FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

تفسیر معوذتین

 

 

حافظ ابن قیم الجوزیہ

رحمہ اللہ علیہ

ترجَمَہ

 

 مولانا عبدالرحیم (مرحوم) پشاوری

 

 

 

 

بِسْمِ اﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 

 

پیش لفظ

یہ کتاب جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ کی تصنیف لطیف ’’تفسیر المعوذتین‘‘  کا اردو ترجمہ ہے۔ موضوع کتاب کے نام سے ظاہر ہے، کہ یہ قرآن پاک کی آخری دوسورتو ں کی تفسیر اور اس کے متعلقہ مباحث پر مشتمل ہے۔ کتاب کی علمی حیثیت اور اس کے تعارف کے لئے جناب مصنف رحمہ اللہ علیہ تعالیٰ کا نام گرامی ہی سب سے بڑی ضخامت ہے۔ آپ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے فیض یافتہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ کی طرح جن مباحث پر قلم اٹھاتے ہیں ان کے متعلق کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑتے۔

کتاب کا اردو ترجمہ جناب مولانا عبدالرحیم مرحوم پشاوری کا ہے جس میں انہوں نے جاذبیت پیدا کرنے اور عام فہم بنانے کے لئے جا بجا جلی اور بغلی سرخیاں بھی قائم کر دی ہیں اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں حاشیہ میں مزید وضاحت فرما دی تاکہ ہر عام و خاص اس سے پوری طرح استفادہ کر سکے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ۔

یہ کتاب آج سے کئی سال قبل ۱۹۲۸ء میں طبع ہوئی تھی، اس کے بعد جلد ہی نایاب ہو گئی۔کتاب کی افادیت کے پیش نظر ضرورت محسوس کی گئی کہ اسے دوبارہ شائقین تک پہنچا یا جائے۔ چنانچہ کتاب پر سرسری نظر ڈال کر جو سابقہ مطبعی اغلاط محسوس ہوئیں انہیں درست کر دیا گیا ہے اور بعض جگہ جزوی سی اصطلاح بھی کر دی گئی جو ناگزیر تھی۔

اللہ ذوالجلال و الاکرام جزائے خیر عطاء فرمائے مولوی عبدالرشید اور جناب محمد شعیب صاحبان کو جن کے تعاون سے اس کی طباعت کے مراحل طے ہوئے۔ ہماری دلی دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں دین حنیف کی خدمت کی توفیق ارزانی عطا فرمائے اور ہم سب کو اخلاص کی دولت سے نوازے !آمین!!

وصلی اﷲ علیٰ حبیبہ محمد و اٰلہ و بارک وسلم تسلیما کثیرا۔

خادم العلم والعلماء

ارشاد الحق اثری خطیب مسجد اہل حدیث خالد آباد

رفیق ادارہ علوم اثریہ فیصل آباد

۱۸۔ذی فعدہ ۱۴۰۲او/ ۷۔ستمبر ۱۹۸۲ ء

 

اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم o بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّجِیْمِ

 

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ oلامِنْ شَرِّمَاخَلَقَ oلاوَمِنْ شَرِّغَاسِقٍ اِذَاوَقَبَoلاوَمِنْ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ oلا وَمِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذَاحَسَدَ oع

 

قُلْ اَعُوْذُبِرَبِّ النَّاسِo مَلِکِ النَّاسِ o اِلٰہِ النَّاسِ o مِنْ شَرِّالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ o الَّذِی یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِالنَّاسِ o مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ o

 

فصل اوّل: مَا جَاء فِی الحَدیْث

                   شان نزول

امام مسلم نے اپنی صحیح میں سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں

کیا تم کو وہ آیتیں معلوم نہیں جو آج کی رات نازل ہوئیں اور جن کی مثال اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی۔ وہ آیتیں یہ ہیں

قُلْ اَعُوْذُبِرِّبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُبِرَبِّ النَّاسِ

ایک دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں

نبی کریم ﷺ نے عقبہ رضی اللہ عنہ مذکور سے مخاطب ہو کر فرمایا کیا میں تمہیں وہ کلمات بتاؤں جو ان تمام کلمات سے بہتر ہیں جن کے ذریعہ سے کبھی کسی پناہ مانگنے والے نے پناہ مانگی ہے۔عقبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا، ہاں یارسول اللہ ﷺ ! ضرور فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا

قُلْ اَعُوْذُبِرِبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُبِرَبِّ النَّاسِ

ترمذی رحمہ اللہ نے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت در ج کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس کو ہر ایک نماز کے بعد معوذتین (سورۃالفلق اور سورۃ الناس ) پڑھنے کا حکم دیا۔

ترمذی، نسائی، اور ابوداؤد میں سیدنا عبداللہ بن حبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ہم ایک اندھیری رات میں جب کہ بارش ہو رہی تھی اس لئے اپنے گھروں سے نکلے کہ نبی کریم ﷺ کے پیچھے نماز ادا کریں، ہم آپ ﷺ کے حضور میں پہنچے تو ارشاد ہوا، کہو (کیا کام ہے ) میں چپ رہا۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہو؟ میں پھر بھی چپ رہا تو آپ ﷺ نے یوں ارشاد فرمایا

صبح و شام قل ہو اللہ احد اور معوذ تین پڑھا کرو، تم ہر ایک قسم کے شر سے محفوظ رہو گے۔

ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے

نیز امام ترمذی رحمہ اللہ نے بروایت سیدنا ابو ہریرہ و ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ جنوں کے شر سے اور آدمیوں کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے، لیکن جب معوذتین نازل ہوئیں تو آپ ﷺ نے انہی کا پڑھنا اپنا معمول بنا لیا اور دوسری تمام دعاؤں کو چھوڑ دیا‘‘۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اسی کے ہم معنی ایک حدیث سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے۔

                   خواص

صحیحین میں سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب سو جانا چاہتے تھے تو قُلْ ھُواﷲُاَحَدٌ اور معوذتین کو پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونکتے تھے جس کے بعد اپنے منہ پر اور اپنے جسم کے تمام حصوں پر جہاں تک آپ ﷺ کا دست مبارک پہنچ سکتا تھا پھیر لیتے تھے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ ﷺ بیمار ہوئے تو آپ ﷺ نے مجھ کو ایسا کرنے کا حکم دیا۔

میں کہتا ہوں (حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے ) کہ سیدنا یونس نے بروایت زہری سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے حدیث کا آخری حصہ اسی طرح نقل کیا ہے لیکن امام مالک رحمہ اللہ نے بروایت زہری اس طرح نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ جب بیمار ہوتے تھے تب بھی معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے تھے، لیکن جب آپ سخت بیمار ہوئے تو میں آپ ﷺ کی طرف سے یہ سورتیں پڑھ کر خود آپ ﷺ کے دست مبارک پر پھونک کر اس کو آپ ﷺ کے جسم پر پھیر دیا کرتی تھی جس سے میرا مقصد حصول برکت تھا۔

اسی طرح معمر نے بھی زہری سے اسی کے موافق روایت کی ہے

معمر کی یہ روایت صحیح بخاری میں ہے اور یہی روایت صحیح معلوم ہوتی ہے، کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا از خود یہ فعل کیا کرتی تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا، البتہ ایسا کرنے سے منع بھی نہیں فرمایا۔ لہٰذا اس حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کو جھاڑ پھونک کا حکم فرمایا تھا۔ ممکن ہے کہ بعض راویوں نے اس کی روایت بالمعنی کی ہو اور راوی کا یہ خیال ہو کہ چونکہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کے علم سے ایسا کرتی تھیں اور آپ ﷺ نے اس پر کچھ اعتراض نہیں فرمایا، اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے جھاڑ پھونک کرائی اور یہ بھی ممکن ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کو صرف اتنا حکم دیا ہو کہ وہ آپ ﷺ کے جسم مبارک پر آپ ﷺ ہی کا ہاتھ پھیر دیا کریں، کیونکہ آپ ﷺ مرض سے کمزور ہو جانے کے باعث اپنے جسم کے تمام حصوں پر اپنا ہاتھ نہیں پھیر سکتے تھے اس لئے آپ ﷺ نے اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ وہ اس بارے میں آپ ﷺ کی مدد کریں۔ اس کی یہ معنی نہیں ہیں کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نے اپنا ہاتھ نبی کریم ﷺ کے جسم مبارک پر پھیرا۔

ایک صحیح حدیث میں نبی کریم ﷺ نے متوکلین کی بعض علامات بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ جھاڑ پھونک نہیں کراتے۔ چونکہ نبی کریم ﷺ یقیناً سید المتوکلین تھے اس لئے مصنف علیہ الرحمۃ اس سے آپ ﷺ کو بری قرار دینا چاہتے ہیں اور اس کے اس قدر طول کلام کا ماحصل یہی ہے (مترجم)

                   تلخیص مضامین

بہر کیف یہاں پر مقصود ان دونوں سورتوں کا عظیم نفع بیان کرنا ہے اور یہ کہ ہر شخص کے لئے ان کا سیکھنا لازم ہے۔ جادو، نظر بد اور ہر ایک قسم کا شر دفع کرنے کے ان میں ایک عجیب و غریب تاثیر رکھی گئی ہے۔ اگر کسی آدمی کو اپنا تنفس قائم رکھنے اور کھانے پینے کی ضرورت ہے تو ان سورتوں کا سیکھنا اور انکے ذریعہ سے ہر ایک قسم کے شر سے پناہ مانگنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔

ان دونوں سورتوں کا مضمون استعاذہ (پناہ مانگنا) ہے جس کے متعلق تین باتوں کا سمجھنا اور یاد رکھنا لازم ہے۔

٭ استعاذہ،یعنی پناہ مانگنا۔

٭ مستعاذبہ، یعنی جس کے ساتھ پناہ لی جاتی ہے۔

٭ مستعاذبہ منہ، یعنی جس سے پناہ لی جائے۔

ان تینوں کی تفصیل معلوم کرنے لینے سے تم کو ان سورتوں کی اہمیت واضح ہو جائے گی، اس لئے ان کی تشریح کے لئے الگ الگ بحث کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

 

فصل دوم: استعاذہ

                   معانی

اس لفظ کا مادہ عوذ ہے جس کا مفہوم لغت میں یہ ہے کہ کوئی چیز جس کو تم پسند نہیں کرتے ہو اس سے بھاگ کر کوئی ایسی پناہ ڈھونڈو جو اس کے شرسے تم کو بچائے۔

مثال

ایک لڑکا چلا جا رہا ہے۔ سامنے سے کوئی دشمن اس کو مار ڈالنے کی غرض سے تلوار میان سے کھینچ کر اس پر حملہ کرنے لئے پل پڑتا ہے۔ لڑکا یہ حالت دیکھ کر اور خوفزدہ ہو کر بھاگنا شروع کرتا ہے، راستے میں اس کو اپنا مشفق باپ دکھائی دیتا ہے، جسے دیکھتے ہی وہ اس سے چمٹ جاتا ہے اور نجات کے لئے اس کا تمام تر بھروسہ اپنے والد مہربان کی شفقت اور قوت مدافعت پر ہوتا ہے اسی طرح ایک مسلمان اپنے دشمن ایمان سے بھاگ کر اپنے رحیم اللہ کے پناہ ڈھونڈتا ہے۔ بایں ہمہ یہ تمام تشریح صرف سمجھانے کے لئے ہے، ورنہ اس کی حقیقت کی تعبیر سے الفاظ قاصر ہیں۔ استعاذہ کے وقت میں ایک مومن صادق کے دل پر تذلل، التجا اور تضرع کی جو خاص کیفیت طاری ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو اپنے رب تبارک و تعالیٰ کے سامنے محض بے اختیار سمجھتا ہے اور اس کی تمام تر نظر اللہ کی قدرت کاملہ کی کارسازیوں اور رحمت شاملہ کے کرشموں پر ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کا اظہار الفاظ اور عبارتوں میں نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا تعلق ذوق اور وجدان سے ہے۔ اسی طرح مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی سچی محبت اور اس کے خوف و جلا ل اور ہیبت کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کا ادراک بھی وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے دل میں یہ صفتیں پیدا ہو چکی ہوں۔ وصف اور بیان کا یہاں کچھ کام نہیں۔ چنانچہ ایک کمسن لڑکا حالات بعد از بلوغ کا صحیح ادراک نہیں کر سکتا۔

ایک سوال

یہ ایک معلوم بات ہے کہ جہاں کلام پاک میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ قُل ِالْحَمْدُ لِلّٰہ ِ اس کی تعمیل الحمدﷲ کے کہنے سے ہو گی، نہ کہ قُلِ الْحَمْدُ لَلّٰہِ کہنے سے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ معوذتین قُلْ اَعُوْذُبِرِّبِّ الْفَلَقِ الخ اور قُلْ اَعُوْذُبِرَبِّ النَّاسِ الخ کی تعمیل کرتے ہوئے قُلْ اَعُوْذُبِرِّبِّ الْفَلَقِ الخ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ کہا جاتا ہے ؟

جواب

یہی سول بعینہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تھا جس کے جواب میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’قِیْلَ لِیْ فَقُلْتُ‘‘۔ ’’مجھ سے یہی کہا گیا اور میں نے اسی طرح کہا‘‘۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس لئے ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں جس طرح نبی کریم ﷺ نے کہا تھا‘‘۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔

نیز صحیح بخاری میں ہے کہ زرین جیش، ابن بن کعب رضی اللہ عنہ سے اس طرح مخاطب ہوا کہ اے ابا المنذر ! آپ کا بھائی ابن مسعود رضی اللہ عنہ تو کچھ اور کہتا ہے۔

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے یہی کہا گیا ہے کہ کہو اور میں بھی یہی کہتا ہوں کہ کہو۔ اس لئے ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں جیسے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا

الغرض نبی کریم ﷺ کے قول کا ملخص یہ ہے کہ مجھ کو بارگاہ الہٰی سے یہی ارشاد ہوا ہے کہ قُلْ اَعُوْذُبِرِبِّ الْفَلَقِ الخ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ اس لئے میں انہی الفاظ میں کہتا ہوں جن الفاظ میں مجھ سے کہا گیا۔ اس میں یہ راز ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قرآن کریم کی تبلیغ میں اپنی طرف سے کچھ بھی تصرف نہیں کیا، بلکہ جو الفاظ اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ ﷺ پر نازل ہوئے یہی تھے کہ قُلْ اَعُوْذُبِرِبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ اس لئے کہ تبلیغ کا پورا حق ادا ہوسکتا تھا کہ آپ بعینہٖ انہیں الفاظ کو دہرا دیتے، چنانچہ آپ ﷺ نے ایساہی کیا۔ آپ ﷺ کے ان الفاظ سے کہ ’’مجھ سے بھی کہا گیا کہ کہو اور میں نے وہی کہا ‘‘۔ یہی مراد ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میں اپنی طرف سے ایک حرف بھی گھٹاتا بڑھاتا نہیں ہوں۔ بلکہ جو کچھ مجھ کو بارگاہ کبریا سے ارشاد ہوتا ہے اسی کی تبلیغ کرتا ہوں۔

                   منصب رسالت

اس میں معتزلہ اور جہمیہ کے قول کی واضح طور پر تردید کی گئی ہے، جن کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کو نبی کریم ﷺ نے اپنی عبارت اور اپنے الفاظ میں ادا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشادات الہٰی کو انہیں الفاظ میں ادا کیا ہے۔ جن الفاظ کے ساتھ ان پر وحی نازل ہوئی۔

یہاں تک کہ جب آپ ﷺ سے کہا گیا کہ قُلْ ْ آپ ﷺ نے بھی اسی امر کا اعادہ کیا اور کہا قُلْ کیوں کہ آپ ﷺ محض مبلغ اور رسول تھے جن کا منصب ’’رسالت ‘‘ کا صحیح صحیح پہنچانا ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ اپنی جانب سے اس کے الفاظ میں کسی قسم کا تصرف یعنی رد و بدل کریں۔

 

فصل سوم: مستعاذبہ

                   معانی

جس کے ساتھ پناہ لی جاتی ہے اسے مستعاذبہ کہتے ہیں وہ صرف اللہ تعالیٰ واحد لا شریک ہے جس کی قدرت سے پو پھٹتی ہے اور وہ تمام لوگوں کا پرورش کرنے والا، ان کا بادشاہ اور معبود ہے اس کے بغیر اور کوئی جائے پناہ نہیں، پناہ مانگنے والوں کو وہی پناہ دیتا ہے اور ہر ایک چیز کے شر سے وہ پناہ مانگتے ہیں ان کو بچاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں اس حقیقت سے اپنے بندوں کو آگاہ فرمایا ہے کہ جو کوئی اس کو چھوڑ کر کسی مخلوق سے پناہ مانگتا ہے وہ کبھی اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوتا اور مستعاذبہ کے لئے اس کا یہ فعل تمرد اور طغیان کا موجب ہوتا ہے، چنانچہ مومن جنوں کی زبان سے سورۃ الجن میں منقول ہے

وَاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَالْجِنِّ فَزَادُوُھُمْ رَھَقًا[i](۲۷۶)

اور بے شک بنی آدم کے کچھ لوگ بعض جنوں سے پناہ مانگتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ اس سے جنوں کی سرکشی بڑھ جاتی تھی۔

اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں جب کسی مسافر کو بیابان کی کسی سنسان جگہ میں رات بسر کرنے کا اتفاق ہوتا تھا تو وہ جنوں کو اس علاقہ کا متصرف اور مختار سمجھ کر یہ الفاظ زبان پر لاتا تھا کہ

اعوذبسید ھذاالوادی من شر سفھاء قومہ

میں اس وادی کے سردار کو اپنا جائے پنا ہ سمجھ کر اس قوم کے بدمعاشوں کی شرارت سے اس کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں۔

اہلِ جاہلیت کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے آدمی اپنی رات امن و امان سے بسر کر سکتا ہے اور اس کو کسی قسم کا گزند نہیں پہنچتا۔ اس خیال کو شائع دیکھ کر جنوں کے دل میں ایک طرح کا غرور اور سرکشی پیدا ہوتی تھی اور وہ کہتے تھے کہ بنی آدم اور جنوں پر ہم یکساں حکومت کرتے ہیں۔

                   کلام اللہ غیر مخلوق

ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے

اعوذبکمات اﷲ التامات

میں اللہ تعالیٰ کے ان کلمات کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں جو ہر طرح سے کامل ہیں۔

اہل سنت نے اس حدیث سے استدلال کر کے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ سے یہ نہایت بعید ہے کہ وہ کسی مخلوق کے ساتھ پناہ مانگیں، چنانچہ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ

اعوذبرضاک من سخطک وبمعافاتک من عقوبتک

الہی! میں تیری رضامندی کے ساتھ تیر ی خوشی سے پناہ مانگتا ہوں۔ اور تیرے عذاب کے مقابلے میں تیری بخشش اور معافی کو جائے پناہ ٹھہراتا ہوں۔

اس بات کی دلیل ہے کہ رضا اور عفو کا شمار اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ میں ہے اور ہر ایک صفت ان میں سے غیر مخلوق ہے علی ہذا القیاس آپ کا یہ قول کہ

اعوذ بعزۃ اﷲ وقدرتہ

میں اللہ تعالیٰ کی عزت اور اس کی قدرت کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں۔اور

اعوذبنوروجھک الذی اشرقت لہ الظلمٰت

میں تیری ذات پاک کے نور کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں جس کے سامنے تمام تاریکیاں روشنی سے بدل جاتی ہیں۔

الغرض جس چیز کے ساتھ آپ ﷺ نے پنا ہ طلب کی ہے وہ یقیناً غیر مخلوق ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کاملہ کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس میں جن اسمائے حسنٰی کو مستعاذبہ بتایا گیا ہے وہ رب، ملک اور الہٰ کے الفاظ ہیں۔ نیز ربوبیت کی اضافت فلق (صبح کی روشنی ) اور ناس (لوگ) کی طرف بیان کی گئی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سورتوں میں اپنے جو اوصاف بیان فرمائے ہیں وہ استعاذہ مطلوبہ کے ساتھ گہری مناسبت رکھتے ہوں گے کیونکہ ہم نے اپنی تصنیفات میں بارہا اس بات کو واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جب اس کے اسمائے حسنٰی سے پکارا جائے تو ہمیشہ یہ نقطہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ مدعا اور مطلوب کی مناسب اسم پاک استعمال کیا جائے۔

نبی کریم ﷺ نے ان سورتوں کے بارے میں ارشاد فریا ہے کہ کسی پناہ مانگنے والے کو ان جیسے کلمات کے ساتھ پناہ مانگنا نصیب نہیں ہوا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جن اسمائے پاک کے ساتھ ان سورتوں میں استعاذہ کیا گیا ہے ان کو حصول مطلوب کے ساتھ خاص مناسبت ہے۔ مستعاذبہ منہ پر بحث کرتے ہوئے اس مناسبت کی توضیح کر دی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

فصل چہارم: مستعاذمنہ

                   معانی و اقسام شر

جن چیزوں سے پناہ مانگی جاتی ہے انہیں مستعاذبہ منہ کہتے ہیں۔ یہ سب کی سب شر کی قسمیں ہیں ان کی تفصیل حسب ذیل ہے

انسان کو جو برائی پہنچتی ہے وہ دو قسم سے باہر نہیں۔

[الف] ہر ایک قسم کے گناہ جن کا انسان اپنے ارادہ اور اختیار سے ارتکاب کرتا ہے اور جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان اور آخرت میں سزاملتی ہے۔ شر کی یہ قسم (گناہ اور نافرمانیوں اور ان کے موجبات و بواعث کی ) شدید ترین اور پائدار ہے اور اس سے نجات پانا نہایت دشوار ہے۔

(ب) شر کی دوسری قسم وہ ہے جو انسان کو دوسرے کی طرف سے پیش آتی ہے چاہے وہ دوسرا مکلف یعنی ذمہ دار ہستی ہو جیسے انسان اور جن یا غیر مکلف ہو جیسے زہر دار اشیاء وغیرہ۔ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس میں نہایت مختصر اور جامع عبارت میں شر کی ان تمام اقسام سے پناہ مانگنے کا ذکر ہے چنانچہ سورۃ الفلق میں چار باتوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔

۔ تمام وہ مخلوقات جس سے شرکا صادر ہونا ممکن ہے۔

۔ شب تاریک کے چھا جانے سے جو شر پیدا ہوتے ہیں۔

۔ گانٹھوں پر پھونکنے والیوں کے شر انگیز اعمال سے۔

۔ حسد کرنے والے کے حسد کے بر ے نتائج سے۔

لیکن ان چاروں کی تفصیل بیان کرنے سے پیشتر شر کے معنی اور اس کی حقیقت کا بیان کرنا لازم ہے۔

                   شر اور اس کی حقیقت

شرکا اطلاق دردو تکلیف اور اس کے نتائج واسباب پر ہوتا ہے، چنانچہ کفر و شرک، ظلم و بدعت اور ہر ایک قسم کے گناہ کو، اگر چہ اس میں اس کے کرنے والے کی کچھ غرض مد نظر ہوتی اور اس کے ارتکاب سے اس کو لذت حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے شر کہا جاتا ہے کہ ایسی باتوں کے مرتکب کو دنیا یا آخرت میں انہی باتوں کے نتیجہ کے طور پر تکلیف اور عذاب پیش آتا ہے کیوں کہ کفرو شرک میں وہی تعلق ہے جو کسی سبب اور اس کے مسبب کے درمیان ہوتا ہے۔ مثلاً زہر کھانا (بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو ) ہمیشہ ہلاکت پر منتج ہوتا ہے، ذبح کرنے اور گلا گھونٹنے کا نتیجہ موت ہوتی ہے۔ اور اگر آدمی آگ میں ہاتھ ڈالے تو لا محالہ اس کا ہاتھ جل جائے گا۔

الغرض ہر ایک سبب کا نتیجہ اس کا مسبب ہوتا ہے بشرطیکہ کوئی مانع پیش نہ آ جائے یا ایک سبب کے ساتھ کوئی دوسرا سبب معارض نہ ہو جائے جو اس سے قوی تر ہے اور جس کا نتیجہ پہلے سبب کے نتیجے کے برعکس ہو۔صحت اور مرض کے مضمون پر بڑی بڑی ضخیم کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان کا غور سے مطالعہ کرو، اسباب اور مسبباب کے قانون کو مطرد  پاؤ گے۔

                   عالم اسباب

                    

اسی طرح روحانی امراض میں بھی یہی سبب اور مسبب کا قانون نافذ ہے اور ہر ایک گناہ کی عقوبت خاص اس کا مسبب ہے۔ الغرض ذنوب اور معاصی بعینہٖ اس طرح آخرت میں عذاب اور ہلاکت کا موجب ہوتے ہیں جس طرح اس دنیا میں زہر ہلاکت کا باعث ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی دوسرا سبب معارض ہو یا کوئی مانع پیش آ جائے تو ان کا نتیجہ ظہور میں آنے سے رک سکتا ہے (جیسے کہ پہلے ذکر ہوا ) مثلاً قوت ایمان، کثرت حسنات اور متقیانہ اعمال سے معاصی ار سیئات کی عقوبت سے انسان بچ سکتاہے جیسے کہ اس دنیا میں بھی جو سبب قوی تر ہو اس کا نتیجہ ظہور میں آتا ہے۔ دنیا اور آخرت میں اللہ کا قانون ایک ہے

وَلَنْ تَجِدَلِسْنَّۃِ اﷲِ تَبْدِیْلًا (۳۲/۶۳)

اور تم اللہ کے قانون میں کوئی تغیر اور تبدل نہیں پاؤ گے۔

                   تمثیل

معاصی اور سیئات کے ارتکاب میں اگر چہ بظاہر لذت محسوس ہوتی ہے اور اس سے نفس کو فوری خوشی حاصل ہوتی ہے لیکن اس کی مثال ایک لذیذ کھانے کی ہے جس میں زہر ملایا گیا ہو۔ بظاہر وہ نہایت مرغوب ہوتا ہے، مگر اس کا انجام کھانے والے کی ہلاکت ہے ذنوب اور معاصی بھی اسی لذیذ مگر مسموم کھانے کی طرح عقوبت اور عذاب کے موجب ہیں اور وہ گناہ اور عذاب میں سبب اور مسبب کا تعلق ہے اگر بالفرض شریعت مطہرہ نے آدمی کو اس کی عقوبت اور انجام بد سے آگاہ نہ کیا ہوتا تو تب بھی ایک صاحب بصیرت انسان، تجربہ کے ذریعے سے اور واقعات عالم سے استدلال کر کے اسی نتیجہ پر پہنچتا۔ کیوں کہ جب کبھی بھی کسی سے کوئی نعمت زائل ہوتی ہے اس کا سبب یقیناً اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی ہو گا۔ ارشاد الہٰی ہے کہ

اَنَّ اﷲَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقُوْمٍ حَتّٰی یَغَیُّروَا مَابِاَنْفُسِھِمْ ط وَاِذَ اَرَادَاﷲُ بَقَوْمٍ سُوْٓئً فَلَا مَرَدَّلَہٗ وَمَالَہھْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ۔

بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی اچھی حالت کو بری حالت سے تبدیل نہیں فرماتا جب تک وہ خود اپنے اعمال میں تبدیلی پیدا نہ کر لیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل فرمانا چاہتا ہے تو پھر کوئی بھی اس کو ٹال نہیں سکتا اور نہ سوائے اس کے کوئی اور ان کے لئے کارساز ہو سکتا ہے۔

                   زوال نعمت کے اسباب

اللہ تعالیٰ کے کلام پاک میں جن قوموں کی ہلاکت اور ان پر نزول عذاب کا ذکر ہے۔ اگر کوئی سمجھ دار آدمی ان قصص کو غور سے پڑھے تو ان کو واضح طور پر نظر آ جائے گا کہ ہر ایک قوم کی ہلاکت اور عذاب کا سبب اس قوم کی نافرمانی تھی۔اسی طرح اگر کوئی تاریخی واقعات یا اپنے زمانہ کے احوال پر ایک نظر غائر ڈالے تو اس کو نظر آئے گا کہ زوال نعمت کا اصلی اور حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسولوں کی نافرمانی ہے۔ ایک شاعر نے اس مضمون کو نہایت خوبی کے ساتھ منظوم کیا ہے۔

اِذَاکُنْتَ فِیْ نَعْمَۃٍ فَارِعْھَا

فَاِنَّ الْمَعاصِیْ تَزِیْلُ النَّعَمٗ

جب تم پر اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت ہو اور تم کسی نعمت کا لطف اٹھا رہے ہو تو اس کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرو(اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو ) کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اس کی نعمتوں کے سلب کئے جانے کا سبب ہے۔

اللہ تعالیٰ کی نعمت کو برقرار رکھنے کا سب سے بہتر طریقہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی ہے اس نے اپنے کلام مجید میں شکر کو زیادتی کا موجب بتایا ہے لیکن کیا تم جانتے ہو کہ صرف زبانی الحمدللہ کہنے سے شکر گزاری کا حق ادا ہو جاتا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں، شکر کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرے۔

                   شرکا مفہوم

خلاصۃ الکلام یہ ہے کہ معاصی اور سئیات جو دنیا ا ور آخرت میں عقوبت اور عذاب کا موجب، عذاب کا سبب ہونے کے باعث شر کے مفہوم میں داخل ہیں۔ باقی رہا اس کا مسبب یعنی عقوبت اور عذاب، سو اس کا شر کے مفہوم میں داخل ہونا بالکل ظاہر ہے، کیوں کہ اس کی عقوبت جسمانی اور روحانی دونوں قسم کے شدید ترین عذاب پر مشتمل ہے۔ روحانی عذاب سے مراد شرمندگی کا احساس، سخت ندامت اور حسرت ہے۔

اگر ایک عقلمند اس کی نوعیت پر کماحقہٗ غور کرے تو یقیناً اس کے اسباب سے پرہیز کرنا وہ اپنا اول ترین فرض خیال کرے گا لیکن اصل یہ ہے کہ آدمیوں کے دل پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اور اگر ان کو حقیقت حال پر اطلاع ہوتی تو وہ ایسی باتوں کا ہرگز ارتکاب نہ کرتے جن کے سبب سے وہ نجات سے محروم رہیں یا دنیا اور آخرت کے درجات سے بے بہرہ ہوں۔ آخرت میں جب انکشاف حقیقت ہو گا تو گنہگار اور مجرم چیخیں مار مار کر پکارے گا یا لیتنی قدمت لحیانی (کاش میں اپنی اس ابدی زندگی کے لئے بھی کچھ ذخیرہ کرتا ) یا حسرتا علی مافرطت فی جنب اﷲ۔ ہائے افسوس ! میں نے اللہ تعالیٰ کے پہلو میں (اس کی آنکھوں کے سامنے رہ کر) کس قدر کوتاہی کی ہے۔

                   سرورکونین (ﷺ) کا پہلا استعاذہ

الغرض چونکہ شر کا مفہوم ’’در دو تکلیف ‘‘ اور اس کے اسباب اور نتائج تک محدود ہے اس لئے نبی کریم ﷺ نے جب کبھی کسی چیز سے پناہ مانگی ہے وہ ضرور یا تو بذات خود ’’دردو تکلیف‘‘ ہو گی یا اس کا موجب۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کی عادت تھی کہ عموماً ہر نماز کے آخر میں چار چیزوں سے پناہ مانگتے تھے۔

۔ قبر کا عذاب۔۔ دوزخ کا عذاب۔

یہ دونوں چیزیں بذات خود درد و تکلیف بلکہ اس کی شدید ترین صورت ہیں۔

۔ زندگی اور موت کا فتنہ۔۔ مسیح دجال کا فتنہ۔

یہ دونوں چیزیں ’’درد و تکلیف ‘‘ اور عذاب کا موجب ہیں، کیونکہ کسی فتنہ کے اثر میں آ جانا عذاب کا موجب ہے۔

اس استعاذہ میں دونوں قسم کے فتنے کا ذکر ہے۔ ایک زندگی کا فتنہ، جس کا عذاب بعض اوقات فوراً نازل نہیں ہوتا۔ دوسرا موت کا فتنہ، جس کا عذاب بغیر کسی مہلت کے مفتون پر نازل ہوتا ہے۔ ان اشیائے چہار گانہ سے نماز کے آخر میں پناہ مانگنا نماز کے موکد ترین دعاؤں میں سے ہے۔ یہاں تک کہ بعض علمائے سلف اور خلف کا قول ہے کہ جو شخص اپنی نماز کے آخر میں یہ استعاذہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ہے۔

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ علیہ اس کو ہر ایک تشہد میں کہنا لازم سمجھتے ہیں اور اس کے ترک کرنے والے پر نماز کا اعادہ واجب خیال کرتے ہیں۔

                   سرورکونین(ﷺ) کا دوسرا استعاذہ

اسی طرح نبی کریم ﷺ سے نماز کے آخر میں یہ استعاذہ بھی منقول ہے

اللھم انی اعوذبک والحزن والحعجزواللکسل والحبی وضلع الدین وغلبۃ الرجال۔

الہی! میں تیرے ساتھ پناہ لیتا ہوں اندیشہ اور غم سے، بے بسی سستی سے، بزدلی اور بخیلی سے، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے تغلب سے۔

اس استعاذہ میں نبی کریم ﷺ نے آٹھ چیزوں سے پناہ طلب فرمائی ہے۔ جن میں سے دو دو آپس میں مناسبت رکھتی ہیں چنانچہ غم اور اندیشہ کا آپس میں تعلق ہے اور یہ دونوں روحانی تکلیف کی قسم سے ہیں۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اندیشہ کے معنی ہیں، مستقبل میں کسی تکلیف کے پیش آنے کا خوف۔ اور غم کا اطلاق اس احساس پر ہوتا ہے کہ کسی گذشتہ تکلیف کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح بے بسی اور سستی کا آپس میں تعلق ہے۔ بے بسی کسی چیز پر عدم قدرت کا نام ہے، اور سستی کے یہ معنی ہیں کہ انسان کو قدرت حاصل ہو لیکن اس کو استعمال نہ کرسکے چونکہ ان دونوں کا نتیجہ کسی مطلوب کا ہاتھ سے نکل جانا ہوتا ہے، اس لئے ان کا شمار بھی شر کے مفہوم میں ہوتا ہے۔ بزدلی اور بخیلی کا بھی آپس میں ساتھ ہے کیونکہ اول الذکر کے یہ معنی ہے کہ ایک شخص اپنے بدن اور اپنی قوت کو استعمال نہیں کرتا اور موخر الذکر کے معنی،مال کو استعمال نہ کرنا ہے۔ یہ دونوں ایسی صفتیں ہیں جن سے پناہ مانگنا لازم ہے کیونکہ انسان کو حصول مطالب و مقاصد میں اکثر اوقات دلیری اور شجاعت سے کام لینا پڑتا ہے اور مال خرچ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ (لیکن بزدلی اور بخیلی اس کی منافی ہے اور اس لئے حصول مقصد سے مانع) اور تم جانتے ہو کہ ادرک مطلوب میں جو لذت ہوتی ہے اس سے محروم رہ جانا کس قدر عذاب (عذاب روحانی) کا موجب ہو گا۔ علیٰ ہذا القیاس قرض کے بوجھ اور لوگوں کے تغلب میں ارتباط یہ ہے کہ قرض کا بوجھ اکثر آدمی اپنے اختیار سے سر پر لیتا ہے لیکن لوگوں کا تغلب انسان کے بس کی بات نہیں۔

دوسرا فرق یہ ہے کہ قرض کے بوجھ سے انسان کو جو تکلیف پیش آتی ہے اس میں قرض خواہ حق بجانب ہو تا ہے مگر لوگوں کا تغلب، ظلم اور ناحق ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں استعاذہ کے الفاظ حسب ذیل ہیں

اللہم انی اعوذبک من الماثم والمغرم

الہی! میں تیرے ساتھ گناہ اور قرض سے پناہ مانگتا ہوں۔

گناہ آخرت میں تکلیف اور عذاب کا باعث ہے اور قرض سے سردست تکلیف آنے کا احتمال ہے

ایک اور موقع پر نبی کریم ﷺ نے اس طرح استعاذہ فرمایا ہے

اللہم اعوذبرضاک من سخاطک ومعافاتک من عقوبتک

الہی ! میں تیر رضامندی کے ساتھ تیری ناخوشی سے پناہ مانگتا ہوں اور تیرے عذاب کے مقابلے میں تیری عفو کو جائے پناہ ٹھہراتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ کی ناراضگی عذاب کا موجب ہے اور عذاب عین تکلیف ہے۔

الغرض مستعاذمنہ وہ چیز جس سے پناہ مانگی جاتی ہے شر ہے اور ہمیشہ کوئی تکلیف یا اس کا سبب اور نتیجہ ہو گا جیسے کہ مندرجہ بالا مثالوں سے اس کی توضیح ہوتی ہے۔

 

فصل پنجم:  مستعاذہ منہ کے اقسام

                   تفصیل

جس شر سے پناہ مانگی جاتی ہے اس کی دو قسمیں ہوتی ہیں

{۱} ایک موجود شر جس کا دور کیا جانا مطلوب ہے۔

{۲} دوسرے معدوم شر جس کا عدم پر باقی رہنا مطلوب ہے۔

اسی طرح اس کے بالمقابل خیر کی بھی جو قسمیں ہیں۔

{۳} ایک موجود خیر جس کی بقا مطلوب ہے۔

{۴} دوسرے معدوم خیر کا وجود میں آنا مقصود ہے۔

اللہ تعالیٰ سے جتنی دعائیں مانگی جاتی ہیں ان کا مآل انہی چار قسموں کی طرف ہے۔ ذیل کی آیت کریمہ میں اللہ کے بعض خاص بندوں کی زبان سے یہ دعاء منقول ہے۔ انہی انواع چار گانہ پر مشتمل ہے

رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَامُنَادِیًأتّْنَ ادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْ ابِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَا غْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْ عَنَّاسَیِّاٰتِنَا۔ (۱۹،۲۰ /۳)

الہی! ہم نے ایک منادی کو ندا کرتے ہوئے سنا کہ اپنے رب تعالیٰ پر ایمان لاؤ، اس لئے ہم ایمان لائے۔ اے ہمارے اللہ! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری برائیوں کو دور کر دے۔

اس میں موجود شر کی دفع کی درخواست ہے کیوں کہ جیسے پہلے ذکر ہوا گناہ اور معاصی شر کی ایک قسم ہے۔

وَقَوَفَّنَامَعَ الْاَبْرَارِ۔(۳۱/۹۲)

اور اے ہمارے اللہ ! ہماری موت نیک لوگوں کے ساتھ ہو۔

اس میں موجود خیر کے بقاء کی التماس کی گئی ہے۔ کیونکہ ایمان ایک عظیم ترین خیر ہے، جو تمام بڑی بڑی نیکیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہے اور درجات عالیہ کے حصول کا موجب ہے۔

رَبَنَاوَاٰتِنَا مَاوَعَدْتَّنَاعَلٰی رُسُلِکَ۔(۳۱/۹۳)

الہی! ہمیں عطا کر جو کچھ تو نے ہمارے لئے اپنے رسولوں کی معرفت وعدہ فرمایا۔

یہ دعاء خیر معدوم کے موجود ہونے کے لئے ہے۔

وَلٰاَتُخْزِنَایَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔(۳۹/۱۹۳)

اور ہمیں قیامت کے دن ذلیل اور شرمندہ نہ بنا۔

اس میں معدوم شر کے عدم پر باقی رہنے کی استدعا ہے۔

اس سے تم کو معلوم ہو گا کہ اس آیت کریمہ کے ضمن میں جو دعا خاصان بارگاہ کی زبانی منقول ہے۔ وہ مطالب چار گانہ کی جامع اور تمام اقسام خیرات پر مشتمل یعنی مغفرت اور بقائے ایمان کو، جن کا تعلق اس زندگی سے ہے مقدم رکھا گیا ہے، اور اس کے بعد ان دوقسموں کا ذکر ہے جس کا حصول آخرت میں ہو گا یعنی یہ کہ جو کچھ ان سے اللہ کے رسولوں نے وعدہ کیا اس سے وہ بہرہ ور ہوں اور روزِ قیامت کی شرمندگی سے محفوظ رہیں۔ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے خطبہ میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ

 

نعوذ باﷲ من شرورالنفسنا ومن سیّات اعمالنا

ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے نفس کے شرا ور برے اعمال سے پناہ مانگتے ہیں۔

اس میں نفس کے شر سے پناہ طلب کی گئی ہے جس میں کہ بالقوۃ ہر ایک شر کا مادہ موجود ہے۔ بالفاظ دیگر معدوم شر کے ظہور میں نہ آنے کی دعا ء ہے، نیز برے اعمال سے پناہ طلب کی ہے جو موجود شر کی ایک بڑی قسم ہے۔ گویا اس استعاذہ میں شر کے دونوں اقسام سے پناہ مانگنے کی تصریح ہے۔ ’’سیئات اعمال‘‘ سے بعض علماء اور شارحین ِ حدیث کے نزدیک اعمال غیر صالحہ کی عقوبت اور عذاب مراد ہے، جس کو سیئات کے لفظ سے اس واسطے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس کا وقوع اس کے مستوجب کو برا معلوم ہوتا ہے۔ اس صورت میں سبب اور مسبب دونوں کو مستعاذبہ منہ قرار دیا ہے، نفس کا سبب شر ہے اور عذاب اس کا مسبب۔

                   سیئات اعمال

سیئات اعمال کی تشریح میں یہ دونوں توجیہیں احتمال رکھتی ہیں اور ہر ایک کی تائید میں ایک معقول دلیل موجود ہے۔ علماء کی جس جماعت نے سیئات اعمال سے برے اعمال مراد لئے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ برے اعمال کا منشاء نفس کی پوشیدہ شرارت ہے اور موخر الذکر یہ تمام برے اعمال کی تولید کا حقیقی سبب ہے۔ گویا حدیث نبوی ﷺ کے ان الفاظ میں نفس کی صفت مذمومہ اور اس کے نتائج بد، دونوں سے استعاذہ کیا گیا ہے کیونکہ ان دونوں سے محفوظ ہونا تمام شرور سے محفوظ رہنے کے مترادف ہے۔

دوسرے فریق کے نزدیک جس کا یہ قول ہے کہ سیئات اعمال سے مراد برے اعمال کی عقوبت اور عذاب ہے، ترجیح کی وجہ یہ ہے کہ بہرحال عقوبت اور عذاب شرور نفس کا نتیجہ ہے اور ان دونوں میں سبب اور مسبب کا علاقہ ہے۔ گویا ہر ایک قسم کی عقوبت اور اس کے اسباب سے استعاذہ کیا گیا ہے۔

 

فصل ششم: اسباب شرکا مبداء و منتہٰی

                   شر کی چار قسمیں

چونکہ یہ ضروری ہے کہ شر کے لئے کوئی سبب ہو جس سے وہ پیدا ہوا، نیز اس کے لئے ایک انتہاء اور انجام ہو گا اور چونکہ سبب کا وجود یا تو خود انسان کی ذات میں ہو گا، یا اس سے خارج کسی اور چیز میں، اور اس کا انتہاء اور انجام بھی یا خود اس کی ذات پر ہو گا یا کسی اور چیز پر۔ اس لئے مفصلہ بالا تقسیم کے بموجب شر کی چار قسمیں ہوئیں جن کو ماثور استعاذہ نے نہایت خوبی کے ساتھ جمع کیا ہے جو نبی کریم ﷺ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سکھلا یا تھا اور صبح و شام اور سونے کے وقت اس کے دوہرانے کی تاکید فرمائی تھی۔

اللہم فاطر السموت والارض۔ عالم الغیب والشہادۃ رب کل شیء وملکۃ اشہد ان لا الہ الا انت اعوذبک من شرنفسی وشرالشیطن وشرکہ ان اقتراف علی نفسی سہوااواجرۃ الیٰ مسلم۔

الہی! آسمان اور زمین کے پیدا کرنے والے! پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے! ہر ایک چیز کے مالک اور پرورش کرنے والے! میں اس بات کا اقرار کرتا اور گواہی دیتا ہوں کہ سوائے تیرے ساتھ اپنے نفس کے شر اور شیطان کے شر اور اس کے میرے ساتھ اعمال میں شریک ہونے کے شر سے پناہ مانگتا ہوں نیز اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے نفس پر ضرر پہنچانے کے لئے کوئی برا عمل کروں یا کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف میں مبتلا کروں۔

اس استعاذہ میں شر کے اصلی سبب نفس اور شیطان کا ذکر ہے اور اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اس کا انجام کبھی تو خود انسان کے اپنے نفس پر ہوتا ہے اور کبھی اس کے مسلمان بھائی پر الغرض یہ باوجود اختصار کے ایک جامع استعاذہ ہے۔

 

فصل ہفتم: شرور جن کا معوذتین افعال اللہ خیر محض ہیں!

اب ہم ان شرور پر مفصل بحث کرتے ہیں جن کا ذکر سورۃالفلق اور سورۃ ا لناس میں ہے۔

پہلی آیت

مِنْ شَرِّمَاخَلَقَo

میں پناہ مانگتا ہوں ہر ایک ایسی چیز کے شر سے جس کو اس نے پیدا کیا۔

اس میں عام شر کا ذکر ہے اور شر کی نسبت اس مخلوق کی طرف ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔

اللہ تعالیٰ کے کسی صفت مثلاً خلق وغیرہ کی طرف اس کی نسبت نہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی کسی صفت یا فعل میں کسی طرح کا شر نہیں اور جیسے کہ اس کی ذات مقدس، ہر ایک شر کی نسبت اور اضافت سے برتر اور منزہ ہے اسی طرح اس کی صفات اور اس کے افعال کی تنزیہ بھی واجب ہے۔ اس کی ذات اور اس کی صفات میں کسی قسم کا عیب اور نقص نہیں اور اسی طرح اس کے تمام افعال خیر محض ہیں، جن میں شر کی مطلق آمیزش نہیں۔ دنیا میں جو کچھ بھی شر پایا جاتا ہے وہ مخلوق ہی کی طرف منسوب ہے۔ اگر بفرض محال جناب کبریا تعالیٰ و تقدس کے افعال میں کسی قسم کا شر ہوتا تو ضرور تھا کہ اس شر کے لفظ سے اس کے لئے اسم صفت بنایا جاتا جیسے کہ دوسرے اسماء حسنٰے بنے ہیں اور اس صورت میں یہ کہنا غلط ہوتا کہ

وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآءُِ الْحُسْنٰی۔

اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خوبصورت سے خوبصورت نام مقر ر کئے گئے (سب نام اس کے احسن الاسماء ہیں )

                   انتساب شر

تمہارے دل میں یہ وہم پیدا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو جو عقوبت اور عذاب کے مستحق ہیں، عقوبت اور عذاب دیتا ہے کیونکہ اس کا ایسا کرنا عین عدل و انصاف اور خیر محض ہے۔ جناب کبریائے تعالیٰ و تقدس کا یہ فعل شر کی آمیزش سے بالکل پاک ہے (اگر چہ شر درد و تکلیف کا نام ہے) کیونکہ اس کا شر ہونا انہی مستحقین عقوبت کے حق میں ہے اور بس۔

الغرض شر کا وجود اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور اس کے افعال سے بالکل الگ اور علیحدہ اس کی مخلوقات اور مفعولات میں پایا جاتا ہے اور اسی لحاظ سے اس کو خالق خیر و شر کہہ سکتے اور کہتے ہیں۔

یہ ایک دقیق مسئلہ ہے اور اس لئے اس مقام پر دو باتوں کا ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے:

{۱} یہ کہ جو چیز بذات خود شر ہے یا شر پر مشتمل ہے وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال سے منفصل کوئی مفعول اور مخلوق چیز ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کی صفت یا اس کا فعل ہرگز نہیں ہو گا۔

{۲} یہ کہ اس کا شر ہونا ایک امر اضافی ہو گا۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی طرف اس کو منسوب کیا جائے تو وہ خیر محض نظر آئے گا۔ البتہ کسی مخلوق کی طرف اس کی نسبت کی جائے تو وہ شر کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔

                   شر امر نسبی ہے!

یقین سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کا ہر ایک فعل (خواہ وہ مخلوق کے حق میں کتنا ہی بڑا شر ہو) کسی حکمت بالغہ پر مبنی ہوتا ہے۔ جس کے ادراک ماہیت سے اکثروں کی عقل رسا قاصر رہتی ہے اس لئے عموماً ایسے موقعوں پر یہ مجمل ایمان کافی ہوتا ہے کہ

اِنَّ اﷲَ ھُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ (۳۱۲۶)

بے شک اللہ تعالیٰ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفتوں کا قائل ہونا اسی کی طرف کسی شر کو منسوب کرنے کا منافی ہے کیونکہ جو کوئی شر کا فاعل ہوتا ہے اس کا یہ فعل یا تو اس کے احتیاج کا نتیجہ ہوتا ہے یا اس کے ناقص اور عیب ناک ہونے کی وجہ سے اس سے اس قسم کا فعل ظہور میں آتا ہے لیکن جس ذات مقدس کی صفت الغنی الحمید ہے اس سے کسی ایسے فعل کا صادر ہونا ناممکن ہے۔

اس تقریر کا ملحض یہ ہے کہ ہر حالت میں شر ایک امر اضافی ہوتا ہے اور اگر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے دیکھا جائے تو وہ خیر محض ہو گا۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کا یاد رکھنا تمہارے لئے معرفت رب تعالیٰ کا ایک دروازہ کھول دے گا۔ ہم کو اس کی محبت کی جانب رہنمائی کرے گا اور تمہارے دل سے وہ شبہات دور ہو جائیں گے جس میں پڑ کر اکثر لوگوں کی عقل چکر کھا جاتی ہے، اس مبحث کو ہم نے کتاب تحفۂ مکیہ اور الفتح القدس میں بسط و تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اس کی توضیح کے لئے چند مزید مثالیں سن لو۔

                   امر نسبی کی تمثیلات

ایک شخص چوری کرتا ہے، اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے یا اس کو سخت قید کی سزا دی جاتی ہے۔ حاکم کا یہ فعل اس چور کے حق میں شر ہے لیکن عام لوگوں کے حق میں اور فی حد ذاتہٖ خیر محض ہے کیونکہ لوگوں کے مال کو بدمعاشوں کی دست درازی سے محفوظ رکھنے کی یہ ایک مؤثر تدبیر ہے اور عامۃ الناس کے ساتھ ایک بڑی نیکی ہے اس لئے حاکم کا یہ فعل عقل مندوں کے لئے مستحق ہزار آفرین ہے اور ایسا حاکم جو بدمعاشوں اور اچکوں کو کیفر کردار تک پہنچائے محبوب خلائق اور ہر دلعزیز ہو گا۔

اسی طرح جو شخص لوگوں کی جان اور آبرو پر حملہ کرتا ہے اس کو مناسب سزا دینا ہر طرح سے مستحسن اور قابل تعریف ہے۔ اب تم خود سمجھ لو کہ لوگوں کے جان و مال اور آبرو پر حملہ کرنے والے کو سزا دینا معیوب نہیں بلکہ مستحسن ہے جس کے نتائج اسی دنیاوی زندگی تک محدود رہتے ہیں۔ تو کیا وہ شخص یا اشخاص عقوبت اور عذاب کے مستحق نہیں ہیں جو لوگوں کی روحانی زندگی کو تلف کرنا چاہتے ہیں جس کے نتائج دوررس اور اس کا اثر انسان کی حیات ابدی پر پڑتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت اپنے رسولوں کی معرفت لوگوں کی اصلاح کے لئے بھیجی ہے اور جس سے دونوں جہان کی سعادت حاصل ہوتی ہے وہ لوگ اس سے لوگوں کو روکتے ہیں۔

اَلَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اﷲِ وَیَبْغُوْنَہَا عَوَجًا۔ (۷/۴۵)

کیا ایسے مضر انسان کو اس کے کیفر کردار تک پہنچانا خیر محض اور خالص عدل نہیں ہو گا ؟

چاہے ایسا کرنا خود اس مضر ہستی کے حق میں کتنا بڑا شر ہو۔

                   مسئلۂ تقدیر کا راز

اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لو جس سے مسئلۂ تقدیر کا راز کھل سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت میں تمہیں بصیرت حاصل ہو سکتی ہے اور یہ کہ وہ اپنے بندوں کے حال پر بہرکیف مہربان ہے، البتہ جیسے وہ مہربان اور محسن ہے اسی طرح وہ حکیم اور عادل ہے، اس کی حکمت، اس کی رحمت کے منافی نہیں، وہ اپنی صفتِ رحمت اور احسان کو اپنی مناسب جگہ پر جلوہ دیتا ہے اور عدل و انتقام کی صفت کا اپنی مناسب جگہ پر اظہار فرماتا ہے

وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمِ۔

وہ غالب ہے جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے اور حکیم ہے اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا

اس لئے اس کے تمام افعال خبرِ محض ہیں اس کی حکمت کے برخلاف ہو گا اگر وہ عقوبت اور غضب کے محل میں رحمت اور رضا کی صفت کو جلوہ دے یا رحمت کی جگہ غضب کا اظہار فرمائے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ دونوں امر اللہ تعالیٰ کے حق میں برابر ہیں اور اس کے افعال میں محض مشیت کار فرما ہے، سبب اور مسبب کے قانون اور حکمت بالغہ کی کرشمہ آرائیوں کو اس میں کچھ بھی دخل نہیں، ان کے د لوں پر ایک غلیظ حجاب ہے اور اس لئے اندھوں کی طرح ان کو تمام چیزیں نظر آتی ہیں۔

حکمت بالغہ اگر تم قرآن کریم کو شروع سے آخر تک غور کے ساتھ پڑھو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ کلام پاک میں سبب اور مسبب کے اٹل قانون پر کس قدر زور دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے افعال میں حکمت بالغہ کے جلوہ گر ہونے پر انسان کو کہاں تک توجہ دلائی گئی ہے۔ کلام مجید میں ارشاد ہوتا ہے

اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَاالْمُجْرِمِیْنَ مَالَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ (۲۸/ ۳۵، ۳۶)

کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے مطیع فرمان بندوں کے ساتھ مجرموں کا سلوک کریں؟ تمہاری عقل پر کیا پتھر پڑ گئے ہیں! تم کیسا متحکمانہ حکم صادر کر رہے ہو !!

دوسری جگہ ارشاد ہے

اَمْ حَسِبَ اللَّذِیْنَ اَجْتَرَحَوْاالسِّیِّئٰات ِ اَنْ نَّجْعَلَمَہُمْ کَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اوَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَآئً مَّحْیَاھُمْ وَمَمَاتَمُمْ ط سَآءًَ مَایَحْکُمُوْنَ (۴۵/۲۱)

کیا وہ لوگ جو برائیاں کر رہے ہیں یہ غلط خیال رکھتے ہیں کہ ہم ان سے ان لوگوں کا سا سلوک کریں گے جو ایمان لائے اور نیکیاں کی ہیں، ان کی زندگی اور اور ان کی موت برابر ہو گی؟ (اگر ان کا یہ خیال ہے تو) نہایت ہی برا حکم صادر کر رہے ہیں۔

اس قسم کی بیسیوں اور سینکڑوں آیتیں کلام پاک میں موجود ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے اس گمان کو سختی کے ساتھ باطل فرمایا ہے کہ وہ اپنے نیک اور بد اعمال بندوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے گا! اس طریق استدلال سے صاف واضح ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت میں یہ حقیقت منقوش ہے اور عقل سلیم کا یہی فتویٰ ہے، اللہ تعالیٰ کے قانون حکمت کا یہ مقتضا ہرگز نہیں کہ فرماں بردار اور بے فرمان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے تمام بنی نوع انسان کے عقول میں فطرتاً یہ بات مرکوز ہے کہ رحمت اور احسان کی جگہ عقوبت اور عذاب کا رکھنا برا ہے، اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس کے اس فعل کو سخت قابل اعتراض سمجھا جائے گا۔ اسی طرح عقوبت اور انتقام کے مناسب موقعوں پر رحمت اور احسان کا استعمال فطرتاً نہایت قبیح معلوم ہوتا ہے۔

                   مشاہدہ

ایک شخص لوگوں کے جان و مال پر ناحق دست درازی کرتا ہے اور ان کی آبروریزی میں کوتاہی نہیں کرتا۔ لیکن ایک دوسرا شخص ہے جو اس قسم کے آدمی کے ساتھ امانت اور تحقیر کا سلوک کرنے کے بجائے نہایت تعظیم اور احترام سے پیش آتا ہے اور اس کے ساتھ احسان کرنے میں دریغ نہیں کرتا تو کیا کوئی سلیم الفطرت انسان اس کے اس فعل کو مستحسن سمجھ سکتا ہے۔ حاشاوکلا۔ ہر ایک شخص اس بیجا احسان کرنے والے کو نہایت برا خیال کرے گا اور اس کے اس فعل کو یقیناً قبیح سمجھا جائے گا۔ یہی اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے بایں ہمہ عقول کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عدل و انتقام کے افعال میں اس کی حکمت بالغہ کا مشاہدہ نہیں کر سکتے؟ کسی شاعر نے کیا اچھا فرمایا ہے

نعمت اﷲ تعاب ولکن ربما استقبحت عل اقوام

یعنی اللہ تعالی کی نعمتیں عیب سے مبرا ہیں، لیکن بعض موقعوں پر ان کا انعام زیبا نہیں معلوم ہوتا۔

                   تہدید

الغرض و ہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے کسی طرح مستحق نہیں جو اس کے سبیل ہدایت پر چلنے سے دوسرے لوگوں کو روکتے ہیں، اس کی رضامندی کے مخالف امور میں مساعی رہتے ہیں۔ جن امور سے وہ ناخوش ہوتا ہے اس کو وہ بنظر پسندیدگی دیکھتے ہیں اور جن باتوں میں اس کی رضامندی متصور ہے ان سے بے اعتنائی برتتے ہیں بلکہ دوسری نظر سے ان کو ملاحظہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے لیکن اغیار کو خوش کرنے کے لئے ایڑی چوٹی تک کا زور لگاتے ہیں۔ الغرض وہ ہر ایک بات میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے فرمان پر عین ضد پر عمل کرتے ہیں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں وہ ان کے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں، اور جن کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں سے عداوت ہے ان کو ان سے محبت ہے۔

وَکَانَ الْکٰفِرُ عَلٰی رَبِّہ؟ ظَہِیْرًا۔ (۳۵/ ۵۵)

اللہ تعالیٰ اپنے کلام مجید میں ارشاد فرماتا ہے

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا اِلَّااِبْلِیْسَ ط کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہ؟ ط اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗ وَذُرِّیَّتَہٗ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِیْ وَھَمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا۔(۱۸/۵)

اس قصہ کو یاد کرو جب کہ ہم نے ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ تعمیل فرمان کے لئے سب نے سجدہ کیا۔ مگر ایک شیطان نے نہ کیا وہ جنوں کی قوم سے تھا اس لئے اس نے اپنے رب تعالیٰ کے حکم سے سرتابی کی، کیا بایں ہمہ تم مجھ کو چھوڑ کر اس کو اور اس کی اولاد کو اپنا دوست سمجھتے ہو؟ بحالیکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ظالموں کے لئے (جو مستحق عداوت کو دوست بنا کر ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے شیطان ساتھ رشتہ جوڑتے ہیں) نہایت ہی برا بدلہ ہے۔

اس خطاب کے ضمن میں غایت درجہ کی تہدید ہے۔ آیت کریم کے شروع میں یہ بتایا گیا ہے کہ میں نے شیطان لعین کو تمہارے پاپ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا جس سے اس نے سرتابی کی، اس پر میں نے اس کو اپنی بارگاہ کبریائی سے مردود فرما کر لعین کا خطاب دیا اور تمہارے باپ کے لئے سجدہ سے انکار کرنے کی وجہ سے اس کو اپنا دشمن ٹھہرایا۔ لیکن تم ہو کہ اسی ملعون کو اپنا دوست سمجھ رہے ہو اور اس کی خاطر مجھ کو چھوڑ رہے ہو۔ کیا یہ عظیم ترین ظلم نہیں؟ اور جب قیامت کے دن انکشاف حقیقت ہو گا تو کیا تم اپنے کیے پر سخت نادم اور متاسف نہیں ہو گے؟

                   میدان قیامت

یقیناً قیامت کے دن تم سے یہ کہا جائے گا (جس کے تم ہر طرح سے مستحق ہو) کیا عدل و انصاف کا یہ تقاضا نہیں کہ ہر ایک شخص کو تم میں سے اس کا رفیق بنا دیا جائے جس کو تم نے خود اپنے لئے رفیق منتخب کیا تھا۔ اسی طرح اولیاء الشیطان تو شیطان کی جماعت میں شریک ہو کر دوزخ کو چلے جائیں گے، مگر اولیا ء الرحمٰن کسی دوسرے کے پیچھے چلنے سے انکار کریں گے۔ کیونکہ انہوں نے دنیا میں بھی دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر ایک اللہ کی فرمانبرداری اختیار کی تھی۔

حدیث شریف میں ہے کہ اس اثناء میں اللہ تعالیٰ سامنے جلوہ فرما ہو کر ان سے اس طرح مخاطب ہو گا ’’تم بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں چلے گئے‘‘! اس جواب میں وہ عرض کریں گے ’’الہی! دنیا میں جب کہ ہمیں ان کے ساتھ ربط و ضبط رکھنے کی سخت ضرورت تھی۔ صرف تیری ہی خاطر ان کو چھوڑ دیا تھا تو بھلا اب آخرت میں ہم کیوں ان کے پیچھے جانے لگے؟‘‘ ہم تو اپنے رب تعالیٰ کا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔ (وہی جہاں ہم کو بھیجے گا ہم خوش ہیں) اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا، ’’کیا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی ایسی خاص علامت بھی ہے‘‘! عرض کریں گے ہاں! ’’اس کی مثل نہیں ہے‘‘! اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایسی کیفیت کے ساتھ جلوہ فرما ہو گا کہ ان کو کوئی شک باقی نہیں رہے گا اور اس حالت میں وہ سب سر بسجود ہوں گے الخ‘‘۔ اس دن اللہ کے ساتھ سچی محبت رکھنے والوں کی آنکھیں ہوں گی اور کافروں اور مشرکوں کو اس بات کا عین الیقین حاصل ہو گا۔

اِنْ اَوْلِیَآءُ ہٗ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ۔(۸ /۳۴)

اللہ کے دوست وہی ہوتے ہیں جو تقویٰ کے زیور سے آراستہ ہوں۔

 

فصل ہشتم:خیر الکلام و خیر العباد کا تنزیۂ تقدیس

                   ذاتِ باری تعالیٰ

بعض عارفوں نے اس طرح اللہ تعالیٰ کی شر سے تنزیہ بیان کی ہے کہ

الشرلایتقرب بہ الیک

شر کے ذریعہ کوئی شخص تیرا قرب حاصل نہیں کرسکتا۔

کسی اور عارف نے اس کے تقدس کا ان لفظوں میں اظہار کیا ہے کہ

الشرلایصعد الیک

شر کو تیر ی طرف سعود نہیں ہے۔

اپنی بساط کے موافق ہر ایک نے اس کی تنزیہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن نبی کریم ﷺ نے جن الفاظ میں جناب کبریائے تعالیٰ و تقدس کی تنزیہ فرمائی ہے، وہ ان تمام عبادتوں سے اعلیٰ و ارفع ہے۔

                   حدیث نبوی ﷺ

نبی کریم ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے

لبیک وسعد یک والخیر کلہ فی یدیک والشر لیس الیک۔

یہ بندۂ نیاز مند تیری خدمت میں حاضر ہے، اس کو اعتراف ہے کہ تمام نیکیاں تیرے ہاتھ میں ہیں اور شر کو تیری طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔

حدیث کے الفاظ میں اس بات کی تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات اور اس کے افعال شر کی آمیزش سے مبرا ہیں اور کسی صورت میں شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ گو اس کی مخلوقات میں شر کا وجود پایا جاتا ہے جو بالکلیہ انہیں کی طرف منسوب ہے۔

                   شر کی اضافت

چنانچہ سورۃ الفلق کی پہلی آیت میں شَرِّمَاخَلَقَ میں اس بات کی تصریح موجود ہے، شاید تم نے قرآن کریم کے طرز پر بہت کم غور کیا ہو گا ورنہ تمہیں صاف نظر آ جاتا کہ اس کی دو صورتیں ہیں

                   پہلی صورت

کلام پاک میں شر کی اضافت کبھی تو اس کے سبب کی طرف ہوتی ہے اور جس کی ذات سے شر کو قیام حاصل ہے۔ اسی کی طرف اس کو منسوب کیا جاتا ہے مثلاً

وَالْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔(۲۲/۵۴)

اور منکر ہی تو ظلم کرنے والے ہیں۔

وَاﷲُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (۵/ ۱۰۷)

جو قوم کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اڑی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت نہیں بخشتا۔

یہودیوں کا حال بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے

وَمَا جَزَیْنٰھُمْ بِبَغْیِھِمْ۔(۶۱/۴۷)

یہ عقوبت ہم نے ان پران کے ظلم کی وجہ سے نازل فرمائی۔

ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا

وَمَاظَلَمْنٰھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْا ھُمُ الظّٰلِمِیْنَ۔(۴۳ /۷۶)

ہم نے ان پر مطلق ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی ظلم کرنے والے تھے۔

یہ چند آیتیں صرف نمونۃً لکھی گئی ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تمام قرآن کریم اس مضمون سے بھرا ہوا ہے۔

                   دوسری صورت

یہ ہے کہ شر کی اضافت کسی کی طرف بھی نہ ہو بلکہ مجہول کے صیغہ سے اس کو بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ آیت جس میں مومن جنوں کا قول منقول ہے

وانا لا ندری اشر ارید بمن فی الارض الخ۔

اور ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ کس قسم کا شر ہے جس کا اہل زمین کو پہنچانا مقصود ہے یا ان کے رب تعالیٰ نے ان کو ہدایت دینے کا قصد فرمایا ہے۔

ہدایت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے لیکن شر کی نسبت کو مجہول رکھا گیا ہے۔ اس کی تفسیر سورۃ الفاتحہ میں ہے کہ انعام و اکرام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ لیکن غضب کا اسناد مجہول ہے

۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ۔(۱/۶،۷)

                   جنا ب خضر علیہ السلام کا قول

اسی طرح جناب خضر علیہ السلام کے قصہ میں خضر علیہ السلام نے اپنے افعال کی اہمیت بتاتے ہوئے جہا ں کشتی توڑنے کا ذکر کیا ہے اس کو اپنی طرف منسوب کیا ہے کہ

فَاَرَدْتُ اَنْ اَعِیْھَاَ۔(۱۸/ ۸۲)

میں نے چاہا کہ اس کو عیب لگا دوں

لیکن یتیموں کی دیوار کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں

فَاَرَادَرَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَا اَشُدَّ ھُمَا وَیَسْتَخْرِجَاکَنْزَھُمَ ا (۱۶/۸۲)

اس لئے تمہارے رب نے ارادہ فرمایا کہ وہ دونوں اپنی بلوغت کی حد کو پہنچ کر اپنا خزانہ نکال لیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلٰکِنَّ اﷲَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ۔ (۴۹/۷)

لیکن اللہ تعالیٰ ہی نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی اور اس کو تمہارے دلوں میں زینت دی۔

دوسری جگہ فرمایا

زُیِّن لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ (۳۱/۳)

لوگوں کے دلوں میں خواہشات نفسانی کو زینت دی گئی ہے۔

اول الذکر آیت میں زینت کا فاعل مذکور ہے کیونکہ یہ تزئین خیر محض ہے، لیکن دوسری آیت میں فعل مجہول استعمال کیا گیا ہے کیونکہ یہ تزئین شر پر مشتمل ہے۔

                   سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا قول

سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے رب جلیل کی صفات عالیان الفاظ میں بیان کرتے ہیں

اَلَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَہُوَیَہْدِیْنِ وَالَّذِیْ ھُوَیُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ وَاِذَامَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِیْنِ وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحَیِیْنِ وَالَّذِیْٓ اَطْعَمُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ۔(۲۶۷۷،۸۲)

وہ اللہ جس نے مجھ کو پیدا کیا اور وہی مجھ کو ہدایت دے گا۔ وہی اللہ ہے جو مجھ کو کھلاتا پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھ کو شفا دیتا ہے۔ وہی اللہ ہے جو مجھ کو موت دے گا اور پھر مجھ کو زندہ کرے گا وہی اللہ ہے جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہوں کو بخش دگا۔

اس میں جو خیرو کمال کے مظاہر ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیے گئے ہیں لیکن نقص و عیب کی باتیں مثلاً مرض اور گناہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی طرف منسوب کی ہیں، کیونکہ والشرلیس الیک۔ اس قسم کی مثالیں کلام مجید میں بکثرت پائی جاتی ہیں جن کو ہم نے ’’الفوائد المکیہ‘‘ میں بالتفصیل بیان کیا ہے اور یہ نکتہ بھی لکھا ہے کہ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتَابَ (بصیغۂ معروف ) اور اَلَّذِیْنَ اُوْتُوْ االْکِتَابَ (بصیغۂ مجہول ) کا باہمی فرق اسی اصول پر مبنی ہے۔ فعل معروف مدح کے مقام پر استعمال ہوا ہے اور فعل مجہول ذم کی جگہوں میں ارشاد ہوا ہے۔ اسی طرح ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا۔(۳۵۲۲)

پھر اپنے چنے ہوئے بندوں کو ہم نے کتاب کا وارث بنایا۔

اس کے بالمقابل دوسری جگہ فرمایا ہے

اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُواالْکِتٰبَ مِنْ بَعْدِ ھِمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَرِیْبٍ۔(۴۲۱۴)

وہ لوگ جن کو ان کے بعد کتاب کا وارث بنایا گیا، ایک قوی شک میں پڑے ہیں۔

بہر کیف عالم میں جہاں کہیں بھی خیر و کمال ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے برعکس اس کے شر اور نقصان کی نسبت سے اس کی ذات، اس کی صفات اور اس کے افعال منزہ اور برتر ہیں۔

 

باب ۲: تفسیر سورۃ الفلق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بُلْ اَعُوْذُبِرَبِّ الْفَلَقِ۔لا مِنْ شَرِّمَاخَلَقَ۔لا وَمِنْ شَرِّغَاسِقٍ اِذَاوَقَبَ۔لا وَمِنْ شَرِّالنَّفّٰثّٰتِ فِی الْعُقَدِ۔لا وَمِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذَاحَسَدَ۔

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔ کہہ! میں روشنی ٔ صبح کے مالک اللہ کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں، ہر ایک قسم کے شر سے (میں پناہ مانگتا ہوں) جو کسی مخلوق میں پایا جائے، اور شب تاریک کے شر سے (میں پناہ مانگتا ہوں) جب کہ وہ چھا جاتی ہے اور گانٹھوں پر پھونکنے والی جماعتوں (جادوگر ) کے شر سے (میں پناہ مانگتا ہوں) اورحاسد کے شر سے (میں پناہ مانگتا ہوں) جب کہ وہ حسد کرتا ہے۔

 

فصل اوّل: شر کی پہلی قسم

                   استعاذہ من شرماخلق

ہر ایک قسم کا شر جو کسی مخلوق میں پایا جاتا ہے مِنْ شَرِّمَاخَلَقَ کے مفہوم میں داخل ہے۔

                   ماخلق سے مراد

کسی مخلوق کا لفظ انسان، جن، جملہ حیوانات، حشرات الارض، آندھی، بجلی اور دیگر تمام آفات اسماوی اور ارضی پر مشتمل ہے اور اگر چہ اس لفظ کو عام ترین معنوں میں لیا گیا ہے لیکن پھر بھی اس کا عموم اپنے مضاف لفظ شر کے ساتھ مقید ہے اوراس لئے اس کا عموم مطلق نہیں، جس کے یہ معنی ہوں کہ ہر ایک چیز میں شر پایا جاتا ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر ایک شر سے پناہ مانگتا ہوں جو کسی مخلوق میں پایا جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر عموم پہلے لفظ میں مطلق ہے، یعنی ہر ایک قسم کا شر اور دوسرے میں مقید یعنی کوئی مخلوق جس میں شر پایا جاتا ہے ہر ایک مخلوق اس سے مراد ہے جس میں شر کا مطلق وجود نہیں۔ اسی طرح ملائکہ اور انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کا وجود خیر محض ہے اور انہیں کی بدولت دنیا میں ہر ایک قسم کا خیرو برکت پھیلا ہے۔

الغرض مِنْ شَرِّمَاخَلَقَ اپنی تعمیم کے لحاظ سے ہر ایک مخلوق کے شر کو جو دنیا اور آخرت میں پایا جاتا ہے، شامل ہے۔ اور شیاطین الانس والجن کا شر، درندوں اور پرندوں کا شر، جڑی بوٹی کا شر، آندھی اور طوفان کا شر، بجلی اور زلزلے کا شر، اور جملہ آفات ارضی وسماوی کا شر اس کے مفہوم میں داخل ہے۔

                   استعاذۂ سفر

نبی کریم ﷺ سے صحیح مسلم میں روایت ہے کہ جو شخص کسی مقام پر اتر کر یہ الفاظ کہے

اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اﷲِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّمَاخَلَقَ

میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کی پناہ ڈھونڈ کر ہر ایک مخلوق کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔

تو اس کو کوچ کرنے کے وقت تک کسی قسم کا ضرر نہیں پہنچے گا۔

۔یہ استعاذہ اہل جاہلیت کے اس استعاذہ کا کہ ’’نعوذبسید ھذاالوادی من شرسقھاء قومہ‘‘ کا موحدانہ جواب اور اس کا نعم البدل ہے۔ (مترجم)

سنن ابی داؤد میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب سفر میں ہوتے تھے اور رات پڑ جاتی تھی تو یہ الفاظ فرماتے

یا راض ربی وربک اﷲ اعوذباﷲ من شرک وشرمافیک وشرماخلق فیک وشرمایدب علیک اعوذباﷲ من اسداسود ومنالحیۃ والیعقوب ومن ساکن البلد ومن شروالد ماولد۔(ابوداؤد)

اے زمین! تیرا اور میرا رب اللہ تعالیٰ ہے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں تیرے شر سے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں ہے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں پیدا کی گئی ہے اور اس چیز کے شر سے جو تیرے اوپر رینگتی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں شیر اور اژدھا سے، سانپ اور بچھو سے، شہر کے باشندوں کے شر سے اور والد اور مولود کے شر سے۔

ایک دوسری حدیث میں استعاذہ کے الفاظ اس طرح ہیں

اعوذبکلمات اﷲ التامات التی لا یجاوز ھن برولا فاجر من شرماخلق وذراء وبراء ومن شرمانزل من السماء وما یعرج فیہا ومنشرمادرآء فی الارض ومایخرج منہاومن شرفتن اللیل والنہار ومن شرکل طارق الاطارقا یطرق بخیر یارحمٰن۔

میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کے ساتھ پنا ہ مانگتا ہوں جس کے حکم کے دائرہ سے کوئی نیک اور بد باہر نہیں، ہر ایک قسم کے شر سے جو کسی مخلوق میں پایا جاتا ہے جس کو اس نے پیدا کیا اور اس چیز کے شر سے جس کو اس نے زمین میں پھیلا دیا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور دن اور رات کے وقت آنے والے کے شر سے اس رات کے آنے والے کے جو خیر لے کر آتا ہے، اے میرے مہربان اللہ !

 

فصل دوم: شر کی دوسری قسم

                   استعاذہ من شرغاسق  اس سورۃ کی دوسری آیت

مِنْ شَرِّغَاسِقٍ اِذَاوَقَبَ

اور میں پناہ مانگتا ہوں شب تاریک کے شر سے، جب کہ وہ چھا جاتی ہے۔

تخصیص بعد تعمیم ہے۔

                   غاسق کے معانی

اکثر مفسرین کا قول ہے کہ غَاسَقٍ کے معنی شب تاریک ہے اور بقول ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کا اشتقاق غَسَقٌ سے ہے جس کے معنی ہیں رات کی تاریکی، جیسے کہ اس آیت میں ہے کہ

اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ۔ (۱۷/۷۸)

نماز کو قائم رکھ سورج کے ڈھلنے کے وقت سے رات کی تاریکی تک۔

حسن اور مجاہد اور مقاتل رحمہم اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی اپنی عبارتوں میں لفظ مذکور کی تقریباً یہی تشریح کی ہے لیکن بعض کے نزدیک غسق کے معنی ٹھنڈک اور خنکی کے ہیں اور چونکہ رات کو عموماً خنکی ہوتی ہے اس لئے اس کو غاسق کہتے ہیں۔ اس کا شاہد غساق کا لفظ ہے جو بقول ابن عباس و مجاہد و مقاتل رحمہم اللہ تعالیٰ زمہریر کو کہتے ہیں لیکن ان دونوں اقوال میں کوئی منافات نہیں کیونکہ رات کے وقت تاریکی اور خنکی دونوں پائی جاتی ہیں اور دونوں اقوال کے بموجب وجہ تسمیہ مختلف ہونے کے باوجود مسمٰی ایک ہے، یعنی یہ کہ غاسق سے مرادرات ہے لیکن آیت کے مناسب تاریکی کے معنی ہیں کیونکہ اکثر فسادات رات میں تاریکی کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں نہ کہ اس کی خنکی کی وجہ سے اس لئے استعاذہ کے مناسب حال غاسق کے معنی شب تاریک کے ہیں نیز مستعاذہ کورب الفلق (روشنیِ  صبح کا مالک اللہ) کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس لحاظ سے بھی غاسق کے معنی شب تاریک ہوتو اس سے مستعاذہ اور مستعاذمنہ میں کامل مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔

                   غاسق سے مراد چاند

ترمذی میں ایک حسن صحیح روایت ہے کہ ’’نبی کریم ﷺ نے سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چاند کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ اس کے شر سے پناہ مانگو، کیونکہ یہی غاسق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ ایک مرفوع روایت ہے اس لئے تمام دوسرے اقوال پر اس کو ترجیح دینا لازم ہو گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تفسیر بے شک درست ہے لیکن یہ پہلی تفسیر کے مخالف نہیں بلکہ اس کے موافق اور اس کی مؤید ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

وَجَعَلْنَاالَّیْلَ وَالنَّہَارَاٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا اٰیَۃَ الَّیْلِ وَجَعَلْنَااٰیَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً۔ (۷ ۱ /۱۲)

ہم نے دن اور رات کو اپنی قدرت کی دونشانیا ں بنایا۔ پھر رات کی نشانی کو ہم نے مٹا دیا اور دن کی نشانی کو ہم نے روشن بنادیا۔

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ چاند رات کی نشانی ہے، اس لئے رات کو اور چاند کے مفہوم میں تلازم ہے دونوں کا مفہوم آپس میں لازم ملزوم ہے اس لیے دونوں پر غاسق کا اطلاق ہو سکتا ہے اور نبی کریم ﷺ کا کسی ایک معنی کی تخصیص کرنا اس بات سے مانع نہیں کہ دوسرے معنی بھی مراد ہوں۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ سے کسی صحابی نے یہ دریافت کیا کہ

لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی ط (۹/۱۰۸)

وہ مسجد جس کی بنیاد تقوٰی پر رکھی گئی (اور جس کا سوۃ توبہ میں ذکر ہے ) سے کونسی مسجد مراد ہے۔

تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ میری مسجد ہے۔ اب اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آیت کریمہ میں اس سے مسجد قبا مراد نہ ہو بلکہ لَمَسْجِدٌ اًسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی اپنے عمومیت مفہوم کے لحاظ سے دونوں مسجدوں کوشامل ہے یا جیسے کہ نبی کریم ﷺ نے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، اور حسنین رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ الہی! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ اب اس کے یہ معنی نہیں کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات اس کے مفہوم سے خارج ہیں بلکہ دراصل ایک اورمثال سے ہوسکتی ہے۔

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں

لیس الشدید بالصرعۃ انماالشدید الذی یملک نفسہ عندالغضب۔

پہلوان وہ شخص نہیں جو لوگوں کو پچھاڑتا پھر ے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو ضبط میں رکھے۔

اب اس کے یہ معنی نہیں کہ جو شخص دوسروں کو پچھاڑتا ہے وہ پہلوان نہیں بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جو شخص غصہ کے وقت اپنے آپ کو ضبط میں رکھ سکتا ہے وہ بطریق اولیٰ پہلوان ہے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کا چاند کی طرف اشارہ کر کے یہ فرمانا کہ ھذاھوالغاسق یہ معنی رکھتا ہے کہ شب تاریک غاسق کا مفہوم نہیں بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ چاند بھی غاسق کے مفہوم داخل ہے۔

                   اذاوقب کے معنی

یہ قول ضعیف ہے کہ غاسق سے مراد چاند بحالت خسوف ہے اور اِذَاوَقَبَ کے یہ معنی ہیں کہ اس کو گرہن لگ جائے۔ یہ سلف میں سے کسی کا قول نہیں۔ ترمذی کی حدیث میں اس بات کا کچھ ذکر نہیں کہ جب نبی کریم ﷺنے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ھذاھوالفاسق۔ تو اس وقت وہ خسوف زدہ تھا۔ لیکن اگر وہ خسوف زدہ ہوتا توراوی پر لازم تھا کہ وہ اس حالت کی تصریح کرتا۔ علاوہ ازیں لغت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ کیونکہ وقوب کہیں بھی خصوف کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ وقوب کے معنی دخول کے ہیں

وَمِنْ شَرِّغَاسِقٍ اِذاوَقَبَ یعنی من شواللیل اذادخل

بعض مفسرین کا قول ہے کہ غَاسِقٍ اِذَاوَقَبَ کے معنی ہیں ثریا کے ستارے جب کہ وہ غروب ہونے لگیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ثریا (پرویں) یا خوشۂ آسمان کا جب طلوع ہوتا ہے تو بیماریاں اور آفتیں کم ہو جاتی ہیں لیکن اس کے غروب ہونے کے زمانہ میں بیماریوں اور آفتوں کا نزول ہوتا ہے اگر ان لوگوں کی مراد اپنے قول سے یہ ہے کہ غاسق کا لفظ اپنے عموم کے لحاظ سے پرویں کی اس حالت خاص کو بھی شامل ہے تب تو اس میں کچھ حرج نہیں، اور ممکن ہے کہ ایسا ہو، لیکن اگر ان کا خیال یہ ہے کہ غاسق کا مفہوم انہی کے بیان کردہ معنوں تک محدود ہے تویہ قطعاً باطل ہے۔

 

فصل سوم: رات اور چاند سے استعاذہ کی حقیقت

                   رات کی تایکی

شب تاریک اور چاند کے شر سے استعاذہ کا حکم اس لیے ہوا ہے کہ رات کے آغاز پر شریر اورخبیث روحیں پھیل جاتی ہیں اور شیطان جابجا پھرنے لگتے ہیں، چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ ’’سورج کے غروب ہونے کے بعد اپنے بچوں کو باہر نہ جانے دو اور چوپایوں کوگھر میں باندھ رکھو، جب تک کہ عشاء ٹل نہ جائے‘‘۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ کے موافق اپنی مخلوق کو پھیلاتا ہے‘‘۔ رات تاریکی کا وقت ہے اور اس میں شیاطین الانس و الجن کو وہ غلبہ حاصل ہو سکتا ہے جو دن کے وقت سورج کی روشنی میں حاصل نہیں ہو سکتا۔ دن، روشنی کا وقت ہے اور شیطان کو اس سے نفرت ہے۔ وہ تاریکی کو زیادہ پسند کرتا ہے اور سیاہ کار تاریک عمل لوگوں پر، اس کو تسلط حاصل ہوتا ہے۔

                   دن کی روشنی

کہتے ہیں کہ مسلیمہ کذاب (مدعی نبوت) سے کسی نے دریافت کیا کہ تم پر کس طرح اور کن اوقات میں القاء ہوتا ہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ جب گھپ اندھیرا ہوتا ہے تو مجھ پر القاء ہوتا ہے؟ پھر اس نے نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا، دن کی روشنی میں مجھ پر وحی اترتی ہے اس سے اس نے نبی کریم ﷺ کی سچائی اور اول الذکر کے جھوٹا ہونے پر استدلال کیا۔ اسی طرح جادو کا اثر بھی رات کو زیادہ ہوتا ہے۔ اور جادو کے جواعمال رات کے وقت عمل میں لائے جاتے ہیں، عام طور پر مشہور ہے کہ ان کا اثر قوی تر ہوتا ہے اور جس طرح تاریک گھر اور تاریک جگہیں شیطان کا مسکن اور اس کی جولان گاہ بنی رہتی ہیں اس طرح جو دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے منور نہیں ہوتے وہ بھی شیطان کے اثر کو زیادہ قبول کرتے ہیں اور وہ ان کے اندر آسانی سے گھس جاتا ہے۔

 

فصل چہارم: استعاذہ برب الفلق کے اسرار

                   نور اور ظلمت

اس سے تم کو یہ بھی معلوم ہو گیا ہو گا کہ رَبِّ الْفَلَقِ (صبح کا مالک اللہ) کا لفظ یہاں پر استعمال کرنا کہاں تک موزوں اور مناسب ہے۔ صبح کی روشنی سے نور کی بادشاہت کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کے ظہور پر تاریکی کا لشکر شکست کھا جاتاہے اور رات کی تاریکی میں شرور پھیلانے والوں کی جمیعت تتر بتر ہو جاتی ہے۔ ایک خبیث الطبع شریر، تمام چور اور رہزن، مفسدہ پردار جن اور شیطان کسی نہ جگہ چھپ جاتے ہیں اور زہردار خزندے اپنے بلوں میں گھس کر نظر وں سے غائب ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مامور فرمایا ہے کہ روشنی کے مالک اللہ کے ساتھ پناہ مانگیں جو ظلمت کی شکست کا موجب ہے۔

                   تقابل ایمان و کفر

اللہ تعالیٰ نے جابجا اپنے کلام پاک میں اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور کافروں کو تاریکی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔

اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْایُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْ لِیٰئُھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ط (۲۲/۵۷)

اللہ تعالیٰ مومنوں کا دوست ہے ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے لیکن کافروں کے دوست شیطان ہیں جو ان کو روشنی سے نکال کر تاریکی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے

اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِیْ النَّاسِ کَمَنْ مِّثْلِہٖ فِیؤ الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا۔ (۲۱/۲۳)

کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لئے روشنی بنائی جو تاریکیوں میں اس کے لئے مشعل راہ کا کام دیتی ہے۔ اس شخص کے برابر ہے جو تاریکیوں میں مبتلا ہے جس سے نکلنے کی راہ اس کو نہیں سوجھتی۔

اسی طرح کافروں کے لئے مثال بیان فرمائی ہے

اَوْکَظُلُمٰتِ فِیْ بَحْرٍ لُّجِیٍّ یَّغْشٰہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ سَحَابٌ ط ظُلُمٰتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ ط اِذَآاَخْرَجَ یَدَہٗ لَمْ یَکَدْ یَریٰہَا ط وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اﷲُ لَہٗ نُوْرًا فَمَالَہٗ مِنْ نُّوْرٍ۔ (۲۴/۴۰)

ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی سمندر کی لہروں میں تاریکیوں کے اندر محصور ہوتہ در تہ لہروں کے اوپر بادلوں کی بھی ایک تہ ہو جس سے اندھیرے کی بھی تہیں بن گئی ہوں۔ اپنا ہاتھ نکالنے پر اس کو وہ ہاتھ تک دکھائی نہیں دیتا اور جس کو اللہ تعالیٰ نے نور نہیں دیا وہ نور سے بالکل ہی محروم رہے گا۔

اس آیت سے پہلے کی آیت میں مومنوں کی مثال حسب ذیل بیان فرمائی ہے

مَثَلَ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌ ط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَلجَۃٍ ط اَلزُّ جَاجَۃُ کَاَنَّہَا دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَاشَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ یَّکَادُ زَیُْہَا یُضِیْٓئُ وَلَوْلَمْ یَمْسَسْہُ نَارٌ ط نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ط یَہْدِی اﷲُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ ط (۲۴۳۵)

اس کے نور کی مثال ایک طاقچے کی ہے جس میں ایک چراغ دھرا ہو، وہ چراغ ایک شیشے کے اندر ہے جو ایک ستارہ ٔ درخشاں کی طرح مجلّٰے ہے، وہ چراغ ایک مبارک درخت سے زیتون کی عمدہ ترین قسم کے تیل سے جلایا جاتا ہے جو قریب ہے کہ آگ کے ساتھ چھو جانے سے بھی پیشتر پھڑک اٹھے، اوپر تلے روشنی ہی روشنی ہے اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔

الغرض ایمان ایک نور ہے جس کا مآل نور کی طرف ہے۔ اس کا مستقر مومن کا دل ہے جو چراغ کی طرح روشن ہے اورایمان والوں کا ربط ضبط، ارواح طیبہ اورملائکہ علیہم السلام کے نورانی وجودوں کے ساتھ رہتا ہے۔ برخلاف اس کے کفر اور شر ک ایک تاریکی ہے جس کا مآل تاریکی کی طرف ہے اور اس کی کارگاہ کافروں کے پرُ ظلمت دل ہیں اور اہل کفر کا میل جول ارواح خبیثہ اور شیاطین کی تاریک مستیوں کے ساتھ ہے۔ اس لئے سورۃ الفلق میں روشنی ٔ صبح کے مالک اللہ کے ساتھ شب تاریک کے شہر سے پناہ مانگی گئی ہے (فتامل) اور اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ کلام نبی کریم ﷺ کے صدق رسالت کی ایک بین دلیل ہے اور وہ شیاطین کے آدردہ کلام کے عین متضاد ہے۔

وَمَاتَنَزَّلْتَ بِہِ الشَّیٰطِیْنَ وَمَایَنْبَغِیْ لَہُمْ وَمَایَسْتَطِیْعُوْنَ (۲۶۲۱،۲۱۱)

اس کلام پاک کو شیاطین نے نہیں اتارا اور نہ ہی ایسے پاکیزہ کلام کو اتارنا ان کے حسب حال اور نہ ان کے لئے ممکن ہے۔

 

فصل پنجم: تفسیر الفلق

                   فلق بمعنی پھوٹنا

لفظ فلق روشنیٔ صبح کا مادہ پھوٹنے پر یا اگر متعدی فعل ہو تو چیر نے پھاڑنے پر دلالت کرتا ہے اور یہ صفت کم و بیش تمام مخلوقات میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ صبح کی پوپھٹنا، اناج کے دانوں اور گٹھلیوں کا پھوٹنا اور اس کے انواع واقسام نباتاب کا پھوٹ کر نکلنا، پہاڑوں سے چشموں کا پھوٹنا، زمین کا پھوٹنا، بادلوں کا پھوٹ پڑنا، اور ان سے بارش کا ناز ل ہونا، رحم مادر کا پھوٹنا اور اس سے بچہ کا پیدا ہونا وغیر وغیرہ۔

                   فلق بمعنی علیحدگی

پھوٹنے کے ساتھ دونوں چیزوں میں فرق ہونا اور علیحدگی نمودار ہونا لازم ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ جسمانی اشیاء میں یہ صفات پائی جاتی ہیں اس طرح اللہ جل شان حق اور باطل کو بھی جدا کر تا اور ان میں علیحدگی پیدا کرتا ہے اور اسی لئے اس نے اپنی کتاب مقدس کا نام فرقان رکھا ہے یعنی حق اور باطل میں جدائی کرنے والی کتاب علیٰ ہذا جب اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کی حمایت فرماتا اور ان کے دشمنوں پر عذاب اور ہلاکت نازل فرماتا ہے جس سے دین حق اور باطل میں علیحدگی نمودار ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس فعل کو بھی فرقان کہا جاتا ہے۔

وَاٰیَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَالْفُرْقَانَ۔ (۲/۵۳)

جب ہم نے موسٰی علیہ السلام کو ایک کتاب دی اور اس کے دین حق کا بول بالا کرنے کے لئے اس کو فرقان دیا۔

(اس کے دوستوں اور دشمنوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ ایک فریق کو نجات دی اور دوسرے کو غرق کردیا )

اس بھی تم کو رب الفلق اور من شر غاسق اذاوقب کے درمیان معنوی مناسبت واضح ہو گی۔ (فتامل)۔

 

فصل ششم: شر کی تیسری قسم !

                   استعاذہ من شرالنّفٰثت

وَمِنْ شَرِّالنَّفٰثَتِ فِی الْعُقَدِ۔

اور گانٹھوں پر پھونکنے والی جماعتوں کے شر سے میں پناہ مانگتا ہوں۔

اس آیت میں شر کی تیسری قسم کا ذکر ہے۔ گانٹھوں پر پھونکنے والی جماعتوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو کسی دھاگے میں گرہیں لگا کر ہر ایک گرہ پر جادو کرنے کی غرض سے کچھ جنتر منتر پھونکتے ہیں اورچونکہ ساحر (جادوگر) کا نفس کیفیت خبیثہ کے ساتھ آوارہ ہوتا ہے اور مناسبت کی وجہ سے شیاطین کے نفوس خبیثہ اس کی اعانت کے لئے آمادہ ہوتے ہیں۔ قانون قدرت کی مقررہ فعات (جس کی حقیقت اور تفصیل کا علم صرف خدائے عالم الغیب کو ہے) کے بموجب اس کا اثر مسحور پر ہوتا ہے النَّفٰثٰت کا لفظ جمع مونث ہے اور اس لئے یہاں پر ایک سوال وارد ہوتا ہے کہ

سوال : سحر کا عمل تو مذکر اور مؤنث دونوں سے صادر ہوتا ہے، پھر مؤنث کی تخصیص کیا معنی رکھتی ہے ؟

جواب  : اس کا جواب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے یہ دیا ہے کہ اس صیغہ کا استعمال تخصیص کے لئے نہیں بلکہ ایک امر واقع کی بناء پر ہے۔ کیوں لبید بن اعصم یہودی کی بیٹیوں نے نبی کریم ﷺ پر سحر کا عمل کیا تھا اور اس کا اثر زائل کرنے کے لئے یہ دونوں سورتیں پہلے پہل نازل ہوئی تھیں، لیکن یہ جواب چنداں تحقیق پر مبنی نہیں کیونکہ صحیح روایت سے یہ ثابت ہے کہ سحر کرنے والا خود لبید بن اعصم تھا۔ اس لئے حقیقی جواب یہ ہے کہ چونکہ سحر کے مؤثر ہونے میں نفوس اور ارواح خبیثہ کو بڑا دخل ہے، اور یہ دونوں لفظ کلام عرب میں مؤنث استعمال ہوتے ہیں، اس لئے النَّفٰثٰت مؤنث کا صیغہ استعمال کیا گیا۔

                   واقعہ سحر النبی ﷺ

صحیح بخاری میں اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ پر جادوکیا گیا اور اس کا یہاں تک اثر ہوا کہ بعض اوقات آپ کو خیال پیدا ہوتا تھا کہ میں نے فلاں کام کر لیا ہے لیکن حقیقت میں نہیں کیا ہوتا تھا جب یہ حالت پیدا ہوئی تو آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور پھر مجھ سے (عائشہ رضی اللہ عنہا سے) اس طرح مخاطب ہوئے۔ کیا تم کومعلوم ہے کہ جس بات کے لئے میں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی اس کے بارے میں مجھ کو قطعی علم عنایت ہوا ہے؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا اللہ کے رسول ﷺ یہ کیسے؟ آپ ﷺ نے عرض نے فرمایا کہ میرے پاس (خواب یا مکاشفہ کی حالت میں) دو آدمی آئے، ایک ان میں سے میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس، جس کے بعد ایک نے دوسرے سے کہا اس شخص کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا اس پر جادو کیا گیا ہے۔ پہلے نے پھر کہا کس نے اس پر جادو کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔ پہلے نے دریافت کیا کس چیز کے ذریعہ سے۔ اس نے کہا کہ کنگھی کے گرائے ہوئے بالوں اور نر کھجور کے گابھے کے غلاف کے ذریعہ سے۔ پہلے نے سوال کیا کہ وہ جادو کہاں ہے؟ اس نے کہا ذردان کے کنویں میں جو بنی زریق کے قبیلہ میں ہے۔

اس واقعہ کے دکھائی دینے کے بعد آپ ﷺاس کنویں پر تشریف لے گئے اور واپس آکر اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس طرح بیان فرمایا کہ اس کا پانی اس قدر سرخ تھا گویا ا س میں مہندی کے پتے بھگوئے گئے ہیں اور اس کے اردگرد کھجور کے درخت شیطانوں کے سر معلوم ہوتے تھے (بدصورت اور بدنما ہونے کی وجہ سے) اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! تو آپ نے اس کو نکالا نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا مجھ کو اللہ تعالیٰ نے شفا بخشی تو میں نے مناسب خیال نہیں کیا کہ لوگوں میں فتنہ و فساد پیدا کروں، اس کے بعد اس کنویں کو بند کیا گیا۔

صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت سے بظاہر اس کا نکالنا ثابت ہوتا ہے۔ اس دوسری روایت کے الفاظ حسب ذیل ہیں۔ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر جادو کیا گیا اور اس کا یہاں تک اثر ہوا کہ بعض اوقات آپ ﷺ خیال کرتے تھے کہ ہم بستر ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ سفیان جو اس حدیث کا راوی ہے اس کا قول ہے کہ یہ سحر کی شدید ترین قسم ہے۔ ایک دن نبی کریم ﷺ نے اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ جس بات کے لئے میں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی اس بارے میں مجھ کو قطعی علم بخش دیا گیا ہے۔ دو آدمی میرے پاس آئے، ایک میرے سرہانے اور دوسرا میری پائینتی بیٹھ گیا۔ جو میرے سرہانے تھا اس نے دوسرے سے کہا اس شخص کو کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا اس پر جادو کیا گیا ہے۔ پہلے نے کہا کس نے اس پر جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا لبید بن اعصم نے۔ یہ بنی زریق کا ایک شخص تھا جو یہودیوں کا حلیف تھا اور منافق تھا- پھر پہلے نے کہا اس نے کس چیز کے ذریعے سے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا نر کھجور کے گابھے کے غلاف میں جو ذرہ ان کے کنویں میں ایک چکی کے پاٹ کے نیچے رکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور اس کو باہر نکال لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ کنواں ہے جو مجھ کو (خواب یا مکاشفہ کی حالت میں دکھایا گیا) اس کا پانی مہندی کے خیساندہ کی طرح سرخ تھا اور اس کے اردگرد کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر معلوم ہوتے تھے۔ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ پھر اس کو کھولا کیوں نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے شفا بخش دی ہے اور میں یہ نہیں چاہتا کہ لوگوں میں فتنہ فساد پیدا کروں۔

اس حدیث کا امام بخاری نے عنوان بھی یہ قائم کیا ہے کہ ’’ھل ستخرج السحر‘‘۔’’ کیا جادو نکالا جائے؟‘‘ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے پوچھا کہ ایک شخص پر جادو کیا گیا ہے اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری ہونے سے روکا گیا ہے کیا اس جادو کو کھولا جائے؟ اس نے جواب دیا کچھ حرج نہیں اس کی غرض تو اصلاح ہے اور ایسی باتوں سے شریعت نے منع نہیں فرمایا جس میں لوگوں کا فائدہ ہو۔

                   تناقض روایات

الغرض دونوں مندرجہ بالا روایتوں میں تناقض معلوم ہوتا ہے، اس سے نکالنا اور اس سے نہ نکالنا ثابت ہوتا ہے لیکن درحقیقت ان میں کچھ تعارض نہیں۔ نکالنے سے یہ مراد ہے کہ آپ ﷺ نے خود اس کو نکال کر دیکھا اور پھر دفن کر دیا۔ لیکن نہ نکالنے سے مراد یہ ہے کہ نکال کر منظر عام پر اس کو نہیں لائے اور لوگوں کو نہیں دکھایا جس کا مانع بھی آپ ﷺ نے بیان فرمایا اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ ﷺ ایسا کرتے تو مسلمانوں میں ایک جوش پیدا ہو جاتا اور ان کا خاموش رہنا ممکن نہ تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ساحر کی قوم بھی اس کی حمایت کے لیے کھڑی ہو جاتی اور فریقین میں فتنہ و فساد کی آگ مشتعل ہو کر اس کی چنگاریاں دور دور تک پھیل جائیں اور پھر اس کا فور کرنا دشورا ہو جاتا اور چونکہ مقصود حاصل ہو چکا تھا اس نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے شفا دی تھی اس لیے نبی کریم ﷺ نے مناسب خیال نہیں فرمایا جو آپ ﷺ کے کریم نفس ہونے کی ایک روشن دلیل ہے۔

                   متکلمین کا قول

یہ حدیث اہل عمل کے نزدیک ثابت ہے اور سب نے اس کو مقبول قرار دیا ہے، کسی کو بھی اس کی صحت میں اختلاف نہیں لیکن اکثر اہل کلام نے اس حدیث کی صحت سے انکار کیا ہے اور اس کی تکذیب کی ہے۔ چنانچہ بعض متکلمین نے اس موضو ع پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اور جو دلائل انہوں نے اس حدیث کے رد میں لکھے ہیں ان کا ملحض یہ ہے کہ اس حدیث کے راوی کو غلطی ہوئی اور حقیقت میں کوئی اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ نبی کریم ﷺ کی شان سے یہ بعید ہے کہ آپ ﷺ پرسحر کا اثر ہو، کیونکہ اگر ہم مان لیں کہ آپ ﷺ پر جادو ہوا تھا تو اس سے کافروں کے قول کی تصدیق ہو جائے گی کہ جو نبی کریم ﷺ کو مسحور کہا کرتے تھے۔ بلکہ انبیاء سابقین علیہم الصلاۃ والسلام کے حق میں بھی کافر لوگ ایسا ہی بکواس کیا کرتے تھے۔ چنانچہ فرعون نے سیدنا موسٰی علیہ السلا م سے کہا تھا

وَاِنِّیْ لَاُظُنُّکَ یٰمُوْسٰی مَسْحُوْرًا۔ (۱۷/۱۰۱)

اور اے موسٰی علیہ السلام میرا تو خیال ہے کہ تم پر کسی نے جادو کیا ہے۔

اور صالح اور شعیب علیہما السلام کی قوم نے ان کو انہی لفظوں سے مخاطب کیا تھا۔

اِنَّمَآاَنْتَ مِنَ الْمُسَخِرِیْنَ۔(۲۶/۱۵۳)

بے شک تم ان میں سے ہو جن پر جادو کیا گیا ہو۔

لیکن یہ کفار کا قول ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے سحر کے اثر سے محفوظ رہنا لازم ہے، کیونکہ اگر ہم اس کو جائز تصور کریں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ شیطان کے اثر میں آسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں حمایت اور عصمت کا جو وعدہ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو پورا نہیں کیا۔ وغیرہ وغیرہ۔

                   اہل عمل کی رائے

متکلمین کے یہ دلائل علمائے حدیث کے نزدیک کچھ وزن نہیں رکھتے کیونکہ ہشام جو اس حدیث کا راوی ہے نہایت ثقہ اور بہت بڑا عالم ہے اور ائمہ حدیث میں سے کسی نے بھی اس کی روایت کو قابل اعتراض خیال نہیں کیا۔ اس لئے متکلمین کی جرح قدح سے وہ مطعون قرار نہیں دیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں ہشام سے نظر کر کے دوسرے متعدد راویوں نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور امام بخاری اور امام مسلم کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ، یہ حدیث صحیح ہے اور اہل حدیث میں سے کسی نے بھی ان کے اس فیصلہ پر نکتہ چینی نہیں کی۔

مفسرین، اہل حدیث فقہاء اور مورخین سب کے نزدیک یہ ایک مشہور اور تسلیم شدہ واقعہ ہے اور متکلمین کی نسبت یہ لوگ نبی کریم ﷺ کی سیرت (حالات زندگی) کو زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ابو بکر بن ابی شیبہ نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی نے نبی کریم ﷺ پر جادو کیا تھا۔ جس کے اثر سے کئی روز تک نبی کریم ﷺ کو شکایت رہی۔ اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ ایک یہودی نے آپ ﷺ پر جادو کیا ہے اور گرہیں لگائی ہیں، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے آدمی بھیج کر وہ گرہیں (کنویں سے) نکلوا لیں اور ان کو کھولنا شروع کیا۔ جب بھی آپ ﷺ کوئی گرہ کھولتے تھے اس سے آپ ﷺ کو تخفیف محسوس ہوتی تھی، یہاں تک کہ جب تمام گرہیں کھول دیں تو آپ ﷺ کی طبیعت بالکل ہلکی پھلکی ہو گئی۔ آپ ﷺ نے یہودی سے اس کا ذکر تک نہیں کیا اور نہ کبھی آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر اس کی کی علامت دیکھی گئی۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ایک یہودی غلام نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا، یہودیوں نے اسے بہکانا شروع کیا اور اس کو مجبور کیا کہ وہ ان کو نبی کریم ﷺ کی کنگھی سے گرے ہوئے بال اور آپ کی کنگھی کے چند دندانے دے، چنانچہ یہودیوں نے ان دونوں چیزوں کے ذریعہ آپ ﷺ پر جادو کیا۔ اور اس کا م کو لبید بن اعصم نے انجام دیا۔

سورۃ الفلق اور سورۃ الناس اس بارے میں نازل ہوئیں۔ ان سورتوں کی گیارہ آیتیں ہیں۔ سورۃ الفلق کی پانچ اور سورۃ الناس کی چھ۔ نبی کریم ﷺ نے ان کو پڑھنا شروع کیا، تو ہر ایک کے ختم ہونے پر ایک گرہ کھل جاتی تھی، یہاں تک کہ تمام گرہیں کھل گئیں اور نبی کریم ﷺ بیماری کے اثرسے بالکل آزادہو گئے۔

ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ چھ مہینے تک اس کے اثر میں مبتلا رہے۔ تین دن تک اس کی شدت رہی اور بالآخر معوذتین نازل ہوئیں۔

                   جادو ایک عارضہ ہے

متکلمین کے جواب میں اہلحدیث کہتے ہیں کہ جادو کا اثر بھی دوسری بیماریوں کی طرح ایک عارضہ ہے جس میں نبی کریم ﷺ کچھ عرصہ تک مبتلا رہے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے نجات دی اور شفاء بخشی۔ بیماری کا عارض ہونا ابنیاء علیہم السلام کے لئے کوئی عیب کی بات نہیں (بلکہ ان کی بشریت کا اقتضاء ہے) یہاں تک کہ بعض حالات مرض میں ان پر بیہوشی طاری ہو سکتی ہے چنانچہ نبی کریم ﷺ پر مرض الموت میں چند مرتبہ ان کا طاری ہونا صحیح روایات سے ثابت ہے۔

ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ بالاخانے سے گرے تو آپ ﷺ کا قدم اکھڑ گیا۔ (آپ ﷺ کے قدم کی ہڈی اتر گئی) اور ایک دفعہ گھوڑے سے گرنے کا اتفاق ہوا تو آپ ﷺ کئی دن تک باہر نہیں نکل سکے کیوں کہ آپ ﷺ کے پہلوئے مبارک چھل گیا تھا۔ اس قسم کے عوارض کا پیش آنا کمال نبوت کے منافی نہیں، مرض اور مصیبت سے درجات میں زیادتی ہوتی ہے۔

ایک حدیث کا مضمون ہے کہ سب سے زائد انبیاء علیہم السلام کو مصیبتیں پیش آئی ہیں، تم نے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے حالات میں پڑھا ہو گا کہ دین حق کی دعوت اور تبلیغ میں ان کو کیا تکالیف برداشت کرنی پڑیں؟ اس لیے اس میں کونسی تعجب کی بات ہے۔ اگر آپ ﷺ کو اپنے دشمنوں سے ان کے جادو کا عمل کرنے کی وجہ سے کسی قدر تکلیف سہنی پڑی ہو جیسے کہ یہ ایک امر ممکن بلکہ واقع ہے کا اعدائے ملت نے آپ ﷺ کو تیر و شمشیر سے زخمی کیا اور ایک مرتبہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی پشت مبارک پر نماز کی حالت میں اوجھڑی رکھ دی تھی۔

اللہ تعالیٰ لوگوں پر ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اگر چہ وہ اعلیٰ مراتب تک پہنچ چکے ہیں لیکن پھر بھی بشریت کے اوصاف سے وہ مبرا نہیں قل انما انا بشر مثلکم اور اس لئے ان کو اللہ کا شریک مت ٹھہراؤ ( مترجم )

یہ تمام واقعات ابتلاء کی قسم سے ہیں اور وہ نبی کریم ﷺ کے لئے ہر گز کسر شان اور عیب و تنفیص کے موجب نہیں، یہ علو درجات کا باعث ہے۔

صحیحین میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا جبرائیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا اے محمد ﷺ ! کیا تمہیں بیماری کی شکایت ہے؟ نبی کریم ﷺ نے اثبات میں جواب دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا

بِسْمِ اﷲِ اَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ بُؤْذِیْکَ مِنْ کَلِّ نَفْسٍ اَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ اَﷲُ یَشْفِیْکَ بِسْمِ اﷲِ اَرْقِیْکَ۔

میں اللہ تعالیٰ کے نام سے تمہارے لئے دم کرتا ہوں ہر ایک ایسی چیز سے جو تم کو تکلیف دے، ہر ایک نفس کے شر سے اور حسد کی آنکھ اللہ تعالیٰ ہی تم کو شفا عنایت کرے گا، اللہ تعالیٰ ہی کے نام سے میں تمہارے لیے منتر کرتا ہوں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی شکایت کسی نفس شریر یا حاسد کے شر سے تھی، جس کے زائل کرنے کے لئے جبرائیل علیہ السلام نے مندرجہ بالا الفاظ میں آ پ ﷺ پر دم پڑھا۔

                   منکرین سحر کا ردّ

رہا متکلمین کا یہ استدلال کہ کافر لوگ نبی کریم ﷺ کو مسحور کہا کرتے تھے۔ اور فرعون نے موسٰی علیہ السلام کو مسحور کے لفظ سے اور صالح اور شعیب علیہم السلام کو ان کی قوم نے مسحر کے لفظ سے مخاطب کیا۔ الی اٰخر ما قال۔ اس کا جواب بعض اہل حدیث نے یہ دیا ہے کہ مسحور اور مسحر کا اشتقاق سحر بمعنی پھیپھڑے سے ہے۔ مسحور کے معنی پھیپھڑے والا یعنی انسان۔ اس سے کافروں کی مراد یہ تھی کہ پیغمبر بھی ہماری طرح انسان ہے لیکن یہ جواب بہت ہی ناپسندیدہ اور دورازصواب ہے کیونکہ بشر کو مسحور کے لفظ سے تعبیر کرنا لغت کے کسی استعمال سے ثابت نہیں اور کلام مجید کو بغور پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کافروں کو یہ کہنا منظور ہوتا تھا کہ تم بھی ہماری طرح انسان ہو، وہاں صریح بشر کا لفظ استعمال کرتے تھے

لَقَالُوْاِنْ اَنْتُمْ اِلَّابَشَرٌ مِثْلُنَا الخ (۱۴/۱۰) اَبَعَثَ اﷲُ بَشَرًا رَسُوْلًا۔وغیرہ۔

                   سحر ومسحور کی تحقیق

علاوہ ازیں اگر مسحور کے معنی پھیپھڑے رکھنے والاانسان ہوتا تو فرعون کا یہ کہنا کہ

وَاِنِّیْ لَاُظُنَّکَ یٰمُوْسٰی مَسْحُوْرًا۔

نہایت بیہودہ معلوم ہوتا ہے کیا اس کو اس بات کا علم نہیں تھاکہ موسٰی علیہ السلام ایک پھیپھڑا رکھنے والا انسان ہے اور موسٰی علیہ السلام کا یہ جواب دینا کہ

اِنِّیْ لَاُظُنُّکَ یٰفِرْعُوْنُ مَثْبُوْرًا۔ (۱۸/۱۰۲)

اے فرعون ! میں تم کو ہلا ک ہوتا ہوا خیال کرتا ہو ں۔

ناموزوں ہو گا بلکہ اگر مسحور سے مراد انسان تھا تو موسٰی علیہ السلام کو یہ جواب دینا مناسب تھا کہ بے شک میں انسان ہوں لیکن بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے جیسے کہ سورۃ ابراہیم میں کافروں اور انبیاء علیہم السلام کا آپس کا خطاب اس طرح منقول ہے کہ جب کافروں نے انبیاء علیہم السلام سے یہ کہا کہ تم بھی تو ہم جیسے بشر ہو تو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے یہ کہا کہ تم بھی تو ہم جیسے بشر ہو تو انبیاء علیہم الصلوٰۃ نے اس کے جواب میں یہ فرمایا کہ

اِنْ نَّحَْنُ الْابَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَلٰکِنَّ اﷲَ یَمُنُّ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ط (۱۴/۱۱)

بے شک ہم تم جیسے انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنی عنایت سے مخصوص فرماتا ہے۔

الغرض بعض اہل حدیث کا یہ جواب نہایت کمزور ہے۔ بعض دوسرے اہلحدیث اور مفسرین نے جن میں سے ایک ابن جریر طبری ہیں یہ جواب دیا ہے کہ مسحور کے معنی ہیں وہ شخص جس کو جادو سکھلایا گیا ہو، گویا ساحر اور مسحور کے ان کے نزدیک ایک معنی ہیں لیکن ساحر پر مسحور کا اطلا ق لغت سے ثاب نہیں بلکہ مسحور اس شخص کو کہتے ہیں جس پر دوسرے نے جادو کیا ہو۔ اور ساحر اس کو کہتے ہیں جو سحر کا علم جانتا ہو، جیسے کہ فرعون کی قوم نے موسٰی علیہ السلام کے حق میں کہا تھا کہ

اِنْ ھٰذَا الَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ۔

الغرض فرعون نے اس کو مسحور اور اس کی قوم نے اس کو ساحر کہا۔

                   سحر بمعنی جنّ

سب سے بہتر ایک تیسرا جواب ہے جس کو علامہ زمخشری مصنف کشاف اور دوسرے مفسرین نے اختیار کیا ہے کہ مسحور کا لفظ قیاس لغوی کے مطابق اسم مغعول کے معنی رکھتا ہے لیکن اس کا مادہ سحر بمعنی جن (مجنون ہوا) مسحور کے معنی بے سمجھ، دیوانہ جس کی عقل زائل ہو چکی ہو، جیسا کہ کافروں کا قول تھا کہ

اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّارَجُلًا مَّسْحُوْرًا۔ (۱۷/۴۷)

(جس کے معنی اس تفسیر کے مطابق یہ ہیں) کہ تم تو دیوانے مسلوب العقل کے پیچھے جارہے ہو۔

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قابل اتباع و تقلید وہ شخص نہیں ہوتا جو عقل سے خالی ہے۔ وہ جسمانی امراض اور تکالیف کسی ذی عقل وہوش کے نزدیک اتباع سے مانع نہیں۔ انبیاء علیہم الصلاۃ والالسلام کے دشمنوں نے ان کو امراض اور جسمانی تکالیف کا کبھی طعنہ نہیں دیا اور نہ ہی ان کا ایسا کہنا تھا دوسروں کے لئے اتباع سے مانع ہو سکتا تھا۔ اسی لئے کبھی تو وہ آپ کو شاعر، کبھی ساحر اور کبھی مجنون کہتے تھے۔ قال اللہ تعالیٰ

 

اَنْطُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْالَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْافَلَایَسْتَطِیْ عُوْنَ سَبِیْلًا۔ (۱۷/ ۴۸)

دیکھو، یہ لوگ تمہارے لئے کیسی کیسی مثالیں بیان کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ گمراہ ہو گئے اور اپنی گمراہی میں اس قدر سرگرداں ہیں کہ ان کو راستہ ہی نہیں ملتا۔

راستہ نہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا مقصد نبی کریم ﷺ کے اتباع سے لوگوں کو روکنا ہے جس کے حصول کے لیے وہ آپ کو مختلف ناموں سے پکارتے ہیں لیکن ایک صاحب بصیرت انسان آپ ﷺ کی سیرت اور آپ ﷺ کے احوال بنظر امعان مطالعہ کر کے یقین کر لیتا ہے کہ جو کچھ کہتے ہیں وہ سراسر کذب اور بہتا ن ہے اور نبی کریم ﷺ ان کی ان افتراپردازیوں سے بعید ترین انسان ہیں۔

                   متکلمین کے قول کا ردّ

متکلمین کا یہ کہنا کہ اگر نبی کریم ﷺ پر جادو کا اثر ہوا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی حمایت اور حفاظت ناقص ہوتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کی حمایت اور نصرت فرماتا ہے۔ اسی طرح اپنی حکمت بالغہ سے بعض مسلحتہائے خاصہ کے لیے خاصہ کے لیے ان کو بعض تکالیف میں مبتلا کرتا ہے جس سے ان کو عروکرامت کے مراتب ہیں رفعت حاصل ہوتی ہے اور ان واقعات میں ان کے خلفاء اور افرادِامت کے لیے درس عبرت ہوتا ہے۔ جب ان کو راہ حق میں کوئی مصیبت اور تکلیف پیش آتی ہے اور وہ دیکھتے ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو بھی اس قسم کی تکلیفیں پیش آئی تھیں جن کو انہوں نے نہایت ثابت قدمی اور پامردی کے ساتھ برداشت کیا تو ان کی افعال میں متعدد حکمتیں ہوتی ہیں جن کے ادراک سے اکثر اوقات انسان کی عقل قاصر رہتی ہے۔

وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔

فصل ہفتم: جادو کا اثر مسلم ہے !

                   قَالَ اﷲ وَقَال الرَّسَوْل

 

 

اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ وَمِنْ شَرِّالنَّفٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ اور نیز وہ حدیثیں جن کابیان گزشتہ فصل میں ہوا ہے، اس بات کی دلیل ہیں کہ جادو کی تاثیر حق ہے اور یہ حقیقت ہے، محض تخیل نہیں، لیکن معتزلہ اور بعض دوسرے اہل کلام اس کے منکر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جادو کے ذریعہ سے کسی کو بیمار یا قتل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی حقیقی طور پر کوئی دوسرا اثر از قسم حب و بغض اس کے ذریعہ پیدا کرسکتے ہیں، جادو کی حقیقت یہیں تک محدود ہے کہ اس کے ذریعہ سے قوت متخیلہ پر اثر ڈال سکتے ہیں اور اس میں حسب ارادہ تغیر پیدا کر سکتے ہیں۔

                   صحابہ رضی اللہ عنہا اجمعین اور سلف رحمہم علیہ اجمعین کا مذہب

 

لیکن ان کا یہ قول صحابہ رضی اللہ اجمعین اور سلف کی متواتر روایات کے خلاف ہے۔ مفسرین و اہلحدیث، فقہا ء و اہل تصوف اور عام عقلاء کا قول بھی ان کے خلاف ہے۔ سحر کے ذریعہ سے کسی کو بیمار بنادینا، اس کو ہلاک کر دینا، یا اس کے ذریعہ سے حب و بغض پیدا کرنا اور اس کے علاوہ دوسرے اثرات کا ظہور میں آنا ایک حقیقت واقعیہ ہے جس کو عام لوگوں نے مشاہدہ کیا ہے۔ اور بہت سے اشخاص کو اس کا وجدانی علم ہے کیونکہ ان پر جادو کا اثر ہوا ہے جس کو انہوں نے یقینی طور پر محسوس کیا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ وَمِنْ شَرِّالنَّفٰثٰت ِ فِی الْعُقَدِ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ساحروں کا عمل غائبانہ بھی مضر اثر ڈالنے کا باعث ہوتا ہے اور اگر منکرین کے قول کے مطابق اس کا اثر اس حد تک محدود ہوتا جبکہ مسحور حاضر ہوتو اس صورت میں نَفّٰثٰت کے لئے کوئی شر نہ ہوتا جس سے پناہ مانگنے کی ضرورت پیش آتی۔ نیز جبکہ وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ ساحر تمام حاضرین کی، باوجود ان کی کثرت کے چشم بندی کر سکتا ہے یہاں تک کہ وہ ایک چیز کو اس کی اصلی صورت کے برخلاف مشاہدہ کرا سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ ان کے حواس میں حسب الارادہ تغیر پیدا کرسکتا ہے تو کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ حاضرین یا غائبین کے بعض عوارض اور قوٰی و طبائع میں کوئی مطلوبہ تغیر پیدا کر دے ؟ اور کیا قوت باصرہ اور دوسرے حواس اور قوٰی میں کوئی ایسا فرق موجود ہے جس کی وجہ سے ساحر کو یہ قدرت تو حاصل ہے کہ وہ اول الذکر میں حصب الارادہ تغیر پیدا کرے لیکن دوسرے حواس اور قوٰی میں تصرف کرنے سے وہ عاجز ہے ؟ اور جب اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ ساحر اپنے جادو کے زور سے آنکھوں کے فعل میں اس قدر تصرف کر سکتا ہے ہے کہ وہ ساکن کو متحرک اور متصل کو منفصل اور مردہ کو زندہ یا زندہ کو مردہ دیکھ لے تو بھلا اس سے کیا مانع ہے کہ وہ کسی دوسرے کے صفات نفسانی میں کوئی ملوبہ تغیر پیدا کرے ؟ مثلاً جو اس کے نزدیک محبو ب تھا اس کو مبغوض تھا اس کو محبوب بنادے۔

اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ساحروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے

سَحَرُوْااَعْیُنَ النَّاسَ وَاسْتَرْھَبُوْھُمْ وَجَائُ وَابِسِحْرً عَظِیْمٍ (۷۱/۱۲)

انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کیا اور ان کے دلوں میں سخت خوف پیدا کیا اور ان کے دلوں میں سخت خوف پیدا کیا اور بہت بڑا جادو کا عمل کیا۔

 

ایک تو اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنکھوں کے فعل میں تغیر پیدا ہونے کے علاوہ ان کے دلوں کی بھی حالت بدل گئی تھی۔ دوسرے یہ کہ یہ تغیر یا تو اشیاء مرئیہ میں پیدا ہوا ہو گا۔ مثلاً ساحروں نے ارواح خبیثہ یعنی شیاطین سے اس بارے میں استعانت کی جنہوں نے رسیوں اور لاٹھیوں کو متحرک کر دیا اور ناظرین نے یہ خیال کیا کہ یہ چیزیں بذات خود حرکت کر رہی ہیں جیسے کہ بازیگر غیر مرئی تاروں کے ذریعہ سے کسی چیز کو حرکت میں لاتے ہیں اور ناظرین خیال کرتے ہیں کہ وہ چیز خودبخود حرکت کر رہی ہے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں میں یہ تغیر پیدا ہو گیا ہو۔ چنانچہ انہوں نے رسیوں اور لاٹھیوں کو حرکت کرتا ہوا دیکھا لیکن درحقیقت وہ متحرک نہیں تھیں اور اس میں شک نہیں کہ ساحر دونوں طرف کا تصرف کر سکتا ہے۔ کبھی تو خود دیکھنے والے کے صفحات میں تصرف کرتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو چیزیں غیراصلی حالت میں نظر آتی ہیں اور کبھی وہ ارواح خبیثہ سے استعانت کر کے نفسِ اشیاء میں تغیر پیدا کرتا ہے۔

                   منکرین تاثیر سحر کا ردّ

منکرین کا قول ہے کہ ساحران فرعون نے رسیوں اور لاٹھیوں پر ایسا عمل کیا جس سے ان میں حرکت پیدا ہوئی چنانچہ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے اس میں پارہ بھر دیا تھا جس پر دھوپ کا اثر ہواتو وہ حرکت کرنے لگیں لیکن منکرین کا یہ قول باطل ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ان اشیاء کی حرکت خیال اور چشم بندی کا نتیجہ نہ ہوتا جیسے آیات بالا مین اس کی تصریح ہے بلکہ ان کی حرکت حقیقی ہوتی اور ان کے اس عمل کو سحر کہنا درست نہ ہوتا بلکہ یہ ایک دستکاری ہوتی جو اکثر لوگ عمل میں لا سکتے ہیں اور ان کے اس عمل کی حقیقت ناظرین سے پوشیدہ نہیں رہتی۔ خصوصاً جبکہ سینکڑوں عقلائے روزگار اس مجلس میں موجود تھے۔ علاوہ ازیں اگر ساحر ان فرعون کا کارنامہ ان کی دستکاری اور عیاری کا نتیجہ ہوتا تو بجائے اس کے کہ اس کے ابطال کے لیے عصا کا معجزہ ظہور میں لا یاجائے بہتر ہوتا کہ لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جاتا اوران کا پارہ وارہ نکال کر ان ڈینگ مارنے والے ساحروں کے ڈھول کا پول کھول دیا جاتا۔ نیز فرعون کو ان اطراف ملک سے ماہرین فن سحر کو بلانے اور ان کے ساتھ غیر معمولی انعام و اکرام کا وعدہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس عمل کو معمولی مدار نہایت آسانی کے ساتھ انجام دے سکتے تھے۔ الغرض یہ ایسا باطل قول ہے جس پر مزید بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔

فصل ہشتم :شر کی چوتھی قسم !

                   استعاذہ من شر حاسد

 

وَمِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذَاحَسَدَ۔

اور میں حاسد کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جب کہ وہ حسد کرتا ہے۔

اس آیت کریمہ میں چوتھے شر کا ذکر ہے۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ حاسد کا نفس حسد محسود شخص کے لیے شر و تکلیف کا باعث ہے۔ او ر اگر اپنے ہاتھ اور زبان سے مجسود کو ضرر پہنچانے کی کوشش نہ کرے تب بھی اس کا خبث باطن ایک ایساشر ہے جس سے پناہ مانگنا لازم ہے۔

                   حسد کا اثر مسلمہ ہے

قرآن کریم میں کوئی لفظ مہمل نہیں اور ہر ایک لفظ کے ذکر کرنے سے مخاطب کے ذہن میں کسی خاص حقیقت کا منقوش کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح آیت مذکورہ میں اِذَاحَسَدَ کا لفظ بڑھانے میں ایک نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حاسد اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ذات میں حسد موجود ہو لیکن بعض اوقات وہ اپنی اس صفت سے غافل ہوتا ہے مگر جب ہی اس کے دل میں حسد کا خیال آیا اوراس کے دل میں آگ کا ایک شعلہ بھڑک اٹھا جس کی چنگاریوں کا محسود تک پہنچنا بہت اغلب ہوتا ہے اس لیے اگر محسود اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور حمایت میں پناہ نہ لے اور اس طرف متوجہ ہو کر اور اوراد اور دعواتِ ماثورہ میں مشغو ل نہ ہوتو یقینا حاسد کی آتش حسد کے شعلے اس کو جھلسا دینے میں کوتاہی نہیں کریں گے۔ اب تم نے سمجھ لیا ہو گا کہ اِذَاحَسَدَ کا لفظ بڑھانے میں یہی نکتہ ہے کہ اس کا شر اس وقت متعدی ہوتا ہی جب کہ اس کے دل میں بالفعل حسد کی آگ بھڑک اٹھے۔

                   نظر بد کا اثر

 

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جبرئیل علیہ السلام کی دعاء کے یہ الفاظ تم کو یاد ہوں گے کہ من شرکل نفس اور عین حاسد الخ۔ اس حدیث میں حاسد کی آنکھ سے پناہ مانگنے کا ذکر ہے لیکن یہ ایک معلوم بات ہے کہ حاسد کی آنکھ کے مجرد دیکھنے سے کچھ اثر نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر وہ کسی چیز کو یا اپنے محسود کو اس نظر سے دیکھے جیسے کہ وہ پہاڑ اور دریا وغیرہ کو دیکھتا ہے اور اس کے دل میں حسد کا جذبہ بالفعل موجزن نہ ہو تو مسحود کو اس کے شر کا کچھ خطرہ نہیں لیکن اگروہ حسد کی کیفیت سے رنگین ہو کر اپنے محسود پر نظر ڈالے جب کہ اس کے اس دل میں غضب اور انتقام بے جا کے خبیث جذبات موجزن ہوں تو کچھ شک نہیں کہ اس کی یہ نظر نفس حاسد کی قوت اور ضعف کی حالت کے مطابق محسود پر اپنا اثر ڈالے گی۔ اگر اس کے جذبات خبیثہ یا طاقتور ہوں گے تو یہ ممکن ہے کہ وہ محسود کو اپنی نظر سے ہلاک کر دے یا بیمار بنا دے اور بہت سے لوگ اپنے تجربہ سے اس کی تصدیق کر سکتے ہیں اس نظر بد کا اثر نفس خبیثہ کے ذریعہ ہوتا ہے جو اس کی سِمیّت کا اثر ہوتا ہے جیسے کہ سانپ جب کہ اس میں قوت غضبیہ جوش زن ہوتی ہے اور وہ اس حالت میں کسی کو کاٹ لے تو اس کی سِمیّت کا اثر مہلک ہوتا ہے۔ سانپوں کی بعض اقسام میں یہ کیفیت بہت قوی ہوتی ہے یہاں تک کہ صرف گھورنے سے کسی شخص کو اندھا کر دیتے ہیں اور عورت کا اس سے اسقاطِ حمل ہو جاتا ہے جیسے کہ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے بھی لنڈورے سانپ اور ذوالطفیتین کا یہی اثر بیان فرمایا ہے جب کہ سانپ میں ایسی کیفیت کا پیدا ہونا ممکن ہے جس کے اثر سے ایک انسان اندھا ہو سکتا ہے اور کسی عورت کا حمل ساقط ہو سکتا ہے اس لیے اگر کسی شریر اور خبیث نفس میں یہ قوت غضبیہ کی آگ اور آتش انتقام مشتعل ہو کر جب وہ محسود کی طرف متوجہ ہو تو کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی زہریلی شعاعوں سے جو اس کی پر غضب اور پرحسد آنکھوں سے نکلتی ہیں، اپنے محسود کو ہلاک کر ڈالے یا کسی مرض میں مبتلا کر دے، یا کسی اور طرح پر اس کو تکلیف پہنچائے؟ نظر بد کے اثر سے جو شخص بیمار ہوتا ہے بسا اوقات اس کو حکیم اور ڈاکٹر لا علاج بتلاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی بیماری کا تعلق طبیعت سے نہیں بلکہ عالم ارواح سے ہے اور اس کی حقیقت قوت روحانی کا اجسام اورطبائع میں اثر کرتا ہے۔ اس کا علم خاص خاص لوگوں تک محدود ہے اور جو لوگ اس کو چہ سے نابلد ہیں وہ اپنی جہالت کے باعث اس سے منکر ہیں۔

                   عالم اجسام اور عالم ارواح

ارباب بصیرجانتے ہیں کہ اجسام بذات خود لکڑی اور پتھر سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے ان سے جو عجیب و غریب افعال صادر ہوتے ہیں اور ان میں جو حیرت انگیز اثرات پیدا ہوتے ہیں، ان کے ظہور کا راز قوائے روحانیہ میں مضمر ہے۔ تمام اجسام درحقیقت روحانی قوتوں کے لیے بمنزلہ آلات اور اوزار کے ہیں۔ جس صاحب عقل نے عجائبات عالم پر نظر غائر ڈالی ہے اور اس نے ارواح اور اجسام کے تعلق پر محققانہ غور کیا ہے وہ جانتا ہے کہ اس عالم اجسام اور عالم شہادت کو چھوڑ کر ایک اور عالم ہے جس کو عالم ارواح یا عالم غیب کہتے ہیں جس کی قوائے عاملہ نہ صرف نظروں سے بلکہ جملہ حواس کے ادراک سے بالاتر ہیں اور اس عالم میں جو کچھ بھی تصرفات ہوتے ہیں وہ تمامتر حواس خمسہ کے دائرے سے باہر اور عالم ظاہر میں نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ اس عالم اجسام میں صرف ان کے آثار مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں اور اس لیے اکثر ظاہر پرست اس وجود کے قائل نہیں۔

                   عالم ارواح کا مشاہدہ

عالم ارواح کو عالم اجسام پر قیاس مت کرو، وہ عالم اس عالم سے بہت بڑا وسیع ہے اور اس کے عجائبات عام عجائبات سے بہت بڑھ کر ہیں۔ کیا تمہاری نظر عالم ارواح کے عجائبات کا مشاہدہ کرنے سے قاصر ہے یا تمہیں اس کے وجود میں تامل ہے۔

پہلی مثال

اپنی ہستی پر غور کرو اور دیکھو کہ ایک روح کے چلے جانے سے بدن کی کیا کیفیت ہو جاتی ہے؟ وہی انسان جو علوم و فنون کا ماہر، صعنتہائے عجیب و غریب کا مظہر ہر سائنس کے دقائق پر حاوی، فلسفہ کا استاد اور ملکداری اور سیاست کی عقدہ کشائی کرنے والا تھا۔ کس طرح ایک لمحہ میں روح کی مفارقت کر جانے کی وجہ سے ایک تعفن پذیر تعش بن جاتی ہے، جس میں حس و حرکت تک باقی نہیں رہتی۔

وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَاتُبْصِرُوْنَ (۵/۱۲۱)

تمہارے اپنے نفسوں میں قدرت کی نشانیاں موجود ہیں کیا تم نہیں دیکھتے ہو (اندھے ہو؟)

کیا انسان کی یہ قوت گویائی، اشیاء کو دیکھنے کی عجیب و غریب قوت، سماعت اور دیگر صفات اس کے دلی از قسم محبت اور عداوت، اس کی قوت متفکرہ ا ور دیگر فتوٰی اور احساسات اسی جسم ِظاہر کے آثارو مظاہر ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں، موت کے بعد بھی جسم تو بعینہٖ موجود ہوتا ہے اور اس کے تمام اعضاء بھی بظاہر اسی طرح صحیح و سالم نظر آتے ہیں، لیکن اس وقت وہ چیز اس میں نہیں جس کو روح کہتے ہیں اور جو اس کے ادراک سے بالاتر ہے۔

دوسری مثال

ایک شخص نہایت قوی ہیکل اور بظاہر خوبصورت بھی ہوتا ہے لیکن اس کو تم پسند نہیں کرتے ہو اور تمہارے دل میں اس کی پر کاہ کے برابر بھی وقعت نہیں۔ اس کے مقابل میں ایک دوسرا شخص ہے جو نہایت نحیف اور لاغر اندام ہے، چنداں خوبصورت بھی نہیں، اس کی تمہارے دل میں عزت ہے اوربعض اوقات تم اس کو جان سے بھی عزیز تر سمجھتے ہو۔ اس فرق کی فلاسفی پر بھی تم نے کبھی غور کیا؟ سوائے اس کے اس کی اور کوئی وجہ نہیں کہ اول الذکر سے تم کو روحانی منافرت ہے اور موخر الذکر نے اپنی روحانی قوت سے تم کو اپنی محبت پر مجبور کر رکھا ہے

ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَذِیْذُ الْحَکِیْمُ۔ (۱۲/۹۷)

خلاصہ یہ ہے کہ اسباب اور مسببات اور علت اور معلول کا وجود اسی عالم اجسام اور طبائع تک محدود نہیں۔ بعض اسباب خفیہ عالم ارواح میں ایسے ہیں جن تک تمہاری کوتاہ میں نظر کی رسائی نہیں البتہ ان کے آثار و نتائج کو تم اس عالم میں مشاہدہ کر سکتے ہو۔ الغرض ہر ایک اثر یا واقعہ کے لیے عالم غیب یا عالم ارواح میں ہوتی ہے۔

فصل نہم: عاین اور حاسد میں اشتراک و افتراق !

                   قوت مقناطیسی

 

نظر بد لگانے والا اور حاسد من وجہ ایک جیسے ہیں، لیکن ایک دوسری وجہ سے دونوں میں فرق ہے۔ اس بات میں وہ دونوں ایک جیسے ہیں کہ ہر ایک کا نفس خاص کیفیت سے رنگین ہو کر اپنی توجہ کو کسی ایک مرکز پر مبذول کرتا ہے اور جس پر یہ توجہ مبذول کی جاتی ہے وہ ہدف ایذ و تکلیف بنتا ہے اور بعض اوقات اس کا انجام ہلاکت ہوتا ہے۔

اب فرق سنیے! نظر لگا نے والے کی آنکھوں میں جو مسموم اثر پایا جاتا ہے وہ صرف اس شخص یا چیز پر اثر کرتا ہے جس کے ساتھ وہ دوچار ہوئے لیکن حاسد کا جذبہ موجود ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اس کا اثر ایسی چیزوں پر بھی ہوتا ہے جن سے ان کو حسد نہیں ہوتا۔ مثلاً پتھر یا حیوان یا کھیتی وغیرہ۔

نیز بعض اوقات اس کا اثر اپنی جان اور اپنے مال وغیرہ پر بھی ہوتا ہے کیونکہ نظر بد اس شخص یا چیز پر ہوتا ہے جو صاحب نظر کو مستحسن معلوم ہو اور پھر اس کو گھور کر دیکھ لے ارشاد ہے

وَانِنْ یَّکَادُالَّذِیْنَ کَفَرُوْالَیُزْلِفُوْنَکَ بِاَبْصَارِھِمْ لَمَّاسَمِعُواالذِّکْرَ۔ (۶۸/۵۱)

قریب ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا تم کو اپنی آنکھوں (کی مقناطیسی) کے ذریعہ سے اپنی جگہ اور اپنے مرکز سے ہٹا دیں، اس حالت میں جب کہ وہ کلام پاک سنتے ہیں۔

اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نظر بد کے اثر سے آپ کو ایذا پہنچانا ہے چنانچہ روایت ہے کہ بعض ایسے اشخاص جو نظر بد کے لیے مشہور تھے نبی کریم ﷺ کے سامنے لائے گئے اور انہوں نے آپ ﷺ کو گھور کر کہا کہ ’’ہم نے کبھی ایسا آدمی نہیں دیکھا اور نہ کسی کا ایسا چبھتا ہوا کلام سنا‘‘۔

یہ اس قسم کے اشخاص تھے کہ جب کسی فربہ اونٹنی پر ان کی نظر پڑ جاتی تھی تو ان کو اپنی نظر بد کے اثر پر اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے غلام سے کہہ دیتے تھے کہ یہ ٹوکری لے لواور فلاں شخص کی اونٹنی کا گوشت لے آؤ، اور ایسا ہی ہوتا تھا کہ ان کے گھورنے پر وہ اونٹنی زمین پر گر کر لوٹنے لگتی اور اس کا مالک مجبوراً اس کو ذبح کرتا۔

کلبی کہتا ہے کہ عرب میں ایک شخص تھا جو اپنی نظر بد کے اثر کو تیز کرنے کے لیے ایک دودن کھانا چھوڑ دیتا تھا، اور پھر جب کوئی اونٹ یا بھیڑ بکری اس کے پاس سے گزرتی اور وہ کہہ دیتا تھا کہ میں نے تو ایسا اونٹ وغیرہ نہیں دیکھا تو وہ فوراً گر پڑتا۔ اسی شخص سے کافروں نے درخواست کی کہ وہ نبی کریم ﷺ کو اپنی نظر بد کا نشانہ بنائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے رسول اللہ ﷺ کو محفوظ و مصتون رکھا اور یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ لیکن ایک دوسری جماعت مفسرین کی یہ کہتی ہے کہ اس سے مراد نظر بد کا اثر پہنچانا نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ کافر لوگ جب تم کو قرآن پڑھتا ہوا سنتے ہیں تو تمہاری طرف عداوت کی نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں اور ان کا یہ دیکھنا اس شدت سے ہوتا ہے کہ قریب ہے تم کو گراد یں۔ زجاج نے یہی قول اختیار کیا ہے اور یہ محاورہ کلام عر ب میں موجود ہے کہ فلاں شخص نے اس کو ایسی تیز نظر سے دیکھا کہ قریب تھا کہ وہ گر جائے زجاج کہتا ہے کہ اس کا قرینہ یہ ہے کہ اس کو سماع قرآن کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی یہ لوگ قرآن کریم کا سننا نا پسند کرتے ہیں اور اس لیے جب اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ تم کو بسبب بغض اور عداوت کے سخت تیز نظروں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں‘‘۔

                   مہلک نظر کے اسباب واثرات

میں کہتا ہوں (یعنی علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ) کہ جو نظر مہلک اثر پیدا کرتی ہے اس کا سبب بعض اوقات حسد اور عداوت ہوتا ہے اور جیسے کہ حاسد کے نفس خبیث کا محسود پر موذی اور مہلک اثر پڑتا ہے اسی طرح اس نظر بد لگانے والے کا بھی پڑتا ہے اور اس کا اثر اس وجہ سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے کہ سامنے ہونے کی حالت میں قوت نفسانی اپنا عمل زائد کرتی ہے۔ کیونکہ دشمن جب نظروں سے غائب ہو تو ممکن ہے کہ انسان اس کی عداوت بھول جائے لیکن اس کو دیکھ کر پوشیدہ جذبات تموج پر آجاتے ہیں اور نفس بالکلیہ محسود کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اوراس لیے اس حالت میں نظر قوی کا اثر ہوتا ہے۔ یہاںتک کہ جس پر یہ نظر ڈالنا مقصود ہوتا ہے بعض اوقات وہ گر جاتا ہے۔ بعض اوقات اس کو بخارہو جاتا ہے اور کبھی وہ غش کھا جاتا ہے۔

اس قسم کے واقعات اکثر مشاہدہ میں آتے ہیں اوربہت لوگوں نے ایسا ہوتے دیکھا ہے۔ بعض اوقات اس نظر بد کا سبب صرف ’’پسندیدگی‘‘ ہوتا ہے اور عام طور پر اسی کو نظر بد کہا جاتا ہے۔ کیونکہ کسی چیز کو جب بنظر استحسان دیکھا جاتا ہے تو دیکھنے والے کے نفس میں ایک خاص کیفیت پیدا ہو تی ہے اور چونکہ بعض خبیث طبائع میں ایک زہریلا مادہ موجود ہوتا ہے جو اس کیفیت کے ظہور میں آتے ہی اس کا بھی ظہور ہوتا ہے اس لئے اس کا نتیجہ اس شخص یا چیز کی ہلاکت یا نقصان ہوتا ہے جس پر وہ نظر ڈالی گئی ہے۔

                   نظر بد ایک حقیقت ہے

عبدالرزاق بن معمر نے بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ محمد رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بیان کی ہے کہ ’’المیذ حق‘‘ نظر بد کا لگنا ایک حقیقت ہے یعنی محض توہم پرستی نہیں-

عبید بن رفاعہ سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! جعفر کی اولاد اکثر نظر بد کا شکا ر ہو جاتی ہے تو کیا ہم ان کے لیے کوئی دم وغیرہ کا عمل کریں؟ آپ ﷺ نے اس بات کا جواب اثبات میں دیا اور فرمایا اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھ سکتی تو وہ نظر بد ہوتی۔

الغرض کافر لوگوں کو نبی کریم ﷺ سے حسد اور عداوت تھی اورتمہیں معلوم ہو چکا ہے کہ حاسد کی نظر قوی تر ہوتی ہے، اس لیے جن مفسرین نے ہی کہا ہے کہ اس آیت سے مراد نظر بد کا اثر ڈالنا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ وہ حسد اورعداوت کی نظروں سے آپ ﷺ کو دیکھتے تھے جس کا برا اثر ہر طرح سے مسلم ہے۔

لیکن جن مفسرین نے یہ کہا ہے کہ اس آیت سے مراد نظر بد نہیں تھا جس کو عام اصطلاح میں نظر بد کہا جاتا ہے۔ ترمذی میں بروایت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ انسان نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے‘‘۔ اوراگر نظر بد میں کوئی شر نہ ہوتا تو آپ ﷺ اس سے پناہ کیوں مانگتے۔ نیز ترمذی میں عابس بن حبہ تمیمی کی ایک روایت ہے کہ میرے باپ نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ ’’نظر بد کا لگنا ایک حقیقت ہے‘‘۔

                   نظر بد اور تقدیر

ایک دوسری حدیث ِ ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھ سکتی تو وہ نظر بد ہوتی‘‘۔ اس کے بعد ترمذی نے لکھا ہے کہ اس بارے میں ایک حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

                   عائن بھی حاسد ہے

نظر بد لگانے ولا بھی ایک قسم کا حاسد ہے، لیکن عام حاسدوں سے وہ زیادہ مضر ہے۔ اور غالبًا اسی نکتہ کے لیے سورۃ الفلق میں حاسد کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے کیوں کہ عام کے ضمن میں خاص داخل ہوتا ہے یعنی ہر ایک نظر بد لگانے والا حاسد ہے لیکن بالعکس نہیں اس لیے جب حاسد کے شر سے پناہ مانگ لی گئی تو نظر بد سے بھی پناہ لی گئی۔ حسد کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی کسی دی ہوئی نعمت کے زوال کی خواہش کرنا، حاسد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا دشمن ہے اور شر اس کی طبیعت میں مرکوز ہوتا ہے جو اس کے خبیث فطرت کا نتیجہ ہے۔

                   جادو اور حسد

برعکس حسد کے سحر اور جادو کا شر فطری نہیں بلکہ اکتسابی ہے اور جیسے کہ پہلے ذکر ہوا۔ اس میں شیاطین کی راواح خبیثہ سے استعانت کی جاتی ہے۔

                   موضوع سورتیں

اس سورۂ شریفہ میں ساحر اور حاسد کے شر کا ذکر کر کے شر کی دونوں قسموں فطری اور اکتسابی کی تصریح کر دی گئی ہے سحر اور حسد کا شر شیاطین الانس اور شیاطین الجن دونوں نے متصور ہے لیکن شر کی ایک اور قسم ہے جو صرف موخر الذکر سے صادر ہوتی ہے یعنی وسوسہ۔ جس کے ذکر کے لیے دوسری صورت کو مخصوص فرمایا ہے۔

                   ساحر اور حاسد کا عمل

ساحر اور حاسد خارج سے اپنا عمل کرتا اور ایذا پہنچاتا ہے۔ مسحور یا مسحور کے عمل کو اس میں دخل نہیں لیکن وسوسہ کا عمل اس وقت مضر ثابت ہوتا ہے جب کہ انسان کا قلب اس کی طرف مائل ہو اور اس کو قبول کرلے اور اس لیے وسوسہ کے نتیجہ کے طور پر اگر کوئی انسان کسی عمل بد کا ارتکاب کر بیٹھے یا اسے ارتکاب کا عزم مصمم کر لے تو وہ مواخذہ کے قابل ہے کیونکہ یہ اس کے اپنے ارادہ اور سعی واکتساب کی عقوبت ہو گی۔ برخلاف اس کے ساحر اورحاسد کے شر کی عقوبت کے وہ خو د مستوجب ہوں گے، محسود اور محسور کا اس سے کچھ واسطہ نہیں۔ لہذا ساحر اور حاسد کا ایک سورۂ میں ذکر کیا گیا اور شیطان کے وسوسہ کا دوسری میں۔ بعض اوقات حسد اور سحر کی دونوں صفتیں ایک دوسرے کے ساتھ مناسبت رکھنے کی وجہ سے ایک ہی ذات میں جمع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً یہود کی قوم ساحر بھی تھی اور حاسد بھی۔ ان کے سحر کا ذکر ان آیتوں میں ہے

وَاتَّبَعُوْا مَاتَتْلُواالشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ وَمَاکُفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَااُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلُ ھَارُوْتَ وَمَارْوْتَ ط وَّمَایُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَا اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْط فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْئِ وَزَوْجَہٖ ط وَمَاھُمْ بِضَارِّیْنِ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّابِاِذْنِ اﷲِ ط وَیَثَعَلَّمُوْنَ مَایَضُرُّھُمْ وَلاَیَنْفَعُھْمْ ط وَلَقَدْ عَلِمُوْ ا لِمَنْ اشْتَرہٰہُ مَالَہٗ فِیْ الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ ط وَلَبِئْسَ مَاشَرَوْابِہٖ اَنْفُسَھُمْ لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۔ (۲ /۱۰۲)

ان لوگوں نے اس علم کی پیروی کی جو(سیدنا) سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت میں شیطان پڑھا کر تے تھے اور (سیدنا ) سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا بلکہ ان شیطانوں نے کفر کیا تھا۔ جو لوگوں کو جادو اور وہ علم سکھاتے تھے جو بابل میں دو فرشتوں (ہاروت اور ماروت پر اترا تھا اور وہ (دونوں فرشتے) کسی کو اس وقت تک وہ علم نہ سکھلاتے تھے جب تک کہ وہ یہ نہ کہتے تھے کہ ہم تو (تمہارے لیے) ایک آزمائش ہیں اس لیے تم ہم سے اس علم کو سیکھ کر کفر مت کرو۔ پس وہ لوگ باوجود ان فرشتوں کی اس تنبیہ کے ان سے ایسا علم سیکھتے تھے جس سے وہ مرد اور اس کی عورت کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں (اس علم سے) وہ لوگ سوائے اللہ تعالیٰ کی حکم کی کسی کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ بلکہ (ان سے) ایسا علم سیکھتے ہیں جس سے ان کو خود نقصان پہنچتا ہے اوران کو (اس علم سے) کچھ نفع نہیں پہنچتا اور وہ لوگ (اس بات کو بھی) جان چکے ہیں کہ جو شخص اس علم کا خریدار ہوا (علم سیکھا) اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں رہتا۔ البتہ اگر ان لوگوں کو سمجھ ہوتی تو جان لیتے کہ وہ چیز (علم کا سکھنا) بہت بری چیز ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچا ہے۔

اوران کے حسد کے ذکر سے تو تقریبًا قرآن کریم بھرا پڑا ہے جیسے

اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَااٰتٰہُمُ اﷲُ مِنْ فَضْلِہٖ۔ (۴۵/۴)

کیا وہ لوگوں کے ساتھ اسلئے حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو نعمتیں دیں

وغیرہ وغیرہ۔ اور اگرچہ ساحر کے ساتھ بھی شیطان ہوتا ہے لیکن حاسد خود شیطان کے مشابہ ہوتا ہے کیونکہ شیطان کو فساد سے محبت ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا زوال چاہتا ہے اور حاسد بھی انہیں اوصاف کے ساتھ موصوف ہے۔ سب سے پہلے ابلیس علیہ اللنعۃ نے سیدنا آدم علیہ السلام کے شرف اور فضیلت پر حسد کیا تھا جس کا نتیجہ انکار سجود اور ملعونیت ابدی کی شکل میں ظاہر ہوا۔

                   قوی تر جادو

سحر کی کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ساحر اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں جتنا زیادہ سرگرم ہو اتنا ہی وہ اپنے فن میں زیادہ ماہر ہوتا ہے اور اس لیے بت پرستوں کا جادو اہل کتاب کے جادو سے اور یہودیوں کا جادو نام نہاد مسلمانوں کے جادو سے قوی تر ہے۔ مؤطا امام مالک میں کعب رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے کہ مجھ کو تورات کے چند ایک کلمات یاد ہیں (جن کی برکت سے میں جادو کے اثرات سے محفوظ رہتا ہوں) ورنہ بصورت دیگر مجھ کو یہودی لوگ گدھا بنا تے۔ وہ کلمات یہ ہیں

اغوذبوجہ اﷲ العظیم الذی لیس شیء اعظم منہ وبکلمات اﷲ التامات التی لایجاز ھن برولا فاجرو باسماء اﷲ الحسنٰی ما علمت منہا ومالم اعلم من شرماخلق وزراء وبراء۔

میں اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے ساتھ پنا ہ مانگتا ہوں جس سے بڑھ کر کوئی نہیں اور اللہ تعالیٰ کے کامل کلام کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں جس سے کوئی نیک یا برا تجاوز نہیں کر سکتا۔ اور میں اللہ تعالیٰ کے بہترین اسمائے پاک کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں خواہ وہ مجھ کو معلو م ہیں یا میرے علم سے باہر ہیں۔ ہر ایک ایسی چیز کے شر سے جس کو اس نے پیدا کیا اورپھیلا یا۔

 

فصل دہم: استعاذہ من شر حاسد اذاحسد

                   معانی

اللہ تعالیٰ کا یہ قول ’’وَمِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذَاحَسَدَ ‘‘ جن اور انسان دونوں کو شامل ہے۔ شیطان اوراس کی جماعت مومنوں کے ساتھ اس فضل و انعام کی وجہ سے جو ان کے ساتھ کیا گیا ہے حسد کرتے ہیں جیسے کہ ہمارے باپ سیدنا آدم علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا اور وہ ا سکی اولاد بھی اسی طرح دشمن ہے۔

اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّفَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا۔ (۳/۵۶)

بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اس کو اپنا دشمن قرار دو۔

لیکن شیاطین الجن کا کام زیادہ تر وسوسہ ڈالنا ہے اور شیاطین الانس کا کام حسد کرنا ہے اگر چہ درحقیقت دونوں قسم کے شیطانوں میں دونوں اوصاف فی الجملہ پائے جاتے ہیں۔ اس لیے مِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذَاحَسَدَ کا لفظ دونوں کے شر سے پناہ مانگنے پر مشتمل ہے۔

                   سورۃالفلق کا خلاصہ

یہ سورۃ تمام عالم کے شرور سے پناہ مانگنے پر مشتمل ہے اور وہ چار استعاذہ کے کلمات اپنے اندر کھتی ہے۔ پہلے میں مخلوقات کے عام شر سے پناہ مانگنے کا ذکر ہے، دوسرے میں شب تاریک سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ تیسرے اور چوتھے میں ساحر اور حاسد کے شر سے استعاذہ کیا گیا ہے۔ ان دونوں کا شر نفس خبیثہ کی شرارت کا نتیجہ ہے جن میں سے اول الذکر یعنی ساحر شیطان سے مدد کا خواہاں اور اس کی عبادت میں مشغول رہتا ہے۔

                   ساحر اور شیطان

عموماً جادوکا عمل شیطان کی عبادت کرنے اوراس کا تقرب حاصل کئے بغیر مؤثر نہیں ہوتا۔ مثلاً یا تو وہ شیطان کے نام پر ذبح کرتا ہے یا اس ذبح سے مقصود اس کا تقرب ہوتا ہے۔

وَمَآاُھِلَّ بِہٖ لَغِیْرِ اﷲِ (۲۱/۷۳)

میں اسی کر حرمت بیان کی گئی ہے اسی طرح اور بھی اس سے اعمال شرکیہ سرزد ہوتے ہیں جن کو اگر چہ وہ خود دوسرے ہی ناموں سے موسوم کرے لیکن در حقیقت وہ شیطان کی پرستش اور اس کی عبادت ہوتی ہے، شرک اور کفر اسمائے مخفیہ نہیں بلکہ ان کا اطلاق ایک حقیقت پر ہوتا ہے جہاں بھی وہ پائی جائے اس کو توضیح ایک مثال سے ہو سکتی ہے، ایک شخص مخلوق کے لیے سجدہ کرتا ہے لیکن اس کو زمین بوس وغیرہ الفاظ سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا یہ سجدہ عبادت کے لیے نہیں بلکہ تعظیم کے لیے ہے۔ میرا سجدہ سجدۂ عبادت نہیں بلکہ سجدۂ تحیت ہے تو اس کے اس کہنے سے اس کی حقیقت میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا۔ اور بلحاظ حقیقت کے وہ سجد ہ عبادت کہلائے گا، اور اس کامسجود ہو گا خواہ اس کا فاعل کتنا ہی اس سے بیزاری کا اظہار کرے۔

مثلاً شراب محرم کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی پینے کی چیز جو سکر پیدا کرے۔ اب اگر کوئی اس کو نبیذ یا مثلث وغیرہ کے ناموں سے پکارے تو اس سے اس کی ماہیئت میں فرق نہیں آتا اور نہ ہی مسلمان کے لیے اس کا پینا حلا ل ہو گا۔ اسی طرح حلالہ کا نکاح چونکہ دراصل نکاح نہیں زنا ہے اس لیے اس نکاح کے ساتھ موسوم کرنے سے اس کی حقیقت نہیں بدل سکتی۔

                   شیطان کی عبادت

اسی طرح ایک شخص شیطان کو خوش کرنے کے لیے ذبح کرتا ہے، اس کو پکارتا ہے اور اسی سے پناہ مانگتا ہے تو شیطان کو اس نے معبود قرار دیا اگر چہ وہ خود اپنے اس فعل کو عبارت سے موسوم نہ کرے بلکہ اس کو استخدام وغیرہ کے نام سے تعبیر کرے۔

جیسے کہ نام نہاد مسلمانوں میں عامل و کاہن اس قسم کے حرکات کو استخدام کہتے ہیں یہ اسی کی طرف اشارہ ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے

اَلَمْ اَعْہَد اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ اٰدَمَ اَنْ لاَّتَعْبُدُواالشَّیْطٰنُ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّمُّبِیْنٌ وَاَنِِ اعْبُدُوْنِیْ۔ (۳۶۲۰۶۱)

کیا میں نے تمہاری طرف اپنا پیغام نہیں بھیجا کہ اے آدم کے بیٹے ! شیطان کی عبادت مت کرو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور تم کو چاہئے کہ میری ہی عبادت کرو۔

اس آیت کریمہ میں شیطان کے نقش قدم پر چلنے کو عبادت سے تعبیر کیا ہے حالانکہ کوئی بھی اپنے منہ سے نہیں کہتا کہ میں شیطان کی عبادت کرتا ہوں۔

دوسری جگہ کلام پاک میں ارشاد ہے

وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اَھٰٓؤُلَائِ اِیَّاکُمْ کَانُوْایَعْبُدُوْنَ۔ قَالُوْااسْبْحٰنَکَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِہِمْ ط بَلْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنِّ۔ (۳۴/۴۱)

اس دن کو یا کرو جب کہ ہم ان سب کو زندہ کرکے جمع کریں گے اس کے بعد ملائکہ سے مخاطب ہوں گے کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت میں مشغول رہتے تھے؟ ملائکہ اس کا جواب عرض کریں گے کہ تو پاک اور بے عیب ہے، تو ہمارا کار ساز ہے، وہ نہیں بلکہ یہ لوگ تو شیطانوں کی عبادت کرتے تھے۔

باوجودیکہ یہ لوگ عبادت ِ ملائکہ کے مدعی تھے لیکن پھر بھی ان کو شیطان کا عابد قرار دیا گیا۔

                   عبادت لغیر اللہ

ان دونوں آیتوں سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ شرک و کفر اور عبادات غیراللہ بھی دوسرے بامعنی اسماء کی طرح خاص مفہوم اور حقیقت رکھتے ہیں جہاں کہیں بھی وہ مفہوم اور حقیقت پائی جائے وہیں ان الفاظ کا اطلاق ہو گا چاہے اس کا ارتکاب کرنے والا اپنے اس فعل کو خالص توحید اور ایمان ہی سے تعبیر کرے۔ الغرض یہ تو ساحر کا حال ہے جو شیطان سے استعانت کرتا اور اس کی عبادت میں مشغول رہتا ہے لیکن اس کے دوسرے بھائی حاسد کی شیطان خودمدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کا سچا نائب اور خلیفہ ہے۔ دونوں کو یہ گوارانہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمتوں سے بہرہ ور فرمائے بلکہ وہ ہمیشہ دوسروں کے زوال کے متمنی رہے ہیں۔

 الغرض کسی کی اپنی تعبیر کا کچھ بھی اعتبار نہیں۔ ہمیشہ حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے۔ یہ ایک قابل قدر تحقیق ہے اور اس کو یاد رکھنا لازم ہے کیونکہ اس تحقیق کے مدنظر نہ رکھنے سے بڑی بڑی غلطیاں واقع ہوتی ہیں۔ اکثر مدعیان علم و دانش اس غلط فہمی میں مبتلاء ہیں کہ ہمارے زمانہ کے مسلمان چاہے اولیاء کرام کے حق میں کتنا ہی غلو رکھتے ہوں لیکن وہ ان کو اپنا معبود اور اللہ کا شریک نہیں کہتے، حالانکہ یہ ایک سادہ حقیقت ہے کہ جب وہ ان کو انہیں صفات کا مظہر سمجھتے ہیں جواللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کو مشرک اور عابد لغیر اللہ نہ خیال کیا جائے۔ فتامل (مترجم)

 

فصل یا زدہم: حاسد کے شر پر اِذَاحَسَدَ کی قید

                   ایک نکتہ

یہ بھی قابل غور ہے کہ حاسد کے شر کو اِذَاحَسَدَ (جب کہ وہ حسد کرے ) کے ساتھ مقید کیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات ایک شخص کے دل میں حسد موجود ہوتا ہے لیکن وہ اس کو دبائے رکھتا ہے اور اس کی زبان سے یا ہاتھ سے محسود کوکچھ بھی ضرر نہیں پہنچتا ہے بلکہ وہ اپنے بھائی مسلمان کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ کرنا چاہئے اور جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ اس قسم کا حسد مضر نہیں اور عموماً اس سے آدمی خالی نہیں رہتا، مگر جس کو اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔

                   مومن حاسد

حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن حاسد ہو سکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا، کیا تم نے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا قصہ بھلا دیا ہے؟ الغرض مومنوں کے دل میں حسد کا پیدا ہونا ممکن ہے لیکن وہ اپنے اس جذبہ کی اطاعت نہیں کرتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو مقدم سمجھتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے خوف و حیا کرتا ہے اور جس بات کو وہ پسند کرتا ہے اس کو مبغوض رکھنا پسند نہیں کرتا اور اس لیے وہ کسی سے زوال نعمت کے خیال کو دل میں جاگزیں نہیں ہونے دیتا۔ بلکہ اس کو ہٹانے میں مشغول رہتا ہے اورمحسو د کے لیے زیادتی خیر اور دوام نعمت کی دعا کرتا رہتا ہے۔ برخلاف اس کے جب حسد کا اثر انسان کے اعضاء اور جوارع میں ظاہر ہوتو وہ حسد مذموم ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔

                   حسد کے مراتب

حسد کے تین مراتب ہیں۔

{۱} ایک یہ وہ کسی دوسرے سے کسی نعمت کا زوال چاہتا ہے۔

{۲} کئی شخص جہالت یا تنگدستی یا کمزوری یا پریشانی قلب وغیرہ میں مبتلا ء اور وہ اس شخص کے حق میں یہ نہیں چاہتا کہ اس کی یہ حالت تبدیل ہو اور اللہ تعالیٰ اس پر فضل فرماکر ان مصائب سے ان کو نجات دے اور اس کو اپنی رحمت کا حق دار فرمائے !

ان دونوں مراتب میں فرق یہ ہے کہ پہلے میں موجود اور محقق نعمت اور دوسرے میں متوقع نعمت پر حسد کیا جاتا ہے لیکن دونوں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو مبغوض جاننے والے ہیں اس کے بندوں کے دشمن اوردونوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سخت مبغوض ہیں۔ لوگ بھی ان کو اپنا دشمن خیال کرتے ہیں اوراس لیے وہ اپنی مرضی سے کسی حاسد کو اپنا سردار نہیں بننے دیتے او ر نہ کوئی ایسے شخص کی غمخواری اور ہمدرد ی کرتا ہے۔ لوگ اسی شخص کا سردار ہونا پسند کرتے ہیں جوان کے ساتھ احسان کرے اور ہمدردی سے پیش آئے۔ الغرض حاسد لوگوں کو مبغوض سمجھتا ہے اور وہ اس کو مبغوض سمجھتے ہیں۔

{۱} حسد کی تیسر ی قسم غبط ہے اس میں دوسرے سے زوال نعمت کی خواہش نہیں کی جاتی۔ بلکہ ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ جو کمال اور نعمت دوسرے کو حاصل ہے وہ مجھ کو بھی حاصل ہو جائے۔ غبطہ کو مجازاً حسد کہا جاتا ہے ورنہ کوئی معیوب وصف نہیں بلکہ ایک مرغوب اور محمود صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کا حال بیان کرکے فرمایا ہے

وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ۔ (۸۳/۲۶)

اورایسے ہی اعلیٰ مقام کے حاصل کرنے کے لیے رشک کرنے والوں کو رشک کرنا چاہئے۔

صحیحین میں ایک حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں  صرف دو ہی آدمی ہیں،جن کے حال پر حسد کرنا (رشک کرنا ) جائز بلکہ مستحسن ہے۔ ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہوا اور پھر اس کو راہ حق میں خرچ کرنے کی توفیق بخشی ہو۔ دوسرا وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے علم نافع عطا فرمایا ہے، جس سے وہ خود بھی مستفیض ہوتا ہے اوردوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیتا ہے۔ اس قسم کے حسد یعنی غبطہ کا محرک ہمت عالیہ ہوتی ہے جو اس کے اعمال خیر کے کرنے پر ابھارتی ہے اور اہل خیر و صلا ح کے ساتھ مشابہت حاصل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ کسی دوسرے پر جو انعام اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ اس سے زائل ہو بلکہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتیں برقرار رہنے کی خواہش رکھنے کے علاوہ یہ چاہتا ہے کہ وہ خود بھی انعام الہٰی تعالیٰ شانہ کا مورد ہو۔

حسد کی یہ قسم کی آیت کریمہ وَمِنْ شَرِّحَاسِدٍ اِذَحَسَدَ۔ کے مفہوم میں داخل نہیں۔ اس آیت کریمہ میں حسد کی پہلی دو قسموں کے شر سے پناہ مانگنا مقصود ہے اور محسود کو ایک بہترین علاج کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ اس کا ماحصل اللہ تعالیٰ کی طرف التجا کرتا اور اسی کے فضل و عنایت پر بھروسہ کرنا ہے اور حاسد کی شر انگیزیوں کی کچھ بھی پرواہ نہ کر کے مولائے نعم کی طرف رجوع کرنے کی اس میں تلقین ہے۔ گویا کہ محسود یہ کہتا ہے کہ یا خدایا تونے مجھ کو اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے، میں تجھ سے اس شخص کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو مجھ سے ان نعمتوں کو چھیننا چاہتاہے۔

                   جائے پناہ

یہ ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو اپنا جائے پناہ قرار دے اور اسی پر بھروسہ کرے اللہ تعالیٰ اس کو تمام پریشانیوں سے نجات دے کر اس کو بے فکر کر دیتا ہے۔

وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ فَہُوَحَسْیُہٗ۔ (۶۵/۳)

جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے ( اس کو کسی دوسرے کے در پر ملتجی ہونے کی مطلق ضرورت نہیں )

اِنَّ اﷲَ مَوْلٰکُمْ فَنِعْمَ الْمُوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ۔ (۸/۴۰)

وہی اللہ تعالیٰ تمہارا آقا کارساز ہے اور وہ بہت ہی اچھا آقا اورنہایت ہی اچھا مددگار ہے۔

تم اس کی نصرت کو دور نہ سمجھو، اس کی نزدیک مشکل سے مشکل کام کرنا آسان ترین بات ہے۔

وَﷲُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ، وَلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ۔ (۱۳/۲۱)

اللہ تعالیٰ جس کام کو کرنا چاہتا ہے اس پر غالب اور قادر ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت واقعیہ سے ناآشنا ہیں۔

ہر ایک مسلمان کو صرف اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔

وَعَلَی اﷲِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ (۲۱/۵۹)

تمام مسلمانوں کو صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چا ہئے۔

اور اسی سے فقط ڈرنا چاہئے۔

وَیَخْشَوْنَہٗ وَلَایَخْشَوْنَ اَحَدً ااِلَّا اﷲ۔ (۳۳/۳۹)

اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی یہ صفت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اس کے بغیر کسی سے نہیں ڈرتے۔

جو شخص اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی اور کا بھی خوف دل میں رکھتا ہے اس کے تو کل علی اللہ میں اتنا ہی نقص ہو گا۔

وِنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ اِنَّمَاسُلْطَانُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہٗ وَالَذِیْنَ ھُمْ بِہٖ مُشْرِکُوْنَ (۱۶۶۱،۱۰۰)

بے شک شیطان کا ان لوگوں پر کچھ بھی تسلط نہیں جو ایمان لائے اور وہ صرف اپنے مالک اللہ پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں۔ بے شک وہ انہیں لوگوں پر غلبہ پاتا ہے جو اسی کے دوست بنے رہتے ہیں اور جو شیطان کی متابعت کر کے مشرک ہوتے ہیں۔

دوسر ی جگہ ارشاد ہے

اِنَّمَ ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآئَ ہٗ فَلَاتَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنِ۔(۳۱/۷۴)

بے شک یہ تمہارا شیطان ہی تو ہے جو اپنے دوستوں کے دل میں خوف ڈالتا ہے اس لیے تم اس سے مت ڈـرواور اگر تم ایمان لائے ہو تو مجھ سے ہی ڈرو۔

 

فصل دو ازدہم: حاسد کے شر کا دفعیہ

حاسد کا شر دس اسباب کے ذریعہ دفع کیا جا سکتا ہے

                   پہلا سبب  استعاذہ با للہ

اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ مانگنا اور اس کی طرف ملتجی ہونا۔ اسی کی سورۃالفلق میں تصریح ہے قرآن کریم میں ہے

وَاِمَّایَنْزِغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْعٌ فَاسْتَعِذْ بِاﷲِ ط اِنَّہٗ ھُوَا لسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ (۷/۲۰۰)

اگر تم کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیش آئے تو تم کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ مانگو۔ بے شک وہی سننے والا جاننے والا ہے !

اس سننے سے مراد دعا ء کا قبول کرنا ہے جیسے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بڑھاپے میں بیٹا عطاکیے جانے کا ذکر کر کے کہا

اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّّعَا

بے شک میرا رب دعائیں قبول کرنے والا ہے !

سَمِیْعٌ کے ساتھ بعض جگہ میں عَلِیْمٌ اور بعض جگہ میں بَصِیْرٌ مقام کی مناسبت کی وجہ سے ذکر کیا گیا ہے۔جہاں کسی ایسے دشمن کا ذکر ہو جس کو ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اور وہ پوشیدا طور پر شرارتیں کرتا ہے، جیسے شیطان، وہاں پر علیم کا لفظ استعمال کرنا مناسب تھا، کیونکہ علم غیر مرئی چیزوں پر محیط ہوتا ہے اور جہاں کسی ایسے دشمن کا ذکر ہے جس کو آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے اور جس کی شرارتیں نظر سے پوشیدہ نہیں رہتیں، وہاں پر بصیر کا لفظ زیادہ موزوں ہے، جس کے معنی ہیں دیکھنے والا، چنانچہ اس آیت میں ہے کہ

اِنَّ الَّذِیْزَ یُجَادِلُوْنَ فِی اٰیٰتِ اﷲِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اٰتٰھُمْ ط اِنْ فِیْ صُدُوْرِ ھِمْ اِلاَّکِبْرٌ مَاھُمْ بِبَالِغِیْہِ ’’فَاسْتَعِذْ بِاﷲِ ط اِنَّّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ بِاﷲِ ط اِنَّہٗ ھُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ (۴۰/۵۶)

بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے بارے میں غیر نازل شدہ دلیل کے جھگڑتے رہتے ہیں، ان کے سینوں میں تکبر بھرا ہوا ہے جہاں تک ان کی رسائی نہیں اس لیے تم کو چاہئے کہ ان کے شر سے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ مانگو، بے شک وہ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے !

اس سے تم کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ قرآن کریم میں اسمائے حسنٰی کا استعمال نہایت موزوں اور مناسب مقام پر ہوا ہے (یہ نہیں کہ کہیں اسم رکھ دیا کہیں دوسرا)۔

                   دوسرا سبب خشیت الٰہی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پرعمل

اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور اس کے امر اور نہی کو بجا لانا، کیوں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا اور تقوٰی اختیار کرتا ہے، خود اللہ تعالیٰ اس کا نگہبان اور متولی ہوتا ہے اور اس کو کسی دوسرے کے حوالے نہیں کرتا۔

اِنْ تَصْبِرُوْاوَاتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا۔ (۳/۱۱۹)

اگر تم صبرو استقلال اور تقوٰے اختیار کرو تو ان حاسد کافروں کی سازشیں تو تم کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے’’ اللہ تعالیٰ کا خیال رکھوگے تو تم ا س کو اپنے سامنے پاؤگے اور اللہ تعالیٰ کا لحاظ رکھوگے تو وہ تمہارا نگہبان ہو گا ‘‘۔ اور تم جانتے ہو کہ جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے۔

                   تیسرا سبب  الصبر علی عدُدّہٖ

اپنے دشمن کے مقابلے میں صبر کرنا اور اس کے ایذاء پہنچانے اورتکلیف دینے کا خیال تک دل میں نہ لانا کیونکہ صبر اور توکل علی اللہ کا ثمرہ ہمیشہ دشمن پر فتح اور کامیاب ہوتی ہے۔ بے شک بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی نصرت انسان کے اپنے تخمینہ کے بموجب کس قدر دیر سے پہنچتی ہے، لیکن تم کو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے مظلوم اپنی کوتاہ نظری کے باعث صرف بغی اور عدوان کو دیکھ کر بے صبر نہیں ہونا چاہئے۔ مظلوم اپنی کوتا ہ نظر ی کے باعث صرف بغی اور عدوان کو دیکھ سکتا ہے، لیکن اس کا مآل اور انجام ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اس کی (مظلوم کی ) کامیابی پر ہوتا ہے۔

وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَاعُوْفِبَ بِہٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْہِ لَیَنْصُرَنَّہُ اﷲُ۔ (۲۲/۶۰)

جس شخص پر ظلم کیا گیا اگروہ اسی مقدار میں انصاف کی حدودسے تجاوز نہ کر کے اس کا انتقام لے اور اس پر پھر دوبارہ تعدی کی جائے تو یقینا اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گااور اس پر فتح مندی کرے گا۔

کیا اللہ تعالیٰ کے اس مؤکد وعدے میں شک ہے ؟ یہ آیت کریمہ اس کے حق میں ہے جس نے ایک مرتبہ بقدر اپنے حق کے انتقام لیا ہوا ور پھر اس پر زیادتی کی گئی۔ لیکن جس نے ابتداء میں صبر کیا اور اپنے انتقام سے باز رکھا کیا اس کے حق میں بطریق اولیٰ نصرت کا یہ وعدہ نہیں ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ ہمیشہ ظالم کو سزادیتا ہے یہاں تک کہ کہا گیا ہے کہ اگر مثلاً ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ پر ظلم کرے تو اللہ کا قانون اس کو ہموار کئے بغیر نہیں چھوڑے گا۔

                   چوتھا سبب  توکل علی اللہ

اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا، کیوں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے، وہ اس کی تما م مہمات سے بے فکر کر دیتا ہے۔ اگر مخلوق کی طرف سے تم کو کوئی اسی تکلیف پہنچے جس کو تم اپنی قوت اور اپنی طاقت سے رفع نہیں کرسکتے تو ایسی حالتوں میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا اور اس کی نصرت کا امیدوار کامیابی اور فتح مندی کا قوی تر ین سبب ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ

وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ط (۶۵/۱۳)

جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتاہے وہ اس کے لیے کافی ہے۔

اس لیے جس خبر گیری کا خود اللہ تعالیٰ ضامن ہے بھلا وہ بھی کبھی ناکام ہو سکتا ہے ؟ ارشادہوتا ہے

لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّا اَذًی ط (۱۳۱/۱۰)

تمہارے دشمن تم کو ہرگز ضرر پہنچا سکیں گے، البتہ تم کو کسی قدر تکلیف پہنچے گی۔

اس لیے کسی ایسی تکلیف کے درمیان جوانسان کے حق میں خیرکثیر کا باعث ہو، اور اللہ تعالیٰ نے دوسری قسم کی تکلیف سے بچانے کا ذمہ لیا ہے لیکن ہو سکتا ہے، کہ اس کو پہلی قسم کی کوئی تکلیف پیش آئے۔ایک بزرگ کا قول ہے کہ ہر ایک عمل کی جزاء اسی کی جنس سے ہوتی ہے اور چونکہ متوکل علی اللہ نے تمام دوسری اشیاء سے منہ موڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر بھروسہ کیا ہے، اس لیے آیت مذکورہ وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللہ ِ فَہُوَ حَسْیُہٗ کے بموجب خود اللہ تعالیٰ اس کا ضامن اور کفیل بناہے، اس لیے کوئی شخص سچے طور سے اللہ تعالیٰ پر توکل کرے تواگر کوئی زمین و آسمان مل کر اس کے برخلاف سازش کریں۔تب بھی اللہ تعالیٰ اس کو ان سازش کے شر سے محفوظ رکھ کر اس کی نصرت فرمائے گا۔ توکل کی حقیقت، اس فوائد اور اس کی ضرورت کاہم نے اپنی کتاب الفتح القدسی میں مفصل بیان کیا ہے۔؎ٰ

۔اگر کسی کو یہ کتاب نہ ملے تو وہ امام غزالی رحمہ اللہ کی کتاب احیاء العلوم میں باب التوکل مطالعہ کرے (مترجم)

ہم نے وہاں اس بات پر بھی بحث کی ہے کہ جو لوگ اس مقام کو معلول کہتے ہیں اور عوام کے مقامات سے خیال کرتے ہیں، ان کا یہ قول باطل ہے جس کے دلائل ہم نے وہاں پر مفصل بیان کیے ہیں اور اس بات کی تصریح کی ہے کہ توکل کا مقام عارفین کے بلند ترین مقامات میں سے ہے اور کسی عارف کا مرتبہ کتنا ہی بلند ہو وہ اس سے مستغنی نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے توکل کی مقدار سے اس کے ایمان کا درجہ معلوم ہوتا ہے۔

پانچواں سبب  قلب و فکر کو حسد سے خالی رکھنا اپنے دل کو حاسد کے ساتھ مشغول رکھنے اور اس کے بارے میں کچھ سوچنے سے بالکل بچایا جائے اور اگر اس قسم کاکوئی خطرہ دل میں پیدا ہو تو اسے مٹانے کی فکرمیں مصروف ہو بلکہ اس کی طرف التفات اور توجہ تک نہ کرے۔ یہ اس کے شر کو رفع کرنے کا زبردست علاج ہے۔ اوراس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کو اس کا دشمن اس لیے ڈھونڈتا ہے کہ وہ اس سے دست و گریباںہو جائے تو اس صورت میں اگر وہ اپنے دشمن سے گتھم گتھا ہو جائے تو یقیناً وہ بہت کچھ تکلیف پائے گا اور دشمن کو اس پر زور آزمائی کرنے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن اگر وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہو اور اس سے بالکل بے اعتنائی کرے تو اس حالت میں اس کے شر سے بچار ہے گا۔ ارواح بعینہٖ یہی کیفیت ہے۔ حاسد کی روح اپنے محسود کو ایذا پہنچانے اور تکلیف دینے کی طرف ہر وقت متوجہ رہتی ہے اس لیے اگر محسود کی روح بھی اس کی طرف متوجہ ہو تو دونوں کے درمیان ایک دائمی آویزش کی صورت پیدا ہو جائے گی اور دونوں کی روح اس وقت تک بے چین اورمضطرب رہے گی جب تک ایک ان میں سے ہلاک نہ ہو جائے، لیکن اگر محسود اپنے قوائے روحانی اور آلات فکر کو ادھر متوجہ ہونے نہ دے اور اگر بالفرض اس قسم کا کوئی خطرہ اس کے دل میں پیدا ہو تو اس کو مٹانے اور زائل کرنے میں مشغول ہو، یہ طرز عمل اس کے حق میں بہت زیادہ مفید ہو گا۔

حسد ایسی آگ ہے جس کے لئے ایندھن کی ضرورت ہے اور جب محسود ایسا طرز عمل اختیار کرے جس سے اس کو مطلق ایندھن نہ ملے تو اس کے شعلے خود حاسد کو بھسم کر ڈالیں گے اور مسحود اس کے شر سے محفوظ رہے گا۔

نفوس شریفہ اپنے دشمنوں کے حق میں یہی رویہ اختیار کرتے ہیں اور اس میں ایک ایسی روحانی حلاوت ہے کہ جسے ایک ر وحانی اور آلات فکر کو ادھر متوجہ رکھنا ایک مصیبت اور عذاب معلوم ہوتا ہے، ان کو اللہ تعالیٰ کی نصرت پر پورا بھروسہ ہوتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہماری اپنی کوششیں اللہ تعالیٰ کی کفالت کے سامنے ہیچ ہیں، اس کے وعدے سچے اور اس کی نصرت تمام دوسرے نصرت کے اقسام سے بڑھ کر ہے

وَمَنْ اَوْفٰی بِِعَہْدِ ہٖ۔(۹۱/۱۱)

اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اور کون اپنے وعدوں کا سچا ہے؟

وَمَنْ اَصْدَقُ مِنُ اﷲِ قِیْلًا (۴/۱۲۲)

اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کون اپنے قول میں سچا ہو سکتا ہے؟

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=27948

ٹائپنگ: محمد آصف مغل، نعیم یونس اور ابو عبیدہ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید