FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تیری سا دگی کے پیچھے

                   ڈاکٹر اسلم جمشید پوری

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

تیری سا دگی کے پیچھے

              ثانیہ خوشی سے بے قا بو ہو تے ہوئے اپنی سہیلی ثمرین سے لپٹ گئی۔

’’ارے….ارے….کیا ہو گیا….؟‘‘ ثمرین نے ثانیہ کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔

’’آج تو غضب ہو گیا……میری تو جیسے قسمت ہی جاگ اٹھی….‘‘ ثانیہ نے بے تحا شہ ثمرین کے ہاتھوں کو چومنا شروع کر دیا۔ ثمرین اس بے مو سم برسات سے گھبراتے ہوئے بو لی۔

’’یار کچھ بتائے گی بھی یا…….؟‘‘

’’ارے آج میں ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ اچا نک ایک چینل پر میرے آئیڈیل معروف فکشن نگار حشمت ضیاء کا انٹرویو آ رہا تھا۔ ‘‘ثانیہ کے چہرے پر خوشی کے رنگوں کا آنا جانا، اُ سے حسین بنا رہا تھا۔

’’دھت تیرے کی…..یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ میں سمجھی تو نے ٹاپ کیا ہے۔ ‘‘ثمرین کے لہجے کا جوش ختم ہو چکا تھا، جیسے آگ پر پانی کے چھینٹے مار دیے گئے ہوں ۔

’’تجھے پتہ ہے حشمت ضیاء کی عمر کیا ہے؟ وہ ساٹھ کے آس پاس ہیں ۔ ان کی شہرت کے سبب ہزاروں فین ہیں ان کے۔ تو کوئی روگ نہ پال لینا۔ ‘‘ثمرین نے سمجھ داری کا  مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔

’’ارے وہ بات نہیں ہے، جو تو سمجھ رہی ہے۔ مجھے کوئی پیار ویار نہیں ہوا ہے۔ میں تو ان کا بے حد احترام کرتی ہوں ۔ تجھے پتہ ہے مجھے ان کا انداز پسند ہے۔ کیا زبان لکھتے ہیں ۔ ابھی گذشتہ دنوں ’آج کل‘ میں ان کی کہانی ’’رشتوں کا کھوکھلا پن‘‘ شائع ہوئی تھی۔ کیا کہانی تھی یار….کتنی فنی مہارت سے کہانی کے تانے بانے بُنے تھے، لگتا تھا بَیا چڑیا نے تنکوں کو آ ڑا ترچھا ایک دوسرے میں پرو کر خوبصورت سا گھونسلہ بنایا ہو۔ کہانی پڑھتے جاؤ اور واقعات کے پیچ و خم میں گرفتار ہوتے جاؤ۔ آج کل کے ما حول پر کتنی عمدہ کہانی تھی۔ آج ہر طرف لڑ کیوں کو ہوش کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کیا باہر کیا گھر، عزیز، قرابت دار، خون کے رشتے تک اب اعتبار کے لائق نہیں رہے۔ حشمت ضیاء نے سگے ماموں کے ذریعے بھانجی کو ہوس کا نشانہ بنانے کی کہانی کو اس قدر فن کاری اور عمدہ زبان کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ قاری سحر زدہ ہو جاتا ہے۔ میں تو لرز اٹھی تھی۔ مجھے ایسے رشتہ داروں کی شکل میں موجود درندوں سے نفرت ہو گئی ہے۔ ‘‘

’’ہاں …….ہاں ……اب بس کر…..مجھے پتہ ہے ان کی یہ کہانی بہت مقبول ہوئی تھی۔ در اصل جو بھی سماج کی صحیح عکاسی کرتا ہے، اسے سب پسند کرتے ہیں ۔ تو کچھ زیادہ ہی ایکسائٹیڈ ہو رہی ہے۔ ‘‘

’’ثمرین….میں تو حشمت ضیاء کو اپنا آئیڈیل مانتی ہوں ۔ مجھے بھی کہانی کار بننا ہے۔ میں بھی سماج کی دکھتی ہوئی رگوں کو چھیڑوں گی اور ایسا درد آگیں نغمہ الا پوں گی کہ میری کہانی ہر کسی کی کہانی ہو گی۔ لڑکیوں پر ہو رہے ظلم و ستم کے خلاف مجھے آواز بلند کرنی ہے۔ مجھے مظلوم خواتین کا سہارا بننا ہے۔ حد ہو گئی ہے۔ جدھر دیکھو….عورتوں اور لڑکیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دہلی کی میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘ ثانیہ کے چہرے پر جوش، غصہ اور نفرت کے رنگوں کی آمیزش تھی۔

……………….

ثانیہ اور ثمرین دو سہیلیاں تھیں ۔ دونوں بی اے فرسٹ ائر کی طالبہ تھیں ۔ ثانیہ جذباتی قسم کی لڑ کی تھی۔ وہ عام زندگی گذارنے کے حق میں نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ خود کو دوسروں سے الگ رکھتی تھی۔ آج کے نو جوانوں کی طرح فلمی ہیرو ہیروئین یا کر کٹ اسٹارز کو اپنا آئیڈیل بنانے کے بجائے اس نے ادیب و فن کار کو اپنا آئیڈیل بنایا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ سماج میں تبدیلی، سوچ بدلنے سے آ سکتی ہے اور سوچ کو قلم سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ ایک ادیب یا مصنف بڑی آ ہستگی سے وہ سب کچھ کہہ جاتا ہے جو بڑے بڑے طاقت ور لوگ نہیں کہہ پاتے۔ ثمرین سیدھی سا دی زندگی گذا رنے وا لی عام سی لڑ کی تھی لیکن وہ بلا کی ذہین تھی۔ اس کا خیال تھا کہ تعلیم کے زمانے میں صرف تعلیم کے حصول پر توجہ صرف کر نی چاہیے، باقی باتیں بعد میں ۔ دونوں میں گہری دوستی تھی۔ دونوں ایک سا تھ ہی ہاسٹل میں رہا کرتی تھیں ۔ ثمرین، ثانیہ کی ادب نوا زی کے بارے میں جانتی تھی۔ اسے یہ بھی علم تھا کہ ثانیہ حشمت ضیاء کی بہت بڑی فین ہے۔ ان کے افسا نے اور ناول ثانیہ شوق سے پڑھتی تھی۔ یہی نہیں ان کے افسانوی مجموعے اور ناول خرید کر اپنے کمرے میں سجا رکھے تھے۔ اخبارات سے تراش تراش کر حشمت ضیاء کی تصاویر جمع کر کے اس نے اچھا خاصا البم بنا رکھا تھا۔

’’ہیلو……..‘‘ ثمرین کی کانپتی ہو ئی آواز ابھری

’’ ہیلو…..‘‘جی کون……؟

’’میں ……میں …..ثانیہ….. ثانیہ……بول رہی ہوں ……..‘‘

ثمرین نے بمشکل تمام حلق میں اٹک رہے جملوں کو آواز عطا کی۔ اس نے موبائل کا اسپیکر آن کر دیا تھا۔ ثانیہ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھیں ۔ برسوں سے جس کو دیکھنے اور سننے کی خواہش تھی، آج اس کی آواز سماعتوں سے ٹکرا ئی تو دل خوشی کے مارے قلانچیں بھر نے لگا۔

’’ جی…… ثانیہ صاحبہ……بتائیے…‘‘

’’میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں ….مجھے آپ کا قلم بہت پسند ہے۔ کیا انداز تحریر ہے؟

’’شکریہ…..ثانیہ صاحبہ….آپ کہاں رہتی ہیں ؟

’’ جی مراد آ باد….، کالج ہاسٹل میں ‘‘

’’ اوہ….آپ تو میرے ہی شہر کی ہیں ۔ میں ریلوے روڈ پر ہوں ۔ کبھی آئیے…….‘‘

’’ جی…… ضرور……. مجھے آپ کا ہر افسا نہ اچھی طرح یاد ہے۔ آپ نے’’ رشتوں کا کھوکھلا پن‘‘ میں بڑا کمال کیا ہے۔ ؟

’’بھئی واہ شکریہ! در اصل میں تو حقیقت کوہی کہانی میں ڈھالتا ہوں ۔ اب تو ہم بھی آپ کے منتظر رہیں گے۔ ‘‘

’’ مجھے تو زمانے سے آپ کو دیکھنے کا انتظار ہے۔ ‘‘

’’وقت ہو تو کل آ جائیے….حشمت ولا، ریلوے اسٹیشن کے پاس۔ ‘‘

’’ جی بہتر…..‘‘

……………….

ثانیہ بے حد خوش تھی۔ آج اس کی برسوں کی خواہش کی تکمیل ہو نے وا لی تھی۔ حشمت ضیاء اردو افسا نے کا ایک بڑا نام تھا۔ حشمت ضیاء کی آواز سن کر ثانیہ خو شی سے بے قابو ہوئی جا رہی تھی۔ اس نے حشمت ضیاء سے ملنے کی پو ری تیاری کی تھی۔ اپنا سب سے اچھا سوٹ زیب کر کے خود کو سنوارا تھا۔ اس نے ثمرین کو بھی اپنے ساتھ چلنے کو راضی کر لیا تھا۔

’’ ثمرین تم بھی چلو نا…….تم با ہر میرا انتظار کرنا، میں صرف 10؍ منٹ میں آ جاؤں گی۔ ‘‘ثمرین ثانیہ کا ساتھ نبھا تی رہی۔

دونوں ریلوے روڈ پر واقع حشمت ولا کے سا منے پہنچ گئی تھیں ۔ سڑک پر بہت ٹریفک تھا۔ سا منے ایک ٹرک کھڑا تھا۔ ثانیہ نے ثمرین کو با ہر ٹرک کے پاس انتظار کر نے کو کہا اور خود حشمت ولا پہنچ گئی۔ بیل بجا کر انتظار کر نے لگی۔ دروازہ کھلا۔

’’آپ…..‘‘ حشمت ضیاء خود دروازے پر تھے۔ ’’جی…میں ثانیہ۔ ‘‘ثانیہ مبہوت سی انہیں دیکھ رہی تھی۔ حشمت ضیاء لمبے قد کے خوبرو جوان لگ رہے تھے۔ با لوں کی سفیدی اور چہرے پر ہلکی ہلکی جھریاں عمر کا اعلان کر رہی تھیں ۔ رنگ کالا ضرور تھا مگر برا نہیں لگ رہا تھا۔

’’اندر آئیے!‘‘

’’ جی سر! ‘‘ ثانیہ، حشمت ضیاء کے پیچھے پیچھے ڈرائنگ روم میں پہنچ گئی تھی۔ بڑا شاندار گھر تھا۔ ثانیہ تو گھر کی اشیاء کو دیکھ کر حیران تھی۔ گویا کسی محل میں آ گئی ہو۔

’’آپ تشریف رکھیں ‘‘حشمت ضیاء اسے صوفے پر بٹھا کر اندر چلے گئے تھے۔ ثانیہ بہت خوش تھی۔ اس کے ذہن میں حشمت ضیاء کے افسا نے اور ناول یکے بعد دیگرے آ رہے تھے۔ حشمت ضیاء کے کردار ہمیشہ ظلم و نا انصافی کے خلاف جدو جہد کرتے ہیں ۔

’’لیجئے چائے، لیجئے…….‘‘ حشمت ضیاء کی آواز پر وہ گھبرا کر سوچتے سوچتے، ماضی سے حال میں آ گئی تھی۔

’’ آپ کیوں تکلیف کر رہے ہیں ؟ نو کر وغیرہ…….؟

’’نہیں ثانیہ صا حبہ آج میں گھر پر اکیلا ہوں ….‘‘

’’ اور سنا ئیں …….حشمت ضیاء چائے کا کپ لے کر صوفے پر اس کے قریب بیٹھ گئے تھے۔

’’جی……‘‘ ثانیہ دور ہو نا چاہ رہی تھی، وہ اٹھی ہی تھی کہ حشمت ضیاء نے اسے وہیں بٹھا دیا۔

’’ آپ بھی کمال کرتی ہیں ……چلئے بتائیں آپ کو میری کون سی تخلیق زیادہ پسند ہے۔ ‘‘ثانیہ حشمت ضیاء کے بے تکلف رویے پر حیرت زدہ تھی۔

’’ مجھے آپ کی زیادہ تر کہانیاں اور ناول پسند ہیں ۔ در اصل آپ کے کرداروں میں ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کا جو جذبہ ہے، اس نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے۔ ‘‘

’’آپ ریلیکس ہو کر بیٹھ جائیں ۔ اسے اپنا ہی گھر سمجھیں ، اب آپ میری فین ہیں ، کوئی غیر نہیں …..‘‘

یہ کہتے ہوئے حشمت ضیاء نے صوفے کی پشت پر ہاتھ رکھ کر پاؤں پھیلا دیے تھے۔ ثانیہ چونک پڑی تھی۔ خوف کی لہر اس کے بدن میں لہرا ئی تھی، مگر اس نے اپنے ڈر کو ظا ہر نہیں ہونے دیا۔ اسے اس کی چھٹی حس نے خطرے کا احساس کرا دیا تھا۔ وہ گھبرا رہی تھی۔ پو رے گھر میں وہ دونوں ہی تھے۔ اگر ایسے میں حشمت ضیاء…… وہ اس سے آگے نہیں سوچ پائی۔ نہیں ، نہیں ….حشمت ضیاء ایسے نہیں ہو سکتے، وہ تو بڑے فن کار ہیں …ابھی وہ خیالات کے آنگن میں ڈری، سہمی ٹہل ہی رہی تھی کہ ایک ہاتھ اس کی پشت سے چپک گیا۔ اس کے بدن کا خون جم گیا تھا گویا اس کی کمر پر کوئی بڑی سی چھپکلی چپک گئی ہو۔ ذہن میں آویزاں فرشتہ نما قد آدم، شیشے جیسے جسم میں شگاف پڑ گیا تھا۔ تحفظ کا احساس، رگ و پے میں سرایت کر گیا۔ اس سے تو ثمرین کو بھی ساتھ لے آ تی تو بہتر ہو تا۔ اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ اس سے قبل کے لمحے کے کسی بھی حصے میں پشت چپکا سانپ اس کے جسم سے لپٹ جاتا اور اپنی گرفت مضبوط کرتا، وہ بجلی کی سی سرعت سے صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی، پو رے جسم کی طاقت سمیٹ کر دوڑ پڑی۔ کالا ناگ بھی لہراتا ہوا اس کے پیچھے ہولیا۔ اس نے صدر دروازے کو پار کیا۔ با ہر آ گئی۔ سڑک کی دوسری جانب ٹرک کے پاس ثمرین کھڑی نظر آ ئی۔

’’ثمرین….ثمرین…..‘‘ وہ بد حوا سی میں چلا رہی تھی۔

ثمرین نے ثانیہ کی آواز پر گھبرا کر حشمت ولا کی جانب دیکھا۔ ایک کالا ناگ ثانیہ کا تعاقب کر رہا تھا۔ وہ دوڑ کر سڑک پار کرنا چاہتی تھی۔ دو سری جانب سے ثانیہ دوڑ رہی تھی۔ اسی لمحے اچانک ایک برق رفتار کار اپنا توا زن کھو بیٹھی اور دوسری جانب کھڑے ٹرک سے جا ٹکرا ئی۔ بہت زور دار دھماکہ ہوا۔ پھر یکے بعد دیگرے متعدد دھماکوں سے پو را علاقہ دہل اٹھا۔ ٹرک اور کار کے پرخچے اُڑ گئے تھے۔ آگ اور دھوئیں کے با دلوں نے پو رے علا قے کو گھیر لیا تھا۔ آس پاس کی دکانیں ، گاڑیاں وغیرہ نذر آتش ہو گئی تھیں ۔ چیخیں اور کرا ہیں فضا میں بلند ہو رہی تھیں ۔

آناً فاناًسائرن کے شور نے علا قے کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ پولیس نے پو رے علا قے کو سیل کر دیا تھا۔ لاشوں اور زخمیوں کو اٹھا یا جا رہا تھا۔ نیم مردہ ایک لڑ کی کو بھی پو لیس نے اپنی تحویل میں لیا تھا۔

………………

ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات میں خبروں کا بازار گرم ہو گیا تھا۔

 مراد آ باد میں خود کش بم دھما کے سے ریلوے روڈ لرز اٹھا۔

 دہشت گردوں کا ارادہ ریلوے اسٹیشن کو اڑانے کا تھا۔

 مشتبہ دہشت گرد تنظیم آئی ایم کی خا تون رکن نیم مردہ حالت میں گرفتار

………………

کئی ماہ بعد……….

معروف افسا نہ نگار حشمت ضیاء کی کہانی ’’دہشت گرد لڑکی‘‘ شائع ہو ئی جسے خاصی مقبولیت مل رہی تھی۔ اُدھر جیل میں بند ثانیہ نے آنکھیں کھول دی تھیں ۔ صبح کا اُجالا اندھیرے کو نگلنے کی تیاری کر رہا تھا۔

٭٭٭

 

دن کے اندھیرے، رات کے اجالے

   میں قبرستان ہوں ۔ آپ مجھے ضرور جانتے پہچانتے ہوں گے۔ کبھی نہ کبھی آپ ضرور یہاں آئے ہوں گے۔ آپ کسی جنازے کے ساتھ میرے احاطے میں آئے ہوں گے، شب برات میں تو ضرور کسی قبر پر فاتحہ پڑھنے یا چراغاں کرنے آئے ہوں گے۔ میری ویرانی کو دیکھ کر آپ کو ڈر بھی لگا ہو گا۔ موت یاد آئی ہو گی۔ آپ نے گناہوں سے توبہ کے لئے استغفار کیا ہو گا۔ لیکن مجھے پتہ ہے کہ مجھ سے دور ہونے پر آپ نے ساری قسمیں اور وعدے، توڑ ڈالے ہوں گے۔ کوئی بات نہیں ، یہ دنیا اور زندگی تو عمل کی جگہ ہے۔ آپ جیسا عمل کریں گے، بعد میں ویسا ہی اجر پائیں گے۔ ایک راز کی بات بتاؤں ۔ غور سے سننا۔ اچھا پہلے میں اپنا تفصیلی تعارف کرا دوں ۔ میں بلند شہر کے گاؤں دھنورا کا قبرستان ہوں ۔ میری عمر یہی کوئی ۴۰۰؍ سال ہو گی۔ ابھی کم عمری ہی میں ، میرا سینہ فخر سے بلند ہے کہ میرے سینے میں ہزاروں راز دفن ہیں ۔ میں گاؤں کے مغربی کنارے پر آباد ہوں ۔ ویسے تو میرا سینہ اندرونی طو پرمسلمانوں سے آباد ہے لیکن باہری سطح پر مسلم اور غیر مسلم دونوں نے میری ظاہری ویرانی کو کم کر رکھا ہے۔ صدیوں سے گاؤں کے لوگ میرے سینے پر مونگ دلتے۔۔۔ نہ۔۔۔ نا۔۔۔ میری زبان پھسل گئی، گاؤں کے لوگ اپنے روز مرہ کے کام کاج کرتے آرہے ہیں ۔ میں انہیں کھیلتا کودتا دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہوں کہ چلو کچھ دن کھیل لو، پھر تو میرے سینے میں ہی ہمیشگی کی زندگی گذارنی ہے۔

ہاں تو، لو آج میں تمھیں اپنی داستان سناتا ہوں ۔ غور سے سنو! کوئی درمیان میں نہیں بولے گا۔ جب تک میں خود ہی آپ کو مخاطب نہ کروں ۔

سبھی خاموش ہو گئے۔ زمین، آسمان۔ ہوائیں گھٹائیں ، چرند، پرند، انسان۔۔۔ سب خاموش اور ہمہ تن گوش ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

’’یو دوال میری لاش پر بنے گی۔ ‘‘

عزیز بھائی کی آواز پر پورا مجمع چونک کر انھیں دیکھنے لگا تھا۔ وہ غصہ سے آگ ببولا، اپنی دھوتی کو گھٹنے سے اوپر کئے۔ دیوار کی کھدی ہوئی بنیاد میں کھڑے تھے۔ ان کے تیور اور بزرگی کو دیکھتے ہوئے، بابوجی نے بھیڑ کو روکا، پھر پیچھے گھوم کر دیوار بنا رہے مزدوروں سے بولے۔

’’بھئی کام روک لو۔ ذرا دیر سانس لے لو۔ ‘‘

کام رک گیا تھا۔ سب حیرانی سے بنیاد کی نالی میں کھڑے عزیز بھائی کو دیکھ رہے تھے۔ دراصل دھنورا کے قبرستان کی چہار دیواری کا کام چل رہا تھا۔ زمانے سے قبرستان کی اراضی یوں ہی پڑی تھی۔ ایک کونے میں قبریں بنائی جاتیں ، برسوں بعد دوسرے کونے کی باری آتی۔ قبرستان کی زمین دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ قبریں بہت کم تھیں ۔ زیادہ تر قبریں کچی مٹی کی تھیں اسی لئے جلد برابر ہو جاتی تھیں ۔ قبرستان میں صرف ایک پختہ قبر تھی۔ یہ گاؤں کے منشی سجادحسین کی قبر تھی۔ سنا ہے کہ بہت پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ پاس کے قصبہ کے اسکول میں مدرس تھے۔ بڑے نیک دل اور خدا ترس انسان تھے۔ بے شمار شاگردوں کو پڑھا لکھا کر زندگی گذارنے کے لائق بنا دیا۔ ان کی قبر کے چاروں طرف نو؍ انچ کی اینٹوں کی دیوار تھی اور ایک طرف لوہے کا گیٹ لگا تھا۔ اندر بیلا کے پیڑ تھے۔ جن پر بارہ مہینے سفید پھول کھلا کرتے تھے۔ لوگ صبح صبح قبرستان آتے تو منشی جی کی قبر سے پھول ضرور لے کر جاتے۔ قبرستان، دھنورا کے لوگوں کے دلوں کی طرح کشادہ تھا۔ قبرستان میں لوگوں نے اپنے اپنے بونگے، بٹورے، کوڑیاں بنا رکھی تھیں قبرستان مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے بھی استعمال میں آتا تھا۔ بیساکھ آتا تو گیہوں کی پولیوں کے انبار قبرستان میں ہر طرف دکھائی دیتے۔ کیا ہندو، کیا مسلمان۔ سب کے لانک(فصل کے انبار) قبرستان میں رکھے جاتے۔ پہلے تو بیلوں سے لانک سے گیہوں نکلوانے کا کام کیا جاتا تھا۔ کئی کئی دن کی دائیں (بیلوں کے ذریعہ اناج نکالنے کا عمل) کے بعد بیلوں کے پیروں سے گیہوں کی سوکھی پولیوں کا چورا ہو جاتا تھا پھر اسے تیز ہوا کے رخ پر برساکر بھس اور گیہوں کو الگ کیا جاتا۔ قبرستان کے پورب میں گاؤں کے گڈریے رہتے تھے، اتر کی طرف دگڑا (کچا راستہ) اور اس کے بعد مسلمان لوہار، بڑھیوں کے مکان تھے۔ دکھن کی طرف گوجروں کے کھیت تھے۔ جبکہ پچھم کی طرف گسائیوں آباد تھے۔ صدیوں سے قبرستان گاؤں کی خوشحالی کا ذریعہ بنا ہوا تھا۔ کسی کی موت ہوتی تو ضرور غم کا ماحول چھا جاتا۔ خود ہی قبر کھودتے اور مردے دفناتے۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ لیکن خدا سیاست دانوں کو غارت کرے۔ فرقہ پرستی کا ایسا زہر گھولا کہ نفرتوں کی فصل ہر طرف لہلہانے لگی۔ صدیوں سے آپسی میل جول سے رہتے آرہے گاؤں کے سیدھے سچے لوگوں میں بھی نفرت، خوف ڈر، دہشت، مذہبی جنون اور فرقہ پرستی کے سنپولیے پلنے لگے۔

’’بابوجی اب کیا ہوئے گو؟‘‘

کنور پال نے بابوجی کو آواز لگائی تو وہ خیالات کے دھندلکے سے باہر آئے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے عزیز بھائی کی طرف بڑھے۔ ان کے پیچھے پیچھے چاچا ملکھان، سری گر چاچا، رام چندر کے علاوہ دس بارہ ہٹے کٹے نوجوان لاٹھی بلم لیے ساتھ ہو لیے۔ رام چندر نے لاٹھی کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے بڑے غصے سے کہا۔

’’بابو جی۔ آپ اک اور کو ہو جاؤ۔ میں ابھی گرا دن گو، یا کی لاش۔۔۔۔۔۔ دوا ل تو بن کر رے گی۔ ‘‘

ایک ہاتھ سے رام پال کی لاٹھی پکڑتے ہوئے بابوجی نے رام پال کو ڈانٹا۔

’’پاگل نہ بنو۔ خون خرابے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ ‘‘پھر وہ عزیز بھائی سے مخاطب ہوئے۔

’’ہاں بھئی کیا بات ہے؟ جب تمہیں سمجھا دیا تھا تو پھر کیا آفت آ گئی۔ دیکھو یہ قبرستان کا کام ہے۔ ثواب کے بدلے میں گناہ نہ کما۔ ‘‘

عزیز بھائی اب بھی بنیاد کی نالی میں کھڑے تھے۔

’’پہلے میری کوڑی کو کوئی انتجام کرو۔ جب بنن دن گو۔ ‘‘

عزیز بھائی کی بات پر ایسے اور بھی مسلمان سامنے آ گئے تھے جن کے کام قبرستان میں ہوا کرتے تھے۔ غریب مسلمانوں کے پاس تھوڑی سی زمینیں تھیں ۔ کچھ دوسروں کے کھیتوں پر کام کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ چہار دیواری نہ ہونے سے قبرستان کی زمین سب کا سہارا بنی ہوئی تھی۔ دو بٹیا بھی قبرستان کے بیچوں بیچ سے گذرتی تھیں ۔ شادی بیاہ ہوتے تو قبرستان کی زمین کا استعمال کیا جاتا۔

گاؤں دھنورا ضلع بلند شہر کا ایک ہندو اکثریتی گاؤں تھا۔ یوں تو گاؤں میں گوجر، گسائیں ، گڈریے، ہریجن، ٹھاکر، شیخ، لوہار، بڑھئی، دھوبی سبھی رہتے تھے لیکن گاؤں میں گوجروں کا دبدبہ تھا۔ ایک تو گوجر تعداد میں زیادہ تھے دوسرے مال و دولت، زمین جائیداد کے معاملے میں وہ دوسری قوموں سے کہیں آگے تھے۔ اسی سبب دھنورا، آس پاس کے علاقے میں گوجروں کے گاؤں کے نام سے بھی مشہور تھا۔

دھنورا میں مسلمان کم تعداد میں تھے۔ یہاں کے آبائی مسلم باشندے شیخ، لوہار اور بڑھئی تھے۔ شیخ خاندان کے لوگ سوانگ، نوٹنکی، گانے بجائے اور حقہ کے نہچے بنانے کا کام کرتے تھے۔ جبکہ لوہار اور بڑھئی گاؤں والوں کے کھیتی کے اوزار اور روز مرہ کے سامان بناتے تھے۔ یہ کام دو طرح کی اجرت پر ہوتے تھے۔ زیادہ تر کسان سال بھر اپنا سامان بنواتے اور فصل کے وقت دو من یا چار من اناج بطور اجرت دیا کرتے۔ اناج کے علاوہ بھس، ہرا چارہ، اور دیگر سامان بھی کسان کبھی کبھار بھیج دیا کرتے تھے۔ دوسرے چھوٹے موٹے کام، بہت سے لوگ نقد بنوا لیتے۔ جن کے بدلے فوری طور پر اناج یا کوئی دوسرا سامان دے جاتے۔

گاؤں میں آپسی میل جول بہت تھا۔ صدیوں سے ہندو مسلم شیر و شکر کی طرح رہتے آئے تھے۔ شادی بیاہ میں ایسی شرکت کرتے کہ لگتا ہی نہیں دو ہیں ۔ گاؤں کے دامادوں کی یکساں خاطر ہوتی۔ مسلمانوں کی بیٹی اور داماد آتے تو غیر مسلم اپنے بیٹی داماد جیسا سلوک کرتے۔ مسلمان کسی گاؤں میں جاتے تو وہاں گاؤں کی بیاہی بہن۔ بیٹی کو تحفے اور نذرانے دے کر آتے۔ بچے گاؤں کے سبھی بڑوں کو چاچا، تاؤ، بابا کہہ کر پکارتے۔ گاؤں میں کسی کے ایکھ بونے کا وقت ہو تاتو پورے گاؤں میں چہل پہل ہوتی۔ کچھ دن قبل ہی کی بات ہے ترکھا بابا کے یہاں ایکھ بوئی جانے والی تھی۔ ایک دن پہلے ہی گاؤں میں خبر کر دی گئی۔

’’بھئی کل، باگ والے کھیت میں ایکھ بووئے گی۔ جرور آئیو۔ ‘‘

اور اگلے دن صبح صبح بابا ترکھا کے کھیت پر خاصی بھیڑ موجود تھی، کئی لوگ مل کر گانڈے (گنے) کے ایک ایک فٹ کے ٹکڑے، بیج کیلئے کاٹ کر ڈھیر لگا رہے تھے۔ بیلوں کی چار جوڑیاں کھیت جوت رہی تھیں ۔ ان کے پیچھے پیچھے چار لوگ گانڈے کے ٹکڑے ڈالتے اور پیر سے دابتے چلے جاتے۔ کچھ لوگ گانڈے کے ڈھیر سے، ایکھ بونے والوں کو گانڈے لا لا کر دے رہے تھے۔ چار بیگھہ کھیت میں ایکھ بونے کا کام دس بجے تک پورا ہو گیا تھا۔ آخر میں کھیت میں بکھرے کوڑ کباڑ اور اوزاروں کو اکٹھا کیا گیا۔ اتنے میں ترکھا بابا کی آواز گونجی۔

’’سب گھر چلن گے۔ کھیر پوری کی دعوت ہے۔ ‘‘

بس پھر کیا تھا۔ بچے بوڑھے مرد عورتیں سب اپنا اپنا سامان سمیٹ کر گاؤں کی طرف چل پڑے۔ ترکھابابا کے گھر ایک دن پہلے ہی سے ایکھ کی دعوت کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں ۔ کئی گھروں سے دودھ، رات ہی میں جمع کر لیا گیا تھا۔ صبح صبح گاؤں کی عورتیں اور ترکھا بابا کی بہویں کھیر اور پوری کی تیاری میں لگ گئی تھیں ۔ بیٹھک کی زمین کو ایک دن پہلے ہی گوبر اور مٹی سے اچھی طرح لیپ دیا گیا تھا۔ بیٹھک کا فرش ایسا لگ رہا تھا گویا پورے فرش پر سونے کا پانی چڑھا دیا گیا ہو۔ جلد جلدی لوگ آمنے سامنے قطاروں میں اکڑوں بیٹھ گئے تھے۔ تھوڑی دیر میں کھانا کھلانے والے آ گئے تھے۔ کوئی پتل بچھا رہا تھا۔ کوئی بالٹی سے کھیر نکال کر پتل پر انڈیل رہا تھا۔ اس کے پیچھے پوریاں دینے والے تھے۔ مٹی کے سکوروں میں پانی رکھ دیا گیا تھا۔

بابوجی کی گرج دار آواز سنائی دی۔

’’جس کے پاس نہ آیا ہو وہ مانگ لے۔ باقی پڑھو بسم اللہ۔ ‘‘

سب نے کھانا شروع کر دیا تھا۔ یہ نظارہ شادی کے کھانوں کے وقت بھی نظر آتا تھا۔

گاؤں میں کسی ہندو کی موت ہو جاتی تو مسلمان ہندو سب مل کر ارتھی تیار کرتے اور کاندھا دیتے ہوئے شمشان گھاٹ جاتے۔ عجیب اتفاق تھا کہ گاؤں میں شمشان گھاٹ کی زمین پر آس پاس کے ہندوؤں نے ہی آہستہ آہستہ قبضہ کر لیا تھا۔ اب کھڑنجے پر انتم سنسکار ہوا کرتا تھا۔ بہت کوششوں کے بعد بھی شمشان کی زمین نہیں مل پائی تھی۔ گاؤں میں دو مندر تھے، مسجد نہیں تھی۔ لیکن قبرستان بہت پہلے سے تھا۔ کسی مسلم کی موت ہوتی تو ہندو مسلم مل کر قبر کھودتے۔ قبرستان کے ہی درختوں کی موٹی شاخیں کاٹی جاتیں ، ان کے موٹے موٹے ٹکڑوں کو میت کے اوپر قبر کے بگدے میں لگایا جاتا، پھر گھاس پھوس سے لکڑیوں کے درمیان کی درج کو بھرا جاتا اور مٹی ڈالی جاتی۔ سرہانے کسی سائے دار پیڑ کی ٹہنی لگا دی جاتی۔

۔۔۔۔۔۔۔

قبرستان کی چہار دیواری کا سلسلہ بابوجی نے اٹھایا تھا۔ اس کی دو وجوہات تھیں ۔ ایک تو ملک کا ماحول خراب ہوتا جارہا تھا، ایسے میں قبرستانوں اور مساجد کی حفاظت بہت ضروری ہو گئی تھی۔ دوسرے قبرستان کے دکھن میں گوجروں کے کھیت تھے۔ جن میں کئی نے اپنے گھیر اور گھر بنانا شروع کر دئے تھے۔ اس بات کا خطرہ بڑھ گیا تھا کہ دکھن کی طرف سے آہستہ آہستہ قبرستان سکڑنے نہ لگے۔ لیکن قبرستان کی چہار دیواری کی بات پر گاؤں میں نئی قسم کی ہلچل شرو ہو گئی تھی۔ کچھ مسلمانوں نے ہی اس کی مخالفت شروع کر دی تھی۔ گاؤں کے بزرگ اور سمجھدار مسلمانوں کو بابوجی نے اس بات کی اہمیت سمجھائی۔

’’دیکھو بھئی۔۔۔ ملک کے حالات روز بروز بگڑ تے جا رہے ہیں ۔ ہندو مسلم منافرت پھیلتی جا رہی ہے۔ گاؤں میں تو خیر ہمیں کوئی خطرہ نہیں ۔ پھر بھی قبرستان کو آگے تک بچانا ہے تو اس کی چار دیواری کرانی ہو گی۔ ‘‘

’’بات تو سہی کہو ہو بابوجی۔ ‘ بابا بشیر بولے۔

’’دھرم ویرنے قبرستان کی پلی اور اپنا گھیر بھی بنوا لیو ہے۔ موئے تو واکی نیت پر شک ہوے ہے۔ ‘‘ چاچا نثار دور کی کوڑی لائے تھے۔

’’ٹھیک ہے تو یا کام کو جلد شروع کرواؤ باؤجی۔ ‘‘ نئی عمر کے مشتاق بھائی نے جوش میں آتے ہوئے کہا۔

بابوجی گاؤں کے پہلے ایسے شخص تھے جنہوں نے دسویں پاس کی تھی، ہندی کے ساتھ ساتھ اردو بھی جانتے تھے۔ وہ دور شہر میں چالیس برس نوکری کرنے کے بعد اب گاوءں میں رہنے لگے تھے۔ ان کے بیٹے بھی دلی میں اپنے اپنے پیروں پر کھڑے تھے۔ بابوجی ہر وقت گاؤں کی خدمت میں لگے رہتے۔ زمین کی پیمائش کا کام تو بابوجی کے علاوہ کوئی نہیں کرپا تا تھا۔ ادھر بابوجی نے انجکشن لگانا بھی سیکھ لیا تھا۔ اب وہ گاؤں کے بیماروں کے انجکشن بھی لگا دیا کرتے تھے۔ لڑائی جھگڑوں کے فیصلے کے لئے گاؤں والے بابوجی کے پاس ہی جاتے۔ سب ان کے فیصلے کا احترام کرتے تھے۔ وہ بہت دور رس تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد انھیں محسوس ہونے لگا تھا کہ دراصل نئی نسل کے ذہنوں کو سیاسی جماعت والے جلدی متاثر کر لیتے ہیں ۔ ویسے تو گاؤں میں ماحول ٹھیک ہی تھا لیکن مستقبل کا کیا پتہ۔ بابوجی نے حکمت سے گاؤں کے ہندوؤں کو بھی قبرستان کی چار دیواری کے لئے تیار کر لیا تھا۔ بلکہ ان میں سے کئی تو اس کام کے لئے ہر وقت بابوجی کے ساتھ تھے۔ انہوں نے قبرستان کا استعمال کرنے والے ناراض ہندوؤں کو بھی قبرستان خالی کرنے کے لئے راضی کر لیا تھا۔ لیکن معاملہ اس وقت بہت نازک ہو گیا تھا جب قبرستان کا ذاتی استعمال کرنے والے کچھ مسلمانوں نے قبرستان خالی کرنے سے بالکل انکار کر دیا تھا۔

’’باؤجی۔۔۔ کچھ بھی ہو جائے ہم چار دواری نہ بنن دن گے۔ ‘‘ عزیز بھائی نے بابوجی سے انتہائی غصہ کی حالت میں کہا۔

’’ہم اپنے جانور کہاں باندھیں گے؟ کوڑی کہاں ڈلے گی؟ ناج کہاں نکلے گو؟‘‘

’’ہاں ہاں عزیز بھائی۔ میں بھی تمہارے سنگ ہوں ۔ ‘‘ الیاس بیچ میں ہی بول پڑا۔

پھر تو کئی آوازیں ایک ساتھ مخالفت میں بلند ہونے لگی تھیں ۔ بابوجی کو اپنی محنت پر پانی پھرتا دکھائی دیا۔ انہوں نے ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی۔

’’بھئی دیکھو۔ یہ کوئی میرا ذاتی کام تو نہیں ۔ یہ تو ثواب کا کام ہے۔ خود سوچو ہم برسوں سے قبرستان کی بے حرمتی کرتے آرہے ہیں ۔ یہاں ہمارے بزرگ دفن ہیں اور ہم قبروں پر نہ صرف چلتے پھرتے ہیں بلکہ جانور گندگی بھی کرتے ہیں ۔ موت تو برحق ہے۔ سب کو آنی ہے۔ قبرستان نہیں رہے گا تو دفن کے لئے کہاں جاؤ گے؟ سمشان گھاٹ کے بغیر مردے سڑک پر جلائے جا سکتے ہیں لیکن قبرستان کے بغیر۔۔۔۔۔۔ ؟ ‘‘

۔۔۔۔۔

آواز رک گئی تھی۔ خاموشی۔۔۔۔۔۔ ہر طرف خاموشی۔

سناٹا طویل ہوتا گیا تھا۔ اس سے قبل کہ چہ مے گوئیاں شروع ہوتیں ، قصہ گو کی آواز پھر بلند ہوئی۔

’’داستان درمیان میں روکنے کا بھی ایک سبب ہے۔

میں کئی صدی سے اس گاؤں میں آباد ہوں ۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ پہلے لوگ میرے نام سے ہی ڈرتے تھے۔ میرے آس پاس کوئی آبادی نہیں تھی۔ ویرانی، وحشت، خاموشی، تنہائی، سناٹے میرے گہرے دوست ہوا کرتے تھے۔ میں ان کے ساتھ بہت خوش تھا۔ کوئی قبر کھودی جاتی تو مجھے مسرت کا احساس ہوتا۔ جنازہ لئے جب لوگ میرے دامن میں آتے، مجھے خوشی ہوتی، ہر طرف سے لا ا لٰہ الا اللہ اور اللہ اکبر کے کلمات بلند ہوتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے گئے۔ گاؤں میں امیبا کی طرح جب خاندان بڑھنے لگے تو مکانات، قدموں قدموں ، چلتے گاؤں کے باہر بھی نکل آئے تھے۔ میرے آس پاس بھی گھر آباد ہونے لگے۔ ہندو اور مسلم دونوں نے اپنی زندگی آمیز حرکات و سکنات سے میرے احباب ویرانی، وحشت، خاموشی، تنہائی اور سناٹے کو یکے بعد دیگرے اپنی موت آپ مرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ لوگو ں نے میرے اوپر سے راستے بنا لیے۔ اپنے بونگے، بٹورے، کوڑی بنانا اور دوسرے کام شروع کر دئے۔ جانور باندھے جانے لگے۔ کھیت سے فصل کٹتی اور میرے اوپر کھلیان بنائے جاتے۔ حتی کہ شادی بیاہ میں بھی میرا استعمال ہونے لگا۔ میں کیا کرتا؟ کس سے شکایت کرتا؟ ان سب کے باوجود مجھے سب سے اچھا گاؤں کا اتفاق و اتحاد لگتا تھا۔ میں اپنی بے عزتی بے حرمتی اور پامالی پر خون کے گھونٹ پی کر یہی سوچتا رہ جاتا کہ خدا نہیں کبھی تو عقل و فہم دے گا اور انہیں کبھی تو میرا خیال آئے گا۔

سنو! ذرا غور سے سنو!

میری داستان میں اب عروج آنے والا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

’’ہمیں کچھ نہ پتو، جب مرن گے جب دیکھن گے۔ ‘‘

عزیز بھائی اپنے موقف پر اٹل تھے۔ بابوجی کے سمجھانے سے بہت سے مخالفین مان گئے تھے لیکن دیوار کے سلسلہ میں کوئی چندہ یا مدد دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بابوجی نے گاؤں اور شہروں سے چندہ جمع کر کے اینٹیں منگوا لی تھیں ۔ سیمنٹ بھی آ گیا تھا۔ پوری تیاریاں ہونے کے بعد چہار دیواری کے لئے جمعہ کا دن منتخب ہوا تھا۔ گاؤں کے سمجھ دار قسم کے ہندو بھی بابوجی کے ساتھ تھے۔

’’باؤجی آپ پھکر نہ کرو۔ کام جوڑو۔ پھر دیکھن گے کس میں کتنو دم ہے۔ ‘‘

’’چار دیواری کا کام دکھن کی طرف سے شروع ہو گیا تھا۔ جہاں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔ لیکن گاؤں میں آہستہ آہستہ افواہیں گرم تھیں کہ عزیز بھائی اور ان کے بیٹے بلم اور کٹے وغیرہ کا انتظام کر رہے ہیں ، ان کے گھر کے سامنے خون خرابہ ہو سکتا ہے۔

بابوجی اور عزیز بھائی ایک ہی خاندان کے افراد تھے۔ دو بھائیوں کی اولادیں تھیں ۔ بڑے بھائی کے پانچ اور چھوٹے کے تین بیٹے تھے۔ بڑے بھائی کے پانچوں بیٹوں کے بیٹے، پوتے، پو تیاں تقریباً پچاس لوگوں کا کنبہ تھا جو قبرستان کی مخالفت پر آمادہ عزیز بھائی کا طرف دار ہوسکتا تھا۔ سب ایک ہی تھے۔ ایک ساتھ کھاتے پیتے۔ کام کرتے۔ بڑا سا آنگن تھا جس کے چاروں طرف مکانات تھے۔ ہر کام ایک ساتھ۔ دانت کاٹی روٹی، ایک اپنے گھر کھانا کھاتا تو بابوجی کے یہاں پانی پیتا۔ رشتہ داریوں میں جاتے تو بابوجی خود بڑھ کر سب کا کرایہ ادا کرتے۔ کوئی معاملہ الجھ جاتا تو بابوجی منٹوں میں سلجھا دیتے۔ دور دور تک لوگ بابوجی کو احترام کی نظر سے دیکھتے۔ بابوجی کہہ کر پکارتے۔

ایک بار کا ذکر ہے۔ قبرستان اور دگڑے کے بیچ میں ایک کوئیاں تھی۔ چھوٹی سی کوئیاں ۔ بیس بائیس فٹ گہری اور چار فٹ گولائی والی۔ کوئیاں کی صفائی چل رہی تھی کہ اچانک بابا صدیق کا بڑا بیٹا اختر نجانے کیسے کوئیاں میں گر پڑا۔ پاس ہی بابوجی کھڑے تھے۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ خود کوئیاں میں چھلانگ لگا دی اور اس سے قبل کہ کوئیاں کا پانی بچے کو نقصان پہنچاتا، بابوجی نے بچے کو بچا لیا۔ بعد میں اوپر سے ٹوکرا، رسی سے باندھ کر لٹکایا گیا اور بچے کو صحیح سلامت نکالا گیا۔ سب نے بابوجی کی بہت تعریف کی تھی۔ ایسے سینکڑوں معاملات و واقعات تھے جب بابوجی نے اپنی عزت داؤ پر لگا کر گاؤں کی عزت بچائی تھی۔ بڑے بابا کے بچوں کا بٹوارہ ہوا تو بابا صدیق کو انھوں نے زمین جائیداد سے الگ کر دیا تھا۔ اس وقت بابا صدیق گاؤں چھوڑ کر جانے کو تیار تھے۔

’’میں تو گاؤں چھوڈ کر جارا اوں ۔ ‘‘

بابا صدیق کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اسمٰعیل بابا نے بہت سمجھایا تھا۔ لیکن وہ کسی قیمت پر رکنے کو تیار نہ تھے۔ ایسے میں بابوجی نے اپنی قربانی دے کر معاملے کو سنبھالا تھا۔

’’صدیق بھائی تم گاؤں نہیں چھوڑ و گے۔ زمین کی ہی بات ہے نا۔ لومیرے حصے کی اس زمین میں گھر بنالو۔ ‘‘ اور انہوں نے اپنے حصے کی زمین پر بابا صدیق کا گھر بنوایا دیا تھا۔

قبرستان کی چار دیواری کے معاملے کو تین سال ہو گئے تھے۔ پتھر کی سلوں کی طرح مضبوط و مستحکم دلوں میں شگاف پڑ گئے تھے۔ ذاتی مفاد، تعلقات کی زمین کھود رہے تھے۔ لیکن کہتے ہیں نا ہوتا وہی ہے جو قدت کو منظور ہوتا ہے۔ عزیز بھائی کو لاکھ سمجھایا گیا لیکن وہ نہیں مانے۔

’’نا میں نا بنن دن گو۔۔۔ ‘‘

گاؤں کے غیر مسلم بزرگوں اور نوجوانوں نے عزیز بھائی کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور مزدوروں نے جلدی جلدی دیوار چن دی تھی۔ کچھ دیر بعد عزیز بھائی نے بھی ہارے ہوئے جواری کی طرح سپر ڈال دی تھی۔ انہیں اپنی شکست کا اتنا زبردست صدمہ پہنچا تھا کہ انہوں نے چار پائی پکڑ لی تھی اور کچھ دن بعد چار پائی نے ڈولے کی شکل اختیار کر لی۔ ان کی وصیت کے مطابق انہیں اپنے کھیت کے ایک کونے میں دفنایا گیا۔ آپسی محبتیں نفرتوں ، بغض و عداوت اور دشمنی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ وقت کے ساتھ سب کچھ بدلتا چلا گیا۔ چہار دیواری کرانے والے بزرگ اللہ کے یہاں چلے گئے تھے اور ان کی اولادیں زیادہ تر شہروں میں جا بسی تھیں ۔ اُدھر عزیز بھائی کے کھیت کا کونا وسیع ہو تا گیا……… اور……….

آواز بند ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔

خاموشی نے مارشل لا لگا دیا تھا۔

اچانک کسی کے سسکنے کی آواز بلند ہوئی۔

میں ۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ پھر ویران ہو گیا ہوں ۔

اب یہاں کوئی نہیں آتا۔ کوئی میرے آنسو پونچھنے والا بھی نہیں ۔

جنازے میرے پاس سے گزر کر کھیتوں والے علاقے کو آباد کرتے ہیں میرے دامن کی قبریں اپنا ظاہری وجود بھی کھو چکی ہیں ۔ چار دیواری کی اینٹیں لوگ حسبِ ضرورت اپنے گھروں میں لے جا چکے ہیں ۔ میں ایک چٹیل میدان ہو گیا ہوں ۔ کبھی کبھار بچے کرکٹ کھیلنے آ جاتے ہیں ۔ میری شناخت ختم ہو گئی ہے۔ شاید یہ میرا آخری وقت ہے۔ ہر شئے کو موت آتی ہے۔ لیکن شاید مجھے آسانی سے موت نہیں آئے گی۔ وقت ابھی پورا نہیں ہوا ہے مجھے انتظار ہے، خاندان کے اس وسیع عریض آنگن والے مکان میں اٹھنے والی دیواروں کی طرح اپنے قریے اور خطے میں اگنے والی دیواروں کا۔ جب مجھے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے بلند و بالا عمارتوں کی آماجگاہ بنادیا جائے گا۔ وہ شاید میری داستان کا آخری صفحہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔

مرکزی حکومت کے منصوبے کے مطابق این سی آر میں آس پاس کے علاقے کو شامل کرتے ہی خالی پڑی زمینوں کی قسمت جاگ اٹھی۔ صدیوں سے مردہ پڑی دھنورا قبرستان کی زمین، آس پاس کی زمینوں کے ساتھ ایک بڑے Power Plant کے لئے منتخب کی جا چکی تھی۔ اندھیرے دن کے اجالے میں ضم ہو کر رات کی کوکھ سے نئی روشنی کی شکل میں نمودار ہو رہے تھے۔

٭٭٭

 

اے میرے قلم!

   اے میرے قلم، تم کہاں ہو۔۔ ؟

دوات نے ایک آہِ سرد بھر کر قلم کو یاد کیا۔

’’ میں تمھاری دوات ہوں ، تمھارے بغیر نا مکمل۔۔۔۔،

بلکہ ہم دونوں کی تخلیق ایک دوسرے کے لئے ہی ہوئی ہے تا کہ۔۔۔۔ ‘‘

۔۔۔۔۔۔

اے قلم، اب تو آ جاؤ، کہاں ہو تم ؟

آؤ مجھ میں ڈوب جاؤ

ابھرو اور پھر ڈوب جاؤ

آؤ، میرے قلم آؤ

ہمارا وصال، وجہِ تخلیق ہے۔

وجودِ ازل و ابد ہے۔

تصویرِ کائنات میں رنگ و بو ہے۔

تخلیق، زندگی

تخلیق، زندگی کا نگار خانہ

تخلیق، نفوس کی شرح میں اضافہ

نفوس کا جمِ غفیر کائنات کے حسن کا باعث ہے۔

۔۔۔۔۔۔

یہ سب!!!

اے میرے قلم تمھارے بغیر نا ممکن ہے۔

آ جاؤ، مجھ میں سما جاؤ

اور تحریر کی، تخلیق کی، شروعات کرو

کہ لفظِ کن کی صدا بلند ہو نے والی ہے۔

ایک نئی کائنات وجود میں آنے کو ہے۔

٭٭٭

 

زہر

’’حضرت! ا لسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ ‘‘

ایک عقیدت مند نے ایک بڑے مدرسے میں داخل ہو کر معروف عالمِ دین حضرت مولانا ارقم شاہ جالندھری کی خدمت میں با ادب سلام کیا۔

’’وعلیکم السلام۔۔ اللہ تمہیں سلامت رکھے۔ کہو کیسے ہو۔ ‘‘

’’ حضرت میں بخیر ہوں ۔ آپ کی دعاؤں سے ایک چھوٹی سی دکان شروع کی ہے۔ بعد نمازِ جمعہ اس کا افتتاح ہے آپ کے دستِ مبارک سے چاہتا تھا، لیکن آپ کی طبیعت کے پیشِ نظر درخواست ہے کہ مولوی فرقان انصاری کو بھجوا دیتے تو کرم ہوتا۔ ‘‘

’’ مولوی فرقان ہی کیوں مولانا سبحان قاسمی کو بھیج دیتا ہوں وہ دعا کرا دیں گے۔ ‘‘

’’حضور مولوی فرقان آ جاتے تو۔۔۔۔، ویسے جو آپ کی مرضی۔۔۔ ‘‘

’’نہیں ، نہیں ایسی کوئی بات نہیں مولوی فرقان چلے جائیں گے۔ کوئی خاص بات ہے کیا۔ ‘‘

’’ شکریہ حضور، کچھ خاص نہیں ، بس وہ اپنی ہی برادری کے ہیں اور کوئی بات نہیں !! ‘‘

٭٭٭

 

چیخیں

ا…م…می…

ایک دلدوز چیخ فضا میں بلند ہوئی۔ جیسے کوئی نیزہ لگنے سے چیختا ہے یا کوئی نئی عمر کا بکرا ذبح ہو رہا ہو اوراس کے گلے سے عجیب و غریب آوازیں نکل رہی ہوں۔

چیخ کی آواز سن کر اس کا دل بیٹھ گیا تھا۔ وہ ہزاروں میں بھی اپنے بیٹے کی آواز پہچان سکتی تھی۔ چیخ اس کے بڑے بیٹے داور کی تھی۔ اس کے ہاتھ رک گئے۔ وہ نیچے باتھ روم میں اپنے چھوٹے بیٹے یاور جس کی عمر تقریباً سال بھر تھی، کو نہلا رہی تھی۔ سب کچھ چھوڑ کر وہ بے تحاشا سیڑھیوں کی طرف لپکی۔ ایک ساتھ کئی کئی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی وہ اوپر چھت کی طرف بھاگ رہی تھی۔ کئی بار اس کی لمبی شلوار کا ڈھیلا پائینچہ اس کے تلوؤں میں دب کر الجھ گیا، وہ گرتی پڑتی چھت پر جا پہنچی…

چھت کا منظر دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے تھے۔

داور کی گردن سے خون کا فوارہ چھوٹ رہا تھا… اس کے حلق سے ذبح ہوتے ہوئے مرغ کی سی آوازیں نکل رہی تھیں۔ وہ مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا تھا… پاس ہی بدحواس سا خاور کھڑا تھا۔

’’ارے میرے لعل…‘‘

کہتی ہوئی وہ داور کی طرف دوڑی۔

……….

شمع کی شادی کو دس سال ہو گئے تھے۔ وہ سلطان کے ساتھ بہت خوش تھی۔ سلطان کمپنی میں سپروائزر تھے۔ بارہ، پندرہ سال کی سروس میں وہ بمشکل تمام ایک چھوٹا سامکان تعمیر کرا پائے تھے۔ یوں تو آزاد نگر میں زمینوں اور مکانوں کی قیمت آسمان پر تھی اور آزاد نگر میں تو یوں بھی اب پلاٹ تھے ہی نہیں۔ جب سے ملک کی فضا میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلا ہے۔ لوگ اپنے اپنے خیموں میں سمٹنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں آبادی کا  polarisationہوا ہے۔ لوگ اپنے اپنے مذہب کی آبادی میں آباد ہوتے گئے۔ آزاد بستی، جمشیدپور شہر کا ایک خاص علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی کثیر آبادی آباد ہے۔ شہرسنگ و آہن کے لوگ امن وسکون سے رہتے آئے تھے لیکن 64اور79کے فسادات نے یہاں کی آبادی کو کچھ ایسی نظر سے دیکھا کہ سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔ مسلمانوں نے غیر محفوظ علاقوں سے ہجرت کر کے آزادبستی کے آس پاس کے علاقے کو آباد کرنا شروع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پچیس، تیس برسوں ہی میں باون گھوڑا، بگان شاہی، مردہ گھاٹی میدان، جواہر نگر، پرولیا روڈ، کپالی، چونابستی، عطر لائن، ملت نگر، کبیر نگر، ٹی خان میدان سے ہوتا ہوا یہ علاقہ سورن ریکھا ندی تک جا پہنچا اور دوسری طرف چانڈل کی سرحدوں تک جہاں سے پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

سلطان نے بڑی بھاگ دوڑ کے بعد کبیر نگر میں ایک، کٹھا زمین لے کر مکان بنوایا تھا۔ مکان کیا تھا۔ دو کمرے، کچن اور باتھ روم… کچن اور باتھ روم کے اوپر سے چھت کی سیڑھیاں… مکان ابھی ادھورا ہی تھا۔ لیکن اپنا مکان اپنا ہی ہوتا ہے وہ خواہ بڑا ہویا چھوٹا، پورا بنا یا ادھورا… یہی سبب تھا کہ سلطان اور شمع ادھورے مکان میں ہی منتقل ہو گئے تھے۔ چھت کے اوپر باؤنڈری وال نہیں ہوئی تھی… سلطان نے شمع کو سمجھادیا تھا۔

’’دیکھو شمع! داور اور خاور  کا خیال رکھنا چھت پر نہ جائیں۔‘‘

اللہ نے شمع کو تین بیٹے عطا کیے تھے۔ داور آٹھ سال کے ہو رہے تھے اور خاور چھٹے برس کی سرحدپار کر رہے تھے۔ یاور ابھی نو ماہ ہی کے تھے…یاور کی پیدائش پر شمع نے اللہ کا بہت شکر ادا کیا تھا۔ اسے خوشی تھی کہ سلطان کا گھر جواب تک بیٹوں سے محروم تھا، اب ایسا بار آور ہوا کہ جتنے سجدۂ شکر کرو کم ہیں۔

سلطان کے تین بھائی تھے مگر کسی کے بیٹا نہیں تھا۔ کسی کے ایک، تو کسی کے دو۔ دو بیٹیاں ہی تھیں۔ شمع کے پہلے بچے کی پیدائش پر گھر کا ماحول کشیدہ تھا۔ سلطان کی والدہ بہت فکر مند تھیں۔ انہیں گھر کا وارث چاہیے تھا۔ انہیں خدشہ تھا کہیں شمع بھی دوسری بہووں کی طرح انہیں مایوس نہ کر دے۔ خود شمع کا حال برا تھا۔ ایک طرف غیر حالت، دوسری طرف مرحلے سے گزرنے کا خوف اور تیسری طرف سب کی خواہش دعاؤں کی شکل اختیار کر چکی تھی…

’’اولاد نرینہ دینا میرے مولیٰ۔‘‘

وہ کئی طرفہ حملے کا شکار تھی۔ اسے اب سمجھ میں آ رہا تھا کہ اس کا نام کتنا با معنی ہے۔ اسے تو ہمیشہ دوسروں کے لیے جلنا ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا، لیکن جان پر کھیل کر، تخلیق کے کرب سے گزر کر اس نے جو اولاد پیدا کی، اس کی جنس کا پتہ لگا کر سب خوش تھے۔

دائی نے خبر دی۔

’’مبارک ہو، بیٹا ہوا ہے۔‘‘

سارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

’’شمع جیتی رہو… تم نے ہمارے خاندان کا وارث پیدا کیا ہے۔‘‘

شمع کی ساس پھولے نہیں سمارہی تھی۔

سلطان کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ بظاہر سلطان کے دونوں بھائی، ان کی بیبیاں، سلطان کی بہن… سب خوش تھے۔ لیکن ان کے چہرے کی عارضی خوشی اور مصنوعی مسکراہٹ کو شمع نے بھانپ لیا تھا۔ ان کو شمع سے یہ امید نہیں تھی… وہ سمجھ رہے تھے کہ بیٹی ہو گی۔ شمع کو خوش ہونا چاہیے تھا۔ مگر بجائے خوشی کے وہ غصے میں تھی۔ اس ماں کی، کسی کو فکر نہیں تھی۔ جو اتنی تکالیف اور مشکلات کے بعد اولاد پیدا کرتی ہے۔ گویااس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اسے گھر والوں کی ذہنیت پر غصہ تھا۔ سب کو بیٹا ہی چاہیے تھا۔ عورت کا مقدر یہی ہے۔ شمع کی طرح وہ روشن ہو کر دوسروں کو اُجالے بانٹتی ہے اور خود چراغ تلے اندھیرے کے مصداق ہمیشہ اندھیرے میں رہتی ہے۔

’’بھابھی بہت بہت مبارک!!‘‘

سلطان کی بہن چہک رہی تھی۔ اس نے داور کو گود میں اٹھاتے ہوئے پیار کیا۔ سلطان کی والدہ پوتے کی خوشی میں مٹھائیاں بٹوا رہی تھیں۔پورے گھر میں خوشیاں محو رقص تھیں۔

ْْْْْ……….

شمع نے یکے بعد دیگرے دو بیٹوں کو جنم دیا۔ داور اور خاور… دوسال چھوٹے بڑے، دونوں بھائی سب کی آنکھوں کا تارا تھے… خوبصورت گول مٹول… خاور دوسال چھوٹے ضرور تھے مگر ماشاء اللہ صحت کے معاملے میں داور سے کہیں آگے تھے۔ جب خاور4سال کے تھے داور کے برابر لگتے تھے۔ دونوں بھائیوں کی جوڑی مشہور تھی… بڑے ہو کر دونوں اسکول جانے لگے۔

شمع اورسلطان کی زندگی ہموار راہوں پر گامزن تھی، سلطان ٹیسکومیں ٹھیکیدار کے تحت سپروائزرکاکام کرتے تھے۔ بس کسی طرح گھر چل رہا تھا۔ تھوڑے تھوڑے پیسے جوڑ کر شمع اورسلطان نے کبیر نگر میں مکان بنوایا تھا۔ مکان بننے کے بعد وہ آزاد بستی کے آبائی مکان سے کبیر نگر منتقل ہو گئے تھے… اس دوران سلطان کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔ اب سب بھائی تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکے تھے۔

…….

شمع اپنے دو بیٹوں میں ہی خوش تھی۔ ہر وقت خدا کی بارگاہ میں ان کی سلامتی اور صحت کے لیے دعا کرتی رہتی۔ اچانک ایک دن شمع کو احساس ہوا کہ احتیاط کے باوجود ان سے کچھ گڑبڑ ہو گئی ہے۔ دراصل انسان کتنے ہی جتن کر لے۔ لاکھ تراکیب استعمال کر لے، لیکن قدرت کا قانون کبھی نہیں بدلتا۔ اللہ جب کسی کے بطن سے سے کسی بچے کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ پیدا فرما دیتا ہے… دنیا کا کوئی طریقہ اسے روک نہیں سکتا۔ یہی شمع کے ساتھ ہوا۔ شمع تیسرے بچے کی بھی ماں بنی۔ یاور کی پیدائش ، شمع کے لیے خدا کا عطیہ خاص تھی۔ یاور اپنے دونوں بھائیوں سے زیادہ خوبصورت تھا۔

داور اور خاور خود بھی کھیلتے اور یاور کو بھی کھلاتے رہتے… داور اور خاور خاصے ذہین تھے۔ نت نئی شرارتیں، ان کا مشغلہ تھیں… دونوں مل کر کھیلتے نئی نئی ترکیبیں نکالتے…کھلونوں کی انجینئرنگ کرتے۔ کرکٹ کھیلتے۔ کیرم کی گوٹیوں پر لڑتے… اسکول جانے لگے تھے… واپسی پران کے کپڑے اتنے گندے ہوتے گویا کہیں زمین پر لوٹ کر آئے ہوں۔ دونوں اسکول میں بھی خوب کھیلتے تھے۔ جس دن اسکول کی چھٹی ہوتی سمجھوگھر کی آفت آنے والی ہے۔ کب کون سی شرارت کریں گے کچھ پتہ نہیں۔ مہمانوں کے جوتے، چپل ادھر ادھر کر دینا… سوغاتوں اور تحفوں کو چھپا دینا۔ ایک دوسرے کو پکڑنے کے لیے ’’پکڑم پکڑائی‘‘ کھیلتے تو سارا گھر سرپر اٹھا لیتے… گھر ہی میں کرکٹ شروع ہو جاتا۔ کبھی کچھ ٹوٹتا۔ کبھی کچھ پھوٹتا پتنگ اڑانا تو آتا نہیں تھا، دھاگے میں کاغذ باندھے، کبھی کمرے میں کبھی باہر سڑک پر دوڑ لگاتے۔ شمع ان کی حرکتوں سے نالاں اور خوش بھی تھی۔ وہ ان کی لمبی عمر کی دعائیں مانگا کرتی۔

……….

ایک دن اسکول کی چھٹی تھی۔ دونوں دیر تک سوتے رہے۔ سلطان کام پر چلے گئے۔ شمع کا دل عجیب ساہورہا تھا۔ طبیعت میں کسلمندی تھی۔ باہرموسم بھی پل پل بدل رہا تھا۔ اس نے داور اور خاور دونوں کو جگایا۔ ضروریات سے فارغ ہو کر دونوں نے ناشتہ کیا اور شمع کے کہنے پر ہوم ورک لے کر بیٹھ گئے۔ شمع گھر کے کام کاج نپٹا کے کپڑے لے کر باتھ روم میں گھس گئی۔ اس نے گرم پانی میں ٹھنڈا پانی ملایا اور پلاسٹک کے بڑے سے خوبصورت ٹب میں یاور کو کھڑا کر کے نہلانے لگی۔

ادھر دونوں بھائیوں نے جب دیکھا کہ امی، باتھ روم میں جاچکی ہیں، تو دونوں نے خاموشی سے کتابیں ایک طرف رکھیں اورآہستہ آہستہ چھت پر چلے گئے۔ چھت پر پہنچ کر دونوں بہت خوش ہوئے۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل تھے۔ کبھی کبھی دھوپ بھی بادلوں کے اندر سے باہر آ جاتی… دونوں بھائی کچھ دیر یوں ہی موسم سے لطف اندوز ہوتے رہے پھر داور نے خاور سے اچھلتے ہوئے کہا۔

’’خاور… ایک آئیڈیا دماغ میں آیا ہے۔‘‘

’’کیا ہے بھائی…؟‘‘

’’کیوں نا آج ہم لوگ ابو کی طرح داڑھی بنائیں؟‘‘

’’ہاں…ہاں… بڑا زبردست آئیڈیا ہے۔‘‘

خاورسیڑھیوں سے نیچے گیا اور تھوڑی دیر بعد ابو کی شیونگ کٹ لے آیا۔

’’بھئی واہ مزا آ گیا… ارے خاور دیکھ اس میں چھوٹی سی قینچی ہے۔‘‘

’’صابن والا ٹیوب بھی ہے۔‘‘

’’لاؤ میں تمہارے صابن لگاؤں؟‘‘

خاور نے ٹیوب کو زور سے دبایا۔ سفیدسامرہم نکل کر چھت پر گر گیا گویا کسی مرغی نے بیٹ کر دی ہو۔ خاور نے جلدی سے اپنی شہادت کی انگلی سے اٹھا کر داور کے چکنے گال پر لگا دیا۔ پھر جلدی سے برش نکال کر، پورے چہرے اور گردن پر پھیرنے لگا۔

’’ارے کب تک جھاگ بناتا رہے گا۔ جلدی کر ریزر چلا…‘‘

داور نے بے چین ہوتے ہوئے خاور سے کہا…

خاور نے ریزر لیا… اتفاق سے ریزر میں بلیڈ لگا ہوا تھا۔ لگتا ہے سلطان جلدی میں بلیڈ نکالنا بھول گئے تھے۔ خاور  کا کام بن گیا تھا۔ داور کھڑا تھا۔ اس کے گال اور گردن پر صابن کے جھاگ تھے۔ خاور کے ہاتھ میں ریزر تھا۔

’’جلدی کرنا… کوئی آ گیا تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔‘‘

داور کی بات پر، خاور نے ہمت کر کے ریزر داہنے ہاتھ میں لیا اور بائیں ہاتھ سے داور کی ٹھوڑی پکڑ لی… وہ ٹھوڑی کے نیچے سے صابن صاف کرنے کی تیاری کر رہا تھا… کبھی ریزر کو سیدھا کر لیتا، کبھی ٹیڑھا۔

’’یار جلدی کر…‘‘

داور کی ڈانٹ سے خاور میں توانائی آ گئی تھی… خاور نے ریزر لے کر الٹے ہاتھ سے تھوڑی اٹھائی۔ ریزر نیچے کی طرف کھینچا۔

تھوڑا صابن صاف ہو گیا۔ داور کو  گدگدی سی محسوس ہوئی۔

’’ارے جلدی جلدی کرنا…‘‘

داور نے پھر ڈانٹا۔ اس بار خاور نے تیز دباؤ کے ساتھ ریزر گردن پر چلایا۔

’’ا…م…می…‘‘

دلدوز چیخ کے ساتھ داور دہاڑیں مارنے لگا۔ اس کی گردن کی رگ کٹ گئی تھی۔ خون کا فوارہ ابلنے لگا… پل کے پل میں داور نیچے چھت کے فرش پر تڑپنے لگا۔ اس کی چیخوں نے فضا کو دہلا دیا تھا۔ ماں تو، ماں ہوتی ہے۔ ہزاروں کوس دور بھی اولاد تکلیف میں ہو، آواز دے رہی ہو، تو ماں اسے پہچان لیتی ہے۔ اولاد کے درد  و کرب کو سمجھ جاتی ہے۔ پہلی چیخ پر شمع ایک ساتھ کئی کئی سیڑھیاں پھلانگتی، چھت کی طرف دوڑ پڑی… چھت کا منظر دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو  گئے۔ نیچے داور تڑپ رہا تھا۔ خون کا فوارہ اس کی گردن سے پھوٹ رہا تھا۔ چاروں طرف خون ہی خون تھا۔ ایک طرف ریزر ہاتھ میں لیے بدحواس سا، ڈر اور حیرت کی مورتی بنا خاور کھڑا تھا۔ جیسے ہی اس نے شمع کو اپنی طرف آتے دیکھا خوف اور ڈر کی کیفیت میں وہ چیخا…

’’امی…میں نے کچھ نہیں کیا…‘‘

’’امی…‘‘

شمع اسے پکڑنے کے لیے آگے بڑھ رہی تھی، وہ دیکھ رہی تھی کہ خاور مستقل پیچھے ہٹ رہا ہے اور اس کی پشت کی طرف چھت کی چار دیواری نہیں تھی۔

’’رک جاؤ…خاور…‘‘

وہ اپنی پوری قوت سے چیخی۔

’’نہیں… امی…‘‘

’’دھڑام!‘‘

ایک دلدوز چیخ فضا میں بلند ہوئی اور خاور چھت سے نیچے اس جانب جا گرا جدھر پختہ سڑک تھی۔

’’ارے میرا بیٹا…‘‘

شمع بہت زور سے چیخی… اس کی دنیا اجڑ چکی تھی۔ ایک طرف داور خون میں لت پت، اب ساکت ہو گیا تھا، دوسری طرف سڑک پر خاور کاجسم تڑپ کر ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا گویا کسی نے سینے سے اس کا دل نکال لیا ہو…وہ طوفان میں شجر تنہا کی مانند رہ گئی تھی۔ اس کی زندگی کو کسی کی نظر لگ گئی تھی۔ اس میں اب زندہ رہنے کی تاب نہیں تھی۔ اس سے قبل کہ وہ غش کھا کر گرتی اچانک اسے یاور کی یاد آئی… نہ جانے کہاں سے اس کے مردہ جسم میں توانائی پیدا ہو گئی۔ وہ گرتی پڑتی، دیوانوں کی طرح سیڑھیوں کی طرف بھاگی… سیڑھیاں کود کر وہ آناً  فاناً  باتھ روم میں داخل ہوئی… ہاتھ روم کا منظر قیامت خیز تھا… نظروں میں تاب نہ تھی… پانی بھرے ٹب میں یاور کا مردہ جسم تیر رہا تھا… اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ شمع کی لو تیز بھڑک کر خاموش ہو گئی تھی… اس کے جگر پارے، پارہ پارہ ہو چکے تھے… خود اس کا دل دھڑکنا بھول گیا… وہ باتھ روم کے دروازے پر ہی غش کھا کر گر گئی…

ہفتوں اس کا علاج چلتا رہا۔ ایک دن صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو صبح کی نئی کرن اس کے چہرے پر  پڑ رہی تھی… سامنے سلطان کھڑے تھے… وہ کہہ رہے تھے۔

’’شمع، جیسی خدا کی مرضی… ہم تو، کٹھ پتلی ہیں۔ ہماری ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

’’نہیں!!!‘‘

شمع اس قدر زور سے چیخی کہ اسپتال کے کونے کونے میں آواز کا ارتعاش پھیل گیا۔ ایسا لگا گویا شمع کی چیخ میں داور اور خاور کی چیخیں یاور کی بے زبانی اور کائنات کا درد پوری قوت سے شامل ہو گیا ہے۔

٭٭٭

ماخذ:عالمی پرواز ڈاٹ کوم

http://aalamiparwaz.com/index.php/afsane/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید