FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

دودھ

اور دوسری کہانیاں

 

 

 

 

               چترا مدگل

 

ہندی سے ترجمہ/رسم الخط کی تبدیلی: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

دودھ

 

دودھ گھر کے مرد پیتے ہیں۔

کیونکہ وہ مرد ہوتے ہیں۔

اس کا کام ہے – دودھ کے گرم گلاس کو احتیاط سے ان تک پہنچانا۔ پہنچاتے ہوئے وہ ہر روز دودھ کے سوندھے گلاس کو سونگھتی ہے۔ پکے دودھ کی خوشبو اسے خوش کر دیتی ہے۔

ایک روز ماں اور دادی کے گھر پر نہیں ہوتیں تو وہ چٹ – چٹ کوٹھری کھول کر دودھ کے برتن سے اپنے لئے دودھ کا گلاس بھرتی ہے اور گھوٹ بھرنے کو جیسے ہی گلاس ہونٹوں کے پاس لے جاتی ہے، گھر کے اکھڑے کواڑ بھڑاک سے کھل اٹھتے ہیں۔ اس کے ہونٹوں تک پہنچا گلاس ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور دودھ کے برتن پر جا گرتا ہے۔ مٹی کے برتن کے دو ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ کوٹھری کی گوبر لپی کچی فرش پر گلابی دودھ چاروں طرف پھیل جاتا ہے۔ قریب آئی  بھونچکی سی ماں کو دیکھ کر وہ تھر  تھر کانپتی  شرمندگی کا اظہار کرتی معافی مانگتی  سی کہتی ہے –

"میں ۔۔۔ میں ۔۔۔”

"دودھ پی رہی تھی کمینی؟”

"ہاں ۔۔۔”

"مانگ نہیں سکتی تھی؟”

"مانگا تھا، تم نے کبھی دیا نہیں ۔۔۔”

"نہیں دیا تو کون تجھے لٹھیت بننا ہے جو لاٹھی کو تیل پلاؤں؟”

"ایک بات پوچھو ماں؟” آنسو بھیگی اس کی آواز اچانک ڈھیٹ ہو اٹھی۔

"پوچھ!”

"میں پیدا ہونے والی تو دودھ اترا تھا تمہاری چھاتیوں میں؟”

"ہاں ۔۔۔ خوب۔ پر ۔۔۔ پر تو کہنا کیا چاہتی ہے؟ ‘

"تو میرے حصے کا چھاتیوں کا دودھ بھی کیا تم نے گھر کے مردوں کو پلا دیا تھا؟”

٭٭٭

 

 

 

 

 

مرد

 

 

"آدھی رات میں اٹھ کر کہاں گئی تھی؟” شراب میں دھت شوہر بغل میں آ کر لیٹی بیوی پر غرایا۔

آنکھوں کو کہنی سے ڈھانکتے ہوئے بیوی نے جواب دیا، "پیشاب کرنے۔”

"اتنی دیر کیسے ؟”

"پانی پی – پی کر پیٹ بھریں  گے تو پانی نکلنے میں ٹیم نہیں لگے گا؟”

"ہرامن، جھوٹ بولتی ہے؟ سیدھی طرح بتا تو کس کے پاس گئی تھی؟ ”

بیوی نے صفائی دی – "کؤن کے پاس جائیں گے موج مستی کرنے! ماٹی   گارا ڈھوتے بدن میں پران ہیں؟ ”

"کتیا ۔۔۔”

” جب ایتنا  مالم ہے کسی کے پاس جاتے ہیں تو خود ہی جا کے کاہے نہیں ڈھونڈ لیتے؟”

"بےسرم بےہیا ۔۔۔ زبان لڑاتی ہے۔ آخری بار پوچھ رہے ہیں – بتا، کس کے پاس گیا تھا؟ ”

بیوی تنتناتی اٹھ بیٹھی – "تو لو سن لو، گئے تھے کسی کے پاس۔ جاتے رہتے ہیں۔ دارو چڑھا کے تو تو کسی قابل رہتا نہیں ۔۔۔ ”

"چپ ہرامن، منہ جلا  دوں گا جو منہ سے ایسی بکواس کی۔ دارو پی کے مرد مرد نہیں رہتا؟ ”

"نہیں رہتا۔”

"تو لے دیکھ، دارو پی کے مرد مرد رہتا ہے یا نہیں!” مرد نے ساتھ لڑھکا پڑا لوٹا اٹھایا اور عورت کی کھوپڑی پر دے مارا!

٭٭٭

 

 

 

 

بوہنی

 

اس پل پر سے گزرتے ہوئے کچھ عادتسی ہو گئی۔ کھلے ہوئے  پیسوں میں سے ہاتھ میں جو بھی سب سے چھوٹا سکہ آتا، اس اپاہج بونے بھکاری کے بچھے ہوئے چیکٹ انگوچھے پر اچھال دیتی۔ آٹھ بیس کی بی۔ٹی۔ لوکل مجھے پکڑنی ہوتی اور اکثر میں ٹرین پکڑنے کی ہڑبڑاہٹ میں ہی رہتی، مگر ہاتھ مشین کی طرح کام کر جاتا۔ دعائیں اس کے منھ سے جھڑتی رہتیں۔۔۔آٹھ۔۔دس قد تک  پیچھا کرتیں۔

اس روز اتفاق سے پرس ٹٹولنے کے بعد بھی کوئی سکہ ہاتھ نہ لگا۔ میں ٹرین پکڑنے کی جلدبازی میں بنا بھیک دیئے گزر گئی ۔ دوسرے دن کھلے پیسے  تھے، مگر ایک لاپرواہی کا احساس ابھرا، روز ہی تو دیتی ہوں۔ پھر کوئی زبردستی تو ہے نہیں!۔۔۔ بغیر دیئے ہی نکل گئی۔

تیسرے دن بھی وہی ہوا۔ اس کے بچھے ہوئے انگوچھے کے قریب سے گزر رہی تھی کہ پیچھے اس کی گڑ گڑاتی پکار نے ٹھٹھکا دیا۔۔””ماں۔۔ ماں۔۔۔ نئیں دیا نہ؟ دس پیسہ فقط۔۔۔۔””

ٹرین چھوٹ جانے کے اندیشے نے ٹھہرنے نہیں دیا، لیکن اس دن شائد اس نے بھی طے کر لیا تھا کہ وہ بغیر پیسے لئے مجھے جانے نہیں دے گا۔ اس نے دوبارہ اونچی آواز میں مجھے مخاطب کر کے پکار لگائی۔ یکایک میں جھنجھلا اٹھی۔ بھلا یہ کیا بد تمیزی ہے؟ لگاتار پکارے جا رہا ہے!!!

"ماں۔۔ ماں۔۔۔۔”” میں پلٹی اور بپھرتی ہوئی برسی۔ "”کیوں چلا رہے ہو؟ تمہاری مقروض ہوں کیا؟”

"نئیں، میری ماں !”” اس نے رونی صورت بنائی۔

"تم دیتا تو سب دیتا۔۔۔۔ نئی دیتا تو کوئی نئیں  دیتا۔۔۔۔  تمہارے ہاتھ سے بونی ہوتا تو پیٹ بھرنے بھر کو مل جاتا۔۔۔۔تین  دن سے تم نئیں دیا ماں۔۔۔ ہے، میری ماں!””

بھیک میں بھی بوہنی۔ مجھے اچانک  غصہ آ گیا۔ لیکن رحم کی نظروں سے اسے دیکھا، پھر ایک روپئے کا ایک سکہ آہستہ سے اس کے انگوچھے پر اچھال کر دعاؤں سے سر سے پاؤں تک بھیگتی جیسی ہی میں پلیٹ فارم پر پہنچی میری آٹھ بیس کی گاڑی پلیٹ فارم چھوڑ چکی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

غریب کی ماں

 

“تیرے کو بولنے کو نئیں سکتا؟”

“کیا بولتی میں؟”

“سالی…بھیجا ہے مغز میں؟”

“تیرے کو ہے نہ؟ تب کائے کو نئیں بولتا سیٹھانی سے؟ اکھّا دن پاو سیر مارکر گھومتا…”

“ہلکٹ! بھیجا مت گھما۔ بولا کیا؟”

“کھولی خالی کرنے کو بولتی۔”

“تو بولنے کو نئیں سکتی؟ آتا مئینا (اگلے ماہ) میں اکھا بھاڑا چکتا کر دیں گے۔”

“وہ تو میں بولی۔”

“پچو؟(اس کے بعد)”

“بولتی ہوتی—ملپا کو بھیجنا۔ کھولی لیا، ڈپاس ن (ڈپازٹ) بی نئیں دیا، بھاڑا بی نئیں دیتا…نئیں چلے گا…”

“سالا لوگن کا پیٹ بڑا! کئسا چلے گا؟ سب میں سمجھتا…”

“تیرے کو کچھ زیادہ ہے۔ جا، چپ سو جا !…”

“سیٹھانی دپر (دو پہر)  کو آئی ہوتی۔”

“کیا بولتی ہوتی؟”

“کھولی خالی کرنے کو بولتی!”

“میں جو بولا، وہ بولی؟”

“میں بولی، ملپا کا ماں مر گیا، ملک کو پئسا بھیجا۔ آتا مئینا میں چکتا کرے گا…”

“پچو؟”

“بولی، وہ پکا کھڑوش اے۔ چھے مئینا پیلا ہمارا پاؤں پر گرا—سیٹھانی! ملک میں ہمارا ماں مر گیا، میرے کو پناس (۵۰) روپیہ ادھار ہونا۔ آتا مینا کو اکھا بھاڑا دے گا، ادھار دے گا۔ میں دیا، اجن (آج)  تلک وہ پئسا نئیں ملا۔”

“پچو؟”

“گالی بکنے کو لگی…پکا کھڑوس ہے سالا!…دو مینا پیلا میرے کو بولا ہوتا—آتا مئینا میں اکھا چکتا کرے گا۔ ملک میں ماں مر گیا ہے۔ میں بولی—وہ پیلو (پہلے) ماں مرا تھا، وہ؟ وہ بولا—سیٹھانی، باپ نے دو سادی بنایا…بھنکس باجی اپنے کو نئیں ہونا۔ کل سبو تک پئسا نئیں ملا تو سامان کھولی سے باہر…!”

“تو کیا بولی؟”

“میں تو ڈر گئی۔ برسات میں کدھر کو جانا؟…میں بولی—سیٹھانی، وہ جھوٹھ نئیں بولتا…”

“پچو؟”

“پچو بولی—دو سادی بنایا تو تیسرا ماں کدر سے آیا؟”

“…کیا بولی تو؟”

“میں بولی…دو کا مرنے کا پچو تیسرا سادی بنایا!…”

 

 

 

 

نصیحت

 

ایک بچے کی گڑگڑاہٹ نے خاموشی  توڑ دی، "”صبح  سے بھوکا ہے میم صاب۔ ایک دس پیسہ پیٹ کے واسطے……  بال بچہ سکھی رہے گا……”” رسالے سے نظریں ہٹا کر اس بچے کو دیکھا۔ خاصا تندرست بچہ لگا وہ مجھے۔ عادتاً نصیحت ٹکا دی،

"”جاؤ، جاکر کہیں کام۔۔دھام کرو۔ اتنے بڑے ہوکر بھیک مانگتے شرم نہیں آتی؟””

کہہ کر میں نے ایک بار بس کی منتظر لمبی کیو کو دیکھا، پھر رسالے میں الجھ گئی۔ بھیک دینا میرے اصول کے خلاف ہے۔ تبھی یہ احساس ہوا کہ بچہ سچ مچ بھوکا ہے تو بجائے اسے پیسے دینے کے کھانے کے لئے کچھ خرید دیتی۔

"”آتی تو ہے میم ساہب! پن کون کام دیتا ہے ہم سڑک چھاپ کو؟””

اس نے میریے غصے کی پرواہ نہ کر ڈھٹائی سے کہا۔

"”کیوں نہیں دیں گے؟”” میں نے  پھر سوال کیا۔ "”ایمانداری اور محنت سے کام کرنے کا وعدہ کرو تو… کیوں  نہیں رکھے گا؟ گھریلو نوکروں کی کمی تو ہر گھر میں ہے…مگر،سچ تو یہ ہے کہ کام تم لوگ کرنا چاہو تب نہ! پھوکٹ کا کھانے کو ملتا ہے تو محنت کیوں کرو گے بھلا؟ جاؤ، تنگ مت کرو۔””

لڑکا تیز بھی تھا، اڑیل بھی، ٹلا نہیں، بولا، "”آپ کو نوکر کی ضرورت ہے؟””

"”ہاں، ہے تو…””

"”تو پھر… اپُن کو کام پر رکھ لو نا!……قسم سے! چوری چکاری کا اپنے کو عادت نئیں… اپُن جو  بولے گا، سب کرے گا۔ گھر کا ایک کونے میں پڑا رہے گا… منظور؟””

میں اس کے جواب سے پس و پیش میں پڑ گئی۔ پورے وقت کے لئے ایک نوکر کی مجھے سخت ضرورت تھی۔ دفتر اور گھر ساتھ ساتھ چل نہیں پا رہے تھے۔ کتنی بار کہا انہوں نے کہ ایک نوکر کیوں نہیں رکھ لیتیں، پر مشکل تو یہ تھی کہ کھا پی کر بھی نوکر سو روپئے سے کم تنخواہ نہیں مانگتا تھا۔ اور اتنی تنخواہ دینا میرے بس کی نہیں تھی۔ سوچا، یہ تو چھوٹا ہے، تابع میں بھی رہے گا اور کام بھی ڈھنگ کا سیکھ جائے گا۔ تنخواہ بھی زیادہ نہیں دینی پڑے گی۔

پوچھا "”تمہارے ماں باپ کدھر رہتے ہیں؟””

"”ماں اپنا بچپن میں مر گیا۔ باپ ہے، پن باپ نے تیسری شادی بنایا، وہ ادھر "بھارت نگر” کا جھونپڑ پٹی ہے نا، ادھریچ ریتا۔””

"”ٹھیک ہے۔ میں تمہیں رکھ لوں گی۔ اپنے گھر لے چلو۔ تمہارے ماں باپ سے طے کر لیتی ہوں کہ آج سے تم ہمارے گھر رہو  گے…””

"”ماں سے پوچھنا، میم صاب! اپن ریتا ہے۔ نکال دیا اس نے گھر سے…۔””

"”کیا مطلب؟””

"”بوت کھڑوس ہے وہ، اکھا دن بھوکا رکھتی تھی۔ کیا کرتا، اپن پڑوس کا بیکری سے پاو چوری کرکے لانے لگا۔ ایک دن ہاتھ آ گیا سیٹھ کے…اپُن کو بوت  مارا…دے دیا پولس کو… ماں  باپ بول دیا… میں اس کا بچہ نئیں۔ تھانے سے چھٹا تو ٹکٹ گھر کا سامنے حمالی کرنا شروع کیا…اپن…پر بلا  (لائسینس) منگتا نہ حمالی کرنے کا واسطے… ایک  دادا کے گھر میں ریتا میں۔ بھیک کا پئسا ووئچ لیتا۔ فقط صبح شام کھانے کو دیتا…اپن کو۔۔ ہمارا پر وسواس کرو…اپُن دغا نئیں کرے گا…رکھ  لو نہ میم ساب!…۔

اس کی اس تاریخ نے میری ہمت نچوڑ لی۔ گھر نہیں، گھاٹ نہیں، جس پر لفھنگوں کا ساتھ۔ گھر تھوڑے ہی لٹوانا ہے مجھے۔

"”دیکھو، سچ تو یہ ہے””، میں نے فوراً بات پلٹی، "”میرے پاس تو پہلے سے ہی ایک نوکر ہے، تمہیں رکھ کر کیا کروں گی، ہاں،یہ لو پانچ رپئے۔”” میں نے اسے "پرس” میں سے فوراً پانچ کا نوٹ نکال کر تھماتے ہوئے کہا

"”کچھ دھندا کر لینا…… پالش کا یا رومال وومال بیچنے کا…… موٹی چیزیں بہت سے بچے ٹرینوں میں بیچتے ہیں۔””

وہ اس کے رد عمل میں تمتما اٹھا۔ پانچ کا نوٹ میرے چہرے پر اچھال کر بولا،

"بھیک نہ دو میم صاب، بھیک! دس پیسہ… پانچ پیسہ…سیکھ کیوں دیتا ہے، و تم کھدیچ (خود ہی) ہمارا پر اِسواس  (وشواس بھروسہ) نئیں کر سکتا؟… نئیں مانگتا۔ رکھو اپنا پیسہ…””

اور وہ میری نصیحت کا کھوکھلا پن مجھ پر ہی پٹک کر سرررر سے بھیڑ میں غائب ہو گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

گیند

 

” انکل ۔۔۔ او انکل! ۔۔ پلیز۔ سنئے نہ انکل ۔۔۔! ” تنگ سڑک سے تقریباً متصل بنگلے کی فینسنگ کے اس جانب سے کسی بچے نے انہیں پکارا۔ سچدیوا جی ٹھٹھکے، آواز کہاں سے آئی؟ غور کیا۔ کچھ سمجھ نہیں پائے۔ کانوں اور گنجے سر کو ڈھکے کس کر لپیٹے ہوئے مفلر کو انہوں نے تھوڑا ڈھیلا کیا۔ ذیابیطس کا سیدھا حملہ ان کی سننے کی طاقت پر ہوا ہے۔ اکثر دل چوٹ کھا جاتا ہے جب ان کے نہ سننے پر سامنے والا شخص اپنی جھنجھلاہٹ کو کوشش کے باوجود دبا نہیں پاتا۔ سات آٹھ ماہ سے اوپر ہی ہو گئے ہوں گے۔ ونے کو اپنی پریشانی لکھ بھیجی تھی انہوں نے۔ جواب میں اس نے فون کھٹکا دیا۔ سننے کے  آلے کے لئے وہ ان کے نام روپے بھیج رہا ہے۔ آشرم والوں کی مدد سے اپنا علاج کروا لیں۔ بڑے دنوں تک وہ اپنے نام آنے والے روپے کا انتظار کرتے رہے۔ غصے میں آ کر انہوں نے اسے ایک اور خط لکھا۔ جواب میں اس کا ایک اور فون آیا۔ ایک پیچیدہ کام میں الجھا ہوا تھا۔ اس لئے انہیں روپے نہیں بھیج پایا۔ اگلے ماہ ایک ہندوستانی دوست آ رہے ہیں۔ گھر ان کا لاجپت نگر میں ہے۔ فون نمبر لکھ لیں ان کے گھر کا۔

ان کے ہاتھوں پونڈس بھیج رہا ہوں۔ روپے یا تو وہ خود آشرم آ پہنچا جائیں گے یا کسی کے ہاتھوں بھیج دیں گے۔ نام ہے ان کا ڈاکٹر منیش کشواہا۔ ڈاکٹر منیش کشواہا کا فون آ گیا۔ رامیشور نے اطلاع دی تو بے چینی سے فون سننے پہنچے۔ منیش کشواہا نے بڑی اپنائیت سے ان کا حال چال پوچھا۔ جاننا چاہا، کیا کیا تکلیفیں ہیں انہیں۔ شوگر کتنا ہے؟ بلڈ پریشر کے لئے کون سی گولی لے رہے ہیں؟ کتنی لے رہے ہیں؟ پیشاب میں یوریا کی جانچ کروائی؟ کروا لیں۔ کیوں اکیلے رہ رہے ہیں وہاں؟ ونے کے پاس لندن کیوں نہیں چلے جاتے؟ اس کی بیوی ۔۔۔ یعنی ان کی بہو تو خود ڈاکٹر ہے۔۔۔۔! روپیوں کی کوئی بات ہی نہ شروع ہوئی ہو۔ جھجھکتے ہوئے انہوں نے خود ہی پوچھ لیا،” بیٹا، ونے نے تمہارے ہاتھوں علاج کے لئے کچھ روپے بھیجنے کو کہا تھا۔”

منیش۔ کو اچانک جیسے یاد آیا” کہا تو تھا ونے نے، آشرم کا فون نمبر لکھ لو، بابوجی کو کچھ روپے بھجوانے ہیں ۔۔۔۔ مگر میرے نکلنے تک ۔۔۔ دراصل، مجھے ابھی انتہائی مصروفیت میں وقت نہیں ملا کہ میں انہیں یاد دلا دیتا ۔۔۔” ونے کو خط لکھنے بیٹھے تو کانپنے والے ہاتھ غصے سے زیادہ کچھ زیادہ ہی تھرتھرانے لگے۔ حروف پڑھنے کے قابل ہو سکیں تبھی نہ اپنی بات کہہ سکیں گے! طے کیا۔ فون پر کھری کھوٹا سنا کر ہی چین لیں گے۔ فون پر ملی مارگریٹ۔ بولی، کہ وہ ان کی بات سمجھ نہیں پا رہی۔ ونے گھر پر نہیں ہے۔ مانچسٹر گیا ہوا ہے۔ مارگریٹ کے مکمل غیریت کے لہجے نے انہیں مایوس کر دیا۔ چھلنی ہو اٹھے۔ بہو کے ساتھ بات چیت اور سلوک کا کوئی طریقہ ہے یہ؟ فون تقریباً پٹک دیا انہوں نے۔ کچھ اور ہو نہیں سکتا تھا۔ غصہ میں وہ صرف ہندی بول پاتے ہیں یا پنجابی۔ مارگریٹ ان کی انگریزی نہیں سمجھتی تو ہندی، پنجابی کیسے سمجھے گی؟ پوتی سوینا سے باتیں نہ کر پانے کا ملال بھی انہیں کریدتا رہا۔ حالانکہ باتیں تو وہ اس گڑیا کی بھی نہیں سمجھتے۔

ڈھیلے کئے گئے مفلر میں ٹھنڈی ہوا سرسراتی دھنسی چلی آ رہی تھی۔ ڈھیٹ! نومبر کے آخر آخر کے دن ہیں۔ سردی کی آمدسبھی کو پسند ہے۔ انہیں بالکل نہیں۔ شام بلا وقت سیندوری ہونے لگتی ہے۔ دھندلکا ڈگ نہیں بھرتا۔ چھلانگ بھر اندھیرے کی آستین میں ڈوب لیتا ہے۔ آشرم سے سیر کو نکلے نہیں کہ پلٹنے کی کھدبد مچنے لگتی۔ مفلر کس کر لپیٹا اور آگے بڑھے، تاکہ ‘مدر ڈیری’ تک رسائی کا معمول مکمل ہو لے۔ مکمل نہ ہونے سے بے قراری ہوتی ہے۔ کسی نے پکارا نہیں۔ کون پکارے گا؟ شبہ ہوا ہے۔ ایسے شبہات خوب ہونے لگے ہیں ادھر۔ اپنے علم میں دوائی کی گولیاں رکھتے ہیں پلنگ سے ملی تپائی پر، ملتی ہیں دھری تکئے پر!

آس پاس مڑ کر دیکھ لیا۔ نہ سڑک کے اس پار نہ اس پار ہی کوئی نظر آیا۔ ہو تب ہی نہ آئے! قدم بڑھا لیا انہوں نے۔ کب تک کھڑے رہیں؟ پہلے وہ چار پانچ لوگ جمع ہو کر شام کو ٹہلنے نکلتے۔ ایک ایک کر وہ تمام بستر سے لگ گئے۔ کوئی بیس روز پہلے تک ان کا روم پارٹنر کپور ساتھ آیا کرتا تھا۔ اچانک اس کے دونوں پاؤں میں  میں فیل پاہو گیا۔ ڈاکٹر ورما نے بستر سے اترنے کو منع کر دیا۔ کپور انہیں بھی سیانی ہدایت دے رہا تھا کہ ٹہلنے اکیلے نہ جایا کریں۔ ایک تو ساتھ صحبت میں سیر کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے، اور پھر ایک دوسرے کا خیال بھی رکھتے چلتے ہیں۔ ساوتری بہن جی نہیں بتا رہی تھیں مسٹر چڈھا کا قصہ؟ راہ چلتے اٹیک آیا، وہیں ڈھیر ہو گئے۔ تین گھنٹے کے بعد جا کر کہیں خبر لگی۔ صحت کا خیال کرنا ہی ہے تو آشرم کے اندر اندر ہی آٹھ دس چکر مار لیا کریں۔

بوڑھی ہڈیوں کو بڑھاپا ہی ٹنگڑی مارتا ہے ۔۔۔۔۔

کپور کا مشورہ ٹھیک لگ کر بھی عمل کرنے کے قابل نہیں لگا۔ انہیں ذیابیطس ہے۔ صرف گولیوں کے بل پر محاذ نہیں لیا جا سکتا اس آدم خور  بیماری سے۔ روجو زندہ تھی تو انہیں کبھی اپنی فکر نہیں کرنی پڑی۔ نت نئےنسخے  گھونٹ گھوٹ کر پلاتی رہتی۔ کریلے کا رس، میتھی کا پانی، جامن کی گٹھلی کی پھنکی ۔۔۔ اور نہ جانے کیا کیا!

” یہ انکل ۔۔۔ چا چا، ادھر پیچھے دیکھئے نا! کب سے بلا رہا ہوں ۔۔۔ فینسنگ کے پیچھے ہوں میں۔” پیچھے ادھر آئیے ۔۔۔ ادھر دیکھئے نا ۔۔۔” فینسگ کے پیچھے سے اچکتا بچہ ان کی بے دھیانی پر جھجھلایا۔ ہکا بکا سے وہ دوبارہ ٹھٹھک کر پیچھے مڑے۔ اب صحیح ٹھکانے پر نظر ٹکی۔

” او تو پکار رہا ہے مجھے؟” فینسنگ کے اس پار سے بچے کے اچکتے چہرے نے انہیں یکبارگی مسرت سے بھر دیا۔

” کیوں بھئی، کس واسطے ۔۔۔؟”

” میری گیند باہر چلی گئی ہے۔”

” کیسے؟” بچے کا لہجہ ان کے فضول سے سوال سے جھنجھلا  اٹھا

"بالنگ کر رہا تھا۔ ”

” اچھا ۔۔۔۔ تو باہر آ کر خود کیوں نہیں ڈھونڈ لیتے اپنی گیند؟” بچے کا مطلب بھانپ کر وہ مسکرائے۔

” گیٹ میں تالا لگا ہوا ہے۔”

"تالا کھلوا لو ممی سے!”

” ممی نرسنگ ہوم گئی ہیں۔”

” نوکرانی تو ہوگی گھر میں کوئی؟”

” بدھو رام گاؤں گیا ہے۔ گھر پر میں اکیلا ہوں۔ ممی باہر سے بند کر کے چلی گئی ہیں۔” بچے کے  بھولے چہرے پر لاچاری نے پنجا کسا۔

” ہو، اکیلے کھیل رہے ہو؟”

” اکیلے ۔۔۔ ممی کسی بچے کے ساتھ کھیلنے نہیں دیتیں۔”

” بھلا وہ کیوں؟”

"مجھے بھی غصہ آتا ہے، بولتی ہیں بگڑ جاؤ گے۔ یہاں کے بچے جنگلی ہیں۔”

"بڑی غلط سوچ ہے۔ خیر ۔۔۔۔ تمہیں نرسنگ ہوں ساتھ لے کر کیوں نہیں گئیں؟”

ماں کی بے وقوفی پر انہیں غصہ آیا۔ گھنٹے آدھ گھنٹے کی ہی بات تو تھی، بچے کو اس طرح اکیلا چھوڑتا ہے کوئی؟

"ممی گھنٹے بھر میں نہیں لوٹے گی انکل، رات کو نو بجے کے بعد لوٹے گی۔”

٭٭٭

 

 

 

 

ہتھیار

 

 

اب بھی ان کی نگاہ مینو سے لپٹی ہوئی ہے۔ اس کی آنکھیں ان کی اوپر نیچے ٹوہتی، انمنی سی ادھر ادھر اچکتی، اپنی بڑھتی بوریت کو کنٹرول نہیں کر پا رہی ہیں۔ بوڑھے ہونے کو آئے، جانے اتنا وقت  کیوں لگاتے ہیں چیزیں چننے میں کہ ان کے مزے کی للک ہی ختم ہو جائے؟ مینو میں درج اشیائے خوردنی کی فہرست اتنی لمبی چوڑی بھی نہیں کہ چننے میں تذبذب اتنا گہرا ہو جائے! جانتے ہیں وہ اور خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں، کتنی مشکل سے وہ ان کا ساتھ پانے کے لئے اپنے بہت اچھے گتھے ہوئے وقت میں سے کچھ لمحے نکال پاتی ہے۔ صبح نیند ٹوٹتے ہی وہ سوچنا شروع کر دیتی ہے آج اسے کیا کچھ نبٹانا ہے اور شام کو ان سے کیسے ملنا ہے۔ بیچ میں کئی کئی روز وقت نہ نکال پانے کے باعث ان سے ملنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ فون پر باتیں کر کے ہی  مطمئن ہونا پڑتا ہے۔ فون پر باتیں کر کے ان کا دل نہیں بھرتا۔ انہیں اس کی نوکری پر جھنجھلاہٹ ہونے لگتی ہے۔ کام نبٹا کر وہ کیوں نہیں اپنے باس سے کہہ پاتی کہ اسے ان سے ملنے پہنچنا ہے؟ کون سا قانون اسے ملنے سے روک سکتا ہے؟ جانے کیسا دفتر ہے اس کا! ان کے دفتر میں تو لڑکیاں رجسٹر سائن کرنے کے بعد دکھتی ہی نہیں۔ باتیں سنتے سنتے وہ ان کا دھیان دوسری طرف موڑنا چاہتی ہے ان کے زکام کا ذکر کر کے یا ان کے سائٹ کے پین کا حال پوچھ کر۔ نئی کتاب کون سی پڑھ رہے ہیں وہ ؟ "کیا کروں زکام کے لئے؟ ” اس کے آڑے ہاتھوں لیتے ہی وہ خود سپردگی کا غلاف اوڑھ لیتے ہیں۔ وہ سیانوں سی سمجھانے لگتی ہے۔ کیمسٹ کی دوکان سے فوراً وٹامن سی کی گولیاں منگوائیں۔ سر پر تولیہ ڈال کر صبح شام بھاپ لیں۔ ان کی آواز سے لگ رہا ہے، انہیں حرارت ہے۔ ان کا جواب اسے تھوڑی تسلی دیتا ہے۔ اسے زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ بخار لگتا ضرور ہے انہیں، مگر تھرمامیٹر ان کے اس لگنے کو سرے سے جھٹلا دیتا ہے۔ کتنے اکیلے ہیں! وہ بھی اس عمر میں۔ جہاں تک اسے یاد ہے، چھ مہینے بھر باقی ہیں ان کے رٹائر ہونے میں۔ ایک ادھ سال کا ایکسٹینشن مل سکتا ہے انہیں۔ پانے کے لئے وہ خاص کوشش کرنے کو پسند نہیں ہیں۔ اپنے آپ مل جائے تو انہیں کام کرنے میں کوئی اعتراض بھی نہیں۔ انہیں پوری امید ہے کہ ان کے کام کی سنجیدگی پہچانی جائے گی۔ ویسے آج بھی ان سے ملنا مشکل ہی تھا۔

اس کی میز پر سے نبٹی فائلیں اٹھا کر لے جانے آئے چپراسی ماندلے نے اچانک ہی اسے خوش خبری دی، "کپور صاحب لنچ کے بعد ہی چلے گئے، میڈم! ساڑھے چار کی ان کی فلائٹ تھی۔ کولکاتہ گئے۔ پرسوں لوٹیں گے، یعنی باقی فائلیں وہ کل نبٹا سکتی ہے۔ مسرت کا احساس چھپاتے ہوئے اس نے ماندلے سے جاننا چاہا تھا اچانک کپور صاحب کولکاتہ کیوں چلے گئے؟ ماندلے  پر اسرار  ہنسی ہنسا تھا ان کی بیوی نے ان کے اوپر طلاق کا مقدمہ ٹھونک رکھا ہے اور کل اس کی سنوائی کی تاریخ ہے۔ بیوی کپور صاحب کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔ بولتی ہے کہ کپور صاحب مرد نہیں ہیں۔ اس کی خوشی کافور ہو گئی۔ ماندلے سے پوچھنا چاہتی تھی، "کپور صاحب کے بچے ہیں ؟” ان کا فون نمبر منھ زبانی یاد ہے اسے۔ اچانک انگلیاں نمبر ڈائل کرنے لگیں۔ فون انہوں نے ہی اٹھایا۔ اس نے انہیں بتایا کہ وہ چار کے قریب دفتر چھوڑ سکتی ہے۔ آزاد میدان کراس کر وہ چار بیس تک چرچ گیٹ "گیلارڈ” پہنچ جائے گی۔ ان کا کیا پروگرام ہے؟ "سکسینہ کے بڑے بھائی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے آج صبح۔ سکسینہ چھٹی لے کر انہیں دیکھنے بامبے ہاسپٹل گیا ہوا ہے۔ اس کا کام بھی ذمے آ پڑا ہے۔” "ٹھیک ہے” نچلا ہونٹ اوپری دانتوں کے نیچے آ دبا۔ ” دکھی مت ہوؤ۔ اچھا سنو، تم پہنچو گیلارڈ۔ اپنا اور شریواستو کا کام پاٹھک کے ذمے ٹکا کر پہنچتا ہوں چار بیس تک۔ ” اسے ان کی یہی خصوصیت  بھاتی ہے۔ اس کی بات  کو وہ ٹال نہیں پاتے۔ کام بہت اہم ہے ان کے لئے مگر اس سے زیادہ نہیں۔

سب سے اچھی بات جو ان کی اسے لگتی ہے، وہ ہے ماں کے بارے میں وہ اس سے کبھی کچھ نہیں جاننا چاہتے ہیں۔ جتنا وقت  وہ اس کے ساتھ گزارتے ہیں، اس کے بچپن کے دنوں میں ٹہلتے رہتے ہیں۔ دوسری شادی کیوں نہیں کی انہوں نے؟ شادی وہ کرے، جسے اکیلا پن کاٹے۔ اس گھر میں رہتے ہر  پل وہ ان کے پاس بنی رہتی ہے۔ گھر کے ہر  کونے میں اس کی تصویریں سجی ہوئی ہیں۔ گھر کی کنڈی کھولتے ہی وہ کسی بھی تصویر سے باہر چھلانگ لگا، ان کے سواگت میں دوڑ کر ان کی ٹانگوں سے لپٹ جاتی ہے، ” دکھائیے، میرے لئے کیا لائے ہیں؟ ” جیب سے اس کی پسند کی چاکلیٹ نکال کر وہ بیٹھک میں رکھے ڈوائڈر پر رکھی چاکلیٹ کھاتی اس کی تصویر کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ چاکلیٹ اکٹھی ہوتی رہتی ہے۔ ملنے پر اکٹھی چاکلیٹ وہ اسے تھما دیتے ہیں۔ ان کے سامنے ہی وہ چاکلیٹ کے ریپر ہٹا کر ایک کے بعد ایک کھانا شروع کر دیتی ہے اور کھاتے کھاتے ہنسی سے دوہری ہوتی ہوئی اس قصے پر  متعجب ہو اٹھتی ہے، جسے سناتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ پچھلی رات انہوں نے اس کے ساتھ گھر کی بیٹھک میں جم کر کرکٹ کھیلی۔ باؤلنگ وہ اتنی زوردار کرتی ہے کہ اس کی گیند سے رسوئی کی دو کھڑکیوں کے شیشے چٹخ گئے۔ ٹرے میں رکھی کانٹیسا رم کی بھری بوتل الٹ گئی۔

جب تک وہ رسوئی سے کانچ کی کرچیں پھینکتے، وہ کود کر وہ اپنے قد سے بڑا کرکٹ کا بلا سنبھالے اسی تصویر میں جا چھپی، جو ان کے بستر کی سائڈ ٹیبل پر سنہرے فریم میں جڑی رکھی ہوئی ہے۔ بدمعاش  ڈر گئی تھی۔ کہیں ماں سے اسے ڈانٹ نہ پڑ جائے کہ تم اتنی دہشت انگیز گیند بازی کیوں کرتی ہو بھلا؟ اب بتائے، وہ اکیلے کہاں ہیں؟ ان سے مل کر گھر دیریسے پہنچنے پر اس کا ایک ہی بہانہ ہوتا ہے جانے کیوں، امبرناتھ لوکل اچانک ردّ کر دی گئی۔ لوکل گاڑیوں کا بہانہ خاصا کارگر بہانہ ہے اور تاخیر  سے پہنچنے والوں کے لئے ٹھیک نشانے پر لگنے والا حفاظتی خول!!

سوتیلے باپ، ڈومبی ولی کے ایک چھوٹے سے جوتے کے  کارخانے میں معمولی افسر  ہیں، جن کی گھر میں موجودگی گھر کو چمڑے کی نا قابلِ برداشت بو سے بھر دیتی ہے۔ شائد گھر کو اس بو سے بچانے کے لئے ہی ماں رسوئی میں ٹنگے چھوٹے سے مندر کے اگر بتی سٹینڈ کی اگر بتیوں کو کبھی بجھنے نہیں دیتی۔ اکثر گھر دیری سے لوٹنے پر سوتیلےباپ بھی وہی بہانہ گڑھتے ہیں، جو بہانہ وہ گڑھتی ہے۔ اسےتعجب  اس بات پر ہوتا ہے کہ ماں اس کے بہانے پر کبھی غصہ  نہیں کرتیں، جبکہ سوتیلے باپ  کا بہانہ انہیں بہانہ لگتا ہے۔

ماں کے سٹکنی چڑھے بند کمرے میں آتی ان کی سسکیاں اسے اداس کرتی ہیں۔

دیواروں میں  چھید کرنے والے ان کے بول بھی، کہ کارخانے میں کسی عورت کے ساتھ چل رہی عاشقانہ مستیوں کے باعث ہی وہ گھر  دیر سے لوٹتے ہیں۔ لوکل ٹرین ان کی مرضی کے مطابق ردّ ہوتی رہتی ہے۔ سب سمجھ رہی ہیں وہ۔ پچھتا رہی ہیں۔ جانے کیوں، ان جیسے رنڈوے کے عشق  کے جھانسے میں آ کر وہ پسیج اٹھیں اور اپنی بسی بسائی گرستھی اجاڑ لی جبکہ پہلی بیوی  کی دیدی نے انہیں فون کر کے  ہوشیار کیا تھا کہ  سنیتا کی موت حادثہ نہیں ،خود کشی تھا۔

” چیز پکوڑوں کے ساتھ کساٹا آئس کریم کھاؤ گی تم ؟” ” اتنی دیر میں یہی چن پائے آپ؟” وہ جھنجھلاہٹ  دبا نہیں پائی۔

” کساٹا تو تمہیں بچپن سے پسند ہے۔”

"بچپن پیچھے چھوٹ چکا۔”

” تمہارا نہیں۔” ان کا لہجے سنجیدہ ہو گیا۔

” پسند بدل نہیں سکتی؟”

” بدل گئی ہوتی تو میں پھر کچھ اور چنتا تمہاری نئی پسند۔”

انہوں نے اشارے  سے بیرے کو پاس بلایا۔

"کس بات سے ایسا لگتا ہے آپ کو”

"بیٹھتے ہی تم مینو میری طرف سرکار دیتی ہو ہمیشہ، تمہیں یقین ہے، کھانے کی جو بھی چیزیں میں چنوں گا، تمہاری پسند کی ہوں گی۔”

اسے ہنسی آ گئی۔ میز پر موتیا بچھ گیا۔ ان کا غصہ  کم نہیں ہوا۔

"اگر یہ سچ نہیں ہے تو مینو خود  دیکھ لیا کرو۔” ہنسی رک نہیں رہی تھی۔ انہیں غصہ دلانے میں اسے مزہ آ رہا تھا۔

"اب آرڈر بھی دیجیے۔ لکھوائیے بیرے کو۔”

آرڈر لکھوانے کے بعد  وہ مڑے اس کی طرف۔

"ہنسی کیوں تم؟”

"مذاق نہیں اڑا رہی میں آپ کا۔”

"پھر کیا اڑا رہی ہو؟”

"ہنسی اسلئے آ گئی کہ میں فضول آپ سے الجھ رہی ہوں۔ سچ یہی ہے، میں چاہتی ہوں میں وہی کھاؤں، جو آپ میرے لئے چنیں۔ یہ بھی جانتی ہوں، آپ اتنا وقت اسی لئے لگاتے ہیں کیونکہ میری پسند کی دس پندرہ چیزیں گڈمڈ ہونے لگتی ہیں آپ کے سامنے اور آپ سوچنے لگتے ہیں، پچھلی بار جو کچھ کھا چکی ہوں، اس بار اسے دوہرایا نہ جائے۔ کیا میں غلط ہوں؟”

ان کے چہرے پر گہرا سایہ سنولا گیا۔

"نہیں! لیکن اس نے کبھی تمہاری طرح نہیں سوچا…”

” ضروری نہیں تھا کہ سبھی ایک طرح سے سوچیں؟” یہ اچانک ماں بیچ میں کہاں سے آ گئی، جو کبھی نہیں آتی۔ وہ لگ بھگ اکھڑ آئے۔

” پیروی کر رہی ہو؟ ٹھیک ہے، مگر پھر اگلے کو بھی کسی سے یہ امید نہیں کرنی چاہئیے تھی کہ میں اسی کی طرح سوچوں، جو اسے پسند ہے وہی کروں؟” اسے لگا، وہ مزید الجھ نہیں سکتی۔

اسے اگلے پل یہ بھی لگا، اسے اٹھنا چاہئیے اور کاؤنٹر پر جا کر اپنی شکایت درج کرانی چاہئیے کہ ایسے کیوں ہو رہا ہے۔ ہفتے بھر بعد وہ یہاں آئی ہے اور یہاں لگاتار "کم سپٹیمبر” کی وہی پرانی دھن بج رہی ہے، جسے وہ پچھلے ہفتے سن چکی ہے؟ کیا ان کےپاس کچھ اور اچھی دھنیں نہیں ہیں، جنہیں بدل بدل کر بجایا جا سکے؟ آرڈر آنے میں ابھی دیر ہے۔ دھنیں بدلوانا ضروری ہے۔ وہ اٹھ کر کاؤنٹر کی اور بڑھ چلی۔ اسے معلوم ہے، اس کے اچانک اٹھنے اور کاؤنٹر کی اور بڑھنے پر وہ کوئی سوال نہیں کریں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ سوال نہیں کرتے ہیں۔ سوال کرتے ہیں۔۔۔کبھی کبھی۔ اسے ان کے تین مہینے قبل کئے گئے ایک سوال کا جواب ابھی دینا باقی ہے۔ سوال آسان نہیں ہے۔ نہ اس کا جواب اتنی آسانی سے دیا جا سکتا ہے۔ سوال اس کے ہونے سے جڑا ہے۔ وہ ہے، تو اسے اس "ہونے” کو اہمیت دینی ہی پڑے گی۔ ذمے دار آدمی نہ اپنے تئیں غیر ذمے دار ہو سکتا ہے، نہ دوسروں کے لئے۔ یہی اس کی اڑچن ہے، جس نے اسے ٹھٹکا رکھا ہے۔

وہ جانتے ہیں،وہ انہیں بہت پیار کرتی ہے۔ انہوں نے بہت  ضد کی تھی ماں سے۔۔انہیں سب کچھ چھوڑ کر جانا ہے، جائیں۔ جیسا چاہیں گی، لکھ کر دے دیں گے۔ کورٹ کچہری کی فضیحت انہیں پسند نہیں۔ ہاں، بچے کے بغیر جینا ان کے لئے کٹھن ہے۔ دنیا میں اسے آنکھیں کھولنے کے ساتھ ہی انہیں گہرے احساس ہو گیا تھا کہ وہ اس آنکھیں ملتی ننھی جان کے بنا نہیں رہ سکتے۔

انہوں نے اس کے جنم کے وقت کے اپنے جذبات کو اس سے آٹھ سال کی عمر میں بانٹا تھا کہ اس کے جنم کے وقت اسے پہلی بار دیکھنے پر اس کی دادی نے ان سے کہا تھا، "منا، چھوری ہو بہو تیرے جیسی لگے ہے۔ انگڑائی توڑ تو ایسے ہی آنکھیں مل رہا تھا، جب پہلی دپھے میں نے تجھے دائی کی گود میں دیکھا تھا۔”

اس کی فرمائش پر دھن بدل گئی۔

ایر کنڈیشنڈ کھنک بھرے  ماحول میں راج کپور کی "شری420” کے گیت "پیار ہوا اقرار ہوا ہے، پیار سے پھر کیوں ڈرتا ہے دل۔۔” کی من کو چھوتی سہلاتی دھن تیرنے لگی۔ بدلی دھن نے انہیں بھی اپنے ساتھ گنگنانے کے لئے مجبور کر دیا۔

"تنوی”

"بولو، پا!”

"پرانے گانے پرانی قدروں کی طرح ہیں، نہیں؟”

"پرانے گانوں میں بڑا دم ہے۔ شاعری ہے۔”

"قدر” لفظ سے اس نے خود کو بچانا چاہا۔ انہیں بھی سمجھ میں آ گیا۔۔وہ ماحول کو کڑواہٹ میں ڈبونے سے بچ رہی ہے۔ بیرا آرڈر لے آیا۔

چیز بالس، جنہیں وہ پکوڑے کہتے ہیں، بڑی پلیٹ میں سجے بھاپ چھوڑ رہے ہیں۔ "کساٹا” آئس کریم دو الگ الگ پلیٹوں میں ہے۔ انہوں نے ایک پلیٹ اس کی طرف کھسکائی اور چیز پکوڑا اٹھا کر دانتوں سے کترنے لگے۔ ان کے دانتوں میں عمر مروڑے لینے لگی ہے۔ پچھلے مہینے نچلے جبڑے کی داہنی ایک داڑھ کو نکلوایا ہے انہوں نے۔

"عجیب چلن ہو گیا ہے۔ کسی بھی ریستوراں میں چلے جاؤ، انگریزی کی دھنیں ہی بجتی ہوئی ملے گی وہاں۔”

"ریستوراں کا چلن ہی وہاں سے آیا ہے۔”

"کیوں، ہمارے یہاں ڈھابے اور مٹھائیوں کی دوکانوں نہیں ہوا کرتی ہیں؟”

"ہوا کرتی ہیں، مگر انہیں کبھی سنگیت سے نہیں جوڑا گیا۔”

"ہو سکتا ہے، وہاں بھی انگریزی دھنیں بجنے لگی ہوں۔” وہ ہنس پڑے۔

"اگلی بار ہم لوگ کسی حلوائی کی دوکان پر ملیں گے۔ اڑپی سڑپی میں تو برتنوں کی کھنک ہی سنائی پڑتی ہے۔” اس نے ان کی ہنسی میں ساتھ دیا۔

چیز بالس خاصے کر کرے اور لذت دار بنے ہیں۔ "کساٹا” میں برف کی اکڑ ہے۔ اس نے چمچ سے اکڑ کو مسلا۔ مسلنے سے یقیناً ہی اس کی اکڑ میں کچھ نرمی آئے گی۔ آئس کریم کو پگھلا کر کھانا اسے پسند ہے۔ پھر تو ربڑی کا دودھ ہی پینا چاہئیے۔ اس کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی آئس کریم کو کچل  کر نرم کرنا شروع کر دیا۔ اپنی اکڑ کو آدمی کبھی کچلتا ہے؟

آئس کریم کھاتے ہوئے وہ انہیں دیکھ رہی ہے۔ گلے کی جلد تیزی سے ڈھیلی ہو رہی ہے۔ وہ اب کسرت وسرت بھی نہیں کرتے۔ پہلے با قاعدہ  کسرت کیا کرتے تھے۔ بازوؤں کی سخت مچھلیوں پر اس سے مکے مروایا کرتے تھے۔ پھر ایک ادھ سانس چھوڑ مچھلی کو چپکا کر، اسے بانہہ میں بھر چومتے ہوئے کہتے تھے "تمہاری مار کے ڈر سے اٹھ کر مچھلیاں بھاگ گئیں۔” ماں کے ساتھ وہ سوتیلے پتا کے گھر آ گئی تھی۔

سکول جانے سے پہلے انہوں نے ہی اسے گھر کا ٹیلیفون نمبر اور پتہ رٹوایا تھا۔ بچوں کو گھر کا پتہ اور فون نمبر اچھی طرح یاد ہونا چاہئیے۔ مصیبت میں کام آتا ہے۔ تیسری شام ماں اور سوتیلے باپ کے گھر سے باہر جاتے ہی اس نے فون کا نمبر ڈائل کر ان سے بات کی تھی۔ وہ جیسے اس کے فون کا انتظار کر ہی رہے تھے۔ پچھلے تین دنوں سے وہ دفتر نہیں گئے تھے۔ بیٹھے پی رہے تھے۔ اس کی آواز سنتے ہی وہ بولے، "تمہیں لینے کل میں ڈومبی ولی آ رہا ہوں، تمہارے بنا میں جی نہیں سکتا، میری بچی!”

"آپ نے تو کہا تھا، پا! میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں۔”

"یہ تم سے کس نے کہہ دیا؟”

"آپ کو جھگڑے کے بیچ کہتے ہوئے سنا تھا۔”

"وہ تو میں نے، تمہاری ماں کو نیچا دکھانے کی منشا سے کہا تھا۔ غصے میں میں اندھا ہو جاتا ہوں۔”

"تب پھر مجھے ماں کے ساتھ کیوں آنے دیا؟”

"ماں کی ضد کے آگے ہار گیا۔ یہ بھی سوچا، اتنی چھوٹی بچی ماں کو چھوڑ کر کیسے رہ پائے گی، رہ سکتی ہو، بولو؟”

"نہیں، رہ سکتی۔ ماں کو بھی میرے ساتھ واپس لے آئیے۔”

"اب نہیں لا سکتا۔ باقاعدہ لکھا پڑھی ہوئی ہے۔ اس آدمی کو اب وہ نہیں چھوڑ سکتی۔ چھوڑنا ہی ہوتا تو یہاں سے جاتی ہی کیوں؟”

"پر پا، وہ آدمی مجھے اچھا نہیں لگتا۔”

"اور اس آدمی کو تم؟”

"میں بھی اسے اچھی نہیں لگتی۔” وہ سسکنے لگی تھی۔

"روؤ مت، میری بچی۔ بتاؤ، تمہاری ماں اس بات سے پریشان نہیں ہے؟”

"ہے، پا۔”

"تب”

"مجھے الگ کمرے میں سلانے لگی ہے۔ مجھے اکیلے ڈر لگتا ہے، پا۔”

"تیز ہوتی سبکیوں کے بیچ اس نے انہیں اطلاع دی تھی گھر کی گھنٹی بجی ہے۔ اس کا خیال ہے، ماں اور سوتیلے والد گھر آئے ہیں۔ موقع ملتے ہی وہ انہیں دوبارہ فون کرے گی۔”

تیرہ سال کیسے کٹ گئے! کٹ نہیں گئے، کاٹے گئے۔ ماں کو اس نے کبھی بھنک نہیں لگنے دی۔ پا اور وہ کب، کہاں، کیسے ملتے ہیں۔ ماں اسے ہر لمحہ  اسے باز رکھتی رہی۔ ان کا مرا منھ دیکھے، اگر کبھی وہ اپنے پا سے بات بھی کرے۔ اسے  حیرت ہوتا ماں کے منھ سے ایسی زبان سن کر۔ آخر ان کے اندر نفرت کے کتنے کنویں  ہیں۔ جو اب تلک پانی نکالتے نکالتے بھی خالی نہیں ہوئے؟ انہیں کبھی یہ بھی خیال نہیں آیا کہ کسی بچے کے لئے کتنا مشکل ہوتا ہے، جو اس کا باپ نہیں ہے، اسے پتا کہہ کر پکارنا! اس گھر میں رہتے ہوئے اس نے سوتیلے والد سے کبھی کوئی بات نہیں کی۔ پڑھائی میں ڈوبی رہتی دن رات۔ کلاس میں ہمیشہ اول آتی۔ اول آنے نے ہی ریلوے میں نوکری پانے میں اس کی مدد کی۔

انہیں چھینکتا ہوا پاکر وہ فکر مند ہو اٹھی۔

"کیا ہوا؟ ٹھنڈا کھانے کا اثر ہے؟”

"اے۔ کچھ بڑھا ہوا نہیں لگ رہا؟”

"ٹھنڈک جتنی تھی، اتنی ہی ہے، آئس کریم نقصان کر گئی۔ سردی آپ کو ویسے ہی رہتی ہے۔” چہرے کو لاپرواہی سے جھٹکا انہوں نے،۔

"چھوڑو، چھینک کے ڈر سے میں آئس کریم کھانا نہیں بند کر سکتا۔”

"سڑپ سڑپ” آواز نکالتے ہوئے وہ آئس کریم کھا ضرور رہے ہیں، مگر ان کی نظریں سامنے پڑے پردوں کی ساندھوں سے الجھی جانے کہاں گم ہو گئی ہیں۔ ایسی مدرا میں وہ جب بھی ہوتے ہیں، اسے لگتا ہے، اس کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی وہ کہیں خود سے جا بھڑے ہیں۔ اپنی بھڑنت سے باہر آ اکثر وہ اس کے لئے اجنبی ہو اٹھتے ہیں۔ بلکہ کچھ کچھ متشدد، جبکہ وہ متشدد نہیں ہیں۔ فطرت ہی نہیں ہے ان کی تشدد کی۔

"تمہیں معلوم ہے، تمہاری ماں کا شک غلط نہیں ہے اس کے بارے میں۔”

اس نے چمچ چاٹتے ہوئے پوچھا، “سمجھی نہیں، کس کے بارے میں؟”

“اس کے بارے میں جو جوتے کے کارخانے سے گھر روز دیر سے لوٹتا ہے۔ ہے ایک مراٹھی لڑکی اس کی زندگی میں۔”

حیران ہو اٹھی۔ پا کو کیسے معلوم؟ اس نے تو کبھی کچھ کہا نہیں۔ انہوں نے کبھی کچھ پوچھا بھی نہیں۔ پھر؟ یعنی ماں کے بارے میں ساری جانکاری ہے انہیں! راستے الگ ہو جانے کے باوجود جانکاری ہے تو اسے سچ قبول کرنا ہی پڑے گا۔ انہیں معلوم ہے تو وہ چھپا بھی نہیں سکتی۔ ماں کی سسکیاں گھر کی دیواریں پھاند کر کیا ان تک دوڑ آتی ہیں؟

"ہاں، ان دنوں ماں خاصی پریشان رہتی ہے۔” اس نے قبول کیا۔

ان کے لہجے میں سناٹا اتر آیا "خاموشی سے سہ لینا چاہئیے، جیسے میں سہ لیا کرتا تھا، جانتے ہوئے کہ وہ چمڑے والے کے ساتھ گھومتی ہے۔”

"اب پتہ چل رہا ہوگا اسے، اکیلا کر دیا جانا کتنا خطرناک ہوتا ہے۔” انہوں نے آگے  اپنی رائے کا اظہار کیا۔ جیسے ان کے سامنے وہ نہیں، ماں بیٹھی ہوئی ہو اور انہوں نے اپنے پنجوں میں شیر کے ناخن  پہن لئے ہوں۔

وہ بھید نہیں پا رہی ہے ان کے چہروں کو۔ ماں کی تکلیف ان کے ناسوروں پر پھاہا ثابت ہو رہی ہے۔

"عمر میں بھی چمڑے والا اس سے چھ سال چھوٹا ہے۔”

اب نہیں سہا جا رہا ہے۔ یہ دہشت گرد اس کے "پا” نہیں ہیں۔ ہوں بھی تو اسے قبول نہیں۔ وہیں ٹھہرے ہوئے ہیں، پشتینی دشمن کی طرح۔

بیرا طشتری میں بل لے آیا۔

لپک کر اس نے بل اٹھا لیا۔ ان کی چھینا جھپٹی کے باوجود۔ پہلی بار بل اس نے چکایا۔ کمانے کے باوجود ان کا بل چکانا اسے اچھا لگتا رہا ہے، جبکہ گھر میں وہ ماں سے اپنے خرچ کے لئے ایک پیسہ نہیں لیتی، بلکہ ہزار روپیہ مہینہ انہیں پکڑا دیتی ہے۔ آٹھویں کلاس  میں آتے ہی اس نے ہندی پڑھانے کے دو ٹیوشن پکڑ لئے تھے۔

اس کا بل چکانا انہیں  پسند نہ آیا ۔

خود کار دروازہ کھول کر دونوں ٖفٹ پاتھ پر آ گئے۔

"تم گھر رہنے کب آ رہی ہو؟” ان کا سوال اس کی خاموشی  کو کریدنے لگا۔ باہر اومس بڑھ گئی ہے۔ اومس نے اسے بور کر دیا تھا۔ اومس اس سے جھیلی نہیں جاتی۔ سب سے برے لگتے ہیں اسے اومس بھرے دن لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پا کے ساتھ وہ جب بھی ہوتی ہے، اومس اس کے پاس پھٹکنے سے کتراتی ہے۔ جانے آج کیوں الٹا ہو رہا ہے۔ لگ رہا ہے، اومس ان کے ساتھ کے باوجود بڑھ رہی ہے اور مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے، یہاں تک کہ سانسوں میں گھلتی اس کی کھاری نمی، سانسوں کو سینے تک پہنچنے نہیں دے رہی ہے۔

اسے معلوم ہے، ساتھ چلتے ہوئے وہ اس کی چپ برداشت نہیں کر پاتے۔ کسی بھی پل وہ اس حماقت کے لئے اسے ٹوک سکتے ہیں۔ انہیں کچھ لمحہ پہلے کئے گئے اپنے سوال کا جواب بھی چاہئیے۔ سوال نیا نہیں ہے۔ تین چار مہینے پرانا ہے۔ انہوں نے کہا تھا جلدی طے کر لو کب تم چمڑے والے کے گھر سے اپنا جھولا ڈنڈا اٹھاؤ گی۔ اپنی وصیت بھی انہوں نے تیار کروا لی ہے۔ دو کمروں والے ان کے سندر فلیٹ کی واحد مالکن وہ ہے، ان کی بچی تنوی گپتا۔ ان کی آخری خواہش ہے، وہ اپنے گھر لوٹ آئے۔ بالغ ہو چکی ہے اب وہ۔

وہ سوچتی ہے وہ کیا ہے آخر! اپنے لئے، ان کے لئے ماں کے لئے؟

ماں نے کہا تھا، "کسی بھی حالت میں میں تنوی کو تمہارے پاس نہیں چھوڑنے والی۔ جانتی ہوں تم تنوی کے لئے ترسو گے، روؤ گے، دیواروں سے ماتھا سر کوٹو گے، کوٹتے رہو، جیون بھر کوٹتے رہو…”

ایک شام انہوں نے اس سے کہا تھا، "جس دن تم اپنے گھر لوٹ آؤ گی، اس کے پاس اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں بچے گا۔”

"بولو تنوی کب گھر آ رہی ہو تم؟” ان کا لہجہ ادھیر ہو اٹھا۔

"کس کے؟” اس کی کنپٹیوں پر اومس پگھل رہی ہے۔

وہ شاید مسکرائے اس کے سوال پر، "اپنے اور کس کے۔”

"وہ تو آپ کا گھر ہے، پا ۔”

وہ چڑھ سے گئے، "جہاں رہ رہی ہو، وہ کس کا گھر ہے؟”

"ماں کا۔” کوئی ہچک نہیں تھی اس کے لہجے میں۔

"پگلی، وہی تو میں کہہ رہا ہوں، تم اپنے گھر لوٹ آؤ۔”

"فیصلہ لے لیا ہے، اپنے گھر ہی لوٹنا چاہتی ہوں، پا۔”

"تب دقت کیا ہے؟”

"دقت ہے، گھر ڈھونڈھنا۔”

"کیا مطلب؟” ان کا لہجہ غرایا۔

"مطلب، اب میں بالغ ہو چکی ہوں پا! اور اپنے گھر میں رہنا چاہتی ہوں۔ آپکے پاس ہی ون روم کچن کرائے پر لے کر۔”

انہیں ماٹنگا اترنا ہے اور اسے ڈومبی ولی۔ شارٹ کٹ آزاد میدان ہی ہے بوری بندر یعنی شواجی ٹرمنل پہنچنے کے لئے۔ اس نے ان کی بائیں کہنی پکڑ لی اور انہیں سڑک کراس کروانے لگی۔ اسے حیرت ہوئی اس کی پکڑ سے انہوں نے اپنی کہنی نہیں چھڑائی۔ ضدی بچے کی طرح گھسٹتے ہوئے ہی سہی، اس کی اقتدا کرتے ہوئے روڈ کراس کرنے لگے۔

٭٭٭

ماخذ: گدیہ کوش، ہندی رسم الخط سے تبدیلی اور ترجمہ: اعجاز عبید

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید