FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

خواب سنہرا دینا

 

 

               اظہر عنایتی

 

جمع و ترتیب:  اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

غموں سے یوں وہ فرار اختیار کرتا تھا

فضا میں اڑتے پرندے شمار کرتا تھا

 

بیان کرتا تھا دریا کے پار کے قصے

یہ اور بات وہ دریا نہ پار کرتا تھا

 

بچھڑ کے ایک ہی بستی میں دونوں زندہ ہیں

میں اس سے عشق تو وہ مجھ سے پیار کرتا تھا

 

یونہی تھا شہر کی شخصیتوں کو رنج اس سے

کے وہ ضدیں بھی بڑی پر وقار کرتا تھا

 

کل اپنی جان کو دن میں بچا نہیں پایا

وہ آدمی کہ جو آہٹ پہ وار کرتا تھا

 

وہ جس کے صحن میں کوئی گلاب کھل نہ سکا

تمام شہر کے بچوں سے پیار کرتا تھا

 

صداقتیں تھیں مری بندگی میں جب اظہرؔ

حفاظتیں میری پروردگار کرتا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم نے جو قصیدوں کو مناسب نہیں سمجھا

شہ نے بھی ہمیں اپنا مصاحب نہیں سمجھا

 

کانٹے بھی کچھ اس رت میں طرح دار نہیں تھے

کچھ ہم نے الجھنا بھی مناسب نہیں سمجھا

 

خود قاتل اقدارِ شرافت ہے زمانہ

الزام ہے میں حفظ مراتب نہیں سمجھا

 

ہم عصروں میں یہ چھیڑ چلی آئی ہے اظہرؔ

یاں ذوق نے غالب کو بھی غالب نہیں سمجھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لئے

میں جاگتا ہوں ترا خواب دیکھنے کے لئے

 

نہ جانے شہر میں کس کس سے جھوٹ بولوں گا

میں گھر کے پھولوں کو شاداب دیکھنے کے لئے

 

اسی لئے میں کسی اور کا نہ ہو جاؤں

مجھے وہ دے گیا اک خواب دیکھنے کے لئے

 

کسی نظر میں تو رہ جائے آخری منظر

کوئی تو ہو مجھے غرقاب دیکھنے کے لئے

 

عجیب سا ہے بہانہ مگر تم آ جانا

ہمارے گاؤں کا سیلاب دیکھنے کے لئے

 

پڑوسیوں نے غلط رنگ دے دیا اظہرؔ

وہ چھت پہ آیا تھا مہتاب دیکھنے کے لئے

٭٭٭

 

 

 

 

اس بار ان سے مل کے جدا ہم جو ہو گئے

ان کی سہیلیوں کے بھی آنچل بھگو گئے

 

چوراہوں کا تو حسن بڑھا شہر کے مگر

جو لوگ نام ور تھے وہ پتھر کے ہو گئے

 

سب دیکھ کر گزر گئے اک پل میں اور ہم

دیوار پر بنے ہوئے منظر میں کھو گئے

 

مجھ کو بھی جاگنے کی اذیت سے دے نجات

اے رات اب تو گھر کے در و بام سو گئے

 

کس کس سے اور جانے محبت جتاتے ہم

اچھا ہوا کہ بال یہ چاندی کے ہو گئے

 

اتنی لہولہان تو پہلے فضا نہ تھی

شائد ہماری آنکھوں میں اب زخم ہو گئے

 

اخلاص کا مظاہرہ کرنے جو آئے تھے

اظہرؔ تمام ذہن میں کانٹے چبھو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اس بلندی پہ کہاں تھے پہلے

اب جو بادل ہیں دھواں تھے پہلے

 

نقش مٹتے ہیں تو آتا ہے خیال

ریت پر ہم بھی کہاں تھے پہلے

 

اب ہر اک شخص ہے اعجاز طلب

شہر میں چند مکاں تھے پہلے

 

آج شہروں میں ہیں جتنے خطرے

جنگلوں میں بھی کہاں تھے پہلے

 

لوگ یوں کہتے ہیں اپنے قصے

جیسے وہ شاہ جہاں تھے پہلے

 

ٹوٹ کر ہم بھی ملا کرتے تھے

بے وفا تم بھی کہاں تھے پہلے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اس حادثے کو دیکھ کے آنکھوں میں درد ہے

اپنی جبیں پہ اپنے ہی قدموں کی گرد ہے

 

آ تھوڑی دیر بیٹھ کے باتیں کریں یہاں

تیرے تو یار لہجے میں اپنا سا درد ہے

 

کیا ہو گئیں نہ جانے تری گرم جوشیاں

موسم سے آج ہاتھ سوا تیرا سرد ہے

 

تاریخ بھی ہو اتنے برس کی مؤرخو

چہرے پہ میرے جتنے برس کی یہ گرد ہے

 

اے رات تیرے چاند ستاروں میں وہ کہاں

بجھتے ہوئے چراغ کی لو میں جو درد ہے

 

اظہرؔ جو قتل ہو گیا وہ بھائی تھا مگر

قاتل بھی میرے اپنے قبیلے کا فرد ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جب تک سفید آندھی کے جھونکے چلے نہ تھے

اتنے گھنے درختوں سے پتے گرے نہ تھے

 

اظہار پر تو پہلے بھی پابندیاں نہ تھیں

لیکن بڑوں کے سامنے ہم بولتے نہ تھے

 

ان کے بھی اپنے خواب تھے اپنی ضرورتیں

ہم سائے کا مگر وہ گلا کاٹتے نہ تھے

 

پہلے بھی لوگ ملتے تھے لیکن تعلقات

انگڑائی کی طرح تو کبھی ٹوٹتے نہ تھے

 

پکے گھروں نے نیند بھی آنکھوں کی چھین لی

کچے گھروں میں رات کو ہم جاگتے نہ تھے

 

رہتے تھے داستانوں کے ماحول میں مگر

کیا لوگ تھے کہ جھوٹ کبھی بولتے نہ تھے

 

اظہر وہ مکتبوں کے پڑھے معتبر تھے لوگ

بیساکھیوں پہ صرف سند کی کھڑے نہ تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کبھی قریب کبھی دور ہو کے روتے ہیں

محبتوں کے بھی موسم عجیب ہوتے ہیں

 

ذہانتوں کو کہاں وقت خوں بہانے کا

ہمارے شہر میں کردار قتل ہوتے ہیں

 

فضا میں ہم ہی بناتے ہیں آگ کے منظر

سمندروں میں ہمیں کشتیاں ڈبوتے ہیں

 

پلٹ چلیں کہ غلط آ گئے ہمیں شائد

رئیس لوگوں سے ملنے کے وقت ہوتے ہیں

 

میں اس دیار میں ہوں بے سکون برسوں سے

جہاں سکون سے اجداد میرے سوتے ہیں

 

گزار دیتے ہیں عمریں خلوص کی خاطر

پرانے لوگ بھی اظہر عجیب ہوتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خط اس کے اپنے ہاتھ کا آتا نہیں کوئی

کیا حادثہ ہوا ہے بتاتا نہیں کوئی

 

گڑیا جوان کیا ہوئی میرے پڑوس کی

آنچل میں جگنوؤں کو چھپاتا نہیں کوئی

 

جب سے بتا دیا ہے نجومی نے میرا نام

اپنی ہتھیلیوں کو دکھاتا نہیں کوئی

 

کچھ اتنی تیز دھوپ نئے موسموں کی ہے

بیتی ہوئی رتوں کو بھلاتا نہیں کوئی

 

دیکھا ہے جب سے خود کو مجھے دیکھتے ہوئے

آئینہ سامنے سے ہٹاتا نہیں کوئی

 

اظہرؔ یہاں ہے اب مرے گھر کا اکیلا پن

سورج اگر نہ ہو تو جگاتا نہیں کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کتابیں جب کوئی پڑھتا نہیں تھا

فضا میں شور بھی اتنا نہیں تھا

 

عجب سنجیدگی تھی شہر بھر میں

کہ پاگل بھی کوئی ہنستا نہیں تھا

 

بڑی معصوم سی اپنائیت تھی

وہ مجھ سے روز جب ملتا نہیں تھا

 

جوانوں میں تصادم کیسے رکتا

قبیلے میں کوئی بوڑھا نہیں تھا

 

پرانے عہد میں بھی دشمنی تھی

مگر ماحول زہریلا نہیں تھا

 

سبھی کچھ تھا غزل میں اس کی اظہر

بس اک لہجہ میرے جیسا نہیں تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کچھ عارضی اجالے بچائے ہوئے ہیں لوگ

مٹھی میں جگنوؤں کو چھپائے ہوئے ہیں لوگ

 

اس شخص کو تو قتل ہوئے دیر ہو گئی

اب کس لئے یہ بھیڑ لگائے ہوئے ہیں لوگ

 

برسوں پرانے درد نہ اٹھکھیلیاں کریں

اب تو نئے غموں کے ستائے ہوئے ہیں لوگ

 

آنکھیں اجڑ چکی ہیں مگر رنگ رنگ کے

خوابوں کی اب بھی فصل لگائے ہوئے ہیں لوگ

 

کیا رہ گیا ہے شہر میں کھنڈرات کے سوا

کیا دیکھنے کو اب یہاں آئے ہوئے ہیں لوگ

 

کچھ دن سے بے دماغیِ اظہر ہے رنگ پر

بستی میں اس کو میر بنائے ہوئے ہیں لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کیا کیا نواح چشم کی رعنائیاں گئیں

موسم گیا گلاب گئے تتلیاں گئیں

 

جھوٹی سیاہیوں سے ہیں شجرے لکھے ہوئے

اب کے حسب نسب کی بھی سچائیاں گئیں

 

کس ذہن سے یہ سارے محاذوں پہ جنگ تھی

کیا فتح ہو گیا کہ صف آرائیاں گئیں

 

کرنے کو روشنی کے تعاقب کا تجربہ

کچھ دور میرے ساتھ بھی پرچھائیاں گئیں

 

آگے تو بے چراغ گھروں کا ہے سلسلہ

میرے یہاں سے جانے کہاں آندھیاں گئیں

 

اظہرؔ مری غزل کے سبب اب کے شہر میں

کتنی نئی پرانی شناسائیاں گئیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں سمندر تھا مجھے چین سے رہنے نہ دیا

خامشی سے کبھی دریاؤں نے بہنے نہ دیا

 

اپنے بچپن میں جسے سن کے میں سو جاتا تھا

میرے بچوں نے وہ قصہ مجھے کہنے نہ دیا

 

کچھ طبیعت میں تھی آوارہ مزاجی شامل

کچھ بزرگوں نے بھی گھر میں مجھے رہنے نہ دیا

 

سر بلندی نے میری شہر شکستہ میں کبھی

کسی دیوار کو سر پر میرے ڈھہنے نہ دیا

 

یہ الگ بات کہ میں نوح نہیں تھا لیکن

میں نے کشتی کو غلط سمت میں بہنے نہ دیا

 

بعد میرے وہی سردار قبیلہ تھا مگر

بز دلی نے اسے اک وار بھی سہنے نہ دیا

٭٭٭

 

 

 

 

میسر ہو جو لمحہ دیکھنے کو

کتابوں میں ہے کیا کیا دیکھنے کو

 

ہزاروں قد آدم آئینے ہیں

مگر ترسو گے چہرہ دیکھنے کو

 

ابھی ہیں کچھ پرانی یادگاریں

تم آنا شہر میرا دیکھنے کو

 

پھر اس کے بعد تھا خاموش پانی

کہ لوگ آئے تھے دریا دیکھنے کو

 

ہوا سے ہی کھلا کرتا تھا اکثر

مجھے بھی اک دریچہ دیکھنے کو

 

قیامت کا ہے سناٹا فضا میں

نہیں کوئی پرندہ دیکھنے کو

 

ابھی کچھ پھول ہیں شاخوں پہ اظہرؔ

مجھے کانٹوں میں الجھا دیکھنے کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ تڑپ جائے اشارہ کوئی ایسا دینا

اس کو خط لکھنا تو میرا بھی حوالہ دینا

 

اپنی تصویر بناؤ گے تو ہوگا احساس

کتنا دشوار ہے خود کو کوئی چہرہ دینا

 

اس قیامت کی جب اس شخص کو آنکھیں دی ہیں

اے خدا خواب بھی دینا تو سنہرا دینا

 

اپنی تعریف تو محبوب کی کمزوری ہے

اب کے ملنا تو اسے ایک قصیدہ دینا

 

ہے یہی رسم بڑے شہروں میں وقت رخصت

ہاتھ کافی ہے ہوا میں یہاں لہرا دینا

 

ان کو کیا قلعے کے اندر کی فضاؤں کا پتہ

یہ نگہ بان ہیں ان کو تو ہے پہرہ دینا

 

پتے پتے پہ نئی رت کے یہ لکھ دیں اظہر

دھوپ میں جلتے ہوئے جسموں کو سایہ دینا

٭٭٭

 

ماخذ: کوتا کوش ڈاٹ آرگ

ہندی سے رسم الخط کی تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید