فہرست مضامین
- جنگ آزادی کے اسباب
- مولانا غلام رسول مہر
- تھیوفلس مٹکاف
- ضروری نکتہ
- حقیقت حال
- ویلزلی اور ڈلہوزی
- الحاق کی پالیسی
- باجی راؤ ثانی پیشوا
- اودھ
- بادشاہی کا ڈھونگ
- الحاق
- الحاق کے نتائج
- احاطہ بمبئی اور انعام کمیشن
- انگریزی عدالتیں
- عیسائیت کی تبلیغ
- پادری ایڈمنڈ
- پادری فنڈر
- اسکول اور کالج
- جیل خانوں میں نئے طریقے
- تبدیل مذہب اور جدی جائیداد
- بیوگان کی شادی
- حکومت کی بے خبری
- حکام کی روش
- مسلمانوں کی ذکاوت حِس
- حکومت بنگال کا اشتہار
- انگریز اور افلاس ملک
- ڈاکٹر سین کا بیان
- سپاہ کا خرچ
جنگ آزادی کے اسباب
مولانا غلام رسول مہر
ماخذ: ایک سیمنار کا سووینیر جو جنگِ آزادیِ ہند کی ڈیڑھ سو ویں سالگرہ پر باہتمام اقبال اکادمی، حیدر آباد میں ۲۰۰۷ء میں منعقد ہوا
تھیوفلس مٹکاف
تھیوفلس مٹکاف نے بھی میرزان معین الدین حسن خاں اور منشی جیون لال کے روزنامچوں کا انگریزی ترجمہ شائع کرتے وقت جنگ آزادی کے اسباب پر بحث کی تھی۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے :
۱۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک خاص طبقے کی سازش تھی، جسے غیر دانشمند طریق پر نا فرما نی کے لیے مجبور کر دیا گیا۔
۲۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ ایک قومی تحریک تھی،جس کا مدعا یہ تھا کہ ملک کو اجنبیوں کے تسلّط سے آزاد کرایا جائے اور اس کی جگہ اسلامی حکومت قائم کی جائے۔
۳۔ بعض کا خیال ہے کہ لارڈ ڈلہوزی کی پالیسی اس کا حقیقی سبب تھی، یعنی الحاق کی پالیسی جس میں اودھ کا الحاق بھی شامل تھا۔
۴۔ کئی نے آوٹرم کا بیان درج کیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے الحاق اودھ سے بہت پہلے بغاوت کی تحریک جاری کر دی تھی۔
۵۔ بعض مصنفین نے یہ خیال پیدا کر دیا ہے کہ سپاہ کو قدیم حکمران خاندانوں کے کارندوں نے گمراہ کر دیا تھا۔
۶۔ ایک مصنف کا خیال ہے کہ بغاوت در بار ایران کے یک شاہی فرمان سے پیدا شدہ مذہبی جوش کی بناء پر شروع ہوئی۔
۷۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ خالص اسلامی تحریک تھی، بعض کے نزدیک ہندو اور مسلمان دونوں اس میں یکساں شامل تھے۔
ان میں سے بعض اسباب یقیناً درست ہیں اور بعض بالکل بے سروپا ہیں۔ مثلاً اسے خالص اسلامی تحریک قرار دینا، اس لیے کہ اس کے کار فرماؤں اور کارکنوں میں ہندو اور مسلمان دونوں کی شرکت کسی ثبوت کی محتاج نہیں۔
ضروری نکتہ
اسباب پر غور و فکر سے پیشتر یہ جان لینا ضروری ہے کہ ان کے درجات و مراتب ہوتے ہیں۔ بعض اسباب کی حیثیت بنیادی اور اساسی ہوتی ہے اور بعض کی اضافی و تائیدی۔ پھر آخری۔ قسم کے اسباب میں بھی بعض ایسے ہوتے ہیں، جن سے بنیادی اسباب کو تقویت پہنچتی ہے اور ان کی شدّت و وسعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بعض فوری اشتعال اور ناگہانی برہمنی کا باعث بن جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ تمام اسباب کو ان کے اصل مقام پر رکھ کر غور کریں۔ اسی طرح حقیقت حالی واشگاف اور برہنہ صورت میں ہمارے سامنے آئے گی اور ہم صحیح واضح اور روشن نتیجے تک پہنچ سکیں گے۔
حقیقت حال
جنگِ آزادی کا بنیادی اور اساسی سبب ایک اور صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ انگریزی حکومت اجنبیوں کی حکومت تھی۔ ابتداء میں انھیں مختلف دیسی حکمرانوں کے کارندے، ایجنٹ اور مختار سمجھ کر قبول کیا گیا۔ جب معلوم ہوا کہ انھوں نے حراّفی اور عیاری سے سب کچھ سنبھال لیا تو ان کے خلاف ہمہ گیر نفرت کی لہر دوڑ گئی کوئی بھی غیرت مند محبِ وطن اجنبی تسلط کو بہ طیبِ خاطر برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ میر جعفر یا اس جیسے دوسرے آدمیوں کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا جا سکتا۔
آپ سر سیّد کے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ قوم نے غیروں کی حکومت اٹھا دینے کے لیے اقدام کیا تھیوفلس مٹکاف کی تعبیر کے مطابق سمجھ سکتے ہیں ‘‘ یہ ایک قومی تحریک تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ ملک کو غیروں کے تسلط سے نجات دلائی جائے۔ ‘‘
باقی رہے دوسرے اسباب جن کا ذکر سر سید نے کیا ہے یا جن کا ذکر ۱۸۵۷ء کے متعلق عام کتابوں میں ملتا ہے تو وہ سب اصل بنیادی سبب کے لیے تقویت و استحکام کے باعث بنے۔ مثلاً اہلِ وطن کی عادت کے خلاف قاعدے اور ضابطے جاری کرنا، ان کے حالات سے بے خبر رہنا ضروری امور سے بے پروائی اختیار کرنا، عیسائیت کی تبلیغ کے لیے حکام کا سرگرمی دکھانا یا مختلف ریاستوں اور علاقوں کے الحاق پر مُصر ہونا یا اس قسم کے دوسرے امور ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں انگریزوں کے اجنبی اور بیگانہ ہونے کی قاطع اور دل خراش دلیلیں تھیں، جن کے باعث اجنبیت زیادہ سے زیادہ نا قابلِ برداشت بنی۔ چربی والے کارتوسوں سے فوری اشتعال پیدا ہوا اور ملک کے طول و عرض میں آگ لگ گئی۔
اب ہم بنیادی سبب پر نہیں بلکہ تائیدی و اضافی اسباب میں سے بعض یر اجمالاً گفتگو کریں گے۔
ویلزلی اور ڈلہوزی
۱۸۵۷ء سے پیشتر دو گورنر جنرل ایسے آئے، جنھیں جوش غصب و الحاق میں خاص شہرت حاصل ہے : ایک ویلزلی اور دوسرا ڈلہوزی ویلزلی کے عہد میں بھی انگریزی حکومت بہت پھیلی اور متعدد علاقے انگریزوں کے قبضے میں آئے، نیز ان کے تسلط کا دائرہ وسیع ہوتے ہوتے دہلی اور آگرہ تک پہنچ گیا۔ لیکن یہ تصرفات اس وجہ سے ہمہ گیر ناراضی پیدا کرنے کے موجب نہ بنے کہ اوّل ویلزلی کا طریقہ ذرا محتاط تھا۔ مثلاً اُس نے میسور کی سلطنت ختم کی، تاہم اُس کی تقسیم کے وقت جہاں ایک حصہ خود سنبھالا وہاں کچھ علاقے نظام اور مرہٹوں کو دے دیے اور قدیم ہندو حکمران خاندان کی ریاست بھی قائم کر دی۔ اسی طرح مرہٹوں کو نقصان ضرور پہنچایا، لیکن ان کی ریاستیں بہ دستور قائم رکھیں۔ مغل بادشاہ یقیناً انگریزوں کا وظیفہ خوار بن گیا، لیکن انتظام کی ظاہری وضع و ہیئت ایسی تھی کہ معلوم ہو، انگریز محض بادشاہ کے مختار کی حیثیت میں کام کر رہے ہیں، جیسے اس سے پیشتر سندھیا کر چکا تھا اور قدیم شاہی آداب و رسوم ٹھیک ٹھیک پورے ہوتے تھے۔
ڈلہوزی آیا تو اس نے جھاڑو اٹھا لی اور ہر علاقے کو کوڑے کرکٹ کی طرح سمیٹ کر انگریزی اقتدار کے ٹوکرے میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ کارکردگی یا مختاری کے پردے بھی آہستہ آہستہ بیچ میں سے اٹھ گئے اور انگریزی اجنبیت بالکل بے نقاب ہو گئی، لہذا ناراضی کے بارود خانے میں آگ لگ گئی۔
الحاق کی پالیسی
اس سلسلے میں سب سے پہلے الحاق کی پالیسی آتی ہے جو انگریزوں کی اجنبیت و بیگانگی کا کھلا ہوا ثبوت تھی اور جس کی وجہ سے مختلف ذی اثر خاندانوں کے افراد انگریزوں کے خلاف زبردست تحریک چلانے کے لئے آمادہ ہوئے :
۱۔ ہارڈنگ نے سِکھوں کی حکومت کا صرف ایک حِصّہ چھینا تھا۔ اور کشمیر کو گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کیا تھا۔ ڈلہوزی نے پورا پنجاب لے لیا اور دلیپ سنگھ کو معزول کر کے فتح گڑھ (یو پی) پہنچا یا۔ اس نے عیسائیت قبول کر لی، شاید اس لئے کہ تخت حکومت حاصل کرنا سہل ہو جائے گا۔ لیکن عیسائیت اسے انگریزوں کے قریب تر نہ لا سکی اور آخری دور میں اس کے ساتھ جو بد سلوکیا ں ہوئیں ، وہ بڑی ہی درد انگیز اور عبرت افزا تھیں۔
۲۔ ستارہ کی چھوٹی سی ریاست سیواجی کے خاندان کے لیے رکھی گئی تھی۔ معاہدہ یہ ہوا تھا کہ وہ دواماً قائم رہے گی۔ اپریل ۱۸۴۸ء میں ستارا کے راجا نے وفات پائی۔ اس کے اولاد نہ تھی، لیکن ہندو دھرم کے رواج کے مطابق اس نے ایک لڑکے کو متبنّٰی بنا لیا تھا۔ ڈلہوزی نے متبنیٰ کو راجا بنانا منظور نہ کیا اور ریاست ضبط کر لی۔
۳۔ ۱۸۵۳ء میں رگھو جی بھونسلا والیِ ناگ پور فوت ہوا۔ اس کے بھی کوئی اولاد نہ تھی اور غالباً اس خیال سے اس نے کسی کو متبنیٰ بھی نہ بنایا تھا کہ عوام اسے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم سمجھ لیں گے۔ تاہم ملک کے رواج اور ہندو دھرم کے مطابق اس کی بیوہ متبنیٰ تجویز کر سکتی تھی۔ ڈلہوزی نے وہ ریاست بھی بے تکلف سنبھال لی۔ پھر محلات کا سارا اسباب انتہائی بے دردی سے بر سرِ عام نیلام کرایا یہاں تک کہ ایک رانی بد سلوکی پر خفگی کے جوش میں پورے محل کو آگ لگوا دینے کے لئے تیار ہو گئی تھی۔ اسی طرح جھانسی، سنبھل پور، تنجور، کرناٹک وغیرہ ریاستیں ضبط کر لی گئیں۔
باجی راؤ ثانی پیشوا
باجی راؤ ثانی آخری پیشوا ۱۸۱۷ء کی جنگ میں شکست کھا کر مسند سے دست بردار ہوا تھا اور آٹھ لاکھ روپے سالانہ کی پینشن لے کر ٹھور میں آ بیٹھا تھا، جو کان پور کے نزدیک ایک مشہور مقام ہے۔ ۲۸/ جنوری ۱۸۵۱ء کو وہ ۷۷ سال کی عمر میں لا ولد فوت ہوا۔ اس نے تین بچوں کو متبنیٰ بنایا تھا : اور ڈھونڈو پنت نانا دوم پنڈورنگ راؤ اور سوم گنگا دھر راؤ۔ پنڈورنگ راؤ فوت ہو گیا تو اس کے بیٹے سداشیوپنت کو اس کی جگہ مل گئی۔ باجی راؤ نے اپنی وصیت میں صاف صاف لکھ دیا تھا کہ میرے دو بیٹے ہیں اور ایک پوتا اور میرے بعد ڈھونڈ وپنت نانا مکھ پر دھان کی حیثیت میں میرا وارث ہو گا اور اسی کو پیشواؤں کی گدی کا مالک سمجھا جائے۔
باجی راؤ کی پنشن نانا کو ملنی چاہئے تھی۔ پوری نہ ملتی تو کم از کم اس کا ایک حصہ ملنا لازم تھا۔ لیکن ڈلہوزی نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ باجی راؤ چوتیس سال میں بہت کچھ جمع کر گیا ہے، اسی پر قناعت کی جائے حالانکہ باجی راؤ کے ساتھ معاہدے میں ایسی کوئی شرط نہ تھی، جسے کھینچ تان کر بھی ثابت کیا جا سکے کہ پنشن اسے صرف مدت العمر ملے گی۔ ڈھونڈو پنت نے پنشن کے لیے یہاں بھی کوشش کی، ولایت بھی اپنے وکیل بھیجے تاہم جو فیصلہ ہو چکا تھا، اس میں رد و بدل نہ ہوا۔
وہ تمام لوگ جن کی ریاستیں چھنی تھیں ، نیز ان کے متوسلین جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچی تھی، کسی حالت میں بھی انگریزوں کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے تھے بلکہ سخت سے سخت دشمن بن گئے، اس لئے کہ انھیں انگریزوں کی اجنبیت، بیگانگی، موقع پرستی اور بے دردی کا براہِ راست تجربہ ہو چکا تھا۔
اودھ
سب سے آخر میں اودھ کا معاملہ آتا ہے۔ انگریزوں نے پہلے وہاں دو عملی کی کیفیت پیدا کی، یعنی فوج کا انتظام ۷۶ لاکھ روپے سالانہ کے عوض میں خود سنبھال لیا اور باقی انتظام والیانِ اودھ کے قبضے میں رہنے دیا۔ ویلزلی نے جب دیکھا کہ اودھ میں بے قاعدہ لشکر بڑی تعداد میں موجود ہے تو اس کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا کہ اگر کسی وقت نپولین ہندوستان کی سرحد پر پہنچ گیا یا زمان شاہ درّانی جیسا کوئی من چلا افغان فوج لے کر آ گیا اور اودھ کا بے قاعدہ لشکر اس کا معاون بن گیا تو انگریزی تسلط کا گھروندا تباہ ہو جائے گا۔ چنانچہ اس نے والی اودھ کے روبرو یہ تجویز پیش کر دی کہ بے قاعدہ لشکر کو ختم کر دیا جائے، اس کی جگہ بھی انگریزی فوج رکھی جائے اور پچاس لاکھ روپے سالانہ کا مزید خرچ برداشت کیا جائے۔ جب اس غریب نے کہا کہ اتنا روپیہ کہا سے دوں گا تو کہہ دیا کہ علاقہ دے دیا جائے۔ چنانچہ کچھ ضلعے لے لئے، جن کی آمدنی ایک سال میں دُگنی ہو گئی۔
واضح رہے کہ یہ گرانقدر رقم سوا کروڑ روپے (۷۶ لاکھ + ۵۰ لاکھ) اس غرض سے والیِ اودھ کے ذمے نہ ڈالی گئی تھی کہ ملک کا انتظام اچھا رہے مقصود صرف یہ تھا کہ ہندوستان میں انگریزی اقتدار ایک موہوم خطرے سے محفوظ ہو جائے۔ گویا فائدہ صرف انگریزوں کا مطلوب تھا، لیکن اس کا خرچ والیِ اودھ سے وصول کیا گیا اور بے دست وپا بھی اسی کو بنایا گیا۔
بادشاہی کا ڈھونگ
نواب سعادت علی خاں نے اپنی جز رسی سے بہت بڑی رقم جمع کر لی تھی، اس زمانے میں مختلف علاقوں کو مستاجری پر لینے کا دستور تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نواب سعادت علی خاں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے تمام مقبوضات متاجری پر لے لینے کی غرض سے روپیہ جمع کیا تھا۔ وہ بے چارا چل بسا اور غازی الدین حیدر کا زمانہ آیا تو اس روپے کی بربادی کے لئے نیا ذریعہ مہیا کر دیا گیا۔
اس کی کیفیت یہ ہے کہ مارکوئیس ہیٹنگز نے اکبر شاہ ثانی بادشاہِ دہلی سے ملاقات کرنی چاہی، لیکن شرط یہ عائد کی کہ نذر نہ دوں گا۔ بادشاہ نے ملنے سے انکار کر دیا۔ اب اس انکار پر غور کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ صورت حال کے متعلق بادشاہ کے تصورات کس درجہ غلط اور محمل تھے، لیکن اس زمانے میں نذر شاہی آداب کا لازمہ سمجھی جاتی تھی۔ ہیٹنگز نے بادشاہ سے ملاقات نہ کی اور غازی الدین حیدر کو بادشاہ بنا دینے کی تجویز پختہ کر لی۔ مقصود یہ تھا کہ اکبر شاہ کو بتایا جائے۔ انگریز بادشاہی کے جتنے بُت چاہیں قائم کر سکتے ہیں۔
غازی الدین حیدر نے بادشاہی کا سامان فراہم کرنے کے لئے روپیہ اندھا دھند برباد کر دیا اسے یہ خیال نہ آیا کہ جب ایک ایک بات کے لئے ریزیڈنٹ سے منظوری لینی پڑتی ہے تو بادشاہی ہوئی یا نوابی، فرق کیا پڑتا ہے ؟ لیکن اس زمانے میں ہر شخص ظواہر پر جان دیتا تھا اور معنویت سے کسی کو کوئی سروکار نہ تھا، ہنری لارنس نے بالکل درست لکھا تھا کہ:
نواب غازی الدین حیدر کو بادشاہی کا لقب اختیار کرنے کے لئے اُکسایا گیا۔ لارڈ ہینگٹز چاہتا تھا کہ اس طرح دہلی اور اودھ کے خاندانوں میں رقابت کے جذبات برانگیختہ کر دے۔
ہیٹنگز تو جو چاہتا تھا، اس سے بحث نہیں، لیکن ا ن خاندانوں کو اس رقابت سے کیا فائدہ پہنچتا تھا، جو انگریزوں کے ہاتھ میں کھلونے بنے ہوئے تھے ؟ وہ صرف نام و نمود اور الفاظ و خطابات پر مرتے تھے، یہ خیال کسی کو نہ تھا کہ اپنی حیثیت بدلنے اور انگریزوں کے قبض و تصرف سے نجات پانے کی کوشش کی جائے۔
الحاق
جو کچھ ہم نے بیان کیا، اُسے اودھ سے انگریزوں کے سلوک کی پوری داستان نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ اس کے بعض اجزاء کا سرسری خلاصہ ہے، جو صرف یہ بتانے کی غرض سے پیش کیا گیا ہے کہ اودھ جیسا بھی تھا، اسے انگریزوں نے خود بنا یا تھا۔ اس کا روپیہ مختلف حیلوں بہانوں سے کھایا۔ اس کے انتظام کو مسلسل بگڑنے دیا، حالانکہ جس طرح وہ فوج کا کاروبار بار بار سنبھالتے رہے، اسی طرح انتظامی کاروبار بھی سنبھال کر درست کر سکتے تھے۔ یہ انہوں نے کیا۔
پھر واجد علی شاہ سے پیشتر کئی حکمران ایسے گزر چکے تھے جو ایک لمحہ کے لئے بھی مسندِ حکومت پر بیٹھنے کے اہل نہ تھے۔ مثلاً خود غازی الدین حیدر،جسے بادشاہ بنایا گیا یا اس کا بیٹا نصیر الدین حیدر، لیکن اس وقت تک روپیہ انگریزوں کو مل رہا تھا، اس لئے کوئی سوال نہ اٹھا یا گیا۔ جب باقی ہندوستان صاف ہو گیا اور صرف اودھ رہ گیا تو پردہ اٹھا دیا گیا اور اس کا الحاق کر لیا گیا حالانکہ واجد علی شاہ اچھا تھا یا بُرا لیکن نصیر الدین حیدر یقیناً بہتر تھا۔
اچھا فرض کر لیجئے کہ اودھ کا الحاق وہاں کے عوام کی بہتری کے لئے عمل میں آیا تھا، لیکن الحاق سے انہیں کیا فائدہ پہنچا؟ کیا ان کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی؟ کیا عوام و خواص کے درمیان توازن کی کوئی صورت نکالی گئی؟ کیا ملک کی دولت اہل ملک کی فلاح کے لئے استعمال ہونے لگی؟ ہر سوال کا جوان نفی میں ہے اور ۱۸۵۶ء سے انگریزوں کے آخری دور تک نفی ہی میں رہا۔ بس اتنا ہوا کہ شاہی نظام کی جگہ انگریزی نظام جاری ہو گیا۔ انگریزی نظام زیادہ گراں اور مصیبت خیز تھا، اس لئے کہ انگریز بڑی بڑی تنخواہیں لیتے تھے۔ اس سے اور جو مصیبتیں پیدا ہوئیں ، ان کی ایک جھلک آئندہ سطور میں پیش کی جائے گی۔
الحاق کے نتائج
الحاق کا ایک پہلو یہ تھا کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں چھوٹے یا بڑے علاقوں کی حکومت تھی، وہ بے تعلق ہو گئے یا جنہیں بڑی بڑی پنشنیں ملتی تھیں، انہیں جواب مل گیا۔ لیکن ہر مقام کی حکومت کا ایک مستقل نظام تھا، جو ہزاروں خاندانوں کی پرورش کا ذریعہ تھا۔ الحاق نے یہ پورا سلسلہ درہم برہم کر ڈالا۔
پھر ہر جگہ سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو جاگیریں ملی ہوئی تھیں۔ اصل نظام ٹوٹا تو جاگیریں بھی ضغطے میں پڑ گئیں۔ انگریزوں نے انہیں برقرار رکھنے کے لئے سندوں کا مطالبہ کیا۔ یقیناً سب کے پاس سندیں اور وثیقے نہ تھے، وہ کام کرتے تھے اور جاگیروں پر قبضہ جمائے بیٹھے تھے نہ کسی نے ان کے حق تصرف کو باطل قرار دیا تھا اور نہ انہیں باقاعدہ سند حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی تھی۔ گویا الحاق میں ہزاروں خاندان بتلائے مصائب ہوئے اور ان سب کے دل میں یہی احساس پیدا ہو سکتا تھا کہ اجنبی اور بیگانہ حکومت نے ان کے ساتھ بے دردی کا یہ سلوک ردا رکھا۔
احاطہ بمبئی اور انعام کمیشن
مرہٹوں کی سلطنت انگریزوں نے ۱۸۱۷ء میں سنبھالی تھی۔ اس میں بہت سے افراد اور خاندانوں کو جاگیریں یا زمینیں ملی ہوئی تھیں،جن پر کوئی مالیہ عائد نہ تھا۔ عہدیداروں کو عموماً مشاہروں کی جگہ معافیوں ہی کی شکل میں زمینیں دے دی گئی تھیں۔ اصطلاح میں انہیں ‘‘انعام‘‘ کہا جاتا تھا۔ مدت تک ان کے متعلق جھگڑا جاری رہا۔ پھر ایک ‘‘انعام کمیشن‘‘ مقرر کیا گیا۔ اس کمیشن نے چھتیس ہزار جاگیروں سے تصدیقی سندیں طلب کیں اور ان میں سے کم و بیش اکیس ہزار ضبط کر لی گئیں۔
غور فرمایئے کہ اس سے کیا نتیجہ برآمد ہو سکتا تھا؟ کیا یہ کہ انگریز بہت اچھے حکمراں اور بڑے قانونی لوگ ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ عام لوگوں پر صرف یہ اثر پڑ سکتا تھا کہ یہ حکمراں اصل و نسل، وضع قطع، رنگ ڈھنگ، تہذیب و تمدن اور طریق بود و ماند ہی کے اعتبار سے اجنبی نہیں، بلکہ طریق ملک داری کے لحاظ سے بھی انہوں نے اپنی اجنبیت اور بیگانگی کو زیادہ سے زیادہ دل آزاد، مصیبت خیز اور حقوق بر انداز شکل میں نمایاں کر دیا ہے۔
انگریزی عدالتیں
انگریزوں نے جو عدالتیں قائم کی تھیں، وہ بھی ان کی حکومت کے دوسرے اداروں کی طرح عوام کے لیے حد درجہ مصیبت اور پریشانی کا باعث بن گئیں۔ مثلاً کسی شخص کا مالیہ بروقت ادا نہ ہو سکا اور اس کا مقدمہ عدالت میں پہنچ گیا۔ جج نے اس امر سے کوئی سروکار نہ رکھا کہ ادا نہ ہونے کی وجہ کیا تھی یا وہ کس حد تک جائز یا معقول تھی، چپ چاپ ڈگری دے دی۔ انگریزوں کی سرپرستی میں سود خور مہاجنوں اور ساہوکاروں کو پنپنے کا خوب موقع مل گیا تھا۔ وہ معمولی رقمیں قرض پر دیتے اور عوام کی ناواقفی سے فائدہ اٹھا کر سود در سود کے ذریعے سے بڑی رقمیں بنا لیتے پھر عدالت میں مقدمے دائر ہو جاتے اور وہاں سے من مانے فیصلے کرا لیتے۔ نہ حاکموں کو عوام کی پریشان حالیوں سے آگاہی اور اتنا شعور کہ اندازہ کر لیں، ساہوکار کا اصل قرضہ کتنا تھا اور اس میں سود کتنا شامل ہوا، نیز اس کی تفصیل کیا تھی۔ فیصلے کے ساتھ ہی مقروض کی جائیداد فروخت کرنے کا حکم صادر ہو جاتا۔
کئی نے بنگال کے ایک مقدمہ کا حوالہ دیا ہے جس میں چار روپے کی ڈگری کے عوض ایک جاگیر کی نیلامی کا حکم دیا گیا تھا۔
سوال یہ نہیں کہ حق و انصاف کا تقاضا کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آیا چار روپے یا اسی قسم کی دوسری معمولی رقم کے لیے جاگیروں کی نیلامی کے احکام صادر کرنا ایسی عدالتوں کے لیے زیبا سمجھا جا سکتا تھا جو اہل ملک کے درمیان بخشش انصاف کے لیے معرض وجود میں آئی تھیں ؟ ایسے طریقے وہی عدالتیں اختیار کر سکتی تھیں، جن میں ہمدردی، خویشی اور حق و انصاف کا کوئی احساس نہ تھا اور وہ محض افراد کے اعتبار سے نہیں۔ بلکہ ہر لحاظ سے اجنبی و بیگانہ تھیں۔
عیسائیت کی تبلیغ
اپنے مذہب کی تبلیغ گناہ نہیں، لیکن اس کے حدود اور اصول ہیں۔ جنہیں ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہئے۔ جب انگریزی حکومت کی بنیادیں مستحکم ہو گئیں تو مسیحی پادریوں نے حد درجہ غیر مناسب طریقے اختیار کر لیے۔ وہ بحثوں اور مناظروں میں اشتعال انگریز الفاظ استعمال کرتے۔ انگریز حاکم ہر ممکن ذریعے سے پادریوں کو تقویت پہنچاتے۔ نتیجہ یہی ہو سکتا تھا کہ پادریوں کو نظام حکومت کا لاینفک جزو سمجھا جاتا۔ سر سید مرحوم فرماتے ہیں۔
۱۔ پادریوں نے جو کتابیں چھاپیں، ان میں دوسرے مذاہب کے مقدس لوگوں کی نسبت رنجیدہ الفاظ مضامین درج ہوتے۔
۲۔ وعظ اور کتھا کا عام دستور پہلے سے یہ چلا آتا تھا کہ تمام لوگ اپنے اپنے مکانوں یا عبادت گاہوں میں کہتے۔ پادریوں نے خود غیر مذاہب کے مجمعوں، میلوں اور تیرتھوں میں جانا شروع کیا۔ گویا جس اصول پر مسلمان ابتدائے حکومت سے قائم رہے تھے، پادریوں نے انہیں بالکل نظر انداز کر دیا۔
۳۔ بعض ضلعوں میں پادری تھانوں کے چپراسی ساتھ لے جاتے اور وعظ میں انجیل کے بیان پر اکتفا نہ کرتے، بلکہ دوسرے مذاہب کے مقدس لوگوں اور مقدس مقامات کو بہت برائی اور ہتک سے یاد کرتے۔
۴۔ اسی طرح انہوں نے مشنری اسکول جاری کیے اور جو طالب علم عیسائی مذہب کے مطابق عقائد کٍا اظہار کرتے۔ انہیں انعام دیئے جاتے۔
پادری ایڈمنڈ
۱۸۵۵ء میں پادری ایڈمنڈ نے کلکتہ سے ایک طویل خط ملک کے تعلیم یافتہ آدمیوں، خصوصاً معزز سرکاری ملازموں کے پاس جس کا مضمون یہ تھا کہ اب ہندوستان میں ایک عملداری ہو گئی۔ تار برقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہو گئی۔ ریلوے سڑک سے سب جگہ کی آمد و رفت ایک ہو گئی۔ مذہب بھی ایک چاہئے، اس لیے مناسب ہے تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہو جاؤ۔ ‘‘
ان تمام باتوں کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہو سکتا تھا کہ لوگوں کو یقین ہو جاتا، اب حکومت نے عیسائیت کو فروغ دینے اور سابقہ مذاہب کو مٹا ڈالنے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔
پادری فنڈر
اس ضمن میں پادری فنڈر کا ذکر ضروری ہے جو ۱۸۵۴ء میں یہاں آیا تھا اور آتے ہی اسلام پر اعتراضات کا لامتناہی سلسلہ جاری کر دیا تھا۔ اسے عربی اور فارسی سے خوب واقفیت تھی۔ اسلامی علوم کی کتابیں بھی دیکھ چکا تھا۔ سادہ لوح علماء جنہیں عیسائیت سے چنداں واقفیت نہ تھی، فنڈر کے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکتے تھے۔
آخر مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور ڈاکٹر وزیر خان نے بہ مقام آگرہ فنڈر سے مناظرہ کیا۔ موضوع مناظرہ یہ تھا کہ توریت و انجیل میں تحریف ہوئی یا نہیں ہوئی۔ فنڈر نے شکست کھائی اور وہ واپس چلا گیا۔ تاہم یہ حقیقت پھر ایک مرتبہ واضح ہو گئی کہ پادریوں کو دور دراز کے سفر کر کے یہاں آنے اور لوگوں کے عقائد بگاڑنے کی کوشش کرنے کا حوصلہ کیوں ہوا؟ صرف اس لیے کہ یہاں انگریزوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی، لہذا لوگوں کے دلوں میں یہ بات پختہ ہو گئی کہ جب تک انگریزوں کا اقتدار باقی ہے اس مصیبت سے نجات نہیں ہو سکے گی۔ انہیں یہی فیصلہ کرنا پڑا کہ جس سر چشمے سے یہ مصیبت ابل کر ملک میں پھیلی، اسے جلد سے جلد بند کر دینا چاہئے۔
اسکول اور کالج
پھر ابتدا میں مدرسوں اور کالجوں کے اندر تعلیم کا طریقہ دوسرا تھا۔ وہ تمام السنہ و علوم پڑھائے جاتے تھے، جن کا پہلے رواج تھا مثلاً عربی، فارسی، سنسکرت، فقہ، حدیث، ہندو دھرم کی کتابیں وغیرہ۔ ان کے ساتھ انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ بعد ازاں عربی اور فارسی کی تعلیم بہت کم ہو گئی، فقہ حدیث اور دوسری مذہبی کتابیں بند کر دی گئیں، اردو اور انگریزی کا زور ہوا۔
مذہبی علوم کی تعلیم ختم ہونے پر تشویش تھی ہی، اچانک حکومت نے اشتہار دے دیا کہ جو شخص سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا تعلیم یافتہ ہو گا یا فلاں فلاں علوم اور زبان انگریزی میں امتحان دے کر سند حاصل کرے گا، اسے دوسروں مقابلے میں ملازمت کے لیے ترجیح دی جائے گی۔
اس طرح تعلیم کے متعلق سو ءِ ظن پیدا ہوا۔ حکومت کی نیت کا سوال خارج از بحث ہے لیکن جس طریق پر پے درپے یہ سب کچھ پیش آیا، اس سے لوگوں کو یہی یقین ہو سکتا تھا کہ اب آہستہ آہستہ سب کو عیسائی بنا لیا جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس عہد کے انگریز عموماً مذہب کے پابند نہ تھے، اس لیے ان کے طور طریقے سراسر خلاف مذہب اور خلاف اخلاق تھے، لیکن ایسے لوگوں میں یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ انہیں ہر لحاظ سے مذہب کے شیدائی سمجھائے۔ چنانچہ وہ پادریوں کی حوصلہ افزائی میں بڑے ہی سرگرم تھے اور خود بھی سب پر عیسائیت کی برتری واضح کرنے ے لیے مضطرب رہتے تھے۔ بہ حیثیت مجموعی حکومت۔ یقینی طور پر غیر جانبدارانہ تھی، جانبدار ہی تھی۔
جیل خانوں میں نئے طریقے
ابتدا میں قیدیوں کو خوراک کے لیے پیسے مل جاتے تھے اور وہ اپنی خواہش کے مطابق کھانا پکا لیتے تھے یا چند آدمی مل کر کھانے کٍا انتظام کر لیتے تھے۔ پھر اچانک حکومت کو خیال میں غالباً یہ بات آئی کہ اس طرح قیدیوں کا وقت ضائع ہوتا ہے اور جتنی محنت انہیں کرنی چاہئے وہ نہیں کرتے، لہذا حکم دے دیا گیا کہ سب کے لیے ایک جگہ کھانا پکے گا۔ اب سوال پیدا ہوا کہ اونچی جاتیوں کے آدمی پنچ جاتیوں کے آدمیوں کا پکایا ہوا کھانا کیوں کر کھائیں ؟ اس طریقے کو بھی مذہب میں مداخلت کا ذریعہ سمجھا گیا۔ اور یہی اثر قبول کیا گیا کہ حکومت ہندوؤں کی ذات پات کو برباد کر کے عیسائیت کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔
اسی طرح پہلے قیدی، اپنے پاس لوٹے رکھ سکتے تھے۔ پھر حکومت نے سوچا کہ پیتل اور تانبے کے یہ برتن بعض اوقات خطرناک مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں لہذا انہیں بند کر کے مٹی کے برتن دیئے گئے، جنہیں ہندو قطعاً استعمال نہیں کر سکتے تھے، ان کی وجہ سے آرہ اور مظفر پور (بہار) میں بڑے ہنگامے بپا ہوئے۔
تبدیل مذہب اور جدی جائیداد
۱۸۵۰ ء میں ایک قانون منظور ہوا کہ جو شخص مذہب تبدیل کر لے، وہ جدی جائداد میں سے اپنا حصہ پانے کا حق دار رہے گا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے اس قانون کو اپنے مذاہب کے خلاف اور عیسائیت کی حوصلہ افزائی کا موجب سمجھا۔ ہندو اس وقت تک شدت سے اس امر کے پابند تھے کہ غیر مذہب کا کوئی شخص ہندو ہو ہی نہیں سکتا۔ آریا سماج جس نے ہندوؤں کے لیے بھی تبلیغ کا دروازہ کھولا، پیدا ہی نہ ہوئی تھی۔ مسلمانوں کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ اگر غیر مذہب کا کوئی آدمی مسلمان ہو جائے تو اس کے لیے مورثوں کے مترو کے میں سے، جو پہلے مذہب پر قائم ہوں، حصہ لینا ممنوع ہے۔
دوسرے لفظوں میں اس قانون سے نہ تو ہندو فائدہ اٹھا سکتے تھے اور نہ نومسلم، صرف نو عیسائی فائدہ اٹھا سکتے تھے، لہذا سب کو یقین ہو گیا کہ یہ قانون لوگوں کو عیسائی بنانے کی سرکاری مہم کا ایک حصہ ہے۔
بیوگان کی شادی
۱۸۵۶ء میں بیوگان کی شادی کا قانون منظور ہوا۔ لاریب یہ قانون صرف ایک خوفناک مجلسی مرض کے ازالہ کی غرض سے تجویز ہوا تھا، لیکن ہندوؤں نے اسے اپنے مخصوص مراسم میں مداخلت کا ذریعہ سمجھا اور سر سید کے قول کے مطابق وہ اسے :
باعث اپنی ہتک اور عزت اور بربادی خاندان کا جانتے تھے اور یوں بدگمانی کرتے تھے کہ یہ ایکٹ اس مراد سے جاری ہوا ہے کہ ہندو کی بیواؤں خود مختار ہو جائیں اور جو چاہیں سو کرنے لگیں۔ ‘‘
حکومت کی بے خبری
یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے کہ حکومت اور حکام عوام کے حالات سے بالکل بے خبر اور ناواقف تھے۔ دیسی حکمرانوں کو ہر چھوٹی بڑی بات کا خود خیال رہتا تھا، اس لیے کہ وہ طبعاً تمام حالات سے آگاہ تھے۔ جانتے تھے کہ تکلیفیں کیا کیا ہیں ؟ انہیں کن کن ذرائع سے کام لے کر دور کیا جا سکتا ہے ؟ انگریز اس قسم کے احساسات سے کاملاً بے بہرہ تھے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ وہ اجنبی تھے۔ انہیں صرف یہ چاہئے تھا کہ روپیہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں ملے اور اسے انگلستان پہنچا دیں، خواہ تجارت کے ذریعے سے ملے یا مشاہروں اور پنشنوں کے ذریعے سے یا خام مال ارزاں نرخ پر انگلستان بھیج کر وہاں کے کارخانوں میں مصنوعات تیار کر کے دس دس بیس بیس گنا قیمت لی جائے۔ سر سید نے بالکل درست لکھا ہے کہ جب تک ایک قوم دوسری قوم میں مل جل کر اور محبت و اخلاص پیدا کر کے ہم وطنوں کے طور پر نہ رہے باہم ارتباط اور اختلاط کیوں کر پیدا ہو سکتا ہے ؟ انگریز میل جول سے سخت متنفر تھے۔ لہذا ان کی اجنبیت کا احساس کیوں کر زائل ہو سکتا تھا؟
حکام کی روش
پھر انگریز اپنے آپ کو حکمران ہونے کی حیثیت میں بہت اونچے درجے کے انسان سمجھتے تھے اور عوام کے ساتھ محبت، اخلاص اور ہمدردی کا برتاؤ کرنا ان کے نزدیک آداب حکمرانی کے خلاف تھا۔ زبان اجنبی طریق بود و ماند اجنبی، لباس اجنبی، برتاؤ اجنبیوں کا سامان میں خویشی کہاں سے پیدا ہوتی؟ پھر وہ بے حد نازک مزاج تھے۔ ملنے جلنے والوں کو کوئی ایسی بات کہنے کی ہمت نہ پڑتی تھی، جو ان کے مزاج کے خلاف ہوتی۔ خوشامد کی بنا پر غلط بیانیاں کی جاتی تھیں۔ ان حالات میں انگریز حاکم حقیقی حالات سے آگاہ کیوں کر ہوتے ؟ وہ ہندوستانیوں کو بے وقعت بھی سمجھتے تھے اور ان کی عزت قطعاً نہیں کرتے تھے، حالانکہ یہاں کے لوگ رزق سے بھی زیادہ عزت کے بھوکے تھے۔ سر سید نے بالکل بجا فرمایا کہ بے عزتی دل دکھاتی ہے، ظاہرہ نقصان پہنچائے بغیر دشمنی پیدا کرتی ہے اور اس کا زخم ایسا گہرا ہوتا ہے، جو کبھی نہیں بھرتا۔
مسلمانوں کی ذکاوت حِس
یہ طریقے اور یہ اوضاع عموماً سب کے لیے ناخوشگوار تھے، مگر مسلمانوں کو ان کی وجہ سے بہت رنج پہنچتا تھا، اس لیے کہ وہ :
صدہا سال سے ہندوستان میں با عزت چلے آتے تھے ان کی طبیعت اور جبلت میں ایک غیرت ہے۔ دل میں لالچ روپے کا بہت کم ہے۔ کسی لالچ سے عزت کا جانا نہیں چاہتے۔ بہت تجربہ ہوا ہو گا کہ اور قوم میں جو باتیں بغیر رنج کے اٹھا لیتے ہیں، مسلمانوں کو اس سے بھی ادنی بات کا اٹھانا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ ہم نے مانا کہ مسلمانوں میں خصلتیں بہت بری سہی، مگر مجبوری ہے۔ خدا نے جو طبیعت بنائی ہے، وہ بدلی نہیں جاتی۔ اس میں مسلمانوں کی بدبختی سہی مگر کوئی قصور نہیں۔
حکومت بنگال کا اشتہار
ان میں سے بعض باتیں عوام میں خاص ناراضی کا باعث بنی تھیں، اس لیے حکومت بنگال کو فارسی زبان میں ایک اشتہار شائع کرنا پڑا اور اس زمانے میں زیادہ تر فارسی زبان ہی استعمال کی جاتی تھی۔ اس اشتہار میں چار باتوں کا ذکر تھا۔ ان کے باب میں حکومت کی تصریحات خلاصتہً درج کی جاتی ہیں :
۱۔ پادریوں نے جو رسالے چھاپے یا جو خط بھیجے، سمجھ لیا گیا وہ سب کچھ حکومت کے ایما سے ہوا، حالانکہ حکومت کو اس بارے میں کوئی اطلاع و آگاہی نہیں اور وہ کسی شخص کو کسی مذہب کی طرف ترغیب دینے کی روداد نہیں ہو سکتی۔
۲۔ مشہور ہے کہ حکومت تعزیہ داری، ختنہ اور پردے کو موقوف کرنا چاہتی ہے اور شرع و شاستر کے قوانین موقوف کر دینے کی خواہاں ہے۔ یہ محض افترا ہے۔
۳۔ بعض جیل خانوں کے سپرنٹنڈنٹوں نے حکومت کی اطلاع و آگاہی کے بغیر قیدیوں سے کھانے پینے کے برتن لے لیے۔ جب حکومت کو معلوم ہوا کہ اس طرح قیدیوں کے مذہب کو نقصان پہنچے گا تو فوراً تار کے ذریعے سے یہ حکم موقوف کر دیا گیا۔
۴۔ اسکولوں کے قیام اور زبان انگریزی کی تعلیم کو دین و مذہب کی تخریب سے کوئی علاقہ نہیں۔ اس کا مدعا محض یہ ہے کہ لوگ تعلیم حاصل کریں، ان کی معاشی حالت بہتر ہو اور ترقی پائیں۔
اس اشتہار سے بھی ظاہر ہے کہ کس طرح مختلف لوگ گوناگوں پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے تھے۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ سب کچھ انگریزوں کی اپنی روش کا طبعی نتیجہ تھا
انگریز اور افلاس ملک
پھر انگریزوں کی وجہ سے ملک میں افلاس بڑھا۔ سر سید فرماتے ہیں :
جب افغانستان سرکار نے فتح کیا۔ لوگوں کو بڑا غم ہوا۔ جب گوالیار فتح ہوا۔ پنجاب فتح ہوا، اودھ لیا گیا، لوگوں کو کمال رنج ہوا۔ کیوں ہوا؟ اس لیے کہ ان کے پاس کی ہندوستانی عملداریوں سے ہندوستانیوں کو بہت آسودگی تھی۔ نوکریاں اکثر ہاتھ آتی تھیں۔ ہر قسم کی ہندوستانی اشیاء کی تجارت بہ کثرت تھی۔ ان عملداریوں کے خراب ہونے سے زیادہ افلاس و محتاجی ہوتی تھی۔
یہ ان اسباب کی سرسری کیفیت ہے، جن سے عوام میں رنج و ناراضی بڑھی۔ بنیادی سبب وہی تھا، جس کا ذکر ہم نے پہلے کر چکے ہیں، یعنی اجنبیوں کی غلامی۔ باقی تمام اسباب اس میں اضافے کا موجب بنتے رہے یا کہہ لیجئے کہ وہ انگریزوں کی اجنبیت کو تازہ رکھنے اور اسے زیادہ سے زیادہ رنج افزا بنانے کا باعث ہوئے۔ ان عوام میں فوجی بھی بہ طور افراد شریک تھے۔
ڈاکٹر سین کا بیان
آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سین نے اپنی کتاب میں جو کچھ بیان کیا ہے اسے بھی اجمالاً یہاں پیش کر دیا جائے، جو بڑی حد تک مذکورہ بالا بیانات کا مصدق ہے۔
۱۔ چربی والے کارتوس
۲۔ سپاہیوں میں ان کارتوسوں کے علاوہ بھی بے چینی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ہم نے انگریزوں کے لیے ملکوں پر ملک فتح کیے۔ پورا ہندوستان ان کے قبضے میں دے دیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ہمارے عوام کو لوٹا گیا، ہمارے حکمرانوں اور امیروں کے درمیان گرا دیئے گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے مذہب پر ناقابل تصور حملے شروع ہو گئے۔
۳۔ مالیے میں اضافہ، دوسو کی جگہ تین سو چار سو کی جگہ پانچ سو۔
۴۔ چوکیدارہ دگنا، تگنا بلکہ دس گنا
۵۔ معززین اور اہل علم کے وسائل روزگار ختم ہو گئے۔ لاکھوں ضروریات زندگی سے محروم ہوئے۔
۶۔ جب کوئی شخص روزگار کی تلاش میں ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں جاتا تھا تو اس سے دو پیسے فی کس سڑک کا ٹیکس لیا جاتا تھا اور ہر چھکڑا چار آنے سے آٹھ آنے تک دینے کے لیے مجبور ہوتا تھا۔ ٹیکس ادا کرنے والے ہی سڑک پر جٍا آ سکتے تھے۔
۷۔ انگریزوں کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ وہ نسلی اور ثقافتی اعتبار سے بلند ہیں۔ مغرب نے تہذیب میں اونچا درجہ حاصل کر لیا ہے اور مشرق پس ماندہ رہ گیا ہے۔
۸۔ انگریز اصلاح کے جوش میں عوام کے جذبات سے بے پروائی برت رہے تھے۔
۹۔ سپاہیوں کے مذہبی جذبات انگریزوں کے نزدیک قطعاً مستحق توجہ نہیں تھے جیسا کہ ویلور اور جنگ برما والے واقعات سے ظاہر ہے۔
۱۰۔ ستی کو منسوخ کر دیا گیا۔ یہ مذہب میں مداخلت تھی۔
۱۱۔ بیرونی ملکوں میں سپاہیوں کو بھیجا جاتا تھا تو ذات پات کا مسئلہ پیدا ہو جاتا تھا۔ ایک ہندو سپاہی کابل میں قید ہو گیا۔ وہ پانسو روپئے دینے کے وعدے پر رہا ہوا۔ فیروز پور پہنچا تو اسے صرف نصف رقم دی گئی۔ نصف اس کے ایک دوست نے ادا کی۔
۱۲۔ پادریوں کی تبلیغی سرگرمیاں۔
۱۳۔ مدراس میں مسیحیت کی تبلیغ اور جیلوں میں عام تعلیم کے علاوہ مسیحیت کی تعلیم۔
۱۴۔ ریل کے ڈبوں میں ذات پات کی حفاظت کا کچھ انتظام نہ تھا۔
۱۵۔ ہندو بیوہ عورتوں کی شادی کا مسئلہ
۱۶۔ تبدیل مذہب کے سلسلہ میں میراث کے حقوق کی حفاظت کا مسئلہ۔ اس قانون سے صرف عیسائیت ہونے والے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ مسلمان ہونے والے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اس لیے کہ مسلمان غیر مسلم کی میراث سے حصہ لے ہی نہیں سکتا تھا اور ہندو دھرم میں تبلیغ تھی ہی نہیں کہ ہندو اس سے مستفید ہو سکتے۔
۱۷۔ فوجیوں کے لیے بھتہ۔ پہلی جنگ افغانستان میں جنرل پولک لے دریائے سندھ کو عبور کرتے ہی بھتہ دیا۔ اس کے بعد بار بار مزاحمت۔
۱۸۔ سپاہیوں کو بدل بدل کر دور دور بھیجا جانے لگا۔ ان کی تنخواہ اتنی نہ تھی کہ بال بچوں کو ساتھ لے لیتے یا دو جگہ خرچ لاتے۔
۱۹۔ پے درپے وعدہ شکنیاں۔ مثلاً مدراس کے گورنر نے وہاں کی فوج بمبئی بھیجی تو وعدہ کیا کہ فوجیوں کو وہ تمام فوائد حاصل ہونگے جو برما جاتے وقت ہوتے تھے لیکن وہ لوگ بمبئی پہنچے تو معلوم ہوا گورنر جنرل نے مدارس کے گورنر کا وعدہ رد کر دیا گیا۔ بالکل یہی صورت حال جنرل چارلس پینئر کے وعدہ کے سلسلے میں ڈلہوزی نے پیدا کی۔ جس پرنپیئر کو استعفیٰ دینا پڑا۔
سپاہ کا خرچ
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ۱۸۵۷ء میں سپاہ کی کل تعداد تین لاکھ پندرہ ہزار اور پانسو بیس تھی اور اس پر اٹھانوے لاکھ دو ہزار دو سو پینتیس پونڈ خرچ ہوتے تھے۔
گویا یوروپینوں یعنی فرنگیوں کا خرچ فی کس بہ طور اوسط ۴ء۱۱۰ پونڈ اور دیسیوں کافی کس ۶ء۱۳ پونڈ بنتا تھا۔ مانا کہ فرنگی حکمران تھے۔ یہ بھی مانا کہ ان کا معیار قدرے بلند تھا، لیکن کیا بارہ اور ایک سو دس کی نسبت کسی بھی نقطہ نگاہ سے قابل اطمینان سمجھی جا سکتی ہے ؟
٭٭٭
ماخذ: ’جنگ آزادی‘ ساونیر
اقبال اکادمی اور ناشر کے شکریے اور اجازت سے
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید