پورے کے پورے واپس آ گئے اور میں نے محسوس کیا جیسے وہ کلہاڑی جھولیا بابا نے، نہیں ان چالیس نے، نہیں چالیس کروڑ نے مل کر چین کے پیروں پرماری ہے۔

(۱۹۶۲ء)

٭٭٭

 

 

 

 

تشنگی دل کی

 

اور یاسمین غصے میں ہونٹ چباتی ہوئی نوکروں کے پاس بیٹھی رہ گئی جو ناشتے کی چیزیں تیار کر رہے تھے۔

اب اس کی بد صورتی اس کے لیے وبالِ جان بن کر رہ گئی تھی۔ یوں کسی بھی چیز کی اسے کمی نہ تھی۔ بھلا سٹی مجسٹریٹ کی لڑکی کو کس بات کی کمی ہو سکتی ہے لیکن پھر یہ بد صورتی ؟ اپنے بد صورت ہونے کا احساس اسے اندر ہی اندر کرید رہا تھا۔ ہزار میک اپ کے باوجود چہرے کی سیاہی اور ہونٹوں کا موٹا پن ابھر ہی آتا تھا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جوانی میں معمولی خد و خال کی لڑکیوں میں بھی عجیب سی دلکشی پیدا ہو جاتی ہے اور اعضا سڈول ہو جاتے ہیں لیکن یہاں تو آمدِ شباب نے الٹا اثر دکھایا تھا۔ گالوں پر گوشت اور خون کی زیادتی نے رنگ کو سیاہ تر اور چمکیلا بنا کر عجیب بھونڈا پن پیدا کر دیا تھا۔ ناک اور آنکھیں اور زیادہ اندر کو دھنس گئی تھیں بس یوں معلوم ہوتا تھا جیسے چمکیلے گوشت کے لوتھڑے میں چند سوراخ کر کے آنکھیں اور ناک بنا دی گئی ہے۔ کمر اور ہونٹ اور بھی موٹے ہو کر رہ گئے تھے۔ بچپن میں اسے اپنی بد صورتی کا اتنا زیادہ احساس نہ تھا لیکن اب جوان ہو کر یہ احساس اس بُری طرح اس کے ذہن سے چمٹ کر رہ گیا تھا کہ کسی صورت پنڈ نہ چھوڑتا تھا۔

اور ایک فورتھ ایر کی طالبہ کے لیے اس سے بڑی ٹریجڈی اور ہو بھی کیا سکتی ہے کہ اسے دیکھ کر کسی ایک نوجوان کا دل بھی پھول کی طرح نہ کھل اٹھے۔ اس سے محبت کرنے والا، اس کے قدموں تلے دل ڈال کر زحمت کی التجا کرنے والا، راہ میں آنکھیں بچھانے والا اور اس کے آویزوں کے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لانے کا عزم رکھنے والا کوئی نہ ہو۔ اگر حالات صرف یہیں تک محدود رہتے تب بھی وہ کسی نہ کسی طرح اپنے دل کو سمجھا لیتی۔ لیکن عالم یہ تھا کہ کالج میں اس کی آمد پر نوجوانوں کے غول میں وہ غل غپاڑہ مچتا کہ خدا کی پناہ۔ ایسے ایسے آوازے کسے جاتے، وہ وہ پھبتیاں اچھالی جاتیں کہ اس کا دل بے اختیار چاہتا کاش کوئی چلّو بھر پانی فراہم کر دے۔ وہ اپنے والدین کو کوستی جنھوں نے نہ جانے کس منحوس ساعت میں اُسے جنم دیا تھا ویسے اس کی ماں اس ادھیڑ عمر میں بھی کافی قبول صورت تھی۔ اس کا دھندلا سا عکس بھی تو یاسمین پرنہیں پڑا تھا۔ ہاں باپ کی اکثر خصوصیات اس میں منتقل ہو گئی تھیں، محض جنس مختلف تھی۔ غضب تو یہ تھا کہ بالوں کے باریک باریک روئیں بھی اس کے بالائی ہونٹ اور ناک کے درمیان اُگ آئے تھے۔ کاش وہ باپ ہی کی جنس میں پیدا ہوئی ہوتی۔ کاش وہ پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی۔

لیکن وہ پیدا ہو چکی تھی، جوان ہو چکی تھی! طرّہ یہ کہ فورتھ ایر میں کوئی ایک لڑکی بھی تو ایسی نہ تھی جس پر کوئی نہ کوئی نوجوان نہ مرتا ہو۔ دو ٹکے کی شکنتلا پر بیسیوں لڑکے جان چھڑکتے تھے حالانکہ کم بخت کی حیثیت کچھ نہ تھی اکثر اوقات پیوند لگی ہوئی ساری پہن کر کالج آتی تھی اور گھر کا خرچ چلانے کے لیے گرلس ہائی اسکول میں نائٹ کلاسزپڑھاتی تھی۔ ابھی پرسوں ہی کی تو بات ہے وہ کالج میں، لائبریری کی طرف جا رہی تھی کہ راستہ میں دو تین لڑکوں نے اسے دیکھ لیا۔

’’ اف!‘‘ ان میں سے ایک سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ’’ کیا غضب کی چال پائی ہے ظالم نے، معلوم ہوتا ہے کوئی وحشی ہرن مستانہ ادا میں جھومتا چلا آ رہا ہے۔ ‘‘

خود بخود یاسمین کی چال میں لچک پیدا ہو گئی تھی۔

’’ اور کیا آنکھیں کسی غزالِ رعنا سے کم ہیں ؟ ‘‘ دوسرا دھیرے سے بولا۔

یاسمین کا سینہ اور تن گیا معلوم ہوتا ہے آج کاجل نے اثر دکھایا ہے۔

’’ اور ماتھے کی بندیا نہیں دیکھتے کیا غضب ڈھا رہی ہے؟‘‘

اڑ اڑ دھڑام! یاسمین کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ اس کے ماتھے پر کوئی بندیا نہ تھی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا پیچھے شکنتلا ماتھے پر بندیا لگائے، آنکھوں میں شراب کی سی مستی لیے، لہراتی، مسکراتی چلی آ رہی تھی۔ اس کا جی چاہا شکنتلا کا منہ نوچ لے۔ اسی وقت لڑکوں کی طرف سے فرمائشی قہقہہ بلند ہوا۔

’’ اجی صاحب! دھتورا ہے دھتورا! نہ جانے کس مناسبت سے والدین نے نام یاسمین رکھا ہے۔ ‘‘

معلوم ہوا کسی نے تن بدن میں آگ لگا دی۔ یاسمین پیر پٹکتی ہوئی پرنسپل کے آفس کی طرف ہو لی۔ ایک لڑکا بولا۔

’’ ذرا دیکھو تو، زمین یونہی ہل رہی ہے جیسے کوئی ریلوے انجن گزر ر ہا ہو۔ ‘‘

پھر ایک زور دار قہقہہ پڑا جس کی چوٹ لڑکوں پر پرنسپل کے جُرمانہ کر دینے کے باوجود یاسمین کے دل سے دور نہ ہوئی۔

اور یہ تو محض ایک معمولی مثال تھی۔ اس قسم کے پچاسوں واقعات کالج میں اس کے ساتھ پیش آتے تھے۔ اس کا بولنا، اس کا میک اپ کرنا، اس کا چلنا، اس کا بیٹھنا اٹھنا، ہر ہر بات پر آوازے کسے جاتے تھے۔ اور آج کے واقعہ نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ تمام لڑکے اور لڑکیاں ایک ایک دو دو کر کے اِدھر اُدھر کھسک گئے اور وہ ناشتہ کی چیزیں تیار کرتے ہوئے نوکروں کے پاس تنہا بیٹھی رہ گئی۔ یاسمین دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوسنے لگی اس نے کیوں کلاس کے ساتھ پکنک میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اس کا جی چاہتا تھا اپنے تمام کپڑے تار تار کر دے اور بوٹی بوٹی نوچ پھینکے۔

شام ہو چلی تھی۔ سُرخ آفتاب مغرب میں ایک ٹیلے کی پشت پر غروب ہو رہا تھا۔ سامنے مصنوعی آبشارسیمنٹ کے پشتے پر سے گر کر جھیل میں سما رہا تھا۔ جھاڑیوں کے نیچے پانی میں بندھی ہوئی کشتی پر لتا اور پریم باتیں کرتے ہوئے بار بار قہقہے لگا رہے تھے۔ قریب ہی سُرخ پھولوں سے لدی ہوئی بیل کے کنج کے نیچے سبز گھاس پر ریحانہ، ثروت، آنند اور اکرم بیٹھے برج کھیل رہے تھے۔ تھوڑی دور آگے چند لڑکے اور لڑکیاں گراموفون کو گھیرے بیٹھے تھے۔ سب کے چہروں پر شادابی تھی اور یاسمین نوکروں کے پاس بیٹھی دل ہی دل میں کُڑھ رہی تھی۔

’’دیکھیے بی بی جی!‘‘ کلّو نے پوچھا۔ ’’ سنبوسوں کے لیے اتنا کڑا آٹا ٹھیک رہے گا نا؟‘‘

’’ خاموش بد تمیز!‘‘ اس نے غرّا کر جواب دیا۔ ’’ مجھے باورچی سمجھا ہے کوئی؟‘‘

کلّو منہ پھیر کر مسکرانے لگا اور وہ اپنے ہونٹ چبانے لگی۔

’’ مس عباسی!‘‘ اُسے پیچھے سے کسی نے پکارا۔

یاسمین نے پلٹ کر دیکھا تو اس کا کلاس فیلو خالد عثمانی کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔ تو آج ان حضرت کو بھی مجھ پر آوازے کسنے کا شوق پیدا ہوا ہے۔ یاسمین نے دل میں سوچا۔ طنز کے واروں سے بچنے کے لیے وہ کلّو کی طرف مُڑ کر کہنے لگی۔

’’ آٹا ابھی سخت ہے کلّو! تھوڑا پانی ڈال کر اور گوندھو!‘‘

’’ میں نے کہا یاسمین صاحبہ!‘‘ عثمانی نے اُسے بڑی لجاجت سے مخاطب کیا۔

دیکھو کم بخت کو، کتنا مسکین بن رہا ہے اور ابھی منہ لگا لوں تو بڑھ بڑھ کے پھبتیاں کسے گا، پھر بھی جواب دینا لازمی تھا۔ تنک کر بولی۔

’’ کیا بات ہے جی۔ ‘‘

خالد عثمانی کچھ جھینپ سا گیا۔ جلدی سے بولا۔

’’ جی کچھ نہیں۔ میں۔ میں نے سوچا آپ اکیلی ہیں ۔۔ آئیے کچھ دور ٹہل آئیں !‘‘

ہونہہ، میں سب سمجھتی ہوں۔ اس طرح بہلا کر اپنے دوستوں کی طرف مجھے لے جا کر سامانِ دلچسپی مہیا کرنا چاہتا ہے۔ یاسمین نے دل میں سوچا۔

’’ شکریہ!‘‘ اس نے عثمانی سے کہا۔۔ ’’ میں تنہا ہی اچھی ہوں۔ ‘‘

جواب سن کر خالد عثمانی نے سرد آہ کھینچی اور بوجھل قدموں سے واپس چلا گیا لیکن تھوڑی دیر بعد ہی جب نظریں گھما کر دیکھنے پر یاسمین کو عثمانی ایک بنچ پر تنہا متفکر بیٹھا نظر آیا تو یاسمین کو اپنے رویے پر متاسف ہونا پڑا۔ اُسے یاد آیا کالج بھر میں عثمانی ہی ایک ایسا لڑکا تھا جس نے یاسمین کی بد صورتی کو کبھی نشانہ ملامت نہ بنایا تھا۔ وہ ایک سنجیدہ طبیعت کا سلجھا ہوا نوجوان تھا۔ اپنے آپ میں کھویا کھویا سا۔ جہاں تک یاسمین کی یادداشت کا تعلق تھا اس کا نام کبھی کسی خاص لڑکی کے ساتھ نہیں سنا گیا تھا۔

ہو سکتا ہے بیچارہ خلوص کے تحت ہی مجھے بلانے آیا ہو۔ یاسمین نے سوچا لیکن اب ایک بار انکار کے بعد اس کے پاس جانا بھی اپنی توہین تھی ہزار بد صورت ہونے کے باوجود وہ سٹی مجسٹریٹ ہی کی تو بیٹی تھی۔ بہر طور وہ خالد عثمانی کے ساتھ نہ جانے پر دل میں خود کو لعنت ملامت کرتی رہی، کھانے کے دوران میں بھی کھوئی کھوئی سی رہی۔ دو تین بار شوخ و شنگ جاوید نے اس پر چھینٹے بھی اڑائے، دو ایک دوسرے لڑکوں نے بھی چٹکیاں لیں لیکن اسے متاثر ہوتے نہ دیکھ کر دوسری جانب مشغول ہو گئے در اصل ان لوگوں کو یاسمین کا چڑچڑانا، جھنجھلانا اور مغلوب الغضب ہونا ہی پسند تھا۔

رات کو دس بجے وہ لوگ بس سے واپس ہوئے۔ اس رات یاسمین کو بڑی دیر سے نیند آئی۔ رہ رہ کر یہی خیال اسے پریشان کر رہا تھا کہ آخر خالد نے اپنے ساتھ چلنے کے لیے اسے ہی کیوں منتخب کیا۔ اچھا قبول صورت نوجوان ہے، ٹہلنے کے لیے کئی لڑکیاں اس کا ساتھ دے سکتی تھیں۔ آخر بات کیا تھی۔ اس نے اٹھ کر بلب روشن کیا اور قدِ آدم آئینے میں اپنا عکس دیکھنے لگی۔ اب ایسی بُری شکل بھی نہیں ہے کہ کوئی۔۔ شرم کے کارن وہ پوری بات بھی نہ سوچ سکی اور بستر پر آ گئی۔ رات اسے خواب میں بھی خالد دکھائی دیا۔

’’مس عباسی آپ اکیلی ہیں۔ آئیے کچھ دور ٹہل آئیں ۔۔ ‘‘

دوسری صبح اس نے میک اپ میں دو گھنٹے صرف کیے اور بن سنور کر کالج پہنچی۔ سلیم شاہ نے اُسے دیکھ کر اکبر فاروقی کا شانہ تھپکتے ہوئے کہا۔

’’ یار آج تو غضب کا نکھار ہے شریمتی پر۔۔ دیو جانس کلبی کو بلاؤ!‘‘

وہ دونوں زور زور سے ہنسنے لگے۔ یاسمین آگے بڑھ گئی۔ سمتِ مخالف سے خالد عثمانی اور جاوید آ رہے تھے۔ جاوید، عثمانی کا ہاتھ دبا کر کہنے لگا۔

’’ دیکھنا یار! ذرا دیکھنا، اتنے زور دار میک اپ سے تو بھینس بھی ایک بار پری بن جاتی لیکن یہ۔۔ ‘‘ یاسمین نے دیکھا خالد عثمانی نے جاوید کا ہاتھ جھٹک دیا۔۔

’’ جاوید صاحب! از راہِ کرم میرے سامنے ایسی انسانیت سوز حرکتیں نہ کیا کیجیے۔ ‘‘ محسوس ہوا جیسے کسی نے یاسمین کے دل مجروح پر ٹھنڈے مرہم کے پھائے رکھ دیے ہوں۔ وہ ممنون نظروں سے خالد کو دیکھتی ہوئی کلاس میں چلی گئی۔ جاوید اور خالد باہر برآمدے میں کھڑے بڑی دیر تک آپس میں الجھتے رہے۔

کلاس میں لکچر کے دوران یاسمین کو یوں محسوس ہوتا رہا جیسے کوئی نکیلی چیز اس کے وجود میں چبھتی چلی جا رہی ہے اور جب بھی اس نے کنکھیوں سے دیکھا عثمانی کو اپنی ہی جانب گھورتے ہوئے پایا۔ پھر یاسمین نے یوں محسوس کیا جیسے اس کی ساری بد صورتی ان نگاہوں نے دھو ڈالی ہے۔ ایک عجیب سا کیف و سرور کا عالم تمام دن یاسمین پر طاری رہا۔ اس شام کالج سے نکل کر یاسمین، نگہت اور پروین کے ہمراہ کمپاؤنڈ سے ہو کر اپنی کار کی طرف جا رہی تھی کہ راہ میں خالد مل گیا۔

’’ مس عباسی!‘‘ اس نے ملتجیانہ لہجے میں یاسمین سے کہا۔۔ ’’زحمت تو ہو گی۔ از راہِ کرم میری دو باتیں سن لیجیے۔ ’’ یاسمین، نکہت اور پروین کو پُر معنی انداز میں مسکراتے ہوئے چھوڑ کر خالد عثمانی کے ہمراہ ہو لی، اب وہ اس قسم کی مسکراہٹوں کے خوف سے کل والی غلطی کا اعادہ کرنے کر تیار نہ تھی۔

’’ کہیے۔ ‘‘ اس نے لہجے میں روح کی تمام شیرینی سمو کر خالد کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا۔

’’ پارک تک تکلیف کیجیے، اطمینان سے کچھ عرض کروں گا۔ ‘‘

کالج کمپاؤنڈ ہی میں واقع پارک تک پہنچنے کے لیے اس نے جو راستہ طے کیا اس میں یاسمین کا ہر قدم آسمان پر پڑتا رہا۔ اس کا دل مسرت کی ترنگوں پر ہلکورے لے رہا تھا اور آنکھوں میں مسرت کی کہکشاں پھوٹ رہی تھی۔ راہ میں کئی لوگوں نے انھیں ساتھ ساتھ دیکھ کر آنکھیں پھاڑیں، کچھ نے آوازے کسے، کچھ زیر لب مسکرا کر ہی رہ گئے لیکن یاسمین ان سب سے بے نیاز خالد کے شانہ بہ بشانہ سر اٹھائے آگے بڑھتی گئی جو گردن جھکائے ساتھ چل رہا تھا۔

سنگ مرمر کے خوبصورت فوارے کے قریب پڑی ہوئی بنچ پر پہنچ کر خالد نے جیب سے رومال نکال کر جگہ صاف کی اور یاسمین سے بیٹھنے کی استدعا کی اور جب وہ بیٹھ گئی اور اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی تو بولا۔

’’میں اپنی حیثیت سے اچھی طرح واقف ہوں مس عباسی۔ ‘‘

’’ پھر بھی۔ ‘‘ یاسمین نے اُسے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا۔۔ ’’ میری نگاہوں میں آپ کی وقعت کالج کے تعلیم یافتہ امیر غنڈوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ‘‘

’’ شکریہ!‘‘خالد نے تعظیم سے گردن جھکا لی۔۔ ‘‘ سچ عرض کرتا ہوں جب کبھی میں نے کسی لڑکے کو آپ کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آتے دیکھا ہے میرا خون کھول کھول اٹھا ہے۔ ‘‘

’’ اخاہ!‘‘ فوارے کے دوسری طرف سے اٹھتے ہوئے جاوید کی آواز نے انھیں اپنی جانب مخاطب کر لیا۔۔ ’’اگر واقعی اتنی ہمدردی ہے تو پھر میں آپ کے انتخاب کی داد دیتا ہوں مسٹر عثمانی۔ !‘‘

’’ کیا بکتے ہو جاوید۔۔ ؟‘‘ خالد نے ڈپٹ کر کہا۔

’’ یہی کہ۔۔ ‘‘ جواب میں جاوید نے قہقہہ بلند کرتے ہوئے کہا۔۔ ’’ خدا نے جوڑی خوب ملائی ہے!‘‘

’’ اوہ! یور اسکل۔ واٹ یو ٹاک۔۔ ‘‘ عثمانی کھڑا ہو کر قمیص کی آستین الٹنے لگا۔ جاوید ہنس کر دور جا کھڑا ہوا اور چیخا۔

’’حضرت! محبت کی راہوں پر بہت سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ ‘‘

یاسمین کے لیے بیٹھے رہنا اب ناممکن ہو گیا۔ تنک کر اٹھ کھڑی ہوئی اور چلنے لگی۔ خالد نے پکار کر کہا۔

’’ معاف کیجیے گا مس یاسمین! مجھے آپ سے بڑی شرمندگی ہے۔ دیکھتا ہوں اس کم بخت کو۔۔ ‘‘ وہ جاوید کی طرف لپکا اور یاسمین وہاں سے مجبوراً چلی آئی۔

اس رات بھی اسے بڑی دیر تک نیند نہیں آئی۔ جاوید اور اس قسم کے دوسرے لڑکوں کے حد سے زیادہ تجاوز کرنے پر وہ پرنسپل سے شکایت بھی کر دیتی تھی لیکن اس دن اس نے پرنسپل کے پاس جانا مناسب نہیں سمجھا۔ آج اس کا روم روم خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔ آئینہ دیکھنے پر اسے اپنے چہرے پر غضب کا نکھار نظر آیا۔ جیسے یہ کوئی دوسری ہی یاسمین ہو، گداز جسم، تمتماتے ہوئے گال، چمکیلی سیاہ آنکھیں، لمبے گیسو اور تیکھے ابرو۔ اسے ڈر لگا کہیں اس کی اپنی نظر ہی اسے نہ لگ جائے۔ بار بار اس کے کانوں میں جاوید کے وہ جملے گونجتے رہے۔۔

’’ میں آپ کے انتخاب کی داد دیتا ہوں مسٹر عثمانی۔ خدا نے جوڑی خوب ملائی ہے۔ ‘‘

لیکن ان جملوں کا طنزیہ انداز جانے کہاں اڑ گیا تھا اور اس کی جگہ عجیب سا رس اور مٹھاس گھل مل گئی تھی۔ وہ پوری رات اس قسم کے کیف آگیں تصورات سے کھیلتی رہی اور پھر نیند میں بھی حسین خوابوں کے طلسمات نے اسے گھیرے رکھا۔

صبح غسل خانے سے نکل کر وہ سنگار دان کے سامنے مصروف تھی کہ خادمہ نے آ کر کہا۔

’’ بی بی جی! کوئی خالد عثمانی آئے ہیں آپ سے ملنے!‘‘

’’ اوہ!‘‘ وہ اچھل پڑی۔ ’’ انھیں ڈرائنگ روم میں بٹھلاؤ میں ابھی آتی ہوں۔ ‘‘

خادمہ کے جاتے ہی اس نے اپنی تمام تر مہارت میک اپ پر صرف کر دی لیکن بھونڈی شکل کو میک اپ کی تہوں میں متواتر ایک گھنٹہ تک چھپائے رکھنے کی کوشش کے بعد جب وہ ڈرائنگ روم میں پہنچی تو وہاں خالد عثمانی کے بجائے سٹی مجسٹریٹ صاحب تشریف فرما تھے۔

’’ کوئی نچلے درجے کا نوجوان یہاں تمہارا انتظار کر رہا تھا بیٹی۔ !‘‘

یاسمین کو کمرے میں داخل ہوتا دیکھ کر وہ گویا ہوئے۔

’’ میں نے اس سے کہہ دیا کہ فی الحال تم مصروف ہو پھر کبھی آ کر مل لے۔ ‘‘

یاسمین پر جیسے بجلی سی گر پڑی۔ ’’ یہ کیا کیا آپ نے ڈیڈی!‘‘ اس نے چیخ کر کہا۔

مجسٹریٹ صاحب حیران ہو کر اس کا چہرہ تکنے لگے اور وہ روتی ہوئی اپنے بستر پرجا پڑی۔

اس دن کالج میں پہنچ کر اس نے خالد عثمانی کو چاروں طرف تلاش کیا کہ اپنے باپ کے رویے کی معافی مانگ لے لیکن وہ کہیں نظر نہ آیا۔ اس دن حاضری کے دوران میں بھی پروفیسر نے اس کا نام نہ پکارا۔ تو وہ اور کھنکی۔ دبی زبان میں اس نے نگہت سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگی۔

’’ صحیح سبب تو مجھے بھی معلوم نہیں۔ اتنا جانتی ہوں کہ اس کا نام کٹ گیا ہے کالج سے۔ ‘‘

’’ ایں ۔۔ ‘‘

’’ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ ۔۔ ‘‘ پروین نے کہا۔۔ ’’ شاید کل جاوید اور عثمانی جھگڑ پڑے تھے، ممکن ہے اسی بنا پر عثمانی کا نام خارج کر دیا گیا ہو۔ ‘‘

’’ لیکن جاوید تو آج کالج میں نظر آیا تھا۔۔ ‘‘

’’ ہو سکتا ہے صرف خالد عثمانی ہی کو مجرم گردانا ہو پرنسپل صاحب نے۔ ‘‘ شیلا نے دخل در معقولات کیا۔

’’ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا جرم کیا تھا خالد نے؟‘‘ یاسمین ذرا گرم ہو کر بولی۔

’’ ہمیں کیا معلوم؟‘‘شیلا نے کہا۔۔ ’’ ویسے محبت بھی کوئی معمولی جرم نہیں ہے میری رانی! اس سلسلے میں تمھارا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ ‘‘

’’ ہونہہ! تیرا سر۔۔ ‘‘ یاسمین نے کہا لیکن اس کا سر فخر سے بلند تر ہو گیا۔ اب ان لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ کوئی نوجوان یاسمین کی نگاہ ناز کا گرویدہ بھی ہے۔ اس کی بنا پر بھی دو نوجوانوں میں جنگ ہو سکتی ہے۔ بہت ممکن ہے جاوید بھی۔ لیکن وہ کم بخت تو شہدا ہے، خالد عثمانی البتہ بہت نیک اور خوبرو نوجوان ہے۔ اس نے سوچا وہ اپنے باپ کے ذاتی اثر سے پرنسپل کو خالد کے دوبارہ کالج میں داخلہ پر مجبور کرے گی اور پھر لوگ دیکھیں گے کہ عورت محبت کر کے وفا کرنا بھی جانتی ہے۔

اس دن اسے کالج میں بڑا سونا سونا سا لگا۔ خالد کی خالی سیٹ اسے کاٹنے کو دوڑ رہی تھی۔ اس طرف دیکھ کر اسے کئی بار آنکھوں میں نمی محسوس ہوئی۔ ایک عجیب سا درد۔ کچھ تیکھا کچھ میٹھا اس کے دل میں کسک رہا تھا۔ کئی بار پروفیسر نے اسے لکچر میں توجہ دینے کی ہدایت کی لیکن وہ خیالی جھولوں میں ہلورے لیتی رہی۔

کالج چھوٹنے پر وہ کمپاؤنڈ سے باہر نکلی تو گیٹ پر خالد عثمانی کو اپنا انتظار کرتے ہوئے دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور دل مسرت سے ہمکنے لگا۔ خالد کے سر پر پٹی بندھی ہوئی دیکھ کر اسے کچھ تکلیف اور کچھ عجیب سی مسرت کا احساس ہوا کہ اس کا باعث اس کی اپنی ذات ہے۔ اس نے خالد کو قریب بلا کر کہا۔

’’مجھے ڈیڈی کی صبح والی حرکت پر بیحد افسوس ہے مسٹر خالد۔۔ !‘‘

’’ اوہ، کوئی بات نہیں ۔۔ ‘‘ وہ بولا۔۔ ’’ غالباً انھوں نے مجھے پہچانا نہ تھا۔ میں آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا تھا۔۔ ‘‘

’’ اوہ۔ کہہ دیجیے گا اطمینان سے۔ ‘‘ وہ دل ہی دل میں کچھ شرما سی گئی۔ مسکراتے ہوئے اس نے سوچا، کتنا بھولا ہے میرا خالد، اظہار محبت کے لیے کیسا اُتاؤلا ہو رہا ہے بیچارہ۔ ’’آئیے کار پر گھر کی طرف چلتے ہوئے اطمینان سے گفتگو کریں گے۔ ‘‘

وہ دونوں کار میں جا بیٹھے۔ ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی۔

’’ اررر۔ ہاں یہ آپ کے سر میں کیا ہو گیا!‘‘ وہ خالد کے قریب سرک کر اس کا زخم سہلانے لگی۔

’’ کل جاوید سے دو دو ہاتھ ہو گئے تھے۔ ‘‘

’’ بہت کمینہ ہے بد معاش!‘‘ دانت پیس کر یاسمین نے کہا۔ ’’ نہ جانے پرنسپل صاحب نے ایسے غنڈوں کو کالج میں کیوں بھر رکھا ہے؟ ارے ہاں آپ کا نام بھی تو شاید کالج سے اسی سلسلے میں خارج کیا گیا ہے۔ ‘‘

’’ جی ہاں ۔۔ ‘‘ عثمانی سرد آہ کھینچتا ہوا بولا۔ ’’ میں اس ماہ اپنی فیس نہیں داخل کر سکا۔۔ ‘‘

’’ اوہ۔۔ !‘‘ مجھے بہت افسوس ہے آپ نے مجھ سے کیوں نہیں کہا۔ ‘‘

’’ جی موقع ہی کہاں ملا۔۔ ‘‘ عثمانی نے جلدی سے جواب دیا جیسے موقعہ کا فائدہ فوراً اٹھا لینا چاہتا ہو۔۔ ’’یہی کہنے کے لیے تو میں آپ سے کئی دن سے ملنا چاہتا تھا۔ در اصل پہلے میں ایک فرم میں شام کو چار گھنٹے کام کر کے اپنا خرچ چلا لیتا تھا پچھلے ماہ وہاں سے جواب مل گیا، اگر آپ اپنے والد سے سفارش کر کے کوئی جگہ دلوا سکیں تو۔۔ ‘‘

’’ تو ۔۔ اوہ۔۔ تو تم ۔۔ تو کیا یہی کہنے کے لیے تم ۔۔ ‘‘ یاسمین کا پرس ہاتھ سے چھوٹ پڑا اور آواز گلے میں رندھ کر رہ گئی۔

’’ جی ہاں، میں صرف اتنا ہی کہنا چاہتا تھا۔ ‘‘ عثمانی اس کے غیر متوقع تغیر پر حیران ہو کر بولا۔

’’ ڈرائیور ! گاڑی روکو۔۔ ‘‘ یاسمین پوری طاقت سے چیخی۔ کار ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔

’’گٹ آؤٹ یو ڈیم۔۔ ‘‘ وہ پوری طاقت سے چلائی۔ ’’ اور پھر کبھی مجھ سے ملنے کی کوشش نہ کرنا!‘‘ خالد نے بوکھلا کر کار کے باہر جست لگا دی، یاسمین کار کی سیٹ پر گر کر پھپکنے لگی اور ڈرائیور آنکھیں جھپکتا رہا!

(۱۹۵۴ء)

٭٭٭

 

 

 

 

چالیس کا خون

 

ہم لوگ بارہ بجے ہی اسٹیشن پہنچ گئے۔

پسنجر پہلے ایک بجے آتی تھی لیکن انکوائری کلرک سے معلوم ہوا کہاب ٹائم ٹیبل تبدیل ہو چکا ہے اور ہمیں سوا دو بجے تک انتظار کرنا پڑے گا۔ بس جان ہی تو نکل گئی۔ اس خشک ماحول میں سوا دو گھنٹے گزارنا تھے لیکن مجبوری تھی۔ ہمارے والد صاحب کے خالہ زاد بھائی کے سب سے بڑے داماد پاکستان جا رہے تھے۔ سیدھے سادے مرنجان مرنج قسم کے آدمی تھے۔ سفر کی دشواریوں اور چیکنگ کی جھنجھٹوں سے گھبراتے تھے اور انھیں اسی اسٹیشن پر گاڑی تبدیل کرنی تھی اور سامان وغیرہ بک کرانا تھا اس لیے میں یاد آیا جو اس شہر میں ان کا اکلوتا قریبی رشتہ دار تھا۔ میں نے بھی سوچا کہ اتوار کا دن ہے، ڈیوٹی پر جانا نہیں ہے آج کے دن شطرنج کھیلنے کے بجائے اپنے ایک عزیز ہی کو رخصت کر آؤں کیا معلوم دوبارہ پھر ملاقات ہو نہ ہو۔

راستے میں معین کا جوتے کا کارخانہ پڑتا تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ نثار صاحب مع اہل و عیال ہجرت کر رہے ہیں اور میں انھیں رخصت کرنے جا رہا ہوں تو اس کی رگِ حمیت بھی پھڑکی اور وہ اس کارِ ثواب میں میرا ہاتھ بٹانے کے لیے منتظم کارخانہ سے دو بجے تک حاضر ہو جانے کا وعدہ کر کے ساتھ ہو لیا۔ میں اور وہ راستے میں معاشی مشکلات کا رونا روتے ہوئے تھوڑی ہی دور بڑھے تھے کہ مقصود جھولا لٹکائے اپنی مخصوص چال میں جھومتا ہوا ہماری طرف آتا نظر آیا۔۔

’’ السلام علیکم مقصود بھائی!۔۔ ‘‘

وعلیکم السلام۔۔ کہو بھئی کہاں ۔۔ ؟‘‘

’’یہیں ذرا اسٹیشن تک۔۔ ‘‘

میں نے انھیں صورتِ حالات سے آگاہ کیا کہ میرے والد کے خالہ زاد بھائی کے سب سے بڑے داماد اور معین کے ماموں کے سمدھی کی بہن کے پھوپھی زاد بھائی مع اہل و عیال پاکستان ہجرت کر رہے ہیں اور ہم لوگ انھیں رخصت کرنے جا رہے ہیں۔ خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ مقصود کو اپنی نانی مرحومہ کی ایک پرانی بات یاد آ گئی جس کی رو سے نثار صاحب ان کے نانا کی سوتیلی بہن کے سگے لڑکے کے قریبی رشتے میں سالے ہوتے تھے۔ اس لیے اس نے بھی ہمارا ساتھ دینا ضروری سمجھا۔ چنانچہ مقصود لپک کر اپنا تھیلہ جس میں کیلے، سنگھاڑھے اور اسی نوعیت کی چیزیں تھیں، معین کے کارخانے میں رکھ آئے۔ یہاں معین کے کارخانے سے میرا مطلب معین کے مالک کے کارخانے سے ہے۔ پھر ہم سب اپنی سناتے، دوسروں کی سنتے، بارہ بجتے بجتے اسٹیشن پر آ گئے لیکن یہاں آ کر معلوم ہوا کہ اب پسنجر سوا دو بجے آتی ہے۔

قبل از وقت پلیٹ فارم پر جانا مناسب نہ سمجھ کر ہم لوگوں نے یہ سوا دو گھنٹے باہر مسافر خانے میں گزارنے کی بات طے کی۔ تھوڑی دیر تک پتھر کی سخت بنچ پر تھرڈ کلاس کے مسافروں کے شور و غل کے درمیان ہم معین کی باتیں سنتے رہے جو اب مالک کارخانہ کی سختی کے بجائے نان لیدر شوز کا بازار مندا ہونے کی شکایت کر رہا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش میں تھا کہ مالک کارخانہ کاریگروں کے ساتھ سختی برتنے میں حق بجانب تھا کیونکہ اسے بذاتِ خود کاروبار میں کافی نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا۔ معاً خیال آیا کہ ہم تینوں بے وقوف ہیں جو بابو لوگوں کی سی پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی تھرڈ کلاس مسافر خانے کی اس پتھریلی بنچ پر بیٹھے گپیں ہانک رہے ہیں ( اس گپیں مارنے والی بات پر معین نے جو اتنی دیر سے واقعی گپیں ہانک رہا تھا، سخت احتجاج کیا۔ )

’’ تو کیا پھر یہ سوا دو گھنٹے کھڑے رہ کر گزر جائیں ۔۔ ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ ارے صاحب! وہ فرسٹ کلاس ویٹنگ روم کس مرض کی دوا ہے؟‘‘معین نے کہا۔

ہم لوگ اس طرح اچھل کر کھڑے ہوئے جیسے اب تک کانٹوں کی سیج پر بیٹھے رہے ہوں۔ پھر اپنی کوتاہ عقلی پر جھلاتے ہوئے اور مقصود کو اتنی شاندار تجویز پیش کرنے پر مستحسن نظروں سے دیکھتے ہوئے ہم لوگ جا کر درجۂ اوّل کے مسافروں کی آرام گاہ کے پر تکلف صوفوں پر ڈٹ گئے۔

چنانچہ اب میری باری تھی۔ میں نے اپنا زور خطابت اس بات پر صرف کر ڈالا کہ ہندوستان کی معاشی بد حالی کے ذمہ دار نچلے طبقے کے افراد اور مزدور وغیرہ ہیں کیونکہ میں کچھ دیر قبل ہی ایک مسافر سے قلی کو جو بڑا سا بستر کا بنڈل پلیٹ فارم سے اٹھا کر لایا تھا، چار آنے لیتے ہوئے دیکھ چکا تھا میں نے ثابت کیا کہ پانچ منٹ میں چار آنے کمانے والا قلی معاشی طور پر مجھ جیسے لوگوں سے جو دفتروں میں آٹھ گھنٹے روزانہ قلم گھسنے کے بعد اسّی روپیہ ماہوار پا رہے ہیں، بدرجہا بہتر ہے۔ یہاں پر معین نے اعتراض پیش کیا۔

’’ بھائی! آپ لوگوں کو بالائی آمدنی بھی تو ہو جاتی ہے۔ ‘‘

’’ اوہ! اس کا بھی کوئی حساب ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔۔ ’’ کبھی ہو گئی۔۔ کبھی ندارد۔۔ ‘‘

’’ اسی طرح وہ قلی بھی تو ہر پانچ منٹ میں چار آنے نہیں کما لیتا۔ ‘‘ مقصود نے لقمہ دیا۔

’’ واہ۔۔ اس کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے۔ ‘‘ معین بولا۔

مقصود اپنے ذہن کے کسی کونے میں ثبوت تلاش کرنے لگا میں اپنی جگہ الگ سٹپٹا رہا تھا کہ اس پوائنٹ پر تو میں نہ نکل سکوں گا کہ اتنے میں ٹکٹ چیکر صاحب جھومتے ہوئے بڑی شان کے ساتھ ویٹنگ روم میں داخل ہوئے۔

’’ صاحبان! یہ ویٹنگ روم فرسٹ کلاس پسنجرس کے لیے ہے۔۔ ‘‘

’’ معاف کیجیے گا، ہمیں معلوم نہ تھا۔ ‘‘

وہاں سے اٹھ کر ہم تینوں دوبارہ اپنی پتھر کی بنچ کے پاس آئے لیکن اب اس پر ایک دبلا پتلا مارواڑی اپنی بھدّی اور دیو ہیکل سیٹھانی کے ساتھ قبضہ کیے بیٹھا تھا۔ دل ہی دل میں اپنی قسمت کو کوستے اور زور زور سے مقصود کو فرسٹ کلاس ویٹنگ روم میں بیٹھنے کی بھونڈی تجویز رکھنے پر بُرا بھلا کہتے ہوئے ہم لوگ قریبی تیسرے درجے کے ہوٹل میں جا کر بیٹھ گئے جہاں ایک چوتھے درجے کا طالب علم نما شخص پانچ پیالیاں سامنے رکھی ہوئی چائے میں پڑی کچھ مکھیاں اس طرح نکالنے کی ترکیب سوچ رہا تھا کہ خریداروں کی نظر اس کی حرکت پر نہ پڑے۔ ہم وہاں بیٹھ کر پھر اپنی بحث میں مشغول ہو گئے اور ہماری محویت اس وقت ٹوٹی جب ہوٹل کا مالک جو ساتھ ہی ساتھ بیرے کے فرائض انجام دیتا تھا، ہم میں سے ہر ایک کاشانہ ہلا ہلا کر پوچھنے لگاکہ وہ ہماری خدمت میں چائے کے ساتھ مکھن لگے ہوئے ٹوسٹ پیش کرے یا سادہ ڈبل روٹیاں۔ لیکن خیریت یہ ہوئی کہ اسی وقت کسی گجرنے دو بجائے اور ساتھ ہی ساتھ معین نے گھبرا کر اٹھنے کی ایکٹنگ کی۔

’’ غضب ہو گیا۔۔ مجھے دو بجے کارخانے پہنچنا تھا۔ ‘‘

معین کے ساتھ ہی ہم لوگ بھی ہوٹل والے کو منہ بنا کر ریمارک پاس کرتے ہوئے چھوڑ کر باہر آ گئے۔ معین مزید ایک منٹ ضائع کیے بغیر رخصت ہونا چاہتا تھا اور ساتھ ہی نثار صاحب تک یہ پیغام پہنچا دینے کی ہدایت بھی ہمیں کرتا گیا کہ وہ مجبوراً ان کا انتظار نہ کر سکا ملازمت کا معاملہ ہے ورنہ ان سے نیاز حاصل کر کے اسے بیحد خوشی ہوتی وغیرہ۔ اور ہم نے اسے اطمینان دلایا کہ اس کا پیغام نثار صاحب تک ضرور پہنچا دیا جائے گا حالانکہ ہم دیکھ رہے تھے کہ وہ نثار صاحب کو پاکستان کے بجائے جہنم میں جانے کی تمنا ظاہر کر رہا تھا جن کی آمد کے سلسلے میں اس کے لیے مالک کارخانہ کی خفگی کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔ معین کو وداع کر کے ہم لوگ پھر اسٹیشن پر آ گئے اور گیٹ سے گزر کر پلیت فارم پر جانے ہی لگے تھے کہ ٹکٹ کلکٹر نے ٹوک دیا۔

’’ ٹکٹ دکھاتے جائیے۔۔ !‘‘

’’ صاحب! ہم لوگوں کو کہیں جانا نہیں ہے۔۔ ایک عزیز کو رخصت کرنے آئے ہیں ۔۔ ‘‘ ہم دونوں نے گھگھیا کر کہا۔

’’ پلیٹ فارم ٹکٹ لے کر آئیے۔ ‘‘ کہتے ہوئے وہ ہمیں دھکا دے کر باہر نکالنے کے ارادے سے اٹھے ہی تھے کہ میں نے آخری حربہ استعمال کیا۔

’’ اچھا سنیے تو۔۔ ہم لوگ محمد رئیس صاحب کے ماموں زاد بھائی ہیں۔ ‘‘

’’ کون رئیس صاحب۔۔ ؟‘‘

’’ ریلوے مجسٹریٹ کے کیمپ کلرک اور کون!‘‘ مقصود نے تن کر کہا۔

چنانچہ بات بن گئی۔ وہ دھم سے کرسی پر بیٹھ گئے اور مری ہوئی آواز میں بولے۔

’’ میں منع نہیں کرتا۔۔ لیکن آج مجسٹریٹ صاحب بہ نفسِ نفیس چیکنگ کر رہے ہیں۔ ‘‘

’’ اوہ! دیکھا جائے گا۔ ‘‘

اپنا پلہ بھاری پڑتے دیکھ کر ہماری ہمت بڑھ گئی مقصود کے ساتھ میں پلیٹ فارم پر آ گیا۔ ٹرین کے آنے میں ابھی دس منٹ اور باقی تھے ہم لوگ وھیلر کے بک اسٹائل پر رسائل دیکھنے لگے اور ابھی ساتواں رسالہ ہی پلٹ پائے تھے کہ پسنجر ٹرین گھڑگھڑاتی ہوئی پلیٹ فارم پر آ لگی اور ڈبوں سے آدمی اس طرح ابل پڑے جیسے زور دار بارش ہونے پر چیونٹیاں ہلبلا کر اپنے بلوں سے باہر نکل آتی ہیں۔ وہ تو خیریت ہوئی کہ نثار صاحب ڈھیلی ڈھالی شیروانی پہنے اپنا لولا ہاتھ ہلاتے ہوئے ایک کھڑکی سے بلاتے ہوئے نظر آ گئے ورنہ اس انبوہِ عظیم میں اس پستہ قامت بوڑھے کو تلاش کر لینا امر محال تھا۔

ہم لپک کر کھڑکی کے پاس پہنچے۔ وہ بھی کھڑکی سے باہر پھدک آئے اور خلوص کے ساتھ ہم لوگوں سے بغل گیر ہوئے۔ جب ہم نے بال بچوں کی خیریت دریافت کی تو انھیں اپنے سامان اور زنانہ سواریوں کی یاد آئی۔

’’بھائی پہلے سامان اور سواریوں کو اتارنے کا انتظام کر و، باتیں بعد میں ہوتی رہیں گی۔ ‘‘

مقصود فوراً اوپر چڑھ گیا اور دونوں بوڑھی عورتوں اور تینوں بچوں کو دھکّے دے دے کر اندر داخل ہونے کی کوشش کرنے والے لوگوں کے درمیان سے باہر دھکیل دیا اور اکلوتی نوجوان زنانہ سواری کو جو نثار صاحب کی بھتیجی اور اس کی محبوبہ تھی اور در اصل جسے رخصت کرنے کے لیے ہی وہ اسٹیشن آیا تھا، گود میں لے کر کھڑکی سے پلیٹ فارم پر اتار دیا اور خود بھی کود کر باہر آ گیا۔

اب بھی سامان اتار نے کا مسئلہ در پیش تھا۔ اس بارے میں مقصود نے عذر پیش کیا کہ وزنی چیزیں اٹھانے سے اس کی ناف کی رگ چڑھ جاتی تھی حالانکہ ہم نے ابھی دیکھا تھا کہ وہ کتنی آسانی سے نثار صاحب کی ڈیڑھ من وزنی بھتیجی کو اٹھا کر لایا تھا مجھے بھی یاد آیا کہ گزشتہ سال سائیکل سے گرنے کی وجہ سے میرا داہنا ہاتھ اکھڑ گیا تھا اور اب زیادہ وزن دار چیزیں اٹھانے کے ناقابل تھا۔

’’ خدا خیر کرے۔ !‘‘ بڑے میاں آواز دبا کر بولے۔ ’’ میرے پاس کرایہ و بکنگ خرچ کے علاوہ زیادہ پیسے بھی نہیں ہیں اسی لیے میں نے تمہیں خط لکھ دیا تھا کہ کم از کم قلی کے پیسے بچیں گے۔ ‘‘

ہم دونوں خاموش کھڑے رہے۔ مقصود کے دل کی بات تو میں نہیں کر سکتا البتہ میں دل ہی دل میں ہنس رہا تھا۔

’’ ہونہہ! اب یہ قلم چلانے والی انگلیاں بوجھ اٹھائیں گی۔۔ واہ بڈھے واہ۔۔ !‘‘

کچھ دیر تک نثار صاحب ہماری جانب پُر امید نگاہوں سے دیکھتے رہے پھر نا امید ہو کر انھوں نے قریب سے گزرتے ہوئے قلی کو پکارا۔۔ ’’ اے بھیّا ذرا سامان نکال دے۔۔ ہاں ذرا ہوشیاری سے اٹھانا۔۔ نازک چیزیں ہیں۔ یہ اس طرف اوپری برتھ اور دا ہنی طرف۔۔ نیچے اور نیچے۔۔ بس۔۔ بس۔۔ یہی۔ ‘‘

دس منٹ میں قلی نے سارا سامان ڈبّے سے نکال کر پلیٹ فارم پر ڈھیر کر دیا۔ بڑے میاں نے شکستہ منی بیگ سے ایک روپیہ بر آمد کیا لیکن جب قلی کو دینا چاہا تو وہ چونک پڑا اور ماش کے آٹے کی طرح اکڑنے لگا۔

’’ بابا۔۔ تمھاری عمر مذاق کرنے کی نہیں ہے!‘‘

بڑے میاں نے ہکا بکا ہو کر اس سے دریافت کیا۔

’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘

’’ چار آنے بنڈل کے حساب سے بارہ عدد کے تین روپے ہوئے۔ ‘‘

آدھ گھنٹے کی بحث و تکرار کے بعد اس نے بمشکل ڈھائی روپے قبول کیے۔

ابھی قلی سے نجات ملی ہی تھی کہ ٹی ٹی آئی صاحب کی بکھرے ہوئے سامان اور زنانہ سواریوں پر نظر پڑ گئی۔

’’ ٹکٹ۔۔ ؟‘‘

’’ نثار صاحب نے بڑی شان کے ساتھ شیروانی کی اندرونی جیب سے ایک میل خوردہ ڈائری نکالی اور اس میں سے ٹکٹ نکال کر سواریاں گنوانے لگے۔

’’ یہ تین بچے۔۔ اور یہ رہے ڈیڑھ ٹکٹ۔۔ تین زنانہ سواریاں اور ایک میں ۔۔ یہ چار ٹکٹ اور لیجیے۔۔

’’ دو ٹکٹ اور لائیے۔۔ !‘‘

’’ جی۔۔ نثار صاحب بوکھلا سے گئے۔

’’ ان دونوں کے ٹکٹ کہاں ہیں ۔۔ ؟‘‘ ٹکٹ چیکر نے میری اور مقصود کی جانب اشارہ کیا۔

’’ اوہ یہ لوگ تو یہیں سے آئے ہیں ہمیں رخصت کرنے!‘‘

’’ لائیے صاحب! اپنے اپنے پلیٹ فارم ٹکٹ۔۔ ذرا جلدی کیجیے۔ اس بار وہ براہ راست ہم لوگوں سے مخاطب تھا۔

جی میں تو آئی کہ یہاں بھی وہی محمد رئیس کیمپ کلرک کے بھائی ہونے والا تیر بہدف نسخہ استعمال کیا جائے لیکن مقصود نے مجھے آنکھ مار دی اور میں بھی سوچنے لگا کہ ہم تو نثار صاحب کے کام سے آئے ہیں کیوں فضول میں محمد رئیس صاھب کے احسانات اپنے اوپر بڑھائے جائیں لہٰذا ہم دونوں ٹکر ٹکر ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہوئے خاموش کھڑے رہے۔

’’ ہونہہ!‘‘ ٹکٹ چیکر آنکھیں اور رسید بک بیک وقت نکالتے ہوئے غرایا۔۔ ’’ لوگ چوگنا چارج دینا منظور کرتے ہیں لیکن ٹکٹ لے کر چلنے میں شرم آتی ہے۔ باپ کی گاڑی سمجھ رکھی ہے۔ ‘‘

پھر وہ فیض اللہ پور سے کان پور تک کا کرایہ، پھر اس کا دوگنا پھر پنالٹی (جرمانہ) وغیرہ جانے کیا کیا جوڑتا رہا اور نثار صاحب ہم لوگوں کی طرف سہمی ہوئی فاختہ کی طرح دیکھتے رہے اور ان کی آنکھیں بولتی رہیں ۔۔

’’ ہم نے تمھیں سہولت بہم پہنچانے کے لیے بلوایا تھا نہ کہ وبالِ جان بننے کے لیے۔۔ ‘‘

اتنی دیر میں حساب بن کر تیار ہو گیا۔ بڑے میاں کو ہم لوگوں کے پلیٹ فارم ٹکٹ نہ خریدنے کی وجہ سے اٹھارہ روپے تیرہ آنے بھگتنے پڑے۔

اب ٹکٹ خریدنے کا مسئلہ در پیش تھا۔ اس زمانے میں ہجرت کرنے والے مسافروں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی تھی اور مونا باؤ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں ہزار دقتیں پیش آتی تھیں۔ کلرک ہزاروں اعتراضات اور نخرے کرتے تھے۔ ہر ٹکٹ پر کم از کم دو رپیے رشوت لیتے تھے۔ خیر۔ بڑے میاں کو پلیٹ فارم پر چھوڑ کر اور ان سے ایک سو پچیس روپے لے کر ہم لوگ ٹکٹ گھر پر پہنچے۔ مجسٹریٹ کے کیمپ کلرک محمد رئیس والا نسخہ یہاں بھی کامیاب رہا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ محمد رئیس تو ہمارے ماموں زاد بھائی تھے۔ نثار صاحب سے تو ان کا کوئی رشتہ نہ تھا۔ پھر انھیں اس کا فائدہ کیوں پہنچے۔ لہٰذا جو گیارہ روپے رشوت کے لیے بڑے میاں سے وصول کیے تھے۔ مقصود اور میں نے بہت ایمان داری سے برابر برابر تقسیم کر لیے۔ پورے ساڑھے پانچ پانچ۔

اتنی جلدی ٹکٹ دیکھ کر بڑے میاں کی باچھیں کھل گئیں۔ بھرّائے ہوئے گلے سے اظہارِ ممنونیت کے طور پر انھوں نے قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلایا کہ وہ اور ان کی آئندہ نسلیں پاکستان میں ہمارے احسانات سے دبی رہیں گی۔ پھر دھیرے سے بولے۔

’’بھائی! تم لوگوں کو میری وجہ سے بڑی تکلیف ہوئی۔ میں کس طرح تمہارا شکریہ ادا کروں۔ اب ایک کرم اور کر دو یہ سب سامان لگیج ٹکٹ پر بک کرا دو۔ ‘‘

قلی پھر بلایا گیا۔ پانچ روپیہ پر اس سے طے ہوا کہ سامان بک کروانے کے بعد وہ ڈبے میں بھی رکھ دے گا اور سواریوں کو بھی جگہ دلوا دے گا۔ اسباب وزن کرانے کے بعد پارسل کلرک نے حساب لگایا تو چونتیس روپے پانچ آنے ہوئے۔ بڑے میاں نے پرس کھولا اور اس میں سے دس روپیہ کا ایک نوٹ نکالتے ہوئے بولے۔

’’ یہ آخری نوٹ ہے۔ !’’

’’ ارے!‘‘ ہم دونوں نے بہت خشک لہجے میں کہا۔۔ ’’ پھر کیا کیا جائے۔ آپ کو پورا انتظام کر کے چلنا چاہیے تھا!‘‘

بھائی! اس مصیبت میں میری مدد کرو۔۔ عمر بھر دعائیں دوں گا۔ ‘‘ وہ گڑ گڑائے۔

’’ صاحب! میری تو ابھی تنخواہ ہی نہیں ملی۔۔ ’’ کہہ کر میں نے اپنی معاشی مشکلات گنانی شروع کر دیں۔

مقصود نے کارو بار چوپٹ ہو جانے کی بات چھیڑ دی۔

ہم دونوں دیکھ رہے تھے کہ نثار صاحب ہماری باتوں پر ذرا دھیان دیے بغیر کبھی سامان کو دیکھ رہے تھے۔ کبھی پارسل کلرک کو۔ وہ بڑی جلدی جلدی آنکھیں جھپک رہے تھے اور کلرک انھیں روپے جلدی نکالنے کی تاکید کر رہا تھا۔ بڑے میاں کی سراسیمگی اور اضطراب میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔ آخر وہ سر پکڑ کر وہیں وزن کرنے والی مشین پر بیٹھ گئے اور تقریباً رونے کی حد تک بھرائی ہوئی آواز میں بولے۔

’’ میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘

’’ عورتوں سے پوچھیے شاید ان کے پاس کچھ ہو۔ ‘‘

’’ گھر سے چلتے ہوئے ان سے ایک ایک چھدام لے چکا ہوں۔ ‘‘

ہم دونوں نے دانت پر دانت بیٹھا کر ہونٹ سکوڑ لیے۔ تھوڑی دیر خاموش رہی۔ بیچ بیچ میں پارسل کلرک ٹوکتے جا رہا تھا۔

ارے بھائی۔ کوئی یہ مشین ہی لینے والا ہو تو بیچ ڈالو۔ ‘‘آخر وہ تنگ آ کر بولے۔

’’ وہ مارا۔ بوڑھے نے بڑی جد و جہد کے بعد پنجے ٹیکے ہیں !‘‘ میں نے دل میں کہا۔

مجھے فوراً یاد آ گیا کہ میری جیب میں کچھ روپے پڑے ہیں جو ایک دوست نے منی آرڈر کرنے کو دیے ہیں اور عزیزوں کے کام آنا فرض اولیں ہے۔ یہ باتیں کہتے ہوئے میں نے کل کی ملی ہوئی تنخواہ کے بنڈل سے جیب میں ہاتھ ڈال کر اندر ہی اندر پچیس روپے گن کر نکالے لیکن مجھ سے پہلے ہی مقصود تیس روپے نکال کر بڑے میاں سے کہہ رہا تھا۔

’’ تو پھر رہنے دیجیے مشین میرے پاس۔ یہ روپے چچا نے سامان لانے کو دیے تھے، لیتے جائیے میں انھیں بعد میں ادا کر دوں گا۔ ‘‘

میں نے سنگر مشین کی طرف دیکھتے ہوئے جیب سے ایک دس کا نوٹ اور نکال کر پچیس میں شامل کرتے ہوئے بڑے میاں کو دینے کی کوشش کی۔

’’ واہ مقصود! تیس میں کیا کام چلے گا؟ راستے میں قلیوں وغیرہ کو بھی تو کچھ دیں گے نثار صاحب!‘‘

’’ واہ مسٹر محمود!‘‘ مقصود نے مجھے گھور کر دیکھا۔ ’’ صرف پینتیس روپے میں آپ سنگر کی سلائی مشین ہتھیانا چاہتے ہیں۔ !‘‘ اس نے جیب سے سو روپیہ کا نوٹ نکال کر آگے بڑھایا۔

میں نے جیب کی کل کائنات، جو ایک سو چالیس روپے تھے، بڑے میاں کے ہاتھوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی۔ مقصود نے دو سو رپے زبردستی بڑے میاں کی گود میں ڈال دیے اور مشین جو کافی وزنی تھی ایک ہاتھ سے اٹھا کر الگ رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔

’’ارے بھائی قلی سے رکھوا لو۔۔ ‘‘ بڑے میاں بولے۔۔ ’’ تمھاری ناف کی رگ نہ چڑھ جائے کہیں !‘‘

میں نے جو دیکھا کہ مقصود مفت میں سات سو روپیہ کا مال دو سو روپے میں لیے جاتا ہے اور میرے پاس مزید روپے بولی بڑھانے کے لیے نہیں ہیں تو میری رگِ حمیت پھڑکی۔ مجھے یاد آیا ارے یہ بڑے میاں تو میرے والد کے خالہ زاد بھائی کے سب سے بڑے داماد ہیں اور میں نے سو روپے اپنی جیب میں رکھ کر چالیس روپے بڑے میاں کو تھماتے ہوئے کہا۔

’’ ہم لوگ تو مذاق کر رہے ہیں بھائی صاحب! آپ کو مشین بیچنے کی کیا ضرورت ہے۔ پچیس روپیہ لگیج وغیرہ میں ملا لیجیے۔ پندرہ روپے راستے میں قلیوں وغیرہ کے لیے رکھیے۔ یہ رہے چالیس روپے۔ آخر کو آ پ میرے قریبی رشتے دار ہیں۔ اپنے لوگ اور کب کام آتے ہیں !‘‘

بڑے میاں کی آنکھوں سے آنسوؤں اور لبوں سے دعاؤں کا سوتا پھوٹ نکلا۔ دو سو کے نوٹ اُن سے لے کر میں نے مقصود کے منہ پر پھینک دیے۔ مشین کو داہنے ہاتھ سے جس کے کمزور ہونے کا پہلے بہانہ کر چکا تھا اٹھا کر بڑے میاں کے سامان میں رکھ دیا۔

سامان بک ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد بڑے میاں بمعہ اسباب رخصت ہو گئے۔ اسٹیشن سے لوٹتے ہوئے مقصود نے منہ پھلا کر کہا۔

’’ محمود بھائی! مجھے تم سے ایسی امید نہ تھی۔ ‘‘

اسے گھور کر دیکھتے ہوئے میں نے دانت پیسے اور چیخ کر بولا۔

’’ابے چپ رہ! مفت میں بیٹھے بٹھائے میرے چالیس روپیوں کا خون کر دیا۔ ‘‘

(۱۹۵۴ء)

٭٭٭

 

 

 

چور کا بھائی

 

دفتر نگینہ۔ نئی دہلی

۱۵؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء

پرویز بھائی! سلام مسنون

آپ کی جو کہانی ’’ پہلا شکار‘‘ کے عنوان سے ہم نے اگست کے شمارے میں شائع کی تھی اس سلسلے میں ہمیں عنبر چنگیزی صاحبہ نے ایک احتجاجی مراسلہ بھیجا ہے۔ عنبر صاحبہ ملک کی ممتاز ادیبہ ہیں۔ ہم فی الحال حقیقت سے لا علم ہیں، اس لیے انھیں براہِ راست کوئی جواب نہ دیتے ہوئے ان کا خط آپ طرف بھیج رہے ہیں۔ معاف کیجیے گا اگر یہ معاملہ صاف نہ ہونے تک آپ کی تخلیقات سے ہم ’ نگینہ‘ کے اوراق کو مزین نہ کر سکیں۔ ادارہ نگینہ کے اس سلسلے میں کچھ اپنے اصول ہیں جن کی پابندی بہر حال لازمی ہے۔ عنبر چنگیزی صاحبہ کے اعتراضات دور ہو جائیں تو آپ ان کا اقرار نامہ ہمیں ضرور بھجوا دیجیے گا۔ امید کہ آپ ادارے کی مجبوریوں کا احترام کریں گے۔ منسلکہ خط کی رسید ضرور بھجوا دیجیے۔

مخلص: عیسیٰ دہلوی

مدیر اعلیٰ ماہنامہ’ نگینہ‘۔ نئی دہلی

قصر جمیل۔ گولی پورہ۔ نصیر پور

۲؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء

محترم مدیر نگینہ! خلوص و آداب

مزاجِ گرامی۔۔ ؟

نگینہ برائے اگست ۶۱ء پیش نظر ہے۔ مجھے نگینہ کے بلند معیار صحیفہ ہونے کا ہمیشہ اعتراف رہا ہے اور میری ادبی زندگی کے ابتدائی دور میں میری تخالیق اس میں چھپتی بھی رہی ہیں۔ افسوس کہ زیر نظر شمارے میں آپ نے خسرو پرویز صاحب کی جو کہانی بعنوان’ پہلا شکار‘ شائع کی ہے۔ وہ میری منظوم کہانی ’ پہلا شکار‘ کا ہو بہو چربہ ہے۔ میری یہ منظوم کہانی ماہنامہ ماہتاب کان پور کی ۵۳ء کی کسی اشاعت میں آ چکی ہے۔ پرویز صاحب کی چند کہانیاں میری نظر سے گزری ہیں اور وہ اگر واقعی ان کی اپنی تخالیق ہیں تو ان کے مستقبل سے امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں لیکن یہ ’ پہلا شکار‘ والی حرکت اگر وہ بار بار دہراتے رہے تو ان کے مستقبل کا خدا ہی حافظ ہے۔ اس طرح تو وہ بہت بدنام ہوں گے۔ مجھے اس قلیل سی مدت میں ادبی دنیا میں جو شہرت یا بدنامی نصیب ہوئی ہے اسی سے میرا دل نشر و اشاعت سے بھر چکا ہے۔ میرے پاس اور بھی بہت سی غیر مطبوعہ کہانیاں پڑی ہیں اگر خسرو پرویز صاحب چاہیں گے تو وہ کہانیاں انھیں بھیج دوں گی تاکہ وہ محنت کیے بغیر پرچوں میں اپنا نام بھی دیکھ سکیں اور بد نام بھی نہ ہوں۔

چلیے اسی بہانے آپ کی خیر و عافیت تو معلوم ہو جائے گی۔ عرصہ ہوا آپ نے مجھے فراموش کر رکھا ہے۔                                     آپ کی بہن

عنبرؔ چنگیزی

کاشانہ۔ موتیا پارک۔ بھوپال

۲۳؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء

محترمہ عنبر چنگیزی صاحبہ! نیک خواہشات

عیسیٰ دہلوی نے آپ کا خط مجھے بھیج دیا تھا۔ آپ کی شکایت اور اعتراض پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ میری نظر سے آج تک ماہنامہ ’’ ماہتاب‘‘ اور آپ کی کہانی ’’ پہلا شکار‘‘ نہیں گزری اور میں آپ کی کہانی یا منظوم کہانی پڑھے بغیر آپ کی خوش فہمی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ میرے ہی گھر کا ایک واقعہ تھا جسے کہانی کا روپ دے کر ماہنامہ نگینہ میں اشاعت کے لیے بھیج دیا تھا۔ آپ کی منظوم کہانی اور میرے افسانے میں اگر کوئی مناسبت ہو بھی تو وہ بالکل اتفاقی ہے مجھے آپ کے اس مضحکہ خیز الزام پرہنسی بھی آئی اور حیرت بھی ہوئی کہ آپ جیسی روشن خیال ادیبہ بھی اتنی پست ذہنیت کی بات کر سکتی ہے۔ بہر کیف میرے افسانے ’پہلا شکار‘ کا مرکزی خیال حقیقت پر مبنی تھا۔ اب بھی اگر آپ کسی غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا رہیں تو پھر کسی کو کیا اعتراض۔ شوق سے مجھے بدنام کرنے کی کوشش ناکام کرتی رہیے۔ میری طرف سے اجازت ہے۔

آپ نے عیسیٰ بھائی کو لکھا ہے ’’ پرویز صاحب چاہیں گے تو میں اپنی غیر مطبوعہ کہانیاں انھیں بھیج دوں گی تاکہ وہ پرچوں میں اپنا نام بھی دیکھ سکیں اور بدنام بھی نہ ہوں۔ ‘‘ اس عنایت کے لیے آپ کا بے حد شکریہ۔ لیکن عنبر صاحبہ! وہ غیر مطبوعہ افسانے آپ ہی کو مبارک۔ تاکہ آپ کی ایک ہی تخلیق مختلف پرچوں میں بیک وقت شائع ہو کر مدیران کو آپ سے ناراضگی کا موقع نہ دے۔

مجھے افسوس ہے کہ چند افسانے لکھنے کے بعد خود کو ملک کی مایۂ ناز ادیبہ سمجھنے والی عورتیں دوسروں کے جذبات کا خیال کرنا بھول جاتی ہیں اور ایسے بے بنیاد الزام لگا بیٹھتی ہیں۔ عنبر صاحبہ! میں کوشش کروں گا کہ مجھے کہیں سے ماہنامہ ’’ ماہتاب‘‘ کانپور کا وہ شمارہ مل جائے جس میں آپ کی منظوم کہانی شائع ہوئی ہے۔ پڑھنے کے بعد ہی میں آپ کی بات پر یقین کر سکوں گا۔

اگر آپ کو میری دوسری کہانیوں پر بھی اعتراض ہو یا آپ کو گمان گزرے کہ وہ آپ کے کسی افسانے کا عکس ہیں تو ضرور لکھیے گا میری راہ ان خواتین سے الگ ہے جو اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھنا بھول جاتی ہیں۔

خلوص آگیں : خسرو پرویز۔ ایم۔ اے

قصر جمیل۔ گولی پورہ نصیر پور

۲۹؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء

پرویز!

کوشش کے باوجود صاحب قسم کا کوئی دم چھلا تمھارے نام کے ساتھ بطورِ القاب نہ لگا سکی۔ ادبی طور پر سہی لیکن نہ جانے کیوں مجھے کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تم عمر میں مجھ سے چھوٹے ہو اور ویسے بھی میں روایات و رسوم کی کبھی پابند نہیں رہی خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔

تمھارا پیش نظر خط تمہاری بوکھلائی ہوئی ذہنیت کا غماز ہے۔ تمھارے افسانے سے میری منظوم کہانی کی مطابقت اتفاقیہ بھی ہو سکتی تھی لیکن چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق جس طور پر تم نے اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ عذر گناہ بد تر از گناہ کا بہترین نمونہ ہے۔ میرے پاس اپنی اس منظوم کہانی کا تراشہ ہے لیکن براہِ راست تمھارے لیے بھیج دیا تو بلا تکلف اسے ضائع کر دو گے۔ اور ’ ماہتاب‘ کوئی کثیر الاشاعت پرچہ بھی نہ تھا اس لیے وہ خاص شمارہ جس میں یہ منظوم کہانی شائع ہوئی تھی آسانی سے دستیاب بھی نہ ہو سکے گا۔ اس لیے افسوس ہے کہ تمھاری تسکین کی خاطر میں تراشا بھیج نہ سکوں گی البتہ یوں ہو سکتا ہے کہ تمھارے یہاں بھوپال میں میری ایک سہیلی شبابؔ لکھنوی کسی مقامی کالج میں لکچرر ہیں، میں زیر بحث تراشہ انھیں بھیج دوں اور وہ تمھیں دکھلا دیں کہ ’پہلا شکار‘ در اصل میری مطبوعہ منظوم کہانی ہے جسے تم نے صرف نثر میں منتقل کر کے اپنے نام سے چھپوا لیا ہے۔

لڑکے! تم ابھی اتنے بڑے افسانہ نگار نہیں ہو سکے کہ میں تمھاری کسی تخلیق کو اپنی ذات سے منسوب کر کے کوئی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کروں۔ بات تو بھونڈی سی ہے لیکن تمھیں بتلا دوں کہ قلیل سے عرصے میں میں نے سیکڑوں افسانے، بیسیوں ڈرامے اور بے شمار غزلیں لکھی ہیں اور ایک وقت تھا جب ہند و پاک کے ہر معیاری پرچے میں عنبر چنگیزی کی کوئی نہ کوئی تخلیق ضرور شریک اشاعت ہوتی تھی۔ اگر کچھ پیسے خرچ کر سکو تو میں ان پبلشروں کے پتے بھی بھیج دوں جنھوں نے میرے ناول اور افسانوں کے کئی مجموعے شائع کیے ہیں۔

میں نے کوشش کی ہے کہ تمھیں نرم سے نرم الفاظ لکھ سکوں۔ در اصل مجھے تم میں ذہانت کے آثار نظر آئے تھے اور میں چاہتی تھی کہ تم آسمانِ ادب پر آفتاب بن کر چمکو میں خود کو ملک کی مایۂ ناز ادیبہ تو خیر نہیں سمجھتی اب تک میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ منزل کی ہلکی سی نشاندہی ضرور کرتا ہے بہر حال منزل ابھی کوسوں دور ہے ( اور اردو ادب میں مل بھی کتنوں کو سکی ہے) بہر حال تم جو یہ خط پڑھ کر مجھ پر کَھول رہے ہو گے بہت ممکن ہے اگر سلجھی ہوئی باتیں کرو تو میرے تعاون سے نمایاں ترقی کر جاؤ۔

بقول تمھارے ملک کی مایۂ ناز ادیبہ

چنگیزی ( مڈل فیل!)

کاشانہ، موتیا پارک۔ بھوپال

۱۵؍ نومبر ۱۹۶۱ء

عنبر صاحبہ! خلوص و محبت

آپ کا نشتر کی نوک سے زیادہ نرم خط پڑھ کر چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اگر یہ آپ کے نرم سے نرم الفاظ ہیں تو خدا جانے آپ کے سخت الفاظ کیا قیامت ڈھائیں گے۔ بہر حال آپ کی ایک غلط فہمی دور کر دوں۔ کوئی شخص اگر ادبی میدان میں نو وارد ہے یا نسبتاً اس نے آپ کے بعد لکھنا شروع کیا ہو تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ عمر میں بھی آپ سے چھوٹا ہو گا۔ میں نے ماہنامہ ’’ ساغر‘‘ لکھنؤ کے کسی خاص نمبر میں آپ کے خود نوشت حالات زندگی پڑھے تھے جس کے مطابق آپ اس وقت زیادہ سے زیادہ چوبیس سال کی ہوں گی جب کہ میں عمر میں آپ سے چھ سال بڑا بیٹھتا ہوں۔ اسی پرچے میں آپ کی ایک تصویر بھی شائع ہوئی تھی جو نہ جانے کیوں اب تک میرے پاس محفوظ ہے۔ آپ کے افسانے ہمیشہ خصوصی توجہ کے ساتھ پڑھتا رہتا ہوں اور مجھے ادبی طور پر آپ کی برتری کا اعتراف ہے لیکن خواہ آپ وہ تراشا بھیج بھی دیں۔ ( جسے دیکھنے کی مجھے قطعی خواہش نہیں ہے) اور واقعی وہ منظوم کہانی جو آپ نے لکھی تھی میرے افسانے سے سو فیصدی مطابقت بھی رکھتی ہو، تب بھی میں اسے اتفاقی مطابقت ہی کہوں گا بخدا وہ افسانہ ہمارے گھر میں گزرے ہوئے واقعہ کی بنیاد پر لکھا گیا تھا۔

جہاں آپ نے اپنی ادبی برتری کی بات چھیڑی ہے مجھے آپ سے سو فیصدی اتفاق ہے مجھے اردو ادب کو ذریعہ معاش بنا کر آگے بڑھنے کی قطعی خواہش نہیں ہے نہ ہی کوئی عقلمند آدمی ایسی بات سوچ سکتا ہے۔ البتہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات سے آپ کی پست ذہنیت کا ثبوت ضرور ملتا ہے۔ مجھے ضرورت نہیں ورنہ اس بحث کرنے والی ’’ عصمت چغتائی‘‘ کو اپنے نام آئے ہوئے انگریزی ہندی اور اردو ماہناموں کے مدیران کے بہت سے خطوط بھیج کر خود کو کرشن چندر ثابت کرنے کی کوشش کرتا لیکن مجھے اپنی ملازمت، تعلیم اور ذمہ داریوں سے اتنی فرصت نہیں کہ فضول مباحث میں الجھتا پھروں۔

میرے ایک دوست نے مشورہ دیا تھا کہ میں آپ کو مختصر سا جواب بھیج دوں پھر بھی نہ جانے کیوں میں اتنا کچھ لکھ گیا۔ تلخ نوائی کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ دکھ چہرے سے ابھر آتے ہیں۔ شومیِ قسمت کہ میں نے آ پ کا خط چند دوستوں کو دکھایا تھا، جو اب اکثر آپ کا حوالہ دے کر مجھے چھیڑتے رہتے ہیں۔ خدا کے لیے اب بحث کو ختم کیجیے۔ میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ آئندہ آپ خسرو پرویز کا نام کسی پرچہ میں نہ دیکھیں گی!

مخلص: خسرو پرویز

باٹا اسٹور گول بازار۔ رانچی

۲۰ نومبر ۱۹۶۱ء

عزیزہ عنبر چنگیزی! دعائیں

تمھارا ۳۰؍ اکتوبر کا خط کل ۱۹؍ نومبر کو مجھے ملا اس لیے جواب میں تاخیر کا الزام مجھ پر عائد نہیں ہوتا۔ حال کیا پوچھتی ہو!’’ ماہتاب‘‘ ۱۹۵۳ء میں کافی خسارہ دے کر غروب ہو گیا تھا۔ بہت دنوں تک کانپور ہی میں بھٹکتا رہا پھر قسمت ادھر لے آئی اور اب جوتوں کی دکان سجائے بیٹھا ہوں۔ بہر حال سابق مدیر ماہنامہ ماہتاب بہ حیثیت منیجر باٹا شوز اسٹور مالی اعتبار سے زیادہ خوشحال ہے!

تمھاری منظوم کہانی ’ پہلا شکار‘ کے سلسلے میں زیادہ تفصیل مجھے معلوم نہیں پُرانے خطوط اور مسودات تو میں کانپور ہی سے نذرِ آتش کر کے چلا تھا بہر حال ماہتاب کے ۵۳ء کے فائل سے مارچ کا شمارہ نکال کر بھیج رہا ہوں جس میں تمہاری زیر بحث کہانی شائع ہوئی تھی اس طرح کچھ دنوں کے لیے ماہتاب کی فائل نامکمل تو ضرور ہو جائے گی لیکن مجھے یقین ہے تم مطالعہ کے بعد یہ پرچہ مجھے رجسٹری سے واپس بھیج دو گی تاکہ جب کبھی اپنی سابقہ حماقتیں یاد کرنے بیٹھوں تو سلسلے کی کوئی کڑی ٹوٹی ہوئی نہ رہ جائے میرے لیے کوئی اور خدمت ہو تو بلا تکلف لکھنا کیوں کہ یہ میں رسماً ہرگز نہیں لکھ رہا ہوں۔

تمھارا بھائی۔ آنند کمار شیدا

سابق مدیر ’’ ماہتاب‘‘

اکاؤنٹ سیکشن ڈی۔ پی۔ آفس سیتا پور

۲۱؍ نومبر ۱۹۶۱ء

مائی ڈیئر خسرو۔ بہت سے پیار

کئی دن بعد تمھارا خط ملا۔ مفصل حالات معلوم کر کے طبیعت خوش ہو گئی۔ اس چھوکری عنبر چنگیزی نے تمھاری چولیں ڈھیلی کر دی ہیں۔ یہ جان کر بخدا مجھے بیحد مسرت ہوئی ہے۔ تم سالے اپنے آگے کسی کی چلنے نہیں دیتے اب سیر کو سوا سیر مل گئی ہے۔ مزا آ جائے گا۔ تم نے میری محبوبہ کی قسم دلا کر پوچھا ہے اس لیے جھوٹ بولنے کی گنجائش نہیں رہ گئی ورنہ ما بدولت کا مقولہ ہے ’جھوٹ بولو اور خوش رہو۔ ‘ہاں تو وہ واقعہ جو میں نے پچھلی گرمیوں کی تعطیلات میں تمھارے گھر بیٹھ کر سنایا تھا، در اصل قطعی فرضی تھا۔ میں نے اس سے دو تین دن قبل ہی موپاساں کی ایک کہانی پڑھی تھی اور اس کے ہیرو کی جگہ اپنا نام رکھ کر محض تمہیں مرعوب کرنے کے لیے سنا آیا تھا۔ مجھے کیا معلوم تھا تم بھی اسے افسانہ بنا ڈالو گے۔ کہو مزا آ گیا نا۔

اور کہو۔۔ ؟ کیسی گزر رہی ہے؟ والد بزرگوار کے مزاج کیسے رہتے ہیں آج کل؟ ممکن ہوا تو موسم سرما میں رخصت لے کر بھوپال آؤں گا۔ اچھا اب اجازت۔

تمھارا ہی: عزیز قریشی

قصرِ جمیل۔ گولی پورہ نصیر پور

۲۹؍ نومبر ۱۹۶۱ء

میری پیاری شباب! اللہ کرے زور شباب اور زیادہ!

تم کہو گی آج عنبر نے اتنے دنوں بعد اچانک کیسے یاد کیا۔ در اصل ڈیر! میں ان دنوں بڑے عجیب حالات سے دوچار ہوں۔ تمہارے یہاں بھوپال میں موتیا پارک پر کوئی صاحب خسروپرویز نامی ہوا کرتے ہیں جنھوں نے حال ہی میں افسانہ نگاری شروع کی ہے۔ ان کا ایک افسانہ ’’ پہلا شکار‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ نگینہ نئی دہلی میں دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ میری منظوم کہانی کا چربہ ہے جو آج سے آٹھ نو سال پہلے ماہنامہ ماہتاب کانپور میں چھپ چکی تھی۔ میں نے حضرت کو سرقہ کا ملزم گردانتے ہوئے ایک سخت خط لکھا تھا وہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے بمصداق مجھ پر چڑھ دوڑے۔ اب تک مجھے مدیروں اور قارئین کے خوشامدانہ اور تعریفی خطوط ہی ملتے رہے ہیں جو میز پر کھلے پڑے رہتے تھے۔ والدین اور اعزا کو اجازت تھی کہ وہ ان خطوط کو دیکھ کر محسوس کریں کہ دنیا ان کی بیٹی کو کامیاب شاعرہ اور افسانہ نگار مانتی ہے لیکن ہوا یوں کہ خطوط کے انبار میں بھائی جان نے تمھارے خسرو پرویز صاحب کا وہ خط بھی دیکھ لیا اور اسے پڑھنے والے ہی تھے کہ اچانک مجھے خیال آ گیا کہ خسرو صاحب نے مجھے اس خط میں کس گستاخانہ لہجے میں مخاطب کیا ہے۔ میں نے وہ خط ان کے ہاتھ سے چھین لیا اور خسرو پرویز کے خطوط کے بارے میں ملازمہ کو سختی سے ہدایت کر دی کہ بغیر کھولے اور پڑھے ہوئے مجھ تک پہنچا دیے جائیں۔ اتنی سی بات غضب ہو گئی۔ گھر میں نہ جانے کب سے کھچڑی پکتی رہی۔ سب یہ سمجھے کہ اس خط و کتابت کے آڑمیں ہمارا رومان پروان چڑھ رہا ہے اسی لیے خفیہ تفتیش شروع ہو گئی۔ خسرو پرویز کی قابلیت خاندان اور چال چلن کے بارے میں معلومات بہم پہنچائی گئیں۔ ان کے والد ہمارے ابو جان کے دوست نکل آئے جن کے توسط سے تقریباً تمام معاملات طے ہو گئے ہیں۔ ابّو مجھ سے اس شادی کے بارے میں رضامندی چاہتے ہیں سمجھ میں نہیں آتا۔ تم وہاں بھوپال میں ہو ذرا ان حضرت کو قریب سے دیکھ کر لکھو کہ وہ اتنے ہی سخت تو نہیں جتنا اپنے خطوط میں نظر آتے ہیں۔ میں اتنی پاگل کہ انھیں پہلے تو بالکل بچہ ہی سمجھتی رہی۔

اس سلسلے میں ابھی ایک لطیفہ اور سنو۔ ’پہلا شکار‘ کے بارے میں بحث اتنی طویل ہو جانے کے بعد اب جو شیدا صاحب نے مارچ ۱۹۵۳ء کا پرچہ بھیجا ہے تو دیکھتی ہوں کہ ’ پہلا شکار‘ کے ساتھ تو نہیں البتہ ایڈیٹوریل میں میرا یہ اعتراف موجود ہے کہ ’ پہلا شکار‘ کا بنیادی خیال موپاساں کے ایک افسانہ سے ماخوذ ہے۔ بات کافی پرانی تھی اور تراشہ جو میرے پاس موجود تھا اس پر کاتب صاحب کی عنایت سے ایسا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا تھا اس لیے یہ معاملہ اٹھ کھڑا ہوا! میں نے بے چارے خسرو پرویز کو ناحق ہی لتاڑ دیا۔ ویسے تم ان کے بارے میں تمام تفصیلات مجھے جلد لکھو کیونکہ میری آئندہ زندگی کا سوال ہے۔

اپنے ان کو میرا آداب کہو

تمھاری اپنی

عنبرینہ

(۱۹۶۲ء)

٭٭٭

 

 

 

 

واپسی

 

ان حالات میں اس کی غیر متوقع آمد پر سبھی حیران تھے۔

اور حیرت کی بات بھی تھی۔ شیلا جیسی لڑکی جس کا کوئی اور سہارا نہ تھا، اپنی سسرال سے یوں لڑکر چلی آئی جیسے صبح کا بھولا شام کو گھر آیا ہو۔ اچھا خاصہ کھاتا پیتا گھرانہ تھا۔ شوہر میں بھی ایسی کوئی خاص بُرائی نہ تھی۔ متوسط خاندان کی سندھی لڑکیوں کی طرح اُسے بھی اپنے سسرال میں خوش رہنا چاہیے تھا لیکن وہ تھی کہ لڑ بھڑ کر پھر واپس آ گئی اور سیٹھ جھومر مل کی چھاتی پر بوجھ بن گئی۔

سیٹھ جھومر مل اُسے پشاور سے اپنے ساتھ لائے تھے وہ ان کے پڑوسی آسن داس کی اکلوتی لڑکی تھی۔ ۱۹۴۷ء کے فساد میں اس نے اچانک اپنے آپ کو دنیا میں یکّہ و تنہا محسوس کیا اور سیٹھ جھومر مل کی پناہ میں آ گئی جو اسے اپنے دونوں بیٹوں سندر لال اور سوہن داس کے ساتھ لے کر ناگ پور چلے آئے حالانکہ ان کے بیٹوں نے دہلی میں قیام کے لیے بہت ضد کی تھی لیکن جھومر مل ہوا کا رُخ پہچانتے تھے۔ اس زمانے میں ہر شرنارتھی ناک کی سیدھ میں نکلتا تھا اور دلی جا پہنچتا تھا چنانچہ یہ ان کی اسی عاقبت اندیشی کا نتیجہ تھا کہ اس وقت وہ اپنے بہت سے ہمسفر تاجروں کو جو دلی میں مقیم تھے، مالی حیثیت میں پچھاڑ چکے تھے۔ لیکن سندر لال اور سوہن کی وہ دلّی والی خواہش اب تک اپنی جگہ قائم تھی۔

تذکرہ شیلا کے سسرال سے لڑ بھڑ کر واپس آ جانے کا تھا۔ شروع میں جب جھومر مل اسے اپنے ساتھ ناگپور لائے تھے، انھیں اس بات کا قطعی احساس نہ تھا کہ کتنی بڑی ذمہ داری اپنے سر لے رہے ہیں۔ کنبے میں گیارہ سال کی ایک لڑکی کا اضافہ کوئی زیادہ پریشان کن بات بھی نہ تھی جب کہ سندر کی ماں بھی فسادات کی نذر ہو چکی تھی اور گھرکا کام کاج سنبھالنے کے لیے صنف نازک کی موجودگی ضروری تھی۔ لیکن جب پانچ سال بعد ہی لڑکی نے ہاتھ پیر نکالنے شروع کیے تو جھومر مل کو کچھ تشویش پیدا ہوئی اور یہ تشویش تین سال بعد پریشانی میں تبدیل ہو گئی کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کا بڑا لڑکا سندر دن رات شیلا کے چکر میں رہتا ہے اور پھر اچانک ایک دن ان کو ایک عجیب بات معلوم ہوئی۔ کار و بار کی فکر میں غلطاں وہ اپنے پلنگ پر کروٹیں بدل رہے تھے کہ رات کے تقریباً ڈیڑھ بجے انھیں بازو کے کمرے میں سندر کی آواز سنائی دی جو بیحد جذباتی انداز میں خالص اردو کے ڈائیلاگ بول رہا تھا۔ جھومر مل نے اپنے کان کھڑے کر لیے۔ تھوڑی دیر بعد انھیں شیلا کی آواز سنائی دی لیکن ان کی سمجھ میں صاف صاف کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے؟ شاید اس نے سندر کو دلی کی سیر کرانے سے انکار کر دیا تھا اس کا کہنا تھا کہ شادی کے بعد ہی وہ سندر کو دلی کی سیر کرا سکے گی۔

جھومر مل رات تین بجے تک شیلا اور سندر کے دلی کی سیر کے تعلق کے بارے میں سوچتے رہے لیکن ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ دوسرے دن صبح ہی انھوں نے سندر کو بلا کر سختی سے پوچھا۔

’’ تمھیں پھر دلی کی سیر کی سنک سوار ہوئی ہے؟‘‘

سندر نے برجستہ کہا۔ ’’ باپو! میں شیلا سے شادی کرنا چاہتا ہوں !‘‘

کتنا بے تعلق سا جواب تھا۔ جھومر مل لڑکے کی بے باکی اور بے حیائی سے زیادہ اس جواب کے نرالے پن سے متعجب ہوئے لیکن انھوں نے دیکھا کہ لڑکا پانچ کے بجائے سو کا نوٹ طلب کر رہا ہے تو کچھ نرم پڑے۔

’’ دیکھو سندر! ‘‘انھوں نے ملائمت سے سمجھایا۔ ’’ تم لوگ اگر اسی طرح فضول خرچی کرتے رہے تو تجارت کا کیا حال ہو گا؟ تمھارا چھوٹا بھائی سوہن بھی ہمیشہ دلّی کی سیر کی رٹ لگائے رہتا ہے اور تمھارے دماغ پر بھی وہی خبط سوار ہے۔ میں تمھیں صرف سو روپیہ دلی کی سیر کے لیے۔ لیکن۔۔ ‘‘

لیکن پِتا جی! ’’ سندر نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’ شیلا سے شادی کے بغیر دلّی کی سیر ناممکن ہے اور میں سوہن کو ساتھ بھی نہیں لے جاؤں گا۔ ‘‘

’’ یہ آخر شیلا کی شادی سے دلّی کی سیر کا تعلق کیا ہے؟‘‘

سندر نے گردن جھکا کر شرماتے ہوئے کہا۔

’’ آپ کی سمجھ میں یوں نہیں آئے گا اور مجھے صاف صاف بتلاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ‘‘ حالات کا اندازہ لگا کر جھومر مل نے غصے کو برداشت کرتے ہوئے کہا۔

’’ شیلا تمھاری بہن کے سمان ہے برادری والے اس شادی پر طرح طرح کی حاشیہ آرائیاں کریں گے۔ بہر حال میں اس بارے میں سوچوں گا۔ فی الحال تم یہ سو روپے لو اور شام کی گاڑی سے دلّی چلے جاؤ۔ نانا جی کے یہاں قیام کرنا اور جی بھر کر گھوم لینا دلّی، میں بار بار نہیں بھیجوں گا۔ ‘‘

ادھر سندر لال دلّی کے لیے روانہ ہوا اِدھر جھومر مل نے شیلا کے لیے بَر تلاش کرنا شروع کر دیا۔ ٹوپن ایک اچھا لڑکا تھا، جس کے پِتا سے ان کے تجارتی تعلقات تھے۔ چٹ پٹ تمام معاملات طے پائے اور سندر لال کی دلّی سے واپسی کے تین دن قبل ہی شیلا اپنی سسرال چلی گئی۔

سندر لال واپس آیا تو باپ کی چالا کی سمجھ میں آئی۔ اپنا سر پیٹ کر رہ گیا اب زیادہ اٹھا پٹک کر نا بے کار تھا۔ کچھ دن چڑچڑا اور مضمحل سا رہا پھر تجارت کی مصروفیات میں الجھ کر شیلا کو بھول سا گیا۔

اور اب دو سال بعد شیلا اپنی سسرال والوں سے لڑ بھڑ کر پھر جھومر مل کی چھاتی پر مونگ دلنے کے لیے آ گئی تھی۔ سبھی حیران تھے۔ سندر لال کی حیرانی میں مسرت کا امتزاج بھی تھا۔ اسی رات کو شیلا جھومر مل اور سوہن داس کی آنکھ بچا کر سندر کے کمرے میں آئی تو اس نے اسے پیار سے بغل میں بٹھلا کر اس اچانک واپسی کا سبب پوچھا۔

’’ کوئی خاص بات نہیں۔ ‘‘ شیلا نے کہا۔ ’’ وہ حرامی ٹوپن، میرا پتی، جب بھی میرے ہونٹ چومنے کی کوشش کرتا تھا۔ میں اسے روک دیتی تھی، روز پوچھتا تھا میری اس حرکت کی وجہ کیا ہے، میں ٹال جاتی تھی۔ ایک دن جب بہت ضد کرنے لگا تو میں نے کہہ دیا کہ میرے جسم کے ساتھ تو اس کی شادی ہوئی ہے اور وہ اس کنوارے جسم کو جس طرح چاہے استعمال کر سکتا ہے لیکن میرے ہونٹ سندر لال یعنی تمھارے بوسوں سے منسوب ہیں۔ اور انھیں میں کسی دوسرے کو چومنے نہیں دوں گی۔ ‘‘

’’ پھر کیا ہوا۔ ؟‘‘

سندر لال نے اسے بھیچ کر ہونٹ چوم لیے۔

’’ پھر اس نے مجھے مارا، گالیاں دیں۔ ‘‘ شیلا بولی۔ ’’میں نے بھی اُسے گالیاں دیں، اس کے منہ پر تھوک دیا اور یہاں چلی آئی۔ ‘‘

’’ تم نے بہت اچھا کیا۔ ‘‘ سندر لال نے ایک بار پھر اس کے ہونٹ چومے۔ ’’ اور اب تم اطمینان سے پیر پھیلا کر لیٹ جاؤ۔ ‘‘

’’کیوں ۔۔ پھر دلّی کی سیر کا ارادہ ہے کیا۔ ‘‘

سندر لال نے جھینپتے ہوئے تائید میں گردن ہلائی تو شیلا اس کا ہاتھ چھڑا کر بھاگ گئی۔ دوسری رات کو جب سندر نے پھر دلی کی سیر کی بات چھیڑی تو شیلا نے اپنے بلاؤز میں سے پانچ کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں ٹھونس دیا۔۔

’’ لو کسی طوائف کے یہاں جا کر دلّی کی سیر کر لینا۔ ‘‘

سندر لال کا سر چکرا گیا۔ کتنی عجیب سی چھوکری ہے۔ میرے لیے اپنے پتی سے لڑ کر آئی ہے اور میرے ہی ساتھ ایسی حرکتیں کرتی ہے، آنے دو کل رات کو، دو ٹوک بات کروں گا۔

لیکن دوسری رات شیلا اس کے کمرے میں نہیں آئی۔ وہ سمجھا شاید لڑکی اس سے ناراض ہے لیکن اس سے اگلی رات کو شیلا کی آمد نے یہ بد گمانی دور ردی۔ وہ اس سے اسی خلوص کے ساتھ بغل گیر ہوئی۔ سندر لال نے ایک رات کی غیر حاضری کاسبب پوچھا تو اس کی آنکھ میں نمی سی آ گئی۔

’’ تم جو دلّی کی سیر والی بات چھیڑتے ہو نا، وہ مجھے اچھی نہیں لگتی۔ اب کبھی ضد کرو گے تو میں کبھی نہیں آؤں گی تمھارے پاس۔ ‘‘

سندر لال نے سوچا ابھی دو ٹوک بات کرنے سے یہ لڑکی بدک جائے گی۔ اس رات بھی وہ صرف اس کے ہونٹ چومتا رہا۔

لیکن اس کے بعد والی رات کے واقعہ نے تو اس کے تن بدن میں آگ سی لگا دی۔ وہ شیلا کی آمد کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک اسے اپنے باپ جھومر مل کے کمرے میں آہٹ سی سنائی دی۔ پہلے تو اس نے کوئی دھیان نہیں دیا لیکن ایک مسلسل چرمراہٹ اور چوڑیوں کی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کر ہی لیا۔ وہ دبے پاؤں جھومر مل کے کمرے کے سامنے پہنچا اور دروازے کی جھری میں جھانکنے لگا۔ نہ جانے کیوں اسے اپنی جغرافیہ کی کلاس یاد آ گئی، دیکھتا کیا ہے کہ شیلا کا برہنہ جسم اس کے باپ کی مسہری پر ہندوستان کے نقشہ کی طرح پھیلا ہوا ہے اور جھومر مل اس میں دلّی تلاش کر رہا ہے۔ پہلے تو سندر لال کے جی میں آئی کہ ابھی بندوق سے دونوں کا صفایا کر دے لیکن پھر یہ سوچ کر رہ گیا کہ کل رات کو شیلا سے اکیلے میں نمٹ لے گا۔

دوسری رات کو شیلا اس کے کمرے میں آئی تو سندر لال نے بغیر کچھ پوچھے ہوئے اس کے بال پکڑ کر گالوں پر دو تھپڑ لگائے اور اس سے قبل کے سندر لال کوئی اور حرکت کرتا۔ شیلا سوہن کے کمرے میں آہٹیں پیدا ہوتی سن کر بھاگ گئی۔

اس سے اگلی رات کو سندر لال پر دوسرا ایٹم بم گرا۔ اس رات اس نے چھپ کر اپنے چھوٹے بھائی سوہن کو شیلا کے ساتھ۔۔ دیکھا سوہن داس عمر میں شیلا سے کم از کم پانچ سال چھوٹا تھا اور فساد میں اس کی ایک آنکھ بھی ضائع ہو گئی تھی۔ سندر لال کو یہ سوچ کر بے تحاشا غصہ آیا کہ شیلا ایک بوڑھے اور ایک کانے چھوکرے کواس پر ترجیح دیتی ہے۔

اس کے بعد سندر لال کی کئی راتیں ویران گزریں۔ آخر ش تنگ آ کر ایک دن وہ خود ہی شیلا کے کمرے میں جا گھسااور اسے بری طرح زد و کوب کرنے کے بعد اس نے اپنے باپ اور بھائی کا حوالہ دے کر شیلا سے تمام واقعات کی وضاحت طلب کی۔

شیلا جو اب تک گھٹنوں میں سر دیے چپ چاپ سسک رہی تھی، یکلخت اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ تم بھی دلّی کی سیر کرنا چاہتے ہو۔ ‘‘ اس نے دانت پیس کر سندر لال سے کہا۔ ’’یہ لو۔۔ یہ لو۔۔ ‘‘

یکے بعد دیگرے بلاؤز، ساری اور پیٹی کوٹ کونے میں جا گرے اور پلنگ پر اس کا جسم پھیل گیا۔

دس منٹ بعد شیلا جھپٹ کر چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئی اس نے سندر لال کی طرف شعلہ بار نظروں سے گھورتے ہوئے اپنے کپڑے زیب تن کیے اور دروازے کی طرف بڑھی لیکن جاتے جاتے وہ اچانک پلٹ پڑی اور سندر لال کا گریبان پکڑ کر چیخنے لگی۔

’’ اب چین آ گیا تمہیں ۔۔ ؟ تمھارا باپ مجھے سسرال واپس بھیجنے کی کوشش کر رہا تھا اس لیے اور تمہارا بھائی ہم دونوں کے تعلق کو طشت از بام کرنے کی دھمکی دیتا تھا اس لیے مجھے ان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بننا پڑا، محض اس لیے کہ مجھے تم جیسے کمینے آدمی کے قریب رہنے دیا جائے۔ لیکن آج مجھے معلوم ہوا کہ تم سب مرد ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے ہو۔ باتیں سب لمبی چوڑی کرتے ہیں لیکن ٗمحبت اور ہوس میں تمیز کسی کو نہیں۔ میں نہیں جانتی تھی کہ تم بھی صرف جنس کے غلام ہو، جاؤ کہہ دو اپنے باپ سے کہ شیلا سسرال جا رہی ہے۔

اور دوسرے دن وہ اپنی سسرال سدھار گئی۔

(۱۹۵۹ء)

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید