FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

دستکاری کی دوکان اور دوسری نظمیں

 

 

                سرویشور دیال سکسینہ

 

ہندی سے ترجمہ اور فرہنگ:اسد محمد خاں

ماخذ: آج، کتاب ۱، مدیر: اجمل کمال

 

 

 

 

 

دستکاری کی دکان

 

صبح—

دمکتے سونے سے رنگ والی

ایک الھڑ کشوری

تولی رنگ کی ساڑھی پہنے

رنگ برنگی مونجھ کی ڈلیا بُن رہی ہے

 

دوپہر —

گورے چٹے رنگ کی

سن سے سفید بالوں والی بڑھیا

چاندی کی عینک لگائے

کشیدہ کاڑھ رہی ہے

 

شام—

سیندور کا بڑا ٹیکا لگائے

بُنکر کی سانولی عورت

سوت کی رنگ برنگی لچھیاں رنگ کر

آکاش کی الگنی پر ٹانگ رہی ہے

 

رات —

کالی ساڑھی پہنے

پانڈومکھی وِدھوا

شیش جھکائے

آکاش کے وِشال کنتھے میں

ڈورا ڈال رہی ہے

 

دھنی کال نے کھول رکھی ہے

کسی اگیات نگر میں دستکاری کی دکان

میں ان گھڑ کوی

دھول میں اداس بیٹھا

سب کی شِلپ چاتُری دیکھتا ہوں —

٭

 

کشوری: دوشیزہ تُولی: گہرا سرخ  پانڈومُکھی: سیم رو       شیش: سر

وشال: بڑا     کنتھا:سوزن   دھنی کال:      مالدار وقت     اگیات نگر: نا معلوم شہر

شِلپ چاتری: کاریگری

٭٭٭

 

 

 

 

 

رات

 

پلکوں پر بوجھ ہے

اور رات ابھی شروع ہوئی ہے

کوئی سپنا اتنا ہلکا نہیں ہوتا

کہ صبح بن جائے —

 

اندھیرا پتھر ہے

جسے ہر روشنی اپنے آکار میں

گڑھتی ہے

تب تک رہتی ہے —

پھر ایک پہاڑ کے سامنے

چھینی ہتھوڑا چھوڑ کر

چلی جاتی ہے —

 

پلکوں پر بوجھ ہے پہاڑ کا

اور رات ابھی شروع ہوئی ہے

دکھ کو ایک نئے سرے سے تراشنا

مجھے شروع کرنا ہے —

٭٭

 

آکار: FORM

٭٭٭

 

 

 

 

دروازے بند ہیں

 

دروازے بند ہیں

گھر میں کوئی نہیں ہے

سوا سمرتیوں کے

دراڑوں سے آتی روشنی

خاموشیوں کی پسلیوں سی

ادھوری ہے

دیواروں پر —

نتھنوں سے دماغ تک

رینگتی ہے گندھ

قید ہوا کی

میں نہیں جانتا تمھیں کیسا لگے گا

جب تم دیوار پھاند کر

اندر آؤ گے —

سفیدی پیلی پڑ گئی ہو گی

اندھیرا کسمساتا

دُھول بن، جم رہا ہو گا—

تمھارے ہاتھ

گھڑی کی سوئیوں کو ہلائیں گے

پری تیکت گھونسلا

گر پڑے گا تمھارے اوپر—

سمے قالین کے نیچے مرا پڑا ہو گا

چیونٹیاں اسے کھینچ کر

لیے جا رہی ہوں گی—

٭٭

 

سمرتی: یاد      گندھ: بو       پری تیکت: چھوڑا ہوا، ترک کردہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب جب سر اُٹھایا

 

جب جب سر اُٹھایا

اپنی چوکھٹ سے ٹکرایا—

مستک پر لگی چوٹ

من میں اٹھی کچوٹ

اپنی ہی بھول پر میں

بار بار پچھتایا

جب جب سر اٹھایا

اپنی چوکھٹ سے ٹکرایا—

 

دروازے گھٹ گئے

یا میں ہی بڑا ہو گیا

درد کے چھنوں میں کچھ

سمجھ نہیں پایا

جب جب سر اٹھایا

اپنی چوکھٹ سے ٹکرایا

 

’’شیش جھکا آؤ‘‘

بولا باہر کا آسمان

’’شیش جھکا آؤ‘‘

بولیں بھیتر کی دیواریں

دونوں ہی نے مجھے

چھوٹا کرنا چاہا

برا کیا میں نے جو

یہ گھر بنایا

جب جب سر اٹھایا

اپنی چوکھٹ سے ٹکرایا —

٭٭

 

مستک: سر     چھن: لمحہ      شیش: سر      بھیتر: اندر

٭٭٭

 

 

 

 

اک نئی پیاس

 

میں کب کہتا ہوں

کہ میرے اس مکان میں

دروازے کھڑکیاں اور روشندان مت لگاؤ

کاش کہ تم ان سے ہی مکان بنا پاتے

دیواریں نہ ہوتیں —

کیونکہ مجھے

ساون کی گلابی پھوار سے لے کر

بھادوں کی سانولی موسلادھار تک اچھی لگتی ہے

مجھے برف سی چاندنی

اور آگ سا سورج

دونوں پیارے ہیں، بے حد پیارے

میری التجا تو صرف اتنی ہے

کہ میرے اس مکان کے کہیں کسی کونے میں

ایک چھوٹا سا کمرہ ایسا بھی رہنے دو

جہاں میں دھوپ دیپ جلا سکوں

جہاں میں چند پتلے، رنگین، خوشبودار

پھولوں کے گیت بھرے کاغذ

بیلے کی کچی کلیوں سے دبا کر رکھ سکوں

جہاں میں کبھی ہنستے ہنستے تھک جانے کے بعد جا کر

کسی ست رنگے کپڑے سے

اپنی گیلی آنکھیں بھی پونچھ سکوں

جہاں میں اپنے بھیتر کی ساری گھٹن

ان خاموش پھولوں کے درمیان دبا آؤں

جو ایکانت کی سونی ڈال سے

لگاتار جھرتے رہتے ہیں

جہاں پہنچ کر

میں کسی پوجا گیت کی پوِتر کڑی سا بن جاؤں

اور کنھیں سنگیت بھرے چرنوں پر

کچھ چھن اپنا سر دھر

سب کچھ بھول سکوں

جہاں جا کر میں اپنے بھیتر کی

دیواریں توڑ سکوں اور

تازی ہوا،

طوفان،

پھوار،

چاندنی،

دھوپ،

سب کے لیے ایک نئی پیاس لے کر

سدا واپس آ سکوں —

٭٭

 

ایکانت: تنہائی

٭٭٭

 

 

 

 

یقین کی گھڑی

 

دھوپ میں

ندی پار کر

ہم سب جنگل کے کنارے

پہنچ گئے

 

تھوڑی دیر پکنک سی اوپری چہل پہل

من بہلاؤ کے لیے

گھاس میں رینگتی رہی

جب بھیتر جانے کا وقت ہوا

یقین کی گھڑی

تو سب ساتھی

الوداع کی مُدرا میں

ہاتھ ہلاتے لوٹ پڑے

کیونکہ بن ابھیگ تھا

اور وہ جسے میں

اپنی مرتیوسنگنی مانتا تھا

صرف میرے گلے میں بانہیں ڈال

میری آنکھوں میں دیکھنے لگی:

کوری سمّوہن درشٹی—

 

اس نے اپنا سرخ اسکارف کھولا

اور میرے گلے میں باندھ دیا

جیسے لوٹنے کی گھڑی کا آخری اشارہ

پھر بنا میری اور دیکھے ان سب کے ساتھ ہو لی —

وہ سب تیز قدموں سے جا رہے تھے

جیسے لوٹ کے دیکھنے پر دھماکا ہو سکتا ہے

 

پھر میں اکیلا

راہ ہین، گھنے کالے جنگل میں

گھس گیا، چلنے لگا

 

اچانک کھڑکھڑاہٹ ہوئی

میں ہوشیار ہو گیا

میں نے پیچھے دیکھا

ایک ننھا بچہ بے دھڑک

چلا جا رہا تھا

 

میرے کچھ پوچھنے کے پہلے ہی

اس نے جواب دیا :

’’مجھے رنگین چڑیاں اچھی لگتی ہیں

اس جنگل میں بہت ہیں ‘‘

٭٭

 

مُدرا: حرکت   ابھیگ: ناقابلِ عبور     مرتیوسنگنی:رفیقۂ مرگ

سموہن درشٹی: غیرجانبدار نظر   راہ ہین: بے رستہ

٭٭٭

 

 

 

 

یہاں

 

اس نے کہا وہ یہاں نہیں تھی

گویا میں یہاں تھا

یا کچھ بھی یہاں ہے،

رہ سکتا ہے —

 

’’یہاں ‘‘

شبد نہیں ایک چھلانگ ہے

جو ہونے کے ساتھ ہی

کھو جاتی ہے —

 

یہ دوسری بات ہے

کہ اس سے جڑی بہت سی چیزیں

رہ جائیں

جیسے دیش، کال

… وہ، میں —

یا کچھ اور بھی

جو ان سب کے بیچ نہیں ہے —

٭٭٭

 

 

 

 

نیلی چڑیاں

 

تمھاری آنکھوں سے اڑیں

نیلی چڑیاں

میرے کھلتے ہونٹوں پر بیٹھ جاتی ہیں

— شبد چگنے لگتی ہیں

اور جب میں شبدہین ہو جاتا ہوں

تب وہ پھر میرے ہونٹوں سے اڑ کر

تمھاری آنکھوں میں چلی جاتی ہیں

ہر بار

میں

چپ رہ جاتا ہوں

اور تم

نہارتی

٭٭

 

شبدہین: بے لفظ نہارتی: دیکھتی

٭٭٭

 

 

 

 

کتنا اچھا ہوتا ہے

 

کتنا اچھا ہوتا ہے

اک دوسرے کو بنا جانے

پاس پاس ہونا

اور اس سنگیت کو سننا

جو رگوں میں بجتا ہے

ان رنگوں میں نہا جانا

جو بہت گہرے چڑھتے اترتے ہیں —

 

شبدوں کی کھوج شروع ہوتے ہی

ہم اک دوسرے کو کھونے لگتے ہیں

اور ان کے پکڑ میں آتے ہی

اک دوسرے کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں

ہر جانکاری میں بہت گہرے

اُوب کا اک پتلا دھاگا چھپا ہوتا ہے

کچھ بھی ٹھیک سے جان لینا

خود سے دشمنی ٹھان لینا ہے

کتنا اچھا ہوتا ہے

اک دوسرے کے پاس بیٹھ

خود کو ٹٹولنا

اور اپنے ہی بھیتر

دوسرے کو پا لینا —

٭٭

 

جانکاری: واقفیت

٭٭٭

 

 

 

 

 

پناہ

 

ساری زندگی

میں سر چھپانے کو

جگہ ڈھونڈتا رہا

اور انت میں

اپنی ہتھیلیوں سے

بہتر جگہ دوسری نہیں ملی—

٭٭٭

 

 

 

 

لال سائیکل

 

رات بھر

ایک لال سائیکل

کنٹیلے باڑے سے ٹکی

اکیلی کھڑی رہی

پولیس کی سیٹیاں بجتی رہیں

ان کے بھاری بوٹوں کی آوازیں آتی رہیں

 

صبح ایک بچہ کہیں سے آیا

اور اوس میں بھیگی ٹھنڈی گھنٹی

بجانے لگا

گھرگھراتی ہوئی ایک کالی بھاری گاڑی

سائرن بجاتی آ کر رکی

بچہ گھنٹی بجانا بھول

گاڑی کی چھت پر ٹمٹماتی

نیلی روشنی دیکھنے لگا

پھر گاڑی اسے لے کر چلی گئی

پہلی بار میں اپنے کمرے کے فرش پر

کھڑکیوں کی سلاخوں کی پرچھائیاں پڑتی دیکھ

سہم گیا

٭٭٭

 

 

 

 

انتظار

 

انتظار دشمن ہے

اس پر یقین مت کرو

 

وہ جانے کن جھاڑیوں

اور پہاڑیوں میں

گھات لگائے بیٹھا رہتا ہے

اور ہم پتیوں کی چرمراہٹ پر

کان لگائے رہتے ہیں —

 

انتظار دشمن ہے

اس پر یقین مت کرو

 

وہ چھاپہ مار فوجی کی طرح

خود اندھیرے میں رہتا ہے

اور ہمیں اجالے میں کھڑا دیکھتا رہتا ہے

اور ہم اندھیرے میں ٹارچ کی روشنی ہی پھینکتے رہتے ہیں

انتظار دشمن ہے

اس پر یقین مت کرو

 

وہ ہمیں ندی بنا کر ہمارے بیچ سے ہی

مچھلی کی طرح اَدیکھا تیر جاتا ہے

اور ہم لہروں کے ان گنت ہاتھوں سے

اسے ٹٹولتے رہتے ہیں

 

انتظار دشمن ہے

اس پر یقین مت کرو

اس سے بچو

جو پانا ہے فوراً پا لو

جو کرنا ہے فوراً کر لو —

٭٭٭

 

 

 

 

ہاتھ

 

ہاتھ ضروری ہیں

ان کا چلنا اور بھی ضروری

اور نہ رکنا سب سے ضروری

 

بنا سوئیوں کی گھڑی

سمے کو کیسے پہچانے گی؟

چاہے کلائی کی ہو

یا گھنٹہ گھر کی

 

ہاتھ ضروری ہیں

گھڑی بند ہو تو بھی

کم سے کم

دوسرے دھوکے میں نہیں رہیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

راستہ

 

بند راستے پر

دوڑنے کی اذیت

جانتے ہوئے بھی دوڑو

تبھی اس سکون کو پہچانو گے

جو اس طرح دوڑنے سے ملتا ہے

طے شدہ اذیت

اور حاصل ہونے والا سکون

دونوں جب آمنے سامنے کھڑے ہوں

تب تم وہ نہیں رہ جاؤ گے

جس کے لیے راستہ بند تھا

٭٭٭

 

 

 

 

بھوک

 

جب بھی

بھوک سے لڑنے

کوئی کھڑا ہو جاتا ہے

سُندر دِکھنے لگتا ہے

جھپٹتا باز

پھن اٹھائے سانپ

دو پیروں پر کھڑا

کانٹوں سے ننھی پتیاں کھاتا بکرا

دبے پاؤں جھاڑیوں میں چلتا چیتا

ڈال پر الٹا لٹک

پھل کترتا طوطا

یا ان سب کی جگہ

آدمی ہوتا

 

جب بھی بھوک سے لڑنے

کوئی کھڑا ہو جاتا ہے

سندر دِکھنے لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جنگل کا درد

 

ایک نے مجھ سے پوچھا:

’’جنگل کیا ہوتا ہے ؟‘‘

دوسرے نے کہا:

’’اور درد؟‘‘

 

میں خاموش رہا

میں نے ایک بڑے پنجرے میں

دونوں کو بند کر دیا

اور اوپر ایک کالی

جھینی چادر ڈال دی

 

کچھ دنوں بعد وہ مجھے

جنگلی جانوروں کی طرح دیکھنے لگے

پہلے ان کی آنکھیں ہری ہوئیں

اہنسک جانوروں جیسی

پھر سرخ ہنسک جانوروں میں بدل گئیں

خونخوار —

 

وہ بھوکے تھے

میں نے ٹکڑا پھینکا

وے کھانا چھوڑ

آپس میں گتھ گئے

لہو لہان ہو گئے

طاقتور نے سب کھا لیا

کمزور نے لاچاری سے سنتوش کر

درد سے منھ چھپا لیا

 

یہ سلسلہ بہت دنوں تک

میں نے بنا رہنے دیا

بھوکا رکھنا، ٹکڑا پھینکنا

طاقتور میں درپ جگانا

اور کمزور میں سنتوش

 

اور جب وہ اس کے اتنے عادی ہو گئے

کہ کچھ اور سوچ پانا

ان کے لیے ناممکن ہو گیا

تب میں نے انھیں

پنجرے سے نکال دیا

 

اب وہ کھلے میں کھڑے تھے

کھڑے ہیں

کھڑے رہیں گے

 

ٹکڑے پھینکے جانے کے انتظار میں

لڑنے کو تیار

درپ اور سنتوش کے شکار —

٭٭

 

جھینی: مہین   اہنسک:غیر متشدد ہنسک:متشدد درپ: زعم، گھمنڈ

سنتوش:صبر، سکون

٭٭٭

 

 

 

 

بھیڑیا

 

1

بھیڑیے کی آنکھیں سرخ ہیں

اسے تب تک گھورو

جب تک تمھاری آنکھیں سرخ نہ ہو جائیں

اور تم کر بھی کیا سکتے ہو

جب وہ تمھارے سامنے ہو؟

اگر تم منھ چھپا بھاگو گے

تو بھی تم اسے

اپنے بھیتر اسی طرح کھڑا پاؤ گے

اگر بچ رہے

 

بھیڑیے کی آنکھیں سرخ ہیں

اور تمھاری آنکھیں ؟

 

2

بھیڑیا غراتا ہے

تم مشعل جلاؤ

اس میں اور تم میں

یہی بنیادی فرق ہے

بھیڑیا مشعل نہیں جلا سکتا

اب تم مشعل اٹھا

بھیڑیے کے قریب جاؤ

بھیڑیا بھاگے گا

کروڑوں ہاتھوں میں مشعل لے کر

ایک ایک جھاڑی کی اور بڑھو

سب بھیڑیے بھاگیں گے

پھر انھیں جنگل کے باہر نکال

برف میں چھوڑ دو

بھوکے بھیڑیے آپس میں غرائیں گے

ایک دوسرے کو چیتھ کھائیں گے

بھیڑیے مر چکے ہوں گے

اور تم؟

 

3

بھیڑیے پھر آئیں گے

اچانک

تم میں سے ہی کوئی ایک دن بھیڑیا بن جائے گا

اس کا وَنش بڑھنے لگے گا

بھیڑیے کا آنا ضروری ہے

تمھیں خود کو پہچاننے کے لیے

نڈر ہونے کا سکھ جاننے کے لیے

مشعل اٹھانا سیکھنے کے لیے

اتہاس کے جنگل میں

ہر بار بھیڑیا ماند سے نکالا جائے گا

آدمی ہرش سے ایک ہو کر

مشعل لیے کھڑا ہو گا

اتہاس زندہ رہے گا

اور تم بھی

اور بھیڑیا؟

٭٭

 

ونش: خاندان  اتہاس: HISTORY ماند: بھٹ    ہرش: ہمت

٭٭٭

 

 

 

 

دھول

 

1

تم دھول ہو

پیروں سے روندی ہوئی دھول

بے چین ہوا کے ساتھ اٹھو

آندھی بن

اُن کی آنکھوں میں پڑو

جن کے پیروں کے نیچے ہو

ایسی کوئی جگہ نہیں

جہاں تم پہنچ نہ سکو

ایسا کوئی نہیں

جو تمھیں روک سکے

 

تم دھول ہو

پیروں سے روندی ہوئی دھول

دھول سے مل جاؤ

 

2

تم دھول ہو

زندگی کی سیلن سے

دیمک بنو

 

راتوں رات

صدیوں سے بند ان دیواروں کی

کھڑکیاں

دروازے

اور روشندان چال دو

 

تم دھول ہو

زندگی کی سیلن سے جنم لو

دیمک بنو، آگے بڑھو

 

اک بار راستہ پہچان لینے پر

تمھیں کوئی ختم نہیں کر سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

نقشہ

 

ایک بچہ نقشہ بناتا ہے

تم جانتے ہو وہ کہاں جاتا ہے ؟

ایک بچہ نقشے میں رنگ بھرتا ہے

تم جانتے ہو وہ کہاں گیا؟

ایک بچہ نقشہ پھاڑ دیتا ہے

تم جانتے ہو وہ کہاں پہنچا؟

 

اگر تم جانتے ہوتے

تو چپ نہیں بیٹھتے

اس طرح

 

انت میں

 

اب میں کچھ کہنا نہیں چاہتا

سننا چاہتا ہوں

ایک سمرتھ سچی آواز

اگر کہیں ہو

 

ورنہ

اس کے پہلے کہ

میرا ہر قول

ہر خیال

ہر اظہار

شونیہ سے ٹکرا کر پھر واپس لوٹ جائے

اس بے انت خاموشی میں سما جانا چاہتا ہوں

جو موت ہے

 

’’وہ بنا کچھ کہے مر گیا‘‘

یہ زیادہ گوروشالی ہے

یہ کہے جانے سے کہ

’’وہ مرنے کے پہلے

کچھ کہہ رہا تھا

جسے کسی نے سنا نہیں ‘‘

٭٭

 

سمرتھ: توانا    شونیہ: صفر، سناٹا، عدم   گورَوشالی: قابل فخر

٭٭٭

ماخذَ جریدہ ’آج‘، کتاب ۱، مدیر :اجمل کمال اور

www.adabiduniya.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید