FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

جدا ہونا ہی پڑتا ہے

 

 

                آصف شفیع

 

 

 

 

اپنے آنگن کی مہکتی کلیوں

ماہا اور فاہا

کے نام

 

 

 

 

جو لوگ محوِ خواب ہیں اُن کو خبر کہاں

کیسے طلوع ہوتا ہے سورج یقین کا

 

 

 

 

 

 

موضوع و اسلوب میں ہم آہنگی کی شاعری

 

 

آصف شفیع ان لوگوں میں شامل نہیں جنہوں نے درس و تدریسِ ادبیات کو پیشہ بنا رکھا ہو اور اس اصل کی فرع کے طور پر شعر کہتے ہوں۔ ذریعۂ روزگار کے طور پر کسی دوسرے پیشے کو اپنا نے والے جب تخلیق ادب کی جانب متوجہ ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ادب ان کے فرض منصبی کا حصہ تو نہیں لیکن ان کے رگ و پے میں رچا بسا ہے۔ آصف شفیع پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں لیکن نوجوانی کے زمانے سے شعر کہہ رہے ہیں اور اگرچہ وہ ابھی جوانی کے مراحل سے گزر رہے ہیں لیکن ان کے شعری مجموعوں سے عیاں ہے کہ وہ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں۔ فنِ شعر پر ان کی دسترس قابلِ رشک ہے۔ مروجہ بحروں اور شعری زمینوں سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں بحروں اور زمینوں کے قابلِ قبول تجربات بھی موجود ہیں۔ وہ دقائق کی طرف میلان نہیں رکھتے۔ مشکل الفاظ سے دامن کشاں ہیں، ابہام کو اپنے شاعری کے قریب نہیں آنے دیتے۔ تصنع اور آرائش کے عناصر ان کے اظہار میں دخیل نہیں ہوتے۔ وہ بنیادی طور پر وارداتِ محبت کے شاعر ہیں اور اسی جذبے کے متنوع پہلو ان کی غزلیات میں جھلملاتے اور قاری کے احساسات میں تموج پیدا کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شاعری دل  سے نکلتی ہے اور دل پر اثر کرتی ہے۔ بقولِ حسرت موہانی:

شعر در اصل ہیں وہی حسرت

سنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں

اس کلیے کا اطلاق ہر قسم کی شاعری پر تو نہیں ہوتا لیکن رومانی شاعری پر اس کا مکمل طور پر انطباق ہوتا ہے۔ گویا آصف شفیع کی غزلیات میں اگر دقیق الفاظ و تراکیب سے گریز کیا گیا ہے اور مصرعوں کی تراش خراش میں پر تاثیر سادگی سے کام لیا گیا ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ ان کے موضوعات اسلوب سے ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔ نتیجہ ’پر تاثیر جذبیلی‘ شاعری کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں ہو گا کہ ان کی غزل میں ’رومان‘ کے سوا کچھ نہیں۔ عہدِ حاضر کا ماحول، تبدیلیوں سے گزرتا ہوا سماج اور لوگوں کے بدلتے ہوئے رویے بھی ان کے ہاں جھلک دکھاتے ہیں مگر غزل کی مخصوص زبان سے ہٹ کر اور پر شور لہجے میں نہیں بلکہ معتدل اور متوازن انداز میں۔ آصف شفیع کئی جدید شاعروں کے بر عکس ہر قسم کی عریانی سے اپنے کلام کو دور رکھتا ہے بلکہ رومان کو اعلیٰ اقدار کا پابند بنانے کا خواہش مند ہے۔ خود داری، وفاداری، خلوص اور مادی اغراض سے بے نیازی وغیرہ ایسی اقدار ہیں جن کی طرف ان کے اشعار میں جگہ جگہ اشارے ملتے ہیں۔ آصف شفیع نے اپنی غزلیات میں اپنا لہجہ تشکیل دینے کی کامیاب کوشش کی ہے اور میرے نزدیک وہ معاصر غزل کے اہم شعراء میں شمار ہونے کے مستحق ہیں خصوصاً اس وجہ سے کہ انہوں نے غزل کے مروجہ فیشن کو اپنانے کی بجائے جو کچھ خود محسوس کیا ہے اسی کو شعر کا ملبوس عطا کیا ہے۔

 

خواجہ محمد زکریا

پروفیسرامیریطس(اردو)

پنجاب یونیورسٹی، لاہور

 

 

 

 

 

دل سے ملتا ہے سلسلہ دل کا

کیا عجب ہے معاملہ دل کا

لفظ اشکوں میں جگمگاتے ہیں

نعت ہوتی ہے آئنہ دل کا

تیرگی چھٹ گئی زمانے کی

جب سے روشن ہوا دیا دل کا

اہلِ دنیا حرم تلک تھے بس

اس سے آگے تھا مرحلہ دل کا

تشنگی ہے، کہ بڑھتی جاتی ہے

روز افزوں ہے عارضہ دل کا

سبز گنبد کے سائے میں آصفؔ

جا کے ٹھہرے گا قافلہ دل کا

٭٭٭

 

 

 

 

زائروں کی ہے ہر گھڑی معراج

سیرِطیبہ ہے عشق کی معراج

کس بلندی پہ لے کے آئی ہے

آدمیت کو آپؐ کی معراج

میزبانی کے استعارے ہیں

روح، برّاق، آگہی، معراج

ان کے روضے کو دیکھ آیا ہوں

اس سے بڑھ کر نہیں کوئی معراج

مل گئی مدحتِ پیمبرؐ سے

میرے لفظوں کو معنوی معراج

سب زمانوں پہ ہے محیط آصفؔ

میرے آقاؐ کو جو ملی معراج

٭٭٭

 

 

 

 

اک عجب سر خوشی میں رہتے ہیں

جو دیارِ نبیؐ میں رہتے ہیں

سبز گنبد کو دیکھنے والے

عمر بھر روشنی میں رہتے ہیں

موجۂ نور میں نہائے لوگ

اک عجب بے خودی میں رہتے ہیں

راہِ پُر لطف کی مسافت میں

عالمِ خامشی میں رہتے ہیں

بھیجتے ہیں درود جو ان پر

رات دن تازگی میں رہتے ہیں

شہرِ طیبہ کے سب مکیں آصفؔ

قربتِ ایزدی میں رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دیکھ مت دل کی طرف اتنی فراوانی سے

یہ کبھی دام میں آتا نہیں آسانی سے

آج کل اوج پہ ہے حالتِ وحشت اپنی

اور کیا پوچھتے ہو درد کے زندانی سے

بابِ حیرت کبھی کھلتا نہیں آئینے پر

تنگ دامان و تہی دست ہے عریانی سے

میں تری چشمِ فسوں ساز میں اُلجھا ایسا

آج تک لوٹ کے آیا نہیں حیرانی سے

اپنے ہمراہ کہاں زادِ سفر رکھتے ہیں

جو محبت کی طرف آئے ہوں نادانی سے

محفلِ عیش و طرب میں بھی گیا ہوں آصفؔ

دل کو تسکین ملی دشت کی ویرانی سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آبدیدہ تھا جو میں بے سر و سامانی پر

محوِ حیرت ہوں محبت کی فراوانی پر

تجھ سے بیگانۂ احساسِ الم کیا جانیں

کیا گزرتی ہے شب و روز کے زندانی پر

موج در موج بہے جاتا ہوں تہ داری میں

آج کل درد کا دریا بھی ہے طغیانی پر

چشمِ نم سے کہاں ممکن ہے نظارا دل کا

نقش بنتا ہی نہیں بہتے ہوئے پانی پر

حُسنِ جاں سوز کو جب شعر میں ڈھالا میں نے

لوگ حیران ہوئے میری سخن دانی پر

وہی اندازِ عمل داری بھی سکھلائے گا

جس نے مامور کیا مجھ کو جہاں بانی پر

میرا ہر خواب تہِ خاک پڑا ہے آصفؔ

نوحہ کیسے میں لکھوں شہر کی ویرانی پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک یوسف کے خریدار ہوئے ہیں ہم لوگ

دامِ الفت میں گرفتار ہوئے ہیں ہم لوگ

چشمِ رنگیں کی کرامات سے گھایل ہو کر

تیری چاہت کے طلبگار ہوئے ہیں ہم لوگ

شہرِ خوباں کی روایات سے شورش کر کے

غمِ ہجراں کے سزاوار ہوئے ہیں ہم لوگ

زندگی! تو نے ہمیں درد کے آنسو بخشے

پھر بھی تیرے ہی طرفدار ہوئے ہیں ہم لوگ

صبحِ آلام کا چہرہ نہیں دیکھا جاتا

خوابِ خوش رنگ سے بیدار ہوئے ہیں ہم لوگ

منزلِ عشق بھی ہم ہی کو ملی ہے آصفؔ

دشت و صحرا میں اگر خوار ہوئے ہیں ہم لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

جمالِ یار کو تصویر کرنے والے تھے

ہم ایک خواب کی تعبیر کرنے والے تھے

رہِ جنوں میں وہ لمحے گنوا دیے ہم نے

جو دردِ ہجر کو اکسیر کرنے والے تھے

کہیں سے ٹوٹ گیا سلسلہ خیالوں کا

کئی محل ابھی تعمیر کرنے والے تھے

پھر ایک دن مجھے اُس شہر سے نکلنا پڑا

جہاں سبھی مری توقیر کرنے والے تھے

ہماری دربدری پر کسے تعجب ہے

ہم ایسے لوگ ہی تقصیر کرنے والے تھے

جو لمحے بیت گئے ہیں رہِ محبت میں

وہ لوحِ وقت پہ تحریر کرنے والے تھے

چراغ لے کے انہیں ڈھونڈیے زمانے میں

جو لوگ عشق کی توقیر کرنے والے تھے

وہی چراغ وفا کا بجھا گئے آصفؔ

جو شہرِ خواب کی تعمیر کرنے والے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

زمیں کہیں ہے مری اور آسمان کہیں

بھٹک رہا ہوں خلاؤں کے درمیان کہیں

مرا جنوں ہی مرا آخری تعارف ہے

میں چھوڑ آیا ہوں اپنا ہر اک نشان کہیں

اسی لیے میں روایت سے منحرف نہ ہوا

کہ چھوڑ دے نہ مجھے میرا خاندان کہیں

لکھی گئی ہے مری فردِ جرم اور جگہ

لیے گئے ہیں گواہان کے بیان کہیں

ہوائے تند سے لڑنا مری جبلت ہے

جلا کے رکھ دے نہ مجھ کو مری اڑان کہیں

دلِ حزیں کا عجب حال ہے محبت میں

کوئی غضب ہی نہ ڈھا دے یہ ناتوان کہیں

بھٹک رہا ہوں ازل سے دیارِ ظلمت میں

مجھے ملے مرے مولا تری امان کہیں

میں داستانِ محبت اسے سنا آیا

کہیں کا ذکر تھا لیکن کیا بیان کہیں

ہوائے شہر تجھے راس ہی نہیں آصفؔ

مثالِ قیس تو صحرا میں خاک چھان کہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُس بے وفا کی دید کو جانا پڑا مجھے

گنگا کو الٹی سمت بہانا پڑا مجھے

شہرِ وفا میں چار سو ظلمت تھی اس قدر

ہر گام دل کا دیپ جلانا پڑا مجھے

صحرا سرشت جسم میں صدیوں کی پیاس تھی

دریا کو اپنی سمت بلانا پڑا مجھے

دیوانگی کو جب مری رستہ نہ مل سکا

سوئے دیارِ عاشقاں جانا پڑا مجھے

اقرار کر لیا تھا ہزاروں کے درمیاں

سو عمر بھر وہ عہد نبھانا پڑا مجھے

میں چاہتا نہ تھا مگر اپنے بچاؤ میں

دشمن پہ کاری زخم لگانا پڑا مجھے

آنگن میں دل کے، خواب اترتے تھے اس قدر

اک شہر آرزو کا بسانا پڑا مجھے

شوقِ نموئے عشق بھی پھل پھول کب سکا

اس انجمن سے رائے گاں جانا پڑا مجھے

آصفؔ دیارِ شوق میں ایسا ہجوم تھا

خود کو بھی راستے سے ہٹانا پڑا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ٹھہراؤ جب بھی اشک فشانی میں آ گیا

دریائے عشق اپنی روانی میں آ گیا

اک موجِ جذب و شوق نے دکھلائی آب و تاب

طغیانیوں کا زور جوانی میں آ گیا

اتنی چمک دمک تھی تخیل کے روپ میں

رنگِ غزل بہائے معانی میں آ گیا

یہ بھی دکھایا وقت نے، شاہوں کا بادشہ

محلوں سے اک حویلی پرانی میں آ گیا

غارت گرِ سکوت ہوئی چاند کی کشش

بھونچال جس کے زور سے پانی میں آ گیا

اُس مہ جبیں کے پاؤں کو چھونے کے واسطے

عکسِ کنول بھی جھیل کے پانی میں آ گیا

ملنے کے بعد پھر سے بچھڑنے کے ہیں قریب

کیسا یہ موڑ اپنی کہانی میں آ گیا

آصفؔ جہاں کو چھوڑ کے جائے گا ایک دن

ذی روح جو بھی دنیائے فانی میں آ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

سنگِ ملامت آئینہ خانے پہ آ لگا

یعنی کہ تیر خود ہی نشانے پہ آ لگا

کہنے کو دوست! جرم کیا ایک فرد نے

تہمت کا داغ سارے گھرانے پہ آ لگا

میں نے اڑان بھرنے کی ٹھانی ہی تھی ابھی

اک سنگِ دشمناں مرے شانے پہ آ لگا

امسال بھی وہ آنے کی زحمت نہ کر سکا

اک اور گھاؤ زخم پرانے پہ آ لگا

آخر کو میں نے پاؤں کی زنجیر توڑ دی

آخر مرا دماغ ٹھکانے پہ آ لگا

جتنی تھیں کامیابیاں یاروں کے سر گئیں

ناکامیوں کا داغ زمانے پہ آ لگا

بیٹھا ہے سانپ خوف کا دولت کے آس پاس

آصفؔ یہ کیسا پہرا خزانے پہ آ لگا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایک پیمان نبھاتے، تری چاہت کرتے

زندگی بیت گئی تجھ سے محبت کرتے

شہر کا شہر شناسائی سے خالی نکلا

اجنبی دیس میں کس طرح سکونت کرتے

کسی آسیب کا سایہ ہے مرے آنگن میں

یونہی پیڑوں سے پرندے نہیں ہجرت کرتے

لے ہی آئے ہیں کنارے پہ سفینہ اپنا

موج در موج سمندر سے بغاوت کرتے

آئنے ٹوٹ گئے دیکھ کے جلوہ اس کا

تاب رکھتے تھے کہاں اتنی کہ حیرت کرتے

دشت کا چھوڑنا ممکن ہی نہیں تھا ورنہ

شہر آتے ہوئے ہر گام پہ وحشت کرتے

یہ تو اچھا ہے کہ اس سے کبھی جیتے ہی نہیں

ورنہ ہم بعد میں خود ہی کو ملامت کرتے

کتنے آرام طلب نکلے ہیں واعظ آصفؔ

کاش یہ لوگ بھی کچھ کارِ مشقت کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نہ جانے فوج مری کس طرف سے آگے ہے

مرا غنیم فقط ایک صف سے آگے ہے

تو مجھ سے جیت نہیں سکتا عشق کی بازی

مرا ہدف ترے اگلے ہدف سے آگے ہے

جنوں ہو، عشق ہو اور چاہے دنیا داری ہو

یہ دور ہم سے میاں، ہر طرف سے آگے ہے

میں کیسے چھوڑ دوں فکر و خیال کا رستہ

یہ کارِ عشق ہے اور ہر شغف سے آگے ہے

اٹھائے پھرتا ہوں بارِ حروف میں آصفؔ

اک ایسا بار جو بارِ شرف سے آگے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

حصارِ ضبط کو مثلِ کماں رکھے ہوئے ہیں

غمَِ دل کو زمانے سے نہاں رکھے ہوئے ہیں

کوئی چھیڑے نہ ہم کو، ہم تو ہیں راندۂ دنیا

وہیں رہنے دو ہم کو، ہم جہاں رکھے ہوئے ہیں

مرے دشمن !سمجھنا مت کہ میں غافل ہوں تجھ سے

ترے ہی واسطے تیر و کماں رکھے ہوئے ہیں

نکل آئیں گے خود ہی تیز طوفانوں سے اک دن

ہم اپنی ناؤ کا رخ درمیاں رکھے ہوئے ہیں

انہی شاخوں کو کاٹے جا رہے ہیں یار میرے

پرندے جن پر اپنا آشیاں رکھے ہوئے ہیں

کہانی جو بھی بنتی ہے، بنا لو ہم نشینو!

ہم اپنے اشک آنکھوں سے رواں رکھے ہوئے ہیں

نہ کیسے تذکرہ ہو روز اپنا مہوشوں میں

ہم اپنے شوق کا عالم جواں رکھے ہوئے ہیں

مسلسل اک تذبذب میں مجھے رکھتے ہیں آصفؔ

یقیں کے طاقچوں میں جو گماں رکھے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نواحِ دل کے قریں دیکھنا ذرا سائیں

یہیں کہیں ہے محبت کا سلسلہ سائیں

عجب نہیں جو ترے پاس ہم چلے آئے

نہ راس آئی ہمیں شہر کی ہوا سائیں

میں ایک روز درِ شہرِ خواب تک پہنچا

تما عمر وہیں پھر پڑا رہا سائیں

نظر بھی آئے کہیں سے نجات کا رستہ

عجیب خوف دلوں میں ہے آ بسا سائیں

اگرچہ ایک ہی منزل کے سب مسافر ہیں

تو کیوں ہیں رستے سبھی کے جدا جدا سائیں

بجا، بہت ہی کٹھن ہے خیال کا رستہ

سخن طرازیِ شاعر بھی دیکھنا سائیں

روانگی کا سمے آ گیا، خدا حافظ

معاف کیجیے گا، سب کہا سنا سائیں

وہی جو خالقِ کون و مکاں ہے اے آصفؔ!

وہی ہے عشق ہمارا، وہی خدا سائیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہوائے عشق سے پنجہ لڑا کے رکھوں گا

چراغ راہِ وفا میں جلا کے رکھوں گا

مجھے یقیں ہے تو اک روز لوٹ آئے گا

ترے لیے میں محبت بچا کے رکھوں گا

سپردگی میں جزا و سزا نہیں کچھ بھی

یہی سوال میں آگے خدا کے رکھوں گا

کسی بھی کام نہ آئے گی تیری کوزہ گری

میں نقش چاک پہ اپنے بنا کے رکھوں گا

عیاں کسی پہ کروں گا نہ رازِ عشق و وفا

میں عمر بھر تری یادیں چھپا کے رکھوں گا

رہِ طلب میں روایت سے رابطے کے لیے

نوا میں حرف گزشتہ دعا کے رکھوں گا

شعورِ عشق و جنوں ہے شعورِ ذات آصفؔ

ہمیشہ درد سے رشتہ بڑھا کے رکھوں گا

٭٭٭

 

 

 

 

بیاضِ وصل کو اپنی سیاہ کیا کرتا

وہ جا رہا تھا میں اس پر نگاہ کیا کرتا

جو ایک پل کے لیے بھی نہ رک سکا دل میں

تمام عمر وہ مجھ سے نباہ کیا کرتا

میں اپنے آپ سے مخلص نہ تھا حقیقت میں

مرا علاج کوئی خیر خواہ کیا کرتا

سخن سرائی بدلتی گئی ستائش میں

دروغ گوئی پہ میں واہ واہ کیا کرتا

سبھی کو علم تھا خانہ خرابیِ دل کا

دلِ فگار کو کوئی تباہ کیا کرتا

کوئی بھی جنگ اکے لیے نہیں لڑی جاتی

سپاہ ساتھ نہ تھی، بادشاہ کیا کرتا

خزاں کے ساتھ برس ہا برس کی یاری تھی

گُلِ بہار سے میں رسم و راہ کیا کرتا

تمام شہر کو مجھ سے عناد تھا آصفؔ

میں اپنے حق میں کسی کو گواہ کیا کرتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُداس شام ہے اجڑا ہوا ہے گھر میرا

خبر نہیں کہ دکھائے گا کیا‘ ہنر میرا

میں آسمان کی وسعت سمیٹ لایا ہوں

حدِ گمان سے آگے بھی ہے گزر میرا

میں اپنے حالِ پریشاں پہ کب پشیماں ہوں

جنوں بدست مری زیست ہے ثمر میرا

میں کوئے شہرِ وفا ہی میں جا کے ٹھہروں گا

قیام دشتِ انا میں ہے لمحہ بھر میرا

قبیلے بھر کی حمیت بچا کے لایا ہوں

لہو میں چہرہ نہیں یوں ہی تر بتر میرا

لہو کے دیپ جلائے ہیں عمر بھر میں نے

کلام ٹھہرا ہے تب جا کے معتبر میرا

ہر ایک گام مگر میرے ساتھ ہے آصفؔ

بنا نہیں ہے اگرچہ وہ ہم سفر میرا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی بھی چیز جہاں میں سدا کسی کی نہیں

"چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں ”

کبھی کبھی جو کھٹک سی سنائی دیتی ہے

یہ باز گشتِ انا ہے صدا کسی کی نہیں

کسی کی زلف جو مجھ کو لبھائے رکھتی ہے

مرے خیال کی لو ہے، ادا کسی کی نہیں

یہ ٹھیک ہے کہ محبت میں کچھ صلہ نہ ملا

ملال کیا ہو کہ اس میں خطا کسی کی نہیں

ہمارے ساتھ کوئی بھی وفا نہیں کرتا

ہمارے پیار کے حق میں دعا کسی کی نہیں

کیا جو عرض وہ طرار و شوخ ہے کس کی

تمام شہر نے مل کے کہا، کسی کی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تمہارے شہر کے لوگوں کے ہیں ستائے ہوئے

جبیں پہ یوں ہی نہیں ہم نے زخم کھائے ہوئے

پڑی جو دھوپ تو سب نے بدل لیے رستے

چلے جو ساتھ قدم سے قدم ملائے ہوئے

فضائے شہرِ محبت سے دل نہیں نکلا

زمانے بیت چکے ہیں وہاں سے آئے ہوئے

یہ کس نے مانگ ستاروں سے رات کی بھر دی

مسافروں نے ہوں جیسے دیے جلائے ہوئے

طلسمِ بابِ جنوں خیز کھول دے ان پر

نگاہ دشت کی جانب جو ہیں لگائے ہوئے

فریبِ حرص و ہوس سے نجات دے ان کو

ترے حضور کھڑے ہیں جو سر جھکائے ہوئے

شریکِ حال ہیں میرے زمانہ بھر کے لوگ

دلوں میں اپنے ہزاروں جہاں بسائے ہوئے

مزاجِ یار ٹھہرتا نہیں کہیں آصفؔ

ابھی وہ اپنے ہوئے اور ابھی پرائے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ ہے ٹھیک، تیرا جمال بھی کوئی کم نہیں

مجھے فکرِ اہل و عیال بھی کوئی کم نہیں

ہے بجا کہ ایک جواب تک نہ میں دے سکا

یہ بھی دیکھ تیرا سوال بھی کوئی کم نہیں

ترا رنگِ حسن و جمال کیسے بیان ہو

ترے ایک تل کی مثال بھی کوئی کم نہیں

کئی نقش دل میں نہاں ہیں عہدِ وصال کے

مگر ان پہ گردِ ملال بھی کوئی کم نہیں

مرا بخت اگر ہے عروج پر، تو عجب ہے کیا

مری داستانِ زوال بھی کوئی کم نہیں

یونہی ایک دن میں تری گلی سے گزر گیا

رہِ عشق میں یہ مجال بھی کوئی کم نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آشنائی کبھی ہوتی نہیں چلتے چلتے

وقت لگتا ہے کسی رنگ میں ڈھلتے ڈھلتے

ایک دن کہہ ہی دیا اُس نے، مجھے جانا ہے

ایک دن ہو ہی گیا سانحہ ٹلتے ٹلتے

کیا بتائیں کسے چاہا، کسے پایا ہم نے

عمر گزری کفِ افسوس ہی ملتے ملتے

ایک پل کو بھی نہیں وصل کا موسم دیکھا

زندگی بیت گئی ہجر میں جلتے جلتے

ڈھونڈتا رہتا ہوں میں اس کے نشاں تک آصفؔ

چھوڑ جاتا ہے مجھے روز وہ چلتے چلتے

٭٭٭

 

 

 

 

لوگ وابستہ ہیں اُس یارِ طرح دار کے ساتھ

اب بھی بیٹھے ہیں کئی سایۂ دیوار کے ساتھ

قیمتِ شوق بڑھی ایک ہی ان کار کے ساتھ

واقعہ کچھ تو ہوا چشمِ خریدار کے ساتھ

ایسے لگتا ہے کسی دشت میں آ نکلے ہیں

کتنی الفت تھی ہمیں صحن کے اشجار کے ساتھ

ہر کوئی جان بچانے کے لیے دوڑ پڑا

کون تھا آخرِ دم قافلہ سالار کے ساتھ

ظلم سے ہاتھ اُٹھانا نہیں آتا ہے تو پھر

کچھ رعایت ہی کرو اپنے گرفتار کے ساتھ

حد سے بڑھ کر بھی تغافل نہیں اچھا آصفؔ

کچھ تعلق بھی تو رکھتے ہیں پرستار کے ساتھ

٭٭٭

 

 

 

 

یونہی تو نہیں خدا ملا ہے

وجدان کو راستہ ملا ہے

اب میری شکست ہے یقینی

سالار عدو سے جا ملا ہے

دیکھا ہے بغور آئنوں کو

ہر چہرہ جدا جدا ملا ہے

فرقت کے زخم سہہ رہا ہوں

چاہت کا یہی صلہ ملا ہے

دیوانگی سے گزر کے مجھ کو

اک اور ہی تجربہ ملا ہے

اب تک یہی سوچتا ہوں آصفؔ

بچھڑا ہے وہ مجھ سے یا ملا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

غم کا خوگر بنا دیا ہے

قسمت نے بھنور بنا دیا ہے

ہم خود تو بھٹک گئے ہیں لیکن

اک رستہ مگر بنا دیا ہے

کتنا حساس واقعہ تھا

لوگوں نے خبر بنا دیا ہے

آباد کرے کوئی بھی اس کو

معمار نے گھر بنا دیا ہے

ہم سے مت پوچھ حال دل کا

غم نے پتھر بنا دیا ہے

وہ پھول ہے اور ہوا نے اس کو

کتنا خود سر بنا دیا ہے

غم کی تصویر نے بھی آصفؔ

دلکش منظر بنا دیا ہے

٭٭٭

 

 

 

شہرِ جاں سے گزر گئے ہم

آخر اپنے ہی گھر گئے ہم

روکا سب نے تری گلی سے

لیکن پھر بھی اُدھر گئے ہم

آخر دم تک سمجھ نہ پائے

جیتے جی کیسے مر گئے ہم

پانی کو تلاش کرتے کرتے

صحرا ہی عبور کر گئے ہم

رستوں پہ دیے جلا کے آئے

بستی میں جدھر جدھر گئے ہم

دنیا کی بساط کیا تھی آصفؔ

کیسے دنیا سے ڈر گئے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

اپنے اوسان کھو رہے ہیں

شہرِ خوباں میں جو رہے ہیں

کیسا ہے کرشمہ روشنی کا

پھو لوں پہ ستارے سو رہے ہیں

فردا کی فکر کیوں ہو مجھ کو

میرے سب کام ہو رہے ہیں

اپنا دامن بچا کے رکھا

اُس شہر میں ہم بھی گو، رہے ہیں

تم غنچہ و گُل کے درمیاں ہو

ہم شاہدِ گُل کو رو رہے ہیں

جو حرف بکھر رہے تھے، ان کو

اک تار میں ہم پرو رہے ہیں

خوش فہم ہیں لوگ کیونکر آصفؔ

کاٹیں گے وہی، جو بو رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

گو خاک اُڑا رہا ہوں وحشت

صحرا کی بڑھا رہا ہوں وحشت

آنکھوں سے ہو رہی ہے ظاہر

جتنی بھی چھپا رہا ہوں وحشت

دنیا پہ سکوت چھا رہا ہے

میں دل کی دکھا رہا ہوں وحشت

ظلمت سے ہے تیری آشنائی

میں بھی تو دیا رہا ہوں وحشت

دامن کو چاک چاک کر کے

تیری طرف آ رہا ہوں وحشت

خود پر بھی میں کھل نہیں سکا ہوں

صحرا ہوں، جنوں ہوں یا ہوں وحشت

دیوارِ وصال اُٹھا کے آصفؔ

کچھ اور بڑھا رہا ہوں وحشت

٭٭٭

 

 

 

 

لمحوں کا سراغ دے رہا ہے

لو کیسی چراغ دے رہا ہے

دل کی فیاضیاں تو دیکھو

خیرات میں داغ دے رہا ہے

صحراؤں سے جا ملے گا اک دن

جو راستہ باغ دے رہا ہے

آبِ گلرنگ سے ہے خالی

ساقی جو ایاغ دے رہا ہے

وحشت کے لیے ہوا کا جھونکا

شعلے کو دماغ دے رہا ہے

شورِ دورِ جدید آصفؔ

ذہنوں کو فراغ دے رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پل میں دل توڑ دے کسی کا

منصب یہ نہیں ہے آدمی کا

آواز کو راستہ ملا ہے

اعجاز ہے میری خامشی کا

اک شمعِ خیال جل اٹھی ہے

اک باغ کھلا ہے شاعری کا

چہروں سے لہو ٹپک رہا ہے

پیغام دو کچھ تو آشتی کا

دنیا کی مجال کچھ نہیں ہے

بخشا ہوا سب ہے بس اسی کا

کس دور کی بات کر رہے ہو

کوئی بھی نہیں یہاں کسی کا

ہر سانس پہ سوچتا ہوں آصفؔ

قصہ کب تک ہے زندگی کا

٭٭٭

 

 

 

 

فنا ہونا ہی پڑتا ہے

جدا ہونا ہی پڑتا ہے

صنم خانوں کی دنیا میں

خدا ہونا ہی پڑتا ہے

زوالِ پادشاہی میں

گدا ہونا ہی پڑتا ہے

حصارِ گل سے خوشبو کو

رہا ہونا ہی پڑتا ہے

محبت میں رواجوں سے

ورا ہونا ہی پڑتا ہے

گزرتے وقت کی آصفؔ

صدا ہونا ہی پڑتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہوائے غم بہت اِٹھلا رہی ہے

گلوں کی پتیاں بکھرا رہی ہے

پرندے اڑ گئے پیڑوں سے لیکن

صدا نغموں کی اب تک آ رہی ہے

کوئی تو حل نکالو بے بسی کا

اداسی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے

مسیحاؤ ! ہوا کو راستہ دو

مری تو سانس رکتی جا رہی ہے

لپٹتی جا رہی ہے گل سے تتلی

دلہن جیسے کوئی شرما رہی ہے

یہ سب مقسوم ہے میرا، پہ قسمت

بہت تاخیر کرتی جا رہی ہے

حسیں یادوں کی سر کش موج آصفؔ

کنارِ خواب سے ٹکرا رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جہاں حرمت ہنر کی ہے سلامت

وہاں دستار سر کی ہے سلامت

ابھی تک خوف دل میں جاگزیں ہے

ابھی دیوار گھر کی ہے سلامت

نشاں اگلے سفر کا ڈھونڈئیے کیوں

تھکن پچھلے سفر کی ہے سلامت

سکونت کر رہے ہیں کچھ پرندے

ابھی چھاؤں شجر کی ہے سلامت

اِدھر ٹوٹی ہوئی ہے تارِ جاں تک

مگر ہر شے اُدھر کی ہے سلامت

کبھی فرصت میں آصفؔ سوچئے گا

کوئی بھی چیز گھر کی ہے سلامت

٭٭٭

 

 

 

 

کسی کے حصے میں کیا لکھا ہے

یہ سب مقدر کا فیصلہ ہے

ہم اُس کو دنیا میں ڈھونڈتے ہیں

وہ شہرِ دل میں بسا ہوا ہے

ترے لیے ایک کھیل ہو گا

مرے لیے عشق مسئلہ ہے

سب اس کے مرکز میں گھومتے ہیں

یہ زندگی ایک دائرہ ہے

بچھڑ کے بھی کوئی لوٹ آئے

یہی محبت کا معجزہ ہے

یہی حقیقت ہے اس جہاں کی

ہر ایک ذی روح کو فنا ہے

کبھی یہ سوچا ہے کیسے آصفؔ

نظام دنیا کا چل رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

شکل دیکھی نہ شادمانی کی

پوچھتے کیا ہو زندگانی کی

ہر طرف وحشتوں کا ڈیرا ہے

حد نہیں کوئی لا مکانی کی

تیرے خوابوں کی رات بھر دل نے

کس قرینے سے میزبانی کی

لفظ جو بھی رقم کیے میں نے

عمر بھر ان کی پاسبانی کی

مجھ کو دشمن نے تو نہیں مارا

دوستوں ہی نے مہربانی کی

تو نے عہدِ وفا کو بھی توڑا

اور خود سے بھی بدگمانی کی

عہدِ پیری کے چھوڑیے قصے

بات ہی اور ہے جوانی کی

دل نہیں ہے وہ سلطنت آصفؔ

جس پہ شاہوں نے حکمرانی کی

٭٭٭

 

 

 

 

نیند میں جا چکی ہے رانی بھی

قصہ گو، ختم کر کہانی بھی

شہرِ دل کو اجاڑنے والو!

یہ محبت کی ہے نشانی بھی

قافلہ کھو گیا ہے صحرا میں

ختم ہونے لگا ہے پانی بھی

لوگ خیموں کو بھی جلاتے ہیں

اور کرتے ہیں نوحہ خوانی بھی

تو نے چاہت کے خواب دیکھے تھے

دیکھ، اشکوں کی اب روانی بھی

اسطرح تو جدا نہیں ہوتے

چھوڑتے ہیں کوئی نشانی بھی

میرے لفظوں میں تھا اثر، لیکن

کام آئی ہے خوش بیانی بھی

آج ملنے ہی کو چلے آؤ

خوب ہے رنگِ آسمانی بھی

پھوٹ یونہی نہیں پڑی آصفؔ

اس میں شامل ہے بدگمانی بھی

٭٭٭

 

 

 

 

آن رہ جائے گی تمہاری بھی

بات سن لو اگر ہماری بھی

ہم محبت کا خون کر آئے

جنگ جیتی بھی اور ہاری بھی

تم کو دعویٰ بھی ہے محبت کا

اور کرتے ہو آہ و زاری بھی

عشق میں امتحاں بھی آتے ہیں

کاٹ سکتی ہے سر کو آری بھی

اپنے دشمن سے میں نہیں ہارا

ضرب اس نے لگائی کاری بھی

سب سے دل کی کہا نہیں کرتے

کچھ تو رکھتے ہیں راز داری بھی

بے ثمر ہی رہے محبت میں

خوب ہم نے اٹھائی خواری بھی

زندگی میں سکوں نہیں آصفؔ

آزمائی ہے شہر یاری بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

سِحرِ عہدِ شباب سے آگے

کون ہے رُوئے خواب سے آگے

رہروانِ جنوں کا سرمایہ

ایک صحرا‘ سراب سے آگے

بابِ سوز و گداز کھلتا ہے

زندگی کے نصاب سے آگے

اور بھی مرحلے ہیں چاہت میں

حالتِ اضطراب سے آگے

تازگی اور شگفتگی میں ہے

ایک چہرہ گلاب سے آگے

ایک دن میں نکل گیا آصفؔ

چاند کی آب و تاب سے آگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

گھپ اندھیرا سہی زمانے میں

حرج کیا ہے دیا جلانے میں

ہر طرف شور ہے مشینوں کا

کون سنتا ہے کارخانے میں

شام ہوتے ہی ڈار کا پنچھی

لوٹ آتا ہے آشیانے میں

اک نہ اک دن یہاں نہیں ہوں گے

لوگ جتنے بھی ہیں زمانے میں

کیسے دیوار و در گرا ڈالوں

عمر لگتی ہے گھر بنانے میں

لوگ یونہی نہیں ہیں دیوانے

کوئی تو بات ہے فسانے میں

کارِ آساں نہیں تھا عشق آصفؔ

ہوش تک آ گئے ٹھکانے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے

جس کا نشہ ابھی اتارا ہے

ہر کسی پر یہ آشکارا ہے

دل محبت کا استعارا ہے

اک طرف ہجر کی مسافت ہے

اک طرف درد کا کنارا ہے

کس طرح میں جدا کروں تجھ کو

تو مجھے جان سے بھی پیارا ہے

دلِ بے تاب! روٹھ مت جانا

تو مرا آخری سہارا ہے

زندگانی کا پوچھتے ہو کیا

ایک اڑتا ہوا غبارہ ہے

پھر جنوں کی نمود ہے مجھ میں

پھر مجھے دشت نے پکارا ہے

عشق کے کھیل میں نہیں کھلتا

کون جیتا ہے، کون ہارا ہے

مجھ کو طوفاں سے کچھ نہیں آصفؔ

میرے پیشِ نظر کنارا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

عرصۂ زیست جاودانی ہے

یہ فقط میری خوش گمانی ہے

دوست! اپنا وجود کیا معنی

میں بھی فانی ہوں ‘ تو بھی فانی ہے

اک محبت فنا نہیں ہوتی

ورنہ ہر چیز آنی جانی ہے

ہر کوئی مست ہے نمائش میں

پیار کی کس نے قدر جانی ہے

دیکھ تو بھی پلٹ کے آ جانا

میں نے بھی تیری بات مانی ہے

شبِ غم ہی سے دوستی کر لیں

شامِ خوش رنگ بیت جانی ہے

یہ حقیقت ہے مان لو آصفؔ

ہر طرف دل کی حکمرانی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو ہزاروں برس پرانی ہے

آسماں کی وہی کہانی ہے

وہی کردار ہیں فسانے کے

ایک راجہ ہے، ایک رانی ہے

شاخِ برگد پہ جھولتی چڑیا

اب تو لگتا ہے قصہ خوانی ہے

اُس کی یادوں نے آن گھیرا ہے

آج اشکوں میں بھی روانی ہے

آج کل بات بھی نہیں کرتا

کس قدر اس کو بد گمانی ہے

آج ہم در دبدر جو پھرتے ہیں

یار لوگوں کی مہربانی ہے

یہ جو خستہ مکان ہے آصفؔ

میرے اجداد کی نشانی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم ہیں خود سے بھی بے نیاز میاں

کیا اٹھائیں گے تیرے ناز میاں

عشق آتش ہے، آن گھیرے گی

اس سے کب تک رہو گے باز میاں

اُس کی رحمت کا آسرا ہے فقط

اک وہی تو ہے کارساز میاں

بزمِِ عشق و جنوں میں آئے ہو

اپنے دل کو کرو گداز میاں

جانے کس دشت میں بھٹکتا ہے

کاروانِ رہِ حجاز میاں

عاجزی زندگی کا حاصل ہے

کھٹکھٹاؤ درِ نیاز میاں

یہ ہے دنیا، کبھی نہ مانے گی

اپنے ہونے کا دے جواز میاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آسماں تھا مری زمین میاں

کوئی کرتا نہیں یقین میاں

کوئی منطق بھی پھر نہیں چلتی

جب ٹھہرتا ہے عشق دین میاں

ان مشینوں کا موجد و بانی

بن گیا ہے خود اک مشین میاں

کس قدر عارضی ہے یہ مسکن

کوئی ٹھہرا یہاں مکین میاں !

دستِ قاتل چھپائے گا کب تک

خون آلود آستین میاں

خواہشوں کو حدود میں رکھو

یہی رستہ ہے بہترین میاں

خود بھی کر کے دکھاؤ کچھ آصفؔ

صرف بنتے ہو نکتہ چین میاں

٭٭٭

 

 

 

 

ہر طرف آن بان ہے مجھ سے

زندگی کا نشان ہے مجھ سے

میں محبت کا مرکزی کردار

عشق کی داستان ہے مجھ سے

میں جلاتا ہوں تیرگی میں چراغ

جگمگاتا مکان ہے مجھ سے

میرے دم سے ہے کارزارِ حیات

یہ زمیں آسمان ہے مجھ سے

بحرِ ہستی کا میں شناور ہوں

کشتی و بادبان ہے مجھ سے

گل کھلاتا ہوں دشت و صحرا میں

تتلیوں کی اڑان ہے مجھ سے

میرا نالہ ہے نغمۂ ہستی

رنگ و بو کا جہان ہے مجھ سے

زندگی کا ہے سلسلہ آصفؔ

یہ جو اک خاندان ہے مجھ سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جلوۂ اختراعِ آدم سے

ہو گئے آفتاب مدھم سے

آپ جائیں نہ چھوڑ کر ہم کو

زندگانی ہے آپ کے دم سے

اور کیا مجھ پہ ظلم ڈھاؤ گے

مر چکا ہوں میں شدتِ غم سے

ہو گیا آشکار دنیا پر

قصۂ درد آنکھ کے نم سے

اپنے گھر خود ہی آگ برسائی

لوگ یونہی ڈرے جہنم سے

خوش گمانی ہے آج تک دل کو

آملے گا وہ ایک دن ہم سے

اشک بہتے ہیں کس لیے آصفؔ

پوچھیئے راز دارِ شبنم سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہیں ہوتا نسب محبت میں

کیا عجم، کیا عرب محبت میں

ہم نے اک زندگی گزاری ہے

تم تو آئے ہو اب محبت میں

اور کتنی مصیبتیں سہتے

ہو گئے جاں بلب محبت میں

خامشی ہی زبان ہوتی ہے

بولتے کب ہیں لب محبت میں

آگہی کے جہان کھلتے ہیں

چوٹ لگتی ہے جب محبت میں

یہ ہے دشتِ جنوں، یہاں آصفؔ

چاک داماں ہیں سب محبت میں

٭٭٭

 

 

 

 

اُس نے جھیلے اَلم محبت میں

جس نے رکھا قدم محبت میں

آنکھ جھکتی ہے حسن کے آگے

سر بھی ہوتا ہے خم محبت میں

تو جو چاہے تو چھوڑ دے بازی

درد ہو گا نہ کم محبت میں

اشک یوں ہی نہیں امڈ آتے

آنکھ ہوتی ہے نم محبت میں

تو سمجھتا ہے اس کو نادانی

ظلم سہتے ہیں ہم، محبت میں

جانبِ دشت ہی اُٹھا آصفؔ

جو بھی رکھا قدم محبت میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

کوئی پوچھے بھلا کہ ہم کیا ہیں

اے زمانے بتا کہ ہم کیا ہیں

یہ تو بتلا دیا کہ تو کیا ہے

تو نے پوچھا نہ تھا کہ ہم کیا ہیں

مسکرانے لگا چمن سارا

کہہ رہی تھی صبا کہ ہم کیا ہیں

ہم سے پہچان مانگنے والو!

دشت سے پوچھنا کہ ہم کیا ہیں

اُس کے کوچے میں ہر کوئی ہم سے

پوچھتا ہی رہا کہ ہم کیا ہیں

بات ہی ختم ہو گئی آصفؔ

اس نے جب کہہ دیا کہ ہم کیا ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

حشر دل میں بپا ہوئے کیا کیا

جل بجھے ہیں یہاں دیے کیا کیا

پوچھ مت‘ عشق کی مسافت میں

پیش آئے ہیں مرحلے کیا کیا

وقت چلتا ہے چال جب اپنی

ٹوٹ جاتے ہیں سلسلے کیا کیا

آدمی اختیار کے لمحے

توڑ دیتا ہے ضابطے کیا کیا

کام آیا غزل میں سوزِ دروں

سوچتا تھا میں قافیے کیا کیا

آج تنہا ہے کس قدر آصفؔ

دیکھتا تھا وہ آئنے کیا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کھول کر دیکھ باب آنکھوں کا

حسن ہے انتخاب آنکھوں کا

جھانکتا کوئی میری آنکھوں میں

یہ بھی تھا ایک خواب آنکھوں کا

خواب معدوم ہو گئے سارے

کون کرتا حساب آنکھوں کا

گل رُخوں کا حصار ہے ہر سو

ہر طرف ہے عذاب آنکھوں کا

جامِ جم سے نہیں ہے کم مایہ

اشکِ گریہ ہے آب آنکھوں کا

گنبدِ نیلگوں نہیں کچھ بھی

یہ فقط ہے سراب آنکھوں کا

شہرِ اُلفت کے آس پاس کہیں

بہہ رہا ہے چناب آنکھوں کا

وہ ملا ہے تو اور بھی آصفؔ

بڑھ گیا اضطراب آنکھوں کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

یاس اور تیرگی میں پلتا ہوں

لمحہ لمحہ دکھوں میں ڈھلتا ہوں

زیست میں اس قدر تغیر ہے

ہر گھڑی راستہ بدلتا ہوں

یہ ہے ردِعمل محبت کا

ہجر سہتا ہوں اور جلتا ہوں

زندگی راستہ نہیں دیتی

جب ترے خواب سے نکلتا ہوں

میرے اشکوں پہ کس کو حیرت ہے

درد رکھتا ہوں، سو پگھلتا ہوں

آج کل جاگتے میں بھی آصفؔ

خواب کی وادیوں میں چلتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آشیاں میں بھی آنکھ بھر آئی

کیا عجب تھی قفس کی تنہائی

کوئی کتنا ہی خوبصورت ہو

چھین لیتا ہے وقت رعنائی

زخم پھر ہو گئے ہرے دل کے

پھر محبت نے لی ہے انگڑائی

ایک دن وہ بھی آشنا نہ رہے

جن سے برسوں کی تھی شناسائی

جان بھی جا چکی محبت میں

کرنے آئے ہو اب مسیحائی

کون پہنچا ہے روح تک آصفؔ

کس نے دیکھی ہے دل کی گہرائی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایک دن طبع آزمائی کی

اپنے افکار سے لڑائی کی

وقت کٹنے کا تب ہوا احساس

جب گھڑی آ گئی جدائی کی

کوئی شکوہ بھی ہم سے کیا کرتا

ہم نے ہر ایک سے بھلائی کی

اشک روکے سے رُک نہیں سکتے

کیا عجب رسم ہے جدائی کی

بے خبر تھا میں کارِ دنیا سے

میری قدرت نے رہنمائی کی

ایک ہنگام ہو گیا برپا

میں نے جب بھی غزل سرائی کی

یہ اسیری بھی کب تلک آصفؔ

فکر کچھ تو کرو رہائی کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آ مری جاں ! کہاں بھٹکتا ہے

دل تری یاد میں دھڑکتا ہے

وہ تو بس آنکھ ہی جھپکتا ہے

کس لیے آئنہ چمکتا ہے

شام ہوتے ہی میرے آنگن میں

ہر طرف خوف آ ٹپکتا ہے

اک دیا شہرِ نا رسائی میں

آج بھی میری راہ تکتا ہے

پھول کھلتے ہیں آرزوؤں میں

باغ یونہی نہیں مہکتا ہے

شہر جب نفرتوں کی زد میں ہو

آدمی پیار کو ترستا ہے

کھو گیا ہے جو بھیڑ میں آصفؔ

دوسری بار مل بھی سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آدمیت کہاں ہے دنیا میں

زندگی رائگاں ہے دنیا میں

لوگ کتنے جہان سے گزرے

آج کس کا نشاں ہے دنیا میں

ایک ہی آدمی کا قصہ ہے

ایک ہی داستاں ہے دنیا میں

اپنی فطرت میں آپ ہوں یکتا

کون مجھ سا یہاں ہے دنیا میں

جانے کب لوٹ کر بہار آئے

ہر طرف اک خزاں ہے دنیا میں

روزِ اول سے آج تک برپا

نوحۂ رفتگاں ہے دنیا میں

کیا حقیقت وجود کی آصفؔ

سب فریب و گماں ہے دنیا میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ کبھی مہرباں نہیں ہوتے

اشک جب تک رواں نہیں ہوتے

رہرووں کو خبر نہیں شاید

دھوپ میں سائباں نہیں ہوتے

جب تلک آنکھ نم نہیں ہوتی

حرف شعلہ فشاں نہیں ہوتے

ہر نفس شعلہ بار ہوتا ہے

یونہی جذبے جواں نہیں ہوتے

کون کہتا ہے اہلِ دنیا سے

ہم سخن رفتگاں نہیں ہوتے

روز شہ سرخیوں میں رہتے ہیں

ہم کبھی داستاں نہیں ہوتے

کس طرح ہو علاجِ عشق آصفؔ

زخم دل کے عیاں نہیں ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

موجِ بے تاب جب چھلکتی ہے

دشتِ امکاں میں جا بھٹکتی ہے

جب امنگیں جوان ہوتی ہیں

زندگی روز و شب مہکتی ہے

عشق کرتا ہے کام جب اپنا

آگ دونوں طرف بھڑکتی ہے

کوئی مرہم تلک نہیں رکھتا

زندگی ہر گھڑی سسکتی ہے

وقت کے روزنوں سے اک خواہش

آج بھی میری راہ تکتی ہے

شکل اس خوبرو کی روز آصفؔ

میرے خوابوں میں آ ٹپکتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دشت و دریا سے ہے لگن مجھ کو

روز دیتے ہیں اک سخن مجھ کو

آبلہ پائی ہے مرا شیوہ

ریگِ صحرا ہے پیرہن مجھ کو

میں ہوں خلوت کدوں کا پروردہ

کیوں بلاتی ہے انجمن مجھ کو

میں محبت اجالنے والا

ڈھونڈتی ہے کرن کرن مجھ کو

یاد آتا ہے کتنی شدت سے

اپنا کھویا ہوا وطن مجھ کو

پھول کھلنے لگے سرابوں میں

دشت لگنے لگا چمن مجھ کو

آگے بڑھنے ہی کا جنوں آصفؔ

روز کرتا ہے موجزن مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نکل آئے ہو تم شریر سے کیا؟

بحث کرتے ہو پھر ضمیر سے کیا؟

ناقدانِ سخن خفا کیوں ہیں ؟

ہم کو نسبت نہیں ہے میر سے کیا؟

سانپ نفرت کا ڈس چکا سب کو

لگ کے بیٹھے ہو اب لکیر سے کیا؟

جو بھی دینا ہے، دان کر ڈالو

پوچھتے ہو بھلا فقیر سے کیا؟

اپنا ترکش ہٹا کے کہتے ہیں

جان جاتی ہے ایک تیر سے کیا؟

ہاں ! میاں ! جاؤ، راہ لو اپنی

تم کو لینا ہے اس حقیر سے کیا؟

گم ہیں اپنے جنوں میں ہم آصفؔ

ہم کو رانجھے سے کیا ہے، ہیر کیا؟

٭٭٭

 

 

 

 

خود کو صرفِ بہار کیا کرنا

پھول کو راز دار کیا کرنا

دل کی تسکین ہو نہیں سکتی

دل کسی پر نثار کیا کرنا

لوٹ کر کوئی بھی نہیں آتا

بے ثمر انتظار کیا کرنا

وہ جسے ترک کر دیا جائے

پھر اُسے اختیار کیا کرنا

تیرگی سے نباہ کر لیں گے

شمع پر انحصار کیا کرنا

دکھ ہمارا ہے، ہم ہی سہہ لیں گے

شہر کو سوگوار کیا کرنا

خواہشوں کی نہیں ہے حد کوئی

خواہشوں کو شمار کیا کرنا

ایک پل کی خبر نہیں آصفؔ

زندگانی سے پیار کیا کرنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم اگر اس کا سامنا کرتے

دل کی ہر بات آئنہ کرتے

تو نے دیوانگی میں دیکھے نہیں

خواب آنکھوں سے رابطہ کرتے

تو ہماری طلب تھا، منزل تھا

کس طرح ہم تجھے جدا کرتے

آپ آتے ہیں، لوٹ جاتے ہیں

سلسلے یوں نہیں بنا کرتے

کٹ گئی رات بھی صعوبت کی

اک ستارے کو رہنما کرتے

کب سے میں طاق میں پڑا ہوا تھا

آپ آتے مجھے دیا کرتے

اب ندامت کا فائدہ آصفؔ

سوچ کر آپ فیصلہ کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

رہ دکھاتا ہوں چشمِ بینا کو

دیکھ سکتا ہوں اپنے فردا کو

راستوں پر سکوت ہے طاری

آؤ رُخ موڑتے ہیں صحرا کو

آدمی وقت کے کناروں سے

دیکھتا ہی نہیں ہے دنیا کو

آخرش جا ملے گا ساگر میں

روک سکتا ہے کون دریا کو

ہر کسی پر جہاں نہیں کھلتا

آنکھ بھی چاہیے تماشا کو

جام چھلکا ہے میرے ہاتھوں میں

کس نے بخشا ہے رنگ صہبا کو

ایک تتلی اڑی فضاؤں میں

ایک رستہ ملا تمنا کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ مری راہ پر نہیں آیا

لاکھ چاہا، مگر نہیں آیا

منتظر کارگاہِ ہستی ہے

کوئی صاحب نظر نہیں آیا

زخم کس طرح مندمل ہوتے

ایک بھی چارہ گر نہیں آیا

کیا بتاتا کسی کو میں رستہ

کوئی بھی شخص اِدھر نہیں آیا

اک پرندہ اڑا تھا آنگن سے

آج تک لوٹ کر نہیں آیا

شہرِ خوباں کی خیر ہو آصفؔ

آج وہ بام پر نہیں آیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

خواب کی دنیا میں کھو کر

کچھ نہیں ملتا ہے سو کر

نخلِ دل پھلتا نہیں ہے

نفرتوں کے بیج بو کر

بے بسی کٹتی نہیں ہے

رات دن آنگن میں سو کر

وہ جو لکھا جا چکا ہو

حادثہ رہتا ہے ہو کر

سیکھتا ہے زندگی میں

آدمی کھا کھا کے ٹھوکر

وقت کے لمحوں کا آصفؔ

تھک گئے ہیں بوجھ ڈھو کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

مل رہے ہیں صبا کو سب جا کے

چوم آئی ہے اس کے لب جا کے

ہم نے روشن کیا ہے دل کا چراغ

سب نے دیکھا اجالا تب جا کے

جسم میں روح بھی نہیں باقی

دل کو آیا قرار اب جا کے

اس کی پہچان پوچھتے ہو کیا

دیکھ آئے ہیں اس کو سب جا کے

رتجگے وہ بھی کاٹتا ہو گا

دیکھنا ہے یہ ایک شب جا کے

سعیِ پیہم کے بعد ہی آصفؔ

زیست کرنے کا آیا ڈھب جا کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

حقیقت یار تک پہنچے

کوئی تو دار تک پہنچے

سبھی طوفاں سے الجھے ہیں

کوئی تو پار تک پہنچے !

یہ ممکن ہے، مرا سایہ

تری دیوار تک پہنچے

یہ کچھ کم تو نہیں جو، ہم

کسی معیار تک پہنچے

یہی تو ہے کمالِ فن

کہ یار اغیار تک پہنچے

کہیں ایسا نہ ہو قصہ

ترے ان کار تک پہنچے

ہو رخصت حبس کا موسم

ہوا اشجار تک پہنچے

ہمیں تھی امن کی خواہش

عدو تلوار تک پہنچے

کہیں ایسا نہ ہو آصفؔ

سخن تکرار تک پہنچے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جذبۂ عشق جوانی سے نکلتا کب ہے

اپنا کردار کہانی سے نکلتا کب ہے

موجِ خود سر بھی اُسے مات نہیں دے سکتی

چاند اُجلے ہوئے پانی سے نکلتا کب ہے

بعد مرنے کے بھی دنیا نہیں جینے دیتی

آدمی عالمِ فانی سے نکلتا کب ہے

آنکھ بھی محو ہے اُس قرب کی سرشاری میں

دل بھی اُس رات کی رانی سے نکلتا کب ہے

موج در موج نہاں ہے غمِ ہستی دل میں

درد اشکوں کی روانی سے نکلتا کب ہے

عشق اظہار تک آ جاتا ہے ورنہ، آصفؔ

شعر ترتیبِ معانی سے نکلتا کب ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عشق نے کیا کیا کام لیے ہیں ہم جیسے ناداروں سے

ـ”ـگلیوں گلیوں خوار پھرے ہم، سر مارے دیواروں سے ”

رفتہ رفتہ دور ہوئے جاتے ہیں اپنے پیاروں سے

یارو! ہم تو دور ہی اچھے درہموں اور دیناروں سے

جانے والوں کو تو مانا، اک دن چھوڑ کے جانا ہے

برسوں حسرت جھانکتی رہتی ہے گھر کی دیواروں سے

مہد سے لے کر لحد تلک ہم روپ بدلتے رہتے ہیں

اس دنیا میں ملتے ہیں ہم کتنے ہی کرداروں سے

دل کے تاروں کو جب کوئی آ کر چھیڑتا ہے آصفؔ

چشمے پھوٹنے لگ جاتے ہیں جیسے بس کہساروں سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تمام عمر رہا ہوں ٹھکانے سے باہر

بھری تھی جست کبھی آشیانے سے باہر

شکار کیسے کروں اپنے دل کے پنچھی کو

ابھی تلک ہے وہ میرے نشانے سے باہر

مزاج فہم نہیں تھا کوئی وہاں میرا

میں بزمِ عیش سے نکلا بہانے سے، باہر

دعا کرو، کوئی ہم کو نجات دے جائے

سنی ہے چاپ سی میں نے دہانے سے باہر

نگار خانۂ ہستی کی کیا حقیقت ہے

نکل کے دیکھیے اپنے فسانے سے باہر

قدم قدم مہ و انجم دکھائی دیتے ہیں

نکل گیا ہوں میں اپنے زمانے سے باہر

٭٭٭

 

 

 

 

 

جہاں کے لوگ ہیں بس آب و دانے سے واقف

کوئی نہیں ہے وفا کے خزانے سے واقف

ہجومِ خوش نظراں سے کلام میں نے کیا

نہیں تھا کوئی بھی میرے زمانے سے واقف

تمام عمر نبھانا پڑا ہے ساتھ اس کا

بنا رہا تھا جسے میں بہانے سے، واقف

تری گلی میں شب و روز آنے جانے سے

میں ہو گیا ہوں ترے ہر ٹھکانے سے واقف

میں کیسے مرکزی کردار کو بدل ڈالوں

تمام لوگ ہیں میرے فسانے سے واقف

تمام عمر قفس میں گزار آیا تھا

میں رفتہ رفتہ ہوا آشیانے سے واقف

٭٭٭

 

 

 

 

 

غمِ عاشقی نے رُلا دیا، مرے دل کا چین گنوا دیا

مرے ہم نفس ترے پیار نے، مرا درد اور بڑھا دیا

نہ کسی کی چاہ تھی روز و شب، نہ خیال ہجر و وصال کا

میں پڑا تھا بحرِ سکوت میں، مرا پیار کس نے جگا دیا

تری راہ میں تھے پڑے ہوئے، تری چاہ میں تھے کھڑے ہوئے

ترے جاں نثار ہمی تو تھے، جنہیں تو نے آج بھلا دیا

کبھی عہدِ اوجِ شباب میں تری ہمرہی میں چلا تھا میں

اِسی لُطفِ حسن و جمال نے مجھے شعر کہنا سکھا دیا

وہ جو عکس عکس تھی روشنی وہ خیال و خواب سی ہو گئی

شبِ ہجر یادوں کی انجمن کا چراغ کس نے بجھا دیا

میں پڑا تھا وقت کے طاق میں، گو رہا تھاگردشِ چاک میں

مرے کوزہ گر کو خبر نہ تھی، مرا نقش کس نے بنا دیا

کبھی آنسوؤں سے لپٹ گئے، کبھی خونِ دل میں نہا گئے

"رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا”ـ

٭٭٭

 

 

 

 

 

وصال موسم فراق رُت میں بدل گیا تو

جو اپنے ہاتھوں سے وقت یونہی نکل گیا تو

یہ کہہ رہے ہو وہ اپنے جذبات پر ہے قاد ر

مگر وہ کہسار برف کا بھی پگھل گیا تو

وفا پر اُس کی یقیں تو ہے، پر میں سوچتا ہوں

وہ عین لمحے ارادہ اپنا بدل گیا تو

یہ ٹھیک ہے پُر کشش بہت ہے زمیں تمہاری

مگر میں اپنے مدار ہی سے نکل گیا تو

خوشی کے لمحات مل ہی جائیں گے ہم کو آصفؔ

مصیبتوں کا یہ آخری دور ٹل گیا تو

٭٭٭

 

 

 

 

 

محبت میں کبھی خود کو سنبھالا جا نہیں سکتا

کسی کی یاد کو دل سے نکالا جا نہیں سکتا

محبت پر کسی بھی شخص کا کب زور چلتا ہے

سمندر خود اچھلتا ہے، اُچھالا جا نہیں سکتا

ہزاروں زخم کھا کر آئے ہیں شہرِتمنا سے

نیا غم کوئی بھی اب دل میں پالا جا نہیں سکتا

ارادہ تو نہیں تھا اُس کی ہمراہی میں چلنے کا

مگر وہ آ گیا ہے اب، تو ٹالا جا نہیں سکتا

وہ جس نے ناخدا کو بھی ڈبو ڈالا ہے طوفاں میں

اُسی کشتی کو پھر دریا میں ڈالا جا نہیں سکتا

تو اس کے ذکر سے آصف بہت پیچھا چھڑاتا ہے

دمِ آخر تلک اس کا حوالہ جا نہیں سکتا

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید