FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

 

 

ناز خیالوی

پیشکش: سردار فرحان محمد خان

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

 

 

 

تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا

تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا

غریب مٹ گئے، پامال ہو گئے لیکن

کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا

ہو بھی نہیں اور ہر جَا ہو

تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

ہر ذرے میں کس شان سے تُو جلوہ نما ہے

حیراں ہے مگر عقل کہ کیسا ہے تُو کیا ہے

تجھے دیر و حرم میں میں نے ڈھونڈا تُو نہیں ملتا

مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دِل میں دیکھا ہے

ڈھونڈے نہیں ملتے ہو، نا ڈھونڈے سے کہیں تم

اور پھر یہ تماشا ہے کہ جہاں ہم ہیں وہیں تم

جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں

پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا

حرم و دیر میں ہے جلوۂ پُر فن تیرا

دو گھروں کا ہے چراغِ رُخِ روشن تیرا

تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

جو اُلفت میں تمہاری کھو گیا ہے

اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے

نہ بُت خانے نہ کعبے میں ملا ہے

مگر ٹُوٹے ہوئے دِل میں ملا ہے

عَدم بن کر کہیں تُو چھپ گیا ہے

کہیں تُو ہست بن کر آ گیا ہے

نہیں ہے تُو، تو پھر انکار کیسا

نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے

میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی

اگر وہ تُو نہیں تو اور کیا ہے

نہیں آیا خیالوں میں اگر تُو

تو پھر میں کیسے سمجھا تُو خدا ہے

تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو، کیا ہو

ہاتھ آؤ تو بُت، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو

عقل میں جو گھِر گیا، لا انتہا کیونکر ہوا

جو سمجھ میں آ گیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا

فلسفی کو بھیس کے اندر خدا ملتا نہیں

ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں

پتہ یُوں تو بتا دیتے ہو سب کو لا مکاں اپنا

تعجب ہے مگر رہتے ہو تم ٹُوٹے ہوئے دِل میں

جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خُدا کیا ہے

تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

چھُپتے نہیں ہو، سامنے آتے نہیں ہو تم

جلوہ دکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تم

دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تم

جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تم

حیراں ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح

حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم

یہ معبد و حرم، یہ کلیسا و دیر کیوں

ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تم

تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

دل پہ حیرت نے عجب رنگ جما رکھا ہے

ایک اُلجھی ہوئی تصویر بنا رکھا ہے

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چکر کیا ہے

کھیل کیا تم نے ازل سے یہ رچا رکھا ہے

روح کو جسم کے پنجرے کا بنا کر قیدی

اس پہ پھر موت کا پہرہ بھی بٹھا رکھا ہے

دے کہ تدبیر کے پنچھی کو اڑانیں تم نے

دام تقدیر بھی ہر سمت بچھا رکھا ہے

کر کے آرائشیں کونین کی برسوں تم نے

ختم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے

لامکانی کا بہر حال ہے دعویٰ بھی تمہیں

نَحنُ اَقرَب کا بھی پیغام سنا رکھا ہے

یہ برائی، وہ بھلائی، یہ جہنم، وہ بہشت

اس اُلٹ پھیر میں فرماؤ تو کیا رکھا ہے

جرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کو

عدل و انصاف کا معیار بھی کیا رکھا ہے

دے کے انسان کو دنیا میں خلافت اپنی

اک تماشا سا زمانے میں بنا رکھا ہے

اپنی پہچان کی خاطر ہے بنایا سب کو

سب کی نظروں سے مگر خود کو چھپا رکھا ہے

تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

نت نئے نقش بناتے ہو، مٹا دیتے ہو

جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو

کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی

کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو

زندگی کتنے ہی مُردوں کو عطا کی جس نے

وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو

خواہش دید جو کر بیٹھے سرِ طور کوئی

طور ہی، برقِ تجلی سے جلا دیتے ہو

نار نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل

خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو

چاہِ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعاں

نور یعقوب کی آنکھوں کا بُجھا دیتے ہو

بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں

آخر کار شہ مصر بنا دیتے ہو

جذب ومستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی

بیٹھ کر دل میں اَنا الحق کی صدا دیتے ہو

خود ہی لگواتے ہو پھر کُفر کے فتوے اس پر

خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو

اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے

اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو

کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری

تم اسے جھنگ کے بیلے میں رُلا دیتے ہو

جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی

اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو

جوت سسّی کے اگر من میں تمہاری جاگے

تم اسے تپتے ہوئے تھر میں جلا دیتے ہو

سوہنی گر تم کو مہینوال تصور کر لے

اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو

خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب

ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو

تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

جو کہتا ہوں مانا تمہیں لگتا ہے برا سا

پھر بھی ہے مجھے تم سے بہر حال گِلہ سا

چُپ چاپ رہے دیکھتے تم عرشِ بریں پر

تپتے ہوئے کربل میں محمدﷺ کا نواسہ

کس طرح پلاتا تھا لہو اپنا وفا کو

خود تین دنوں سے وہ اگر چہ تھا پیاسا

دشمن تو بہر طور تھے دشمن مگر افسوس

تم نے بھی فراہم نہ کیا پانی ذرا سا

ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت

مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسا

کل تاج سجا دیکھا تھا جس شخص کے سر پر

ہے آج اسی شخص کے ہاتھوں میں ہی کاسہ

یہ کیا ہے اگر پوچھوں تو کہتے ہو جواباً

اس راز سے ہو سکتا نہیں کوئی شناسا

حیرت کی اِک دُنیا ہو

تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

ہر ایک جا پہ ہو لیکن پتہ نہیں معلوم

تمہارا نام سُنا ہے نشاں نہیں معلوم

دِل سے ارمان جو نکل جائے تو جگنو ہو جائے

اور آنکھوں میں سمٹ آئے تو آنسو ہو جائے

جاپ یا ہُو کا جو بے ہُو کرے ہُو میں کھو کر

اس کو سلطانیاں مل جائیں وہ با ہُو جائے

بال بِکا نہ کسی کا ہو چھری کے نیچے

حلقِ اصغر میں کبھی تِیر ترازو ہو جائے

تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

کس قدر بے نیاز ہو تم بھی

داستانِ دراز ہو تم بھی

راہِ تحقیق میں ہر گام پہ اُلجھن دیکھوں

وہی حالات و خیالات میں اَن بَن دیکھوں

بن کے رہ جاتا ہوں تصویر پریشانی کی

غور سے جب بھی کبھی دنیا کا درپن دیکھوں

ایک ہی خاک سے فطرت کے تضادات اتنے

کتنے حصوں میں بٹا ایک ہی آنگن دیکھوں

کہیں زحمت کی سلگتی ہوئی پت جھڑ کا سماں

کہیں رحمت کے برستے ہوئے ساون دیکھوں

کہیں پھُنکارتے دریا، کہیں خاموش پہاڑ

کہیں جنگل، کہیں صحرا، کہیں گلشن دیکھوں

خوں رُلاتا ہے یہ تقسیم کا انداز مجھے

کوئی دھنوان یہاں پر کوئی نرِدھن دیکھوں

دن کے ہاتھوں میں فقط ایک سلُگتا سورج

رات کی مانگ ستاروں سے مزیّن دیکھوں

کہیں مُرجھائے ہوئے پھول ہیں سچائی کے

اور کہیں جھوٹ کے کانٹوں پہ بھی جوبَن دیکھوں

شمس کی کھال کہیں کھینچتی نظر آتی ہے

کہیں سرمد کی اترتی ہوئی گردن دیکھوں

رات کیا شئے ہے سویرا کیا ہے

یہ اجالا یہ اندھیرا کیا ہے

میں بھی نائب ہوں تمہارا آخر

کیوں یہ کہتے ہو کہ تیرا کیا ہے

تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

مسجد، مندر، یہ میخانے

کوئی یہ مانے، کوئی وہ مانے

سب تیرے ہیں جاناں کاشانے

کوئی یہ مانے، کوئی وہ مانے

کوئی ہونے کا تیرے قائل ہے

اِنکار پہ کوئی مائل ہے

اک خلق میں شامل کرتا ہے

اک سب سے اکیلا رکھتا ہے

ہیں دونوں تیرے مستانے

کوئی یہ مانے، کوئی وہ مانے

سب ہیں جب عاشق تمہارے نام کے

کیوں یہ جھگڑے ہیں رحیم و رام کے

دہر میں تُو، حرم میں تُو

عرش پہ تُو، زمیں پہ تُو

جس کی پہنچ جہاں تلک

اس کے لیے وہیں پہ تُو

ہر ایک رنگ میں یکتا ہو

تم اک گورکھ دھندہ ہو

 

مرکزِ جُستجو عالم رنگ و بُو

دم بدم جلوہ گر، تُو ہی تُو چار سُو

ہُو ماحول میں کچھ نہیں اِلّا ھُو

تم بہت دِلرُبا، تم بہت خُوبرو

عرش کی عظمتیں فرش کی آبرُو

تم ہو کونین کا حاصلِ آرزو

آنکھ نے کر لیا آنسوؤں سے وضو

اب تو کر دو عطا دید کا اک سبُو

آؤ پردے سے تم آنکھ کے رُو برُو

چند لمحے مِلن، دو گھڑی گفتگو

نازؔ جپَتا پھِرے جا بجا، کُو بکُو

وَحدہ وَحدہ لا شریکَ لہ

اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو

٭٭٭

 

 

 

 

 

منقبت علیؓ

 

جس کو خالق نے کیا مولود کعبہ وہ علیؓ

جس کا ہمسر ہے نہ تھا کوئی نہ ہو گا وہ علیؓ

 

وہ علیؓ جس پر بھروسہ تھا خدائے پاک کو

تھا خدائے پاک پر جس کا بھروسہ وہ علیؓ

 

وُہ علیؓ وجہہ اللہ جس کے روئے اقداس کا لقب

جس کے ہاتھوں کا تخلص ہے یُد اللہ وہ علیؓ

 

"شاہِ مرداں شیرِ یزداں قوتِ پروردگار”

بسکہ ہر معیار پر اُترا جو پورا وہ علیؓ

 

"لافتاح اِلّا علیؓ لا سیف الا ذوالفقار”

جس کی خاطر عرش پر یہ نعرہ گونجا وہ علیؓ

 

وہ علیؓ بستر پہ جو سویا محمدؐ کی جگہ

جو محمدؐ کی طرح بستر پہ سویا وہ علیؓ

 

جو ولادت سے شہادت تک خدا کے گھر میں تھا

ابتدا سے انتہا تک حق پہ جو تھا وہ علیؓ

 

جو اَحی بھی ہے وصی بھی سرورِ کونین کا

کہہ دیا مولائے کل نے جس کو مولا وہ علیؓ

 

لائقِ سجدہ تھا سجدے میں نہ ہوتا خود اگر

دیکھ کر جس کو کہیں سب اللہ اللہ وہ علیؓ

 

جس کی طرزِ بندگی ہر بندگی کو نازؔ ہو

جس کے سجدے نے بھرم سجدوں کا رکھا وہ علیؓ

٭٭٭

 

 

 

منقبت سّیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا

 

دخترِ شاہِ کونین ہے فاطمہؓ

نازشِ بزمِ دارین ہے فاطمہؓ

 

مومنوں کو کوئی فکر ہو کس لیے

جن کا سائیں علیؓ سین ہے فاطمہؓ

 

وہ خدا بھی نہیں مصطفئے بھی نہیں

ہاں مگر ان کے مابین ہے فاطمہؓ

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

انسانیت کا مرکز و محور حسینؓ ہے

جملہ نوازشات کا پیکر حسینؓ ہے

 

اوقات کیا فرات کی، پانی کی ذات کیا

ایسے میں جب کہ وارثِ کوثر حسینؓ ہے

 

منزل مری بہشت ہے، دوزخ ترا مقام

تیرا یزید ہے، مرا رہبر حسینؓ ہے

 

اس اعتماد سے ہے انی پر بھی لب کُشا

گویا کہ اب بھی زینتِ منبر حسینؓ ہے

 

شایانِ شان اس کی نہیں پانی مانگنا

اقلیم تشنگی کا گورنر حسینؓ ہے

 

سا توں سمندروں پہ محیط اس کی ایک بُوند

ہاں ایسا بے کنار سمندر حسینؓ ہے

 

شاداب و فیض یاب ہے جس سے ہر ایک دَور

وُہ شاہ، وُہ غنی، وہ تونگر حسینؓ ہے

 

کٹ جائے اس سے نازؔ نہ شاعر نہ شاعری

روحِ سُخن ہے جانِ سُخنور حسینؓ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہت عرصہ گنہگاروں میں پیغمبر نہیں رہتے

کہ سنک و خشت کی بستی میں شیشہ گر نہیں رہتے

 

ادھوری ہر کہانی ہے یہاں ذوقِ تماشہ کی

کبھی نظریں نہیں رہتیں کبھی منظر نہیں رہتے

 

بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تم کو غیرت کی !

جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں رہتے

 

مجھے نادم کیا کل رات دروازے نے یہ کہہ کر

شریف انسان گھر سے دیر تک باہر نہیں رہتے

 

خود آگاہی کی منزل عمر بھر ان کو نہیں ملتی

جو کوچہ گرد اپنی ذات کے اندر نہیں رہتے

 

پٹخ دیتا ہے ساحل پر سمندر مُردہ جسموں کو

زیادہ دیر تک اندر کے کھوٹ اندر نہیں رہتے

 

بجا ہے زعم سورج کو بھی نازؔ اپنی تمازت پر

ہمارے شہر میں بھی موم کے پیکر نہیں رہتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پھر مساوات و اخوت کے پیمبر جاگے

مفلسی! جشن منا، تیرے مقدر جاگے

 

پڑ گئیں وقت کے خیبر میں دراڑیں کیا کیا

یا علیؓ کہہ کے جونہی مست قلندر جاگے

 

بدعتِ مایہ پرستی کو مٹا سکتے ہیں

دل میں گر جذبۂ سلمان و ابو ذر جاگے

 

خاک کے درد میں افلاک بھی ہوتے ہیں شریک

چاند تارے بھی مرے ساتھ برابر جاگے

 

پاسباں ایک سرِ عرشِ علیٰ ہے میرا

اک محافظ مرا جو مرے اندر جاگے

 

سیپیاں چننے میں مشغول میں کمسن کیا کیا

اور کچھ دیر نہ یا رب یہ سمندر جاگے

 

موند لے سامنے خطرے کے جو نازؔ آنکھوں کو

ایک ہی بات ہے سوئے کہ کبوتر جاگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آدمیت کی لاش پر تنہا

میں ہوں برسوں سے نوحہ گر تنہا

 

خود نمائی کی وہ وباء پھیلی

پھر رہا ہے بشر بشر تنہا

 

سازشیں ناخدا بھی کرتے ہیں

یونہی بدنام ہے بھنور تنہا

 

سب نے مل کر شجر کو سینچا ہے

کیوں کوئی کھائے گا ثمر تنہا

 

اجڑے دل میں گئے دنوں کی یاد!

جیسے جنگل میں گوئی گھر تنہا

 

میں نے کھائے ہیں یاس کے پتھر

آرزوؤں کے موڑ پر تنہا

 

جنگ لڑتا رہا رعونت سے

میں وفا کا پیامبر تنہا

 

اے غمِ دوستی نہ چھوڑ مجھے

اس طرح سے نہ مجھ کو کر تنہا

 

کوئی پروانہ اب نہیں آتا

شمع جلتی ہے رات بھر تنہا

 

ناز اہلِ وفا کا ہے فقدان

کیسے کاٹو گے یہ سفر تنہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہجر کی را توں میں ننھا سا ایک دیا

میرے ساتھ برابر جاگا ایک دیا

 

ہجر کی را توں میں ننھا سا ایک دیا

میرے ساتھ برابر جاگا ایک دیا

 

برچھی لے کر سرخ سلگتے شعلے کی

دیتا ہے ہر کو رات پہرا ایک دیا

 

کس جرأت کے ساتھ اندھیرے لشکر سے

شب بھر جنگ لڑا ہے تنہا ایک دیا

 

چور مری بدبختی بن کر آئے تھے

خوش بختی سے جاگ رہا تھا ایک دیا

 

لا تعداد پرائے چاند ستاروں سے

لاکھوں درجے بہتر اپنا ایک دیا

 

بام پہ جس کے روز چراغاں ہوتا تھا

اب اس گھر کا کل سرمایا ایک دیا

 

پوچھتے کیا ہو دنیا ہم درویشوں کی

ایک کمبل ایک پیالہ ایک دیا

 

دل کے ہوتے نازؔ نہیں ہے کوئی کمی

یار خدا نے لاکھوں جیسا ایک دیا

٭٭٭

 

 

 

 

جب تصور میں کوئی چاند سا چہرہ اترا

دل کے آنگن میں محبت کا اجالا اترا

 

حیف صد حیف، مری عمر کا دریا اترا

سرے سے لیکن نہیں بارِ غمِ دنیا اترا

 

دل میں یوں شدتِ احساس کا نیزہ اترا

زخم کی تہ نہ ملی لاکھ میں گہرا اترا

 

خاک دنیا کے خداؤں نے اڑا دی میری

اے خدا بن کے میں نائب ترا اچھا اترا

 

میرے معیار کو سمجھا نہ کوئی دور کبھی

میں تو ہر دور کے معیار پہ پورا اترا

 

قتل ہونے کا نہیں غم مجھے صدمہ یہ ہے

میرے سینے میں مرے بھائی کا نیزہ اترا

 

داستاں سوزِ تمنا کی سنا دوں لیکن!

کون دیکھے گا اگر آپ کا چہرہ اترا

 

خود مجھے نہ ملا نازؔ کوئی اس کا سراغ

وہ مری روح کی گہرائی میں ایسا اترا

٭٭٭

 

 

 

 

عظمتِ فکر و ہنر کے نام پر غزلیں کہیں

مستئِ ذوقِ غزل میں عمر بھر غزلیں کہیں

 

روح میں بستا رہا جب تک کوئی جانِ غزل

رات دن غزلیں کہیں، شام وسحر غزلیں کہیں

 

سرمئی بالوں پہ موزوں سانولے مصرعے کہے

جلوہ رخسار پر رشکِ سحر غزلیں کہیں

 

خرمنِ اغیار کو راکھ کر دیتی رہیں

میں نے ایسی بھی گئی برق و شرر غزلیں کہیں

 

اک زمانے کی قیادت کی مرے اشعار نے

بے خودی میں کیسی کیسی راہبر غزلیں کہیں

 

آئینے جتنے بنائے اتنے ہی پتھر سہے

اس قدر اعزاز پائے جس قدر غزلیں کہیں

 

سنگ باری اس طرف سے جانے کیوں ہوتی رہی

میں تو اپنی طرف سے بے ضرر غزلیں کہیں

 

بھیگے موسم نے بڑھا دی اور بھی دل کی جلن

کھل کے برسا ابر، میں ٹوٹ کر غزلیں کہیں

 

مقتلوں میں، سولیوں پر، تیغ کے سائے تلے

مستئی ” لایخزنو” میں جھوم کر غزلیں کہیں

 

نازؔ ہم نے لاج رکھی جراتِ اظہار کی

ظلم کے پہرے میں بے خوف و خطر غزلیں کہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہر مشکل یوں ٹالی ہے

ماں کی نیک دعا لی ہے

 

آج شرافت دنیا میں

ایک مہذب گالی ہے

 

آج بھی تیرے جلووں سے

آنکھ کا کاسہ خالی ہے

 

عشق ریا کی دلّی میں

احمد شاہ ابدالی ہے

 

بیٹے جس کے تابع ہوں

ماں وہ کرماں والی ہے

 

اللہ بیلی کٹیا کا

آندھی آنے والی ہے

 

جان لٹا کر ناز اپنی

ہم نے آن بچا لی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

پھلنے، بڑھنے لگے ہیں صاحبِ زر اور بھی

تنگ ہو جائے گی دھرتی مفلسوں پر اور بھی

 

یہ زمیں زرخیز ہو گی خون پی کر اور بھی

کھیتیاں اگلا کریں گی لعل و گوہر اور بھی

 

 

ہر زمانے میں ثبوتِ عشق مانگا جائے گا

لال ماؤں کے چڑھیں گے سولیوں پر اور بھی

 

پھولتے پھلتے ہیں جذبے درد کے ماحول میں

زخم کھائیں تو نکھرتے ہیں سخن ور اور بھی

 

آفتاب ابھرا ہے جس دن سے نئی تہذیب کا

ہو گیا تاریک انساں کا مقدر اور بھی

 

جب چلی تحریک تعمیرِ وطن کی دوستو

ہو گئے برباد کچھ بستے ہوئے گھر اور بھی

 

جس قدر باہر کی رونق میں مگن ہوتا گیا

بڑھ گئی بے رونقی انساں کے اندر اور بھی

 

میں بناتا جا رہا ہوں اور بھی کچھ آئینے

وقت برساتا چلا جاتا ہے پتھر اور بھی

 

بستیوں پر حادثوں کی چاند ماری کے لئے

بڑھ رہے ہیں اوج کی جانب ستمگر اور بھی

 

منفرد استاد دانشؔ بھی ہیں غالبؔ کی طرح

یوں تو دنیا میں ہیں نازؔ اچھے سخن ور اور بھی

٭٭٭

 

 

 

 

نا امید آنکھوں میں خوابوں کا سفر جاری رہا

ریگزاروں میں سرابوں کا سفر جاری رہا

 

میرے ارمانوں کی قسمت میں رہی آوارگی

رات دن خانہ خرابوں کا سفر جاری رہا

 

گو زمیں نے راستہ ان کا سدا روکا مگر

آفتابوں، ماہتابوں کا سفر جاری رہا

 

بارہا موجوں کے ہاتھوں ٹوٹنے کے باوجود

سطحِ دریا پر حبابوں کا سفر جاری رہا

 

آیتوں کی شکل میں چہروں کی صورت میں کبھی

آسمانوں سے کتابوں کا سفر جاری رہا

 

ایک برگِ گل بھی اب ان کے مزاروں پر نہیں

جن کے قدموں تک گلابوں کا سفر جاری رہا

 

کبر و نازِ حسن سے عجزِ محبت کی طرف

ہر زمانے میں عتابوں کا سفر جاری رہا

٭٭٭

 

 

 

 

اہل دِل خواب ہوئے

سخت نایاب ہوئے

 

آپ کو یاد کیا

جب بھی بے تاب ہوئے

 

بارشیں خوب ہوئیں

خشک تالاب ہوئے

 

دھول شہروں میں اڑی

دشت سیراب ہوئے

 

غم کی جاگیر ملی

ہم بھی نواب ہوئے

 

پھول مرجھائے رہے

خار شاداب ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

آباد جتنے لوگ تھے بے گھر لگے مجھے

آنکھیں کھنڈر تو ذہن بھی بنجر لگے مجھے

 

پھیلا ہے میرے  چاروں طرف روشنی کا زہر

سورج کی ہر کرن بھی تو نشتر لگے مجھے

 

زلفوں میں جن کی میں نے سجائے لہو کے پھول

یارو انہیں کے ہاتھ سے پتھر لگے مجھے

 

آیا نہ راس خواب میں شوقِ شناوری

آنکھیں کھلیں تو خشک سمندر لگے مجھے

 

شب خوں خود اپنی ذات پہ مارا ہے دوستو

اکثر خود اپنے ہاتھ سے خنجر لگے مجھے

 

سایہ زمیں پہ رہ گیا اور جسم اڑ گیا

کل رات تیری یاد میں وہ پر لگے مجھے

 

جب نازؔ اپنے زیست کا میں تجزیہ کروں

ہر شخص اپنے آپ سے بہتر لگے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

کہو سن لیں کہ شعر ان کو ہمارے کچھ نہیں کہتے

کنائے بے ضرر ہیں، استعارے کچھ نہیں کہتے

 

سب اندازے لگا لیتا ہے ان کی چال سے ورنہ

مُنجمّ سے زبانی تو ستارے کچھ نہیں کہتے

 

ڈبو دیتا ہے کیا کیا کشتیوں کو سامنے ان کے

سمندر کو مگر بے حِس کنارے کچھ نہیں کہتے

 

بس اتنا ہم نے دیکھا ہے محبت کی تجارت میں

منافعے کچھ نہیں دیتے، خسارے کچھ نہیں کہتے

 

ہمارے ہر عمل پر ہے کڑی ان کی نظر، پھر بھی

غنیمت ہے ہمیں بچے ہمارے کچھ نہیں کہتے

 

کرو مامور ہم کو آشیانوں کی حفاظت پر

کہ ہم شعلہ بجانوں کو شرارے کچھ نہیں کہتے

 

میں اُن کے نام کا کتبہ لکھے پھرتا ہوں ماتھے پر

وہ اس پر بھی کسی سے میرے بارے کچھ نہیں کہتے

 

کہاں کے منصف و عادل، فقیہہ و محتسب کیسے

انہیں کے ہیں یہ سارے اُن کو سارے کچھ نہیں کہتے

 

ہنر ضبطِ نفس کا نازؔ آتا ہو جو انساں کو

رگوں میں جلتے بلتے خوں کے دھارے کچھ نہیں کہتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کیوں نہ مجھ کو جان سے پیارے ہوں زخموں کے چراغ

یہ نشانی کی نشانی ہیں، چراغوں کے چراغ

 

قصرِ شاہی میں بپا تھا جشنِ مرگِ روشنی

آندھیاں جب چاٹتی پھرتی تھیں خیموں کے چراغ

 

شوق جلنے کا ہمیں، ارباب کو بجھنے کا ڈر

ہم منڈیروں کے دیئے وہ بند کمروں کے چراغ

 

دورِ آئندہ میں پھر پلٹے گی تہذیب کہن

اگلے وقتوں میں جلیں گے پچھلے وقتوں کے چراغ

 

کرتے ہیں ہر شام استقبال تیری یاد کا

میری پلکوں کی منڈیروں پر یہ اشکوں کے چراغ

 

کھا گئیں کتنے جوانوں کو پرانی رنجشیں

جل بجھے ان آندھیوں میں کتنی نسلوں کے چراغ

 

خون روتا ہوں جو یاد آتے ہیں یارانِ حسیں

میری صبحوں کے وہ سورج میری را توں کے چراغ

 

موسمِ گل کی اتاری جا رہی تھی آرتی

ٹہنی ٹہنی نے اٹھا رکھے تھے پھولوں کے چراغ

 

نیند کی نگری میں ہوتا ہے چراغاں کا سماں

جگمگا اٹھتے ہیں جب بھی تیرے خوابوں کے چراغ

 

دہر میں ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں بے فیض لوگ

جیسے غاروں کے خزانے، جیسے قبروں کے چراغ

 

مفلسی تنہا بنا دیتی ہے نازؔ انسان کو

بھوک کی آندھی بجھا دیتی ہے رشتوں کے چراغ

٭٭٭

 

 

 

 

دیکھتے ہو جو روز خواب میں خواب

ڈال دیں گے تمہیں عذاب میں خواب

 

خواب میں ماہتاب دیکھتے ہیں

کیسے دیکھیں گے ماہتاب میں خواب

 

ہم حقیقت پرست رندوں نے

گھول کر پی لئے شراب میں خواب

 

عکس دیکھو ذرا ستاروں کے

جیسے اترے ہوئے ہوں آب میں خواب

 

ان سے صرفِ نظر کروں کیسے

میری آنکھوں کے ہیں نصاب میں خواب

 

خواب میں اب شباب دیکھتے ہیں

دیکھتے تھے کبھی شباب میں خواب

 

ہر حقیقت سوال کا اس نے

مجھ کو بھیجا سدا جواب میں خواب

 

آپ پہنائیں ان کو تعبیریں

پیش ہیں آب کی جناب میں خواب

٭٭٭

 

 

 

 

 

محنت سے مرے ہاتھ پہ چھالے ہی رہے ہیں

قسمت میں مگر خشک نوالے ہی رہے ہیں

 

اِک آدھ مکاں روز یہاں جلتا رہا ہے

اس شہر کی گلیوں میں اجالے ہی رہے ہیں

 

مخلص کوئی ایسا ہے، نہ مفلس کوئی اتنا

ہر رنگ میں ہم سب سے نرالے ہی رہے ہیں

 

کیا بات ہے ہر دور میں کیوں تیرے کرم سے

محروم ترے چاہنے والے ہی رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جنونِ عشق یہ احسان کر گیا ہے میاں

کہ مجھ کو صاحبِ عرفان کر گیا ہے میاں

 

وہ اپنا درد مجھے دان کر گیا ہے میاں

بڑا سخی، بڑا احسان کر گیا ہے میاں

 

کبھی کبھی تو سمجھ بھی نہیں سکا اس کو

کبھی کبھی تو وہ حیران کر گیا ہے میاں

 

کمالِ حسن سے، حسنِ کمال سے گاہے

وہ دل کی مشکلیں آسان کر گیا ہے میاں

 

چراغِ دل کی منڈیروں پہ پھر سے جل اٹھے

وہ پھر سے آنے کا پیمان کر گیا ہے میاں

 

بچھڑ گیا ہے تو مجھ کو ہوا ہے اندازہ

وہ مل کے کتنا پریشان کر گیا ہے میاں

 

وہ مل بھی جائے تو شاید نہ ہو سکے پورا

کسی کا ہجر جو نقصان کر گیا ہے میاں

 

وہ ایک اشک جو کانپا تھا میری پلکوں پر

شکستِ ضبط کا اعلان کر گیا ہے میاں

 

میں کیوں نہ اس بتِ کافر کا معتقد ٹھہروں

جو مجھ کو صاحبِ ایمان کر گیا ہے میاں

 

انا ہی آخری پونجی تھی نازؔ کی، جس کو

وہ نامِ عشق پہ قربان کر گیا ہے میاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

سرِ میدانِ کربل لاشۂ شبیر کے ٹکڑے

جو دیکھے تو ہوئے کیا کیا دلِ ہمشیر کے ٹکڑے

 

رُلایا ہے لہو مختار نے مجبور کو اکثر

کیے ہیں بارہا تقدیر نے تدبیر کے ٹکڑے

 

وہاں ملتی نہیں اب نام کو بھی کوئی رنگینی

کبھی جنت نشاں تھے وادئ کشمیر کے ٹکڑے

 

ذرا کچھ زلزلہ آیا غمِ حالات کا دل میں

ہوئے دیوار سے گِر کر تِری تصویر کے ٹکڑے

 

کیے ہیں کتنی بیدردی سے کچھ سفّاک لوگوں نے

قلندر کے مقدس خواب کی تعبیر کے ٹکڑے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کہنے سننے کا سلیقہ ہے جسے جب آ جائے

میں صدا بندے کو دوں سامنے رب آ جائے

 

اِک قیامت ہے ملاقات کو آنا اُس کا

میں قیامت کا یقیں کر لوں اگر اب آ جائے

 

واعظِ شہر کو آتا ہے بہت کچھ لیکن

کاش انسان کا تھوڑا سا ادب آ جائے

 

برسرِ دار پہنچ جاتے ہیں اکثر ہم لوگ

بات حق کی جو کبھی برسرِ لب آ جائے

٭٭٭

 

 

 

 

تمہاری راہگزر سے گزر کے دیکھتے ہیں

پھر اس کے بعد نتیجے سفر کے دیکھتے ہیں

 

یونہی سہی یہ تماشہ بھی کر کے دیکھتے ہیں

کوئی سمیٹ ہی لے گا بکھر کے دیکھتے ہیں

 

ہمیں ہواؤں کے تیور جو دیکھنے ہوں کبھی

چراغِ جاں کو ہتھیلی پہ دھر کے دیکھتے ہیں

 

ملال یہ ہے کہ ہم آبرو سے جی نہ سکے

خیال یہ ہے کہ عزت سے مر کے دیکھتے ہیں

 

پھر اس کو دیکھتے رہتے ہیں دیکھتے والے

وہ ایک بار جسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

 

سنا ہے بات بنانے پہ دسترس ہے اُسے

"یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں ”

 

وفا بھی حسنِ عمل کا ثبوت مانگتی ہے

سو ہم بھی غازۂ خوں سے نِکھر کے دیکھتے ہیں

 

خِرد کی شعبدہ بازی کے ہم نہیں قائل

ہم اہل دل ہیں کرشمے نظر کے دیکھتے ہیں

 

تماشا کون سا آخر ہے سطح دریا پر

جسے حباب مسلسل اُبھر کے دیکھتے ہیں

 

نکل کے تم بھی پندارِ نازؔ سے دیکھو

تو ہم بھی بامِ انا سے اتر کے دیکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

رات دِن میزانِ غم پر تولتی رہ جائے گی

زندگی مجھ کو رلاتی رولتی رہ جائے گی

 

پھڑ پھڑا کر اپنے پر پنچھی کوئی اڑ جائے گا

دیر تک سونی سی ٹہنی ڈولتی رہ جائے گی

 

دے کے دستک میں گزر جاؤں گا جھونکے کی طرح

وہ تغافل کیش کھڑکی کھولتی رہ جائے گی

 

موت اپنا کام کر جائے گی خاموشی کے ساتھ

زندگی کچھ منہ ہی منہ میں بولتی رہ جائے گی

 

داؤ چلتے ہی سپیرا کوئی ڈس لے گا اسے

زخمی ناگن عمر بھر بِس گھولتی رہ جائے گی

 

اُس کے من مندر میں ہوں گا ناز میں وقفِ نیاز

وہ مجھے مسجد گلی میں ٹولتی رہ جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

نظر فریب نظاروں کو آگ لگ جائے

مری دعا ہے بہاروں کو آگ لگ جائے

 

خوشی کو چھین لیں، مشکل میں کام آ نہ سکیں

یہی ہیں یار تو یاروں کو آگ لگ جائے

 

پناہیں دامنِ طوفاں میں مل گئیں مجھ کو

مری بلا سے کناروں کو آگ لگ جائے

 

جلا رہے ہیں مجھے بے بسی کے دوزخ میں

خدا کرے کہ سہاروں کو آگ لگ جائے

 

کچھ ایسا زمزمہ چھیڑو نوا گرو جس سے

رُبابِ زیست کے تاروں کو آگ لگ جائے

 

سکونِ زیست کی ٹھنڈک نصیب ہو ان کو

نہیں تو درد کے ماروں کو آگ لگ جائے

 

چھپی ہے نازؔ وہ آتش مِرے نشیمن میں

اگر چھوئیں تو شراروں کو آگ لگ جائے

٭٭٭

کمپوزنگ اور پیش کش: سردار فرحان محمد خان

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل