FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

تفسیر تیسیر القرآن

جلد دوم

سورۃ مائدہ تا اسراء

مولانا عبد الرحمٰن کیلانی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

۱۷۔ سورۃ الإسراء/ بنی اسرائیل

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے

۱۔   پاک ہے وہ ذات جس نے ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام [۱] سے لے کر مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔ جس کے ماحول کو ہم نے برکت [۲] دے رکھی ہے (اور اس سے غرض یہ تھی) کہ ہم اپنے بندے کو اپنی بعض نشانیاں [۳] دکھائیں۔ بلا شبہ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

[۱] واقعہ معراج کے جسمانی ہونے کے دلائل:۔ یہ واقعہ ہجرت نبوی سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس واقعہ کے دو حصے ہیں۔ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کو ”اسراء” کہا جاتا ہے اور قرآن میں صرف واقعہ اسراء کا ہی ذکر ہے۔ دوسرا حصہ مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی سیاحت اور واپسی ہے اسے ”معراج” کہا جاتا ہے اور واقعہ معراج بہت سی احادیث میں مذکور ہے حتیٰ کہ واقعہ کے راوی صحابہ کی تعداد پچیس سے زائد ہی ہے کم نہیں۔ جمہور امت کا قول یہ ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا۔ محض روحانی (جیسے خواب میں ہوتا ہے) یا کشفی قسم کا نہ تھا۔ تاہم بعض لوگ اسے روحانی بھی سمجھتے ہیں اور منکرین حدیث تو واقعہ معراج کا انکار ہی کر دیتے ہیں اور واقعہ اسراء چونکہ قرآن میں مذکور ہے۔ اس لیے اس کی غلط سلط تاویل کر لیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ واقعہ ایک جسمانی سفر تھا اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں: ۱۔ واقعہ کا آغاز ﴿سُبْحَانَ الَّذِی﴾ جیسے پر زور الفاظ سے کیا جا رہا ہے اور یہ لفظ عموماً حیرت و استعجاب کے مقام پر اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نمایاں اظہار کے لیے آتا ہے۔ اگر یہ واقعہ محض ایک خواب یا کشف ہی ہوتا تو ابتدا میں یہ الفاظ لانے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ ۲۔ عبد کا لفظ جسم اور روح دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے۔ اس لفظ کا اطلاق نہ صرف جسم پر ہوتا ہے اور نہ روح پر۔ ۳۔ اگر واقعہ کے بعد کافروں کا تکرار ثابت ہو جائے تو وہ خرق عادت واقعہ یا معجزہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:

﴿وَاِنْ یَّرَوْا ایَٰۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ﴾ (۳: ۵۴)

’’اور یہ (کافر) جب کوئی نشانی یا معجزہ دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے چلا آتا‘‘

اور یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب صبح کو آپﷺ نے یہ واقعہ سنایا تو کفار نے اس کا خوب مضحکہ اڑایا کہ مکہ سے بیت المقدس کا ۴۰ دن کا سفر ہے اور یہ آمدورفت کا ۸۰ دن کا سفر راتوں رات کیسے ممکن ہے۔ اور اس بات کو (نعوذ باللہ) آپﷺ کی دیوانگی پر محمول کیا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو لوگ بیت المقدس کا سفر کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے کچھ سوالات پوچھنا شروع کر دیئے۔ اس وقت آپ حطیم میں کھڑے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے درمیان سے سب پردے ہٹا دیئے تو آپ مسجد اقصیٰ کو سامنے دیکھ کر کافروں کے سوالوں کے جواب دیتے گئے جیسا کہ جابرؓ بن عبد اللہ انصاری کی حدیث سے واضح ہے جو آگے مذکور ہے۔ اور جن لوگوں نے اسے خواب کا واقعہ سمجھا ان کی دلیل اسی سورۃ کی آیت نمبر ۶۰ کے درج ذیل الفاظ ہیں:

﴿وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ﴾ (۴۰: ۱۷)

’’اور یہ (واقعہ) جو ہم نے تمہیں دکھایا تو یہ محض لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا‘‘

روحانی سفر سمجھنے والوں کی تردید:۔ اس آیت میں لفظ رءیا چونکہ خواب کے لیے بھی آتا ہے اس لیے ان لوگوں کو روحانی سفر کا اشتباہ ہوا اس مسلک کی کمزوری کی تین وجوہ ہیں۔ ۱۔ لغوی لحاظ سے رءیا کا اطلاق ہر ایسے واقعہ پر ہو سکتا ہے جو آنکھ سے دیکھا گیا ہو خواہ یہ دیکھنا بیداری کی حالت میں ہو یا نیند کی حالت میں۔ ۲۔ اگر یہ واقعہ خواب ہی ہوتا تو اس میں لوگوں کے لیے کوئی آزمائش نہیں۔ ایسا خواب ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ ۳۔ یہ مسلک جمہور امت کے مقابلہ میں شاذ ہے۔

منکرین حدیث کی تاویلات اور ان کا رد:۔ اور منکرین حدیث آیت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اسراء سے مراد آپ کا واقعہ ہجرت ہے جس کا آغاز رات کو ہوا تھا اور مسجد اقصیٰ سے مراد دور کی مسجد یعنی ’مسجد نبوی‘ ہے۔ یہ تاویل کئی لحاظ سے غلط ہے مثلاً

۱۔ بخاری کی صحیح روایت کے مطابق ہجرت کے سفر کا آغاز سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے گھر سے ہوا تھا جبکہ اس واقعہ کا آغاز مسجد حرام سے ہوا۔

۲۔ واقعہ ہجرت بخاری کی اس روایت کے مطابق دوپہر کی کڑکڑاتی دھوپ کے وقت ہوا تھا جبکہ لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں مگر معراج کا آغاز رات کو ہوا۔

۳۔ واقعہ ہجرت ایک رات یا راتوں رات نہیں ہوا تھا بلکہ اس سفر میں پندرہ دن اور پندرہ راتیں لگ گئے تھے جبکہ معراج کا واقعہ ایک ہی رات میں ہوا تھا۔

۴۔ مسجد اقصیٰ کے عرفی مفہوم کو چھوڑ کر اس کے لغوی معنیٰ دور کی مسجد مراد لینا خلاف دستور لہٰذا باطل ہے۔

۵۔ مسجد نبوی کی تو تعمیر ہی بہت بعد ہوئی پھر یہ آپ کے سفر کی آخری منزل کیسے بن سکتی ہے۔ اور واقعۂ معراج سے اس بنا پر انکار کیا جاتا ہے کہ اس میں اللہ کے لیے سمت مقرر ہوتی ہے۔ حالانکہ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔ یہ بحث در اصل استواء علی العرش کی بحث ہے اور طویل ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں (تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف آئینہ پرویزیت)

اب ہم اسراء اور معراج کے متعلق چند احادیث درج کرتے ہیں تاکہ اس واقعہ کی تفاصیل سامنے آ جائیں۔

۱۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’جس رات مجھے بیت المقدس لے جایا گیا تو میرے سامنے دو پیالے لائے گئے ایک دودھ کا اور دوسرا شراب کا تھا۔ میں نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ لے لیا۔ اس وقت جبرئیل نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے آپ کو فطری راستہ (یعنی اسلام) کی رہنمائی کی آپ اگر شراب کا پیالہ لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔‘‘

۲۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ معراج کی رات نبی اکرمﷺ کے پاس براق لایا گیا جسے لگام دیا گیا اور اس پر کاٹھی ڈالی گئی تھی۔ اس نے شوخی کی تو جبرئیلؑ نے کہا ’’محمدﷺ سے شوخی کرتے ہو۔ حالانکہ اللہ کے ہاں ان سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں جو تم پر سوار ہو‘‘ راوی کہتا ہے کہ پھر براق کا پسینہ ٹپکنے لگا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر)

۳۔ سیدنا بریدہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’معراج کی رات جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبریلؑ نے اپنی انگلی سے اشارہ کر کے ایک پتھر چیر دیا۔ پھر اس سے براق کو باندھ دیا۔‘‘ (ترمذی۔ ایضاً)

۴۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’جب قریش کے کافروں نے مجھے جھٹلایا تو میں حجر (حطیم) میں کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کر دیا اور اس کی جو جو نشانیاں وہ مجھ سے پوچھتے۔ میں دیکھ کر بتاتا جاتا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر)

۵۔ سیدنا ابو ذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: میرے گھر کی چھت کھولی گئی اور میں مکہ میں تھا۔ جبریلؑ اترے۔ انہوں نے میرا سینہ چیرا۔ پھر اس کو زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر سونے کا ایک طشت لائے جو ایمان اور حکمت سے بھرا تھا، اسے میرے سینے میں ڈال دیا گیا۔ پھر سینہ جوڑ دیا۔ پھر جبریلؑ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف چڑھے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبریلؑ نے آسمان کے داروغہ سے کہا۔ ’’دروازہ کھولو‘‘ اس نے پوچھا ’’کون‘‘ جبریل بولے ’’میں ہوں جبریل‘‘ اس نے پوچھا ’’تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟‘‘ جبریلؑ نے کہا ’’ہاں! محمدﷺ میرے ساتھ ہیں‘‘ اس نے پوچھا ’’کیا وہ بلائے گئے ہیں؟‘‘ جبریلؑ نے کہا ’’ہاں‘‘ تب داروغہ نے دروازہ کھول دیا۔ تو ہم آسمان دنیا (پہلے آسمان) پر چڑھے۔ وہاں ایک شخص بیٹھا تھا جس کے دائیں طرف بھی ایک مجمع تھا اور بائیں طرف بھی۔ جب وہ دائیں طرف دیکھتا تو ہنس پڑتا اور بائیں طرف دیکھتا تو رو پڑتا۔ اس نے کہا ’’نیک پیغمبر اور نیک بیٹے مرحبا‘‘ میں نے جبرئیلؑ سے پوچھا ’’یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ جبریلؑ نے کہا ’’یہ آدم ہیں، ان کے دائیں طرف اہل جنت ہیں اور بائیں طرف اہل دوزخ ہیں۔ جب یہ دائیں طرف دیکھتے ہیں تو ہنس پڑتے ہیں اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رو پڑتے ہیں۔‘‘ پھر جبریلؑ مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے اور داروغہ سے کہا ’’دروازہ کھولو‘‘ اس نے بھی وہی کچھ کہا جو پہلے آسمان والے نے کہا تھا۔ پھر آپ نے آسمانوں میں سیدنا آدمؑ، ادریسؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ اور ابراہیمؑ کو دیکھا مگر ان کے مقام بیان نہیں کیے۔ البتہ یہ بتایا کہ پہلے آسمان پر سیدنا آدمؑ کو اور چھٹے پر سیدنا ابراہیمؑ کو پایا۔ جب جبریلؑ کو لے کر ادریس پیغمبر کے پاس سے گزرے تو انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا ’’نیک پیغمبر اور نیک بھائی مرحبا‘‘ میں نے جبریل سے پوچھا ’’یہ کون ہیں؟‘‘ جبریل نے کہا ’’یہ ادریسؑ ہیں‘‘ پھر میں موسیٰؑ پر سے گزرا تو انہوں نے وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریلؑ سے پوچھا۔ ’’یہ کون ہیں؟‘‘ جبریلؑ نے بتایا۔ ’’یہ موسیٰؑ ہیں‘‘ پھر میں عیسیٰؑ پر سے گزرا تو انہوں نے بھی وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریلؑ سے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا ’’یہ عیسیٰ ہیں‘‘ پھر میں ابراہیمؑ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریل سے پوچھا تو انہوں نے بتایا ’’یہ ابراہیم ہیں۔‘‘ پھر جبریلؑ مجھے لے کر اوپر چڑھے۔ حتیٰ کہ میں ایک بلند ہموار مقام پر پہنچا۔ وہاں میں قلموں کے چلنے کی آواز سن رہا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر لوٹا۔ جب موسیٰؑ کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا ’’اپنے پروردگار کے پاس واپس جاؤ۔ کیونکہ آپؑ کی امت اتنی طاقت نہیں رکھتی۔‘‘ میں لوٹا تو اللہ نے اس کا کچھ حصہ معاف کر دیا، پھر موسیٰؑ کے پاس آیا تو انہوں نے کہا۔ ’’پھر اپنے رب کے پاس جاؤ۔ تمہاری امت اتنی طاقت نہیں رکھتی‘‘ میں پھر لوٹا (اور ایسا کئی بار ہوا) یہ پانچ نمازیں در حقیقت پچاس ہی ہیں۔ (دس گناہ اجر کے حساب سے) اور میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی۔ پھر میں موسیٰ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی۔ تو میں نے کہا ’’اب مجھے اپنے مالک کے ہاں جاتے ہوئے شرم آتی ہے‘‘ پھر جبریلؑ مجھے لے کر چلے تو ہم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ اسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپا ہوا تھا۔ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے۔ پھر مجھے جنت میں لے گئے۔ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ گنبد تو موتیوں کے ہیں اور اس کی مٹی کستوری کی ہے۔

(بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب کیف فرضت الصلوۃ) (نیز کتاب بدأ الخلق۔ باب ادریسؑ)

۶۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے (شب معراج میں) نماز فرض کی تو (ہر نماز کی) دو رکعتیں فرض کیں خواہ سفر ہو یا حضر۔ پھر سفر کی نماز تو وہی دو رکعت رہی اور حضر کی نماز بڑھا دی گئی۔ (حوالہ ایضاً)

۷۔ مالک بن صعصعہؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ایک دفعہ میں کعبہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں بیٹھا تھا اور تین مردوں میں سے درمیان والے نے میرا سینہ چیر کر اس میں ایمان و حکمت بھر دیا۔ پھر میرے پاس براق لایا گیا جو خچر سے ذرا چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ پھر جبریلؑ کے ساتھ پہلے آسمان پر پہنچا (مکالمہ وہی ہے جو اوپر والی روایت میں ہے) تو وہاں سیدنا آدم سے ملاقات ہوئی۔ دوسرے پر سیدنا عیسیٰؑ اور یحییٰؑ سے، تیسرے پر یوسفؑ سے چوتھے پر ادریسؑ سے پانچویں پر ہارونؑ سے چھٹے پر موسیٰؑ اور ساتویں پر ابراہیمؑ سے۔ پھر مجھے بیت المعمور (فرشتوں کا کعبہ) دکھلایا گیا۔ میں نے جبریلؑ سے اس کا حال پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جب وہ چلے جاتے ہیں تو ان کی پھر باری نہیں آتی پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ دکھایا گیا جس کے بیر ہجر کے مٹکوں کے برابر ہیں اور پتے ایسے جیسے ہاتھی کے کان۔ اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی ہیں۔ دو پوشیدہ اور دو ظاہر۔ پوشیدہ تو جنت میں (سلسبیل اور کوثر) جاتی ہیں اور ظاہری نیل اور فرات ہیں۔ پھر مجھ پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔ میں سیدنا موسیٰؑ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا (میں لوگوں کا حال تم سے زیادہ جانتا ہوں اور بنی اسرائیل پر بہت بڑی کوشش کر چکا ہوں لہٰذا تم واپس جاؤ۔ چنانچہ دس نمازوں کی تخفیف ہوئی (حسب روایت سابق) پھر تیس ہوئیں، پھر بیس، پھر دس اور پھر پانچ۔ پھر جب موسیٰؑ نے پھر جانے کو کہا تو میں نے کہا ’’میں انھیں اچھی طرح تسلیم کر چکا ہوں‘‘ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی ’’میں نے اپنا فرض پورا کر دیا۔ میں نے اپنے بندوں سے تخفیف کی۔ جبکہ ہر نیکی (نماز) کا دس گناہ بدلہ دوں گا‘‘

(بخاری۔ کتاب بدأ الخلق۔ باب ذکر الملائکہ) (بخاری۔ کتاب المناقب، باب المعراج)

اس واقعہ کی بیشتر تفصیل تو ان احادیث میں آ گئی ہے تاہم کچھ تفصیل بعض دوسری احادیث میں بھی مذکور ہے اور ان تفاصیل کے قابل ذکر عنوانات درج ذیل ہیں:

۱۔ بیت المقدس میں تمام سابقہ انبیاء کا جمع ہونا اور جبریلؑ کا آپ کو امامت کے لیے آگے بڑھانا اور آپﷺ کا امامت کرانا جس سے آپ کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔

۲۔ مختلف آسمانوں پر بعض اولوالعزم رسولوں سے آپ کی ملاقات۔ جس سے ان رسولوں کے مدارج کا پتہ چلتا ہے۔

۳۔ پانچ نمازوں کی فرضیت یا معراج کا تحفہ جس کے بعد پانچ اوقات میں نماز ادا کی جانے لگی۔

۴۔ سات آسمانوں سے اوپر سدرۃ المنتہیٰ کی سیاحت اور اللہ تعالیٰ کے عجائب کا مشاہدہ، جنت اور دوزخ کا مشاہدہ اور بعض جرائم کی تمثیلی سزاؤں کا مشاہدہ وغیرہ۔ اس سفر کا آغاز کہاں سے ہوا تھا؟ اس واقعہ سے متعلق ایک بحث یہ رہ جاتی ہے کہ سفر اسراء کا آغاز کہاں سے ہوا تھا؟ سیدنا ابو ذر غفاریؓ کی حدیث کے مطابق یہ آغاز آپﷺ کے گھر سے ہوا۔ مالکؓ بن صعصعہ کی روایت کے مطابق کعبہ سے ہوا۔ اور ایک تیسری روایت کے مطابق ام ہانیؓ کے گھر سے ہوا۔ اس سلسلہ میں قول فیصل یہی ہے کہ یہ آغاز مسجد الحرام سے ہوا اور قرآن اسی کی تائید کرتا ہے۔ رہیں دوسری روایات تو ان کی تطبیق کی دو صورتیں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ مکہ پورے کا پورا مسجد الحرام ہے اور اس پر دلائل بھی مل جاتے ہیں۔ دوسری صورت تطبیق یہ ہے کہ آپ جس گھر میں بھی تھے۔ وہاں سے پہلے آپﷺ کو مسجد حرام میں لایا گیا۔ پھر مسجد اقصیٰ کا سفر شروع ہوا۔

[۲] یعنی ظاہری لحاظ سے بھی یہ علاقہ زرخیز، سرسبز و شاداب ہے اور روحانی لحاظ سے وہ بہت سے انبیاء کا مرکز تبلیغ، مسکن اور مدفن ہے۔ اس لیے وہاں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکات کا نزول ہوتا رہتا ہے اور اس سے مراد شام و فلسطین کا علاقہ ہے۔

[۳] ان الفاظ سے بھی واقعہ معراج کی تائید ہوتی ہے اور اس سے غرض یہ تھی کہ آپ کو مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰاتِ وَالاَرْضِ کا مشاہدہ کرا دیا جائے۔ حتیٰ کہ آپﷺ کو جنت اور دوزخ کے مناظر بھی دکھائے گئے۔ اور تمام اولو العزم پیغمبروں کو ایسا مشاہدہ کرا دیا جاتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو پورے وثوق سے ان غیب کی چیزوں کی طرف دعوت دے سکیں جنہیں وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر چکے ہوتے ہیں۔

۲۔   ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کی ہدایت [۴] کا ذریعہ بنایا (اور اس میں انھیں حکم دیا) کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بنانا۔

[۴] جن دنوں اسراء کا واقعہ پیش آیا اس وقت بیت المقدس بنی اسرائیل کی تولیت میں تھا۔ اسلام کا عرب کی بستی بستی تک چرچا ہو چکا تھا۔ مدینہ کے اوس و خزرج کے بعض افراد اسلام لا چکے تھے۔ یہود اسلام کی دعوت پر پوری طرح آگاہ تھے۔ بیت المقدس میں آپﷺ کو لے جانے اور آپﷺ کی امامت سے صاف اشارہ ملتا تھا کہ عنقریب بیت المقدس پر امت مسلمہ کا قبضہ ہو جانے والا ہے اور اس سورۃ بنی اسرائیل کا آغاز جو واقعہ اسراء سے ہوا ہے تو محض تمہید کے طور ہوا ہے ورنہ اصل روئے سخن یہود ہی کی طرف ہے اور انھیں ان کی سابقہ تاریخ سے خبردار کرنے کے بعد متنبہ کیا جا رہا ہے کہ ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ پیغمبر اسلام پر ایمان لے آئیں اور سرکشی کی روش چھوڑ دیں۔

۳۔   یہ بنی اسرائیل ان لوگوں کی اولاد تھے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی [۵] میں سوار کیا تھا۔ بلا شبہ نوح ایک شکرگزار بندے تھے۔

[۵] کیا نوح آدم ثانی ہیں؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ انسانی نسل صرف سیدنا نوحؑ کے تین بیٹوں حام، سام اور یافث ہی کی اولاد نہیں ہیں جیسا کہ مؤرخین کا بیان ہے بلکہ ان تمام لوگوں کی اولاد ہے جو سیدنا نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔

۴۔   اس کتاب میں ہم نے بنی اسرائیل کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ تم زمین پر دوبارہ فساد عظیم بپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے

۵۔   پھر جب ہمارا پہلا وعدہ آ گیا تو اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہارے مقابلے میں اپنے بڑے جنگ جو بندے لا کھڑے کئے جو تمہارے شہروں کے اندر گھس (کر دور تک پھیل) گئے۔ یہ (اللہ کا) وعدہ تھا جسے [۶] پورا ہونا ہی تھا۔

[۶] یہود کی پہلی بار فتنہ انگیزی اور اس کی سزا:۔ سیدنا موسیٰؑ کے ساتھ مصر سے آنے والے بنی اسرائیل جب فلسطین میں داخل ہو گئے تو انھیں حکم یہ تھا کہ فلسطین کا سارا علاقہ فتح کریں اور وہاں کے رہنے والے لوگوں کی اخلاقی اور اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے اجتناب کریں۔ مگر ایک تو انہوں نے سارے علاقہ کو فتح نہ کیا اور جو کر چکے تھے اس پر ہی قناعت کر لی۔ دوسرے وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا ہو گئے اور مفتوحہ علاقہ کو بارہ حصوں میں تقسیم کر کے ہر قبیلہ نے الگ الگ حکومت قائم کر لی۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی حکومت کو کبھی استحکام نصیب نہ ہو سکا۔ نیز سابقہ اقوام کی اخلاقی اور اعتقادی بیماریاں یعنی شرک، بے حیائی اور بد کاری وغیرہ ان میں بھی پھیلنے لگیں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو یکسر بھول گئے۔ سیدنا داؤدؑ اور سیدنا سلیمانؑ نے بہت حد تک اصلاح احوال کی اور ایک دفعہ پھر سے حکومت بنی اسرائیل کو مستحکم بنا دیا۔ مگر جلد ہی بنی اسرائیل پھر سے انھیں بیماریوں اور خرابیوں میں مبتلا ہو گئے۔ بت پرستی اور بے حیائی عام ہو گئی اور حکومت بھی متزلزل ہو گئی۔ یہ صورت حال دیکھ کر بابل کے بادشاہ بخت نصر نے دولت یہودیہ کو مسخر کیا اور بادشاہ کو قید کر لیا۔ اس دوران سیدنا یرمیاہ ان کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ ان کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے بابل کے خلاف سازش اور بغاوت کر کے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر ۵۸۷ قم میں بخت نصر نے ایک زور دار حملہ کر کے سلطنت یہودیہ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کشت و خون کا بازار گرم کیا۔ یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو پیوند خاک کر دیا۔ بہت سے قیدیوں کو اپنے ساتھ لے گیا اور جو لوگ بچ رہے وہ ہمسایہ قوموں کے ہاتھ بری طرح ذلیل ہو کر رہے۔ یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا۔ جو قیدی وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا انھیں میں سے ایک عزیرؑ بھی تھے۔ ان قیدیوں کو سات سال بعد بخت نصر نے چھوڑ دیا۔ آپ جب واپس اپنے وطن آ رہے تھے تو ایک اجڑی ہوئی اور برباد شدہ بستی دیکھی تو کہنے لگے ’’پروردگار! تو اس بستی کو کیسے دوبارہ زندہ یا آباد کرے گا؟‘‘ یہ بستی بھی در اصل بخت نصر کے حملے میں ہی تباہ ہوئی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسی مقام پر سیدنا عزیرؑ کو موت دے دی۔ اور یہ واقعہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵۹ کے تحت پہلے تفصیل سے گزر چکا ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ کون سی کتاب تھی جس میں بنی اسرائیل کے دو بار سرکشی کرنے اور سزا پانے کی انھیں اطلاع دی گئی تھی۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد تورات ہی لی ہے مگر اس وقت تورات کے نام سے جو کتاب اہل کتاب کے پاس ہے اور جسے وہ عہد نامہ عتیق کہتے ہیں۔ ایسی صراحت کے ساتھ یہ مضمون مذکور نہیں جیسی صراحت سے قرآن میں مذکور ہے البتہ اس کے بعض فقروں سے ایسے اشارے ضرور مل جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلی تورات میں یہ مضمون ضرور موجود ہو گا اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے جو جملہ کائنات کی قضا و قدر کی کتاب ہے اور یہ دونوں توجیہات ہی قرین قیاس ہیں۔

۶۔   پھر ہم نے ان (فاتحین) پر تمہیں غلبہ کا موقع دیا، مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور نفری میں بہت [۷] زیادہ بڑھا دیا۔

[۷] یعنی جب تم نے اچھے کام کیے تھے تو ہم نے تمہیں غلبہ بھی دیا اور مال و اولاد میں بھی برکت عطا کی اور تم بگڑے اور سرکشی کی راہ اختیار کی تو ہم نے تمہیں اس کی سزا دے دی اور یہی ہمارا دستور ہے۔

۷۔   (دیکھو) اگر تم نے بھلائی کی تو اپنے ہی لئے بھلائی کی اور اور اگر برائی کی اس کا وبال بھی تمہی پر ہو گا۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آ گیا کہ (جابر فاتحین) تمہارے حلیہ بگاڑ دیں اور مسجد (اقصیٰ) میں ایسے ہی داخل ہوں جیسے پہلے بار داخل ہوئے تھے اور جہاں جہاں غلبہ پائیں اسے تہس نہس کر دیں [۸]۔

[۸] سیدنا عزیرؑ کی خدمات:۔ اس تباہی کے بعد سیدنا عزیرؑ نے دین موسوی کی تجدید کا بہت بڑا کام سرانجام دیا اور آپ نے قوانین شریعت کو نافذ کر کے ان اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا شروع کیا جو بنی اسرائیل کے اندر غیر قوموں کے اثر سے گھس آئی تھیں۔ اور بنی اسرائیل سے از سر نو اللہ کی بندگی اور اس کے احکام کی پابندی کا پختہ عہد لیا۔ تورات کو ازسر نو اپنی ذہنی یادداشت کے مطابق مرتب کر کے شائع کیا اور یہودیوں کی دینی تعلیم کا بھی انتظام کر دیا۔ اس طرح ڈیڑھ سو سال بعد بیت المقدس پھر سے آباد اور یہودی مذہب و تہذیب کا پھر سے مرکز بن گیا۔

یہود کی دوسری بار فتنہ انگیزی اور اس کی سزا:۔ لیکن بعد میں پھر وہی پہلی قسم کی خرابیاں بنی اسرائیل میں از سر نو پیدا ہو گئیں۔ شرک، بے حیائی، بد کاری عام ہو گئی اور جب سلطنت پھر سے کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی تو ان کے علاقہ پر رومیوں کا قبضہ ہو گیا مگر یہود نے اصلاح احوال کے بجائے پھر بغاوت کا راستہ اختیار کیا تو ۷۰ ء میں رومی بادشاہ ٹیٹس (قیطوس) نے یروشلم کو بزور شمشیر فتح کر کے پورے علاقہ کو تہس نہس کر دیا۔ قتل عام میں ایک لاکھ ۳۳ ہزار آدمی مارے گئے اور ۶۷ ہزار کے قریب غلام بنا لیے گئے۔ خوبصورت لڑکیاں فاتحین کے لیے چن لی گئیں۔۔ یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو پیوند خاک کر دیا گیا، اور فلسطین سے یہودی اثر و اقتدار کا ایسا خاتمہ ہوا کہ انھیں پھر کبھی سر اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی۔ اور یہ دوسری بڑی سزا تھی جو یہود کو ان کی فتنہ انگیزیوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی تھی۔

۸۔   ہو سکتا ہے (اب) تمہارا پروردگار تم پر رحم فرما دے لیکن اگر تم نے پھر سرکشی کی تو ہم بھی پھر سزا دیں [۹] گے۔ اور ایسے کافروں کے لئے ہم نے جہنم کو قید خانہ بنا دیا ہے۔

[۹] دور نبوی میں یہود کی فتنہ انگیزی اور اس کی سزا:۔ دو بار کی انتہائی سرکشی اور اس کی سزا کا ذکر کرنے کے بعد دور نبوی کے یہود کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ اگر تم نے اس نبی آخر الزمانﷺ سے وہی سرکشی اور بغاوت جاری رکھی جو تم سابقہ انبیاء کے وقت کرتے رہے تو پھر تمہیں ایسی ہی سزا ملے گی جیسے پہلے مل چکی ہے لیکن اس تنبیہ کا بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوا اور یہود مدینہ نبی آخر الزمانﷺ پر ایمان لانے کی بجائے آپﷺ سے بد عہدیاں، شرارتیں اور فتنہ انگیزیاں ہی کرتے رہے جس کے نتیجہ میں انھیں یہ سزا ملی کہ کچھ قتل کیے گئے، کچھ غلام بنائے گئے اور کچھ جلا وطن کیے گئے۔ حتیٰ کہ دور فاروقی میں سب یہود وہاں سے نکال کو خطہ عرب کو ان سے خالی کرا لیا گیا۔

۹۔   یہ قرآن تو وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھا [۹۔ الف] ہے اور جو لوگ ایمان لاتے اور نیک عمل کرتے ہیں انھیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔

[۹۔ الف] اس سے پہلے تورات کا ذکر ہو رہا تھا جس پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل پر متعدد بار دینی اور دنیوی مصائب نازل ہوئے۔ درآں حالیکہ انھیں پہلے سے ہی متنبہ کر دیا گیا تھا کہ اگر تم اس پر عمل نہ کرو گے تو تمہارا ایسا انجام ہو گا اس کے بعد قرآن مجید کے متعلق دو باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک یہ کہ تمام دینی اور دنیاوی معاملات میں جو کچھ بھی اچھے سے اچھے دستور اور منزل مقصود کا جو راستہ سب سے سیدھا ہے اسی کی طرف یہ قرآن رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن نے انسان کی ہدایت پھر اس کی سعادت اور شقاوت سے متعلق کوئی بات نہیں چھوڑی۔ دوسرے یہ کہ اچھے اور برے کاموں کے انجام سے بھی پوری تفصیل سے آگاہ کرتا ہے جس کا ظہور عالم آخرت میں ہو گا جبکہ تورات میں آخرت سے متعلق بہت کم تفصیلات دی گئی تھیں۔ قرآن میں کیا کچھ خوبیاں اور کمالات ہیں جو درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے۔

قرآن بہترین کلام کیسے ہے؟ حارث اعور کہتے ہیں کہ میں مسجد میں سیدنا علیؓ سے ملا اور کہا دیکھئے یہ لوگ کیسی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: سن لو! عنقریب ایک فتنہ بپا ہو گا‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’یا رسول اللہﷺ اس فتنہ سے بچاؤ کی کیا صورت ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس سے بچاؤ کی صورت اللہ کی کتاب ہے جس میں تم سے پہلے لوگوں کے بھی حالات ہیں اور بعد والوں کے بھی اور تمہارے باہمی معاملات کے متعلق حکم بھی ہے۔ وہ دو ٹوک بات کہتا ہے ہنسی مذاق کی بات نہیں کہتا۔ جس نے اسے حقیر سمجھ کر چھوڑ دیا اللہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا۔ اور جس نے قرآن کے علاوہ دوسری چیزوں سے راہ ڈھونڈھی اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے اور حکمتوں سے لبریز نصیحت ہے وہی صراط مستقیم ہے جس سے خواہشات کجرو نہیں ہوتیں اور لوگوں کی زبانیں اسے مشکوک نہیں بناتیں۔ اس سے عالم لوگ سیر نہیں ہوتے، اسے بار بار پڑھنے سے جی نہیں اکتاتا نہ وہ پرانا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے عجائبات ختم ہونے میں نہیں آتے۔ قرآن ایسی کتاب ہے کہ جب اسے جنوں نے سنا تو فوراً بول اٹھے کہ ہم نے عجیب قرآں سنا ہے سو ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جس نے قرآن کے مطابق کلام کیا اس نے سچ کہا اور جس نے اس کے مطابق عمل کیا اسے اجر دیا جائے گا اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے عدل کیا اور جس نے لوگوں کو قرآن کی طرف بلایا اسے سیدھی راہ دکھلا دی گئی۔ اعور! یہ باتیں خوب یاد رکھ لو۔

(ترمذی۔ ابواب فضائل القرآن۔ باب فی فضل القرآن)

۱۰۔   اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۱۱۔   انسان برائی کے لئے بھی ایسے ہی دعا کرتا ہے جیسے بھلائی کے لئے کرتا ہے در اصل انسان بڑا جلد باز [۱۰] واقع ہوا ہے۔

[۱۰] انسان کی جلد باز طبیعت اور اس کا نقصان:۔ اس آیت میں انسان کی اس فطرت کو بیان کیا گیا ہے کہ جب اسے کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو فوراً بد دعا دینا شروع کر دیتا ہے خواہ وہ بددعا اس کے دشمنوں کے حق میں ہو یا اس کے اپنے حق میں ہو یا اپنی اولاد وغیرہ کے حق میں ہو۔ پھر وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی یہ بددعا جلد قبول ہو جائے۔ حالانکہ بعد میں خود اسے احساس ہو جاتا ہے کہ اگر اس کی بددعا قبول ہو جاتی تو اس کا اسے کتنا زیادہ نقصان پہنچ سکتا تھا جیسا کہ ابو جہل نے اپنے حق میں بددعا کی تھی کہ اے اللہ! اگر یہ نبی اور یہ قرآن برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔ اسی طرح مسلمان بھی کفار مکہ سے سختیاں برداشت کرنے پر بعض دفعہ بددعا کیا کرتے تھے۔ حالانکہ انھیں لوگوں میں سے اکثر بعد میں ایمان لے آئے تھے۔ اسی طرح بعض دفعہ انسان تنگ آ کر اپنی اولاد کے حق میں بددعا کر بیٹھتا ہے حالانکہ اگر اس کی دعا قبول ہو جاتی تو اسے اس وقت سے بہت زیادہ صدمہ پہنچتا جس وقت اس نے یہ بددعا مانگی تھی۔ گویا انسان کی جلد باز طبیعت اکثر اوقات نقصان دہ ہی ثابت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اللہ کے کاموں میں تدریج اور امہال کا قانون جاری و ساری ہے جس میں طرح طرح کی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

۱۲۔   (دیکھو) ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو تو ہم نے تاریک بنایا اور دن کی نشانی کو روشن تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل تلاش کر سکو اور اس لیے بھی کہ تم ماہ و سال کی گنتی معلوم [۱۱] کر سکو اور ہم نے ہر چیز کو تفصیل [۱۲] سے بیان کر دیا ہے۔

[۱۱] ہر رات کا ذکر سے پہلے۔ دن کا شمار شام سے اگلی شام تک تدریج و امھال کا قانون فطری ہے۔ دن اور رات کے فائدے:۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں کہیں دن اور رات کا ذکر فرمایا تو پہلے رات کا ہی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطری تقویم یہی ہے کہ دن (۲۴ گھنٹے) کا شمار ایک شام یا غروب آفتاب سے لے کر دوسرے دن کے غروب آفتاب تک ہو۔ دن خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، راتیں لمبی ہو رہی ہوں یا چھوٹی یہ مدت ہمیشہ اور ہر موسم میں برابر(۲۴ گھنٹے) ہی رہے گی اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دن، رات کے آنے جانے میں نہ رات کی تاریکی یکدم آتی ہے اور نہ ہی دن اپنی پوری روشنی اور پوری تمازت کے ساتھ یکدم نمودار ہوتا ہے بلکہ اللہ کے ہر کام میں امہال اور تدریج کا قانون کام کرتا ہے۔ رات کی تاریکی آتی ہے تو بتدریج چاند کی روشنی آتی اور بڑھتی ہے تو بتدریج اسی طرح سورج کی روشنی اور تمازت بھی بتدریج بڑھتی ہے۔ پھر موسموں میں جو تبدیلی آتی ہے وہ بھی بتدریج آتی ہے۔ اسی طرح جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو وہاں بھی یہی تدریج اور امہال کا قانون کارفرما ہوتا ہے۔ انسان کے جلدی مچانے سے کچھ نہیں بنتا۔ پھر اس طرح رات اور دن کی آمدورفت میں انسانوں کے لیے کئی فائدے بھی ہیں۔ دن کو وہ کسب معاش کر سکتے ہیں اور رات کو آرام۔ علاوہ ازیں وہ اسی نظام لیل و نہار سے مدت کی تعیین اور اس کا شمار بھی کر سکتے ہیں۔

[۱۲] اضداد کے وجود سے دنیا کی رنگینی قائم ہے اور یہی اللہ کی حکمت ہے:۔ یہاں ہر چیز سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو ان کی ضد سے پہچانا جاتا ہے۔ یعنی رات کے مقابلہ میں دن، تاریکی کے مقابلہ میں روشنی، حرارت کے مقابلہ میں ٹھنڈک وغیرہ وغیرہ۔ اس اختلاف سے ہی یہ کارخانہ عالم قائم ہے یعنی اگر ہمیشہ دن ہی رہتا یا ہمیشہ رات ہی رہتی تو اس زمین پر نہ انسان کا وجود قائم رہتا اور نہ ہی کسی دوسرے جانور کا۔ نہ ہی کوئی نباتات اگ سکتی۔ اسی طرح اگر یہاں سارے انسان نیک ہی ہوتے یا بد کاریوں کو کلیتاً تباہ کر دیا جاتا تو بھی انسان کی پیدائش کا کچھ مقصد باقی نہ رہتا لہٰذا روحانی طور پر اس دنیا کی آبادی میں یہ حکمت مضمر ہے کہ یہاں حق بھی موجود رہے اور باطل بھی اور ان میں معرکہ آرائی ہوتی رہے۔ ان کی آمدورفت ہوتی رہے اور انسان کی آزمائش کا سلسلہ جاری رہے۔

۱۳۔   ہر انسان کا عمل [۱۳] ہم نے اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے جسے ہم قیامت کے دن ایک کتاب کی صورت میں نکالیں گے اور وہ اس کتاب کو کھلی ہوئی دیکھے گا

[۱۳] انسان کا اعمال نامہ اس کے وجود کے اندر ہے:۔ طائر کا لغوی معنی پرندہ ہے اور دوسرا معنی شومیِ قسمت ہے۔ مگر اس سے مراد انسان کا اعمال نامہ لیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی بدبختی یا نیک بختی کا ریکارڈ باہر کی دنیا میں نہیں بلکہ وہ خود انسان کے اندر موجود ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا:

﴿بَلِ الْاِنْسَانُ عَلیٰ نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ﴾ (۱۵، ۱۴: ۷۵)

بلکہ انسان اپنے آپ پر خود ہی دلیل ہے۔ اگرچہ (اپنی بے قصوری کے لیے بہانے پیش کرے) اور اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ہر انسان کے ساتھ دائیں اور بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں جو اس کا ایک ایک چھوٹا بڑا عمل ساتھ ساتھ لکھتے جاتے ہیں اور اس کا یہ اعمال نامہ تیار ہوتا رہتا ہے اور یہی توجیہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اور موجودہ تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان جو کام بھی کرتا ہے یا زبان سے الفاظ نکالتا ہے تو اس کے اثرات اس کے بدن پر مترتب ہوتے ہیں اور فضا میں بھی محفوظ ہوتے جاتے ہیں۔ اور مدت مدید تک قائم رہتے ہیں۔ پھر جب قیامت کی صبح نمودار ہو گی تو انسان کی نگاہ اس قدر تیز ہو جائے گی کہ انسان یہ سب کچھ دیکھ اور پڑھ سکے گا۔ یہ خارجی شہادات اس کے اعمال نامہ کے علاوہ ہوں گی جس کا ذکر کتاب و سنت میں جا بجا موجود ہے۔

۱۴۔   (ہم اسے کہیں گے) اپنا اعمال نامہ پڑھ لے۔ آج تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو کافی ہے۔

۱۵۔   جس شخص نے ہدایت قبول کی تو اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو گمراہ ہوا تو اس کا بار بھی اسی پر ہے اور کوئی گناہ کا بوجھ اٹھانے والا [۱۴] دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول [۱۵] نہ بھیج لیں۔

[۱۴] باز پرس فرداً فرداً ہو گی اجتماعی برائیوں میں ہر فرد کو اس کا حصہ ملے گا:۔ یہ قانون جزاء و سزا کا ایک نہایت اہم جزو ہے یعنی ’’جو کرے گا وہی بھرے گا‘‘ ایک کے گناہ کا بار دوسرے کی طرف منتقل نہیں ہو سکتا۔ اور جتنا کسی کا گناہ ہو گا اتنی اسے سزا ضرور ملے گی اور اتنی ہی ملے گی نہ کم نہ زیادہ۔ اس آیت سے جو اہم بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایک سے فرداً فرداً باز پرس ہو گی۔ کوئی شخص اپنے گناہ کا بار معاشرہ پر ڈال کر خود بری الذمہ نہ ہو سکے گا بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس اجتماعی جرم میں اس خاص فرد کا کتنا حصہ ہے۔ اسی کے مطابق اسے سزا ملے گی۔ لہٰذا ہر شخص کو اپنے کردار پر نظر رکھنا چاہیے۔ اسے یہ نہ دیکھنا چاہیئے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں اور نہ ہی ایسا سہارا لینا چاہیئے۔ ایسا سہارا کسی کام نہ آ سکے گا بلکہ اپنے اعمال و افعال پر نظر رکھنا چاہیے۔

[۱۵] سزا سے پہلے اتمام حجت:۔ قانون جزاء و سزا کا دوسرا اہم جزو ہے جو یہ ہے کہ مجرم کو سزا دینے سے پیشتر اس پر اتمام حجت ضروری ہے دنیوی عذاب کے لیے یہ شرط بھی ضروری ہے اور اخروی عذاب کے لیے بھی اتمام حجت کی ایک صورت عہد الست یا فطری داعیہ ہے اور پیغمبروں اور کتابوں کا بھیجنا اسی داعیہ فطرت کو اجاگر کرنے والی چیزیں ہیں جو اسے اسی عہد کی یاددہانی کراتی ہیں۔ اور وہ عہد یہ ہے کہ ساری کائنات کا پروردگار صرف اللہ تعالیٰ اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں لہٰذا اسی کی عبادت کی جائے۔

۱۶۔   اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ بد کرداریاں [۱۶] کرنے لگتے ہیں پھر اس بستی پر عذاب کی بات صادق آ جاتی ہے تو ہم اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔

[۱۶] اللہ کی نافرمانی میں پہلے خوشحال لوگ مبتلا ہوتے ہیں:۔ اس آیت میں ﴿اَمَرْنَا فِیْھَا﴾ سے مراد امر تکوینی ہے یعنی جس بستی کے لیے ہلاکت مقدر ہو چکی ہو۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ خوشحال لوگ عیاشیوں اور ظلم و زیادتی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان میں بے حیائی، فحاشی، زنا، کمزوروں کے حقوق غصب کرنا، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، نعمتوں کی نا قدر شناسی دنیا میں غیر معمولی انہماک وغیرہ وغیرہ امراض پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ سب ایسی امراض ہیں جو عام طور پر امیروں اور خوشحال لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں پھر ان کے زیر سایہ لوگ بھی انھیں کی چال چلنے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ انھیں کا سا رنگ ڈھنگ اختیار کرنے لگتے ہیں اس طرح سارا معاشرہ فسق و فجور کی لپیٹ میں آ جاتا ہے اور عذاب الٰہی کا مستحق بن جاتا ہے اور بالآخر ان کی شامت آ جاتی ہے۔

۱۷۔   نوح کے بعد ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کر دیں [۱۷] اور آپ کا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں سے خبردار رہنے اور دیکھنے کو کافی ہے۔

[۱۷] سب سے پہلے قوم نوحﷺ پر عذاب آیا کیونکہ اس سے پہلے شرک نہ تھا:۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا آدمؑ سے لے کر سیدنا نوحﷺ تک سب لوگ توحید پرستی پر قائم اور شرک سے نا آشنا تھے اور صحیح احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ شرک کا آغاز قوم نوح سے ہوا جب ان میں پانچ بزرگ مر گئے تو شیطان نے انھیں پٹی پڑھائی کہ ان کے مجسمے تیار کر لیں۔ اس طرح بنی نوع انسان میں بت پرستی کا آغاز ہوا۔ اور شرک ہی وہ برائی ہے جس کے آگے دوسری برائیاں جنم لیتی ہیں اور جب معاشرہ ان برائیوں کی لپیٹ میں آ جاتا ہے تو عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔ اور اس طرح کے جو عذاب آئے ان میں پہلا عذاب طوفان نوح تھا پھر اس کے بعد دوسری قوموں پر عذاب آتے رہے جن کا ذکر متعدد بار پہلے گزر چکا ہے۔

۱۸۔   جو شخص دنیا چاہتا ہے تو ہم جس شخص کو اور جتنا چاہیں [۱۸]، دنیا میں ہی دے دیتے ہیں پھر ہم نے جہنم اس کے مقدر کر دی ہے جس میں وہ بد حال اور دھتکارا ہوا بن کر داخل ہو گا۔

[۱۸] یعنی جو شخص دنیا ہی کا ہو رہے اور جو کام کرے صرف دنیا کا مال و دولت کمانے یا دوسرے مفادات کے لیے کرے تو ایسے شخص کو بھی دنیا اتنی ہی ملتی ہے جتنی اللہ کو منظور ہو۔ اس سے بڑھ کر نہیں۔ اور چونکہ ایسا شخص آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتا لہٰذا وہ یقیناً دنیا کمانے میں جائز اور ناجائز طریقوں میں کوئی امتیاز روا نہ رکھے گا لہٰذا آخرت میں اسے دوزخ کی سزا بھگتنا ہو گی۔

۱۹۔   اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لئے اپنی مقدور بھر کوشش بھی کرے اور مومن [۱۹] بھی ہو تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔

[۱۹] اس کے مقابلہ میں جو شخص اخروی اجر اور نجات کو ملحوظ رکھ کر اپنی زندگی بسر کرے اور اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان بھی رکھتا ہو۔ اسے یقیناً آخرت میں اس کے نیک اعمال کا اجر ملے گا، دوزخ کے عذاب سے بچ جائے گا اور دنیا بھی اتنی ضرور مل جائے گی جتنی اس کے مقدر میں ہے۔

۲۰۔   ہم ہر طرح کے لوگوں کی مدد کرتے ہیں خواہ یہ ہوں یا وہ ہوں اور یہ بات آپ کے پروردگار کا عطیہ ہے اور آپ کے پروردگار کا یہ عطیہ [۲۰] (کسی پر) بند نہیں۔

[۲۰] کوئی دوسرے کا رزق روک نہیں سکتا:۔ کیونکہ دنیوی مال و دولت اللہ کی بخشش ہے۔ جو اس دنیا دار کو بھی ملتی ہے جو صرف اسی کے لیے کوشاں رہتا ہے اور آخرت کے طلبگار کو بھی ملتی ہے جتنی اس کے مقدر میں ہوتی ہے۔ دنیا کے طلبگار کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ آخرت کے طلبگار کی روزی بند کر دے اور نہ ہی آخرت کے طلبگار کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ دنیا کے طلب گار کی روزی بند کر دے۔ یہ زمین اور دوسرے ذرائع پیداوار تو اللہ نے پہلے سے ہی پیدا کر دیئے ہیں جن سے ہر شخص خواہ وہ دنیا کا طلبگار ہو یا آخرت کا اپنے ارادہ اور اپنی بساط کے مطابق یکساں فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر اسے ملتا اتنا ہی ہے جتنا اس کے مقدر میں ہو۔

۲۱۔   دیکھو! ہم نے کیسے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہوئی ہے اور آخرت میں (دوسری قسم کے یعنی آخرت چاہنے والوں کے) درجات زیادہ اور فضیلت بھی [۲۱] بڑی ہو گی۔

[۲۱] سیرت و کردار کی فضیلت ہی اصل فضیلت ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی:۔ یہ فضیلت مال و دولت کے لحاظ سے بھی ہو سکتی ہے اور سیرت و کردار کے لحاظ سے بھی مال و دولت کے لحاظ سے جو فضیلت ملتی ہے اس کی قدر و قیمت اگر کچھ ہو سکتی ہے تو دنیا کے طلب گاروں کی نظروں میں ہی ہو سکتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات ان کی نظروں میں بھی نہیں ہوتی۔ لیکن سیرت و کردار کے لحاظ سے جو فضیلت ملتی ہے وہی سچی اور لازوال فضیلت اور عزت ہوتی ہے اور یہ فضیلت صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو آخرت کے طلبگار ہوں، اللہ سے ڈرنے والے ہوں اس کے فرمانبردار ہوں۔ کسی کو دھوکا فریب نہ دیتے ہوں، ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھتے ہوں۔ ایسے لوگوں کی فضیلت کی قدر و قیمت آخرت کے طلب گاروں میں ہی نہیں دنیا کے طلب گاروں کی نگاہوں میں بھی ہوتی ہے۔ پھر آخرت میں جو ان آخرت کے طلب گاروں کو فضیلت اور درجات عطا ہوں گے وہ دنیا کے مقابلہ میں بدرجہا زیادہ اور بہتر ہوں گے اور صحیحین میں ہے کہ جنت کے ہر درجہ میں اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان میں، نچلے درجہ والے اوپر کے درجہ والوں کو یوں دیکھیں گے جیسے تم رات کو آسمان کے تاروں کو دیکھتے ہو۔

(بخاری، کتاب الرقاق۔ باب صفۃ الجنۃ والنار)

۲۲۔   اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ نہ بنانا، ورنہ تم بد حال اور بے یار و مددگار [۲۲] بیٹھے رہ جاؤ گے۔

[۲۲] شرک کی مذمت اور مشرکوں کی حسرت:۔ اس آیت میں شرک، مشرکوں اور ان کے معبودوں کی ایک نئے انداز میں مذمت بیان کی گئی ہے۔ جو یہ ہے کہ دنیا میں جتنے معبودوں سے حاجت روائی یا مشکل کشائی کی دعا یا آرزو کی جاتی ہے وہ یا تو بے جان ہیں یا جاندار۔ بے جان تو بالکل بے دست و پا اور انسان کے خود تراشیدہ ہیں۔ وہ تو خود انسانوں کے محتاج ہیں وہ ان کی کیا مدد کر سکتے ہیں اور جو جاندار ہیں وہ اللہ کے مطیع فرمان اور اس کے آگے مجبور محض ہیں۔ لہٰذا تمہاری مدد کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔ اب جو شخص ان سے توقعات تو بڑی بڑی وابستہ کیے بیٹھا ہو۔ لیکن مصیبت کے وقت ان کے معبود ان کی کچھ بھی مدد نہ کر سکیں تو اس کی یاس و حسرت کا جو حال ہو گا وہ سب جانتے ہیں۔

۲۳۔   آپ کے [۲۳] پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ: تم اس کے علاوہ [۲۴] اور کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ بہتر [۲۵] سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو [۲۶] انھیں اف تک نہ کہو، نہ ہی انھیں جھڑکو اور ان سے بات کرو تو ادب سے کرو۔

[۲۳] اسلامی معاشرہ کے لئے چودہ بنیادی احکام تورات کی تعلیم کا خلاصہ:۔ اس آیت سے لے کر آگے پندرہ سولہ آیات میں ایسے بنیادی اصول و احکام بیان کیے جا رہے ہیں جو ایک اسلامی معاشرہ کی تعمیر کے لیے بنیاد کا کام دیتے ہیں۔ اور جن پر مستقبل قریب میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جانے والی تھی۔ گویا یہ اسلامی ریاست کا دستور اساسی تھا جس کا مکہ کی آخری زندگی میں ہی اعلان کر دیا گیا تھا کہ اس نئی ریاست کی بنیاد کن کن نظری، اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی اور سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ تورات کی ساری تعلیم کا خلاصہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بیان فرما دیا ہے۔

[۲۴] توحید کا فیصلہ اللہ نے کب کیا تھا؟ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کب کیا تھا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ اس وقت ہی کر دیا تھا جب سیدنا آدمؑ کو پیدا کر کے اس کی پشت سے پیدا ہونے والی تمام روحوں کو نکال کر اپنے سامنے حاضر کیا اور پوچھا تھا ’’کیا میں تمہارا پروردگار نہیں؟‘‘ تو سب نے جواب دیا تھا ’’کیوں نہیں۔ ہم اس کا اقرار کرتے ہیں‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’میں یہ اقرار تم سے اس لیے لے رہا ہوں مبادا تم قیامت کو یوں کہنے لگو کہ شرک تو ہمارے آباء و اجداد کرتے رہے اور ہم تو اس سے بے خبر تھے‘‘ (۷: ۱۷۲، ۱۷۳) اسی عہد کا خلاصہ اس جملہ میں آ گیا ہے یعنی اقرار ایک تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے موجود ہونے پر تھا اور دوسرے اس بات پر کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں بنایا جائے گا۔

دنیا کے مذاہب توحید پرست ہمیشہ موجود رہے ہیں اگرچہ کم کیوں نہ ہوں:۔ اعتقادی لحاظ سے انسان دو قسموں میں بٹا ہوا ہے ایک وہ فریق ہے جو سرے سے ہی اللہ کے وجود کا قائل نہیں جیسے دہرئیے اور نیچری وغیرہ۔ دوسرے وہ جو کسی نہ کسی مذہب کے پیروکار اور اللہ کی ہستی کے قائل ہیں۔ اس لحاظ سے پہلی قسم کے لوگ تھوڑے ہیں اور اکثریت ایسی ہی رہی ہے جو اللہ کے وجود کی قائل رہی ہے۔ پھر یہ دوسرا گروہ یعنی اللہ کی ہستی کے قائل لوگ دو قسموں میں بٹ گئے۔ ایک وہ جو اللہ کو مانتے بھی ہیں مگر ساتھ ساتھ اس کے شریک بھی بنائے جاتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو توحید پر قائم رہے۔ ان میں اکثریت پہلی قسم کے لوگوں کی ہے اور توحید پرست کم ہی رہے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ انسان اس کی ہستی کا قائل بھی ہو اور اس کے ساتھ شرک بھی نہ کرے۔ اب جن لوگوں نے اللہ کی ہستی کا انکار کیا انہوں نے بھی اللہ سے کیے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کی اور جنہوں نے شرک کیا انہوں نے بھی خلاف ورزی کی۔ باقی تھوڑے ہی لوگ بچتے ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کیا۔ اور اللہ کے فیصلے کے مطابق زندگی بسر کی اور وہ صرف توحید پرستوں کا قلیل سا طبقہ دنیا میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور تا قیامت موجود رہے گا تاکہ لوگوں پر ہر وقت اتمام حجت ہو سکے۔ چنانچہ سورۃ یوسف کی اس آیت ﴿وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ باللّٰہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ﴾ میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔

[۲۵] والدین سے بہتر سلوک اور ادائیگی حقوق:۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ متصل والدین کا ذکر فرمایا۔ پھر یہ نہیں فرمایا کہ والدین کے حقوق ادا کرو بلکہ یوں فرمایا ان سے بہتر سلوک کرو اور یہ تو واضح ہے کہ بہتر سلوک میں حقوق کی ادائیگی کے علاوہ اور بھی بہت کچھ آ جاتا ہے۔ اسی طرح احادیث صحیحہ میں شرک کے بعد دوسرے نمبر پر عقوق والدین کو گناہ کبیرہ شمار کیا گیا ہے اور عقوق کے معنی عموماً نافرمانی کر لیا جاتا ہے حالانکہ عقوق کا معنی ہر وہ فعل ہے جس سے والدین کو ذہنی اور روحانی اذیت پہنچے۔ مثلاً والدین کی طرف بے توجہی بالخصوص اس وقت جبکہ وہ بوڑھے اور توجہ کے محتاج ہوں۔ یہ بات نافرمانی کے ضمن میں نہیں آتی مگر عقوق کے معنی میں ضرور آ جاتی ہے اسی لیے قرآن نے ہر مقام پر والدین سے احسان یا بہتر سلوک کا ذکر فرمایا۔

[۲۶] والدین سے حسن سلوک کی وجوہ:۔ جب والدین بوڑھے ہوں اور کما بھی نہ سکتے ہوں اور ان کی اولاد جوان اور برسر روزگار ہو۔ تو والدین کئی لحاظ سے اولاد سے بہتر سلوک کے محتاج ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اولاد ان سے مالی تعاون کرے اور ان کے نان و نفقہ کا انتظام کرے۔ دوسرے یہ کہ والدین کی محبت تو اپنی اولاد سے بدستور قائم رہتی ہے مگر اولاد کی محبت آگے اپنی اولاد کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اس لیے اولاد اپنی اولاد کی طرف متوجہ رہتی ہے اور والدین کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس عمر میں والدین کو اولاد سے زیادہ خاصی توجہ، محبت اور الفت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیسرے یہ کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے طبعی طور پر چڑچڑا سا ہو جاتا ہے اور اولاد چونکہ اب ان کی طرف سے بے نیاز ہو چکی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ والدین کی باتیں برداشت کرنے کے بجائے انھیں الٹی سیدھی باتیں سنانے لگتی ہے انھیں وجوہ کی بنا پر اولاد کو یہ تاکید کی گئی کہ ان سے بات کرو تو ادب کے ساتھ اور محبت و الفت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر بات کرو۔ جس سے انھیں کسی قسم کی ذہنی یا روحانی اذیت نہ پہنچے۔

۲۴۔   اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ: پروردگار! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے (محبت و شفقت) سے پالا [۲۷] تھا۔

[۲۷] والدین سے بہتر سلوک کیسا ہو؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ متصل والدین کا کیوں ذکر فرمایا؟:۔ یعنی والدین سے تمہارا سلوک ایسا ہونا چاہیے جیسے غلام کا اپنے آقا سے ہوتا ہے۔ ان سے ادب و انکساری سے پیش آؤ اور ساتھ ہی ساتھ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے رحمت و مغفرت کی دعا بھی کرتے رہو۔ کیونکہ وہی تمہاری پرورش و تربیت کا سبب بنے تھے۔ یہیں سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے ساتھ ہی متصلاً والدین سے بہتر سلوک کا ذکر کیوں فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا پروردگار تو رب کائنات ہے۔ جس نے زمین بنائی، ہوا، پانی، سورج، چاند وغیرہ پیدا کئے۔ پھر بارش برسائی اور پھر انسان کی ساری ضروریات زندگی زمین سے وابستہ کر دیں۔ اس طرح انسان، تمام جانداروں اور باقی سب چیزوں کا پالنے والا اور پرورش و تربیت کرنے والا حقیقتاً اللہ رب العالمین ہی ہوا۔ پھر اس کے بعد انسان کی پرورش کا ظاہری سبب اس کے والدین کو بنایا اور یہ تو ظاہر ہے کہ جس قدر مشکل سے انسان کا بچہ پلتا ہے کسی جانور کا بچہ اتنی مشکل سے نہیں پلتا۔ دوسرے جانوروں کے بچے پیدا ہوتے ہی چلنے پھرنے لگتے ہیں۔ پھر ان پر گرمی یا سردی یا بارش کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا انسان کے بچے پر ہوتا ہے دوسرے جانوروں کے بچے اتنے بیمار بھی نہیں ہوتے جتنا انسان کا بچہ فوراً بیمار ہو جاتا ہے۔ پھر ماں راتوں کو جاگ جاگ کر اور بچے کے آرام پر اپنا آرام قربان کرتی ہے۔ باپ بچہ اور اس کی ماں دونوں کے اخراجات بھی برداشت کرتا ہے پھر اس کی تربیت میں پورا تعاون بھی کرتا ہے۔ تب جا کر انسان کا بچہ بڑا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے والدین کے دل میں اپنی اولاد کے لیے اتنی بے پناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھ دیا ہوتا تو انسان کے بچہ کی کبھی تربیت نہ ہو سکتی۔ اب اگر انسان اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بے یارو و مددگار چھوڑ دے اور ان کی طرف توجہ نہ کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے تو اس سے زیادہ بے انصافی اور ظلم اور کیا ہو سکتا ہے؟ معاشرتی زندگی کا یہ وہ نہایت اہم باب ہے جس کی طرف سے دنیا دار انسان ہمیشہ غافل ہی رہے ہیں مگر اسلام نے اس طرف بھرپور توجہ دلائی ہے اور دعا سے مقصود یہ ہے کہ یا اللہ! میں تو ان کا حق الخدمت پوری طرح بجا لانے سے قاصر ہوں لہٰذا تو ہی ان پر بڑھاپے میں اور مرنے کے بعد نظر رحمت فرما۔ اب ہم اس سلسلہ میں چند ارشادات نبوی پیش کرتے ہیں:

والدین سے بہتر سلوک کے متعلق چند احادیث:۔ ۱۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپﷺ سے پوچھا ’’یا رسول اللہﷺ! کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے؟‘‘ فرمایا: ’’نماز کی بروقت ادائیگی‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر کون سا؟‘‘ فرمایا: ’’ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر کون سا‘‘ فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب)

۲۔ سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپﷺ سے پوچھا ’’میرے بہتر سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟‘‘ فرمایا: ’’تیری ماں‘‘ اس نے کہا ’’پھر کون؟‘‘ فرمایا: ’’تیری ماں‘‘ اس نے پوچھا ’’پھر کون؟‘‘ فرمایا: ‘‘تیری ماں‘‘ اس نے چوتھی بار پوچھا ’’پھر کون؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’تیرا باپ‘‘

(بخاری۔ کتاب الادب من احق الناس بحسن الصحبۃ)

۳۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے‘‘ لوگوں نے کہا۔ ’’یا رسول اللہ! بھلا کون ماں باپ کو گالی دیتا ہے؟‘‘ فرمایا، ’’ماں باپ کو گالی دینا یوں ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے‘‘

(بخاری۔ کتاب الادب باب لایسب الرجل والدیہ)

۴۔ ایک دفعہ آپ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا ’’کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں سے خبر دار نہ کروں؟‘‘ ہم نے کہا، ’’ضرور بتائیے یا رسول اللہ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، عقوق والدین، جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا، سن لو، جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا۔‘‘ برابر آپ یہی فرماتے رہے۔ میں سمجھا کہ آپ چپ ہی نہ ہوں گے۔

(بخاری، کتاب الادب، باب عقوق الوالدین)

۵۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپﷺ سے عرض کیا، ’’میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں‘‘ آپﷺ نے اس سے پوچھا ’’تمہارے والدین زندہ ہیں؟‘‘ کہنے لگا ’’جی ہاں ‘‘آپﷺ نے فرمایا: ’’انہی کی خدمت کر (یہی تیرا جہاد ہے)‘‘

(بخاری، کتاب الادب، باب لایجاہد الاباذن الابؤین)

۶۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر کہتی ہیں کہ میری ماں میرے پاس مدینہ آئی اور وہ کافرہ تھی۔ میں نے آپﷺ سے پوچھا ’’یا رسول اللہﷺ! کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’ضرور‘‘

(بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک)

۲۵۔   جو کچھ تمہارے دل [۲۸] میں ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ اگر تم صالح بن کر رہو تو وہ ایسے رجوع کرنے والوں کو معاف کر دینے والا ہے۔

[۲۸] یعنی جو لوگ نیک نیتی سے اپنے والدین کی خدمت یا ان سے بہتر سلوک کرتے ہیں اللہ انھیں بھی خوب جانتا ہے اور جو لوگ محض لوگوں کی باتوں سے بچنے کی خاطر والدین کی خدمت کرتے ہیں انھیں بھی خوب جانتا ہے اور اللہ کی بخشش اور رحمت تو ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کے فرمانبردار بن کر والدین سے حسن سلوک کرتے ہیں۔

۲۶۔   اور رشتہ دار کو [۲۹] اس کا حق دو، اور مسکین [۳۰] اور مسافر [۳۱] کو اس کا حق ادا کرو، اور فضول [۳۲] خرچی نہ کرو۔

[۲۹] رشتہ داروں کے حقوق کی تفصیل کے لیے سورۃ نساء کی پہلی آیت کا حاشیہ نمبر ۳ ملاحظہ فرمائیے۔

[۳۰] فقراء اور مساکین کا ہر صاحب مال کے مال میں حق ہوتا ہے اور اس کی اہمیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں زکوٰۃ کی تقسیم کے لئے آٹھ مدات بیان فرمائیں تو دوسرے نمبر پر فقراء و مساکین کا ذکر فرمایا۔ ہر صاحب مال پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاندان کے فقراء و مساکین پر زکوٰۃ کے علاوہ بھی خرچ کرے۔

[۳۱] مسافروں کے حقوق کے لیے دیکھئے سورۃ نساء کی آیت نمبر ۳۶ (حاشیہ نمبر ۶۷)

[۳۲] اسراف اور تبذیر میں فرق:۔ اسراف اور تبذیر میں فرق یہ ہے کہ اسراف ضرورت کے کاموں میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کو کہتے ہیں مثلاً اپنے کھانے پینے یا لباس وغیرہ میں زیادہ خرچ کرنا اور تبذیر ایسے کاموں میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں جن کا ضرورت زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو جیسے فخر، ریا نمود و نمائش اور فسق و فجور کے کاموں میں خرچ کرنا، یہ اسراف سے زیادہ برا کام ہے۔ اسی لیے ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی قرار دیا گیا۔ شیطان نے بھی اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تھی۔ ایسے شخص نے بھی اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت مال کو غلط راستوں میں خرچ کر کے اللہ کی ناشکری کی۔ ایک دفعہ ایک ہال میں کچھ علماء بیٹھے محو گفتگو تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے میر مجلس سے سوال کیا کہ اسراف اور تبذیر میں کیا فرق ہے؟ میر مجلس نے اس سوال کو عام فہم اور حسب حال یوں جواب دیا کہ ’’اس وقت ہم جس ہال میں بیٹھے ہیں اس میں چھ پنکھے چل رہے ہیں۔ حالانکہ ہم صرف دو پنکھوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ اسراف ہے اور اگر ہم یہ سارے پنکھے چلتے چھوڑ کر باہر نکل جائیں تو یہ تبذیر ہے‘‘ میر مجلس کی اس سادہ اور عام فہم مثال سے اسراف اور تبذیر کا فرق پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔

۲۷۔   کیونکہ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا ناشکرا ہے۔

۲۸۔   اور اگر تم ان (رشتہ داروں، مسکینوں [۳۳] اور مسافروں) سے اس بنا پر اعراض کرو کہ (ابھی تمہارے پاس انھیں دینے کو کچھ نہیں لیکن) تم اپنے پروردگار کی رحمت سے ایسی توقع ضرور رکھتے ہو اور اس کی تلاش میں ہو تو انھیں نرمی سے جواب دے دو۔

[۳۳] یعنی اگر تمہارا کوئی رشتہ دار اور کوئی غریب و مسکین تمہارے پاس قرض حسنہ یا امداد کے لیے آتا ہے اور تمہارے پاس دینے کو کچھ بھی موجود نہ ہو۔ البتہ یہ توقع ہو کہ اتنے دنوں تک فلاں رقم ملنے والی ہے اور اس وقت میں اسے قرض دینے یا مدد کرنے کے قابل ہو سکوں گا تو اسے نرم زبان سے بات سمجھا دو۔ سختی اور بد اخلاقی سے جواب دینے میں یہ اندیشہ ہے کہ تم سے یہ نعمت کہیں چھن ہی نہ جائے۔

۲۹۔   اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ ہی اسے پوری طرح کھلا چھوڑ دو ورنہ خود ملامت زدہ [۳۴] اور درماندہ بن کر رہ جاؤ گے۔

[۳۴] خرچ کرنے میں اعتدال:۔ اپنا ہاتھ گردن سے باندھنا محاورہ ہے جس کا معنی ہے بخل کرنا۔ یعنی خرچ کرتے وقت نہ تو بخل سے کام لینا چاہیے اور نہ اتنا زیادہ خرچ کر دینا چاہیے کہ اپنی ضرورت کے لیے بھی کچھ نہ رہے اور خود انسان تکلیف میں پڑ جائے۔ خواہ یہ خرچ اپنی ضرورت کے سلسلہ میں ہو یا انفاق فی سبیل اللہ کی صورت ہو۔ انفاق فی سبیل اللہ کی سب سے اونچی حد یہ ہے کہ ’’وہ سب کچھ خرچ کر دیا جائے جو ضرورت سے زائد ہو‘‘ (۲: ۲۱۹) یعنی اس فرمان الٰہی میں بھی ضرورت سے زائد مال کو خرچ کرنے کے لیے کہا گیا ہے سارا نہیں۔ اور رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ افضل صدقہ کون سا ہے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’الصدقۃ عن ظھر غنی‘‘ یعنی وہ صدقہ جس کے بعد آدمی خود محتاج یا صدقہ لینے کے قابل نہ ہو جائے۔ (بخاری) نیز حدیث میں ہے کہ جو میانہ روی اختیار کرے وہ محتاج نہیں ہوتا۔

۳۰۔   بلا شبہ آپ کا پروردگار جس کے لئے وہ چاہتا ہے رزق کشادہ [۳۵] کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بندے سے خبردار ہے اور انھیں دیکھ رہا ہے۔

[۳۵] دولتمندوں کے مال میں دوسروں کا حصہ:۔ تمہارے ہاتھ روکنے سے نہ تو تم غنی رہ سکتے ہو اور نہ ہی دینے سے فقیر ہو جاؤ گے اسی طرح جس سائل کو تم نے جواب دیا ہے اللہ اس کی ضرورت کسی اور جگہ سے پوری کر سکتا ہے اور اسے غنی بھی بنا سکتا ہے۔ رزق کی کمی بیشی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے خرچ کرنے میں تنگدل نہ ہونا چاہیے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ رزق کس محتاج کی دعاؤں سے تمہیں مل رہا ہے یا کس کس کا رزق تمہاری طرف منتقل ہو رہا ہے۔ لہٰذا تمہیں چاہیے کہ اپنے مال و دولت میں سے ضرورت مندوں پر خرچ کرتے اور ان کا حصہ انھیں ادا کرتے رہو۔

۳۱۔   اور مفلسی کے اندیشہ [۳۶] سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ انھیں اور خود تمہیں بھی رزق ہم دیتے ہیں۔ انھیں قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

[۳۶] مفلسی کے ڈر سے قتل اولاد اور منصوبہ بندی:۔ مفلسی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنا در اصل اللہ تعالیٰ کی صفت رزاقیت پر عدم توکل یا براہ راست حملہ کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ تمہیں بھی تو ہم رزق دے ہی رہے ہیں اور جیسے تمہیں دے رہے ہیں ویسے تمہاری اولاد کو بھی ضرور دیں گے اور اگر تمہیں مفلسی کا اتنا ہی ڈر ہے تو پہلے تمہیں خود مر جانا چاہیے۔ اولاد کو کیوں مارتے ہو؟ تاکہ تمہاری یہ فکر ہی ختم ہو جائے اور آخر میں یہ فرما دیا کہ تمہارا یہ کام بہت بڑا گناہ کا کام ہے۔ عرب میں تو قتل اولاد کا سلسلہ انفرادی طور پر ہوتا تھا مگر آج کل ایسے ہی کام اجتماعی طور پر اور حکومتوں کی طرف سے ہو رہے ہیں اور حکومت کے ان محکموں کے لیے بڑے اچھے اچھے نام تجویز کیے جاتے ہیں جیسے محکمہ خاندانی منصوبہ بندی یا محکمہ بہبود آبادی۔ اور اس کام کا جذبہ محرکہ وہی ”مفلسی کا ڈر” ہے۔ نیز اس سلسلہ میں سورۃ انعام آیت ۱۳۷ اور ۱۵۱ کے حواشی بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔

۳۲۔   اور زنا کے قریب [۳۷] بھی نہ جاؤ۔ کیونکہ وہ بے حیائی اور برا راستہ ہے۔

[۳۷] زنا کے راستے اور ان کے قریب جانے سے ممانعت:۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ زنا نہ کرو بلکہ یوں فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یعنی وہ تمام راستے اور طور طریقے جو زنا کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان سب سے اجتناب کرو۔ ایسے راستوں کا مفصل بیان تو سورۃ نور اور سورۃ احزاب میں آئے گا۔ مختصراً یہ کہ ہر وہ چیز جو انسان کی شہوت کی انگیخت کا سبب بن سکتی ہے۔ وہ زنا کا راستہ ہے مثلاً عورتوں سے آزادانہ اختلاط، عورتوں کا بے پردہ ہو کر بازاروں میں نکلنا، اجنبی مرد و عورت کی گفتگو بالخصوص اس صورت میں کہ وہ اکیلے ہوں۔ نظر بازی، عریاں تصویر، فلمیں، فحش لٹریچر، گندی گالیاں، ٹی وی اور ریڈیو پر فحش افسانے اور ڈرامے اور مردوں اور عورتوں کی بے حجابانہ گفتگو وغیرہ سب شہوت کو ابھارنے والی باتیں ہیں اور یہی زنا کے راستے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے زنا کو جو ’برا راستہ‘ فرمایا تو اس کی قباحتیں درج ذیل ہیں:

۱۔ زنا کی صورت میں پیدا ہونے والے بچے کا نسب مشکوک رہتا ہے۔

۲۔ ایسے ولد الزنا بچے کے لیے میراث کے جھگڑے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

۳۔ زانیہ عورت اگر منکوحہ ہے تو بچے کے اخراجات بلا وجہ اس کے خاوند کے ذمہ پڑ جاتے ہیں اسی طرح وہ میراث میں بھی بلا وجہ حصہ دار قرار پاتا ہے۔

۴۔ غیر منکوحہ عورت جس کے پاس کئی مرد آتے ہوں ان مردوں میں باہمی رقابت اور دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔ حتیٰ کہ بسا اوقات نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے۔

۵۔ نکاح کی صورت میں میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے ہمدرد اور غمگسار ہوتے ہیں۔ پھر ان کی یہی باہمی محبت بچوں کی تربیت میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے جس سے خاندانی نظام تشکیل پاتا ہے اور یہی نظام کسی معاشرہ کی سب سے ابتدائی اور اہم اکائی ہے۔ زنا کی صورت میں یہ نظام برقرار رہنا تو درکنار اس کے انجر پنجر ہل جاتے ہیں جیسا کہ آج کل یورپین ممالک میں صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ انھیں چند در چند خرابیوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ اور زنا کی طرف لے جانے والے تمام راستوں پر پابندیاں لگا دیں۔

۳۳۔   اور کسی ایسے شخص کو قتل نہ کرو، جسے قتل کرنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے [۳۸] اِلا یہ کہ حق کی بنا پر (قتل کیا جائے) اور اگر کوئی شخص ناحق قتل کیا جائے تو ہم نے اس کے ولی کو پورا [۳۹] اختیار دیا ہے لہذا اسے قتل میں زیادتی نہ کرنا [۴۰] چاہیئے۔ یقیناً اسے مدد [۴۱] دی جائے گی۔

[۳۸] قتل بالحق اور بغیر الحق کی صورتیں:۔ قتل کے سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انفرادی طور پر کسی شخص کو کبھی بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اٹھ کر کسی کو قتل کر دے۔ الا یہ کہ کوئی ڈاکو وغیرہ اس پر حملہ آور ہو اور وہ اپنی مدافعت کرے جس میں ڈاکو مارا جائے۔ حتیٰ کہ انسان خود کشی بھی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اس کی اپنی جان کا بھی وہ خود مالک نہیں ہے کہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے بلکہ خود کشی بھی ایسا ہی جرم ہے جیسے کسی دوسرے شخص کو قتل کرنا۔ اسی طرح اپنی اولاد کو قتل کرنا بھی، خواہ اس کی وجہ کوئی بھی ہو، جرم عظیم ہے۔ قصاص لینا حکومت کے واسطہ ہی سے ہوتا ہے خواہ یہ قصاص جان کا ہو یا جوارح کا۔ بہر صورت یہ مقدمہ عدالت میں پیش کیا جائے گا اور قتل بالحق ہمیشہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اسلامی حکومت سے متعلق ہوتا ہے اور اس کی پانچ صورتیں ہیں۔ (۱) اسلام کی راہ میں مزاحمت کرنے والوں سے جہاد کی صورت میں ہوتا ہے، (۲) اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کا قتل، (۳) قصاص کی صورت میں، (۴) شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کریں تو رجم کی صورت میں ان کو مار دیا جائے گا، (۵) مرتد کا قتل، اور سب قسم کے قتل حکومت سے متعلق ہیں۔ انفرادی طور پر کوئی شخص دوسرے کو قتل کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

[۳۹] مقتول کے ورثاء کے اختیارات:۔ یہ اختیار بھی اسے ذاتی طور پر نہیں بلکہ حکومت کی وساطت سے ہو گا کہ چاہے تو قصاص لے لے، چاہے تو خون بہا قبول کر لے اور چاہے تو بالکل ہی معاف کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقدمہ قتل کا اصل مدعی مقتول کا ولی ہوتا ہے نہ کہ خود حکومت یا سرکار۔ ہمارے ہاں مروجہ قانون تعزیرات کے مطابق قتل کا مقدمہ قابل راضی نامہ یا مصالحت نہیں ہے جبکہ اسلامی نقطہ ئنظر سے اصل مدعی مقتول کا ولی ہوتا ہے اور اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی وقت بھی مصالحت یا راضی نامہ کر سکے۔

[۴۰] قصاص میں زیادتی کی صورتیں:۔ زیادتی کی کئی شکلیں ممکن ہیں۔ جیسے اصل قاتل کے بجائے کسی دوسرے کو پھنسا دے یا اصل قاتل مل نہیں رہا تو اس کے کسی رشتہ دار سے قصاص کی کوشش کرے یا دیدہ دانستہ کسی دوسرے کو بھی قتل کا ذمہ دار قرار دے۔ یا اگر حکومت مجرم کو قصاص کے لیے اس کے حوالہ کر دے تو قصاص میں بہت زیادہ اذیتیں دے یا اگر غصہ کم نہ ہو تو بعد میں مثلہ وغیرہ کرے۔ وغیرہ وغیرہ۔

[۴۱] یعنی حکومت اور افراد معاشرہ سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مقتول کے ولی کی حمایت کریں۔ نہ یہ کہ الٹا قاتل کی حمایت یا اس کی ہمدردی کرنے لگیں اور اس پر ترس کھانے لگیں اس طرح ظلم کا کبھی خاتمہ نہیں ہو سکتا۔

۳۴۔   اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس صورت میں کہ وہ بہتر ہو، تا آنکہ وہ اپنی جوانی [۴۲] کو پہنچ جائے اور عہد کی پابندی کرو کیونکہ عہد کے بارے میں تم سے [۴۳] باز پرس ہو گی۔

[۴۲] یتیم کے مال کی نگہداشت اور اس کے حقوق کے لیے سورۃ نساء آیت نمبر ۱ تا ۶ اور سورۃ انعام کی آیت نمبر ۱۵۲ کے حواشی ملاحظہ کر لیے جائیں۔

[۴۳] ایفائے عہد کے سلسلہ میں سورۃ اعراف آیت نمبر ۱۰۲ اور نحل آیت نمبر ۹۱، ۹۲ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔

۳۵۔   اور جب تم ناپ کرو تو پورا پورا ناپو اور تولو تو سیدھی [۴۴] ترازو سے تولو۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہتر [۴۵] ہے۔

[۴۴] ماپ تول پورا کرنے سے انجام بہتر ہو گا:۔ ناپ اور تول میں کمی بیشی کرنا یعنی خود زیادہ لینا اور دوسرے کو کم دینا، ڈنڈی مار جانا اور کاروباری بد دیانتی کرنا اتنا بڑا جرم ہے جس کی وجہ سے شعیبؑ کی قوم پر عذاب نازل ہوا تھا اور جو شخص ایسے کام کرتا ہے اس کے رزق سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔

[۴۵] ناپ اور تول پورا پورا دینے سے دنیا میں تو انجام اس لحاظ سے بہتر ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی ساکھ قائم ہو جاتی ہے۔ اور اس کی تجارت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور اس کے رزق میں برکت ہوتی ہے۔ اور ایسے شخص کا اخروی انجام بہتر ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔

۳۶۔   اور ایسی بات کے پیچھے نہ پڑو جس کا تجھے علم نہیں کیونکہ اس بات کے متعلق کان، آنکھ اور دل [۴۶] سب کی باز پرس ہو گی

[۴۶] ہر قول اور فعل کی تحقیق ضروری ہے بد ظنی سے پرہیز:۔ شریعت کی ایک بہت بڑی اصل یہ ہے کہ ہر شخص سے حسن ظن رکھنا چاہیے تا آنکہ اس کی کوئی بد دیانتی یا غلط حرکت کھل کر سامنے نہ آ جائے۔ اسی مضمون کو ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾ (۱۲: ۴۹)

(یعنی بسا اوقات محض گمان سے بات کہہ دینا گناہ ہوتا ہے) اور صحیح حدیث میں ہے کہ

’’کفی بالمرء کذبا ان یحدث بماسمع‘‘

(یعنی کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ جو کچھ سنے اسے تحقیق کیے بغیر آگے بیان کر دے) (مسلم) لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ بلا تحقیق کوئی بات نہ کرے۔ نہ ہی بلا وجہ کسی سے بد ظنی رکھے جب تک پوری تحقیق نہ کر لے۔ بلا سوچے سمجھے کسی پر نہ الزام لگائے اور نہ تہمت تراشی کرے۔ نہ کوئی افواہ پھیلائے نہ کسی سے بغض و عداوت رکھے۔ اسی طرح عدالت کے لیے بھی ضروری ہے کہ جب تک مجرم کا جرم ثابت نہ ہو اسے کسی قسم کی کوئی سزا نہ دی جائے۔ پھر یہ تحقیق کا سلسلہ انھیں باتوں میں منحصر نہیں بلکہ وہ رسم و رواج بھی اسی ذیل میں آتی ہیں جو آباء و اجداد سے چلی آ رہی ہیں ان کے متعلق یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ ان کی اصل شریعت میں موجود بھی ہے یا نہیں۔ آنکھ اور کان کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ ہمیں بیشتر معلومات انھیں ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں اور دل کا کام ان میں غور و فکر کر کے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنا ہے۔ گویا ایسے بد ظنی رکھنے والوں، بے بنیاد افواہیں پھیلانے والوں اور تحقیق کیے بغیر ہی کسی بات کو قبول کر لینے والوں کے اعضاء سے بھی باز پرس ہو گی۔

۳۷۔   اور زمین میں اکڑ کر مت [۴۷] چلو کیونکہ نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ بلندی میں پہاڑوں تک پہنچ سکتے ہو۔

[۴۷] متکبرانہ چال سخت مذموم ہے اور اس اصل میں استثناء:۔ متکبرانہ چال اللہ تعالیٰ کو سخت ناگوار ہے اور جو انسان، اکڑ اکڑ کر، گال پھلا کر اور اور اپنے تہبند کو زمین پر گھسٹتے ہوئے چلتا ہے۔ اللہ ایسے انسان کو دنیا میں ضرور سزا دیتا ہے مثل مشہور ہے کہ ’’غرور کا سر نیچا‘‘ تو اس کا سر نیچا ہو ہی جاتا ہے۔ متکبر ہونا صرف اللہ کو سزاوار ہے اور کسی کو یہ صفت زیبا نہیں۔ انسان کی چال میں انکساری اور وقار ہونا چاہیے لیکن ایسی بھی نہ ہو کہ انسان حقیر اور ذلیل معلوم ہو بلکہ چال میں میانہ روی کی روش اختیار کرنا چاہیے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ﴾ (۱۹: ۳۱)

یعنی اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور فرمایا:

﴿الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا﴾ (۶۳: ۲۵)

(جو لوگ زمین پر انکساری کے ساتھ چلتے ہیں) یہاں ھَوْن کا لفظ فرمایا جس میں انکساری اور وقار دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ھُوْن نہیں فرمایا جس کا معنی ذلت اور حقارت ہوتا ہے۔ اس کلیہ میں بھی ایک استثناء کا مقام ہے اگر کفار کے سامنے مظاہرہ مقصود ہو تو اس وقت اکڑ کر چلنا ہی اللہ کو پسند ہے۔ جنگ احد میں سب صحابہ کے مقابلہ میں آپﷺ نے اپنی تلوار ابو دجانہؓ کو عنایت فرمائی تو وہ کافروں کے سامنے اکڑ اکڑ کر چلنے لگے۔ یہ دیکھ کر آپﷺ نے فرمایا کہ یہ چال اللہ کو پسند نہیں مگر اس وقت پسند ہے۔ عمرہ قضاء کے وقت آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کو رمل کا حکم دیا۔ اس سے بھی یہی مقصود تھا۔ فتح مکہ کے وقت آپﷺ نے اور سب صحابہؓ نے کافروں کے سامنے ایسا ہی پر شکوہ مظاہرہ فرمایا۔

۳۸۔   یہ سب [۴۸] کام ایسے ہیں جن کی قباحت آپ کے پروردگار کے ہاں ناپسندیدہ ہے۔

[۴۸] یعنی مندرجہ بالا چودہ احکام میں اکثر تو ایسے ہیں جن سے منع کیا گیا ہے۔ ان کا ارتکاب کرنا اللہ کو سخت ناپسند ہے اور جن باتوں کا حکم دیا گیا ہے ان کو بجا نہ لانا بھی اسی طرح ناپسند ہے۔

۳۹۔   یہ سب حکمت کی باتیں [۴۹] ہیں جو آپ کے پروردگار نے آپ کی طرف وحی کی ہیں۔ اور اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ نہ بنانا، ورنہ ملازمت زدہ اور دھتکارے ہوئے بنا کر جہنم میں ڈال دیئے جاؤ گے۔

[۴۹] یہ سب باتیں بیش بہا نصیحتیں اور حکمت کے موتی ہیں۔ جن پر تمہارے تہذیب و تمدن اور عقائد و اخلاق کی عمارت استوار ہو گی۔ ان تمام باتوں میں سے پہلی بات توحید سے متعلق تھی اسی پر ان نصائح کا اختتام ہو رہا ہے۔ کیونکہ ان سب کا اصل الاصول توحید ہی ہے لہٰذا آخر میں اس کی پھر تاکید کی گئی۔ کیونکہ توحید کے بغیر تو کوئی نیکی بھی کام نہ آ سکے گی۔

۴۰۔   کیا تمہارے پروردگار نے بیٹے دینے کو تو تمہیں چن لیا ہے اور خود فرشتوں کو (اپنی) بیٹیاں بنا لیا ہے۔ کتنی بڑی (گناہ کی) بات [۵۰] ہے جو تم کہہ رہے ہو۔

[۵۰] توحید کے بیان کے ساتھ ہی مشرکین مکہ کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ کے شریک بھی بناتے تھے تو اناث کو۔ جنہیں اپنے لیے قطعاً ناگوار سمجھتے تھے اور اسی طرح دوہرے جرم کے مرتکب ہوتے تھے۔ (تفصیل کے لیے سورۃ نحل آیت نمبر ۵۷ کا حاشیہ ملاحظہ فرمایئے)

۴۱۔   ہم نے اس قرآن میں (حقائق کو) مختلف طریقوں سے بیان کیا تاکہ لوگ کچھ ہوش کریں مگر ان میں نفرت [۵۱] ہی بڑھتی گئی

[۵۱] کافروں کو قرآن کی نصیحتیں کیوں راس نہیں آتیں؟:۔ کیونکہ جب طبیعت میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو صحت بخش اور عمدہ غذائیں بھی راس نہیں آتیں۔ بلکہ جب تک مرض کا پوری طرح علاج نہ کر لیا جائے۔ عمدہ سے عمدہ غذائیں بھی مزید بدہضمی کا سبب بن جاتی ہیں۔ یہی حال ان کافروں کا ہے کہ قرآن کریم کے اعلیٰ سے اعلیٰ دلائل سن کر نصیحت قبول کرنے کے بجائے یہ بدبخت اور زیادہ بدکتے اور وحشت کھا کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔

۴۲۔   آپ ان سے کہئے کہ: اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہوتے، جیسا کہ یہ مشرک کہتے ہیں، تو وہ اللہ صاحب عرش (سے مقابلہ اور وہاں تک پہنچنے) کے لئے ضرور کوئی راہ تلاش [۵۲] کرتے۔

[۵۲] زیادہ خداؤں کا لازمی نتیجہ:۔ اس آیت میں خطاب ان خاص قسم کے مشرکوں سے ہے جنہوں نے بے شمار دیوتا اور دیویاں تجویز کر رکھی ہیں اور انھیں کسی نہ کسی چیز کا مختار تسلیم کیا جاتا ہے مثلاً فلاں بارش کا دیوتا ہے، فلاں پھلوں کا دیوتا ہے۔ فلاں مال و دولت کی دیوی ہے اور فلاں محبت کی، فلاں موت کا دیوتا ہے اور فلاں زندگی کا۔ اس عقیدہ کی تردید کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اگر یہ دیوتا اپنے اپنے اختیارات استعمال کریں تو کائنات کا سارا نظام ہی درہم برہم ہو جائے مثلاً قحط کا دیوتا بارش روکنا چاہے اور بارش کا برسانا چاہے تو ان کی ضد بازی سے کائنات کا نظام اور اس میں ہم آہنگی برقرار ہی نہیں رہ سکتی۔ لیکن یہاں جس پہلو کو اجاگر کیا جا رہا ہے وہ دوسرا پہلو ہے جو یہ ہے کہ ہر صاحب اختیار کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ اس کے اختیارات میں مزید وسعت پیدا ہو جائے بلکہ ہر صاحب اختیار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ پورا اختیار و اقتدار کسی طرح اسے ہی حاصل ہو جائے۔ اب ایسے چھوٹے صاحب اختیار بڑے اختیار والے کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیتے ہیں تاکہ اسے اقتدار سے محروم کر دیں۔ جیسا کہ آج کل کے جمہوری نظام میں یہ تماشا سرسری نگاہوں سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ جو سیاسی پارٹی برسر اقتدار ہوتی ہے۔ حزب اختلاف کی سب پارٹیاں مل کر صاحب اقتدار پارٹی کی ٹانگ کھینچنا اور اسے اقتدار سے محروم کرنا چاہتی ہیں اور بسا اوقات وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں یہی مثال اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمائی ہے کہ اگر فی الواقع اللہ کے علاوہ کوئی اور بھی دیوتا یا دیویاں با اختیار موجود ہوتے تو وہ یقیناً بڑے اختیار والے اللہ یا مہادیو کو اقتدار و اختیار سے محروم کرنے کی ضرور کوشش کرتے اور چونکہ فی الواقع ایسا کبھی نہیں ہوا تو اس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن معبودوں کو تم نے صاحب اختیار سمجھ رکھا ہے وہ صاحب اختیار نہیں ہیں۔ اور ان کا وجود اس کائنات میں ہونا نا ممکن ہے۔

۴۳۔   وہ پاک ہے اور ان باتوں سے بہت بلند و برتر [۵۳] ہے جو یہ لوگ کہتے ہیں۔

[۵۳] یعنی ان مشرکوں کی یہ خرافات بس ان لوگوں تک ہی محدود اور ان کے خطہ زمین پر ہی ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات تو ان لوگوں کے ایسے بیہودہ خیالات سے بہت بلند و بالا ہے۔

۴۴۔   ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب اس کی تسبیح [۵۴] کرتے ہیں بلکہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔ وہ بڑا برد بار اور معاف کرنے والا ہے۔

[۵۴] سَبَحَ کا لغوی مفہوم:۔ سَبَحَ کے لغوی معنی کسی چیز کا ہوا یا پانی میں تیرنا اور تیزی سے گزر جانا ہے (مفردات القرآن) پھر اس لفظ کا استعمال کسی کام کو سرعت کے ساتھ انجام دینے پر بھی ہونے لگا جیسے ارشاد باری ہے

﴿اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا﴾ (۷: ۷۲)

(دن کے وقت تو آپ کو اور بہت سے شغل ہوتے ہیں) اور سبحان کا لفظ سبح کا مصدر ہے جیسے غفر سے غفران ہے اور اس میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اس کائنات میں لاکھوں اور کروڑوں سیارے فضا میں نہایت تیزی سے گردش کر رہے ہیں جن میں نہ کبھی لغزش پیدا ہوتی ہے نہ جھول اور نہ ہی تصادم یا ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان پر کنٹرول کرنے والی ہستی اپنی تقدیر، تدبیر اور انتظام میں نہایت محکم اور ہر قسم کی بے تدبیری اور عیب یا نقص سے پاک ہستی ہی ہو سکتی ہے اور کائنات کی جملہ اشیاء کا یہ عمل، جس کے تحت وہ مدبر ہستی کے مجوزہ قوانین کے تحت سرگرم عمل ہیں، ان کی تسبیح، فرمانبرداری یا عبادت کہلاتا ہے گویا کائنات کی جملہ اشیاء زبان حال یا اپنے عمل سے اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ ان کا انتظام کرنے والی ہستی ہر طرح کے عیوب اور نقائص سے پاک ہے۔ اور وہ صرف ایک ہی ہستی ہو سکتی ہے۔ یہ تو ہے ہر چیز کی عملی تسبیح۔ کائنات کی ہر چیز کی تسبیح کا مفہوم:۔ اور قولی یا زبانی تسبیح کی صورت یہ ہے کہ انسانوں، جنوں یا فرشتوں کی تسبیح زندگی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے بالا و برتر، موثر اور قابل فہم ہوتی ہے۔ حیوانات کی اس سے کم اور جمادات کی اس سے کم، جن و انس کی تسبیح کی صورت چونکہ اختیاری ہے لہٰذا گاہے گاہے ہوتی ہے جبکہ باقی تمام اشیاء ہر وقت تسبیح میں مشغول رہتی ہیں اور جب کوئی چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے تو اس پر اللہ کی رحمت کا نزول بھی ہوتا ہے۔ جس مخلوق کی تسبیح جتنی واضح ہو گی، اتنا ہی زیادہ رحمت کا نزول ہو گا اور اس توجیہہ کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ آپﷺ نے ایک دفعہ ایک قبر پر ایک ٹہنی کی دو شاخیں بنا کر انھیں قبر میں گاڑ دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہ ہو جائیں امید ہے کہ ان پر عذاب کم رہے

(بخاری، کتاب الوضوء، باب من الکبائر، ان لایستتر من بولہ)

یعنی ہری ٹہنی کی تسبیح سوکھی ٹہنی سے زیادہ موثر اور قابل فہم ہوتی ہے اسی لحاظ سے اس پر رحمت کا نزول سوکھی ٹہنی سے زیادہ ہو گا اور اس رحمت کے نزول کا مردہ کو یہ فائدہ ہو گا کہ عذاب قبر میں تخفیف ہو گی۔

۴۵۔   اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور ان لوگوں کے درمیان ایک مخفی پردہ حائل کر دیتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔

۴۶۔   ہم نے ان کے دلوں پر پردہ چڑھا دیا ہے کہ وہ اس (قرآن) کو سمجھ ہی نہ سکیں اور ان کے کانوں میں بوجھ [۵۵] ہے اور جب آپ قرآن میں اپنے اکیلے [۵۶] پروردگار کا ذکر کرتے ہیں تو وہ نفرت سے پیٹھ پھیر کے بھاگ جاتے ہیں۔

[۵۵] یہ چھپا ہوا پردہ اور دلوں پر پڑا ہوا پردہ ہونا یا ان کا ایسا محفوظ ہونا کہ کوئی بیرونی چیز ان پر اثر نہ کر سکے اور کانوں کی ثقل سماعت ہونا۔ یہ سب باتیں قریش مکہ نے خود ہی بڑے فخر سے اپنے متعلق کہی تھیں۔ جیسا کہ یہی باتیں سورۃ حم السجدہ کی پانچویں آیت میں مذکور ہیں۔ چونکہ وہ خود بھی یہی کچھ چاہتے تھے لہٰذا اللہ نے انھیں ویسا ہی بنا دیا۔ قریشی سرداروں نے مسلمانوں کے علاوہ اپنے آپ پر بھی پابندی لگا رکھی تھی کہ جب قرآن پڑھا جا رہا ہو تو اسے کوئی بھی نہ سنے لیکن وہ خود بھی اپنی اس عائد کردہ پابندی کو نبھا نہ سکے۔ تاہم مخالفت میں پہلے سے بھی بڑھتے گئے۔

[۵۶] مشرکوں کی توحید سے نفرت کی ایک نشانی:۔ کیونکہ اکیلے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے ان کے معبودوں کی از خود نفی ہو جاتی تھی جسے وہ صرف اپنے معبودوں کی ہی توہین نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی اور اپنے آباء و اجداد کی بھی توہین سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان کے معبودوں کی نفی کرنے یا انھیں بالکل بے اختیار کہنے کا صاف مطلب یہ نکلتا تھا کہ یہ سرداران قریش اور ان کے آباء و اجداد سب کے سب بے وقوف ہی تھے جو ان کو با اختیار سمجھ کر ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے۔ لہٰذا اکیلے اللہ کا ذکر سنتے تو غصہ اور نفرت کی بنا پر وہاں سے بھاگ اٹھتے۔ اور یہ بات کچھ دور نبوی کے مکہ سے مخصوص نہیں۔ آج کل کے مشرکوں کا بھی یہی حال ہے۔ آپ ان حضرات کے خطبات جمعہ اور تقریریں وغیرہ سنیں تو ان کا اکثر حصہ ان کے اولیاء اللہ اور بزرگان دین کی کرامات اور تصرفات کا ذکر آئے گا۔ ابتدا میں رسمی طور پر تبرکاً کوئی آیت ضرور پڑھ لی جاتی ہے۔ لیکن بعد کی تقریر بس ان بزرگوں کی مدح و ثناء اور کرامات وغیرہ بیان کی جاتی ہیں اور ان کے پیرو کار پسند بھی ایسی ہی تقریر کرتے ہیں اور خوش رہتے ہیں اور درمیان میں اللہ کا ذکر آ جائے تو اسے بھی گوارا ہونے کی حد تک برداشت کر لیتے ہیں لیکن اگر صرف توحید باری تعالیٰ کا بیان ہو تو اس بے کیف اور کئی بار سنی ہوئی تقریر سے ان کی طبیعت بور ہو جاتی ہے۔ اور خطبہ جمعہ کے علاوہ کسی جلسہ وغیرہ میں تقریر ہو رہی ہو تو اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔

۴۷۔   ہم خوب جانتے ہیں کہ جب وہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں [۵۷] تو کس بات پر لگاتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں جو وہ سرگوشی کرتے ہیں جب یہ ظالم کہتے ہیں کہ: ’’تم ایک سحر زدہ آدمی کی پیروی [۵۸] کر رہے ہو‘‘

[۵۷] کافروں کے قرآن کو غور سے سننے کی وجہ:۔ یعنی اگر وہ آپ کی باتیں غور سے سنتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ انھیں ہدایت نصیب ہو بلکہ اس لیے سنتے ہیں کہ کوئی ایسا نکتہ یا پوائنٹ ہاتھ آ جائے جس کی بنا پر یا تو اس نبی کی تکذیب کر سکیں یا اس کا مضحکہ اڑا سکیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی باتوں کی تلاش ہو تو غور سے سننا ہی پڑتا ہے۔

[۵۸] قریش مکہ نے یہ پابندی لگا رکھی تھی کہ ان کا کوئی شخص قرآن نہیں سنے گا لیکن اس کلام میں کچھ حلاوت اور دل نشینی اس قسم کی تھی کہ وہ اپنی عائد کردہ پابندی خود بھی نبھا نہ سکتے تھے اور چوری چھپے رات کے اندھیروں میں قرآن سن لیا کرتے پھر جب کسی ایک کو دوسرے پر یہ شک پڑ جاتا ہے کہ اس نے قرآن سنا ہے۔ تو وہ آپس میں یہ کہتے تھے کہ کس شخص کی بات کرتے ہو جو خود سحر زدہ ہے اور عجیب طرح کی باتیں کرتا ہے۔

۴۸۔   غور کرو وہ آپ کے لئے کیسی مثالیں بیان کر رہے ہیں یہ لوگ ایسے بھٹکے ہوئے ہیں کہ اب راہ [۵۹] نہیں پا سکتے۔

[۵۹] یعنی کبھی آپ کو مسحور کہتے ہیں، کبھی ساحر، کبھی کاہن اور کبھی شاعر یعنی ان کی ایسی مت ماری گئی ہے کہ وہ خود بھی کسی ایک بات پر اتفاق نہیں کر سکتے۔ ایک بات کہتے ہیں پھر خود ہی اس کی تردید کرنے لگتے ہیں۔ انھیں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی جس پر وہ سب متفق ہو سکیں کہ آخر اسے کہیں تو کیا کہیں؟

۴۹۔   بھلا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہمیں از سر نو [۶۰] پیدا کر کے دوبارہ اکٹھا کیا جائے گا؟

[۶۰] یعنی آپ کے مسحور ہونے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ جو شخص یہ کہتا ہو کہ ’’جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے، ہماری ہڈیاں بھی ختم ہو جائیں گی۔ تب بھی ہمیں زندہ کر کے از سر نو اٹھایا جائے گا‘‘ بھلا اس کے سحر زدہ ہونے میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے۔؟

۵۰۔   آپ ان سے کہئے: ’’خواہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا‘‘

۵۱۔   یا اس سے سخت تر مخلوق جو تمہارے [۶۱] جی میں آئے (ہو جاؤ تو بھی اللہ دوبارہ پیدا کر دے گا) پھر پوچھتے ہیں کہ: ’’ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا؟‘‘ آپ کہئے: کہ وہی پیدا کرے گا جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے۔ پھر وہ آپ کے سامنے اپنے سر ہلائیں گے اور پوچھیں گے کہ: ’’ایسا ہو گا کب؟ [۶۲]‘‘ آپ کہئے کہ: ’’شاید وہ وقت قریب ہو‘‘

[۶۱] یعنی تمہیں یہ خیال ہے کہ ہماری ہڈیاں گل سڑ کر اور ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل کر مٹی ہی بن جائیں گی تو پھر کیسے پیدا ہوں گے مگر مٹی تو پھر بھی ایک ایسی چیز ہے جو مسام دار ہے اور پانی اور ہوا اس کے اندر داخل ہو سکتے ہیں جو زندگی کے لیے ضروری عناصر ہیں اس سے ہر قسم کی نباتات بھی اگتی ہے لیکن اگر تم کوئی سخت چیز بن جاؤ جیسے پتھر کہ جس کے اندر پانی یا ہوا داخل نہیں ہو سکتے اور اس کے اجزاء اور ذرات مٹی کی نسبت آپس میں بہت زیادہ جڑے ہوئے اور پیوست ہوتے ہیں یا پتھر سے بھی سخت چیز مثلاً لوہا بن جاؤ یا اس سے بھی کوئی سخت چیز جو تمہارے دل میں آ سکتی ہو، وہ بن جاؤ تب بھی اللہ تمہیں اس سخت چیز سے دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔

[۶۲] بعث بعد الموت پر کفار کے اعتراضات:۔ پھر ان مشرکوں کا دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ وہ کون سی ہستی ہے جو ہمیں دوبارہ پیدا کرے گی؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اور کئی دوسرے مقامات پر بھی یہ دیا ہے کہ جس ہستی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا وہ دوسری بار بھی پیدا کر سکتی ہے اور یہ تو واضح بات ہے کہ دوسری بار پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ یہ جواب سن کر وہ از راہ مذاق سر ہلاتے اور کہتے ہیں کہ اچھا یہ بات تو سمجھ آ گئی مگر بتاؤ یہ ایسا واقعہ ہو گا کب؟ یہ ان کا تیسرا سوال ہوتا ہے۔ اس سوال کا متعین وقت بتانا اللہ کی مشیئت کے خلاف ہے جیسا کہ کسی کو اس کی موت کا معین وقت بتانا یا کسی نافرمان قوم کو اس پر عذاب نازل ہونے کا متعین وقت بتانا اللہ کی مشیت کے خلاف ہے کہ اس سے انسان کی پیدائش اور ابتلاء کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے لہٰذا اس سوال کا جواب یہ دیا کہ جس چیز کا واقع ہونا ایک یقینی امر ہو وہ قریب ہی ہوتی ہے جیسے ہر انسان کی موت یقینی ہے مگر اس کا وقت معین نہیں اور کسی بھی وقت یا ابھی بھی آ سکتی ہے لہٰذا اسے قریب ہی سمجھنا چاہیئے۔

۵۲۔   جس دن وہ تمہیں بلائے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے [۶۳] پکار کے جواب میں حاضر ہو جاؤ گے اور یہ خیال کر رہے ہو گے کہ تم (دنیا میں) تھوڑی ہی دیر ٹھہرے تھے۔

[۶۳] یعنی جب قیامت آ گئی اور اللہ نے تمہیں زندہ کر کے اٹھ کھڑا ہونے اور اپنے پاس حاضر ہونے کا حکم دے دیا تو تم بلا چون و چرا اس کے سامنے از خود حاضر ہو جاؤ گے اور یہ سب باتیں تمہیں بھول جائیں گی۔ پھر اس دن چونکہ سب حجابات اٹھ جائیں گے اور ہر انسان یہ دیکھ رہا ہو گا کہ قادر مطلق تو صرف ایک اللہ کی ذات ہے لہٰذا تم صرف اللہ کی پکار پر حاضر ہی نہ ہو گے بلکہ اس کی تعریف کے گن گاتے حاضر ہو گے اور اس دن یہ دنیا کی زندگی تمہیں بس ایک سہانا خواب ہی معلوم ہو گی۔

۵۳۔   آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے: کہ وہی بات زبان سے نکالیں۔ جو بہتر ہو [۶۴] کیونکہ شیطان لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا [۶۵] ہے۔ بلا شبہ شیطان انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے۔

[۶۴] داعی کو تلخ کلامی سے پرہیز ضروری ہے:۔ ہر شخص کو چاہیے کہ خطاب کے وقت اس کے لہجہ میں نرمی اور الفاظ میں شیرینی ہونی چاہیے تند و تیز اور غصہ والے لہجہ یا تلخ الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے خواہ یہ خطاب باہمی گفتگو کے سلسلہ میں ہو یا دعوت دین کے سلسلہ میں۔ کیونکہ لہجہ یا الفاظ میں درستی سے مخاطب کے دل میں ضد اور عداوت پیدا ہوتی ہے اور اس سے دعوت دین کا کام یا اصلاح احوال کا کام پیچھے جا پڑتا ہے۔

[۶۵] اور شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ تمہاری آپس میں منافرت، ضد اور دشمنی پیدا ہو اور دعوت و تبلیغ کا کام رک جائے۔ لہٰذا خطاب کے وقت خصوصی احتیاط کرو۔ اور تم غصہ میں آ گئے یا تلخ لہجہ یا سخت الفاظ کہنا شروع کر دیئے تو سمجھ لو کہ تم شیطان کی چال میں آ گئے۔ اسی لیے اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کے بتوں یا معبودوں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرما دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر ضد میں آ کر جوابی کار روائی کے طور پر اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں۔ (۶: ۱۰۸)

۵۴۔   تمہارا پروردگار تمہارے حال سے خوب واقف ہے۔ وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور چاہے تو عذاب [۶۶] دے۔ اور (اے نبی) ہم نے آپ کو ان کا وکیل بنا کر نہیں بھیجا۔

[۶۶] کوئی شخص کسی کو نجات اخروی کی ضمانت نہیں دے سکتا:۔ ہم یوں تو کہہ سکتے ہیں جو اللہ کے فرمانبردار ہیں وہ جنت میں اور نافرمان دوزخ میں جائیں گے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں (معین) شخص جنت میں یا دوزخ میں جائے گا۔ نہ ہی اپنے متعلق کوئی شخص ایسا دعویٰ کر سکتا ہے اور نہ کوئی فرقہ یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ اس لیے کہ ہر ایک کی حقیقت حال اور اس کا انجام صرف اللہ ہی کو معلوم ہے حتیٰ کہ نبی آخر الزمان بھی کسی کی ہدایت اور اخروی نجات کے ضامن نہیں ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ سیدنا خارجہ بن زید بن ثابت کہتے ہیں کہ ام العلاء ایک انصاری عورت تھی جس نے رسول اللہﷺ سے بیعت کی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ مہاجرین قرعہ سے ہم انصار کو بانٹ دیئے گئے۔ ہمارے حصہ میں عثمان بن مظعونؓ آئے۔ ہم نے انھیں اپنے گھروں میں اتارا۔ پھر وہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوئے جن میں ان کی وفات ہو گئی۔ جب انھیں غسل دیا اور کفن پہنایا گیا اس وقت رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ میں نے کہا ’’اے ابو السائب (یہ عثمان بن مظعونؓ کی کنیت تھی) اللہ تم پر رحم کرے۔ میں یہ گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے تم کو عزت دی۔‘‘ رسول اللہﷺ نے اسے فرمایا ’’ (ام العلاء) تجھے کیسے معلوم ہوا کہ اللہ نے اسے عزت دی؟‘‘ میں نے کہا ’’یارسول اللہﷺ! میرا باپ آپ پر قربان ہو، پھر اللہ کس کو عزت دے گا؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’عثمان فوت ہو گیا اور اللہ کی قسم! میں اس کے حق میں بھلائی کی امید رکھتا ہوں اور اللہ کی قسم! میں حتمی طور پر یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہو گا حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں ‘‘ام العلاء کہنے لگیں کہ اللہ کی قسم! اس کے بعد میں کبھی کسی کی بزرگی بیان نہیں کروں گی۔

(بخاری، کتاب الجنائز، باب الدخول علی المیت بعد الموت۔۔)

۵۵۔   جو مخلوق آسمانوں میں اور زمین میں ہے آپ کا پروردگار انھیں خوب جانتا ہے اور ہم نے بعض نبیوں [۶۷] کو دوسروں پر فضیلت دی اور داؤد کو ہم نے زبور [۶۸] عطا کی۔

[۶۷] انبیاء کی فضیلت کے پہلو:۔ اس فضیلت کے بھی کئی پہلو ہیں مثلاً کسی نبی کی دعوت کا کام زیادہ بار آور ثابت ہوا، کسی کا کم، کسی نے صرف تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا، کسی نے جہاد بھی کیے کسی کو کوئی معجزہ دیا گیا تو دوسرے نبی کو کوئی دوسرا دیا گیا۔ کچھ نبیوں نے تنگدستی اور فقیری میں ہی زندگی گزار دی اور کچھ ساتھ ہی بادشاہ بھی تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔

[۶۸] بادشاہ بھی نبی ہو سکتا ہے تو ایک عام آدمی کیوں نبی نہیں ہو سکتا؟ اس مقام پر بالخصوص سیدنا داؤدؑ کا ذکر کرنے کی دو وجوہ معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ داؤدؑ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، پست قد تھے اور حقیر سمجھے جاتے تھے۔ بکریاں چرایا کرتے تھے مگر جو قیمتی جوہر ان میں موجود تھے انھیں اللہ ہی جانتا تھا۔ لہٰذا اللہ نے انھیں صرف نبی ہی نہیں بنایا بلکہ صاحب کتاب نبی بنایا پھر بادشاہت بھی عطا فرمائی۔ یہ ہے اللہ کی دین اور اللہ کا فضل کہ جس پر اس کی نظر انتخاب پڑتی ہے اسے نوازتا ہے۔ اور جتنا چاہے نوازتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ مشرکین مکہ کا رسول اللہﷺ کے متعلق ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ تو ہمارے ہی جیسا انسان ہے جو ہماری طرح کھاتا پیتا، چلتا پھرتا اور شادیاں کرتا ہے اور صاحب اولاد ہے۔ یہ تو طالب دنیا ہے لہٰذا یہ خدا رسیدہ یا اللہ کا پیغمبر کیسے ہو سکتا ہے۔؟ گویا ان کے نظریہ کے مطابق خدا رسیدہ یا پیغمبر ہونے کے طالب دنیا ہونے کے بجائے تارک دنیا ہونا ضروری تھا۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ میں رہبان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک عام انسان یا طالب دنیا کے متعلق تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ نبی نہیں ہو سکتا تو ایک بادشاہ کے متعلق تم کیا سوچ سکتے ہو جو عام انسانوں سے بہت زیادہ دنیا میں پھنسا ہوا، طالب دنیا اور اللہ سے نسبتاً دور ہوتا ہے؟ پھر جب ہم نے داؤد بادشاہ کو بھی نبوت عطا کی اور صاحب کتاب نبی بنایا تھا تو پھر آخر یہ نبی آخر الزمان کیوں نبی نہیں ہو سکتا؟

۵۶۔   آپ ان سے کہئے: ان کو پکارو جنہیں تم اللہ کے سوا معبود سمجھتے ہو، وہ تم سے تکلیف کو نہ ہٹا سکتے ہیں [۶۹] اور نہ بدل سکتے ہیں۔

[۶۹] اس آیت میں عموم ہے یعنی خواہ وہ پتھر کے بت ہوں یا فرشتے یا جن ہوں یا فوت شدہ نبی اور اولیاء ہوں سب اس میں شامل ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ شرک صرف بتوں کو سجدہ کرنے کا نام نہیں بلکہ انھیں مشکل کے وقت پکارنا بھی ویسا ہی شرک ہے اور اس بات کی کئی دوسری آیات اور احادیث صحیحہ سے بھی تائید ہو جاتی ہے اور تیسری یہ بات کہ معبود خواہ کسی بھی قسم سے تعلق رکھتے ہوں نہ وہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ کسی کی بگڑی سنوار سکتے ہیں اور یہ سب مشرکانہ عقائد ہیں۔

۵۷۔   جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے پروردگار کی طرف وسیلہ [۷۰] تلاش کرتے ہیں کہ کوئی اس سے قریب تر ہو جائے۔ وہ اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بلا شبہ آپ کے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز [۷۱] ہے۔

[۷۰] اس آیت میں بالخصوص ایسے معبودوں کا ذکر ہے جو جاندار ہیں۔ پتھر کے بت اس آیت کے مضمون سے خارج ہیں۔ یعنی فرشتے یا جن یا فوت شدہ انبیاء و صالحین ہی اس سے مراد لیے جا سکتے ہیں۔ اور بتایا یہ جا رہا ہے کہ تم ان ہستیوں کو اپنی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لیے وسیلہ بناتے ہو جو خود ساری زندگی اس جستجو میں رہے کہ اللہ کے زیادہ سے زیادہ فرمانبردار بندے بن کر اس کا قرب حاصل کریں اور وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہی رہے لہٰذا تمہیں بھی یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور اللہ کے زیادہ سے زیادہ فرمانبردار بن کر اور اعمال صالحہ بجا لا کر ان اعمال کے ذریعہ یا وسیلہ سے اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہیے۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنا کر آپ اپنے حق میں دعا کر سکتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے: نیک اعمال کو وسیلہ بنانا اور دعا مانگنا:۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں سے تین شخص کہیں جا رہے تھے کہ انھیں بارش نے آ لیا۔ انہوں نے ایک غار میں پناہ لی۔ اوپر سے ایک پتھر گرا اور غار کا منہ بند ہو گیا۔ وہ آپس میں کہنے لگے: اللہ کی قسم! اب تو (اس مصیبت سے) تمہیں سچائی ہی بچا سکتی ہے لہٰذا ہم میں سے ہر شخص اپنے عمل کا ذکر کر کے اللہ سے دعا کرے جو اس نے صدق نیت سے کیا ہو۔ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں نے ایک فرق (تین صاع) چاول پر ایک مزدور رکھا وہ (ناراض ہو کر) چلا گیا اور اپنی مزدوری چھوڑ گیا۔ میں نے ان چاولوں کا یہ کیا کہ ان سے کھیتی باڑی کی۔ پھر اس میں اتنا فائدہ ہوا کہ میں نے گائے بیل خرید لیے (مدت کے بعد) وہ مزدور اپنی مزدوری مانگنے آیا تو میں نے اسے کہا جاؤ ’’وہ سب بیل لے جاؤ‘‘ اس نے کہا ’’میرے تو تیرے پاس صرف ایک فرق چاول تھے‘‘ میں نے کہا ’’انہی چاولوں سے (کھیتی کر کے) میں نے یہ گائے بیل خریدے ہیں‘‘ چنانچہ وہ انھیں لے گیا۔ یا اللہ! تو خوب جانتا ہے اگر میں نے یہ عمل تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مصیبت دور کر دے۔ چنانچہ وہ پتھر سرک گیا۔ دوسرے نے کہا ’’یا اللہ! تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے تھے اور میں ہر رات ان کے لیے بکریوں کا دودھ لاتا۔ ایک رات مجھے کافی دیر ہو گئی اور وہ دونوں سو گئے۔ میرے بیوی بچے بھوک سے چلاتے رہے۔ میری عادت تھی کہ میں اپنے والدین کو دودھ پلاتا پھر اپنے بیوی بچوں کو، میں نے انھیں جگانا مناسب نہ سمجھا اور نہ اس بات کو گوارا کیا کہ انھیں چھوڑ کر چلا جاؤں اور وہ دودھ کے انتظار میں پڑے رہیں اور میں پو پھٹنے تک ان کا انتظار کرتا رہا۔ یا اللہ تو خوب جانتا ہے اگر میں نے یہ عمل تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مصیبت دور کر دے۔‘‘ اس وقت وہ پتھر اور سرک گیا۔ یہاں کہ انھیں آسمان دکھائی دینے لگا۔ تیسرے نے کہا: یا اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میری ایک چچا زاد بہن تھی جسے میں سب سے زیادہ چاہتا تھا۔ میں نے ایک دفعہ اس سے صحبت کرنا چاہی تو اس نے انکار کر دیا۔ اِلا یہ کہ میں اسے سو دینار دوں۔ میں کوشش کر کے سو دینار لے آیا اور اس کو دے دیئے۔ اس نے اپنے تئیں میرے حوالے کر دیا اور جب میں (صحبت کے لیے) اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھ گیا تو وہ کہنے لگی ’’اللہ سے ڈرو اور مہر کو ناحق طور سے نہ توڑو‘‘ میں کھڑا ہو گیا اور سو دینار بھی چھوڑ دیئے۔ یا اللہ اگر میں نے یہ عمل تیرے ڈر سے کیا تھا تو ہماری مشکل کو دور کر دے۔ چنانچہ اللہ نے ان کی مصیبت کو دور کر دیا اور وہ باہر نکل آئے۔

(بخاری، کتاب الانبیاء۔ باب حدیث الغار)

[۷۱] ایمان کا تقاضا اللہ سے امید بھی اور خوف بھی:۔ یعنی اعمال صالحہ بجا لانے اور ان کے اجر کی امید رکھنے کے باوجود اللہ سے ڈرتے بھی رہنا چاہیے کہ شاید ان اعمال میں کوئی تقصیر نہ ہو گئی ہو۔ اور بعض دفعہ انسان اس دنیا میں ناکردہ گناہوں کی پاداش میں بھی دھر لیا جاتا ہے جیسے کسی نے اس پر جھوٹا مقدمہ بنا دیا یا کوئی تہمت لگا دی۔ اور یہ بھی اللہ کے عذاب ہی کی قسم ہے اور اس کی مشیئت سے ہی واقع ہوتی ہے۔ لہٰذا اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہی رہنا چاہیے۔

۵۸۔   کوئی بستی ایسی نہیں جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کر دیں یا سخت عذاب [۷۲] نہ دیں۔ یہ بات کتاب میں لکھی جا چکی ہے۔

[۷۲] قیامت سے پہلے سب بستیوں کی تباہی:۔ یعنی کچھ بستیاں تو ایسی ہیں جو عذاب میں ماخوذ ہو کر تباہ کی جا چکی ہیں اور قیامت سے پہلے باقی موجود سب بستیوں کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے اور چونکہ قیامت آنے سے پہلے نیک لوگوں کو اٹھا لیا جائے گا اور قیامت شرار الناس پر قائم ہو گی لہٰذا قیامت کو یہ نظام کائنات درہم برہم کرنے سے پیشتر ایسی شریر بستیوں کو پہلے ہی عذاب سے ہلاک کر دیا جائے گا۔

۵۹۔   جو بات ہمیں معجزے بھیجنے سے روکتی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے لوگ انھیں جھٹلاتے [۷۳] رہے۔ ہم نے قوم ثمود کو اونٹنی ایک واضح معجزہ [۷۴] دیا تھا تو انہوں نے اس سے ظلم کیا تھا۔ اور معجزے تو ہم صرف ڈرانے کی خاطر بھیجتے ہیں۔

[۷۳] یعنی جب ضدی اور ہٹ دھرم لوگ کوئی حسی معجزہ یا اپنا فرمائشی معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے تو اس صورت میں ان پر عذاب الٰہی کا نزول لازم ہو جاتا ہے۔ مگر چونکہ ہم مکہ کے رہنے والوں کو ایسے عذاب سے ہلاک نہیں کرنا چاہتے۔ اور ان کے زندہ رہنے اور رکھنے میں بہت سی حکمتیں مضمر ہیں لہٰذا انھیں ان کا فرمائشی معجزہ نہ دینے میں ہی مصلحت اور ان کی عافیت ہے۔

[۷۴] معجزہ دکھانے کا مقصد محض خوف دلانا ہوتا ہے:۔ قوم ثمود کے حالات ان کے سامنے ہیں۔ انہوں نے فرمائشی اور حسی معجزہ طلب کیا تھا۔ یہ معجزہ دیکھنے کے باوجود وہ ایمان نہ لائے۔ تو اس کے نتیجہ میں انھیں تباہ کر دیا گیا۔ حالانکہ فرمائشی معجزہ کو پورا کر دینا اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ پر زبردست دلیل ہے۔ پھر ایسا معجزہ دیکھ کر بھی جو ایمان نہ لائے اور اس کے دل میں اللہ کا ڈر پیدا نہ ہو تو ایسے لوگوں کا علاج یہی ہے کہ انھیں کسی دردناک عذاب سے تباہ کر ڈالا جائے۔

۶۰۔   اور جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کا پروردگار لوگوں کو گھیرے [۷۵] ہوئے ہے۔ اور جو نمائش [۷۶] (واقعہ معراج) ہم نے آپ کو دکھائی اور وہ درخت جس پر قرآن [۷۷] میں لعنت کی گئی ہے انھیں ان لوگوں کے لئے بس ایک آزمائش بنا رکھا ہے۔ ہم انھیں ڈراتے رہتے ہیں مگر تنبیہ ان کی سرکشی میں اضافہ ہی کرتی جاتی ہے۔

[۷۵] اس سے مراد سورۃ بروج کی آیت نمبر ۱۹ اور ۲۰ ہیں، یعنی کافر تو آپ کو اور اس دعوت قرآن کو جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ اللہ انھیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور سورۃ بروج اس سورۃ بنی اسرائیل سے بہت پہلے نازل ہو چکی تھی۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ یہ کفار مکہ اپنی معاندانہ سرگرمیوں میں جتنی بھی کوشش چاہے کر لیں۔ یہ ایک حد سے آگے نہ جا سکیں گے اور ان کی ان کوششوں کے علی الرغم دعوت اسلام پھیل کر رہے گی۔

[۷۶] کافر حسی معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے:۔ واقعۂ معراج ایک خرق عادت واقعہ اور معجزہ تھا۔ کفار نے اس معجزہ کا اتنا مذاق اڑایا کہ بعض ضعیف الاعتقاد مسلمان بھی شک میں پڑ گئے۔ پھر کافر جنہوں نے پہلے بیت المقدس دیکھا ہوا تھا وہ آپﷺ سے سوالات پوچھنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے سامنے سے سب پردے ہٹا دیئے اور آپﷺ ان کافروں کے تمام سوالوں کے جوابات دیتے گئے۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ کسی حسی معجزہ کے طالب کفار ایمان لے آتے۔ لیکن وہ ان کے لیے آزمائش بن گیا جس میں یہ ناکام ہوئے اور پہلے سے بھی زیادہ سرکشی کی راہ اختیار کرنے لگے۔

[۷۷] ملعون درخت اور معراج دونوں سے کفار مکہ کی آزمائش:۔ اسی طرح سورۃ صافات میں ایک اور خرق عادت بات کی اطلاع دی گئی تھی جو یہ تھی کہ ’’جہنم کی تہہ سے تھوہر کا درخت اگے گا۔ یہی اہل جہنم کا کھانا ہو گا جس کے علاوہ انھیں کوئی کھانے کی چیز نہ ملے گی‘‘ (۳۷: ۶۲ تا ۶۶) اس بات پر بھی کافروں نے بہت لے دے کی کہ آگ میں بھلا یہ درخت کیسے اگ سکتا ہے؟ یہ بھی در اصل اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے کہ اپنی عقل کے پیمانے سے اسے ناپنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ آگ میں درخت یا پودے تو درکنار جاندار بھی پیدا ہوتے اور زندہ رہتے ہیں۔ آگ کا کیڑا سمندری آگ ہی سے پیدا ہوتا اور اسی میں زندہ رہتا ہے۔ پھر کئی پودے ایسے بھی ہیں جن سے آگ نکلتی ہے۔ یہ تو اس دنیا کا حال ہے اور اخروی عالم اور دوزخ کی کیفیت جب ہم پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتے اور نہ کوئی چیز تجربہ میں آ سکتی ہے تو انکار کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ انکار تو اس صورت میں معقول ہو سکتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی باقی سب قدرتوں کو پوری طرح سمجھ چکا ہو اور بس یہی ایک بات باقی رہ گئی ہو۔ انسان کا علم تو اتنا ناقص ہے کہ وہ اپنے جسم کے اندر کی چیزوں کی کیفیت بھی نہیں سمجھ سکتا تو پھر دوسرے عجائبات سے انکار کرنے یا ان کا مذاق اڑانے کا کیا حق ہے یہ دوسری بات تھی جو ان کفار کی سرکشی بڑھانے کا سبب بن گئی تھی۔ اور یہ درخت ملعون اس لحاظ سے ہے کہ اس میں غذائیت تو نام کو نہیں ہوتی۔ کانٹے بڑے سخت اور تیز ہوتے ہیں جو اہل دوزخ کی اذیت میں مزید اضافہ ہی کریں گے۔ واقعہ معراج کی طرح، تھوہر کے درخت کی آگ میں پیدائش بھی کافروں کے لیے فتنہ بن گئی تھی۔ اور واقعہ معراج کے فتنہ بننے سے بھی یہ بات از خود ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا، روحانی یا کشفی نہیں تھا کیونکہ خواب میں تو ہر انسان ایسے یا اس سے عجیب تر واقعات دیکھ سکتا ہے لیکن کبھی کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔

۶۱۔   اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ: ’’آدم کو سجدہ کرو‘‘ تو ابلیس کے سوا سب فرشتوں نے اسے سجدہ کیا۔ کہنے لگا: کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے؟

۶۲۔   پھر کہنے لگا: ’’بھلا دیکھو! یہ شخص جسے تو نے مجھ پر بزرگی [۷۸] دی ہے۔ اگر تو مجھے روز قیامت تک مہلت دے دے تو میں چند لوگوں کے سوا اس کی تمام تر اولاد کی بیخ کنی کر دوں گا [۷۹]۔

[۷۸] قصۂ آدم و ابلیس پہلے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۳۰ تا ۳۹، سورۃ انعام آیت نمبر ۱۱ تا ۲۵، سورۃ الحجر آیت نمبر ۲۶ تا ۴۲ میں گذر چکا ہے۔ ان آیات کے حواشی بھی ملحوظ رکھے جائیں۔

[۷۹] ابلیس کا آدم پر قابو پانے کا دعویٰ:۔ احتنک الفرس بمعنی گھوڑے کے منہ میں رسی یا لگام دینا اور المحنک اس آدمی کو کہتے ہیں جسے زمانہ نے تجربہ کار بنا دیا ہو (منجد) گویا احتنک کے معنی کسی پر عقل اور تجربہ سے قابو پانا ہے اور شیطان کا دعویٰ یہ تھا کہ آدم اچھی طرح میرا دیکھا بھالا ہے اور میں اس پر اور اس کی اولاد پر پوری طرح قابو پا سکتا ہوں۔

۶۳۔   اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جا (تجھے مہلت دی جاتی ہے) پھر اولاد آدم میں سے جو بھی تیرے پیچھے لگے گا تو تیرے سمیت ان سب کے لئے جہنم ہی پورا پورا بدلہ ہے۔

۶۴۔   اور انھیں گھبراہٹ میں ڈال جنہیں تو اپنی آواز [۸۰] سے گھبراہٹ میں ڈال سکے، اپنے سوار اور پیادے [۸۱] ان پر چڑھا لا، مال اور اولاد [۸۲] میں ان کا شریک بن اور ان سے وعدہ کر۔ اور شیطان جو بھی وعدہ کرتا ہے [۸۳] وہ بس دھوکا ہی ہوتا ہے۔

[۸۰] شیطان کی آواز سے مراد:۔ شیطان کی آواز سے مراد ہر وہ پکار ہے جو اسے اللہ کی نافرمانی پر اکساتی ہو اور یہ آواز عموماً شیطانوں کے چیلوں چانٹوں ہی سے آتی ہے پھر اس شیطانی آواز میں ہر قسم کا گالی گلوچ، لڑائی جھگڑا، گانا بجانا، موسیقی، راگ رنگ اور مزامیر طرب و نشاط کی محفلیں سب کچھ آتا ہے جو اللہ کی یاد سے انسان کو غافل بنائے رکھتی ہیں اور اس کی اصل فطرت پر پردہ ڈالے رکھتی ہیں۔

[۸۱] یعنی تجھے اس بات کی بھی اجازت ہے کہ ڈاکوؤں کی طرح اپنی پوری جمعیت کے ساتھ۔ خواہ وہ انسانوں سے تعلق رکھتی ہو یا جنوں اور شیطانوں سے، اولاد آدم پر پوری شان و شوکت کے ساتھ حملہ آور ہو اور ان میں جس قدر تباہی اور گمراہی مچا سکتا ہے مچا لے۔

[۸۲] شیطان کی مال و اولاد میں شرکت کی صورتیں:۔ یعنی مال کمانے کے جتنے ناجائز ذرائع انسان اختیار کرتا ہے وہ سب شیطانی انگیخت اور اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کرتا ہے۔ اور حرام خور انسان شیطان کے مشورے ایسے قبول کرتا ہے جیسے شیطان بھی اس کے کام کاج میں شریک ہے۔ پھر شیطان تو انسان کو یہ راہ دکھا کر الگ ہو جاتا ہے اور سارا گناہ کا بار بنی آدم پر پڑ جاتا ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جیسے مشرکین مکہ اپنے اموال کھیتی اور چوپایوں میں سے اللہ کا حصہ الگ نکالتے تھے اور اپنے بتوں کا الگ۔ اسی طرح جو مال بھی بتوں کے چڑھاوے، قربانی یا غیر اللہ کی نذر و نیاز کے طور پر دیا جاتا ہے وہ سب بنی آدم کے اموال میں شیطان کی شراکت ہے۔ اور اولاد میں شراکت یہ ہے کہ اولاد تو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اور اس کا نام پیراں دتہ، غوث بخش، عبد النبی، میراں بخش، یا اسی قسم کے دوسرے شرکیہ نام رکھ کر اولاد کو غیر اللہ کی طرف منسوب کیا جائے یا اولاد کے لیے اللہ کے سوا دوسروں کے در پر جائے اور ان کے ہاں قربانیاں اور نذر و نیاز دے۔

[۸۳] شیطان کے وعدے:۔ شیطان کے وعدوں اور ان وعدوں کی حقیقت کے لیے سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ۲۲ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔

۶۵۔   جو میرے بندے ہیں ان پر قطعاً تیرا بس [۸۴] نہیں چلے گا۔ اور (اے نبی! آپ کے لئے) آپ کے پروردگار کا کارساز [۸۵] ہونا کافی ہے۔

[۸۴] شیطان کا داؤ کن پر چلتا ہے؟:۔ شیطان کا داؤ صرف ان لوگوں پر چلتا ہے جو ضعیف الاعتقاد اور پہلے ہی شیطانی عمل پر لیبک کہنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور جن کے لیے حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کے کئی دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ ایک دروازے سے مقصد حل نہ ہو تو دوسرے دروازے پر چلے جاتے ہیں اور ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو محض ظاہری اسباب پر تکیہ کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگ فوراً شیطان کی چالوں میں پھنس جاتے ہیں۔ مگر جو لوگ صرف ایک اللہ پر نظر رکھتے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ان پر شیطان کا داؤ کارگر نہیں ہو سکتا۔

[۸۵] یعنی جو لوگ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں تو اللہ بھی ان کے کام ایسے حیرت انگیز طریقوں سے سنوارتا اور سیدھے کر دیتا ہے جن کا انسان کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان خود بھی اللہ کی ایسی غیبی امداد پر حیران رہ جاتا ہے اور از راہ تشکر اللہ سے اس کی محبت اور اس پر بھروسہ پہلے سے بڑھ جاتا ہے۔

۶۶۔   تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لیے سمندر میں کشتی کو چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔ یقیناً وہ تم پر بڑا رحم کرنے والا ہے

۶۷۔   اور جب سمندر میں تمہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ کے سوا جس جس کو تم پکارا کرتے ہو وہ تمہیں بھول جاتے ہیں۔ پھر جب وہ تمہیں نجات [۸۶] دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو تم (اس سے) منہ پھیر لیتے ہو۔ اور انسان تو ہے ہی ناشکرا۔

[۸۶] گرداب میں صرف اللہ کو پکارنا:۔ شیطانی اغوا کی کیفیت بیان کرنے کے بعد پھر سے توحید کے اثبات اور شرک کی تردید پر دلائل ذکر کیے جا رہے ہیں۔ مشرکین مکہ کی عادت تھی کہ جب ان کی کشتی گرداب میں پھنس جاتی یا سمندر کے طوفانی تھپیڑے کشتی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے اور کشتی والوں کو سب ظاہری اسباب ختم ہوتے نظر آنے لگتے تو اس وقت وہ صرف ایک اللہ کو پکارتے اور اپنے دوسرے سب معبودوں کو بھول جاتے تھے۔ اسی فطری داعیہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور مختار کل ہونے کے ثبوت پر پیش فرمایا ہے اور باقی معبودوں کی تردید کی ہے مگر آج کا مشرک اس دور کے مشرکوں سے اپنے شرک میں پختہ تر نظر آتا ہے وہ اس آڑے وقت میں بھی ’’یا بہاول الحق، بیڑا بنے دھک‘‘ (یعنی اے بہاول الحق! یہ کشتی پار لگا دو) کا نعرہ لگاتا ہے۔ ﴿قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّیٰ یُؤْفَکُوْنَ﴾ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سورۃ یونس کے حاشیہ نمبر ۳۴ میں ملاحظہ فرمائیے۔

۶۸۔   کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ وہ تمہیں خشکی پر ہی (زمین میں) دھنسا دے یا تم پر (ایسی آندھی) بھیج دے جس میں پتھر ہوں۔ پھر تمہیں اپنے لئے کوئی کارساز بھی نہ ملے۔

۶۹۔   یا اس بات سے بے خوف ہو کہ دوبارہ تمہیں سمندر میں لوٹا دے پھر تم پر سخت آندھی بھیج دے جو تمہارے کفر کی پاداش میں تمہیں غرق کر دے۔ پھر تمہیں ہمارے خلاف کوئی پیچھا کرنے والا [۸۷] بھی نہ ملے۔

[۸۷] اللہ کی گرفت کی صورتیں:۔ پھر اللہ کی گرفت کا معاملہ سمندر سے ہی متعلق نہیں وہ سمندر سے باہر خشکی پر بھی تم پر عذاب نازل کر سکتا ہے وہ یہ بھی کر سکتا ہے کہ زمین شق ہو جائے اور وہ تمہیں اس میں ایسے غرق کر دے کہ کسی کو پتہ تک نہ چل سکے اور یہ بھی کر سکتا ہے کہ تم پر کنکروں اور سنگریزوں والی تند و تیز آندھی کا طوفان بھیج کر تمہیں ہلاک کر دے اور اس سے بچنے کے لیے تمہیں کوئی پناہ گاہ نہ مل سکے اور یہ بھی کر سکتا ہے کہ سمندری سفر کے لیے دوبارہ کوئی صورت پیدا کر دے اور تمہارے کفر و شرک کی پاداش میں تمہیں طوفانی تھپیڑوں کے حوالے کر کے تمہیں کشتی سمیت غرق کر دے تو ایسی صورت میں تمہارا کوئی معبود تمہارا ایسا حمایتی ہے جو تمہاری طرف سے ہو کر ہم سے باز پرس کر سکے؟

۷۰۔   بلا شبہ! ہم نے بنی آدم کو بزرگی عطا کی اور بحر و بر میں انھیں سواری مہیا کی، کھانے کو پاکیزہ چیزیں دیں اور جو کچھ ہم نے پیدا کیا ہے ان میں سے کثیر مخلوق [۸۸] پر نمایاں فوقیت دی۔

[۸۸] انسان اشرف المخلوقات کیسے ہے؟ انسان کی دوسری تمام مخلوق پر فضیلت اور تکریم یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا جو سیدھا کھڑا ہو کر چلتا ہے پھر جس قدر توازن و اعتدال انسانی جسم میں ہے اور جس قدر اس کے اعضاء جسم کثیر المقاصد ہیں اتنے کسی دوسری کے نہیں۔ مخلوق میں سب سے برتر اللہ کے فرشتے تھے۔ اللہ نے ان سے بھی آدم کو سجدہ کروایا اور اس طرح سب مخلوق پر واضح کر دیا کہ انسان ہی اشرف المخلوقات ہے۔ پھر انسان کا بچہ جو باقی تمام جانوروں کے بچوں سے کمزور پیدا ہوتا ہے اسے اتنی عقل عطا کی کہ وہ دنیا جہاں کی چیزوں کو اپنے کام میں لائے۔ بڑے بڑے جسیم اور طاقتور جانوروں کو رام کر کے ان پر سواری کرے۔ دریاؤں اور سمندروں میں کشتیاں اور جہاز چلا کر سمندر کی پیٹھ پر سوار ہو۔ تمام مخلوق کے مقابلہ میں کھانے کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ، لذیذ سے لذیذ اور صاف ستھرے کھانے اپنی خوراک کے لیے تیار کرے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ لباس اور رہائش کے لیے مکان تعمیر کرے۔ یعنی جتنا اقتدار و اختیار اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا ہے اتنا دوسری کسی مخلوق کو عطا نہیں کیا گیا اور یہ سب کچھ یقیناً اللہ ہی کی بخشش اور اس کا کرم ہے پھر اس سے بڑھ کر حماقت اور ضلالت اور کیا ہو سکتی ہے کہ انسان دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں ایسے بلند مرتبہ پر فائز ہو کر اللہ کے سوائے اس کی دوسری مخلوق کے سامنے سر جھکانے لگے؟ یا اپنے ہی جیسے کسی محتاج بندے کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے لگے؟

۷۱۔   جس دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا [۸۹] کے ساتھ بلائیں گے، پھر جس کو اس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا [۹۰] تو ایسے لوگ اپنا اعمال نامہ پڑھیں گے اور ان پر ذرہ بھر [۹۱] ظلم نہ کیا جائے گا۔

[۸۹] امام سے مراد کسی امت کا نبی بھی ہو سکتا ہے اور وہ شخص بھی جسے آپﷺ کی زندگی کے بعد پیشوا سمجھا گیا ہو۔ اور یہ بلانا اس طرح ہو گا: اے موسیٰ کی امت، اے محمدﷺ کی امت، اے عیسیٰؑ کی امت یا اے قرآن والو! اے انجیل والو، اے تورات والو، اسی طرح ہر گروہ والوں کو اس گروہ کے بانی کے نام سے پکارا جائے گا۔

[۹۰] اللہ کے فرمانبرداروں کو ان کا اعمال نامہ سامنے سے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور یہ ایک حسی مشاہدہ ہو گا جسے دیکھ کر ہر شخص اس کے جنتی ہونے کا اندازہ لگا سکے گا۔ ایسے شخص بہت خوش و خرم ہوں گے اور خوشی سے اپنا اعمال نامہ دوسروں کو بھی پڑھنے کو کہیں گے اور انھیں ان کے اعمال کا پورا پورا اجر مل جائے گا لیکن جس شخص کو اس کا اعمال نامہ پیچھے کی طرف سے دائیں ہاتھ میں تھما یا گیا اسے بھی فوراً اپنا انجام معلوم ہو جائے گا وہ اپنا اعمال نامہ چھپانا چاہے گا اور کہے گا کاش! مجھے یہ دیا ہی نہ جاتا۔

[۹۱] فتیلا اس باریک سے دھاگے کو بھی کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں ہوتا ہے اور اس لفظ سے بہت تھوڑی مقدار مراد لی جاتی ہے یعنی ہر ایک کو قیامت کے دن اس کی محنت کا پورا صلہ بلکہ اس سے زیادہ بھی ملے گا۔ لیکن مجرموں کو ان کے گناہوں سے ذرہ بھر بھی زیادہ سزا نہ دی جائے گی۔

۷۲۔   اور جو اس دنیا میں اندھا بنا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا [۹۲] ہی رہے گا بلکہ راہ پانے کے لحاظ سے اندھے سے بھی زیادہ بھٹکا ہوا۔

[۹۲] یعنی دنیا میں ہدایت کے راستہ کو دیکھنے کی کوشش ہی نہ کی اور اندھا بنا رہا۔ وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا اور جنت کی راہ نظر ہی نہ آئے گی۔ دنیا میں اس کا اندھا پن اختیاری تھا اور اس کی اصلاح ممکن تھی۔ لیکن آخرت میں اس کا اندھا پن اضطراری ہو گا جو دنیا کے اندھا پن کے نتیجہ میں واقع ہو گا اور چونکہ اس کی اصلاح کی اب کوئی صورت ممکن نہ ہو گی نہ کسی دوسرے کا اسے راستہ دکھانا کام آ سکے گا۔ لہٰذا ایسا شخص جنت سے دور ہی کہیں بھٹکتا رہے گا اور اسے صرف اپنے سامنے جہنم کے مختلف طرح کے عذاب ہی نظر آئیں گے۔

۷۳۔   ہم نے آپ کی طرف جو وحی کی ہے قریب تھا کہ یہ کافر آپ کو اس سے بہکا دیتے تاکہ آپ نازل شدہ وحی کے علاوہ کچھ ہم پر افترا کریں اور اس صورت میں وہ تمہیں اپنا دوست [۹۲۔ الف] بھی بنا لیتے۔

[۹۲۔ الف] یعنی کفار مکہ کے آپ سے بغض و عناد اور دشمنی کے خاتمہ کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ آپ ان کے بتوں کی حمایت میں کچھ کلمات کہہ دیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہیں یہ کلمات مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی ہوئے ہیں۔ اس صورت میں یہ لوگ آپ سے دوستی گانٹھنے پر بھی آمادہ ہو جائیں گے۔

۷۴۔   اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ آپ ان کی طرف تھوڑا بہت جھک [۹۳] جاتے۔

[۹۳] کفار مکہ کی آپ سے سمجھوتہ کی کوششیں:۔ کفار مکہ نے جب دیکھا کہ ان کی مقدور بھر کوششوں کے باوجود اسلام پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ تو انہوں نے کئی بار آپ سے باہمی سمجھوتہ کی کوششیں کیں۔ ایک دفعہ یہ پیش کش کی اگر آپ ہمارے بتوں سے متعلقہ آیات پڑھنا چھوڑ دیں تو ہم آپ کے مطیع بننے کو تیار ہیں۔ لیکن آپ ان کی یہ بات کیسے مان سکتے تھے؟ اور ایک دفعہ یہ پیشکش کی کہ اگر آپ حکومت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا حاکم بنانے پر تیار ہیں۔ اگر مال و دولت چاہتے ہیں تو تمہارے قدموں میں مال و دولت کے ڈھیر لگا دیتے ہیں اور اگر آپ کو کسی عورت سے محبت ہے تو ہم اس سے آپ کی شادی کر دیں گے بشرطیکہ آپ جو دعوت پیش کر رہے ہیں اس سے باز آ جائیں۔ گویا ان کے خیال کے مطابق ایک عام انسان کا منتہائے مقصود یہی تین چیزیں ہو سکتی ہیں۔ جو انہوں نے پیش کر دیں۔ اور یہ پیش کش آپ کے ہمدرد و غمخوار اور سرپرست چچا ابو طالب کی موجودگی میں کی گئی۔ چونکہ سب سرداران قریش مل کر آئے تھے اس لیے ابو طالب کے پائے استقلال میں بھی لغزش آ گئی اور وہ بھی آپ کو سمجھانے لگے۔ یہ معاملہ دیکھ کر آپ رو پڑے اور اپنے چچا سے کہنے لگے ’’چچا جان! اگر ان لوگوں میں اتنی طاقت ہو کہ وہ میرے ایک ہاتھ پر سورج لا کر رکھ دیں اور دوسرے پر چاند لا کر رکھ دیں تب بھی میں اس کام سے باز نہیں آ سکتا۔ یا تو یہ کام پورا ہو کے رہے گا یا پھر میری جان بھی اسی راہ میں قربان ہو گی‘‘ بھتیجے کا یہ استقلال دیکھ کر چچا کی بھی ہمت بندھ گئی اور کہنے لگا ’’بھتیجے جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرتے جاؤ۔ جب تک میں زندہ ہوں تمہاری حمایت پر کمر بستہ رہوں گا‘‘ چنانچہ قریشیوں کا وفد ناکام اٹھ کر چلا گیا۔ ان آیات میں ایسے ہی واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے تمہیں جو استقلال کی توفیق ہوئی تو یہ اللہ کی طرف سے ہی تھی اور اگر اللہ کی طرف سے ایسی توفیق نصیب نہ ہوتی تو آپ کچھ نہ کچھ تھوڑا بہت ان کی طرف جھک بھی سکتے تھے۔ اگر ایسی صورت پیش آ جاتی تو کفار مکہ تو تم سے ضرور خوش ہو جاتے اور وہ تمہیں اپنا دوست بھی بنا لیتے مگر اللہ کی طرف سے آپ کو نبی ہونے کی بنا پر اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دوہرا عذاب پہنچ سکتا ہے۔ اپنے نبی کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق اور مہربانی سے حق و باطل کی اس آمیزش سے بچا لیا۔ اب یہ تمام تر عتاب ان مسلمانوں کے لیے ہے جو محض چند ٹکوں کی خاطر حق و باطل میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔

۷۵۔   اس صورت میں ہم آپ کو زندگی میں بھی دگنی سزا دیتے اور مرنے کے بعد بھی۔ پھر ہمارے مقابلہ میں آپ کوئی مددگار بھی نہ پاتے

۷۶۔   قریب تھا کہ یہ لوگ آپ کو اس سرزمین (مکہ) سے دل برداشتہ کر دیں تاکہ آپ کو یہاں [۹۴] سے نکال دیں۔ اور ایسی صورت میں آپ کے بعد یہ لوگ بھی یہاں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں گے۔

[۹۴] ہجرت کے ساتھ ہی کفار مکہ کے زوال کا آغاز:۔ جن ایام میں یہ آیت نازل ہوئی اس وقت مسلمانوں پر کفار مکہ کا تشدد اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا ان ایام میں ایسی آیت کا نزول کفار مکہ کے حق میں ایک صریح پیشین گوئی تھی جسے انہوں نے اپنی طاقت کے نشہ میں محض ایک دھمکی ہی سمجھا جیسا کہ دوسری عذاب کی آیات متعلقہ اقوام سابقہ میں بھی ایسے اشارات پائے جاتے تھے مگر آنے والے حالات اور واقعات نے اس پیشین گوئی کو حرف بحرف سچا ثابت کر دیا۔ اس آیت کے نزول کے ایک سال بعد آپﷺ مکہ کو چھوڑنے اور مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے بعد قریش کی طاقت میں دم بدم زوال آنا شروع ہوا اور صرف آٹھ سال بعد معاملہ بالکل الٹ ہو گیا۔ ظلم و تشدد کرنے والے خود محکوم بن گئے اور پیغمبر اسلام سے رحم کی التجا پر مجبور ہو گئے۔ بعد میں اکثر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ حتیٰ کہ مزید دو سال بعد سرزمین عرب کفر و شرک کی نجاست سے پاک ہو گئی۔

۷۷۔   ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھیجے ان میں یہی ہمارا دستور رہا ہے اور ہمارے اس قانون میں آپ تفاوت نہیں پائیں [۹۵] گے۔

[۹۵] عذاب کے متعلق اللہ کی سنت:۔ اللہ کا دستور یہ ہے کہ جب تک کسی نافرمان قوم میں اللہ کا نبی موجود رہے اس وقت تک اس پر عذاب نہیں آتا۔ اور جب عذاب مقدر ہو جائے تو نبی کو وہاں سے نکال لیا جاتا ہے یا ہجرت کرنے کا حکم دے دیا جاتا ہے اور جب نبی نکل جاتا ہے تو پھر عذاب کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ براہ راست اس قوم پر عذاب نازل کر کے اس قوم کو تباہ کر دے اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کے ہاتھوں اس سرکش قوم کو پٹوا دے۔ جن کو ان مجرموں نے ہجرت پر مجبور کر دیا تھا یا ان کے بجائے کسی دوسری قوم سے انھیں سزا دلوا دے۔

۷۸۔   آپ زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے [۹۶] تک نماز قائم کیجئے اور فجر کے وقت قرآن (پڑھنے کا التزام کیجئے) کیونکہ فجر کے وقت قرآن پڑھنا مشہود [۹۷] ہوتا ہے۔

[۹۶] پانچ نمازوں کا ذکر:۔ معراج کی رات پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔ اس آیت میں ان نمازوں کے اوقات کا ذکر ہے۔ چار نمازیں یعنی ظہر، عصر، مغرب اور عشاء تو زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک ہوئیں اور پانچویں نماز پو پھٹنے یا طلوع آفتاب سے پیشتر ہے۔ اس سے پہلی آیت میں کفار کی ایذا رسانیوں اور ان سے متعلق اللہ کے دستور کا ذکر تھا۔ یہاں نمازوں کا ذکر اس وجہ سے لایا گیا ہے اور مشکلات اور مصائب کے وقت صبر اور نماز سے ہی مدد طلب کرنے کا حکم ہے۔ نماز سے تعلق باللہ پیدا ہوتا ہے قلبی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اور مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہو جانے کی قوت پیدا ہوتی ہے ان پانچ نمازوں کے اوقات کا اس آیت میں مجملاً ذکر آیا ہے تفصیل کے لیے سورۃ نساء کی آیت نمبر ۱۰۳ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔

نمازوں کے اوقات کی تعیین میں مصلحت:۔ مشرکوں اور بت پرستوں کی اکثریت ایسی رہی ہے کہ جو سورج کو ایک بڑا طاقتور دیوتا تسلیم کرتی اور اس کی پوجا پاٹ کرتی رہی ہے۔ یہ لوگ بالخصوص تین اوقات میں پرستش کرتے تھے۔ سورج چڑھنے کے وقت سر پر آنے کے وقت اور غروب ہونے کے وقت۔ لہٰذا ان اوقات میں آپﷺ نے نماز کی ادائیگی سے منع فرما دیا خواہ یہ نماز نوافل ہوں یا کسی نماز کی قضا ہو۔ علاوہ ازیں سورج کی پرستش۔ اس کے عروج کے اوقات میں کی جاتی رہی ہے یعنی دھوپ میں گرمی آنے سے لے کر نصف النہار تک۔ لہٰذا ان اوقات میں کوئی نماز نہیں رکھی گئی تاکہ ان سورج پرستوں سے اوقات میں بھی مشابہت نہ ہونے پائے۔ بلکہ ان اوقات میں نماز کی ادائیگی سے سختی سے روک دیا گیا۔

[۹۷] فجر کی نماز کو قرآن الفجر کیوں کہا گیا:۔ قرآن الفجر سے مراد نماز فجر ہے۔ اہل عرب میں یہ دستور عام ہے کہ وہ کسی چیز کا جزو اشرف بول کر اس سے مراد کل لے لیتے ہیں۔ اسی دستور کے مطابق یہاں قرآن کا لفظ آیا ہے۔ کیونکہ کوئی نماز ایسی ہی نہیں جس کی ہر رکعت میں کم از کم سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جاتی ہو۔ اسی طرح قرآن میں نماز کے لیے کہیں صرف رکوع کا ذکر آیا ہے اور کہیں صرف سجود کا اور نماز فجر کے ساتھ بالخصوص قرآن کا ذکر اس لیے ہے کہ اس نماز میں قرآن کی قرأت دوسری نمازوں کی نسبت لمبی ہوتی ہے اور مشہود سے مراد یہ ہے کہ اس نماز کے دوران فرشتے بھی حاضر ہوتے اور قرآن سنتے ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ: ’’نماز با جماعت اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے اور صبح کی نماز کے وقت رات اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں‘‘ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے کہ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔

﴿وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا﴾ (بخاری، کتاب التفسیر نیز کتاب الاذان۔ باب فضل صلوۃ الفجر فی جماعۃ)

۷۹۔   اور رات کو آپ تہجد (کی نماز) ادا [۹۸] کیجئے یہ آپ کے لئے زائد [۹۹] (نماز) ہے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود [۱۰۰] پر فائز کر دے۔

[۹۸] نماز تہجد کی رکعات:۔ تہجد کے لغوی معنی تو صرف رات کو ایک دفعہ سونے کے بعد رات کے ہی کسی حصہ میں بیدار ہونا ہے اور اس سے شرعاً وہ نماز مراد ہے جو رات کو سونے کے بعد طلوع فجر سے پہلے پہلے رات کے کسی حصہ میں نصف شب کے بعد ادا کی جائے۔ اس نماز کی تعداد رکعات اور وقت کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے:۔ ۱۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ایک رات میں اپنی خالہ ام المومنین میمونہ (بنت حارث) کے ہاں سویا میں تو بچھونے کی چوڑان میں لیٹا اور آپﷺ اور آپﷺ کی بیوی لمبے رخ میں آپﷺ نے کچھ آرام فرمایا۔ اور کم و بیش آدھی رات کے وقت آپﷺ اٹھے۔ بیٹھ کر اپنی آنکھیں ملنے لگے۔ پھر اچھی طرح وضو کر کے نماز پڑھنے لگے۔ میں نے بھی اٹھ کر وضو کیا اور آپﷺ کے بائیں جانب ساتھ ہی کھڑا ہو گیا۔ آپﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور دایاں کان پکڑ کر مجھے اپنے (پیچھے سے لا کر) دائیں طرف کر دیا۔ آپﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر دو، پھر دو، پھر دو، پھر دو اور پھر دو (کل بارہ رکعات) پھر وتر پڑھا پھر لیٹ رہے تا آنکہ مؤذن آپﷺ کے پاس آیا: پھر آپﷺ نے دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھیں۔ پھر باہر نکلے اور صبح کی نماز پڑھائی۔

(بخاری، کتاب الوضوء باب قراءۃ القرآن نیز کتاب العلم۔ باب السمر بالعلم)

۲۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپﷺ سے رات (تہجد) کی نماز کے متعلق سوال کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: دو، دو رکعت کر کے پڑھو۔ پھر جب کسی کو صبح ہو جانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ لے وہ ساری نماز کو طاق بنا دے گی’ عبد اللہ بن عمرؓ کہا کرتے کہ آپﷺ نے یہ حکم دیا ہے کہ رات کی نماز کے اخیر میں وتر پڑھا کرو۔

(بخاری، کتاب الصلوٰۃ۔ باب الحلق والجلوس فی المسجد)

[۹۹] یعنی نماز تہجد آپﷺ پر تا زیست فرض رہی۔ واقعہ معراج اور پانچ نمازوں کی فرضیت سے پہلے نماز تہجد مسلمانوں پر فرض تھی جیسا کہ سورۃ مزمل کے پہلے رکوع میں اس کی وضاحت ہے۔ پھر جب پانچ نمازیں فرض ہو گئیں تو عام مسلمانوں پر نماز تہجد فرض نہ رہی جیسا کہ سورۃ مزمل کے دوسرے رکوع میں

﴿فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾

سے واضح ہوتا ہے اور آپﷺ پر یہ نماز اسی آیت کی رو سے فرض ہوئی۔ جب صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں سورۃ فتح نازل ہوئی اور اس میں آپﷺ کو اللہ نے یہ خوشخبری دی کہ اللہ نے آپﷺ کی سب اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرما دی ہیں۔ تو آپﷺ اس نماز میں پہلے سے بھی زیادہ قیام فرمانے لگے۔ چنانچہ بروایت بخاری نماز تہجد میں لمبے قیام کی وجہ سے آپﷺ کے پاؤں متورم ہو جاتے تھے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ اللہ نے تو آپﷺ کی سب اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرما دیں پھر آپﷺ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ اس کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا: (اَفَلاَ اَکُوْنَ عَبْدًاشَکُوْرًا) یعنی کیا پھر میں اللہ کے اس احسان اور فضل کے عوض اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘

(بخاری، کتاب التہجد۔ باب قیام النبی اللیل حتی ترم قدماہ۔۔)

امت کے لیے اگرچہ یہ نماز نفل ہے اور امت پر مشقت کی وجہ سے اس کی فرضیت ساقط کر دی گئی ہے۔ تاہم اس نماز کی بہت فضیلت آئی ہے اور اس کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔ گویا ہماری مروجہ شرعی اصطلاح میں سنت مؤکدہ ہے۔

نماز تراویح یا قیام اللیل:۔ واضح رہے کہ نماز تہجد ہی کا دوسرا نام قیام اللیل ہے جیسا کہ بخاری کے عنوان باب سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ اور ماہ رمضان میں قیام اللیل کو نماز تراویح کا نام دیا گیا ہے جو ماہ رمضان میں عموماً نماز عشاء کے بعد متصل ہی با جماعت نماز ادا کر لی جاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے ماہ رمضان میں یہ نماز تہجد (یا قیام اللیل یا تراویح) صرف دو دن با جماعت پڑھائی تھی۔ پھر تیسرے یا چوتھے دن پھر لوگ نماز کے لیے جمع ہوئے تو آپ جماعت کے لیے نکلے ہی نہیں اور صبح کی نماز کے بعد آپﷺ نے صحابہ سے جماعت کے لیے نہ آنے کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ میں اس بات سے ڈر گیا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔

(بخاری، کتاب التہجد باب تحریض النبی علی قیام اللیل، نیز کتاب الصوم باب فضل من قام رمضان)

اور یہ نماز آپﷺ نے ہمیشہ گیارہ رکعت ہی ادا کی۔ آٹھ رکعت تراویح اور تین رکعت وتر جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے: ابو سلمہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ رمضان ہو یا غیر رمضان آپﷺ گیارہ رکعت سے زیادہ کبھی نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعت پڑھتے اور ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا کہنا۔ پھر چار رکعت پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا کہنا۔ پھر تین رکعت پڑھتے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا: یا رسول اللہﷺ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’عائشہؓ! آنکھیں (ظاہر میں) سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا‘‘۔

(بخاری، کتاب التہجد، باب قیام النبی باللیل فی رمضان وغیرہ)

اب با جماعت نماز تراویح کے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے: عبد الرحمن بن عبد قاری کہتے ہیں کہ رمضان کی ایک رات میں سیدنا عمرؓ کے ساتھ (ان کے دور خلافت میں) مسجد نبوی میں گیا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ مختلف ٹولیوں میں نماز تراویح ادا کر رہے ہیں۔ کوئی تو اکیلا ہی پڑھ رہا ہے۔ اور کچھ ٹولیاں ایک امام کے پیچھے نماز ادا کر رہی ہیں۔ سیدنا عمرؓ کہنے لگے کہ اگر میں ان سب کو ایک امام کے پیچھے اکٹھا کر دوں تو یہ بہتر ہو گا۔ یہ ارادہ کرنے کے بعد آپ نے سیدنا ابی بن کعب کو سب لوگوں کا امام بنا دیا۔ پھر اس کے بعد کسی دوسری رات میں سیدنا عمرؓ کے ہمراہ مسجد میں گیا تو دیکھا کہ سب لوگ اپنے قاری (ابی بن کعبؓ) کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ سیدنا عمرؓ نے کہا نعم البدعۃ ھذہ یعنی یہ بدعت تو اچھی ہے نیز لوگوں سے کہا کہ رات کا وہ حصہ جس میں تم سوتے رہتے ہو اس حصے سے افضل ہے جس میں تم نماز پڑھتے ہو اور لوگ شروع رات میں تراویح پڑھ لیتے۔ (قیام اللیل کر لیتے)

(بخاری، کتاب الصوم، باب فضل من قام رمضان)

سیدنا عمرؓ اور با جماعت نماز تراویح:۔ اس حدیث سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے: ۱۔ سیدنا عمرؓ نے جب تراویح کی نماز با جماعت کا حکم دیا تو نہ آپﷺ خود اس میں شامل ہوئے نہ آپ کے ساتھی عبد الرحمن بن عبد قاری۔ اسی طرح جب کسی دوسری رات معائنہ کیا تو جماعت دیکھ کر بھی نہ آپ خود اس میں شامل ہوئے اور نہ آپ کے ساتھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس جماعت کو نہ ضروری سمجھتے تھے اور نہ بہتر ورنہ آپ خود اس میں شامل ہو جاتے۔ ۲۔ سیدنا عمرؓ نے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ قیام اللیل یا نماز تراویح کے لیے رات کا پہلا حصہ افضل نہیں جس میں یہ لوگ با جماعت نماز پڑھ رہے تھے بلکہ رات کا آخری حصہ افضل ہے اور سیدنا عمرؓ خود رات کے آخری حصہ میں ہی اکیلے نماز ادا کرتے تھے۔ ۳۔ آپؓ نے جو یہ فرمایا کہ ’’یہ اچھی بدعت ہے‘‘ تو اس سے آپ کی مراد صرف موجودہ شکل تھی۔ یعنی متفرق طور پر پڑھنے سے اکٹھے نماز پڑھنا بہتر ہے۔ ورنہ یہ شرعی اور اصطلاحی معنوں میں بدعت نہیں تھی۔ (جو بہرصورت گمراہی ہوتی ہے) کیونکہ قیام اللیل رسول اللہﷺ نے خود بھی کیا اور صحابہ کرامؓ نے بھی۔ علاوہ ازیں کم از کم تین دن آپﷺ نے جماعت بھی کرائی تھی گویا اس کی دو بنیادیں سنت نبوی سے ثابت تھیں۔ لہٰذا اسے معروف معنوں میں بدعت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اور موطا امام مالک کی روایت کے مطابق آپ نے جب نماز تراویح کی جماعت کا حکم دیا تو گیارہ رکعت (وتر سمیت) کا ہی حکم دیا تھا۔ ہمارے ہاں عشاء کے بعد نماز تراویح با جماعت رائج ہے۔ اس میں دو مصلحتیں ضرور ہیں ایک تو حفاظ کرام کو اس بہانے دہرائی کا موقع مل جاتا ہے۔ دوسرے لوگوں کی سہولت بھی اسی وقت میں ہے ورنہ افضل وقت وہی ہے جس کی سیدنا عمرؓ نے وضاحت کر دی ہے۔

[۱۰۰] مقام محمود کی مختلف توجیہات:۔ مقام محمود سے مراد ایسا مرتبہ ہے کہ سب لوگ آپﷺ کی حمد و ثنا کرنے لگیں۔ اور اس کی کئی توجیہات ہیں مثلاً ایک یہ کہ ایسا مقام قدر و منزلت اور حمد و ستائش آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی آپﷺ کی آخری زندگی میں عطا فرما دیا تھا، دوسری یہ کہ جنت میں ایک بلند مقام ہے جس کا نام ہی مقام محمود ہے وہ آپﷺ کو عطا کیا جائے گا اور تیسری یہ کہ قیامت کے دن کی ہولناکیوں کو دیکھ کر سب لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے وہ چاہیں گے کہ اللہ کے حضور ان کی کوئی سفارش کرے وہ سیدنا آدمؑ اور پھر ان کے بعد باری باری سب انبیاء سے سفارش کی التجا کریں گے مگر ہر نبی اپنی کوئی نہ کوئی تقصیر یاد کر کے معذرت کر دے گا۔ بالآخر سب لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آئیں گے تو آپ لوگوں کی یہ التجا قبول کر کے اللہ کے حضور ان کی سفارش کریں گے۔۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵۵ کے حواشی) اس توجیہ کے لحاظ سے مقام محمود سے مراد مقام شفاعت ہے جیسا کہ آپﷺ نے خود بھی یہی وضاحت فرمائی ہے۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ کسی نے آپﷺ سے مقام محمود کے متعلق پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’اس سے مراد مقام شفاعت ہے‘‘ (ترمذی، ابواب التفسیر) اس وقت سب لوگوں کی زبان پر آپ کی حمد و ستائش جاری ہو جائے گی۔ نیز ہمیں اذان کے بعد جو دعا سکھائی گئی ہے اس میں ہر شخص آپﷺ کے لیے مقام محمود پر کھڑا ہونے کی دعا کرتا ہے جس میں ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کوئی بلند مرتبہ بزرگ اپنے سے چھوٹے یا کم تر درجہ کے آدمی کو اپنے حق میں دعا کے لیے کہہ سکتا ہے اور چھوٹے یا کم تر درجہ کے آدمی کی دعا اپنے سے بلند مرتبہ بزرگ کے حق میں قبول ہو سکتی ہے۔

۸۰۔   اور دعا کیجئے: اے میرے پروردگار! جہاں بھی تو مجھے لے جائے سچائی کے ساتھ [۱۰۱] لے جا، اور جہاں سے نکالے تو سچائی کے ساتھ نکال اور اپنے ہاں سے ایک اقتدار کو میرا مددگار [۱۰۲] بنا دے۔

[۱۰۱] اس آیت میں آپﷺ کی ہجرت کی طرف واضح اشارہ ہے جو اس آیت کے نزول کے تقریباً ایک سال بعد واقع ہونے والی تھی اور جو دعا آپ کو سکھائی گئی وہ یہ تھی کہ یا اللہ ایسی صورت پیدا فرما کہ میں جہاں بھی جاؤں حق و صداقت کی خاطر جاؤں اور جہاں سے نکلوں (مثلاً مکہ سے) تو حق و صداقت ہی کی خاطر نکلوں یا یہ مطلب ہے کہ جہاں مجھے پہچانا ہے نہایت آبرو اور خوش اسلوبی کے ساتھ مجھے وہاں لے جا کہ حق و صداقت کا بول بالا رہے اور جہاں سے مجھے نکالنا ہے تو اس وقت بھی آبرو اور خوش اسلوبی سے نکال کہ دشمن ذلیل و خوار اور دوست شاداں و فرحاں ہوں، سچائی کی فتح ہو اور باطل سرنگوں ہو۔

[۱۰۲] دین کے نفاذ کے لئے اقتدار کی ضرورت:۔ اس جملہ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ مجھے خود ایسا اقتدار اور حکومت عطا فرما جس میں تیری مدد اور نصرت شامل حال ہو۔ دوسرا یہ کہ کسی اقتدار یا حکومت کے دل میں یہ بات ڈال دے کہ وہ میرے اس کام یعنی دین حق کی سربلندی کے لیے میرا مددگار ثابت ہو۔ اس آیت سے دو باتیں ضمناً معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ دین حق کے نفاذ کے لیے اقتدار اور غلبہ ضروری ہے محض پند و نصائح سے لاتوں کے بھوت کبھی نہ راہ راست پر آ سکتے ہیں اور نہ اپنی معاندانہ سرگرمیاں چھوڑنے پر تیار ہوتے ہیں۔ اور ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ سمجھانے کے بعد ڈنڈے کی بھی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ لہٰذا اقامت دین کے لیے دعوت دین کے علاوہ غلبہ و اقتدار کے لیے کوشش کرنا بھی ویسا ہی ضروری ہے۔ طلب امارت کن صورتوں میں ناجائز ہے؟ اور دوسری یہ کہ طلب امارت جسے شریعت نے مذموم قرار دیا ہے صرف اس صورت میں مذموم ہے جبکہ اس سے مقصود محض حصول مال و جاہ ہو۔ اور اگر اس سے مقصود اقامت دین ہو تو ایسے اقتدار کے حصول کی کوشش مذموم تو درکنار، فرض کفایہ ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ کسی موزوں تر آدمی کو برسر اقتدار لانے کی کوشش کرے اور اگر وہ خود ہی موزوں تر ہو اور کوئی دوسرا آدمی اس غرض کے لیے مل نہ رہا ہو تو خود اپنے لیے بھی حصول اقتدار کی کوشش ضروری ہوتی ہے۔ (نیز دیکھئے سورۃ یوسف آیت نمبر ۵۵ کا حاشیہ)

۸۱۔   اور کہئے کہ: حق آ گیا [۱۰۳] اور باطل بھاگ کھڑا ہوا اور باطل تو ہے ہی بھاگ نکلنے والا

[۱۰۳] فتح مکہ کی پیشگوئی:۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر بہت سے مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے اور باقی مسلمانوں پر ان کی سختیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ ان حالات میں ایسی پیشین گوئی اور اس قسم کا اعلان قریش مکہ کے لیے ایک ’اضحوکہ‘ پھبتی اور مذاق کا سامان بن گیا تھا۔ مگر اللہ کی مہربانی سے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اس واقعہ کے نو سال بعد آپﷺ فاتحانہ انداز سے بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے تو اس وقت آپﷺ یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے مگر اس وقت یہ آیت ایک واضح حقیقت بن کر قریش مکہ کے سامنے آ چکی تھی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔

۱۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا اور آپ مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ آپ اس سے ان بتوں کو ٹھونکا دیتے جاتے اور فرماتے جاتے

﴿وَقُلْ جَاءَ الحَقُّ وَزَہَقَ البَاطِلُ، جَاءَ الحَقُّ وَمَا یُبْدِئُ البَاطِلُ وَمَا یُعِیدُ﴾

(بخاری۔ کتاب التفسیر)

۲۔ سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب آپﷺ نے کعبہ میں تصویریں دیکھیں تو آپﷺ اس میں داخل نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ آپﷺ کے حکم سے ساری تصویریں مٹا دی گئیں۔ آپ نے ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کی تصویریں دیکھیں جن کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! انہوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی تھی‘‘

(بخاری۔ کتاب الانبیاء۔ باب واتخذ اللہ ابراہیم خلیلاً)

۳۔ سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو دیکھا وہاں سیدنا ابراہیمؑ اور بی بی مریم علیہا السلام کی تصویریں ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’قریش کے کافروں کو کیا ہو گیا ہے وہ سن تو چکے ہیں کہ جس گھر میں مورتیں ہوں وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ یہ ابراہیمؑ کی تصویر ہے۔ ان کو کیا ہوا بھلا وہ پانسوں سے فال لیا کرتے تھے۔‘‘ (بخاری۔ حوالہ ایضاً)

۸۲۔   اور ہم قرآن میں جو کچھ نازل کرتے ہیں وہ مومنوں [۱۰۳۔ الف] کے لئے تو شفا اور رحمت ہے مگر ظالموں کے خسارہ میں ہی اضافہ کرتا ہے۔

[۱۰۳۔ الف] یعنی یہ قرآن نسخہ کیمیا اور شفا بخش ضرور ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو اس پر ایمان لاتے اور اسے منزل من اللہ سمجھتے ہیں۔ ان کے دلوں کے سب روگ مثلاً کفر، شرک، نفاق، حسد، کینہ، بخل، بدنیتی وغیرہ سب کچھ دور کر دیتا ہے اور ان اخلاق رذیلہ کے علاج کے بعد معاشرہ میں ایک دوسرے سے رحمت، محبت، شفقت اور الفت کا سبب بنتا ہے لیکن جو لوگ بہرحال قرآن کی مخالفت اور استہزاء پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ قرآن کی ایک ایک آیت اور ایک ایک سورۃ سے اس کی بدبختی میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ان کا یہ رویہ انھیں دنیا میں بھی لے ڈوبے گا اور آخرت میں بھی۔

۸۳۔   اور جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں تو منہ پھیرتا اور اپنا پہلو موڑ لیتا ہے اور جب اسے کوئی مصیبت پڑتی ہے تو مایوس ہو [۱۰۴] کر رہ جاتا ہے۔

[۱۰۴] ایک دنیا دار انسان کی حالت:۔ ایک عام انسان کی زندگی یہ ہوتی ہے کہ اس پر خوشحالی کا دور آئے تو اللہ کو یکسر بھول ہی جاتا ہے اور اگر بعد میں تنگی ترشی کا دور آئے تو مایوسی کی باتیں کرنے لگتا ہے یعنی کسی بھی حالت میں اسے اللہ سے تعلق قائم کرنے کا خیال نہیں آتا۔ اس کے برعکس ایک مومن کی زندگی یہ ہے کہ نعمت ملے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچے تو صبر کرتا اور نماز وغیرہ کے ذریعہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور ہر حال میں اپنے پروردگار سے تعلق قائم رکھتا ہے۔

۸۴۔   آپ ان سے کہئے کہ: ہر کوئی اپنی طبیعت [۱۰۵] (سوچ) کے مطابق عمل کرتا ہے لہذا تمہارا پروردگار ہی خوب جانتا ہے کہ کون زیادہ سیدھی راہ چل رہا ہے۔

[۱۰۵] شاکلہ کا مفہوم:۔ شاکلۃ کے معنی طور’ طریقہ، ڈھب، ڈھنگ، یعنی ہر انسان اپنی افتاد طبع کے مطابق کام کرتا ہے۔ مثلاً ایک شخص صدقہ علانیہ دیتا ہے اور اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو اور دوسرا صدقہ پوشیدہ طور پر دیتا ہے اور اس کا مقصود یہ ہے کہ نمائش نہ ہو۔ اب دیکھئے نیت دونوں کی بخیر ہے لیکن طریقہ اور انداز فکر الگ الگ ہے۔ یا مثلاً رسول اللہﷺ رات کو نکلے اور دیکھا کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نماز میں آہستہ آواز سے قرآن پڑھ رہے ہیں۔ پوچھا اتنا آہستہ کیوں پڑھتے ہو؟ عرض کیا، اس لیے کہ میرا رب بہرا نہیں ہے کہ چلا کر پڑھوں۔ آگے گئے تو دیکھا کہ سیدنا عمرؓ بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے ہیں۔ پوچھا اتنی بلند آواز سے کیوں پڑ رہے ہو؟ عرض کیا ’’سونے والوں کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں‘‘ تو آپﷺ نے دونوں کی تحسین فرمائی۔ اس واقعہ میں عمل ایک ہی ہے نیت بھی دونوں کی بخیر ہے۔ لیکن سوچ کا انداز الگ الگ ہے۔ یہی شاکلۃ کا مفہوم ہے۔ اسی لحاظ سے بعض علماء نے اس لفظ سے مراد ہی ’’نیت‘‘ لی ہے۔

۸۵۔   لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ ’’روح میرے پروردگار کا حکم [۱۰۶] ہے اور تمہیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے‘‘

[۱۰۶] روح سے مراد وحی الٰہی ہے:۔ اس آیت کے شان نزول کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمایئے: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ ایک کھیت میں جا رہا تھا۔ آپﷺ کھجور کی ایک چھڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اتنے میں چند یہودی سامنے سے گزرے اور آپس میں کہنے لگے ‘اس پیغمبر سے پوچھو کہ روح کیا چیز ہے ‘ کسی نے کہا، کیوں ایسی کیا ضرورت ہے؟ اور کسی نے کہا، ممکن ہے وہ تمہیں کوئی ایسی بات کہہ دے جو تمہیں ناگوار گزرے۔ آخر یہ یہی طے ہوا کہ پوچھو تو سہی۔ چنانچہ انہوں نے آپﷺ سے پوچھا، روح کیا چیز ہے؟ آپﷺ (تھوڑی دیر) خاموش رہے اور انھیں کچھ جواب نہ دیا۔ میں سمجھ گیا کہ آپﷺ پر وحی آنے لگی ہے اور اپنی جگہ کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپﷺ نے یہ آیت پڑھی۔

﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ۔۔ قلیلا تک (بخاری، کتاب التفسیر۔ نیز کتاب العلم۔ باب وما اوتیتم من العلم الاقلیلا)

اور ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں ’یہود یہ کہتے تھے کہ ہمیں بہت علم دیا گیا ہے۔ ہمیں تورات دی گئی اور جسے تورات مل گئی تو اسے بہت بھلائی مل گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی‘ ﴿قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ﴾ تا آخر (سورہ کہف کی آیت نمبر ۱۰۹) (ترمذی۔ ابواب التفسیر) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سورۃ تو مکی ہے اور یہود مدینہ میں رہتے تھے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض مکی سورتوں میں متعدد آیات مدنی بھی موجود ہیں جنہیں مضمون کی مناسبت کے لحاظ سے مکی سورتوں میں مناسب مقام پر رکھا گیا ہے اور ہر سورت کے درمیان آیات کی ترتیب بھی توفیفی ہے یعنی یہ ترتیب بھی وحی الٰہی کے مطابق ہے نیز بعض کتب سیر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال در اصل قریش مکہ نے یہود کے کہنے پر کیا تھا مگر بخاری کی روایت کے واضح الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے۔ وہی توجیہ درست ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ روح اور نفس کا فرق:۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ روح سے مراد کیا ہے؟ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر روح کو ’وحی الٰہی‘ کے معنوں میں استعمال فرمایا ہے۔ بالخصوص اس صورت میں کہ روح کے ساتھ امر کا لفظ بھی موجود ہے جیسے یہاں موجود ہے۔ یا مثلاً فرمایا:

﴿یُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَۃَ بالرُوْحِ مِنْ اَمْرِہِ عَلیٰ مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ﴾ (۱۶: ۲)

نیز فرمایا:

﴿یُلْقِیْ الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ﴾ (۴۰: ۱۵)

نیز فرمایا:

﴿وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِنْ اَمْرِنَا﴾ (۴۲: ۵۲)

لہٰذا یہاں بھی روح سے مراد وحی الٰہی ہی ہے یا وحی لانے والا فرشتہ اور اس فرشتہ یعنی جبریل کو روح الامین بھی کہا گیا ہے۔ اور سیاق و سباق سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے اس آیت سے پہلے کی آیت میں بھی وحی الٰہی کا ذکر ہے اور بعد والی آیت میں بھی بالفاظ دیگر یہود کا در اصل سوال یہ تھا کہ وحی الٰہی کی کیفیت کیا ہے اور حصول قرآن کا اصل ماخذ کیا ہے اور وحی لانے والے کی ماہیت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب انھیں یہ دیا گیا کہ تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ اتنا قلیل ہے کہ ان حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ بعض علماء نے یہاں روح سے مراد ‘جان’ لی ہے۔ جو ہر جاندار کے جسم میں موجود ہوتی ہے اور جب تک وہ جسم میں موجود رہے جاندار زندہ ہوتا ہے اور اس کے نکلنے سے مر جاتا ہے۔ اس مراد سے انکار بھی مشکل ہے۔ کیونکہ انسان خواہ کتنے فلسفے بکھیرے اس روح کی حقیقت کو بھی جاننے سے قاصر ہی رہا ہے۔ علاوہ ازیں جس طرح انسان کی اخلاقی اور روحانی زندگی کا دار و مدار وحی الٰہی پر ہے اسی طرح جسمانی زندگی کا دار و مدار روح پر ہے تاہم ربط مضمون کے لحاظ سے پہلی توجیہ ہی بہتر ہے کیونکہ اس کی تائید بہت سی دوسری آیات سے بھی ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت کے وقت فرشتے جو روح نکالنے آتے ہیں۔ اس کے لیے قرآن نے روح کی بجائے نفس کا لفظ استعمال کیا ہے جیسے فرمایا اخرجوا انفسکم (۶: ۹۳) اور بعض یہ کہتے ہیں کہ روح پر لفظ نفس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب وہ بدن میں موجود ہو اور جب نکل جائے تو اسے روح کہتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

۸۶۔   اور جو کچھ ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے اگر ہم چاہیں تو اسے لے جائیں پھر ہمارے مقابلے میں آپ کو کوئی (ایسا) مددگار [۱۰۷] نہ ملے گا۔ (جو اسے واپس لا سکے)

[۱۰۷] وحی کے بتدریج نزول میں آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے: اس آیت کا تعلق در اصل سابقہ مضمون سے ہے جو کفار مکہ نے سمجھوتہ کی ایک شکل یہ پیش کی تھی کہ اگر آپ ان آیات کی تلاوت چھوڑ دیں جن میں ہمارے معبودوں کی توہین ہوتی ہے تو ہم آپ کے مطیع بن جائیں گے۔ اس آیت میں در اصل وحی الٰہی کی اہمیت مذکور ہوئی ہے کہ اس وحی الٰہی کی ہی تو برکت ہے کہ دن بدن دعوت اسلام پھیلتی جا رہی ہے اور اس وحی کے ذریعہ آپ کو اور صحابہ کو صبر اور ثابت قدمی میسر آ رہی ہے۔ اگر ہم اس نازل کردہ وحی میں سے کچھ حصہ آپ کو بھلا دیں تو آپﷺ کو اللہ کی مدد اور نصرت جو پہنچ رہی ہے وہ منقطع ہو سکتی ہے اور اندریں صورت تمہیں سنبھالا دینے والی کوئی طاقت نہ ہو گی۔ یہ تو آپ پر اللہ کی بہت مہربانی ہے کہ آپ پر وحی اس انداز اور اس تدریج کے ساتھ حالات کے مطابق نازل ہو رہی ہے جس سے اسلام کی سربلندی کے لیے اسباب از خود پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳ پر حاشیہ نمبر ۲۷ ملاحظہ فرمائیے)

۸۷۔   الا یہ کہ آپ کا پروردگار ہی مہربانی فرما دے کیونکہ آپ پر اس کا بہت بڑا فضل ہے۔

۸۸۔   آپ ان سے کہئے کہ: اگر تمام انسان اور جن سب مل کر قرآن جیسی کوئی چیز بنا لائیں تو نہ لا سکیں گے خواہ وہ سب ایک دوسرے [۱۰۸] کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔

[۱۰۸] یہ چیلنج پہلے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳، ۲۴۔ سورۃ یونس کی آیت نمبر ۳۷، ۳۸، سورۃ ہود کی آیت نمبر ۱۳، ۱۴، میں بھی مذکور ہے۔

۸۹۔   ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ہر طرح کی مثال کو مختلف طریقوں [۱۰۹] سے بیان کیا ہے مگر اکثر لوگوں نے اسے تسلیم نہ کیا پس کفر ہی کرتے گئے۔

[۱۰۹] قرآن میں کون کون سے موضوعات پر دلائل دیئے گئے ہیں؟ اس قرآن میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر، روز آخرت اور قیامت کے واقع ہونے پر، جزاء و سزا کی معقولیت پر، رسول اللہﷺ کی نبوت پر، شرک کی تردید پر، من گھڑت معبودوں کی بے چارگی اور احتیاج پر، نافرمان اقوام سابقہ کے انجام پر مختلف پیراؤں میں دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ اور دلائل ایسے ہیں جنہیں سب لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ اور خارجی کائنات اور اپنی اندر کی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں۔ اور ہر جگہ نئے اور اچھوتے طرز استدلال کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں اور وہ اتنی کثیر تعداد میں ہیں جو ایک طالب ہدایت کے لیے بہت کافی ہیں مگر ان لوگوں نے ایسی ضد اور ہٹ دھرمی کی راہ اختیار کر لی ہے کہ ہر دلیل سے یہ الٹا ہی اثر لیتے ہیں۔ اس طرح ان کے کفر میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔

۹۰۔   اور کہنے لگے: ہم اس وقت تک آپ پر ایمان نہ لائیں گے جب تک آپ ہمارے لئے زمین سے چشمہ نہ جاری کر دیں۔

۹۱۔   یا آپ کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو تو آپ اس میں جا بجا نہریں بہا دیں۔

۹۲۔   یا آپ آسمان کو ٹکرے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں جیسے آپ کا دعویٰ ہے یا اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئیں۔

۹۳۔   یا آپ کے لئے سونے کا کوئی گھر ہو یا آپ آسمان میں چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہ مانیں گے تا آنکہ آپ ہم پر کتاب [۱۱۰] نازل کریں جس کو ہم پڑھ لیں۔ آپ ان سے کہئے: پاک ہے میرا پروردگار! میں تو محض ایک انسان [۱۱۱] ہوں پیغام پہچانے والا۔

[۱۱۰] وہ حسی معجزے جن کا کفار مکہ مطالبہ کیا کرتے تھے:۔ ان آیات میں کفار مکہ کے ان مطالبات کو یک جا بیان کیا جا رہا ہے جو وہ وقتاً فوقتاً نبوت کی دلیل پر حسی معجزہ کی صورت میں مطالبہ کرتے رہے تھے۔ وہ اس قسم کے مطالبہ کرنے میں قطعاً حق بجانب نہیں تھے کیونکہ کئی معجزات وہ ایسے دیکھ چکے تھے جو آپﷺ کی نبوت پر واضح دلائل تھے مثلاً بار بار کے چیلنج کے باوجود وہ قرآن جیسا کلام نہ پیش کر سکے تھے۔ چاند پھٹنے کا واقعہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا۔ واقعہ اسراء کے سلسلہ میں بیت المقدس کی ساخت پر وہ سوال و جواب کر چکے تھے۔ یہ سب باتیں ان کے قلبی اطمینان کے لیے کافی تھیں۔ مگر ”خوئے بدرا بہا نہ بسیار” کے مصداق وہ نئے سے نئے مطالبے کرتے ہی رہتے تھے جن میں سے چند ایک یہ تھے کہ آپ یہاں پانی کے چشمے بہا دیں تاکہ ہمارے لیے پانی کی قلت دور ہو نیز یہاں سے پہاڑوں کو دور ہٹا دیں تاکہ ہمیں رہنے کو کچھ میدان میسر آئے اور اس میں کھیتی اور کھجوریں اور انگور کے باغ پیدا ہوں یا جیسے ہمیں دھمکی دیتے رہتے ہو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو۔ جس سے نہ ہم رہیں اور نہ تم اور یہ روز روز کی تکرار ختم ہو جائے۔ یا جس فرشتے کے متعلق کہتے ہو کہ وہ مجھ پر نازل ہوتا ہے کم از کم ہم اسے ہی دیکھ لیں یا اگر تم ہمارا بھلا نہ کر سکو تو تمہارا اپنا ہی گھر سونے کا یا سنہرا بن جائے یا ہمارے سامنے تم آسمان کی طرف چڑھو اور جب اترو تو تمہارے ہاتھوں میں ہماری طرف ایک کتاب ہونا چاہیے۔ جس میں ہمیں خطاب کیا گیا ہو کہ ’’یہ واقعی نبی ہے اور اس پر ایمان لے آؤ‘‘ تو تب ہی ہم تمہاری نبوت پر ایمان لا سکتے ہیں۔

[۱۱۱] مطالبات کا جواب:۔ کفار مکہ کے ان سب اوٹ پٹانگ قسم کے سب مطالبات کا اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر سے جملہ میں جواب دے دیا ہے یعنی آپﷺ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ میں نے تم سے یہ کب کہا تھا کہ میں خدائی اختیارات کا مالک اور قادر مطلق ہوں ایسے سب کام تو اللہ تعالیٰ کے اختیار اور قبضۂ قدرت میں ہیں۔ اگر میں نے تمہارے سامنے اپنی خدائی کا دعویٰ کیا ہوتا تو تم مجھ سے ایسے مطالبے پیش کرنے میں حق بجانب تھے مگر میں تو صرف یہ دعویٰ کر رہا ہوں کہ میں تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول اور پیغامبر ضرور بنایا ہے۔ اگر تم نے میرا امتحان لینا ہے تو اس پیغام کو جانچو، میری صداقت کو پرکھو، میری سابقہ زندگی تمہارے سامنے ہے، مجھ میں جو عیب نظر آتا ہے اس کی نشان دہی کرو۔ آخر تمہارے ان مطالبات کا میرے دعوئے رسالت سے کیا تعلق ہے؟

۹۴۔   لوگوں کے پاس ہدایت آ جانے کے بعد انھیں ایمان لانے سے صرف یہ بات روکتی ہے جو وہ کہتے ہیں کہ: ’’کیا اللہ نے انسان کو رسول [۱۱۲] بنا کر بھیجا ہے؟‘‘

[۱۱۲] بشریت کی وجہ سے رسالت اور رسالت کی وجہ سے بشریت کا انکار:۔ انبیاء و رسل کے مخالفین کا ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ چونکہ یہ رسول ہماری طرح کا ہی انسان ہے، ہماری طرح ہی کھاتا پیتا، چلتا پھرتا، شادی کرتا اور صاحب اولاد ہے جو احتیاجات ہمیں لاحق ہیں وہ اسے بھی لاحق ہیں۔ پھر یہ نبی کیسے ہو سکتا ہے؟ گویا کافر اس وجہ سے انبیاء کی نبوت کا انکار کرتے تھے کہ وہ بشر ہیں۔ پھر بعد میں انہی نبیوں کی امت میں سے ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے فرط عقیدت سے ان کی نبوت و رسالت کو تو ان کی حد سے متجاوز تسلیم کیا مگر ان کی بشریت سے انکار کر دیا۔ پھر کسی نے اپنے نبی کو خدا کا درجہ دے دیا۔ کسی نے خدا کے بیٹے کا اور کسی نے یوں کہا کہ خدا اس میں حلول کر گیا ہے گویا ان دونوں انتہا پسندوں کی نظر میں بشریت اور رسالت کا ایک ذات میں جمع ہونا نا ممکن ہی بنا رہا۔ کافروں نے بشریت کی وجہ سے رسالت کا انکار کیا اور فرط عقیدت رکھنے والوں نے رسالت کی وجہ سے بشریت کا انکار کر دیا۔

۹۵۔   آپ ان سے کہئے کہ: اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم آسمان سے ان کے لئے کوئی فرشتہ [۱۱۳] ہی رسول بنا کر بھیجتے۔

[۱۱۳] رسول کا بشر ہونا کیوں ضروری ہے؟ چونکہ دنیا میں انسان آباد ہیں لہٰذا ان کے لیے رسول بھی انسان ہی ہونا چاہئے۔ وجہ یہ ہے کہ رسول کا کام اتنا ہی نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کا پیغام پہنچا دے یا اس پیغام کی تشریح و توضیح کر دے۔ بلکہ یہ کام بھی ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ احکام پر عمل کر کے دکھائے اور امت کو ایک عملی نمونہ بھی پیش کرے۔ اب فرض کیجئے ایک فرشتہ رسول بن کر آتا اور آدمی کی شکل میں آتا، وہ اللہ کا پیغام پہنچاتا اور ان احکام پر عمل کر کے بھی دکھلا دیتا۔ تو لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ یہ عملی نمونہ دکھانے والا تو فرشتہ تھا۔ اس میں نہ بشری کمزوریاں پائی جاتی تھیں نہ اسے بشری ضروریات کی احتیاج تھی۔ لہٰذا ہم اس فرشتے جیسے کام کیسے کر سکتے ہیں اور وہ ہمارے لیے نمونہ کیسے بن سکتا ہے۔ مزہ تو جب تھا کہ وہ ہماری طرح کا انسان ہوتا پھر ان احکامات پر عمل کر کے دکھاتا۔ (نیز اس سلسلہ میں سورۃ انعام کی آیت نمبر ۷ تا ۹ کے حواشی بھی ملاحظہ فرما لیجئے)

۹۶۔   آپ ان سے کہئے کہ: میرے اور تمہارے درمیان بس اللہ کی گواہی کافی [۱۱۴] ہے۔ وہ یقیناً اپنے بندوں سے با خبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔

[۱۱۴] یعنی وہ خوب دیکھ رہا ہے کہ میں نے تم لوگوں تک اس کا پیغام پہنچا دیا ہے یا نہیں؟ یا منزل من اللہ احکام پر پوری طرح عمل پیرا ہوں یا نہیں اور تم جو اللہ کے پیغام کی مخالفت میں سر توڑ کوششیں کر رہے ہو وہ انھیں بھی خوب دیکھ رہا ہے۔

۹۷۔   جسے اللہ ہدایت دے دے وہی ہدایت پا سکتا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تو ایسے لوگوں کے لئے اللہ کے سوا آپ کوئی مددگار نہ پائیں گے اور قیامت کے دن ہم انھیں اوندھے منہ اندھے [۱۱۵]، گونگے اور بہرے (بنا کر) اٹھائیں گے۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جب بھی اس کی آگ بجھنے لگی گی ہم اسے ان پر اور بھڑکا دیں گے۔

[۱۱۵] اعمال اور ان کے بدلہ میں مماثلت:۔ انسان کے اعمال اور ان اعمال کی جزاء و سزا میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے اور یہی مماثلت قیامت کے دن اپنا اصل روپ دھار لے گی۔ مثلاً جن لوگوں نے اس دنیا میں سیدھی راہ کے بجائے غلط راستے اختیار کیے اور راست روی کے بجائے الٹی چال چلتے رہے انھیں وہاں بھی الٹی چال چلایا جائے گا۔ اس دنیا میں وہ پاؤں کے بل چلتے تھے قیامت کے دن انھیں چہروں کے بل چلا کر پیش کیا جائے گا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے پوچھا ’’یا رسول اللہﷺ! یہ کیسے ہو گا؟‘‘ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ اگر پاؤں کے بل چلا سکتا ہے تو وہ چہروں کے بل بھی چلانے پر قادر ہے‘‘

(بخاری، کتاب الرقاق باب، کیف الحشر)

اسی طرح جن لوگوں نے اس دنیا میں حق بات کو سننا بھی گوارا نہ کیا ہو گا وہ وہاں فی الواقع بہرے بنا دیئے جائیں گے اور جن لوگوں نے زبان سے حق بات کہنے یا اس کی شہادت دینے سے انکار کیا تھا وہ اس کی سزا میں گونگے بنا دیئے جائیں گے اور جن لوگوں نے کائنات میں بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں کو دیکھنے اور ان میں غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی تھی وہاں انھیں اس جرم کی پاداش میں انھیں اندھا کر دیا جائے گا۔ پھر اس حال میں انھیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور انھیں ایسا مسلسل اور دائمی عذاب ہو گا جس میں نہ کمی واقع ہو گی اور نہ کوئی وقفہ پڑے گا۔

۹۸۔   یہ ان کا بدلہ ہے کیونکہ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا کہ  : ’’جب ہم، ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا از سر نو پیدا [۱۱۶] کر کے اٹھائے جائیں گے؟‘‘

[۱۱۶] انسان محیر العقول عادی باتوں پر غور نہیں کرتا اور واقع ہو جانے والی باتوں کا انکار کر دیتا ہے:۔ انسان کی عادت ہے کہ کوئی بات خواہ کتنی ہی محیرالعقول ہو جب وہ عادت بن جائے تو اس میں غور کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ مثلاً سب سے زیادہ محیر العقول اس کا اپنا جسم ہے جو ہمہ وقت ایک آٹومیٹک مشین کی طرح کام کر رہا ہے جب سے وہ پیدا ہوا اس وقت سے اس کا دل حرکت کر رہا ہے اور مرتے دم تک حرکت کرتا رہے گا۔ اس میں ایک لمحہ وقفہ نہیں ہوتا اور جب وقفہ پڑے گا تو موت واقع ہو جائے گی۔ اسی طرح اس کے پھیپھڑے، معدہ، جگر، گردے سب اپنا اپنا کام اس طرح کر رہے ہیں کہ اسے کسی بات کی خبر نہیں ہوتی کہ اس کے اندر کیا کچھ ہو رہا ہے۔ وہ غذا کھاتا ہے تو از خود اس سے خون بنانے والی مشین اس کے اندر نصب ہے اسے خون میں تبدیل کرنا شروع کر دیتی ہے اور جو فضلہ بچتا ہے تو طبیعت خود اسے مجبور کر دیتی ہے کہ رفع حاجت کرے اور یہی خون اس کی زندگی کا سہارا ہے پھر اسی غذا کے ملغوبہ سے مادہ کے اندر دودھ بھی بنتا ہے پھر انسان کی تربیت اس کے دیکھنے کا نظام، اس کے سننے، اس کی نیند، نیند میں انسان کے گھسے ہوئے ذرات کی جگہ نئے ذرات پیدا ہونے کا نظام اللہ تعالیٰ کے ایسے ہی محیرالعقول کارنامے ہیں۔ لیکن ان میں انسان نے کبھی غور کرنا گوارا نہیں کیا دوسری طرف اس کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی محیر العقول بات اسے بتائی جائے کہ وہ مستقبل میں واقع ہو گی تو فوراً اس کا انکار کر دیتا ہے اور ایسی بات کہنے والے کو دیوانہ کہنا شروع کر دیتا ہے مثلاً دور نبویﷺ میں اگر کوئی شخص یہ بات کہہ دیتا کہ ایک وقت آنے والا ہے جب ایک انسان دنیا کے ایک کنارے پر ہو گا اور دوسرا دوسرے کنارے پر اور وہ آپس میں بات چیت کریں گے تو یقیناً ایسے شخص کو دیوانہ کہہ دیا جاتا یا اسی طرح اگر کوئی یہ کہتا کہ ایک سواری پیدا ہو گی جو ہزاروں من بوجھ اٹھائے ہوا میں بڑی تیزی سے اڑا کرے گی تو ایسی بات کا سب لوگ انکار کر دیتے۔ مگر آج جب ٹیلیفون اور ہوائی جہاز پیدا ہو گئے ہیں اور انسان کی عادت میں شامل ہو گئے ہیں تو اب ان کو تو تسلیم کرنے لگا ہے۔ مگر مستقبل کے متعلق اگر اب بھی کوئی محیرالعقول بات کہی جائے تو فوراً انکار کر دے گا۔ بالکل ایسی ہی بات دوبارہ پیدا ہونے کی ہے۔ حالانکہ اگر وہ صرف اپنے جسم کی اندرونی ساخت پر ہی غور کر لیتا بلکہ کسی چھوٹے سے چھوٹے جانور کے جسم کی ساخت پر غور کر لیتا تو اسے معلوم ہو سکتا تھا کہ جو خالق ایسی محیرالعقول مشینری بنانے پر قادر ہے وہ اس کے ذرات کو اکٹھا بھی کر سکتی ہے اور اس میں روح پھونک کر دوبارہ اٹھا کر کھڑا بھی کر سکتی ہے۔

۹۹۔   کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا وہ اس بات پر قادر ہے کہ ان جیسے (پھر) پیدا کر دے۔ اس نے ان کے لئے ایک مدت مقرر کر رکھی [۱۱۷] ہے جس میں کوئی شک نہیں، مگر ظالم اسے ماننے والے نہیں بس کفر ہی کرتے جاتے ہیں۔

[۱۱۷] دوبارہ زندگی کا موسم:۔ مشرکین مکہ کا یہ اعتراض تھا کہ ہزاروں برس گزر چکے جو مر گیا ان میں سے کوئی دوبارہ زندہ ہو کر تو آیا نہیں۔ پھر دوبارہ زندگی کیسے ممکن ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ہر کام کے لیے ایک مقر رہ وقت ہوتا ہے وہ اسی وقت ہی ہوتا ہے۔ گندم کا بیج آپ زمین میں پھینک دیں۔ مگر وہ اگے گا اسی وقت جب اس کے اگنے کا موسم آئے گا۔ اسی طرح انسانوں کے اگنے کا وقت یا موسم نفخہ صور ثانی ہے۔ جب صور پھونکا جائے گا تو تم سب ایک طبعی عمل کے تحت زمین سے اگ آؤ گے۔

۱۰۰۔   آپ ان سے کہئے کہ: ’’اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانوں کے مالک تم ہوتے تو ان کے خرچ ہو جانے کے اندیشہ سے سب کچھ اپنے پاس ہی رہنے [۱۱۸] دیتے۔ واقعی انسان بہت تنگ دل ہے۔

[۱۱۸] کفار مکہ کی تنگ نظری اور انسان کی فطرت:۔ قریشی سردار جو آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے تھے تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ آپ کو جھوٹا سمجھتے تھے اور نہ یہ تھی کہ انھیں دعوت دین کے دلائل کی سمجھ نہیں آتی تھی بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ تھی کہ اگر وہ اسلام قبول کر لیتے تو ان کی سرداریاں اور چودھراہٹیں انھیں چھنتی نظر آ رہی تھیں۔ اور انھیں پیغمبر اسلام کے تابع ہو کر رہنا پڑتا تھا۔ نیز اگر اسلام پھیل جاتا تو انھیں کعبہ کی تولیت کی وجہ سے عرب بھر میں جو عزت اور وقار حاصل تھا وہ بھی ان سے چھنتا نظر آ رہا تھا۔ لہٰذا ان کی انتہائی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسلام کا خاتمہ ہی کر دیا جائے اور حقیقتاً انسان ایسا ہی بخیل واقع ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے مقابلے پر سر نہ نکالے۔ اسی بات کو واضح کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ اگر ان کے پاس زمین بھر کے خزانے بھی ہوں تو ان کا یہ حال ہے کہ وہ کسی کو پھوٹی کوڑی نہ دیں۔ مبادا کہ وہ کسی وقت ان کے مقابلہ پر آ جائے۔ یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ ہر طرح کے خزانے اسی کے پاس ہیں اور جس کسی پر جس طرح کا چاہے فضل کرتا رہتا ہے۔

۱۰۱۔   ہم نے موسیٰ [۱۱۹] کو تو واضح آیات دی تھیں تو بنی اسرائیل سے پوچھ لیجئے کہ جب موسیٰ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا : ’’موسیٰ! میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تجھ پر جادو [۱۲۰] کر دیا گیا ہے۔‘‘

[۱۱۹] سیدنا موسیٰؑ کے نو معجزات:۔ یہ نو واضح آیات یا معجزے قرآن کریم میں سورۃ اعراف میں مذکور ہیں اور یہ ہیں عصائے موسیٰ، ید بیضا، بھری مجلس  میں بر سر عام جادوگروں کی شکست، سارے ملک میں قحط واقع ہونا، یکے بعد دیگر طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں، اور خون کی بلاؤں کا نازل ہونا۔ یہ ایسے واضح معجزات تھے جو سیدنا موسیٰؑ کی نبوت پر بھی واضح دلائل تھے اور ان کے قلبی اطمینان کے لیے بھی کافی تھے لیکن وہ پھر بھی ایمان نہ لائے اس کی وجہ بھی وہی ہے جو اوپر کے حاشیہ میں مذکور ہوئی ہے۔ قریش کا بھی یہی حال تھا۔ کچھ معجزات تو وہ دیکھ چکے تھے مگر ایمان نہ لائے تھے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر ان کے مطلوبہ معجزات دکھلا بھی دیئے جائیں تو یہ بھی فرعونیوں کی طرح ایمان لانے کی طرف کبھی نہ آئیں گے۔ علاوہ ازیں ان نو واضح آیات سے متعلق ترمذی میں ایک حدیث ہے جو درج ذیل ہے: صفوان بن عسال مرادی سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے دوسرے سے کہا ’’آؤ اس نبی کے پاس چلیں اور اس سے کچھ پوچھیں‘‘ وہ کہنے لگا ’’اسے نبی نہ کہو، اگر اس نے یہ بات سن لی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں گی‘‘ چنانچہ وہ دونوں آپﷺ کے پاس آئے اور پوچھا کہ ’’موسیٰؑ کو کون سی نو واضح آیات دی گئی تھیں؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، زنا نہ کرو، جس جان کو اللہ نے مارنا حرام قرار دیا ہے اسے ناحق نہ مارو، چوری نہ کرو، جادو نہ کرو، کسی بے قصور کو سلطان کے ہاں نہ لے جاؤ کہ وہ اسے مار ڈالے، کسی پاکدامنہ پر تہمت نہ لگاؤ، جنگ سے فرار نہ کرو۔ راوی شعبہ کو شک ہے کہ نویں بات آپﷺ نے یہ کہی کہ اے یہود! نویں بات خالصتاً تمہارے لیے ہے کہ ہفتہ کے دن میں زیادتی نہ کرو‘‘ وہ کہنے لگے ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپﷺ اللہ کے نبی ہیں‘‘ آپﷺ نے پوچھا ’’پھر کون سی چیز تمہارے اسلام لانے میں مانع ہے؟‘‘ کہنے لگے ’’داؤدؑ نے دعا کی تھی کہ نبی انہی کی اولاد سے ہو۔ نیز ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہو گئے تو یہود ہمیں مار ڈالیں گے‘‘ (ترمذی ابواب التفسیر) اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے راوی عبد اللہ بن مسلمہ کی وجہ سے مجروح قرار دیا ہے اور تطبیق کی یہ صورت پیش کی ہے کہ شاید یہود نے ان احکام عشرہ کے متعلق پوچھا ہو جو تورات کے شروع میں بطور وصایا لکھے جاتے تھے۔

[۱۲۰] فرعون کی نظروں میں سیدنا موسیٰؑ کی سحر زدگی یا دیوانگی یہ تھی کہ آپ نے اس سے برملا بنی اسرائیل کی آزادی اور انھیں اپنے ہمراہ بھیجنے کا مطالبہ کر دیا۔ کیونکہ وہ خود کو ایسا شہنشاہ سمجھتا تھا جو اپنی تمام رعایا کے سیاہ و سپید کا مالک بنا بیٹھا تھا اور از راہ تکبر سیدنا موسیٰؑ کے دعوئے نبوت اور اس مطالبہ کو دیوانگی پر محمول کرتا تھا اور بعض لوگوں نے یہاں مسحور سے مراد ساحر لیا ہے جیسا کہ فرعون اپنی رعایا کو یہی یقین دلانا چاہتا تھا۔

۱۰۲۔   موسیٰ نے جواب دیا: تو خوب جانتا ہے کہ ان بصیرت افروز نشانیوں کو اس ہستی نے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے اور اے فرعون! میں تو یہ سمجھتا [۱۲۱] ہوں کہ تو ہلاک ہو کے رہے گا؟۔

[۱۲۱] سیدنا موسیٰؑ نے اسے دھڑ لے سے جواب دیا۔ بات یوں نہیں جو تم مجھے کہہ رہے ہو بلکہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری تباہی کے دن قریب آ گئے ہیں جو اتنے واضح معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لا رہے۔ تمہارے جادوگر تو حقیقت کو سمجھ کر ایمان لا چکے ہیں پھر بھی تمہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ جادو کی شعبدہ بازیوں سے نہ کسی ملک میں کبھی قحط پڑا ہے، نہ پڑ سکتا ہے، پوری قوم پر طرح طرح کے عذاب لانا جادوگروں کی بساط سے باہر ہے۔ ایسے کام صرف وہ ہستی کر سکتی ہے جو قادر مطلق اور مختار کل ہو اور اگر تم یہ سب کچھ دیکھ کر اس ہستی پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تو تمہیں اپنے انجام کی فکر کرنا چاہیئے۔

۱۰۳۔   اب فرعون نے یہ چاہا کہ بنی اسرائیل کو اس ملک سے [۱۲۲] اکھاڑ پھینکے تو ہم نے اسے اور جو اس کے ہمراہ تھے سب کو غرق کر دیا۔

[۱۲۲] فرعون کی بنی اسرائیل کے استیصال کی کوشش اور تعاقب میں غرقابی:۔ فرعون نے بنی اسرائیل پر صرف اس جرم کی پاداش میں کہ وہ سیدنا موسیٰ پر ایمان لانے لگے تھے، طرح طرح کی سختیاں شروع کر دی تھیں نیز اس سزا کو نئے سرے سے نافذ کر دیا جو پہلے اس کے باپ نے نافذ کی تھی۔ یعنی بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے لڑکوں کو قتل کر دیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ باپ فرعون رعمیس کا اس سزا سے یہ مقصد تھا کہ موسیٰؑ اگر پیدا ہوں تو اسی وقت انھیں ختم کر دیا جائے تاکہ اس کی حکومت پر آنچ نہ آنے پائے اور بیٹے فرعون منفتاح نے یہ سزا اس لیے جاری کی کہ بنی اسرائیل کی اس طرح نسل کشی کر کے اس ملک سے ان کا خاتمہ ہی کر دیا جائے اور ان کی عورتوں کو اپنی لونڈیاں بنا لیا جائے۔ مگر ہم نے فرعون اور فرعونیوں کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ وہ بنی اسرائیل کا تعاقب کریں۔ اور ان کا یہی تعاقب در اصل ان کی موت کا بلاوا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اور حیرت انگیز طریقے سے ان سب کو دریا میں غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو ان سے نجات دی۔

۱۰۴۔   اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ اس سرزمین [۱۲۳] میں آباد ہو جاؤ۔ پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آئے گا تو ہم تمہیں اکٹھا کر کے لے آئیں گے۔

[۱۲۳] کفار مکہ اور فرعون کی کرتوتوں اور انجام میں مماثلت:۔ اگرچہ موسیٰؑ کو یہ حکم ہوا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو لے جا کر شام کا علاقہ فتح کریں اور اس میں آباد ہوں اور کچھ عرصہ بعد ایسا ہوا بھی تھا۔ تاہم اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرعون اور فرعونیوں کی تباہی کے بعد بنی اسرائیل ہی کے کچھ لوگ مصر کے علاقے پر بھی قابض ہو گئے تھے اور اس مقام پر اس واقعہ کو مختصراً بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ کفار مکہ بھی مسلمانوں پر ایسے ہی سختیاں کر رہے تھے جیسے آل فرعون بنی اسرائیل پر کرتے تھے لیکن انجام کار ہوا یہ کہ آل فرعون تو تباہ ہو گئے اور بنی اسرائیل ملک پر قابض ہو گئے تھے۔ اور اب چونکہ ان لوگوں نے بھی اپنے عز و جاہ کی خاطر اسلام کا نام و نشان مٹا دینے کا تہیہ کر رکھا ہے تو ان کا وہی حشر ہونے والا ہے جو آل فرعون کا ہوا تھا۔ یہ تو سزا دنیا میں ملے گی اور آخرت میں بھی ایسے لوگ ہمارے عذاب سے بچ کر نہیں جا سکتے۔ ہم ان سب کو اکٹھے کر کے اپنے حضور حاضر کر لیں گے پھر ان کے کرتوتوں کی انھیں پوری پوری سزا دیں گے۔

۱۰۵۔   ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ اتارا ہے اور حق کے ساتھ [۱۲۴] ہی یہ نازل ہوا ہے اور ہم نے آپ کو محض بشارت دینے والا اور ڈرانے والا (بنا کر) بھیجا ہے۔

[۱۲۴] یعنی جن مقاصد کی خاطر ہم نے یہ قرآن جس حق و صداقت کے ساتھ نازل کیا تھا بعینہ اسی حق و صداقت کے ساتھ یہ رسول اللہﷺ کے دل تک پہنچ گیا۔ اس میں کسی طرح کی کمی بیشی نہیں ہوئی نہ اس راہ میں کہیں باطل کی آمیزش ہوئی، نہ ہی اس میں سے کچھ کلام نازل ہونے سے رہ گیا جو کچھ رسول پر نازل ہوا وہ بعینہ وہی کچھ تھا جو ہم نے نازل کیا تھا۔ اب رسول کا کام یہ ہے کہ جو کچھ نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دے۔ اللہ کے فرمانبرداروں کے لیے اس کلام میں جو بشارتیں ہیں ان سے انھیں مطلع کر دے اور سرکشوں کے لیے جو جو عذاب مذکور ہیں ان کے ذریعہ نافرمانوں کو ڈرائے اور انھیں متنبہ کر دے۔

۱۰۶۔   اور ہم نے قرآن کو موقع بہ موقع الگ الگ کر کے نازل [۱۲۵] کیا ہے تاکہ آپ اسے وقفہ وقفہ سے لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور اسے بتدریج تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے۔

[۱۲۵] قرآن کو بتدریج نازل کرنے کے فوائد:۔ مشرکین مکہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر قرآن اللہ کا کلام ہوتا تو یکبارگی نازل ہو جاتا۔ ہو نہ ہو یہ نبی ساتھ ساتھ اسے تصنیف کرتا جاتا ہے اور جیسے حالات ہوں اس کے مطابق لوگوں کو سناتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس قرآن کو موقع بہ موقع اور بتدریج ہم ہی نے اتارا ہے اور اس طرح وقفہ وقفہ پر اتارنے میں کئی مصلحتیں اور فوائد ہیں۔ مثلاً یہ کہ لوگوں کو اس کے حفظ کرنے میں آسانی رہے نیز ہر ایک کو معلوم ہو جائے کہ فلاں آیت کس موقع پر نازل ہوئی تھی اور اس کا صحیح مفہوم کیا ہے نیز یہ کہ لوگوں کو اس کے اوامر پر عمل کرنے اور نواہی سے اجتناب کرنے میں آسانی رہے اور اگر یکدم ہی ان پر سب اوامر و نواہی نازل کر دیتے تو سب انکار کر دیتے اور کوئی ان کو اپنے آپ پر نافذ کرنے کی ہمت نہ پاتا۔ نیز یہ کہ اس طرح مختلف اوقات پر آیات نازل کرنے سے مومنوں کا ایمان زیادہ ہوتا رہتا ہے اور پختہ تر بنتا جاتا ہے ان میں مصائب کو برداشت کرنے کی قوت اور استقلال پیدا ہوتا ہے اور یہ سب فوائد اسی صورت میں حاصل ہو سکتے تھے کہ قرآن وقفہ وقفہ سے نازل ہوتا اور اوامر و نواہی میں تدریج کو ملحوظ رکھا جاتا۔

۱۰۷۔   آپ ان سے کہئے: تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، اس [۱۲۶] سے پہلے جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے جب انھیں یہ قرآن پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ تھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔

[۱۲۶] منصف مزاج اہل کتاب کا قرآن اور نبی کی تصدیق کرنا:۔ اے قریش مکہ! تم قرآن کو منزل من اللہ تسلیم کرو یا نہ کرو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سابقہ امتوں میں سے بھی جو لوگ اہل علم اور منصف مزاج ہیں وہ قرآن کے انداز بیان سے ہی یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ واقعی کلام الٰہی ہے کیونکہ اس میں سابقہ آسمانی کتابوں کے طرز بیان سے بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کی آیات سنتے ہیں تو ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور وہ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور انھیں یہ یقین ہو جاتا ہے اور پکار اٹھتے ہیں کہ یہ تو وہی نبی ہے جس کے متعلق تورات و انجیل میں بشارتیں مذکور ہیں اور یہ نبی اللہ کا وہی وعدہ ہے جو اب پورا ہو کے رہا۔

۱۰۸۔   اور پکار اٹھتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا پروردگار۔ یقیناً ہمارے پروردگار کا وعدہ تو پورا ہو کے رہنا ہی تھا۔

۱۰۹۔   اور وہ ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے گر پڑتے [۱۲۷] ہیں اور یہ قرآن ان کے خشوع کو اور بڑھا دیتا ہے

[۱۲۷] اہل کتاب میں بھی کچھ منصف مزاج اور اہل علم موجود تھے جن میں بعض ایمان بھی لے آئے قرآن نے ان کا ذکر خیر کئی مقامات پر کیا ہے مثلاً سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۱۳ تا ۱۱۵ میں اور ۱۹۹ میں نیز سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ۸۲ تا ۸۵ میں۔ علاوہ ازیں مشرکین میں بھی معدودے چند ایسے افراد بعثت نبوی کے دور میں تھے جو شرک سے سخت بیزار تھے۔ علاوہ ازیں شراب اور دوسری معاشرتی برائیوں سے بھی متنفر رہتے تھے اور انبیاء سابقین کی خبروں کی وجہ سے نبی آخر الزمان کے منتظر تھے۔ مثلاً زید بن عمرو بن نفیل، ورقہ بن نوفل، سیدنا ابو بکر صدیق، سلمان فارسی اور ابو ذر غفاری وغیرہ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ ایسے منصف مزاج لوگوں کی خواہ وہ دور جاہلیت کے مشرکانہ معاشرہ سے تعلق رکھتے ہوں یا اہل کتاب سے۔ جب ان کے سامنے قرآن کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو اس کی اثر پذیری کی وجہ سے روتے روتے سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ قرآن کی ایک ایک آیت ان کے ایمان میں اضافہ، پختگی اور اللہ کے حضور خشوع کا سبب بن جاتی ہے ایسے ہی لوگوں کی مطابقت میں علماء نے اس آیت پر سجدہ واجب قرار دیا ہے۔

۱۱۰۔   آپ ان سے کہئے کہ: اللہ (کہہ کر) پکارو یا رحمن [۱۲۸] (کہہ کر) جو نام بھی تم پکارو گے اس کے سب نام ہی اچھے ہیں۔ اور آپ اپنی نماز نہ زیادہ بلند آواز [۱۲۹] سے پڑھئے نہ بالکل پست آواز سے بلکہ ان کے درمیان اوسط درجہ کا لہجہ اختیار کیجئے۔

[۱۲۸] رحمان اللہ کا ذاتی نام ہے قریش کی رحمن سے چڑ، اللہ کے دوسرے صفاتی نام:۔ اللہ کے بعد رحمان بھی اللہ تعالیٰ کا دوسرے نمبر پر ذاتی نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی مخلوق کا جس طرح اللہ نام یا اس کی صفت نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح رحمان بھی کسی مخلوق کا نام یا صفت نہیں ہوتی لیکن اللہ کا یہ نام عرب میں رائج نہ تھا اور اس نام سے انھیں چڑ بھی تھی اور وہ اللہ پر اس نام کا اطلاق کرنے سے بدکتے تھے اور جب آپ کی زبان سے یہ نام سنتے تو کہتے کہ ہمیں تو اللہ کا شریک بنانے سے منع کرتے ہو۔ جبکہ تم نے خود بھی اللہ کے ساتھ رحمان کو بھی الٰہ بنا رکھا ہے۔ ان کے اسی اعتراض کا اس آیت میں جواب دیا گیا ہے کہ اللہ اور رحمن دوالٰہ نہیں بلکہ ایک ہی ذات کے دو نام ہیں۔ تم جونسا چاہو پکار سکتے ہو.۔ بلکہ اللہ کے تو اور بھی بہت سے اچھے صفاتی نام ہیں۔ تم ان سے اللہ کو پکار سکتے ہو اور صحیح احادیث کی رو سے یہ نام ننانوے ہیں۔ اور جو ننانوے نام حدیث میں مذکور ہیں۔ استقصاء سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ اور بھی کئی نام ہیں جو کتاب و سنت میں مذکور ہیں۔ (نیز دیکھئے سورۃ رعد آیت نمبر ۳۰ کا حاشیہ)

[۱۲۹] قرآن کی تلاوت آہستہ جہری آواز سے:۔ اس جملہ کی تفسیر کے لئے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے: سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں: یہ آیت اس وقت اتری جب آپﷺ مکہ میں کافروں سے چھپے رہتے جب آپ صحابہ کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قرآن پڑھتے۔ جب مشرک قرآن سنتے تو قرآن، صاحب قرآن اور قرآن لانے والے (جبرئیل) سب کو برا بھلا کہتے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ نماز میں قرآن بلند آواز سے نہ پڑھئے کہ مشرک قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ اتنی آہستہ پڑھئے کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی راہ اختیار کیجئے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابواب التفسیر) اور سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے باب میں اتری۔ (حوالہ ایضاً)

۱۱۱۔   اور کہہ دیجئے کہ ہر طرح کی تعریف اس اللہ کو سزاوار ہے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور نہ ہی ناتوانی کی وجہ [۱۳۰] سے اس کا کوئی مددگار ہے۔ اور اسی کی خوب خوب بڑائی بیان کیجئے۔

[۱۳۰] کیا اللہ کو کسی اور مددگار کی ضرورت ہے؟ اس آیت میں مشرکین کے اس بنیادی عقیدے کی تردید کی گئی ہے جس کی بنا پر کئی قسم کا شرک رائج ہو گیا ہے۔ اور پھر عقیدہ یہ ہے کہ جس طرح ایک بادشاہ کو اپنا انتظام سلطنت چلانے کے لئے امیروں وزیروں اور کئی طرح کے مددگاران کی احتیاج ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح اللہ کو اتنی بڑی سلطنت کا کاروبار چلانے کے لئے کارکنوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور ہماری یہ دیویاں اور دیوتا، غوث، قطب، ابدال وغیرہ سب اس انتظام کے مختلف شعبے سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ ہے وہ بنیادی گمراہی جس نے بیشمار قسموں کے شرک کو جنم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بے ہودہ عقیدہ کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ نہ اسے اس وقت کسی شریک کی احتیاج ہے اور نہ آئندہ ہو گی کہ وہ کسی کو بیٹا بنا لے جو ناتوانی میں اس کا معاون ثابت ہو۔ اسے تخلیق کائنات کے وقت بھی کسی کو مددگار بنانے کی ضرورت پیش نہیں آئی نہ ہی اس کائنات کا انتظام چلانے کے لئے ضرورت ہے اور نہ ہی ایسی ضرورت آئندہ کبھی پیش آ سکتی ہے۔ وہ ہر ایک کی فریاد پکار براہ راست سنتا ہے، ان کا جواب دیتا اور شرف قبولیت بخشتا ہے۔ اسے درمیانی واسطوں کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ اس کے پاس ہر چیز کے لاتعداد اور غیر محدود خزانے ہیں۔ جن سے وہ ہر وقت اپنی مخلوق کو نوازتا ہے اور جو کچھ بھی اس سے مانگا جائے وہ عطا کرتا ہے۔ بشرطیکہ دعا کے آداب کو ملحوظ رکھا جائے۔ گویا اس آیت میں اہل کتاب، مشرکین مکہ موجودہ دور کے مشرکوں سب کا رد موجود ہے اور جس معبود میں مندرجہ بالا صفات پائی جائیں وہ معبود حقیقی ہو سکتا ہے لہٰذا ہر طرح کی تعریف اسی ذات کو لائق ہے۔ آپ اس کی تعریف کیا کیجئے اور اسی کی بڑائی بیان کیا کیجئے۔ اس سورۃ بنی اسرائیل کی ابتدا سبحان الذی سے ہوئی اور تسبیح سے مراد اللہ کی تمام عیوب اور نقائص یعنی صفات سلبیہ سے تنزیہہ بیان کرنا ہے۔ پھر اس سورۃ کا خاتمہ بھی اس بیان پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ اولاد، شرکاء اور حمایتیوں کی کسی طرح کی بھی مدد کا محتاج نہیں۔ اور یہ فصاحت و بلاغت کے انتہائی کمال کی دلیل ہوتی ہے کہ مضمون کو جس عنوان سے شروع کیا جائے۔ درمیان میں اس کی جملہ تفصیلات بیان کرنے کے بعد اس کا خاتمہ بھی اسی بیان پر کیا جائے جس سے اس کی ابتدا کی گئی تھی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل