FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

دوسری دنیا

 

 

 

               نرمل ورما

 

ہندی سے ترجمہ/رسم الخط کی تبدیلی: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

 

بہت پہلے میں ایک لڑکی کو جانتا تھا۔ وہ دن بھر پارک میں کھیلتی تھی۔ اس پارک میں بہت سے پیڑ تھے، جن میں میں بہت کم کو پہچانتا تھا۔ میں سارا دن لایبریری میں رہتا تھا اور جب شام کو لوٹتا تھا، تو وہ ان پیڑوں کے بیچ دکھائی دیتی تھی۔ بہت دنوں تک ہم ایک دوسرے سے نہیں بولے۔ میں لندن کے اس علاقے میں صرف کچھ دنوں کے لئے ٹھہرا تھا۔ ان دنوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ بدلتا رہتا تھا، سستی جگہ کی تلاش میں۔

وہ کافی غریبی کے دن تھے۔

وہ لڑکی بھی کافی غریب رہی ہوگی، یہ میں آج سوچتا ہوں۔ وہ ایک آدھاادھڑا سوئیٹر پہنے رہتی، سر پر کتھئی رنگ کا ٹوپ، جس کے دونوں طرف اس کے بال نکلے رہتے۔ کان ہمیشہ لال رہتے اور ناک کا اوپری سرا بھی ۔۔ کیونکہ وہ اکتوبر کے آخری دن تھے ۔۔ سردیاں شروع ہونے سے پہلے دن اور یہ شروع کے دن کبھی کبھی اصلی سردیوں سے بھی زیادہ شدیدہوتے تھے۔

سچ کہوں تو سردی سے بچنے کے لئے ہی میں لایبریری آتا تھا۔ ان دنوں میرا کمرہ برف ہو جاتا تھا۔ رات کو سونے سے پہلے میں اپنے سب سوئیٹر اور جرابیں پہن لیتا تھا، رضائی پر اپنے کوٹ اور اوورکوٹ جمع کر لیتا تھا ۔۔ لیکن ٹھنڈ پھر بھی نہیں جاتی تھی۔ یہ نہیں کہ کمرے میں ہیٹر نہیں تھا، مگر اسے جلانے کے لئے اس کے اندر ایک شلنگ ڈالنا پڑتا تھا۔

پہلی رات جب میں اس کمرے میں سویا تھا، تو رات بھر ہیٹر کو پیسے کھلاتا رہا۔ ہر آدھے گھنٹے بعد اس کی  پیاس نجھانی پڑتی تھی۔ دوسرے دن، میرے پاس ناشتے کے پیسے بھی نہیں بچے تھے۔ اس کے بعد میں نے ہیٹر کو الگ چھوڑ دیا۔ میں رات بھر ٹھنڈ سے کانپتا رہتا، لیکن یہ تسلی رہتی کہ وہ بھی بھوکا پڑا ہے۔ وہ میز پر ٹھنڈا پڑا رہتا ۔۔ میں بستر پر ۔۔ اور اس طرح ہم دونوں کے بیچ ایک سرد جنگ جاری رہتی۔

صبح ہوتے ہی میں جلدی سے جلدی لایبریری چلا آتا۔ پتہ نہیں کتنے لوگ میری طرح وہاں آتے تھے ۔۔ لایبریری کھلنے سے پہلے ہی دروازے پر لائن بنا کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر بوڑھے لوگ ہوتے تھے، جنہیں پینشن بہت کم ملتی تھی،  لیکن سردی سب سے زیادہ لگتی تھی۔ میزوں پر ایک دو کتابیں کھول کر وہ بیٹھ جاتے۔ کچھ ہی دیر بعد میں دیکھتا، میرے داییں بائیں سب لوگ سو رہے ہیں۔ کوئی انہیں ٹوکتا نہیں تھا۔ ایک آدھ گھنٹے بعد لایبریری کا کوئی ملازم وہاں چکر لگانے آ جاتا، کھلی کتابوں کو بند کر دیتا اور ان لوگوں کو دھیرے سے ہلا دیتا، جن کے خرانٹے دوسروں کی نیند یا پڑھائی میں خلل ڈالنے لگے ہوں۔

ایسی ہی ایک اونگھتی دوپہر میں میں نے اس لڑکی کو دیکھا تھا ۔۔ لایبریری کی لمبی کھڑکی سے۔ اس نے اپنا بستہ ایک بینچ پر رکھ دیا تھا اور خود پیڑوں کے پیچھے چھپ گئی تھی۔ وہ کوئی دھوپ کا دن نہ تھا، اسلئے مجھے کچھ حیرانی ہوئی تھی کہ اتنی ٹھنڈ میں وہ لڑکی باہر کھیل رہی ہے۔ وہ بالکل اکیلی تھی۔ باقی بینچیں خالی پڑی تھیں۔ اور اس دن پہلی بار مجھے یہ جاننے کی شدید خواہش ہوئی تھی کہ وہ کون سے کھیل ہیں، جنہیں کچھ بچے اکیلے میں کھیلتے ہیں۔

دوپہر ہوتے ہی وہ پارک میں آتی، بینچ پر اپنا بستہ رکھ دیتی اور پھر پیڑوں کے پیچھے بھاگ جاتی۔ میں کبھی کبھی کتاب سے سر اٹھا کر اس کی اور دیکھ لیتا۔ پاچ بجنے پر سرکاری اسپتال کا گجر سنائی دیتا۔ گھنٹے بجتے ہی، وہ لڑکی جہاں بھی ہوتی، دوڑتے ہوئے اپنی بینچ پر آ بیٹھتی۔ وہ بستے کو گود میں رکھ کر چپ چاپ بیٹھی رہتی، جب تک دوسری طرف سے ایک عورت نہ دکھائی دے جاتی۔ میں کبھی اس عورت کا چہرہ ٹھیک سے نہ دیکھ سکا۔ وہ ہمیشہ نرس کی سفید پوشاک میں آتی تھیں۔ اور اس سے پہلے کہ بینچ تک پہنچ پاتی ۔۔ وہ لڑکی اپنا دھیرج کھوکر بھاگنے لگتی اور انہیں بیچ میں ہی روک لیتی۔ وہ دونوں گیٹ کی طرف مڑ جاتے اور میں انہیں اس وقت  تک دیکھتا رہتا، جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جاتے۔

میں یہ سب دیکھتا تھا، ہچکاک کے ہیرو کی طرح، کھڑکی سے باہر، جہاں یہ پینٹومائم روز دہرایا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ شائد سردیوں تک چلتا رہتا،اگر  ایک دن اچانک موسم نے کروٹ نہ لی ہوتی۔

ایک رات سوتے ہوئے مجھے اچانک اپنی رضائی اور اس پر رکھے ہوئے کوٹ بوجھ جان پڑے۔ میرا بدن پسینے سے لت پت  تھا، جیسے بہت دنوں بعد بخار سے اٹھ رہا ہوں۔ کھڑکی کھول کر باہر جھانکا، تو نہ دھند، نہ کہرا، لندن کا آکاش نیلی مخملی ڈبیہ سا کھلا تھا، جس میں کسی نے ڈھیر سے تارے بھر دیئے تھے۔ مجھے لگا، جیسے یہ گرمیوں کی رات ہے اور میں بدیس میں نہ ہوکر اپنے گھر کی چھت پر لیٹا ہوں۔

اگلے دن کھل کر دھوپ نکلی تھی، میں زیادہ  دیر تک لایبریری میں نہیں بیٹھ سکا۔ دوپہر ہوتے ہی میں باہر نکل پڑا اور گھومتا ہوا اس ریستوراں میں چلا آیا، جہاں میں روز کھانا کھانے جایا کرتا تھا۔ وہ ایک سستا یہودی ریستوراں تھا۔ وہاں صرف ڈیڑھ شلنگ میں "کوشر” گوشت، دو روٹیاں اور بیئر کا ایک چھوٹا گلاس مل جاتا تھا۔ ریستوراں کی یہودی مالکن، جو  جنگ سے پہلے لتھونیا سے آئی تھیں، ایک اونچے سٹول پر بیٹھی رہتی۔ کاؤنٹر پر ایک کیش باکس رکھا رہتا اور اس کے نیچے ایک سفید سیامی بلی گاہکوں کو گھورتی رہتی۔ مجھے شائد وہ تھوڑا بہت پہچاننے لگی تھی، کیونکہ جتنی دیر میں کھاتا رہتا، اتنی دیر وہ اپنی ہری آنکھوں سے میری طرف ٹکر ٹکر تاکتی رہتی۔ غریبی اور ٹھنڈ اور اکیلےپن کے دنوں میں بلی کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے، یہ میں ان دنوں سوچا کرتا تھا۔ میں یہ بھی سوچتا تھا کہ کسی دن میں بھی ایسا ہی ہندستانی ریستوراں کھولوں گا اور ایک ساتھ تین بلیاں پالوں گا۔

ریسوتراں سے باہر آیا، تو دوبارہ لایبریری جانے کی خواہش مر گئی۔ لمبی مدت کے بعد اس دن گھر سے چٹھیاں اور اخبار آئے تھے۔ میں انہیں پارک کی کھلی دھوپ میں پڑھنا چاہتا تھا۔ مجھے ہلکا سا  تعجب ہوا، جب میری نظر پارک کے پھولوں پر گئی۔ وہ بہت چھوٹے پھول تھے، جو گھاس کے بیچ اپنا سر اٹھا کر کھڑے تھے۔ انھیں پھولوں کے بارے میں شائد جیسس نے کہا تھا، للیز آف د فیلڈ ، ایسے پھول، جو آنے والے دنوں کے بارے میں نہیں سوچتے۔

وہ گزری ہوئی گرمیوں کی یاد دلاتے تھے۔

میں گھاس کے بیچ ان پھولوں پر چلنے لگا۔

بہت اچھا لگا۔ آنے والے دنوں کی  پریشان کن فکریں دور ہونے لگیں۔ میں ہلکا سا ہو گیا۔ میں نے اپنے جوتے اتار دیئے اور گھاس پر ننگے پاؤں چلنے لگا۔ میں بینچ کے پاس پہنچا ہی تھا کہ مجھے اپنے پیچھے ایک چیخ سنائی دی۔ کوئی تیزی سے بھاگتا ہوا میری طرف آ رہا تھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا، تو وہی لڑکی دکھائی دی۔ وہ پیڑوں سے نکل کر باہر آئی اور میرا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔

"یو آر کاٹ،” اس نے ہنستے ہوئے کہا، "اب آپ جا نہیں سکتے۔”

میں سمجھا نہیں۔ جہاں کھڑا تھا، وہیں کھڑا رہا۔

"آپ پکڑے گئے۔۔۔” اس نے دوبارہ کہا، "آپ میری زمین پر کھڑے ہیں۔”

میں نے چاروں طرف دیکھا، گھاس پر پھول تھے، کنارے پر خالی بینچیں تھیں، بیچ میں تین ایورگرین پیڑ اور ایک موٹے تنے والا اوک کھڑا تھا۔ اس کی زمین کہیں دکھائی نہ دی۔

"مجھے معلوم نہیں تھا،” میں نے کہا اور مڑ کر واپس جانے لگا۔

"نہیں، نہیں، آپ جا نہیں سکتے،” بچی ایک دم میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، "وہ آپ کو جانے نہیں دیں گے۔”

"کون نہیں جانے دے گا؟” میں نے پوچھا۔

اس نے پیڑوں کی طرف اشارہ کیا، جو اب سچ مچ سپاہی جیسے دکھائی دے رہے تھے، لمبے ہٹے کٹے پہریدار۔ میں بنا جانے ان کے  دکھائی نہ دینے والے پھندے میں چلا آیا تھا۔

کچھ دیر تک ہم چپ چاپ آمنے سامنے کھڑے رہے۔ اس کی آنکھیں برابر مجھ پر ٹکی تھیں ۔۔ ایکسائٹیڈ اور چوکنی، محتاط  جب اس نے دیکھا، میرا بھاگنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، تو وہ کچھ ڈھیلی پڑ گئی۔

"آپ چھوٹنا چاہتے ہیں؟” اس نے کہا۔

"کیسے؟” میں نے اس کی سمت  دیکھا۔

"آپ کو انھیں کھانا دینا ہوگا۔ یہ بہت دن سے بھوکے ہیں۔” اس نے پیڑوں کی اوراشارہ  کیا۔ وہ ہوا میں سر ہلا رہے تھے۔

"کھانا میرے پاس نہیں ہے۔” میں نے کہا۔

"آپ چاہیں، تو لا سکتے ہیں۔” اس نے امید بندھائی، "یہ صرف پھول پتے کھاتے ہیں۔”

میرے لئے وہ مشکل نہیں تھا۔ وہ اکتوبر کے دن تھے اور پارک میں پھولوں کے علاوہ ڈھیروں پتے بکھرے رہا کرتے تھے۔ میں نیچے جھکا ہی تھا کہ اس نے لپک کر میرا ہاتھ روک لیا۔

"نہیں، نہیں ۔۔ یہاں سے نہیں۔ یہ میری زمین ہے۔ آپ کو وہاں جانا ہوگا۔” اس نے پارک کےفینس کی طرف دیکھا۔ وہاں مرجھائے پھولوں اور پتوں کا ڈھیر لگا تھا۔ میں وہاں جانے لگا کہ اس کی آواز سنائی دی۔

"ٹھہریے ۔۔ میں آپ کے ساتھ آتی ہوں، لیکن اگر آپ بچ کر بھاگیں گے تو یہیں مر جا ئیں گے۔” وہ رکی، میری طرف دیکھا، "آپ مرنا چاہتے ہیں؟”

میں نے جلدی سے سر ہلایا۔ وہ اتنا گرم اور اجلا دن تھا کہ مرنے کی میری کوئی خواہش نہیں تھی۔

ہم فینس تک گئے۔ میں نے رومال نکالا اور پھول پتیوں کو بٹورنے لگا۔ آزادی پانے کے لئے آدمی کیا کچھ نہیں کرتا۔

واپس لوٹتے ہوئے وہ چپ رہی۔ میں کنکھیوں سے اس کی طرف  دیکھ لیتا تھا۔ وہ کافی بیمار سی بچی جان پڑتی تھی۔ ان بچوں کی طرح گمبھیر، جو ہمیشہ اکیلے میں اپنے ساتھ کھیلتے ہیں۔ جب وہ چپ رہتی تھی، تو ہونٹ بچک جاتے تھے ۔۔ نیچے کا ہونٹ تھوڑا سا باہر نکل آتا، جس کے اوپر دبی ہوئی ناک بے سہارا سی دکھائی دیتی تھی۔ بال بہت چھوٹے تھے ۔۔ اور بہت کالے گول چھلوں میں دھلی ہوئی روئی کی طرح بنٹے ہوئے، جنہیں چھونے کو انجانے ہی ہاتھ آگے بڑھ جاتا تھا۔ لیکن وہ اپنی دوری میں ہر طرح کے لمس سے پرے جان پڑتی تھی۔

"اب آپ انھیں کھانا دے سکتے ہیں۔” اس نے کہا۔ وہ پیڑوں کے پاس آ کر رک گئی تھی۔

"کیا وہ مجھے چھوڑ دیں گے؟” میں کوئی گارنٹی، کوئی ضمانت پانا چاہتا تھا۔

اس بار وہ مسکرائی ۔۔ اور میں نے پہلی بار اس کے دانت دیکھے ۔۔ ایک دم سفید اور چمکیلے ۔۔ جیسے اکثر نیگرو لڑکیوں کے ہوتے ہیں۔

میں نے وہ پتیاں رومال سے باہر نکالیں، چار حصوں میں بانٹیں اور برابر برابر سے پیڑوں کے نیچے ڈال دیں۔

میں آزاد ہو گیا تھا ۔۔ کچھ خالی سا بھی۔

میں نے پھر جیب سے چٹھیاں اور اخبار نکالے اور اسی بینچ پر بیٹھ گیا، جہاں اس کا بیگ رکھا تھا۔ وہ کالے چمڑے کا بیگ تھا،  اندر  کتابیں ٹھونسی تھیں، اوپر کی جیب سے آدھا کترا ہوا سیب باہر جھانک رہا تھا۔

وہ اوجھل ہو گئی۔ میں نے چاروں طرف دھیان سے دیکھا، تو اس کی فر اک کا ایک کونہ جھاڑیوں سے باہر دکھائی دیا۔ وہ ایک خرگوش کی طرح دبک کر بیٹھی تھی ۔۔ میرے ہی جیسے، کسی بھولے بھٹکے مسافر پر جھپٹنے کے لئے۔ لیکن   بہت دیر تک پارک سے کوئی آدمی نہیں گزرا۔ ہوا چلتی تو پیڑوں کے نیچے جمع کی ہوئی پتیاں گھومنے لگتیں ۔۔ ایک بھنور کی طرح اور وہ اپنے شکار کو بھول کر ان کے پیچھے بھاگنے لگتی۔

کچھ دیر بعد وہ بینچ کے پاس آئی، ایک لمحے   کو مجھے دیکھا، پھر بستے کی جیب سے سیب نکالا۔ میں اخبار پڑھتا رہا اور اس کے دانتوں کے بیچ سیب کی کترن سنتا رہا۔

اچانک اس کی نظر میری چٹھیوں پر پڑی، جو بینچ پر رکھی تھیں۔ اس کے ہلتے ہوئے جبڑے رک گئے۔

"یہ آپ کی ہیں؟”

"ہاں۔” میں نے اس کی طرف دیکھا۔

"اور یہ؟”

اس نے لفافے پر لگے ٹکٹ کی سمت  انگلی اٹھائی۔ ٹکٹ پر ہاتھی کی تصویر تھی، جس کی سونڈ اوپر ہوا میں اٹھی تھی۔ وہ اپنے دانتوں کے بیچ ہنستا سا دکھائی دے رہا تھا۔

"تم کبھی زوٗ  گئی ہو؟” میں نے پوچھا۔

"ایک بار پاپا کے ساتھ گئی تھی۔ انہوں نے مجھے ایک پینی دی تھی اور ہاتھی نے اپنی سونڈ سے اس پینی کو میرے ہاتھ سے اٹھایا تھا۔”

"تم ڈریں نہیں؟”

"نہیں، کیوں؟” اس نے سیب کترتے ہوئے میری طرف دیکھا۔

"پاپا تمہارے ساتھ یہاں نہیں آتے؟”

"ایک بار آئے تھے۔ تین بار پکڑے گئے۔”

وہ دھیمے سے ہنسی ۔۔ جیسے میں وہاں نہ ہوں، جیسے کوئی اکیلے میں ہنستا ہے، جہاں ایک یاد پچاس تہیں کھولتی ہے۔

اسپتال کی گھڑی کا گجر سنائی دیا، تو ہم دونوں چونک گئے۔ لڑکی نے بینچ سے بستہ اٹھایا اور ان پیڑوں کے پاس پاس گئی، جو چپ کھڑے تھے۔ بچی ہر پیڑ کے پاس جاتی تھی، چھوتی تھی، کچھ کہتی تھی، جس کو صرف پیڑ سن پاتے تھے۔ آخر میں وہ میرے پاس آئی اور مجھ سے ہاتھ ملایا، جیسے میں بھی ان پیڑوں میں سے ایک ہوں۔

اس کی نگاہیں پیچھے مڑ گئیں۔ میں نے دیکھا، کون ہے؟ وہ عورت دکھائی دی۔ وہ نرس ونوالی سفید پوشاک ہری گھاس پر چمک رہی تھی۔ بچی انہیں دیکھتے ہی بھاگنے لگی۔ میں نے دھیان سے دیکھا ۔۔ یہ وہی عورت تھی، جسے میں لایبریری کی کھڑکی سے دیکھتا تھا۔ چھوٹا قد، کندھے پر تھیلا اور بچی جیسے ہی کالے گھنگھرالے بال۔ وہ مجھ سے کافی دور تھے، لیکن اس کی آواز سنائی دے جاتی تھی ۔۔ الگ الگالفاظ  نہیں، صرف دو آوازوں کی ایک آہٹ۔ وہ گھاس پر بیٹھ گئے تھے۔ بچی مجھے بھول گئی تھی۔

میں نے جوتے پہنے۔ اخبار اور چٹھیاں جیب میں رکھ دیں۔ ابھی کافی وقت ہے، میں نے سوچا۔ ایک دو گھنٹے لایبریری میں بتا سکتا ہوں۔ پارک کے جادو سے الگ، اپنے اکیلے کونے میں۔

میں بیچ پارک میں چلا آیا۔ پیڑوں کی پھنگیوں پر آگ سلگنے لگی تھی۔ پورا پارک سونے میں گل رہا تھا۔ بیچ میں پتوں کا دریا تھا، ہوا میں ہلتا ہوا۔

"کون۔۔ کون ہے؟”

کوئی مجھے بلا رہا تھا اور میں چلتا گیا، رکا نہیں۔ کبھی کبھی آدمی خود اپنے کو بلانے لگتا ہے، باہر سے اندر ۔۔ اور اندر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بلاوا اور دنوں کی طرح نہیں تھا۔ یہ رکا نہیں، اس لئے آخر  میں مجھے ہی رکنا پڑا۔ اس بار کوئی شک نہیں ہوا۔ سچ مچ کوئی چیخ رہا تھا،۔

"سٹاپ، سٹاپ!” میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، لڑکی کھڑی ہوکر دونوں ہاتھ ہوا میں ہلا رہی تھی۔

سچ! میں پھر پکڑا گیا تھا ۔۔ دوبارہ سے۔ بیوقوفوں کی طرح میں اس کی زمین پر چلا آیا تھا، چار پیڑوں سے گھرا ہوا۔ اس بار ماں اور بیٹی دونوں ہنس رہے تھے۔

وہ جھوٹی گرمیوں کے دن تھے۔ یہ دن زیادہ دیر نہیں ٹکیں گے، اسے سب جانتے تھے۔ لایبریری اجاڑ رہنے لگی۔ میرے پڑوسی، بوڑھے پینشن یافتہ لوگ، اب باہر دھوپ میں بیٹھنے لگے۔ آکاش اتنا نیلا دکھائی دیتا کہ لندن کی دھند بھی اسے میلا نہ کر پاتی۔ اس کے نیچے پارک ایک ہرے ٹاپو سا لیٹا رہتا۔

گریتا(یہ اس کا نام تھا) ہمیشہ وہیں دکھائی دیتی تھی۔ کبھی دکھائی نہ دیتی، تو بھی بینچ پر اس کا بستہ دیکھ کر پتہ چل جاتا کہ وہ یہیں کہیں ہے، کسی کونے میں دبکی ہے۔ میں بچتا ہوا آتا، پیڑوں سے، جھاڑیوں سے، گھاس کے پھولوں سے۔ ہر روز وہ کہیں نہ کہیں، ایک دکھائی نہ دینے بھیانک پھندا چھوڑ جاتی اور جب پوری احتیاط کے باوجود میرا پاؤں اس میں پھنس جاتا، تو وہ بدحواس چیختی ہوئی میرے سامنے آ کھڑی ہوتی۔ میں پکڑ لیا جاتا۔ چھوڑ دیا جاتا۔ پھر پکڑ لیا جاتا۔

یہ کھیل نہیں تھا۔ یہ ایک پوری دنیا تھی۔ اس دنیا سے میرا کوئی واسطہ نہیں تھا ۔۔ حالانکہ میں کبھی کبھی اس میں بلا لیا جاتا تھا۔ ڈرامے میں ایک ایکسٹرا کی طرح۔ مجھے ہمیشہ تیار رہنا پڑتا تھا، کیونکہ وہ مجھے کسی بھی وقت بلا سکتی تھی۔ ایک دوپہر ہم دونوں بینچ پر بیٹھے تھے، اچانک وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"ہلو مسیز ٹامس۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا، "آج آپ بہت دن بعد دکھائی دیں ۔۔ یہ میرے انڈین دوست ہیں، ان سے ملیے۔”

میں حیران  اسے دیکھتا رہا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔

"آپ بیٹھے ہیں؟ ان سے ہاتھ ملائیے۔” اس نے مجھے کچھ جھڑکتے ہوئے کہا۔

میں کھڑا ہو گیا، خالی ہوا سے ہاتھ ملایا۔ گریتا کھسک کر میرے پاس بیٹھ گئی، تاکہ کونے میں مسیز ٹامس بیٹھ سکے۔

"آپ بازار جا رہی تھیں؟” اس نے خالی جگہ کو دیکھتے ہوئے کہا، "میں آپ کا تھیلا دیکھ کر سمجھ گئیں۔ نہیں، معاف کیجئے، میں آپ کے ساتھ نہیں آ سکتی۔ مجھے بہت کام کرنا ہے۔ انھیں دیکھیئے(اس نے پیڑوں کی طرف اشارہ کیا)، یہ صبح سے بھوکے ہیں، میں نے ابھی تک ان کے لئے کھانا بھی نہیں بنایا ۔۔ آپ چائے پئیں گی یا کافی؟ اوہ ۔۔ آپ گھر سے پی کر آئی ہیں۔ کیا کہا ۔۔ میں آپ کے گھر کیوں نہیں آتی؟ آج کل وقت کہاں ملتا ہے۔ صبح اسپتال جانا پڑتا ہے، دوپہر کو بچوں کے ساتھ ۔۔ آپ تو جانتی ہے۔ میں اتوار کو آؤں گی۔ آپ جا رہی ہیں ”

اس نے کھڑے ہوکر دوبارہ ہاتھ ملایا۔ مسیز ٹامس شائد جلدی میں تھیں۔ وداع ہوتے وقت انہوں نے مجھے دیکھا نہیں۔ میں بینچ پر ہی بیٹھا رہا۔

کچھ دیر تک ہم چپ چاپ بیٹھے رہے۔ پھر اچانک وہ چونک پڑی۔

"آپ کچھ سن رہے ہیں؟” اس نے میری کہنی کو جھنجھوڑا۔

"کچھ بھی نہیں۔” میں نے کہا۔

"فون کی گھنٹی ۔۔ کتنی دیر سے بج رہی ہے۔ ذرا دیکھیئے، کون ہے؟”

میں اٹھ کر بینچ کے پیچھے گیا، نیچے گھاس سے ایک ٹوٹی ٹہنی اٹھائی اور زور سے کہا، "ہلو!”

"کون ہے؟” اس نے کچھ بے صبری سے پوچھا۔

"مسیز ٹامس۔” میں نے کہا۔

"اوہ ۔۔ پھر مسیز ٹامس۔” اس نے ایک تھکی سی جمائی لی، دھیمے قدموں سے پاس آئی، میرے ہاتھ سے ٹہنی کھینچ کر کہا، "ہلو، مسیجزٹامس ۔۔ آپ بازار سے لوٹ آئیں؟ کیا کیا لائیں؟ میٹ بالس، فش فنگرس، آلو کے چپس؟” اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جا رہی تھی۔ وہ شائد چن چن کر ان سب چیزوں کا نام لے رہی تھی، جو اسے سب سےبہت  اچھی لگتی تھیں۔

پھر وہ چپ ہو گئی ۔۔ جیسے مسیجزٹامس نے کوئی نا پسندیدہ  مشورہ  اس کے سامنے رکھا ہو۔ "ٹھیک ہے مسیز ٹامس، میں ابھی آتی ہوں ۔۔ نہیں، مجھے دیر نہیں لگےگی۔ میں ابھی بس اسٹیشن کی طرف جا رہی ہوں ۔۔ گڈ بائی، مسیز ٹامس!”

اس نے چمکتی آنکھوں سے میریطرف  دیکھا۔

"مسیجزٹامس نے مجھے ڈنر پر بلایا ہے ۔۔ آپ کیا کریں گے؟”

"میں سوؤں گا۔”

"پہلے انھیں کچھ کھلا دینا۔۔۔” نہیں تو یہ روئیں گے۔” اس نے پیڑوں کی طرف  اشارہ کیا، جو ٹھہری ہوا میں بلا جنبش کھڑے تھے۔

وہ تیار ہونے لگی۔ اپنے بکھرے بالوں کو سنوارا، پاؤڈر لگانے کا بہانہ کیا ۔۔ ہتھیلی کا آئینہ بنا کر اس میں جھانکا ۔۔ دھوپ اور پیڑوں کے سائے میں بیچ وہ سچ مچ حسین لگ رہی تھی۔

جاتےوقت اس نے میری طرف ہاتھ ہلایا۔ میں اسے دیکھتا رہا، جب تک وہ پیڑوں اور جھاڑیوں کے گھنے جھرمٹ میں غائب نہیں ہو گئی۔

ایسا ہر روز ہونے لگا۔ وہ مسیز ٹامس سے ملنے چلی جاتی اور میں بینچ پر لیٹا رہتا۔ مجھے تنہائی نہیں محسوس ہوتی تھی۔ پارک کی عجیب، نظر نہ آنے والی آوازیں مجھے ہر دم گھیرے رہتیں۔ میں ایک دنیا سے نکل کر دوسری دنیا میں چلا آتا۔ وہ پارک کے دور دور کے کونوں میں بھٹکتی پھرتی۔ میں لایبریری کی کتابوں کا سرہانہ بنا کر بینچ پر لیٹ جاتا۔ لندن کے بادلوں کو دیکھتا ۔۔ وہ گھومتے رہتے اور جب کبھی کوئی سفید ٹکڑا سورج پر اٹک جاتا، تب پارک میں اندھیرا سا گھر جاتا۔

ایسے ہی ایک دن جب میں بینچ پر لیٹا تھا، مجھے اپنے نزدیک ایک عجیب سی کھڑکھڑاہٹ سنائی دیں۔ مجھے لگا، میں سپنے میں مسیز ٹامس کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ میرے پاس ۔۔ بالکل پاس ۔۔ آ کر کھڑی ہو گئی ہے، مجھے بلا رہی ہے۔

میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

سامنے بچی کی ماں کھڑی تھیں۔ انہوں نے گریتا کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور کچھ  جھجھک سے مجھے دیکھ رہی تھیں۔

"معاف کیجئے۔” انہوں نے جھجکتے ہوئے کہا، "آپ سو تو نہیں رہے تھے؟”

میں کپڑے جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔

"آج آپ جلدی آ گئیں؟” میں نے کہا۔ ان کی سفید پوشاک، کالی بیلٹ اور بالوں پر بندھے سکارف کو دیکھ کر میری آنکھیں چندھیا سی گئی۔ لگتا تھا، وہ اسپتال سے سیدھی یہاں چلی آ رہی تھیں۔

"ہاں، میں جلدی آ گئی،” وہ مسکرانے لگی، "سنیچر کو کام زیادہ نہیں رہتا ۔۔ میں دوپہر کو ہی آ جاتی ہوں۔”

وہ ویسٹ انڈیز کے موٹے تلفظ کے ساتھ بول رہی تھیں جس میں ہر لفظ کا آخری حصہ غبارے سا اڑتا دکھائی دیتا تھا۔

"میں آپ سے کہنے آئی تھی آج آپ ہمارےساتھ چائے پینے چلئے گا، ہم لوگ پاس میں ہی رہتے ہیں۔”

ان کے لہجے  میں کوئی تذبذب یا دکھاوا نہیں تھا، جیسے وہ مجھے مدت سے جانتی ہوں۔

میں تیار ہو گیا۔ میں عرصے سے کسی کے گھر نہیں گیا تھا۔ اپنے بیڈسٹر سے لایبریری اور پارک تک چکر لگاتا تھا۔ میں لگ بھگ بھول گیا تھا کہ اس کے پرے ایک اور دنیا ہے ۔۔ جہاں گریتا رہتی ہوگی، کھاتی ہوگی، سوتی ہوگی۔

وہ آگے آگے چل رہی تھیں۔ کبھی کبھی پیچھے مڑ کر دیکھ لیتی تھیں کہ کہیں ہم بہت دور تو نہیں چھوٹ گئے۔ اسے شائد کچھ انوکھا سا لگ رہا تھا کہ میں ان کے گھر آ رہا ہوں۔ عجیب مجھے بھی لگ رہا تھا ۔۔ ان کے گھر آنا نہیں، بلکہ اس کی ماں کے ساتھ چلنا۔ وہ عمر میں کافی چھوٹی جان پڑتی تھیں، شائد اپنے قد کے باعث۔ میرے ساتھ چلتے ہوئے وہ کچھ اتنی چھوٹی دکھائی دے رہی تھیں کہ لگتا تھا کہ میں کسی دوسری گریتا کے ساتھ چل رہا ہوں۔

راستے بھر وہ چپ رہیں۔ صرف جب ان کا گھر سامنے آیا، تو وہ ٹھٹھک گئیں۔

"آپ بھی تو کہیں پاس رہتے ہیں؟” انہوں نے پوچھا۔

"برائٹ سٹریٹ میں،” میں نے کہا، "ٹیوب اسٹیشن کے بالکل سامنے۔”

"آپ شائد حال میں ہی آئے ہیں؟” انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، "اس علاقے میں بہت کم انڈین رہتے ہیں۔”

وہ نیچے اترنے لگیں۔ ان کا گھر بیسمینٹ میں تھا اور ہمیں سیڑھیاں اتر کر نیچے جانا پڑا تھا۔ بچی دروازہ کھول کر کھڑی تھی۔ کمرے میں دن کےوقت  بھی اندھیرا تھا۔ بتی جلائی، تو تین چار کرسیاں دکھائی دیں۔ بیچ میں ایک میز تھی۔ ضرورت سے زیادہ لمبی اور ننگی ۔۔ جیسے اس پر پنگ پانگ کھیلی جاتی ہے۔ دیوار سےلگا  صوفہ تھا، جس کے سرہانے ایک رضائی لپٹی رکھی تھی۔ لگتا تھا، وہ کمرہ بہت سے کاموں کے کام آتا تھا، جس میں کھانا، سونا اور موقع پڑنے پر ۔۔ مہمان نوازی بھی شامل تھی۔

"آپ بیٹھیئے، میں ابھی چائے بنا کر لاتی ہوں۔”

وہ پردہ اٹھا کراندر   چلی گئیں۔ میں اور گریتا کمرے میں اکیلے بیٹھے رہے۔ ہم دونوں پارک کے پت جھڑی اجالے میں ایک دوسرے کو پہچاننے لگے تھے۔ پر کمرے کے اندر نہ کوئی موسم تھا، نہ کوئی مایا۔ وہ اچانک ایک بہت کم عمروالی بچی بن گئی تھی، جس  کا جادو اور دہشت دونوں ختم ہوگئے تھے۔

"تم یہاں سوتی ہو؟” میں نےصوفے کی طرف دیکھا۔

"نہیں، یہاں نہیں،” اس نے سر ہلایا، "میرا کمرہ اندر ہے ۔۔ آپ دیکھیں گے؟”

کچن سے آگے ایک کوٹھری تھی، جو شائد بہت پہلے گودام رہا ہوگا۔ وہاں ایک نیلی چق لٹک رہی تھی۔ اس نے چق اٹھائں اور دبے قدموں سے اندر چلی آئی۔

"دھیرے سے آئیے ۔۔ وہ سو رہا ہے۔”

"کون؟”

"ہش!” اس نے اپنا ہاتھ منھ پر رکھ دیا۔

میں نے سوچا،اندر  ہے۔ پر اندر بالکل سونا تھا۔ کمرے کی ہری دیواریں تھیں، جن پر جانوروں کی تصویریں چپکی تھیں۔ کونے میں اس کی کھاٹ تھی، جو کھٹولا سی دکھائی دیتی تھی! تکئے پر تھگلیوں میں لپٹا ایک بھالو لیٹا تھا، گدڑی کے لال جیسا۔

"وہ سو رہا ہے۔” اس نے پھسپھساتے ہوئے کہا۔

"اور تم؟” میں نے کہا، "تم یہاں نہیں سوتیں؟”

"یہاں سوتی ہوں۔ جب پاپا یہاں تھے، تو وہ دوسرے پلنگ پر سوتے تھے۔ ماں نے اب اس پلنگ کو باہر رکھوا دیا ہے۔”

"کہاں رہتے ہیں وہ؟” اس بار میری آواز بھی دھیمی ہو گئی، بھالو کے ڈر سے نہیں، اپنے اس سے، جو کئی دنوں سے میرےاندر  پل رہا تھا۔

"اپنے گھر رہتے ہیں ۔۔ اور کہاں؟”

اس نے کچھ تعجب سے مجھے دیکھا۔ اسے لگا، میں پوری طرح مطمئن  نہیں ہوا ہوں۔ وہ اپنی میز کے پاس گئی، جہاں اس کی سکول کی کتابیں رکھی تھیں۔ دراز کھولا اور اس کے اندر سے چٹھیوں کا پلندہ باہر نکالا۔ پلندے پر ریشم کا لال فیتہ بندھا تھا، مانو لفافے پر لگا ٹکٹ دکھایا۔

"وہ یہاں رہتے ہیں۔” اس نے کہا۔

مجھے یاد آیا، وہ میری نقل کر رہی ہے ۔۔ بہت پہلے پارک میں میں نے اسے اپنے دیش کی چٹھی دکھائی تھی۔

بیٹھک سے اس کی ماں ہمیں بلا رہی تھی۔ آواز سنتے ہی وہ کمرے سے باہر چلی گئی۔ میں ایک پل وہیں ٹھٹھکا رہا۔ کھٹولے پر بھالو سو رہا تھا۔ دیواروں پر جانوروں کی آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں۔ بستر کے پاس ہی ایک چھوٹی سی بیسنی تھی، جس پر اس کا ٹوتھ برش، صابن اور کنگھا رکھے تھے۔

بالکل میرے بیڈ سیٹ کی طرح ۔۔ میں نے سوچا۔ لیکن مجھ سے بہت الگ۔ میں اپنا کمرہ چھوڑکر کہیں بھی جا سکتا تھا، اس کا کمرہ اپنی چیزوں میں مطمئن سا جان پڑتا تھا۔

میز پر چٹھیوں کا پلندہ پڑا تھا، ریشمی ڈور میں بندھا ہوا، جس کو جلدی میں وہ اکیلا چھوڑ گئی تھی۔

"کمرہ دیکھ لیا آپ نے؟” انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"یہاں جو بھی آتا ہے، سب سے پہلے اسے اپنا کمرہ دکھاتی ہے۔” وہ کپڑے بدل کر آئی تھیں۔ لال چھینٹ کی سکرٹ اور کھلا کھلا بھورے رنگ کا کارڈیگن۔ کمرے میں سستے سینٹ کی خوشبو پھیلی تھیں۔

"آپ چائے نہیں ۔۔ دعوت دے رہی ہیں۔” میں نے میز پر رکھے سامان کو دیکھ کر کہا۔ ٹوسٹ، جیم، مکھن، چیز ۔۔ پتہ نہیں، اتنی ساری چیزیں میں نے پہلے کب دیکھی تھیں۔

وہ پریشان لگتی تھیں۔ ہنستی تھیں، لیکن پریشانی اپنی جگہ قائم رہتی تھی۔ پتہ نہیں، بچی کہاں تھی؟ وہ اسے چیختے ہوئے بلا رہی تھیں اور چائے ٹھنڈی ہو رہی تھی۔

وہ سر پکڑکر بیٹھی رہیں۔ پھر یاد آیا، میں بھی ہوں۔ "آپ شروع کیجئے ۔۔ وہ باغ میں بیٹھی ہوگی۔”

"آپ کا اپنا باغ ہے؟” میں نے پوچھا۔

"بہت چھوٹا سا، کچن کے پیچھے۔ جب ہم یہاں آئے تھے، اجاڑ پڑا تھا۔ میرے شووہر نے اسے صاف کیا۔ اب تو تھوڑی بہت سبزی بھی نکل آتی ہے۔”

"آپ کے شوہر یہاں نہیں رہتے؟”

"انہیں یہاں کام نہیں ملا ۔۔ دن بھر پارک میں گھومتے رہتے تھے۔ وہی عادت گریتا کو پڑی ہے۔”

ان کی آواز میں ہلکی سی تھکان تھی۔ ۔۔ لیکن ایسی تھکان جو پولی دھول سی ہر چیز پر بیٹھ جاتی ہے۔

"پارک میں تو میں گھومتا ہوں۔” میں نے انہیں ہلکا کرنا چاہا۔ وہ ہو بھی گئیں۔ ہنسنے لگیں۔

"آپ کی بات الگ ہے۔” انہوں نے ڈوبی آواز   میں کہا، "آپ اکیلے ہیں۔ لیکن لندن میں اگر فیملی ساتھ ہو، تو بنا نوکری کے نہیں رہا جا سکتا۔”

وہ میز کی چیزیں صاف کرنے لگیں۔ برتنوں کو جمع کرکے میں کچن میں لے گیا۔ سنک کے آگے کھڑکی تھی، جہاں سے ان کا باغ دکھائی دیتا تھا۔ بیچ میں ایک ویپنگ ولو کھڑا تھا، جس کی شاخیں ایک الٹی چھتری کی سلاخوں کی طرح جھول رہی تھی۔

پیچھے مڑا تو وہ دکھائی دیں۔ دروازے پر تولیہ لے کر کھڑی تھی۔

"کیا دیکھ رہے ہیں؟”

"آپ کے باغ کو۔۔ یہ تو کوئی بہت چھوٹا نہیں ہے۔”

"ہیں نہیں ۔۔ پر اس پیڑ نے ساری جگہ گھیر رکھی ہے۔ میں اسے کٹوانا چاہتی تھی، لیکن وہ اپنی ضد پر اڑ گئی ۔۔ جس دن پیڑ کاٹنا تھا، وہ رات بھر روتی رہی۔”

وہ چپ ہو گئیں ۔۔ جیسے اس رات کو یاد کرنا اپنے میں ایک رونا ہو۔

"کیا کہتی تھی؟”

"کہتی کیا تھی ۔۔ اپنی ضد پر اڑی تھی۔ بہت پہلے کبھی اس کے پاپا نے کہا ہوگا کہ پیڑ کے نیچے سمر ہاؤس بنائیں گے ۔۔ اب آپ بتائیے، یہاں خود رہنے کو جگہ ہے نہیں، باغ میں گڑیوں کا سمر ہاؤس بنےگا؟”

"سمر ہاؤس؟”

"ہاں، سمر ہاؤس ۔۔ جہاں گریتا اپنے بھالو کے ساتھ رہے گی۔”

وہ ہنسنے لگیں ۔۔ ایک اداس سی ہنسی جو ایک خالی جگہ سے اٹھ کر دوسری خالی جگہ پر ختم ہو جاتی ہے ۔۔ اور بیچ کی جگہ کو بھی خالی چھوڑ جاتی ہے۔

میرے جانے کا وقت  ہو گیا تھا ۔۔ لیکن گریتا کہیں دکھائی نہیں دی۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلے آئے۔ لندن کی میلی دھوپ پڑوس کی چمنیوں پر رینگ رہی تھی۔

جبرخصت  لینے کے لئے میں نے ہاتھ آگے بڑھایا، تو انہوں نے کچھ لجاتے ہوئے کہا، "آپ کل خالی ہیں؟”

"کہئے ۔۔ میں تقریباً ہر روز ہی خالی رہتا ہوں۔”

"کل اتوار ہے۔۔۔” انہوں نے کہا، "گریتا کی چھٹی ہے، پر میری اسپتال میں ڈیوٹی ہے، کیا میں اسے آپ کے پاس چھوڑ سکتی ہوں؟”

"کتنے بجے آنا ہوگا؟”

"نہیں، آپ آنے کی تکلیف نہ کریں۔ اسپتال جاتے ہوئے میں اسے لایبریری کے سامنے چھوڑ دوں گی۔ شام کو لوٹتے ہوئے لے لوں گی۔”

میں نے حامی بھری اور سڑک پر چلا آیا۔ کچھ دور چل کر جیب سے پیسے نکالے اور انہیں گننے لگا۔ آج کھانے کے پیسے بچ جا ئیں گے، یہ سوچ کر خوشی ہوئی۔ میں نے بچی ہوئی ریزگاری کو مٹھی میں دبایا اور گھر کی طرف چلنے لگا۔

میں لایبریری کے دروازے پر کھڑا تھا۔

انہیں دیر ہو گئی تھی ۔۔ شائد سردی کے باعث۔ دھوپ کہیں نہ تھی۔ لندن کی عمارتوں پر اداس سی روشنی پھیلی تھی ۔۔ پیلی اور زرد، جس میں وہ اور بھی غریب اور دکھی دکھائی دیتی تھیں۔

مجھے ان کی سفید پوشاک دکھائی دی۔ دونوں پارک سے گزرتے ہوئے آ رہے تھے۔ آگے آگے وہ اور پیچھے بھاگتی ہوئی گریتا۔ جب انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو ہوا میں ہاتھ ہلایا، بچی کو جلدی سے چوما اور تیز قدموں سے اسپتال کی طرف مڑ گئیں۔

لیکن بچی میں کوئی جلدی نہ تھی۔ وہ دھیمے قدموں سے میرے پاس آئی۔ سردی میں ناک لال سرخ ہو گئی تھی۔ اس نے پوری آستینوں والا براؤن سویٹر پہن رکھا تھا ۔۔ سر پر وہی پرانی کیپ تھی، جسے میں پارک میں دیکھا کرتا تھا۔

وہ نڈھال سی کھڑی تھی۔

"چلو گی؟” میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔

اس نے چپ چاپ سر ہلا دیا۔ مجھے ہلکی سی نا امیدی  ہوئی۔ میں نے سوچا تھا، وہ پوچھے گی، کہاں ۔۔ اور تب میں اسے حیرت میں ڈال دوں گا۔ پر اس نے پوچھا کچھ بھی نہیں اور ہم سڑک پار کرنے لگے۔

جب ہم پارک کو چھوڑکر آگے بڑھے تو ایک بار اس نے سوالیہ نگاہوں سے میری طرف  دیکھا ۔۔ جیسے وہ اپنے کسی محفوظ گھیرے سے باہر جا رہی ہو۔ پر میں چپ رہا ۔۔ اور اس نے کچھ پوچھا نہیں۔ تب مجھے پہلی بار لگا کہ جب بچے ماں باپ کے ساتھ نہیں ہوتے تو سب سوالوں کو پڑیا بنا کر کسی اندھیرے گڈھے میں پھینک دیتے ہیں۔

ٹیوب میں بیٹھ کر وہ کچھ مطمئن نظر آئی۔ اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور کھڑکی کے باہر دیکھنے لگی۔

"کیا ابھی سے رات ہو گئی؟” اس نے پوچھا۔

"رات کیسی؟”

"دیکھو ۔۔ باہر کتنا اندھیرا ہے۔”

"ہم زمین کے نیچے ہیں۔” میں نے کہا۔

وہ کچھ سوچنے لگی، پھر دھیرے سے کہا، "نیچے رات ہے، اوپر دن۔”

ہم دونوں ہنسنے لگے۔ میں نے پہلے کبھی ایسا نہیں سوچا تھا۔

دھیرے دھیرے روشنی نظر آنے لگی۔ اوپر آکاش کا ایک ٹکڑا دکھائی دیا اور پھر اتھاہ سفیدی میں ڈوبا دن سرنگ کے باہر نکل آیا۔

ٹیوب اسٹیشن کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ رک گئی۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف  دیکھا۔

"رک کیوں گئی!”

"مجھے باتھ روم جانا ہے۔”

مجھے دہشت ہوئی۔ ٹائلیٹ نیچے تھا اور وہ اس طرح اپنے کو روکے بہت دور تک نہیں جا سکتی تھی۔ میں نے اسے گود میں اٹھا لیا اور الٹے پاؤں سیڑھیوں پر بھاگنے لگا۔ گلیارے کے دوسرے سرے پر ٹائلیٹ دکھائی دیا ۔۔ مردوں کے لئے ۔۔ میں جلدی سے اسے اندر لے گیا۔ دروازہ بند کرکے باہر آیا، تو لگا جیسے وہ نہیں، میں آزاد ہو رہا ہوں۔

وہ باہر آئی تو پریشان سی نظر آئی۔ "اب کیا بات ہے؟”

"چین بہت اونچی ہے۔” اس نے کہا۔

"تم ٹھہرو، میں کھینچ آتا ہوں۔”

اس نے میرا کوٹ پکڑ لیا۔ وہ خود کھینچنا چاہتی تھی۔ اس کے ساتھ میں اندر گیا، اسے دوبارہ گود میں اٹھایا اور تب تک اٹھاتا گیا، جب تک اس کا ہاتھ چین تک نہیں پہنچ گیا۔ ہم دونوں خوشی اور تعجب  سے ٹائلیٹ میں پانی کو بہتا دیکھ رہے، جیسے یہ معجزہ زندگی میں پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔

ہم سیڑھیاں اترنے لگے۔ اوپر آئے تو اس نے کس کر میرا ہاتھ بھینچ لیا۔ ٹرفالگر سکوئیر آگے تھا، چاروں طرف بھیڑ، اجالا، شور۔ میں اسے مزید حیرت میں ڈالنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ ڈر گئی تھی۔ وہ اتنی ڈر گئی تھی کہ میری تمنا ہوئی کہ میں اسے دوبارہ نیچے لے جاؤں ۔۔ ٹیوب اسٹیشن میں جہاں زمین کا اپنا محفوظ اندھیرا تھا۔

لیکن جلدی ہی ڈر بہہ گیا اور کچھ دیر بعد اس نے میرا ہاتھ بھی چھوڑ دیا۔ وہ سکوئیر کے انوکھے اجالے میں کھو گئی تھی۔ وہ ان شیروں کے نیچے چلی آئی تھی، جو کالے پتھروں پر اپنے پنجے کھول کر بھیڑ کو دیکھ رہے تھے۔ بہت سے بچے کبوتروں کو دانا ڈال رہے تھے۔

پروں کی چھاؤں ایک بادل سی دکھائی دیتی تھی، جو ہوا میں کبھی ادھر جاتاتھا، کبھی ادھر ۔۔ سر کے اوپر سے نکل جاتا تھا اور کانوں میں صرف ایک گرم، سنسناتی پھڑپھڑاہٹ باقی رہ جاتی تھی۔

وہ سن رہی تھی۔ وہ مجھے بھول گئی تھی۔

میں اس کی آنکھ بچا کر سکوئیر کے بیچ چلا آیا۔ وہاں ایک لال لکڑی کا کیبن تھا، جہاں دانے بکتے تھے۔ ایک کپ دانے کے دام ۔۔ چار پینس۔ میں نے ایک کپ خریدا اور بھیڑ میں اسے ڈھونڈنے لگا۔

بچے بہت تھے ۔۔ کبوتروں سے گھرے ہوئے۔ مگر وہ جہاں تھی، وہیں کھڑی تھی۔ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلی تھی۔ میں اس کے پیچھے گیا اور دانوں کا کپ اس کے آگے کر دیا۔

وہ مڑی اور میری طرف دیکھا۔ بچے احسان نہیں مانتے، صرف اپنا لیتے ہیں۔ ایک تیسری آنکھ کھل جاتی ہے، جو سب خاموشیوں کو کاٹ دیتی ہے۔ اس نے کپ کو لگ بھگ میرے ہاتھوں سے کھینچتے ہوئے کہا، "کیا وہ آئیں گے؟”

"ضرور آئیں گے پہلے تمہیں ایک ایک دانا ڈالنا ہوگا ۔۔ انہیں پاس بلانے کے لئے، پھر۔۔۔”

اس نے میری بات نہیں سنی۔ وہ اس طرف بھاگتی گئی، جہاں اکادکا کبوتر بھٹک رہے تھے۔ شروع شروع میں اس نے ڈرتے ہوئے ہتھیلی آگے بڑھائی۔ کبوتر اس کے پاس آتے ہوئے جھجھک رہے تھے، جیسے اس کے ڈر نے انہیں بھی چھو لیا ہو۔لیکن  زیادہ دیر وہ اپنا لالچ نہیں روک سکے۔ نخرے چھوڑکر پاس آئے ۔۔ ادھر ادھر دیکھنے کا بہانہ کیا اور پھر کھٹا کھٹ اس کی ہتھیلی سے دانے چگنے لگے۔ وہ اب اپنی فر اک پھیلا کر بیٹھ گئی تھی۔ ایک ہاتھ میں دونا دوسرے ہاتھ میں دانے۔ میں اب اسے دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ پروں کی سلیٹی، پھڑپھڑاتی چھت نے اسے اپنے میں ڈھک لیا تھا۔

میں بینچ پر بیٹھ گیا۔ فواروں کو دیکھنے لگا، جن کے چھینٹے اڑتے ہوئے گھٹنوں تک آ جاتے تھے۔ بادل اتنے نیچے جھک آئے تھے کہ نیلسن کا سر صرف ایک کالے دھبے سا دکھائی دیتا تھا۔

دن بیت رہا تھا۔

کچھ ہی دیر میں میں نے دیکھا، وہ سامنے کھڑی ہے۔

"میں ایک کپ اور لوں گی۔” اس نے کہا۔

"اب نہیں۔۔۔” میں نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا، "کافی دیر ہو گئی ہے۔ اب چائے پئیں گے ۔۔ اور تم آئس کریم لوگی۔”

اس نے سر ہلایا۔

"میں ایک کپ اور لوں گی۔”

اسلہجے  میں ضد نہیں تھی۔ کچھ پل  پہلے جو پہچان آئی تھی، وہ مانو مجھ سے نہیں، اس سے منت کر رہی ہو۔

میں نے اس کے ہاتھ سے خالی کپ لیا اور دوکان کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں دوکان کے پیچھے مڑ گیا۔ وہاں بھیڑ تھی اور اس کی آنکھیں مجھ تک نہیں پہنچ سکتی تھیں۔ کونے میں سمٹ کر میں نے جیب سے پیسے نکالے۔ چائے اور آئس کریم کے پیسے ایک طرف کئے، ٹیوب کے کرائے کے پیسے دوسری طرف ۔۔ باقی صرف دو پینس بچے تھے۔ میں نے چائے کے کچھ پینس اس میں ملائے اور دوکان کے آگے لگی کیو میں شامل ہو گیا۔

اس بار جب میں نے اسے کپ دیا، تو اس نے مجھے دیکھا بھی نہیں۔ وہ فوراً  بھاگتی ہوئی اس جگہ چلی گئی جہاں سب سے زیادہ کبوتر اکٹھا تھے۔ وہ آس پاس اڑتے ہوئے کبھی ہاتھوں، اس کے کندھوں، اس کے سر پر بیٹھ جاتے تھے۔ وہ ہنستی جا رہی تھی، پیلا چہرہ ایک بخار زدہ کھنچاؤ میں بگڑ سا گیا تھا اور ہاتھ ۔۔ وہ ہاتھ، جو مجھے ہمیشہ اتنےبے  جان محسوس ہوتے تھے ۔۔ اب ایک عجیب  سی بےچینی میں کبھی کھلتے تھے، کبھی بند ہوتے تھے جیسے وہ کسی بھی  لمحے کبوتروں کی پھڑپھڑاتی دھڑکنوں کو دبوچ لیں گے۔ اسے پتہ بھی نہ چلا، کب دانوں کی کٹوری خالی ہو گئی ۔۔ کچھ دیر تک ہوا میں ہتھیلی کھولے بیٹھی رہی۔ اچانک اسے احساس ہوا، کبوتر اسے چھوڑکر دوسرے بچوں کے آس پاس منڈرانے لگے ہیں۔ وہ کھڑی ہو گئی اور بنا کہیں دیکھے چپ چاپ میرے پاس چلی آئی۔

وہ ایک ٹک مجھے دیکھ رہی تھی۔ مجھے شک ہوا، وہ مجھ پر شک کر رہی ہے۔ میں بینچ سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"اب چلیں گے۔” میں نے کہا۔

"میں ایک کپ اور لوں گی۔”

"اب اور نہیں ۔۔ تم دو لے چکی ہو۔” میں نے غصے میں کہا، "تمہیں معلوم ہے، ہمارے پاس کتنے پیسے بچے ہیں؟”

"صرف ایک اور ۔۔ اس کے بعد ہم لوٹ جا ئیں گے۔”

لوگ ہمیں دیکھنے لگے تھے۔ میں بحث کر رہا تھا ۔۔ دانوں کی ایک کٹوری کے لئے۔ میں نے اسے اٹھا کر بینچ پر بٹھا دیا، "گریتا، تم بہت ضدی ہو۔ اب تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔”

اس نے ٹھنڈی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔

"آپ برے آدمی ہیں۔ میں آپ کے ساتھ کبھی نہیں کھیلوں گی۔” مجھے لگا جیسے اس نے میرا مقابلہ کسی نا دیدہ شخص سے کیا ہو۔ میں خالی سا بیٹھا رہا۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اپنے لئے کوئی امید نہیں رہتی۔ صرف گھور حیرانی ہونے لگتی ہے، اپنے ہونے پر، اپنے ہونے پر ہی حیرانی ہونے لگتی ہے۔ پھر مجھے وہ آواز سنائی دی، جو آج بھی مجھے اکیلے میں سنائی دے جاتی ہیں اور منھ موڑ لیتا ہوں۔

وہ رو رہی تھی۔ ہاتھ میں دانوں کا خالی کپ تھا، اور اس کی کیپ کھسک کر ماتھے پر چلی آئی تھی۔ وہ خاموشی کا رونا تھا۔ الگ الگ سانسوں کے بیچ بندھا ہوا۔ مجھ سے وہ نہیں سہا گیا۔ میں نے اس کے ہاتھ سے کپ لیا اور لائن میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس بار پیسوں کو گننا بھی یاد نہیں آیا۔ میں صرف اس کا رونا سن رہا تھا، حالانکہ وہ مجھ سے بہت دور تھی، اور بیچ میں کبوتروں کی پھڑپھڑاہٹ اور بچوں کی چیخوں کی وجہ سے  کچھ بھی سنائی نہیں دیتا تھا۔ پر ان سب کے پرے میرے اندر کا سناٹا تھا جس کے بیچ اس کی رونہانسی سانسیں تھیں ۔۔ اور وہ میں بے انتہا دوری سے سن سکتا تھا۔

لیکن اس بار پہلے جیسا نہیں ہوا۔ بہت دیر تک کوئی کبوتر اس کے پاس نہیں آیا۔ اس کی اپنی گھبراہٹ کے باعث یا گھرتے اندھیرے کی وجہ سے۔۔ وہ پاس تک آتے تھے، لیکن اس کی کھلی ہتھیلی کی چھوڑ کر دوسرے بچوں کے پاس چلے جاتے تھے۔مایوس  ہوکر اس نے دانوں کی کٹوری زمین پر رکھ دی اورخود میرے پاس بینچ پر آ کر بیٹھ گئی۔
اس کے جاتے ہی کبوتروں کا جمگھٹ کٹوری کے ارد گرد جمع ہونے لگا۔ کچھ دیر بعد ہم نے دیکھا، دانوں کی کٹوری اوندھی پڑی ہے اور اس میں ایک بھی دانا نہیں ہے۔
"اب چلو گی؟” میں نے کہا۔
وہ فوراً  بینچ سے اٹھ کھڑی ہوئی، جیسے وہ اتنی دیر سے صرف اس کا ہی انتظار کر رہی ہو۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھی ۔۔ ایک بھیگی ہوئی چمک ۔۔ جو آنسوؤں کے بعد چلی آتی ہے۔
ان دنوں ٹرفالگر سکوئیر کے سامنے لاینس کا ریستوراں ہوتا تھا۔ گندا اور سستا دونوں ہی۔ سڑک پار کرکے ہم وہیں چلے آئے۔
اس بیچ میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسوں کو گن لیا تھا ۔۔ میں نے اس کے لئے دو ٹوسٹ منگوائے، اپنے لئے چائے۔ آئس کریم کو بھلا دینا ہی بہتر تھا۔
وہ پہلی بار کسی ریستوراں میں آئی تھی۔ حیرانی سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ مجھے لگا، کچھ دیر پہلے کا  اجنبی پن اب گھلنے لگا ہے۔ ہم قریب قریب دوبارہ ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے۔ لیکن پہلے جیسے نہیں ۔۔ کبوتروں کا سایہ  اب بھی ہم دونوں کے بیچ پھڑپھڑا رہا تھا۔
"میں کیا بہت برا آدمی ہوں!” میں نے پوچھا۔
اس نے آنکھیں اٹھائیں، ایک پل مجھے دیکھتی رہی، پھر بہت ادھیر آواز میں کہا، "میں نے آپ کو نہیں کہا تھا۔”
"مجھے نہیں کہا تھا؟” میں نےحیرت  سے اس کی طرف دیکھا، "پھر کس کو کہا تھا؟”
"مسٹر ٹامس کو ۔۔ وہ برے آدمی ہیں۔ ایک دن جب میں ان کے گھر گئی، وہ ڈانٹ رہے تھے اور مسیز ٹامس بیچاری رو رہی تھیں۔”
"اوہ!” میں نے کہا۔
"آپ سمجھے ۔۔ میں نے آپ کو کہا تھا؟”
وہ ہنسنے لگی، جیسے میں نے سچ مچ بڑی بیوقوفی کی بھول کی ہے ۔۔ اور اس کی ہنسی دیکھ کر نہ جانے کیوں، میرا دل بیٹھنے لگا۔
"ہم یہاں پھر کبھی آئیں گے؟” اس نے کہا۔
"گرمیوں میں،” میں نے کہا، "گرمیوں میں ٹیمس پر چلیں گے، وہ یہاں سے بہت پاس ہے۔”
"کیا وہاں کبوتر ہو ں گے؟” اس نے پوچھا۔
مجھے برا لگا، جیسے کوئی لڑکی اپنے واشق کا ذکر باربار چھیڑ دے۔ مگر میں اسے دوبارہ نا امید نہیں کرنا چاہتا تھا۔ گرمیاں کافی دور تھیں، بیچ میں پت جھڑ اور برف کے دن آئیں گے ۔۔ تب تک میرا جھوٹ بھی پگھل جائے گا، میں نے سوچا۔
ہم باہر آئے، تو پیلا سا اندھیرا گھر آیا تھا۔ حالانکہ دوپہر ابھی باقی تھی۔ اس نے کھوئی ہوئی آنکھوں سے سکوئیر کی طرف دیکھا، جہاں کبوتر اب بھی اڑ رہے تھے۔ میری جیب میں اب اتنے ہی پیسے تھے، جن سے ٹیوب کا کرایا دیا جا سکے۔ اس بار اس نے کوئیفرمائش  نہیں کی۔ بچے ایک حد کے بعد، بڑوں کی غریبی نہ سہی، مجبوری سونگھ لیتے ہیں۔
میں نے سوچا تھا، ٹرین میں بیٹھیں گے، تو میں اس سے سمر ہاؤس کے بارے میں پوچھوں گا ۔۔ اس ولو کے بارے میں بھی، جو اکیلا اس کے باغ میں کھڑا تھا۔ میں اسے دوبارہ اس کی اپنی دنیا میں لانا چاہتا تھا ۔۔ جہاں پہلی بار ہم دونوں ایک دوسرے سے ملے تھے۔ پر ایسا نہیں ہوا۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی اس کی آنکھیں مندنے لگیں۔ ٹرفالگر سکییر سے اسلنگٹن تک کا کافی لمبا فاصلہ تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے میرے کندھوں پر اپنا سر ٹکا لیا اور سونے لگی۔
اس بیچ میں نے ایک آدھ بار اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ سوتے ہوئے وہ ہو بہو ویسی ہی لگ رہی ہے، جیسے پہلی بار میں نے اسے دیکھا تھا پارک میں پیڑوں کے بیچ ۔۔ مکمل اور ثابت۔ کبوتروں کے لئے جو بھٹکاؤ آیا تھا، وہ اب کہیں نہ تھا۔ آنسو کب کے سوکھ چلے تھے۔ نیند میں وہ اتنی ہی مکمل جان پڑتی تھی، جتنی جھاڑیوں کے بیچ اور تب مجھے عجیب سا خیال آیا۔ پارک میں اس نے کئی بار مجھے پکڑا تھا،مگر  اس کے سوتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر مجھے لگا کہ وہ ہمیشہ سے پکڑی ہوئی لڑکی ہے، جبکہ میرے جیسے لوگ صرف کبھی کبھی پکڑ میں آتے ہیں اور اسے اس کا کوئی پتہ نہیں ہے اور یہ ایک طرح کا وردان ہے، کیونکہ دوسروں کو ہمیشہ چھوٹنے کا، آزاد ہونے کا بھرم رہتا ہے، جبکہ بچی کو اس طرح کی کوئی امید  نہیں تھی۔ تب پہلی بار میں نے اسے چھونے کی ہمت کی۔ میں دھیرے دھیرے اس کے گالوں کو چھونے لگا، جو آنسوؤں کے بعد گرم ہو اٹھے تھے، کچھ ویسے ہی، جیسے بارش کے بعد گھاس کی پتیاں ہو جاتی ہیں۔
وہ جاگی نہیں۔ ٹیوب اسٹیشن آنے تک آرام سے سوتی رہی۔
اس رات بارش شروع ہوئی، سو ہفتے بھر چلتی رہی۔ جھوٹی گرمیوں کے دن ختم ہو گئے۔ سارے شہر پر پیلی دھند کی پرتیںجمی  رہتیں۔ سڑک پر چلتے ہوئے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا ۔۔ نہ پیڑ، نہ لیمپ پوسٹ، نہ دوسرے آدمی۔
مجھے وہ دن یاد ہے، کیونکہ انہیں دنوں مجھے کام ملا تھا۔ لندن میں وہ میری پہلی نوکری تھی۔ کام زیادہ تھا، لیکن مشکل نہیں۔ ایک پب میں کاؤنٹر کے پیچھے سات گھنٹے کھڑا رہنا پڑتا تھا۔ بیر اور شراب کے گلاس دھونے پڑتے تھے۔ گیارہ بجے گھنٹی بجانی پڑتی تھی اور پیکڑ لوگوں کو باہر کھدیڑنا پڑتا تھا۔ کچھ دن تک میں کہیں باہر نہ جا سکا۔ گھر لوٹتا اور بستر پکڑ لیتا، جیسے پچھلے مہینوں کی نیند کوئی پرانا بدلا نکال رہی ہو۔ نیند کھلتی، تو بارش دکھائی دیتی، جو گھڑی کی ٹک ٹک کی طرح برابر چلتی رہتی۔ کبھی کبھی بھرم ہوتا کہ میں مر گیا ہوں اور اپنی قبر کی دوسری طرف سے ۔۔ بارش کی ٹپ ٹپ سن رہا ہوں۔
لیکن ایک دن آسما ن دکھائی دیا ۔۔ پورا نہیں صرف ایک نیلی ڈوبی سی فر اک اور دیکھ کر مجھے اچانک پارک کے دن یاد ہو آئے، یہودی ریستوراں کی بلی اور بازار جاتی ہوئی مسیز ٹامس۔ وہ میری چھٹی کا دن تھا۔ اس دن میں نے اپنے سب سے بڑھیا کپڑے پہنے اور کمرے سے باہر نکل آیا۔
لایبریری کھلی تھی۔ سب پرانے چہرے وہاں دکھائی دیئے۔ پارک خالی پڑا تھا۔ پیڑوں پر پچھلے دنوں کی بارش چمک رہی تھی۔ وہ سکڑے سے دکھائی دیتے تھے، جیسے آنے والی سردیوں کی افواہ انہیں چھو گئی ہو۔
میں دوپہر تک انتظار  کرتا رہا۔ گریتا کہیں دکھائی نہ دی، نہ بینچ پر، نہ پیڑوں کے پیچھے۔ دھیرے دھیرے پارک کی پیلی، پت جھڑی روشنی مند پڑنے لگی۔ پانچ بجے اسپتال کا گجر سنائی دیا اور میری آنکھ بلا ارادہ پھاٹک کی طرف اٹھ گئیں۔
کچھ دیر تک کوئی دکھائی نہیں دیا۔ پھاٹک کے اوپر لوہے کا ہینڈل شام کی آخری دھوپ میں چمک رہا تھا۔ اس کے پیچھے اسپتال کی لال اینٹوںوالی عمارت دکھائی دے رہی تھی۔ مجھے معلوم تھا، انہیں گھر جانے کے لئے پارک کے بیچ سے نکلنا ہوگا،مگر  پھر بھی میں غیر یقینی نگاہوں سے کبھی پھاٹک کو دیکھتا تھا، کبھی سڑک کو۔ یہ خیال بھی آتا تھا کہ شائد آج ان کی ڈیوٹی اسپتال میں نہ ہو اور وہ دونوں گھر میں ہی بیٹھے ہوں۔
سڑک کی بتیاں جلنے لگیں۔ مجھے عجیب سی گھبراہٹ ہوئی، جیسےانتظار  کا خاتمہ ہوچکا ہے اور میں اسے ٹالتا جا رہا ہوں۔ میں بینچ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔ کھڑے ہوکرانتظار  کرنا زیادہ آسان لگا۔لیکن  تبھی مجھے پھاٹک کے قریب سرسراہٹ سنائی دی۔ ان کے چہرے کو بعد میں دیکھا، ان کی سفید پوشاک پہلے دکھائی دی۔ وہ تیز قدموں سے پارک کے بیچ پگڈنڈی پر چل رہی تھی۔ انہوں نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔ اگر وہ میری جانب آ رہی ہوتیں، تو بھی شائد دھندلکے میں مجھے نہیں پہچان پاتیں۔
میں بھاگتا ہوا ان کے پیچھے چلا آیا۔
"مسیز پارکر!” پہلی بار میں نے انہیں ان کے نام سے بلایا تھا۔
وہ ٹھہر گئی اور بھونچکی سی میری  طرف دیکھنے لگی۔ "آپ یہاں کیسے؟” اب بھی وہ اپنے کو نہیں سنبھال پائی تھیں۔
"میں یہاں دوپہر سے بیٹھا ہوں۔” میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ ہکا بکاسی مجھے دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا تھا، لیکن جیسے اس پہچان کو کوئی نام نہیں دے پا رہی تھیں۔ میں کچھ تذبذب  میں پڑ گیا اور نارمل سا لہجہ بدل کر پوچھا، "آج آپ اتنی دیر سے لوٹ رہی ہیں؟ پانچ کا گجر تو کب کا بج چکا؟”
"پانچ کا گجر؟” انہوں نےحیرت  سے پوچھا۔
"آپ ہمیشہ پانچ بجے لوٹتی تھیں۔” میں نے کہا۔
"اوہ!” انہیں یاد آیا، جیسے میں کسی رانے تاریخی واقعے کا ذکر کر رہا ہوں۔
"آپ لندن میں ہی تھے؟” انہوں نے پوچھا۔
"مجھے کام مل گیا، اتنے دنوں سے اس لئے نہیں آ سکا۔ گریتا کیسی ہے؟”
وہ ہچکچائیں ۔۔ ایک چھوٹےپل  کی ہچکچاہٹ، جو کچھ بھی معنی نہیں رکھتی ۔۔ لیکن شام کے دھندلکے میں مجھے وہ عجیب سی جان پڑی۔
"میں آپ کو بتانا چاہتی تھی، لیکن مجھے آپ کا گھر نہیں معلوم تھا۔۔۔”
"وہ ٹھیک ہے؟”
"ہاں، ٹھیک ہے،” انہوں نے جلدی میں کہا، "لیکن وہ اب یہاں نہیں ہے۔ کچھ دن پہلے اس کے والد آئے تھے، وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے۔”
میں انہیں دیکھتا رہا۔ میرے اندر جو کچھ تھا وہ ٹھہر گیا ۔۔ میں اس کے اندر تھا، اس ٹھہراو کے، اور وہاں سے دنیا بالکل باہر دکھائی دیتی تھی۔ میں نے کبھی اتنی صفائی سے باہر کو نہیں دیکھا تھا۔
"کب کی بات ہے؟”
"جس دن آپ اس کے ساتھ ٹرفالگر سکوئیر گئے تھے ۔۔ اس کے دوسرے دن ہی وہ آئے تھے آپ جانتے ہیں، انہیں وہاں کام مل گیا ہے۔”
"اور آپ؟” میں نے کہا، "آپ یہاں اکیلی رہیں گی؟”
"میں نے ابھی کچھ سوچا نہیں ہے۔” انہوں نے دھیرے سے سر اٹھایا، آواز ہلکے سے کانپتی تھی، اور ایک پل  کے لئے مجھے ان کے چہرے پر بچی دکھائی دی، اوپر اٹھا ہوا ہونٹ اور بھیگی آنکھیں، ہوا میں اڑتے ہوئے کبوتروں کو دیکھتی ہوئیں۔
"آپ کبھی گھر ضرور آئیے گا۔” انہوں نے رخصت مانگی اور میں نے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ میں بہت دور تک انہیں دیکھتا رہا۔ پھر کافی دیر تک بینچ پر بیٹھا رہا۔ مجھے کہیں نہیں جانا تھا، نہ ہی انتظار کرنا تھا۔ دھیرے دھیرے پیڑوں کے اوپر تارے نکلنے لگے۔ میں نے پہلی بار لندن کے آکاش میں اتنے تارے دیکھے تھے، صاف اور چمکیلے، جیسے بارش نے انہیں بھی دھو ڈالا ہو۔
"اٹ از ٹائم ڈیر!”
پارک کے چوکیدار نے دور سے ہی آواز لگائی۔ وہ گیٹ کی چابیاں کھنکھناتا ہوا پارک کا چکر لگا رہا تھا۔ ٹارچ کی روشنی میں وہ ہر بینچ، جھاڑی اور پیڑ کے نیچے دیکھ لیتا تھا کہ کہیں کوئی چھوٹ تو نہیں گیا ۔۔ کوئی کھویا ہوا بچہ، کوئی شرابی، کوئی گھریلو بلی۔
وہاں کوئی نہیں تھا۔ کوئی بھی چیز نہیں چھوٹی تھی۔ میں اٹھ کھڑا ہوا اور گیٹ کی طرف چلنے لگا۔ اچانک  ہوا  چلنے لگی تھی۔ ہلکا سا جھونکا اندھیرے میں چلا آیا اور پیڑ سرسرانے لگے۔ اور تب مجھے دھیمی سی آواز سنائی دی، ایک بے انتہا فرمائش میں لپٹی ہوئی ۔۔ ‘سٹاپ سٹاپ۔۔۔’ میرے پاؤں بیچ پارک میں ٹھٹھک گئے۔ چاروں طرف دیکھا۔ کوئی نہ تھا۔ نہ کوئی آواز، نہ کھٹکا ۔۔ صرف پیڑوں کی شاخیں ہوا میں ڈول رہی تھیں۔ اس وقت  ایک پگلی ، ننگی سی، خواہش میرے اندر جاگنے لگی کہ یہیں بیٹھ جاؤں۔ ان پیڑوں کے بیچ جہاں میں پہلی بار پکڑا گیا تھا۔ میری اب اور آگے جانے کی تمنا  نہیں تھی۔ میں اس بارضرور بالضرور پکڑ لیا جانا چاہتا تھا۔
"اٹ از کلوجنگ ٹائم!” چوکیدار نے اس بار بہت پاس آ کر کہا۔ میری طرف تجسس  سے دیکھا کہ کیا میں وہی آدمی ہوں، جو ابھی کچھ دیر پہلے بینچ پر بیٹھا تھا۔
اس بار میں نہیں مڑا۔ پارک سے باہر آ کر ہی سانس لی۔ میرا گلا سوکھ گیا تھا اورجسم  کھوکھلا سا لگ رہا تھا۔  پارک میں سامنے پب کی لالٹین جھولتی دکھائی دی۔ میں نے جیب سے پرس نکالا، پیسے گننے کے لئے۔ پرانی غریبی کی یہ عادت اب بھی بچی تھی۔ میں نے حیرانی سے دیکھا کہ میرے پاس پورے دو پونڈ ہے ۔۔ اور تب مجھے یاد آیا کہ میں انھیں کبوتروں کے دانوں کے لئے لایا تھا۔

٭٭٭

ماخذ: گدیہ کوش سے

ہندی سے رسم الخط کی تبدیلی لرن پنجابی ڈاٹ آرگ سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید