FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

دیدۂ حیراں۔۲

 

کلیات بھولی بسری کہانیاں کا حصہ چہارم

 

 

                مظفّرؔ حنفی

 

تہذیب و تدوین:فیروزؔ مظفر

 

 

 

 

بجھتے دیے۔ ابھرتے تارے

 

 

اوپر کالے کالے ہیبت ناک بادلوں سے ڈھکا ہوا آسمان ہے۔ گھنیرے بادل یکلخت گرج پڑتے ہیں بجلی رہ رہ کر کوندتی ہے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے فطرت بھی سنگدل ہے اور مجھ پر نا مہربان۔ بادلوں کی کڑک اس کے قہقہے ہیں اور پیلے کنکھجورے کی طرح لپک جانے والی بجلی ان قہقہوں کے درمیان کالے کالے ہونٹوں کے بیچ میں سے دکھائی دے جانے والی مکروہ دانتوں کی جھلک ہے اور ایک لمحے کے لیے آنکھوں کو چوندھیا دینے والی اس تابانی کے بعد ماحول پر اندھیرے کی ایک اور تہہ چڑھ جاتی ہے۔ تاریکی اور دبیز سی ہو جاتی ہے۔ پھر وہی اندھیرا۔

اندھیرا۔ اندھیرا۔ اندھیرا

چاروں طرف گھٹنا ٹوپ اندھیرا

بجلی پھر کوندی۔

اوہ یہ میرے ذہن میں بھی بجلیاں سی کیوں کوندنے لگیں ؟ اُف یہ تو پیلے پیلے دانت ہیں۔ غلیظ اور بدبو دار مکروہ دانت!

گھپ!

پھر وہی سیاہ پردے ذہن پر سرک آئے۔

جیسے سوکینڈل پاور کا بلب غلطی سے جلا کر فوراً ہی بجھا دیا گیا ہو۔

ارے! یہ ان سیاہ پردوں کو سرکاتی ہوئی کون سی کالی بلا میرے وجود پر چڑھی چلی آتی ہے!۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ تو دولت رام ہے!

لو وہ بھی قہقہے لگانے لگا۔ سیاہ گوشت کے لوتھڑوں کی طرح موٹے موٹے کالے کالے ہونٹوں کے بیچ میں سے اس کے مکروہ دانت کسی خونخوار بھیڑیے کی مانند باہر نکل آئے۔ بجلیاں پھر کوندنے لگیں ۔۔ ۔۔ آہ ۔۔ ۔۔ ! آہ۔۔ ۔۔!

انھیں قہقہوں کی گرج اور دانتوں کی لپک نے میرے خرمنِ حیات کے ایک ایک دانے کو بھسم کر ڈالا۔

سکھ۔۔ ۔۔ چین۔۔ ۔۔ ۔۔ سکون۔۔ ۔۔ سبھی کچھ تو جھلس دیا۔۔ ۔۔

پھر وہی بجلی!۔۔ ۔۔

بند کرو یہ قہقہے۔ بھاگ جاؤ سالے یہاں سے! یہ میرا ذہن ہے تمھارے باپ کا گھر نہیں ہے۔۔ ۔۔ میں کہتا ہوں جاؤ۔۔ ۔۔ اب میرے پاس اور رہ ہی کیا گیا ہے۔ جسے مجھ سے چھین کر تم اپنی وزنی تجوری کو اب اور زیادہ وزنی بنانا چاہتے ہو! پِتا جی کو میری تعلیم پر صرف کرنے کے لیے جو روپیہ تم نے چوگنی شرح سود پر دیا تھا۔ اس کی پائی پائی تو تم ہماری آبائی جائیداد اور مکان بیچ کر وصول کر چکے ہو۔

اب اور کیا چاہتے ہو؟

کیا کہا۔۔ ؟

میری چھوٹی بہن ساو تری سے بیاہ کرنا۔۔ ۔۔ !

ہا ہا ہا۔۔ ۔۔

موٹے سیٹھ! وہ تو مسلسل فاقہ کشی سے تنگ آ کر اس تانگے والے کے ساتھ بھاگ گئی جو ہمارے پڑوس میں رہتا تھا۔

ہاں۔ تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔۔ ۔۔ اگر میں اس وقت اس کا بیاہ تمھارے ساتھ کرنے پر رضا مند ہو گیا ہوتا تو جائیداد نیلام پر نہ چڑھتی۔۔ ۔۔ نوکری کی تلاش میں مجھے شہر نہ آنا پڑتا۔ میری ساوتری یوں تانگے والے کے ساتھ نہ بھاگ جاتی اور پھر آج اس مہیب سنّاٹے اور ہولناک تاریک رات میں خود کشی کرنے کے ارادے سے میں اس پل پر نہ دکھائی دیتا۔

یہ تو سب ٹھیک ہے سیٹھ صاحب!

لیکن یہ سب باتیں تو اس وقت ممکن تھیں جب میں ساوتری کا بیاہ تمھارے ساتھ کر دیتا۔

تمھارے ساتھ جس سے میں نفرت کرتا ہوں ۔۔ ۔۔

کان کھول کر سن لو۔۔ ۔۔ میں بھگوان کی سوگند کھا کر کہتا ہوں اگر اس حالت میں بھی ساوتری میرے گھر میں ہوتی اور اس سے بدرجہا بیش قیمت پیش کش تم میرے سامنے رکھتے تب بھی میں تمھیں ٹھکرا دیتا۔

ہنستے کیا ہو۔۔ ؟

وہ ذلیل تانگے والا تم سے لاکھ درجہ بہتر تھا۔ ساوتری اسے پسند کرتی ہو گی تبھی تو اس کے ساتھ چلی گئی۔ تمھارے نام پر تو اسے قے آتی تھی۔

تم پھر ہنسے۔۔ بند کرو اپنی یہ منحوس ہنسی۔۔ بھاگ جاؤ۔ تم نہیں جاؤ گے!

ایں ۔۔ !

اچھا تو لو! میں بال پکڑ کر تمھارا سر اس پشتے سے ٹکرائے دیتا ہوں۔ لو ایک بار اور۔۔

کیوں ٹھیک ہو گئے دماغ آ گیا راستے پر!

اب کیوں بھاگ گئے؟

اُف۔۔ ۔۔ !

اتنی زور دار گرج اور نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی چمک!

اب تو کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا۔ سردرد کے مارے پھٹا جا رہا ہے اور یہ نمکین سی کیا چیز سر سے رس رس کر ہونٹوں تک آ رہی ہے۔ اُف۔۔ ارے۔۔ یہ تو خون ہے۔

یہ کیسے نکل آیا۔۔ ؟

اوہ۔۔ شاید میں نے اپنا ہی سر پشتے سے ٹکرا لیا۔

ہاں بس۔۔ یوں ٹھیک ہے۔

پشتے سے اس طرح سر کو ٹیک لینے سے کتنا آرام ملتا ہے؟

فضا کتنی تاریک ہے۔

جیسے ماحول پر گاڑھا گاڑھا سیاہ کاجل لیپ دیا گیا ہو۔۔ زمین سے آسمان تک۔

دور دور تک۔۔ تا حدِّ نگاہ۔ روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آئی۔

امید کے سارے دیے گل ہو چکے ہیں۔

بالکل میری قسمت کی طرح سارے جہان پر تاریکی کا غلاف چڑھا ہوا ہے۔

بھک!

ذہن یک لخت بقعۂ نور کیسے بن گیا۔ یہ بجلی کے قمقمے کس نے روشن کر دیے؟ اب دماغ دمک رہا ہے اور باہر فضا میں تاریکی ہی تاریکی ہے۔ پیروں کے نیچے پُل کا ٹھنڈا اور پتھریلا فرش ہے اور پُل کے نیچے تیزی کے ساتھ بہنے والی ندی سے گھڑگھڑاہٹ کا شور بلند ہو ہو کر کانوں سے ٹکرا رہا ہے۔

نہیں ۔۔ !

نہیں ۔۔ نہیں !

یہ گھڑگھڑاہٹ تو رائے بہادر دھنی رام کی مل میں چلنے والی مشینوں کی ہے۔

اُف یہ کیا ہو رہا ہے؟ ذہن کے پردوں کو چیرتا ہوا کون بڑھتا آ رہا ہے؟

کھٹ پٹ۔۔ ۔۔ کھٹ پٹ

گھڑر ۔۔ ۔۔ گھڑر ۔۔ ۔۔ گھرڑ

وہی بے ہنگم رفتار۔۔ ۔۔ گردن میں ویسا ہی خم۔۔ ۔۔ تیوریوں پر ہو بہو ویسے ہی بل۔ چال میں وہی تمکنت۔ ہے بھگوان! یہ تو رائے بہادر دھنی رام کی مِل کا جنرل منیجر ہے!

دیکھو منیجر!

میں آخری بار تم سے کہتا ہوں یہ ذلیل اور گھناؤنی حرکت مجھ سے نہیں ہو سکے گی۔ یہ تو سراسر مزدوروں اور مظلوموں، کلرکوں کو خون چوسنا ہے!

نہیں ۔۔ ۔۔ میں ایسے مکروہ اقدام کی جرأت نہیں کر سکتا۔ ہرگز نہیں !

لگاتار چار سالوں سے تم مزدوروں سے زیادہ وقت تک کام لیتے چلے آئے ہو اور اب جو مزدوروں کے مطالبے سے مجبور ہو کر گورنمنٹ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن مقرر کیا ہے تو تم اسے بھی غلط راستے پر ڈالنا چاہتے ہو۔۔ بہکانے کی کوشش کرتے ہو۔

میں اس کام میں تمھارا ہاتھ نہیں بٹاؤں گا۔ ان پانچ ہزار روپیوں کی لالچ میں دس ہزار مزدوروں کا گلا نہیں گھونٹوں گا۔ ان کی حق تلفی نہیں کروں گا۔

نہیں ۔۔ ۔۔ نہیں

یہ ہرگز نہ ہو گا مجھ سے۔ میں نہ ٹائم ریکارڈ میں تبدیلی کروں گا۔ نہ کمیشن کے سامنے اپنا بیان بدلوں گا، مجھے ہر حالت میں سچ کہنا ہے۔

واہ یہ کیسے ہو سکتا ہے!

میں اپنے ہاتھ سے ریکارڈ میں تبدیلی ہرگز نہیں کروں گا، بیان نہ بدلوں گا، خاموشی نہیں اختیار کروں گا۔ یہ بھی سراسر غدّاری ہو گی انسانیت سے۔

ناممکن!

تم میری زبان کوسچ بولنے سے باز نہیں رکھ سکتے کہ میرے بیان پر ہزاروں مزدوروں کی پُر امید نگاہیں جمی ہوئی ہیں۔ میں اُن کی امیدوں پر پانی نہیں پھیروں گا۔

تم ناجائز پانچ ہزار روپے دے کر ہزاروں مزدوروں کے لاکھوں کے جائز مطالبات سے سبکدوش ہونا چاہتے ہو۔۔ ہاں ہاں۔ ضرورت تو مجھے آج بھی ہے ان روپیوں کی۔ ساوتری اب بھی کنواری ہے۔ سچ کہتے ہو۔ میں دیہات سے یہاں آ کر بھوکوں مر رہا تھا۔ میں نے ملازمت کے لیے تمھارے سامنے ہاتھ پیر جوڑے تھے یہ سب سچ ہے۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس احسان کے بدلے میں میں اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ دوں۔

اور احسان کس بات کا؟ کیا میں نے ان پچاسی روپیوں کے بدلے جو تم ہر ماہ مجھے دیتے ہو، اپنا خون پسینہ نہیں ایک کیا۔

ہاں۔ مجھے دوبارہ اسی طرح در بدر پھرنا گوارہ ہے۔ لیکن تمھارے ان روپیوں پر تھوکنا بھی پسند نہیں۔ کیوں جان کھاتے ہو، ذلیل آدمی، اٹھاؤ اپنے کاغذ کے چیتھڑے۔ اب میں انھیں کیا کروں گا۔ ساوتری کا جہیز۔

آہا ہا۔ کیا تمھیں معلوم نہیں۔ ایک تانگے والے نے اسے جہیز کے بغیر ہی قبول کر لیا۔

اور! تمھارے لبوں پر یہ طنزیہ مسکراہٹ کیوں رقص کرنے لگی۔

لو۔ تم تو ہنسنے بھی لگے۔ کیا سمجھتے ہو اس طرح میں تمھارے ان نوٹوں کو قبول کر لوں گا۔ تمھارے قدموں پر اپنا سر جھکا لوں گا۔ اٹھاؤ یہ نوٹ!۔ ہٹاؤ۔

نہیں تو لو۔۔ میں خود ہی انھیں پھینکے دیتا ہوں۔

ہونھ۔ پانچ ہزار میں میرا ایمان خریدنے چلا تھا کمبخت!

اُف۔ آنکھیں تلملانے لگیں۔ بجلی اتنی زور سے چمک رہی ہے اور یہ کیا۔ یہ کاغذ کے ٹکڑے کیسے اُڑے جا رہے ہیں۔ لو وہ ندی میں جا پڑے۔

اور میرے سر ٹیفکیٹ کہاں گئے۔ خیر جانے دو۔۔ بیکار ہی تو تھے۔ ہر جگہ انھیں اعمال نامے کی طرح دکھاتے پھرنے کے بعد ہی مجھے کون سی نوکری مل گئی تھی۔ ہونہہ۔

آہ۔ !

ہچکیوں پر ہچکیاں آ رہی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے آنتیں اُلٹ کر باہر آ جائیں گی۔ پیٹ میں سوئیاں سی چبھ رہی ہیں۔ حلق میں کانٹے سے پڑ گئے ہیں۔ خیر لعاب ہی نگل لوں کہ کچھ تسکین ملے۔

بھگوان۔ یہ کیسی تاریکی ہے۔ تیرے سنسار میں کتنا اندھیرا ہو رہا ہے۔ آخر اس کا انجام کیا ہونا ہے؟

کیا اسی طرح ظلمت کے پردے پڑے رہیں گے دنیا پر؟ اندھیرا اسی طرح روشنی پر غالب آتا رہے گا؟ اس میں کوئی نورانی مشعل روشن نہ ہو گی؟ مساوات کی کوئی حسین کرن اس گھور اندھکار کو چیر کر نہیں پھوٹے گی کیا؟ کیا کوئی سکندر اس بحر ظلمات کو پار کر کے چشمۂ حیوان تک نہیں پہنچے گا۔۔ ۔۔ ! بھگوان!

پھر وہی کوندا لپکا۔۔ ۔۔

ارے! اب تو ہر چہار سو بجلیاں چمک رہی ہیں۔ آسمان پر ایک آگ سی لگی ہوئی ہے ہر طرف شعلے اُٹھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ شعلے اور لپٹیں !

بالکل ویسی ہی چمک ہے ان میں جیسی امیر خاں کی آنکھوں میں تھی۔ سرخ سرخ چنگاریاں برساتی ہوئی آنکھیں۔

آہ خانصاحب! تم آ ہی گئے۔۔

لیکن بہت بے وقت آئے تم۔ اب تو پنڈلیوں اور رانوں میں اتنی سکت ہی نہیں رہ گئی کہ تمھاری گیرج کے تیل سے بے نیاز چھکڑا نما رکشوں کو کھینچ سکوں !

کیا کہا تم مجھ سے رکشا نہیں کھنچوانا چاہتے۔

تو پھر کس لیے تکلیف کی۔

کیا وہ دن بھول گئے؟ جب میں گڑگڑا کر تمھارے پیروں پر گر کے کہہ رہا تھا۔ مجھ پر اتنا سخت جرمانہ نہ کرو۔ تمام دن کی مزدوری میں سے کچھ تو مجھے دے دو کہ میرا بیمار بچہ دودھ پینے کے لیے تڑپ کر جان دینے سے بچ جائے۔

لیکن خاں صاحب! تمھیں تو باوا آدم کے زمانے سے چلتے آئے نئے رکشا کے فریم کی مرمت کے لیے میری مزدوری کے پیسے کاٹنے تھے جو ایک موٹے سیٹھ کے بیٹھ جانے کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا اور ہزاروں منتوں کے باوجود تم نے جرمانہ وصول کر ہی لیا تھا۔

آہ۔ اب زخموں پر کیوں نمک چھڑکتے ہو امیر خاں !

میرا اکلوتا بیٹا تو اسی دن بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا تھا۔

بھاگ جاؤ یہاں سے۔ میری آنکھوں میں خون اُترا چلا آتا ہے۔

اپنی کالی شکل کو ہٹاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔ ورنہ ٹھوکریں مار مار کر نکال دوں گا۔

نہیں مانو گے تم؟ تو پھر لو۔۔ ایک۔۔ اور یہ دوسری۔۔ اور یہ تیسری ٹھوکر!

اب دفعان ہو گئے نا!

لاتوں کے بھوت باتوں سے مانے ہیں کبھی۔

ہائے!

درد کی ایک تیکھی ٹیس پنجوں سے اٹھ کر رگوں میں نشتر کیوں چبھو رہی ہے۔

میں نے پتھر کو ٹھوکریں جو لگا ئی ہیں۔

سر سے اب تک خون رِس رہا ہے۔

سرٹیفکٹ بھی گئے۔

اونھ۔۔ ۔۔ ہٹاؤ

ہاں اب مجھے جلدی کرنی چاہیے کہیں گشت کرتا ہوا کوئی سپاہی اس طرف آ نکلا تو میں خود کشی بھی نہ کر سکوں گا۔ اب اس دنیا میں رہ کر کروں گا بھی کیا، یہ تاریکیاں تو اسی طرح مسلط رہیں گی۔ دولت رام، امیر خاں اور دھنی رام وغیرہ اسی طرح مجھ جیسے کروڑوں بے بس انسانوں کے خون سے ہولیاں کھیلتے رہیں گے۔ ہمارا گرم گرم خون ان کی تجوریوں کو وزنی بناتا رہے گا۔ کارخانوں کو چلاتا رہے گا۔ رکشوں پر ان کی انسانیت کے جنازوں کو ڈھوتا رہے گا۔

بس یہی آخری راستہ ہے۔ خود کشی میں ہی نجات ہے؟

اوہ!

دریا کی طرف تو دیکھے سے ہول آتا ہے!

ہاں یوں ٹھیک ہے۔

اس پُشتے پر چڑھ جاؤ۔

اب آنکھیں بند کر لو۔

بس۔ بس

اب صرف ایک چھلانگ کی دیر ہے۔

شاباش۔ ہمت کرو۔

ابدی سکون تمھارا منتظر ہے!

اوہ۔۔ یہ سرخ سرخ سی نورانی کرنیں کیسی پھوٹ رہی ہیں۔ کہیں میرے اندر سے!

ان سے تمام ذہن منور ہو گیا۔

یہ کونے میں دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے میری ماں بیٹھی ہے۔

کیسی پُر امید ہیں اس کی نگاہیں۔

وہ دروازے سے ٹیک لگائے، آشاؤں کے دیپ نگاہوں میں جلائے میری بیوی کھڑی ہے۔

اور یہ شہزادیوں کا سا لباس پہنے سات کھوڑوں کے رتھ پر سوار حسین و صحتمند نوجوان کے ساتھ ساوتری بھی آ نکلی۔

نہیں۔ میں خود کشی نہیں کروں گا۔ یہ تو پاگل پن ہے۔ بزدلی ہے۔ زندگی سے فرار۔ ابھی ہزاروں ماؤں، بیویوں اور ساوتریوں کو میری ضرورت ہے۔

دور کیوں نہ ہو گی یہ تاریکی۔ !

ہم ہی اسے اجالے میں بدلیں گے۔ اپنا خون دے کر امیدوں کی جوتیں جگائیں گے۔

اب مجھے گھر چلنا چاہیے۔ ماتاجی اور منّا کی ماں پریشان ہو رہی ہوں گی۔

کھول دو آنکھیں۔ چلو اترو پشتے سے۔

ارے۔ اب تو اندھیرا چھٹ چلا ہے۔ مشرق کی طرف افق پر روشنی نمودار ہو رہی ہے اور کالے کالے بادلوں کے بیچ سے وہ ایک ننھا منا ستارا میری طرف جھانک کر مسکرا رہا ہے۔

( فروری ۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

خدا اور انسان

 

(فنطاسیہ)

 

شبِ قدر سی پاکیزہ رات تھی۔

دربارِ الٰہی میں نذرانے پیش ہو رہے تھے۔ ایک مقدس فرشتہ، جس نے سپید بادلوں کی عبا پہن رکھی تھی۔ کرسیِ قدس کے سامنے رکوع میں جا کر نور کا طباق سامنے رکھتا ہوا بولا۔

’’خداوند قدوس کی درگاہ میں مولانا اویس ہندی کا تحفہ۔ ‘‘

’’ کیا نذرانہ بھیجا ہے ہمارے اس نادان بندے نے؟‘‘ کرسی سے بادلوں کے گرجنے کی سی آواز پیدا ہوئی جس میں صدہا نقرئی گھنٹیوں کے بجنے کی سی صدا بھی شامل تھی۔

فرشتہ سجدے میں گِر گیا۔

’’ پروردگار! مولانا اویس تو عبادت و پاکیزگی میں ہم فرشتوں سے بھی اوپر اٹھتا جا رہا ہے۔ اس سال اس نے بارگاہِ ایزدی میں سترہ ہزار نمازیں، چھ ماہ کے روزے، ایک حج اور ڈیڑھ سو شب بیداریاں ارسال کی ہیں۔ ‘‘

’’ ہوں۔ ‘‘ کرسی سے ایک طنزیہ آواز بلند ہوئی۔ ’’ ان سب کو اٹھا کر فضولیات کی کوٹھری میں پھینک دو۔ ‘‘

’’ خداوندا!‘‘ فرشتے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ کیا مولانا اویس ہندی کے زہد و اتقا کا یہی انجام ہے!‘‘

’’ حکم کی تعمیل ہو۔۔ ‘‘ روکھی آواز میں جواب ملا۔ فرشتہ لرز گیا اور ایک ساتھ کئی سجدے ادا کر کے طباقِ نور لیے ہوئے بوجھل قدموں کے ساتھ فضولیات کی کوٹھری کی طرف چلا گیا۔

وہی فرشتہ اپنے مقدس بار سے سبکدوش ہو کر واپس ہو رہا تھا کہ شہد اور دودھ کی نہروں کے سنگم پر اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نظر آ گئے۔

’’ کیوں میاں فرشتے؟ تم اتنے ملول و دل گرفتہ کیوں نظر آتے ہو؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔

’’ یا حضرت! کیا عرض کروں۔ ‘‘ فرشتہ بہت ادب سے بولا۔ ’’ اب انسان کی طرح خدا کے دربار میں بھی جھوٹی شکایتوں کا اثر ہونے لگا ہے۔ ‘‘

’’ کیا مطلب۔ ؟‘‘ حضرت موسیٰٗ نے چونک کر دریافت فرمایا۔

فرشتے نے وضاحت پیش کی۔

’’اے خدا کے مقدس پیغمبر! میں خدا کے نیک بندے مولانا اویس ہندی کے نیک اعمال کا محاسب ہوں۔ دن اور رات کا کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جب میں اس کے شانے پر موجود رہ کر اس کے ہر عمل کا مشاہدہ نہ کرتا ہوں۔ اس پاکیزہ خصلت انسان کا یہ عالم ہے کہ سانس بھی لیتا ہے تو خدا کا شکر ادا کرتا ہے لیکن آج جب میں اس کی سال بھر کی نمازیں، روزے، شب بیداریاں اور حج اکٹھا کر کے خداوندِ پاک کی درگاہ میں نذر کرنے لے گیا تو وہاں سے حکم جاری ہوا کہ انھیں فضولیات کی کوٹھری میں پھینک دوں !‘‘

’’ واقعی۔ یہ تو حیرت کی بات ہے۔ ‘‘ حضرت موسیٰٗ نے فرمایا۔۔ ’’ لیکن اس کا کوئی سبب بھی تو ہو گا؟‘‘

’’ یا حضرت! میرے خیال میں تو یہ سب اس فرشتے کی حرکتیں ہیں جو مولانا اویس ہندی کے بُرے اعمال کا حساب رکھنے پر مامور ہے۔ ‘‘

’’ میں سمجھا نہیں۔ ‘‘ موسیٰٗ بولے۔

’’شاید اسی نے مولانائے محترم کے متعلق غلط رپورٹیں دربار ایزدی میں پیش کی ہیں۔ ‘‘

’’ آؤ دیکھیں۔ ابھی معلوم ہوا جاتا ہے۔۔ ‘‘

حضرت موسیٰٗ اس فرشتے کے ہمراہ ایک بہت بڑے آسمانی دفتر میں گئے جہاں اربوں فرشتے اپنے سامنے ہمالیہ سے بھی صد گنا بلند، کاغذات کے ڈھیر لگائے حساب کتاب میں مصروف تھے۔ وہ فرشتہ جو اس دفتر کا انچارج تھا، حضرت موسیٰٗ کو دیکھ کر بھاگا ہوا آیا اور ادب سے سر جھکا کر سلام کرتے ہوئے بولا۔

’’ حضور کیسے تکلیف فرمائی؟‘‘

’’ بھئی! مجھے ذرا مولانا اویس ہندی کا اعمالنامہ دیکھنا ہے۔ ‘‘

ایک لمحے کے اندر اندر مطلوبہ اعمالنامہ حضرت موسیٰٗ کے سامنے پیش کر دیا گیا اور کلیم اللہ کو یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ مولانا اویس ہندی کے اعمالنامے میں نیکیوں کا کالم نمازوں، روزوں اور حجوں سے پُر تھا اور بدی کا کالم بالکل کورا پڑا تھا۔ انھوں نے انچارج دفتر سے دریافت کیا۔

’’ کیا حال ہی میں اس شخص کے بُرے اعمال و افعال پر نگرانی رکھنے والے فرشتے نے کوئی رپورٹ پیش کی ہے جس کا اندراج اعمالنامے میں نہ ہوا ہو؟‘‘

’’ جی نہیں !‘‘ انچارج فرشتے نے جواب دیا۔ ’’ ہمارے دفتر سے وقتاً فوقتاً مختلف فرشتے اس کام پر مامور کیے گئے لیکن کوئی اس انسان کا ایک بھی بُرا عمل نوٹ نہیں کر سکا۔ ابھی کل ہی تو میں اس کی بدیوں کا حساب رکھنے والے فرشتے کو چارج شیٹ بھی بھجوا چکا ہوں۔ ‘‘

’’ کس قسم کی چارج شیٹ؟‘‘

’’ یہی کہ وہ اپنا کام محنت سے سرانجام نہیں دیتا۔۔ ‘‘

’’ نہیں حضور!‘‘ حضرت موسیٰٗ کا ہمراہی فرشتہ بولا۔ ’’ میں بھی تو دِن رات مولانا اویس ہندی کے شانوں پر رہتا ہوں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے بُرے اعمال کا محاسب فرشتہ بہت چاق و چوبند رہتا ہے لیکن جب مولانا سے کوئی بُرا عمل ہی سرزد نہ ہو تو۔۔ ۔۔ ‘‘

لیکن ابھی تو تم مجھ سے کہہ رہے تھے۔ ‘‘ حضرت موسیٰٗ نے کہا۔ ’’ کہ اس فرشتے نے مولانا کی جھوٹی شکایتیں کی ہوں گی۔ ‘‘

’’ یا حضرت!‘‘ فرشتے نے سرخم کرتے ہوئے اپنے پر پھڑپھڑائے۔ ’’ خدائے پاک کے اس عجیب حکم کو سن کر میں یہی سمجھا تھا۔ ‘‘

’’ ہوں۔ ‘‘ حضرت موسیٰٗ نے اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ تو اب دربارِ ایزدی میں بھی اس قسم کی بد عنوانیاں ہونے لگی ہیں۔ قسم ہے مجھے اسی خداوند پاک کی، اگر وہ بھی انصاف کی راہ سے ہٹ گیا ہے تو میں آج فرعون کی طرح اس سے بھی ٹکرا جاؤں گا۔ ‘‘

حضرت موسیٰٗ کی آنکھیں خونِ کبوتر کی طرح سرخ ہو گئیں۔ آسمان پر سناٹا سا چھا گیا۔ موسیٰٗ پیر پٹکتے ہوئے عرش کی طرف چلے۔ فرشتے، ایک انسان کی اتنی جرأت دیکھ کر تھر تھر کانپنے لگے۔

عرش کے سامنے پہنچ کر پردے کو سختی سے پکڑتے ہوئے حضرت موسیٰٗ نے کہا۔

’’ خداوند! موسیٰ تیری درگاہ میں حاضر ہے۔ ‘‘

’’ کیوں کلیم۔ مزاج تو اچھے ہیں ؟‘‘

’’ رحمت ہے تیری۔ ‘‘

’’ لیکن آج تمھاری جبین اتنی پُر شکن کیوں ہے۔ اور آنکھوں میں یہ سرخی کیسی؟‘‘ نہایت ملائمت کے ساتھ دریافت کیا گیا۔

’’ اے زمین و آسمان اور تمام کائنات کے مالک! ‘‘ حضرتِ موسیٰٗ گرج کر بولے۔ ’’تجھے وہ دور بھی یاد ہو گا جب تیرا یہی حقیر بندہ انسانیت پر فرعون کے مظالم دیکھ کر اس سے ٹکرایا تھا اور آج تیرا وہی بندہ تیرے ہی قہر و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ اگر تیری جانب سے بھی انسان سے بے انصافی برتی گئی تو۔۔ ۔۔ ‘‘ موسیٰٗ فرطِ غضب سے کانپنے لگے۔

’’ ہاں، ہاں کہو موسیٰٗ۔ تم رُک کیوں گئے؟‘‘ پردے سے آواز آئی۔

’’ خدایا۔ ! اپنے بندے کو گستاخی پر مجبور نہ کر!‘‘

’’ ہمیں یہ گستاخیاں بہت پیاری ہیں کلیم! ہم تمھارا یہ ادھورا جملہ پورا سننے کے مشتاق ہیں۔ ‘‘

’’ تو پھر سن!‘‘ حضرت موسیٰٗ نے اپنی تمام تر جرأتوں کے ساتھ کہا ’’ تومیں ۔۔ تو میں ۔۔ تجھ سے معافی چاہتے ہوئے کہتا ہوں ۔۔ کہ میں تجھ سے بھی مقابلہ کرنے کی جرأت کر ڈالوں گا۔ ‘‘

جواب میں پردے کی پشت سے ایک عجیب سا قہقہہ سنائی دیا۔

’’ ہم خوش ہوئے کلیم! آج کے انسان میں بھی انسانیت کے لیے ہم ایسا ہی درد دیکھنا چاہتے ہیں جو تمھارے دل میں ہے۔ ارے میاں جبریلٗ ! ذرا ہمارے کلیم کے سامنے کالے خاں کا اعمالنامہ پیش کرو۔۔ ‘‘

دوسرے لمحے جناب جبریل ہاتھوں میں ایک شکستہ سا اعمالنامہ لیے ہوئے حضرت موسیٰٗ کے سامنے کھڑے مسکرا رہے تھے۔

حضرت موسیٰٗ نے جھلا کر اعمالنامہ جبریلؑ کے ہاتھوں سے لے لیا اور جلدی جلدی صفحات پلٹنے لگے۔ شاید یہ شخص کالے خاں اپنی تمام زندگی بھر چوری چکاری، دروغ گوئی، اور دغا بازی کرتا رہا تھا۔

’’ میں اس شخص کا انجام جاننا چاہتا ہوں خداوندا! ‘‘ موسیٰٗ بولے۔

’’ ہم نے آج اُسے فردوسِ بریں کے ایک حسین خطے میں پہنچا دیا ہے!‘‘

فرطِ حیرت سے اعمالنامہ حضرت موسیٰٗ کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔

’’ یہ کیسا اندھیر ہے ربِّ سماوات! کیا بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ ساتھ تیرے اصول بھی بدلتے جا رہے ہیں ؟‘‘

’’ نہیں کلیم! نیک قدریں ہر زمانے میں نیک ہی ہوتی ہیں۔ ‘‘

’’ تو پھر یہ سب کیا ہے؟ مولانا اویس ہندی کی پُر خلوص عبادتیں تو فضولیات کی کوٹھری میں پھنکوا دی جاتی ہیں اور کالے خاں جیسے گناہگار بندے جنت میں موج اڑاتے ہیں !‘‘

’’ ہاں میرے انجان کلیم!‘‘ پردے کے پیچھے سے آواز آئی۔۔ ’’ انصاف کا تقاضا یہی ہے ورنہ پھر میری عدالت اور دنیاوی عدالتوں میں کوئی فرق ہی نہ رہے گا۔ دنیاوی عدالتوں نے کالے خاں کو جیل میں تو بھیجا لیکن یہ نہ دیکھا کہ اس نے چوریاں اس لیے کی تھیں کہ اس کے اور اس کے مرحوم بھائی کے بچے بھی بھوک محسوس کرتے تھے۔ دنیاوی عدالت نے آج اسے جرمِ قتل میں پھانسی پر تو چڑھا دیا لیکن یہ نہ دیکھا کہ اس نے جاگیردار کو محض اس لیے قتل کیا تھا کہ وہ سیکڑوں کنواری لڑکیوں کی عصمتیں خاک میں ملا چکا تھا۔ اچھا کلیم، تم ہی بتاؤ فرعون کو اس کے کیفر کردار تک پہنچانے کے جرم میں تمھیں کون سی سزا دی گئی تھی!‘‘

’’ بس خداوندا بس!‘‘ موسیٰٗ کانوں پر ہاتھ رکھ کر چیخے۔۔ ’’ مجھے کالے خاں کے جنت میں بھیجے جانے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن وہ مولانا اویس ہندی۔۔ ۔۔ ‘‘

’’ ہاں کلیم! میں نے اس کی تمام عبادتیں، اس کی تمام نمازیں اور شب بیداریاں اس کے منہ پر مار دی ہیں۔ کیوں۔ جاننا چاہتے ہو۔ تو سنو۔ اویس خود تو پاکباز ہے لیکن اس کی وجہ سے اس کے لواحقین گناہ گار گردانے جاتے ہیں۔ ‘‘

’’ میں سمجھا نہیں میرے پروردگار۔۔ ‘‘ موسیٰٗ نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔

’’ ابھی سمجھ جاؤ گے۔ ‘‘ پردے سے ندا آئی۔ ’’ فرشتے جو ہر انسان کی نیکی اور بدی کا حساب رکھنے پر مامور ہیں، اس انسان کے کے اعمال کا محاسبہ تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اس گناہ کا اصل محرک کون ہے۔ اور بعض اوقات خلوصِ دل سے کیا ہوا گناہِ کبیرہ بھی خلوص سے معرا نیکی سے بدرجہا مقدس ہوا کرتا ہے۔ کلیم! کیا تم سمجھتے ہو کہ عبادت میری خوراک ہے۔ اگر مجھے عبادت ہی پسند ہوتی تو دن رات اپنی عبادت کرنے والے فرشتوں کو عصیاں کے مجسمے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم نہ دیتا۔ ‘‘

’’ تم یہی جاننا چاہتے ہو نا کہ میں نے مولانا اویس ہندی کی عبادتیں قبول کیوں نہیں کیں۔ اچھا تو آنکھیں بند کر کے دیکھو۔ یہ جو حجرے میں آنکھیں بند کیے ہوئے تسبیح پڑھ رہا ہے، یہی ہے تمہارا اویس ہندی۔ یہ میری یاد میں دنیا سے بیگانہ ہو چکا ہے اور یہ جو تمھیں رونے کی آواز سنائی دے رہی ہے یہ اس کے پڑوسی کا بھوکا بچہ ہے جس کا باپ مجبور ہو کر غلط طریقوں پر روپیہ کمانے کے لیے گھر سے نکلا ہے اور وہ عورت جو غیر مرد کے ساتھ مصروفِ اختلاط ہے اسی مولانا اویس ہندی کی بیوی ہے۔ بُرے اعمال کا حساب رکھنے والے فرشتوں کے ہاتھ دیکھو کس تیزی کے ساتھ اس بچے کے باپ، مولانا کی بیوی اور اس کے ساتھ دادِ عیش دینے والے مرد کے اعمال ناموں پر چل رہے ہیں۔ فرشتے ایک انسان کے ساتھ دوسرے انسان کے مربوط و مبسوط تعلقات کو کیا جانیں لیکن میں تو سب کچھ دیکھتا ہوں۔ کیا تم اب بھی نہیں سمجھ پائے کہ اس مولانا اویس ہندی کے آس پاس ہونے والے تمام گناہ در اصل اس کے اپنے گناہ ہیں۔ اس کا سب سے بڑا گناہ تو یہی ہے کلیم کہ اس نے خدا کی تلاش میں انسان کو بھُلا دیا ہے!‘‘

’’ میں سمجھ گیا خدا وندا۔ میں سمجھ گیا۔ مجھے معاف فرما دے میرے پروردگار!‘‘

اور موسیٰٗ سجدے میں گر گئے۔

(اکتوبر ۱۹۵۶ء)

٭٭٭

 

 

 

رات کا گاہک

 

مول گنج کی اس عالیشان عمارت کی تیسری منزل کے آرام دہ کمرے میں قیمتی مسہری پر دبیز گدّے اور سرخاب کے پروں والے ملائم تکیے پر پڑی کملا بُری طرح بور ہو رہی تھی۔ آج صبح ہی سے اس کی طبیعت مضمحل تھی۔ جوڑ جوڑ میں درد ہو رہا تھا۔ سر پھٹا جا رہا تھا۔ آنکھیں جل رہی تھیں۔ ٹھہر ٹھہر کر عضو عضو میں یک لخت کچھ اس طرح کی ٹیسیں اٹھنے لگتی تھیں جیسے کسی نے رگ رگ میں ہزاروں نشتر پیوست کر دیے ہوں۔

یوں تو اس کا پیشہ ہی کچھ اس قسم کا تھا جس میں ہر رات کوئی عیاش مرد، روکھا فلسفی، بکھرے بالوں کا شاعر، ویران نگاہوں والے خود ساختہ ادیب، تو ندیل سیٹھ، بگڑے ہوئے رئیس یا مریل کلرک آتے۔ سڑک پر کھڑے ہو کر نگاہیں اونچی کر کے اسے بالا خانے کے جھروکے میں بیٹھے ہوئے دیکھتے۔ اس کی حسین گولائیوں اور تیکھے خموں کا جائزہ لیتے۔ عارضوں کی سرخی، لبوں کی شیرینی، بازوؤں اور کولھوں کے گداز اور کمر کی تنگی کا اندازہ لگاتے اور جب مال ہر طرح سے انھیں جچتا تو اس کے حسین جسم کا سودا کرنے کے لیے دو زینے طے کر کے اوپر آ جاتے اور عام طور پر اسے اپنے جسم کو ایک شب کے لیے فروخت کر کے منہ مانگے دام مل جاتے تھے۔ اور ساتھ ساتھ دوسرے دن کے لیے اس قسم کی تھکن بھی۔

لیکن گزشتہ شب ایک عجیب ہی قسم کے گاہک سے واسطہ پڑا تھا اس کا۔ عام طور پر جو خریدار اس کے یہاں آتے تھے وہ اگر با ذوق ہوتے تو پہلے اس سے داغؔ اور غالبؔ کی ایک آدھ غزل سنتے اور ساتھ ہی ساتھ اسکاچ وہسکی سے شغل فرماتے، پھر جب سرور میں آتے تو اس سے اپنے والہانہ عشق کا اظہار کرتے۔ رفتہ رفتہ بے تکلف ہو جاتے اور آخر کچھ دیر بعد جب جذبات نفسانی خواہشات کی بھٹی میں تپ کر سرخ ہو جاتے تو وہ انسانیت اور تہذیب کا لبادہ اتار کر بالائے طاق رکھ دیتے اور کسی وحشی درندے کا روپ دھارن کر لیتے۔ اسے مسلتے، نوچتے اور دہ دل میں آہوں اور سسکیوں کا طوفان اور ہونٹوں پر تبسم نمایاں کیے یہ سب زیادتیاں برداشت کیے جاتی۔ حتیٰ کہ خریدار یا تو تھک ہار کر ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے زینوں سے نیچے اتر جاتا یا پھر شراب کا بڑھتا ہوا نشہ اس کے حواس معطل کر دیتا اور نشے میں دھت وہیں فرش کے کسی کونے میں اوندھے منہ پڑ جاتا اور وہ اپنی جسمانی کوفت اور روحانی کرب کو دور کرنے کے لیے بستر پر پڑ جاتی او دوسرے دن دوپہر تک پڑی رہتی۔

لیکن کل رات کا گاہک۔ بڑی عجیب شخصیت کا مالک تھا وہ۔۔ ۔۔ وہ سرِ شام سے ہی اُسے مول گنج کی سڑکوں پر چکر لگاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ اپنے جھروکے میں بیٹھی ہوئی وہ نیچے کھڑے ہوئے منچلوں کو اپنی جانب راغب کرنے اور ان میں جنسی جذبات کو اکسانے کے لیے اپنے ہزار بار آزمودہ حیا سوز اشاروں اور زہد شکن اداؤں سے کام لے رہی تھی اور اسی دوران میں اس نے اسے بہترین سوٹ میں ملبوس پر تمکنت چال سے ٹہلتے ہوئے دیکھا۔ اس کی ہر ادا سے بے التفاتی مترشح تھی لیکن اپنے دیرینہ تجربے کی بنا پر اس نے بھانپ ہی لیا تھا کہ وہ ہر بار موڑ گھومتے ہوئے کنکھیوں سے ایک اچٹتی ہوئی نظر اس پر ضرور ڈال لیتا تھا اور پھر جب رات کو ساڑھے بارہ بجے وہ اپنے دو مستقل گاہکوں سے فارغ ہو کر سونے کی تیاری کر رہی تھی کہ وہ آ دھمکا۔

’’ مجھے اجازت ہے اندر آنے کی؟‘‘ اس نے دروازے پر رُک کر بڑے شائستہ لہجے میں پوچھا تھا جیسے وہ طوائف کا نہیں کسی بیگم کا کمرہ ہو اور وہ سراپا انکسار بن کر معذرت کرنے لگی تھی۔

’’ حضور! ویسے تو غریب خانہ آپ کا ہے لیکن اگر کل تشریف لاتے تو مجھ پر کرم ہوتا۔ ‘‘

’’ مجھے آپ کے حکم کی تعمیل میں کوئی عذر نہ تھا لیکن بد قسمتی سے میں کل ہی اس شہر سے رخصت ہو رہا ہوں۔ ‘‘

اور اس جواب کے بعد اس کے لیے نجات کی کوئی صورت ہی باقی نہ رہ گئی تھی۔ پھر وہ مرد اس کے جسم کو صبح کے چار بجے تک نوچتا اور بھنبھوڑتا رہا۔ اس اثناء میں اس نے تہذیب اور انسانیت کا جامہ دور اتار پھینکا تھا اور سراپا درندہ بن گیا تھا۔ شدتِ جذبات سے اس کے جبڑے بھنچ گئے تھے اور دانت کسی خونخوار بھیڑیے کی طرح ہونٹوں سے باہر نکل آئے تھے۔ کبھی کبھی جوش میں آ کر وہ کملا کواس بُری طرح بھینچ لیتا تھا کہ اُس کی ہڈی ہڈی چٹخ اُٹھتی تھی اور کملا کو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آج رات اس کا ایک ایک جوڑ پلاسٹک کی گڑیا کی طرح الگ الگ ہو جائے گا۔ بارے چار بجے کے قریب اس کو سکون نصیب ہوا اور وہ سو روپے کا نوٹ کملا کے ہاتھ میں تھما کر ڈگمگاتا ہوا چلا گیا۔

اس گاہک کے روانہ ہونے کے بعد ہی کملا کی آنکھ لگ گئی تھی۔ لیکن دو گھنٹوں بعد اس کی نیند اچٹ گئی۔ صبح ہی صبح ملک کے مشہور نیتا شری شوبھت چند کی آمد کا اعلان کیا جا رہا تھا۔ جیسے ہی کملا کی آنکھ جھپکتی۔ کوئی نیا تانگہ یا ٹیکسی لاؤڈاسپیکر پر اعلان کرتی ہوئی گزرتی اور اس کی آنکھ چٹ سے گھل جاتی اور کچھ اسی قسم کی آوازیں اس کے کانوں میں خراش ڈالنے لگتیں۔

’’ فخر کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے کہ دیش کے مشہور لیڈر شری شوبھت چند آج دس بجے ملک کے اہم مسائل پر ایک مدلل تقریر فرمائیں گے۔ عوام سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ پریڈ گراؤنڈ پر جمع ہو کر ان کے بصیرت افروز خیالات سے مستفید ہوں۔ ‘‘

اور کملا اپنی جھپکتی ہوئی آنکھوں کو مل مل کر جلن دور کرنے کی کوشش کرتی رہ جاتی اور پھر جب اس پر دوسری غنودگی طاری ہوتی پھر اسی قسم کا کوئی تانگہ یا موٹر۔۔ !

’’ پبلک کی سہولت کے لیے ہم نے شہر بھر میں جگہ جگہ لاؤڈاسپیکر لگا رکھے ہیں تاکہ شوبھت چند جی کا بھاشن مردوں کے علاوہ ہماری ماتائیں اور بہنیں بھی سن سکیں ۔۔ ‘‘

اور کملا جھنجھلا کر کراہنے لگتی۔ کبھی وہ رات والے اس وحشی گاہک کو دل ہی دل میں کوستی اور کبھی بے اختیار ہو کر اس کا جی چاہتا کہ اپنی بوٹی بوٹی نوچ کر پھینک دے جن میں درد اور ٹیسیں پیوست ہو کر رہ گئی تھیں لیکن غضب اس وقت ہوا جب دس بجے کملا کی نیند پھر اُچٹ گئی۔ اس کا سر اس طرح بھاری ہو رہا تھا جیسے برف کا گولا ہو اور لاؤڈاسپیکر کی آوازیں اس پر ہتھوڑے سے لگا رہی تھیں۔ شوبھت چند کا بھاشن شروع ہو چکا تھا پہلے تو کملا تقریر سن سن کر جھنجھلاتی رہی اور اسے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے تقریر کا ہر جملہ اس کے درد میں اضافہ کر رہا ہے۔ وہی گھسی پٹی باتیں تقریر میں کہی جا رہی تھیں جو اس سے قبل سبھی لیڈر سیکڑوں بار کہہ چکے تھے۔ ملک کی غریبی، بڑھتی ہوئی بیکاری، عوام کی مشکلات، گرانی، غلّے کی کمی اور اسی نوعیت کی دوسری باتوں کا رونا۔۔ لیکن اس کے بعد جب لکچر کا دوسرا دور شروع ہوا تو کملا کا درد یکلخت نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔ آنکھوں کی جلن دور ہو گئی اور اس کا من اس طرح کھل اٹھا جیسے وہ تمام رات آرام اور سکون کے ساتھ سو کر اٹھی ہو۔ لیڈر صاحب اب طوائفوں کی زندگی کا خاکہ بیان فرما رہے تھے۔ انھیں اپنے دیش کی ماؤں اور بہنوں کی یہ تذلیل قطعاً گوارا نہ تھی۔ وہ اس نظام کے کٹّر دشمن تھے جس نے لاکھوں عورتوں کو عصمت فروشی پر مجبور کر دیا تھا اور جب تقریر میں انھوں نے ایک ایسے نظام حکومت کی تمنا ظاہر کی جس پر عمل کرتے ہوئے ایک قریبی ملک نے اپنے یہاں سے عصمت فروشی اور سیاہ کاری کو دیش نکالا دے دیا تھا تو بے اختیار کملا کا جی چاہا کہ کاش اس کے پر نکل آئیں اور اسی وقت اُڑ کر نیتا جی کے پاس پہنچے اور ان کے چرن پکڑ کر کہے۔۔

’’ دیوتا مجھے اس دیش میں پہنچا دو!‘‘

پر تو اس کے نکلے نہیں لہٰذا اس نے جھروکے سے لٹک کر اپنی پڑوسن سے کہا۔

’’ اری سکینہ! سنتی ہے نیتا جی کیا کہہ رہے ہیں۔ ؟‘‘

اور سکینہ نے بھویں چڑھا کر جواب دیا۔

’’بکتے ہیں ری! ہماری قسمت میں تو اسی طرح ہر رات مر مر کر جینا لکھا ہے۔ ‘‘

نہ جانے کس گوشے سے کملا کے دل میں اتنے پیارے نیتا شوبھت چند کے لیے عقیدت اُمڈ پڑی اور جب ان کی تقریر ختم ہو گئی تو کملا کو محسوس ہوا جیسے اب تک یہ کسی اور ہی دنیا میں تھی اور اب دوبارہ اس بد نما اور غلیظ دنیا میں پھینک دی گئی ہے۔ شوبھت چند کی تقریر کے فوراً بعد ہی کسی دوسرے شخص کی آواز کملا کو لاؤڈاسپیکر پر سنائی دی اور اس کا من پھر سے کھل اٹھا۔ اعلان کیا گیا تھا۔ اس قائدِ اعظم کا جلوس شام کو پانچ بجے شہر کی خاص خاص سڑکوں سے گزرے گا اور پھر پروگرام کی تفصیل بتائے جانے پر کملا کو معلوم ہوا کہ جلوس مول گنج سے ہو کر بھی گزرے گا۔

کملا کا روم روم ناچ اٹھا۔ اس طرح وہ اپنے اس دیوتا کے درشن کر سکے گی جو طوائفوں کو بھی عورت، ماں اور بہن سمجھتا ہے۔ اس نے استاد بندو خاں کو مالن کے یہاں سے تازہ گلاب کے بھاری گجرے فوراً لانے کو حکم دیا۔ پھر اندر جا کر غسل کرنے کے بعد ایک سفید ململ کی ساری زیب تن کی، بالکل دیو کنیاؤں کی طرح بیچ سے مانگ نکال کر بالوں کو سنوارا اور بالا خانے پر آ بیٹھی۔ آج پہلا دن تھا جب وہ بغیر میک اب کیے جھروکے پر آئی تھی۔ نہ جانے کیوں آج اس کے ہاتھ بار بار آنچل پر جاتے تھے اور وہ اسے سنبھال سنبھال کر سر پر ڈال رہی تھی۔ خدا خدا کر کے پانچ بجنے کو ہوئے۔

دور سے شور و غل، جے جے کار اور زندہ باد کے نعرے سنائی دیے جو بتدریج بلند ہوتے گئے۔ جلوس قریب آ گیا تھا۔ کملانے دیکھا کوئی شخص کھدر کے کرتے اور پاجامے میں ملبوس پھولوں میں لدا ہوا کھلی ہوئی جیپ میں بیٹھا تھا۔ کملا کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ موٹر اس کے جھروکے کے نیچے آئی تو اس نے بندو خاں کے لائے ہوئے تازہ گلاب کے ہار اٹھا کر اپنی عقیدت سمیت موٹر پر پھینک دیے۔

کملا کا دل زور سے دھڑکا۔ کئی لوگوں نے اسے دیکھ کر قہقہے بلند کیے پھر نیتا شوبھت چند نے بھی نگاہیں اوپر اٹھائیں اور دفعتاً کملا کا آنچل سر سے ڈھلک کر شانوں پر آ رہا اور اس کی سونی مانگ کسی اجاڑ پگڈنڈی کی طرح چمکنے لگی۔ کملا کو اپنے دل کی حرکت بند ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔

’’ ہے بھگوان! وہ تو رات والا گاہک تھا!‘‘

(مارچ ۱۹۵۴ء)

٭٭٭

 

 

 

 

احسان مند

 

کافی سہانا منظر تھا جب رامو گونڈا پنے مویشیوں کا غول لے کر کالے پہاڑ پر پہنچا۔

مینہ کے ہلکے ہلکے چھالے پڑ رہے تھے جن میں خنک ہو ا کے جھونکے اِدھر اُدھر بھٹکتے پھرتے تھے۔ ساگوان، ساج اور تنسا کے تناور درختوں سے پانی کے قطرے بڑی ہم آہنگی کے ساتھ پتھریلی زمین پر ٹپک رہے تھے۔ مینڈکوں کی ٹرٹر اور جھینگروں کی ریں ریں نے سماں باندھ رکھا تھا۔ جن کے درمیان کبھی کبھی غول میں صدائے احتجاج بلند کرتی ہوئی کسی بھینس کے ڈکرانے کی آواز سنائی دے جاتی۔ کہیں کہیں خود رو پھولوں کی جھاڑیاں کسی تناور درخت کو اس طرح گھیرے کھڑی دکھائی دیتیں جیسے قدرت نے اپنے ہاتھ سے تیار کر کے بہت بڑا گلدستہ وہاں پھینک دیا ہو۔ سامنے کی پہاڑی ڈھلان پرسالِ گزشتہ کوئی ٹھیکیدار جنگل کٹوا چکا تھا۔ پوری پہاڑی پر بجُز اِکّا دُکّا اسٹینڈرڈ ( ممنوعہ درخت) اور جھاڑ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ مخملی گھاس ڈھلان کے آغاز سے لے کر پہاڑی کی چوٹی تک کسی سبز ریشمی قالین کی طرح لہلہا رہی تھی جس کے دامن میں نیچے کی طرف شفاف برساتی نالے کی چمکیلی رو پہلی گوٹ لگی ہوئی تھی۔

فرطِ مسرت سے رامو گونڈ کا روم روم جھوم رہا تھا۔ اس نے ہنکارا بھرا۔ مویشی قدرے تیز چلنے لگے اور پھر لاٹھی کاندھے پر رکھ کر اس نے اپنی پھٹی ہوئی چادر سنبھالی اور لوک گیت کی تان چھیڑ دی۔

’’ ارے۔۔

تورے من ماں دگا باجی مورے من ماں نئیں رے

تورے من ماں دگا باجی مورے من ما ں نئیں رے

چوریاجو لے دیوں تو پیر بو کے نئیں رے

پیربے کو پیر لیؤں ریبے کو نئیں رے

تورے من ماں دگاباجی مورے من ماں نئیں رے

ارے۔۔ ‘‘

( تیرے من میں دغا بازی ہے، میرے من میں نہیں، میں چوڑیاں لے دوں تو پہنے گی یا نہیں۔ پہننے کو پہن لوں گی لیکن رہوں گی نہیں۔ تیرے دل میں دغا بازی ہے میرے من میں نہیں۔ )

مویشیوں کی ڈار ایک مخصوص مقام پر پہنچ کر رُک گئی۔ سالہا سال سے وہ بارش کے موسم میں اس مقام پر آ کر دو تین مہینے بغیر کوئی کام کیے ہوئے آرام سے دن بھر چرتے رہتے تھے اور رات کو اس ’’ گواڑی‘‘ میں جگالیاں کیا کرتے جو رامو گونڈ ان کے لیے پہاڑ کی نسبتاًسپاٹ سطح پر ساگوان اور پتوں کی مدد سے ایک طویل و عریض شامیانے کی شکل میں تیار کرتا تھا۔ کچھ نئی نویلی گائیں پہلی مرتبہ اس گلّے کے ساتھ اس نا مانوس مقام پر آئی تھیں، چوکنّی ہو کر اِرد گرد کے مناظر کو دیکھ رہی تھیں۔ رامو گونڈ نے چادر کو کمر سے لپیٹا، لاٹھی زمین پر ڈال دی اور ایک بھینسے پر لدے ہوئے بورے سے جس میں مکا اور جوار کی چند تھیلیاں، نمک مرچ وغیرہ کے دو چار ڈبّے، دودھ دوہنے کا برتن اور دیگر ضروری سامان تھا، ایک بڑی سی کلہاڑی برآمد کی اور آس پاس کے چند ساگوان کے درختوں کا جائزہ لینے لگا۔ شام ہونے سے پہلے ہی اس کی گواڑی تیار ہو گئی۔ جس میں ہر شام چراگاہ سے واپس آنے کے بعد مویشیوں کو پناہ لینے کے لیے کافی گنجائش رکھی گئی تھی۔

بچپن سے یہی ہوتا آیا تھا۔ رامو گونڈ اپنے گاؤں کے گوجروں کی ملازمت کرتا تھا، ان کے کھیتوں میں ہل چلاتا، گھر کا کام کاج کرتا اور جب بارش کے موسم میں کوئی خاص محنت کا کام نہ رہ جاتا تو ان کے مویشی اکٹھا کر کے پہاڑوں پر چرانے کے لیے نکل جاتا۔ اس کا باپ بھی یہی کرتا تھا۔ سنا تھا کہ کبھی اس کے باپ کے پاس اپنی زمین تھی، مویشی تھے اور وہ گوجروں کی ملازمت پر مجبور نہ تھا لیکن تاڑی کی بُری لَت اور جوئے میں سب کچھ جاتا رہا۔ رامو گونڈ کبھی کبھی تو بُری طرح جھنجھلا جاتا۔ من ہی من میں اپنے باپ کو سیکڑوں گالیاں دیتا اور پھر خود ہی خفیف سا ہو کر رہ جاتا۔ کتنی حسرت تھی اسے کہ اس کا اپنا ایک چھوٹا سا کھیت ہوتا، اپنے جانور ہوتے اور جب وہ ہل چلاتا تو اسے احساس ہوتا کہ دھرتی ماں کے سینے سے جو سوغات برآمد ہو گی وہ اس کے اپنے لیے ہو گی، کسی بخیل گوجر کی بکھاری میں دفن ہونے کے لیے نہیں۔ جن پودوں کو وہ اپنا خون سینچ کر پروان چڑھا رہا ہے، ان کے پھل صرف اس کے لیے ہوں گے۔ لیکن وہ حسرتیں ہی کیا جو شرمندۂ تعبیر ہوں۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا تھا کہ وہ خون پسینہ ایک کر کے فصل تیار کرتا اور معاوضے میں گالیوں اور لاتوں کے ساتھ ناپ کر تھوڑی سی مکّا اور جوار اس کی جھولی میں ڈال دی جاتی۔ بارش بھر پہاڑوں پر اکیلے رہ کر مویشی چراتا، ان کا دودھ اکٹھا کر کے گھی تیار کرتا۔ جن کے کنستر گوجروں اور پھر بنیوں کے توسط سے دوسروں تک پہنچتے، کیونکہ رامو گونڈ قسم کے لوگ تو گھی ہضم نہیں کر سکتے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود رامو ان گوجروں کو اپنا محسن سمجھتا تھا۔ اس کی بساط ہی کیا تھی۔ ایک معمولی حقیر گونڈ، جس کے پاس چار دانے پیدا کرنے کے لیے گز بھر زمین بھی تو نہیں تھی۔ وہی گوجر اس کے ان داتا تھے۔ اگر آج دو لات مار کر گاؤں سے نکال دیں تو اس کا ٹھکانہ کہاں لگے۔ وہ واقعی گوجروں کا تہِ دل سے شکر گزار تھا۔

ایک شام وہ اچار کے درخت کے نیچے بیٹھا۔ ’’ تورے من میں دگاباجی۔۔ ‘‘ الاپ رہا تھا اور سامنے پہاڑی کے ڈھلان پر پھیلے ہوئے مویشی چر رہے تھے کہ سامنے درختوں کے جھنڈ سے لالہ جی برآمد ہوئے۔ پٹواریوں کی بے وقت آمد کاشتکاروں کے لیے کال کی آمد سے کم نہیں ہوتی۔ لیکن رامو اس مرض کا مریض ہی نہ تھا۔ زمین پا س ہوتی تو کوئی بات بھی تھی اس وقت لالہ جی سے مرعوب ہونے کا کوئی سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا۔ پٹواری صاحب نے اس کے قریب آ کر چشمہ کچھ اوپر چڑھاتے ہوئے اسے گھور کر دیکھا پھر اپنا بستہ زمین پر لا ابالیانہ انداز میں ڈال کر اسی پر براجمان ہوتے ہوئے انھوں نے پوچھا۔

’’ کہا ں کا رہنے والا ہے رے؟‘‘

’’ جی حجور! مائی باپ! بھورا کھیڑی کا ہوں۔ ‘‘ رامو نے مودبانہ جواب دیا۔

’’ جانور گوجر پٹیلوں کے ہوں گے یہ ؟‘‘

’’ ہاں سرکار!‘‘

’’ چرائی کے روَنّے ( اجازت نامے) ہیں سب مویشیوں کے؟‘‘

’’ جی ہاں سرکار سب کے ہیں !‘‘

’’ کوئی چیک کرنے آیا؟‘‘

’’ جی حجور فارسٹ گارڈ صاحب اور ڈپٹی رینجر صاحب دونوں کل گنتی کر گئے ہیں۔ ‘‘

’’ اچھا اچھا۔ ‘‘ لالہ جی نے ایک بار پھر اسے گھور کر دیکھا۔ ’’ گواڑی کدھر بنائی ہے؟‘‘

’’ جی سرکار وہ کولار نالے کے پرلی طرف۔۔ ‘‘

’’ بارہ انچ سے موٹی لکڑی تو نہیں کاٹی کھمبوں کے لیے؟‘‘

رامو ہچکچایا، مائی باپ سے جھوٹ کیا بولے۔ پھر ناپ اسے معلوم بھی کیا۔ بولا۔۔

’’ حجور چل کے خود دیکھ لیں۔ اپنی سمجھ میں تو موٹی لکڑی نہیں کاٹی۔ ‘‘

زیادہ دور تو نہیں ہے گواڑی؟‘‘ لالہ جی غرّائے۔

’’ نا حجور! چار کدم پر ہے۔ اس سامنے والی چٹان کی آڑ میں۔ ‘‘

’’ دودھ، وودھ بھی ہے پینے کے لیے؟‘‘

’’ ہے تو مائی باپ پر سکّر نہیں ہے۔ ‘‘

’’ کیا۔ ؟ ‘‘پٹواری صاحب نے گھڑک کر کہا۔

’’ سرکار! گھی اور مکھن بھی ہے۔ ‘‘ رامو نے ہاتھ باندھ کر عرض کی۔

پٹواری کا لہجہ فوراً چکنا ہو گیا۔

’’ اچھا چل جلدی کر۔ ہمیں شام سے پہلے ہیڈ کوارٹر پہنچنا ہے۔ ‘‘

گواڑی میں پہنچ کر پٹواری صاحب نے ڈٹ کر دودھ پیا۔ ایک ادھی گھی کی قبضے میں کی، مویشی چرانے کے اجازت نامے پر سرسری نظر ڈالی۔ گواڑی کی نسبتاً موٹی لکڑیوں میں سے چند کو فیتے سے ناپا اور پھر مطمئن ہو کر جانے کو تیار ہوئے۔

’’ کیا نام ہے تیرا؟‘‘ انھوں نے چلتے چلتے دریافت کر لینا مناسب سمجھا۔

’’ رامو گونڈ سرکار!‘‘

’’ زمین ومین بھی ہے کچھ تیرے پاس کہ سالے مزدوری ہی کرتا ہے؟‘‘ پٹواری جی نے پیار بھری آواز میں پوچھا۔ رامو گونڈ نے ٹھنڈی سانس لی۔۔

’’ ایسے بھاگ کہاں حجور؟‘‘

’’ ارے!‘‘ لالہ جی نے اُسے حیرت سے دیکھا۔ ’’ تیرے پاس زمین نہیں ہے اور سالے تو نے ہمیں بتایا تک نہیں !۔۔ ہمارے ہوتے تو زمین سے محروم ہے۔ دھت تیرے کی۔ واقعی تیرے بھاگ خراب ہیں۔ ‘‘

’’ تو۔۔ تو۔۔ ‘‘ رامو کو اپنا دم رُکتا ہوا محسوس ہوا۔ ’’ کیا حجور، مائی باپ، گریب پرور! ہم کو جمین مل سکتی ہے؟‘‘

’’ سالے!مل کیوں نہیں سکتی۔ ضرور ملے گی، ہم دیں گے۔ ‘‘

رامو لالہ جی کے قدموں پر گِر پڑا۔ اظہارِ ممنونیت کے لیے اُسے کوئی طریقہ ہی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ لالہ جی مسکرائے۔

’’لیکن سالے! اس کے لیے درخواست دینی پڑتی ہے۔ بڑے صاحب کی منظوری لینی پڑتی ہے۔ ‘‘

ہاتھ جوڑ کر رامو بولا۔

’’ ہمارے مائی باپ تو آپ ہی ہو حجور! آپ ہی درکھاس لکھ دو اور آپ ہی منظوری دِلوا دو۔ ‘‘

’’ اچھا اچھا۔ ‘‘ لالہ جی نے اس کی پیٹھ تھپکی۔

’’ لے اس کاغذ پر انگوٹھے کا نشان لگا۔ میں تیری طرف سے درخواست لکھ کر لگا دوں گا۔ ‘‘

انھوں نے ایک سادہ کاغذ پر اس کے بائیں انگوٹھے کا نشان لیا، جانے کے لیے مڑے پھر پلٹ کر مکھن کے ایک ڈبے کی طرف دیکھنے لگے جو رامو نے لپک کر ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ پھر چلنے کو تیار ہوئے۔ رامو ہاتھ باندھے باندھے ان کے پیچھے ہو لیا۔ اس کے ذہن میں اُتھل پُتھل مچی ہوئی تھی۔

’’ تو پھر سرکار! جمین کا پٹّہ مل جائے گا نا ہم کو؟‘‘

’’ ہاں بے! ہم دلائیں گے دس ایکڑ کا پٹّہ! بڑے صاحب اپنے کہنے میں ہیں دوسروں سے تو پانچ سو سے نیچے بات ہی نہیں کرتے!‘‘

’’ حجور ! آپ جانو۔ اتنے پیسے تو ہم نے کبھی کھواب میں بھی نہیں دیکھے۔ ‘‘

لالہ جی ہنسے۔۔ ’’ ابے پیسوں کی بات کون کرتا ہے تجھ سے؟‘‘

’’ ہاں سرکار!‘‘ رامو کی آنکھیں احساسِ تشکر سے بھر آئیں۔ ‘‘ آپ کے بال بچوں کو دعا دوں گا، عمر بھر گُن گاؤں گا۔ ‘‘

میں لیکن کل صبح ناکیدار کو بھیجوں گا۔ ایک اچھی سی گائے بھیج دینا بڑے صاحب کے لیے۔ ‘‘

پٹواری صاحب چلے گئے۔ رامو رات بھر نہ سو سکا۔ رہ رہ کر پٹواری کے لیے اس کے دل میں عقیدت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ دوسرے دن اس نے ناکیدار کے ہمراہ ایک گائے بھی بڑے صاحب کی خدمت میں بھجوا دی۔ زیادہ سے زیادہ یہی نا کہ گوجر دس بیس لاتیں اور مارے گا۔ کہہ دے گا اس سے، بچھیا گواڑی توڑ کر بھاگ گئی یا تیندوا اٹھا لے گیا۔ زمین تو مل جائے گی اسے۔ اس کا جنم جنم کا خواب تو پورا ہو گا۔

تین ماہ بعد اس کا جنم جنم کا خواب پورا ہو گیا۔ اسے ایک دس ایکڑ بنجر زمین کا پٹہ سرکار کی طرف سے عنایت فرمایا گیاجسے جوتنے کے لیے اس کے پاس بیل نہیں تھے، جس میں بونے کے لیے اس کے پاس بیج نہیں تھا۔ اس لیے رامو گونڈ نے ایک بچھیا کے معاوضے میں وہ پٹہ لال سنگھ گوجر کے نام منتقل کر دیا اور اب وہ وہی زمین لال سنگھ گوجر کے لیے اسی کے بیلوں سے ہانک رہا تھا۔ لیکن اس وقت بھی اس کے دل میں پٹواری کے لیے عقیدت کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا جس نے صرف ایک بچھیا نذرانے میں لے کر اسے دس ایکڑ زمین کا پٹّہ دلوا دیا تھا اور لال سنگھ گوجر کا بھی احسان مند تھا جس نے بچھیا کے معاوضے میں صرف دس ایکڑ زمین کا پٹہّ لے کر اسے بخش دیا تھا۔ احساسِ تشکر سے اس کی آنکھیں بھیگی جا رہی تھیں اور دور کہیں اس کا کوئی بھائی الاپ رہا تھا۔

پتے پتے سے نکل رہی آگ رے گوریا!

بِروا بِرو سے لپٹ رہے ناگ رے گوریا!

(اکتوبر ۱۹۶۳ء)

٭٭٭

 

 

 

 

ٹی۔ اے۔ بِل

 

بے شک ٹی۔ اے، بِل ہی واحد ذریعۂ نجات تھا۔

تبادلہ یوں بھی پریشانی کا باعث ہوتا ہے نہ کہ بارش کے زمانے میں اور پھر وہ بھی اس علاقے میں جہاں سفر کا واحد ذریعہ ٹٹّو ہو اور راستے میں گھٹنے گھٹنے برابر کیچڑ پڑتی ہو۔ طرّہ یہ کہ ایسی بیوی بھی ساتھ ہو جسے قدم قدم پر ہسٹریا کے دورے پڑتے ہوں اور جنگل میں گیدڑ کو دیکھ کر شیر کا گمان کرتی ہو۔ بہر حال وہ کسی نہ کسی طرح ان تمام منزلوں سے گزر کر آیا تھا۔ لیکن ایک آخری منزل باقی رہ گئی تھی۔۔ روپیہ!

تنخواہ جو یوں ہی ڈیڑھ سو روپیوں تک محدود تھی۔ اس سفر کی نذر ہو چکی تھی اور پورا مہینہ ابھی باقی پڑا تھا۔ یہ بات نہیں کہ اویس کو بھوکوں مرنا پڑا ہو۔ مہاجن سے قرض لے کر فاقہ کشی سے نجات تو مل ہی گئی تھی۔ لیکن وہ قرض سے بہت گھبراتا تھا۔ پھر اس بار تو مہاجن نے پورے پچیس روپے سیکڑہ سود پر معاملہ طے کیا تھا۔ ایسی موٹی اسامیاں بھلا روز روز کہاں ملتی ہیں۔ اِدھر اویس پچھلے پندرہ دنوں سے یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ آخر یہ قرض کس طرح ادا ہو گا۔ اگر جلد ہی اس کی ادائیگی نہیں کر دی جاتی تو دو چار سال کے لیے یہ بلا گلے منڈھ گئی۔ اسے رہ رہ کر اپنے اس بے تکے تبادلے پر اُلجھن ہوتی تھی جس نے اسے اس جنجال میں پھنسایا۔ وہ پچھتانے لگا۔ کاش اس نے قدرے ضبط سے کام لیا ہوتا۔

بات یہ تھی کہ اس دن وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ اسکول کی نئی عمارت تعمیر ہو رہی تھی جس کا زیادہ تر کام شرم دان کے طور پر اسکول کے بچے ہی کرتے تھے اور مزدوروں کی اجرت میں سے بچایا ہوا روپیہ بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر کی جیب میں جاتا تھا۔ تپتی ہوئی دوپہر میں مکمل چار گھنٹوں تک بچوں کے ساتھ تعمیر کے کام میں جُتے رہنے کے بعد جب اس نے دوبارہ کلاس لگائی تو وہ تھک کر چور چور ہو چکا تھا۔ بچوں کو سبق یاد کرتے رہنے کی ہدایت دے کر وہ یوں ہی تکان مٹانے کی غرض سے کرسی کی پشت پر ٹک گیا اور پھر نہ جانے کب اسے نیند نے آ دبوچا اور جب آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ سامنے ہیڈ ماسٹر رام اشیش دوبے کھڑے ہوئے دہاڑ رہے ہیں۔

’’ جی۔۔ جی۔۔ ‘‘ اویس ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔

’’ جی جی کیا کرتے ہو جی!۔۔ میں تمھاری بہن ہوں کیا۔ ‘‘ دوبے جی چیخے۔

’’ جی وہ ۔۔ در اصل میں بہت تھک گیا تھا۔ ‘‘

’’ اچھا ۔۔ تو شاید آپ اسکول میں کولھو چلا رہے تھے۔ ‘‘

’’ نہیں ۔۔ اسکول کی نئی عمارت کے شرم دان کے۔۔ ‘‘

’’ کیا بکتے ہو۔۔ ‘‘ دوبے نے غرّا کر بات کاٹ دی۔۔ ’’ دیوار اتنی کی اتنی ہی ہے۔ ایک انچ بھی اونچی نہیں اٹھی۔۔ جھوٹ بولتے ہوئے شرم نہیں آتی تمھیں۔ ‘‘

’’ لیکن میں سچ عرض کرتا ہوں کہ ۔۔ ۔۔ ‘‘

’’ پھر وہی بحث۔۔ گویا تم سچ عرض کرتے ہو اور میں جھوٹ فرما رہا ہوں۔ ‘‘

’’ میرا یہ مقصد ہرگز نہ تھا۔ ‘‘

’’ پھر کیا مقصد تھا تمھارا؟۔۔ ۔۔ تم بالکل نکمّے اور حرام خور اور ساتھ ہی ساتھ بد تمیز بھی۔۔ ‘‘

اویس کا چہرہ سُرخ ہو گیا۔ اس نے اُچٹتی ہوئی نگاہ کلاس پر ڈالی۔ لڑکے بہ ظاہر اپنی سیٹوں پر جھکے ہوئے تھے لیکن نگاہیں بچا کر کنکھیوں سے ان کی طرف دیکھ بھی رہے تھے اور دوبے جی متواتر چیخے جا رہے تھے۔۔

’’ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی اور اس میں بھی کلاس میں سونا۔ حد ہو گئی حرام خوری کی۔ ‘‘

’’ اچھا دوبے جی! اب بہت ہو چکا۔۔ لگام دیجئے اپنی زبان کو۔۔ ‘‘

’’ ایں ۔۔ کیا کہا۔۔ دوبے جی اپنی جگہ سے اچھل پڑے۔۔ ‘‘

زبان کو لگام دوں ۔۔ چوری اور سینہ زوری! حرام زدگی کرتے ہو اور آنکھیں نکالتے ہو۔۔ نالائق۔۔ !‘‘

اب اویس سے نہ رہا گیا۔ ’’ میں کہتا ہوں بند کرو اپنی بکواس۔ ‘‘ اس نے چیخ کر کہا اور دوبے جی کا گریبان پکڑ لیا ’’ اب اگر کوئی اور لفظ زبان سے نکالا تو گدّی سے باہر کھینچ لوں گا۔ ‘‘

ایک لمحے کے لیے تو جیسے دوبے جی کو سانپ سونگھ گیا۔ پھر انھوں نے جھٹکا دے کر اپنا گریبان چھڑا لیا اور فرطِ جوش سے ہکلا ہکلا کا بڑبڑاتے ہوئے کلاس روم سے نکل گئے۔

’’ اچھا۔ اچھا۔ اتنی ہمت! دیکھ لوں گا!‘‘

اسی دن شری رام اشیش دوبے نے شری جمال قریشی ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولس کو اس مضمون کا تار بھیجا۔

’’ اسسٹنٹ ٹیچر شری اویس نے ہیڈ ماسٹر مڈل اسکول لاڑکوئی کو تمام طلبہ کے سامنے گالیاں دیں اور بُری طرح مارا۔ ‘‘سات دن کے اندر اندر ماسٹر اویس کو لاڑکوئی سے دیوری پرائمری اسکول کے تبادلے کا حکم مل گیا اور ساتھ ہی اسے مطلع کیا گیا کہ تین سال کے لیے اس کی ترقی روک دی گئی ہے۔

اور اب اس واقعہ کو ڈیڑھ مہینہ گزر گیا تھا لیکن اس کے اثرات اب تک ماسٹر اویس کو پریشان کیے ہوئے تھے۔ اس پر یہ مہاجن کے قرض والا جنجال ۔۔ لیکن آخر سوچتے سوچتے اچانک اسے اپنا سفری بھتہ بنانے کی یاد آ گئی اور اسے کچھ تسکین ہوئی کہ ٹی۔ اے۔ بل کی منظوری کے بعد اس کی تمام مشکلات حل ہو جائیں گی۔ اسی دن اس نے نہایت احتیاط کے ساتھ پونے دو سو میل کا ٹی۔ بے بل تیار کیا جو ساڑھے باسٹھ روپے کا بنا۔

اور وہ بل کو ہیڈ آفس بھجوا کر مطمئن ہو گیا۔

لیکن ٹھیک پندرہ دن بعد جب ماسٹر اویس نے ہیڈ آفس سے آئے ہوئے لفافے کو اس امید پر کھولا کہ اس میں پاس شدہ ٹی اے بل ہو گا۔ تو اس میں اسے ڈسٹرکٹ انسپکٹر اسکولس کا مختصر سا خط ملا جس میں اس سے جواب طلب کیا گیا تھا کہ اس نے غلط طور پر زیادہ خرچ لگا کر ٹی۔ اے بل کیوں تیار کیا اور اس طرح گورنمنٹ کو دھوکا دے کر ناجائز مطالبہ وصول کرنے کی کوشش کی۔ کیوں نہ مزید تین سال کے لیے اس کی ترقی روک دی جائے۔

ماسٹر اویس نے دن بھر کے سوچ وچار کے بعد چکراتے ہوئے سر کے ساتھ اپنا وضاحتی جواب لکھا۔

جناب والا!

آنجناب کے مراسلہ نمبر ۴۲۰ مورخہ فلاں کے سلسلہ میں وضاحت کے طور پر مجھے عرض کرنا ہے کہ میں نے ٹی اے بل میں کوئی زیادہ نرخ نہیں لگائے بلکہ حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ حقیقتاً جتنا روپیہ اس تبادلے میں سفر پر میرا خرچ ہوا ہے اتنا ہی کلیم کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں حضور چاہیں تو تفتیش کر کے اپنی تسکین فرما سکتے ہیں۔                               خادم

ماسٹر اویس۔۔ دیوری

ایک ماہ بعد ہی دوسرا مراسلہ موصول ہوا۔ جس میں ڈی۔ آئی۔ ایس نے اس سے مندرجہ ذیل آئیٹم کی وضاحت طلب کی تھی۔

۱۔ انھوں نے سلوانی سے دیوری تک گھوڑے پر سفر کر کے محض بائیس میل کے لیے آٹھ روپے کیوں کلیم کیا۔ جبکہ موٹر سے جانے پر محض ایک روپیہ کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

۲۔ انھوں نے دورانِ سفر میں تین دن کیوں صرف کیے۔ کیوں نہ سمجھا جائے کہ محض زیادہ ڈیلی الاؤنس کلیم کرنے کے لیے یہ خرچ کیا گیا۔

۳۔ انھوں نے اپنے افسر اعلیٰ کو ماتحت سمجھ کر خط لکھنے کی جرأت کی اور اسے انکوائری کرنے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی نوٹ تھا کہ اگر مندرجہ بالا سوالات پر تسلی بخش جواب نہ دیا گیا تو ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولس بہ نفسِ نفیس تفتیش کے لیے تشریف لائیں گے۔

مسٹر اویس نے ان سنگین الزامات کی صفائی منتشر دماغ کے ساتھ کچھ ایسے بوکھلائے ہوئے انداز میں پیش کی کہ واقعی انسپکٹر صاحب مع اپنے چپراسی اور پیش کار کے دس دن بعد ہی اسکول میں وارد ہو گئے۔

اور جب مہاجن سے مزید پندرہ روپے قرض لے کر ایک مرغ اور مختلف لوازمات کے ساتھ ماسٹر اویس نے انھیں لنچ وغیرہ سے نمٹا دیا تو وہ تفتیش کرنے بیٹھے۔

’’ ہاں تو آپ کو اپنے پہلے الزام کے بارے میں کیا کہنا ہے۔ ‘‘ انھوں نے اپنی بھینگی آنکھ گھما کر اویس سے پوچھا۔

’’ جی ۔۔ !‘‘ ماسٹر نے گھگھیا کر کہا۔۔ ’’ میں لاڑ کوئی سے سلوانی تک تو بس پرہی آیا لیکن سلوانی سے اس پہاڑی علاقے میں آنے کے لیے بارش کے زمانے میں کوئی بس نہیں چلتی۔ ‘‘

’’ پھر۔۔ ؟‘‘ ’’ انسپکٹر قریشی نے با رعب آواز میں پوچھا۔

’’ اس لیے مجبوراً خادم کو گھوڑے کرائے پر طے کرنے پڑے۔۔ ‘‘

’’ آپ پیدل چل سکتے تھے۔۔ ‘‘

’’ لیکن حضور!‘‘ ماسٹر اویس نے وضاحت پیش کی۔ ‘‘ میرے ساتھ میری بیوی اور ضروری سامان بھی تھا!‘‘

’’ اس کے لیے دو ایک روپیہ کا مزدور کافی تھا۔ ‘‘

’’ لیکن صاحب! مزدور کے سرپر میری بیوی کس طرح آسکتی تھی؟ ‘‘ ماسٹر بوکھلا کر بولا۔

’’ ہوں ۔۔ !‘‘ انسپکٹر صاحب سگریٹ کا طویل کش لے کر بولے۔۔ ‘‘ گورنمنٹ یہ سب نہیں دیکھتی۔ اگر ڈیڑھ سو روپیہ تنخواہ پانے والے ہر ملازم کے تبادلے پر اتنی لمبی رقموں کے ٹی۔ بے۔ بل پاس کیے جانے لگیں تو حکومت کا کام چل چکا۔۔ اور ہاں ۔۔ دوسرے الزام کے بارے میں کیا جواب ہے آپ کے پاس؟‘‘

’’ جی صاحب! در اصل لاڑکوئی سے سلوانی تک سفر کے دوران تین بار موٹر بس تبدیل کرنی پڑتی ہے۔ ‘‘ اویس نے بہت انکسار کے سات جواب دیا۔

’’ یہ تو میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے دورانِ سفر میں تین دن کیوں صرف کیے؟ ظاہر ہے محض زیادہ ڈیلی الاؤنس کا مطالبہ کرنے کی غایت مدِّ نظر تھی۔ ‘‘

جی ہرگز نہیں ۔۔ ‘‘ اویس گڑگڑایا۔۔ ’’ ہر موٹر جس میں میں سوار ہوا، اس وقت دوسرے مقام پر پہنچی۔ جب تیسرے مقام کو جانے والی بس چھوٹ چکی ہوتی۔ میں رات کو قیام کرنے پر مجبور تھا!‘‘

جمال قریشی صاحب سگریٹ کا گل جھاڑتے ہوئے بولے۔۔

’’ آپ کو ایسی موٹروں میں سفر ہی نہ کرنا تھا۔۔ ‘‘

’’ لیکن اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا حضور!‘‘

’’ یہ بھی کوئی جواب نہ ہوا۔۔ دو الزامات آپ پر ثابت ہو گئے۔ تیسرے کے بارے میں کیا کہنا ہے آپ کو؟‘‘

ماسٹر اویس ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا۔

’’ حضور! میری کیا مجال کہ اپنے افسروں کو کسی قسم کا حکم دوں۔ میں نے تو اپنے مراسلے میں صرف یہ درخواست کی تھی کہ اگر حضور کو میری بات پر یقین نہ ہو تو بذاتِ خود تفتیش کر کے اطمینان فرما سکتے ہیں۔ ‘‘

’’ اگر براہِ راست نہیں تو بالواسطہ یہ جملہ صریحاً ایک حکم ہے۔ ‘‘ انسپکٹر صاحب غرّائے۔

’’ میں عرض کر چکا ہوں حضور کہ میری اتنی مجال نہیں !‘‘ اویس گڑگڑا کر بولا۔

’’ اس کا یہ مطلب ہے۔۔ ‘‘انسپکٹر جمال قریشی آنکھیں لال پیلی کرتے ہوئے بولے۔۔ ’’کہ میں ابھی صرف و نحو سے بھی ناواقف ہوں اور کسی جملے کا صحیح مطلب بھی نہیں سمجھ سکتا اور اتنے بڑے ضلع کے سبھی اسکولوں کا انتظام یوں ہی ہو جاتا ہے۔۔ ۔۔ کیوں ؟‘‘

فرط غضب سے انسپکٹر صاحب کے منہ سے کف اُڑنے لگا۔ سگریٹ کو زور سے زمین پر پٹک کر پیر سے مسلتے ہوئے انھوں نے پیشکار کو حکم صادر فرمایا۔

’’ ماسٹر اویس کے کیریکٹر رول میں درج کر دو کہ یہ بہت زبان دراز آدمی ہے۔۔ ‘‘

’’ حضور! میں ۔۔ ۔۔ ۔۔ ‘‘ ماسٹر نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہنا چاہا۔

’’ خاموش۔ ورنہ آپ پر انتظامی معاملات میں دخل انداز ہونے کا چارج بھی لگ جائے گا۔ ‘‘ انھوں نے ماسٹر اویس کو پھٹکارا اور پھر پیشکار سے مخاطب ہوئے۔

یہ بھی لکھو کہ یہ سخت غیر ذمّہ دار آدمی ہے اس لیے اس کی پانچ سال کی ترقی روکی جاتی ہے۔ ‘‘

’’ حضور!۔۔ ۔۔ ‘‘ مسٹر اویس نے ہاتھ جوڑ کر کچھ عرض کرنا چاہی۔

’’ پھر بولے۔۔ ۔۔ !‘‘ انسپکٹر جمال قریشی نے اپنی بھینگی آنکھیں گھمائیں۔

’’پیشکار!‘‘

’’ جی سرکار!‘‘

لکھو کہ ماسٹر موصوف انتظامی معاملات میں مداخلت کا بھی عادی ہے۔ اس لیے مزید دو سال کی ترقی روکی گئی۔۔ ۔۔ ‘‘

انھوں نے نظر گھما کر ماسٹر کی طرف دیکھا لیکن اسے اب اور کچھ کہنے کی تاب نہ تھی۔ لہٰذا وہ پھر پیشکار کی طرف مخاطب ہوئے۔

’’ لکھ چکے۔۔ ۔۔ ٹھیک ہے۔۔ ۔۔ لاؤدستخط کر دوں !‘‘

اور دستخط ثبت کر چکنے کے بعد فرمایا۔۔

’’ ان کے ٹی۔ اے۔ بل پر نوٹ لگا دو کہ تفتیش کرنے پر مطالبہ ناجائز ثابت ہوا اس لیے بل نا منظور کیا جاتا ہے!‘‘ اور پھر اویس کو ہکا بکا چھوڑ کر وہ لوگ روانہ ہو گئے۔

تین دن بعد اپنے دفتر پہنچ کر شری جمال قریشی ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولس نے اپنی ہفتہ وار سرکاری ڈائری میں ایک ناجائز ٹی اے۔ بل کی تفتیش کر کے اسے رد کرنے کی کار گزاری بڑھا چڑھا کر درج کی اور ڈائرکٹر صاحب تعلیمات کو اس کی نقل فارورڈ کر دی جس کے ساتھ تین ٹی اے بل منسلک تھے۔

انکوائری کے سلسلے میں انسپکٹر موصوف کا ٹی۔ اے بل مبلغ تین سو بارہ روپے آٹھ آنے۔ بیانات درج کرنے کے لیے ساتھ جانے والے پیش کار کا ٹی۔ اے بل۔ مبلغ ایک سو تیرہ روپے چار آنے!! اردلی کا ٹی۔ اے۔ بل مبلغ ستر روپے بارہ آنے!!

( مارچ ۱۹۶۲ء)

٭٭٭

 

 

 

 

اونچی دوکان

 

مسز انجم شاپنگ کے لیے تیار ہو کر پرس لٹکائے ہوئے باہر آئیں اور انتظار کرتی ہوئی کار کے پچھلے گدّے میں دھنس گئیں ۔۔

’’ برہانہ روڈ!‘‘

شوفر نے موٹر اسٹارٹ کی اور چمکتی ہوئی نئی کار موڑ گھوم کر جلد ہی مال روڈ پر ہجوم کے درمیان رینگنے لگی۔

شام کے چھ بج رہے تھے۔

کالج کے لڑکے، ماڈرن لڑکیاں اور مل مزدوروں کی ٹولیاں سڑکوں پر منڈلا رہی تھیں۔ کیفے، ریسٹوران اور کولڈہاؤس کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ سینما کے بکنگ آفسوں کے سامنے لوگ قطاریں باندھے کھڑے تھے۔ چوراہے پر اتنی گہما گہمی تھی کہ سائڈ کے لیے سگنل دیتے دیتے سپاہی کے ہاتھ شل ہو گئے تھے اور وہ تھکن دور کرنے کے لیے پاس ہی رشید چائے والے کے ڈھابے پر کھڑا گرم چائے کی پانچویں پیالی اپنے حلق میں انڈیل رہا تھا۔ تبھی مسز انجم کی کار ہارن دیتی ہوئی اور ایک بساطی کی چلتی پھرتی دوکان کو جو اس نے ہاتھ ٹھیلے پر سجا رکھی تھی، ٹکر دے کر الٹاتی ہوئی سن سے نکل گئی۔ بساطی کا تمام سامان سڑک پر بکھر گیا۔ آوارہ لڑکے چیزیں لے لے کر بھاگنے لگے اور جب وہ ایک لڑکے سے اپنی ٹارچ چھیننے کے لیے جھپٹا تو سامنے سے آتی ہوئی ایک رکشا سے ٹکر ہو گئی۔ بساطی جلا بھنا تھا اور رکشے والا تھکا ماندہ۔ اس حادثے نے آگ پر تیل کا کام کیا۔ دونوں کے منہ سے بیک وقت گالیوں کے فوارے اُبل پڑے۔ شور و غل سُن کر سپاہی نے باقی چائے ایک ہی گھونٹ میں حلق سے نیچے اُتار لی جس سے اس کا منہ جھلس گیا۔ اس نے جلدی سے اپنی پھٹی ہوئی میلی نوٹ بک نکالی اور ان کے قریب آ کر نام پوچھنے لگا جیسے چالان کیے بغیر ہرگز نہ مانے گا اور جلد ہی اس کی جیب میں پانچ پانچ کے دو نوٹ کھڑ کھڑانے لگے۔ !

اگلے چوراہے پر دائیں طرف مُڑ کر کار مال روڈ سے برہانہ روڈ پر آ گئی۔ سربفلک عالیشان عمارتیں چوڑی چکلی سڑک پر ہر دو جانب کھڑی تھیں۔ طرح طرح کے سائن بورڈز دوکانوں پر آویزاں تھے۔ کار ایک اونچی عمارت کے سامنے جا کر رُک گئی جس پر ’’ یونیورسل سلک اسٹور‘‘ کا سائن بورڈ لٹک رہا تھا۔ شوفر نے لپک کر پچھلا دروازہ کھولا اور مسز انجم کار سے نکل کر متانت کے ساتھ کھٹ پٹ کرتی ہوئی زینے پر چڑھ گئیں۔

زینہ پار کر کے جیسے ہی انھوں نے ہال میں قدم رکھا، منیجر لپک کر آیا۔

’’ گڈ ایوننگ مسز انجم‘‘

’’ گڈ ایوننگ‘‘

’’ کہیے کیسے تکلیف کی؟‘‘

’’ یوں ہی ۔۔ ۔۔ چند ساریوں کی ضرورت تھی۔ سوچا آرڈر دیتی چلوں۔ ‘‘

’’ ناحق زحمت فرمائی آپ نے۔۔ فون پر حکم دے دیا ہوتا، ساریاں خدمت میں حاضر ہو جاتیں ۔۔ ‘‘

منیجر انھیں لے کر شو ہال میں آیا۔ چھ ساریاں مسز انجم نے پسند کیں جن کا پیکٹ کار پر پہنچا دیا گیا۔ کاؤنٹر پر آ کر انھوں نے بِل لیا، اٹھارہ سو سات روپیے کا چیک لکھ کر کلرک کے حوالے کیا اور نیچے آ کر پھر کار میں بیٹھ گئیں ۔۔

اوپر کلرک نے منافع کے کالم میں نو سو سات روپے درج کر لیے۔

ہجوم بڑھ گیا تھا۔ سڑک قمقموں سے جگمگا رہی تھی۔ ریڈیو فضا میں موسیقی بکھیر رہے تھے۔ مسز انجم نے ڈرائیور کو کملا کلب چلنے کو کہا اور ’’ بیوٹی‘‘ کا تازہ شمارہ اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگیں۔ ایک جنسی افسانہ خاصہ دلچسپ تھا۔ افسانہ ختم کر کے نگاہ اٹھائی تو دیکھا کار کلب کے کمپاؤنڈ میں داخل ہو رہی ہے۔

گیٹ پر ایک بوڑھا پھٹے پُرانے کپڑے پہنے ایک ٹوکری میں تازہ انگور لیے بیٹھا تھا۔ انگور دیکھ کر مسز انجم کو خیال آیا کہ وہ بے بی کے لیے چاکلیٹ خریدنا تو بھول ہی گئیں۔ ان کا پروگرام بارہ بجے رات تک کلب میں ٹھہرنے کا تھا۔ کچھ سوچ کر انھوں نے کار رکوائی اور شوفر سے کہا۔ ’’ اس بوڑھے کو بلاؤ۔ بے بی کے لیے انگور ہی لے لیں ۔۔ ‘‘

’’اے بڈّھے میاں !‘‘ شوفر نے آواز دی۔۔ ’’ میم صاحب کو انگور دکھلاؤ۔ ‘‘

بوڑھا لپکا ہوا آیا۔ دل میں سوچ رہا تھا آج قسمت مہربان معلوم ہوتی ہے۔ میم صاحب کو انگور پسند آ گئے تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔ اس نے قریب آ کر ایک خوشہ تھماتے ہوئے کہا۔ ’’ مالکن ! بالکل تازے ہیں، آج ہی چمن سے آئے ہیں۔ پوری ٹوکری لے لیجیے۔ پندرہ روپیوں میں ہی دے دوں گا۔ ‘‘

’’ مسز انجم نے ایک انگور چکھ کر دیکھا۔ واقعی تازہ اور میٹھے تھے۔ بولیں ۔۔

’’ اچھا سب ہی لے لیں گے۔ دس روپیوں میں دے گا؟‘‘

دام کم تھے۔ بوڑھے کو صرف چھ آنے بچ رہے تھے لیکن اس نے سوچا رات ہو رہی ہے اور کل بیوپاری بغیر پیسے لیے مال نہ دے گا۔ چلو یہی غنیمت ہے۔ بولا۔

’’نقصان ہے لیکن خیر لائیے۔۔ ‘‘

ڈرائیور نے ٹوکری اندر رکھ دی۔ مسز انجم نے ایک دوسرا خوشہ اٹھا لیا۔ پھر پرس سے دس روپے کا نوٹ نکال کر بوڑھے کو دیتے ہوئے ایک انگور دانتوں سے توڑ لیا۔ انگور قدرے ترش تھا، بوڑھا واپس جا ہی رہا تھا کہ ہاتھ بڑھا کر نوٹ اس سے چھین لیا اور انگور کی ٹوکری اٹھا کر باہر پھینک دی۔ ’’ دغا باز۔۔ کمینے! دھوکا دیتا ہے۔۔ ‘‘

کار جا چکی تھی۔ انگور ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر بکھر گئے تھے اور بوڑھا حسرت سے ان کی طرف دیکھتا کھڑا تھا!

( دسمبر ۱۹۵۳ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

گاندھی میموریل ہاسپٹل

 

یہ گاندھی میموریل اسپتال ہے بھائی؟

ہاں بھیا۔ یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے!

گاندھی میموریل ہاسپٹل میرے گھر کے نزدیک ہے۔ گاندھی جی نے اپنی ساری زندگی ہندوستان کی غریب جنتا کی بے غرض سیوا میں گزار دی۔ لیکن ان احسانات کے بدلے میں ایک پاگل ہندوستانی نے ان کا سینہ، جس میں قوم، ملک اور اس کے باشندوں کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، پستول کی گولیوں سے چھلنی کر دیا۔

اور یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے۔

اسے گاندھی جی کی یاد میں قائم کیا گیا ہے۔ یہ ہمارے پوجیہ باپو کی یادگار ہے۔

یہاں غریب دُکھی ہندوستانی جنتا کی بے غرض خدمت کی جاتی ہے۔

پیپ بہتے ہوئے کانوں کا یہاں علاج کیا جاتا ہے۔

گلے اور حلق کے جملہ امراض میں مبتلا مریض یہاں شفا پاتے ہیں۔

اور جسم کے سب سے قیمتی عضو یعنی آنکھ کے امراض کی یہاں بطور خاص دیکھ بھال کی جاتی ہے۔

اور اس کے علاوہ بھی بھارت کی غریب دکھی جنتا کے ہر مرض کی بے غرض سیوا کی جاتی ہے یہاں۔

یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے!

یہاں تین ڈاکٹر کام کرتے ہیں۔

بڑے ڈاکٹر صاحب انگلینڈ رٹرنڈ ہیں اور انگلستان سے انھیں اتنا پیار ہے کہ وہ وقت بے وقت اُسی کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں اور اس پیار کی تجدید کے لیے ہر سال انگلینڈ ضرور جاتے ہیں۔ انھیں کہتے ہوئے سُنا گیا ہے کہ وہ ہر سال اس لیے انگلینڈ جاتے ہیں کہ میڈیکل سائنس سے متعلق نِت نئے تجربات سے واقفیت حاصل کر سکیں، چنانچہ اس سالانہ آمد و رفت کے اخراجات حکومت برداشت کرنے پر مجبور ہے۔

بچپن میں سنا تھا کہ بنگالہ کا جادو بھی سال میں ایک بار ضرور جگایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر بھی کیا کسی جادو گر سے کم ہوتے ہیں ؟

چاہیں تو پل بھر میں اچھے بھلے انسان کو مار ڈالیں۔

(مرتے ہوئے کو جِلانے کی بات پر سوچنا ہو گا)

اور یہ نہ بھولیے۔۔

’’ یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے!

بڑے ڈاکٹر کے علاوہ یہاں دو اسسٹنٹ سرجن بھی ہیں۔

ایک ایم۔ بی۔ بی۔ ایس ہیں۔

لیکن اسپتال میں ایل۔ ایم۔ پی کی قدر و قیمت زیادہ ہے۔

اور وہ صاحب جو ایم۔ بی۔ بی۔ ایس ہیں۔ ایل ایم پی سے خوف کھاتے ہیں۔

کیونکہ نا اہل ہونے کے باوجود حضرت ایل۔ ایم۔ پی بڑے ڈاکٹر کی سالی کے دیور ہیں اور بڑے ڈاکٹر سے بگاڑ کر کے اس اسپتال میں بھلا کون ٹھہر سکتا ہے؟

یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے!

اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ بڑے ڈاکٹر ایک چھوٹے سے کمپاؤنڈر سے دبتے ہیں ! وہ صرف سوا سو روپے کماتا ہے ایک ماہ میں۔

لیکن اس کا چچا زاد بھائی ہیلتھ سکریٹری کے ہاں خانساماں ہے۔

اور لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ صرف خانساماں ہی نہیں۔

سکریٹری کی مونچھ کا بال بھی ہے۔

ورنہ بھلا بڑے ڈاکٹر اس دو ٹکے کے کمپاؤنڈر سے دبنے والے ہیں۔

یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے۔

تین ڈاکٹروں اور کمپاؤنڈروں کے علاوہ یہاں سات میل نرس اور چار نرسیں ہیں۔

اور ان میں ہمیشہ بڑے تگڑے قسم کا رومانس چلا کرتا ہے۔

چاروں نرسیں اسی کمپاؤنڈ ر مرتی ہیں جس کا بھائی خانساماں ہے۔

کیوں کہ وہ نوجوان بھی ہے اور خانساماں کا بھائی بھی۔ یعنی چپڑی اور دو دو۔

لیکن وہ پاگل اس سانولی سلونی بھنگن پر مرتا ہے جو ہاسپٹل کے مریضوں کی غلاظت صاف کرتی ہے۔

اور اس طرح عشق کا یہ چکر چلتا رہتا ہے۔

بے غرض سیوا۔۔

ہاں بھائی کیوں نہ ہو۔

یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے!

لیکن بھارت کی یہ غریب دُکھی جنتا بڑی محسن کش ہے۔

احسان فراموش ہے۔

اور پاگل بھی۔

اس نے واقعی اپنے سب سے بڑے محسن اور انسانیت کے علمبردار کو گولی مار دی تھی۔

اور اب گاندھی جی کی یاد میں قائم کیے ہوئے اس اسپتال کے اسٹاف کے خلوص اور بے غرض خدمت کو بھی شک و شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے۔

حالانکہ یہاں سب کی ایک دم بے غرض سیوا کی جاتی ہے۔

لیکن غضب خدا کا۔

بھارت کی پاگل جنتا کو شک ہے۔۔

کہ ڈاکٹر صاحب انھیں لوگوں کا علاج جانفشانی سے کرتے ہیں جو ان کی مٹھی گرم کر سکتے ہوں۔

کتنے نالائق ہیں ہندوستان کے عوام۔

شاید انھوں نے اسپتال میں جا بجا لٹکے ہوئے بورڈز نہیں دیکھے۔

جن پر نمایاں حروف میں لکھا ہوا ہے۔۔

یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے!

یہاں آنکھ، ناک، کان اور گلے کے امراض کا علاج خاص طور پر کیا جاتا ہے۔

رشوت لینا اور دینا دونوں جرم ہیں۔

( میرے خیال میں لفظ ’’ دونوں ‘‘حشو ہے!)

آپریشن روم!

لائن لگا کر دوا لیجیے۔

فرش پر تھوکنے سے بیماری پھیلتی ہے۔

یہاں ہر مریض کے بے لوث خدمت کی جاتی ہے۔

کسی قسم کا انعام، مشورے کی فیس یا دوا کی قیمت ہرگز نہ دیجیے۔

تندرستی ہزار نعمت ہے۔

براہِ مہربانی خاموش رہیے۔

یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے!

اتنے سارے بورڈز تو لٹکے ہیں یہاں۔

کسی کو دکھائی نہ دیتے ہوں تو وہ اپنی آنکھوں کا علاج کرائے۔

یہاں آنکھوں کا بھی تو مفت ہی علاج ہوتا ہے۔

لیکن پاگل جنتا کو کسی بھی طرح اطمینان نہیں۔

روزانہ سیکڑوں شکایتی درخواستیں ڈائرکٹر صاحب کے پاس پہنچتی ہیں۔

طرح طرح کی شکایتیں۔

دونوں اسسٹنٹ نسخہ لکھنے سے قبل پانچ روپے لیتے ہیں۔

اسپتال کی دوا کی جگہ تمام دوائیں بازار سے خریدنے کی ہدایت کرتے ہیں اور یہ دوائیں صرف گاندھی میڈیکل اسٹور میں ملتی ہیں۔

لوگوں کو وہم ہے کہ گاندھی میڈیکل اسٹور بڑے ڈاکٹر صاحب کی ملکیت ہے۔ اور وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہ تھا۔

یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے!

اور یہ کہ گاندھی میڈیکل اسٹور میں فروخت ہونے والی دوائیں اسی اسپتال کے اسٹاک کی ہیں۔

لوگوں کی سمجھ ایسی اُلٹی ہے کہ کچھ تو صاف صاف کہتے ہیں کہ جی نہیں۔

اس اسپتال کی قیمتی دوائیں گاندھی میڈیکل اسٹور سے آتی نہیں بلکہ وہاں جاتی ہیں۔

لوگ اکثر شکایت لکھتے ہیں۔

کہ اسپتال کے کمپاؤنڈر اور نرسیں لوگوں کے گھر جا کر معائنہ کرتے ہیں۔

اور اپنی فیس زبردستی وصول کرتے ہیں۔

اور وہ کمپاؤنڈر جس کا بڑا بھائی ہیلتھ سکریٹری کا خانساماں ہے۔

( نوٹ کیجئے۔ خانساماں یعنی مونچھ کا بال!)

تو وہ کمپاؤنڈر بوتلوں سے اصل مکسچر چرا کر پانی بھر دیتا ہے اور وہ دوائیں بیچ کر طرح طرح کے قیمتی تحفے خریدتا ہے۔

اور وہ سانولی سلونی بھنگن موج اڑاتی ہے۔

اور اس بھنگن کے پڑوس میں رہنے والے ہیڈ ماسٹر صاحب ( جو روپیہ لے کر لڑکوں کو پاس کرنے کے سلسلے میں خاصے نیک نام ہیں ) کہتے ہیں۔

بھنگن کے پاس میری بیوی سے زیادہ زیورات ہیں۔

واہ صاحب واہ!

بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی؟

وہ بھی اپنی بیوی کو کسی کنوارے کمپاؤنڈر سے عشق لڑانے کی اجازت دے کر دیکھیں

بھنگن سے زیادہ زیورات بن جاتے ہیں یا نہیں اس کے لیے۔

لیکن شرط یہ ہے کہ وہ کمپاؤنڈر کسی خانساماں کا بھائی ہو۔

اور ان کی بیوی بوڑھی نہ ہو۔

بد صورت نہ ہو۔

اوہ!

میں ہیڈ ماسٹر کے یہاں کیسے پہنچ گیا۔

یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے۔

میں نے کہانا!

ہندوستان کی غریب جنتا پاگل بھی ہے!

اس نے حقیقتاً اپنے محسنِ اعظم گاندھی جی کو گولی مار دی تھی۔

اور اب ان کی یاد میں بنے ہوئے اسپتال کے کارکنوں پر الزام تراشتی ہے۔

سب سے بڑا الزام اس اسپتال کے ڈاکٹروں پر یہ ہے کہ ڈاکٹر دوچار سو روپے لے کر اسقاطِ حمل کرا دیتے ہیں۔

ہائے۔ ہائے۔

ہندوستان کی غریب دکھی جنتا کتنی پاگل ہے۔

اسے یہ بھی علم نہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی ملک کے لیے کتنی پریشانی کا باعث ہے۔ اور اگر ڈاکٹر ناجائز اولاد کی پیدائش کا انسداد کرتے ہیں تو ٹھیک!

اس میں ان کی کیا تقصیر؟

یہ تو پاگل جنتا کا قصور ہے۔

اور افسوس کہ اس غلطی کا خمیازہ میں بھگت رہا ہوں۔

یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے!

اور مجھے یہاں تفتیش کے لیے آنا پڑا ہے۔

جو درخواستیں اس اسپتال کے خلاف ڈائرکٹر صاحب کے پاس پہنچی ہیں ان کے بارے میں انھوں نے چند خاص ہدایات دے کر مجھے یہاں بھیجا ہے۔

اور مجھے تفتیش کے بعد مفصل رپورٹ دفتر میں داخل کرنی ہے۔

اور ڈائرکٹر صاحب نے رخصت کرتے ہوئے مجھے خاص طور پر کان میں کہا ہے۔

ہوشیار!

اسپتال کے کارکن بڑی بڑی ہستیوں کے آدمی ہیں۔

اور بڑے ڈاکٹر صاحب میرے خاص دوست ہیں

اور میں یہاں تفتیش کے لیے آ گیا ہوں۔

یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے۔

اوہ

میں یہ کیا سن رہا ہوں ؟

ڈاکٹر صاحب! میرے کان میں درد ہے۔

نکالو پانچ کا پتہ!

صاحب! یہ گلے کی گلٹیاں تو ٹھیک ہی نہیں ہوتیں ؟

تم نے روپے دیے تھے؟

پورے دن کا حمل ہے۔

میری ناک کٹ جائے گی ڈاکٹر صاحب!

ایک ہزار ہوں گے!

نرس ! اسے پنسلین کا انجکشن دو۔

صاحب ! وہ سب تو گاندھی میڈیکل اسٹور میں پہنچا دیے گئے۔

بھنگن ہو تو کیا ہوا ڈارلنگ! کل تین بوتلیں بکی ہیں۔ یہ رہے اڑتالیس روپے۔

اور سامنے بورڈ لٹک رہے ہیں۔

یہاں آنکھ، ناک، کان کا علاج خاص طور پر کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب! میرے کان دیکھیے۔ صریحاً غلط باتیں سنتے ہیں

نکالیے پانچ کا پتّہ!

حیران ہوں رپورٹ میں کیا لکھوں۔

اب تک کاغذ پر ایک حرف نہیں لکھا۔

گاندھی جی ہوتے تو ایسے اسپتال کو ڈائنامیٹ سے اُڑانے کی سفارش لکھتے۔

لیکن میں تو ایک عام آدمی ہوں۔

اور سامنے بورڈ پر موٹے موٹے حروف چمک رہے ہیں۔

یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے!

اور مین رپورٹ پر لکھ رہا ہوں۔

یہ گاندھی میموریل ہاسپٹل ہے!

( اگست ۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

سبز روشنی

 

کلاک نے دور کہیں دو بجائے۔

اس نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ تاریک سڑک پر سبز ٹارچ تین بار لہرا کر بجھ گئی۔ سیما کا روم روم جھوم اٹھا۔ آج قسمت نے اس کی بے لطف اور جامد زندگی کو آگے بڑھنے کا سگنل دے دیا تھا۔

اس رات ’’ پیلی کوٹھی‘‘ کو دلھن کے طرح سجایا گیا تھا۔ کوٹھی کا گوشہ گوشہ بقعۂ نور بنا دیا تھا۔ لیکن سیما کے لیے وہ رات کتنی تاریک تھی۔ دل نے آشاؤں کے سارے دیپک بجھا دئے تھے اور اس کے سینے میں سسک رہا تھا۔

و ہ اس کی سہاگ رات تھی!

کون، دبے پاؤں، کب، اس کے کمرے میں داخل ہوا، اسے پتہ نہ چلا۔ کس نے کب اس کا گھونگھٹ الٹ دیا، اسے احساس تک نہ ہوا۔

’’ سیما! ‘‘ کسی نے بڑے پیار سے سرگوشی کی۔

اور وہ یادوں کے بھیانک جزیروں میں بھٹکتی رہی۔

اسلم! اسلم! کہاں ہو تم؟ تم کہاں ہو اسلم! یہ تم کہاں چھوڑ گئی اپنی سیما کو؟

’’ سیما۔۔ !‘‘ کسی نے روح کی تمامتر شیرینی اس کے کانوں میں انڈیلنی چاہی۔

’’ اسلم۔۔ ! روتے ہوئے دل نے آواز دی۔

’’ سیما۔۔ !‘‘ اس بار سرگوشی کے ساتھ ساتھ اسے اپنے داہنے رُخسار پر بھیگی بھیگی سانسیں ٹکراتی ہوئی محسوس ہوئیں اور پھر ہونٹوں پر زندہ کیچوے سے رینگنے لگے۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔

’’ یہ کیا بد تمیزی ہے؟‘‘

سلگتے ہوئے ہونٹ اس کی آنکھوں کے بہت نزدیک لرز رہے تھے اور اس کا ’’ نصف بہتر‘‘ جاوید اپنی بوجھل نشیلی پلکوں کو بڑے جذباتی انداز میں جھپکا رہا تھا۔

’’ کیا بُرا مان گئیں سیما؟‘‘ اس نے بڑی ملائمت سے پوچھا۔

تب تک سیما کو اپنے پاگل پن کا احساس ہو چکا تھا۔ یہ اس کی شبِ عروسی تھی اور اس وقت وہ اپنے مجازی خدا کی بارگاہ میں تھی۔

’’ کون کہتا ہے اس دور میں انسان کی قربانی نہیں ہوتی۔ ‘‘

’’ آں ۔۔ ۔۔ ‘‘ جاوید نے اپنے کان اس کے لبوں سے بھڑا دیے۔

’’جی۔۔ جی۔۔ میں ۔۔ ‘‘ وہ اس کے شانے پر سر رکھ کر پھپکنے لگی۔

جاوید بوکھلا گیا۔۔

’’ لیکن بات کیا ہے سیما۔۔ ؟‘‘

’’ جی میں بہت شرمندہ ہوں ۔۔ ۔۔ ‘‘ اس نے سسکیوں کے درمیاں بمشکل یہ الفاظ ادا کیے۔

’’ پگلی!‘‘ جاوید کی بانچھیں کھل گئیں۔ ’’حسن تو منفعل ہو کر اور بھی تیکھا ہو جاتا ہے۔ ‘‘

اور شب عروسی کا وہ تیکھا حسن آج تک تیکھا تھا۔ سیما ہزار کوشش کے باوجود جاوید کے لیے اپنے دل میں کوئی جگہ نہ نکال سکی تھی اور دل میں جگہ ہوتی بھی کہاں سے اس کے ہر گوشے پر تو اسلم قابض تھا۔

اسلم!

جو سیما کا بچپن کا ساتھی تھا جس کے ساتھ اس نے عمر کی سترہ بہاریں گزاری تھیں۔

بچپن کے وہ سنہرے دن، جوانی کی وہ رنگین راتیں جو سیما نے اسلم کے ساتھ بتائی تھیں، اس کی متاعِ زیست تھیں۔ اسلم کا شگفتہ چہرہ، چلبلی حرکتیں، شوخیاں ۔۔ یہی خصوصیات وہ اپنے شوہر میں چاہتی تھی لیکن وہ تو فلسفہ کا پروفیسر تھا اور فلسفہ کا پروفیسر کوشش کرنے پر اسپنسر اور مارکس تو بن سکتا تھا، اسلم نہیں۔ وہ جاوید کی محبت میں خلوص کی گہرائیاں تو محسوس کرتی تھی لیکن اس میں اسلم کے جذبات کی سی گرمی نہ تھی۔ اس نے کئی بار پوری پوری کوشش کی کہ اگر خلوصِ دل سے نہیں تو کم از کم ظاہری گرم جوشی کے ساتھ ہی جاوید کی محبت کا جواب دے سکے لیکن وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھی۔ وہ جسمانی طور پر جاوید سے قریب تھی لیکن اس کی روح اسلم کے خیالی پیکر کے گرد دیوانہ وار چکر کاٹتی۔۔ اور اسلم۔۔ ؟‘‘

خدا جانے وہ اتنے طویل عرصے سے کہاں غائب تھا؟ چار سال قبل اس کے لیے اسلم کا پیغام آیا تھا جسے منظور کرنے کے لیے سیما کی ماں نے یہ شرط عائد کی تھی کہ لڑکے کو کسی اچھی جگہ ملازم ہونا چاہے اور پھر اسلم اس سے جدا ہو کر ملازمت کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا تھا۔ پھر مسلسل دو سال تک اس کی خبر نہ ملنے پر سیما جاوید کو سونپ دی گئی تھی۔ اب وہ موٹے موٹے ہونٹ اور چھوٹی چھوٹی آنکھوں والے اس سیاہ فام اور پستہ قد فلسفے کے پروفیسر کی بیوی تھی جو اسلم کی ضد تھا۔ سیما نے ازدواجی زندگی کے یہ دو سال کانٹوں کی سیج پر گزارے تھے۔ دن اور رات کا کوئی ایک لمحہ بھی تو ایسا نہ تھا جب اسلم کی یاد نے اس کے دل کا دامن چھوڑا ہو۔ اس کی بے لطف زندگی ایک جگہ ٹھہر کر رہ گئی تھی۔ اسے اسلم کا انتظار تھا۔

اور آج سبز ٹارچ نے تین بار لہرا کراس کی بے لطف اور جامد زندگی کو آگے بڑھنے کا سگنل دے دیا تھا۔

ہوا یوں کہ پرسوں دوپہر کو اس نے سامنے والی کوٹھی کے نئے کرایہ دار کی جھلک دیکھ لی تھی اور وہ اس کا من پسند دیوتا اسلم تھا۔ پھر مزید وقت ضائع کیے بغیر اس نے کل دوپہر میں اسلم سے مل کر تمام معاملات طے کر لیے تھے۔ سیما کے دریافت کرنے پر اسلم نے بتایا تھا کہ وہ ’’اچھی سی ملازمت‘‘ حاصل کرنے کے لیے سرکار کی طرف سے ٹریننگ حاصل کرنے امریکہ چلا گیا تھا۔ ملازمت چونکہ محکمۂ دفاع سے تعلق رکھتی تھی اس لیے اسے زیادہ خط و کتابت کرنے کی اجازت نہ تھی اور اب کہ ٹریننگ مکمل ہو چکی تھی، وہ اس شہر میں ایک اعلیٰ آفیسر کی حیثیت سے وارد ہوا تھا۔

اپنی سوچی سمجھی اسکیم کے تحت آج صبح سے ہی سیما نے رو رو کر گھر سرپر اٹھا لیا تھا۔ اسے جانے کیوں آج اپنی بھولی بسری خالہ زاد بہن یاد آ رہی تھی جو احمد آباد میں بیوگی کے ایام گزار رہی تھی اور پھر مجبوراً شام کی گاڑی سے جاوید کو اسے لانے کے لیے احمد آباد روانہ ہونا پڑا تھا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سیما خود اسے پلیٹ فارم تک پہنچا کر آئی تھی۔

اور اب سڑک پر سبز ٹارچ تین بار لہرائی تھی۔

اس نے سنگھار میز سے اپنا پرس اور مسہری کے نیچے سے سوٹ کیس اٹھایا اور تیزی سے تاریک زینہ طے کر کے سڑک پر آ گئی۔

سبز ٹارچ قریب آنے لگی۔ ’’اسلم!‘‘ وہ وفورِ مسرت سے بیخود ہو کر ٹارچ کی طرف لپکی۔

’’ سیما۔۔ ۔ ‘‘ عقب سے جاوید نے پکارا۔

وہ ٹھٹک کر کھڑی ہو گئی۔۔

’’ اس تاریک رات میں سڑک پر کیوں بھٹک رہی ہو سیما؟ اور یہ سبزروشنی کیسی ہے؟‘‘

’’ لیکن۔۔ لیکن۔۔ ‘‘ سیما نے آواز سنبھال کر بات بنانے کی کوشش کی۔ ’’ تم تو احمد آباد گئے تھے پروفیسر؟‘‘

’’ آج گاڑی پورے بارہ گھنٹے لیٹ ہے۔ پُل ٹوٹ گیا ہے کوئی مگر سیما تم۔۔ ‘‘

وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکا۔ ایک شعلہ سا لپکا لیکن وہ سبز نہیں سرخی مائل نیلا تھا۔

دھماکے کی آواز سے سڑک گونج اٹھی اور جاوید سڑک پر گر کر تڑپنے لگا۔

اسلم جھپٹ کر سیما کو گھسیٹنے لگا۔

’’ چلو سیما۔۔ جلدی کرو۔۔ بڑا خطرناک موقع ہے۔ ‘‘

’’ سیما نے شیرنی کی طرح غرّا کر اس سے اپنی کلائی چھڑا لی۔

’’ درندے۔۔ کمینے! دور ہو جا میری نگاہوں کے سامنے سے!‘‘ وہ چیخ کر بولی اور جاوید کی لاش کے سرہانے بیٹھ کر اپنی چوڑیاں توڑنے لگی!

(ستمبر ۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

اٹھارویں لڑکی

 

’’ اگر میں شاعر یا ادیب ہوتا تو۔۔ ۔۔ ‘‘

اس نے ایک سرد سانس بھری اور خاموش ہو گیا۔

’’ اگر آپ شاعر ہوتے تو۔ ؟‘‘ نئی نویلی دلھن تین دن میں قدرے بے تکلف ہو چلی تھی۔

’’ تو میں تمھارے لیے دُنیا کے حسین ترین الفاظ چُن کر تخیلات کا ایک خوابناک محل تعمیر کرتا اور ۔۔ اور نہ معلوم کیا کیا کرتا۔۔ لیکن۔۔ ‘‘

’’ لیکن۔۔ ؟‘‘ نو عروس کا تجسس بیدار ہو چکا تھا۔

’’ لیکن افسوس تو یہی ہے امبر! کہ میں نہ تو اتنا دولتمند ہی ہوں کہ تمھارے قدموں پر سونے چاندی کے ڈھیر لگا سکوں نہ شاعر ہوں کہ تمھارا دامن چاند ستاروں سے بھر دوں۔ میں تو ایک معمولی سا بزنس مین ہوں جو اپنے جذبات کا مناسب اظہار کرنے کی قدرت بھی نہیں رکھتا۔ ‘‘

’’ اور میرے لیے۔۔ ۔۔ ‘‘ امبر نے لجاتے ہوئے کہا۔ ’’ یہی معمولی سا بزنس مین دنیا کا سب سے زیادہ دولتمند آدمی اور سب سے بڑا شاعر ہے۔ ‘‘

وہ دونوں کافی دیر تک خاموش رہ کر ایک دوسرے کی گرم گرم سانسیں محسوس کرتے رہے۔

’’ آج آپ کچھ پریشان سے ہیں۔ ‘‘ امبر نے سکوت قطع کیا۔

’’ پریشان تو کیا۔۔ ۔۔ ‘‘ وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’ البتہ مجھے یہ احساس چبھ رہا ہے کہ آج تین دن ہماری شادی کو ہو گئے۔ میں اس قلیل سی مدت ہی میں تمھیں اتنی شدت سے پیار کرنے لگا ہوں جیسے ہمارا جنم جنم کا ساتھ ہو لیکن اس بے پناہ محبت کے باوجود جو مجھے تم سے ہے، میں سوائے دل کے اور کوئی حقیر سا تحفہ بھی تمہاری نذر نہ کر سکا۔ ‘‘

’’ محبت تحفوں کی مرہونِ منت نہیں ہوتی سوامی!‘‘ امبر نے پیار بھری بانہیں اس کے گلے میں حمائل کر دیں۔ وہ مسکرا دیا۔

’’ میں جو اس وقت اپنی محبت کے اظہار کے لیے مناسب الفاظ نہیں تلاش کر پا رہا ہوں امبر! وہی میں۔ کسی زمانے میں محبت کو مانتا ہی نہ تھا۔۔ ‘‘

’’ جی۔۔ ۔۔ ‘‘اس نے ایسی سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا جیسے کچھ سمجھی ہی نہ ہو۔

’’ ہاں امبر! شادی سے قبل میں کبھی محبت کا قائل نہیں رہا۔ ‘‘

وہ ہنسنے لگی۔ چاندی کی سی گھنٹیاں بجاتی ہوئی وہ معصوم ہنسی اسے بے حد پیاری لگی۔ اس نے اس کے چہرے پر زلفیں بکھیر دیں اور پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا۔

’’ تمھیں یقین نہیں آیا۔۔ شاید تم یہ سمجھتی ہو کہ میں اپنے آپ کو تمھارے سامنے پاکباز ظاہر کرنے کے لیے یہ بات کہہ رہا ہوں۔ لیکن یہ سچ ہے امبر! تمہارے وجے کمار میں دنیا کی ہزاروں برائیاں ہیں لیکن تجربہ تمھارے سامنے ثابت کر دے گا کہ اس میں ایک خوبی یہ ضرور ہے کہ وہ بے حد صاف گو ہے لیکن ہٹاؤ۔ میں یہ کہاں کی باتیں لے بیٹھا۔ نئی نویلی دلہن کے سامنے تو مجھے صرف پیار و محبت کی باتیں کرنی چاہئیں۔ ‘‘

’’ جی نہیں ۔۔ ‘‘ وہ اس سے جھو ل سی گئی۔ ‘‘ آپ کی باتیں مجھے بے حد اچھی لگ رہی ہیں۔ بتائیے نا۔ آپ یہ کیا کہہ رہے تھے۔ ‘‘

’’ میں کہنا چاہتا تھا۔ ‘‘ وہ کھویا کھویا سا کہتا رہا۔ ’’ کہ میں نے زندگی میں تم سے پہلی بار حقیقی معنوں میں محبت کی ہے ورنہ اس سے پہلے تو محبت کے مفہوم تک سے ناآشنا تھا۔ جب لوگ محبت کے افسانے میرے سامنے دہراتے تھے تو مجھے بے حد ہنسی آتی تھی۔ لیلیٰ مجنوں، سونی مہیوال اور رومیو جولیٹ کے قصّے مجھے کبھی متاثر نہیں کر سکے۔ محبت میرے نزدیک محض ایک جنس کی جنس مخالف میں مدغم ہو جانے کی خواہش کا نام تھا۔ یعنی ایک قطعی جنسی بھوک اور پیاس قسم کی چیز۔ مجھے حیرت ہوتی تھی جب لوگ محبت کے تانے بانے روحانیت سے ملاتے تھے۔ لیکن اب شادی کے بعد جب کہ مجھے تمھارے ساتھ جنسی قربت کے تمام مواقع قانوناً بھی حاصل ہیں، میں یہ محسوس کرنے لگا ہوں کہ اگر یہ مواقع مجھے نہ بھی حاصل ہوتے یا کوئی اور مجبوری مجھے اس سے محروم کر دیتی تب بھی میں دل کی اتنی ہی گہرائیوں کے ساتھ تم سے پیار کرتا۔ ‘‘

’’ تو آپ کی زندگی میں میرے علاوہ کوئی اور لڑکی۔۔ میرا مطلب ہے نوجوان لڑکی نہیں داخل ہوئی؟‘‘ امبر نے بات میں دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔

’’ یہ سوال میری صاف گوئی کو چیلنج کرتا ہے۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’لیکن میں یہاں بھی تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ بیوی سے، خصوصاً جب وہ نئی نئی تمھاری زندگی میں داخل ہوئی ہو، اس قسم کی باتیں احمقانہ ہی کہی جائیں گی لیکن اچھا ہے کہ حقیقت تم سے چھپی نہ رہے۔ بہتر یہی ہے کہ کل جو باتیں تمھیں دوسروں سے معلوم ہونی ہیں وہ میں آج خود ہی تم کو بتلا دوں۔ در اصل میں بہت ہی بُرے چال چلن کا آدمی ہوں امبر! میری سابقہ زندگی میں کم از کم سترہ لڑکیاں ایسی داخل ہوئیں جن سے میں نے جنسی تعلقات قائم کیے۔

’’ جی۔ ؟ سترہ لڑکیاں ! ‘‘ امبر نے چونک کر پوچھا۔

اس نے جھانک کر بیوی کی آنکھوں میں دیکھا۔ جہاں معصومیت کے پیچھے صرف حیرت مسکرا رہی تھی۔ کہیں بھی رشک و حسد یا بدگمانی کا شائبہ تک نہ تھا۔ وہ کافی دیر تک ان آنکھوں کی جھیل میں ڈوبا رہا۔

’’ یہ آپ میری آنکھوں میں کیا تلاش کر رہے ہیں ؟‘‘

’’ یہ کہ تمہیں میری بات پر صرف حیرت ہی ہوئی ہے۔ کسی قسم کی جلن یا بدگمانی تو نہیں پیدا ہوئی۔ تمھارے دل میں ؟‘‘ اس نے پوچھا۔

سریلی ہنسی نے ایک بار پھر نقرئی گھنٹیاں سی بجائیں۔

’’جلن۔ بد گمانی۔ ؟ یہ سب کس لیے؟ کوئی آدمی زندگی میں سترہ بار محبت کر ہی نہیں سکتا۔ اور اگر بالفرض آپ نے کی بھی ہے تب بھی اس میں میرے لیے جلنے یا بدگمان ہونے کی کیا بات ہو سکتی ہے۔ اب تو آپ صرف مجھی سے محبت کرتے ہیں۔ ‘‘

’’ تم میری بات سمجھیں نہیں ڈارلنگ!‘‘ اس نے امبر کا بازو سہلاتے ہوئے کہا۔ ’’ یہی تو میں تم سے کہنا چاہتا تھا کہ سترہ لڑکیوں سے میرا جنسی تعلق رہا۔ ان میں سے ایک بے چاری تو خاصی بدنام بھی ہوئی لیکن سچ مانو میں نے کبھی ان سے محبت نہیں کی۔ اس قسم کا کوئی جذبہ ہی نہیں پیدا ہوا میرے دل میں۔ وہ تو میرے جسم کو جنسِ مخالف کے جسم کی ضرورت تھی اور بس!‘‘

’’ توبہ۔۔ !‘‘ امبر نے مسکرا کر اُسے چھیڑنے کی غرض سے کہا۔ ’’ آپ بھی بڑے وہ ہیں۔ کیا زندگی میں جتنی بھی لڑکیاں آپ کے پاس آئیں آپ نے کسی کو نہیں بخشا۔ ؟‘‘

’’ مجھے اب اپنی ان حرکتوں پر بے حد ندامت ہے لیکن تمھارا خیال تقریباً سچ ہے۔ ‘‘

’ ’ یہ تقریباً کیسی۔۔ ؟‘‘

’’ ایک اٹھارویں لڑکی اور بھی تھی۔۔ ‘‘

’’ اٹھارویں ۔۔ ۔۔ !‘‘

’’ ہاں اٹھارویں ۔۔ ۔۔ ‘‘ اس نے ایک سرد آہ کھینچی۔ ’’ نام تارا تھا اس کا وہ اٹھارویں لڑکی تھی میری زندگی میں داخل ہونے والی۔ لیکن چونکہ سترہویں لڑکی کے ساتھ میرے تعلقات ایک ناجائز بچے کی شکل میں سامنے آئے تھے اور اس کا جو حشر ہوا تھا وہ میرے دل پر نقش تھا اس لیے میں نے تارا کے جسم سے کبھی کوئی استفادہ نہیں کیا۔ ‘‘

’’ موقع ہی نہ ملا ہو گا آپ کو ورنہ آپ کب چھوڑنے والے تھے!‘‘امبر نے اسے پھر چھیڑا۔

’’ نہیں۔ یہ بات تو نہ تھی۔ ‘‘ وہ کہتا گیا۔ ’’ مواقع سیکڑوں ملے لیکن میں دودھ کا جلا ہوا تھا۔ لہٰذا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پیتا رہا اور میری ان محتاط اداؤں پر تارا کو اکثر یہ گمان گزرتا رہا کہ میں اس سے سچی محبت کرتا ہوں۔ حالانکہ اس وقت تک میں محبت کا قائل ہی نہ تھا۔ وہ تو صرف زندگی کی کڑی دھوپ سے نجات پانے کے لیے جنسِ لطیف کے آنچل کا خنک سایہ حاصل کرنے کی بات تھی۔ محض ایک وقتی تفریح۔ ‘‘

’’ کتنے دن ہو گئے اس سے بچھڑے ہوئے آپ کو؟‘‘

’’ غالباً پانچ سال سے اوپر۔ ‘‘

’’ اب پتہ ہے کہاں ہے بیچاری؟‘‘

’’’کانپو رمیں ۔۔ ۔۔ ‘‘ اس نے بیوی کو اپنے قریب کھینچتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ تمھیں بڑا مزا آ رہا ہے ان باتوں میں ۔۔ ۔۔ ؟‘‘

’’جی ہاں ۔۔ ‘‘ وہ شرماتے ہوئے بولی۔۔ ’’زندگی میں پہلی بار اس موضوع پر اتنی عجیب باتیں سن رہی ہوں۔ کافی دلچسپ معلوم ہو رہی ہیں۔ ہاں تو پھر بتلایا نہیں آپ نے کہ وہ کہاں ہے۔ ؟‘‘

’’ کہا نا میں نے کہ کانپور میں ۔۔ ۔۔ ابھی پچھلے دنوں ہی تو اپنی شادی کے موقع پر اس کا مبارک بادی کا خط آیا تھا۔ تین سال قبل اس کی شادی ایک اچھی جگہ ہو رہی تھی لیکن اس نے لڑکے والوں کو اپنی فرضی سہیلی کے نام سے خود ہی خط لکھ کر میرے اور اپنے تعلقات کا راز افشاء کر دیا اور پھر واقعہ کو اتنی شہرت دی کہ کہیں اور شادی کی بات چلنے کا سوال ہی باقی نہیں رہ گیا۔ میں نے اسے صاف صاف سمجھا دیا تھا کہ میں نہ اس سے محبت کرتا ہوں نہ اس کے ساتھ شادی کرنے پر ہی رضامند ہوں کیونکہ میں ایک راجپوت کی اولاد ہوں اور وہ بنیے کی بیٹی!

پہلے ہی یتیم تھی وہ۔۔ اور ایک ا سکول میں ٹیچر تھی۔ اس واقعہ کے بعد ملازمت بھی جاتی رہی۔ آج کل ٹی۔ بی اسپتال میں زیر علاج ہے۔ لکھا تھا خرچ کی طرف سے بے حد پریشان ہے۔ ‘‘

’’ بڑے نِردئی ہیں آپ۔ ‘‘ امبر نے آنکھوں میں آنسو لا کر کہا۔ ’’ اگر محبت نہیں تھی تو کیا۔ آخر انسانی ہمدردی بھی تو کوئی چیز ہے۔ ‘‘

’’ کیا مطلب؟‘‘

’’ ’’ آپ اسے صبح ہی سو روپیے منی آرڈر سے بھجوا دیجیے۔ روپے میں دوں گی۔ ماتا جی نے کچھ نقد روپیہ مجھے چلتے ہوئے دیا تھا وہ میرے کس کام آئے گا۔ ساتھ میں میرا نمستے بھی لکھ دیجئے گا۔ واہ! مجھے آپ کی یہ کٹھورتا واقعی بُری لگی۔ ‘‘

دوسرے دن صبح وجے کمار نے سو روپے کا منی آرڈر تارا کے نام کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد وہ امبر کو پہلے سے ہزار گنا زیادہ چاہنے لگا۔ جو لڑکی اتنی خوبصورت ہو اور سینے میں اتنا ہی خوبصورت دل بھی رکھتی ہو اسے جتنا بھی چاہا جائے کم ہے۔

لیکن ساتویں دن جب وہ دوکان بند کر کے گھر واپس لوٹا تو اس نے دیکھا امبر میز کے کنارے کرسی پر منہ لٹکائے بیٹھی ہے اور میز پر تارا کا خط پڑا ہوا ہے۔

’’ مجھے کبھی آپ کے روپیوں کی ضرورت نہ تھی اس لیے واپس بھیج رہی ہوں۔ میرے لیے صرف آپ کی محبت کافی ہے۔۔ ۔۔ ( تارا)۔ ‘‘

اس نے امبر کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کا چہرہ اپنی طرف کر لیا۔

’’ تو جانِ من! اس میں اداس ہونے کی کیا بات ہے؟ ہم نے اپنا اخلاقی فرض پورا کر دیا۔ وہ کافی ضدّی لڑکی ہے۔ تمھیں جی چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘

امبر کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔

’’ وہ ۔۔ آپ کو چاہتی ہے۔ ‘‘

’’ یہ تو میں تمھیں پہلے ہی بتلا چکا ہوں۔ ‘‘ اُس نے سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’ لیکن اس سے کیا اثر پڑتا ہے۔ ایں ۔۔ ! میں تو اُسے نہیں چاہتا۔ ‘‘

امبر نے مختلف جذبات سے پُر آنکھوں کے ساتھ بڑی دیر تک اسے دیکھا اور پھر اس کے شانے پر سر رکھ کر زور زور سے رونے لگی۔

’’ مجھے۔۔ ۔۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ ۔۔ کہ ‘‘ اس کی آواز بُری طرح کپکپا رہی تھی۔ ’’کہ آپ۔۔ ۔۔ آپ۔۔ ‘‘

اور وجے کمار نے محبت کی طرح پہلی بار اس حقیقت کو سمجھاکہ بہت سے جذبات بے نام بھی ہوتے ہیں۔

( اگست ۱۹۶۰ء)

٭٭٭

 

 

 

 

کالا آٹا

 

’’ پاپا! لوتی نئی۔۔ آتا تم۔۔ ‘‘

بڑے لوگوں کے سکریٹری شارٹ ہینڈ میں لکھتے ہیں۔ ہمارا تین سالہ بیٹا فیروز شارٹ ہینڈ میں بولتا ہے۔ چنانچہ میں سمجھ گیا کہ اس نے روٹی نہ ملنے کی وجہ آٹے کا ختم ہونا بیان کی ہے۔ کلرک آدمی کے لیے مہینے کے بالکل ہی ابتدائی دور میں اس قسم کے جملے ذرا ناقابلِ برداشت ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا میں نے اُسے ہاتھ سے ایک طرف دھکیل دیا اور چشمہ اُتار کر احتیاط سے ٹیبل پر رکھا کہ اسے پھینکنے میں ٹوٹ جانے کا اندیشہ تھا۔

’’ حضور!‘‘ میری بیوی باورچی خانے میں برتن بجا رہی تھی میں نے اس سے غرّا کر پوچھا۔

’’ کیوں کھانے میں اور کتنی دیر لگے گی!؟‘‘

وہ بدستور برتن مانجھتی رہی۔

’’ عجیب عادت ہے تمھاری۔ ‘‘ میں نے دفتر کی بھڑاس اس پر پر نکالنی چاہی۔ ’’ جانتی ہو ساڑھے نو بجے کا گیا ہوں اور اس وقت لوٹا ہوں دفتر سے ایک پیالی چائے تک نصیب نہیں ہوتی اور تم ہو کہ وقت پر۔۔ ۔۔ ‘‘

’’ کھانا تک نہیں تیار کر سکتیں۔ ‘‘ اس نے میرا جملہ خود پورا کر دیا اور برتن ادھ دھُلے چھوڑ کر اُٹھ آئی۔ ’’ میں نے صبح ہی بتلا دیا تھا کہ ۔۔ ‘‘

’’ آٹا ختم ہو گیا ہے۔ ‘‘ اس بار میں نے اس کا جملہ پورا کر دیا۔

وہ ہنسنے لگی۔

’’ اچھا اب ہنسی کا انٹرول کر کے بتاؤ۔ ‘‘ میں نے اپنا بگڑا ہوا موڈ سنبھالنے کی کوشش کی ’’کہ آٹا منگوایا کیوں نہیں ؟‘‘

’’ اشفاق بیچارہ تین دن سے تو دوڑ رہا ہے‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’ پرسوں سے روزانہ دوپہر کے بعد اسکول سے چھٹی لے کر آ جاتا ہے اور آٹا لانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ آج بھی وہیں گیا ہوا ہے۔ ‘‘

’’ تو پھر سرکاری غلے کی دوکان سے گیہوں کیوں نہیں منگوا لیے صرف چننے اور پِسانے ہی کی تو زحمت ہوتی۔ ‘‘

’’ وہاں گیہوں ختم ہو گئے۔ دوکان چار دن سے بند ہے!‘‘

’’ بازار سے منگوا لیتیں ؟‘‘

’’ بازار بھاؤ چالیس روپیہ من کا ہے۔ ڈیڑھ سو روپے میں مہینہ بھی تو چلانا ہے۔ ‘‘

’’ یعنی بھوکے رہ رہ کر؟‘‘

افوہ!‘‘ اس نے مجھے منہ چڑاتے ہوئے کہا۔ ’’ شاید بھوک بہت زور کی لگی ہے۔ سالن وغیرہ سب تیار ہے۔ اشفاق آٹا لے کر آتا ہی ہو گا۔ تب تک آپ ذرا ہنس لیجیے۔ ‘‘

میں تعمیلِ حکم کے طور پر ہنسنے لگا۔

لیکن تھوڑی دیر بعد اشفاق بے نیل۔ و مرام واپس آیا تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

’’ کیوں۔ ؟ آٹا آج بھی نہیں ملا؟‘‘

’’ وہ بچوں کو نہیں دیتے۔ ‘‘

’’ پاپا!‘‘ فیروز نے بیچ میں لقمہ دیا۔ ’’ آتا بچا نہیں ۔۔ !‘‘

’’ آپ اپنے ہونٹوں کے پھاٹک فی الحال بند کیجیے۔ ‘‘ میں نے اس کے گال پر تھپکی دی۔ ’’اشفاق تم میرے ساتھ آؤ‘‘

چشمہ لگا کر چلنے کو ہوا تو بیوی پوچھ بیٹھی۔ ’’ کہاں جائیے گا؟‘‘

’’ آٹے والے کے پاس۔ ‘‘

’’ لیکن اب تو وقت ختم ہو گیا۔ ‘‘ اشفاق نے کہا۔ ’’ شام کو چار سے چھ بجے تک ملتا ہے۔ ‘‘

’’ تم آؤ تو۔ ‘‘ میں جھنجھلا کر بولا۔

بیوی نے کہا۔ ’’ دیکھیے لڑ نہ بیٹھیے گا کسی سے۔ اس وقت آپ کا مزاج عام طور پر چڑچڑا رہتا ہے۔ ‘‘

’’ تم نصر من اللہ کا وظیفہ پڑھو، میں ابھی آتا ہوں۔ ‘‘

لپکتا ہوا سرکاری آٹے کی دوکان پر پہنچا کچھ لوگ ڈھائی ڈھائی کلو کی آٹے کی تھیلیاں لیے ہوئے اب تک دوکان سے نکل رہے تھے۔ حالانکہ ساڑھے چھ بج چکے تھے۔ دوکان میں داخل ہوا تو گدّی پر سیٹھ جی دو منیموں کے ساتھ براجمان تھے اور مونڈھے پر ایک ہیڈ کانسٹبل صاحب تشریف فرما تھے۔

’’۔۔ ہاں تو وہ کل کا بقایا رہ ہی گیا۔ ‘‘ہیڈ صاحب کہہ رہے تھے۔

ادھر سے میں چالو ہو گیا۔

’’ کیوں صاحب؟ یہ کیا دھاندلی ہے؟‘‘

’’ ذرا ایک منٹ۔۔ ‘‘ سیٹھ جی نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا اور سامنے ٹرے میں پڑے ہوئے نوٹوں کے انبار سے پانچ کا نوٹ نکال کر ہیڈ صاحب کو تھماتے ہوئے بولے۔ ’’ باقی حساب کل ہو جائے گا۔ ‘‘

’’ ٹھیک!‘‘ ہیڈ صاحب نے احتیاط سے تہہ کر کے نوٹ جیب کے حوالے کیا اور رخصت ہوئے۔

’’ جی۔۔ ! اب فرمائیے۔ ‘‘ سیٹھ جی مجھ سے مخاطب ہوئے۔

’’ کہنا کیا ہے؟‘‘ میں غرّا کر بولا۔ ’’ میں محکمۂ جنگلات میں ملازم ہوں۔ صبح ساڑھے نو بجے دفتر جاتا ہوں اور ساڑھے پانچ چھ بجے واپس آتا ہوں ۔۔ ‘‘

’’ چچ۔۔ چچ۔۔ ‘‘ سیٹھ جی نے ہمدردی کا اظہار فرمایا۔ ’’ بڑی محنت کرتے ہیں آپ۔ لیکن میں اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہوں ؟‘‘

’’۔۔ آپ آٹا دے سکتے ہیں مجھے۔۔ یہ میرا بھانجہ ہے اشفاق۔ تین دن سے واپس لوٹ رہا ہے۔ تین فرلانگ لمبی لائن میں آ کر تین بجے سے لگتا ہے اور جب اس کا نمبر آتا ہے تو آپ کے ہاں سے جواب ملتا ہے کہ بچوں کو آٹا نہیں ملے گا۔ ‘‘

’’ صاحب ! وہ تو قانون ہی ایسا ہے۔ !‘‘

’’ یہ پانچ فٹ کا لڑکا آپ کو بچہ نظر آتا ہے! نویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ سولہویں سال میں ہے۔ پھر ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔ ظاہر ہے میں سرکاری ملازمت میں ہوں۔ صرف بارہ دن کی رخصتِ اتفاقیہ مجھے سال بھر میں ملتی ہے۔ روزانہ چھ بجے کے درمیان دفتر سے رخصت لے کر آٹا خریدنے آپ کی دوکان پر آنے سے رہا۔ میرا بچہ یا بھانجہ آتا ہے، آپ کو دینا چاہیے۔ ‘‘

وہ بولے۔ ’’ دیکھیے آٹا در اصل ہماری دوکان پر مل والے براہِ راست آ کر فروخت کرتے ہیں۔ ہمیں تو صرف چند فیصدی کمیشن بھر ملتا ہے۔ وہ لوگ شروع میں بچے بوڑھے سب کو دیتے تھے۔ اب قانون بنا دیا ہے کہ بچوں کو نہیں دیں گے۔ ‘‘

’’ کس نے یہ قانون بنا دیا ہے؟ سرکار نے؟‘‘

’’ جی نہیں۔ مل والوں نے!‘‘

’’بہت خوب!‘‘ میں نے منہ بنا کر کہا۔ ’’ وہ قانون بنانے والے کون ہوتے ہیں !‘‘

’’بچے آٹا پھینک دیں، پیسے گم کر دیں، راستے ہی میں کھا جائیں یا ایسی ہی کوئی اور گڑ بڑ نہ کریں۔ اس لیے انھوں نے یہ قاعدہ بنا دیا۔ ‘‘

’’ یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے۔ میرے ہاں کوئی لانے والا نہیں ہے، میں ہوں تو دفتر میں رہتا ہوں۔ ہمیں آٹا کون لا کر دے گا۔ اسے بھی اسکول سے چھٹی لے کر آنا پڑتا ہے۔ ‘‘

’’ عورتیں آ کر لے جائیں۔ !

میں جھنجھلا گیا۔

’’ سیٹھ جی! در اصل ہم جاہلوں کے گھروں میں پردہ ہوتا ہے۔ عورتیں نہیں آسکتیں۔ بالفرض آئیں تو دو ڈھائی کلو آٹے کے لیے دو روپے تانگے والے کو دینا پڑیں۔ اور گھر کا کام کاج کون کرے گا۔ بچوں کو کون سنبھالے گا۔ آپ کے ہاں تو یہ لمبی لائن لگتی ہے۔ ‘‘

’’ تب پھر مجبوری ہے۔ ‘‘

’’ مجبوری نہیں۔ آپ اس بچے کو آٹا دیا کیجئے۔ ‘‘

’’’’ اچھی بات ہے۔ ‘‘ سیٹھ جی نے لہجے میں کچھ لچک پیدا کی۔ ‘‘ آج تو دوکان بند ہو چکی، کل دے دیں گے۔ ‘‘

’’ اور پرسوں بھی۔ ‘‘ میں نے ہمیشہ کی جھنجھٹ نبٹانی چاہی۔

’’ جی ہاں اگر آپ آ کر کہہ گئے تو اس دن بھی دے دیں گے۔ ‘‘

’’ یہ اچھی زبردستی ہے۔ ‘‘

’’ صاحب! آپ تو بحث کرنے لگے۔ مجھے دوسرے کام بھی دیکھنے ہیں نمستے!‘‘ سیٹھ جی نے کہا اور گردن جھکا کر نوٹ جمانے لگے۔ بڑے نوٹ الگ، چھوٹے نوٹ الگ۔

’’ چلو اشفاق!‘‘

میں وہاں سے نکل کر سیدھا قریبی تھانے میں پہنچا لیکن معلوم ہوا کہ جس حلقے کی وہ دوکان ہے اس سے متعلقہ تھانہ دوسرا ہے جو وہاں سے کم از کم ایک میل کی دوری پر تھا۔ مزید چل سکنے کی سکت نہ تھی۔ چنانچہ تانگہ کیا اور متعلقہ تھانے میں پہنچا۔ تھانیدار صاحب کسی عورت کا بیان لینے میں مصروف تھے۔ میرا نمبر آنے تک آٹھ بچ گئے۔ بہر حال میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو بولے۔

’’ فرمائیے۔ آپ کی تعریف؟‘‘

’’ میں نے انھیں اپنا نام بتایا اور یہ بتلانا بھی نہ بھولا کہ افسانہ نگار اور شاعر بھی ہوں لیکن وہ مرعوب ہونے کی بجائے بھڑک گئے۔

’’ آپ کرتے کیا ہیں ؟ اور یہاں کیوں آئے ہیں ؟‘‘

’’ میں کلرک ہوں فارسٹ ڈپارٹمنٹ میں !‘‘

’’ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ بیٹھ جائیے۔ ‘‘

میں نے سوچا ابتدا اچھی ہوئی ہے چنانچہ مناسب پہلو سے بیٹھ کر بڑے رقّت آمیز لہجے میں اپنا بیان شروع کیا۔۔

’’ انسپکٹر صاحب! میں ملازم آدمی ہوں۔ صبح کا گیا گیا چھ بجے تک دفتر سے لوٹتا ہوں۔ خود سودا سلف خریدنے نہیں جا سکتا۔ محلے کی سرکاری غلے کی دوکان چار دن سے بند ہے کہ اسٹاک ختم ہو گیا۔ شہر میں سرکاری آٹے کی دو دوکانیں ہیں وہاں ایک دن میں صرف ڈھائی کلو آٹا ملتا ہے۔ میرے گھر میں پانچ نفر کھانے والے ہیں۔ ایک دن میں آٹا ختم ہو جاتا ہے۔ ایک ساتھ ملے تو ایک دن کی رخصت لے کر یکجا خرید کر رکھ دوں۔ روز روز تو رخصت ملنے سے رہی۔ یہ میرا بھانجہ میرے ساتھ رہتا ہے۔ نویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ تین دن سے اسکول سے چھٹی لے لے کر آٹے کی دوکان پر لائن میں لگتا ہے لیکن دوکان دار اسے آٹا نہیں دیتے کہ بچوں کو نہیں ملے گا۔ ‘‘

’’ کبھی کبھی پولیس والے بھی بیچ ہی میں لائن سے نکال دیتے ہیں۔ ‘‘ اشفاق نے بیچ میں کہا۔

’’کیا مطلب۔۔ ؟‘‘ تھانیدار صاحب نے تیوریاں بدلیں۔

’’ جی ہاں صاحب!‘‘ اشفاق نے جواب دیا۔ ’’ پولیس والے بھی کبھی کبھی بیچ میں لائن سے نکال دیتے ہیں۔ ‘‘

’ کیوں نکال دیتے ہیں جی؟‘‘

’’ کہتے ہیں بچوں کو آٹا نہیں ملتا۔ ‘‘

’’ نہیں۔ نہیں ۔۔ ‘‘ داروغہ جی نے میز پر گھونسہ مارا۔ ‘‘ پولیس والے ایسی خلافِ قانون بات نہیں کہہ سکتے۔ تم لائن میں اپنے نمبر سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہو گے۔ ‘‘

’’ یہ بات نہیں ہے انسپکٹر صاحب! ‘‘ میں نے انھیں سمجھانا چاہا۔ ’’ دوکاندار صریحاً بچوں کو آٹا نہ دینے کی بات کرتا ہے میں ابھی ابھی اس سے مل کر آ رہا ہوں۔ وہیں میں نے آپ کے ہیڈ کانسٹبل کو سیٹھ جی سے روپے وصول کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے!‘‘

’’ کیسے روپے۔۔ ؟‘‘

’’ بچوں کو لائن سے نکال دینے کا معاوضہ!‘‘

’’ کیوں ؟‘‘

’’ تاکہ وہی آٹا بلیک میں فروخت کیا جا سکے۔ ‘‘

تھانے دار صاحب ہڑبڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

’’ آپ میرا وقت ضائع مت کیجیے۔ فوراً تھانے سے باہر نکل جائیے۔ اگر آپ سرکاری ملازم نہ ہوتے تو میں ۔۔ ۔۔ ‘‘

’’ لیکن تھانیدار صاحب! ہم تین دن سے چاول کھاتے کھاتے تنگ آ گئے ہیں۔ اول تو زکام اور نزلہ پیدا کرتے ہیں دوسرے مہنگے بھی اتنے۔۔ ۔۔ ‘‘

’’ آپ جاتے ہیں یا میں ۔۔ ۔۔ ۔۔ ؟‘‘

میں لپک کر تھانے سے باہر آ گیا۔ پہلے سوچا کسی سیاسی لیڈر کے پاس جاؤں۔ پھر خیال آیا ملازم سرکار ہوں۔ ایک بار ارادہ کیا کہ چیف منسٹر کے بنگلے پر پہنچوں، لیکن اپنے چھوٹے آدمی ہونے کا احساس ہوا۔ چنانچہ اشفاق کو ساتھ لے کر گھر آ گیا۔

اندر داخل ہوتے ہی فیروز نے شارٹ ہینڈ شروع کر دی۔

’’ پاپا! آتا بوت۔۔ امّی نے لوتی ایں ۔۔ ‘‘ ( پاپا آٹا بہت سا آ گیا ہے امّی نے روٹیاں پکائی ہیں )

’’ لیجیے آپ تو پھر خالی ہاتھ آ گئے اور ہم نے آٹا منگوا بھی لیا۔۔ ‘‘ عصّو نے آنکھیں گھما کر فاخرانہ انداز میں ارشاد فرمایا۔

’’ کہاں سے؟‘‘

’’ پڑوسن کا بچّہ چکی پر سے لایا ہے۔ ‘‘

’’ کتنا۔۔ ۔۔ ؟‘‘

’’ دس کلو۔۔ ۔۔ بارہ روپے کا۔ ‘‘

مجھے چکر سے آ رہے تھے، صبح سے اس وقت تک کولھو کے بیل کی طرح جُتے رہنے کے بعد بے حد تکان محسوس کر رہا تھا۔ پھر بھی لپک کر آٹے کے کنستر میں جھانکنے لگا جو لبالب کسی سیاہ رنگ کے سفوف سے بھرا ہوا تھا۔ ہاتھ ڈال کر دیکھا۔ تو وہ کالا کالا سفوف تمام ہاتھ میں لتھڑ گیا۔ میں جلدی سے سر تھام کر تخت پر لمبا لمبا لیٹ گیا۔

’’ بیگم یہ آٹا اتنا کالا کیوں ہے؟‘‘

( ستمبر ۱۹۶۴ء)

٭٭٭

 

 

 

 

طمانچہ

 

(ایک ریڈیائی تمثیل)

 

(پختہ فرش پر قدموں کی چاپ بتدریج قریب آتی جائے)

سلیم:   ’ سلمیٰ!‘‘

(قدموں کی چاپ واضح ہو جائے۔ بستر تھپتھپانے کی آوازیں )

سلیم:   ’سلمیٰ۔۔ !‘‘( قدرے زور سے)’’ ارے بھئی سلمیٰ!‘‘

سلمیٰ:  ( دور سے آواز آتی ہے) ’’ ۔۔ جی!‘‘

( بستر جھٹکنے کی آواز )

سلیم:   ( پریشانی کے عالم میں ) ’’ میری الماریوں کی چابیاں کہاں ہیں ؟‘‘

سلمیٰ:  ( دوسرے کمرے سے) ’’ وہیں مسہری پر ہوں گی۔ ‘‘

سلیم:   ( قدرے جھنجھلاہٹ کے ساتھ)۔۔ ’’عورتوں کی عادتیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں۔ چابیاں بستر میں چھپا کر رکھتی ہیں۔ ‘‘

(اِدھر اُدھر زور زور سے ہاتھ مارتا ہے۔ کھڑکھڑاہٹ کی آواز)

سلیم:   ( طنزیہ ہنسی کے ساتھ)۔۔ ’’ اور اس تکیے میں نہیں معلوم کیا ٹھونس رکھا ہے۔ ‘‘ (وقفہ)

( کھڑکھڑاہٹ اور کاغذات کی سرسراہٹ)

سلیم :   ( تعجب کے ساتھ)۔۔ ’’ ارے! یہ تو کسی نوجوان کی تصویر ہے۔ اور یہ اس کی پشت پر کیا لکھا ہوا ہے؟‘‘

(دبی دبی آواز میں رُک رُک کر پڑھتا ہے)

سلیم:   ( ایک سرد آہ کے ساتھ لرزتی ہوئی آواز میں )۔ ’’ جان سے پیاری سلمیٰ! تمھاری شادی پر کیا تحفہ نذر کروں ؟ ایک دل تھا جو پہلے ہی بھینٹ چڑھا چکا ہوں۔ اپنی ایک تصویر بھیج رہا ہوں۔ اسے دیکھ کر کبھی کبھی تمھارے دل میں اس نا مراد کی یاد تازہ ہو جایا کرے گی جو تم پر دیوانہ وار مرتا ہے۔   تمہارا اپنا۔ بد نصیب۔ شابی!‘‘

( فرش پر قدموں کی وزنی آوازیں، وقفہ، سرد آہیں )

سلمیٰ:  ( دور سے۔۔ لیکن آواز بتدریج قریب آتی جائے) ’’ میں نے کہا چابیاں تو ادھر میز پر پڑی ہیں۔ ‘‘

سلیم:   ( بہت تیز قدموں کے ساتھ) ’’ وہ آ رہی ہے۔ اس تصویر کر پھر تکیے میں رکھ دینا چاہیے۔ ‘‘

سلمیٰ:  ( قریب سے) ’’ یہ لیجیے اپنی چابیاں۔ خود ہی میز پر ڈال رکھی ہیں اور اِدھر اُدھر ڈھونڈھتے پھر رہے ہیں ۔۔ ‘‘

( فرش پر وزنی قدموں کی مسلسل چاپ)

سلمیٰ:  ’’ ارے آپ اتنے پریشان سے کیوں ہیں ؟ آفس کو تو ابھی کوئی خاص دیر نہیں ہوئی۔ ‘‘

سلیم :   ( ٹھنڈی سانس بھر کر) ’’ سلمیٰ!‘‘

سلمیٰ:  ’’ جی!‘‘

سلیم:   ’’ کچھ نہیں ۔۔ ‘‘

سلمٰی:   ’’ خدا خیر کرے۔ آج آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ‘‘

سلیم:   ( بھرائی ہوئی آواز میں ) کچھ نہیں سلمیٰ۔ کچھ نہیں۔ در اصل پوچھنا چاہتا تھا کہ۔۔ ‘‘

سلمیٰ:  اے اللہ! میں کہتی ہوں اب پوچھ بھی چُکیے۔ ‘‘

سلیم:   ( کھنکار کر) ’’ میں پوچھنا چاہتا تھا کہ شام کو پکچر دیکھنے چل رہی ہو نا؟‘‘

سلمیٰ:  ( کھلکھلا کر ہنستی ہے) ـ توبہ میری! میں تو ڈر گئی تھی کہ نہ جانے کیا بات ہے؟‘‘

سلیم:   ’’ کچھ نہیں اور کوئی خاص بات نہیں۔ ‘‘

(سلمیٰ پھر زور سے ہنستی ہے۔ ہنسی طویل ہوتی جاتی ہے اور کلائمکس پر پہنچ کر بتدریج مدھم ہوتے ہوئے ٹائپ مشین کی کھٹاکھٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ٹائپ مشین ہم آہنگی کے ساتھ مسلسل کھٹ پٹ کی آواز پیدا کر رہی ہے)

شہاب: ( کھنکار کر) ’’ آداب عرض ہے سلیم صاحب!‘‘

( وقفہ۔ ٹائپ مشین مسلسل آواز پیدا کر رہی ہے)

شہاب: ( قریب آ کر ذرا زور سے) ’’ میں نے کہا سلیم صاحب! آداب عرض ہے۔ ‘‘

( وقفہ۔ ٹائپ مشین مسلسل آواز پیدا کر رہی ہے۔۔ تیز تیز جوتوں کی آوازیں )

شہاب: ’ ارے سلیم صاحب! یہ آج آپ کو ہو کیا گیا ہے؟ میرے سلام کا جواب تک نہیں دیا۔ ‘‘ ( ہنس کر مضحکہ اڑانے کے انداز میں ) ’’ بھئی واہ! رولر پر کاغذ تک نہیں چڑھایا اور اتنی محویت کے ساتھ ٹائپنگ ہو رہی ہے!‘‘

(ٹائپ مشین رُک جاتی ہے۔ کرسی سرکانے کی آواز)

سلیم:   ( چونک کر) ’’ کون شہاب!‘‘

شہاب: (طنزاً) ’’ جی ہاں کب سے کھڑا ہوں۔ آپ اب جاگے ہیں !‘‘

سلیم:   ’’معاف کرنا بھئی! میں کچھ سوچ رہا تھا۔۔ تم ذرا میرے پاس بیٹھو۔ ‘‘

( کرسی سرکانے کی آواز)

شہاب: ’’ فرمائیے۔۔ آج آپ بہت پریشان سے نظر آ رہے ہیں۔ ‘‘

سلیم:   ’’ کچھ نہیں ۔۔ ایسی کوئی خاص بات نہیں۔ ‘‘ ( وقفہ)’’۔۔ شہاب! تم رہنے والے کہاں کے ہو؟‘‘

شہاب: ’’ جی لکھنؤ کا! بات کیا ہے؟‘‘

سلیم:   ’’ کچھ نہیں ۔۔ در اصل لکھنؤ میری سسرال ہے۔ ‘‘

شہاب : ’’ بہت خوب۔۔ آپ تو میرے۔۔ ۔۔ ‘‘

(ہنسی کی آواز)

سلیم:   ’’ کیا تمھارا کوئی چھوٹا بھائی بھی ہے؟‘‘

شہاب: ’’ جی نہیں تو۔۔ لیکن۔۔ ‘‘

سلیم :   ( رُک رُک کر) ’’اگر یہ تمھاری فرنچ کٹ داڑھی اور یہ مونچھیں ۔۔ ‘‘

شہاب: ( پریشانی کے لہجے میں ) ’’ آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟‘‘

سلیم:   ( چونک کر) ’’ اوہ کچھ نہیں ۔۔ کچھ بھی تو نہیں ۔۔ در اصل میں یہ چاہتا تھا کہ شام کا کھانا م میرے ساتھ کھاتے۔ ‘‘

شہاب: ( طویل ٹھنڈی سانس لے کر) ’’ شکریہ! حاضر ہو جاؤں گا۔ ‘‘

سلیم:   ’’ اب تم جا سکتے ہو اپنی میز پر۔ ‘‘

( کاغذ سرسرانے کی آواز۔ مشین پھر چلنے لگتی ہے۔ کھٹ پٹ کی آوازیں واضح اور تیز ہو کر نقطۂ عروج کو پہنچ جاتی ہیں اور بتدریج مدھم ہوتے ہوئے تحلیل ہو کر برتنوں کی کھنکھناہٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ )

سلیم:   ’’ بھئی تم تکلف کر رہے ہو‘‘۔ ( آواز اسی طرح پھنسی پھنسی نکلے جیسے بولنے والا کچھ کھا رہا ہو)

شہاب: ( منہ میں لقمہ پھنسا ہوا ہے) ’’ یہ بھی آپ نے ایک ہی کہی۔ دیکھیے تو کتنی تیزی سے پلیٹیں صاف کی ہیں میں نے۔ البتہ آپ خود اپنے ہی گھر میں تکلف سے کام لے رہے ہیں۔ ‘‘

(چمچوں کی کھنکھناہٹ اور برتن سرکانے کی آوازیں۔ طویل وقفہ)

سلیم:   ’’ اپنے لیے چائے خود تیار کرو شہاب!‘‘ ( قدرے بلند آواز میں ) سلمیٰ یہ برتن لے جاؤ۔ ‘‘

شہاب: ( چونک کر لیکن آواز بہت مدھم ہے) ’’ سلمیٰ۔ ‘‘

( دور سے سلمیٰ کی آواز آتی ہے)

سلمیٰ:  ’’ جی! ابھی آئی۔ ‘‘

( قدموں کی چاپ بتدریج قریب آتی ہے اور پھر ایک پیالہ زور دار چھناکے کے ساتھ ٹوٹتا ہے۔ )

سلیم:   ( طنز آلود لہجے میں ) ’’ کیوں شہاب ؟ کیا بات ہے؟ اتنے بوکھلائے ہوئے کیوں ہو؟‘‘

شہاب: ( لرزتی ہوئی آواز میں )’’ جی۔۔ جی۔۔ ‘‘

سلمیٰ :  (حیرت کے ساتھ چیختی ہے) ’’ شابی!‘‘

(فرش پر کسی کے گرنے کا دھماکہ)

شہاب: ( ہکلاتے ہوئے) ’’ صاحب! آپ بھابی کو سنبھالیے۔ میری ذرا طبیعت گڑبڑ ہے۔ چلتا ہوں۔ ‘‘

(پختہ فرش پر لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کی آواز جو دور کہیں جا کر تحلیل ہو جاتی ہے۔ وقفہ۔ پھر بوجھل قدموں کی چاپ)

سلیم:   ’’ سلمیٰ!‘‘

سلمیٰ:  ( بہت نحیف آواز میں ) ’’ جی!‘‘

سلیم:   ’’ یہ پانی پی لو، طبیعت سنبھل جائے گی۔ ‘‘

سلمیٰ:  ( چونک کر) ’’ جی! میں بالکل ٹھیک ہوں۔ یوں ہی ذرا سر چکرا گیا تھا۔ ‘‘

سلیم:   ( بہت گمبھیر آواز میں ) ’’ گھبرانے کی کوئی بات نہیں سلمیٰ! مجھے افسوس صرف اس بات کا ہے کہ تم نے مجھے اب تک اس راز سے بے خبر رکھا ورنہ میں اتنا ذلیل نہ تھا کہ تم دونوں کی محبت کے درمیان دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا۔ تم نے میرے خلوص کی توہین کی ہے۔ اس راز کو پوشیدہ رکھ کر سلمیٰ تم نے اس بے پناہ محبت کو ذلیل کیا ہے جو مجھے تم سے ہے۔۔ ‘‘

(سلمیٰ کے سسکنے کی آواز۔ ایک طویل وقفہ)

سلمیٰ:  ( سسکتے ہوئے) ’’ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘‘ ( رُک رُک کر) ’’ یہ سچ ہے کہ مجھے شابی سے محبت تھی۔ لیکن اب قطعی نہیں ہے۔ میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ آپ کی بے پناہ محبت نے اس کی یاد بھی میرے دِل سے نکال پھینکی تھی لیکن آج اس چھوٹے سے پُر سکون گھر میں۔ آپ کی محبت پا کر میں خود کو دنیا کی خوش نصیب ترین عورت سمجھتی تھی۔ شابی تم نے یہ کیا کیا؟۔۔ یہ تم نے کیا کر دیا شابی!‘‘

( پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے)

سلیم:   ( اسی متین اور گمبھیر آواز میں ) ’’ اپنے آپ کو دھوکا دینے سے کوئی فائدہ نہیں سلمیٰ! میں جانتا ہوں کہ عورت زندگی میں صرف ایک بار محبت کرتی ہے اور اس کی یاد کو عمر بھر کلیجے سے لگائے رکھتی ہے۔ میں نے تمھارے تکیے میں شہاب کی تصویر صبح ہی دیکھ لی تھی۔ اس نے آج کل داڑھی بڑھا رکھی ہے۔ لیکن پھر بھی میں نے اسے پہچان لیا۔ وہ میرے ہی دفتر میں کلرک ہے۔ تمہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

( سلمیٰ دیر تک زور زور سے سسکتی رہتی ہے اور پھر یہ سسکیاں کار کے اسٹارٹ ہونے کی آواز میں دب جاتی ہیں )

سلیم:   ’’ سمجھ گئے نہ ڈرائیور؟‘‘

ڈرائیور:        ’’ جی حضور!‘‘

سلمیٰ:  ’’ لیکن میں نہیں جاؤں گی۔ ‘‘ (سسکتی ہے) ’’ میں اس کے پاس نہیں جاؤں گی، مجھے اپنے قدموں میں پڑی رہنے دیجئے۔ میں آپ کے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ ‘‘

سلیم:   ( بہت جذباتی ہو کر) ’’ نہیں سلمیٰ! یہ میری التجا ہے۔ تم اس کے پاس جاؤ۔ میری نظروں میں تمھاری وہی عزت ہے جو پہلے تھی۔ میرے دل میں تمھارے لیے وہی پُر خلوص محبت برقرار رہے گی جو روزِ اوّل سے ہے۔ لیکن میں دُنیا کے سامنے ایثار کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں، سلمیٰ! میرے اس جذبے کا خون نہ کرو سلمیٰ! ورنہ میں خود کشی کر لوں گا۔ خدا کی قسم خود کُشی کر لوں گا۔ ‘‘

( سلمیٰ سسکتی رہتی ہے۔ کار کے انجن کی مسلسل کھڑکھڑاہٹ)

سلمیٰ:  ( سسکتے ہوئے) ’’ اللہ! میں مر کیوں نہیں جاتی۔ یہ آسمان کیوں نہیں ٹوٹ پڑتا ہے؟‘‘

سلیم:   ( بدستور اسی جذباتی لہجے میں ) آواز فرطِ جذبات سے لرزتی ہوئی) ’’ یوں بد دل ہونے سے کوئی فائدہ نہیں سلمیٰ! میری بہترین تمنائیں تمھارے ساتھ ہیں۔ خدا تم دونوں کو ہمیشہ خوش و خرم اور شاداب رکھے۔ کل میرا طلاق نامہ شہاب کے پاس پہنچ جائے گا اور پھر تم کچھ دنوں بعد اس کے ساتھ با عزت ازدواجی زندگی بسر کر سکوگی۔ ‘‘

( وقفہ۔ کار کا انجن آواز پیدا کر رہا ہے۔ سلمیٰ بدستور سسکیاں بھر رہی ہے)

ڈرائیور:        ’’ تو میں لے جاؤں سرکار؟‘‘

سلیم:   ہاں جاؤ!خدا حافظ!‘‘( وقفہ) ’’ اور ہاں سلمیٰ! اپنے شابی سے کہنا کل آفس میں میرا استعفیٰ پہنچ جائے گا۔ میرے بعد وہی سب سے سینئر ہے اس لیے وہ آفس سپرنٹنڈنٹ ہو جائے گا۔

اچھا۔۔ جاؤ ڈرائیور! خدا حافظ!‘‘

( سلمیٰ پھپک پھپک کر روتی ہے۔ کار چلنے کی آواز۔ سرد آہیں )

سلیم :   ’’ وہ چلی گئی!‘‘ ( آواز بُری طرح بھرّائی ہوئی ہے) ’’ میں نے دو دلوں کو مِلا دیا۔ ‘‘

( سرد آہیں !)’’ کتنا عظیم ایثار کیا ہے میں نے۔۔ لیکن اب اس ٹوٹے ہوئے دل، اس بلکتی ہوئی محبت کو لے کر کہاں جاؤں۔ ‘‘

( بوجھل بوجھل قدموں کی ہم آہنگ آوازیں ۔۔ ایک طویل وقفہ۔۔ پھر ایک کھٹکا۔۔ تھوڑی دیر تک ریڈیو کے گھڑ کھڑانے کی آواز اور پھر یکلخت غمگین موسیقی کا فوارہ سا پھوٹ پڑے۔۔ طلعت محمود کا ریکارڈ درمیان بجایا جائے)

(ریڈیو دھیرے دھیرے بج رہا ہے)

’’ دنیا نے کیے وہ ہم پہ ستم دو پیار بھرے دل مل نہ سکے

کہنے کو بہار آئی تھی مگر دو پھول خوشی کے کھل نہ سکے

ارمانوں کا گلشن اُجڑ گیا، برباد جوانی ہو گئی

لو ختم کہانی ہو گئی۔۔ ‘‘

( اچانک ریڈیو بند ہو جاتا ہے۔ دروازے اور کھڑکیاں پر شور آواز کے ساتھ کھلنے اور بند ہونے کی خوفناک آوازیں ۔۔ بادل گرجتا ہے۔ پانی گرنے کی صدائیں )

سلیم:   ( ایک بہت طویل سرد آہ بھر کر) ’’ فیوز اُڑ گیا۔ میری زندگی کا فیوز بھی اُڑ گیا۔ اب چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔ ہولناک اندھیرا۔۔ آسمان بھی میری تباہی پر پھوٹ پھوٹ کر رو رہا ہے ( سرد آہیں ) لیکن میری آنکھیں تو خشک ریگستان ہو کر رہ گئی ہیں۔ خدایا میں کِدھر جاؤں۔ میں کدھر جاؤں خدایا؟‘‘

( سرد آہوں کے ساتھ بوجھل بوجھل قدموں کی آوازیں۔ پش منظر میں پر شور بارش اور ہواؤں کے جھکڑوں کی صدائیں۔ دروازے اور کھڑکیاں زور زور سے ٹکرا رہی ہیں )

ڈرائیور:        ( باہر سے دروازہ پیٹتے ہوئے) ’’ سرکار!‘‘

( وقفہ)

ڈرائیور:        ( بہت زور سے دروازہ پیٹتا ہے) ’’ سرکار! دروازہ کھولیے!‘‘

( بوجھل بوجھل قدموں کی آواز۔ دروازہ پر شور چرچراہٹ کے ساتھ کھلے اور ہواؤں کی شائیں شائیں ایک دم تیز ہو جائے)

سلیم:   ( بھرّائی ہوئی آواز میں ) ‘‘ چھوڑ آئے سلمیٰ کو؟‘‘

ڈرائیور:        ( ہانپتے ہوئے) ’’ غضب ہو گیا سرکار!‘‘

سلیم:   (گھبرا کر) ’’ کیوں ۔۔ ؟ کیا ہوا۔۔ ؟‘‘

ڈرائیور:        ( زور زور سے ہانپتا ہے) ’’ جی۔۔ وہ۔۔ جی۔۔ وہ۔ ‘‘

سلیم:   ( چیخ کر) ’’ جلدی کہو کمبخت۔۔ ورنہ میرا ہارٹ فیل ہو جائے گا۔ ‘‘

ڈرائیور:        سرکار! وہ شہاب میاں سلمیٰ کو دیکھ کر بہت ناراض ہوئے۔ آپ کو بہت بُرا بھلا کہا۔ آپ کا خط پھاڑ کر پھینک دیا میرے منہ پر۔۔ بی بی جی کو ایک طمانچہ بھی مارا اور کہا کہ۔۔ ‘‘

سلیم :   ( الجھن کے ساتھ) ’’ کیا کہا۔۔ اور کیا کہا اس نے؟ جلدی بتاؤ ڈرائیور۔ میں پاگل ہو رہا ہوں ۔۔ تمھارا گلا گھونٹ دوں گا ورنہ جلدی کہو۔۔ ‘‘

ڈرائیور:        ’’کہہ تو رہا ہوں سرکار! انھوں نے کہا کہ سلیم کے بچے سے کہہ دینا کہ صرف وہی انسانیت اور ایثار کا ٹھیکیدار نہیں ہے۔ دنیا میں دوسرے انسان بھی بستے ہیں۔ ‘‘

سلیم:   ’’ پھر۔۔ ؟‘‘

ڈرائیور:        ( سسکتے ہوئے) ’’ پھر سرکار انھوں نے مجھے بُری طرح پیٹا۔ اور سلمیٰ بی بی کو اٹھا کر کار میں پھینک دیا اور بولے کہ دفعان ہو جاؤ یہاں سے۔ اور یہ بھی کہا کہ وہ اس شہر سے ہی چلے جائیں گے۔ ‘‘

سلیم:   ( بھرّائی ہوئی جذباتی اور بہت نرم آواز میں ) ’’ شہاب تم عظیم ہو۔۔ شہاب تم۔۔ ‘‘

ڈرائیور:        ( متحیر ہو کر ) ’’ آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟‘‘

سلیم:   ( چونک کر) ’’ ارے ہاں ۔۔ سلمیٰ کہاں ہے؟‘‘

ڈرائیور:        ’’ کار میں بے ہوش پڑی ہیں۔ ‘‘

سلیم :   ( ( زور سے) ’’ کیا۔۔ ؟ بے ہوش پڑی ہے وہ۔۔ اور تو یہاں کھڑا باتیں بنا رہا ہے۔ نالائق کہیں کا۔۔ جلدی سے دوڑ کر ڈاکٹر کو لا۔ میں اسے دیکھتا ہوں۔ ‘‘

( ہلکی ہلکی بوندا باندی کی آواز۔۔ پانی میں قدموں کے چھپاکے)

سلیم:   ( بہت پیار کے ساتھ) ’’ سلمیٰ!۔۔ سلمیٰ میری جان!‘‘

( وقفہ۔۔ پُر سکون موسیقی۔۔ پھر اچانک پسِ منظر سے پلیٹ فارم کی آوازیں سر اُٹھائیں۔ ’’قلی قلی۔ ‘‘ ’’چائے گرم‘‘۔ ’’’’ پان بیڑی سگرٹ‘‘ اور پختہ فرش پر بے شمار قدموں کی بے ترتیب آوازیں )

شہاب: ( سرد آہ کے ساتھ) ’’ سلمیٰ!‘‘

( پیسوں کی کھنکھناہٹ)

شہاب: ’’ ایک ٹکٹ دیجیے۔ ‘‘

بکنگ کلرک: ’’ کہاں کا ٹکٹ؟‘‘

شہاب: ( سرد آہ بھرکر) ’’ کہیں کا بھی دے دیجیے۔ ‘‘

بکنگ کلرک: ( حیران ہو کر) ’’ جی کہاں کا؟‘‘

شہاب: طنز آلود ہنسی کے ساتھ ) ’’ یہ گاڑی کہاں تک جائے گی؟‘‘

کلرک: ( متحیرا نہ لہجے میں ) ’’ہاؤڑہ تک۔۔ لیکن آپ کو جانا کہاں ہے؟‘‘

شہاب: ( ہنس کر) ’’ ہاؤڑہ تک جاؤں گا۔ جلدی کیجیے۔ میں یہ شہر بہت جلد چھوڑ دینا چاہتا ہوں ہمیشہ کے لیے۔ ‘‘

( طویل وقفہ۔ پلیٹ فارم کی مخصوص آوازیں۔ انجنوں کی سیٹیاں۔ گاڑیوں کی آمد و رفت کا شور و غل اور پھر ایک پُر شور سیٹی کی آواز کے بعد صرف ایک گاڑی کی ہم آہنگ کھٹ پٹ کے ساتھ ساتھ حزنیہ موسیقی اُبھرتی ہے۔ کھٹ پٹ کی آوازیں رفتہ رفتہ تحلیل ہو جاتی ہیں۔ اور حزنیہ موسیقی پورے تاثر کے ساتھ اُبھر آتی ہے۔ شہاب نہایت ہی پُرسوز آواز میں گنگنا رہا ہے)

شہاب:                ’’ میرا جیون ساتھی بچھڑ گیا

لو ختم کہانی ہو گئی

لو ختم کہانی ہو گئی

دنیا نے کیے وہ ہم پہ ستم

دو پیار بھرے دل مل نہ سکے

کہنے کو بہار آئی تھی مگر

دو پھول خوشی کے کھل نہ سکے

ارمانوں کا گلشن اُجڑ گیا

برباد جوانی ہو گئی

لو ختم کہانی ہو گئی

لو ختم کہانی ہو گئی

(آواز رفتہ رفتہ مدھم ہوتی جاتی ہے اور پس منظر سے المیہ موسیقی ابھر کر اپنے نقطۂ عروج پر پہنچتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ ریل گاڑی کی کھٹ کھٹ مائک پر رینگ آتی ہے اور موسیقی کی لہریں اس میں مدغم ہو جاتی ہیں)

( نومبر ۱۹۵۸ء)

٭٭٭

 

 

 

 

کالا چور

 

(ریڈیائی تمثیل)

 

 

( کنکریلے فرش پر محتاط قدموں کی وزنی ہم آہنگ مسلسل چاپ۔۔ دور کہیں گھڑیال بارہ بجائے۔۔ گھنٹے پر پہلے ایک ساتھ دو دو ضربیں چھ بار اور پھر ایک ایک بارہ مرتبہ لگائی جائیں ۔۔ گھنٹے کی آواز کی گونج میں قدموں کی مدھم لیکن واضح چاپ سُنائی دیتی رہے)

پہلی آواز:( سرگوشی میں ) ’’ استاد ! منزل آ گئی۔ ‘‘

(قدموں کی چاپ رُک جائے) دیا سلائی سلگا نے کی سرسراہٹ اور منہ سے سگرٹ کا دھواں چھوڑنے کی آواز۔ پس منظر میں موسیقی کی ایسی لہریں جو سامعین کا تجسس برقرار رکھیں )

استاد:   ( دبی آواز میں ) ’’سگرٹ وغیرہ پینا ہو تو ابھی وقت ہے۔ سیر ہو کر پی لو۔ اندر پہنچ کر بہت محتاط رہنا ہو گا۔ ‘‘

( سگرٹ سُلگانے اور دھواں چھوڑنے کی آوازیں۔ قدموں کی دبی ہوئی چاپ، کنکر چرمراتے رہیں )

استاد:   ’’ تم یہیں ٹھہرو راجو! میں ذرا نکّڑ تک دیکھ آؤں۔ کوئی سپاہی نہ ٹپک پڑے۔ ‘‘

(قدموں کی چاپ کنکریلے فرش پر بتدریج دور ہوتی جائے۔ وقفہ۔ جلدی جلدی دھواں منہ سے پھونکنے کی آوازیں۔ وقفہ۔ قدموں کی چاپ بتدریج نزدیک آتی جائے اور مائیک پر آ کر رُک جائے)

استاد:   ( سرگوشی میں ) ’’ میدان صاف ہے۔ راجو سگرٹ پھینک دو اور بہت احتیاط کے ساتھ میرے پیچھے آؤ۔ ‘‘

(کنکریلے فرش پر دو آدمیوں کے محتاط قدموں کی چاپ۔ ٹھوکر لگنے کی آواز)

استاد:   ( دبی ہوئی آواز میں ) ’’یہ کیا حماقت ہے راجو؟ اِتنے دن سے میرے ساتھ چوریاں کر رہے ہو، اب تک پیروں پر قابو نہیں پا سکے۔ ‘‘

راجو:   ’’ اب بہت سنبھل کر چلوں گا استاد! آواز ہو تو گلا کاٹ دینا۔ ‘‘

استاد:   ’’ ذرا یہ دروازہ بہت آہستگی سے کھول کر دیکھو۔ شاید کھلا ہو۔ ‘‘

( وقفہ۔ معمولی سی کھٹ پٹ کی ہلکی آوازیں )

راجو:   ’’ دروازہ اندر سے بند ہے استاد!‘‘

استاد:   ’’ سوچنا پڑے گا!‘‘

(وقفہ۔ جھینگروں کی مسلسل ریں ریں جو سامعین کا تجسس بڑھاتی رہے)

راجو:   ’’ استاد! اس پانچویں کھڑکی سے روشنی چھن کر باہر آ رہی ہے۔ ‘‘

استاد:   ’’ آؤ چل کر دیکھیں شاید کوئی صورت نکل آئے۔ میں چاہتا ہوں نقب لگانے کی ضرورت نہ پڑے۔ ‘‘

(قدموں کی دبی ہوئی محتاط آوازیں اور ہم آہنگ چاپ۔ پس منظر میں جھینگروں کی ریں ریں )

راجو:   ( تعجب سے) ’’ ارے۔ اس کا تو نچلا تختہ ہی ٹوٹا ہوا ہے۔ میں ہاتھ ڈال کر چٹخنی کھولے دیتا ہوں۔ ‘‘

استاد:   ’’ پاگل! پہلے جھانک کر دیکھ لو، اندر کوئی جاگ تو نہیں رہا ہے۔ ‘‘

( وقفہ۔ ہلکی ہلکی سانسوں کی آواز کے ساتھ جھینگر کی ریں ریں )

راجو:   ’’ کوئی نہیں ہے استاد۔ بازو میں ایک کمرہ اور ہے لیکن دروازے پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ ‘‘

استاد:   ’’ اچھا تو چٹخنی کھول دو لیکن ٹھہرو!۔۔ کہیں آواز ہو گئی تو سارا کیا دھرا چوپٹ ہو جائے گا۔ میں خود کھولتا ہوں ‘‘۔

( وقفہ۔ ہلکا سا کھٹکا)

راجو:   ’’ کھل گئی۔۔ واہ استاد! کمال کر دیا!‘‘

استاد؛   ’’ خاموش! غیر ضروری باتیں مت کرو۔ آؤ میرے ساتھ!‘‘

( دو بار احتیاط کے ساتھ کودنے کی مدھم آواز جھینگر کی ریں ریں کچھ تیز ہو کر دھیرے دھیرے مدھم ہوتے ہوئے اور پھر کسی ٹائم پیس کی ٹک ٹک میں مدغم ہو جائے۔

راجو:   ( بہت آہستہ) ’’ استاد ذرا اِدھر دیکھنا! یہ الماری۔۔ ‘‘

استاد:   ( اور بھی آہستگی کے ساتھ)’’ ذرا دھیرے بولو راجو! ہاں اس الماری میں ضرور مال ہونا چاہیے۔ اِتنا بڑا تالا لگا رکھا ہے۔ ‘‘

راجو:   ’’ اس کی چابی اپنے گچھے میں نکل آئے گی۔ ‘‘

استاد :   دیکھو کوشش کرتے ہیں ورنہ پھر تالا توڑنا پڑے گا۔ ‘‘

(کنجیاں کھنکنے کی ہلکی ہلکی آوازیں۔ گھڑی کی ٹِک ٹک جاری رہے)

استاد:   ( چونک کر)’’ ارے راجو! کیسے پاگل آدمی ہو؟ تم ضرور کسی دن ہتھکڑی پہنو گے۔ جاؤ اس کھڑکی کو اندر سے بند کرو۔ بجلی کا مین سوئچ تلاش کرو تاکہ موقع ملتے ہی آف کرسکو اور پھر اس پردے کے قریب کھڑے رہو۔ کوئی دوسرے کمرے میں جاگ نہ جائے۔ ‘‘

( قدموں کی بہت ہلکی چاپ۔ کھڑی کی ٹِک ٹِک)

استاد؛   ’’ آہستہ۔ آہستہ۔ اور آہستہ۔ شاباش!‘‘

(کنجیوں کی کھنکھناہٹ۔ پس منظر میں ہلکی ہلکی قدموں کی چاپ اور گھڑی کی ٹک ٹک۔ وقفہ۔ کھڑکیوں کے پٹ بند ہونے اور چٹخنی چڑھانے کی بہت ہی ہلکی آواز۔ کنجیوں کی کھنکھناہٹ قدرے واضح ہو کر پھر عقب میں چلی جائے اور ٹائم پیس کی ٹِک ٹِک ابھر آئے۔ اسپرنگ دار تالہ ہلکے سے کھٹکے کے ساتھ کھلنے کی آواز۔ ہلکی سی چرچراہٹ جیسے کوئی جما ہوا دروازہ دھیرے سے کھولا گیا ہو اور پھر بہت ہی مدھم سی سیٹی کی آواز۔ گھڑی کی ٹِک ٹِک۔ قدموں کی نپی تُلی مدھم آوازیں )

راجو:   ’’ کھل گیا استاد!؟‘‘

استاد:   ’’ ہاں۔ آج شاید اپنا پہلا ہی وار کام کر گیا۔ ‘‘

راجو:   ’’ اس ڈبے میں کیا ہے؟‘‘

استاد:   ’’ زیور معلوم ہو۔۔ ۔۔ ‘‘

( دوسرے کمرے میں ٹائم پیس کا الارم دفعتاً پُر شور آواز میں بجے)

راجو:   ( گھبراہٹ کے ساتھ بھرائی ہوئی آواز میں سرگوشی) ’’ غضب ہو گیا استاد!‘‘

استاد:   ( آواز دبا کر) ’’ حواس پر قابو رکھو۔۔ مین سوئچ کہاں ہے؟‘‘

راجو:   ( لرزتی ہوئی آواز میں )’’ جی! اس کھڑکی کے اوپر۔ ‘‘

استاد:   ’’ اور اس کمرے میں کیا ہے؟‘‘

راجو:   ـ’’ کوئی بیمار عورت سو رہی ہے۔ سرہانے میز پر دوائیں اور ٹائم پیس رکھی ہے۔ ‘‘

استاد:   ’’ بہت ہلکے قدموں کے ساتھ جا کر مین سوئچ آف کر دو۔ میں اس کمرے میں دیکھتا ہوں۔ ‘‘

( قدموں کی ہلکی ہلکی آوازیں۔ ٹائم پیس کا الارم مسلسل پُر شور آواز میں بجتا رہے اور پھر اچانک رُک جائے اور گھڑی کی ٹِک ٹِک پھر اُبھر آئے۔ مین سوئچ آف کرنے کا کھٹکا۔ پلنگ چرمرانے کی آواز۔ چوڑیوں کی چھنک۔ فرش پر گر کر گلاس ٹوٹنے کا چھناکا۔ کرسی اُلٹنے کی پُر شور آواز اور پھر کسی کے گرنے کا دھماکہ۔ مائیک پر راجو اور استاد کے زور زور سے سانس لینے کی آوازیں )

راجو:   ’’ چلو نکل چلیں استاد!‘‘

استاد :   ’’ وہ اندھیرے میں دوا انڈیلنے جا رہی تھی کہ کرسی سے الجھ کر گر پڑی۔ ‘‘

راجو:   ’’ نکل چلو استاد! میرا دل دھڑ دھڑ کر رہا ہے۔ ‘‘

استاد:   ’’ بزدل۔۔ ! یہ زیوروں کا ڈبہ لے کر گھر چلو، میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔ ‘‘

راجو:   ’’ لیکن۔۔ ‘‘

استاد:   ’’ میں نے کیا کہا؟۔۔ بھاگ جاؤ۔ میں ذرا دیر میں آتا ہوں۔ یہ عورت شاید بے ہوش ہو گئی یا شاید مر گئی۔ خیر تم تو جاؤ۔ ‘‘

( وقفہ۔ گھڑی کی ٹِک ٹِک۔ استعجابیہ موسیقی کی لہریں۔ قدموں کی چاپ۔ کھڑکی کے ہلکے سے چرمرانے، پٹ کے کھلنے اور پھر بند ہونے کی آواز۔ مائیک کے بہت قریب قدموں کی آوازیں پھر ایک طویل عرصہ تک گھڑی کی ٹک ٹک۔ رفتہ رفتہ گھڑی کی آواز اور موسیقی کی لہریں مدھم پڑ جائیں اور کسی عورت کے کربناک انداز میں کراہنے کی آواز ابھر آئے۔ )

عورت: ( کراہتے ہوئے نحیف آواز میں ) ’’ آہ۔۔ آہ۔۔ میں کہاں ہوں ؟‘‘

( وقفہ ۔۔ گھڑی کی مسلسل ٹک ٹک)

عورت: ( رُکتے ہوئے) ’’ میں ۔۔ کہاں ۔۔ ہوں ۔۔ یہ۔۔ اندھیرا کیسا ہے؟‘‘

( وقفہ۔ رات کے سناٹے میں گھڑی کی ٹک ٹک اور شش و پنج پیدا کرنے والی موسیقی کی ہلکی ہلکی لہریں۔ سانسوں کی آوازیں )

عورت: ( کراہتے ہوئے ) ’’ آہ۔۔ میں ۔۔ میں ۔۔ ‘‘

استاد:   ( ہکلاہٹ کے ساتھ) ’’جی۔۔ جی آپ اپنے مکان ہی میں ہیں !‘‘

عورت: ( گھبراہٹ کے ساتھ) ’’ لیکن تم کون ہو۔۔ ؟ میرے کمرے میں کیسے گھس آئے؟ یہ اندھیرا کیسا ہے؟ آہ۔۔ ‘‘

( کھڑی کی ہم آہنگ ٹک ٹک۔۔ استاد کے گھبراہٹ میں زور سے سانس لینے کی آواز۔ عورت متواتر کربناک آواز میں کراہتی رہے)

عورت: ’’ بولتے کیوں نہیں ؟ مجھے تم سے ڈر محسوس ہو رہا ہے۔ ‘‘

استاد:   ( آواز پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے) ’’ جی۔ در اصل بجلی کی لائن خراب ہو جانے کی وجہ سے آپ کا مکان تاریک پڑا تھا۔ میں اس سامنے والی سڑک پر سے گزر رہا تھا۔ آپ شاید الارم کی آواز پر بیدار ہوئیں اور پھر اندھیرے میں ٹھوکر کھا کر گر پڑیں۔ آپ کی چیخ نے مجھے متوجہ کر لیا اور پھر میں نے بے ہوشی کے عالم میں آپ کو زمین سے اٹھا کر پلنگ پر لٹا دیا۔۔ ‘‘

عورت: ’’ تمہاری آواز مجھے کچھ جانی پہچانی سی معلوم ہوتی ہے۔ کیا تم۔۔ ‘‘

استاد:   ( جلدی سے) ’’ نہیں۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں اس شہر میں قطعی نو وارد ہوں ۔۔ نہ نہ۔۔ آپ کی طبیعت خراب ہے، اٹھنے کی کوشش نہ کیجیے۔ فرمائیے آپ کیا تلاش کر رہی ہیں ؟‘‘

عورت: ’’ کیا آپ سگرٹ پیتے ہیں ؟‘‘

استاد:   ( تعجب سے) ’’جی۔۔ ؟‘‘

عورت: ’’ اگر آپ کے پاس ماچس یا لائٹر ہو تو سلگا کر دیکھیے۔ میری دوا کی شیشی کہیں گر گئی ہے۔ ‘‘

استاد:   ( ہچکچاہٹ کے ساتھ) ’’ جی۔۔ جی میں سگرٹ نہیں پیتا۔ مجھے افسوس ہے۔ ‘‘

عورت: ( الجھن میں پڑ کر) ’’ ہائے اللہ! اب اندھیرے میں کیا کروں ؟‘‘

استاد:   ( متاسفانہ لہجے میں ) ’’ کیا آپ اتنے بڑے مکان میں اکیلی رہتی ہیں۔ ‘‘

عورت: ’’ جی ہاں ۔۔ ‘‘ ( آہ بھر کر) ’’ اکیلی ہی سمجھیے۔ شوہر ہیں تو لیکن ان کا زیادہ تر وقت طوائفوں کے یہاں گزرتا ہے۔ ‘‘

استاد:   ( ہمدردی کے ساتھ) ’’ کتنا ظالم شوہر ہے آپ کا۔۔ آپ یہاں بیمار پڑی ہیں اور وہ۔۔ ‘‘

عورت: ( آہ بھر کر) ’’ وہ ظالم نہیں ہیں۔ در اصل وہ۔۔ لیکن کیا فائدہ ان باتوں سے۔ آپ کو بڑی زحمت ہوئی۔ اب آپ۔۔ ‘‘

استاد:   ( جلدی سے) ’’ جی یہ تو میرا فرض تھا۔ لیکن اگر آپ اپنے واقعات سنا سکیں تو شاید میں حقیقی معنوں میں آپ کی کچھ مدد کر سکوں گا۔ ‘‘

عورت: (متعجبانہ لہجے میں ) ’’۔۔ جی۔ !‘‘

استاد:   ’’ جی ہاں ۔۔ آپ مجھ پر یقین کیجیے۔ ‘‘

( ایک طویل وقفہ۔۔ حزنیہ موسیقی کی لہریں اُبھر کر کلائمکس پر پہنچیں اور بتدریج ڈوبتی جائیں اور گھڑی کی ٹک ٹک اُبھر آئے۔ )

عورت: ( کھوئی کھوئی آواز میں ) ’’ میرا نام پروین ہے اور انھیں شاہد کہتے ہیں۔ ڈی۔ سی آفس میں سپرنٹنڈنٹ ہیں۔ ہماری شادی کو تین سال گزر چکے ہیں۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے لیکن اِدھر کچھ دنوں سے یہ محبت نفرت میں تبدیل ہو گئی ہے اور وہ زیادہ تر طوائفوں کے یہاں پڑے شراب پیتے رہتے ہیں ۔۔ آہ!‘‘

استاد:   ’’ لیکن اس نفرت کی کوئی وجہ تو ہو گی؟‘‘

( وقفہ۔۔ گھڑی کی ٹک ٹک۔ سانسوں کی ناہموار آوازیں )

پروین: ( سرد آہ بھر کر) ’’ در اصل انھیں پُرانے خطوط کا ایک بنڈل میرے بکس میں مل گیا اور وہی۔۔ ‘‘

استاد:   ’’ کیسے خط تھے وہ۔۔ ؟‘‘

پروین: ’’ آپ کی سمجھ میں یوں نہیں آئے گا۔ بات یہ تھی کہ میرے والدین نے پہلے میری شادی ایک دوسرے نوجوان سے طے کی تھی جس کا نام جمال تھا لیکن شرط یہ تھی کہ وہ کوئی اچھی سی ملازمت حاصل کرے۔ وہ ملازمت نہ حاصل کر سکا اس لیے میری شادی شاہد سے کر دی گئی۔ ‘‘

استاد:   (بہت تلخ لہجے میں ) ’’ تو یوں کہیے کہ آپ کی شادی کسی مرد سے نہیں جیتی جاگتی ملازمت سے کی گئی ہے؟‘‘

پروین: ( طنزیہ ہنسی کے ساتھ) ’’ خیر یوں ہی سمجھ لیجیے۔ شاہد کو جو خطوط میرے بکس سے ملے ہیں وہ کسی زمانہ میں جمال نے مجھے لکھے تھے۔ ‘‘

استاد:   ’’ معاف کیجیے گا۔۔ کیا وہ مشتبہ خطوط تھے۔ ‘‘

پروین: ( قدرے لکنت کے ساتھ)’’ ویسے ہی جیسے دو منگیتروں کے درمیان ہو سکتے ہیں۔ ‘‘

استاد:   ’’ اور کیا واقعی آپ کو جمال سے محبت تھی؟‘‘

پروین: ( سرد آہ بھر کر) ’’میں کہہ نہیں سکتی۔ اگر مجھے واقعی اس سے محبت تھی تو شاہد کے ساتھ شادی سے انکار کر دینا چاہیے تھا لیکن میں اس وقت خاموش رہی۔ اس کے باوجود معلوم نہیں کیوں میں نے جمال کے ان بے معنی خطوط کو ہمیشہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھا۔ ‘‘

( وقفہ۔۔ ساز کی غمگین لہریں )

استاد:   ( ٹھنڈی سانس لے کر) ’’آپ کی اس مختصر سی روداد نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے۔ فی الحال اجازت دیجیے۔ کسی دن فرصت میں حاضر ہو کر تفصیل سے آپ کے واقعات سنوں گا اور تبھی آپ کے لیے امداد کی کوئی صورت پیدا ہو سکے گی۔ شب بخیر!‘‘

پروین: ( سرد آہ بھر کر) ’’ شب بخیر!‘‘

( قدموں کی چاپ۔ گھڑی کی ٹک ٹک مدھم ہوتی جائے اور جھینگروں کی ریں ریں ابھر آئے)

راجو:   ’’ بڑی دیر کر دی استاد!‘‘

استاد    ’’ کون راجو۔۔ ؟ تم ابھی یہیں ہو۔ یہ بڑا اچھا ہوا۔ کھڑکی کی راہ سے اندر جا کر یہ ڈبہ وہیں رکھ آؤ الماری میں اور تالہ لگا کر بجلی کا مین سوئچ آن کر دینا۔ ‘‘

راجو:   ’’ لیکن استاد۔۔ ‘‘

استاد:   ’’ تم بہت نالائق ہوتے جا رہے ہو راجو! ہر بات پر بحث کرتے ہو۔ ‘‘

راجو:   ’’ ایک بار اور معاف کر دو استاد! میں ابھی ڈبہ رکھ کر آتا ہوں۔ ‘‘

( قدموں کی چاپ دور ہوتی جائے اور جھینگروں کی ریں ریں ابھر آئے اور پھر بتدریج مدھم ہوتی ہوئی عقب میں چلی جائے)

استاد:   ( اپنے آپ سے) ’’ یا الٰہی! تجھے میرا یہ دور بھی پسند نہیں آیا۔ کمبخت دل کتنی عجیب سی خلش سے دوچار ہے۔ جی چاہتا ہے۔۔ جی چاہتا ہے کہ۔۔ ‘‘

( قدموں کی چاپ اُبھرے اور مائیک پر آ کر رُک جائے)

راجو:   : ’’ رکھ آیا استاد!‘‘

اُستاد:   ’’ مین سوئچ آن کر دیا تھا نا؟‘‘

راجو:   ‘‘ ہاں۔ لیکن وہ عورت بھی عجیب ہے۔ روشنی ہونے پر سر تک نہیں اُٹھایا بدستور تکیے میں منہ چھپائے روتی رہی۔ ‘‘

( استاد کے سرد آہ بھرنے کی صدائیں۔ وقفہ۔ غمگین ساز)

راجو:   ’’ کیوں کیا بات ہے؟ کچھ غمگین سے نظر آتے ہو استاد! اور یہ سب کیا گورکھ دھندا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہی کوئی بات۔۔ ‘‘

استاد:   ( بہت طویل سانس لے کر) ’’ تم ابھی بچے ہو راجو! سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرو۔ ورنہ تمھاری زندگی اجیرن ہو کر رہ جائے گی میرے دوست۔۔ آؤ چلیں۔ ‘‘

راجو:   ’’ اب کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘

استاد:   ’’ مول گنج کی طرف چلیں گے۔ ‘‘

راجو:   ( حیرت سے) ’’وہاں کیا مال ملے گا؟ وہ تو طوائفوں کا محلّہ ہے۔ ‘‘

استاد:   ( گھڑک کر) ’’پھر بحث شروع کر دی تم نے۔۔ ؟‘‘

راجو:   ’’ میری توبہ جو اب کچھ کہوں۔ چلیے۔ ‘‘

( قدموں کی مسلسل چاپ کافی دیر تک سنائی دیتی رہے کبھی کنکریلی زمین پر، کبھی پکی سڑک پر اور کبھی سنگین فرش پر۔ پس منظر میں رات کا سناٹا اور بہت ہلکی ہلکی غیر واضح حزنیہ موسیقی۔ کبھی کبھار’ جاگتے رہو‘ وغیرہ کی دور سے آتی ہوئی صدائیں۔ درمیان میں دو ایک بار کتّے بھونکیں۔ پھر سنگیں فرش پر دو آدمیوں کے دبے پاؤں چلنے کی آوازیں واضح سنائی دیں اور مائیک کے سامنے آ کر تھم جائیں۔ دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز۔ عقب میں گھنگھرو، ڈھولک اور ٹھمری کے گانے کی آوازیں۔ ‘‘

راجو:   یہاں کون رہتا ہے استاد؟

استاد:   بدستور دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے) ’’ غنڈوں کا مشہور دادا یٰسین خاں۔ !‘‘

راجو:   ( ہنس کر) ’’ بہت خوب! کہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا۔ بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ چوروں کا استاد غنڈوں کے سردار سے ملنے آیا ہے۔ ‘‘

استاد:   ’’ یہ دانت اندر کر لو، یٰسین خان کے سامنے ہنسو گے تو زمین پر نظر آئیں گے۔ ‘‘

راجو:   باپ رے!‘‘

( چرچرا کر دروازہ کھلنے کی آواز)

یٰسین خاں : (بہت بھاری آواز میں ) ’’ اتنی رات گئے کون آیا ہے۔ ؟‘‘

استاد:   ’’ تم نے پہچانا نہیں دادا۔۔ میں ہوں ۔۔ ‘‘

ٰیسین خان:( پہچان کر ذرا زور سے) ’’ ارے۔۔ یہ تم ہے استاد ! تم کو ہم کیسے بھول سکتا ہے۔ بڑے نازک موقع پر جان بچائی تھی تم نے ہماری۔ ہم تمھارا احسان عمر بھر یاد رکھے گا۔ آؤ اندر آؤ اندر۔ ‘‘

استاد:   نہیں۔ دادا! آج کچھ مال وال ہاتھ نہیں آیا، کہیں قسمت آزمانے جاؤں گا۔ تمھارے پاس ایک کام سے آ گیا تھا۔ ‘‘

یٰسین خاں : ’’حکم کرو دادا کی جان!‘‘

استاد:   ’’ یہاں بالا خانوں پر جو لوگ آتے ہیں ان پر نظر تو رکھتے ہوں گے تمھارے آدمی۔ ؟‘‘

یٰسین خاں : ’’ مجال ہے جو کوئی ہماری نگاہ سے بچ جائے۔ ہمارا کام ہی کیا ہے۔ موٹی مرغیوں سے پیسے اینٹھنا!‘‘

استاد:   ’’ ایک صاحب ہیں۔ شاہد نام ہے ان کا۔ تم کو معلوم ہے وہ کس طوائف کے یہاں زیادہ آتے جاتے ہیں ؟‘‘

یٰسین خاں : ’’ کیا سیٹھ ہے کوئی؟‘‘

استاد:   ’’ نہیں دادا! اچھا خاصا پڑھا لکھا بابو ہے۔ ڈی۔ سی۔ آفس میں سپرنٹنڈنٹ ہے۔ ‘‘

یٰسین خاں :’’ اوہ۔۔ وہ!۔۔ بھئی وہ تو عجیب آدمی ہے۔ اس کا تو کوئی اسٹنڈرڈ ہی نہیں ہے۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ لیکن تم چاہتا کیا ہے؟ ہاتھ پاؤں توڑنا ہے کیا اس کا؟ یا بالکل صفایا۔ ‘‘

(چاقو کرکرانے کی آواز)

استاد:   ( ہنس کر) ’’ نہیں دادا۔ نہیں ایسا غضب نہ کر بیٹھنا۔ میں تو صرف اتنا چاہتا ہوں کہ وہ حسن کی ان گلیوں میں آنا چھوڑ دے۔ ‘‘

یٰسین خاں : ( زور سے ہنستا ہے) ’’ اوہ دادا کی جان! تم شاعری بھی کرتا ہے۔ اچھا جاؤ کل سے اس کا اس محلے میں داخلہ بند!‘‘

استاد :   ’’ یٰسین دادا! اسے کوئی جسمانی تکلیف نہیں پہنچنا چاہیے۔ ‘‘

یٰسین خان: ’’بہت مشکل ہوتی ہے۔ ( ہچکچا کر)چلو یہ بھی منظور ہے۔ ارے یار استاد! یہ دادا تیرے لیے جان بھی دے سکتا ہے۔ ‘‘

استاد:   ’’اچھا اب چلوں گا دادا! خدا حافظ۔ آؤ راجو!‘‘

دادا:    ’’ خدا حافظ!‘‘

( دروازہ چرچرا کر بند ہو جائے۔ قدموں کی آہٹ۔ موسیقی کی لہریں۔ وقفہ۔ کوئی مناسب ساز کافی دیر تک بجتا رہے جس سے سامعین میں سین تبدیل ہونے کا احساس پیدا ہو جائے۔ پھر چرچرا کر دروازہ کھلنے کی آواز۔ کوئی ماؤتھ آرگن پر فلمی دھن بجاتا ہوا اندر داخل ہو۔ ساتھ ہی سنگین فرش پر نئے جوتوں کی چرمراہٹ)

راجو:   ’’ واہ! استاد اب تک نہیں لوٹے!‘‘

(ماؤتھ آرگن پر وہی فلمی دھن۔ جوتوں کی چرمراہٹ)

راجو:   ’’ ارے واہ۔ آج تو استاد نے اتنے بہت سارے خط لکھ ڈالے ہیں۔ دیکھوں تو۔۔ ‘‘

( کاغذوں کی سرسرہٹ)

راجو:   (متحیرا نہ انداز میں منہ سے سیٹی بجا کر) ’’ ارے واہ! استاد نے شہر کوتوال کو بھی خط لکھا ہے۔ ‘‘( دیر تک سیٹی بجاتا رہتا ہے) ’’ لفافہ بند ہے ورنہ پڑھ کر دیکھتا کہ کیسے تعلقات ہیں اپنے استاد کے کوتوال صاحب سے؟‘‘ (پھر دیر تک سیٹی بجاتا ہے) ’’ اور یہ ایک دوسرا لفافہ بھی تو ہے!‘‘ ( رُک رُک کر) ’’ کس کے نام ہے یہ ۔۔ آں ۔۔ جناب شاہد صاحب آفس سپرنٹنڈنٹ ڈی۔ سی آفس۔۔ باپ رے!‘‘

ماؤتھ آرگن پر وہی فلمی دھن چھیڑ دیتا ہے۔۔ وقفہ)

راجو:   ’’ یہ دوسرا والا لفافہ تو ابھی کھلا ہے پڑھنا چاہیے۔ اے۔۔ اے ۔۔ آں ۔۔ ‘‘

( کاغذ سرسرانے کی آواز)

’’ شاہد صاحب!‘‘ ( مزے لے لے کر پڑھا جائے) ’’ اگر آپ کو بالا خانے سے فرصت مل جائے تو کل رات کو بارہ بجے ذرا اپنے گھر تشریف لے آئیے گا۔ آپ اس بات کو اس کان سے سن کر اس کان سے نکال نہ دیں اس لیے عرض ہے کہ کوئی مسٹر جمال کل رات کو بارہ بجے آپ کی اہلیہ محترمہ سے ملاقات فرمائیں گے۔ اطلاعاً عرض کیا گیا۔               مخلص آپ کا ایک خیر خواہ!‘‘

( کاغذ سرسرانے کی آواز اور ماؤتھ آرگن پر وہی پرانی دھن دیر تک لہرائے اور پھر یکلخت رُک جائے۔۔ طویل وقفہ۔۔ رات کی سائیں سائیں ۔۔ گھنٹے پر دو دو ضربیں ایک ساتھ چھ بار پڑیں اور پھر الگ الگ ایک ایک ضرب بارہ مرتبہ۔۔ گھنٹے کی گونج دیر تک سُنائی دے)

پروین: ( چونک کر ) ’’ ہائے اللہ! یہ اچانک بتّی کیوں بجھ گئی۔ شاید فیوز اُڑ گیا۔ ‘‘

( رات کی سائیں سائیں ۔۔ طویل وقفہ)

استاد:   ’’ کیا میں اندر آسکتا ہوں محترمہ پروین!‘‘

پروین: ( چونک کر) ’’ کون۔۔ ۔۔ ؟‘‘

استاد:   ’’ اوہ ! شاید آپ بھول گئیں ۔۔ میں اسی دن والا راہ گیر ہوں ۔۔ ‘‘

( اچانک چاروں طرف سے پولیس کی سیٹیاں بجنے لگیں۔ فرش پر بہت سارے وزنی نعل دار جوتوں کی آوازیں )

سب انسپکٹر: ( تحکمانہ انداز میں ) ’’ استاد! اپنی جگہ بے حس و حرکت کھڑے رہو ورنہ میرے ہاتھ میں پستول ہے!‘‘

استاد:   ( طنزیہ لہجے کے ساتھ) ’’ جو حکم حضور کا!‘‘

سب انسپکٹر: ’’ سپاہی! ادھر کونے میں مین سوئچ ہو گا۔ بتیاں روشن کر دو!‘‘

(سنگین فرش پر بھاری جوتوں کی آوازیں۔ سوئچ دبانے کاکھٹکا۔ ایک بہت ہی دلدوز قسم کی طویل نسوانی چیخ اور کسی کے دھم سے گرنے کی آواز)

سب انسپکٹر: ( گھبرا کر) ’’ اوہ۔ یہ کیا ہوا؟‘‘

استاد:   ( جلدی سے) ’’ کچھ نہیں ۔۔ میری دہشت سے بے ہوش ہو گئی ہیں۔ خدا را مجھے جلد یہاں سے لے چلیے۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ ‘‘

سب انسپکٹر: ’’سپاہیو! اسے ہتھکڑیاں لگا کر حوالات لے چلو۔ ‘‘

(ہتھکڑیاں لگانے اور زنجیر کھنکھنانے کی آواز، فرش پر بہت سے وزنی جوتوں کی چاپ۔ وقفہ)

شاہد:   ( گھبرائی ہوئی آواز میں ) ’’ کون پولیس؟ وہ۔ وہ۔ جمال۔ اور یہ پروین کو کیا ہوا؟‘‘

سب انسپکٹر: ’’ آپ شاید بھاگتے ہوئے آئے ہیں۔ ذرا دم لیجیے۔ ‘‘

شاہد:   ( زور سے) جلدی کہو سب انسپکٹر ورنہ میں مر جاؤں گا۔ جمال کہاں ہے۔ یہ پروین کو کیا ہوا؟‘‘

سب انسپکٹر:’’ یہ فرطِ دہشت سے بے ہوش ہو گئی ہیں۔ جمال کو گرفتار کر لیا گیا۔ ‘‘

شاہد:   آہ میں لٹ گیا۔ برباد ہو گیا۔ پروین! تم نے میری عزت چوراہے پر نیلام کر دی!‘‘

سب انسپکٹر: ( حیرت سے) ’’مسٹر شاہد! آپ تو تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ اتنی دقیانوسی باتیں نہ کیجیے۔ آپ کی بیوی کی رہنمائی نہ ملتی تو ہم شہر کے اس نامی نقب زن اور چوروں کے استاد جمال کو ہرگز گرفتار نہ کر پاتے۔ ‘‘

شاہد:   ( رُک رُک کر) ’’ میں سمجھا نہیں انسپکٹر!‘‘

سب انسپکٹر: ’’ آج ہی کوتوال صاحب کو محترمہ پروین کا خط ملا تھا کہ ان کا سابق منگیتر جمال جو اب شہر کا مشہور نقب زن ہے، انھیں بلیک میل کرنے کی کوشش میں ہے اور وہ آج رات کو بارہ بجے ان سے ملنے کے لیے گھر پر آئے گا لہٰذا۔۔ ‘‘

( پروین کے کراہنے کی آواز)

شاہد:   ’’آہ پروین! مجھے معاف کر دو۔ میں نے تمھیں کتنا غلط سمجھا تھا۔ ‘‘

( طویل غمگین ساز۔ وقفہ۔ آہنی فرش پر بہت وزنی جوتوں کی آواز۔ لوہے کا پھاٹک کھنکھناتا ہوا کھلے۔ )

سنتری: ’’ قیدی نمبر تین سو اٹھائیس! تمھیں صاحب بلاتے ہیں۔ کوئی عورت تم سے ملنے آئی ہے۔ ‘‘

( فرش پر دیر تک قدموں کی ایک وزنی اور ایک ہلکی آواز۔ زنجیروں کی کھنکھناہٹ)

استاد:   ( چونک کر) ’’ کون پروین؟تم۔ تمھیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ ‘‘

پروین: ( سسکیاں لیتے ہوئے) ’’ بھائی۔۔ ! میں اپنے سہاگ کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ تمھاری گرفتاری میں میرا کوئی ہاتھ نہیں۔ ‘‘

استاد:   ( طنزیہ ہنسی کے ساتھ) ’’ مجھے معلوم ہے پروین! وہ خط کوتوال کو تمھاری طرف سے میں نے خود لکھا تھا اور شاہد بھائی کو بھی۔ ہاں پروین! تاکہ تم دونوں کے تعلقات پھر خوشگوار ہو جائیں۔ تم پر سے شک کا سایہ دور ہو جائے۔ ‘‘

( پروین سسکتی ہے۔ غمگین ساز)

استاد:   (بہت گمبھیر جذباتی آواز میں ) ’’ پروین! تمھارے والدین کی شرط میں پوری نہ کر سکا۔ تمھیں حاصل کرنے کی کوشش میں ہی حالات نے مجھے اس راہ پر لگا دیا۔ شکر ہے تمہاری ہی بدولت مجھے اس راستے سے ہٹنے کا موقع بھی مل گیا۔ ورنہ لوگ محبت کو بدنام کرتے۔۔ ‘‘

( پروین کی سسکیاں۔ استاد کی آہیں۔ زنجیروں کی چھنک۔ یکلخت المیہ۔ موسیقی کا ایک فوارہ سا اُبل پڑے۔ لہریں اُبھرتی ہوئی اپنے نقطۂ عروج تک پہنچیں اور پھر بتدریج ہلکی ہوتے ہوئے فیڈ آؤٹ)

( اکتوبر ۱۹۶۲ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

اختتامیہ

 

تقریباً نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد معروف شاعر مظفر حنفی صاحب کو یہ خیال آیا ہے کہ افسانے کی صنف پر انھوں نے وقت صرف کر کے جو تخلیقی کاوشیں کی ہیں کیوں نہ انھیں یک جا کر کے قارئین کے سامنے لایا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ ایک اعتبار سے حق بہ جانب ہے۔ اس لیے کہ ان کا یہ مجموعہ نصف صدی پہلے اردو فکشن کے بیانیے میں سماجی حقیقت نگاری کے رجحانات کو خاص طور پر اس وقت کے مبتدی افسانہ نگاروں میں، سمجھنے کے لیے خاصا معاون و مددگار ثابت ہو گا۔

مظفر حنفی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ افسانے کی صنف کا اس لیے انھوں نے دامن چھوڑ دیا کہ ادب میں جدیدیت کی لہر نے افسانے کی صورت بگاڑ دی تھی اور وہ علامت اور تجریدیت پر غیر ضروری زور دے رہی تھی جس کو انھوں نے افسانے کے لیے نامناسب سمجھا۔ ممکن ہے کہ ان کا خیال ذاتی پسند، نا پسند اور ترجیحات کی سطح پر درست بھی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ ادب میں ہمیشہ تغیر اور تبدل ہوتا رہتا ہے، نئے نظریات اور رجحانات پرانے سانچوں کو توڑتے پھوڑتے رہتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ ادب کی اقلیم کی جمہوریت میں طرح طرح کے رنگ روپ کے پھول کھلتے اور مرجھاتے رہتے ہیں اور اسی سے اس گلشن میں بہار اور رنگا رنگی رہا کرتی ہے ورنہ اس عہد کی اردو فکشن میں خواجہ احمد عباس، کرشن چندر، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی اور سعادت حسن منٹو نام کے الگ الگ خوبیوں والے افسانہ نگار نہ تو پیدا ہوتے اور نہ اپنی اپنی شان و شوکت کے ساتھ زندہ رہتے۔

دنیا کی ہر زبان کا ادب اپنی تخلیقی خوبیوں اور قوت پر زندہ رہتا ہے۔ آپ کیسی ہی زبان استعمال کریں، کیسی ہی رمزیت اور اشاریت کی بارود داغیں، کیسا ہی موضوع اور مواد لے کر آئیں اگر افسانہ بانجھ ہے اور کچھ خلق نہیں کرتا تو ایک دن بھی زندہ نہیں رہے گا۔ اگر افسانہ ’’کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا‘‘ کے مصداق ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ خلاقیت سے محروم ہے۔ اس لیے وہ افسانہ نہیں بلکہ دھوبی کو دیے جانے والے کپڑوں کے حساب کے اوراق ہیں۔ یہی صورت حال افسانے کے ساتھ ہی نہیں شاعری کے ساتھ بھی ہے۔ قارئین جب مظفر صاحب کے افسانوی انتخاب کو دیکھیں گے تو انھیں اندازہ ہو گا کہ افسانہ ’’ واپسی‘‘ ہو یا ’’نہلے پر دہلا‘‘ اگرچہ اختتام کے آس پاس اپنی مٹھی کھولتے ہیں لیکن اس وقت کے ترقی پسند فیشن کے مطابق اپنے سماجی سروکار سے غافل نہیں رہتے۔ جب آپ افسانہ ’’ محبوب بانہہ کٹا‘‘ پڑھیں گے تو آپ کو احساس ہو گا کہ انسان کی بنیادی سادگی اور نیکی کی یاد کے حزن نے افسانہ نگار سے یہ افسانہ لکھوایا ہے۔ یہ در اصل وہ عہد تھا جب ہماری فکشن انسان کی عظمت، زندگی کی بقاء اور جد و جہد کی مظہر بن کر ابھر رہی تھی پریم چند ’کفن‘ لکھ چکے تھے اور کرشن چندر کا شہرہ آفاق طنزیہ افسانہ’’ جوتا‘‘ سروں پر تھا۔ ترقی پسند نظریہ بہت تیزی کے ساتھ ایک زندہ تحریک کی شکل میں ہر طرف چھا چکا تھا اور ادب کو زندگی کے معاشی، معاشرتی اور طبقاتی حوالوں کے ساتھ پرکھنا چاہتا تھا۔

فن کو متحرک اور تغیر پذیر دیکھنے کی خواہش تو غلط نہ تھی مگر جب تبدیلی ہوتی ہے تو ٹوٹ پھوٹ بھی ہوتی ہے اور اس ٹوٹ پھوٹ میں کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کچھ مقدس حروف بھی ٹوٹ یا چٹخ جایا کرتے ہیں۔ اس تحرک اور تغیر میں زندگی کی سچی عکاسی کرنے کی ہوڑ میں ہمارے بہت سے سماجی حقیقت پسند افسانہ نگار اپنی بات یا موضوع کو تو مضبوطی سے پکڑے رہے لیکن بات کہنے کے فنکارانہ اور خلاقانہ طریقے پر سے ان کی پکڑ ڈھیلی پڑتی گئی۔

مظفر حنفی نے جب یہ افسانے لکھنا شروع کیے تو منٹو فکشن کی دنیا پر آندھی طوفان کی طرح چھا چکا تھا اور بھڑووں، طوائفوں اور رنڈیوں کے موضوعات کو اپنے قلم سے بری طرح پامال کر کے رکھ چکا تھا۔ ایسے زمانے اور پس منظر میں ’طوائف‘ کی ایک ایک پرت بڑی بے رحمی سے اتاری جا چکی تھی اور اس کی جانب سماج کی نقلی ہمدردی کی پول بڑے سفاک قلم کے ساتھ منٹو کھول چکا تھا۔ مظفر حنفی کے افسانے ’رات کا گاہک‘ کو ایک تخلیقی فن پارہ کہنا خاصہ مشکل نظر آتا ہے۔ ایسے چبائے ہوئے نوالوں سے گریز کرنا ہی زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔ نیتا لوگوں کی کتھنی اور کرنی کا فرق تو زندگی کی سچائی ہے۔ افسانہ زندگی کی سچائی سے افسانہ نہیں بنتا بلکہ افسانوی سچائی سے افسانہ بنتا ہے جیسا کہ ہم ٹو بہ ٹیک سنگھ یا پھر موذیل وغیرہ میں دیکھتے ہیں۔ فنی طور پر اکثر مختصر نویسی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اختصار کے سبب موضوع کے ساتھ انصاف نہیں ہو پاتا اور اس کا دم گھٹ کر رہ جاتا ہے۔ طوائف اختصار کی جلد بازی میں دو تین سطروں میں نیتا کی تقریر کی تعریف کر کے لیڈر سے اس قدر متاثر ہو جاتی ہے کہ جب وہ اس کے کوٹھے کے نیچے سے جلوس کی شکل میں گزرتا ہے تو طوائف اس پر پھولوں کی بارش کرتی ہے۔ مگر وہ تقریر کیا تھی جو اس طوائف کے دل میں اُس لیڈر کے لیے اس قدر احترام جگا چکی تھا اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ گویا افسانے کے معاملے میں کیا لکھا جائے اور کیا نہ لکھا جائے اس کا صحیح انتخاب ہی افسانے کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتا ہے۔ لیکن اس زمانے کے نوجوان افسانہ نگاروں کا آخیر وقت میں مٹھی کھولنے کا چسکا انھیں کسی اور طرف غالباً دیکھنے ہی نہیں دیا کرتا تھا۔ منٹو بڑے فنکار تھے۔ اس لیے یہ سمندر شان سے تیر کر نکل گئے ورنہ بہت سے تو ساحل پر ہی ڈوب کر چھٹی پا گئے۔

مظفر حنفی کے افسانے اپنےtreatment، پلاٹ، کردار اور بیانیہ کے اعتبار سے ساٹھ سال پُرانے افسانے کہے جا سکتے ہیں، بیانیہ یوں تو شفاف ہے مگر زبان بیشتر ڈھیلی ڈھالی اور بعض افسانوں میں قابل ذکر حد تک غیر تخلیقی ہے۔ افسانہ ’ واپسی‘ چلتا ؤ جملوں، بھونڈی رمزیت اور میلو ڈرامائی کیفیت کا مظہر ہے۔ آج کے عہد میں اس افسانے کے نثر خاصی بچکانی محسوس ہوتی ہے۔ اچھا تو یہ ہوتا کہ مصنف انتخاب میں اور زیادہ احتیاط سے کام لیتا۔ اپنی سسرال سے لڑ جھگڑ کر آنے والی شیلا کا کردار ایک ٹائپ کردار بن کر رہ گیا ہے، خود اس کے کردار میں مزاحمت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ شیلا مردوں کے ذریعے جس ابتلاء میں مبتلا ہے وہ کہانی کا طاقت ور اور مؤثر حصہ نہیں بن سکا ہے۔ کیونکہ وہ دکھایا نہیں بلکہ بتایا گیا ہے۔ اس لیے کہ کہانی مختصر رہے مگر ہم کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افسانے کے فن کے بارے میں کہا جاتا ہے : اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ اور افسانے کی تنقید سب سے پہلے یہی دیکھتی ہے کہ مصنف ڈوب کر گیا ہے یا نہیں۔

ان افسانوں کی کامیابی یا ناکامی میں جو اجزاء کام کر رہے ہیں آج کا افسانہ لکھنے والا انھیں دیکھ کر ان کو قبول یا ان سے گریز کرنا سیکھ سکتا ہے اس لیے کہ ان افسانوں کی اس اعتبار سے ایک تاریخی حیثیت ضرور ہے۔

دیکھا جائے تو مجموعے میں ’’ اٹھارویں لڑکی‘‘ اور ’’ کالا آٹا‘‘ عنوان کے افسانے ۱۹۶۰ء کے بعد کی تحریریں ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب جدیدیت کی تنقید نے اردو کے افسانوی ادب پر سب سے بڑا الزام یہ لگایا تھا کہ ادب قاری کو خوش کرنے کے چکر میں تخلیقی سچائی کی بے توقیری کرتا ہے اس لیے قاری کا ادبی معیار بلند نہیں ہو رہا ہے۔ ترقی پسندی نے کچھ بندھے ٹکے موضوعات فراہم کر رکھے ہیں جن کو طوطوں کی طرح دہرایا جاتا ہے۔ اس طرح افسانہ نگاروں کو نئی حسّیت کی طرف لایا گیا۔ اس طرح کے رجحانات اور نئے مباحث نے اردو افسانے کے روایتی سُر تال اور اس کی لے میں فکری طور پر اور فنی طور پر تبدیلیاں پیدا کیں۔ مظفر حنفی کے یہ دونوں ہی افسانے اس تبدیلی کی کسی حد تک نشاندہی کرتے ہیں، کیونکہ ’’ اٹھارویں لڑکی‘‘ کے موضوع کو لے کر کردار کے اندرون کے بے نام جذبات کو افسانوی حقیقت میں تبدیل کرنے کی کوشش ان میں ملتی ہے۔ اسی طرح ’’ کالا آٹا‘‘ میں بھی یکایک بند مٹھّی کھول کر چونکانے کا چٹخارہ نہیں لیا گیا ہے بلکہ اس سسٹم پر چوٹ کی گئی ہے جو انسانیت کے لیے تضحیک آمیز ہے۔ یہ ضرور ہے کہ افسانہ اٹھارویں لڑکی کے بیانیہ کی زبان میں مندرجہ ذیل جملے بھی ملتے ہیں جو افسانے کی زبان نہ ہو کر کسی تنقید نگار کی زبان معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً:۔

’’ امبر نے سکوت قطع کیا۔ ‘‘

’’محبت تحفوں کی مرہونِ منت نہیں ہوتی سوامی۔ ‘‘

’’ محبت کے مفہوم تک سے نا آشنا تھا۔ ‘‘

’’ تارا کے جسم سے کبھی کوئی استفادہ نہیں کیا۔ ‘‘

مظفر حنفی کے نام نامی سے آج سب ہی واقف ہیں۔ ہند و پاک کا کونسا رسالہ ایسا ہے جس میں ان کا کلام نہ شائع ہوتا ہو۔ شاعری بہ حیثیت صنف سخن انھیں راس آ چکی ہے۔ ایک مجموعے میں اپنے افسانوی ادب کو محفوظ کر کے انھوں نے آزادی کے بعد کی سماجی حقیقت نگاری کا ایک جھروکہ کھولا ہے جس سے ادب کے آنے والے طلباء کو صنف افسانہ کی تاریخی تفہیم میں مدد ملے گی اور شاید قاری یہ فیصلہ بھی کر سکے کہ مظفر حنفی کا افسانے کو چھوڑ کر شاعری کی طرف راغب ہونا ٹھیک فیصلہ تھا یا غلط۔ بہر حال اس بات میں قاری کو کوئی شک محسوس نہ ہو گا کہ حنفی ایک زندہ بشر اور با ہوش ادیب کے مانند اس مسلسل جنگ میں شامل نظر آتے ہیں جسے ہماری تحریک برسوں سے لڑ رہی ہے۔ انسان جہاں بھی ہے اور جس حال میں بھی ہے، کیا ادب کا یہ پہلا فرض نہیں کہ وہ انسان کے اندر بشر نوازی کی دائمی بھوک اور پیاس کو اس شدت سے زندہ رکھے کہ اس کے عہد اور سماج کی نیند تک حرام ہو جائے۔ کسی افسانہ نگار کے تمام افسانے ایک جیسی خوبیوں اور معیار کے نہیں ہوتے۔ مظفر حنفی کے یہاں بھی بہت اچھے کم اچھے اور بس اچھے افسانے ملیں گے لیکن ادب کے بنیادی سروکاروں کے معاملے میں آپ کو ان کی تحریریں بلا شبہ مخلص نظر آئیں گی ہمارے نوجوان افسانہ نگاروں کو سب سے پہلے اس پہلو سے ان افسانوں کا مطالعہ کرنا مناسب ہو گا۔

اقبال مجید

B/132 ہاؤسنگ بورڈ کالونی، کوہ فضا بھوپال

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید