FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

حیات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: صلحِ حدیبیہ سے وفات ابراہیمؓ تک

 

 

حیات محمدﷺ حصہ دوئم کے کچھ باب

 

                محمد حسین ہیکل

 

 

 

 

حدیبیہ

 

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء کو مکہ سے ہجرت کئے ہوئے چھ سال گزر گئے۔ اس مدت میں وہ خود دشمنوں کی مدافعت کی وجہ سے مسلسل جنگوں میں مصروف رہے۔ کبھی قریش کے حملوں سے خود کو محفوظ رکھنے میں منہمک اور گاہے یہود کی ریشہ دوانیوں سے نجات حاصل کرنے کی فکر! لیکن مسلمانوں کی ان پریشانیوں کے باوجود اسلام ہر طرف پھیلتا گیا اور اس کے حامیوں میں قوت و استقلال بڑھتا گیا۔

ہجرت کے پہلے سال نمازوں میں مسجد اقصی واقع (در بیت المقدس) کی بجائے مسجد الحرام کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا، یعنی مسلمانوں نے اس کعبہ کو قبلہ نماز بنا لیا جو مکہ میں ہے اور جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر فرمایا۔ ان کے بعد وقتاً فوقتاً اس کی مزید تعمیر ہوتی رہی۔ اس کی تعمیر میں جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بدو شباب میں حصہ لیا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کے حجر اسود کو اپنے ہاتھ سے اس کے محل نصب میں رکھا۔ یہ اس دور کا تذکرہ ہے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے عطیہ رسالت کی توقع تھی نہ آپ کے متعلق کسی اور کے ذہن میں یہ امید کہ آپ رسالت پر فائز ہونے والے ہیں۔

مسجد الحرام (کعبہ) اہل عرب کی عبادت گاہ تھی، جس میں اد ب والے چار مہینوں میں زائرین آتے۔ تقدیس کا یہ عالم کہ اس میں داخل ہو جانا خود کو دشمن کے حملہ سے محفوظ کر لینا تھا۔ اس کے جواز میں بھی کسی پر وار کرنے کی جرأت نہ کی جاتی (زخمی کرنا یا جان سے مارنا تو بڑی بات ہے) یہ تقدیس صدیوں سے اسی طرح چلی آ رہی تھی۔

لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے مکہ سے ہجرت کی اہل مکہ نے ان کے بیت اللہ میں داخل نہ ہونے پر قسم کھا لی۔

 

مامن کی تعریف

اہل مکہ کے اس رویہ پر ہجرت نبویؐ کے پہلے سال یہ آیتیں نازل ہوئیں۔

1۔ یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ قل قتال فیہ کبیر وصد عن سبیل اللہ وکفر بہ والمسجد الحرام واخراج اہلہ منہ اکبر عندا اللہ الخ (217:2)

اے پیغمبر! لوگ تم سے پوچھتے ہیں جو مہینہ حرمت کا سمجھا جاتا ہے اس میں لڑائی کرنا کیسا ہے؟ ان سے کہہ دو، اس میں لڑائی کرنا بڑی برائی کی بات ہے مگر (ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھو کہ) انسان کو اللہ کی راہ سے روکنا (یعنی ایمان اور خدا پرستی کی راہ اس پر بند کر دینی) اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام میں نہ جانے دینا، نیز مکہ سے وہاں کے رہنے والوں کو نکال دینا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برائی ہے۔

2۔ اور غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی۔

وما لھم الا یعذبھم اللہ وھم یصدون عن المسجد الحرام وما کانوا اولیاء ان اولیا وہ الا المتقون ولکن اکثرھم لا یعلمون (34-8)

اور اب (کہ تم مکہ سے ہجرت کر کے چلے آئے) تو ان (کفار مکہ) کو کیا استحقاق رہا کہ یہ تو مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے) سے (مسلمانوں کو) روکیں اور خدا ان کو عذاب نہ دے۔ حالانکہ یہ گو اس کے متولی ہونے کے مدعی ہیں مگر (انصافاً) اس کے مستحق نہیں اس کے مستحق تو بس پرہیز گار لوگ ہیں۔ لیکن ان (کافروں ) میں سے اکثر اس بات کو نہیں سمجھتے۔

وما کان صلاتھم عند البیت الا مکاء و تصدیۃ فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون (35-8)

اور خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا ان کی نماز ہی کیا تھی تو (اے کافرو!) جیسا تم کفر کرتے رہے ہو اب اس کے بدلے عذاب (کے مزے) چکھو۔

ان الذین کفروا ینفقون اموالھم لیصدوا عن سبیل اللہ فسینفقونھا ثم تکون علیھم حسرۃ ثم یغلبون والذین کفروا الی جھنم یحشرون (36:8)

اس میں شک نہیں کہ یہ کافر اپنے مال (اس لئے) خرچ کرتے رہتے ہیں تاکہ (لوگوں کو) راہ خدا سے روکیں۔ سو (یہ لوگ تو) مال کو (اسی طرح پر) خرچ کرتے ہی رہیں گے۔ مگر پھر (آخر کار وہی مال) ان کے حق میں موجب حسرت ہو گا۔ (خرچ بھی کریں اور) پھر مغلوب بھی ہوں گے اور قیامت کے دن کافر (سب) جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے۔

اس قسم کی بے شمار آیات ہجرت سے چھ سال بعد کے زمانہ تک نازل ہوئیں ، جن میں کعبہ کی مرجعیت اور اس کے مامن ہونے کا بیان تھا، مثلاً:

واذ جعلنا البیت مثابہ للناس وامنا (125:2)

اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے (مکہ کے) اسی گھر کو(یعنی کعبہ کو) انسانوں کی گرد آوری کا مرکز اور امن و حرمت کا مقام ٹھہرا دیا۔

قریش تل ہی گئے کہ جب تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب جو ہبل و اساف و نائلہ اور دوسرے دوسرے بتان کعبہ کی خداوندی کے منکر ہیں ، ان کے اور اپنے اسلاف کے خداؤں کو نہ مانیں ، ان کے ساتھ جنگ کرنا فرض اور انہیں کعبہ میں آنے سے روکنا واجب ہے۔

مسلمان ان چھ سالوں میں کعبہ کی زیارت سے محروم اور اس دینی فریضہ کی ادائیگی سے قاصر تھے، جس سے ان کے آباء و اجداد ہمیشہ سے مستفیض رہے۔ خصوصاً مہاجرین بیت اللہ کے فراق کا صدمہ زیادہ محسوس کرتے، جس کے ساتھ انہیں مکہ کی جدائی کا الم بھی گھن کی طرح کھائے جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ انہیں وطن اور اپنے اہل و عیال سے بچھڑ جانے کا غم بھی چین نہ لینے دیتا۔

لیکن مہاجرین و انصار دونوں خدا کی نصرت کے امیدوار تھے کہ وہ ایک نہ ایک دن اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے تابع داروں کو کامیاب کرے گا اور اسلام کو ہر ایک دین پر غلبہ عنایت فرمائے گا۔ انہیں اس ساعت کے بہت جلدی آنے کا یقین تھا جس میں خداوند عالم ان پر مکہ کے دروازے کھول دے گا۔ وہ بیت اللہ العتیق!

ولیطوفو بالبیت العتیق(29:22)

کا طواف کریں گے اور دوسروں کی طرح انہیں بھی اس فریضہ کے ادا کرنے کا موقع نصیب ہو گا جسے اللہ نے تمام عالم پر فرض کر رکھا ہے۔

 

مسلمانوں کا اشتیاق طواف

کئی سال گزر گئے جن میں مسلمانوں کو جنگوں نے گھیرے رکھا۔ بدر کا معرکہ ختم ہوا تو احد کی ہولناکی مسلط کر دی گئی۔ اس کے بعد دفعتہً خندق (احزاب) میں مبتلا کر دئیے گئے۔ اسی طرح دوسری لڑائیوں نے انہیں چین نہ لینے دیا لیکن انہیں کعبہ کا طواف کرنے کا جو یقین تھا اس اشتیاق میں وہ ہمہ وقت چشم براہ تھے جس میں ان کے رہرو منزل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی مانند کعبہ کے مشتاق تھے۔ انہوں نے اپنے پیروؤں کو اس روز بشارت دی کہ یہ وقت اب قریب آ گیا ہے۔

 

کعبہ اور قریش

قریش نے اپنے جاہ و نخوت کی وجہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر کعبہ کا دروازہ اس طرح بند کر رکھا تھا۔ کہ مسلمان حج و عمرہ میں سے کوئی فریضہ ادا نہ کر سکتے۔ سوال یہ ہے کیا یہ بیت عتیق (29:22)یعنی کعبہ قریش کی ملکیت تھی؟ وہ تمام عرب کی یکساں ملک تھی۔ قریش تو اس کے صرف محافظ تھے۔ ان کے متعلق کعبہ کی کلید برداری یا حاجیوں کے پانی اور دعوت کی چاکری تھی اور ان کے یہ مناصب بھی کعبہ کے لئے آنے والوں کا صدقہ تھا۔

طرفہ یہ کہ اس کعبہ کے اندر ہر ایک قبیلہ کا بت علیحدہ علیحدہ نصب تھا اور کسی قبیلہ کو اپنے صنم کے سوا دوسروں کے بت سے واسطہ نہ تھا اور قریش مجاور کسی قبیلہ کو کعبہ کی زیارت و طواف اور دوسرے مراسم سے منع نہ کرتے۔

لیکن جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تو آپ نے عوام کو بت پرستی کی نجاست سے پاک کرنے کی مہم شروع کرتے ہوئے خدائے وحدہٗ لا شریک کی پرستاری کی دعوت دی، تاکہ انہیں انسانیت کا صحیح مرتبہ حاصل ہو اور دنیا میں اس قدر سربلند ہوں جس سے اوپر کسی رفعت و سربلندی کا امکان نہیں۔ رسول خدا نے انسان کو ایسے روحانی ارتقاء سے سرفراز کرنا چاہا جس سے یہ روحانیت وجود حقیقی تک رسائی حاصل کر سکے، ایسی توحید جس کے فرائض میں حج و عمرہ بھی شامل تھے، مگر قریش کی ستم رانی دیکھئے کہ انہوں نے اسلام کے پیروؤں کو اس فریضہ کی ادائیگی سے قطعاً روک دیا۔

قریش کو خطرہ تھا کہ اگر جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان کبھی کعبہ کی زیارت کے لئے آ ہی پہنچے تو ان کا آنا قریش کے حق میں اچھا نہ ہو گا۔ آخر تو وہ (مسلمان) اہل مکہ کے اقارب و احباب سے ہیں۔ جونہی ان کے چہروں پر نظر پڑے گی، جذبہ محبت موج زن ہو گا جس سے اہل مکہ کو بے حد دکھ ہو گا کہ ان کے بھائی بندوں کا اپنے اہل و اولاد سے یوں بچھڑے رہنا بڑا ظلم ہے۔ ممکن ہے کہ مسلمانوں کے ان بہی خواہوں اور ان کے ان جیسے دشمنوں میں خانہ جنگی ابھر آئے۔

اس کے سوا ان کے دلوں میں یہ خلش بھی تھی کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقاء نے ہمارے لئے شام کی تجارتی شاہراہ بھی تو بند کر رکھی ہے:

ان امور کی بناء پر قریش کے دل میں مسلمانوں کا کینہ اور دشمنی پوری طرح سما چکی تھی۔ ان کے ذہن میں کبھی یہ خیال نہ گزرتا کہ وہ کعبہ کے مالک نہیں بلکہ اس کے مجاور اور زائرین کے لئے پانی اور کھانا فراہم کرنے کے پابند ہیں۔

 

کعبہ اور مسلمان

مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کیے ہوئے چھ سال گزر گئے۔ وہ زیارت و طواف کے لئے سراپا اضطراب بنے ہوئے تھے ایک صبح کے وقت وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مژدہ

لتدخلن المسجد الحرام ان شاء اللہ امنین (27:48) 1؎

سنایا تو مسلمانوں نے بآواز بلند خدا کا شکر الحمد للہ پکارا۔ یہ خوشخبری بجلی کی سرعت کے ساتھ آنا فاناً مدینہ میں پھیل گئی۔

لیکن ہر مسلمان حیران تھا کہ وہ کس طرح بیت اللہ میں داخل ہوں گے۔ کیا جنگ کے ذریعے سے یا حملہ کر کے قریش کو مکہ سے نکال کر یا قریش اطاعت گزارانہ طریق سے ان سے معترض نہ ہوں گے؟ مگر حقیقت یہ تھی کہ مسلمان جنگ یا حملہ کے بغیر مکہ میں داخل ہوں گے؟

 

عمرۂ بیت اللہ کے لئے عام منادی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں منادی کرا دی اور غیر مسلم حلیف قبائل کی طرف وفود بھیجے کہ وہ بھی آپ کے ہمراہ زیارت کعبہ کے لئے چلیں مگر جنگ کا ارادہ کر کے کوئی شخص گھر سے نہ نکلے۔ البتہ مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد مطلوب تھی تاکہ عرب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ادب والے دنوں میں جنگ نہ کرنے کا ثبوت واضح ہو جائے اور انہیں یقین آ جائے کہ مسلمانوں کا مقصود صرف بیت اللہ کی زیارت ہے۔

اور یہ فریضہ جو اسلام نے ان پر عائد کیا تھا کچھ مسلمانوں ہی کے لئے خاص نہ تھا۔ اہل عرب بھی اسے فرضیت ہی کی صورت میں ادا کرتے۔ اس لئے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلم قبائل کو اپنے ہمراہ لے گئے۔

1؎ اور تم مسلمان مسجد حرام میں بے خوف و خطر باطمینان (تمام) داخل ہو گے۔

ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے مد نظر یہ امر بھی تھا کہ اس پر بھی اہل مکہ نے اگر مقابلہ سے ان کا استقبال کیا  بلکہ انہیں یقین ہو جائے گا کہ اہل مکہ لوگوں پر کعبہ کی زیارت کا دروازہ بند کر کے انہیں اسماعیلی دین اور ملت ابراہیمی سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اگر قریش نے ایسا ہی کیا تو آئندہ وہ مسلمانوں کے خلاف کبھی خندق کا سا عام بلوہ نہ کرا سکیں گے۔ ایسی حالت میں عرب انہیں برملا کہہ دیں گے کہ اہل مکہ نے ان لوگوں کو بھی کعبہ کی زیارت سے روک دیا ہے جن کی تلواریں نیام میں تھیں احرام باندھے ہوئے قربانی کے جانوروں کے آگے چل رہے تھے یہ غریب تو صرف طواف بیت اللہ کی فرضیت سے سبکدوش ہونے کے لئے آئے تھے۔

 

غیر مسلم قبائل کی کنارہ کشی

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی منادی میں غیر مسلم قبائل میں سے بہت تھوڑی تعداد میں نکلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر آغاز ذیقعد میں شروع ہوا (یہ مہینہ بھی ادب والے چار مہینوں کا ایک جز ہے) اپنے ناقہ (قصواء نام) پر سوار مشایعت میں چودہ سو مسلمان زائرین، جن میں مہاجر و انصار دونوں طبقے تھے اور کچھ غیر مسلم قبائلی۔ مسلمانوں کے ہمراہ قربانی کے لئے ستر اونٹ تھے۔ جن میں ابوجہل کی سواری کا وہ شتر بھی تھا جو غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ ذوالحلیفہ 1؎ آ کر عمرہ کی نیت سے احرام باندھا۔ فضاء تلبیہ اللھم لبیک کی آواز سے گونج اٹھی۔ زائرین نے سر کے بالوں کی مینڈھیاں گوندھ لیں ، مسلمانوں کے پاس صرف تلواریں تھیں وہ بھی نیام میں اور تلوار باندھنا عرب کا عام دستور ہی تھا۔ ازواج مطہرات میں حضرت ام سلمہؓ اس سفر میں ہم رکاب تھیں۔

 

قریش کی پیش بندی

اہل مکہ نے خبر سنتے ہی معاملہ کے ہر پہلو پر غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان کا حریف اس تدبیر (عمرہ) سے مکہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ گویا وہ ان سے مدینہ پر حملہ کرنے کا انتقام لینے آ رہا ہے وہ جس میں کامیاب ہو جائے گا مگر انہیں وہاں سے ناکام واپس لوٹنا پڑا۔ آج وہ ان کے شہر پر اس حیلہ سے قابض ہونے کے لئے ان کے سر پر آ پہنچا ہے۔

اہل مکہ کے ذہن میں مسلمانوں کا احرام باندھے ہوئے عمرہ کی نیت سے آنا اور تمام عرب میں یہ اعلان کر دینا کہ وہ دینی فریضہ ادا کرنے کے لئے مکہ جا رہے ہیں ، قطعاً اثر انداز نہ ہو سکا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیارت و طواف سے روکنے کا مصمم ارادہ کر لیا، اگرچہ اس کی کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔ قریش نے دو سو جاں بازوں کا لشکر خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابوجہل کی سپہ سالاری میں بھیجا جس نے مقام ذی طویٰ پر مسلمانوں کی ناکہ بندی کر کے راستہ روک دیا۔

1؎ مدینہ سے پانچ چھ میل پر ایک مقام کا نام اور یہ اہل مدینہ کا میقات ہے۔ م

 

دونوں لشکروں کی اطلاع

ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مقام عسفان (مکہ سے دو منزل) پر آ پہنچے تو بنو کعب کا ایک شخص ادھر سے آ رہا تھا۔ رہ گزر سے قریش کے متعلق دریافت کیا۔ اس نے کہا اہل مکہ آپ کے ادھر آنے کی خبر سنتے ہی طیش میں آ گئے۔ اب ان کا لشکر (مقام) ذی طویٰ میں ہے۔ ان میں سے ایک ایک لشکری نے قسم کھائی ہے کہ آپ لوگوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ خالد بن ولید انہیں (مقام) کراع الغمیم تک لے پہنچا ہے۔ (یہ مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑاؤ عسفان سے آٹھ میل کی مسافت پر تھا) یہ داستان سننے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یاویح قریش! لقد اھلکتم الحرب ماذا علیھم وخلوا بینی وبین سائر العرب فان ھم اصابونی کان ذلک الذی ارادوا وان اظھر فی اللہ علیھم دخلوا فی الاسلام واخرین۔ وان لم یفعلو قاتلوا وبھم قوۃ فماتظن قریش! فو اللہ! لا ازال اجاھد علی الذی بعثنی اللہ بہ حتیٰ یظھرہ اللہ او تنفرد ھذہ السالفۃ

وائے بر حال قریش!وہ جنگوں سے برباد ہو گئے مگر پھر بھی نہ سمجھے۔ آج اگر وہ مسلمانوں اور عرب زائرین کو طواف و زیارت سے نہ روکتے (تو ان کا کیا بگڑتا!) پیش نظر صورت حال میں اگر وہ مجھ پر غالب آ گئے تو انہیں بڑی خوشی ہو گی اور اگر مجھے ان پر اللہ نے غالب کر دیا تو وہ جوق در جوق اسلام قبول کر لیں گے۔ اگر انہوں نے جنگ شروع کر دی، جس کی ان میں قوت ہے ہی کہ وہ گھروں سے اسی نیت سے نکلے ہیں (اور مسلمان صرف طواف و زیارت کے لئے:م) مگر میرے متعلق کس مغالطہ میں ہیں ! بخدا میں اسلام کو قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ ہمیشہ جہاد کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ اللہ اسلام کو غالب کرے یا دست اجل مجھ پر اپنا قبضہ کر لے۔

اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکر میں ڈوب گئے، کیوں کہ آپ مدینہ میں جہاد کے لئے مسلح ہو کر نکلنے کے بجائے، طواف بیت اللہ کی نیت سے احترام باندھ کر نکلے تھے تاکہ وہ فریضہ ادا کریں جو خدا نے اپنے تمام بندوں پر عائد کر رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال بھی گزرا کہ اگر قریش غالب آ گئے تو فخر کے مارے ان کا دماغ کہیں سے کہیں پہنچ جائے گا۔ اور یہ خیال بھی گزرا کہ خالد اور عکرمہ کو انہوں نے اس اطلاع پر بھیجا ہو گا کہ مسلمان جہاد کے ارادہ سے نہیں آئے، اس لئے ان پر فتح حاصل کرنا آسان ہے۔

 

لشکر قریش کا سامنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح طلبی

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم انہی تفکرات میں محو تھے کہ دور سے اہل مکہ کا لشکر آتا ہوا دکھائی دیا۔ طور طریقوں سے معلوم ہوتا تھا کہ اگر مسلمانوں نے مکہ میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو انہیں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں قریش اپنے جاہ و شرف اور وطن میں سے ایک ایک کے تحفظ پر سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے طلب گار نہ تھے۔ لیکن اگر آپ کو مقابلہ کرنا ہی پڑا تو یہ قریش کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجبور کرنا ہو گا، لیکن عرب کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملزم ثابت کرنے کا موقعہ مل جائے گا۔ اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں پر پورا اطمینان تھا کہ آپ کے رفقاء قریش کی سی حمیت کی بجائے خود پر سے ظلم دور کرنے کے لئے اپنی شمشیریں نیام سے نکال کر دشمنوں سے محفوظ ہو جائیں گے۔ ان تصورات میں یہ خیال گزرتا کہ لڑائی درپیش آنے کی صورت میں مسلمانوں کا مقصد بھی فوت ہو جائے گا اور قریش کو بھی یہ بہانہ مل جائے گا کہ مسلمان حرمت والے دنوں میں جنگ کرنے کے لئے چڑھ آئے۔ اس لئے جنگ نہ صرف مسلمانوں کے نظریہ کے خلاف ہو گی بلکہ ان کے لئے باعث تکلیف اور سیاست کے بھی منافی ہو گی۔ اپنے رفقاء سے فرمایا جو شخص وادی کی راہوں سے واقف ہو ہماری رہنمائی کرے یعنی جس راہ سے دشمن کا لشکر آ رہا ہے اس سے علیحدہ کوئی پگڈنڈی مل جائے تاکہ جنگ سے بچا جائے کہ مقصود جنگ کرنا نہیں بلکہ طواف اور زیارت کعبہ ہے۔ کیوں کہ مدینہ ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر پر امن طریق پر طواف و زیارت کعبہ تھا۔

پہاڑیوں سے نکل کر جونہی ذرا کشادہ راستہ ملا دائیں سمت مڑ کر اس مقام سے قریب ہو کر گزرے جو ثنیۃ  المرار یعنی لشکر کی فرودگاہ حدیبیہ کے نام سے مشہور اور مکہ کے قریب ہی ہے۔

ادھر قریش کے لشکر نے دیکھا کہ مسلمان عام راہ چھوڑ کر اس راستے پر پڑ گئے ہیں جو مکہ کی طرف جاتا ہے۔ ان کے دل میں ہول بیٹھ گیا کہ مبادا مکہ پر حملہ کر دیں۔ کفار اسی جگہ سے مسلمانوں کا حملہ بچانے کے لئے مکہ واپس لوٹ گئے۔

مسلمان حدیبیہ میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ناقہ (قصواء) خود بخود بیٹھ گیا۔ مسلمانوں نے سمجھا وہ تھک گیا ہے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قصواء تکان سے نہیں بیٹھا اس کا بیٹھ جانا اسی قوت کا کرشمہ ہے جس نے ابرہہ کے ہاتھیوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک لیا تھا پھر فرمایا آج اہل مکہ انسانیت کی بھلائی کے لئے مجھ سے جس شرط کا مطالبہ کریں گے میں اسے تسلیم کر لوں گا اور اپنے ساتھیوں کو پڑاؤ کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ مسلمانوں نے اس جگہ پانی نہ ملنے کی اطلاع عرض کی۔ اس پر (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے) اپنے ترکش سے تیر نکال کر ایک شخص کو دیا کہ اسے وادی کے کسی کنوئیں کی تہہ میں نصب کر دے۔ جونہی یہ تیر ایک کنوئیں کی تہہ میں نصب کیا گیا پانی جوش مار کر ابل پڑا اور لشکر سیراب ہو کر پینے کے بعد پڑاؤ کے لئے اتر پڑا۔

ادھر مسلمانوں نے حدیبیہ میں پڑاؤ ڈال لیا ادھر قریش اس ضغطے میں پڑ گئے کہ اگر جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں داخل ہونے کا قصد کیا تو انہیں جان پر کھیل جانے کے بغیر چارہ نہ رہے گا۔ کیا اس موقعہ پر مسلمانوں کا مقابلہ کے لئے آمادہ ہونا مناسب تھا تاکہ آئے دن کے خرخشہ سے یکسوئی ہو جائے اور مقدرات الٰہی کی آخری آزمائش آج ہی کر لی جائے، جیسا کہ بعض مسلمانوں کا ارادہ بھی تھا۔

قریش اس حد تک تشویش میں مبتلا تھے کہ اگر مسلمان فتح منف ہو گئے تو وہ ملک میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔ کعبہ کی تولیف، کلید برداری اور دوسرے دینی مناصب سب کے سب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں چلے جائیں گے۔ آخر انہیں کون سی راہ اختیار کرنا چاہیے؟ دونوں فریق اسی انداز سے اپنی جگہ پر سوچ رہے تھے مگر دونوں کے مطمع نظر میں زمین اور آسمان کا فرق تھا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر وہ مقصد عظیم تھا جسے آپ مدینہ سے دل میں لے کر نکلے۔ عمرہ! جس کے لئے صلح و امن اور قتال سے اجتناب ضروری تھا۔ تاوقتیکہ قریش انہیں تلوار پکڑنے پر مجبور کر دیں۔

اور قریش کا مطمع نگاہ یہ تھا کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسے دیدہ ور آدمیوں کا وفد بھیجا جائے جو ایک طرف ان کی قوت کا جائزہ لے اور دوسری طرف انہیں طواف و زیارت کے بغیر لوٹ جانے کی تلقین کرے۔

 

حدیبیہ میں قریش کے قاصد

قریش نے یکے بعد دیگرے قاصدوں کے چار وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجے۔

پہلا وفد:

قبیلہ خزاعہ کے سربراہ بدیل بن ورقاء کے ہمراہ چند اشخاص پر مشتمل تھا انہیں گفتگو سے ثابت ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی نہیں کرنا چاہتے۔ مسلمان کے آنے کا مقصد زیارت و طواف کعبہ ہے۔ بدیل نے جو کچھ دیکھا اور سنا، واپس لوٹ کر اہل مکہ کو وہی مشورہ دیا۔ کہ مسلمانوں کے لئے خدا کے گھر کی زیارت کا راستہ کھول دیں۔ لیکن قریش نے انہیں الٹا ملزم گردانا اور انہیں برملا سخت سست کہا: لڑائی کے لئے نہیں آئے نہ سہی، تب بھی وہ مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے، نہ ہم عرب کو یہ موقعہ دے سکتے ہیں کہ وہ ہماری کمزوری کی داستان بیان کرتے رہیں۔

دوسرا وفد:

جس کے سامنے وہی گفتگو ہوئی جو پہلے وفد کے ساتھ ہوئی تھی مگر واپس آنے کے بعد انہوں نے قریش کی تہمت تراشی کے خوف سے ادھر ادھر کی باتیں کر کے انہیں ٹال دیا۔

تیسرا وفد:

احابیش1؎ کا تھا۔ اب قریش نے ان کے سردار حلیس کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ مقصود یہ تھا کہ اگر (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حلیس کو ٹھکرا دیا تو یہ لوگ ان کی نصرت میں اور بھی پیش پیش ہوں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلیس کو شناخت کر لیا اور مسلمانوں سے فرمایا کہ قربانی کے جانوروں کو اس کے آگے کی طرف سے نکالا جائے۔ حلیس کے ذہن نشین یہ کرنا تھا کہ اہل مکہ جن لوگوں کا مقابلہ کرنے کی فکر میں مرے جا رہے ہیں ، وہ تو بیت اللہ کی تقدیس کی وجہ سے صرف حج عمرہ کے لئے آئے ہیں۔ حلیس نے یہ بھی دیکھا کہ قربانی کے ستر جانور بھوک کی شدت سے ایک دوسرے چوپائے کے بدن سے بال نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ حلیس مسلمانوں کی دیانتداری سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسے قریش کے ظلم اور ان لوگوں کی صلح جوئی کا یقین آ گیا۔

1؎ ان لوگوں کو احابیش یا تو سیاہ رنگ کی بناء پر کہتے تھے اور یا حبشی نامی پہاڑ کی طرف منسوب ہیں۔

وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کیے بغیر واپس لوٹ آیا مگر پہلے دو وفود کی طرح اس کی باتوں سے بھی قریش نے چراغ پا ہو کر اسے کہا خاموش! آخر تم بدو ہی نکلے! تم ان باتوں کو کیا سمجھو۔

یہ سن کر یہ حلیس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس نے قریش سے کہا میں لوگوں کو کعبہ کی زیارت سے روکنے کے لئے تمہارا حلیف نہیں ہوں حلیس نے قریش سے یہ بھی کہا کہ احابیش میں سے کوئی شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو طواف سے روکنے کے لئے حائل نہ ہو گا حلیس کی اس دھمکی سے قریش کے بدن پ رر عشہ طاری ہو گیا۔ منت سماجت کر کے اتنی مہلت مانگی کہ اس معاملہ میں ذرا سوچ لینے دیجئے۔

چوتھا وفد:

اب قریش نے ایسا آدمی تجویز کرنے کا منصوبہ بنایا جو حکمت و دانائی میں سب سے بہتر ہو اور ان کی نظر عروہ بن مسعود ثقفی (طائفی) پر پڑی۔ پہلے وفد کی مذلت عروہ کے سامنے ہی ہوئی تھی۔ اس نے انکار کر دیا۔ لیکن قریش کے اطمینان دلانے پر وہ حدیبیہ میں چلا گیا۔

عروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مکہ آپ کا بھی وطن ہے۔ آج اگر آپ نے ان ملے جلے اور کم رتبہ 1؎ لوگوں کے ہاتھ سے اسے پامال کرا دیا تو قریش ہمیشہ کے لئے رسوا ہو جائیں گے اور ان کی رسوائی میں آپ بھی ملوث ہوں گے۔ قریش کے ساتھ آپ کی لڑائی ہوتی رہتی ہے لیکن ان کی یہ ذلت آپ کو بھی گوارا نہ ہونا چاہیے۔

ابوبکرؓ نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ عروہ اپنی حکمت عملی سے مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بد دل کرنا چاہتا ہے۔ عروہ سے برملا کہہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی کسی حالت میں آپ کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔

عرب کے عام دستور کے مطابق دوران گفتگو میں عروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک سے ہاتھ لگا لگا کر بات کر رہا تھا اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقب میں با ادب کھڑے تھے۔ وہ ہر مرتبہ عروہ کا ہاتھ جھٹک دیتے باوجودیکہ مغیرہؓ  کو عروہ بن مسعود کا یہ احسا ن فراموش نہ ہوا تھا کہ ایک مرتبہ اس نے مغیرہ کی طرف سے تیرہ مقتولوں کی دیت ادا کی تھی۔

عروہ قریش کے پاس لوٹے تو انہوں نے برملا کہہ دیا اے برادران قریش! میں نے کسریٰ و قیصر اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے دربار دیکھے۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سی عظمت کسی بادشاہ کی نہ دیکھی۔ اور تو اور ان کے ساتھی ان کے وضو کرنے پر پانی کے قطرے بھی زمین پر نہیں پڑنے دیتے! ان کا بال زمین سے اٹھا کر کسی قیمت پر دوسروں کو دینا گوارا نہیں ! میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ لوگ اپنی رائے پر نظر ثانی کریں۔

1؎ مولف نے یہاں لفظ اوشاب لکھا ہے اور اسی رعایت سے ہم نے ترجمہ بھی کیا اور ابن ہشام کے نسخہ میں اوباش بھی ہے۔ ابن القیم نے بھی زاد المعاد میں اوشاب کو ترجیح دی ہے:م

 

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قاصدوں کی روانگی

پہلے قاصد وفود قریش کی ناکامی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازہ فرمایا کہ قریش کی طرف سے آنے والے واپس لوٹ کر انہیں پوری کیفیت سے آگاہ نہیں کرتے۔ تب خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جانب سے ایک صاحب کو مکہ بھیجا، مگر قریش نے انہیں دیکھتے ہی پہلے تو ان کی سواری کا اونٹ ہلاک کر دیا، پھر انہیں نرغہ میں لے لیا (ان کا نام خراش بن امیہ الخزاعی ہے:م)لیکن احابیش نے مداخلت کر کے ان کی جان بچا دی۔

اہل مکہ نے اپنے اس رویہ سے ثابت کر دیا کہ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے متعلق بغض و کینہ بھرا ہوا ہے۔ ان کی روش دیکھ کر بعض مسلمان قتال کے متعلق سوچنے لگے۔

 

قریش کا حدیبیہ پر حملہ

اسی وقفہ میں شب کے وقت قریش کے چالیس یا پچاس نوجوان نکلے۔ پہلے انہوں نے مسلمانوں پر پتھراؤ کیا۔ اس کے بعد یک دم جھپٹ پڑے۔ لیکن سب کے سب اسیر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا؟ تمام مجرموں کو رہا کر دیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا تو صلح و مصالحت تھا اور ادب والے دنوں (ماہ ذیقعد) کا احترام، اور حدیبیہ جو حرم بیت اللہ میں واقع ہونے کی وجہ سے محترم تھا، اس کا وقار مطلوب! قریش اپنے آدمیوں کی اسیری اور رہائی سے بے حد نادم ہوئے۔ انہیں یقین ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے ارادہ سے تشریف نہیں لائے۔ قریش نے یہ بھی محسوس کیا کہ اگر مسلمانوں پر زیادتی کی گئی تو عرب انہیں طعنہ دیں گے اور یقین کر لیں گے کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کے ساتھ جو سلوک بھی کریں انہیں اس کا حق پہنچتا ہے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا قاصد

قریش کو ایک اور موقعہ دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا قاصد بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے حضرت عمرؓ سے فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! قریش مجھ پر جس قدر برہم ہیں آپ سے پوشیدہ نہیں اور میں بھی ان کے حق میں بہتر نہیں ہوں۔ مکہ میں میرے خاندان بنی عدی میں سے بھی کوئی نہیں۔ اگر آپ عثمانؓ (بن عفان) کو بھیج دیں تو مناسب ہو گا۔ اہل مکہ ان کی بے حد تعظیم کرتے ہیں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے (خویش) عثمانؓ کو طلب فرما کر انہیں ابوسفیان و سادات عرب کے ساتھ گفتگو کے لئے مکہ روانہ فرمایا۔ مکہ میں سب سے پہلے ابان بن سعید سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ابان نے ان کے قیام مکہ تک از خود اپنی ضمانت میں لے لیا۔ جب حضرت عثمانؓ نے قریش کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیام پیش کیا تو انہوں نے کہا اے عثمانؓ! اگر آپ چاہتے ہوں تو بیت اللہ کا طواف کر لیجئے۔ مگر حضرت عثمانؓ نے کہا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طواف نہ کریں میں بھی نہیں کر سکتا۔ اے قریش! ہم لوگ بیت اللہ کی زیارت کے لئے آئے ہیں ، جس کی تعظیم ہمارے دین میں داخل ہے۔ عمرہ کے معمولات ادا کرنا مقصود ہے اور قربانی کے جانور ہمارے ہمراہ ہیں۔ یہ رسوم ادا کر کے ہم واپس چلے جائیں گے۔

 

قریش کا جواب

مگر ہم نے قسم کھا لی ہے کہ اس سا ل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ گفتگو کا دامن وسیع ہوتا گیا، جس سے حضرت عثمانؓ کا قیام طول پکڑ گیا۔ اس تاخیر سے مسلمانوں میں عثمانؓ کے قتل کی افواہ پھیل گئی لیکن۔ قطع نظر اس کے شاید وہ لوگ حضرت عثمانؓ کے ساتھ اپنی اس قسم کا ایسا حل تلاش کر رہے ہوں ، جس سے قسم اپنی جگہ قائم رہے اور مسلمان بھی زیارت و طواف کر سکیں اور یہ کہ حضرت عثمانؓ کی وساطت سے قریش اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات خوشگوار ہو سکیں۔

 

بیعۃ الرضوان

مسلمان حضرت عثمانؓ کے متعلق اس خبر سے بے حد مضطرب تھے کہ اہل مکہ نے عرب کی روش کے خلاف ادب والے دنوں اور کعبہ کے اندر قتل کرنے میں بھی تامل نہیں کیا۔ مسلمانوں میں سے ایک ایک متنفس نے خون عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لیے تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بیٹھ سا گیا کہ اہل مکہ نے عثمانؓ کو ادب والے مہینے سے قتل کر دیا۔ فرمایا

لا نبرح حتی نناجز القوم

(میں ان سے جنگ کیے بغیر یہاں سے قدم پیچھے نہ ہٹاؤں گا)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ بیعت (جہاد) کی دعوت فرمائی۔ ایک ایک مسلمان نے بیعت کی کہ وہ موت کو فرار پر ترجیح دے گا۔ پورے استقلال و استقامت کے ساتھ بیعت ہوئی۔ جن لوگوں نے قاصد کو ادب والے زمانہ میں قتل کر دیا، یہ بیعت ان کے خلاف دلوں میں جوش انتقام لئے ہوئے تھی جس کا تذکرہ قرآن کے ان لفظوں میں ارشاد ہوا:

لقد رضی اللہ عن المومنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ فعلم ما فی قلوبھم فانزل السکینۃ علیھم واثابھم فتحا قریباً (18:48)

(اے پیغمبر!) جب مسلمان(ایک کیکر کے) درخت تلے تمہارے ہاتھ پر (لڑنے مرنے کی) بیعت کر رہے تھے خدا (یہ حال دیکھ کر ضرور) ان مسلمانوں سے خوش ہوا اور اس نے ان کی دلی عقیدت کو جان لیا اور ان کو اطمینان (قلب) عنایت کیا اور اس کے بدلے میں ان کو قریب کی فتح دی۔

جب تمام مسلمان بیعت کر چکے تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست راست اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا ھذا ید عثمانؓ  (یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے!) اسی طرح اپنے دوسرے قاصد کی طرف سے تکمیل بیعت فرمائی اور بیعت کے بعد مسلمانوں نے اپنی تلواریں نیام سے باہر نکال لیں۔ اب نہ انہیں مقاتلہ میں شک تھا نہ اس میں شبہ کہ ذرا دیر بعد ہماری فتح ہو گی یا جام شہادت نصیب ہو گا جس کے لئے ان کی روح شاداں و فرحاں منتظر تھی تاکہ اپنے رب کے حضور

یایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ(28-27:89) 1؎

پیش ہوں جس کے لئے ان کے قلوب اطمینان و سکینہ کا خزانہ بنے ہوئے تھے۔

1؎ روح مطمئن اپنے پروردگار کی طرف چل! تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی!

اتنے ہی میں حضرت عثمانؓ کے متعلق خیریت کی ا طلاق آ گئی جس سے ذرا دیر بعد ممدوح بھی تشریف لے آئے۔ لیکن بیعۃ  الرضوان کے ثمرات آج سے کئی سال قبل عقبۃ الکبریٰ کی بیت کی سی کیفیت کی طرح پر بہار رہے۔ خود رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بیعۃ الرضوان کے اثرات میں گونہ کیف و سرور رہا۔ جب اس کا تصور فرماتے، اپنے صحابہ کی فدا کاری کا نقشہ ذہن میں مرتسم ہو جاتا اور ظاہر ہے کہ جو شخص موت سے نہیں گھبراتا خود موت اس کے نام سے لرزتی ہے۔ کامیابی ایسے ہی لوگوں کے لئے چشم براہ رہتی ہے۔

حضرت عثمانؓ نے قریش کی داستان ان لفظوں میں عرض کی اب انہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء کے تشریف لانے کا مقصد معلوم ہو گیا ہے۔ وہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ آئندہ سے انہیں حرمت والے دنوں میں حج و عمرہ کے لئے (مکہ) آنے والوں کے روکنے کا کوئی حق نہ ہو گا۔

لیکن اسی وقفہ میں خالد بن ولید ایک دستہ اپنے ہمراہ لے کر مسلمانوں پر پل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے فریقین میں جھڑپ ہو گئی۔ کیوں کہ اہل مکہ کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہو چکا تھا کہ اگر مسلمان طواف کے لئے کعبہ میں داخل ہو گئے تو ملک میں ان کی سبکی ہو گی اور عرب کے باشندے انہیں طعنہ دیں گے کہ اہل مکہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں بھاگ نکلے۔ قریش چاہتے تھے کہ اس سال مسلمان مکہ میں نہ آئیں ، جس پر وہ کئی طریقوں سے سوچ رہے تھے کہ اگر مسلمان اس اقدام سے باز نہ آئیں ، تو انہیں طوعاً و کرہاً ان سے جنگ کرنا پڑے گی۔ قریش دو گونہ کشمکش میں مبتلا تھے۔ ادب والے دنوں میں جنگ کرنے سے بھی انہیں گریز تھا اور یہ خطرہ بھی تھا کہ اگر ان کی طرف سے ان دنوں کے احترام میں لغزش ہوئی تو وہ قبائل جو ان مہینوں میں تجارت کے لئے مکہ میں آتے ہیں انہیں ادھر آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ رہے گی اور ان کے نہ آنے سے اہل مکہ کی معاشی زبوں حالی حد سے گزر جائے گی۔

 

پھر مذاکرات صلح کی تجدید

 

اہل مکہ کے پانچویں اور آخری وکیل

مذاکرات صلح پھر جاری ہوئے۔ اہل مکہ نے سہیل بن عمرو کو بھیجا (یہ ان کے پانچویں اور آخری قاصد تھے) اور انہیں تاکید کر دی کہ مسلمانوں کی طرف سے عمرہ کی شرط قبول نہ کی جائے ورنہ میں ملک میں ان کا منہ کالا ہو جائے گا شرائط صلح میں طوالت کی وجہ سے بارہا سلسلہ گفتگو میں انقطاع کا خطرہ پیدا ہو گیا لیکن فریقین کے باہمی جذبہ مسالمت سے پھر یہ رشتہ قائم ہو جاتا۔ اس مجلس میں جو مسلمان موجود تھے انہیں وکیل قریش (سہیل بن عمرو) کی شرائط صلح گوارا نہ تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کی شرائط تسلیم کر لیتے تو مسلمان کبیدہ خاطر ہو جاتے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب پر ان کا ایمان اور اعتماد نہ ہوتا تو مسلمان اس قسم کے یک طرفہ معاہدہ سے متفق ہونے والے نہ تھے۔ وہ عمرہ کر کے ہی رہتے۔ اس کے بعد جو ان کی قسمت میں ہوتا۔

 

حضرت عمرؓ اور ابوبکرؓ کا مکالمہ

وکیل قریش سہیل بن عمروؓ کے شرائط معاہدہ کی ناہمواری پر حضرت عمرؓ نے ابوبکرؓ سے یوں گلہ کیا:

عمرؓ: کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول نہیں ؟

ابوبکرؓ:بے شک آ پ خدا کے رسول ہیں۔

عمرؓ: ہم لوگوں کے مسلمان ہونے میں کوئی شک ہے؟

ابوبکرؓ: ہرگز نہیں۔

عمرؓ: ان شرائط میں اسلام کی توہین نہیں ؟

ابوبکرؓ: ضبط و تحمل سے کام لیجئے، میں تصدیق کرتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔

عمرؓ: اور میں بھی اس کا معترف ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں۔

عمرؓ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکالمہ:

حضرت عمرؓ اسی حالت انقباض میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور باریاب ہوئے۔ جس طرح ابوبکرؓ سے مکالمہ کیا تھا اسی انداز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کلام ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ضبط و عزیمت میں بھی کمی نہ دیکھی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری جملہ یہ تھا:

انا عبد اللہ ورسولہ لن اخالف امرہ ولن یضیعنی

میں خدا کا بندہ ہوں اور اس کے رسول ہوں ، مجھے اس کا حکم کی خلاف ورزی گوارا نہیں ، نہ وہ مجھے ضائع ہونے دے گا۔

 

عنوان معاہدہ کی تحریر

نفس شرائط یک طرف، تحریر معاہدہ کے دوران میں وکیل قریش کی بات بات پر قدغن سے مسلمانوں کا غم و غصہ اور زیادہ ہو گیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے تحریر کے لئے فرمایا کہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

لکھئے تو اہل مکہ کے وکیل نے کہا ہم لفظ رحمن و رحیم کے روا دار نہیں۔ اس کے بجائے باسمک اللھم لکھوایا جائے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علیؓ سے فرمایا ایسے ہی لکھ دیجئے۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے (لکھنے کے لئے) فرمایا

ھذا ما صالح علیہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و سہیل بن عمرو!

سہیل نے علیؓ سے کہا قلم روک لیجئے۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر بولے اگر ہم آپ کو رسول ہی مانتے تو ہماری آپ کی جنگ و جدال کیوں ہوتی رہتی، بلکہ صرف اپنا ناما ور ولدیت تحریر کرائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علیؓ سے

ھذا ما صالح علیہ محمد بن عبداللہ 1؎

لکھنے کے لئے فرمایا، اور اسی طرح لکھا گیا۔

1؎ یہ وہ معاہدہ ہے جو (حضرت) ابن عبداللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان قرار پایا۔

 

شرائط صلح

(اور صلح ان شرائط پر طے ہوئی جو تحریر میں لے آئی گئیں۔ )

1۔ فریقین ایک دوسرے کے خلاف دس سال تک جنگ نہ کریں گے (و اقدی دو سال اور ان کے ماسوا تمام اہل سیر دس سال کے موید ہیں۔ )

2۔ قریش مکہ میں سے جو شخص مسلمان ہو کر اپنے والی کی اجازت کے بغیر مدینہ پہنچ جائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے واپس لوٹانا پڑے گا۔

3۔ مسلمانوں میں سے کوئی شخص مرتد ہو کر مکہ میں چلا آئے تو اسے واپس نہ کیا جائے گا۔

4۔ اہل عرب فریقین میں سے جس کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہیں ، دوسرا فریق اس میں حائل نہ ہو گا۔

5۔ مسلمانوں کو اس مرتبہ طواف و زیارت کعبہ کیے بغیر مدینہ واپس لوٹنا ہو گا۔

6۔ مسلمان آئندہ سال مکہ میں ان شرائط کی پابندی کے ساتھ آ سکتے ہیں :

الف: اسلحہ میں صرف تلوار، اور وہ بھی نیام میں بند ہو۔

ب: تین روز سے زیادہ مکہ میں قیام نہیں کر سکتے۔

حدیبیہ ہی میں قبیلہ خزاعہ نے رسول اکرم کے ساتھ اور (قبیلہ) بنو بکر نے قریش سے معاہدہ (وفاداری) کیا۔

 

حضرت ابو جندل وکیل قریش کے صاحبزادے

جب کہ شرائط صلح پر گفتگو ہو رہی تھی اس سے ذرا قبل وکیل قریش (سہیل بن عمرو) کے صاحبزادے ابو جندل اس حالت میں تشریف لائے کہ پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ یہ قریش کے ہاں اسلام لانے کی پاداش میں قید تھے۔ موقعہ نکال کر جیل خانے سے بھاگ نکلے۔ سہے۔ نے فرزند کو دیکھا تو ان کا گریبان پکڑ کر منہ پر زور سے طمانچے رسید کیے۔ ابو جندل چلانے لگے اے برادران اسلام! اگر مشرکین مجھے واپس لے گئے تو یا مجھے دین سے لوٹا دیں گے یا قتل کر دیں گے۔ ابو جندل کو اس حال میں دیکھ کر مسلمانوں کا غم و غصہ اور سوا ہو گیا، مگر صلح کی بات چیت ابھی جاری تھی اور تحریر مکمل نہ ہوئی تھی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجندل سے فرمایا۔ اے ابوجندل! اپنی مصیبت کا اجر خدا سے طلب کیجئے جو تمہارے ساتھ مکہ کے تمام محصورین کے لئے نجات کی سبیل پیدا کرے گا۔ قریش کے ساتھ ہماری گفتگو مکمل ہو چکی ہے، اس میں فریقین نے اللہ کو ضامن قرار دیا ہے۔ میں ان سے بد عہدی نہیں کر سکتا۔ آخر ابو جندل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پابندی شرائط کی وجہ سے قریش کے ہاں واپس جانا پڑا۔

 

بعد از تحریر معاہدہ

تحریر معاہدہ کے بعد سہیل بن عمرو واپس مکہ چلے گئے مگر مسلمانوں کے بشرے سے غم و غصہ کے آثار نہ مٹ سکے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی متاثر تھے۔ آپ نے نماز ادا کی۔ دل کو سکون ہوا، پھر قربانی ذبح کی اور اس کے بعد تکمیل عمرہ کے لئے استرے سے سر کے بال اتروائے۔ روح مبارک کو مزید سکینۃ حاصل ہوئی صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح شاداں و فرحاں دیکھا تو انہوں نے بھی اپنی اپنی قربانیاں ذبح کر دیں۔ بعض نے استرے سے سر کے بال اتروائے اور بعض نے قینچی سے ترشوائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی متابعت دیکھ کر فرط خوشی سے فرمایا اللہ کی رحمت ہو استرے سے موئے سر اتروانے والوں پر!

صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا اکمال حج و عمرہ کے لئے قینچی سے بال ترشوانے والے گنہ گار ہیں ؟

فرمایا! ان پر بھی اللہ کی رحمت ہو!

صحابہ نے پھر وہی سوال دہرایا کیا اس موقعہ پر قینچی سے بال ترشوانے والے گنہ گار ہیں ؟

فرمایا بال ترشوانے والوں پر بھی اللہ کی رحمت ہو!

صحابہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !جناب نے پہلے صرف استرے سے بال صاف کرانے والوں کے لئے دعائے رحمت کی تھی؟

فرمایا انہیں اس لئے مقدم رکھا گیا کہ میرے سامنے انہوں نے زبان شکوہ نہیں کھولی تھی!

 

مدینہ کی مراجعت سے قبل کا نقشہ

(اب) مسلمانوں کے ذہن میں مدینہ جا کر زیارت کعبہ کے لئے سال آئندہ تک انتظار کرنے کے سوا کوئی اور گنجائش نہ تھی۔ انہیں یہ تلخ گھونٹ حلق سے اتارنا ہی پڑا، اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعمیل حکم کی وجہ سے! ورنہ ان کی عادت یہ تھی کہ یا تو دشمن سے مقاتلہ کر کے اسے بھاگا دیتے یا خود کو اس کے حوالے کر دیتے۔ وہ اپنے لئے شکست کے نام سے واقف نہ تھے۔ اگر سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اجازت دیتے تو اپنے اس عقیدہ کے سہارے کہ خدا جن کا ناصر و مددگار ہو ان کے لئے اللہ کے رسول اور اس کے دین کی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں تو وہ مکہ میں داخل ہو کر دکھا دیتے۔

مسلمان قربانی کرنے اور احرام کھولنے کے بعد بھی حدیبیہ میں چند روز (تین ہفتے) تک ٹھہرے رہے۔ اس اثناء میں بعض مسلمان ایک دوسرے سے معاہدہ کی حکمت دریافت کرتے۔

 

مراجعت مدینہ اور فتح مبین کی بشارت

حتیٰ کہ حدیبیہ سے واپسی کے لئے کوچ فرمایا اور مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے وحی کے ذریعہ فتح مبین کی بشارت نازل ہوئی۔ قرآن کی اس سورۂ کا نام ہی فتح ہے۔

انا فتحنالک فتحا مبینا لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر ویتم نعمتہ علیک ویھدیک صراطاً مستقیما (2-1:48)

(اے پیغمبر یہ حدیبیہ کی صلح کیا ہوئی حقیقت میں ہم نے کھلم کھلا تمہاری فتح کر دی تاکہ (تم اس فتح کے شکریہ میں دین حق کی ترقی کے لئے اور زیادہ کوشش کرو اور خدا اس کے صلے میں ) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کرے اور تم پر اپنے احسانات پورے کرے اور تم کو دین کے سیدھے رستے لے چلے اور کوئی تمہارا مانع (مزاحم) نہ ہو۔

 

قریش کا اسلام کو دولت نوزائیدہ اور مذہب مرسوم کی حیثیت سے تسلیم کرنا

صلح حدیبیہ بلا شبہ فتح مبین ہی تھی۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ اس (صلح) میں سیاسی حکمت اور دور اندیشی (دونوں ) اسلام اور عرب کے مستقبل میں اثر انداز ہو کر رہیں گی۔ جیسا کہ اب تک قریش رسالت مآب کو سرکش اور باغی سے زیادہ اہمیت نہ دیتے لیکن حدیبیہ میں انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حریف و مقابل تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہ رہا۔ گویا اہل مکہ نے حدیبیہ میں اسلام کو دولت نوزائیدہ کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ پھر اس صلح نامہ کی رو سے مسلمانوں کا حق زیارت و طواف اور حج تسلیم کرنے کے یہ معنی تھے کہ اہل مکہ کے نزدیک اسلام کو بھی عرب کے دوسرے مذاہب کا مقام حاصل ہے اور عہد نامہ حدیبیہ ہی کی ایک دفعہ کے مطابق لڑائی کا دو یا دس سال تک بند رکھنا طے پایا تو اس سے مسلمانوں کو سمت جنوب (مکہ) کی طرف سے دشمن (قریش) کی یلغار کا خطرہ زائل ہو گیا اور اسلام کی تبلیغ کا موقعہ مل گیا۔ پھر مسلمانوں کے بدترین دشمن اور اس کے خلاف ہمیشہ نار حرب مشتعل رکھنے والا جو کل تک اسلام کو مذہب تسلیم کرنے کے روادار نہ تھے آج انہوں نے اسے ملک کے مروجہ مذاہب میں سے ایک مستقل دین تسلیم کر لیا۔ ان وجوہات کی بناء پر آج سے مسلمانوں کو اسلام کی تبلیغ کا بہترین موقعہ ہاتھ آ گیا۔

اس صلح میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ اعتراض اس دفعہ پر تھا کہ:

قریش مکہ میں سے جو شخص مسلمان ہو کر اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ پہنچ جائے اسے واپس لوٹانا پڑے گا۔

اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص مرتد ہو کر مکہ میں چلا آئے رتو اسے واپس نہ کیا جائے گا۔

اس تضاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے یہ تھی کہ مسلمانوں میں جو شخص مرتد ہو کر مکہ چلا جائے اسے لوٹا کر مسلمانوں میں رکھنے کے کوئی معنی ہی نہیں۔ رہا اس شخص کا سوال جو اہل مکہ میں سے مسلمان ہو کر مدینہ میں آ جائے اور اسے دوبارہ مکہ بھیج دیا جائے تو ایسے شخص کے لئے اللہ تعالیٰ خود نجات کی سبیل پیدا کرے گا۔ جیسا کہ حدیبیہ سے کچھ ہی عرصہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصابت رائے پر آپ کے رفقاء حیران رہ گئے۔

جب اسلام کو اس قدر تقویت حاصل ہو گئی کہ آج سے دو مہینے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرد و نواح کے بادشاہوں اور نوابوں کی طرف دعوتی خطوط بھیجے۔

 

جناب ابوبصیرؓ کا واقعہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصابت رائے کے نتائج جلد از جلد ظاہر ہونے پر آ گئے۔ ہوا یہ کہ اہل مکہ میں سے ابوبصیرؓ مسلمان ہو کر مدینہ تشریف لے آئے۔ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آئے۔ اس کے مطالبہ پر انہیں واپس کرنا ضروری تھا۔ قریش میں سے ازھر بن عوف اور اخنس بن شریق نے ابوبصیر کی واپسی کے لئے ایک غلام اور قبیلہ بنو عامر کے ایک شخص کو مدینہ بھیجا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیر کو طلب فرما کر حکم دیا کہ:

انا قد اعطینا ھولاء القوم ماقد علمت ولا یصلح لنا فی دیننا الغدر۔

ہم نے اہل مکہ کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے (اے ابو بصیر!) تمہیں بھی معلوم ہے ہمارے دین میں بد عہدی نہیں (تم مکہ واپس چلے جاؤ)

ابو بصیر نے عرض کیا آپ مجھے مشرکوں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں جو مجھے مرتد کر دیں گے۔ لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم بار بار انہیں مکہ واپس جانے کی ہدایت فرماتے رہے۔ آخر ابو بصیر ان (دونوں اہل مکہ) کے ہمراہ چل پڑے۔ جب ذوالحلیفہ (مقام) میں پہنچے تو ابو بصیر نے عامری کی تلوار دیکھنے کی فرمائش کی اور قبضہ پر ہاتھ رکھتے ہی اس سرعت کے ساتھ وار کیا کہ عامری کا سر بدن سے کٹ کر خاک میں لوٹ رہا تھا۔ مقتول کا ساتھی (غلام) یہ رنگ دیکھ کر بے تحاشا بھاگتا ہوا مدینہ پہنچا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی فرمایا خدا خیر کرے! یہ شخص خوف زدہ معلوم ہوتا ہے۔ دریافت پر اس نے کہا آپ کے رفیق نے میرے ساتھی کو قتل کر دیا ہے۔ اتنے میں ابوبصیر آ پہنچے۔ و ہی خون آلود تلوار ہاتھ میں تھی۔ دریافت کرنے کے بغیر ہی عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے مجھے دشمنوں کے سپرد کر کے وعدہ پورا فرما ہی دیا لیکن مجھے اسلام سے پھر جانا پسند نہ آیا۔ نہ یہ کہ مکہ جا کر خود کو کافروں کا مضحکہ بنا لوں۔ ابوبصیر کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس قدر عظمت تھی وہ اسے چھپا نہ سکا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس کے تیور سے سمجھ گئے کہ اگر اس کے ساتھ ایسے ہی کچھ اور لوگ شامل ہو جائیں تو یہ قریش کے ساتھ جنگ کیے بغیر نہ رہ سکے گا۔ ابوبصیر مدینہ سے نکل گیا اور مقام عیص نامی پر ڈیرا ڈال لیا جو بحیرۂ اسود کے کنارے شام کی شاہراہ پر واقع ہے۔ معاہدہ (حدیبیہ) میں فریقین نے یہ راستہ تاجروں کی آمد و رفت کے لئے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری نہ اٹھائی تھی۔ ابوبصیر کے عیص کو مامن بنا لینے کی خبر مکہ کے محصور مسلمانوں نے سنی تو انہیں یقین ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ابوبصیر کے اس اقدام کی توثیق فرما دی ہو گی۔ ان (محصورین مکہ) میں سے جس کسی کو موقعہ ملا نظری بندی سے بچ کر ابوبصیر کے پاس آ پہنچا۔ جب ستر مسلمان جمع ہو گئے۔ تب انہوں نے ابوبصیر کی قیادت میں قریش کی ناکہ بندی شروع کر دی۔ ان کے اکا دکا آدمی کو قتل اور تجارتی قاتلوں کو لوٹنے لگے۔ قریش نے اپنا یہ حشر دیکھا تو مکہ میں محصور مسلمانوں کے عوض میں اپنے جانی و مالی خسارہ سے تلملا اٹھے۔ ان پر واضح ہو گیا کہ صادق الایمان شخص کو محبوس رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، ایک نہ ایک دن اس کی مخلصی کی راہ نکل ہی آتی ہے اور وہ اپنے قید کرنے والوں پر بزن بول کر انہیں مبتلائے آفت کر دیتا ہے۔

اس وقفہ میں ان کے تصور میں اپنا گزشتہ مال بھی گھومنے لگا جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت پر مجبور کر کے مکہ سے نکال دیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر ان کی تجارتی ناکہ بندی کر دی۔ آخر انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سفارتی وفد بھیجا جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریش کے ساتھ رحم و قرابت کا واسطہ دے کر ابوبصیر اور ان کی جمعیت کو عمیص سے واپس مدینہ بلانے کی استدعا کی اور یہ شرط منسوخ کر دی گئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست و اصابت رائے دیکھئے۔ آج قریش اپنے ہی وکیل سہیل بن عمروؓ کے اس کیے کی سزا بھگت رہے ہیں کہ قریش میں سے جو شخص مسلمان ہو کر اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ پہنچ جائے اسے واپس لوٹانا پڑے گا۔ اور مسلمانوں میں سے حضرت عمرؓ نے جناب ابوبکرؓ سے معاہدہ کی جس شق کا گلہ کیا تھا انہوں نے بھی اپنے گلہ کا نتیجہ دیکھ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو قریش کی استدعا سے مطلع فرما کر ان کے مدینہ واپس آنے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ جب ابوبصیر نے دیکھا کہ اب ہم سے تعرض نہ ہو گا کہ تمام جمعیت عیص سے ڈیرہ اٹھا کر مدینہ چلی آئی۔

 

اس وقفہ میں مکہ سے آنے والی مومن بیبیوں کا معاملہ

اس مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے مومن مردوں کے معاملہ سے مختلف تھی۔ چنانچہ ام کلثوم دختر عقبہ بن ابی معیط اہل مکہ کی حراست سے نکل کر مدینہ تشریف لے آئیں اور جب ان کی بازگشت کی غرض سے ممدوحہ کے بھائی عمارہ و ولید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر ان کے واپس کرنے سے انکار فرما دیا کہ اس معاہدہ ہی کی شق کے مطابق عورتوں کا معاملہ مردوں سے مختلف ہے۔ 1؎ جو عورت ہم سے پناہ طلب کرے ہم پر اس کی حفاظت واجب ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ واضح ہے کہ عورت مسلمان ہو جانے کے بعد مشرک شوہر کی زوجیت میں نہیں رہ سکتی۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی مومن عورتوں کی بازگشت سے انکار فرما دیا جو قریش کی حراست سے جان بچا کر مدینہ تشریف لے آئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم خداوندی کی وجہ سے یہ انکار فرمایا:

یایھا الذین امنوا اذ جاعکم المومنت مھجرت فامتحنوھن اللہ اعلم یایمانھن فان علمتموھن مومنت فلا ترجعوھن الی الکفارلا ھن حل لھم ولا ھم یحلون لھن واتوھم ما انفقوا ولا جناح علیکم ان تنکحوھن اذا تیتموھن اجورھن ولا تمسکوا بعصم الکوافر وسئلو ما انفقتم ولیسئلو ما انفقوا ذلکم حکم اللہ یحکم بینکم واللہ علیم حکیم (10:60)

مسلمانو! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آیا کریں تو تم ان کے (ایمان) کی جانچ کر لیا کرو۔ (یوں تو) ان کے ایمان کو اللہ (ہی) خوب جانتا ہے (تاہم جانچ لینا ضروری ہے) تو اگر (جانچنے سے) تم ان کو سمجھو کہ مسلمان ہیں تو ان کو کافروں کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ (تو) یہ (عورتیں ) کافروں کو حلال ہیں اور نہ کافر ان (عورتوں ) کو حلال، اور جو کچھ کافروں نے (ان پر) خرچ کیا ہے وہ ان (کافروں ) کو ادا کر دو اور اس میں بھی تم پر گناہ نہیں کہ ان عورتوں کو ان کے مہر دے کر تم (خود) ان سے نکاح کر لو اور کافر عورتوں کے ناموس پر قبضہ نہ رکھو (جو تمہارے نکاح میں ہوں ) اور جو تم نے (ان پر) خرچ کیا ہے وہ کافروں سے مانگ لو اور جو انہوں نے اپنی عورتوں پر خرچ کیا ہے وہ (اپنا خرچ کیا ہوا) تم سے مانگ لیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے جو تم لوگوں کو ایسے جھگڑوں کے بارے میں صادر فرماتا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

1؎ اور اس شق کی وضاحت قرار داد مفاہمت میں بھی آ چکی تھی۔

ولم یات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد من الرجال الا ردہ (بخاری کتاب المغازی غزوۃ الحدیبیہ م)

اس طرح (صلح حدیبیہ سے بعد کے) حوادث نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست و دور اندیشی اور سیاست میں اصابت رائے کی تصدیق کر دی۔ حدیبیہ میں صلح کی بنیاد اس طرح رکھی جس پر اسلام کی سیاست و اشاعت کی تعمیر اس خوبی کے ساتھ ہونے کو تھی۔

قریش اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دوسرے کی جانب سے پورا اطمینان ہو گیا۔ قریش نے اس امید پر اپنی تجارت کا دامن وسیع کر دیا کہ گزشتہ سالوں میں مسلمانوں کی طرف سے شام کی ناکہ بندی پر انہیں جو نقصان اٹھانا پڑا اس کی تلافی ہو جائے۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقفہ میں مشرق و مغرب میں تبلیغ رسالت کی ادھیڑ بن میں مصروف رہے اور کچھ اس فکر میں منہمک کہ ایسے کون سے اسباب ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے مسلمان بھی دوسروں کی طرح عرب میں آزادی سے رہ سکیں۔ اس (آزادی) کے لئے آپ نے دو کام کیے:

الف۔ گرد و نواح کے بادشاہوں اور نوابوں کے ہاں سفیروں کی روانگی

ب۔ غزوۂ خیبر(جو اس وقفہ کے آخر میں پیش آیا) کے بعد فریب پیشہ یہود کا جزیرۂ عرب سے اخراج (جس کا تذکرہ اس سے بعد کی فصل میں ہے۔ )

٭٭٭

 

 

 

 

شراب کی حرمت اور غزوہ خیبر سے لے کر عمرۃ القضا تک

 

حدیبیہ سے واپسی کے بعد

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء نے حدیبیہ میں تسلیم ہی کر لیا کہ اس مرتبہ کی بجائے آئندہ سال زیارت کعبہ کے لیے آئیں گے اور تکمیل معاہدہ کے بعد مسلسل تین ہفتہ تک حدیبیہ میں اقامت فرما رہے۔ مگر جب مدینہ کی طرف لوٹے تو بعض افراد نے نفس قرار داد کو مسلمانوں کی تذلیل پر محمول کیا۔ اسی دوران سورۂ فتح نازل ہوئی جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو سنایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ سے واپسی کے وقت دو باتوں کی سب سے زیادہ فکر تھی:

الف۔ مسلمانوں کی قوت و استقامت

ب۔ اسلام کی توسیع

ان کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گرد و نواح کے غیر مسلم بادشاہوں اور نوابوں میں سے مندرجہ ذیل حکمرانوں کے پاس سفیر بھیجے: ہرقل، کسریٰ، مقوقس، نجاشی، حبش، نجاشی مذکور کے یمنی گورنر کی طرف اور حارث عیسائی کی طرف جس سے اسلام کی دعوت مقصود تھی۔ اس وقفہ میں دوسرا کام جزیرۃ العرب سے یہودیوں کی جلا وطنی تھی۔

 

دعوت اسلام کا نشوونما

اب دعوت اسلام اپنے نشوونما کے اعتبار سے اس حد تک آ پہنچی جسے پورے عالم کے سامنے پیش کیا جا سکتا تھا۔ اب اسلام صرف توحید اور اس کے لوازمات ہی تک محدود نہ تھا بلکہ اس کا دامن اجتماعی زندگی کے مختلف گوشوں پر پھیلتا جا رہا تھا۔ وہ جماعتی زندگی کو رفعت بخش کر افراد کو انسانی کمالات کے مرتبہ کے قریب لا رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں شریعت کے مختلف احکام کی تفصیلات کا آغاز ہوا۔

 

حرمت شراب

حرمت شراب کے زمانہ کی تعیین میں سیر نویس حضرات مختلف الرائے ہیں۔ ان کی مختصر تعداد سے 4 ھ میں بتاتی ہے اور زیادہ تعداد حدیبیہ (6ھ) میں اگرچہ شراب کی حرمت کی توحید کے نظریہ سے اتنا زیادہ ربط نہیں ، اور یہ بھی ثابت ہے کہ بعثت مقدس و نزول قرآن دونوں سے بیس سال تک شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے مسلمان اس مدت تک شراب میں ملوث رہے۔ نہ وحی نے شراب کو دفعتہً حرام کیا بلکہ (پہلے تو) نوبت بہ نوبت اس پر تہدید نازل ہوئی تاکہ مسلمان اس سے رفتہ رفتہ بے رغبت ہوتے جائیں ، اور آخر میں قطعی حرمت وارد ہوئی جو اس طرح سے منقول ہے:

 

پہلی مرتبہ

حضرت عمرؓ نے اس سے بیزاری کا اظہار کیا اور بارگاہ خداوندی میں بار بار عرض کیا:اللھم بین لنا فیھا (یا اللہ شراب کے متعلق واضح حکم نازل فرما)

اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

یسؤلنک عن الخمر والمیسر قال فیھما الم کبیر و منافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما (219:2)

اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! تم سے لوگ شراب اور جوئے کی بابت دریافت کرتے ہیں۔ ان سے کہہ دو ان دونوں چیزوں میں نقصان بہت ہے اور انسان کے لیے فائدے بھی ہیں لیکن ان کا نقصان ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔

لیکن شراب کے رسیا اس تنبہہ سے کلیۃً متاثر نہ ہوئے۔ شغل ناؤ نوش جاری رہا۔ شب بھر جام و سبو سے ہم آغوش رہنے سے فجر کی نماز میں کچھ کا کچھ پڑھ جاتے۔

 

دوسری مرتبہ

سیدنا عمرؓ اتنی سی پابندی پر مطمئن نہ ہو سکے حتیٰ کہ:

تاکے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس

بارگاہ خداوندی میں یہ التجا پیش کی:

اللھم بین لنا فیھا فانھا تذھب العقل والمال

خداوند! شراب کے متعلق واضح حکم نازل فرما۔ یہ تو مال اور دانش دونوں کی دشمن ہے۔

اب کے مرتبہ صرف سکر اور نشہ کی حالت میں نماز کی ممانعت نازل ہوئی:

یایھا الذین امنو لا تقربو الصلوٰۃ وانتم سکریٰ حتیٰ تعلموا ماتقولون (43:4)

مسلمانو! ایسا کبھی نہ کرو کہ تم نشہ میں ہو اور نماز کا ارادہ کرو۔ نماز کے لیے ضروری ہے کہ تم ایسی حالت میں ہو کہ جو کچھ زبان سے کہو (ٹھیک طور پر) اسے سمجھو۔

 

تیسری مرتبہ

اس آیت کے نازل ہونے پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے یہ منادی کرا دی گئی:

لا یقربن الصلوٰۃ سکران

کوئی شخص مستی کی حالت میں نماز کی طرف نہ بڑھے۔

ان دونوں (آیت اور منادی) کا اثر (طبعاً) ہونا ہی تھا۔ مسلمانوں میں شراب نوشی کی عادت میں کمی آ گئی۔ لیکن جناب عمر اس پر بھی قانع نہ رہے۔ اب انہوں نے اور زیادہ الحاح سے عرض کیا:

اللھم بین لنا فی الخمر بیانا شافیاً لھا تذھب العقل والمال

خدایا! شراب کے متعلق اور مبنی بر شفا حکم نازل فرما! یہ مال و عقل دونوں کی دشمن ہے۔

شراب کی حرمت طلبی میں سیدنا عمر بن الخطابؓ حق بجانب تھے کیوں کہ آئے دن عرب کے نا مسلمان نہیں۔ مسلمان بھی شراب کی مستی میں ایک دوسرے کی ڈاڑھی پکڑ لیتے۔ کوئی شرابی دوسرے کو اٹھا کر سر کے بل پٹک دیتا۔ اس وقفہ میں ایک مرتبہ جب مسلمانوں ہی میں دعوت کے بعد شراب کا دور چلا تو ذرا دیر میں عقل پر مستی چھا گئی اور دوت کی آبرو دوست ہی کے ہاتھ سے خاک میں مل گئی مہاجرین و انصار میں مقابلہ شروع ہو گیا۔ ایک شرابی نے مہاجرین کی طرف داری میں زبان کھولی ہی تھی کہ ادھر سے ایک انصاری نے دستر خوان سے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھا لی، جس سے ایک مہاجر کی ناک زخمی ہو گئی۔ اس تقریب میں ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھانے والے انصار و مہاجر باہم دست و گریباں ہو گئے۔ کئی مسلمان زخمی ہوئے اور بعد میں دونوں (انصار و مہاجرین) کے دلوں میں کینہ پکنے لگا، حالانکہ اس سے پہلے دونوں ایک دوسرے کے دوست اور جان نثار تھے۔ اس واقعہ کی قطعی حرمت نازل ہوئی۔

یایھا الذین امنو انما الخمر والمیسر والانصاب ولازلام رجس من عمل الشطین فاجتنبوہ لعلکم تفلحون (90-5)

مسلمانو! بلا شبہ شراب، جوا، معبودان باطل کے نشان اور پانسے، شیطانی کاموں کی گندگی ہے، ان سے اجتناب کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔

انما یرید الشطین ان یوقع بینکم العدواۃ والبعضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوٰۃ فھل انتم منتھون (91:5)

شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں خدا کے ذکر اور نماز سے باز رکھے (کیوں کہ ان دونوں چیزوں میں پڑنے کا لازمی نتیجہ یہی ہے) پھر (بتلاؤ! ایسی برائیوں سے بھی) تم باز رہنے والے ہو یا نہیں )

 

اور شراب پانی کی طرح بہا دی گئی

آیت (مذکورۃ الصدر) اس وقت نازل ہوئی جب حضرت انسؓ شراب کی بزم میں ساقی بنے بیٹھے تھے۔ ا تنے ہی میں حرمت میں شراب کی منادی شروع ہو گئی۔ یہ آواز جناب انسؓ کے کان میں پڑی تو انہوں نے شراب پانی کی طرح بہا دی لیکن بعض لوگوں نے اس پر از رہ اعتراض کہا کہ اگر یہ (شراب) رجس (گندگی) ہی ہے تو ان لوگوں کا کیا حشر ہو گا جنہوں نے عزوۂ بدر اور احد میں بھی شراب پی رکھی تھی؟ اور اس اعتراض پر یہ آیت نازل ہوئی:

لیس علی الذین امنو وعملو الصلحت جناح فیما طعموا اذا ما اتقوا وامنو وعملو الصلحت ثم اتقوا وامنوا ثم اتقوا واحسنوا واللہ یحب المحسنین(93:5)

جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ جو کچھ (حرمت کے حکم سے پہلے) کھا پی چکے ہیں اس کے لیے ان پر کوئی گناہ نہیں جب کہ وہ (آئندہ کے لیے پرہیز گار ہو گئے اور ایمان لے آئے اور اچھے کام کیے اور جب انہیں کسی بات سے روکا گیا تو اس سے رک گئے اور (حکم الٰہی پر) ایمان لائے اور اچھے کام کیے۔ اسی طرح پھر(روکے گئے تو پھر بھی) پرہیز کیا۔ اور (حکم الٰہی پر) ایمان لائے اور اچھے کام کئے۔ تو (یقیناً ایسے لوگوں سے ان کی سابقہ باتوں کے لیے کوئی مواخذہ نہیں ہو سکتا) وہ نیک کردار ہیں اور اللہ نیک کرداروں کو دوست رکھتا ہے۔

 

اسلام کی تعلیم نیکی اور حسن عمل ہے

اسلام اپنے پیروؤں کو نیکی، لطف و کرم اور حسن عمل کی دعوت پیش کرتا ہے۔ عبادت سے یہی مقصود ہے اس سے روحانیت میں ترقی اور اخلاقی کمالات کی تکمیل مطلوب ہے۔ جیسے کہ نماز میں رکوع و سجود سے غرور و نخوت کا سر نیچا کرنا مقصود ہے۔ اسی طرح اسلام اپنی انوکھی ترتیب کے ساتھ گزشتہ مذاہب کے مقابلہ میں بمراحل طبعی کمالات تک جا پہنچا اور اس میں تمام عالم کے لیے قبول کی استعداد پیدا ہو گئی۔

 

دولت روم و ایران

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ظہور میں نواحی ملکوں میں کسریٰ (ایران) و ہرقل(روم) دونوں اس قدر طاقت ور بادشاہ تھے کہ اپنے ملکوں کے سوا قریبی ممالک میں بھی انہی دونوں کی سیاست کار فرما تھی اور دونوں ایک دوسری سلطنت کے حریف بھی تھے۔ جیسا کہ قارئین پچھلے صفحوں میں ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے متصل ہی ایران روم کے خلاف صف آراء ہو کر مصر، شام اور اس کے مذہبی مرکز بیت المقدس پر حملہ کر کے مقدس صلیب تک کو اٹھا کر لے گیا، جس مصیبت پر ہرقل نے منت مانی کہ اگر مقدس صلیب پہلے کی طرح پھر ہمارے سر پر سایہ فگن ہو جائے تو میں بیت المقدس کی زیارت کے لیے حمص (دار الخلافہ روم) سے پیدا چل کر جاؤں گا اور یہ عیسائی بادشاہ (قیصر روم) اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہو گیا۔

کسریٰ اور ہرقل دونوں میں یہ چپقلش صدیوں سے چلی آ رہی تھی جس میں کبھی وہ غالب اور یہ مغلوب کبھی یہ فتح مند اور وہ شکست خوردہ لیکن دونوں ملکوں کے گرد و نواح کی سلطنتیں اور باشندے کسریٰ اور ہرقل کے نام سے تھر تھر کانپتے رہتے، ان سے تعرض کی تو کسے مجال تھی بلکہ ہر ایک ملک ان کی نگاہ کرم و رحم کا منتظر رہتا۔

 

عرب کی بے چارگی

یہ تو ایران و شام کے ان نواحی ملکوں کا حال تھا جہاں کسی نہ کسی شکل میں امن قائم تھا، مگر ان کے مقابلہ میں عربستان کی یہ حالت کہ قبائلی زندگی نے ایک کو دوسرے سے جدا کر رکھا تھا، جس کی وجہ سے عرب کے باشندے ایران و روم کے رحم و کرم میں دوسرے ملکوں سے زیادہ محتاج تھے خصوصاً جب کہ عرب کے سب سے بڑے دو خطے یمن و عراق ایران کے زیر نگیں اور مصر و شام جیسے وسیع ملک ہرقل کی مملکت میں داخل ہوں۔ اس وجہ سے حجاز اور جزیرۃ العرب اتنی پر ہیبت اور مضبوط سلطنتوں میں گھرا ہوا تھا۔

پھر عربوں کا ذریعہ معاش صرف تجارت ہی ہو اور ان کی جولان گاہ کا ایک کنارہ یمن اور دوسرا گوشہ شام ہو، جس کی وجہ سے عرب کے باشندے کسریٰ ایران اور قیصر روم دونوں کے ساتھ دعا سلام رکھنے پر مجبور ہوں۔ اور جب عرب کے سیاسی انتشار کا یہ عالم ہو کہ بھولے سے کبھی صلح صفائی ہو گئی تو فبہا ورنہ آپس میں سدا جنگ و پیکار ان کا شیوہ ہو۔ نہ کبھی یہ توفیق ہو سکے کہ منظم ہو کر رہیں اور وقت آ پڑے تو قیصر یا کسریٰ کے مقابلہ میں قسمت آزمائی کر سکیں۔ عرب کے اس انتشار و نکبت اور اس کے مقابلے میں گرد و نواح کے بادشاہوں کی ہیبت و شکوہ کے ہوتے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیصر و کسریٰ جیسے طاقت ور بادشاہوں کو اسلام کی طرف دعوت! ادھر بادشاہان غسان و مصر اور اسکندریہ اور یمن کے حکمرانوں سے یہی معاملہ کس قدر حیرت افزا ہے! وہ بھی اپنے مستقبل کے اس نتیجہ سے بے نیاز ہو کر کہ مبادا ایسی دعوت کی پاداش میں آپ کے ساتھ تمام عرب کو ان بادشاہوں میں سے کی رعایا ہو کر رہنا پڑے۔

کہنا یہ ہے کہ مخاطب بادشاہوں کو شوکت و دبدبہ کے باوجود محمد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دین حق کی دعوت دینے میں تامل نہ فرمایا ایک روز اپنے رفقاء سے یوں ہم کلام ہوئے:

ایھا الناس! قد بعثنی اللہ رحمۃ للناس کافۃ فلا تختلفوا علی کما اختلف الحواریون علی عیسیٰ ابن مریم۔

صاحبو! اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام عالم کے لیے باعث رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ مبادا تم لوگ بھی عیسیٰ ابن مریمؑ کے حواریوں کی طرح میری نافرمانی پر اتر آؤ۔

صحابہ نے عرض کیا اے رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم !حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری کن معنوں میں ان کے خلاف ہو گئے؟ فرمایا:

دعاھم الی الذی دعوتکم الیہ فاما من بعثہ مبعثا قریباً فرضی وسلم واما من بثہ مبعثاً بعیدا فکرہ وجھہ و تثاقل

ابن مریم ؑ نے اپنے حواریوں کے ذریعے یہی پیغام بادشاہوں کو پہنچانا چاہا۔ ان میں سے جو کو نزدیک کے بادشاہ کے پاس بھیجا اس نے خوشی سے تعمیل کر لی مگر دور بھیجے جانے والوں میں سے بعض کی پیشانیوں پر بل پڑ گئے۔ اس طرح یہ گروہ اپنے فرائض کی انجام دہی پر پورا نہ اتر سکا۔

اس کے بعد فرمایا میں تم لوگوں کو اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے (مندرجہ ذیل) بادشاہوں اور نوابوں کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں : ہرقل، کسریٰ، مقوقس، حارث الغسانی (امیر صوبہ حیرہ شام) حارث الحمیری (حکمران یمن) اور نجاشی شہنشاہ حبشہ کی طرف صحابہ نے خندہ پیشانی سے خدمات پیش کیں۔ چاندی کی ایک انگشتری بنوائی گئی جس کے نگینے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ منقش کیا گیا۔ دعوتی خطوط لکھوائے گئے جن پر یہ نقش چسپاں ہوا۔ ان میں سے ایک خط کا یہ نمونہ ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد عبداللہ ورسولہ الی ہرقل عظیم الروم! سلام علی من اتبع الھدیٰ اما بعد! فانی ادعوک بدعایۃ الاسلام اسلم تسلم! یوتک اللہ اجرک مرتین! افان تولیت فانما علیک اثم الاریسین۔ یا اھل الکتاب تعالو الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضاً اربابا من دون اللہ فان تولو افقولو اشھدوا بانا مسلمون (64:3)

بسم اللہ الرحمن الرحیم! از طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے بنام ہرقل شہ روم! پیر و ہدایت کے لیے سلامتی ہے اور میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اگر تم نے اسے قبول کر لیا تو تم بھی سلامت رہو گے اور خدا تعالیٰ اس کا اجر دگنا عنایت فرمائے گا۔ اگر انکار کر دیا تو اہل ملک کا گناہ بھی تمہارے ذمہ ہو گا۔ (اے پیغمبر!) تم (یہود اور نصاریٰ سے) کہہ دو کہ اے اہل کتاب! (اختلاف و نزاع کی ساری باتیں چھوڑ دو) اس بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے دونوں کے لیے یکساں طور پر مسلم ہے، یعنی اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کی ہستی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔ ہم میں سے کوئی ایک انسان کے ساتھ ایسا برتاؤ نہ کرے گویا خدا کو چھوڑ کر اسے اپنا پروردگار بنا لیا جائے! پھر اگر یہ لوگ (اس بات سے) روگردانی کریں تو تم کہہ دو گواہ رہنا کہ (انکار تمہاری طرف سے ہے) اور ہم خدا کے ماننے والے ہیں۔

ان سفیروں کے نام

1۔ جناب دحیہ بن خلیفہ کلبی

بسوئے

ہرقل (روم)

2۔ جناب عبداللہ ابن حذافہ

بسوئے

کسریٰ ایران (خسرو پرویز)

3۔ جناب عمرو بن امیہ الضمری

بسوئے

نجاشی حبشہ (اصمہ)

4۔ جناب حاطب بن ابو بلتعہ

بسوئے

مقوقس (شاہ مصر و اسکندریہ)

5۔ جناب عمرو بن العاص

بسوئے

شاہان عمان (جیفرو عبد پسران الجلندی)

6۔ جناب سلیط بن عمرو

بسوئے

رئیس یمامہ ہوذہ

7۔ علاء بن حضری

بسوئے

رئیس بحرین (منذر بن ساوی)

8۔ جناب شجاع بن وہب اسدی

بسوئے

رئیس غسان (حارث بن ابی شمر الغسانی)

9۔ جناب مہاجرین امیہ مخزومی

بسوئے

رئیس یمن (حارث حمیری)

سفیران رسالت مآب کی مدینہ منورہ سے روانگی کے متعلق دو روایات ہیں بیک وقت مدینہ سے روانہ ہوئے اور بعض مورخین کے نزدیک مختلف اوقات میں۔

 

عہد رسالت میں ایران و روم کے مذہبی نکبت

سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہم عصر بادشاہوں کی طرف اسلام کی دعوت تعجب انگیز امر نہیں اور اس سے بھی زیادہ یہ امر حیرت افزا نہیں کہ اس دعوت کے بعد تیس سال کی مدت کے اندر یہ ممالک بھی اسلام کے زیر نگین ہو گئے اور ان ملکوں کے بیشتر باشندے ابتداء ہی میں مسلمان ہو گئے؟ لیکن عربستان کے ان نواحی ملکوں میں سے اکثر و بیشتر خطوں کا فتح ہونا ہمارے لیے اس قدر تعجب کا سبب بھی نہیں ، اس لیے کہ جب ہم ان خطوں میں سب سے بڑے دو ملکوں یعنی ایران و روم کی قوت اور تمدن کا تصور کرتے ہیں جو ظہور اسلام کے بعد تک بدستور تمام عالم میں ممتاز تھے۔ ان کا عروج اور ترقی صرف مادی بنیادوں پر قائم تھا۔ دونوں ملکوں کی بادشاہتیں روحانی قوت کے لحاظ سے دم توڑ چکی تھیں۔ ایران مذہبی حیثیت سے دو (بت پرست اور مجوس) طبقوں میں منقسم تھا۔ روم (بزنطیہ) میں مسیحیت کا بٹوارہ کئی ٹکڑوں میں ہو چکا تھا، جس کی وجہ سے ان کے عقیدہ میں بھی اتنی سکت نہ تھی کہ اس کے بل بوتے پر اس کے ماننے والوں کے دلوں میں قوت و استقامت پیدا ہو سکے۔ اب ان کا مذہب صرف ظاہری رسوم و قواعد کا ملغوبہ بن کر رہ گیا تھا، جس نے اس کے ماننے والوں کی عقل پر چھائیاں سی ڈال رکھی تھیں۔

 

ایران و روم دونوں کے بالمقابل مذہب

ایران کی بت پرستی اور مجوسیت اور روم کی مسیحیت کے مقابلے میں مذہب اسلام کا ظہور ہوا، جس کے ترجمان جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے خالص روحانیت کی دعوت پیش کرتے، جس کے ثمرہ میں اس (اسلام) کے ماننے والے انسانیت کے اعلیٰ تریں مراتب حاصل کر سکتے تھے اور مسلمات سے ہے کہ مادیت و روحانیت کی آویزش سے جب وقتی خواہشوں کے مقابلہ میں روحانی عیش اور جاودانی نعمتیں صف آرا ہوں تو اول الذکر (وقتی نعمتوں ) کو سرنگوں ہونا پڑتا ہے۔

بلاشبہ اس وقت ایران و روم(دونوں ) اقتدار و عظمت میں اپنا حریف نہ رکھتے تھے، لیکن مصیبت یہ تھی کہ دونوں تجدید و تکر نو کے دشمن اور قدامت و رسوم پرستی کے دلدادہ تھے حتیٰ کہ ہر ایسے نظریہ اور فکر و جدت کو بدعت و ضلالت سمجھتے جو ان کی دقیانوسی رسومات کے خلاف ہو۔ وہ اپنی پرانی اور پر پیچ ڈگر کو ترقی کی شاہراہ سمجھ کر اس پر چکر کاٹ رہے تھے۔ اور دونوں (ایران و روم) نے اپنے اپنے ذہن کے دروازے بند کر رکھے تھے) کیوں کہ انسانی جماعت بھی فرد بلکہ دوسرے دوسرے موجودات کی طرح ہر لمحہ ترقی کی ایک منزل طے کر سکتی ہے۔ نہ صرف اسی قدر بلکہ جماعتوں کو بھی اوج کمال پر پہنچ کر اپنی مزید کوشش کو ترک نہ کر دینا چاہیے۔

ورنہ ایسی ترقی پذیر جماعت کی مثال اس دولت مند کی سی ہو گی جو اپنے سرمایہ کو کاروبار کی وسعت میں صرف کرنے کی بجائے زندگی کے مصارف میں بہانا شروع کر دے۔ اسی طرح متمدن قوموں کا ترقی کی مزید کاوش چھوڑ کر بیٹھ رہنا گویا صدیوں کی جمع کردہ تہذیب و رفعت کو کھو دینا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ایک نہ ایک دن قعر مذلت و نکبت میں سرنگوں ہو کر گر پڑتی ہیں اور جو جماعت اس طرح ذلیل و خوار ہو کر رہ جائے، اسے کسی ایسی خارجی قوت کے زیر نگیں ہونے کے بغیر چارہ نہیں جس میں زندگی کے آثار نمایاں ہوں۔ جب وہ قوم کسی پس ماندہ قوم کو اپنے دامن میں پناہ دے تو اس (پس ماندہ) قوم کی ترقی کے اسباب بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔

عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی پس ماندہ اقوام میں یہی ایران اور روم دنیا کی دو سب سے بڑی سلطنتیں تھیں جن کی نشاۃ ثانیہ (نئی زندگی) کے لیے نہ تو چین میں سکت نہ ہندوستان میں مقدرت، اور یہی بے مائیگی وسط یورپ کے ملکوں پر مسلط تھی۔ یہ جوہر تو خود جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جن کی دعوت اس کمال تک آ پہنچی کہ اپنے ساتھ ان قوموں کو بھی آگے بڑھا سکیں جو دین کے غلط تصورات اور رسوم پرستی کی وجہ سے سر منزل تھک کر بیٹھ چکی ہوں۔

ایمان کے جس نور نے نفس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر مجلی و منور کر دیا اور روحانی قوت بخش دی، جس کی برابری کا کسی مقابل قوت کا یارا نہ تھا، آخر اسی نور ایمان کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے جناب محمد کو ایسے ذرائع پر مائل کیا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مبلغین کے ذریعہ گرد و نواح کے بادشاہوں اور رئیسوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ وہ اسلام جو دین حق اور اپنے اوصاف کی وجہ سے ہر قسم کے روحانی کمالات کا مجموعہ ہے، جس (دین) کے سر پر خدا کا ہاتھ ہے، جو (دین ) عقل کو نیک و بد کے پرکھنے کی تاکید اور دلوں کو خیر و شر میں امتیاز کی قوت بخشتا ہے اور جو (دین ) اپنے ماننے والوں کو عقیدہ کے پرکھنے کی بھی ایسی ہی تلقین کرتا ہے جیسے جماعتی نظم و نسق کے لیے قوانین کی ہدایت فرماتا ہے جن سے مادہ اور روح دونوں میں متبادل توازن قائم رہ سکے تاکہ انسان کے لیے جس قدر قدرت و ارتقاء ممکن ہے اسے حاصل کرنے کے دوران میں وہ راستے ہی میں تھک کر نہ بیٹھ جائے۔ یہی قوت ہے جس پر نہ کوئی مانع اثر انداز ہو سکتا ہے اور نہ فریب یا دھوکہ اس کے راستے میں حائل ہو سکتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ (نکبت زدہ) قوم اس نظام کی دست گیری سے ایسے بلند ترین مقام پر فائز ہو سکتی ہے جو عالم کون و مکان میں حاصل ہونا ممکن ہو۔

 

حالات کا دوسرا رخ: ملک سے یہود کی جلا وطنی کا منصوبہ

یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان بادشاہوں اور نوابوں کی طرف تبلیغی خطوط بھیجنا مقتضا نے حال کے مطابق تھا خصوصاً جب کہ مدینہ سے سمت شامل پر بسنے والے (یہود) ہر لمحہ خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فریب اور بد عہدی کرنے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے تھے؟

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرار داد حدیبیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف قریش بلکہ اس پوری سمت (جنوبی) سے مطمئن کر دیا تھا۔ بخلاف اس کے مدینہ سے شمال میں رہنے والے یہود کی طرف سے ہر وقت خطرہ تھا کہ ہرقل یا کسریٰ ایران خیبر کے ان یہودیوں کو مسلمانوں کے خلاف نہ بھڑکا دیں اور یہود کا وہ پرانا ناسور رسنے لگے جو ان کے برادران دین بنو قینقاع و بنو نضیر کی مدینہ سے جلا وطنی اور بنو قریظہ کے قتل عام کی صورت میں رونما ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں کی طینت کا علم تھا کہ وہ کینہ توزی میں قریش سے کہیں بڑھے ہوئے ہیں ، اسی طرح دینی حیثیت سے قریش کے مقابلہ میں جامد بھی زیادہ ہیں اور دور اندیشی میں اہل مکہ سے ان کا پلہ بھاری ہے۔ پھر جب کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ حدیبیہ کا سا معاہدہ کرنا گوارا تھا نہ ان کی طرف سے اطمینان اور آج سے پہلے فریقین میں مقابلہ بھی ہو چکا تھا جس میں یہود ہی کو نیچا دیکھنا پڑا۔ پس اگر انہیں ہرقل کی طرف سے مدد مل سکتی تو مسلمانوں سے انتقام لینے میں انہیں کیوں تامل ہوتا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ ہی کر لیا کہ یہود کو جڑ سے اکھاڑ کر عرب سے دھکیل دیا جائے تاکہ مسلمانوں کے خلاف یہ خلش ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق مناسب کارروائی عمل میں لانے کا تہیہ کر لیا۔ ا س میں اور بھی عجلت سے کام لیا تاکہ بنو غطفان یا مسلمانوں کا کوئی اور دشمن قبیلہ بر وقت یہود کی کمک کے لیے نہ پہنچ سکے۔

 

یہود خیبر پر حملہ کی تیاری

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) یہود خیبر پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر دیا اور حدیبیہ سے واپسی پر پچیس روز یا ایک مہینہ کے بعد (باختلاف روایات) لشکر کو روانگی کا حکم دیتے ہوئے صرف انہی مسلمانوں کے لیے لشکر میں شریک ہونے کی اجازت فرمائی جو حدیبیہ میں شامل تھی اور ان کے سوا دوسرے لوگوں کی شمولیت سے انکار تو نہ فرمایا مگر انہیں غنیمت سے مستثنیٰ فرما دیا۔

اس لشکر میں سولہ سو مسلمان شامل ہوئے جن میں سواروں کی تعداد صرف ایک سو تک تھی۔ ہر ایک مسلمان کے دل میں نصرت خداوندی کا یقین موج زن تھا اور حدیبیہ سے واپسی پر سورۂ فتح کی بشارت کی وجہ سے پر امید۔

سیقول المخلفون اذا انطلقتم الی مغانم لتا خذوھا ذرونا نتبعکم یریدون ان یبدلو کلام اللہ قل لن تتبعونا کذلکم قال اللہ من قبل فسیقولون بل تحسدوننا بل کانوا لا یفقھون الا قلیلا (15:48)

(مسلمانو!) اب جو تم (کیبر کی) غنیمتیں لینے کے لیے جانے لگو گے تو جو لوگ تم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ (تم سے) کہیں گے ہم کو بھی اپنے ساتھ چلنے دو!(اس سے) ان کا مطلب یہ ہے کہ فرمودۂ خدا کو بدل دیں (نہ ہونے دیں ) اے پیغمبر! ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم ہرگز ساتھ نہیں چلنے پاؤ گے۔ اللہ نے پہلے ہی ایسا فرما دیا ہے۔ یہ سن کر لوگ کہیں گے کہ (خدا نے تو کیا فرمایا ہو گا) بلکہ (بات یہ ہے کہ) تم ہم سے حسد رکھتے ہو۔ (حسد نہیں ) بلکہ یہ لوگ تو اصل مطلب کو بہت ہی کم سمجھتے ہیں (کہ یہ ان کے سفر حدیبیہ سے پیچھے رہ جانے کی سزا ہے۔ )

 

خیبر میں

مسلمان مدینہ سے چل کر تیسرے روز (نماز مغرب کے بعد) خیبر میں آ پہنچے اور شب بھر قلعہ خیبر ہی کے نیچے پڑے رہے۔ اہل خیبر کو مسلمانوں کے آنے کی کوئی خبر نہ ہوئی۔ صبح کے وقت جب کسان پھاوڑے اور ڈلیاں لے کر کھیتوں کی طرف جانا شروع ہوئے تو شہر سے باہر لشکر پڑا ہوا دیکھا یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر آ پہنچے! کہتے ہوئے بستی کی طرف بھاگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آوازہ سنا تو فرمایا

خربت خیبر انا اذا نزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین

(خیبر کی تباہی کا وقت آ پہنچا۔ جب ہم کسی قوم پر حملہ کرنے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں تو اس قوم کا یہی حشر ہوتا ہے۔ )

خیبر کے یہودی پہلے سے یہ بھی خطرہ محسوس کر رہے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ان کے دشمنوں کو پناہ دینے کی وجہ سے جنگ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ وہ ایسے وقت کے ٹالنے کی تدبیر سے غافل نہ تھے۔ ان میں سے بعض لوگ جو قبائل میں سے کسی سے استمداد نہ چاہتے تھے (بربنائے حفظ ماتقدم) وادی القریٰ اور تیماء کے یہودیوں سے ساز باز بھی کر چکے تھے۔ قبل ازیں ان کا ایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرنے پر بھی مائل تھا، تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں جو کینہ حیی ابن اخطب کی طرف سے مدینہ پر بلوہ کی صورت میں رونما ہو چکا ہے اس کی تلافی ہو جائے۔ اس معاملہ میں یہود خیبر کا میلان انصار (مدینہ) کی طرف اور بھی زیادہ تھا لیکن فریقین کے دل ایک دوسرے کی طرف سے اتنے دور ہو چکے تھے کہ آخر مسلمانوں نے خبر پر بزن بول ہی دیا اور اس سے قبل مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کے دو بڑے چودھری سلام بن ابو الحقیق اور یسیر ابن ازام بھی قتل کیے جا چکے تھے جس سے متاثر ہو کر انہوں نے بنو غطفان سے رشتہ مودت جوڑ لیا تھا۔ یہی وجہ سے کہ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری کی سن گن پائی تو غطفان 1؎ کو فوراً اطلاع کر دی۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ بنو غطفان ان کی یاوری کرنے کے لیے آئے یا نہیں۔ 2؎

1؎ نقشہ بلاد العرب فی حیاۃ محمد دیکھیے تومعلوم ہو گا کہ مدینہ سے خیبر سمت راست شمالاً واقع ہے۔ خیبر کے بعد فدک شمال سے ذرا ہٹ کر غرباً اور بنو غطفان خیبر سے سمت مشرق دور واقع ہے۔ م

2؎ بنو غطفان آئے مگر مسلمانوں نے ان کی ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے۔ اسلامی لشکر خیبر میں بنو غطفان ہی کی سمت پر پڑا ہوا تھا۔ م

قطع نظر اس کے کہ بنو غطفان یہود خیبر کی مدد کے لیے پہنچے یا اپنی اقامت گاہ تک کو نہ چھوڑا۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان (غطفان) سے خیبر کی غنیمت میں حصہ کی پیش کش کی یا نہیں۔ لیکن ارباب سیرت اس پر متفق ہیں۔ کہ خیبر کے یہود عرب میں نہ صرف اپنی ہی قوم میں طاقت ور، فنون جنگ میں مشاق اور تونگر تھے بلکہ ان کے پاس تمام عرب سے زیادہ اسلحہ تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو یقین تھا کہ جب تک یہ گروہ عرب میں موجود ہے دین جدید کے ساتھ ان کی دشمنی دین اسلام کو فروغ حاصل نہ ہونے دے گی۔ نہ وہ اپنی شرارتوں سے باز رہیں گے اور نہ ان کے اثرات کی وجہ سے اسلام پنپ سکے گا۔ یہی وجوہ ہیں جن سے گھبرا کر مسلمان نے ان کے خلاف بزن بول دیا۔

خیبر پر مسلمانوں کے حملے کی خبر بجلی کی طرح تمام عرب میں پھیل گئی۔ ملک کا ہر شخص نتیجے کے لیے گوش بر آواز تھا۔ خصوصاً قریش نہایت بے تابی کے ساتھ انجام کے منتظر تھے۔ انہیں امید تھی کہ خیبر کے یہودی اپنی دلاوری اپنے قلعوں کی سربلندی اور پہاڑوں کی بلند ترین چوٹیوں کی وجہ سے مسلمانوں کا حملہ ناکام کر دیں گے۔ چنانچہ ان میں سے اکثر نے شرط تک بد رکھی تھی۔

 

محاصرہ

مگر یہاں مسلمانوں نے صف بندی سے خیبر کے قلعوں کو چاروں طرف سے محاصرہ میں لے لیا۔ یہود نے اپنے سرغنہ سلام بن مشکم کے مشورہ سے یہ انتظام کیا کہ مال  اسباب، مستورات اور بچوں کو قلعہ وطیح و سلام میں پہنچا دیا۔ اجناس و رسد قلعہ ناعم میں منتقل کر دی گئیں اور سپاہی اپنے جنگ آزمودہ سپہ سالاروں کی قیادت میں غنیم کے حملے سے عہدہ برآ ہونے کے لیے (یہود اور ان کے زن و بچے) سب کے سب قلعہ نظاۃ میں جمع ہو گئے۔ 1؎

 

مقابلہ شروع ہو گیا

سب سے پہلے دونوں لشکر قلعہ نظاۃ کے نیچے آمنے سامنے ہوئے۔ معرکہ قتال دیر تک گرم رہا جس میں مسلمانوں کے پچاس سپاہی زخمی ہوئے۔ اندازہ کر لیجئے کہ لشکر یہود پر کیا بیتی ہو گی جب کہ ان کا سپہ سالار اعظم سلام بن مشکم بھی مارا گیا جس کے قتل ہو جانے پر (قلعہ) ناعم کے لشکر کی سپہ سالاری حارث بن ابو زینب کو تفویض ہوئی۔ بنو خزرج نے اسے رگید کر قلعہ میں دھکیل دیا۔ مسلمانوں نے پوری قوت کے ساتھ محاصرہ قائم رکھا اور محصورین بھی جانفشانی سے مدافعت میں سرگرم رہے۔ انہیں یقین تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں بنو اسرائیل کی یہ شکست جزیرۃ العرب سے ہمیشہ کے لیے ان کا استیصال کر دے گی۔

1؎ خیبر دس قلعوں کے مجموعہ کا نام تھا جن میں دس ہزار جنگی سپاہی رہتے۔ پھر یہ قلعے تین حلقوں میں واقع تھے۔

الف۔ حلقہ نظاۃ: اس میں چار قلعہ تھے۔ ناعم، نظاۃ، صعب ابن معاذ، قلعتہ الزبیر

ب۔ حلقہ: (تین قلعے) حصن شق، حصن البر، حصن ابی

ج۔ حلقہ کتیبہ: اس میں بھی تین ہی قلعے تھے قموس، وطیح، سلام بفتحہ و کسرہ دونوں :م

قلعہ ناعم کی فتح:

مسلمانوں کو قلعہ ناعم کا محاصرہ کیے ہوئے کئی روز گزر گئے اور کوئی نتیجہ مرتب نہ ہوا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو علم دے کر ناعم کی مہم سپرد فرمائی۔ انہوں نے جی توڑ کر مقاتلہ کیا مگر قلعہ فتح نہ ہو سکا۔ دوسرے روز علم عمرؓ بن الخطاب کو تفویض فرمایا وہ بھی شام تک مصروف پیکار رہے۔ مگر مہم سر نہ ہو سکی۔ تیسرے روز رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالبؓ کو پرچم دے کر فرمایا:

خذ ھذہ الرایۃ فامض بھا حتی یفتح اللہ علیک

(اے علیؓ! علم لیجئے اور حملہ کر دیجئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ہاتھ سے اسے فتح فرمائے!)

یہودی قلعہ سے نکل کر مقابلہ پر ڈٹ گئے اور ان کے ایک سپاہی کی ضرب سے علیؓ کی سپر ہاتھ سے گر پڑی۔ اتفاق سے قلعہ کے پاس چوکھٹ کا ایک در پڑا ہوا تھا۔ علیؓ نے ہاتھ میں لے کر اس سے سپر کا کام لیا اور یہود کے لشکر کو قلعہ میں دھکیلنے کے بعد اسی تختہ سے خندق کا پل بنا لیا۔ جس پر سے گزر کر مسلمان سپاہی قلعہ میں داخل ہو گئے اور یہودی سپہ سالار (حارث بن ابو زینب) کی موت کے بعد مسلمان قلعہ ناعم پر قابض ہو گئے۔

اس واقعہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہودیوں نے جنگ میں کس بہادری کے ساتھ جان دی اور مسلمان ان کے مقابلہ میں کس طرح سینہ سپر ہو کر سر گرم پیکار رہے۔

 

حصن قموص و قلعہ صعب بن معاذ کا محاصرہ اور فتح

مسلمانوں نے حصن قموص کا محاصرہ کیا اور وہ بھی شدید معرکہ کے بعد فتح ہو گیا، لیکن اس نوبت پر آ کر رسد ختم ہو چکی تھی۔ مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اطلاع عرض کی مگر آپ سے کوئی مداوا نہ بن آیا۔ ناچار لشکریوں کو سواری کے گھوڑے ذبح کرنے کی اجازت فرما دی۔

اسی اثناء میں یہود کے ایک قلعہ سے بکریوں کا ریوڑ اتر رہا تھا جس میں سے دو بکریاں بچھڑ گئیں اور مسلمانوں نے ان کے گوشت پر اکتفا کیا۔ اب قلعہ صعب بن معاذ کا محاصرہ ہوا اور اس میں بھی یہودیوں نے شکست کھائی) یہاں سے اس قدر رسد حاصل ہوئی کہ مسلمانوں نے کھانے پینے کی طرف سے بے فکر ہو کر محصورین کو گھیرنا شروع کر دیا لیکن یہودی اپنی سر زمین کا ایک چپہ تک آسانی سے چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے۔ وہ اپنے ہر قلعہ کی حفاظت میں نہایت دلاوری سے لڑتے اور جب تک پوری طرح بے بس نہ ہو جاتے قبضہ نہ چھوڑتے۔

 

رستم یہود مرحب کی طرف سے مبارزت

اب یہود خیبر کا رستم مرحب پہلوان پوری طرح اسلحہ باندھ کر فخر سے یہ اشعار کہتا ہوا نکلا:

قد علمت خبیر انی مرحب

شاکی السلاح بطل مجرب

خیبر مجھے پہچانتا ہے کہ میں ہتھیار بند بہادر اور مرد میدان مرحب ہوں۔

اطعن احیانا و حینا اضرب

اذ اللیوث اقبلت تحرب

جب شیر مجھ پر بپھر کر حملہ کرتا ہے تو کبھی اسے نیزہ چبھو دیتا ہوں اور گاہ تلوار سے مضروب کرتا ہوں۔

ان حمای للحمی لا یقرب

یحجم عن صولتی المجرب

میں ایسی چراگاہ کا مالک ہوں جس کے قریب پھٹکنا اپنی موت مول لینا ہے، میرے آزمودۂ جنگ ہونے کی وجہ سے!

 

محمد بن مسلمہ کے ہاتھ سے رستم خیبر کا قتل

مرجب کا نعرہ سن کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: اس کے مقابلہ کے لیے کون نکلے گا؟ جناب محمد بن مسلمہ (انصاری) نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کل اس کے ہاتھ سے میرا بھائی (محمود) شہید ہو چکا ہے! اجازت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دونوں میں مقابلہ شروع ہوا۔ مرحب نے ایسا تلا ہوا وار کیا کہ اگر ابن مسلمہ اسے سپر نہ روک لیتے تو ان کا کام تمام ہو چکا ہوتا۔ مگر مرحب کی تلوار ڈھال ہی میں اٹک کر رہ گئی اور وہ محمد بن مسلمہ کی ضربت سے زمین پر لوٹنے لگا۔

جنگ شدت سے جاری تھی مگر یہود کے مضبوط قلعوں کے تسلسل نے انہیں ڈگمگانے نہ دیا۔

 

قلعہ زبیر کا محاصرہ

اب مسلمانوں نے حصن زبیر پر دھاوا بول دیا۔ فریقین میں سے ہر ایک نے جی کھول کر داد شجاعت دی۔ پھر بھی قلعہ کا فتح کرنا مشکل ہو گیا۔ آخر مسلمانوں نے محصورین کا پانی بند کر دیا، جس سے یہود جان پر کھیل کر میدان میں نکل آئے۔ گھمسان کا رن پڑا اور دشمن جی چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے ایک ایک قلعہ ان کے ہاتھ سے نکلتا گیا۔

 

آخری دو قلعوں پر دھاوا یہود کا اقرار شکست اور اراضی بٹائی پر دینے کا فیصلہ

منطقہ کتیبہ میں دو قلعے وطیح و سلام باقی رہ گئے تھے لیکن یہود کا تمام مال و اسباب قلعہ شق و نظاۃ و منطقہ کتیبہ میں ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ یہود نے جان بخشی کی شرط پر صلح کی درخواست پیش کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لی اور مفتوحہ اراضی کاشت کے لیے ان کے سپرد ہو گئی اور نصف بٹائی مقرر کر کے انہیں آباد رہنے دیا۔ 1؎

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے لیے تو ان کی اراضی پر حق کاشت قائم رہنے دیا مگر (اس سے قبل مدینہ کے یہود بنو قینقاع اور بنو نضیر کو ان کی اراضی سے متمتع ہونے کا موقع نہ دیا۔ حتیٰ کہ دونوں قبیلوں کو شہر سے جلا وطن فرما دیا۔ لیکن خیبر کا معاملہ بوجوہ یہود مدینہ سے مختلف ہے، اس لیے کہ:

الف۔ فتح خیبر کے بعد یہاں کے یہود کے سر اٹھانے کا خطرہ نہ تھا۔

ب۔ خیبر میں باغات و نخلستان اور اراضی کی اس قدر افراط تھی، جس کی نگہداشت اور پیداوار حاصل کرنے لیے بڑی کاوش درکار تھی۔

1؎ خیبر کی اراضی کے دو حصے ہیں۔ 1؎ جنگ سے فتح شدہ اسے مجاہدین میں تقسیم کر دیا۔ 2؎ صلح سے حاصل شدہ۔

اور یہ ریاست کی ملکیت ہے حصہ 2۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بٹائی پر دے دیا۔ یوں خیبر میں سب اراضی شامل ہے۔ اس لیے دونوں قسموں پر لفظ (خیبر) استعمال ہوتا ہے۔ مزید بحث کے لیے زاد المعاد ابن القیم جلد اول در تذکرہ خیبر فضل و منھا حرص الثمار کی آخری سطور ملاحظہ فرمائیے۔ م

ج۔ مدینہ کے مسلمان زراعت پیشہ تو تھے لیکن خود ان کی ذاتی اراضی ان کے بغیر آباد نہ رہ سکتی تھی۔ اس لیے انہیں اس غرض کے لیے مدینہ سے خیبر آباد کرنے کا سوال نہ تھا۔

د۔ انصار کی مدینہ کی جنگوں میں ہر وقت ضرورت تھی۔

ہ۔ یہود خیبر کی بساط سیاست الٹ جانے سے ان کے لیے کاشت کاری پر اکتفا بھی بہت غنیمت تھا۔

لیکن افسوس ہے کہ ان کی بد طینتی کی وجہ سے رفتہ رفتہ وہاں کی اراضی بنجر ہوتی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مزید احسانات کے باوجود کہ فتح میں تورات کے کئی نسخے مسلمانوں کے قبضے میں آئے، جو ان کی درخواست پر انہیں عنایت کر دئیے چہ جائیکہ مسیحی روم نے اس کتاب مقدس کو یروشلم فتح کر کے جلا کر ان کی راکھ پیروں تلے روندی۔ پھر انہی نصرانیوں نے جب یہودیوں کے ہاتھ سے اس کو حاصل کیا تو وہاں انہوں نے بھی کتاب مقدس کی یہی درگت کی۔

 

تقسیم پیداوار پر یہود خیبر کی حیرت

اور یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہر سال حضرت عبداللہ بن رواحہؓ پیداوار کی بٹائی کے لیے تشریف لاتے اجناس کی تمام اقسام دو حصوں میں تقسیم فرما کر مزارعین سے فرماتے کہ دونوں میں جونسا ڈھیر پسند ہو اٹھا لو اس پر ایک مرتبہ اہل خیبر نے کہا اسی عدل پر ارض و سما قائم ہیں۔ (از فتوح البلدان:م)

 

خیبر کے بعد یہود کے بقیہ تین مراکز

الف: فدک۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود فدک کی طرف قلعہ وطیح و سلام کے محاصرہ کے دوران میں پیغام بھیج دیا کہ مسلمان ہو جاؤ تو فبہا ورنہ تمہیں اپنے اموال ہمارے سپرد کرنا پڑیں گے! یہ لوگ خیبر کی خبروں سے متاثر تھے انہوں نے حوالگی میں خیریت سمجھی اور نصف پیداوار پر تصفیہ کر لیا۔

سر زمین فدک اور خیبر کی اراضی دونوں کی دو مختلف حیثیتیں قرار دی گئیں۔ آخر الذکر لڑائی سے فتح ہوئی تھی۔ اس کی اراضی غازیوں میں تقسیم فرما دی گئی۔ فدک کسی جدوجہد کے بغیر حاصل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لیے مختص کر لیا۔

ب: وادی القریٰ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بستیاں خیبر اور مدینہ کی گزرگاہ پر واقع تھیں۔ خیبر سے واپسی پر مسلمان وادی القریٰ سے ذرا دور ہی تھے کہ یہود نے تیر برسانا شروع کر دئیے جس سے مقابلہ کی نوبت آ پہنچی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صف بندی فرمائی مگر نبرد آزمائی سے پہلے انہیں اسلام پیش کیا۔ یہود کا ایک ایک پہلوان نکلنا شروع ہوا مگر اس کی قسمت میں واپس لوٹنا نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہر بہادر کے قتل کے بعد ان کے سامنے اسلام پیش کرتے۔ رات ہو گئی۔ دوسری صبح یہود نے از خود اطاعت کا پیغام بھیجا۔ ان کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے گئے اور انہیں بٹائی پر اراضی و باغات سونپ دئیے گئے۔ وادی القریٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار روز تک قیام فرمایا۔

ج: وادی تیماء۔ ۔ ۔ ۔ اسی راہ پر وادی تیماء واقع ہے اس میں بھی یہود آباد تھے مگر انہوں نے کسی تعرض کے بغیر قبول اطاعت و ادائے جزیہ دونوں شرطیں تسلیم کر لیں۔

 

سطوت یہود کا آخری انجام

آج سے عربستان میں صدیوں کی با وقار قوم یہود کا دبدبہ ختم ہو گیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی پر مجبور ہو گئے اور جس طرح مدینہ کی جنوبی (مکہ) جانب سے صلح حدیبیہ کے بعد خطرات کا انسداد ہو گیا، اسی طرح خیبر تک کی فتح نے شمال کی طرف سے فتنوں کا دروازہ بند کر دیا۔ یہود کے سرنگوں ہو جانے سے ان کے متعلق مسلمان۔ بالخصوص انصار، کا غصہ فرو ہو گیا۔ ان میں سے بعض کی مدینہ میں آباد کاری پر بھی مسلمانوں نے چشم پوشی سے کام لیا جس وقت مدینہ کے راس المنافقین ابن ابی پر موت نے حملہ کیا یہودی اپنے اس قدیم مربی کی مرگ پر مصروف گریہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے فرزند حضرت عبداللہ بن ابی مذکور کے پاس اس کے باپ کی تعزیت کے لیے تشریف لئے تو یہود سے شانہ ملا کر ایستادہ ہونے سے مضائقہ نہ سمجھا۔

یہود کے ساتھ مراعات کی وجہ سے حضرت معاذ بن جبلؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ انہیں دین موسیٰ ترک کرنے کے لیے نہ کہا جائے۔ اسی وقفہ میں خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کے یہود بنو عریض اور بنو غازیہ کے ساتھ اطاعت، جزیہ اور اپنے دین پر استقرار کی صورت میں معاہدہ کر لیا۔

الحاصل یہود کو مسلمانوں کے زیر نگین ہو کر رہنا ہی پڑا۔ پورے عرب میں ان کے مراکز ٹوٹ چکے تھے۔ انہیں احساس ذلت کی وجہ سے اس سرزمین کو خیر باد کہنا پڑا، جہاں صدیوں سے ان کی سطوت کا ڈنکا بج رہا تھا یہ اور بات ہے کہ اس ملک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان کا انخلا کامل ہوا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد (اس میں دو مختلف روایات ہیں )

خیبر اور جزیرۃ العرب کے یہودی اپنی سطوت سے محروم ہونے کے بعد دفعتہً عربستان کو خیر باد کہہ کر نہیں چلے گئے بلکہ کچھ مدت تک یہاں آباد رہے۔ لیکن جب تک عرب میں رہے مسلمانوں پر غصے سے دانت پیستے رہے اور جو کچھ ان کے خلاف بن آیا کرتے رہے۔

 

 

زہر آلود گوشت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیافت

یہ واقعہ خیبر میں رونما ہوا فتح کے بعد لڑائی کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔ فریقین معاہدہ کے پابند ہو گئے۔ اسی حالت سکون میں یہود کے سرغنہ سلام بن مشکم کی زوجہ زینب (ہمشیرہ مرجب مقتول) نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چند رفقاء کی دعوت میں زہر آلودہ گوشت پیش کیا۔ آپ کے رفیق طعام (بشرؓ  ابن البراء) تو مزے لے لے کر کھاتے گئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا ہی لقمہ چبا کر پھینک دیا اور فرمایا

ان ھذا العظم الیخبرنی انہ مسموم

(گوشت کے اس پارے نے مجھے اپنا زہر آلود ہونا بتا دیا ہے) دریافت پر مجرمہ نے اقتبال کرتے ہوئے کہا آپ نے میری قوم سے جو برتاؤ کیا ہے آپ کو بھی علم ہے میں نے یہ ارتکاب اس لیے کیا ہے کہ اگر آپ بادشاہ ہیں تو میری قوم کو آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ نبی ہیں تو وحی کے ذریعے آپ کو اطلاع ہو جائے گی اس اعتراف جرم پر اسے معاف کر دیا گیا یا نہیں اس میں دو مختلف روایتیں ہیں۔

1۔ اس کے باپ اور شوہر کے مقتول ہو جانے کی وجہ سے اسے معاف کر دیا گیا۔

2۔ حضرت بشرؓ کے انتقال کی بناء پر اسے قتل کر دیا گیا۔

زینب کے اس کرتوت کی وجہس ے مسلمان بہت متاثر ہوئے۔ انہیں یہود پر کوفی اعتماد نہ رہا اور ان کی جمعیت پراگندہ ہونے کے باوجود ان کے شر سے خائف رہنے لگے۔

 

بی بی صفیہ

خیبر کی ایک بی بی صفیہ بھی اسیروں میں آئیں۔ یہ بنو نضیر مدینہ کے سرغنہ حیی بن اخطب کی دختر اور مدینہ کے بنو قریظی رئیس اعظم کنانہ بن ربیع کی بیوہ تھیں۔ کنانہ مذکور مدینہ سے جلا وطنی پر چمڑے کے ایک بڑے تھیلے میں نقد و زر بھر کر ہمراہ لے آیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرار داد صلح کے مطابق کنانہ سے اس تھیلے کا مطالبہ کیا تو اس نے قسم کھا کر صاف انکار کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ثابت ہو جائے کہ مال تمہاری تحویل میں ہے تو قسم کے عوض میں تمہیں اپنا قتل منظور ہے۔ کم بخت نے از خود اپنے محضر قتل پر دستخط کر دئیے۔

مسلمانوں میں سے ایک شخص ذرا دیر پہلے کنانہ کو ایک کھنڈر میں دیکھ چکا تھا۔ اس نے یہ حکایت رسول اللہ سے بھی عرض کر رکھی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھنڈا کی تلاشی کا حکم دیا تو اس میں خزانہ برآمد ہو گیا اور کنانہ اس کی شرط کے مطابق قتل کرا دیا گیا۔

کہنا یہ تھا کہ بی بی صفیہ کے اسیر ہو کر آنے پر مسلمانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔

صفیہ سیدۃ بنی قریظہ والنضیر لا تصلح الا لک

(اے رسالتؐ پناہ! بی بی صفیہ بنو قریظہ و نضیر دونوں قبیلوں میں ممتاز ہونے کی وجہ سے صرف آپ کے حرم میں شامل ہونے کے شایاں ہیں ) یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے اپنے حرم میں شمولیت کی عزت سے ممتاز فرما دیا۔

اس معاملہ میں آنحضرت کے پیش نظر ان فاتحین و اکابر کا عمل تھا۔ جو مفتوح بادشاہوں کی شہزادیوں کو اپنے محل میں داخل کر کے ان کے دلوں سے شکست کا داغ ہلکا کرتے اور ان کے اعزاز میں اضافہ کرتے۔

شب تزویج میں جناب ابو ایوب خالد الانصاریؓ خیمہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر از خود شمشیر برہنہ لیے ہوئے پاسبانی کرتے رہے۔ انہیں خطرہ تھا کہ مبادا سیدہ صفیہ کے دل میں اپنی قوم اپنے والد اور شوہر کے قتل ہونے سے کینہ ابھر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وار کر بیٹھیں۔ اس رات کی صبح ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پردہ پر دیکھ کر سبب دریافت کیا اور ایوبؓ نے عرض کیا نبوت مآب صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے بی بی صفیہ کے باپ، شوہر اور برادری کو قتل کر ا دیا شاید ان کے دل میں کفر کے اثرات پوری طرح مندمل نہ ہوئے ہوں۔ مجھے بی بی سے آپ کے متعلق یہی خدشہ تھا۔

 

نواحی بادشاہوں کی طرف تبلیغی وفود کا زمانہ

یہ تنقیح ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل اور کسریٰ اور نجاشی وغیرہ غیر مسلم بادشاہوں کے لیے جو تبلیغی وفود مقرر فرمائے انہیں غزوہ خیبر سے قبل بھیجا گیا یا اس کے بعد۔ اس تعیین میں بھی مورخین کا بے حد اختلاف ہے۔ ظن غالب یہ ہے کہ ان حضرات کو بیک وقت روانہ نہ کیا گیا اور یہ کہ بعض داعی فتح خیبر سے قبل اور بعض حضرات اس کے بعد بھیجے گئے۔ ازاں جملہ حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبیؓ ہیں جو خیبر کی لڑائی میں شریک ہوئے اور فتح (خیبر) کے بعد مکتوب رسالت دے کر ہرقل (روم) کے ہاں بھیجے گئے۔

 

ہرقل روم کے دربار میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم

جس وقت ہرقل روم ایران کو شکست دے کر اس صلیب مقدس کو ان سے واپس لانے میں کامیاب ہو گیا جسے کسریٰ ایران بیت المقدس کو فتح کر کے اپنے ہمراہ لے گیا تھا۔ اس نے نذر ماونی کہ اگر میں مقدس صلیب کو دوبارہ حاصل کر سکا تو اسے پا پیادہ اٹھا کر بیت المقدس میں نصب کروں گا۔ جب ہرقل صلیب کو لے کر حمص میں پہنچا تو یہاں اسے مکتوب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ملا لیکن اس واقعہ میں بھی دو قسم کی روایات ہیں۔

الف۔ رسالت مآب کے قاصد جناب دحیہ کلبیؓ نے اپنے رفقائے عرب کی معیت میں ہرقل کے دربار میں تشریف لا کر اپنے ہاتھ سے مکتوب رسالتؐ کو عنایت کیا؟

ب۔ یا اس کے عامل مقیم بصری کے توسط سے بادشاہ تک پہنچایا؟

دونوں میں کوئی صورت سہی بہرحال ہرقل نے مکتوب سر دربار پڑھوا کر اس کا ترجمہ سنا۔ جس پر نہ وہ برہم ہوا نہ اس کے بشرے سے کوئی ایسی کیفیت ظاہر ہوئی، نہ اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کے لیے اپنے دماغ میں کوئی منصوبہ بنایا۔ بلکہ اس نے ایسے مودبانہ انداز سے جواب لکھوا کر حضرت دحیہؓ کے حوالے کیا کہ بعض مورخین نے غلطی سے اس طرز خطاب کو ہرقل کے مسلمان ہو جانے پر محمول کر لیا۔

(حارث غسانی عامل روم)

حارث غسانی (عامل روم) کا قاصد حمص ہی میں ہرقل کے پاس پہنچا، جس میں حارث نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی اطلاع کے ساتھ آپ کے دعویٰ رسالت کی پاداش میں بادشاہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھائی کرنے کی اجازت طلب کی۔ اس کی بجائے ہرقل نے حارث کو حکم دیا کہ بیت المقدس کی زیارت کے موقعہ پر وہ بھی شریک ہو تاکہ مقدس صلیب کے احترام میں اضافہ ہو سکے اور ہرقل نے دین جدید کے مدعی (جناب خاتم الرسلؐ) کے سد باب پر توجہ ضروری نہ سمجھی۔ اسے یہ خبر نہ تھی کہ چند سال بعد یہی بیت المقدس اور شہنشاہ اعظم کی مملکت (روم) پر اسلام کا پرچم لہرا رہا ہو گا اور اس کا مقبوضہ شہر دمشق حکومت اسلامیہ کا دارالخلافہ بن جائے گا۔ قیصر کو یہ علم بھی نہ ہو سکتا تھا کہ مسلمان بادشاہ اور روم کی آویزش ترک مسلمانوں کو 1353ء میں قسطنطنیہ پر مسلط کر دے گی، جہاں کے سب سے بڑے کلیسا کو مسجد کا مرتبہ نصیب ہو گا۔ جس مسجد کی محراب پر اسی نبی کا اسم گرامی منقش ہو گا، حتیٰ کہ چند صدیاں گزر جانے کے بعد یہی مسجد رومی فن نقش و نگار کا نمونہ قرار پائے گی۔

 

کسریٰ (شاہ ایران) کے دربار میں فرمان رسالتؐ

جب اس بادشاہ کے سامنے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوتی فرمان پڑھا گیا تو اپنی طرف دعوت اسلام کا پیغام سن کر آگ بگولا ہو گیا۔ نامہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چاک کر کے پھینک دیا۔ کسریٰ نے اسی وقت اپنے نائب یمن باذان کی طرف حکم بھیجا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سر (مبارک) اس کے حضور پیش کیا جائے۔ غالبا ً اسے اپنی اس شکست کی تلافی دکھانا مقصود تھی جو اسے ابھی ابھی ہرقل روم کے مقابلہ میں اٹھانا پڑی۔ جب مسلمان قاصد نے ایران سے واپس آ کر رسالت مآبؐ کی خدمت میں کسریٰ کے یہ کرتوت بیان کئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح اللہ اس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کر دے گا۔

ادھر عامل یمن باذان نے اپنے آقائے ولی نعمت (شدہ ایران) کی تعمیل حکم کے لیے اپنے دو آدمی مدینہ بھیج دئیے ادھر کسریٰ (ایران)کا فرزند شیرویہ اپنے باپ کو قتل کر کے خود تخت پر بیٹھ گیا۔ باذان کے سپاہی رسول اللہ کے سامنے ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسریٰ کے قتل ہو جانے کی خبر سنائی، جس سے بذریعہ وحی آپ کو مطلع کیا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باذان کے سپاہیوں سے فرمایا کہ وہ یمن واپس جا کر باذان کو اسلام کی دعوت دیں۔

 

نائب والی یمن کا قبول اسلام

ہرقل روم کے مقابلہ میں ایران کی ہزیمت اور اس کے اقتدار کا زوال اہل یمن کے سامنے تھا۔ اس کے ساتھ ہی قریش کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور یہود کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کلی استیصال بھی ان پر منکشف ہو چکا تھا۔ جب اس کے سپاہیوں نے مدینہ سے لوٹ کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف باذان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو اس نے اپنی سعادت کی وجہ سے اسلام قبول کر لیا اور خود کو ایران کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یمن کا عامل تصور کر لیا۔

قارئین! آپ کے نزدیک اس کا حل کیا ہے کہ باذان سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کسی قسم کا مطالبہ (از قسم خراج، عشر و زکوٰۃ) فرما سکتے تھے۔ جب کہ یمن اور مدینہ کے درمیان ہنوز مکہ حائل تھا؟ البتہ یہ وقفہ باذان کے لیے مغتنم تھا کہ وہ ایران کے تسلط سے اپنی گردن نکال کر عرب کی جدید سطوت کی پناہ میں آ جائے اور اس وقفہ میں نہ تو ایران کو کسی قسم کا خراج ادا کرے اور نہ اس سطوت جدید (اسلام) کے حضور۔

شاید باذان اس موقعہ پر یہ اندازہ نہ کر سکا کہ اگر وہ اسی وقت اپنا الحاق محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیتا تو اس الحاق سے اسلام کی قوت نفوذ کو جزیرۃ العرب میں کس قدر عروج حاصل ہو جاتا، جیسا کہ دو سال بعد باذان پر واضح ہو گیا۔

 

مقوقس شہنشاہ مصر کے دربار میں فرمان رسالت

قبطیوں کے شہنشاہ اعظم مقوقس کے دربار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد (جناب حاطب بن ابی بلتعہؓ) پہنچے۔ بادشاہ نہایت احترام سے پیش آیا۔ بادشاہ نے فرمان رسالتؐ کے جواب میں پورا ادب ملحوظ رکھا کہ میرے علم کے مگابق بھی ایک نبی آنے والا ہے لیکن اس کا ظہور ملک شام میں ہو گا ! بہرحال اس نے قاصدکو عزت و تحائف کے ساتھ رخصت کیا اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور مندرجہ ذیل تحائف پیش کئے۔ دو نوجوان بیبیاں 1؎، سفید رنگ کا خچر (بار برداری) کے لیے ایک گدھا اور کئی ہدایا جن میں مصر کی مصنوعات بھی تھیں۔

1؎ مولف علام نے متن (ص394، ص16) صرف جاریتین لکھا ہے جس پر فارسی مترجم صاحب زندگانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دو کنیز سے نص فرما کر شاہی خاندان کی شہزادیوں کو باندی ثابت کر دیا حالانکہ مقوقس کے خط میں مرقوم ہے وبعثت الیک بجایتین لھما مکان فی القبط عظیم (زاد المعاد ابن القیم) میں آپ کے لیے دو نو عمر لڑکیاں بھیجتا ہوں جن دونوں کی قبطیوں میں بے حد عظمت ہے۔ کنیز کی عظمت کا تو سوال ہی نہیں پھر بادشاہ وقت کی قوم میں ! مگر یہ کہ ناقلین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں شاہی خاندان کی شہزادی کو باندی ثابت کرنے میں اپنے سلیقہ کے اظہار میں کمی نہ رہنے دی۔ م

 

نجاشی (شہ حبش) کے دربار میں مکتوب رسالتؐ

مسلم ہے کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو مسلمانوں کے ساتھ جس قسم کا میلان تھا اس کا یہی تقاضا تھا کہ وہ مکتوب رسالتؐ کا جواب سلیقہ سے دے گا۔ بعض روایات میں اس کے مسلمان ہو جانے کا تذکرہ بھی ہے مگر بعض مستشرقین نجاشی کے اسلام سے اس خط کی بناء پر انکار کرتے ہیں ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تبلیغی مکتوب کے ماسوا نجاشی کی طرف بھیجا، جس میں حبشہ کے اندر مقیم مہاجرین کو مدینہ لوٹا دینے کا فرمان تھا اور جس خط پر بادشاہ نے انہیں حضرت جعفر بن ابو طالبؓ کی سربراہی میں دو کشتیوں میں سوار کرا دیا۔ جب بی بی ام حبیبہ مدینہ تشریف لائیں اور حرم نبویؐ کی حیثیت سے امہات المومنین کے زمرہ میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا، اس تزویج میں مستشرقین کی دو مختلف رائیں ہیں (اور دونوں غلط۔ م)

الف۔ سرغنہ قریش ابو سفیان (ام حبیبہ کے والد) سے قرابت کی وجہ سے اہل مکہ کو قرار داد حدیبیہ پر قائم رکھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے عقد فرمایا۔

ب۔ ابو سفیان کے بت پرست ہونے کے غصہ میں ان کی صاحبزادی کو عقد میں لا کر ایسے شخص کو رنجیدہ کرنے کے لیے!

 

نوابین عرب کے دربار میں فرمان نبویؐ

1,2۔ امیر یمن و عمان دونوں نے فرمان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں بد تمیزی کا مظاہرہ کیا۔

3۔ امیر بحرین (منذر بن ساوی۔ م) مسلمان ہو گئے۔

4۔ امیر یمامہ (ہوذہ بن علی۔ م) نے اپنی بادشاہت کی شرط منوانے پر اسلام قبول کرنے کا وعدہ کیا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اس طمع پر اسے لعنت کی اور وہ ایک سال بعد دنیا ہی کو چھوڑ بیٹھا۔

 

سلاطین نے خطوط کا جواب نرمی سے کیوں دیا؟

یہ بادشاہ اور نواب جن کی طرف تبلیغی خطوط بھیجے گئے ان میں سے زیادہ تعداد نے جواب میں رفق وسلیقہ کا اظہار کیوں کیا؟ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ان میں سے نہ تو کسی نے کسی مبلغ کو قتل کیا نہ کسی کو قید و بند میں ڈالا، الا یہ کہ دو ایک کے جوابات میں لہجہ ضرور درشت تھا (مثلاً کسریٰ ایران و حارث غسانی) رہا یہ کہ ان بادشاہوں نے دین جدید کی تبلیغ سے برفروختہ ہو کر صاحب دعوت (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف جدوجہد کیوں نہ کی؟ چاہیے تو یہ تھا کہ تمام بادشاہ متحد ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹانے کا تہیہ کر لیتے۔

حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ہمارے اس عہد میں مادیت کو توسع حاصل ہے اور اس کے مقابلہ میں روحانیت نقطہ لا یتجزی تک سمٹ کر آ چکی ہے۔ اسی طرح اس دور میں بھی زندگی عیش و تنعم کا دوسرا نام تھا، جب کہ قوموں کی جنگ اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے برپا ہوتی یا مادی منافع حاصل کرنا مقصود ہوتا تاکہ ہوس رانی کا دامن ہاتھ سے چھٹنے نہ پائے۔

ظاہر ہے کہ ایسے پر آشوب عہد میں جہاں عقیدہ اور ایمان دونوں روحانیت کے مقابلہ میں اس طرح لفس کی بھینٹ چڑھا دئیے جائیں کہ بظاہر دین کے شعار و اعمال پوری پابندی کے ساتھ ادا کیے جائیں مگر ان اعمال کی پشت پر یقین و اذعان کا شائبہ تک نہ ہو بلکہ مطمح نظر یہ ہو کہ ایسے لوگ جس صاحب کے اثر و نفوذ کے غلبہ میں جی رہے ہیں وہ ان کے کھانے پہننے کے ساتھ ان کے عیش و تلعب میں بھی ان کی سرپرستی فرما رہا ہے۔ ان لوگوں کی عزت و دولت مندی بھی اسی کی دست گیری کا صدقہ ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے اشعار و اعمال سے اسی حد تک وابستگی ہو جس کے طفیل ان کے مادی منافع بار آور رہے ہیں۔

اور جب ایسے لوگوں کو یہ منافع حاصل نہیں ہوتے تو شعار دین کی اتنی سی ادائیگی میں بھی ان پر درماندگی غالب آ جاتی ہے۔ ان کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور قوت مقاومت سلب ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایسے لوگوں نے دین جدید (اسلام) کی حکایت ایمان اور اس کے اثر و نفوذ کے واقعات سنے، جن میں انہیں معلوم ہوا کہ اس دین میں تمام انسانوں کو ایک خدا کے ساتھ مساوات کا درجہ حاصل ہے، اس کے ماننے والے تنہا ایک ہی خدا کی عبادت کرتے اور اسی سے طالب امداد ہوتے ہیں ، جن کا خدا کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ نفع و ضرر کا بلا شرکت غیرے وہی مالک ہے، اس کی رضا و خوشنودی کی ایک شعاع دنیا جہان کے بادشاہوں کی آتش غصب کو ٹھنڈا کر سکتی ہے، اس مالک الملک کا خوف دلوں کو ہلا دیتا ہے اگرچہ ایسے دلوں کو تمام دنیا کے بادشاہوں نے اپنی اپنی نعمتوں اور رضا مندی سے مال مال کیوں نہ کر رکھا ہو۔ اور وہ شخص اس ذات مطلق سے مغفرت کا امیدوار ہے۔ جو اس کے حضور اپنی لغزشوں سے توبہ کر کے ایمان اور خالص عمل صالح کی ضمانت پیش کر سکے۔

دعوت جدید (اسلام) کے سلسلہ میں لوگوں نے یہ بھی سنا کہ صاحب دعوت کے خلاف ظلم و تعذیب برپا رہنے کے باوجود اس کا اقتدار روز بروز ترقی حاصل کر رہا ہے۔ ہر قسم کی مادی قوتیں اس کے خلاف حرکت میں رہتے ہوئے بھی وہ دشمنوں پر غالب آ رہا ہے۔ انہیں یہ اطلاعیں بھی پہنچ گئیں کہ صاحب دعوت بچپنے میں یتیم تھا اور بلوغت کے زمانہ میں بے مال و زر، مگر اس نے کبھی دوسروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ اس پر بھی اس کے اثر و نفوذ کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف اس کے مولد (مکہ) بلکہ تمام عرب میں آج تک اس کے سوا کوئی بادشاہ بھی اس قدر طاقتور نہیں گزرا، جس کے سامنے سارے ملک کی گردنیں جھکی رہیں۔ دنیا اس کی آواز پر کان لگائے کھڑی رہے۔ دل اس کی محبت سے لبریز ہوں ، جیسے وہ مسیحا ہے کہ اس کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہو جائے۔

اوریہ جو کچھ لوگ ابھی تک حقیقت سے دور تھے اگر ان کی راہ میں خوف و شبہ شامل نہ ہوتا تو وہ بھی اسی چشمہ جاوداں سے حیات نو حاصل کرتے اور انہیں وجوہ کی بناء پر ان بادشاہوں نے ختم الرسلؐ کی دعوت کے جواب میں نرمی اور سلیقہ ظاہر کیا جس سے مسلمانوں کے ایمان و سکون میں اور اضافہ ہوا۔

 

مہاجرین حبشہ، دعوتی وفود کی واپسی اور عمرۃ القضا کی ادائیگی کے بعد:

ادھر رسول خدا ؐ خیبر سے مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ اسی وقفہ میں حضرت جعفر بن ابو طالبؓ اپنے مسلمان ہمراہی مہاجرین کے ساتھ حبشہ سے مدینہ وارد ہوئے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تبلیغی وفود بادشاہوں کی طرف بھیجے تھے وہ بھی لوٹ کر آ گئے۔ برسوں کے بچھڑے ہوئے دوست گلے ملے۔ مسلمان تمادی حدیبیہ ختم ہونے کے لیے ایک ایک گھڑی شمار کرنے لگے تاکہ سال گزشتہ عمرۃ القضا ادا کرنے کا جو وعدہ زبان وحی نے فرمایا تھا (یعنی:)

لقد صدق اللہ رسولہ الرء یا بالحق لتد خلن المسجد الحرام ان شاء اللہ امنین محلقین رؤسکم و مقصرین لا تخافون (27:48)

بے شک اللہ نے اپنے رسول کو واقعی سچا خواب دکھایا تھا کہ ان شاء اللہ تم (مسلمان) مسجد حرام میں کسی خوف و خطر کے بغیر باطمینان (تمام) داخل ہو گے (وہاں جا کر) تم (کچھ تو) اپنا سر منڈواؤ گے (اور کچھ فقط) بال ہی کترواؤ گے۔

مسلمان اس (عمرۃ القضاء) سے بہریاب ہوں اور حضرت جعفر بن ابو طالبؓ کے ورود مدینہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قدر مسرت حاصل ہوئی۔ فرط خوشی سے فرمایا میں نہیں بتا سکتا کہ مجھے خیبر فتح ہونے کی خوشی زیادہ ہوئی ہے یا جعفرؓ کے خیریت سے واپس آ جانے کی!

 

واقعہ سحر

کہا جاتا ہے کہ یہودیوں نے اس وقفے میں لبید نامی ساحر کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کرا دیا جس کا اثر آپ پر یہاں تک ہوا کہ ایک کام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی کیا تھا ذرا دیر بعد خیال گزرا کہ اسے نہیں کیا۔ لیکن واقعہ سحر کی روایات میں اس قدر اضطراب ہے کہ جو لوگ نفس واقعہ کے منکر ہیں ان کی تائید سے مفر نہیں۔

اس دوران میں مسلمان مدینہ میں رہ کر سکون و طمانیت کے ساتھ فضل خداوندی اور اس کی نعمتوں سے بہرہ یاب ہوتے رہے اور کسی بڑی لڑائی سے انہیں سابقہ نہیں الا یہ کہ گاہ بگاہ ان گروہ بندوں کے خلاف فوجی دستے بھیجنا پڑتے جو مسلمانوں کی جان و مال پر دستبرد کی تیاری میں مستغرق ہو جاتے۔

جب صلح حدیبیہ کے ایک سال بعد (ماہ) ذیقعد لوٹ کر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہمراہ دو ہزار مسلمانوں کو لے کر عمرۃ القضا کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ حدیبیہ کی قرار داد کے مطابق زیارت و طواف سے اپنی روحوں کو متمتع کر سکیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

عمرۃ القضا سے لے کر خالدؓ بن ولید کے اسلام لانے تک

 

 

عمرۃ القضاء

قرار داد حدیبیہ کے مطابق ایک سال گزر جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے لیے مکہ جانے کا وقت آ گیا۔ آپ نے مسلمانوں کو عمرۃ القضاء کی تیاری کا حکم دیا، جس سے مسلمانوں کو گزشتہ سال (حدیبیہ میں ) روک دیا گیا تھا، یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان پر مسلمانوں نے کس خوشی سے لبیک کہا۔ ان میں مہاجرین مکہ بھی تھے جو کئی سال سے وطن کی صورت دیکھنے کے لئے ترس رہے تھے۔ مسلمانوں کے اسی اشتیاق کا نتیجہ ہے کہ سال گزشتہ زیارت کعبہ و ادائے عمرہ جس کے لیے چودہ سو افراد مدینہ سے نکلے تھے آج اس کے لیے دو ہزار مسلمان پا بہ رکاب ہیں۔

پابندی شرائط کے احترام کی وجہ سے کسی مسلمان نے تلوار کے سوا کوئی اور اسلحہ اپنے ساتھ نہیں لیا۔ اگرچہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کی بے وفائی سے خائف بھی تھے اس لیے بربنائے احتیاط ایک سو مسلمانوں کا دستہ محمد بن مسلمہ کی سپہ سالاری میں پہلے سے روانہ کر دیا، مگر انہیں تاکید فرمائی کہ حرم مکہ میں داخل نہ ہوں بلکہ (مقام) مر الظھران (متصل حرم) میں پڑاؤ کر لیں۔

 

مدینہ سے روانگی کا نظارہ

مدینہ سے روانگی کے وقت مسلمانوں کے ہمراہ ساٹھ ہدی (قربانی کے جانور) تھیں۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ناقہ قصواء پر سوار آگے آگے تھے۔ زائرین کے دل میں مکہ معظمہ کی زیارت اور بیت اللہ کا طواف کرنے کی مسرت جوش مار رہی تھی۔ مہاجرین اور بھی بے تاب کہ جس بستی میں انہوں نے آنکھیں کھولیں اسے دیکھنا بھی نصیب ہو گا! جس شہر کی دیواروں کے سائے میں جوان ہوئے، ان سے مس کرتے ہوئے شہر کی گلیوں میں گشت کریں گے! جن دوستوں کے ساتھ زندگی کا طویل عرصہ گزارا انہیں دیکھ کر آنکھوں کو تراوٹ نصیب ہو گی! وطن کی خوشگوار ہوا سے مشام جاں معطر ہو گا! اور اس مبارک بستی کی خاک سرمہ چشم بنے گی، جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا اور جس سر زمین میں خدا کی پہلی وحی کا نزول ہوا۔

دو ہزار مسلمانوں کی فوج اسی جوش و خروش کے ساتھ گامزن تھی۔ ان کے دل فرط خوشی سے بلیوں اچھل رہے تھے۔ تصورات میں یہ نقشے تھے کہ جونہی اپنی اپنی سواریوں سے اتر کر شہر میں داخل ہوں گے (دوستوں سے مل کر) زندگی کے اس دور کی یاد تازہ کریں گے جس کی آخری گھڑیوں میں قضا اور قدر نے انہیں گھر سے بے گھر کر کے نکال دیا تھا، ان احباب کا تذکرہ ہو گا جنہیں مکہ سے جلا وطن ہوتے وقت زندہ چھوڑ گئے تھے اور اس کے بعد وہ آسودۂ لحد ہو گئے! عزیزوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے مال و اسباب کی لوٹ اور غارت کی داستان بھی دریافت کی جائے گی جس سے خدا کی راہ میں ہجرت کے موقعہ پر ہاتھ دھو کر روانہ ہو گئے تھے۔

اور یہ تصور بھی ان کے دماغ میں کروٹیں لے رہا تھا کہ جس ایمان نے ان کی زندگی میں یہ انقلاب پیدا کر دیا ہے، وہ انہیں کس انداز سے خدا کے گھر کی طرف لے آیا ہے۔ جو گھر بنی نوع آدم کے لیے امن و سلامتی کا ضامن ہے۔ بفحوائے:

واذ جعلنا البیت مثابۃ للناس وآمنا (125:2)

(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !) بنی اسرائیل کو وہ وقت بھی یاد دلاؤ جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا مرجع اور امن کی جگہ ٹھہرا دیا۔ )

ابھی تک وہ منظر بھی ان کی نظر سے اوجھل نہ ہوا تھا، جب انہیں اس مقدس فرض کے ادا کرنے سے سالہا سال سے رد کر دیا گیا۔ آج وہ کس قدر خوش تھے کہ ذرا دیر بعد اس متبرک سر زمین میں امن و سلامتی کے ساتھ داخل ہوں گے!

ان شاء اللہ امنین محلقین رء وسکم و مقصرین لا تخافون (27:48)

ان شاء اللہ تم مسلمان مسجد حرام میں کسی خوف و خطر کے بغیر باطمینان تمام داخل ہو گے (وہاں جا کر) (کچھ تو) اپنا سر منڈواؤ گے اور (کچھ فقط) بال ہی کترواؤ گے۔

 

مکہ سے قریش کی روپوشی

مسلمان شہر میں داخل ہوئے تو اس سے پہلے قریش مکہ سے روپوش ہو گئے۔ کسی نے (قریبی) پہاڑوں میں خیمے نصب کر لیے، کوئی درختوں کی آڑ میں جا چھپنا۔ بعض کوہ ابو قبیس پر چڑھ گئے، کسی نے حرا میں پڑاؤ ڈال لیا۔ الغرض سب مرد و زن ندامت سے منہ چھپانے کے لیے گرد و نواح کی پہاڑیوں میں دبک گئے۔

روپوشی کے ساتھ قریش کا ہر فرد مسلمانوں کی طرف تاک لگائے دیکھ رہا تھا کہ جن لوگوں کو دھتکار کر مکہ سے نکال دیا تھا، آج وہ اس شان و شوکت کے ساتھ شہر میں داخل ہو رہے ہیں۔

 

مکہ میں مسلمانوں کا داخلہ

جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقاء کی مشایعت میں مکہ کی شمالی سمت میں شہر میں داخل ہوئے۔ آپ کے ناقہ (قصوائ) کی مہار حضرت عبداللہ بن رواحہ ہاتھ میں لیے ہوئے آگے چل رہے تھے۔ پیدل اور سوار دونوں قسم کے رفقاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں بائیں اور پشت کی جانب سے حلقہ میں لیے ہوئے۔ کعبہ نظر آیا اور تمام مسلمانوں نے بیک زبان لبیک لبیک پکارا۔ ان کے دل اور روح دونوں خدائے ذوالجلال کی طرف راغب اور فرط عقیدت و جذبہ محبت سے خدا کے اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد حلقہ بنے ہوئے جسے خدا نے ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب رکھے۔ تاریخ عالم میں اس منظر کی مثال تلاش کرنے سے بھی نہیں مل سکتی۔ اس نظارہ نے ان سنگ دل مشرکوں کے دل بھی اپنی طرف کھینچ لیے، جن کا رواں رواں بتوں کی بندگی کے لیے وقف تھا۔ ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ! لبیک! لبیک! (حاضر! حاضر!) کی گونج کانوں کے پردوں سے چھن کر دلوں میں اتر گئی اور استعجاب و حیرت میں ڈوب گئے۔

 

بیت اللہ میں تشریف آوری

قصواء بیت اللہ کے دروازہ پر آ پہنچی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چوکھٹ پر تشریف لائے تو ردائے احرام کا ایک پلہ دائیں بغل سے نکال کر بائیں کندھے پر رکھ لیا اور یہ دعا پڑھی:

اللھم ارحم امراً اراھم الیوم من نفسہ قوۃ!

یا اللہ! اس شخص پر رحم فرمائیو جو دشمن کے سامنے وقار سے آئے۔

 

عمرہ کے اعمال

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکن یمانی سے مس فرمانے کے بعد حجر اسود کو بوسہ دیا، پھر کعبہ کے سات طواف کیے، جن میں پہلے تین طواف میں تیز رفتار اور ماباقی چار طواف معمولی رفتار کے ساتھ۔ ابتداء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہزار رفقا اسی طرح قدم بہ قدم ادائے اعمال میں مصروف تھے۔ قریش کوہ ابو قبیس پر کھڑے ہوئے جھانک رہے تھے اور اس منظر پر حیران۔ ذرا دیر پہلے انہوں نے آپس میں یہ گفتگو کی تھی کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب تھکے ماندے سے ہیں ! لیکن جب طواف میں ان کی پھرتی (تیز رفتاری) دیکھی تو ان کے دل سے پہلا خیال دور ہو گیا۔

 

عمرہ کے موقعہ پر رزمیہ اشعار پر تادیب

مکہ میں داخل ہونے کے موقعہ پر ناقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساربان حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے رزمیہ اشعار پڑھنا شروع کر دئیے۔ (جس سے) پہلے حضرت عمرؓ نے انہیں روکا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا:

مھلا یا بن رواحۃ و قل لا الٰہ الا اللہ وحدہٗ نصر عبدہ واعز جندہ وخذل الاحزاب وحدہ۔

اے ابن رواحہؓ! ان شعروں کے بجائے یہ کہو ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی نے اپنے بندے (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نصرت فرمائی۔ اس کے لشکر کو عزت بخشی اور غزوۂ خندق میں عرب فوجوں کو شرم سار کر کے ناکام واپس فرمایا۔

سیدنا ابن رواحہؓ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی یہ کلمات دہرائے۔ ان کی آواز سے دشت و جبل گونج اٹھے اور پہاڑ میں دبکے ہوئے مشرکوں کے دل ہیبت سے کانپ اٹھے۔

 

تکمیل عمرہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء طواف کعبہ سے فارغ ہو کر کوہ صفا پر تشریف لائے۔ صفا و مروہ کے درمیان بحسب دستور سات مرتبہ گردش (سعی) فرمائی۔ مروہ کے قریب قربانی ذبح کر کے سر کے بال منڈوائے اور عمرہ سے فراغ حاصل ہوا۔

 

سقف کعبہ پر اذان

دوسرے روز بیت اللہ میں تشریف لائے۔ کعبہ میں بدستور بت موجود تھے۔ بایں ہمہ حضرت بلالؓ نے کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان کہی اور رسول اللہ نے اپنے دو ہزار صحابہ سمیت ظہر کی نماز ادا کی۔ یہی کعبہ ہے جس میں انہیں سات برس تک عبادت کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

قرار داد حدیبیہ کے مطابق تین روز تک مکہ میں قیام فرمایا۔ قریش روپوش ہو کر پہاڑوں میں دبکے ہوئے تھے۔ مسلمان شہر کے ہر گلی کوچے میں چلتے پھرتے اور کوئی شخص ان سے معترض نہ ہوتا۔ مہاجرین اپنے چھوڑے ہوئے گھروں کو دیکھنے کے لیے انصار کو بھی اپنے ہمراہ لے جاتے، جو ان کے ساتھ اسی طرح شہر میں گھومتے، جیسے وہ بھی مکہ ہی کے رہنے والے ہیں۔

مسلمانوں میں سے ہر ایک کا چلن اسلامی سیرت کا نمونہ تھا۔ نمازیں ادا کر رہے ہیں ، جن سے نفس کا غرور دب رہا ہے۔ ان میں سے تنومند اپنے ضعیف بھائی کو سہارا دے رہا ہے۔ تونگر محتاج کی مدد کر رہا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم شفیق باپ کی مانند ان کے درمیان آ جا رہے ہیں ، کسی سے مسکرا کر بات ہو رہی ہے، کسی کے ساتھ مزاح فرمایا جا رہا ہے اور مذاق بھی حقیقت کے خلاف نہیں۔ قریش اپنے دوسرے مکی یاران طریقت کے ساتھ پہاڑوں کی چوٹیوں سے جھانک جھانک کر دیکھ رہے ہیں۔ تاریخ عالم کا یہ حیرت ناک منظر! اہل مکہ مسلمانوں کے طور طریقے دیکھ رہے ہیں کہ نہ شراب پی رہے ہیں ، نہ برائی کا ارتکاب کر رہے ہیں ، نہ خور و نوش کی کوئی شے انہیں فریب میں ڈال رہی ہے۔ کوئی فتنہ ان پر قابو نہیں پا سکتا۔ وہ خدا کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ فرمان الٰہی کی تعمیل ان کا شعار و دثار ہے جن مناظر میں مخالفین کی جذب و کشش کا یہ سامان ہو، ایسے منظر تکمیل انسانیت کا حسین مرقع ہونے کی وجہ سے دیکھنے والوں کے دل میں واقعی کوئی اثر پیدا نہیں کر سکتے۔

 

سیدہ میمونہ کے لیے شرف تزویج

سیدہ میمونہ نے مسلمانوں کے اسی حسن کردار سے متاثر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد کا تہیہ کر لیا۔ یہ بی بی سیدہ ام الفضل زوجہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب کی ہمشیرہ اور خالد بن ولید کی خالہ تھیں۔ ام الفضل نے وکالت حضرت عباسؓ ہی کے سپرد کی جسے رسول اللہؓ نے قبول فرما کر بعوض چار سو درہم (مساوی یک صد روپیہ سکہ حالیہ پاکستان۔ م) بہ مد حق مہر عقد فرما لیا۔

آج قرار داد حدیبیہ کے مطابق مکہ میں قیام کے تین روز ختم ہو چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اپنے قریب لانے کے لیے دعوت (طعام) کرنا چاہی۔ جب قریش کے وکیل سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزی یہ پیغام لے کر آئے کہ آپ کی میعاد ختم ہو چکی ہے، اب شہر خالی کر دیجئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:

میں آپ لوگوں کی شمولیت کی امید پر دعوت ولیمہ کرنا چاہتا ہوں۔

سہیل: ہمارے شہر سے نکل جائیے ہمیں آپ کی دعوت منظور نہیں۔

ادائے عمرہ کے دوران میں مسلمانوں کے اعمال و کردار نے اہل مکہ پر جو اثر پیدا کیا تھا اور جس سے ان کا غصہ ایک حد تک ٹھنڈا پڑ گیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے ساتھ دعوت میں شریک فرما کر اس میں اور اضافہ کرنا چاہتے تھے۔

 

قضائے عمرہ کے بعد مکہ سے مراجعت

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے احترام معاہدہ کی غرض سے وکلائے قریش کے اس مطالبہ پر کوئی اعتراض نہ فرمایا۔ مسلمانوں کو مراجعت کا حکم دیا اور جس انداز سے مکہ میں داخل ہوئے تھے اسی شان سے رخصت ہوئے۔ آگے آگے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم قصواء (ناقہ) پر سوار ہیں۔ مشایعت میں دو ہزار مسلمانوں کا جم غفیر ہے۔ (اپنے غلام) ابو رافع سے فرمایا کہ ام المومنین میمونہؓ کو ہمراہ لائیں۔ پہلی شب (مقام) سرف میں گزاری۔ یہ مقام مکہ معظمہ سے چند میل کے فاصلے پر ہے اور ازدواج مطہرات میں سیدہ میمونہؓ آخری حرم ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے پچاس سال بعد تک زندہ رہیں اور وفات سے قبل سرف (مقام مذکور) ہی میں اپنی تدفین کی وصیت فرمائی۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مراجعت پر ام المومنین کی دو بہنوں کو بھی اپنے ہمراہ مدینہ لائے۔ ایک کا نام سلمیٰ ہے۔ (سید الشہداء) حمزہ کی بیوہ اور دوسری عمارہ (جو ابھی ناکتخدا تھیں۔ )

 

ورود مدینہ

مسلمان (مکہ سے) واپس لوٹ کر مدینہ میں آ پہنچے اور امن و سلامتی کے ساتھ رہنے لگے۔ رسول اللہ کو ان محرکات کی تاثیر میں کوئی شک نہ تھا جو عمرۃ القضاء نے قریش اور اہل مکہ کے دلوں میں پیدا کیے، نہ اس میں شبہ کہ ذرا ہی دیر بعد اس کے نتائج برآمد ہونے کو ہیں۔

 

خالد بن ولیدؓ کا حلقہ بگوش اسلام ہونا

اور عمرۃ القضاء کے تاثرات کا نتیجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے مراجعت فرما ہونے کے بعد کا واقعہ ہے۔ قریش کے جانباز خالد بن ولید جنہوں نے غزوۂ احد میں لڑائی کا نقشہ بدل دیا تھا آج انہوں نے قریش کے مجمع میں اعلان فرما دیا:

لقد استبان لکل ذی عقل ان محمداً لیس بساحر ولا شاعر وان کلامہ کلام رب العلمین فحق علی کل ذی لب ان یتبعہ۔

عقل مندوں پر واضح ہو چکا ہے کہ جناب محمد نہ شاعر ہیں نہ جادوگر ہیں۔ ان کا کلام رب العالمین ہی کی وحی ہے اور آپ کی اطاعت ہر شخص پر واجب ہے۔

اس مجمع میں عکرمہ (فرزند ابوجہل) بھی موجود تھے۔ انہوں نے خالد کی تردید میں کہا: تم نے ستارہ پرستوں کا مذہب اختیار کر لیا ہے۔ اور دونوں کے درمیان مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی:

خالد: بلکہ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔

عکرمہ: بخدا! قریش کو یہ توقع نہیں کہ تم اسلام اختیار کر لو گے۔

خالد: آخر قریش کو میرے مسلمان ہو جانے کی توقع میں کیا مانع ہے؟

عکرمہ: (جناب محمد نے تمہارے والد (ولید) کو قتل کرایا، تمہارے چچا اور عم زاد برادر (انہی ) مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ بخدا! اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو نہ اسلام قبول کرتا نہ ایسی گفتگو۔

خالد: یہ جاہلیت کی پرستاری ہے۔ مجھ پر حقیقت منکشف ہو چکی ہے اور میں مسلمان ہو گیا ہوں۔

اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اپنے اسلام کی اطلاع اور تحفہ میں کئی گھوڑے مکہ سے روانہ کیے۔

حضرت خالدؓ اور ابوسفیان کا مکالمہ:

ابوسفیان نے جناب خالدؓ کے اسلام کی خبر سنی تو انہیں اپنے ہاں بلا کر دریافت کیا:

ابوسفیان:

(غضب ناک ہو کر) لات و عزیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر یہ صحیح ہے تو میں (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تجھ سے فیصلے کروں گا۔

خالد: کسی کو بھلی لگے یا بری معلوم ہو، یہ خبر بالکل صحیح ہے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔

ابو سفیان اپنے ساتھیوں کو لے کر خالدؓ پر پل پڑا۔ اتفاق سے عکرمہ بن ابوجہل بھی موجود تھے۔ انہوں نے ابو سفیان کا دامن کھینچتے ہوئے کہا: اے ابو سفیان! بخدا! جس خطرہ سے تم ڈر رہے ہو، اس سے میں بھی خائف ہوں۔ ورنہ خالد ہی کی مانند میں بھی کہتا اور اس کا دین قبول کر لیتا۔ اے ابو سفیان! مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ایک سال کے اندر اندر تمام مکہ والے یہی دین قبول نہ کر لیں۔

 

عمرو بن العاص اور کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ کا قبول اسلام

حضرت خالدؓ کے بعد عمرو بن العاص اور عثمان بن طلحہ بھی اسلام لے آئے۔ عثمان کعبہ کے کلید بردار تھے۔ ان دونوں حضرات کے سوا اہل مکہ میں بہت سے اور خوش نصیب حلقہ اسلام میں داخل ہوئے، جس سے اسلام کی شوکت میں اضافہ ہو گیا اور شہر (مکہ) نے خاتم الرسلؐ کے فاتحہ داخلہ کے لیے اپنے دروازے کھول دئیے، جس میں کوئی امر مانع نہ تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

غزوۂ موتہ و غزوہ سلاسل اور دیگر غزوات اور سرایا

 

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ فتح کرنے کی عجلت بھی نہ تھی۔ آپ پر واضح ہو چکا تھا کہ اس معاملہ میں خود زمانہ آپ کی مساعدت کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں صلح حدیبیہ کو پورا ایک سال منقضیٰ ہو جانے کے باوجود نہ تو مسلمانوں کی طرف سے کوئی ناگوار حادثہ وقوع میں آیا، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز سے یہ مترشح ہو سکا، اور کیسے ہو سکتا تھا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات سے اس قدر پابند وفا تھے کہ قول یا عمل دونوں میں کسی ایک سے بھی وعدہ کے خلاف عمل نہ فرماتے۔

عمرۃ القضاء سے واپسی پر کئی مہینے گزر گئے۔ اس دوران میں مندرجہ ذیل مناقشات رونما ہوئے:

1۔ سریہ بنو سلیم: رسول اللہ نے پچاس مسلمانوں کا ایک وفد قبیلہ بنو سلیم کی طرف تبلیغ کے لیے بھیجا اور اہل قبیلہ نے دھوکہ سے مسلمانوں کو قتل کر دیا۔ حسن اتفاق سے صرف ایک صاحب زندہ بچ کر آئے اور انہوں نے روئداد پیش کی۔

2۔ سریہ بنو اللیث: مسلمان فتح یاب ہو کر کچھ غنیمت بھی ہمراہ لائے۔

3۔ سریہ بنو مرہ: اس قبیلہ کی بد عہدی کی وجہ سے۔

4۔ سریہ ذات طلحہ: اس قبیلہ کی طرف تبلیغ کے لیے پندرہ مسلمان بھیجے گئے۔ اہل قبیلہ نے رئیس وفد کے سوا مسلمانوں کو شہید کر دیا (یہ مقام ملک شام کی حدود میں واقع ہے۔ )

 

ملک شام کی طرف تبلیغ پر توجہ گرامی

صلح حدیبیہ کی بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے جنوبی سمت یعنی قریش مکہ کے افراد سے مطمئن ہو گئے۔ ادھر باذن عامل یمن کے اسلام قبول کر لینے سے جنوب کی طرف سے خطرات اور بھی کم ہو گئے۔ اب توجہ گرامی (مدینہ سے) شمال (صوبہ شام) میں اسلام پھیلانے پر مرکوز تھی۔

 

غزوۂ موتہ اور اس کے اسباب

عمرۃ القضاء سے واپسی کے بعد مدینہ میں چند ماہ قیام کے دوران میں دو حادثے پیش آئے:

الف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موضع ذات طلح میں جن پندرہ مسلمانوں کو تبلیغ کے لیے بھیجا، ان میں سے ایک کے سوا تمام حضرات کو شہید کر دیا گیا (ان کا نام کعب بن عمیر ہے)

ب۔ اسی وقفہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم ہرقل (یا اس کے عامل) شرجیل بن عمرو غسانی کی طرف (بصری) میں جناب حارث بن عمیر ازدی کو دعوت اسلام کے لیے بھیجا جنہیں عامل نے نہایت بے رحمی سے قتل کرا دیا (ان کے سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور سفیر کو قتل نہیں کیا گیا۔ زاد المعاد : م)

ظاہر ہے کہ نہ تو عامل بصری سے قصاص سے طلب کیے بغیر مفر تھا نہ ذات طلح کے مشرکوں سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ہزار مسلمانوں کا لشکر اپنے مقتولوں کا قصاص لینے کے لیے متعین فرمایا۔ یہ معرکہ شام کے موضع موتہ (نہایہ ابن اثیر۔ م)میں پیش آیا جہاں مقابلہ میں لشکر کفار ایک لاکھ (بروایت دیگر دو لاکھ) کی تعداد میں تھا۔

عجیب معاملہ ہے کہ جس طرح حدیبیہ کی قرار داد مفاہمت عمرۃ القضاء کے وسیلہ سے فتح مکہ کا مقدر ثابت ہوئی۔ اسی طرح موتہ کی (یہ) لڑائی غزوۂ تبوک (در حیات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مقدمہ ثابت ہونے کی وجہ سے پورے ملک شام کے فتح (بعہد عمر بن الخطابؓ) پر منتج ہوئی۔

بہرحال اس غزوہ (موتہ) کی علت عامل بصری(شرجیل) کے ہاتھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبلغ (حارث بن عمیرؓ) کا قتل ہوا یا ذات طلح میں کافروں کے ہاتھ سے چودہ مبلغین اسلام کی شہادت، دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں اسباب سہی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ہزار منتخب روزگار مسلمانوں کا لشکر مرتب فرمایا۔ جسے ماہ جمادی الاول 8ھ (629ع) میں حضرت زید بن حارثہؓ کی سپردگی میں دے کر فرمایا۔ کہ اگر زیدؓ کام آ جائیں تو سپہ سالاری جعفری (طیار) بن ابو طالبؓ کے سپرد ہو۔ یہ شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ افسر اعلیٰ مقرر ہوں۔ خالد بن ولیدؓ بھی اسی فوج میں تھے اور اپنے حسن اسلام کو حسن کردار سے ثابت کرنے کے لیے موقعہ کے منتظر۔

 

لشکریوں کو ہدایات

رسول اللہ امرائے جیش اور لشکر دونوں کو ہدایات فرماتے ہوئے شہر سے باہر (ثنیۃ الوداع: باضافہ۔ م) تک تشریف لے آئے۔ یہاں پہنچ کر تمام لشکریوں کو متنبہ فرمایا کہ عورتوں ، نابالغ و کم سن بچوں اور اندھوں کو قتل نہ کیا جائے، نہ کوئی مکان منہدم ہونے پائے اور نہ درخت کاٹے جائیں۔ 1؎ روانگی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے مل کر دعا کی۔ آخر میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کے ساتھ الوداع فرمایا:

صبحکم اللہ ودفع عنکم وردکم الینا المسلمین

اللہ تمہاری مدد کرے! تم سے ضرر دور رکھے اور صحیح و سالم واپس لائے!

لشکریوں نے اہل شام پر اچانک حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا، تاکہ فتح اور غنیمت دونوں حاصل ہوں۔

مسلمان مقام معان (شام) پر پہنچے تو غیر متوقع طور پر شرجیل (عامل بصری) کے لشکر جرار کے ساتھ آنے کی خبر سنی۔ اسے بھی مسلمانوں کے آنے کی خبر مل چکی تھی۔ یہ فوج شرجیل نے اپنے نواحی قبائل سے جمع کی تھی۔ ادھر سے ہرقل نے یونانی اور عرب فوجیں ریل دیں۔

1؎ قال رسول اللہ صلعم: اغزوا بسم اللہ فی سبیل اللہ لاتغزوا ولا تغلوا ولا تقتلو ولیدا ولا امراۃ ولا کبیرا فانیا ولا منعزلا بصومعۃ ولا تقربو اتخلا ولا شجرۃ ولا تھذا موابناء : متن

بعض روایات کے مطابق خود ہر قل کا آنا ثابت ہے اور اس کے ہمراہ ایک لاکھ رومی سپاہ کے علاوہ بنی لخم و بنی جذام و القین و بہرا وبلی قبیلوں کے ایک لاکھ سپاہی تھے اور ہرقل نے (علاقہ) بلقا کے مقام مآب میں ڈیرے ڈال دئیے۔ ایک اور روایت کے مطابق (ہرقل کی بجائے) اس کے بھائی تیو دور نے یہ لشکر جمع کیا تھا۔

 

حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی تقریر

بہرحال جب مسلمانوں نے معان میں پہنچ کر دشمن کا ٹڈی دل دیکھا تو دو روز تک گومگو میں پڑے رہے کہ اتنے بڑے لشکر سے کس طرح عہدہ برآ ہوا جائے۔ ایک مسلمان نے یہ تجویز پیش کی کہ صورت حال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کیا جائے تاکہ کمک کے طور پر کچھ اور فوج بھجوائیں ورنہ جو حکم ہو تعمیل کی جائے۔ فوج اس تجویز پر کاربند ہونے کو تیار تھی کہ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ جو دلاوری میں یکتا اور فصاحت میں فرد روزگار تھے بول اٹھے: صاحبو! عجیب بات ہے کہ شہادت کے لیے آپ لوگ یہاں تشریف لائے اور اسی سے دور بھاگ رہے ہیں۔ دوستو! ہماری جمعیت تعداد و قوت پر منحصر نہیں بلکہ اس دین پر موقوف ہے، جس دین سے اللہ نے ہمیں دنیا میں ممتاز فرمایا ہے۔ اٹھو اور دشمن پر یلغار کر دو! فتح نہ ہو گی تو شہادت ہی کیا کم نعمت ہے۔ !

 

مقاتلہ

بلند ہمت شاعر کی تقریر نے تمام لشکر میں روح پھونک دی۔ سننے والے بیک زبان پکار اٹھے بخدا! ابن رواحہ نے بہت صحیح فرمایا ہے! مسلمان آگے بڑھے بلقا کی سرحد پر پہنچے تو دیکھا کہ قریہ مشارف کی وادی میں ہرقل کی رومی اور عربی فوجیں ڈیرے ڈالے پڑی ہیں۔ مسلمان موضع موتہ کی وادی کو مشارف سے محفوظ سمجھ کر ادھر ہٹ آئے اور معرکہ شروع ہو گیا۔ تین ہزار کا ایک یا دو لاکھ سے مقابلہ! جنگ کے شعلے پوری قوت کے ساتھ بھڑک اٹھے۔ مگر ایمان کی قوت اور دبدبہ ملاحظہ ہو۔ کہ حضرت زید بن حارثہؓ (سپہ سالار) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تفویض کردہ علم لیے ہوئے دشمن کی صفوں میں پیر نے لگے۔ انہیں یقین تھا کہ موت سے مفر نہیں ، لیکن وہ اس موت کو شہادت فی سبیل اللہ سمجھتے اور مومن کی نظر میں موت کا درجہ فتح و کامرانی سے کم نہیں۔ حضرت زیدؓ اسی طرح موت سے کھیلتے ہوئے دشمن کے تیروں کی آماج گاہ بن گئے اور راہ خدا میں شہادت سے فائز ہوئے۔

 

جعفر طیارؓ کی شجاعت

یہ دیکھ کر جعفر بن ابو طالبؓ آگے بڑھے۔ علم اٹھا لیا۔ آج ان کا سن تینتیس سال کا تھا۔ قوی ہیکل نوجوان جس کا شباب اور ہیبت دونوں ایک سے ایک زیادہ! غنیم کی فوجوں میں دراتے ہوئے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد دشمنوں نے نرغے میں لے لیا۔ حضرت جعفر یہ دیکھ کر اپنے گھوڑے سے اتر پڑے۔ پہلے اس کی کونچیں کاٹیں ، پھر تلوار سونت کر چومکھی لڑائی شروع کر دی۔ دشمنوں کے سر گاجر مولی کی طرح اڑانے لگے۔ علم ان کے دائیں ہاتھ میں تھا، جسے دشمنوں نے قلم کر دیا۔ جعفرؓ نے اسے بائیں ہاتھ میں لے لیا۔ کافروں نے یہ ہاتھ بھی کاٹ کر علیحدہ کر دیا۔ تب انہوں نے علم اپنے بازوؤں میں دبا کر سینے سے چمٹا لیا لیکن تابہ کے ! حضرت جعفرؓ شہید ہو گئے اور دشمن نے ان کے جسم کے دو ٹکڑے کر دئیے۔

 

حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی شہادت

حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے آگے بڑھ کر علم تھام لیا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھے۔ دشمن کی صفوں کی طرف بڑھے۔ گھوڑے سے اترتے اترتے کسی گہری سوچ میں پڑ گئے، مگر ذرا دیر بعد سنبھلے تو یہ شعر پڑھتے ہوئے مقابلہ پر ڈٹ گئے:

اقسمت یا نفس لتنزلنہ

لنتزلن او لتکرھنہ

ان اجلب الناس و شد والرنہ

مالی اراک تکرھین الجنہ1؎

اور شہید ہو گئے۔

 

خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں شہید ہونا

تینوں سپہ سالار زیدؓ، جعفرؓ اور ابن رواحہؓ ایک ہی وقفہ میں یکے بعد دیگرے راہ خدا میں شہید ہو گئے۔ اس واقعہ کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو جعفرؓ اور زیدؓ کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا مجھے رویا میں تینوں حضرات کے سونے کے تختوں پر استراحت فرماتے ہوئے دکھایا گیا ہے، البتہ ابن رواحہؓ کا تخت ایک طرف ذرا سا جھکا ہوا سا دیکھا گیا! عرض ہوا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کیوں ؟ فرمایا زیدؓ اور جعفرؓ تردد جنگ میں کود پڑے اور عبداللہ بن رواحہؓ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد آگے قدم بڑھایا۔

قارئین اس درس عبرت اور موعظہ حسنہ پر غور فرمائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ مومن کے لیے خدا کی راہ میں موت سے ڈرنا جائز نہیں۔ اس کا فرض یہ ہے کہ جس بات پر اسے یقین ہو اور اس میں خدا کی رضا یا اس کے اپنے وطن کی بھلائی ہو تو ادنیٰ تامل کے بغیر جان ہتھیلی پر رکھ لے اور جو شخص اس کی راہ میں حائل ہو اسے دور کرنے کی کوشش کرے۔ کامیابی کی صورت میں اس نے خدایا وطن کا حق ادا کر دیا اور شہید ہو جانے پر اس کی یاد ان لوگوں کی مانند ہے جو اس کی وفات کے بعد دنیا میں زندہ ہیں۔ ایسے اشخاص کی شہادت کے بعد ان کا یادکا زندہ رہنا ان کی عظمت کی دلیل ہے۔

خدا کی راہ یا وطن کی بھلائی کے لیے جان دینے کے مقابلہ میں زندہ رہنے کی کوئی قیمت نہیں اور انسانیت کی سب سے زیادہ مذمت ہر قیمت پر زندہ رہنے کے جتن کی وجہ سے ہے۔ ایسی زندگی موت سے بدتر اور ایسے شخص کی موت کے بعد اس کے ذکر خیر کے کوئی معنی نہیں۔

1؎ میں بہ قسم کہتا ہوں اے نفس تو پسند کرے یا نا پسند کرے تجھے میدان میں اترنا ہی پڑے گا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ دوست جوش و خروش سے آگے بڑھیں اور تو جنت میں جانے سے پہلو تہی کرے!

اسی طرح جو شخص کسی ادنیٰ غرض کے لیے اپنی جان کو خطرہ میں مبتلا کر دے، وہ اپنی جان ناحق کھو بیٹھتا ہے، لیکن جب داعی برحق باطل کو مٹانے کی غرض سے پکارے اور سننے والے اپنی جان بچانے کے لیے منہ چھپاتے پھریں ، تو ایسے لوگوں کی زندگی موت سے زیادہ ننگ و عار کا موجب ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ کی طرف دیکھئے۔ ایک لمحہ تامل کیا اور ان کے مقابلہ میں جناب زیدؓ و حضرت جعفرؓ ہیں ، جنہوں نے تردد کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ درجہ شہادت جناب ابن رواحہؓ کو بھی نصیب ہوا اور حضرت زیدؓ و جعفرؓ کو بھی۔ لیکن ابن رواحہؓ کے لمحہ بھر تامل اور زیدؓ و جعفرؓ کے بلا تردد پیش قدمی کرنے سے درجات میں کس قدر تفاوت پیدا ہو گیا۔

ان کے مقابلہ میں ان لوگوں کو کیا کہئے جو جاہ و مال اور زندگی کے دوسرے مقاصد کے طمع میں ہمیشہ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔ ایسے لوگ ناچیز و حقیر کیڑے ہیں ، اگرچہ عوام میں ان کی کتنی ہی عزت کیوں نہ ہو اور مال و دولت میں قارون کی برابری کیوں نہ حاصل ہو جائے۔ انسان کے لیے اس سے زیادہ مسرت اور عزت اس میں ہے کہ جس امر کو وہ حق سمجھتا ہو اس کے برقرار رکھنے کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرے حتیٰ کہ جان نثار کرنے میں بھی اسے تامل نہ ہو یا اپنے مقصد ہی میں کامیاب ہو جائے۔

 

خالد بن ولید کی سپہ سالاری

حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے شہید ہو جانے پر قبیلہ بنو عجلان کے نامور جناب زید بن ثابتؓ نے علم اور زبان سے فرمایا اے مسلمانو! کس شخص کو اس منصب کے لیے منتخب کرتے ہو؟ سامعین نے کہا آپ ہی مناسب ہیں ! زیدؓ کے انکار پر مسلمانوں نے (سیف اللہ) خالدؓ بن ولید کو تجویز کیا۔ خالدؓ سے مسلمانوں کی قلت تعداد اور ضعف قوت پوشیدہ نہ تھی۔ لیکن خالدؓ فوج کو لڑانے کے ماہر اور رزم گاہ کے نشیب و فراز کے سمجھنے میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے۔ از سر نو فوج کو مرتب کیا۔ غروب آفتاب تک انہیں دشمن سے لڑاتے رہے مگر معمولی جھڑپیں ، اور رات سر پر آ گئی۔

شب کے وقت حضرت خالدؓ نے جنگی چال چلی۔ فوج کی بھاری تعداد کو رزم گاہ سے دور چھپا دیا۔ یہ دستہ صبح ہوتے ہی نعرے لگاتا ہوا میدان جنگ میں آ کر مسلمانوں سے مل گیا۔ دشمن کے تصور میں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تازہ کمک تھی۔ ان کے دل دہل گئے کہ مسلمانوں کی تین ہزار فوج نے کل کس طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کے کتنے آدمی موت کے گھاٹ اتار دئیے۔ اب تو انہیں اور کمک پہنچ گئی ہے! کہیں انہیں شکست سے دوچار نہ ہونا پڑے! مگر اصلی راز کافروں میں سے کسی کو معلوم نہ ہو گا۔

 

جنگ کا خاتمہ

روسی فوجیں خالد بن ولیدؓ کے داؤ پیچ سے گھبرا ٹھیں۔ انہیں حملہ کرنے کی جرأت نہ رہی۔ وہ جہاں کھڑے تھے بھجکے سے وہیں کھڑے رہے۔ مسلمانوں نے دیکھا دشمن آگے نہیں بڑھتا اور انہوں نے وقار و تحمل کے ساتھ مدینہ کی طرف اپنا رخ پھیر دیا۔ بیشک مسلمانوں کو فتح حاصل نہ ہوئی مگر دشمن بھی کامیاب ہو کر نہ لوٹا۔

 

رزم گاہ موتہ کے غازی مدینہ میں

حضرت خالدؓ فوج کے ہمراہ مدینہ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے ملاقات ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شہید معرکہ حضرت جعفرؓ کے (کم سن) صاحبزادے عبداللہ کو ان کے گھرسے بلا کر گود میں اٹھا لیا۔ ادھر بعض جوشیے مسلمانوں نے لشکریوں کے منہ پر دھول پھینک کر کہا اے مفرورین (فرارین)! تم جہاد فی سبیل اللہ سے بھاگ آئے! رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا یہ فرار نہیں بلکہ کرار ہیں ان شاء اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اظہار اطمینان کے باوجود واپس آنے والے مسلمانوں کے متعلق مسلمان یہی سمجھتے رہے کہ وہ بہت بڑے قصور وار ہیں۔ یہاں تک کہ (جناب) سلمہ ابن ہشامؓ نے اسی طعن (یا فرار! فررتم فی سبیل اللہ!) سے ڈر کر مسجد میں آنا ترک کر دیا۔ اگر شرکائے موتہ کو اپنی شجاعت اور ان کے سپہ سالار خالدؓ کو اپنی دلاوری اور حسن تدبیر پر ناز نہ ہوتا تو انہیں فراری کا طعنہ اپنے حق میں تسلیم کرنا پڑتا۔

 

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا حزن و ملال

حضرت زیدؓ اور جعفرؓ کی موت سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم غم میں ڈوب گئے اور یہ خلش آپ کے دل میں پیوست ہو ہی گئی۔ جعفرؓ کے ہاں تشریف لائے۔ ان کی اہلیہ (جناب) اسماءؓ  (بنت عمیس) آٹا گوندھ رہی تھیں۔ بچوں کو نہلا دھلا کر ان کے بالوں میں تیل لگا رکھا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو پیار کر کے انہیں سینے سے لگا لیا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کا تار بندھ گیا۔ ا سماء چوک اٹھیں۔ عرض کیا میرے ماں باپ نثار ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کہیں جعفرؓ اور ان کے دوستوں کے متعلق کوئی خبر تو نہیں آئی؟ فرمایا وہ شہید ہو گئے! اور آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے! بی بی (اسمائؓ) نے گریہ و بکا سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ عورتیں جمع ہو گئیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم دولت خانہ پر تشریف لے آئے اور اہل بیت سے فرمایا جعفرؓ کا انتقال ہو گیا ہے۔ اور آل جعفرؓ رونے دھونے میں مصروف ہیں۔ ان لوگوں کے لیے کھانا تیار کرو۔

اسی اثناء میں حضرت زید بن حارثہؓ کی صاحب زادی آ پہنچیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازوؤں پر ہاتھ رکھ کر رونا شروع کر دیا۔ شہدائے موتہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گریہ و زاری دیکھ کر مسلمان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مفہوم کا ایک جملہ ارشاد فرمایا یہ رونا اپنے گم شدہ رفیق کے فراق میں ہے۔

ایک روایت میں منقول ہے کہ حضرت جعفرؓ کی لاش مدینہ میں لائی گئی۔ خالد اور مسلمانوں کے مدینہ واپس آ جانے سے تین روز بعد دفن کئے گئے۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو گریہ و بکا سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ جعفرؓ کو ان کے دو بازوؤں کے عوض میں دو پردار بازو دئیے گئے ہیں ، جن سے وہ جنت میں اڑ کر سیر کر رہے ہیں (انہی پروں کی مناسبت سے حضرت جعفر طیار (یعنی پرواز کرنے والے) کے لقب میں مشہور ہوئے۔ م)

 

غزوۂ ذات سلاسل

حضرت خالد بن ولیدؓ کی غزوۂ موتہ سے واپسی کو چند ہفتے گزر گئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے شمالی عرب (شام) میں مسلمانوں کی از سر نو دھاک بٹھانے کے لیے عمرو بن العاصؓ کو بھیج کر حکم دیا کہ راستے میں اہل عرب کو اپنی امداد کی غرض سے ہمراہ لے لیں۔ اس توقع پر کہ حضرت عمرو (سپہ سالار دستہ) کی والدہ کے میکے اس نواح میں تھے۔ اس رشتہ کی وجہ سے اس خطہ کے باشندے (غیر مسلم بھی۔ م) مسلمانوں کی اعانت پر آمادہ ہو سکتے تھے۔ لیکن جونہی مسلمان جذاب کے ایک چشمے سلسل (نام) پر پہنچے، حضرت عمرو ڈر گئے اور کمک کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قاصد روانہ کیا۔ جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب ابو عبیدہ الجراحؓ کی سپہ سالاری میں مہاجرین کا ایک دستہ بھیج دیا۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر بن الخطابؓ بھی اس دستہ میں شامل تھے۔ مبادا عمرو ان (ابوعبیدہؓ) سے اختلاف کر بیٹھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہؓ اور عمروؓ دونوں کو اختلاف سے منع فرما دیا اور یہی ہونے کو تھا کہ اگر آخر الذکر تحمل نہ فرماتے۔ عمرو بن العاصؓ نے ابو عبیدہ سے کہا میں امیر جیش ہوں اور آپ میری اعانت کے لیے تشریف لائے ہیں۔ ابوعبیدہؓ بہت نرم دل اور بردبار تھے۔ مناصب کے بھی طلب گار نہ تھے۔ عمروؓ سے فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کو اختلاف سے منع فرما دیا ہے۔ اگر آپ میری اطاعت کرنے پر رضا مند نہیں تو میں آپ کی فرماں برداری کے لیے بسر و چشم حاضر ہوں۔ نمازوں میں بھی حضرت عمروؓ ہی امامت فرماتے حتیٰ کہ لشکر آگے بڑھا۔ اہل شام جو لڑائی کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے، منتشر ہو گئے۔ اور ان کے یوں بھاگنے سے گرد و نواح میں مسلمانوں کی ہیبت بیٹھ گئی۔

اس اثناء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کے معاملہ پر بھی غور فرمایا کیے لیکن آپ کے نزدیک صلح حدیبیہ کی پابندی بہت اہم تھی، جیسا کہ گزشتہ صفحوں میں لکھا جا چکا ہے (جس میں دو سال کی مدت متعین تھی) اس وقفہ میں دور و نزدیک کے جو گروہ مسلمانوں پر حملہ کی سازش کرتے ان کی سرکوبی کے لیے دستے بھیج دئیے جاتے جن میں زیادہ صعوبت نہ تھی۔

 

قبائلی وفود کی اطاعت

اسی اثناء میں گرد و نواح سے مختلف قبائل از خود مدینہ حاضر ہوئے اور اپنی اپنی اطاعت کا قبالہ (خدمت رسالتؐ میں ) پیش کیا کہ دفعتہً ایک حادثہ رونما ہوا جو فتح مکہ کا مقدمہ بن گیا اور اسلام کے دائمی استقرار و عظمت کا موجب ثابت ہوا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 فتح مکہ و تطہیر کعبہ

 

حضرت خالد بن ولیدؓ کی ہدایت کے مطابق مسلمانوں کا لشکر غزوۂ موتہ سے واپس لوٹ آیا۔ اس جنگ میں فتح ہوئی نہ شکست، تاہم مسلمانوں نے اس واپسی کو اپنے حق میں بھلائی سے تعبیر کیا۔ دوسری طرف حضرت زیدؓ (بن حارثہ) و جناب جعفر بن ابو طالبؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی شہادت نے مختلف طبقات پر مختلف اثرات چھوڑے۔

1۔ اہل روم پر مسلمانوں کی شجاعت کا اثر:

الف۔ باجوودیکہ عیسائی ایک (یا دو) لاکھ کی تعداد میں تھے اور مسلمانوں کی تعداد صرف تین ہزار تک تھی، لیکن رومیوں نے مسلمانوں کی طرف سے جنگ سے دست برداری کو اپنے حق میں بے حد غنیمت سمجھا۔

ب۔ یا شاید اس لئے کہ مسلمانوں کے چوتھے سپہ سالار (خالد بن ولیدؓ) کے ہاتھوں میں نو تلواریں ٹوٹیں اور اس پر بھی ان کی ہمت میں فرق نہ آیا۔

ج۔ یا شاید اس لئے کہ لڑائی کے دوسرے روز حضرت خالدؓ نے اپنے لشکر کو دو حصوں میں منقسم کر کے رومیوں کے دل میں یہ خوف پیدا کر دیا کہ ان کے حریف کے لئے مدینہ سے مزید کمک آ گئی ہے۔

د۔ یا شاید اس لئے کہ شام کے نواحی قبائل بھی مسلمانوں کی شجاعت دیکھ کر دنگ رہ گئے۔

ہ۔ یا شاید اس لئے کہ قیصر روم کے ماتحت عرب فوجوں کے سپہ سالار فزوہ بن عمرو (الجذامی) مسلمان ہو گئے، جنہیں بادشاہ کے فرمان سے خیانت کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا اور ہرقل نے انہیں دوبارہ مسیحی مذہب اختیار کر لینے پر بدستور منصب و جاہ پر فائز رہنے کا موقعہ دے دیا۔ لیکن جناب فزوہ اس سودے پر راضی نہ ہو سکے اور انہیں قتل کرا دیا گیا۔

و۔ اوریا شاید اس لئے کہ صوبہ نجد میں جو عراق و شام کی سرحد پر واقع اور ہرقل کے ماتحت تھا، اسلام کا اثر و نفوذ شروع ہو گیا۔

رومیوں کے تاثرات کا محور یہ اسباب (از الف تا و) یا ان میں سے کوئی ایک یا اور زائد امور تھے۔ البتہ وہ عرب جو ہرقل کے ماتحت مشرقی روم میں آباد تھے، ان کے اسلام کی طرف مائل ہونے کا دوسرا سبب ہے۔ ہوا یہ کہ رومی فوج میں جو عرب رضا کارانہ شامل ہو کر مسلمانوں سے لڑنے کے لئے جمع ہو گئے تھے۔ ایک موقع پر رسد تقسیم کرنے والے رومی اہل کار نے اعلان کر دیا کہ رضا کار فوج سے نکل جائیں۔ بادشاہ سلامت کی طرف سے صرف سرکاری فوج کے لئے راشن ہے۔ حتیٰ کہ سرکار کے پالتو کتوں کے لئے بھی کچھ مہیا نہیں کیا جا سکتا! اس سے رضا کار بدگمان ہو گئے۔ اور رومی لشکر سے علیحدگی اختیار کر لی۔

عجب نہیں کہ جس وقت یہ لوگ قیصر سے بد دل ہو کر اس کے لشکر سے نکلے ہوں ، اس لمحہ میں دین جدید کی روشنی نے ان کی رہنمائی کی ہو اور حقیقت ان کی دست گیری کر کے انہیں منزل مقصود پر لے آئی ہو، کیوں کہ اسی وقفہ میں مندرجہ ذیل قبائل میں سے ہزاروں خوش نصیب دولت اسلام سے مالا مال ہوئے: 1۔ قبیلہ بنو سلیم اپنے سردار عباس بن مرداس کی رہبری میں ، 2۔ قبیلہ اشجع، 3۔ یہود کے حلیف بن غطفان، جن کے مسلمان ہو جانے سے خیبر میں مقیم یہودیوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، 4۔ قبیلہ بنو عبس، 5۔ قبیلہ ذبیان اور 6۔ قبیلہ بنو فزارہ۔

غزوۂ موتہ عرب کے شمال میں تابہ (ملک) شام مسلمانوں کے اثر و نفوذ کا سبب ثابت ہوا، جس سے اسلام کی قوت و شوکت میں اور اضافہ ہو گیا۔

2۔ اور اہل مدینہ پر مسلمان فوجوں کا فتح کے بغیر لوٹنے کا اثر:

رومیوں پر جو اثر ہوا اس کے خلاف مسلمانوں اور ان کے سپہ سالار حضرت خالدؓ کے سرحد شام سے فتح کے بغیر لوٹ آنے کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے برملا (لوٹنے والوں سے)

یا فرار! فررتم فی سبیل اللہ!

(اے مفرورین! تم جہاد فی سبیل اللہ سے بھاگ آئے!) کہنا شروع کر دیا۔ جس سے لشکر کے کچھ دلاور بھی شرمندہ ہو کر گھروں میں چھپ  گئے تاکہ عمر اور نوجوان مسلمانوں سے فرار کا طعنہ نہ سنیں۔

3۔ اور قریش پر غزوۂ موتہ کے نتائج کا اثر:

انہوں نے اس حد تک اسے مسلمانوں کی شکست اور ذلت سے تعبیر کیا کہ ان میں سے کسی شخص کو مسلمانوں کے ساتھ کیے ہوئے عہد و پیمان کا پاس نہ رہا۔ قریش اس پر بھی آمادہ ہو گئے کہ ہو سکے تو عمرۃ القضاء کے پہلے کی فضا قائم کر لی جائے بلکہ صلح حدیبیہ ہی کو پس پشت ڈال کر بلا خوف قصاص (جناب ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے حلیف قبیلوں پر یلغار شروع کر دی جائے۔

 

قریش کی طرف سے قرار داد حدیبیہ کا خلاف

صلح حدیبیہ کی ایک شرط میں تھا کہ اہل عرب فریقین میں سے جس فریق کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہیں دوسرا فریق اس میں حائل نہ ہو گا۔ اس قرارداد کے مطابق بنو خزاعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کر لیا اور قبیلہ بنو بکر، قریش کے حلیف بن گئے لیکن بنو خزاعہ اور بنو بکر دونوں کے درمیان پشتینی عداوت چلی آ رہی تھی، جو صلح حدیبیہ کے بعد بظاہر ٹھنڈی پڑ گئی اور دونوں فریق ایک دوسرے سے قریب نظر آنے لگے۔ لیکن غزوۂ موتہ نے جہاں قریش کے دل میں مسلمانوں کی شکست کا خیال پیدا کر دیا، وہاں بنوبکر کے دل میں بھی یہی گرہ لگا دی اور بنو خزاعہ کے متعلق ان کی پشتینی عداوت کا ناسور بہہ نکلا۔ وہ موقعہ غنیمت سمجھ کر بنو خزاعہ سے انتقام پر تل گئے۔ قریش مکہ میں سے عکرمہ بن ابوجہل نے انہیں شہہ دی  (بلکہ بھیس بدل کر ان کے ساتھ حملہ میں شریک ہوئے۔ م) قریش کے بعض سرغنوں نے بنو بکر کی مدد اسلحہ سے کی اور ایک شب کو جب بنو خزاعہ کے بہت سے افراد و تیر نامی گھاٹ پر نیند میں ڈوبے ہوئے تھے، بنو بکر کی شاخ بنی الدئل نے ان پر شب خون مار کے ان کے کئی آدمی موت کے پہلو میں سلا دئیے۔ جو بچ گئے بھاگ کر مکہ میں بدیل بن ورقا کے گھر میں آ چھپے اور ان سے کہا قریش اور بنوبکر دونوں نے (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ ختم کر دیا ہے۔

قبیلہ بنو خزاعہ کا سردار عمرو بن سالم فوراً مدینہ پہنچا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے اندر مسلمانوں کے حلقہ میں تشریف فرما تھے۔ وہ بنوبکر کی بد عہدی اور حملہ کا ماجرا بیان کرنے کے بعد امداد کا طلب گار ہوا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا اے عمرو! تمہاری اداد کی ہی جائے گی! عمرو بن سالم خزاعی کے بعد بدیل بن ورقا نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ میں آ کر قریش کی بنو بکر کو خفیہ امداد کا تذکرہ عرض کیا۔ آخر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رائے قائم کر لی کہ قریش کی طرف سے قرار داد حدیبیہ کے نقض کی تلافی مکہ فتح کیے بغیر نہیں ہو سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نزدیک اور دور کے مسلمانوں کی طرف یہ پیغام بھیج دیا کہ ہر شخص جہاد کے لئے کمر بستہ رہ کر دوسرے حکم کا انتظار کرے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی یہ رائے کسی پر ظاہر نہ ہونے دی کہ چڑھائی کہاں ہو گی۔

 

 قریش کے دل میں خطرہ

آخر اس حادثہ کے چند روز بعد مدینہ میں قریش کو عکرمہ اور اس کے نوجوان ہمراہیوں کی غلطی کے احساس نے اپنی طرف سے صلح کے خلاف ارتکاب کرنے کی بناء پر پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ ان پر ثابت ہو چکا تھا کہ عرب میں رسول اللہ کا اثر و نفوذ عام ہو چکا ہے۔ اس تصور نے ان کے خوف میں اور بھی اضافہ کر دیا اور وہ اس فکر میں پڑ گئے کہ اب انہیں کیا کرنا چاہیے۔ ان کے مدبرین نے طے کیا کہ ابوسفیان کو وفد کے ہمراہ بھیجا جائے تاکہ حدیبیہ کی دو سالہ میعاد کو دس سال تک بڑھایا جا سکے۔

ابوسفیان (مقام) عسفان میں پہنچے تو بدیل ابن ورقا سے ملاقات ہوئی ابو سفیان کے دل میں یہ بات کھٹک گئی کہ ہو نہ ہو بدیل (جناب) محمد ہی کے ہاں سے آ رہا ہو۔ اس نے مکہ کا تمام ماجرہ انہیں سنا دیا ہو گا! یہ تو غصب ہو گیا، مگر بدیل صاف مکر گئے۔ ابو سفیان نے ان کے ناقہ کی مینگنی سے پہچان لیا کہ وہ مدینہ ہی سے آرا ہیں۔

 

ابوسفیان اپنی صاحب زادی ام المومنین ام حبیبہؓ کے دولت خانہ پر

ابوسفیان مدینہ پہنچے تو سیدھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے کی بجائے، ادھر ادھر کی سن گن لینے کا منصوبہ بنا کر اپنی دختر ام المومنینؓ حضرت ام حبیبہؓ کے دولت خانے پر آئے۔ قریش کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحجانات کا اندازہ ام المومنینؓ کو بھی تھا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ پر اطلاع نہ تھی۔ اپنے والد کو آتا دیکھ کر ام المومنینؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر سمیٹ لیا۔ ابو سفیان نے کہا کیا یہ بستر تمہارے باپ کے شایان نہیں یا تمہارا باپ اس بستر پر بیٹھنے کے قابل نہیں ؟ فرمایا یہ بستر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے آپ مشرک نجس ہیں مجھے گوارا نہیں کہ آپ اس بستر سے مس کریں ! ابوسفیان جھلا کر بولے بیٹی ! میرے بعد تمہیں شر سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غضب ناک ہو کر ام المومنینؓ کے دولت خانہ سے باہر آئے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مدت صلح میں توسیع کی استدعا کی، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثبت یا منفی کوئی جواب نہ دیا۔

ابوسفیان حضرت ابوبکرؓ کے ہاں باریاب ہوئے کہ ان سے سفارش کرائیں۔ انہوں نے بھی انکار فرما دیا۔ یہاں سے جناب عمر بن الخطابؓ کے ہاں پہنچے۔ انہوں نے فرمایا میں اور تمہارے لئے سفارش!البتہ تمہارے ساتھ جنگ کرنے میں برائے نام فائدہ کی توقع بھی ہو تو اس سے دریغ نہ کروں گا۔

 

ابوسفیان دولت کدۂ علی بن ابی طالبؓ  میں

سیدہ فاطمہؓ بھی تشریف فرما تھیں۔ ابوسفیان کی اسی درخواست پر بی بی نے نہایت نرم انداز میں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو اس سے کوئی شخص آپ کو نہیں روک سکتا۔

ابوسفیان: مجھے حسنؓ (بن علیؓ) کی پناہ میں دے دیا جائے۔

سیدۃ الزھراؓ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی دشمن کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔

علیؓ: ابوسفیان تمہارے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ چونکہ تم بنوکنانہ کے سردار ہو، مدینہ سے کسی مناسب مقام پر کھڑے ہو کر اعلان کر دو کہ صلح قائم ہے۔ اور اس کے بعد فوراً واپس چلے جاؤ۔

 

ابوسفیان کا از خود توسیع صلح کا اعلان

ابوسفیان مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچے اور کھڑے کھڑے یہ کہہ کر کہ صلح قائم ہے۔ مکہ کی راہ لی۔ لیکن ان کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ خصوصاً اپنی صاحب زادی جناب ام حبیبہؓ کے برتاؤ سے۔ ابوسفیان کو یہ ندامت بھی کھائے جا رہی تھی کہ مکہ سے ہجرت کرنے سے قبل جو لوگ ان کی رضا و کرم کے منتظر تھے وہ لوگ آج کس طرح پیش آئے۔

 

ابوسفیان مکہ میں

مکہ پہنچ کر ابوسفیان نے مدینہ کی سرگزشت من و عن بیان کر دی، لیکن جب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کھڑے ہو کر اپنی طرف سے توسیع صلح کے اعلان کا تذکرہ کیا تو ان کے حواریوں نے کہا تم سمجھے نہیں ، علیؓ نے تمہارے ساتھ مذاق کیا۔ اس کے بعد مدبرین قریش آئندہ کے لئے تدبیر کار پر غور کرنے بیٹھ گئے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور فتح مکہ کی تیاری

باوجودیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوت اور اللہ کی طرف سے نصرت کا بھروسہ تھا پھر بھی آپ نے قریش مکہ کو مہلت دینا مناسب نہ سمجھا تاکہ وہ مقابلے کے لئے اس طرح تیاری نہ کر سکیں جس کی مدافعت دو بھر ہو جائے حتیٰ کہ قریش مقابلہ کے بغیر ہتھیار ڈال دیں۔

پہلے آپ نے صرف جہاد کے لئے تیار ہو جانے کا حکم فرمایا۔ دوسرے درجہ میں اعلان فرما دیا کہ مکہ پر چڑھائی ہے۔ مسلمانو! تیزی سے بڑھے چلو! اور اللہ سے دعا کی کہ اہل مکہ کو مسلمانوں کے آنے کی خبر نہ ہونے پائے۔

 

حاطب بن ابی بلتعہ (مہاجر) کی طرف سے مخبری

جب مسلمان کوچ کی تیاری کر رہے تھے حضرت حاطب بن ابو بلتعہ مہاجر مکی نے قریش کی طرف خط لکھ کر سارہ (نام) کنیز کے حوالے کیا۔ یہ بنو عبدالمطلب کے اک صاحب کی باندی تھیں۔ حاطب نے ان (کنیز) کے معاوضہ بھی متعین کر دیا۔ اس خط میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مکہ پر چڑھائی کی مخبری تھی۔ جناب حاطب سرکردہ مسلمانوں میں سے تھے لیکن انسان ہی تو ہے جو کبھی ایسے ادنیٰ مقاصد کے لئے کھو جاتا ہے۔ کہ اگر ہی کام کوئی اور شخص کرے تو اسے بھلا معلوم نہیں ہوتا۔

کسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاطب کی مخبری کی اطلاع مل گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب علیؓ اور زبیرؓ دونوں کو (خبر رساں ) سارہ کے تعاقب کا حکم دے کر فرمایا جاؤ! اور اس سے خط حاصل کرو! سارہ کی گرفتاری پر اس کے سامان سے خط برآمد نہ ہوا تو حضرت علیؓ نے دھمکا کر فرمایا اگر خط ہمارے حوالے نہ کیا گیا توہم جامہ تلاشی لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ سارہ نے گھبرا کر علیؓ سے ادھر کی طرف منہ پھیر لینے کی استدعا کی اور خط اپنی مینڈھیوں سے نکال کر ان کے حوالے کر دیا۔

دونوں حضرات اطلاع نامہ لے کر مدینہ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب کو بلا کر جواب طلب فرمایا۔ حاطب نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میرا ایمان خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جس طرح سے تھا اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ صرف یہ کہ میرے بال بچے ابھی تک مکہ میں گھرے ہوئے ہیں اور وہاں میرا کوئی عزیز و قرابت دار نہیں ! (باضافہ: اس اطلاع سے صرف اپنے اہل و عیال کے لئے قریش کی ہمدردی مطلوب تھی۔ زاد المعاد ابن القیم۔ ۔ ۔ م)

حضرت عمرؓ نے استدعا کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !حاطب منافق ہو گیا ہے۔ مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت فرمائی جائے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اے عمرؓ! حاطب غزوۂ بدر میں شریک تھے اور اللہ نے شرکائے بدر کے گناہوں پر قلم عفو کھینچ دیا ہے۔ اس واقعہ پر یہ وحی نازل ہوئی:

یایھا الذین امنو لا تتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیھم بالمودہ (1:60)

مسلمانو! اگر ہماری راہ میں جہاد کرتے اور ہماری رضا مندی ڈھونڈنے کی غرض سے (اپنے وطن چھوڑ کر نکلے) تو ہمارے اور اپنے دشمنوں (یعنی کافروں ) کو دوست مت بناؤ کہ لگو ان کی طرف دوستی (کے نامہ و پیام) دوڑانے۔

 

مکہ کی طرف کوچ

اسلامی لشکر نے (مدینہ سے) کوچ کر دیا تاکہ مکہ فتح کر کے اس گھر کی زیارت کا اذن عام کر دے، جسے خدا نے ازل سے امن و پناہ کا گہوارہ قرار دے رکھا ہے۔ مدینہ کے رہنے والوں نے کبھی اتنی تعداد میں فوج نہ دیکھی تھی۔ اس لشکر میں مہاجرین و انصار کے سوا بنو سلیم تھے، بنو مزینہ اور غطفان کا جم غفیر تھا۔ ان کے علاوہ اور لوگ بھی شامل تھے۔ چمکیلی زرہیں پہنے ہوئے انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے صحرا کی سطح پر عجیب نظارہ پیدا کر دیا۔ ریگستان میں جہاں خیمے نصب ہوتے، دیکھنے والوں کی نظر زمین پر نہ پڑ سکتی۔ ہزاروں کی تعداد میں فوج تیز رفتاری سے مکہ کی طرف چلی جا رہی تھی۔ جوں جوں آگے بڑھتے آس پاس کے مسلمان قبائل بھی لشکر میں شامل ہوتے جاتے۔ قدم قدم پر تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ہر ایک کے دل میں یقین تھا کہ اللہ کے سوا انہیں کوئی مغلوب نہیں کر سکتا۔

فوج کے آگے (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر تشریف فرما تھے، اس فکر میں ڈوبے ہوئے کہ خداوند! کسی طرح خون کا ایک قطرہ بہانے کے بغیر ہم بیت اللہ میں داخل ہو جائیں۔

اسلامی لشکر نے (مقام) مر الظہران(مکہ سے ایک منزل دور) میں پڑاؤ کیا تو ان کی تعداد دس ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ قریش ان کی آمد سے محض بے خبر تھے۔ وہ ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہ کر سکے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کا مداوا کیوں کر کیا جائے۔

 

سیدنا عباسؓ کا قبول اسلام

حضرت عباسؓ قریش کو اس ضغطے میں چھوڑ کر اپنے چند قبیلہ داروں کے ہمراہ مقام حجفہ (مکہ سے تراسی میل) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے 1؎ جب کہ بنو ہاشم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر پہلے سے اطلاع تھی۔ بنو ہاشم ہر قیمت پر مسلمانوں کی یلغار سے خود کو بچانا چاہتے تھے۔

1؎ عباس کے اسلام لانے کے معاملہ میں دو مختلف خیال ہیں :

الف۔ سیر نویسوں کا ایک گروہ: اس لاقات کی کڑی (مقام) رابغ سے ملاتا ہے۔ رابع یا حجفہ دونوں میں سے کوئی مقام سہی ان حضرات کے نزدیک حضرت عباسؓ اسی وقفہ میں اسلام لائے۔

ب۔ دوسرا گروہ: جناب عباس فتح مکہ سے پہلے مدینہ تشریف لے گئے اور اسلام لانے کے ساتھ ہی اس لشکر کے ہمراہ مکہ آئے۔

لیکن (ب) کی تردید میں کہا جاتا ہے کہ یہ روایت خلفائے عباسیہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لئے وضع کی گئی۔ فریق (ب) کی اس حمایت کی پشت پر یہ دلیل بھی ہے کہ قبل از ہجرت ان کا مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاس داری ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے تھی۔ لیکن حضرت عباسؓ اپنے اسلام کا اظہار اور مکہ سے ہجرت اس لئے نہ کر سکے کہ مبادا ان کی تجارت اور سودی لین دین تباہ ہو جائے۔ اس بارے میں فریق (ب) کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اگر عباسؓ کا فتح مکہ سے قبل مسلمان ہونا تسلیم کر لیا جائے تو وہ اس وفد میں ضرور شامل ہوتے جو صلح حدیبیہ کی توسیع کے لئے مدینہ میں حاضر ہوا تھا۔

اسی طرح ابوسفیان بن حارث (رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے عم زاد برادر) اور ابو سفیان و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن ابو امیہ بن مغیرہ ہر وونے نبق العقاب (نام مقام) پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریابی کی التجا کی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرما دیا۔ عبداللہ ام المومنین ام سلمہؓ کے برادر حقیقی تھے۔ سیدہ ممدوحہ اس سفر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مشایعت میں تھیں۔ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو سفیان (بن حارث) آپ کے برادر عم زاد ہیں۔ عبداللہ سے آپ کا دوہرا ناتا ہے۔ وہ میرے بھائی اور آپ کے پھوپھی زاد ہیں۔ فرمایا میرے عم زاد برادر نے میری تذلیل میں کوئی کمی رہنے دی؟ اور اس پھوپھی زاد نے مکہ میں مجھے کیسا رسوا کیا! بی بی تم رہنے دو، میں ان سے در گزرا۔ ابو سفیان نے رسول اللہ کی برہمی کا حال سن کر کہا:

واللہ لیوذنن لی اولا خذن بید بینی ھذا ثم لنڈھبن فی الارض حتیٰ نموت عطشا وجوعا

بخدا! اگر آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے باریابی کا موقعہ نہ دیا تو میں اپنے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر صحرا میں نکل جاؤں گا اور بھوکا پیاسا مر جانے کو ترجیح دوں گا۔

ابوسفیان کی رقت کا ماجرا سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھر آیا۔ دونوں کو شرف باریابی بخشا، دونوں کا جرم معاف فرما دیا اور دونوں مسلمان ہو گئے۔

 

سیدنا عباسؓ کی اہل مکہ کے لئے سفارش عفو

حضرت عباسؓ اپنے عالی منزلت برادر زادہ کی فوجی قوت اور ولولہ سے بے حد متاثر ہوئے۔ اگرچہ وہ خود اسلام لا چکے تھے مگر (انہوں نے) غازیوں کی کثرت سے اندازہ کر لیا کہ پورے عربستان میں جس لشکر کے مقابلہ کسی کو تاب نہیں اہل مکہ اس سے کیوں کہ عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔

عباسؓ اس سے چند ہی ساعت قبل مکہ سے آئے تھے۔ جہاں ان کے اہل و عیال اور دوست احباب سب موجود تھے۔ انہیں پوری طرح یقین تھا کہ اسلام اپنے مقابلہ میں کمزور اشخاص سے قطع کرنے کا روادار نہیں۔ عباسؓ نے اہل مکہ کے متعلق اپنا اضطراب ظاہر کرتے ہوئے عرض کیا اگر قریش طالب امان ہوں ؟ ممکن ہے کہ ان کے برادر زادہ کو اپنے عم بزرگوار کی تقدیم کلام پسند آئی ہو۔

اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب عباسؓ سے متعلق یہ غور فرمایا کہ انہیں بطور سفیر قریش کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ اس حد تک قریش کو مرعوب کر لیں کہ کشت و خون کے بغیر پر امن طور سے مکہ پر قبضہ ہو جائے اور وہ جس طرح ازل سے امن و سلامتی کا گہوارہ چلا آ رہا ہے، آج بھی اس کی سلامتی میں خلل نہ آنے پائے۔ جناب عباسؓ حضرت رسالت مآب ؐ کے ناقہ بیضا پر سوار ہوئے اور گزرگاہ اراک پر ہو کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کا (عباسؓ کے ارشاد کے مطابق) اس راہ سے آنے کا منشا یہ تھا کہ اگر کوئی لکڑ ہارا یا شیر فروش یا کوئی شخص مکہ میں جانے والا نظر آ جائے تو اس کے دل میں ایسے انداز سے مسلمان فوجوں کی کثرت اور ولولہ کا یقین پیدا کیا جائے جس سے وہ شخص از خود اہل مکہ کو ذرا دے اور شہر پر حملہ ہونے سے قبل قریش رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر امن کی درخواست پیش کریں۔ (جناب عباسؓ کو علم تھا کہ) جب سے مسلمانوں نے(مقام) مر الظہران پر ڈیرے ڈالے ہیں ، قریش اس اطلاع کے بغیر اپنے مستقبل سے گھبرا رہے ہیں کہ ان کے خیال میں خطرات ان کے قریب آ چکے ہیں۔

 

قریش کا وفد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور

قریش نے پیش قدمی کرتے ہوئے اپنے تین نامور مدبروں کا وفد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا: 1۔ ابوسفیان بن حرب اموی، 2۔ بدیل بن ورقائ، 3۔ حکیم بن حزام (تینوں حضرات ام المومنین خدیجہ کے قرابت دار تھے) راستے میں بھی یہ لوگ مسلمانوں کی خبریں سننے کے لئے گوش بر آواز تھے اور خطروں کی وجہ سے ان کے دل میں بیٹھے جا رہے تھے۔ حضرت عباسؓ نے راستہ چلتے ہوئے ان کی یہ گفتگو سن لی۔

ابوسفیان: آج رات میں نے اس قدر روشنی اور اتنی فوج دیکھی کہ اس سے قبل کبھی یہ اتفاق نہ ہوا تھا۔

بدیل: قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بنو خزاعہ ہیں جو لڑائی کے لئے آئے ہیں۔

ابوسفیان: بنو خزاعہ کی کیا حقیقت ہے نہ وہ اتنی فوج جمع کر سکتے ہیں نہ ایسی آگ روشن کر سکتے ہیں۔

وفد قریش کی حضرت عباسؓ سے اتفاقیہ ملاقات:

سیدنا عباسؓ نے ابو سفیان کو ان کی آواز سے پہچان لیا اور انہیں ان کی کنیت ابو حنظلہ سے پکار کر فرمایا: تمہارا برا ہو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر جرار لے کر آ پہنچے۔ ا گر کل دن چڑھے مکہ میں داخل ہو گئے تو تمہارا کیا حشر ہو گا!

ابو سفیان: میرے باپ تم پر نثار! کوئی تدبیر؟

سیدنا عباسؓ نے بدیل و حکیم دونوں کو مکہ واپس لوٹا دیا اور ابوسفیان کو اپنے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقہ پر سوار کر کے اسلامی لشکر کی طرف روانہ ہوئے۔ مسلمان ناقہ کے اعزاز میں خود بخود راستہ بناتے گئے۔ دونوں (سوار) دس ہزار لشکر کے درمیان ہوتے ہوئے نکلے۔ مسلمانوں نے اہل مکہ کو مرعوب کرنے کے لئے آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کر رکھے تھے۔ جب حضرت عمرؓ کے الاؤ کے قریب سے گزرے، انہوں نے دونوں کو دیکھ کر اندازہ کیا کہ ابوسفیان جناب عباسؓ کی پناہ میں ہیں تو ان سے تعرض کرنے کے بجائے رسول اللہ کے خیمے میں حاضر ہوئے اور ابو سفیان کے قتل کرنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت عباسؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کو میں اپنی ضمانت پر لایا ہوں۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ عباسؓ اور عمرؓ دونوں میں تیز گفتگو ہو رہی تھی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے عباسؓ سے فرمایا اس وقت انہیں اپنے خیمے میں لے جائیے اور صبح کے وقت پیش کیجئے۔

 

رسول خدا اور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو سفیان کی گفتگو

صبح ہوتے ہی مجرم پیش ہوا۔ مہاجرین و انصار دونوں گروہ موجود تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو سفیان! ابھی تک تیرے لئے خدائے وحدہٗ لا شریک پر ایمان لانے کا وقت نہیں آیا؟

ابوسفیان: جناب پر میرے ماں باپ نثار! اس ذات برحق کی قسم جس نے آپ کی ذات میں تحمل و کرم اور صلہ رحم جیسی صفات سمو دی ہیں ، اگر ایک خدا کے سوا اور کوئی خدا ہوتا تو آج وہ کچھ نہ کچھ تو میری حمایت کرتا!

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم :ابھی وہ وقت نہیں کہ تو مجھے خدا کا رسول تسلیم کر سکے؟

ابوسفیان: جناب پر میرے ماں باپ نثار! اس ذات برحق کی قسم جس نے آپ کی ذات میں تحمل و کرم اور صلہ رحم جیسی صفات سمو دئیے ہیں۔ میں آپ کو اس کا رسول تسلیم کرنے میں ابھی متامل ہوں۔

اس موقعہ پر حضرت عباسؓ نے سبقت فرما کر ابو سفیان کو زجر کی اور فرمایا ابوسفیان! قیل و قال چھوڑ کر لا الہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا اقرار کر لو، ورنہ تمہاری گردن مار دی جائے گی۔ اور ابو سفیان اسلام لے آئے اس مرحلہ پر حضرت عباسؓ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ابو سفیان کو اس پر فخر کا موقعہ مل جائے گا اگر ان کے اعزاز میں کچھ فرما دیا جائے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں ! جو شخص ابوسفیان کے گھر میں پناہ گزیں ہو جائے یا اپنے ہی گھر کا دروازہ بند کر کے اندر چھپ جائے یا بیت اللہ میں داخل ہو جائے ان میں سے کسی شخص سے تعرض نہ کیا جائے گا۔

 

کیا مذکورۃ الصدر واقعات اتفاق سے پیش آئے؟

مورخین اور سیر نویس ان واقعات کے ظہور پر متفق ہیں۔ البتہ بعض اہل تاریخ فرماتے ہیں کہ ان واقعات کو حسن اتفاق کی بجائے پہلے سے طے شدہ کیوں نہ سمجھ لیا جائے؟

الف۔ کیا حضرت عباسؓ واقعی اپنے گھر(مکہ) سے مدینہ جانے کے ارادہ سے نکلے اور (مقام) حجفہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ملاقات حسن اتفاق سے ہو گئی؟

ب۔ آج وہی بدیل بن ورقاء جو چند ہفتہ قبل مدینہ گئے تھے تاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو خزاعہ کی سرگزشت سنا کر آپ کی نصرت حاصل کر سکیں اپنے (بنو خزاعہ) کے دشمن ابو سفیان کے شامل مسلمانوں کی جاسوسی کے لئے بھی آئے؟

ج۔ کیا ابو سفیان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادے کا علم نہ تھا کہ یہ لشکر مکہ فتح کرنے کے لئے لائے ہیں ؟

د۔ کیا عباسؓ و ابو سفیان دونوں نے پہلے سے اس موقعہ پر ملاقات کا منصوبہ بنا رکھا تھا جہاں بدیل بن ورقاء اور حکیم بن حزام کے ساتھ عباسؓ کی مڈ بھیڑ ہوئی کہ ادھر وہ (عباسؓ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کر کے آ جائیں گے اور ادھر (مکہ کی طرف سے) ابوسفیان آ کر انہیں اسی راہ میں ملیں گے؟

دوسرا احتمال (ب) صحیح ہونے کی صورت میں ممکن ہے کہ جب ابوسفیان میعاد صلح کی توسیع کے لئے مدینہ گئے مگر پذیرائی نہ ہوئی تو انہیں پوری طرح یقین ہو گیا کہ قریش مکہ کا (جناب) محمد پر غالب آنے کا دور ختم ہو چکا ہے۔ آج ابو سفیان نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مکہ فتح ہونے کا یقین کر لیا اور اس کے ساتھ ہی انہوں (ابوسفیان) نے مکہ میں اپنی سیادت قائم رکھنے کا منصوبہ بھی سوچ لیا۔

آج ابوسفیان نے محسوس کر لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر چڑھائی کا ارادہ اپنے ان یاران وفادار کے سوا کسی پر منکشف نہیں ہونے دیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانا اپنے لئے حیات جاوید سمجھتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس موقع پر جب وہ (ابوسفیان) عباسؓ کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور حاضر ہوئے تو سیدنا عمرؓ نے ان کے قتل کرنے کا تہیہ کر لیا لیا۔ مگر ان واقعات کے متعلق دونوں قسم کی روایات موجود ہیں ، اس لئے دونوں جہتوں میں سے قطعیت کے ساتھ کسی ایک کی تائید اور دوسری کی تردید میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ البتہ یہ امر حتمی ہے کہ مذکورۃ الصدر تمام حوادث اتفاق سے رونما ہوئے ہوں یا ان میں سے بعض از روئے اتفاق اور بعض سوچی سمجھی تجویز کے مطابق یا علی السبیل النتزل اس سلسلہ کی کوئی کڑی (جناب ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو سفیان کے کسی خفیہ سمجھوتہ کے مطابق منسلک ہوئی ہو۔ دونوں میں سے کوئی حیثیت سہی لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فتح مکہ جیسی اہم ترین کامیابی جو کسی خونریزی یا مقابلہ کے بغیر وقوع میں آئی، تاریخ کے ان اہم ترین حوادث میں سے ہے، جن سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال مہارت اور زیر کی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

 

داخلہ مکہ پر حسن تدبیر

بیشک نصرت و کامیابی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے یوتیہ من شیاء 1؎ لیکن خدا بھی اسی کی مدد کرتا ہے جو حسن تدبیر و موقع شناسی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر قابض ہونے کے لئے صرف ابوسفیان کو اس تنگ و رہ پر روک کر کھڑے رہنے کا حکم دیا جہاں سے اسلامی لشکر کو گزرنا تھا تاکہ مسلمانوں کی تعداد اور قوت سے خود متاثر ہونے کے ساتھ اپنی قوم کو بھی ان سے ڈرائیں اور اہل مکہ میں سے کسی کو مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ رہے۔

ابوسفیان کے سامنے سے ہو کر مسلمانوں کے ایک قبیلہ کا دستہ گزرتا گیا، لیکن انہوں نے صرف ایک دستے کے متعلق دریافت کیا جس کا علم سبز رنگ کے کپڑے سے بنا ہوا تھا۔ اس دستہ میں مہاجرین و انصار دونوں کے شمشیر زن شامل تھے۔ ان میں سے ہر سپاہی ایسی زدہ اور خود میں لپٹا ہوا تھا کہ آنکھوں کے سوا بدن کا کوئی حصہ نظر نہ آتا۔

ابوسفیان نے مسلمانوں کا یہ کروفر دیکھ کر سیدنا عباسؓ سے عرض کیا اے عباسؓ! آج کسی کو اس لشکر کے مقابلہ کی تاب نہیں۔ یہ خدا کی شان ہے اے ابو الفضل! تمہارے برادر زادہ کی بادشاہت قائم ہو گئی ہے! یہ کہہ کر ابو سفیان قریش کی طرف بڑھے اور ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے پکارا2؎:

یا معشر قریش! ھذا محمد قد جاء کم فی مالا قبل لکم بہ البتہ

اے قریش! (جناب) محمد ایسا لشکر جرار لے کر پہنچے ہیں جس کا تم مقابلہ نہیں کر سکتے۔

1؎ جسے چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے مالا مال کر دیتا ہے۔

2؎ حضرت عباسؓ نے فرمایا بات یہی ہے جو تم نے کہی لیکن ابو سفیان!یہ بادشاہت نہیں بلکہ نبوت ہے (زاد المعاد ابن القیم فصل فی الفتح العظیم:م)

البتہ!

من دخل دار ابی سفیان فھو آمن ومن اغلق علیہ الباب فھو آمن ومن دخل المسجد فھو آمن!

جو شخص ابو سفیان کے گھر میں جا چھپے، جو کوئی اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے اس کے اندر چھپ جائے اور جو شخص بیت اللہ میں پناہ گزیں ہو، ان کے لئے بھی معافی ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم لشکر ہمراہ لے کر آگے بڑھے۔ (مقام) ذی طویٰ میں پہنچ کر دیکھا کہ اہل مکہ کو مقابلہ میں آنے کی ہمت نہیں۔ فوج کو توقف کا حکم فرما کر خود سواری ہی پر حضور خداوندی میں سجدۂ شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے رسول کے لئے اول محیط وحی کے دروازے کھلوا دئیے اور مومنین کے لئے اطمینان و سکون کے ساتھ بیت اللہ میں آ جانے کی راہ پیدا کر دی۔

 

ابوبکرؓ کے والد ابو قحافہ کا واقعہ

ابو قحافہ نے جو ابھی تک مشرف بہ اسلام نہ ہوئے تھے اور کبر سنی کے باعث بینائی سے بھی محروم ہو چکے تھے، اس موقع پر اپنی نواسی سے کہا بیٹی! میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کوہ ابو قبیس پر لے چلو۔ جب دونوں پہاڑ پر پہنچے تو صاحب زادی ایک طرف غور سے دیکھنے لگیں۔ ابو قحافہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے بچی اس سمت میں کوئی اجنبی شے دیکھ رہی ہے دریافت پر صاحب زادی نے عرض کیا کچھ سیاہی سی نظر آ رہی ہے ابو قحافہ نے کہا سیاہی تھوڑی ہے یہ تو لشکر ہے !لڑکی نے دیکھا تو سیاہی غائب ہو چکی تھی۔ عرض کیا ارے سیاہی کیا ہوئی؟

ابو قحافہ: وہ لشکر تھا جو مکہ میں داخل ہو گیا۔ اے بیٹی! خدارا مجھے جلدی گھر پہنچا دو۔

ابو قحافہ کے گھر پہنچنے سے قبل لشکر مکہ میں داخل ہو گیا۔ اسی مقام پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا۔

لیکن ان آثار فتح کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کی احتیاط و تدابیر کو اس طرح مدنظر رکھا کہ پہلے تو لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے فرمان عام کے طور پر سمجھا دیا کہ مجبوری و اضطرار کے سوات (مدافعت کے طور پر) نہ کسی پر حملہ کیا جائے نہ کسی کی خوں ریزی روا رکھی جائے۔

اور لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد اس ترتیب سے داخلہ کا فرمان صادر ہوا:

1۔ مکہ سے شمالی دروازے سے، حضرت زبیر بن العوام: میسرہ کو ہمراہ لے کر

2۔ پائین شہر سے، حضرت خالد بن ولید، میمنہ کے ساتھ

3۔ غربی سمت سے، سیدنا سعد بن مبادہ (انصاری) اہل مدینہ کو لے کر

4۔ جبل ہند کے سامنے والی راہ سے، حضرت ابو عبیدہ ہمداع کو پیادہ اور نہتے مہاجرین کی سپہ سالاری دے کر۔ خاتم المرسلین بھی اس دستہ کے ہمراہ تھے۔

 

نعرۂ قتال پر سعد بن عبادہ کی معزولی

دستوں کی روانگی کے ساتھ ہی حضرت سعد بن عبادہؓ کی زبان سے جوش انتقام میں آ کر یہ جملہ نکل گیا:

الیوم یوم الملحلمہ! الیوم! تستحل الحرمہ!

آج گھمسان کا رن پڑنے کو ہے جس میں کعبہ کی حرمت بھی بالائے طاق رکھ دی جائے گی۔

ظاہر ہے کہ سعد بن عبادہؓ کے نعرہ کا مفہوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا تقیض تھا کہ مسلمان اضطرار کے بغیر نہ تو اہل مکہ میں سے کسی پر ہتھیار اٹھائیں نہ خون ریزی ہونے پائے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم صادر فرمایا کہ سعد سے علم ضبط کر کے ان کے فرزند قیسؓ کو تفویض ہو۔

جناب قیسؓ (ابن سعد) قوی ہیکل ہونے کے ساتھ بردبار بھی تھے۔

 

اہل مکہ کا ایک دستہ پر حملہ

اسلامی لشکر کے تین دستے کسی تعرض کے بغیر اپنے اپنے مقررہ راستوں سے شہر میں داخل ہو گئے مگر حضرت خالدؓ کے دستہ کو دفاع کے بغیر چارہ نہ رہا۔ پائین شہر میں داخل ہونے والے پہلے ہی سے مورچہ سنبھالے بیٹھے تھے۔ یہ بدنصیب مکہ کے دوسرے لوگوں کے مقابلہ پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں بہت زیادہ دیوانے واقع ہوئے تھے۔ انہی لوگوں نے مسلمانوں کے حلیف (قبیلہ ) بنو خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی حمایت کا ارتکاب کیا تھا۔ آج انہوں نے اپنے سردار ابوسفیان کے اعلان اطاعت کو پس پشت ڈال کر مقاتلہ کی تیاری کر لی۔ محلہ کے چند آدمی ادھر ادھر کترا گئے مگر ان کی کثیر تعداد مورچہ سر جم کر موقعہ کا انتظار کرنے لگی۔ ان کے سرغنہ صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابوجہل تھے۔ جونہی حضرت خالدؓ کا دستہ قریب پہنچا، انہوں نے تیروں کی باڑھ چھوڑ دی۔ لیکن خالد بن ولیدؓ کے جوابی حملے سے لمحہ بھر میں تیرہ اور بروایت دیگر اٹھارہ مقتول چھوڑ کر تتر بتر ہو گئے۔

مسلمانوں کے دو ایسے آدمی شہید ہوئے جو دستہ سے بچھڑ جانے کے وجہ سے کفار میں گھر گئے تھے۔ سپہ سالاران کفار صفوان و سہیل اور عکرمہ نے خود کو خالدؓ کے نرغے میں دیکھا تو ان کی جنگی مہارت اور شجاعت کے خوف سے اپنی اپنی جان بچا کر ادھر ادھر سرک گئے اور اپنے جن ہمراہیوں کے بل بوتے پر مسلمانوں کو تیروں کے نشانے پر رکھ لیا تھا انہیں اسلام کے بطل عظیم خالد بن ولیدؓ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اضطراب

ادھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جبل ہندی کی برابر والی پہاڑی پر مہاجرین کے دستہ کی معیت میں تشریف فرما ہوئے اور اس تصور سے نہایت مسرور تھے کہ بارے خدا مکہ معظمہ امن و سلامتی سے سر ہو گیا، لیکن جونہی شہر کی طرف دیکھا تو پائین مکہ میں تلواریں چمک رہی تھیں جن کے سائے میں خالدؓ کا دستہ خود کو دشمن سے بچا رہا تھا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم غم میں ڈوب گئے۔ ارے! میں نے تمہیں قتال سے منع کر دیا مگر تم نے وہی کر دکھایا! جب اصل واقعہ سے آگہی کے بعد سکون حاصل ہوا تب فرمایا شاید اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی مصلحت ہی ہو!

 

نصب خیمہ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جبل ہندی کے سامنے والے درہ اعلیٰ مکہ(نام) سے شہر میں داخل ہوئے (جس کے متصل ام المومنین سیدہ خدیجہؓ اور جناب ابو طالبؓ دونوں کے مزار ہیں ) سید البشر صلوات اللہ علیہ کے لئے اسی کے قریب خیمہ نصب کیا گیا۔ لیکن شہر میں داخل ہونے سے قبل عرض ہوا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اپنے آبائی دولت کدہ پر استراحت فرمائی کا قصد ہو تو اس کا انتظام کیا جائے فرمایا نہ آبائی گھر میں اترنا چاہتا ہوں نہ میرے قدر دانوں نے اسے میرے لئے باقی ہی رہنے دیا یہ فرمانے کے بعد اپنے مختصر سے خیمے میں تشریف لے گئے، قلب بے حد مسرور اور ہر بن مو زبان حال سے شکر خداوندی میں رطب اللسان کہ جو شہر میرے لئے سرا سر محن تھا، جس کے رہنے والوں کو جلا وطن ہونے پر مجبور کیا گیا، آج مجھے اس شہر میں ان مظلومین کی معیت میں فاتحانہ غلبہ کی توفیق عنایت فرمائی۔

ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی پر نگاہ دوڑائی، ارد گرد کے پہاڑوں کی طرف دیکھا تو شعب ابو طالب پر نظر رک گئی، جہاں قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی وجہ سے بنو ہاشم کا مقاطعہ کر کے انہیں دھکیل دیا تھا۔ یہاں سے نظر اچٹی تو وہ کوہ ابو قبیس پر آ کر رکی۔ اسی پہاڑ کے ایک غار میں برسوں گوشہ نشینی کے کیف و کم میں محور ہے اور اسی پہاڑ کے غار (حرا) میں وہ پہلی وحی نازل ہوئی:

اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم (1:96تا5)

(اے پیغمبر! قرآن جو وقتاً فوقتاً تم پر نازل ہو گا اس کو ) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھ چلو جس نے مخلوق کو پیدا کیا، (جس نے) آدمی کو گوشت کے لوتھڑے سے بنایا۔ (قرآن) پڑھ چلو اور خدا پر بھروسہ رکھو کہ تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے (جس نے) آدمی کو قلم کے ذریعے سے علم سکھایا (اس نے وحی کے ذریعے سے بھی) انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اس کو معلوم نہ تھیں۔

ان پہاڑوں کے سلسلہ اور جا بجا بکھری ہوئی وادیوں کے وسط میں شہر (مکہ) کی توبر تو حویلیوں کے درمیان بیت اللہ پر آ کر نظر رکی تو ذات باری کے کرم و رحمت کے تصور سے رقت طاری ہو گئی۔ حضور خداوندی میں جذبہ اظہار سپاس و تشکر کی وجہ سے آنسو بھر آئے ذہن میں گزرا کہ بے شک ! خدائے برحق ہی کے ساتھ ہر امر کی ابتداء و انتہا ہے۔

 

شہر میں داخلہ اور اعمال مبارک

اس امر پر انعطاف توجہ ہوا کہ اسلامی فوجوں کی مہم ختم ہو چکی۔ اور خیمہ میں زیادہ دیر تک استراحت فرما رہنے کی بجائے باہر تشریف لائے۔ (اپنے) ناقہ (قصواء) پر سوار ہو کر بیت اللہ میں داخل ہوئے۔ سواری ہی پر کعبہ کے سات طواف کیے۔ اپنی خم دار موٹھ والی چھڑی کی نوک رکن یمانی سے لگا کر چھڑی ہی کے ذریعے استلام (بوسہ دہی۔ ۔ ۔ ۔ م) پر اکتفا فرمایا۔ کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ کو طلب فرما کر کعبہ کا دروازہ کھلوایا اور خود (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ) دروازہ سے باہر تشریف فرما رہے۔ بیت اللہ کے وسیع ترین صحن میں لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریر فرمائی1؎ جس میں یہ آیہ مبارک پڑھی:

یایھا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلنا کم شعوباً و قبائل لتعارافوا ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ان اللہ علیم خبیر(13:49)

لوگو! ہم نے تم (سب) کو ایک مرد(آدم) اور ایک عورت (حوا) سے پیدا کیا اور پھر تمہاری ذاتیں اور برادریاں ٹھہرائیں تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو (ورنہ) اللہ کے نزدیک تم میں بڑا شریف وہی ہے جو تم میں بڑا پرہیز گار ہے۔ بیشک اللہ جاننے والا باخبر ہے۔

 

مجرموں کے عفو عام کا اعلان

خطبہ کے بعد حاضرین مجلس (بیت اللہ) سے دریافت فرمایا:

یا معشر قریش ماترون انی فاعل بکم؟

اے قریش! میری طرف سے تمہیں اپنے لئے کس سلوک کی توقع ہے؟

(باضافہ: اہل مکہ کے وکیل حدیبیہ سہیل بن عمرو) نے جواب میں عرض کیا:

1؎ تقریر:

لا الٰہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہ صدق وعدہ ونصر عبدہ و ہزم الا حزاب وحدہٗ لا اماثرۃ اودم اومال یدعی فھو تحت فدمی ماتبن الاسدانۃ البیت وسفایۃ الحاج الا وفصل الخطاء شبہ الصمد!

ذات واحد کے سوا کوئی قابل پرستش نہیں۔ آج اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا جو اپنے بندے (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ظفر یاب کیا اور دوسرے گروہوں کو شکست دلوائی۔

ہاں سنو! آج سے قبل اسلام کے تمام مالی اور فوجداری مطالبات کے دعاوی ناقابل سماعت ہونے کی وجہ سے میرے پیروں تلے روند کر رکھ دئیے۔ ماسوائے بیت اللہ کی کلید برداری اور حاجیوں کے لئے پانی فراہم کرنے کی خدمت کے۔ ہاں ! آج قتل خطا کی دیت بھی قتل شبہ عمد کے مساوی ہو گی۔

یا معشر قریش ان اللہ قد ذھب عنکم تخوۃ الجاھلیۃ و تعطمھا مالا باء الناس من آدم و آدم من تراب ثم تلاھذہ الایۃ یا ایھا الناس انا خلقنا کم الخ

اے دوستان قریش! آج سے اللہ نے جاہلیت کی نخوت و برتری ختم کر دی۔ حسب و نسب کا غرور رخصت کر دیا۔ سنو! ہر انسان آدم کی اولاد ہے اور آدم کو مٹی سے خلق کیا گیا۔

آخر میں آپ نے آیہ یا ایھا الناس انا خلقنکم پڑھی۔ (م…..)

خیراً! اخ کریم وابن اخ کریم!

آپ ہمارے رفیق برادر اور مہربان برادر کے فرزند ہیں۔ ہمیں آپ سے بھلائی ہی کی توقع ہے۔

فرمایا فاذھبوا! فانتم الطلقاء جہاں جی چاہے رہیے۔ آپ لوگ آزاد ہیں۔

دوستو! ایک ہی کلمہ قریش اور اہل مکہ کی جاں بخشی کا سبب بن گیا۔ یہ عفو عام اور دشمنوں پر پوری قدرت حاصل ہونے کے باوجود! ہر قسم کے جذبہ انتقام اور حسد و کینہ سے دامن بچا کر!

آج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ازلی دشمنوں کی جان آپ کی مٹھی میں ہے۔ جلو میں دس ہزار مسلح جان نثاروں کا لشکر! ایک لفظ بزن سے سب کے سرتن سے جدا ہو سکتے ہیں اور دوسرے لفظ سے لمحہ بھر میں دشمنوں کی اس کمین گاہ کے سر بفلک محل زمین سے پیوست! لیکن یہ وجود گرامی انسان کا دشمن نہیں۔ یہ صاحب صد مدحت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اخبار الٰہی کے مبین! عالم کے رسول! اور بندوں کو احکم الحاکمین کے احکام پہنچانے پر نام زد! آپ ان لوگوں میں سے نہیں جن کے دل میں لمحہ بھر کے لئے بھی بنی نوع بشر کے ساتھ دشمنی یا انتقام کا جذبہ ابھر سکے! نہ سخت گیر اور نہ متکبر!بے شک آج اللہ نے آپ کو آپ کے قدیم دشمنوں پر غالب فرما دیا، لیکن آپ نے ان پر پورے اختیار و قدرت کے باوجود انہیں معاف فرما کر تمام عالم کے سامنے عفو و احسان کی ایسی مثال پیش کر دی جس کی دوسری نظیر ڈھونڈنے سے نہیں مل سکتی! ابن آدم میں اس کردار کا دوسرا نمونہ کہاں پائیے گا!

 

تطہیر کعبہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں تشریف لے گئے۔ ہر طرف بتوں کی بھرمار دیکھنے میں آئی۔ دیواروں پر ملائکہ اور نبیوں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ جن میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ کے ہاتھ میں فال کے تیر دکھائے گئے تھے۔ گویا خدا کے فرستادہ پیغمبر بھی فال ہی کے سہارے نبوت کی تبلیغ فرماتے ہیں ! کاٹھ کا کبوتر بھی پرستش کے لئے موجود ہے، جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر پٹک کر توڑ ڈالا اور جناب ابراہیمؑ  کی تصویر پر کچھ دیر تک نظر جمائے رکھنے کے بعد فرمایا ان پر خدا کی مار! انبیاءؑ  کے جد اعلیٰ کو فال پرست ٹھہرا دیا۔ حضرت ابراہیمؑ  اور تیروں سے تفاول! (پھر فرمایا:)

ما کان ابراہیم یھودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما وما کان من المشرکین (67:13)

ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ہمارے ایک فرماں بردار (بندے) تھے اور مشرکوں سے(بھی) نہ تھے۔

ملائکہ کی تصویروں پر نظر ڈالی تو پری جمال نازنینوں کے روپ میں جلوہ ہار ہیں۔ فرمایا ارے! یہ غضب فرشتے تو مرد ہیں نہ عورت ان کو مٹا دینے کا حکم فرما کر جب اوپر نظر اٹھائی تو محراب کعبہ کے ہر طرف بت رکھے ہوئے دیکھے جنہیں دیوار کے ساتھ چونے سے جما دیا گیا تھا۔ ہبل وسط خانہ میں دھرا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک بت کی طرف چھڑی سے اشارہ کرتے ہوئے یہ آیت پڑھتے جاتے تھے اور بت منہ کے بل زمین پر گرتے جا رہے تھے:

وقل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کن زھوقا (18:17)

اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں سے کہہ دو (بس دین) برحق آیا اور (دین) باطل نیست و نابود ہوا اور (دین) باطل تو نیست و نابود ہونے والا ہی تھا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم آج سے بیس سال قبل جس مقصد کے لئے دعوت دے رہے تھے اور قریش جن بتوں کی حمایت میں اس پوری مدت تک سینہ سپر رہے، آج ان جھوٹے خداؤں ، ان کی تصویروں اور مجسموں سے خدا کا گھر پاک ہو گیا۔ لوگوں کے سامنے ان کے معبودوں کی تصویریں کھرچ دی گئیں اور ان کے بالمواجہہ ان کے معبود اکبر ہبل اور اس کے حاشیہ برادر بتوں کے مجسمے اٹھوا کر باہر پھنکوا دئیے گئے۔ قریش حیران تھے کہ انہیں تو وہ اور ان کے بڑے بوڑھے حاجت روا سمجھے ہوئے تھے، انہیں کیا ہو گیا ہے کہ اپنی ذات سے بھی آفت کو دور نہیں کر سکے۔

 

انصار کو خدشہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی رفقاء ہر موقعہ پر شریک اور ہر منظر کو دیکھ رہے تھے۔ جب بیت اللہ کی تطہیر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (کوہ) صفا پر کھڑے ہو کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو انصار کے دل میں یہ خیال ابھر آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مولد پر فتح حاصل کر لی ہے۔ اب آپ مدینہ کیوں جانے لگے۔ حتیٰ کہ ان میں سے دو ایک حضرات نے آپس میں ایسی گفتگو بھی کی: آپ کی کیا رائے ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مولد پر فتح حاصل کر لی ہے۔ آپ مدینہ تشریف لے جائیں گے یا مکہ ہی میں قیام فرمائیں گے؟ ان کے اس خدشہ کے لئے بظاہر اسباب کی کمی نہ تھی کہ آپ خدا کے رسول ہیں اور مکہ خدا کا گھر ہے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا ختم کرنے کے بعد (انصار سے) دریافت کیا، پھر ان کے اظہار تردد پر فرمایا معاذ اللہ! تم لوگ کیا سمجھ رہے ہو! میرا ارادہ یہ ہو سکتا ہے! جس کی زندگی اور موت دونوں تمہارے ساتھ وابستہ ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اشارہ بیعت عقبہ کی طرف تھا، جس میں انصار کے ساتھ عہد و پیمان ہوئے تھے اور انصار نے بھی اپنی طرف سے وفاداری کا یقین دلا دیا تھا۔ وہ عہد و پیمان جنہیں وطن اور اہل و عیال ایک طرف مکہ جیسے مامن کی خاطر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

 

بیت اللہ میں اذان صلوٰۃ

تطہیر (کعبہ) کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ سقف کعبہ پر جا کر اذان کہیں۔ اذان کے بعد مسلمانوں نے آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی جو چودہ سو سال سے اسی بیت اللہ میں بلا انقطاع ادا کی جا رہی ہے۔ بلالؓ کی طرح ان کے قائم مقام موذن اور ان کے نائبین اپنے اپنے زمانہ میں یہ اذان پکار رہے ہیں۔ اسی بیت اللہ کے اندر دن رات میں پانچ مرتبہ مسجد الحرام کے مکبر پر سروقد کھڑے ہو کر اسی طرح نہ صرف جوار بیت اللہ بلکہ ہر جگہ کے رہنے والے مسلمان اللہ کی طرف سے عائد شدہ فریضہ صلوٰۃ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے میں عمل پیرا ہیں اور اسی بیت اللہ الحرام کی طرف منہ کر کے بارگاہ خداوندی میں خشوع و خضوع کے ساتھ جس گھر کو خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کرنے پر بتوں کی نجاست سے پاک کر دیا۔

 

قریش مکہ کی سراسیمگی

قریش نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و کرم نے انہیں اپنی جانوں اور مال کے معاملہ میں پوری طرح مطمئن رکھا مگر انہیں اپنے سابقہ رویہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی طرف سے خوف کھائے جا رہا تھا۔

 

ناقابل معافی مجرموں کے لئے اذن قتل

قریش میں سترہ ایسے مجرم بھی تھے، جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شفقت سے محروم کر کے واجب القتل قرار دیتے ہوئے فرما دیا کہ اگر ان میں سے کوئی شخص غلاف کعبہ کے نیچے چھپا ہوا ملے تب بھی اسے معاف نہ کیا جائے۔

جن لوگوں کے متعلق فرمان قتل نافذ ہوا ان میں سے بعض لوگ ادھر ادھر روپوش ہو گئے، بعض بھاگ کر مکہ سے دور چلے گئے، لیکن ان مجرموں کے ساتھ یہ برتاؤ کسی کینہ یا برہمی کی وجہ سے نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ذمائم (برے) اخلاق سے مبرا تھے، بلکہ ان بدنصیبوں نے خود اپنے اعمال کی وجہ سے یہ روز بد دیکھا۔ ان مجرموں میں مندرجہ ذیل اشخاص تھے:

1۔ عبداللہ ابن ابی سرح تھے جو مسلمان ہو جانے کے بعد کاتب وحی کے منصب پر فائز ہوئے اور ان کی طبیعت رنگ لائے بغیر نہ رہی۔ ترک اسلام کر کے قریش کے ہاں چلے آئے اور یہاں آ کر یہ ڈینگیں مارنے لگے کہ میں قرآن میں کمی بیشی کرتا ہوں۔

2۔ عبداللہ ابن خطل یہ بھی اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو گیا اور مرتد ہونے کے بعد اپنے بے گناہ غلام کو قتل کر دیا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی دو کنیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کے قصائد سوز میں سننے سنانے کا مشغلہ بنا لیا۔

3,4۔ مذکورۃ الصدر دونوں کنچنیوں کے لئے۔

5۔ عکرمہ بن ابوجہل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے حسد و دشمنی میں حد سے گزرے ہوئے۔ فتح مکہ کے زمانے میں بھی حضرت خالد بن ولیدؓ کے دستے پر حملہ کر دیا۔

6۔ صفوان بن امیہ۔

7۔ حویرث بن نقیذ۔ جناب زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے موقعہ پر سیدہ کے درپے آزار ہوا۔ بی بی کی سواری کے جانور کو اس زور سے کونچا دیا کہ سواری بے تحاشا بھاگ اٹھی۔ سیدہ زمین پر گر پڑیں اور اسقاط ہو گیا۔

8۔ مقیس بن حبابہ۔ مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہو کر مشرکوں کا ناصر و معین بن گیا۔

9۔ ھبار بن اسود۔

10۔ ہند بنت عتبہ (زوجہ ابو سفیان) سید الشہداء (عم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ) حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی۔

ان میں چار اشخاص کیفر کردار کو پہنچ گئے۔ ابن اخطل، اس کی کنیز قریبہ، مقیس، حویرث باقیوں کی سرگزشت یہ ہے۔

1۔ عبداللہ بن سرح: (نمبر ایک) حضرت عثمان کے سوتیلے رضاعی بھائی تھے۔ ممدوح اسے ہمراہ لائے۔ جاں بخشی کی سفارش پیش کی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر سکوت کے بعد معاف فرما دیا۔

2۔ عکرمہ بن ابوجہل (نمبر5) کی اہلیہ سیدہ ام حکیم بنت الحارث اسلام لے آئی تھیں۔ عکرمہ فرمان قتل سن کر یمن کی طرف بھاگ گئے۔ ام حکیم نے اپنے شوہر کی جاں بخشی کی التجا کی اور قبول عرض کے بعد بی بی خود یمن کی طرف گئیں۔

3۔ صفوان بن امیہ (نمبر6) بھی عکرمہ کے ہمراہ تھے۔ دونوں ایک کشتی میں سوار ہو کر یمن کی طرف جانے کے لئے پتوار کھول رہے تھے کہ بی بی ام حکیم جا پہنچیں اور جاں بخشی کے مژدہ سنا کر دونوں کو مکہ واپس لے آئیں۔

4۔ سیدہ ہند (نمبر10) زوجہ ابوسفیان۔

 

فتح مکہ کا دوسرا خطبہ

فتح کے دوسرے روز بنو خزاعہ نے قبیلہ بدیل کے ایک مشترک کو اپنی سابقہ دشمنی کی بنا پر قتل کر دیا۔ یہ خبر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے مجمع عام میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

یا ایھا الناس ان اللہ حرم مکہ یوم خلق السموات والارض فھی من حرام الی یوم القیامۃ لا یحل لامرء یومن باللہ والیوم الاخران یسفک فیھا دما او یعضد فیھا شجراً لم تحلل لا حد کان قبلی ولا تحل لا حد یکون بعدی ولم تحلل لی الا ھذہ الساعۃ غضباً علی اھلھاثم رجعت کحر متھا بالامس فلیبلغ الشاھد الغائب فمن قال لکم ان رسول اللہ قد قاتل فیھا فقولوا ان اللہ قد احلھا الرسولہ ولم یحللھا لکم۔

دوستو! اللہ نے ازل ہی سے مکہ کی حرمت فرما دی اور تابہ قیامت بحال رکھی۔ جو شخص خداوند عالم اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے مکہ کی حدود میں کسی کو قتل نہ کرنا چاہیے بلکہ یہاں کا درخت تک نہ کاٹنا چاہیے۔ مجھ سے قبل اور میرے بعد کسی کے لئے مکہ کی یہ حرمت ختم کرنا حلال نہیں اور میرے لئے بھی ایک ہی ساعت کے لئے روا ہوئی۔ وہ بھی اہل مکہ نے خود پر خدا کو ناراض کر دیا۔ تو فقط اس برہمی کی بنا پر اور اتنی ہی دیر کے لئے جس کے بعد یہ حرمت پہلے ہی کی مانند پھر لوٹ آئی۔ دوستو! جو لوگ یہاں موجود نہیں انہیں بھی یہ مسائل بتا دیجئے۔ خیال رہے اگر کوئی شخص کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم مکہ کے حدود میں جنگ کی تو جواب میں کہنا یہ تو اللہ نے صرف اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حلال کیا تھا مگر تمہارے لئے یہ اجازت نہیں۔

 

خزاعہ سے خطاب

یا معشر الخزاعہ! ارفعوا ابدبکم عن القتل فلقد کثران نفح، بعد قتلتم قتیلا لا دینہ فمن قتل بعد مقالتی ہذا! فاھلہ بخیر النظرین ان شاوا فدم قاتلہ وان شاوا فعقلہ۔

اور اے دوستان خزاعہ! قتال سے ہاتھ روک لو، اگرچہ تمہارے لئے اس میں کوئی منفعت ہی سہی۔ میں یہی فیصلہ کرتا ہوں کہ تمہارے ہاتھ سے جو شخص قتل ہوا ہے اس کے عوض میں قاتلوں کو اپنی طرف سے خوں بہا دیئے دیتا ہوں لیکن آئندہ کے لئے مقتول کے وارثوں کو اختیار دیتا ہوں کہ اپنے قتیل کا خوں بہا لیں یا قصاص، انہیں اختیار ہے۔

اور قتیل کی دیت (خون بہا) اس کے وارثوں کو اپنی طرف سے ادا کر کے تنازعہ ختم کر دیا۔

 

اہل مکہ پر اثر

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز خطاب اور انداز کرم نے اہل مکہ کے دلوں کو اپنی طرف اس طرح مائل کر لیا کہ دنیا جہاں کی دولت اور بادشاہت بھی انہیں اس طرح متوجہ نہ کر سکتی۔ جوق در جوق لوگ اسلام کی طرف بڑھے۔ تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا جس کسی کا ایمان خدا اور آخرت پر ہے اگر اس کے گھر میں صنم ہو تو اسے تھوڑ کر پھینک دے۔

 

 

زسنگ میل حرم کی مرمت

بنو خزاعہ سے فرمایا کہ حرم کے سنگ میل (بارہ پتھر) میں سے جو برجی مرمت کے قابل ہو اس کی تعمیر کرا دیں جس سے اہل مکہ کے دلوں پر نقش ہو گیا کہ (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حرم بیت اللہ کی تقدیس و محبت کس حد تک راسخ ہے۔

 

اہل مکہ کی فریفتگی

اسی لمحہ اہل مکہ سے فرمایا آپ لوگ دنیا جہان کی بہتر جماعت سے ہیں۔ مجھے تم سے بے حد محبت ہے۔ میں تمہیں چھوڑ کر مدینہ نہ جاتا اور کسی کو تمہارے ہم پلہ نہ ٹھہراتا مگر کیا کروں تم ہی نے تو مجھے جلا وطن کیا! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اپنے متعلق یہ کلمات سن کر اہل مکہ آپ پر اور بھی فریفتہ ہو گئے۔

 

شیخ نابینا پر شفقت

اور اسی وقفہ میں (جناب) ابوبکرؓ نے اپنے والد ماجد ابو قحافہ کو حاضر کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکرؓ! یہ ضعیف ہیں ، میں خود ہی ان کے ہاں چلا جاتا۔ آپ نے انہیں یہاں آنے کی زحمت کیوں دی؟

ابوبکرؓ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ان کا فرض تھا، نہ کہ آپ تکلیف فرماتے!

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کے نابینا باپ کو اپنے سامنے بٹھا کر ان کا سینہ مس کرنے کے بعد فرمایا اے شیخ! اسلام قبول کیجئے ابو قحافہ نے کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ؐ پڑھا اور جب تک زندہ رہے، اسلام کو اپنے حسن کردار سے مزین کرتے رہے۔ آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیغمبرانہ خلق عظیم کے وسیلہ سے ان لوگوں کو اپنی محبت کا وارفتہ بنا لیا، جو کل تک خون آشام بھیڑیوں کی مانند ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں مارے مارے پھرتے۔ وہی لوگ آج رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام و تقدیس کی وظیفہ خوانی پر زندگی کا ماحصل سمجھتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عوام و خواص، قاتل و مقتول، عبادت گاہیں و عباد اور بیت اللہ و حرم مکہ کا تقدس دیکھ کر مکہ کے زن و مرد از خود آپ کی بیعت کا قلاوہ گلے میں ڈال کر زبان قال و حال سے:

شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم

کہہ رہے ہیں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقاء کے ہمراہ مکہ معظمہ میں پندرہ روز تک قیام فرمایا۔ اس دوران میں (مکہ کے ریاست اسلامی میں داخل ہو جانے کی وجہ سے: باضافہ) وہاں کے نظم و نسق کی ترتیب اور جدید الاسلام لوگوں کی تربیت میں ان کی رہنمائی فرماتے رہے۔ یہاں متعدد وفود (بصورت دستہ) اسلام کی دعوت کے لئے غیر مسلم قبائل میں بھیجے، جنہیں تاکید فرما دی کہ جہاں بت نظر آئیں انہیں تہس نہس کر دیا جائے۔ لیکن خونریزی سے بچ کر۔

اس سے قبل حضرت خالد ابن ولیدؓ مقام نخلہ میں بت (عزیٰ) کے توڑنے کی غرض سے (باضافہ: تیس سپاہیوں کی مشایعت میں۔ ۔ ۔ ۔ م) تشریف لے گئے۔ (عزیٰ کے پجاری بنو شیبان تھے۔ )

حضرت خالدؓ کے ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا تبرا:

جناب خالدؓ  عزیٰ کو ختم کرنے کے بعد قبیلہ بنو جزیمہ کی طرف بڑھ گئے۔ اہل قبیلہ نے انہیں اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو مسلح ہو کر نکل آئے۔ حضرت خالدؓ نے ہتھیار ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ دوسرے لوگ تو مسلمان ہو گئے ہیں۔ قبیلہ کے ایک شخص نے ان سے کہا ارے! یہ خالدؓ ہیں۔ اگر تم نے ہتھیار ڈال دئیے تو یہ تمہیں گرفتار کر لیں گے اور قید کر لینے کے بعد تمہاری گردنیں اڑا دیں گے۔ اس کے جواب میں قبیلہ کے چند اشخاص نے اپنے (اس) صلاح کار سے کہا آپ ہمیں قتل کرانا چاہتے ہیں۔ دوسرے لوگ مسلمان ہو چکے ہیں۔ لڑائی مٹ چکی ہے۔ ہر طرف امن و امان کا پہرہ ہے! آخر ایک ایک نے ہتھیار ڈال دئیے مگر اس کے بعد حضرت خالدؓ نے وہی کیا جو ان کے اس ناصح نے ان سے کہا تھا۔ ان کے مشکیں بندھوا دی گئیں اور قتل گاہ میں لے جا کر (95آدمی: باضافہ۔ ۔ ۔ م) تہ تیغ کرا دئیے:

مقتولین بنو جزیمہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حزن اور ادائے دیت!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرط غم سے بے قرار ہو گئے اور دونوں ہاتھ پھیلا کر حضور خداوندی میں التجا کی:

اللھم انی ابرامن ماصنع خالدؓ بن ولید۔

یا اللہ! میں خالدؓ کی اس کرتوت سے بری الذمہ ہوں۔

اور حضرت علیؓ کو بہت سا مال و زر دے کر مظلومین کی طرف بھیجا تاکہ ان کی تعداد کے مطابق دیت ادا کی جائے اور جناب علیؓ کو تاکید فرما دی کہ ضیاع نفوس و اموال کو معاملہ میں جاہلیت کی ناپ تول کو اپنے قدموں تلے روند دیجئے۔

حضرت علیؓ نے فراخ دلی کے ساتھ دیت اور امول کا تاوان ادا کیا اور ادائے دیت کے بعد جو رقم بچی وہ بھی احتیاطاً انہیں عطا فرما دی تاکہ اگر کسی اور قسم کے ضیاع کا انکشاف نہیں ہوا تو اس کی تلافی ہو جائے۔ قیام مکہ کے اس پندھر واڑے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر اور گرد و نواح سے بتوں کا ایک ایک مٹھ زمین کے برابر کر دیا اور بیت اللہ کے مناصب میں صرف دو عہدے برقرار رکھے۔

 

مناصب کعبہ

1۔ کلید برداری: جناب عثمان بن طلحہ کو نسلاً بعد نسل (ان کے خاندان میں ) یہ فرمانے کے ساتھ کہ ان سے یہ چابی ظالم کے سوا دوسرا لینے کی جرأت نہ کرے۔

2۔ سقایت: (زائرین بیت اللہ کو پانی پلانا) نسلاً بعد نسل سیدنا عباسؓ بن عبدالمطلبؓ  کے لئے۔

(باضافہ: عثمان اور سیدنا عباسؓ دونوں کے خاندان نسلاً بعد نسل ان مناصب پر پہلے سے فائز تھے)

آج سے مکہ اور اس کا حرم از سر نو امن و سلامتی کا گہوارہ بن گئے جہاں سے نور توحید کی درخشندہ رو اٹھ کر آسمان سے ٹکرائی۔ وہ رو جس کی ضیاء نے چودہ سو سال سے تمام عالم کو منور کر رکھا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

غزوۂ ہوازن و طائف

 

ہوازن اور ان کے حلیف قبائل کا مکہ پر حملہ کے لئے اجتماع

فتح مکہ کے بعد مسلمان چند روز تک یہیں مقیم رہے۔ خدا کے دین پر شاداں و شکر گزار اور اتنی بڑی فتح میں قتل عام سے اپنا دامن پاک رکھنے پر خوش! بلال اذان کہتے اور ٹھٹھ کے ٹھٹھ مسرت و شادمانی کے ساتھ بیت اللہ میں نماز کے لئے جمع ہو جاتے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم شہر اور نواح میں جہاں تشریف لاتے مشایعت میں مہاجرین و انصار موجود ہوتے۔ مہاجرین اپنی متروکہ حویلیوں میں جاتے تو ان میں بسنے والوں سے مل کر (دونوں فریق) خوشی کا اظہار کرتے کہ اللہ نے اس فتح کی بدولت انہیں بھی ہدایت فرمائی۔ اس خوشی سے فاتح اور مفتوح دونوں شریک ہوتے کہ البلد الامین (مکہ) میں اسلام کو نفوذ و استقرار حاصل ہوا۔ مسلمانوں کے مکہ فتح کرنے کا یہ خوش گوار نتیجہ مرتب ہوا۔ یہ پندھر واڑہ اسی طرح گزرا۔

اتنے میں مکہ کے قریبی جنوب مشرقی پہاڑوں میں قبیلہ ہوازن اور ان کے حلیفوں کے اجتماعی کی خبر پہنچی جو مکہ پر حملہ کی تیاری میں مصروف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ فتح مکہ اور وہاں کے بتوں کو ملیا میٹ کرنے کے بعد ممکن ہے مسلمان ان پر ہلہ بول دیں۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اپنی طرف سے مدافعت کرنے کے بجائے خود ہی مکہ پر دھاوا بول دیا جائے ورنہ (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی جنہیں قدر اندازی میں بلا کی مہارت ہے اور اپنی جمعیت و مشق جہاد کے غرور میں عربستان کے تمام قبائل کو رشتہ اسلام میں منسلک کرنے پر تلے بیٹھے ہیں وہ انہیں بھی ان کے حال پر نہ رہنے دیں گے۔ یہ تھا ہوازن کا منصوبہ جس کے لئے ان کے نوجوان اور دلاور سردار مالک بن عوف نے (جو بعد میں مسلمان ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ م) اپنے قبیلہ کے ہمراہ بنو ثقیف اور (قبیلہ) بنو نصر وجشم کو بھی شامل کر لیا (صرف ہوازن کی دو شاخوں قبیلہ کعب و کلاب نے شرکت سے انکار کیا۔ )

 

قبیلہ جشم کے جنگ آزمودہ مرد پیر کا مشورہ

قبیلہ جشم کے کہنہ مشق میدان کار زار کے تجربہ کار درید بن صمہ بھی شریک کر لئے گئے۔ مگر آج وہ شیخ فانی کے درجہ پر آ پہنچے تھے۔ انہیں صرف جنگ میں مشورہ دینے کے لئے اٹھا کر لایا گیا پلنگ پر!

شرکائے جنگ اپنے اموال و مویشی اور زن و بچہ تک کو ہمراہ لے آئے۔ میدان کے ایک کونے کی طرف سے اونٹوں کے بلبلانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ گدھوں کی ہنہناہٹ سے فضا مکدر تھی۔ بکریوں کی ممیاہٹ کانوں کے پردے چیر رہی تھی۔ بچوں کی چیخ پکار سے دشت و جبل گونج رہے تھے۔ یہ مختلف آوازیں سن کر درید نے سپہ سالار ہوازن (مالک بن عوف) سے دریافت کیا کہ مویشی اور زن و بچے ہمراہ لانے میں کیا مصلحت ہے۔

مالک: تاکہ دلاور ان بیشہ جنگ لڑائی سے منہ نہ موڑیں اور انہیں دیکھ کر جی توڑ کر مقابلہ پر ڈٹے رہیں۔

درید: یہ چیزیں فوج کے اکھڑے ہوئے قدم نہیں جما سکتیں۔ ایسے موقع پر صرف فوج، تلوار اور تیر کام آتے ہیں۔ اے مالک! اگر جنگ شروع ہونے سے پہلے انہیں یہاں سے علیحدہ نہ کیا تو بے حد ندامت کا سامنا ہو گا۔

لیکن مالک بن عوف نے اس مرد پیر کی رائے پر عمل نہ کیا اور لشکر نے بھی درید کی بجائے اپنے تیس سالہ نوجوان سپہ سالار کی اطاعت کو ترجیح دی جو ان کے نزدیک عزم و ارادہ اور شجاعت میں بے مثل تھا۔ درید بن صمہ نے اپنے مدت العمر کے تجربہ کے خلاف ہوتا ہوا دیکھ کر خاموشی اختیار کر لی۔

 

  کفار کی مورچہ بندی

مالک بن عوف نے اپنی فوج کو حنین کی چوٹی اور پہاڑ کے تنگ دروں کے بالائی کناروں پر تعینات کر کے تاکید کر دی کہ جوں ہی مسلمان ادھر سے وادی میں اتریں یک دم بزن بول دیا جائے تاکہ ان کی صفوں میں ایسے شگاف پیدا ہو جائیں کہ گھبراہٹ میں خود ہی ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں ، انہیں بھاگنے کے بغیر چارہ نہ رہے اور ان کے دماغ سے فتح کا نشہ ہرن ہو جائے۔ عربستان میں کفار کی دلاوری کی دھاک بیٹھ جائے کہ حنین میں ایسی قوت کو پارہ پارہ کر دیا گیا جس نے تمام عرب کو سرنگوں کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔

ان کی فوجوں نے مالک بن عوف کے ارشاد کی تعمیل میں ذرا پس و بیش نہ کیا اور ہر ایک جتھہ نے اپنے سپہ سالار کی ہدایت کے مطابق مورچہ سنبھال لیا۔

 

مسلمانوں کی حنین کی طرف پیش قدمی

مکہ میں قیام کو دو ہفتے گزر چکے تھے۔ مسلمانوں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سپہ سالاری میں حنین کا رخ کیا۔ اس فوج میں ان کی تعداد پہلے سے زیادہ تھی اور اس کا مقصد قبیلہ ہوازن اور ان کے حلیفوں کے مکہ پر حملہ کا انسداد تھا۔ اسلامی لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی جن میں دس ہزار وہ فوج تھی جو مدینہ سے مکہ کے لئے آئی تھی اور دو ہزار جدید الاسلام قریش مکہ سے شامل ہو گئے۔ جن میں ابو سفیان بن حرب بھی شریک غزوہ تھے۔ مسلمان سپاہیوں کی زرہوں کی چمک دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ مقدمہ فوج میں گھڑ سواروں کا دستہ تھا۔ جس کی نگرانی میں رسد کی بار بردار اونٹ بھی تھے۔ عرب نے اتنا بڑا لشکر آج تک نہ دیکھا تھا۔

ہر ایک قبیلہ کا دستہ اپنا اپنا علم سنبھالے ہوئے اور ہر ایک سپاہی اپنی فوج کی کثرت پر اس قدر نازاں کہ ان میں سے بعض افراد نے ایک دوسرے سے گفتگو میں یہاں تک کہہ دیا کہ اتنی کثیر التعداد فوج کو کون شکست دے سکتا ہے! یہ فوجیں غروب آفتاب کے بعد حنین میں جا پہنچیں اور رات سر پر آ جانے کی وجہ سے درے سے ادھر میدان میں پڑاؤ ڈال لیا۔ دوسرے روز پو پھٹنے سے ذرا پہلے آگے بڑھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سپید رنگ ناقہ پر سوار سب کے آگے تشریف لئے جا رہے تھے۔

 

دشمنوں کی یلغار پر اسلامی فوجوں میں کھلبلی

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقب میں خالدؓ بن ولید کی سپہ سالاری میں بنو سلیم کا دستہ مقدمہ الجیش میں تھا۔ ان کے ہاتھ میں علم بھی تھا۔ جونہی یہ دستہ تہامہ کا میدان طے کر کے حنین کی تنگ گھاٹی سے گزرا، دشمن کی فوجوں نے جو درہ کی چوٹی پر گھات لگائے بیٹھی تھیں اپنے سپہ سالار مالک بن عوف کی ہدایت کے مطابق پے بہ پے تیروں کی باڑھ چھوڑ دی۔ ادھر یہ مصیبت کہ دن کا اجالا بھی پوری طرح نہ ابھرا تھا۔ کہ مسلمانوں میں خلفشار پڑ گیا۔ دشمن کے حملے سے گھبرا کر ادھر ادھر چھٹ گئے۔ بعض بھاگ ہی نکلے، جن کی بد دلی پر ابوسفیان نے ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے کل مکہ جیسا مورچہ فتح کیا تھا کہا ان کے طور طریقوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سمندر1؎ سے ادھر نہیں رک سکتے۔ اس وقت ابو سفیان کے چہرے پر تعجب کے آثار تھے۔ تکلم کے وقت ان کے دونوں ہونٹ کھل گئے اور دانت نظر آنے لگے۔

اسلامی فوج کے ایک سپاہی (شیبہ بن عثمان بن ابو طلحہ جن کا باپ احد میں مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوا تھا) کی زبان سے نکل گیا آج میں بھی اپنے باپ کے خون کا بدلہ (جناب) محمد سے لے کر رہوں گا! اسی لشکر میں سے کلدہ بن حنبل نے کہا آج سحر باطل ہو گیا کلدہ کی بات صفوان کے کانوں میں پڑی تو اس نے ڈانٹ کر (کلدہ سے) کہا تیرے منہ میں آگ پڑے! بخدا! مجھے خود پر ہوازن کی حکومت سے مرد قریش کی فرماں روائی زیادہ محبوب ہے۔ (باضافہ: اور صفوان اس وقت تک مسلمان بھی نہ ہوئے تھے: اصابہ ابن حجر۔ ۔ ۔ ۔ م)

اور ہوازن کی ضرب سے مسلمانوں میں بری طرح ابتری پھیل گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم راحلہ پر تشریف فرما تھا۔ فوج کے شکست خوردہ سپاہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرتے اور بھگدڑ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی نوبت نہ آتی۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبات و قوت عزیمت

اس نازک ساعت میں کیا چارہ کار تھا؟ کیا خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل بیس سالہ قربانی کا ثمرہ اسی لمحہ میں تلف ہونے کو ہے، یعنی آج کے دن کی فجر کی تاریکی میں ؟ اور ان کے رب نے اپنا دامن ان کے ہاتھ سے جھٹک کر انہیں ہمیشہ کے لئے اپنی نصرت سے محروم فرما دیا ہے، نہیں یہ ایسی نازک ساعت تھی جس کے پیش آنے سے قبل ایک قوم یا تو اپنے مقابل کو ملیا میٹ کر سکتی ہے یا خود کو فنا!

ولکل امۃ اجل فاذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون2؎

1؎ وادی حنین مکہ سے جنوب مشرق کی طرف ہے اور حنین و مکہ دونوں سے سمندر عین مغرب کی سمت! یہی بحرۂ احمر ہے۔ (نقشہ عرب۔ ۔ ۔ ۔ م)

2؎ 34:7۔ ۔ ۔ اور ہر ایک قوم کے مٹنے کا ایک وقت مقرر ہے۔ پھر جب ان کا وقت آ پہنچتا ہے تو اس سے نہ ایک گھڑی پیچھے نہ ایک گھڑی آگے بڑھ سکتے ہیں۔

 

مسلمان رٹ میں لوٹ آئے

لوٹنے والوں کی تعداد لمحہ بہ لمحہ بڑھتی گئی۔ ایک دوسرے کو یوں واپس آتا ہوا دیکھ کر مسلمانوں کے قدم پھر سے جم گئے۔ کبھی انصار نے اپنے آدمیوں کو اے انصار کہہ کر پکارا اور گاہے اے خزرج! سے انہیں لڑائی جاری کرنے کے لئے بلایا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی کارکردگی کے نظارہ میں مصروف تھے۔ ذرا دیر میں گھمسان کا رن آ پڑا اب مسلمان دشمنوں کو رگید رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند پکار کر فرمایا مسلمانو! ہمت نہ ہارنا۔ لڑائی نے زور پکڑ لیا ہے۔ اللہ نے اپنے رسول سے نصرت کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔

 

عباسؓ کے ہاتھ سے کنکری لے کر دشمن کی طرف پھینکنا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عباسؓ سے فرمایا کنکریوں کی ایک مٹھی مجھے دو۔ اور دست مبارک میں لے کر شاھت الوجوہ کہہ کر دشمنوں کی طرف پھینکیں۔ مسلمان موت سے نڈر ہو کر داد شجاعت دے رہے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ آج کے شہید اپنے زندہ رہنے والوں سے بہتر ہوں گے۔

 

ہوازن کی شکست

لڑائی نے ہول ناک صورت اختیار کر لی۔ ہوازن بن ثقیف اور ان کے رفیقوں نے یہ سمجھ کر جی چھوڑ دیا کہ مقابلہ پر ڈٹے رہنے کا نتیجہ موت کے سوا کچھ نہیں۔ ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے۔

 

مال غنیمت کی مقدار

دشمن نے میدان میں عورتیں ، بچے اور مویشی بکثرت چھوڑے جن کی تعداد یہ ہے:

شتر2200            چاندی 40000(اوقیہ1؎)

بکری40000        عورتیں اور بچے 6000

مسلمان اموال غنیمت جعرانہ میں پہنچا کر خود مفرورین کے تعاقب میں لگ گئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعہ پر اعلان فرمایا کہ اصل قاتل اپنے مقتول کی سواری، اسلحہ وغیرہ کا حق دار ہے۔ جس سے مسلمانوں کا ولولہ اور زیادہ ہو گیا۔

 

حضرت ربیعہ اور درید بن صمہ کا قتل

ربیعہ ابن دغنہ نے بڑھ کر ایک شتر گرفتار کیا جس پر ہودج کی بجائے پلنگ تھا۔ ربیعہ سمجھے کہ اس پر کسی امیر کی عورت ہو گی، جس سے بہت سا مال و زر حاصل ہو گا مگر پلنگ پر ایک ضعیف عمرؓ مرد لیٹا ہوا تھا، جسے ربیعہ پہچان نہ سکے۔ یہ ہوازن کا جنگی مشیر درید بن صمہ تھا۔ درید نے ربیعہ سے ان کا مقصد دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا میں تجھے قتل کرنا چاہتا ہوں۔

1؎ فی اوقیہ بہ مساوی 10تولہ (پاکستانی) ارجع الاقاویل فی اصح الموازین والمکائیل مفتی محمد شفیع صاحب دیو بندی اس حساب سے 40000اوقیہ کا وزن 4لاکھ20 ہزار تولہ۔

اس کے ساتھ ہی تلوار کا ہاتھ تول کر مارا جو خالی گیا۔ درید نے اس سے کہا ربیعہ! تمہاری ماں نے تمہیں ناکارہ تلوار دے کر بھیجا ہے۔ میری پشت کی طرف جو شمشیر رکھی ہے اس سے کام لو اور دیکھو! مغز وا ستخوان مغز سے لے کر ذرا نیچے (یعنی گلے پر۔ م)۔ ۔ ۔ ۔ اے ربیعہ! میں بہادروں کو اسی طرح قتل کرتا رہا ہوں۔

اور ہاں ! اے ربیعہ! اپنے گھر لوٹ کر اپنی ماں کو بتا دینا کہ تم نے درید بن صمہ کو قتل کیا ہے۔ ارے میں نے تو تمہارے قبیلہ کی کئی عورتوں کو ان کے دشمنوں سے بچایا تھا۔

حضرت ربیعہ نے یہ واقعہ اپنی والدہ سے بیان کیا تو اس نے کہا تو نے کیا ستم ڈھایا! درید کا تجھ پر یہ احسان کہ اس نے تیرے قبیلہ کی تین عورتوں تیری ماں ، نانی اور دادی کو دشمنوں سے بچایا اور تو نے اسے قتل کر دیا۔

مسلمانوں نے (مقام) اوطاس تک تعاقب جاری رکھا اور یہاں آ کر کفار کو نرغہ میں لے لیا۔ ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلے تیزی سے بھڑک اٹھے مگر کفار بھاگ کھڑے ہوئے اور حنین میں سے جو عورتیں اور بچے اور اموال ہمراہ لائے تھے وہ بھی چھوڑتے گئے، جنہیں مسلمان سمیٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (جعرانہ میں) لے آئے اور اب سے ہوازن کی شکست پر مہر لگ گئی۔

 

مالک بن عوف (سپہ سالار ہوازن)

مشرکین ہوازن کے سپہ سالار مالک بن عوف بھی اپنے مفرور دوستوں کے ساتھ اوطاس میں گھر گئے تھے لیکن وہ بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اور اپنے چند سپاہیوں کے ہمراہ (مقام) نخلہ (از ملحقات طائف) میں جا چھپے۔

دوستو، یہ ہے کفار ہوازن کی داستان شکست جس کا ایک روح فرسا حصہ یہ ہے کہ مسلمان آخر شب کی تاریکی میں مشرکوں کے حملہ کی تاب نہ لا کر منتشر ہونے پر مجبور ہو گئے۔ دوسرا یہ کہ آخر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبات قدم کامیاب ہو کر رہا جن کے ساتھ صرف گنتی کے چند آدمی رہ گئے تھے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے رسوخ قدم کے صدقہ میں مسلمانوں کو فتح اور دشمنوں کو شکست ہوئی جس کی حکایت میں یہ آیتیں نازل ہوئیں :

لقد نصر کم اللہ فی مواطن کثیرۃ و یوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئاً وضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین (25-9)

(مسلمانو!) اللہ بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے اور(خاص کر) حنین (کی لڑائی) کے دن جب کہ تمہاری کثرت نے تم کو مغرور کر دیا تھا (کہ ہم بہت ہیں ) تو وہ (کثرت) تمہارے کچھ کام نہ آئی اور (اتنی بڑی) زمین باوجود وسعت لگی تم پر تنگی کرنے۔ پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔

ثم انزل اللہ سکیسنتہ علی رسولہ وعلی المومنین وانزل جنوداً لم تروھا وعذب الذین کفرواً وذالک جزاء الکافرین (26-9)

پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور (نیز) مسلمانوں پر( اپنی طرف سے) تسلی نازل فرمائی اور (تمہاری مدد کو) فرشتوں کے ایسے لشکر بھیجے جو تم کو دکھائی نہیں دیتے تھے اور (آخر کار) کافروں کو بڑی سخت مار دی اور کافروں کی یہی سزا ہے۔

ثم یتوب اللہ من بعد ذالک علیٰ من یشاء واللہ غفور رحیم (27-9)

پھر اس کے بعد خدا جس کو چاہے توبہ نصیب کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

یایھا الذین آمنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا وان خفتم علیۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ ان شاء ان اللہ علیم حکیم (28:9)

مسلمانو! مشرک تو نرے گندے ہیں۔ اس برس کے بعد ادب و حرمت والی مسجد (یعنی خانہ کعبہ) کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں اور اگر (ان کے ساتھ لین دین بند ہو جانے سے) تم کو مفلسی کا اندیشہ ہو تو (خدا پر بھروسہ رکھو) وہ چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ بیشک خدا (سب کی نیتوں کو) جانتا (اور) حکمت والا ہے۔

 

لیکن فتح حنین کی قیمت

مسلمانوں کو یہ فتح سستے داموں نہ پڑی اور انہوں نے اس کی بہت زیادہ قیمت ادا کی۔ البتہ اگر اس صبح کے حملہ میں انہیں شکست کا منہ نہ دیکھنا پڑتا اور مسلمان اس طرح میدان چھوڑ کر نہ بھاگتے جس پر ابوسفیان کو بھی کہنا پڑا ان کے طور طریقوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سمندر سے ادھر نہیں رکیں گے۔ تو ان کے اتنے دلاور شہید نہ ہوتے۔

آہ! حنین میں مسلمانوں کا یوں تہ تیغ ہونا تاریخ پوری طرح ان کی تعداد بتانے سے قاصر ہے، ماسوائے ازیں کہ ان کے دو قبیلے یا تو بالکل ختم ہو گئے ای ان میں سے معدودے چند حضرات زندہ رہے اور شہدائے حنین کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائے مغفرت فرمائی۔

تاہم اس غزوہ میں مسلمان ہی فتح یاب ہوئے۔ انہوں نے دشمن پر پوری طرح قابو پا لیا اور ان کے ہاتھ جس قدر مال اور اسیر آئے اس سے قبل انہیں اس قدر غنیمت کبھی دستیاب نہ ہوئی تھی۔ اس موقعہ پر یہ وضاحت بھی ضروری تھی کہ لڑائی سے اصل مقصد ایسی فتح یابی ہے جس میں اگر شرافت کا لحاظ بھی رکھا جائے تو ایسی فتح کی جس قدر قیمت لگائیے۔ ۔ ۔ ع۔ ۔ ۔ ۔ بحمد اللہ بسے ارزاں خریدم کی مصداق ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اس فتح پر بے حد مسرت حاصل ہوئی اور اب وہ تقسیم غنائم کے خواہاں تھے۔

 

طائف کا محاصرہ

اس فتح میں درخشندہ پہلو مشرکین کے سپہ سالار اعظم مالک بن عوف نصریٰ کا ماجرا ہے، جس نے اپنے دامن سے اس آگ کو مشتعل کیا اور جب مغلوب ہوا تو اپنے ہمراہ قبیلہ ثقیف کے بقیۃ السیف اشخاص کو لے کر طائف (کے قلعہ) میں چھپ کر پناہ لی، جس سے مسلمانوں کو ایسی مصیبت سے دوچار ہونا پڑا (کہ اگر وہ مالک سے اغماض کرتے ہیں تو یہ خطرہ ہے کہ مبادا وہ اس چنگاری کو پھر ہوا دے اور انہیں طائف کا معاملہ یک سو کیے بغیر مفر نہ رہا۔ ۔ ۔ ۔ م)

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ جنگ میں ایک دستور یہ بھی تھا کہ کسی بڑے معرکہ سے فارغ ہونے کے بعد در پردہ دوسرے دشمنوں کا محاصرہ فرماتے جیسا کہ احد سے واپس تشریف لانے کے بعد یہود خیبر کو گھیر لیا اور غزوۂ خندق سے فارغ ہو کر مدینہ کے یہود بنو قریظہ کو حصار میں لے لیا۔

 

محاصرۂ طائف کے متعلق مولف علام کا دوسرا تصور

(م۔ ۔ ۔ ۔ اور محض مفروضہ!) طائف کے محاصرہ کا محرک کہیں قبل از ہجرت کا حادثہ نہ ہو، کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تبلیغ کے لئے تشریف لائے تو پہلے یاران شہر نے خوب کھل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تمسخر اڑایا۔ پھر شہر کے نو عمر لڑکوں کو بھڑکایا، جنہوں نے جی بھر کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھراؤ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لہولہان ہو کر انگوروں کی بیل کے سائے میں جا بیٹھے۔ آج شاید اپنی اس ناتوانی کا تصور ذہن میں آ گیا ہو، جس موقع پر بجز ذات وحدہٗ لا شریک کی امداد کے کوئی سہارا نہ تھا یا اس قوت ایمانی کا آسرا جس سے قلب مبارک مسحورتھا اور یہ ایسی قوت ہے جو پہاڑ کو بھی ریزہ ریزہ کر سکتی ہے۔

آج خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم طائف پر ایسی کوہ پیکر فوج کے ساتھ یلغار کرنے کو ہیں جس کی سی قوت اور تعداد جزیزۃ( العرب نے کبھی نہ دیکھی تھی۔

طائف کے ارد گرد عرب کے دوسرے مشہور شہروں کی طرح چاروں طرف سر بفلک فصیل کھڑی تھی اور شہر میں آمد و رفت کے لئے ہر طرف ایک صدر دروازہ۔ شہر کے باشندے فنون حرب کے ماہر، ملک کے بڑے سرمایہ داروں نے شہر کی حفاظت کے لئے قلعوں کا ایک جال پھیلا رکھا تھا۔

 

حملہ

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے لیے نامی قلعہ پر حملہ کرنے کا حکم فرما دیا، جس میں مالک بن عوف اپنے ثقفی ساتھیوں کے ساتھ چھپا بیٹھا تھا۔ مسلمانوں نے قلعہ تک پہنچنے سے قبل بنو ثقیف کی حفاظتی دیوار کو زمین کے برابر کر کے قلعہ مسمار کر دیا اور طائف کے قریب جا پہنچے مگر آگے بڑھنے کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق شہر سے ادھر ایک مقام پر رک گئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ یہاں جمع ہو کر مشورہ کیا جائے۔ ادھر بنو ثقیف بھی تاک میں تھے انہوں نے قلعہ کی ایک بلند دیوار پر کھڑے ہو کر اس زور سے تیروں کی باڑھ ماری جس سے کئی مسلمان شہید ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے از سر نو جنگ کے طریقے پر غور ضروری سمجھا۔ یہ کہ بنو قریظہ و یہود خیبر کا سا محاصرہ کارگر ثابت ہو گا اور بنو ثقیف بھی قلت رسد سے گھبرا کر شہر حوالے کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، یا اگر وہ مقابلہ کرنے کے لئے شہر سے باہر نکل آئیں تو مسلمانوں کے لئے اپنی کثیر التعداد فوج سے انہیں جلد از جلد مغلوب کر لینا آسان ہو گا اس قسم کی مختلف صورتیں زیر غور تھیں۔ ضروری سمجھا کہ دشمنوں کے تیروں کی زد سے دور ہٹ کر مشورہ کیا جائے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجویز کے مطابق اسلامی فوجیں پہلے مقام سے ہٹ کر وہاں جمع ہو جائیں جہاں اہل طائف نے شکست تسلیم کرنے اور قبول اسلام کے بعد مسجد تعمیر کرائی (کیوں کہ) پہلے مقام (مشاور گاہ) پر کفار کے تیروں سے اٹھارہ مسلمان شہید ہو چکے تھے، جن میں حضرت ابوبکرؓ کے ایک صاحب زادے بھی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم مطہرات میں سے ام المومنین ام سلمہؓ و زینب بنت حجشؓ بھی ہمراہ تھیں دونوں کے لئے دو علیحدہ علیحدہ سرخ چمڑے کے نصب کیے گئے جن کے وسط میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمائی جو اس مقام پر تعمیر مسجد کی تمہید تھی۔

مسلمان چشم براہ تھے کہ دیکھئے اب پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے اور دشمن کونسا پہلو اختیار کرے گا۔ اسی وقفہ میں ایک بدو1؎ ادھر آ نکلا۔ اس نے رسول پاک سے عرض کیا بنو ثقیف اپنے قلعوں میں اس طرح دبک گئے ہیں جس طرح لومڑی بھٹ میں۔ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو وہ کوئی گزند نہیں پہنچا سکتی۔

لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ناکام لوٹنا شاق تھا۔ آپ کو خیال گزرا کہ پائین مکہ کے رہنے والے قبیلہ بنو دوس منجنیق اور دبابہ کے فن سے آگاہ ہیں۔ ان کے رئیس طفیل (بن عمروؓ الدوسی) اس محارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھے۔ وہ غزوۂ خیبر میں بھی آنحضرت کے ہم رکاب تھے۔ آپ نے طفیل سے فرمایا اور وہ مکہ جا کر اپنے قبیلہ کے چند ایسے دلاوروں کو ہمراہ لے آئے جو اسی قسم کے آتش گیر گولے اور دبابے (کپے) ساتھ لائے تھے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے محاصرہ کرنے سے چار روز بعد طائف پہنچے۔ مسلمان ان کی کمان میں منجنیق اور آتش گولے لے کر قلعہ کی دیوار میں شگاف کرنے کے لئے دبابوں میں چھپ کر آگے بڑھے۔ لیکن اہل طائف بھی فنون سپہ گری میں کچھ کم نہ تھے۔ انہوں نے گرم لوہے کے غلے غلیل میں رکھ کر پھینکنا شروع کیے جن سے کئی مسلمان شہید ہو گئے۔ اور مسلمان مورچہ چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے۔ مسلمانوں کا یہ وار بھی خالی گیا اور وظائف کے قلعوں کا مسخر کرنا محال ہو گیا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر غور فرمایا تو اپنے ہاتھوں بنو نضیر کے باغات جلوانے کا نقشہ ذہن میں گھومنے لگا، جس سے عاجز آ کر انہوں نے از خود جلا وطن ہونے پر آمادگی ظاہر کی۔ ہاں ہاں ! طائف میں انگوروں کے باغات تو بنو نضیر (مدینہ) کے مقابلہ میں کہیں زیادہ بیش قیمت ہیں اور یہاں کے انگور تمام عرب میں مشہور ہیں۔ اہل طائف کو اپنی اسی دولت پر ناز ہے۔ طائف کو انگور کے شہر ہونے کی وجہ ہی سے تو صحرا کا بہشت سمجھا جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن اس طرف منتقل ہو گیا کہ ان کے باغات پر دست برد ہوئے بغیر یہ لوگ راہ پر نہ آئیں گے۔ آپ نے فیصلہ کر ہی لیا اور مسلمانوں کو حکم دیا (ہمارے جن دشمنوں نے مالک بن عوف کو اپنی بغل میں چھپا رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ م) ان کے سرسبز و شاداب باغات پھونک دئیے جائیں اور جن پودوں پر آگ اثر نہ کر سکے انہیں قلم کر کے پھینک دو! طائف کو اپنی جس دولت پر ناز تھا چشم زدن میں پامال ہونے کو ہے۔ وہ تھرا اٹھے اور فوراً پیغام بھیجا کہ ایسی نعمت خود برد کرنے کی بجائے اسے اپنے لیے برقرار رکھیے تو ہمیں تعرض نہ ہو گا اور ہمارے ہی لئے رہنے دیجئے تو یہ کرم مزید ہو گا۔ آخر بنو ثقیف سے آپ کی قرابت 2؎ بھی تو ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے منع فرما دیا (لیکن یہ معاہدہ صلح نہ تھا، نہ اہل طائف سے جنگ کرنا مقصود۔ یہ تو صرف مالک بن عوف کو پناہ دینے پر انہیں متنبہ کرنا تھا۔ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا طائف کے غلاموں میں سے جو کوئی ہمارے لشکر میں آ جائے وہ آزاد ہے۔ اس منادی پر تقریباً بیس اشخاص طائف سے بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئے، جنہوں نے مخبری میں عرض کیا کہ اہل طائف کے پاس رسد کا اس قدر ذخیرہ ہے جو مدت تک کافی ہو سکتا ہے۔

1؎ نوفل بن معاویہ وئلی جو فتح مکہ کے روز اسلام لائے (زاد المعاد ابن قیم و اصابہ ابن حجر)

2؎ بوجہ رضاعت سیدہ حلیمہ سعدیہ جن کی صاحب زادی جناب شیماء غزوۂ اوطاس میں گرفتار ہوئیں۔ اس رضاعت کی وجہ سے جناب عبداللہ و انیسہ اور حذیفہ ابنائے حارث از بطن حلیمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عم بزرگ وار کے رشتہ میں تھے۔ (اصابہ ابن حجر در تذکرۂ بی شیماء۔ ۔ ۔ ۔ م)

لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ کو طول دینا پسند نہ فرمایا۔ ادھر لشکری بھی تقسیم اموال (غنایم) کے لئے بے قرار تھے۔ مبادا ان کے صبر و استقامت میں تزلزل آ رہا ہو۔ حرمت والا مہینہ (ذوالقعدہ) آ رہا ہے، جس میں قتال و جہاد جائز نہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم (طائف کا) ایک ماہ تک محاصرہ کرنے کے بعد مراجعت فرمائے جعرانہ ہوئے ہی تھے کہ ماہ ذوالقعدہ شروع ہو گیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر سمیت عمرہ کا احرام زیب تن فرما لیا۔ بعض راوی یہ بھی کہتے ہیں کہ طائف سے مراجعت کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ محرم ختم ہو جانے کے بعد پھر حملہ کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔

 

اموال ہوازن کی تقسیم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو مشایعت میں لے کر طائف سے (بارادہ عمرہ) مراجعت فرما ہوئے اور راستے میں جعرانہ رکنا پڑا تاکہ اموال و اسیران ہوازن کی تقسیم کر دی جائے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس رسول علیحدہ کر کے مابقی اموال اور اسیر لشکریوں میں تقسیم فرما دئیے۔

 

وفد ہوازن برائے واپسی اموال و نفوس

اتنے میں ہوازن کے ان حضرات کا ایک وفد حاضر ہوا جو مسلمان ہو چکے تھے وہ اپنے مال اور ان افراد کی واپسی پر مصر ہوئے جو کئی روز سے ان سے جدا ہو چکے تھے اور ان کی مفارقت کا ملال انہیں کھائے جا رہا تھا۔ وفد کے ایک رکن نے عرض کیا:

یا رسول اللہ! انما فی الحظائر عماتک وخالاتک وحواجتک اللواتی کن یکفلنک ولو انا ملحنا للحارث بن ابی شمر او لنعمان بن المنذر ثم نزل منابمثل الذی نزلت بدرجونا عطفہ و عائدتہ علینا وانت خیر المکفولین۔

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ان اسیروں میں بعض عورتیں آپ کی پھپھی ہوتی ہیں ، بعض خالہ کے رشتہ میں ہیں اور کوئی آپ کی کھلائی ہے۔ اے صاحب! اگر ہماری اسیر بیبیوں میں سے کسی نے حارث بن ابو شمر یا نعمان بن منذر امیر غسان کو اپنا دودھ پلایا ہوتا اور وہ آپ ہی کی طرح ہم پر غالب آ جاتا۔ پھر ہم اس سے اپنی عورتوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے تو ناممکن تھا وہ ہماری استدعا کو مسترد کرتا اور آپ تو دنیا بھر کے مربیوں سے بہتر ہیں۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن شیماء کی شکایت

اسیروں میں بی بی شیماء بنت حارث (جناب حلیمہ کی صاحب زادی۔ ۔ ۔ م) بھی تھیں جنہیں گرفتار کرتے وقت مسلمانوں نے جنگی سختی سے کام لیا۔ بی بی شیماء کہولت کی حدود سے گزر رہی تھیں۔ انہوں نے لشکریوں سے فرمایا:

تعلموا واللہ انی لاخت صاحبکم من الرضاعۃ

جانتے نہیں ہو، میں تمہارے صاحب کی رضاعی بہن ہوں ؟ میرے ساتھ ادب سے بات کرو۔

لیکن سپاہیوں کو یقین نہ آیا۔ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا یہ تو شیماء ہیں (حارث بن عبدالعزی کی صاحبزادی) ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ردائے پاک کا فرش بی بی شیماء کے بیٹھنے کے لئے بچھا دیا اور فرمایا

اے بہن! تم میرے ہاں رہنا چاہو تو تمہارا گھر ہے اور واپس تشریف لے جانا منظور ہو تب بھی مجھے اصرار نہیں۔ سیدہ شیماء نے اپنے قبیلہ میں جانے کو ترجیح دی (مگر اسی روز مسلمان ہو گئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غلام و اموال خمس میں سے دے کر رخصت فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ اصابہ۔ ۔ ۔ ۔ م)

 

سیدۂ شیماء کے ساتھ صلہ رحمی میں ہوازن کے امیال و عواطف

ہوازن نے بی بی شیماء کی یہ منزلت دیکھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر شفقت فرما کر صلہ رحمی کا پاس دکھایا تو ہوازن کی ڈھارس بندھ گئی اور اس سرکار میں ہمیشہ یہی ہوا کہ جس کسی نے قرابت یا محبت کا واسطہ پیش کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سبقت کرنے میں کوتاہی کو دخل انداز نہ ہونے دیا۔ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک آپ کی طینت ہی میں تھا۔ ہوازن کی درخواست پر فرمایا آپ لوگوں کو اپنے زن و بچے زیادہ محبوب ہیں یا مویشی اور مال و اسباب

وفد: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !جب آپ نے ہی ہمیں دونوں چیزوں میں سے کسی ایک شے کے لئے ترجیح کا اختیاط عطا فرمایا ہے تو ہمیں اپنے بال بچے زیادہ محبوب ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !بہت خوب! خمس اور بنو عبدالمطلب کا حصہ دونوں مدوں کی عورتیں مرد اور بچے واپس کر دئیے جائیں گے۔ رہے وہ اشخاص جنہیں میں آپ سے پہلے دوسروں کو تقسیم کر چکا ہوں تو نماز ظہر ادا کرنے کے بعد آپ مجھ سے میرے تمام رفقاء کے بالمواجہہ ان لفظوں میں استدعا کیجئے:

انا نسفثفع برسول اللہ الی المسلمین و بالمسلمین الی رسول اللہ فی ابناء نا ونساء نا

اے صاحبو! ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے آپ لوگوں سے ملتجی ہیں اور آپ حضرات کے وسیلہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مستدعی کہ ہماری عورتیں اور بچے ہمیں واپس فرما دیجئے۔

اس لمحہ میں میں اپنا اور بنو عبدالمطلب کا حصہ واپس کر دوں گا اور مسلمانوں سے بھی واپسی کے لئے آپ لوگوں کی سفارش کروں گا۔

نماز ظہر ادا کرنے کے بعد ان ہی قدموں پر ہوازن نے فرمودۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنی درخواست مسلمانوں کے سامنے پیش کی جس پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سبقت کرتے ہوئے فرمایا:

دوستو! میں اپنا اور بنو عبدالمطلب کا حصہ واپس کرتا ہوں۔

مہاجرین اور انصار کا ایک ہی سا جواب تھا

ما کان فھو لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے حصے کے بھی مختار ہیں )

ابتداء میں فاتحین میں ذیل کے تین حضرات نے اپنے اپنے حصہ کے اسیر واپس کرنے سے انکار کر دیا:

1۔ اقرع بن حابس نے

2۔ عینیہ بن حصن نے

3۔ عباس بن مرداس لیکن اپنے قبیلہ داروں کے اصرار سے عباس بن مرداس بھی اسیروں کی واپسی پر رضا مند ہو گئے م۔ ۔ ۔ اور اقرع و عینیہ نے بھی برضا و رغبت اپنے حصہ کے اسیر واپس کر دئیے۔ (زاد المعاد)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو حصہ داراپنا حصہ واپس کر دیں انہیں میں پہلی غنیمت پر ایک غلام کے عوض میں چھ غلام عطا کر دوں گا۔

یہ تقریب ہے ہواز ن کے زن و بچہ واپس ہونے کی۔

 

مالک بن عوف کی حوالگی

اس موقعہ پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد (ہوازن) سے مالک بن عوف (مفرور سپہ سالار ہوازن) کے متعلق دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کیا مالک ابھی تک طائف میں بنو ثقیف کے ہاں پڑا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مالک بن عوف اگر از خود مطیع ہو کر آ جائے تو اس کے تمام اہل و عیال اور تمام مال و اسباب کے علاوہ اسے ایک سو شتر اور عطا ہوں گے۔

مالک نے اپنے متعلق یہ مژدہ سنا تو بنو ثقیف سے چھپ کر اپنے اسپ پر زین کسی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور ان کے زن و بچہ اور حسب فرمان یک صد شتر عطا ہوئے۔

 

تقسیم عطا یا اور بعض شرکاء کی بے حوصلگی

عطایا کی یہ بارش دیکھ کر بعض لشکری گھبرا اٹھے اور ایک دوسرے سے کھسر پھسر شروع کر دی کہ اگر نو وارد ان اسلام کے لئے داد دہش کا یہی عالم ہے تو ان کے لئے کیا باقی رہ جائے گا! شدہ شدہ! یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچی۔ آپ ایک شتر کے قریب تشریف لائے اور اس کے بدن سے چند بال اچٹا کر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

ایھا الناس! واللہ مالی من فیئکم ولا ھذا الوبرۃ الا الخمس! والخمس مردود علیکم۔

بخدا! مجھے تمہارے اموال غنیمت میں ان بالوں کے برابر بھی طمع نہیں ! رہا میرے حصے کا خمس تو اسے بھی آپ لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

اور فرمایا کہ جو چیز جس کی تحویل میں ہو اسے مال خانے میں جمع کرا دیا جائے تاکہ عدل کے ساتھ تقسیم ہو سکے۔ (اور فرمایا):

فمن اخذ شیئا فی غیر عدل و لو کان ابرۃ کان علی اہلہ عارو نارو شنار الی یوم القیامۃ

جو شخص از خود کسی شے پر قابض رہے اگرچہ وہ سوئی کیوں نہ ہو قیامت کے دن اس کے خاندان کے لئے ملامت کا باعث ہو گا اور اس کے لئے ندامت و تعذیب کا موجب

یہ تنبیہہ اس برہمی کی وجہ سے فرمائی جب ایک مسلمان آپ کے اوڑھنے کی ردا آپ کے کندھے پر سے جھپٹ کر لے گیا اور آپ نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

ردوا الی ردائی ایھا الناس فوا اللہ!لو ان لکم بعد شحر و تھنامہ نعما لقسمتہ علیکم ثم ما الفتبونی نجیلا ولا جبانا ولا کذابا

ارے! میری ردا مجھے واپس کرو! بخدا! اگر آپ لوگوں کو غنیمت میں وادی تہامہ کے پودوں کی تعداد میں بکریوں کے ریوڑ ہاتھ آئیں تو میری تقسیم پر تم مجھے نہ تو کسی سے ڈر کر کم و بیش حصہ دینے والے دیکھو گے نہ بخیل اور نہ دروغ گو۔

ابوسفیان بن حرب، معاویہ پسر ابو سفیان، حارث بن حارث بن کلدہ، حارث بن ہشام۔ سہیل بن عمرو، حویطب بن عبدالعزیٰ ہر ایک نو وارد اسلام کو ایک ایک سو شتر دئیے گئے۔

اور ان حضرات سے دوسرے درجہ کے اشراف و روسائے مکہ جن کو فی کس پچاس شتر عنایت فرمائے۔ جن کی تعداد دس سے زائد تھی، آنحضرت نے جس خندہ پیشانی سے عطا و بخشش فرمائی، کل کے دشمن جی کھول کر ستائش کرنے لگے بلکہ جس نے جس قدر طلب کیا اسے عنایت فرما دیا (ازاں جملہ ابوسفیان نے اپنے فرزند معاویہ کے لئے!) اور عباس بن مرد اس بھی جو اپنے حصہ سے مطمئن نہ تھے ان کی زبان سے نکل گیا عینیہ و اقرع کو مجھ پر ترجیح۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا انہیں علیحدہ لے جاؤ اور جس شے سے یہ خوش ہوں انہیں دے کر ان کی زبان بند کر دو۔ آخر عباس کو اس طریق سے مطمئن کیا گیا۔

 

انصار کا گلہ

جیسا کہ معلوم ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے متذکرۃ الصدر افراد کو ان کی تالیف قلب کے لئے جو بخشش فرمائی انصار مدینہ کو بھی گوارا نہ ہو سکی۔ حتیٰ کہ ان کے بعض نوجوانوں کی زبان سے نکل ہی گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلہ کی کس قدر پاس داری فرمائی۔ یہ اطلاع حضرت سعدؓ بن عبادہ (انصاری) کے ذریعے خود ان کی تائید کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پہنچی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد سے فرمایا آپ انصار کو اس باغیچہ میں جمع کیجئے میں ابھی آتا ہوں اور مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی۔

انصار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا باہم گلہ شکوہ:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا۔ پھر فرمایا۔

یا معشر الانصار! ما قالۃ بلغی عنکم وجدۃ وجد نموہ فی انفکسم الی اتکم ضلالا فھدا کم اللہ وعالۃ فاعتاکم اللہ وعداء فالف اللہ بین قلوبکم۔

اے دوستان انصار! آپ حضرات نے یہ کیسے بات پیدا کر دی؟ دلوں میں کوئی گرہ تو نہیں پڑ گئی کلیا آپ لوگ بھول گئے کہ آپ راہ ہدایت سے ناواقف تھے اور میری وجہ سے اللہ نے آپ لوگوں کو سیدھی راہ پر چلایا۔ میرے ہی صدقے میں آپ کی ناداری تونگری سے مبتذل ہوئی، آپس میں ایک دوسرے کے لہو کے پیاسے تھے اور خداوند تعالیٰ نے میری برکت سے آپ کو اے دوسرے کا ہمدرد بنا دیا؟

انصار:

بل اللہ ورسولہ امن و افضل

بیشک خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پر بے حد احسان ہوئے!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

الا تجیبونی یا معشر الانصار؟

برادران انصار! آپ لوگ مجھے جواب کیوں نہیں دیتے؟

انصار:

بماذا نجیبک یا رسول اللہ ! للہ ولرسولہ المن والفضل۔

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا کیا منہ ہے جو آپ پر اپنا کوئی احسان جتائیں بلکہ جب کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات سے ہم سبکدوش نہیں ہو سکتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :

اما واللہ لو شئتم لقلتم فلتصدقتم ولصدقتم آتینا مکذبا فصدقناک! ومخذولا فنصرناک و طریداً فاؤیناک وعائلاً فاسیئاک! یا مشعر الانصار، فی بضاعہ من الدنیا ثالفت بھا قوما لیسلوا ووکلتکم الی اسلامکم۔

بخدا ! تم یہ بھی کہہ سکتے ہو اور ا س میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ آپ دوسروں سے اپنی تکذیب کرانے کے بعد ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم نے آپ کی تصدیق کی اوروں نے آپ کو ستایا اور انصار نے آپ کی حمایت کی، آپ کے ہم وطنوں نے آپ کو جلا وطن کیا اور ہم نے آپ کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے آپ ہمارے ہاں بے یار و مددگار تشریف لائے اور ہم نے اپنی آنکھیں آپ کے قدموں تلے بچھا دیں۔

الا ترضون یا معشر الانصار ان یذھب الناس بالشاۃ والبعیر و ترجعوا برسول اللہ الی رحالکم! فوا الذی نفس محمد بیدہ لولا الھجرۃ لکنت امراً من الانصار! ولو سلک الناس شعبا لسکت شعب الانصار۔ اللھم ارحم الانصار وابناء الانصار، وبناء ابناء الانصار۔

اے یاران انصار! جو چیزیں میں دوسروں کو بخش رہا ہوں دنیا کی معمولی سی دولت ہے اور اس لئے کہ وہ لوگ اسلام پر پختہ ہو جائیں۔ مگر اس دولت کے مقابلہ میں جس نعمت سے تم مالا مال ہو کیا دونوں بردبار ہیں یعنی اسلام سے؟ دوستان انصار! تمہیں یہ پسند نہیں کہ دوسرے لوگ یہاں سے لوٹیں تو اونٹ اور بکریاں ہمراہ لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں میں خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمراہ لے کر جاؤ۔ قسم ذات کبریا کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، اگر مہاجر ہونے کا ثواب نہ ہوتا تو میں خود کو لفظ انصار ہی سے منسوب کرتا۔ دوسرے لوگ اگر یک جا ہو کر ایک راستے سے چلیں اور انصاری دوسری راہ پر گامزن ہوں تو میں انصار کے ہمراہ چلنا گوارا کروں گا۔ یا اللہ !انصار اور ان کی اولاد و احاف پر رحم فرمائیو!

 

انصار کا اظہار تاسف

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واردات جس رقت اور دلسوزی کے ساتھ بیان فرمائی ان کی تاثیر کا عالم تھا کہ انصار جو بیعت کرنے کے بعد آپ کی حمایت میں ہر وقت سر بکف رہے اور کسی وقت آپ کی تعظیم و تکریم کا خیال دل سے محو نہ ہونے دیا، جذب محبت سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ سب کے سب رو پڑے اور بیک زبان عرض کیا

رضینا برسول اللہ قسما وحطا

(ہمارے لئے سب سے بڑی دولت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے بے پایاں دولت سے اپنی بے رغبتی کا ثبوت کس حکمت و فراست سے پیش کیا اور دوسری طرف اس دولت کو کس طرح نوواردان اسلام کی تالیف قلب کا وسیلہ بنا دیا جو آج سے تین چار ہفتہ قبل اسلام میں داخل ہوئے تھے، یہ جتانے کی غرض سے کہ اسلام لانے میں آخرت اور دنیا دونوں کی بھلائی ہے۔

اتنے کثیر مال کے عطا و بخشش پر مسلمانوں کے دل میں بھی خلش ابھر آئی اور قدیم الاسلام مسلمانوں نے اہل مکہ پر تقسیم شدہ مال کے بارے میں نکتہ چینی سے دریغ نہ کیا، لیکن آنحضرت نے صلی اللہ علیہ وسلم جدید الاسلام اہل مکہ کے دل اس طرح مٹھی میں لے لئے کہ جو دوسخا سے متاثر ہو کر یہ لوگ بھی خدا کی راہ میں سر کٹانے کے لئے کمربستہ ہو گئے۔

 

عمرۃ الجعرانہ

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ (محل تقسیم غنائم ہوازن) سے بہ قصد عمرہ مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ ادائے عمرہ کے بعد عتاب بن اسید کو مکہ کی خلاف تفویض فرمائی۔ جناب معاذ بن جبل کو معلم دین کی حیثیت سے مکہ رہنے کا حکم دیا اور خود مہاجرین و انصار کی معیت میں مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے تاکہ اپنے مولود نو ابراہیم کی دید سے آنکھوں کو ٹھنڈا کریں اور کچھ مدت آرام کے بعد ان مسیحی دشمنان اسلام کا سد باب کریں جو تبوک میں جمع ہو کر اسلام کو مٹانا چاہتے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

مراجعت مدینہ

 

 

مراجعت مدینہ

مکہ کی فتح اور طائف کا (طویل) محاصرہ کرنے کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقاء کی معیت میں مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے۔ اب پورے جزیرۃ العرب میں نہ تو کسی کو یہ ہمت تھی کہ آنحضرت کا مقابلہ کر سکے نہ کسی میں اتنی سکت کہ (پہلے کی طرح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق طعن و تشنیع کے لئے زبان کو جنبش دے۔ مہاجرین اور انصار دونوں (طبقے) اس خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے کہ اللہ نے اپنے نبی کو مسجد الحرام پر قبضہ کرنے کی توفیق بخشی، اہل مکہ نے اسلام قبول کیا، قبائل عرب جوق در جوق اسلام کے سامنے جھکنا شروع ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ مدت عافیت و یک سوئی کے ساتھ مدینہ میں رہنے کا موقعہ نصیب ہو گیا۔

 

عتاب بن اسیدؓ کی تقرری

الغرض مسلمان مدینہ واپس آ گئے کہ سکون کے ساتھ زندگی کے دن بسر ہوں۔ عتاب بن اسیدؓ کو مکہ پر نائب مقرر فرماتے آئے اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو اہل مکہ کا دینی معلم تاکہ نوواردوں کی تربیت سے یک سوئی ہو جائے۔

مکہ و حنین کی تسخیر نے تمام عرب پر مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی۔ کل تک ملک کے جو اکابر مجرم یہاں یہ سودا لئے پڑے تھے کہ ان کے مقابلہ میں (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اثر و نفوذ حاصل کرنے کی کوئی گنجائش ہے، نہ ان کے جدید دین میں پذیرائی کی صلاحیت، جن کے شعراء دین جدید کی ہجو میں اپنے سرغنوں کی خوش نودی مزاج کے لئے بلاغت و فصاحت کے دریا بہا دیتے وہ خود ہی اسلام لے آئے۔

 

تغیر احوال

قبائل جو صحرائی زندگی کے مقابلہ میں بہتر سے بہتر نظم و نسق کو ترجیح دیتے اور اپنے اس طرز بود و ماند کو کسی قیمت پر ہاتھ سے دینا گوارا نہ کرتے، اپنی آزادی کی حفاظت کے لئے جان نثار کر دینا اپنا فخر سمجھتے، ان میں سے بے شمار لوگ اسلام میں داخل ہو چکے تھے اور جو اس نعمت سے متمتع ہوئے وہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ظفر مندی اور اسلام کا نفوذ و پذیرائی دیکھ کر جامے میں پھولے نہ سماتے۔ تسخیرمکہ سے گھر گھر خوشی کے شادیانے بجنے لگے کل تک جو شاعر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دین جدید کی منقصت میں داد سخن دیتے تھے اور ملک میں جو چند اکابر و قبائل ایسے رہ گئے جنہیں نہ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ ابھی تک وہ اسلام میں داخل ہوئے تھے وہ اپنی جگہ کھوئے کھوئے پھر رہے تھے کہ اب ان کا موقف کیا ہو گا۔

ان شعراء قادحین رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کعب بن زہیر بھی پیش پیش رہتے مگر مکہ فتح ہو جانے سے قریش کے سرغنہ ہی سرنگوں ہو گئے تو خالی الفاظ و حروف سے مقابلہ کرنے والوں کی پرسش کیا تھی! یہ سماں کعب (مذکور) کے برادر حقیقی حضرت بجیر بن زہیر نے مکہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جب ممدوح (بجیر) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مشایعت میں طائف سے مکہ واپس تشریف لائے تو انہوں نے کعب کی طرف خط لکھا کہ جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذائیں پہنچائیں یا آپ کی ہجو میں سبقت کی ان کی گردنیں ماری جا رہی ہیں اور جو لوگ گرفت سے بچ گئے ہیں وہ ادھر ادھر سر چھپاتے پھرتے ہیں۔ بجیر نے کعب کو تاکید کی کہ جس قدر جلدی ہو سکے مدینہ پہنچ کر معافی نامہ پیش کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو معاف کرنے میں ذرا تامل نہیں فرماتے۔ یہ نہیں کر سکتے تو کسی دور دراز ملک میں نکل جائے۔

یجیر نے صحیح لکھا تھا کہ تسخیر مکہ کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے چار ایسے اشخاص کو قتل کرایا جن میں ایک شاعر بھی تھا، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرنے میں پیش پیش رہتا اور وہ شخص بھی تھا جس نے سیدہ زینب بنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ تذلیل کی جب ممدوحہ اپنے شوہر کی اجازت سے اپنے باپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لئے بادیہ پیما تھیں۔

 

بانت سعد

کعب اپنے بھائی کی نصیحت کے مطابق مدینہ پہنچے اور شب کو اپنے ایک دوست کے ہاں پناہ لی اور فجر کی نماز کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئے اور جان بخشی کے بعد دربار رسالت میں قصیدہ پڑھا جس کا پہلا شعر ہے:

بانت سعاد فقلبی الیوم متبول

متیم اثرھا لم یغد مکبول

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب کو معاف فرما دیا۔ بعد میں انہیں نے مسلمان ہو کر خود کو حسن عمل سے ستودہ کر دکھایا۔

وفود

اب اسلام کا اثر قبائل تک نفوذ کرنے لگا۔ ہر طرف سے (ان کے) وفود امڈ کر(مدینہ میں ) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خراج عقیدت پیش کر کے اعتراف اسلام کرنے لگے۔

 

قبیلہ بنو طے کا وفد

ان کے امیر زید الخیل (نامی) تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے استقبال میں بے حد اہتمام فرمایا زید الخیل کمالات معنوی کے ساتھ خوش کلام بھی تھے۔ (ان کی گفتگو) پر فرمایا اب تک عرب کے جن جن ارباب کمال کا تذکرہ میرے سامنے کیا گیا ان سے ملاقات پر میں نے بہت کم مرتبہ پایا لیکن زید الخیل کی خوبیاں ان کی شہرت کے مقابلہ میں بہت زیادہ دیکھنے میں آئیں ! اور آنحضرت نے ان کا لقب (زید الخیل کی بجائے) زید الخیر سے تبدیل فرما دیا۔

 

حاتم طائی کے فرزند و دختر کا قبول اسلام

عرب کے شہرہ آفاق حاتم طائی کے فرزند عدی نام مذہباً عیسائی تھے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد متنفر تھے۔ ملک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اثر اور اسلام کی پذیرائی دیکھ کر تاب نہ لا سکے اور بال بچے مع سامان و شتر ہمراہ لے کر شام میں منتقل ہو گئے، جہاں ان کے ہم مذہب رہتے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو 8ھ میں پچاس سپاہیوں کے ایک دستہ کے ہمراہ بھیجا کہ قبیلہ طے کا صنم نابت نامی توڑ دیا جائے جہاں کے اسیروں میں حاتم طائی کی صاحب زادی بھی قید کر کے مدینہ میں لائی گئیں۔

قیدی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے والے باغیچے میں نظر بند کیے گئے۔ حاتم کی صاحبزادی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر واویلا شروع کر دیا:

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! غاب الرافد وانقطع الوالد وانا عجوز کبیرۃ مابی خدمہ فمن علی من اللہ علیک

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا سرپرست روپوش ہے اور والد وفات پا چکے! میں کبر سنی کی وجہ سے کام کاج کے قابل نہیں رہی۔ مجھ پر احسان فرمائیے۔ اللہ آپ پر کرم فرمائے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : تمہارا سرپرست کون تھا؟

بی بی: میرے سرپرست حاتم طائی کے فرزند عدی تھے جو خدا اور اس کے رسول سے بھاگ کر روپوش ہو گئے ہیں۔

بی بی نے اپنے والد حاتم کی جود و سخا کا تذکرہ بھی کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا انہیں خلعت و زاد راہ اور سواری کے لئے اونٹنی دے کر جو قافلہ سب سے پہلے جانے والا ہو، اس کے ہمراہ واپس بھیج دیجئے! بی بی فرماتی ہیں ! شام میں جا کر یہ واقعہ میں نے اپنے بھائی کو سنایاتو وہ از خود مدینہ جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئے اور مسلمانوں کی صف میں شامل ہو گئے۔

اسی طرح مکہ و حنین کی فتح اور طائف کے محاصرہ سے مدینہ واپس تشریف لے آنے کے بعد وفود کا تانتا بندھ گیا۔ یہ لوگ آتے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق و قبول اسلام سے مشرف ہوتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقفہ میں نہایت صبر و سکون کے ساتھ زندگی بسر فرما رہے تھے۔

 

بنت نبی سیدہ زینب کی وفات

لیکن سدا ایک سا وقت نہیں رہتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسرت و شادمانی کا یہ دور بھی جلدی غم میں مبدل ہونے پر آ گیا۔ جگر گوشہ رسول سیدۂ زینب (علیہا السلام) عرصہ سے بستر علالت پر دن گزار رہی تھیں۔ گزشتہ اوراق میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ جب ممدوحہ نے سفر ہجرت کیا تھا تو حویرث و ھبار نے سیدہ کی سواری کو کونچا دے کر چمکا دیا تھا جس کی وجہ سے بی بی سواری سے گر پڑی تھیں اور جنین ہو گیا۔ اس صدمہ کی وجہ سے دن بدن ان کی صحت گرتی ہی گئی اور اسی مرض میں داعی اجل کو لبیک کہا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر اولاد کے صدموں کی حد ہو گئی۔ سیدۂ زینبؓ سے قبل بی بی ام کلثومؓ اور تیسری صاحب زادی سیدۂ رقیہؓ رحلت فرما چکی تھیں جن کے بعد اب صرف ایک صاحب زادی سیدۂ فاطمہؓ باقی رہ گئیں۔

سیدۂ زینب کے شوہر (ابو العاص بن ربیع) بدر میں مسلمانوں کے خلاف نبرد آزمائی کے بعد اسیر کر لئے گئے۔ جب زینب نے سنا تو ان کے فدیہ کے لئے گلے کا ہار پیش کر دیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحب زادی کا ان کے شوہر کے ساتھ حسن سلوک کا تذکرہ فرما کر زار زار رو دیتے کہ زینب نے خود مسلمان ہونے کے باوجود اپنے کافر شوہر کی وفاداری کا کیسا نمونہ پیش کیا ہے۔ یہی شوہر ہے جس نے زینب کے والد کے خلاف قتال میں حصہ لیا۔ تصور تو کیجئے اگر ابو العاص کی طرح خاتم الرسل کافروں کے ہاتھ میں گرفتار ہو جاتے تو وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ چھوڑ سکتے تھے؟

جگر گوشہ رسول جناب زینب نے سفر ہجرت میں جو صعوبتیں برداشت فرمائیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی انہیں دھراتے، کبھی صاحب زادی کے دین و تقویٰ کا سراپا بیان فرماتے، کبھی ان کی شدت مرض کا المیہ سناتے اور مرحومہ کی ایک ایک تکلیف کا بیان فرمانے کے بعد رو دیتے۔

یہ تو جگر گوشہ ہی تھیں ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دوسروں کی مصیبت پر بھی اسی طرح پسیج جاتا۔ کسی کے بیمار پڑ جانے کی خبر سنتے تو کشاں کشاں اس کے ہاں تشریف لاتے، ناداروں کی دست گیری شب و روز کا مشغلہ تھا اور مصیبت زدوں کے غم میں انہیں تشفی دینا گویا فریضہ بنا رکھا تھا۔

آہ! صدموں کا یہ عالم! زینبؓ نے آپ کے سامنے کراہ کراہ کر جان دی۔ اس سے قبل ان کی دو بہنیں سیدۂ ام کلثومؓ و رقیہؓ قبر میں جا سوئیں۔ بعثت سے قبل دو فرزند (از بطن سیدہ خدیجہؓ) آنکھیں بند کر کے موت کی گود میں چلے گئے۔ یہ پیہم صدمے!

 

سیدنا ابراہیم کی ولادت

بارے غم کا بوجھ ہلکا ہونے کا وقت بھی آ گیا۔ دن بدلنے کا انتظار زیادہ مدت تک نہ کرنا پڑا۔ سیدۂ ماریہؓ (قبطیہ) کے بطن سے فرزند پیدا ہوا، جس کا نام حضرت جد الانبیاء کے اسم مبارک کی برکت حاصل کرنے کے لئے ابراہیم رکھا گیا۔

یاد رہے کہ ام المومنین ماریہؓ والی، مصر (مقوقس) کی طرف سے پیش کی گئی تھیں۔ سید البشرؓ نے بی بی کو تولید فرزند تک کنیز کے درجہ میں رکھا۔ دوسری ازواج کی طرح ان کے لئے مسجد کے قرب میں حجرہ بنوانے کی بجائے مدینہ سے باہر ایک قریہ میں مکان مہیا فرما دیا جو آج بھی مشربہ ابراہیم کے نام سے مشہور ہے۔ اس گھر کو چاروں طرف سے انگور کی بیل نے گھیر رکھا تھا۔

اور یہ بھی معلوم ہے کہ سیدۂ خدیجہؓ کی رحلت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بیبیوں کو شرف مناکحت سے ممتاز فرمایا ان میں بعض نوجوان اور بعض ایسی ادھیر عمر بھی تھیں ، جن کے ہاں ان کے پہلے شوہر کے صلب سے اولاد بھی پیدا ہوئی، لیکن حرم رسول میں منسلک ہونے کے بعد ان کی کوکھ خالی ہی رہی۔

کہنا یہ ہے کہ آنحضرت کو بی بی ماریہؓ کی گود بھری ہوئی دیکھ کر کس قدر مسرت حاصل ہوئی اور اس عالم میں کہ سن مبارک ساٹھویں برس میں آ پہنچا۔ اتنے بلند انسان کے قلب میں اولاد کی خوشی سماتی نہ تھی۔ سیدہ ماریہؓ جو کنیز کی حیثیت سے پیش ہوئی تھیں ، آج سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں دوسرے حرم کے مساوی بلکہ ان سے بھی زیادہ موقر رہنے لگیں۔

ازواج رسول صلوات اللہ علیھا میں کسی کے بطن سے اولاد نہ تھی۔ ماریہؓ ابراہیم کی ماں بن جانے کی وجہ سے اپنی تمام سوکنوں کے رشک کا مورد بن گئیں اور اس میں دن بدن شدت بڑھتی گئی۔ مولود (ابراہیم) پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر محبت لمحہ بہ لمحہ بڑھنے لگی جس سے حرم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان رجحانات میں اور تلاطم بڑھتا گیا۔

قابلہ کی خدمت بی بی سلمی (زوجہ ابو رافع) نے سر انجام دی۔ مولود نو کے موئے فرق کے ہم وزن چاندی خیرات فرمائی۔ ام سیف کو بچے کی رضاعت تفویض ہوئی، جس کے لئے سات بکریاں عنایت ہوئیں۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز مشربہ (دولت کدہ ماریہؓ) میں تشریف لاتے اور فرزند کے حسن و جمال و معصوم تبسم کو دیکھ کر اپنا دل بہلاتے، مگر یہ امور ان ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے طبعاً رشک کا باعث تھے، جن کے بطن سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آنے کے بعد کوئی اولاد پیدا نہ ہوئی۔

اسی دوران میں ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابراہیم کو اپنی گود میں اٹھائے ہوئے بی بی عائشہؓ کے ہاں تشریف لائے اور محبت پدری سے مولود کی طرف دیکھ کر ام المومنینؓ سے فرمایا عائشہؓ دیکھ رہی ہو، ہم دونوں میں کس قدر مشابہت ہے! ام المومنینؓ نے ابراہیم کی طرف دیکھ کر عرض کیا آپ کے خدوخال اور ان کے چہرہ مہرہ میں تو بہت فرق نظر آتا ہے۔ ام المومنین نے جب یہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرزند کو دیکھ دیکھ کر باغ ہو رہے ہیں تو رشک میں اور شدت پیدا ہو گئی۔ عرض کیا ہر بچہ اسی طرح دودھ پی کر پنپتا آتا ہے، ابراہیم ہی پر کیا منحصر ہے۔ یہ تو ابھی کچھ بھی نہیں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے حرم کو بھی ابراہیم کا وجود کھل گیا۔ ہر ایک کی زبان اور عمل سے آئے دن اسی قسم کی حرکات کا ظہور ہوتا رہا۔ ان واقعات نے اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ میں بھی اپنا اثر پیدا کر لیا بلکہ قرآن مجید میں بھی یہ ذکر موجود ہے۔

 

ایلا اور ازواج سے برہمی

ان واقعات کی وجہ سے ازواج اور اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان شکر رنجی لازمی تھی، جو اس حد تک رونما ہوئی کہ تاریخ اسلام کا ایک جزو بن گئی۔

واضح رہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کو جو تفوق بخشا اس کی نظیر قبل از اسلام عرب میں ملنا ناممکن تھی، جیسا کہ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں : قبل از اسلام ہمارے معاشرہ میں عورت کی حیثیت پر کاہ کے برابر نہ تھی۔ حتیٰ کہ اللہ نے ان کے لئے وحی قرآنی کے ذریعہ تفوق و برتری پر احکام نازل فرما دئیے، جیسا کہ میں اپنے گھر میں ایک معاملہ میں کچھ مشورہ کر رہا تھا کہ میری بیوی مجھ سے پوچھے گچھے بغیر مجھے صلاح دینے لگیں۔ مجھے بے حد ناگوار گزرا۔ ان سے کہا میں نے تو آپ کو مشاورت کی تکلیف دی نہیں آپ دخل در معقولات فرمانے والی کون ہوتی ہیں ؟ میری اہلیہ نے جواب دیا آپ کے معاملہ میں مجھے لب تک ہلانے کی جرأت نہ ہو، مگر جناب کی صاحب زادی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر زچ کر رکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خفا ہونے میں بھی کمی اٹھا نہیں رکھی! میں نے یہ سنتے ہی (اپنی) چادر کندھے پر رکھی اور (ام المومنین) حفصہؓ کے ہاں پہنچ کر کہا صاحبزادی! تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مناقشہ کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود پر خفا کر رکھا ہے؟

بی بی حفصہؓ! ہم نے ایسا ہی کیا ہے۔ آپ کو اس سے کیا غرض ہے؟

میں : اے حفصہ! میں تمہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ اور اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں ، مبادا تم اپنی ہم عمر (م۔ ۔ ۔ ۔ مراد از ام المومنین عائشہؓ) کے نقش قدم پر چلو! ان پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر لطف سب حرم کے مقابلہ میں پیش از پیش ہے۔

میں یہاں سے نکل کر ام المومنین ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا جو میری قرابت دار تھیں۔ ان سے یہ تذکرہ کیا تو (انہوں نے) اور زیادہ تنبیہہ فرمائی کہ اے ابن الخطابؓ! تم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر معاملہ میں دخل دینے لگے! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھریلو معاملات تک میں !

مجھے سیدۂ ام سلمہ کے زجر سے بے حد احساس ہوا اور میں وہاں سے اٹھ کر چلا آیا!

دوسری روایت: صحیح مسلم میں حضرت عمرؓ بن الخطاب سے (دوسری روایت) مروی ہے کہ:

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا۔ اتنے میں ابوبکرؓ اجازت لے کر باریاب ہوئے۔ آنحضرت فرط غم سے سر جھکائے ہوئے خاموش بیٹھے تھے۔ تمام ازواج جمع تھیں اور سب کی سب مہر بہ لب۔

خیال گزرا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسنے پر مائل کیا جائے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر بنت خارجہ (اہلیہ عمرؓ) مجھ سے (ایسے) نفقہ کا مطالبہ کریں تو اس زور کی پٹخنی دوں کہ سر کے بل زمین پر گر پڑیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہنسی ضبط نہ کر سکے اور فرمایا دیکھو! یہ سب مجھے اسی قسم کے مطالبہ میں گھیرے بیٹھی ہیں۔

یہ سن کر ابوبکرؓ اٹھے اور اپنی صاحب زادی جناب عائشہؓ کی گردن پر طمانچہ رسید کر کے فرمایا تم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ شے طب کرتی ہو جو آپ کے قبضہ میں نہیں۔ عمرؓ نے اپنی دختر (سیدۂ) حفصہؒ کے تھپڑ مار ا اور یہی فرمایا کہ تم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ شے طلب کرتی ہو جو آپ کے قبضے میں نہیں۔

عائشہؓ و حفصہؓ دونوں نے بیک زبان وعدہ کیا کہ اب سے ہم آپ سے کوئی ایسی چیز طلب نہ کریں گی، جس پر آپ کی قدرت نہ ہو!

اس موقعہ پر ابوبکرؓ و عمرؓ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے در و دولت پر حاضر ہونے کا موجب یہ تھا کہ اذان ہو جانے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف نہ لا سکے جو مسلمانوں کے لئے پریشانی کا باعث بن گئی۔

حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ دونوں کے اس واقعہ سے جس کا تعلق (من جملہ مابقی امہات کے۔ ۔ ۔ م) ام المومنین عائشہؓ و حفصہؓ (ہر دو) سے بھی ہے یہ آیات نازل ہوئیں :

یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الاخرۃ فان اللہ اعدا للمحسنات منکن اجرا عظیما (29-28:33)

اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !اپنی بیبیوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کے ساز و سامان کی طلب گار ہو تو آؤ میں تمہیں (کچھ) دے دلا کر خوش اسلوبی سے رخصت کروں اور اگر تم خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عاقبت کے گھر کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکو کار ہیں ان کے لئے خدا نے بڑے بڑے اجر تیار کر رکھے ہیں۔

 

دوسرا واقعہ دربارہ اکل شہد

(جیسا کہ لکھا جا چکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ م) تمام حرم رسول مولود نو کی وجہ سے جناب ماریہؓ کے معاملہ میں متفق ہو چکی تھیں۔ اسی دوران میں یہ واقعہ رونما ہوا۔

معمول مبارک یہ تھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر کے بعد حرم میں سے ہر ایک بی بی کے حجرہ میں ذرا دیر کے لئے تشریف لاتے۔ ایک روز سیدۂ حفصہؓ (و بروایت دیگر سیدہ زینب بنت حجش لیکن روایت ہذا کا تعلق اول الذکر سے ہے۔ ۔ ۔ م) کے ہاں تشریف لے گئے اور معمول سے زیادہ دیر لگا دی، جس سے دوسری حرم رشک سے بے تاب ہو گئیں۔ ام المومنین عائشہؓ فرماتی ہیں میں اور حفصہؓ دونوں اس پر متفق ہو گئیں کہ حضرت جس کے ہاں تشریف لائیں وہ عرض کرے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !دہن مبارک سے یہ مغافیر کی سی بو کیسے آ رہی ہے؟ آپ نے کہیں مغافیر تو نہیں فرما لیا؟ (مغافیر کھانے میں شیریں مگر اس کی بو سے کراہت پیدا ہوتی ہے) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بدبو سے بے حد نفرت تھی۔

چنانچہ یکے بعد دیگرے دونوں کے ہاں تشریف لائے۔ بحسب قرار داد دونوں نے مغافیر کھانے کا شبہ ظاہر کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سے فرمایا نہیں ! میں تو زینبؓ کے ہاں سے شہد کھا کر آیا ہوں۔ اگر یہی بات ہے تو آج سے شہد استعمال نہ کروں گا۔

بروایت ام المومنین سودہؓ جو اس تجویز میں جناب عائشہؓ سے متحد تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! شاید آپ نے مغافیر کے پھل عرفط کا شہد استعمال فرما لیا ہے اسی طرح جناب عائشہؓ نے عرض کیا۔ جب ان کے ہاں قدم رنجہ فرمایا اور سیدۂ صفیہ کے ہاں تشریف لائے تو انہوں نے بھی اسی طرح شبہ ظاہر کیا جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متاثر ہو کر خود پر شہد کا استعمال ہی حرام کر دیا۔

اس کامیابی پر سودہؓ نے فخر سے کہا سبحان اللہ! ہم کامیاب ہو گئیں۔ مگر بی بی عائشہؓ نے معنی خیز نظر سے دیکھ کر انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کر دیا اور وہ چپ ہو گئیں۔

یہ بیبیاں جن کا درجہ اب تک عرب کی عام عورتوں کا سا تھا کہ جو اپنے حقوق طلب کرنے میں مردوں کے سامنے زبان کھولنے کی جرات نہ کر سکتی تھیں۔ لیکن پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حرم کا درجہ ملک کی دوسری عورتوں کے مقابلہ میں بہت بلند فرما دیا تھا جس سے بیبیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے معاملہ میں حد سے تجاوز کرنے لگیں کہ ایک پورا دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غم و رنج میں ڈوبے رہے۔ حرم میں سے ایک بی بی نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمواجہہ گفتگو ہی اس انداز سے کی، جس سے آپ رنجیدہ ہو جائیں۔ اس سے قبل بارہا ایسا ہوتا رہا کہ بیبیوں میں سے جب کسی نے باہمی سوتیاپے کے اثر سے مزاج اقدس کے خلاف گفتگو کی تو آپ نے ان کے متعلق ظاہری ملاطفت کے دامن کا پھیلاؤ ذرا کم کر دیا تاکہ حدود ادب سے تجاوز نہ ہونے پائے، لیکن ابراہیم کی ولادت سے تمام ازواج کا رشک ناخوش گوار حد تک ابھر آیا۔ بی بی عائشہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مولود کی مشابہت تک سے انکار فرما دیا جس کا منشا شاید بی بی ماریہؓ (والدہ ابراہیم) کو گناہ سے ملوث کرنا ہو۔

 

ازواج کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گلہ شکوہ

اسی طرح ایک روز بی بی حفصہؓ اپنے والد حضرت عمرؓ کے ہاں تشریف لے گئیں۔ ان کی موجودگی میں سیدۂ ماریہؓ حرم سرائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آئیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر جناب حفصہؓ  کے حجرہ میں رونق فرما تھے۔ بی بی ماریہؓ اسی حجرہ میں آ بیٹھیں۔ ذرا دیر بعد سیدہ حفصہؓ واپس آئیں۔ بی بی ماریہؓ ابھی تک ان کے حجرہ میں موجود تھیں۔ حفصہؓ رشک سے بے قابو ہو گئیں۔ جونہی ماریہؓ ان کے حجرہ سے نکلیں سیدہ (حفصہؓ) نے حجرہ میں پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا۔ میں نے ماریہؓ کو اپنے حجرہ میں دیکھ لیا ہے۔ آپ کے نزدیک میری ذرہ برابر منزلت بھی ہوتی تو آپ مجھے اس کی وجہ سے اتنا ذلیل نہ فرماتے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم حیران تھے کہیں یہ (حفصہؓ) عائشہؓ یا دوسری بیبیوں کے سامنے بھی میرا راز افشا نہ کر دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہؓ کو مطمئن کرنے کے لئے ماریہؓ کو خود پر حرام کر دیا، اس شرط کے ساتھ کہ وہ اس واقعہ کا تذکرہ عائشہؓ سے نہ کریں (سیدہ) حفصہؓ نے زبان سے یہ شرط تسلیم کر لی، لیکن کسی انداز سے یہ بھی ظاہر کر دیا کہ وہ آپ کا یہ راز سب کے سامنے افشا کرنے کے بعد ہی حاضر ہوئی ہیں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بارہا خیال گزرا کہیں یہ معاملہ عائشہؓ سے گزر کر دوسری بیبیوں تک نہ پہنچ گیا ہو۔ ممکن ہے کہ اسی وجہ سے سب یک زبان ہو رہی ہوں۔

اگرچہ واقعہ اہم نہ تھا۔ میاں بیوی کے درمیان مناقشات ہو ہی جاتے ہیں۔ اسی طرح آقا اور اس کنیز میں بھی باہم شکر رنجی پیدا ہو سکتی ہے جو اپنے آقا کے لئے (بمصداق ما ملکت ایمانکم 1؎ 28:4۔ ۔ ۔ ۔ م) حلال ہو مگر سیدنا ابوبکر و حضرت عمرؓ کی صاحب زادیوں کے شایان شان نہ تھا۔ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور ماریہؓ کے معاملہ میں خود پر اس قدر کاوش گوارا فرما لیں ، اگرچہ اس سے قبل بھی چند مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے حرم کے درمیان زندگی کے بعض مصارف یا سیدۂ زینب (بنت حجشؓ) کے ہاں سے شہد تناول فرمانے پر مناقشہ ہو چکا تھا یا دوسرے دوسرے امور مثلاً سیدۂ عائشہؓ کی طرف مابقی حرم کے مقابلہ میں زیادہ انعطاف اور اسی طرح ماریہؓ پر مزید کرم و لطف کی وجہ سے۔

 

سیدۂ زینب بنت حجشؓ اور بی بی عائشہؓ کا مناقشہ

اتنے ہی میں جناب زینبؓ دوسرے حرم کو اپنے ساتھ ملا کر آنحضرت کی خدمت میں گلہ گزار ہوئیں کہ آپ نے (بی بی) عائشہؓ کو ہم سب پر ترجیح دے رکھی ہے، چہ جائے کہ شوہر کو سب بیویوں کے ساتھ مساوی برتاؤ کرنا چاہیے۔ ا ستدعا یہ ہے کہ اپنے ہر ایک حرم کے لئے ایک ایک دن کو نوبت مقرر فرما دیجئے۔ اس وفد میں یہ واقعہ بھی رونما ہوا کہ ام المومنین جنہیں اپنی ذات کی طرف رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی کم رغبتی کا احساس تھا، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استرضاء کے لئے اپنی نوبت بی بی عائشہؓ کو تفویض فرما دی۔

اس موقعہ پر ایک اور حادثہ بھی رونما ہوا۔ سیدۂ زینب بنت حجشؓ جو دوسرے حرم کو اپنے ساتھ شامل کر کے حاضر ہوئی تھیں ان سے بی بی عائشہؓ کو معاملہ میں بے جا شکر رنجی کا اظہار ہو گیا۔ جس کے جواب کے لئے سیدۂ عائشہؓ کو آمادہ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (اشارے سے) منع فرما دیا۔

1؎ ہاں (لڑائی کے قیدیوں میں سے) جو عورتیں تمہارے قبضہ میں آ گئی ہوں۔

لیکن سیدۂ زینب خود پر قابو نہ رکھ سکیں۔ بی بی عائشہؓ کی تحقیر میں اور زیادہ جرأت پر اتر آئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی یہ جرأت دیکھ کر اس طرح خاموش ہو گئے جسے آپ ہی نے (سیدۂ) عائشہؓ کو دفاع کے لئے متوجہ فرما دیا ہو۔ بی بی عائشہؓ نے حضرت زینبؓ کو مغلوب کر لیا، جس سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مسرت پھر لوٹ آئی۔

 

امہات المومنین کے باہمی رشک و رقابت کا نتیجہ (ایلا)

امہات المومنین کی باہمی مناقشت و رقابت اس حد تک بڑھ گئی کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک دوسرے کے ساتھ مدارات و عنایات تک کا تحمل دشوار ہو گیا۔ ان منازعات کا اثر یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے بعض کو طلاق دے کر یک طرفہ کر دینے پر غور فرمانے کی نوبت آ گئی۔ اور ابراہیم کی ولادت نے تو انہیں اور بھی زیادہ بے قرار کر رکھا تھا جس میں سب سے پیش پیش جناب عائشہؓ تھیں۔ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لطف و کرم ہی نے سیدۂ ممدوحہ کو اس قدر دلیر کر رکھا تھا۔

ادھر ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاغل اس قسم کے نہ تھے کہ رسالت جیسے فریضہ سے دامن بچا کر اس قسم کے مناقشات کو سلجھانے میں عمرؓ ختم کر دیں۔ ضروری تھا کہ حرم کی تادیب و تنبیہہ کا راستہ تجویز کیا جائے تاکہ خدا کی طرف سے عائد کردہ فرض کی تبلیغ یک سوئی سے فرما سکیں۔ خاتم الرسل نے اپنی تمام ازواج سے عارضی علیحدگی (یعنی ایلا۔ م) کا ارادہ کر لیا اگر بیبیاں اپنی روش میں قطعی تبدیلی کر لیں تو فبھا، ورنہ ان میں برملا فرما دیا جائے۔

فمتعوھن و سر حوھن سراحاً جمیلا (28:33)

(اے میرے حرم! آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر خوش اسلوبی سے رخصت کر دوں۔ )

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پورا ایک مہینہ (تمام) ازواج سے کامل طور پر علیحدہ رہے۔ ان کا ذکر کرنے سے بھی اجتناب تھا۔ اصحاب میں سے کسی کو یہ جرأت نہ تھی کہ اس وقفہ میں آپ کے پاس آئیں اور اس بارے میں گفتگو کر سکیں۔ آخر نصف ماہ کے قریب توجہ گرامی اس امر پر منعطف ہوئی کہ مسلمانوں کو جزیرۂ عرب سے باہر دعوت اسلام اور اپنا وقار کس انداز سے قائم کرنا چاہیے۔ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فکر دامن گیر اور ادھر جناب ابوبکر و عمرؓ اور وہ لوگ جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انہی دونوں کی سی قرابت تھی، سب کے سب امہات المومنین کے معاملہ میں خوف زدہ کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو خود پر ناراض کرنے میں کس قدر غلطی کی ہے۔ مبادا انہیں خدا، اس کے رسول اور ملائکہ کے غضب سے دو چار ہونا پڑے!

ایک روز تو یہاں تک افواہ اڑ گئی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کی صاحب زادی کو ایسے راز کے افشا کرنے کی وجہ سے طلاق ہی فرما دی ہے۔ جس کے مخفی رکھنے کی انہیں (سیدۂ حفصہؓ کو) تاکید فرمائی گئی تھی۔ اس خبر کی وجہ سے مسلمانوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ بعض کی زبان سے یہ بھی نکل گیا کہ اب تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تمام بیویوں ہی کو طلاق دے کر رہیں گے۔

ازواج اپنی جگہ بے قرار و نادم کہ ہم نے ایسے مہربان شوہر کو کیوں ستایا، جو ہماری زندگی اور موت ہر حالت میں باپ، بھائی اور بیٹے تک کے حصہ کا سلوک کرنے میں بھی پس و پیش نہ فرماتے۔

اس زمانہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد میں نمازیں گزارنے کے سوا۔ ۔ ۔ ۔ م) پورے اوقات اپنے بالا خانے میں صرف کرتے جو ایک بلند مقام پر (حجرہ ہائے حرم۔ ۔ ۔ م) کے قریب تھا رباح نامی غلام دہلیز پر دربانی کرتے۔ بالا خانے میں تشریف لانے کے لئے زینہ نہ تھا بلکہ کھجور کے خشک تنے کے سہارے اترتے اور اوپر تشریف لے جاتے، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد زحمت برداشت کرنا پڑتی۔

 

حضرت عمرؓ کی طرف سے سعی استرضاء

اسی انداز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بالا خانے میں وہ پورا ایک مہینہ گزار دیا، جس میں آپ نے اپنے حرم سے علیحدہ رہنے کا التزام فرمایا تھا۔ اس مہینہ کے آخری روز مسلمان مسجد میں غمگین بیٹھے، سر جھکائے ہوئے زمین کرید رہے ہیں۔ ہر شخص اپنے دل میں غم لئے بیٹھا ہے۔ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حرم کو طلاق فرما ہی دی۔ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑی ہوئیں ! ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد کر لیا۔ رباح (دربان) کے ذریعے اجازت طلب کی مگر وہ (رباح) اس طرح گم سم کھڑے رہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اجازت طلب کرنے کا اذن بھی نہ ہو۔ جناب عمرؓ کے دوسری مرتبہ اصرار پر بھی رباح اسی طرح کھڑے رہے۔ تیسری نوبت پر عمرؓ نے چلا کر کہا اے رباح! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے لئے اجازت طلب کیجئے۔ شاید آنحضرت نے آپ کو اس لئے منع کر دیا ہو کہ میں اپنی صاحب زادی حفصہؓ کی سفارش کرنا چاہتا ہوں۔ حاشا و کلا! اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حفصہؓ کی گردن اڑا دینے کا حکم فرمائیں تو میں ایک لمحہ کے لئے تامل نہ کروں۔

حضرت عمرؓ بالا خانے میں بیٹھتے ہی رو دئیے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب گریہ دریافت فرمایا۔ بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کو بالا خانے کے اسباب معیشت نے متاثر کر دیا تھا جس میں چار ہی قسم کی اشیاء تھیں۔

1۔ سونے کے لئے ایک چٹائی جس کے نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر دکھائی دے رہے تھے۔

2۔ کس (چمڑا رنگنے کی چھال)

3۔ ایک کھال

4۔ مٹھی بھر جو

یہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کل کائنات جسے دیکھ کر حضرت عمرؓ ضبط نہ کر سکے اور آنکھوں سے آنسوؤں کا تار بندھ گیا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے باعث گریہ سننے کے بعد انہیں دنیا کی نعمتوں سے استغناء و طمانیت کی خوبیوں سے آگاہ فرمایا۔ اس کے بعد عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ ازواج کے معاملہ میں اس قدر پریشان ہیں اگر آپ نے واقعی انہیں مطلقہ قرار دے دیا ہے تو سہی! اللہ تعالیٰ آپ کا والی ہے۔ اس کے فرشتے آپ کے نگہبان ہیں۔ جبرئیل و میکائیل آپ کی حفاظت پر مامور ہیں۔ میں آپ کی نصرت کے لئے سر بکف ہوں ، ابوبکرؓ آپ پر جان و مال سے نثار ہیں اور تمام مسلمان آپ کے مددگار و معین ہیں۔ کس کی مجال ہے جو آپ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے!

اس کے بعد حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے کچھ اس انداز سے بات شروع کی، جس سے ذرا دیر میں خفگی زائل ہو گئی اور آپ بے ساختہ ہنس پڑے۔ عمرؓ نے یہ کیفیت دیکھ کر سبقت کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مسلمانوں کا برا حال ہو رہا ہے۔ وہ غم میں ڈوبے ہوئے ہیں اور مسجد سے انہیں اٹھتے کہ آپ نے ازواج کو طلاق دے دی ہے۔ میں انہیں یہ سنانے جاتا ہوں کہ طلاق نہیں دی گئی۔ یہ کہہ کر حضرت عمرؓ بالا خانے سے اتر کر مسجد میں آئے اور بآواز بلند پکار کر کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کو طلاق نہیں دی۔ اس واقعہ پر مندرجہ ذیل آیتیں نازل ہوئیں۔

1۔ یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک تبتعی مرضات ازواجک واللہ غفور رحیم (1:66)

اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! جو چیزیں خدا نے تمہارے لئے حلال کی ہیں تم نے اپنی بیویوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیوں حرام کر دیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

2۔ قد فرض اللہ لکھم تحلتہ ایمانکم واللہ مولکم وھو العلیم الحکیم (2:66)

تم مسلمانوں کے لئے خدا نے تمہاری قسموں کے توڑ ڈالنے کا (بھی) ٹھہراؤ کر دیا ہے اور اللہ ہی تمہارا مددگار ہے اور (وہ) سب کے حال سے واقف(اور) حکمت والا ہے۔

3۔ واذ سر النبی الی بعض ازواجہ حدیثا فلما نبات بہ واظھرہ اللہ علیہ عرف بعضہ واعرض عن بعض فلما نباھا بہ قالت من انباک ھذا قال نبانی العلیم الخبیر(3:66)

اور جب پیغمبر نے اپنی بیویوں میں سے کسی سے ایک بات چپکے سے کہی تو (اتفاق سے بات کا بتنگڑ بن گیا کہ ان بی بی نے دوسری بی بی کو اس کی خبر کر دی اور) جب انہوں نے اس کی خبر کر دی اور خدا نے پیغمبر پر اس کو ظاہر کر دیا تو پیغمبر نے کچھ (تو ان بی بی کو) جتایا اور کچھ ٹال دیا۔ پس جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قدر جتانا منظور تھا ان (بی بی) کو جتایا تو ان بی بی نے (حیران ہو کر پیغمبرؐ سے) پوچھا کہ آپ کو یہ (سب) خبر کس نے دی؟ پیغمبر نے جواب دیا کہ مجھ کو خبر دی اس (خدا) نے جو سب کچھ جانتا (اور ہر طرح کی) خبر رکھتا ہے۔

4۔ ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما وان تظاھرا علیہ فان اللہ ھو مولہ و جبریل و صالح المومنین والملئکۃ بعد ذالک ظھیر(4:66)

سو(پیغمبر کی دونوں بیبیو!) اس حرکت سے خدا کی جناب میں توبہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے کیوں کہ تم دونوں نے کج راہی اختیار کی ہے اور اگر پیغمبرؐ کے خلاف سازشیں کرو گی تو ان کا (حامی و مددگار) اللہ ہے اور جبریل علیہ السلام اور (اچھے) نیک مسلمان اور ان کا پروردگار ان کے علاوہ (دوسرے) فرشتے(بھی) پیغمبر کے (حامی) و مددگار ہیں

5۔ عسیٰ ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن مسلمت مومنت قنتت تبت عبدت سئحت ثیبت و ابکارا؟ (5:66)

اگر پیغمبر تم (عورتوں ) کو طلاق دے دیں تو عجب نہیں کہ ان کا پروردگار ان کے لئے تمہارے بدلے تم سے بہتر بیبیاں بہم پہنچا دے، فرماں بردار (با ایمان) نمازی(خدا کی جناب میں ) توبہ کرنے والیاں ، عبادت گزار، روزے دار، دو ہاجنیں اور کنواریاں۔

ازواج رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آنکھیں کھل گئیں۔ معاملات یوں آ کر سلجھ سکے۔ اب سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہر بی بی صافی القلب اور مطیع فرمان ہو کر پیش آنے لگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کی طرح ان خانگی وظائف پر متوجہ ہو گئے، جن کے بغیر کسی انسان کو مفر نہیں۔

دوستو! راقم مولف نے اس سلسلہ میں امور ذیل کی ترتیب پوری وضاحت سے نقل کر دی، یعنی:

الف۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ازواج سے ایلا (علیحدگی)

ب۔ آپ کا بحکم خداوندی ازواج کو تخییر طلاق

ج۔ ان حوادث اور ان کی دوسری کڑیوں کے مقدمات و نتائج

اور ان حوادث کے متعلق ہر اس صحیح روایت کو مسطور کر دیا ہے جو حدیث و تفسیر یا سیرت کی کتابوں میں بکھری ہوئی ہیں ، ایک دوسری (روایت) سے مربوط اور باہم دگر موید۔ ماسوائے ازیں کہ اس سلسلہ کے تمام مرویات نہ تو کسی ایک جگہ منقول ہیں اور نہ اس ترتیب کے ساتھ مسطور جس صورت میں انہیں ہم نے نقل کیا ہے۔ ہمارے لئے یہ مشکل قدم قدم پر سد راہ بن گئی کہ بعض مسلمان سیر نگار حضرات ان حوادث پر صرف ایک نگاہ ڈال کر آگے بڑھ گئے۔ اس لئے کہ انہیں ترتیب و مقدمہ و نتیجہ میں ناقابل برداشت کاوش کا سامنا کرنا پڑتا اور بعض مسلمان سیرت نویس ایلا (علیحدگی) کا سبب عسل و مغافیر کو بیان کرنے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ یہ جامعین حضرت حفصہؓ و ماریہؓ کے واقعات پر توجہ بھی نہ کرسکے۔

 

حضرت حفصہؓ و ماریہؓ کے قضیہ پر مستشرقین کی غمازی

مسلمان مورخین کے برخلاف بعض مستشرقین نے اس راہ میں ایک نئی چال اختیار کر لی کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی علیحدگی (ایلا) کا مبنیٰ صرف جناب حفصہؓ و ماریہؓ کے واقعہ کو ثابت کرنے کی کوشش میں اپنی تمام عمر ختم کر دی۔ یہ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہؓ سے کس لجاجت کے ساتھ ماریہؓ کا معاملہ عائشہؓ سے چھپانے کا وعدہ لیا اور بی بی (حفصہؓ) سے فرمایا کہ اب سے میں خود پر ماریہؓ کو حرام کرتا ہوں۔

اسلام کے ان مہربان مستشرقین نے ایلا (علیحدگی) کے مقدمات میں سے صرف اسی ایک واقعہ پر اپنی توجہ مرکوز رکھی تاکہ اپنے مسیحی ہم مذہبوں کے سامنے ثابت کر سکیں کہ رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم نہ ہو سکے۔ اللہ رے انصاف!

تاریخ دنیا کے بلند پایہ انسانوں میں سے کسی کے متعلق اس قسم کی لغزش ثابت نہیں کر سکی، چہ جائیکہ (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی شخصیت، ہر یگانہ و بے گانہ کے مونس و غم خوار محمد، ہمہ وقت بنی نوع بشر کی محبت میں سرشار، ان تمام صفات سے متصف جنہیں محققین نے آنحضرت کی ذات میں تسلیم کیا ہے۔ کیا یہ جلیل القدر انسان صرف اس بات پر اپنے تمام ازواج سے علائق قطع کر سکتا ہے کہ خود آپ ہی کی مملوکہ کنیز کے ساتھ آپ کو ان کی ایک منکوحہ حرم نے خلوت میں دیکھ کر اپنی دوسری ہم عصر (جناب عائشہؓ ) کو بھی بتا دیا؟ عجیب! اور کیا یہ ممکن ہے اتنا رفیع المنزلت انسان اتنی سی بات پر اپنے حرم سے یوں کنارہ کشی اختیار کر لے اور انہیں طلاق دینے پر آمادہ ہو جائے؟ اگر ان واقعات کو ایمان دارانہ ترتیب کے ساتھ باہم منسلک کیا جائے تب ایسے صحیح نتائج کا استنباط ممکن ہے جو عقل صریح اور علم صحیح کے معیار پر پورا اتر سکیں جیسا کہ ہم نے ان حوادث کی تنقیح کا فریضہ سر انجام دیا ہے جو حضرت محمد جیسی بے بدل شخصیت کی عظمت و شان کے مطابق ہے۔

 

مستشرقین کی حرف گیری کا جواب

سورۂ تحریم کی جو آیات نقل کی گئی ہیں ، بعض مستشرقین انہیں آیتوں کو اپنے اعتراضات کا ذریعہ بنا کر فرماتے ہیں قرآن کے ماسوا دوسری آسمانی کتابوں میں کسی نبی کے متعلق اس قسم کا حادثہ منقول نہیں۔ لیکن اگر ہم:

1۔ آسمانی کتابوں سے جن میں قرآن بھی شامل ہے، قوم لوطؑ  کے جنسی مشاغل کا اقتباس پیش کریں ، جنہیں ہر شخص جانتا بھی ہے؟

2۔ نبی اللہ حضرت لوطؑ  کے ان دو مہمانوں کی سرگزشت جو حقیقت میں فرشتے تھے مگر خوش رو بلند بالا قامت امرد لڑکوں کے روپ میں حضرت لوط کے ہاں اجنبی مہمان بن کر آئے اور۔ ۔ ۔ 1؎ یہ تذکرہ تو رات ہی میں منقول ہے۔

3۔ تورات ہی میں نبی اللہ حضرت لوطؑ  کی بیوی کی وہ داستان بھی مسطور ہے۔ جس کی پاداش میں وہ اپنی بدچلن قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوئیں۔

4۔ اور تورات ہی میں نبی اللہ جناب لوطؑ  اور ان کی دونوں صلبی صاحب زادیوں کے شرم ناک اختلاط کی حکایات بھی درج ہیں۔ جب رات کو ایک صاحب زادی نے اپنے باپ کو دھوکے سے شراب پلا دی اور جب وہ ہوش کھو بیٹھے تو ان سے۔ ۔ ۔ ۔ ! اس طرح دوسری دختر نے خدا کے پیغمبر حضرت لوطؑ کو جو اس کے حقیقی باپ بھی تھے شراب پلا کر مدہوش دیکھا تو یہ بھی ان سے۔ ۔ ۔ ۔ ! حضرت لوطؑ کی دونوں صاحب زادیوں نے اس لئے اپنے باپ سے نطفہ حاصل کیا کہ ان کی قوم عذاب آ جانے سے فنا ہو چکی تھی۔ انہیں فکر لاحق ہوئی کہ مبادا قوم ختم ہو جائے، وہ اپنے باپ ہی کے نطفے سے تناسل 2؎ کا انتظام کیوں نہ کر لیں۔

1؎ تورات: پیدائش باب19آیت:1تا25۔ ۔ ۔ م

2؎ اور لوطؑ  ضفر سے نکل کر پہاڑ پر جا بسا اور اس کی دونوں بیٹیاں اس کے ساتھ تھیں کیوں کہ اس ضفر میں بستے ڈر لگا اور وہ اور اس کی دونوں بیٹیاں ایک غار میں رہنے لگے۔ تب پہلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارا باپ بڈھا ہے اور زمین پر کوئی مرد نہیں جو دنیا کے دستور کے مطابق ہمارے پاس آئے۔ آؤ! ہم اپنے باپ کو مے پلائیں اور اس سے ہم آغوش ہوں تاکہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔ سو انہوں نے اسی روز اپنے باپ کو مے پلائی اور پہلوٹھی اندر گئی اور اپنے باپ سے ہم آغوش ہوئی پر اس نے نہ جانا کہ وہ کب لیٹی اور کب اٹھ گئی! اور دوسرے روز یوں ہوا کہ پہلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ دیکھ کل رات میں اپنے باپ سے ہم آغوش ہوئی۔ آؤ! آج رات بھی اسے مے پلائیں اور تو بھی جا کر اس سے ہم آغوش ہو تاکہ ہم اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔ سو اس رات بھی انہوں نے اپنے باپ کو مے پلائی اور چھوٹی گئی اور اس سے ہم آغوش ہوئی تھی پر اس نے نہ جانا کہ وہ کب لیٹی اور کب اٹھ گئی۔ لوطؑ کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں اور بڑی کے ایک بیٹا ہوا اور اس نے اس کا نواب موآب رکھا۔ وہی موآبیوں کا باپ ہے جو اب تک موجود ہیں اور چھوٹی کے بھی ایک بیٹا ہوا اور اس کا نام بن عمی رکھا۔ وہی بنی عمون باپ ہے جو اب تک موجود ہیں۔ (پیدائش باب19از30تا 38)

ہر آسمانی کتاب انبیاء کے واقعات دوسروں کی عبرت کے لئے پیش کرتی ہے اور قرآن میں بھی ایسے واقعات منقول ہیں جنہیں خداوند عالم نے احسن پیرایہ میں بیان فرمایا۔ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوسرے پیغمبروں کی مانند خدا کے رسول ہیں ، جن کا یہ قصہ قرآن مجید میں منقول ہے۔

پس اگر قرآن کسی واقعہ کو نقل کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے بیان کرنے سے مسلمانوں کے سامنے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں سے ایک مثال پیش کرنا مقصود ہے تاکہ ان کے پیرو اس مثال سے اپنے لئے مشعل راہ کا کام لے سکیں۔ کتب سماوی میں انبیاءؑ  کے واقعات بیان کرنے میں یہی حکمت کار فرما ہے۔ اس لئے اگر انبیاء کرامؑ  میں سے کسی نبی کی سیرت کا تذکرہ قرآن مجید میں منقول ہے یا کسی اور سماوی کتاب میں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے حرم سے ایلا کسی ایک واقعہ پر موقوف نہیں ، نہ اس پر مبنی کہ حضرت حفصہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بی بی ماریہؓ کے ساتھ خلوت میں دیکھ کر اپنی ہم عصر بی بی عائشہؓ کے سامنے بیان کر دیا۔ کیا خاوند کا اپنی اہلیہ یا آقا کا اپنی کنیز سے یہ تعلق رکھنا جرم ہے؟

قارئین نے مستشرقین کے ان اتہامات کا مطالعہ کر لیا، تاریخی حیثیت سے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ نہ وہ سابقہ آسمانی کتب ان کی موید ہیں ، جن میں انبیاءؑ  کے حرف و حکایات اور سیرت کے واقعات جا بجا منقول ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

غزوۂ تبوک اور وفات ابراہیمؓ

 

 

یہ خانگی حوادث جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج کے درمیان رونما ہوئے، معمولات کی عام رفتار پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ مکہ فتح ہو جانے سے اسلام کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا۔ قبائل عرب میں اس کی عظمت قائم ہو گئی۔ بیت اللہ جو سدا سے عرب میں زیارات و حج کا مرجع تھا، اس کے مختلف مناصب از قسم کلید برداری و سبیل اور دوسرے امور کی تقسیم و اعطاء اب کلیۃ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں تھی، جس میں اسلام کے دستور پر عمل فرمایا جاتا۔ بیت اللہ اور کعبہ پر مسلمانوں کے قبضہ نے ان کے مشاغل میں اور اضافہ کر دیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو ریاست میں خرچ کرنے کے لیے محاصل (آمدنی) کی فکر ہوئی۔ انہیں یقین تھا کہ جزیرۃ العرب کے چپہ چپہ اسلام کے زیر نگیں ہونے کو ہے۔ تجویز ہوا کہ مسلمانوں پر زکوٰۃ اور غیر مسلم (عرب) پر خراج مقرر کیا جائے۔ آخر الذکر طبقہ کو بار خاطر تو ہوا لیکن مسلمانوں کے اقتدار کے سامنے انہیں سرتابی کی جرأت نہ ہو سکتی تھی۔

تحصیل داران وصول زکوٰۃ

مکہ فتح کر لینے کے تھوڑی مدت بعد پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے وصول زکوٰۃ کے لیے تحصیل دا رنامزد فرمائے، جنہیں ہر اس قبیلہ کی طرف بھیجا گیا جو اسلام لا چکا تھا۔ انہوں نے نہایت خندہ روئی اور اطاعت کے ساتھ ان کا مستقبل کیا اور پوری فراخ دلی کے ساتھ اپنے اپنے حصہ کی زکوٰۃ ادا کی۔ ماسوائے دو قبیلوں (بنو تمیم کی شاخ بنو عنبر اور بنو مصطلق) کے۔

 

بنو تمیم کی طرف سے تحصیل داران زکوٰۃ پر اچانک حملہ

محصلین زکوٰۃ کے تقاضا کرنے سے قبل ان لوگوں نے زرہ کمان پر چڑھا لی اور مسلمانوں پر تیروں کی باڑ چلانا شروع کر دی۔ مسلمان جنگ کے لیے تو گئے ہی نہ تھے واپس لوٹ آئے۔ یہ ماجرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو عیینہ بن حصن کی سپہ سالاری میں پچاس سپاہیوں کا دستہ بنو عنبر کی سرزنش کے لئے بھیجا جن کے حملہ کی تاب نہ لا کر وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمان ان کے پچاس سے زیادہ اسیر لے کر مدینہ واپس لوٹ آئے، جنہیں نظر بندی میں دے دیا گیا۔

وفد بنو تمیم کی آمد اور مفاخرہ

ہرچند بنو تمیم میں سے کچھ لوگ مسلمان ہو چکے تھے اور فتح مکہ و حنین میں بھی مسلمانوں کے ساتھ تھے مگر ان کا ایک حصہ ابھی تک کفر پر قائم تھا۔

آخر الذکر گروہ کا وفد مدینہ آیا اور مسجد میں پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ کے سامنے آ کر بآواز بلند یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یا محمد ؐ! کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ طرز خطاب پسند نہ آیا۔ اگر نماز ظہر کے لیے مسجد میں تشریف لانا ضروری نہ ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو باریاب نہ ہونے دیتے۔ ادائے ظہر کے بعد انہوں نے اپنا حال کہنا شروع کیا کہ عینیہ نے کس طرح انہیں گھیرے میں لے کر ان کے آدمی اسیر کر لیے فتح مکہ میں اپنے قبیلہ کی شرکت کا تذکرہ ملک میں اپنے مرتبہ کی حکایت الغرض اپنے لئے جو کچھ مناسب سمجھا پیش کرنے کے بعد کہا اے صاحب! ہم لوگ آپ کے ساتھ مفاخرہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔ اپنے ان شعراء اور خطیبوں کو بلا لیجئے جو ہمارے شاعر اور خطیب سے مفاخرہ کر سکیں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ مطالبہ بھی منظور فرما لیا۔ بنو تمیم کی طرف سے ان کے خطیب عطادر بن حاجب اٹھے اور مجلس کے سامنے اپنا خطبہ بیان کیا ان کے بعد مسلمانوں کی طرف سے جناب ثابت بن قیس حلقہ میں تشریف لائے اور عطارد کے مقابلہ میں خطبہ دیا۔

شاعری میں مفاخرہ پر بنو تمیم کی جانب سے زبر قان بن بدر حلقہ میں آئے اور اپنے قبیلہ کے محاسن پر داد سخن سے مجلس کو گرما دیا۔ ان کے جواب میں حضرت حسان بن ثابتؓ نکلے، جنہوں نے اسلام کے محاسن پر اس قسم کا قصیدہ پڑھا جس پر بنو تمیم کے ایک سردار اقرع بن حابس نے اعتراف شکست میں یہ الفاظ کہے ہمارے حریف کی پشت پر کوئی غیبی قوت کار فرما ہے۔ ان کے خطیب ہمارے خطیب کے مقابلہ میں زیادہ فصیح ہیں۔ ان کے شاعر ہمارے شعراء کے سامنے کہیں زیادہ بلیغ ہیں۔ ان کے خطیب اور شاعروں کی آواز ہمارے سے بلند اور خوش گوار ہے۔ اور اس کے بعد سب نے اسلام کا اقرار کر لیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تمام زن و بچے رہا کر کے انہیں عزت و احترام کے ساتھ واپس فرمایا۔

 

دوسرا سرکش گروہ (بنو مصطلق)

جونہی انہوں نے فرستادگان رسالت پناہ کو اپنی طرف آتے دیکھا دھن سمائی اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلے، مگر جب کچھ دور جانے کے بعد ہوش ٹھکانے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہی عذر گناہ پیش کیا کہ آپ کے فرستادوں کو دیکھتے ہی ہمارے حواس گم ہو گئے اور ہم اسی بد حواسی میں بھاگ اٹھے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں معاف فرما دیجئے اور انہیں معاف فرما دیا گیا۔

 

چار دانگ عرب میں اسلام کا طنطنہ

ملک کے چپہ چپہ پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت چھاتی جا رہی تھی۔ جو قبیلہ آپ کے خلاف سر اٹھاتا، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس کی سرکوبی کے لئے تھوڑی بہت فوج بھجوا دیتے۔ جو ان میں سے اپنے سابق دین پر رہنا چاہتا اسے خراج کا پابند کر کے چھوڑ دیا جاتا اور جو اسلام قبول کر لیتا اسے ادائے زکوٰۃ کا مکلف ہونا پڑتا۔

 

روم کی مسیحی حکومت کا جنگی اقدام

اس وقفہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تر توجہ عربستان پر اسلامی اقتدار مسلم ہونے میں اس طرح منعطف تھی کہ ملک کے کسی حصہ میں اسلام کے کسی دشمن کو سر اٹھانے کی جرأت نہ ہو سکے۔ اتنے ہی میں یہ خبر سننے میں آئی کہ روم کا مسیحی بادشاہ (ہرقل۔ ۔ ۔ ۔ زاد المعاد) عرب کے شمال میں لشکر جرار جمع کر رہا ہے تاکہ (مقام) موتہ میں مسلمانوں نے عیسائیوں کے مقابلہ میں جس پامردی سے جم کر مقابلہ کر کے عرب میں اپنی دھاک بٹھا دی اور ان سے پہلے ایرانیوں نے حیرہ میں عیسائیوں کو مغلوب کر کے اہل عرب سے اپنی بہادری کی سند حاصل کر لی دونوں (مسلمان اور مجوس) کا طنطنہ ملک سے محو کر دیا جائے۔

رومیوں کی تیاری کی خبریں بجلی کی طرح اطراف ملک میں پھیل گئیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ تن اس پر متوجہ ہو گئے اور اپنی سپہ سالاری میں اس غزوہ کا اعلان فرما دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہیہ کر لیا کہ مسیحیت پر ایسی ضرب لگائی جائے، جس سے ان کے منہ پھر جائیں اور پھر کبھی انہیں مسلمانوں کے سامنے آنے کی جرأت نہ ہو۔

لیکن موسم کا یہ حال کہ گویا دوزخ نے منہ کھول رکھا ہے۔ دشت و جبل کرہ نار بنے ہوئے تھے۔ بلا کی ھمس، قدم قدم پر جاں کنی کا خطرہ۔ اس پر مدینہ سے لے کر تبوک تک طویل مسافت، جس کے لئے ہمت کے ساتھ زاد راہ اور پانی کی ضرورت تھی۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرما لیا اور اس مرتبہ ہمیشہ سے مختلف انداز میں اعلان فرما دیا کہ یہ سفر کس مقام کا ہے۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے موقع پر اخفاء سا فرماتے تاکہ دشمن کو مسلمانوں کے آنے کی خبر نہ ہونے پائے۔ مگر اس مرتبہ اظہار سے مقصد یہ تھا کہ مسلمان پوری طرح سے تیاری کر لیں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک میں چاروں طرف قاصد دوڑا دئیے تاکہ مسلمان پوری جمعیت کے ساتھ مسیحی ٹڈی دل کی مضرت سے بچنے کے لئے نکلیں اور اپنے سفیروں کو تاکید فرما دی کہ ہر مسلمان اپنی مقدرت کے مطابق مال و اسباب بھی اسی راہ میں پیش کرے تاکہ مسیحی فوجیں جنہیں اپنی کثرت پر اس قدر فخر ہے، مسلمانوں کی جمعیت اور کثرت دیکھ کر متاثر ہو سکیں۔

سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے ایسی مشقت میں پڑنے سے کیا حال تھا جس کی وجہ سے انہیں اپنے زن و بچہ سے علیحدہ ہونا پڑتا۔ مال و دولت سے چشم پوشی کیے بغیر چارہ نہ تھا۔ شدید گرمی اور بے آب و گیاہ صحرا کی طویل منزلیں طے کرنا پڑتیں پھر ایسے قوی دشمن کے خلاف صف آرائی۔ جس سے کل موتہ میں مقابلہ ہوا تو مسلمان اسے شکست دئیے بغیر واپس لوٹ آئے؟ اس سے بھی کہیں سوا دشواریاں تھیں۔ لیکن مسلمانوں کا اللہ پر ایمان، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور دین الٰہی سے لگاؤ نے ان کے جذبہ شوق و محبت میں ایسا تلاطم پیدا کر دیا کہ صحرا اپنی وسعت کے باوجود ان کی کثرت کے سامنے عاجز آ گیا۔ وہ اموال اور گلہ ہائے شتر جن کی کشش انہیں آگے قدم بڑھانے سے روک سکتی تھی انہوں نے اس مال مویشی ہی کو اپنے ساتھ لے لیا۔

مسلمان مسلح ہو کر چمکتی ہوئی زرہیں پہنے ہوئے اس انداز سے نکلے کہ ان کے طمطراق کی خبر سن کر دشمن میں مقابلہ کرنے کی ہمت نہ رہے۔ ایسے بہادروں کے لئے منزل کی صعوبت، گرمی کی شدت، بھوک اور پیاس کی دقت کیوں کر دخل انداز ہو سکتی ہے!

غزوۂ تبوک کے زمانے میں مسلمانوں کے دو گروہ تھے:

الف: کامل الایمان، قلوب نور ہدایت سے منور رواں رواں ایمان کی روشنی سے پر ضیا۔

ب: طمع اور خوف کی وجہ سے اسلام کا اقرار کرنے والے! لالچ تھا اس مال سے حصہ لینے کا جو ان قبائل سے حاصل ہوتا جنہوں نے نہ تو اسلام قبول کیا تھا نہ انہیں مسلمانوں کے سامنے دم مارنے کی ہمت تھی، اور آخر ناچار انہیں جزیہ دینا پڑتا۔ اور خوف تھا اس قسم کے (نام نہاد) کلمہ گویوں کو خالص مسلمانوں کی اس سطوت کا۔ جس کی وجہ سے عرب کا کوئی قبیلہ ان کے مقابلہ پر صف آرا نہ ہونا چاہتا۔ (یعنی مدینہ کے یہ منافق اب تک اس لئے ظاہری اسلام اور باطنی کفر پر جمے ہوئے تھے کہ اگر اسلام سے انکار کرتے ہیں تو مسلمانوں کی آمدنی میں سے حصہ ایک طرف، الٹا جزیہ دینا پڑتا ہے۔ اور مقابلہ کرتے ہیں تو مدینہ کے یہودیوں کی طرح استیصال ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ م)

مسلمانوں کے پہلے گروہ (الف) نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوۂ تبوک کی دعوت پر بلا تامل لبیک کہا۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان میں سے بعض حضرات ناداری کے ہاتھوں اتنے طویل سفر کے لئے اپنے لئے سواری کے انتظام سے قاصر تھے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے رضا و رغبت کے ساتھ اپنے اموال میں سے کثیر حصہ پیش کر دیا۔ ان لوگوں کے مد نظر راہ خدا میں فائز بہ شہادت ہو کر اللہ تعالیٰ کا قرب اور حضوری تھا۔

مگر دوسرا حریص و طامع گروہ جہاد کے نام سے جن کے بدن پر رعشہ طاری ہو جاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت پر حیلہ سازی پر اتر آیا۔ باہم سرگوشیاں کرنے لگے۔ موسم گرما اور بعد مسافت کی وجہ سے جہاد پر تمسخر اڑانا شروع کر دیا۔ یہ منافقوں کا طائفہ تھا۔ ان کے اسی معاملہ میں سورۂ توبہ نازل ہوئی جس میں ایک طرف جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت و اصابت اور اس کا دوسرا پہلو مسلمان کہلا کر رسول کی اس دعوت سے انکار پر تعذیب کا خوف دلانا مقصود تھا۔

اس دعوت کے موقع پر منافقین نے ایک دوسرے سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ایسی گرمی میں گھر سے نہ نکلنا یعنی

لا تنفروا فی الحر (81:9)

جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

وقالوا لا تنفروا فی الحرقل نار جھنم اشد حرالو کانو یفقھون فلیضحکوا قلیلاً ولیبکوا کثیراً جزاء بما کانو یکسبون(82-81:9)

اور لوگوں کو بھی سمجھانے لگے کہ ایسی گرمی میں (گھر سے) نہ نکلنا! اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! (ان لوگوں سے) کہو کہ گرمی تو آتش دوزخی کی بہت زیادہ ہے۔ اے کاش! ان کو اتنی سمجھ ہوتی تو (ایک دن ہو گا کہ) یہ لوگ ہنسیں گے کم اور روئیں گے بہت (اور یہ) بدلہ(ہو گا) ان اعمال کا جو (دنیا میں ) کیا کرتے تھے۔

ان منافقوں ہی میں سے جد بن قیس (از قبیلہ بنو سلمہ) سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تم بنو اصفر (رومی عیسائی) کے ساتھ جہاد کے لئے نہیں چلو گے؟

جد: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اپنے ہمراہ نہ لے چلیے۔ میری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کے معاملہ میں کس قدر حواس باختہ ہوں۔ بنو اصفر کی عورتیں حسن و جمال میں شہرہ آفاق ہیں۔ انہیں دیکھ کر میں خود پر قابو نہ پا سکوں گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جد کی طرف پشت مبارک فرما دی۔ بعد میں اسی کے جواب پر یہ آیت نازل ہوئی:

ومنھم من یقول ائذن لی ولا تفتنی الا فی الفتنۃ سقطوا وان جھنم لمحیطۃ بالکافرین (49:9)

اور ان (ہی منافقوں ) میں وہ نابکار بھی ہے جو تم سے درخواست کرتا ہے کہ مجھ کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دیجئے اور مجھ کو (حسینان روم) کی بلا میں نہ پھنسائیے۔ سنو جی! یہ لوگ بلائیں تو (آ ہی) گرے (حسینان روم) کی بلا نہ سہی، نافرمانی خدا کی بلا سہی اور بے شک جہنم (سب) کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔

منافقین نے عوام و خواص کو ورغلانے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان لوگوں کے محاسبہ میں فرو گزاشت نہ ہونے دی اور ایسے غداروں پر گرفت کا پورا تہیہ فرما لیا۔

 

یہودی کے گھر میں آتش زنی

جونہی اطلاع پیش ہوئی کہ سویلم یہودی کے ہاں کچھ لوگ جمع ہیں ، جو لوگوں کو شرکت غزوہ سے روکنے کی سازش کر رہے ہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب طلحہ بن عبید اللہ کی سربراہی میں چند مسلمانوں کو بھجوا کر سویلم کے گھر میں آگ لگوا دی۔ آگ کے شعلوں سے گھبرا کر ایک فتنہ جو چھت سے کود پڑا اور اپنا پاؤں توڑ بیٹھا۔ باقی لوگ بھاگ نکلے۔ اس واقعہ کے بعد کسی منافق و دشمن کو زبان سے بات نکالنے کی جرأت نہ ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی گرفت نے سب کے حواس درست کر دیئے۔

 

جیش عسرہ (یا تبوک) کے لئے مال و اسباب کی فراہمی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگہداشت سے ہر یگانہ و بیگانہ کو موقعہ کی اہمیت کا احساس ہو گیا۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک پر) دولت مند مسلمانوں نے جی کھول کر مالی امداد پیش کی۔ حضرت عثمان بن عفانؓ نے ایک ہزار درہم نقد اور تین سو اونٹ مع پالان و نکیل (زاد المعاد۔ ۔ ۔ م) پیش کیے۔ چند حضرات نے اپنا پورا ثاث البیت حاضر کر دیا (صرف ابوبکر صدیقؓ نے۔ ۔ ۔ ۔ م) بیشتر مسلمانوں نے اس معاملہ میں اپنی مقدرت کے مطابق سبقت کی۔ لیکن جو مسلمان اپنی عسرت کی وجہ سے اپنے لئے بھی سواری کا انتظام کرنے سے قاصر تھے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استدعا کی۔ تو جس کے لئے ہو سکا اپنی طرف سے سواری فراہم کر دی اور بقیہ سے معذرت۔ جس پر انہوں نے زار و نزار رونا شروع کر دیا اور ان کی شدت گریہ و بکا کی وجہ سے ان کا لقب بکائین پڑ گیا۔ اس جیش میں تیس ہزار مسلمان تھے۔

اسلامی لشکر مدینہ سے باہر جمع ہوا۔ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہر کے انتظام کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے، نماز میں حضرت ابوبکرؓ نے امامت کے فرائض ادا کیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد محمد بن مسلمہؓ کو مدینہ کی نیابت تفویض فرمائی اور اپنے اہل و عیال کی نگرانی کے لئے حضرت علیؓ (بن ابی طالب) کو مناسب ہدایت فرما کر لشکر گاہ میں تشریف لائے۔ یہاں سب سے پہلا کام عبداللہ بن ابی (مشہور منافق) کو اس کے ساتھیوں کے ساتھ فوج سے باہر سے دھکیل دینا تھا۔

 

مدینہ میں جیش کی روانگی

کوچ کا نقارہ بجنے کے ساتھ ہی لشکر میں حرکت پیدا ہوئی۔ ذرا دیر میں ہر طرف غبار اڑ رہا تھا۔ گھوڑوں کی ہنہناہٹ نے فضا میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ (شہر کی) عورتیں اپنی اپنی چھتوں پر سے اس کوہ پیکر لشکر کا نظارہ دیکھنے لگیں جو صحرا کو پامال کرتا ہوا شام جیسے دور و دراز ملک کی طرف جا رہا ہے۔ خداوند! اس لشکر کا جذبہ جہاد و شہادت! انہیں گرمی کا خوف ہے نہ بھوک اور پیاس کا خطرہ!

 

متخلفین

جن لوگوں نے سائے اور عیش و تنعم کو ایمان و رضائے الٰہی پر ترجیح دی وہ گھروں میں بیٹھے رہے (م۔ ۔ ۔ ۔ اور قرآنی اصطلاح میں ان کا لقب متخلفین ہے) دس ہزار سواروں کا دستہ لشکر کے آگے آگے چل رہا تھا۔ مدینہ کی چھتوں پر عورتوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ کھڑے ہوئے جو اس لشکر کی قوت و جلال سے متاثر ہو رہی تھیں۔ لیکن دوسری طرف ان عورتوں کے نظارہ نے بعض ایسے مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کر لیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر ہونے کے بجائے گھروں میں بیٹھے رہے۔ انہی میں ابو خثیمہؓ بھی ہیں جو اس منظر کو دیکھنے کے بعد اپنے گھر واپس لوٹے تو ان کی دونوں بیویاں اپنے اپنے دالان اور آنگن سجائے زمین پر چھڑکاؤ کیا ہوا اور شوہر کے لئے کھانا تیار کیے بیٹھی تھیں۔ ابو خشیمہؓ نے یہ اہتمام دیکھ کر فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم دھوپ کی شدت اور گرم لو کے تھپیڑوں سے دوچار ہوں اور ابو خشیمہؓ  پر بہار سایہ، خوش ذائقہ خوان اور حسین و ماہ پارا بیویوں کے جھرمٹ میں داد عیش دے۔ ایسا نہیں ہو سکتا! میرے لئے زاد راہ تیار کرو اور چشم زدن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر روانہ ہو گئے۔ (ابو خشیمہؓ تبوک میں لشکر سے جا ملے۔ ۔ ۔ ۔ م۔ )

متخلفین کو جب چاروں طرف سے ندامت اوررسوائی نے گھیر لیا تو شاید ان میں سے کچھ اور حضرات بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد ابو خشیمہؓ کے تتبع میں تبوک کی طرف روانہ ہوئے ہوں۔

 

وادی حجر (ثمود) میں پڑاؤ اور مسلمانوں کے لئے تنبیہہ

اسلامی لشکر (مقام) حجر میں پہنچا جو قوم ثمود کی آبادی تھی۔ وہ لوگ پتھر کھود کر گھر بنایا کرتے۔ ایسے پتھر ابھی تک وہاں بکھرے ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ پڑاؤ کا حکم فرمایا مگر یہ تاکید بھی فرما دی: نہ تو کوئی شخص اس وادی کا پانی پیئے نہ اس سے وضو کیا جائے۔ اگر کسی نے پکانے کے لئے آٹا گوندھ لیا ہے تو اسے اونٹوں کو کھلا دیا جائے۔ کوئی شخص ایسے آٹے کی روٹی پکا کر نہ کھائے۔ نہ کوئی شخص لشکر گاہ سے اکیلے نکلے۔ بعض اوقات اس وادی میں ایسی ہوائیں چلتی ہیں جن کے جلو میں ریت کے پہاڑ ہوتے ہیں جو انسان بلکہ اونٹ کو بھی اپنے دامن میں چھپا لیتے ہیں۔

بدقسمتی سے دو مسلمان (علیحدہ علیحدہ) شب کے وقت لشکر گاہ سے باہر چلے گئے۔ ایک کو ہوا جھپٹ کر لے گئی اور دوسراریت کے نیچے دب گیا۔ صبح ہوئی تو جس کنویں کے پانی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ منہ تک ریت سے اٹا ہوا تھا۔

مسلمان پانی نہ ملنے سے خوف زدہ ہو رہے تھے۔ کالے کوسوں کا یہ سفر پانی کے بغیر طے ہو گا! دیکھتے ہی دیکھتے ابر کا ایک چھوٹا سالکہ نمودار ہوا اور چشم زدن میں جل تھل کرتا ہوا نظروں سے غائب ہو گیا۔ لشکر نے شکم سیر ہو کر پانی پیا۔ زاد راہ کے لئے چھاگلیں بھر لیں۔ خوشی کی حد نہ تھی۔ ایک گروہ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ سے تعبیر کیا۔ د وسروں نے کہا نہیں ! یہ تو غیر موسمی مہینہ تھا۔ اطلاع ملی کہ عیسائیوں کا جو لشکر سرحد پر پڑا ہوا تھا اسے شام میں واپس لے جایا گیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گریز سے ان کے خوف و ہراس کا اندازہ تو کر لیا لیکن ان کا تعاقب غیر ضروری سمجھنے کے باوجود عرب و شام کی اس سرحد پر پڑاؤ ڈال دیا۔ یہ ایک قسم کی مبارزت ہے کہ اگر رومیوں کو مقابلہ کرنا ہی ہو تو

ہمیں میدان! ہم چوگان! ہم گو!

اور اس درمیانی سرحد کو مضبوط کرنے کا انصرام فرمایا تاکہ آئندہ کے لئے اس راہ سے عرب سے آنے کی ہمت نہ ہو (مگر حفاظت کی صورت معلوم نہیں ہو سکی۔ )

 

بادشاہ ایلہ کی طرف سے قبول اطاعت کا قبالہ

اس سرحد پر بادشاہ ایلہ ابن روبہ کی حکومت تھی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سفیر بھیجا کہ اگر ہماری اطاعت منظور ہے تو فبہا ورنہ جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ۔ رئیس ایلہ یوحنا خود حاضر ہوا۔ اس کے سینے پر سونے کی صلیب لٹک رہی تھی اور نذر گزارنے کے لئے قسم قسم کے تحائف ہمراہ۔ یوحنا نے ادائے جزیہ منظور کر لیا۔ اسی طرح قریہ جربا اور اذرح کے حکم رانوں نے اطاعت کے لئے سر جھکا دئیے جن (تینوں ) کے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری معافی نامے لکھوا کر ہر ایک کے حوالے کر دئیے۔ ان میں سے یوحنا کے معافی نامے کا متن یہ ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم ھذہ امنۃ من اللہ و محمد النبی رسول اللہ لیوحنۃ ابن روبۃ سفنھم و سیارتھم فی البر و البحر لھم ذمۃ اللہ! ومحمد النبی! ومن کان معھم من اھل الشام و اھل الیمن و اھل البحر فمن احدث منھم حدثا فانہ لا یحول مالہ دون نفسہ وانہ طیب لمحمد اخذہ من الناس وانہ لا یحل ان یمنعوہ ماء یردونہ ولا طریقاً یریدونہ من بر او بحر۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم: یہ معافی نامہ ہے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی کی طرف سے جو اس کے رسول ہیں یوحنا ابن روبہ کے لئے (م مشتمل بر مراعات ذیل)

الف۔ یوحنا کے کسی دشمن کی طرف سے ان کے بحری و بری نقصان کی ذمہ داری اللہ اور اس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر عائد ہو گی، بشمول ان لوگوں کے جو حلیف ہوں جو شام و یمن اور ساحل سمندر کے رہنے والے ہیں۔

ب۔ اور اگر ان کا کوئی آدمی ہمارے ساتھ بد عہدی کرے گا تو اس کا تمام مال و اسباب ضبط کر لیا جائے گا اور ایسا مال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مباح ہو گا، البتہ مالی نقصانات کے عوض کسی کی جان سے تعرض نہ کیا جائے گا۔

ج۔ یوحنا اور ان کے دوسرے حلیفوں کو ان دریاؤں کا پانی بند کرنے کا مجاز نہ ہو گا جو اب تک ان کے علاقوں سے گزر کر مسلمانوں کی اراضی سیراب کر رہے ہیں۔

د۔ یوحنا اور ان کے حلیفوں کو ہمارے ان راستوں کی ناکہ بندی کا مجاز نہ ہو گا جو خشکی یا سمندر میں ہماری گزر گاہ ہیں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے معافی نامہ کی مزید توثیق کے طور پر یوحنا کو اپنی یمنی ردائے مبارک عطاء فرمائی۔ مدارات و تواضع سے اسے ہر طرح آرام پہنچایا اور جزیہ میں تین سو دینار سالانہ ادا کرنا قرار پایا۔

 

غزوۂ دومہ

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ محسوس فرمایا کہ رومی از خود اپنی فوجیں واپس لے گئے ہیں اور سرحدی امراء نے اطاعت قبول کر لی ہے، اب کسی کے ساتھ جنگ کے لئے یہاں پڑاؤ ڈالے رہنا ضروری نہیں۔ البتہ اکیدر بن عبدالملک (نصرانی) امیر دومہ کی طرف سے یہ اندیشہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہرقل روم ہی پھر کسی وقت سر اٹھائے تو وہ (اکیدر) بھی اس کی کمک کے لئے نہ نکل آئے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیدر کی سرکوبی ضروری سمجھ کر خالد بن ولید کو پانچ سو سپاہیوں کے ہمراہ دومہ جانے کا حکم فرمایا۔ خالد کچھ اس انداز سے بڑھے کہ اکیدر کو ان کے آنے کی خبر تک نہ ہوئی۔ اکیدر نے اس شب کی چاندنی کو غنیمت سمجھ کر اپنے بھائی حسان کو ہمراہ لیا اور دونوں ٹیل گائے کے شکار کے لئے قلعہ سے نکل کھڑے ہوئے۔ حضرت خالد کی نظر پڑ گئی۔ انہوں نے حسان کو قتل کر کے اکیدر کی جان بخشی اس شرط پر منظور فرمائی۔ کہ وہ مسلمانوں کے لئے شہر کے دروازے کھول دے گا اور اہل شہر نے اپنے امیر کے فدیہ میں اسے قبول کر لیا۔ حضرت خالدؓ نے یہاں سے مندرجہ ذیل غنیمت حاصل کی: اونٹ1000، بکری 8400، گندم400 وسق، زرہیں 400اور حضرت خالد سالما غانما اکیدر کو ہمراہ لئے ہوئے باریاب ہوئے۔ وہ اکیدر حاضر ہونے کے ساتھ مسلمان ہو گیا اور آج سے بحیثیت حلیف اپنے علاقہ دومہ پر بدستور حکمران بنا دیا گیا (م۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ بعد میں مرتد ہو گیا: اصابہ در تذکرہ اکیدر و بجیر ابن بجیر)

 

تبوک سے مراجعت

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اتنی دور سے جیش العسرۃ کی اس کثیر تعداد کو خوش و خرم لے کر واپس مدینہ تشریف لانا آسان نہ تھا کہ ان مسلمانوں ہی میں سے اکثر حضرات امیر ایلہ اور جربا و اذرح سے معاہدوں کی افادیت کو نہ سمجھ سکے، نہ ان کے نزدیک شام و عرب کی سرحدوں کی حفاظت اس قدر اہم تھی، انہیں ملال تھا کہ اس طویل مسافت میں انہوں نے کیسی کیسی سختیاں برداشت کیں ، لیکن نہ کہیں غنیمت حاصل ہوئی نہ قیدی دستیاب ہوئے۔ اور تو اور ان کی تلواریں بھی میان ہی میں پڑی رہیں۔ ادھر وہ مدینہ کے موسمی میووں سے بھی محروم ہو گئے۔

لشکر میں چھپے ہوئے منافق ان باتوں سے شہ پا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبان درازی اور استہزاء پر اتر آئے۔ مخلص مومنین ان کی باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرنے لگے جس سے منافق ذرا احتیاط سے زبان کھولتے، لیکن باز نہ رہ سکے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کو واپسی کا حکم دیا۔ راستے میں اہل لشکر پر اس قسم کی باتوں پر نگرانی رکھی۔ بارے امن و سلامتی کے ساتھ مدینہ وارد ہوئے اور چند روز بعد حضرت خالدؓ دومہ کی غنیمت لے کر باریاب ہوئے۔ خالد کی کمند میں دومہ کا امیر اکیدر تھا، زربفت کی بیش قیمت چادر کندھے پر ڈالے ہوئے۔ اہل مدینہ اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے۔

 

مستخلفین تبوک

(مدینہ سے تبوک کی طرف روانگی کے بعد جو مسلمان گھروں میں بیٹھے رہے وہ قرآن کی اصطلاح میں متخلفین ہیں۔ ۔ ۔ ۔ م): یہ (متخلفین) ندامت سے سر چھپا رہے تھے اور منافقین خوف کے مارے پشیمان! طلبی پر ایک ایک متخلف پیش ہوا اور ان میں کعب بن مالک و مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ (تین حضرات) کے سوا باقی (متخلفین) نے جھوٹے سچے عذر پیش کر کے بریت حاصل کر لی، لیکن کعب و مرارہ اور ہلال نے جب اپنا اپنا جرم تسلیم کر لیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مقاطعہ کا فرمان صادر فرما دیا۔ مسلمانوں نے سلام و کلام کے ساتھ ان کے ہاتھوں خرید و فروخت بھی ترک کر دی باوجودیکہ ہر سہ حضرات عذر خواہی میں راست گو تھے۔ آخر اللہ نے ان پر کرم فرما کر معاف کر دیا:

لقد تاب اللہ علی النبی ولمھاجرین والانصار الذین اتبعوہ فی ساعۃ العسرۃ من بعد ماکاد یریغ قلوب فریق منھم ثم تاب علیھم انہ بھم رء وف رحیم (117-9)

البتہ خدا نے پیغمبر پر بڑا ہی فضل کیا اور (نیز) مہاجرین اور انصاف پر جنہوں نے تنگ دستی کے وقت میں پیغمبر کا ساتھ دیا، جب کہ ان میں سے بعض کے دل ڈگمگا چلے تھے۔ پھر اس نے ان پر بھی اپنا فضل کیا (کہ ان کو سنبھال لیا) اس میں شک نہیں کہ خدا ان سب پر نہایت درجہ مہربان اور ان کے حال پر اپنی مہر رکھتا ہے۔

وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا حتیٰ اذا ضاقت علیھم الارض بما رحبت وضاقت علیھم انفسھم وظنوآ ان لا ملجا من اللہ الا الیہ ثم تاب علیھم لیتوبوا ان اللہ ھو التواب الرحیم (118:9)

اور (علیٰ ہذا القیاس) ان تینوں شخصوں پر بھی جو (بانتظار امر خدا) ملتوی رکھے گئے تھے، یہاں تک کہ جب زمین باوجود فراخی ان پر تنگی کرنے لگی اور وہ اپنی جان سے بھی تنگ آ گئے اور سمجھ گئے کہ خدا کی گرفت سے سوا اس کے اور کہیں پناہ نہیں۔ پھر خدا نے ان کی توبہ قبول کر لی (تاکہ قبول توبہ کے شکرئیے میں آئندہ کے لئے بھی) توبہ کیے رہیں۔ بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

منافقین پر گرفت

تبوک سے واپس تشریف لانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں پر پہلے سے زیادہ گرفت شروع کر دی، اس لئے بھی کہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو جانے سے ان کی طرف سے مزید ریشہ دوانی کا خطرہ بڑھ گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کا استیصال ضروری سمجھا۔ پھر خدا تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی نصرت اور سربلندی کا وعدہ بھی فرما دیا، جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دن بدن مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کا یقین بڑھ گیا۔ منافق جو پہلے ہی فتنہ انگیزی سے باز نہ رہ سکتے تھے، آئندہ ان کے اس کاروبار کا اندیشہ اور زیادہ ہونے لگا کیوں کہ ابھی تو اسلام مدینہ اور اس کے گرد و نواح ہی میں محصور تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غور فرمایا کہ جب اسلام تمام عرب میں مقبول ہونے کے بعد بیرونی ممالک تک اپنا اثر و نفوذ قائم کر لے گا تو یہ (منافق) کیا کیا ستم برپا نہ کریں گے۔ اب ان کے بارے میں تغافل برتنا اسلام کا انجام خراب کرنا ہے۔ ان کے جراثیم تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

 

مسجد ضرار کا احراق

منافقین نے مدینہ سے ملحقہ بستی ذواوان میں ایک علیحدہ مسجد تعمیر کر لی۔ ان کا مقصد نماز کے بہانے اسلام کی تحریف تھا، تاکہ مسلمانوں کے اندر مسائل بازی سے تفریق پیدا کی جائے۔ یہ مقام شہر سے ایک ساعت سفر کے فاصلہ پر تھا۔ مسجد کے بانیوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ پہلی نماز آپ پڑھا کر افتتاح فرما دیجئے (غزوۂ تبوک میں روانہ ہونے سے قبل منافقین نے یہ تجویز رسول پاک کے حضور پیش کی تھی جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی پر ملتوی فرما دیا اور اب یہ مسئلہ دوبارہ پیش ہوا) اس مسجد کی حقیقت تعمیر واضح ہو چکی تھی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جلانے کا فرمان صادر فرما دیا اور جب یہ جلا دی گئی تو منافقوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ عبداللہ ابن ابی (راس المنافقین) کے ماسوا ایسے تمام اشخاص مہر بہ لب ہو کر رہ گئے۔

مسجد ضرار کے مسمار کرا دینے کے بعد یہ بدنصیب بھی دو ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا۔ جس دل میں مسلمانوں کے کینہ کی آگ ان کے ورود مدینہ سے سلگ رہی تھی آج وہ دل ہی نہ رہا۔ اس پر بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ابن ابی کی مذمت کرنے سے منع فرما دیا اور جب اس کے فرزند جناب عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ کی لاش پر نماز جنازہ ادا کرنے کی درخواست کی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی انکار نہ فرمایا اور جب تک اس کی لاش دفن نہ ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے سرہانے تشریف فرما رہے۔ عبداللہ بن ابی کی موت سے منافقت کا ستون پاش پاش ہو گیا۔ اس کے ہم زاد اسلام کی طرف بڑھے اور صدق دل سے توبہ کر کے مخلصین میں شمار ہونے لگے۔

 

مدینہ میں دائمی امن و امان کا دور دورہ

سفر تبوک کے بعد تمام عرب میں اسلام کا اثر و نفوذ بڑھ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے دشمنوں کی طرف سے خالی الذہن ہو گئے۔ قبائل میں جو خاندان ہنوز مشرف بہ اسلام نہ ہوئے تھے اپنے رؤسا کی معرفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور قبول اسلام کا تحفہ پیش کرنے کے لئے چاروں طرف سے وفود کی صورت میں امڈ آئے۔

تبوک آخری غزوہ تھا جس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی اس دین پر سکون و طمانیت کے ساتھ مدینہ میں فروکش رہے۔

 

لخت جگر ابراہیم سے شغف

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرزند ابراہیم کے ساتھ اپنی توجہ بڑھا دی۔ اس موقعہ پر ان کا سورہ یا اٹھارہ مارہ سے متجاوز نہ تھا۔ وفود سے فراغ اور مسلمانوں کو خدا اور رسول کی طرف سے ہدایات دینے کے بعد جس قدر مہلت ملتی اپنے نور نظر سے دل بہلانے میں صرف فرماتے۔ ابراہیم دن بدن توانا ہوتے جا رہے تھے۔ ان کی کھلائی ام سیف کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بکریاں عطا فرمائی تھیں وہ ان کا دودھ پلا کر انہیں سیر رکھتیں۔ ابراہیم کی شکل و شباہت اپنے رفیع المنزلت والد جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی جلتی تھی۔ اس وجہ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ زیادہ میلان تھا۔

مگر اپنے فرزند ابراہیم کے ساتھ یہ تعلق نہ تو رسالت کا مقتضی تھا نہ اس پر مبنی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد انہیں اپنے دنیوی ترکہ کا وارث بنانا چاہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی ذات اور اپنی رسالت پر اس قدر یقین و ایمان تھا کہ اپنی اولاد کی توریث کی بجائے فرمایا:

نحن معاشر الانبیاء لانرث ولا نورث ما تر کناہ صدقہ

(ہم) جماعت انبیاء کا یہ دستور ہے کہ نہ خود ترکہ کا وارث بنتے ہیں نہ کسی کو اپنے ترکہ کا وارث بناتے ہیں۔

صاحبزادہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جذبہ اس شفقت پدری کی بناء پر تھا جس سے تمام والدین یکساں بہرہ مند ہیں۔ البتہ رسول خدا ک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں یہ شفقت تمام بنی آدم سے بیش تر تھی۔ یہ جذبہ ہر عربی نژاد میں بھی تھا کہ اس کے بعد اس کی نسل کسی طرح قائم رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس جذبہ سے محروم نہ تھے۔

پھر اس سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صاحبزادے (قاسم و طاہر) جو سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے تھے۔ آپ کے سامنے طعمہ اجل ہو چکے تھے۔ اپنی تین صاحب اولاد اور شوہر والی صاحب زادیوں کو (یکے بعد دیگرے) اپنے ہاتھوں سپرد خاک فرما چکے تھے۔ جن کے بعد سیدۂ فاطمہؓ باقی رہ گئی تھیں اپنے سامنے اولاد کی دائمی مفارقت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو گھاؤ ہو چکا تھا، ابراہیم اس کا مداوا تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ان کی وجہ سے انبساط و خوشی موجزن تھی اور صاحب زادہ کے وجود پر آپ کا فخر بے محل نہ تھا۔

 

پسر نبی علیہ السلام (ابراہیم) کی علالت و وفات

لیکن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنے نور نظر سے آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا یہ دوسر صرف سولہ یا اٹھارہ مہینے تک رہا۔ صاحب زادے ایسے علیل ہوئے کہ زندگی کی امیدیں منقطع ہو گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ان کی کھلائی ام سیف کے ہاں سے اپنی والدہ عالیہ (سیدہ ماریہؓ) کے ہاں مشربہ ام ابراہیم کے ہاں منتقل کر دئیے گئے۔ جناب ماریہؓ اور ان کی ہمشیرہ سیدۂ سیرین دونوں تیمار داری فرمانے لگیں ، لیکن علالت نے شدت اختیار کر لی۔ مریض کی یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اطلاع بھیجی گئی۔ سنتے ہی دل بیٹھ گیا۔ عبدالرحمان بن عوف کے کندھے کا سہارا لئے ہوئے تشریف لائے۔ بچہ اس وقت دم توڑ رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھا کر اپنی گود میں دم توڑتے ہوئے دیکھ کر فرمایا:

انا یا ابراہیم لا تغنی عنک من اللہ شیئا

ابراہیم! میں قضائے الٰہی کو تجھ سے روک نہیں سکتا!

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک جھکائے ہی رہے۔ صاحبزادے پر جان کنی کا صدمہ طاری تھا۔ اس کی والدہ اور خالہ دونوں گریہ و بکا میں مصروف! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا۔ بچے کے دم توڑنے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی جوت جو کئی مہینوں سے خوشی کا اجالا کر رہی تھی ہمیشہ کے لئے گل ہو گئی۔ آنکھوں نے آنسوؤں کا تار باندھ رکھا تھا اور زبان پر یہ کلمات جاری:

یا ابراہیم! لولا انہ امر حق ووعد صدق وان آخرنا سیلحق باولنا لجزنا علیک اشد من ھذا!

اے ابراہیم! اگر موت برحق نہ ہوتی اور خدا کا وعدہ سچا نہ ہوتا تو ہم تمہاری موت پر زیادہ بے قرار ہوتے لیکن مرنے والوں کی ملاقات کے لئے ہمیں بھی ایک نہ ایک دن ان کے پاس پہنچنا ہی ہے!

(اس کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنبھل کر بیٹھ گئے اور زبان مبارک سے فرمایا:

تدمع العین ویحزن القلب ولا نقول الا ما یرضیٰ الرب وانا یا ابراہیم لمحزونون۔

چشم اشک بار اور دل مبتلائے غم ہے۔ لیکن زبان سے ہم ایسا کلمہ نکالیں گے جو ہمارے پروردگار کی خوشنودی کا باعث ہو! اے ابراہیم! میں تیری موت کے صدمے سے بے حد مغموم ہوں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے گریہ و ملال سے مسلمان بے حد متاثر تھے۔ دو ایک دانش مندوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین کرتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! گریہ و ملال سے تو آپ دوسروں کو منع فرماتے ہیں۔ فرمایا:

ما عن الحزن نھیت وانھا نھیت عن الحزن بالبکاء وان ماترون بی اثر ما فی القلب من محبۃ ورحمۃ ومن لم یبد الرحمۃ لم یبد غیرہ علیہ الرحمۃ

میں نے حزن و غم سے کسی کو نہیں روکا۔ بین و نوحہ سے منع کیا ہے۔ میرے حزن و غم کا سبب محبت قلبی و شفقت پدری ہے۔ جو شخص دوسروں پر شفقت و رحمت نہیں کرتا، وہ بھی اوروں کی مہربانی و لطف سے محروم رہ جاتا ہے۔

یہ فرمانے کے بعد جب اپنے جذبات غم کو چھپانے پر میلان ہوا تو سیدۂ ماریہؓ اور سیرین کی طرف مہر کی نظر سے دیکھ کر دونوں کو تسکین دیتے ہوئے فرمایا:

ان لہ لمرضاً فی الجنۃ!

ابراہیم کے لئے جنت میں ایک دائی موجود ہے۔

مرحوم کی لاش کو بی بی ام بردہ ( اور بروایت دیگر سیدنا عباسؓ کے صاحب زادے جناب فضل) نے غسل دیا۔ کھٹولے پر نعش رکھ لی گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عم بزرگوار مسلمان میت کی مشایعت میں اسے (گورستان) بقیع میں لے گئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین کے بعد فرمایا قبر میں دراڑیں نہ رہ جائیں درستی کرنے کے بعد دست مبارک سے تربت بنا کر پانی چھڑکا اور علم کے طور پر قبر کے سرہانے پتھر رکھ دیا۔ آخر میں یہ کلمات ارشاد فرمائے:

انھا لا تضرو لا تنفع ولکھنا تقرعین الحی وان العبد اذا عمل عملا احب اللہ ان یتفنہ

قبر کی ساخت پر میت کے نفع و ضرر کا مدار نہیں۔ ان سے زندوں کو تسکین سی ہو جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ ایسے شخص کا دوست دار ہے جو کسی شے کو ادھورا نہ چھوڑے۔

 

ابراہیم کی موت کے بعد سورج گرہن کا اتفاقی حادثہ

ابراہیم کی وفات کے روز ہی سورج کو گرہن لگ گیا جسے بعض سادہ لوح مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ سے تعبیر کرنے لگے کہ آپ کے صاحب زادہ کی وفات پر آفتاب غم سے کالا پڑ گیا ہے۔ یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچی۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صاحب زادہ کی موت پر جس طرح غم سے بے تاب ہو رہے تھے۔ مسلمانوں کا یہ قیاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین قلب میں مددگار نہ ہو سکتا تھا۔ یہ خبر سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہی رہے اور کم فہم عوام کے ایک اتفاقی حادثہ کو معجزہ قرار دینے پر چشم پوشی میں کیا تکلف تھا؟ مگر نہیں ! ایسے نازک مواقع عوام کی طرف سے اور اس قسم کے خلاف واقعہ قیاسات ہی تو انہیں حقیقت سے دور کر دیتے ہیں یہ نہ ہو تو نفس واقعہ ان کے مزید حزن و ملال کا سبب بن جائے! عوام کے ایسے دور از حقیقت قیاسات پر مرد دانا سکوت نہیں کر سکتا۔ چہ جائے کہ ایک عظیم المرتبت رسول! یہی مصالح تھے جن کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن پر عوام کو اپنے صاحب زادے (ابراہیم) کی وفات کے صدمہ سے بے تعلق ثابت کرنا چاہا اور مسلمانوں کے مجمع سے خطبہ کے دوران میں فرمایا:

ان الشمس والقمر آیات من آیات اللہ لا تخسفان الموت احد ولا لحیاتہ! فاذا رایتم ذالک فافزعوا الی ذکر اللہ بالصلوٰۃ!

یہ سورج اور چاند بھی ہستی باری تعالیٰ کے دلائل میں سے دو ثبوت ہیں۔ انہیں کسی کی موت یا زندگی پر گرہن کیوں لگنے لگا! البتہ گرہن کے موقع پر اے مسلمانو! ادائے نماز سے اللہ کی یاد تازہ کیا کرو۔

رسالت کے لئے اس سے زیادہ واضح دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے غم و اندوہ میں مبتلا ہیں مگر تبلیغ رسالت کے فریضہ میں سر مو فرق نہیں آنے پاتا۔ مستشرقین کو بھی اس واقعہ پر آپ کی عظمت و برتری کا اعتراف کرنا پڑا اور ان کے قلم سے بے ساختہ نکل گیا کہ یہ صاحب صلی اللہ علیہ وسلم نازک ترین موقعوں پر بھی حق و صداقت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابراہیم کی جدائی میں اس قدر مغموم دیکھا تو ان پر کیا اثر ہوا ہو گا۔

 

عام الوفود

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدستور فرائض رسالت کی ادائیگی میں مصروف اور اسلام کی ترویج میں منہمک رہے۔ اس وقفہ میں اطراف سے بکثرت وفود حاضر ہوئے جن کی وجہ سے اس سال کا لقب عام الوفود ہو گیا اور اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حضرت ابوبکرؓ نے کعبہ کا حج کیا۔ یہ 10ھ تھا۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/100045.txt:

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید