FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

ترجمہ قرآن مجید

 

 

حصہ دوم: انفال تا فرقان

 

 

 

               ترجمہ: شیخ محسن علی نجفی

 

 

 

 

 

    سورہ انفال۔ مدنی۔ آیات ۷۵

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔(اے رسول) لوگ آپ سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں ، کہہ دیجیے :یہ انفال اللہ اور رسول کے ہیں ، پس تم لوگ اللہ کا خوف کرو اور باہمی تعلقات مصالحانہ رکھو اور اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔

٢۔ مومن تو صرف وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔

٣۔جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

٤۔ یہی لوگ حقیقی مومن ہیں ، ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات ہیں اور مغفرت اور با عزت روزی ہے۔

٥۔ (انفال کے بارے میں صورت حال ویسے ہی ہے ) جیسے آپ کے رب نے آپ کو حق کے ساتھ گھر سے (جنگ کے لیے )نکالا جبکہ (یہ امر) مومنوں کی ایک جماعت پر سخت گراں گزرا تھا۔

٦۔ حق ظاہر ہو چکنے کے بعد یہ لوگ آپ سے حق کے بارے میں الجھ رہے تھے گویا وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہوں (جس کو) وہ دیکھ رہے ہوں۔

٧۔اور(وہ وقت یاد کرو) جب اللہ تم لوگوں سے وعدہ فرما رہا تھا کہ دو گروہوں میں سے ایک تمہارے ہاتھ آ جائے گا اور تم چاہتے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارے ہاتھ آ جائے جب کہ اللہ چاہتا تھا کہ حق کو اپنے فرامین کے ذریعے ثبات بخشے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔

٨۔تاکہ حق کو ثبات مل جائے اور باطل نابود ہو جائے خواہ مجرموں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

٩۔(یاد کرو)جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری سن لی اور فرمایا: میں یکے بعد دیگرے آنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔

١٠۔ اور اس مدد کو اللہ نے تمہارے لیے صرف بشارت اور اطمینان قلب کا باعث بنایا اور (یہ باور کرا یا کہ) نصرت تو بس اللہ کی جانب سے ہے ، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

١١۔ (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ امن دینے کے لیے تم پر غنودگی طاری کر رہا تھا اور آسمان سے تمہارے لیے پانی برسا رہا تھا تاکہ اس سے تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطانی نجاست دور کرے اور تمہارے دلوں کو مضبوط بنائے اور تمہارے قدم جمائے رکھے۔

١٢۔ (وہ وقت بھی یاد کرو) جب آپ کا رب فرشتوں کو وحی کر رہا تھا کہ تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو میں تمہارے ساتھ ہوں ، عنقریب میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈالوں گا، لہٰذا تم ان کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کی پوروں پر وار کرو۔

١٣۔یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے تو اللہ یقیناً سخت عذاب دینے والا ہے۔

١٤۔یہ ہے تمہاری سزا پس اسے چکھو اور بتحقیق کافروں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔

١٥۔اے ایمان والو! جب میدان جنگ میں کافروں سے تمہارا سامنا ہو جائے تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا۔

١٦۔اور جس نے اس روز اپنی پیٹھ پھیری مگر یہ کہ جنگی چال کے طور پر ہو یا کسی فوجی دستے سے جا ملنے کے لیے تو (کوئی حرج نہیں ورنہ) وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔

١٧۔پس انہیں تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور (اے رسول) جب آپ کنکریاں پھینک رہے تھے اس وقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے کنکریاں پھینکی تھیں تاکہ اپنی طرف سے مومنوں کو بہتر آزمائش ے گزارے بے شک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

١٨۔ یہ تھی تمہاری بات اور رہی کافروں کی بات تو اللہ ان کی مکاری کا زور توڑ دینے والا ہے۔

١٩۔ (کافروں سے کہہ دو کہ) اگر تم فیصلہ چاہتے ہو تو فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا اب اگر تم باز آ جاؤ تو تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم نے (اس جرم کا) اعادہ کیا تو ہم بھی (اس سزا کا)اعادہ کریں گے اور تمہاری جماعت کثیر ہو بھی تو تمہارے کسی کام نہ آئے گی اور اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔

٢٠۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد تم اس سے روگردانی نہ کرو۔

٢١۔اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے یہ تو کہہ دیا کہ ہم نے سن لیا مگر درحقیقت وہ سنتے نہ تھے۔

٢٢۔ اللہ کے نزدیک تمام جانداروں میں بدترین یقیناً وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔

٢٣۔ اور اگر اللہ ان میں بھلائی (کا مادہ) دیکھ لیتا تو انہیں سننے کی توفیق دیتا اور اگر انہیں سنوا دیتا تو وہ بے رخی کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے۔

٢٤۔ اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور یہ بھی کہ تم سب اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔

٢٥۔ اور اس فتنے سے بچو جس کی لپیٹ میں تم میں سے صرف ظلم کرنے والے ہی نہیں بلکہ (سب) آئیں گے اور یہ جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

٢٦۔اور (وہ وقت) یاد کرو جب تم تھوڑے تھے ، تمہیں زمین میں کمزور سمجھا جاتا تھا اور تمہیں خوف رہتا تھا کہ مبادا لوگ تمہیں ناپید کر دیں تو اس نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہیں تقویت پہنچائی اور تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم شکر کرو۔

٢٧۔اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو در حالیکہ تم جانتے ہو۔

٢٨۔اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں اور بے شک اللہ ہی کے ہاں اجر عظیم ہے۔

٢٩۔ اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں ) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا اور تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

٣٠۔ اور (وہ وقت یاد کریں ) جب یہ کفار آپ کے خلاف تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر دیں یا آپ کو نکال دیں وہ اپنی چال سوچ رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔

٣١۔اور جب انہیں ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں : ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو ایسی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں ، یہ تو وہی داستان ہائے پارینہ ہیں۔

٣٢۔ اور (یہ بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا: اے اللہ! اگر یہ بات تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی دردناک عذاب نازل کر۔

٣٣۔اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں اور نہ ہی اللہ انہیں عذاب دینے والا ہے جب وہ استغفار کر رہے ہوں۔

٣٤۔اور اللہ ان پر عذاب نازل کیوں نہ کرے جب کہ وہ مسجد الحرام کا راستہ روکتے ہیں حالانکہ وہ اس مسجد کے متولی نہیں ہیں ؟ اس کے متولی تو صرف تقویٰ والے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٣٥۔اور خانہ کعبہ کے پاس ان کی نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی پس اب اپنے کفر کے بدلے عذاب چکھو۔

٣٦۔جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اپنے اموال (لوگوں کو) راہ خدا سے روکنے کے لیے خرچ کرتے ہیں ، ابھی مزید خرچ کرتے رہیں گے پھر یہی بات ان کے لیے باعث حسرت بنے گی پھر وہ مغلوب ہوں گے اور کفر کرنے والے جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔

٣٧۔ تاکہ اللہ ناپاک کو پاکیزہ سے الگ کر دے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم ملا کر یکجا کر دے پھر اس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے ، (دراصل) یہی لوگ خسارے میں ہیں۔

٣٨۔ کفار سے کہہ دیجیے کہ اگر وہ باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے (ان سے سرزد) ہو چکا اسے معاف کر دیا جائے گا اور اگر انہوں نے (پچھلے جرائم کا) اعادہ کیا تو گزشتہ اقوام کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ (ان کے بارے میں بھی) نافذ ہو گا۔

٣٩۔ اور تم لوگ کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا اللہ کے لیے خاص ہو جائے ، پھر اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ یقیناً ان کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔

٤٠۔اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو جان لو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے ، جو بہترین سرپرست اور بہترین مددگار ہے۔

 

پارہ :واعلموا 10

 

٤١۔ اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور قریب ترین رشتے داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے ، اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے فیصلے کے روز جس دن دونوں لشکر آمنے سامنے ہو گئے تھے اپنے بندے پر نازل کی تھی اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔

٤٢۔(وہ وقت یاد کرو)جب تم قریبی ناکے پر اور وہ دور کے ناکے پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے کی جانب تھا اور اگر تم باہمی مقابلے کا عہد کر چکے ہوتے تب بھی مقررہ وقت میں تم ضرور اختلاف کرتے ، لیکن (جو کچھ ہوا) وہ اس لیے تھا کہ اللہ اس امر کو پورا کرے جس کا فیصلہ کر چکا تھا تاکہ ہلاک ہونے والا واضح دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور زندہ رہنے والا واضح دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور یقیناً اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

٤٣۔ (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے آپ کے خواب میں ان (کافروں کے لشکر کو) تھوڑا دکھلایا اور اگر آپ کو ان کی مقدار زیادہ دکھلاتا تو (اے مسلمانو) تم ہمت ہار جاتے اور اس معاملے میں جھگڑا شروع کر دیتے لیکن اللہ نے (تمہیں ) بچا لیا، بے شک وہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔

٤٤۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم مقابلے پر آ گئے تھے تو اللہ نے کافروں کو تمہاری نظروں میں تھوڑا کر کے دکھایا اور تمہیں بھی کافروں کی نظروں میں تھوڑا کر کے دکھایا تاکہ اللہ کو جو کام کرنا منظور تھا وہ کر ڈالے اور تمام معاملات کی بازگشت اللہ کی طرف ہے۔

٤٥۔ اے ایمان والو! جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

٤٦۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

٤٧۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے نکلے ہیں اور اللہ کا راستہ روکتے ہیں اور اللہ ان کے اعمال پر خوب احاطہ رکھتا ہے۔

٤٨۔اور جب شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے آراستہ کیے اور کہا:آج لوگوں میں سے کوئی تم پر فتح حاصل کر ہی نہیں سکتا اور میں تمہارے ساتھ ہوں ، پھر جب دونوں گروہوں کا مقابلہ ہوا تو وہ الٹے پاؤں بھاگ گیا اور کہنے لگا: میں تم لوگوں سے بیزار ہوں میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے رہے ، میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ یقیناً سخت عذاب دینے والا ہے۔

٤٩۔جب(ادھر)منافقین اور جن کے دلوں میں بیماری تھی، کہ رہے تھے : انہیں تو ان کے دین نے دھوکہ دے رکھا ہے ، جب کہ اگر کوئی اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ یقیناً بڑا غالب آنے والا حکمت والا ہے۔

٥٠۔ اور کاش آپ (اس صورت حال کو) دیکھ لیتے جب فرشتے (مقتول) کافروں کی روحیں قبض کر رہے تھے ، ان کے چہروں اور پشتوں پر ضربیں لگا رہے تھے اور (کہتے جا رہے تھے ) اب جلنے کا عذاب چکھو۔

٥١۔ یہ عذاب تمہارے اپنے ہاتھوں آگے بھیجے ہوئے کا نتیجہ ہے اور یہ کہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

٥٢۔ان کا حال فرعونیوں اور ان سے پہلوں ا سا ہے ، انہوں نے اللہ کی نشانیوں کا انکار کیا تو اللہ نے ان کے گناہوں کے باعث انہیں پکڑ لیا، بیشک اللہ قوت والا، سخت عذاب دینے والا ہے۔

٥٣۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اللہ جو نعمت کسی قوم کو عنایت فرماتا ہے اس وقت تک اسے نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہیں بدلتے اور یہ کہ اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

٥٤۔جیسے فرعون والوں اور ان سے پہلوں کا حال ہے ، انہوں اپنے رب کی نشانیوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کے گناہوں کے سبب انہیں ہلاکت میں ڈال دیا اور فرعونیوں کو غرق کر دیا،کیونکہ وہ سب ظالم تھے۔

٥٥۔ یقیناً اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والوں میں بدترین وہ لوگ ہیں جو کافر ہیں ، پس وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

٥٦۔جس سے آپ نے عہد لیا پھر وہ اپنے عہد کو ہر بار توڑ ڈالتے ہیں اور وہ ڈرتے نہیں ہیں۔

٥٧۔اگر آپ لڑائی میں ان پر غالب آ جائیں تو (انہیں کڑی سزا دے کر) ان کے ذریعے بعد میں آنے والوں کو بھگا دیں اس طرح شاید یہ عبرت حاصل کریں۔

٥٨۔ اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا خوف ہو تو ان کا عہد اسی طرح مسترد کر دیں جیسے انہوں نے کیا ہے ، بیشک اللہ خیانت کاروں کو دوست نہیں رکھتا۔

٥٩۔ کفار یہ خیال نہ کریں کہ وہ بچ نکلے ہیں ، وہ (ہمیں ) عاجز نہ کر سکیں گے۔

٦٠۔ اور ان (کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کو (مستعد) رکھو تاکہ تم اس سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں نیز دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور راہ خدا میں جو کچھ تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا دیا جائے گا اور تم پر زیادتی نہ ہو گی۔

٦١۔اور (اے رسول) اگر وہ صلح و آشتی کی طرف مائل ہو جائیں تو آپ بھی مائل ہو جائیے اور اللہ پر بھروسا کیجیے۔ یقیناً وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

٦٢۔اور اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں تو آپ کے لیے یقیناً اللہ کافی ہے ، وہی تو ہے جس نے اپنی نصرت اور مومنین کے ذریعے آپ کو قوت بخشی ہے۔

٦٣۔اور اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی ہے ، اگر آپ روئے زمین کی ساری دولت خرچ کرتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن اللہ نے ان (کے دلوں ) کو جوڑ دیا، یقیناً اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

٦٤۔اے نبی ! آپ کے لیے اور آپ کی اتباع کرنے والے مومنین کے لیے اللہ کافی ہے۔

٦٥۔ اے نبی ! مومنوں کو جنگ کی ترغیب دیں ، اگر تم میں بیس صابر (جنگجو) ہوں تو وہ دو سو (کافروں ) پر غالب آ جائیں گے اور اگر تم میں سو افراد ہوں تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آ جائیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں ہیں۔

٦٦۔ اب اللہ نے تم لوگوں سے ہلکا کر دیا ہے چونکہ اللہ کو علم ہوا ہے کہ اب تم میں کمزوری آ گئی ہے لہٰذا اب اگر تم میں سو صابر افراد ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں ایک ہزار ہوں تو دو ہزار پر باذن خدا غالب آئیں گے اور اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔

٦٧۔ یہ کسی نبی کے شایان نہیں ہے کہ زمین میں دشمن کو کچل دینے سے پہلے اس کے پاس قیدی ہوں ، تم لوگ دنیاوی مفاد چاہتے ہو جب کہ اللہ (تمہارے لیے ) آخرت چاہتا ہے ، یقیناً اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

٦٨۔ اگر اللہ کی طرف سے ایک بات لکھی نہ جا چکی ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کی تمہیں بڑی سزا ہو جاتی۔

٦٩۔ بہرحال اب تم نے جو مال حاصل کیا ہے اسے حلال اور پاکیزہ طور پر کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٧٠۔اے نبی! جو قیدی تمہارے قبضے میں ہیں ان سے کہہ دیں کہ اگر اللہ کو علم ہوا کہ تمہارے دلوں میں کوئی اچھائی ہے تو جو تم سے (فدیہ میں ) لیا گیا ہے وہ تمہیں اس سے بہتر عطا کرے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٧١۔ اور اگر یہ لوگ آپ سے خیانت کرنا چاہیں تو اس سے پہلے وہ اللہ کے ساتھ خیانت کر چکے ہیں پس اس نے انہیں (آپ کے ) قابو میں کر دیا اور اللہ خوب جاننے والا،حکمت والا ہے۔

٧٢۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور انہوں نے اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے پناہ دی اور مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی تو ان کی ولایت سے تمہارا کو ئی تعلق نہیں ہے جب تک وہ ہجرت نہ کریں ، البتہ اگر انہوں نے دینی معاملے میں تم لوگوں سے مدد مانگی تو ان کی مدد کرنا تم پر اس وقت فرض ہے جب یہ مدد کسی ایسی قوم کے خلاف نہ ہو جن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہے اور اللہ تمہارے اعمال پر خوب نظر رکھتا ہے۔

٧٣۔ اور جنہوں نے کفر کیا ہے وہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں ، اگر تم لوگ اس (دستور) پر عمل نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا۔

٧٤۔اور جو لوگ ایمان لائے اور مہاجرت کی اور راہ خدا میں جہاد کیا نیز جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں ،ان کے لیے مغفرت اور با عزت رزق ہے۔

٧٥۔ اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ہمراہ جہاد کیا وہ بھی تم میں شامل ہیں اور اللہ کی کتاب میں خونی رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ، بے شک اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

 

 

 

    سورہ توبہ۔ مدنی۔آیات ۱۲۹

 

١۔اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے (اعلان) بیزاری ہے ان مشرکوں کی طرف جن سے تمہارا معاہدہ تھا۔

٢۔ پس تم لوگ اس ملک میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔

٣۔اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لیے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بھی مشرکین سے بیزار ہے اور پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ پھیر لو گے تو جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔

٤۔ البتہ جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی قصور نہیں کیا اور نہ ہی تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو ایسے لوگوں کے ساتھ جس مدت کے لیے معاہدہ ہوا ہے اسے پورا کرو، بتحقیق اللہ اہل تقویٰ کو دوست رکھتا ہے۔

٥۔ پس جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو تم جہاں پاؤ قتل کرو اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات پر ان کی تاک میں بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو، بیشک اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٦۔اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دیں تاکہ وہ کلام اللہ کو سن لے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دیں ،ایسا اس لیے ہے کہ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں۔

٧۔ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہد مشرکین کے لیے کیسے ہو سکتا ہے بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد الحرام کے پاس معاہدہ کیا ہے ؟ پس جب تک وہ تمہارے ساتھ(اس عہد پر) قائم رہیں تو تم بھی ان کے ساتھ قائم رہو،یقیناً اللہ اہل تقویٰ کو دوست رکھتا ہے۔

٨۔ (ان سے عہد) کیسے ہو سکتا ہے جب کہ اگر وہ تم پر غلبہ حاصل کر لیں تو وہ نہ تو تمہاری قرابتداری کا لحاظ کریں گے اور نہ عہد کا؟ وہ زبان سے تو تمہیں خوش کر دیتے ہیں مگر ان کے دل انکار پر تلے ہوئے ہیں اور ان میں اکثر لوگ فاسق ہیں۔

٩۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے عوض تھوڑی سی قیمت وصول کر لی ہے پس وہ اللہ کے راستے سے ہٹ گئے ہیں یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں یقیناً وہ بہت برا ہے۔

١٠۔نہ تو یہ کسی مومن کے حق میں قرابتداری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ عہد کا اور یہی لوگ زیادتی کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔

١١۔ پس اگر یہ لوگ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور علم رکھنے والوں کے لیے ہم آیات کو واضح کر کے بیان کرتے ہیں۔

١٢۔ اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ لوگ اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین کی عیب جوئی کرنے لگ جائیں تو کفر کے اماموں سے جنگ کرو، کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں شاید وہ باز آ جائیں۔

١٣۔ کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جو اپنی قسمیں توڑ دیتے ہیں اور جنہوں نے رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا ؟ پہلی بار تم سے زیادتی میں پہل بھی انہوں نے کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔

١٤۔ ان سے لڑو تاکہ تمہارے ہاتھوں اللہ انہیں عذاب دے اور انہیں رسوا کرے اور ان پر تمہیں فتح دے اور مومنین کے دلوں کو ٹھنڈا کرے۔

١٥۔ اور ان کے دلوں کا غصہ نکالے اور اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔

١٦۔ کیا تم لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے ؟حالانکہ اللہ نے ابھی یہ بھی نہیں دیکھا ہے کہ تم میں سے کس نے جہاد کیا اور کس نے اللہ ، اس کے رسول اور مومنین کے سوا کسی اور کو اپنا بھیدی نہیں بنایا اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

١٧۔ مشرکین کو یہ حق حاصل نہیں کہ اللہ کی مساجد کو آباد کریں در حالیکہ وہ خود اپنے کفر کی شہادت دے رہے ہیں ، ان لوگوں کے اعمال برباد ہو گئے اور وہ آتش میں ہمیشہ رہیں گے۔

١٨۔اللہ کی مسجدوں کو صرف وہی لوگ آباد کر سکتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور نماز قائم کرتے ہوں نیز زکوٰۃ ادا کرتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھاتے ہوں ، پس امید ہے کہ یہ لوگ ہدایت پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

١٩۔ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادکاری کو اس شخص کے برابر قرار دیا ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا اور جس نے راہ خدا میں جہاد کیا؟ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا

٢٠۔ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک نہایت عظیم درجہ رکھتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔

٢١۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی کی اور ان جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے دائمی نعمتیں ہیں۔

٢٢۔ ان میں وہ ابد تک رہیں گے ، بے شک اللہ کے پاس عظیم ثواب ہے۔

٢٣۔ اے ایمان والو! تمہارے آبا اور تمہارے بھائی اگر ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کریں تو انہیں اپنا ولی نہ بناؤ اور یاد رکھو کہ تم میں سے جو لوگ انہیں ولی بنائیں گے پس ایسے ہی لوگ تو ظالم ہیں۔

٢٤۔کہہ دیجیے :تمہارے آبا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ اموال جو تم کماتے ہو اور تمہاری وہ تجارت جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری پسند کے مکانات اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو ٹھہرو! یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔

٢٥۔ بتحقیق بہت سے مقامات پر اللہ تمہاری مدد کر چکا ہے اور حنین کے دن بھی، جب تمہاری کثرت نے تمہیں غرور میں مبتلا کر دیا تھا مگر وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

٢٦۔ پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور تمہیں نظر نہ آنے والے لشکر اتارے اور کفار کو عذاب میں مبتلا کر دیا اور کفر اختیار کرنے والوں کی یہی سزا ہے۔

٢٧۔ پھر اس کے بعد اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول فرماتا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٢٨۔ اے ایمان والو! مشرکین تو بلاشبہ ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد الحرام کے قریب نہ آنے پائیں اور اگر (مشرکین کا داخلہ بند ہونے سے ) تمہیں غربت کا خوف ہے تو (اس کی پرواہ نہ کرو) اگر اللہ چاہے تو جلد ہی تمہیں اپنے فضل سے بے نیاز کر دے گا یقیناً اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔

٢٩۔ اہل کتاب میں سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام کیا ہے اسے حرام نہیں ٹھہراتے اور دین حق بھی قبول نہیں کرتے ، ان لوگوں کے خلاف جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔

٣٠۔ اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ، یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں ان لوگوں کی باتوں کے مشابہ ہیں جو ان سے پہلے کافر ہو چکے ہیں ، اللہ انہیں ہلاک کرے ، یہ کدھر بہکتے پھرتے ہیں ؟

٣١۔ انہوں نے اللہ کے علاوہ اپنے علماء اور راہبوں کو اپنا رب بنا لیا ہے اور مسیح بن مریم کو بھی، حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ ذات ان کے شرک سے پاک ہے۔

٣٢۔ یہ لوگ اپنی پھونکوں سے نور خدا کو بجھانا چاہتے ہیں مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے کے علاوہ کوئی بات نہیں مانتا اگرچہ کفار کو ناگوار گزرے۔

٣٣۔ اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی نے بھیجا ہے تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا ہی لگے۔

٣٤۔ اے ایمان والو! (اہل کتاب کے ) بہت سے علماء اور راہب ناحق لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور انہیں راہ خدا سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے۔

٣٥۔ جس روز وہ مال آتش جہنم میں تپایا جائے گا اور اسی سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پشتیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا، لہٰذا اب اسے چکھو جسے تم جمع کیا کرتے تھے۔

٣٦۔ کتاب خدا میں مہینوں کی تعداد ا اللہ کے نزدیک یقیناً بارہ مہینے ہے جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں ، یہی مستحکم دین ہے ، لہٰذا ان چار مہینوں میں تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرو اور تم، سب مشرکین سے لڑو جیسا کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے۔

٣٧۔(حرمت کے مہینوں میں ) تقدیم و تاخیر بے شک کفر میں اضافہ کرتا ہے جس سے کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے وہ کسی سال ایک مہینے کو حلال اور کسی سال اسے حرام قرار دیتے ہیں تاکہ وہ مقدار بھی پوری کر لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے اور ساتھ ہی خدا کے حرام کو حلال بھی کر لیں ، ان کے برے اعمال انہیں بھلے کر کے دکھائے جاتے ہیں اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں کرتا۔

٣٨۔ اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین سے چمٹ جاتے ہو؟ کیا تم آخرت کی جگہ دنیاوی زندگی کو زیادہ پسند کرتے ہو؟ دنیاوی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

٣٩۔ اگر تم نہ نکلو گے توا للہ تمہیں دردناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کرے گا اور تم اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکو گے اور اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے۔

٤٠۔ اگر تم رسول کی مدد نہ کرو گے تو (جان لو کہ) اللہ نے اس وقت ان کی مدد کی جب کفار نے انہیں نکالا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے وہ دو میں کا دوسرا تھا جب وہ اپنے ساتھی سے کہ رہا تھا رنج نہ کر یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے ، پھر اللہ نے ان پر اپنا سکون نازل فرمایا اور ایسے لشکروں سے ان کی مدد کی جو تمہیں نظر نہ آتے تھے اور یوں اس نے کافروں کا کلمہ نیچا کر دیا اور اللہ کا کلمہ تو سب سے بالاتر ہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

٤١۔(مسلمانو)تم ہلکے ہو یا بوجھل (ہر حالت میں ) نکل پڑو اور اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کرو، اگر تم سمجھو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔

٤٢۔ اگر آسانی سے حاصل ہونے والا کوئی فائدہ ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور آپ کے پیچھے چل پڑتے لیکن یہ مسافت انہیں دور نظر آئی اور اب وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں گے : اگر ہمارے لیے ممکن ہوتا تو یقیناً ہم آپ کے ساتھ چل دیتے (ایسے بہانوں سے ) وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور اللہ کو علم ہے کہ یہ لوگ یقیناً جھوٹ بول رہے ہیں۔

٤٣۔ (اے رسول) اللہ آپ کو معاف کرے آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی قبل ا س کے کہ آپ پر واضح ہو جاتا کہ سچے کون ہیں اور آپ جھوٹوں کو جان لیتے ؟

٤٤۔ جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے ہرگز آپ سے اجازت نہیں مانگیں گے اور اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔

٤٥۔ایسی اجازت یقیناً وہی لوگ مانگیں گے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں مبتلا ہیں پس اس طرح وہ اپنے شک میں بھٹک رہے ہیں۔

٤٦۔اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لیے سامان کی کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا ناپسند تھا اس لیے اس نے (ان سے توفیق سلب کر کے ) انہیں ہلنے نہ دیا اور کہہ دیا گیا: تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔

٤٧۔اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے بھی تو تمہارے لیے صرف خرابی میں اضافہ کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ کھڑا کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے اور تمہارے درمیان ان کے جاسوس (اب بھی) موجود ہیں اور اللہ ظالموں کا حال خوب جانتا ہے۔

٤٨۔ یہ لوگ پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے رہے ہیں اور آپ کے لیے بہت سی باتوں میں الٹ پھیر بھی کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ حق آ پہنچا اور اللہ کا فیصلہ غالب ہوا اور وہ برا مانتے رہ گئے۔

٤٩۔ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے : مجھے اجازت دیجیے اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیے ، دیکھو یہ فتنے میں پڑ چکے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو یقیناً گھیر رکھا ہے۔

٥٠۔ اگر آپ کا بھلا ہوتا ہے تو انہیں دکھ ہوتا ہے اور اگر آپ پر کوئی مصیبت آئے تو کہتے ہیں : ہم نے پہلے ہی سے اپنا معاملہ درست کر رکھا ہے اور خوشیاں مناتے ہوئے لو ٹ جاتے ہیں۔

٥١۔کہہ دیجیے : اللہ نے جو ہمارے لیے مقدر فرمایا ہے اس کے سوا ہمیں کوئی حادثہ ہرگز پیش نہیں آتا وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنین کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کریں۔

٥٢۔ کہہ دیجیے : کیا تم ہمارے بارے میں دو بھلائیوں (فتح یا شہادت) میں سے ایک ہی کے منتظر ہو اور ہم تمہارے بارے میں اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ خود اپنے پاس سے تمہیں عذاب دے یا ہمارے ہاتھوں عذاب دلوائے ، پس اب تم بھی انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔

٥٣۔ کہہ دیجیے :تم اپنا مال بخوشی خرچ کرو یا بادل نخواستہ، تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، کیونکہ تم فاسق قوم ہو۔

٥٤۔ اور ان کے خرچ کیے ہوئے مال کی قبولیت کی راہ میں بس یہی رکاوٹ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور نماز کے لیے آتے ہیں تو کاہلی کے ساتھ اور راہ خدا میں تو بادل نخواستہ ہی خرچ کرتے ہیں۔

٥٥۔ لہٰذا ان کے اموال اور اولاد کہیں آپ کو فریفتہ نہ کر دیں ، اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے انہیں دنیاوی زندگی میں بھی عذاب دے اور کفر کی حالت میں ہی ان کی جان کنی ہو۔

٥٦۔ وہ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمہاری جماعت میں شامل ہیں حالانکہ وہ تمہاری جماعت میں شامل نہیں ہیں  دراصل وہ بزدل لوگ ہیں۔

٥٧۔ اگر انہیں کوئی پناہ گاہ یا غار یا سر چھپانے کی جگہ میسر آ جائے تو وہ اس کی طرف لپکتے ہوئے جائیں گے۔

٥٨۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صدقات(کی تقسیم)میں آپ کو طعنہ دیتے ہیں پھر اگر اس میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر اس میں سے کچھ نہ دیا جائے تو بگڑ جاتے ہیں۔

٥٩۔ اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انہیں دیا ہے وہ اس پر راضی ہو جاتے اور کہتے : ہمارے لیے اللہ کافی ہے ، عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی، ہم اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں۔

٦٠۔یہ صدقات تو صرف فقیروں ، مساکین اور صدقات کے کام کرنے والوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو اور غلاموں کی آزادی اور قرضداروں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے ہیں ، یہ اللہ کی طرف سے ایک مقرر حکم ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔

٦١۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ کانوں کے کچے ہیں ، کہہ دیجیے :وہ تمہاری بہتری کے لیے کان دے کر سنتا ہے اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مومنوں کے لیے تصدیق کرتا ہے اور تم میں سے جو ایمان لائے ہیں ان کے لیے رحمت ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

٦٢۔ یہ لوگ تمہیں راضی کرنے کے لیے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں حالانکہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں راضی کیا جائے اگر یہ مومن ہیں۔

٦٣۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرتا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔

٦٤۔ منافقوں کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں ان کے خلاف (مسلمانوں پر) کوئی ایسی سورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کے راز کو فاش کر دے ، ان سے کہہ دیجیے : تم استہزاء کیے جاؤ، اللہ یقیناً وہ (راز) فاش کرنے والا ہے جس کا تمہیں ڈر ہے۔

٦٥۔ اور اگر آپ ان سے دریافت کریں تو وہ ضرور کہیں گے : ہم تو صرف مشغلہ اور دل لگی کر رہے تھے ، کہہ دیجیے : کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اڑا رہے تھے۔

٦٦۔ عذر تراشی مت کرو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو، اگر ہم نے تم میں سے ایک جماعت کو معاف کر بھی دیا تو دوسری جماعت کو ضرور عذاب دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے۔

٦٧۔ منافق مرد اور عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں ، وہ برے کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ روکے رکھتے ہیں ، انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا ہے ، بے شک منافقین ہی فاسق ہیں۔

٦٨۔ اللہ نے منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں سے آتش جہنم کا وعدہ کر رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، یہی ان کے لیے کافی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے۔

٦٩۔ (تم منافقین بھی) ان لوگوں کی طرح (ہو)جو تم سے پہلے تھے وہ تم سے زیادہ طاقتور اور اموال اور اولاد میں تم سے بڑھ کر تھے ، انہوں نے اپنے حصے کے خوب مزے لوٹے پس تم بھی اپنے حصے کے مزے اسی طرح لوٹ رہے ہو جس طرح تم سے پہلوں نے اپنے حصے کے خوب مزے لوٹے اور جس طرح وہ باطل بحثیں کرتے تھے تم بھی کرتے رہو، یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہو گئے اور یہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔

٧٠۔ کیا ان کے پاس ان سے پہلے لوگوں (مثلاً) قوم نوح اور عاد و ثمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین اور الٹی ہوئی بستیوں والوں کی خبر نہیں پہنچی؟ جن کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے ،پھر اللہ تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا بلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے رہے۔

٧١۔ اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں ، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

٧٢۔ اللہ نے ان مومن مردوں اور مومنہ عورتوں سے ایسی بہشتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان دائمی جنتوں میں پاکیزہ قیام گاہیں ہیں اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے ، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

٧٣۔ اے نبی ! کفار اور منافقین سے لڑو اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت برا ٹھکانا ہے۔

٧٤۔ یہ لوگ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہیں کہا حالانکہ انہوں نے کفر کی بات کہہ دی ہے اور وہ اسلام لانے کے بعد کافر ہو گئے ہیں اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کی ٹھان لی تھی جو وہ نہ کر پائے اور انہیں اس بات پر غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان (مسلمانوں ) کو دولت سے مالا مال کر دیا ہے ، پس اگر یہ لوگ توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہو گا اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ انہیں دنیا و آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار۔

٧٥۔اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کر رکھا تھا کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے نوازا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور ضرور نیک لوگوں میں سے ہو جائیں گے۔

٧٦۔لیکن جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور (عہد سے ) روگردانی کرتے ہوئے پھر گئے۔

٧٧۔پس اللہ نے ان کے دلوں میں اپنے حضور پیشی کے دن تک نفاق کو باقی رکھا کیونکہ انہوں نے اللہ کے ساتھ بدعہدی کی اور وہ جھوٹ بولتے رہے۔

٧٨۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ان کے پوشیدہ رازوں اور سرگوشیوں سے بھی واقف ہے اور یہ کہ اللہ غیب کی باتوں سے بھی خوب آگاہ ہے ؟

٧٩۔ جو لوگ ان مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو برضا و رغبت خیرات کرتے ہیں اور جنہیں اپنی محنت و مشقت کے سوا کچھ بھی میسر نہیں ان پر ہنستے بھی ہیں ، اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

٨٠۔ (اے رسول) آپ ایسے لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا دعا نہ کریں (مساوی ہے ) اگر ستر بار بھی آپ ان کے لیے مغفرت طلب کریں تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا، یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اللہ فاسقین کو ہدایت نہیں دیتا۔

٨١۔ (غزوہ تبوک میں ) پیچھے رہ جانے والے رسول اللہ کا ساتھ دیے بغیر بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کرنے کو ناپسند کیا اور کہنے لگے : اس گرمی میں مت نکلو،کہہ دیجیے : جہنم کی آتش کہیں زیادہ گرم ہے ، کاش وہ سمجھ پاتے۔

٨٢۔ پس انہیں چاہیے کہ کم ہنسا کریں اور زیادہ رویا کریں ، یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہے ہیں۔

٨٣۔ پھر اگر اللہ آپ کو ان میں سے کسی گروہ کے پاس واپس لے جائے اور وہ آپ سے (ساتھ) نکلنے کی اجازت مانگیں تو آپ کہہ دیں : (اب) تم میرے ساتھ ہرگز نہیں نکلو گے اور نہ ہی میرے ساتھ کسی دشمن سے لڑائی کرو گے ، پہلی مرتبہ تم نے بیٹھے رہنے کو پسند کیا لہٰذا اب پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔

٨٤۔ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر آپ کبھی بھی نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں ، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ نافرمانی کی حالت میں مرے ہیں۔

٨٥۔ اور ان کی دولت اور اولاد کہیں آپ کو فریفتہ نہ کریں ، اللہ تو بس ان چیزوں کے ذریعے انہیں دنیا میں عذاب دینا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان کی جان کنی کفر کی حالت میں ہو۔

٨٦۔ اور جب کوئی ایسی سورت نازل ہوتی ہے (جس میں کہا جاتا ہے ) کہ تم اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کی معیت میں جہاد کرو تو ان (منافقین) میں سے دولتمند افراد آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں : ہمیں چھوڑ جائیں کہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ (بیٹھے ) رہیں۔

٨٧۔ انہوں نے گھر بیٹھنے والی عورتوں میں شامل رہنا پسند کیا اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی پس وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔

٨٨۔ جب کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا اور (اب) ساری خوبیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔

٨٩۔ان کے لیے اللہ نے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی عظیم کامیابی ہے۔

٩٠۔اور کچھ عذر تراشنے والے صحرا نشین بھی (آپکے پاس)آئے کہ انہیں بھی (پیچھے رہ جانے کی) اجازت دی جائے اور جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جھوٹ بولا وہ (گھروں میں ) بیٹھے رہے ، ان میں سے جو کافر ہو گئے ہیں انہیں عنقریب دردناک عذاب پہنچے گا۔

٩١۔ ضعیفوں اور مریضوں اور ان لوگوں پر جن کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے کوئی گناہ نہیں ، بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ ہوں ، نیک لوگوں پر الزام کی کوئی راہ نہیں ہوتی اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٩٢۔اور نہ ہی ان لوگوں پر(کوئی الزام ہے ) جنہوں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ ان کے لیے سواری فراہم کریں آپ نے کہا: میرے پاس کوئی سواری موجود نہیں کہ تمہیں اس پر سوار کروں (یہ سن کر) وہ واپس گئے جب کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسو بہا رہی تھیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔

٩٣۔الزام تو بس ان لوگوں پر ہے جو دولت مند ہونے کے باوجود آپ سے درخواست کرتے ہیں (کہ جہاد سے معاف کیے جائیں )، انہوں نے گھر بیٹھنے والی عورتوں میں شامل رہنا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی لہٰذا وہ نہیں جانتے۔

 

پارہ :یَعتذِرُون11

 

٩٤۔ جب تم ان کے پاس واپس پہنچ جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے ، کہہ دیجیے :عذر مت تراشو! ہم تمہاری بات ہرگز نہیں مانیں گے اللہ نے ہمیں تمہارے حالات بتا دیے ہیں اور عنقریب اللہ تمہارے اعمال دیکھے گا اور اس کا رسول بھی پھر تم لوگ غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹائے جاؤ گے پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔

٩٥۔جب تم ا ن کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو پس تم ان سے درگزر کر دینا، یہ لوگ ناپاک ہیں اور ان سے سرزد ہونے والے اعمال کی سزا میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔

٩٦۔یہ تمہارے سامنے قسم کھائیں گے تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ، پس اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو اللہ یقیناً فاسق قوم سے راضی نہ ہو گا۔

٩٧۔ یہ بادیہ نشین بدو کفر و نفاق میں انتہائی سخت ہیں اور اس قابل ہی نہیں کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ نازل کیا ہے ان کی حدود کو سمجھ سکیں اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

٩٨۔اور ان بدوؤں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ تم پر گردش ایام آئے ، بری گردش خود ان پر آئے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

٩٩۔ اور انہی بدوؤں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ (راہ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے تقرب اور رسول سے دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں ، ہاں یہ ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اللہ انہیں عنقریب اپنی رحمت میں داخل کرے گا، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

١٠٠۔ اور مہاجرین و انصار میں سے جن لوگوں نے سب سے پہلے سبقت کی اور جو نیک چال چلن میں ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے یہی عظیم کامیابی ہے۔

١٠١۔ اور تمہارے گرد و پیش کے بدوؤں میں اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں ، آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ہم انہیں جانتے ہیں ، عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

١٠٢۔ اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا انہوں نے نیک عمل کے ساتھ دوسرے برے عمل کو مخلوط کیا، بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے ، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

١٠٣۔ (اے رسول) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجیے ، اس کے ذریعے آپ انہیں پاکیزہ اور بابرکت بنائیں اور ان کے حق میں دعا بھی کریں ، یقیناً آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

١٠٤۔ کیا انہیں علم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات بھی وصول کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

١٠٥۔ اور کہہ دیجیے : لوگو! عمل کرو کہ تمہارے عمل کو عنقریب اللہ اور اس کا رسول اور مومنین دیکھیں گے اور پھر جلد ہی تمہیں غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹا دیا جائے گا پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔

١٠٦۔ اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کا حکم آنے تک ملتوی ہے ، وہ چاہے انہیں عذاب دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے اور اللہ بڑا دانا، حکیم ہے۔

١٠٧۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی ضرر رسانی اور کفر اور مومنین میں پھوٹ ڈالنے کے لیے نیز ان لوگوں کی کمین گاہ کے طور پر جو پہلے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑ چکے ہیں اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارے ارادے فقط نیک تھے ، لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔

١٠٨۔ آپ ہر گز اس مسجد میں کھڑے نہ ہوں ، البتہ جو مسجد پہلے ہی دن سے تقویٰ کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے وہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں ، اس میں ایسے لوگ ہیں جو صاف اور پاکیزہ رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

١٠٩۔ بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد خوف خدا اور اس کی رضا طلبی پر رکھی ہو وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد گرنے والی کھائی کے کنارے پر رکھی ہو، چنانچہ وہ (عمارت) اسے لے کر آتش جہنم میں جا گرے ؟ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔

١١٠۔ ان لوگوں کی بنائی ہوئی یہ عمارت ہمیشہ ان کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی مگر یہ کہ ان کے دل پاش پاش ہو جائیں اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

١١١۔ یقیناً اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے عوض خرید لیے ہیں ، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں ، یہ توریت و انجیل اور قرآن میں ان کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنا عہد پورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے ؟ پس تم نے اللہ کے ساتھ جو سودا کیا ہے اس پر خوشی مناؤ اور یہ تو بہت بڑی کامیابی ہے۔

١١٢۔ (یہ لوگ) توبہ کرنے والے ، عبادت گزار، ثنا کرنے والے ، (راہ خدا میں ) سفر کرنے والے ، رکوع کرنے والے ، سجدہ کرنے والے ، نیکی کی دعوت دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور حدود اللہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور (اے رسول) مومنین کو خوشخبری سنا دیجیے۔

١١٣۔نبی اور ایمان والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ یہ بات ان پر عیاں ہو چکی ہے کہ وہ جہنم والے ہیں۔

١١٤۔ اور(وہاں )ابراہیم کا اپنے باپ (چچا) کے لیے مغفرت طلب کرنا اس وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس کے ساتھ کر رکھا تھا لیکن جب ان پر یہ بات کھل گئی کہ وہ دشمن خدا ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گئے ، ابراہیم یقیناً نرم دل اور بردبار تھے۔

١١٥۔ اور اللہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کرتا یہاں تک کہ ان پر یہ واضح کر دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا ہے ، بتحقیق اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

١١٦۔ آسمانوں اور زمین کی سلطنت یقیناً اللہ ہی کے لیے ہے ، زندگی بھی وہی دیتا ہے اور موت بھی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ مددگار۔

١١٧۔ بتحقیق اللہ نے نبی پر اور ان مہاجرین و انصار پر مہربانی فرمائی جنہوں نے مشکل گھڑی میں نبی کا ساتھ دیا تھا بعد اس کے کہ ان میں سے بعض کے دلوں میں کجی آنے ہی والی تھی پھر اللہ نے انہیں معاف کر دیا، بے شک وہ ان پر بڑا شفقت کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

١١٨۔ اور ان تینوں کو بھی(معاف کر دیا) جو (تبوک میں ) پیچھے رہ گئے تھے ، جب اپنی وسعت کے باوجود زمین ان پر تنگ ہو گئی تھی اور اپنی جانیں خود ان پر دوبھر ہو گئی تھیں اور انہوں نے دیکھ لیا کہ اللہ کی گرفت سے بچنے کے لیے خود اللہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں تو اللہ نے ان پر مہربانی کی تاکہ وہ توبہ کریں ، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

١١٩۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

١٢٠۔ اہل مدینہ اور گرد و پیش کے بدوؤں کو یہ حق حاصل ہی نہ تھا کہ وہ رسول خدا سے پیچھے رہ جائیں اور اپنی جانوں کو رسول کی جان سے زیادہ عزیز سمجھیں ، یہ اس لیے کہ انہیں نہ پیاس کی تکلیف ہو گی اور نہ مشقت کی اور نہ راہ خدا میں بھوک کی اور نہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھائیں گے جو کافروں کو ناگوار گزرے اور نہ انہیں دشمن سے کوئی گزند پہنچے گا مگر یہ کہ ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے ، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کا ثواب ضائع نہیں کرتا۔

١٢١۔اور (اسی طرح) وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اور جب کوئی وادی (بغرض جہاد) پار کرتے ہیں تو یہ سب ان کے حق میں لکھ دیا جاتا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے اچھے اعمال کا صلہ دے۔

١٢٢۔اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب مومنین نکل کھڑے ہوں ، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو انہیں تنبیہ کریں تاکہ وہ (ہلاکت خیز باتوں سے ) بچے رہیں۔

١٢٣۔ اے ایمان والو! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے نزدیک ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر ٹھوس شدت کا احساس کریں اور جان رکھو اللہ متقین کے ساتھ ہے۔

١٢٤۔اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ (از راہ تمسخر) کہتے ہیں : اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے ؟ پس ایمان والوں کے ایمان میں تو اس نے اضافہ ہی کیا ہے اور وہ خوشحال ہیں۔

١٢٥۔ اور البتہ جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی نجاست پر اس نے مزید نجاست کا اضافہ کیا ہے اور وہ مرتے دم تک کفر پر ڈٹے رہے۔

١٢٦۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ انہیں ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ؟ پھر نہ تو وہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی عبرت حاصل کرتے ہیں۔

١٢٧۔اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں کہ کوئی تمہیں دیکھ تو نہیں رہا؟ پھر نکل کر بھاگتے ہیں ، اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر رکھا ہے کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔

١٢٨۔ بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے ، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔

١٢٩۔ پھر اگر یہ روگردانی کریں تو آپ کہ دیجیے : میرے لیے اللہ ہی کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔

 

 

    سورہ یونس۔ مکی۔ آیات ۱۰۹

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ الف لام را۔یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت والی ہے۔

٢۔ کیا لوگوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ ہم نے خود انہیں میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی کہ لوگوں کو تنبیہ کرے اور جو ایمان لائیں انہیں بشارت دے کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچا مقام ہے ، (اس پر) کافروں نے کہا: یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے۔

٣۔ یقیناً تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا، وہ تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے ، اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے ، یہی اللہ تو تمہارا رب ہے پس اس کی عبادت کرو، کیا تم نصیحت نہیں لیتے ؟

٤۔ تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے ، اللہ کا وعدہ حق پر مبنی ہے ، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے انہیں انصاف کے ساتھ جزا دے اور جو کافر ہوئے انہیں اپنے کفر کی پاداش میں کھولتا ہوا پانی پینا ہو گا اور انہیں دردناک عذاب (بھی) بھگتنا ہو گا۔

٥۔ وہی توہے جس نے سورج کو روشن کیا اور چاند کو چمک دی اور اس کی منزلیں بنائیں تاکہ تم برسوں کی تعداد اور حساب معلوم کر سکو، اللہ نے یہ سب کچھ صرف حق کی بنیاد پر خلق کیا ہے ، وہ صاحبان علم کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے۔

٦۔ بے شک رات اور دن کی آمد و رفت میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ان میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو (ہلاکت سے ) بچنا چاہتے ہیں۔

٧۔ بے شک جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیاوی زندگی ہی پر راضی ہیں اور اسی میں اطمینان محسوس کرتے ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں ،

٨۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے ان اعمال کی پاداش میں جن کا یہ ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔

٩۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے بے شک ان کا رب ان کے ایمان کے سبب انہیں نعمتوں والی جنتوں کی راہ دکھائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔

١٠۔ جہاں ان کی صدا سبحانک اللھم (اے اللہ تیری ذات پاک ہے ) اور وہاں ان کی تحیت سلام ہو گی اور ان کی دعا کا خاتمہ الحمد للّہ رب العالمین ہو گا۔

١١۔ اور اگر اللہ لوگوں کے ساتھ (ان کی بداعمالیوں کی سزا میں ) برا معاملہ کرنے میں اسی طرح عجلت سے کام لیتا جس طرح وہ لوگ (دنیا کی) بھلائی کی طلب میں جلد بازی کرتے ہیں تو ان کی مہلت کبھی کی ختم ہو چکی ہوتی، لیکن جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں مہلت دیے رکھتے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔

١٢۔ اور انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے ، بیٹھے اور کھڑے ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اس سے تکلیف دور کر دیتے ہیں تو ایسا چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف پر جو اسے پہنچی ہمیں پکارا ہی نہیں ، حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔

١٣۔ اور بتحقیق تم سے پہلی قوموں کو بھی ہم نے اس وقت ہلاک کیا جب وہ ظلم کے مرتکب ہوئے اور ان کے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے مگر وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے ، ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔

١٤۔ پھر ان کے بعد ہم نے زمین میں تمہیں جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔

١٥۔ اور جب انہیں ہماری آیات کھول کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں : اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لے آؤ یا اسے بدل دو، کہہ دیجیے : مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اپنی طرف سے اسے بدل دوں ، میں تو اس وحی کا تابع ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے ، میں اپنے رب کی نافرمانی کی صورت میں بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

١٦۔ کہہ دیجیے : اگر اللہ چاہتا تو میں یہ قرآن تمہیں پڑھ کر نہ سناتا اور نہ ہی اللہ تمہیں اس سے آگاہ کرتا، اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں ، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔

١٧۔پس اس شخص سے بڑ ھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے ؟ مجرم لوگ یقیناً فلاح نہیں پائیں گے۔

١٨۔ اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ انہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور (پھر بھی)کہتے ہیں : یہ اللہ کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں ، کہہ دیجیے : کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اللہ کو نہ آسمانوں میں معلوم ہے اور نہ زمین میں ؟ وہ پاک و بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

١٩۔ اور سب انسان ایک ہی امت تھے پھر اختلاف رونما ہوا اور اگر آپ کا پروردگار پہلے طے نہ کر چکا ہوتا تو ان کے درمیان اس بات کا فیصلہ کر دیا جاتا جس میں یہ اختلاف کرتے ہیں۔

٢٠۔ اور کہتے ہیں :اس (نبی) پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی؟ پس کہہ دیجیے :غیب تو صرف اللہ کے ساتھ مختص ہے پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔

٢١۔ اور جب انہیں پہنچنے والے مصائب کے بعد ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیات کے بارے میں حیلے بازیاں شروع کر دیتے ہیں ، کہہ دیجیے : اللہ کا حیلہ تم سے زیادہ تیز ہے ، بے شک ہمارے فرشتے تمہاری حیلے بازیاں لکھ رہے ہیں۔

٢٢۔ وہی تو ہے جو تمہیں خشکی اور دریا میں چلاتا ہے ، چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ لوگوں کو لے کر باد موافق کی مدد سے چلتی ہیں اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اتنے میں کشتی کو مخالف تیز ہوا کا تھپیڑا لگتا ہے اور ہر طرف سے موجیں ان کی طرف آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (طوفان میں ) گھر گئے ہیں تو اس وقت وہ اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے بچایا تو ہم ضرور بالضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔

٢٣۔ پھر جب خدا نے انہیں بچا لیا تو یہ لوگ زمین میں ناحق بغاوت کرنے لگے ، اے لوگو یہ تمہاری بغاوت خود تمہارے خلاف ہے ، دنیا کے چند روزہ مزے لے لو پھر تمہیں ہماری طرف پلٹ کر آنا ہے پھر اس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔

٢٤۔ دنیا وی زندگی کی مثال یقیناً اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہو گئیں جن میں سے انسان اور جانور سب کھاتے ہیں پھر جب زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہو گئی اور زمین کے مالک یہ خیال کرنے لگے کہ اب وہ اس پر قابو پا چکے ہیں تو (ناگہاں ) رات کے وقت یا دن کے وقت اس پر ہمارا حکم آ پڑا تو ہم نے اسے کاٹ کر ایسا صاف کر ڈالا کہ گویا کل وہاں کچھ بھی موجود نہ تھا، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لے ے ہم اپنی نشانیاں اس طرح کھول کر بیان کرتے ہیں۔

٢٥۔ اللہ (تمہیں ) سلامت کدے کی طرف بلاتا ہے اور جسے وہ چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت فرماتا ہے۔

٢٦۔ جنہوں نے نیکی کی ہے ان کے لیے نیکی ہے اور مزید بھی، ان کے چہروں پر نہ سیاہ دھبہ ہو گا اور نہ ذلت (کے آثار)، یہ جنت والے ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

٢٧۔ اور جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے تو بدی کی سزا بھی ویسی ہی (بدی) ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی، انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا گویا ان کے چہرے پر تاریک رات کے سیاہ (پردوں کے ) ٹکڑے پڑے ہوئے ہوں ، یہ جہنم والے ہیں ، اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے۔

٢٨۔ اور جس دن ہم ان سب کو (اپنی عدالت میں ) جمع کریں گے پھر ہم مشرکوں سے کہیں گے : تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ ٹھہر جاؤ، پھر ہم ان میں جدائی ڈال دیں گے تو ان کے شریک کہیں گے : تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے۔

٢٩۔ پس ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے ، تمہاری اس عبادت سے ہم بالکل بے خبر تھے۔

٣٠۔ اس مقام پر ہر کوئی اپنے اس عمل کو جانچ لے گا جو وہ آگے بھیج چکا ہو گا اور پھر وہ اپنے مالک حقیقی اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے اور جو بہتان وہ باندھا کرتے تھے ان سے ناپید ہو جائیں گے۔

٣١۔کہہ دیجیے : تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے ؟سماعت اور بصارت کا مالک کون ہے ؟ اور کون ہے جو بے جان سے جاندار کو پیدا کرتا ہے اور جاندار سے بے جان کو پیدا کر تا ہے ؟ اور کون امور (عالم ) کی تدبیر کر رہا ہے ؟ پس وہ کہیں گے : اللہ، پس کہہ دیجیے : تو پھر تم بچتے کیوں نہیں ہو؟

٣٢۔پس یہی اللہ تمہارا برحق پروردگار ہے ، پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا رہ گیا؟ پھر تم کدھر پھرائے جا رہے ہو؟

٣٣۔ اس طرح (ان فاسقوں کے بارے میں ) آپ کے پروردگار کی بات ثابت ہو گئی کہ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

٣٤۔ کہہ دیجیے : کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہو پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے ؟ کہہ دیجیے : اللہ تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہے پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے گا، پھر تم کدھر الٹے جا رہے ہو۔

٣٥۔ کہہ دیجیے : کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے ؟ کہہ دیجیے : حق کی طرف صرف اللہ ہدایت کرتا ہے تو پھر (بتاؤ کہ ) جو حق کی راہ دکھاتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یاوہ جو خود اپنی راہ نہیں پاتا جب تک اس کی رہنمائی نہ کی جائے ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟

٣٦۔ ان میں سے اکثر محض ظن کی پیروی کرتے ہیں جب کہ ظن انسان کو حق (کی ضرورت) سے ذرہ برابر بے نیاز نہیں کرتا، اللہ ان کے اعمال سے خوب آگاہی رکھتا ہے۔

٣٧۔ اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس قرآن کو اللہ کے سوا کوئی اور اپنی طرف سے بنا لائے بلکہ یہ تو اس سے پہلے جو (کتاب) آ چکی ہے اس کی تصدیق ہے اور تمام (آسمانی) کتابوں کی تفصیل ہے ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔

٣٨۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو (محمدؐ نے ) از خود بنایا ہے ؟ کہہ دیجیے : اگر تم (اپنے الزام میں ) سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جسے تم بلا سکتے ہو بلا لاؤ۔

٣٩۔بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) انہوں نے اس چیز کو جھٹلایا جو ان کے احاطہ علم میں نہیں آئی اور ابھی اس کا انجام بھی ان کے سامنے نہیں کھلا، اسی طرح ان سے پہلوں نے بھی جھٹلایا تھا، پھر دیکھ لو ان ظالموں کا کیا انجام ہوا۔

٤٠۔ اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو ایمان نہیں لاتے اور آپ کا پروردگار ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔

٤١۔ اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلائیں تو کہہ دیجیے : میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے ، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں۔

٤٢۔ اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو آپ کی طرف کان لگائے بیٹھے ہیں ، پھر کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں خواہ وہ عقل نہ رکھتے ہوں ؟

٤٣۔ اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو آپ کی طرف دیکھتے ہیں پھر کیا آپ اندھوں کو راہ دکھا سکتے ہیں خواہ وہ کچھ بھی نہ دیکھتے ہوں۔

٤٤۔ اللہ یقیناً لوگوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

٤٥۔اور جس (قیامت کے ) دن اللہ انہیں جمع کرے گا تو (دنیا کی زندگی یوں لگے گی) گویا وہ دن کی ایک گھڑی بھر سے زیادہ یہاں نہیں رہے وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان لیں گے ، جنہوں نے اللہ سے ملاقات کو جھٹلایا وہ خسارے میں رہے اور وہ ہدایت یافتہ نہ تھے۔

٤٦۔اور جس (عذاب) کا ہم ان کافروں سے وعدہ کر رہے ہیں اس کا کچھ حصہ ہم آپ کو زندگی میں دکھا دیں یا آپ کو پہلے (ہی دنیا) سے اٹھا لیں انہیں بہرحال پلٹ کر ہماری بارگاہ میں آنا ہے پھر جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں اس پر اللہ شاہد ہے۔

٤٧۔ اور ہر امت کے لیے ایک رسول(بھیجا گیا) ہے ،پھر جب ان کا رسول آتا ہے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جاتا ہے اور ان پر کوئی ظلم روا نہیں رکھا جاتا۔

٤٨۔ اور وہ کہتے ہیں : اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہو گا ؟

٤٩۔ کہہ دیجیے : میں اللہ کی منشا کے بغیر اپنے نقصان اور نفع کا بھی اختیار نہیں رکھتا، ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے ، جب ان کا مقررہ وقت آئے گا تو وہ گھڑی بھر کے لیے نہ تاخیر کر سکیں گے اور نہ تقدیم۔

٥٠۔ ان سے کہہ دیجیے : یہ تو بتاؤ کہ اللہ کا عذاب رات کو یا دن کو تم پر آ جائے ؟ ایسی کون سی چیز ہے جس کے لیے یہ مجرم جلد بازی کرتے ہیں ؟

٥١۔کیا جب عذاب آ چکے گا تب اس پر ایمان لاؤ گے ؟ کیا اب (بچنا چاہتے ہو؟) حالانکہ تم خود اسے جلدی چاہ رہے تھے۔

٥٢۔ پھر ظالموں سے کہا جائے گا:دائمی عذاب چکھو، جو تم کرتے رہے ہو اس کی سزا کے علاوہ اور تمہیں کیا مل سکتا ہے ؟

٥٣۔اور یہ لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں (کہ جو آپ کہ رہے ہیں ) کیا وہ حق ہے ؟ کہہ دیجیے : ہاں ! میرے رب کی قسم یقیناً یہی حق ہے اور تم اللہ کو کسی طرح عاجز نہیں کر سکتے۔

٥٤۔ اور جس جس نے ظلم کیا ہے اگر اس کے پاس روئے زمین کی دولت بھی ہو تب بھی وہ (عذاب سے بچنے کے لیے یہ پوری دولت) فدیہ دینے پر آمادہ ہو جائے گا اور جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو دل ہی دل میں پشیمان ہوں گے اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ ہو گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

٥٥۔ آگاہ رہو! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے یقیناً وہ اللہ کی ملکیت ہے ، اس بات پر بھی آگاہ رہو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٥٦۔ وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جاؤ گے۔

٥٧۔ اے لوگو! تمہارے پروردگار کی طرف سے (یہ قرآن) تمہارے پاس نصیحت اور تمہارے دلوں کی بیماری کے لیے شفا اور مومنین کے لیے ہدایت اور رحمت بن کر آیا ہے۔

٥٨۔کہہ دیجیے : اللہ کے اس فضل اور اس کی اس رحمت کو پا کر لوگوں کو خوش ہونا چاہیے کیونکہ یہ اس (مال و متاع) سے بہتر ہے جسے لوگ جمع کرتے ہیں ۔

٥٩۔کہہ دیجیے : یہ تو بتاؤ کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لیے نازل کیا ہے اس میں سے تم از خود کچھ کو حرام اور کچھ کو حلال ٹھہراتے ہو؟ کہہ دیجیے : کیا اللہ نے تمہیں (اس بات کی) اجازت دی ہے یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟

٦٠۔ اور جو لوگ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں ان کا کیا خیال ہے قیامت کے دن کے بارے میں کہ (اللہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟) اللہ تو لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے۔

٦١۔ اور (اے نبی) آپ جس حال میں ہوتے ہیں اور آپ قرآن میں سے اللہ کی طرف سے جو تلاوت کر رہے ہوتے ہیں اور تم لوگ جو عمل بھی کرتے ہو دوران مصروفیت ہم تم پر ناظر ہیں اور زمین اور آسمان کی ذرہ برابر اور اس سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے رب سے پوشیدہ ہو اور روشن کتاب میں درج نہ ہو۔

٦٢۔سنو!جو اولیاء اللہ ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

٦٣۔ جو ایمان لائے اور تقویٰ پر عمل کیا کرتے تھے۔

٦٤۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی، اللہ کے کلمات میں تبدیلی نہیں آ سکتی، یہی بڑی کامیابی ہے۔

٦٥۔ اور (اے نبی) آپ کو ان (کافروں ) کی باتیں رنجیدہ نہ کریں ساری بالا دستی یقیناً اللہ کے لیے ہے ، وہ خوب سننے والا، دانا ہے۔

٦٦۔ آگاہ رہو! جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے یقیناً سب اللہ کی ملکیت ہے اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسرے شریکوں کو پکارتے ہیں وہ کسی چیز کے پیچھے نہیں چلتے بلکہ صرف ظن کے پیچھے چلتے ہیں اور وہ فقط اندازوں سے کام لیتے ہیں۔

٦٧۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں تم آرام کرو اور دن کو روشن بنایا، بتحقیق سننے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔

٦٨۔ وہ کہتے ہیں : اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے اس کی ذات پاک ہے وہ بے نیاز ہے ، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسی کاہے ،تمہارے پاس اس بات پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے ، کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ؟

٦٩۔ کہہ دیجیے : جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ یقیناً فلاح نہیں پائیں گے۔

٧٠۔ یہ دنیا کی عیش ہے پھر انہیں ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے پھر ہم انہیں شدید عذاب چکھائیں گے اس کفر کی پاداش میں جس کے وہ مرتکب رہے ہیں۔

٧١۔ انہیں نوح کا قصہ سنا دیجیے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا کر تمہیں نصیحت کرنا تمہیں ناگوار گزرتا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے پس تم اپنے شریکوں کے ساتھ مل کر مضبوطی سے اپنا فیصلہ کر لو پھر اس فیصلے کا کوئی پہلو تم پر پوشیدہ نہ رہے پھر میرے ساتھ جو کچھ کرنا ہے کر گزرو او ر مجھے مہلت بھی نہ دو۔

٧٢۔پس اگر تم نے منہ موڑ لیا تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگا میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں شامل رہوں۔

٧٣۔ مگر جب انہوں نے نوح کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے بچا لیا اور انہیں (زمین پر) جانشین بنا دیا اور ان سب کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا، پھر دیکھ لو جنہیں تنبیہ کی گئی تھی (نہ ماننے پر) ان کا کیا انجام ہوا۔

٧٤۔ پھر نوح کے بعد ہم نے بہت سے پیغمبروں کو اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا پس وہ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے مگر وہ جس چیز کی پہلے تکذیب کر چکے تھے اس پر ایمان لانے والے نہ تھے ، اس طرح ہم حد سے تجاوز کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔

٧٥۔ پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے۔

٧٦۔پھر جب ہمارے ہاں سے حق ان کے پاس آیا تو کہنے لگے : بے شک یہ تو صریح جادو ہے۔

٧٧۔ موسیٰ نے کہا : جب حق تمہارے پاس آیا تو کیا اس کے بارے میں یہ کہتے ہو، کیا یہ جادو ہے ؟ جب کہ جادوگر تو کبھی فلاح نہیں پاتے۔

٧٨۔ وہ کہنے لگے : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس راستے سے پھیر دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ملک میں تم دونوں کی بالا دستی قائم ہو جائے ؟ اور ہم تو تم دونوں کی بات ماننے والے نہیں ہیں۔

٧٩۔اور فرعون نے کہا :تمام ماہر جادوگروں کو میرے پاس لے آؤ۔

٨٠۔جب جادوگر حاضر ہوئے تو موسیٰ نے ان سے کہا:تمہیں جو کچھ ڈالنا ہے ڈالو۔

٨١۔ پس جب انہوں نے ڈالا تو موسیٰ نے کہا: جو کچھ تم نے پیش کیا ہے وہ جادو ہے ، اللہ یقیناً اسے نابود کر دے گا، بے شک اللہ مفسدوں کے کام نہیں سدھارتا۔

٨٢۔ اور اللہ اپنے فیصلوں سے حق کو ثابت کر دکھاتا ہے خواہ مجرموں کو ناگوار گزرے۔

٨٣۔ چنانچہ موسیٰ پر ان کی اپنی قوم کے چند افراد کے سوا کوئی ایمان نہ لایا، فرعون اور اس کے سرداروں کے خوف کی وجہ سے کہ کہیں وہ انہیں مصیبت سے دوچار نہ کر دیں کیونکہ ملک میں فرعون کی بالا دستی تھی اور وہ حد سے بڑھا ہوا تھا۔

٨٤۔اور موسیٰ نے کہا: اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسا کرو اگر تم مسلمان ہو۔

٨٥۔ پس انہوں نے کہا:ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے ، اے ہمارے پروردگار! ہمیں ظالموں کے لیے (ذریعہ) آزمائش نہ بنا۔

٨٦۔ اور اپنی رحمت سے ہمیں کافر قوم سے نجات عطا فرما۔

٨٧۔ اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ مصر میں اپنی قوم کے لیے مکانات مہیا کرو اور اپنے مکانوں کو قبلہ بناؤ اور نماز قائم کرو اور مومنوں کو بشارت دو۔

٨٨۔ اور موسیٰ نے عرض کی: اے ہمارے پروردگار! تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیاوی زندگی میں زینت بخشی اور دولت سے نوازا ہے پروردگارا! کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ (دوسروں کو ) تیری راہ سے بھٹکائیں ؟ پروردگارا ان کی دولت کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ یہ لوگ دردناک عذاب کا سامنا کرنے تک ایمان نہ لائیں۔

٨٩۔ اللہ نے فرمایا: تم دونوں کی دعا قبول کی گئی ہے پس تم دونوں ثابت قدم رہنا اور ان لوگوں کے راستے پر نہ چلنا جو علم نہیں رکھتے۔

٩٠۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے گزار دیا تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب فرعون غرق ہونے لگا تو کہنے لگا: میں ایمان لے آیا کہ اس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمانوں میں سے ہو گیا ہوں۔

٩١۔ (جواب ملا) اب (ایمان لاتا ہے ) جب تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور فسادیوں میں سے تھا؟

٩٢۔ پس آج ہم تیری لاش کو بچائیں گے تاکہ تو بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کی نشانی بنے ، اگرچہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔

٩٣۔ بتحقیق ہم نے بنی اسرائیل کو خوشگوار ٹھکانے فراہم کیے اور انہیں پاکیزہ رزق سے نوازا پھر انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم آ گیا، آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان یقیناً ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے رہے ہیں۔

٩٤۔اگر آپ کو اس بات میں کوئی شبہ ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لیں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھ رہے ہیں ، بتحقیق آپ کے رب کی طرف سے آپ کے پاس حق آ چکا ہے لہٰذا آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔

٩٥۔ اور ہرگز ان لوگوں میں سے نہ ہوں جنہوں نے اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کی ورنہ آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔

٩٦۔ جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کا فیصلہ قرار پا چکا ہے وہ یقیناً ایمان نہیں لائیں گے۔

٩٧۔ اگر چہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آ جائے جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔

٩٨۔ کیا کو ئی بستی ایسی ہے کہ (بروقت ) ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے سودمند ثابت ہوا ہو سوائے قوم یونس کے ؟ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے ٹال دیا اور ایک مدت تک انہیں (زندگی سے ) بہرہ مند رکھا۔

٩٩۔اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے ، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں ؟

١٠٠۔ اور کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا اور جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اللہ انہیں پلیدی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

١٠١۔ کہہ دیجیے : آسمانوں اور زمین میں نظر ڈالو کہ ان میں کیا کیا چیزیں ہیں اور جو قوم ایمان لانا ہی نہ چاہتی ہو اس کے لیے آیات اور تنبیہیں کچھ کام نہیں دیتیں۔

١٠٢۔ اب یہ لوگ اس کے سوا کس کے انتظار میں ہیں کہ اس طرح کے برے دن دیکھیں جو ان سے پہلے کے لوگ دیکھ چکے ہیں ؟ کہہ دیجیے : پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔

١٠٣۔پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو نجات دیں گے ، یہ بات ہمارے ذمے ہے کہ ہم مومنین کو نجات دیں۔

١٠٤۔ کہہ دیجیے : اے لوگو ! اگر تمہیں میرے دین میں کوئی شک ہے تو (جان لو کہ) تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی پرستش کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا بلکہ میں تو صرف اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور مجھے یہی حکم ملا ہے کہ میں ایمان والوں میں سے رہوں۔

١٠٥۔ اور یہ کہ آپ یکسوئی کے ساتھ اپنا رخ دین کی طرف ثابت رکھیں اور مشرکوں میں سے ہرگز نہ ہوں۔

١٠٦۔ اور اللہ کے سوا کسی ایسی چیز کو نہ پکاریں جو آپ کو نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان، اگر آپ ایسا کریں گے تو یقیناً آپ ظالموں میں شمار ہوں گے۔

١٠٧۔ اور اگر اللہ آپ کو کسی تکلیف میں ڈالے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اس تکلیف کو دور کرے اور اگر اللہ آپ سے بھلائی کرنا چاہے تو اس کے فضل کو روکنے والا کوئی نہیں ، وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے فضل کرتا ہے اور وہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

١٠٨۔ کہہ دیجیے : اے لوگو! جب تمہارے رب کی جانب سے حق تمہاری طرف آ چکا ہے ، پس جو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو اپنی ذات کے لیے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو وہ بھی اپنی ذات کو گمراہ کرتا ہے اور میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں۔

١٠٩۔ اور (اے نبی) آپ کی طرف جو وحی بھیجی جاتی ہے اس کی پیروی کریں اور اللہ کا فیصلہ آنے تک صبر کریں اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

 

 

    سورہ ہود۔ مکی۔ آیات ۱۲۳

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ الف لام را، یہ وہ کتاب ہے جس کی آیات مستحکم کی گئی ہیں پھر ایک با حکمت باخبر ذات کی طرف سے تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔

٢۔ کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، میں اللہ کی طرف سے تمہیں تنبیہ کرنے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔

٣۔ اور یہ کہ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر اس کے آگے توبہ کرو وہ تمہیں مقررہ مدت تک (دنیا میں ) اچھی متاع زندگی فراہم کرے گا اور ہر احسان کوش کو اس کی احسان کوشی کا صلہ دے گا اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

٤۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

٥۔ آگاہ رہو! یہ لوگ اپنے سینوں کو لپیٹ لیتے ہیں تاکہ اللہ سے چھپائیں ، یاد رکھو! جب یہ اپنے کپڑوں سے ڈھانپتے ہیں تب بھی وہ ان کی علانیہ اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے ، وہ سینوں کی باتوں سے یقیناً خوب واقف ہے۔

پارہ : وَمَا مِن دَآبّۃ 12

 

٦۔ اور زمین پر چلنے والا کو ئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور وہ جانتا ہے کہ اس کی جائے قرار کہاں ہے اور عارضی جگہ کہاں ہے ، سب کچھ روشن کتاب میں موجود ہے۔

٧۔ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں بہتر عمل کرنے والا کون ہے اور (اے نبی) اگر آپ (لوگوں ) سے یہ کہہ دیں کہ تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو کافر ضرور کہیں گے : یہ تو محض کھلا جادو ہے۔

٨۔ اور اگر ہم ایک مقررہ مدت تک ان سے عذاب کو ٹال دیں تو وہ ضرور کہنے لگتے ہیں : اسے کس چیز نے روک رکھا ہے ؟ آگاہ رہو! جس دن ان پر عذاب واقع ہو گا تو ان سے ٹالا نہیں جائے گا اور جس چیز کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں وہی انہیں گھیر لے گی۔

٩۔ اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد وہ نعمت ان سے چھین لیں تو بے شک وہ نا امید اور ناشکرا ہو جاتا ہے۔

١٠۔ اور اگر ہم اسے تکلیفوں کے بعد نعمتوں سے نوازتے ہیں تو ضرور کہ اٹھتا ہے : سارے دکھ مجھ سے دور ہو گئے ،بے شک وہ خوب خوشیاں منانے اور اکڑنے لگتا ہے

١١۔البتہ صبر کرنے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے ایسے نہیں ہیں ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔

١٢۔(اے رسول) آپ کی طرف جو وحی کی گئی ہے شاید آپ اس کا کچھ حصہ چھوڑنے والے ہیں اور ان کی اس بات پر دل تنگ ہو رہے ہیں کہ اس پر خزانہ کیوں نازل نہیں ہوا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا؟ آپ تو صرف تنبیہ کرنے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا ذمہ دار ہے۔

١٣۔کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے (قرآن کو) خود بنایا ہے ؟ کہہ دیجیے : اگر تم سچے ہو تو اس جیسی خود ساختہ دس سورتیں بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جس جس کو بلا سکتے ہو بلا لاؤ۔

١٤۔ پھر اگر وہ تمہاری مدد کو نہ پہنچیں تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوا ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، کیا تم اس بات کو تسلیم کرنے والے ہو؟

١٥۔ جو دنیوی زندگی اور اس کی زینت کے طالب ہوتے ہیں ان کی محنتوں کا معاوضہ ہم انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور ان کے لیے اس میں کمی نہیں کی جائے گی۔

١٦۔ ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں آتش کے سوا کچھ نہ ہو گا اور وہاں ان کے عمل برباد اور ان کا کیا دھرا سب نابود ہو جائے گا۔

١٧۔ بھلا وہ شخص (افترا کر سکتا ہے ) جو اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہے اور اس کے پیچھے اس کے رب کی طرف سے ایک شاہد بھی آیا ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (بھی دلیل ہو جو) راہنما اور رحمت بن کر آئی ہو؟ یہی لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور دوسرے فرقوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کریں تو اس کی وعدہ گاہ آتش جہنم ہے ، آپ اس (قرآن) کے بارے میں کسی شک میں نہ رہیں ، یقیناً یہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

١٨۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ افترا کرتا ہے ، ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے اور گواہ کہیں گے : یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا، خبردار! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔

١٩۔ جو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور اس میں کجی لانا چاہتے ہیں اور یہی لوگ آخرت کے منکر ہیں۔

٢٠۔ یہ لوگ زمین میں اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی حامی ہے ان کا عذاب دوگنا کیا جائے گا، کیونکہ وہ (کسی کی) سن ہی نہ سکتے تھے اور نہ ہی دیکھتے تھے۔

٢١۔ یہی لوگ ہیں جو اپنے آپ کو خسارے میں ڈال چکے ہیں اور وہ جو کچھ افترا کرتے تھے وہ بھی ان سے کھو گیا۔

٢٢۔ لازمی بات ہے آخرت میں یہ لوگ سب سے زیادہ گھاٹے میں ہوں گے۔

٢٣۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور اپنے رب کے سامنے عاجزی کرتے رہے یقیناً یہی اہل جنت ہیں ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

٢٤۔ دونوں فریقوں (مومنوں اور کافروں ) کی مثال ایسی ہے جیسے (ایک طرف) اندھا اور بہرا ہو اور (دوسری طرف ) دیکھنے والا اور سننے والا ہو، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں ؟ کیا تم نصیحت نہیں لیتے ؟

٢٥۔ اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، (انہوں نے اپنی قوم سے کہا) میں تمہیں صریحاً  تنبیہ کرنے والا ہوں۔

٢٦۔ کہ تم غیر اللہ کی عبادت نہ کرو، مجھے تمہارے بارے میں ایک دردناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

٢٧۔ تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: ہماری نظر میں تو تم صرف ہم جیسے بشر ہو اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہم میں سے ادنی درجے کے لوگ سطحی سوچ سے تمہاری پیروی کر رہے ہیں اور ہمیں کوئی ایسی بات بھی نظر نہیں آتی جس سے تمہیں ہم پر فضیلت حاصل ہو بلکہ ہم تو تمہیں کاذب خیال کرتے ہیں۔

٢٨۔(نوح نے ) کہا: اے میری قوم! یہ تو بتاؤ اگر میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا ہے مگر وہ تمہیں نہ سوجھتی ہو تو کیا ہم تمہیں اس پر مجبور کر سکتے ہیں جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟

٢٩۔ اور اے میری قوم! میں اس کام پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور میں ان لوگوں کو اپنے سے دور بھی نہیں کر سکتا جو ایمان لا چکے ہیں ، یقیناً یہ لوگ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جاہل قوم ہو۔

٣٠۔ اور اے میری قوم! اگر میں انہیں دور کروں تو مجھے اللہ (کے قہر) سے کون بچائے گا؟ کیا تم نصیحت نہیں لیتے ؟

٣١۔ اور میں تم سے نہ تو یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور جنہیں تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں ان کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ انہیں بھلائی سے نہیں نوازے گا، ان کے دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے ، اگر میں ایسا کہوں تو میں ظالموں میں سے ہو جاؤں گا۔

٣٢۔ لوگوں نے کہا: اے نوح! تم نے ہم سے بحث کی ہے اور بہت بحث کی اور اب اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔

٣٣۔ کہا: اسے تو بے شک اللہ ہی تم پر لائے گا اگر وہ چاہے اور تم (اسے ) عاجز تو نہیں کر سکتے۔

٣٤۔ اور جب اللہ نے تمہیں گمراہ کرنے کا ارادہ کر لیا تو اگر میں تمہیں نصیحت کرنا بھی چاہوں تو میری نصیحت تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی، وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔

٣٥۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں : اس شخص (محمد) نے یہ باتیں بنائی ہیں ؟کہہ دیجیے : اگر یہ باتیں میں نے بنائی ہیں تو میں اپنے جرم کا خود ذمے دار ہوں اور جس جرم کے تم مرتکب ہو میں اس سے بری ہوں۔

٣٦۔ اور نوح کی طرف یہ وحی کی گئی کہ جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے علاوہ آپ کی قوم میں سے ہرگز کوئی اور ایمان نہیں لائے گا لہٰذا جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں آپ اس سے رنجیدہ نہ ہوں۔

٣٧۔ اور ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے ایک کشتی بنائیں اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات ہی نہ کریں کیونکہ وہ ضرور ڈوبنے والے ہیں۔

٣٨۔ اور وہ (نوح) کشتی بنانے لگے اور ان کی قوم کے سرداروں میں سے جو وہاں سے گزرتا وہ ان کا مذاق اڑاتا تھا، نوح نے کہا: اگر آج تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو توکل ہم تمہارا اسی طرح مذاق اڑائیں گے جیسے تم مذاق اڑاتے ہو۔

٣٩۔ عنقریب تمہیں علم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر ہمیشہ رہنے والا عذاب نازل ہو گا۔

٤٠۔ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ گیا اور تنور (سے پانی) ابلنے لگا تو ہم نے کہا: (اے نوح!) ہر جوڑے میں سے دو دو کشتی پر سوار کرو اور اپنے گھر والوں کو بھی سوائے ان کے جن کی بات پہلے ہو چکی ہے اور ان کو بھی (سوار کرو) جو ایمان لا چکے ہیں ، اگرچہ ان کے ساتھ ایمان لانے والے بہت کم تھے۔

٤١۔ اور نوح نے کہا: کشتی میں سوار ہو جاؤ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے ، بتحقیق میرا رب بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٤٢۔ اور کشتی انہیں لے کر پہاڑ جیسی موجوں میں چلنے لگی، اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو جو کچھ فاصلے پر تھا پکارا: اے بیٹا! ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو۔

٤٣۔ اس نے کہا: میں پہاڑ کی پناہ لوں گا وہ مجھے پانی سے بچا لے گا، نوح نے کہا: آج اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں مگر جس پر اللہ رحم کرے ، پھر دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہو گیا۔

٤٤۔ اور کہا گیا: اے زمین! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان! تھم جا اور پانی خشک کر دیا گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی (کوہ) جودی پر ٹھہر گئی اور کہا گیا ظالموں پر نفرین ہو۔

٤٥۔ اور نوح نے اپنے رب کو پکار کر عرض کی: اے میرے پروردگار! میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور یقیناً تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

٤٦۔ فرمایا: اے نوح! بے شک یہ آپ کے گھر والوں میں سے نہیں ہے ، یہ غیر صالح عمل ہے لہٰذا جس چیز کا آپ کو علم نہیں اس کی مجھ سے درخواست نہ کریں ، میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ مبادا نادانوں میں سے ہو جائیں۔

٤٧۔نوح نے کہا: میرے رب میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ ایسی چیز کا تجھ سے سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں ہے اور اگر تو مجھے معاف نہیں کرے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔

٤٨۔ کہا گیا : اے نوحؑ! اترو ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو آپ پر اور ان جماعتوں پر ہیں جو آپ کے ساتھ ہیں اور کچھ جماعتیں ایسی بھی ہوں گی جنہیں ہم کچھ مدت زندگی کا موقع بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔

٤٩۔ یہ ہیں غیب کی کچھ خبریں جو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں ، اس سے پہلے نہ آپ ان باتوں کو جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم پس صبر کریں انجام یقیناً پرہیزگاروں کے لیے ہے۔

٥٠۔ اور عاد کی طرف ان کی برادری کے فرد ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا : اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ، (دوسرے معبودوں کو) تم نے صرف افتراء کیا ہے۔

٥١۔ اے میری قوم! میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اس ذات پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے ، کیا تم عقل نہیں رکھتے ؟

٥٢۔ اور اے میری قوم! اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے اور تمہاری قوت میں مزید قوت کا اضافہ کرے گا اور مجرم بن کر منہ نہ پھیرو۔

٥٣۔ کہنے لگے : اے ہود! تم ہمارے سامنے کوئی شہادت نہیں لائے اور ہم تمہاری بات پر اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ہی ہم تجھ پر ایمان لا سکتے ہیں۔

٥٤۔ کیونکہ ہم تو یہ کہتے ہیں : تجھے ہمارے معبودوں میں سے کسی نے آسیب پہنچایا ہے ،ہود نے کہا: میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ (اللہ کے سوا) جنہیں تم شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے بیزار  ہوں۔

٥٥۔اس اللہ کے سوا تم سب مل کر میرے خلاف سازش کرو پھر مجھے مہلت نہ دو۔

٥٦۔ میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے ، کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی پیشانی اللہ کی گرفت میں نہ ہو، بے شک میرا رب سیدھے راستے پر ہے۔

٥٧۔ پھر اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں نے تو وہ پیغام تمہیں پہنچا دیا ہے جس کے ساتھ میں تمہاری طرف بھیجا گیا تھا اور میرا رب تمہاری جگہ اور لوگوں کو لائے گا اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ، بے شک میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔

٥٨۔ پھر جب ہمارا فیصلہ آیا تو ہود اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے ہم نے اپنی رحمت سے انہیں بچا لیا اور ہم نے انہیں سنگین عذاب سے نجات دی۔

٥٩۔ یہ وہی عاد ہیں ، جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر سرکش دشمن کے حکم کی پیروی کی۔

٦٠۔ اور اس دنیا میں بھی لعنت نے ان کا تعاقب کیا اور قیامت کے روز بھی (ایسا ہو گا)، واضح رہے عاد نے اپنے پروردگار سے کفر کیا، آگاہ رہو! ہود کی قوم (یعنی) عاد کے لیے (رحمت حق سے ) دوری ہو۔

٦١۔اور ثمود کی طرف ان کی برادری کے فرد صالح کو بھیجا، انہوں نے کہا : اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس میں تمہیں آباد کیا لہٰذا تم اسی سے مغفرت طلب کرو پھر اس کے حضور توبہ کرو، بے شک میرا رب بہت قریب ہے ، (دعاؤں کا) قبول کرنے والا ہے۔

٦٢۔ انہوں نے کہا : اے صالح ! اس سے پہلے ہم تم سے بڑی امیدیں وابستہ رکھتے تھے ، اب کیا ان معبودوں کی پوجا کرنے سے تم ہمیں روکتے ہو جن کی ہمارے باپ دادا پوجا کرتے تھے ؟ اور جس بات کی طرف تم ہمیں دعوت دے رہے ہو اس بارے میں ہمیں شبہ انگیز شک ہے۔

٦٣۔ صالح نے کہا: اے میری قوم! یہ تو بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل رکھتا ہوں اور اس نے اپنی رحمت سے مجھے نوازا ہے تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو اللہ کے مقابلے میں میری حمایت کون کرے گا؟ تم تو میرے گھاٹے میں صرف اضافہ کر سکتے ہو۔

٦٤۔ اور اے میری قوم! یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے لہٰذا اسے آزاد چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں چرتی رہے اور اسے تکلیف نہ پہچانا ورنہ تمہیں ایک فوری عذاب گرفت میں لے گا۔

٦٥۔ پس انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو صالح نے کہا: تم لوگ تین دن اپنے گھروں میں بسر کرو، یہ ایک ناقابل تکذیب وعدہ ہے۔

٦٦۔ پھر جب ہمارا فیصلہ آ گیا تو ہم نے صالح اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی رحمت سے نجات دی اور اس دن کی رسوائی سے بھی بچا لیا، یقیناً آپ کا رب بڑا طاقتور، غالب آنے والا ہے۔

٦٧۔اور جنہوں نے ظلم کیا تھا انہیں ایک ہولناک چنگھاڑ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

٦٨۔ گویا وہ ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے ، واضح رہے ثمود نے اپنے پروردگار سے کفر کیا آگاہ رہو! ثمود کی قوم کے لیے (رحمت حق سے ) دوری ہو۔

٦٩۔اور جب ہمارے فرشتے بشارت لے کر ابراہیم کے پاس پہنچے تو کہنے لگے : سلام، ابراہیم نے (جواباً) کہا: سلام، ابھی دیر نہ گزری تھی کہ ابراہیم ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔

٧٠۔ جب ابراہیم نے دیکھا ان کے ہاتھ اس (کھانے ) تک نہیں پہنچتے تو انہیں اجنبی خیال کیا اور ان سے خوف محسوس کیا، فرشتوں نے کہا: خوف نہ کیجیے ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔

٧١۔ اور ابراہیم کی زوجہ کھڑی تھیں پس وہ ہنس پڑیں تو ہم نے انہیں اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بشارت دی۔

٧٢۔ وہ بولی: ہائے میری شامت! کیا میرے ہاں بچہ ہو گا جبکہ میں بڑھیا ہوں اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں ؟ یقیناً یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔

٧٣۔ انہوں نے کہا:کیا تم اللہ کے فیصلے پر تعجب کرتی ہو؟ تم اہل بیت پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہیں ، یقیناً اللہ قابل ستائش ، بڑی شان والا ہے۔

٧٤۔پھر جب ابراہیم کے دل سے خوف نکل گیا اور انہیں خوشخبری بھی مل گئی تو وہ قوم لوط کے بارے میں ہم سے بحث کرنے لگے۔

٧٥۔ بے شک ابراہیم بردبار، نرم دل، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔

٧٦۔ (فرشتوں نے ان سے کہا) اے ابراہیم! اس بات کو چھوڑ دیں ، بیشک آپ کے رب کا فیصلہ آ چکا ہے اور ان پر ایک ایسا عذاب آنے والا ہے جسے ٹالا نہیں جا سکتا۔

٧٧۔ اور جب ہمارے فرستادے لوط کے پاس آئے تو لوط ان سے رنجیدہ ہوئے اور ان کے باعث دل تنگ ہوئے اور کہنے لگے : یہ بڑا سنگین دن ہے۔

٧٨۔ اور لوط کی قوم بے تحاشا دوڑتی ہوئی ان کی طرف آئی اور یہ لوگ پہلے سے بدکاری کا ارتکاب کرتے تھے ، لوط نے کہا: اے میری قوم!یہ میری بیٹیاں تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں پس تم اللہ کا خوف کرو اور میرے مہمانوں کے سامنے مجھے رسوا نہ کرو، کیا تم میں کوئی ہوشمند آدمی نہیں ہے ؟

٧٩۔ وہ بولے :تمہیں خوب علم ہے ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں ہے اور یقیناً تمہیں معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔

٨٠۔ لوط نے کہا: اے کاش! مجھ میں (تمہیں روکنے کی) طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔

٨١۔ فرشتوں نے کہا: اے لوط !ہم آپ کے رب کے فرستادے ہیں یہ لوگ آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے ، پس آپ رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جائیں اور آپ میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے سوائے آپ کی بیوی کے ، بے شک جو عذاب دوسروں پر پڑنے والا ہے وہی اس (بیوی) پر بھی پڑے گا، یقیناً ان کے وعدہ عذاب کا وقت صبح ہے ، کیا صبح کا وقت قریب نہیں ؟

٨٢۔ پس جب ہمارا حکم آ گیا تو ہم نے اس (بستی) کو تہ و بالا کر دیا اور اس پر پختہ مٹی کے پتھروں کی لگاتار بارش برسائی۔

٨٣۔ جن پر آپ کے رب کے ہاں (سے ) نشانی لگی ہوئی تھی اور یہ (عذاب) ظالموں سے (کوئی) دور نہیں۔

٨٤۔ اور مدین کی طرف ہم نے ان کی برادری کے فرد شعیب کو بھیجا، انہوں نے کہا : اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے اور ناپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو، میں تمہیں آسودگی میں دیکھ رہا ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ دن نہ آ جائے جس کا عذاب تمہیں گھیر لے۔

٨٥۔اور اے میری قوم! انصاف کے ساتھ پورا ناپا اور تولا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو۔

٨٦۔ اللہ کی طرف سے باقی ماندہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو اور میں تم پر نگہبان تو نہیں ہوں۔

٨٧۔ انہوں نے کہا: اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم انہیں چھوڑ دیں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں یا ہم اپنے اموال میں اپنی مرضی سے تصرف کرنا بھی چھوڑ دیں ؟ صرف تو ہی بڑا بردبار عقلمند آدمی ہے ؟

٨٨۔ شعیب نے کہا : اے میری قوم ! تم یہ تو بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل کے ساتھ ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے بہترین رزق (نبوت) سے نوازا ہے ، میں ایسا تو نہیں چاہتا کہ جس امر سے میں تمہیں منع کروں خود اس کو کرنے لگوں میں تو حسب استطاعت فقط اصلاح کرنا چاہتا ہوں اور مجھے صرف اللہ ہی سے توفیق ملتی ہے ، اسی پر میرا توکل ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

٨٩۔ اور اے میری قوم! میری مخالفت کہیں اس بات کا موجب نہ بنے کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائے جو قوم نوح یا قوم ہود یا صالح کی قوم پر آیا تھا اور لوط کی قوم (کا زمانہ) تو تم سے دور بھی نہیں ہے۔

٩٠۔ اور تم لوگ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر اس کے آگے توبہ کرو، میرا رب یقیناً بڑا رحم کرنے والا،محبت کرنے والا ہے۔

٩١۔ انہوں نے کہا: اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور بے شک تم ہمارے درمیان بے سہارا بھی نظر آتے ہو اور اگر تمہارا قبیلہ نہ ہوتا تم ہم تمہیں سنگسار کر چکے ہوتے (کیونکہ) تمہیں ہم پر کوئی بالا دستی حاصل نہیں ہے۔

٩٢۔ شعیب نے کہا : اے میری قوم! کیا میرا قبیلہ تمہارے لیے اللہ سے زیادہ اہم ہے کہ تم نے اللہ کو پس پشت ڈال دیا ہے ؟ میرا رب یقیناً تمہارے اعمال پر احاطہ رکھتا ہے۔

٩٣۔ اور اے میری قوم! تم اپنی جگہ پر عمل کرتے جاؤ میں بھی عمل کرتا جاؤں گا، عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ رسوا کن عذاب کس پر آتا ہے اور جھوٹا کون ہے ، پس تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں۔

٩٤۔ اور جب ہمارا فیصلہ آ گیا تو ہم نے شعیب اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت سے نجات دی اور ظالموں کو ہولناک چیخ نے آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

٩٥۔ گویا کہ وہاں کبھی بسے ہی نہ تھے ، آگاہ رہو! قوم مدین (رحمت حق سے ) اس طرح دوری ہو جس طرح قوم ثمود دور ہوئی۔

٩٦۔ اور بتحقیق موسیٰ کو ہم نے اپنی نشانیوں اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا۔

٩٧۔ فرعون اور ان کے درباریوں کی طرف، پھر بھی انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی، جب کہ فرعون کا حکم عقل کے مطابق نہ تھا۔

٩٨۔ قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے ہو گا اور انہیں جہنم تک پہنچا دے گا، کتنی بری جگہ ہے جہاں یہ وارد کیے جائیں گے۔

٩٩۔ اور اس دنیا میں بھی لعنت ان کے تعاقب میں ہے اور قیامت کے دن بھی، کتنا برا صلہ ہے یہ جو (کسی کے ) حصے میں آئے

١٠٠۔ یہ ہیں ان بستیوں کے حالات جو ہم آپ کو سنا رہے ہیں ، ان میں سے بعض کھڑی ہیں اور بعض کی جڑیں کٹ چکی ہیں۔

١٠١۔ اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، پس جب آپ کے رب کا حکم آ گیا تو اللہ کے سوا جن معبودوں کو وہ پکارتے تھے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور انہوں نے تباہی کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا۔

١٠٢۔ اور آپ کے رب کی پکڑ اسی طرح ہے جب وہ کسی ظالم بستی کو اپنی گرفت میں لیتا ہے ، تو اس کی گرفت یقیناً دردناک اور سخت ہوا کرتی ہے۔

١٠٣۔ عذاب آخرت سے ڈرنے والے کے لیے یقیناً اس میں نشانی ہے ، وہ ایسا دن ہو گا جس میں سب لوگ جمع کیے جائیں گے اور وہ ایسا دن ہو گا جس میں سب حاضر کیے جائیں گے۔

١٠٤۔ اور ہم اس دن کے لانے میں فقط ایک مقررہ وقت کی وجہ سے تاخیر کرتے ہیں۔

١٠٥۔ جب وہ دن آئے گا تو اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہ کر سکے گا، پھر ان میں سے کچھ لوگ بدبخت اور کچھ نیک بخت ہوں گے۔

١٠٦۔پس جو بدبخت ہوں گے وہ جہنم میں جائیں گے جس میں انہیں چلانا اور دھاڑنا ہو گا۔

١٠٧۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے جب تک آسمانوں اور زمین کا وجود ہے مگر یہ کہ آپ کا رب (نجات دینا) چاہے ، بے شک آپ کا رب جو ارادہ کرتا ہے اسے خوب بجا لاتا ہے۔

١٠٨۔ اور جو نیک بخت ہوں گے وہ جنت میں ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین کا وجود ہے مگر جو آپ کا رب چاہے ، وہاں منقطع نہ ہونے والی بخشش ہو گی۔

١٠٩۔ (اے نبی) جس کی یہ لوگ پوجا کر رہے ہیں اس سے آپ کو شبہ نہ ہو، یہ لوگ اسی طرح پوجا کر رہے ہیں جس طرح پہلے ان کے باپ دادا پوجا کرتے تھے اور ہم انہیں ان کا حصہ (عذاب) بغیر کسی نقص و کسر کے پورا کرنے والے ہیں۔

١١٠۔ بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی پھر اس کے بارے میں اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے رب کی طرف سے فیصلہ کن کلمہ نہ کہا گیا ہوتا تو ان کا بھی فیصلہ ہو چکا ہوتا اور وہ اس بارے میں تردد میں ڈالنے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

١١١۔ اور بے شک آپ کا رب ان سب کے اعمال کا پورا بدلہ ضرور دے گا، وہ ان کے اعمال سے یقیناً خوب باخبر ہے۔

١١٢۔جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ اور ہ لوگ بھی جو آپ کے ساتھ (اللہ کی طرف) پلٹ آئے ہیں ثابت قدم رہیں اور (حد سے ) تجاوز بھی نہ کریں ، اللہ تمہارے اعمال کو یقیناً خوب دیکھنے والا ہے۔

١١٣۔ اور جنہوں نے ظلم کیا ہے ان پر تکیہ نہ کرنا ورنہ تمہیں جہنم کی آگ چھو لے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی سرپرست نہ ہو گا پھر تمہاری کوئی مدد بھی نہیں کی جائے گی۔

١١٤۔اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں اور رات کے کچھ حصوں میں ، نیکیاں بے شک برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ، نصیحت ماننے والوں کے لیے یہ ایک نصیحت ہے۔

١١٥۔ اور صبر کرو یقیناً اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

١١٦۔ تم سے پہلے والی قوموں میں کچھ لوگ (خیر و صلاح والے ) کیوں باقی نہیں رہے جو (لوگوں کو ) زمین میں فساد پھیلانے سے منع کرتے سوائے ان چند افراد کے جنہیں ہم نے ان میں سے بچا لیا تھا؟ اور ظالم لوگ ان چیزوں کے پیچھے لگے رہے جن میں عیش و نوش تھا اور وہ جرائم پیشہ لوگ تھے۔

١١٧۔ اور آپ کا رب ان بستیوں کو ناحق تباہ نہیں کرتا اگر ان کے رہنے والے اصلاح پسند ہوں۔

١١٨۔ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔

١١٩۔ سوائے ان کے جن پر آپ کے پروردگار نے رحم فرمایا ہے اور اسی کے لیے تو اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے اور تیرے رب کا وہ فیصلہ پورا ہو گیا (جس میں فرمایا تھا) کہ میں جہنم کو ضرور بالضرور جنات اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔

١٢٠۔ اور (اے رسول) ہم پیغمبروں کے وہ تمام حالات آپ کو بتاتے ہیں جن سے ہم آپ کو ثبات قلب دیتے ہیں اور ان کے ذریعے حق بات آپ تک پہنچ جاتی ہے نیز مومنین کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہو جاتی ہے۔

١٢١۔ اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان سے کہہ دیجیے : تم اپنی جگہ عمل کرتے جاؤ ہم بھی عمل کرتے جائیں گے۔

١٢٢۔ اور تم انتظار کرو ہم بھی انتظار کریں گے۔

١٢٣۔ اور آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم صرف اللہ کو ہے اور سارے امور کا رجوع اسی کی طرف ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسا کرو اور تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

 

١٢ سورۃ یوسف۔ مکی۔ آیات ١١١

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

 

١۔ الف لام را ، یہ واضح کتاب کی آیات ہیں۔

٢۔ ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا تاکہ تم سمجھ سکو۔

٣۔ ہم اس قرآن کو آپ کی طرف وحی کر کے آپ سے بہترین قصہ بیان کرنا چاہتے ہیں اور آپ اس سے پہلے (ان واقعات سے ) بے خبر تھے۔

٤۔ جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا : اے بابا! میں نے (خواب میں )گیارہ ستاروں کو دیکھا ہے اور سور ج اور چاند کو میں نے دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔

٥۔ کہا : بیٹا ! اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا ورنہ وہ آپ کے خلاف کوئی چال سوچیں گے کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

٦۔ اور آپ کا رب اسی طرح آپ کو برگزیدہ کرے گا اور آپ کو خوابوں کی تعبیر سکھائے گا اور آپ پر اور آل یعقوب پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے آپ کے اجداد ابراہیم و اسحاق پر کر چکا ہے ، بے شک آپ کا رب بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔

٧۔ بتحقیق یوسف اور اس کے بھائیوں (کے قصے ) میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

٨۔ جب بھائیوں نے (آپس میں ) کہا: یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم ایک جماعت ہیں ، بے شک ہمارے ابا تو صریح غلطی پر ہیں۔

٩۔ یوسف کو مار ڈالو یا اسے کسی سر زمین میں پھینک د و تاکہ تمہارے ابا کی توجہ صرف تمہاری طرف ہو جائے اور اس کے بعد تم لوگ نیک بن جاؤ گے۔

١٠۔ ان میں سے ایک کہنے والا بولا:یوسف کو قتل نہ کرو (اور اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو) اسے کسی گہرے کنویں میں ڈال دو کوئی قافلہ اسے نکال کر لے جائے گا۔

١١۔ کہنے لگے : اے ہمارے ابا جان! کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتماد نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے خیر خواہ ہیں۔

١٢۔ کل اسے ہمارے ہمراہ بھیج دیجیے تاکہ کچھ کھا پی لے اور کھیل کود کر ے اور ہم یقیناً اس کی حفاظت کریں گے۔

١٣۔ یعقوب نے کہا : تمہارا اسے لے جانا میرے لیے حزن کا باعث ہے اور مجھے ڈر ہے اسے بھیڑیا کھا جائے اور تم اس سے غافل ہو۔

١٤۔ کہنے لگے : ہم ایک جماعت ہیں اس کے باوجود اگر یوسف کو بھیڑیا کھا جائے تو ہم نقصان اٹھانے والے ٹھہریں گے۔

١٥۔ پس جب وہ اسے لے گئے اور سب نے اتفاق کر لیا کہ اسے گہرے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے یوسف کی طرف وحی کی (کہ ایک دن ایسا آئے گا) کہ آپ ان کے پاس ان کے اس فعل (شنیع) کے بارے میں انہیں ضرور بتائیں گے جبکہ انہیں اس بات کا شعور تک نہیں ہو گا۔

١٦۔ اور یہ لوگ رات کی ابتدا میں اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔

١٧۔ کہنے لگے : اے ابا جان!ہم دوڑ لگانے میں مصروف ہو گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ گئے تو اسے بھیڑیا کھا گیا اور آپ ہماری بات نہیں مانتے گو ہم سب سچے ہوں۔

١٨۔ چنانچہ وہ یوسف کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر لے آئے ، یعقوب نے کہا: نہیں ، تم نے اپنے تئیں ایک بات بنائی ہے ، پس میں بہت صبر کا مظاہرہ کروں گا اور جو بات تم بیان کر رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مطلوب ہے۔

١٩۔ پھر ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنا سقا بھیجا جس نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا (تو یوسف آویزاں نکلے ) وہ بولا: کیا خوب ! یہ تو ایک لڑکا ہے اور انہوں نے اسے تجارتی سرمایہ بنا کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔

٢٠۔ اور انہوں نے یوسف کو تھوڑی سی قیمت معدودے چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا اور وہ اس میں زیادہ طمع بھی نہیں رکھتے تھے۔

٢١۔ اور مصر کے جس آدمی نے انہیں خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا: اس کا مقام معزز رکھنا، ممکن ہے کہ وہ ہمارے لیے فائدہ مند ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں اور اس طرح ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں تمکنت دی اور اس لیے بھی کہ ہم انہیں خوابوں کی تعبیر کی تعلیم دیں اور اللہ اپنے عمل میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٢٢۔ اور جب یوسف اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کی اور ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیں۔

٢٣۔ اور یوسف جس عورت کے گھر میں تھے اس نے انہیں اپنے ارادے سے منحرف کر کے اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور سارے دروازے بند کر کے کہنے لگی: آ جاؤ، یوسف نے کہا: پناہ بخدا! یقیناً میرے رب نے مجھے اچھا مقام دیا ہے ، بے شک اللہ ظالموں کو کبھی فلاح نہیں دیتا۔

٢٤۔ اور اس عورت نے یوسف کا ارادہ کر لیا اور یوسف بھی اس کا ارادہ کر لیتے اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھ چکے ہوتے ، اس طرح ہوا تاکہ ہم ان سے بدی اور بے حیائی کو دور رکھیں ، کیونکہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔

٢٥۔ دونوں دروازے کی طرف دوڑ پڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتہ پیچھے سے پھاڑ دیا اتنے میں دونوں نے اس عورت کے شوہر کو دروازے پر موجود پایا، عورت کہنے لگی: جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اس کی سزا کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ اسے قید میں ڈالا جائے یا دردناک عذاب دیا جائے ؟

٢٦۔ یوسف نے کہا:یہ عورت مجھے اپنے ارادے سے پھسلانا چاہتی تھی اور اس عورت کے خاندان کے کسی فرد نے گواہی دی کہ اگر یوسف کا کرتہ آگے سے پھٹا ہے تو یہ سچی ہے اور یوسف جھوٹا ہے۔

٢٧۔ اور اگر اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور یوسف سچا ہے۔

٢٨۔جب اس نے دیکھا کہ کرتہ تو پیچھے سے پھٹا ہے (تو اس کے شوہر نے ) کہا: بے شک یہ (سب) تم عورتوں کی فریب کاری ہے ، تم عورتوں کی فریب کاری تو بہت بھاری ہوتی ہے۔

٢٩۔ یوسف اس معاملے سے درگزر کرو اور (اے عورت) تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، بے شک تو ہی خطا کاروں میں سے تھی۔

٣٠۔ اور شہر کی عورتوں نے کہنا شروع کیا: عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اس کے ارادے سے پھسلانا چاہتی ہے ، اس کی محبت اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر چکی ہے ، ہم توا سے یقیناً صریح گمراہی میں دیکھ رہی ہیں۔

٣١۔ پس اس نے جب عورتوں کی مکارانہ باتیں سنیں تو انہیں بلا بھیجا اور ان کے لیے مسندیں تیار کیں اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چھری دے دی (کہ پھل کاٹیں ) پھر اس نے یوسف سے کہا ان کے سامنے نکل آؤ، پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو انہیں بڑا حسین پایا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہ اٹھیں : پاک ہے اللہ، یہ بشر نہیں ، یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہے۔

٣٢۔ اس نے کہا: یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے طعنے دیتی تھیں اور بے شک میں نے اسے اپنے ارادے سے پھسلانے کی کو شش کی مگر اس نے اپنی عصمت قائم رکھی اور اگر میرا حکم نہ مانے گا تو ضرور قید کر دیا جائے گا اور خوار بھی ہو گا۔

٣٣۔ یوسف نے کہا: اے میرے رب! قید مجھے اس چیز سے زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ عورتیں مجھے دعوت دے رہی ہیں اور اگر تو ان کی مکاریاں مجھ سے دور نہ فرمائے گا تو میں ان عورتوں کی طرف راغب ہو جاؤں گا اور نادانوں میں شامل ہو جاؤں گا۔

٣٤۔ پس اللہ نے یوسف کی دعا سن لی اور یوسف سے ان عورتوں کی مکاری دور کر دی، بے شک وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔

٣٥۔ پھر (یوسف کی پاکدامنی کی) علامات دیکھ چکنے کے باوجود انہوں نے مناسب سمجھا کہ کچھ مدت کے لیے یوسف کو ضرور قید کر دیں۔

٣٦۔اور قید خانے میں یوسف کے ساتھ دو جوان بھی داخل ہوئے ، ان میں سے ایک نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ شراب کشید کر رہا ہوں اور دوسرے نے کہا: میں نے دیکھا کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اس میں سے کھا رہے ہیں ، ہمیں اس کی تاویل بتا دیجیے ، یقیناً ہمیں آپ نیک انسان نظر آتے ہیں۔

٣٧۔ یوسف نے کہا: جو کھانا تم دونوں کو دیا جاتا ہے وہ ابھی آیا بھی نہ ہو گا کہ میں اس کی تعبیر تمہیں بتا دوں گا قبل اس کے کہ وہ کھانا تمہارے پاس آئے ، یہ ان تعلیمات میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائی ہیں ، میں نے اس قوم کا مذہب ترک کر دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔

٣٨۔او ر میں نے تو اپنے اجداد ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے مذاہب کو اپنایا ہے ، ہمیں کسی چیز کو اللہ کا شریک بنانے کا حق حاصل نہیں ہے ، ہم پر اور دیگر لوگوں پر یہ اللہ کا فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔

٣٩۔ اے میرے زندان کے ساتھیو ! کیا متفرق ارباب بہتر ہیں یا وہ اللہ جو یکتا ہے جو سب پر غالب ہے۔

٤٠۔ تم لوگ اللہ کے سوا جن چیزوں کی بندگی کرتے ہو وہ صرف تم اور تمہارے باپ دادا کے خود ساختہ نام ہیں ، اللہ نے تو ان پر کوئی دلیل نازل نہیں کی، اقتدار تو صرف اللہ ہی کاہے ، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو، یہی مستحکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٤١۔ اے میرے زندان کے ساتھیو! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے مالک کو شراب پلائے گا اور دوسرا سولی چڑھایا جائے گا پھر پرندے اس کا سر نوچ کھائیں گے ، جو بات تم دونوں مجھ سے دریافت کر رہے تھے اس کا فیصلہ ہو چکا ہے۔

٤٢۔اور ان دونوں میں سے جس کی رہائی کا خیال کیا تھا (یوسف نے ) اس سے کہا: اپنے مالک (شاہ مصر) سے میرا ذکر کرنا مگر شیطان نے اسے بھلا دیا کہ وہ ا پنے مالک سے یوسف کا ذکر کرے ، یوں یوسف کئی سال زندان میں پڑے رہے۔

٤٣۔ اور (ایک روز) بادشاہ نے کہا: میں نے خواب میں سات موٹی گائیں دیکھی ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور سات خشک (خوشے )، اے دربار والو! اگر تم خوابوں کی تعبیر کر سکتے ہو تو میرے اس خواب کی تعبیر سے مجھے سے آگاہ کرو۔

٤٤۔ انہوں نے کہا: یہ تو پریشان خوابوں میں سے ہے اور ہم اس قسم کے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔

٤٥۔ اور ان دو قیدیوں میں سے جس نے رہائی پائی تھی اور اسے وہ بات بڑی مدت بعد یاد آ گئی ، اس نے کہا: میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتاتا ہوں مجھے (یوسف کے پاس زندان) بھیج دیجیے۔

٤٦۔ اے یوسف! اے بڑے راست گو! سات موٹی گائیں سات دبلی گایوں کو کھا رہی ہیں اور سات خوشے سبز اور سات خوشے خشک ہیں ، ہمیں (اس کی تعبیر) بتائیں تاکہ میں لوگوں کے پاس واپس جاؤں (آپ کی سچی تعبیر سن کر) شاید وہ جان لیں۔

٤٧۔ یوسف نے کہا: تم سات برس تک متواتر کھیتی باڑی کرتے رہو گے ان سالوں میں جو فصل تم کاٹو ان میں سے قلیل حصہ تم کھاؤ باقی اس کے خوشوں ہی میں رہنے دو۔

٤٨۔ پھر اس کے بعد سات برس ایسے سخت آئیں گے جن میں وہ غلہ کھا لیا جائے گا جو تم نے ان سالوں کے لیے جمع کر رکھا ہو گا سوائے اس تھوڑے حصے کے جو تم بچا کر رکھو گے۔

٤٩۔ اس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو خوب بارش ملے گی اور اس میں وہ رس نچوڑیں گے۔

٥٠۔ اور بادشاہ نے کہا : یوسف کو میرے پاس لاؤ پھر جب قاصد یوسف کے پاس آیا تو انہوں نے کہا :اپنے مالک کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا مسئلہ کیا تھا جنہوں اپنے ہاتھ کاٹ دیے تھے ؟ میرا رب تو ان کی مکاریوں سے یقیناً خوب باخبر ہے۔

٥١۔ (بادشاہ نے عورتوں سے ) پوچھا: اس وقت تمہارا کیا واقعہ تھا جب تم نے یوسف کو اس کے ارادے سے پھسلانے کی کوشش کی تھی؟ سب عورتوں نے کہا: پاکیزہ ہے اللہ، ہم نے تو یوسف میں کوئی برائی نہیں دیکھی، (اس موقع پر) عزیز کی بیوی نے کہا: اب حق کھل کر سامنے آ گیا، میں نے ہی یوسف کو اس کی مرضی کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی تھی اور یوسف یقیناً سچوں میں سے ہیں۔

٥٢۔ (یوسف نے کہا) ایسا میں نے اس لیے کیا کہ وہ جان لے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کی اور اللہ خیانت کاروں کے مکر و فریب کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرتا۔

 

 

پارہ : وَمَآ اُبَرّیّ 13

 

٥٣۔ اور میں اپنے نفس کی صفائی پیش نہیں کرتا، کیونکہ (انسانی) نفس تو برائی پر اکساتا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے ،بے شک میرا پروردگار بڑا بخشنے ، رحم کرنے والا ہے۔

٥٤۔ اور بادشاہ نے کہا: اسے میرے پاس لے آؤ، میں اسے خاص طور سے اپنے لیے رکھوں گا پھر جب یوسف نے بادشاہ سے گفتگو کی تو اس نے کہا: بے شک آج آپ ہمارے با اختیار امانتدار ہیں۔

٥٥۔ یوسف نے کہا : مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کریں کہ میں بلاشبہ خوب حفاظت کرنے والا، مہارت رکھنے والا ہوں۔

٥٦۔ اور اس طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ وہ جہاں چاہے اپنا مسکن بنا لے ، ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے نوازتے ہیں اور نیک لوگوں کا اجر ہم ضائع نہیں کرتے۔

٥٧۔اور آخرت کا اجر تو ایمان اور تقویٰ والوں کے لیے زیادہ بہتر ہے۔

٥٨۔ اور برادران یوسف (مصر) آئے اور یوسف کے ہاں حاضر ہوئے پس یوسف نے تو انہیں پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے۔

٥٩۔ اور جب یوسف ان کے لیے سامان تیار کر چکے تو کہنے لگے : (دوبارہ آؤ تو) باپ کی طرف سے اپنے ایک (سوتیلے ) بھائی کو میرے پاس لانا، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں ؟

٦٠۔ پس اگر تم اس بھائی کو نہ لاؤ گے تو میرے پاس سے نہ تو تمہیں کوئی غلہ ملے گا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آنا۔

٦١۔ انہوں نے کہا: ہم اس کے والد سے اسے طلب کریں گے اور ہم ایسا کر کے رہیں گے۔

٦٢۔ اور یوسف نے اپنے خدمتگاروں سے کہا: ان کی پونجی (جو غلے کی قیمت تھی) انہی کے سامان میں رکھ دو تاکہ جب وہ پلٹ کر اپنے اہل و عیال کی طرف جائیں تو اسے پہچان لیں ، اس طرح ممکن ہے وہ واپس آ جائیں۔

٦٣۔ پھر جب وہ اپنے والد کے پاس واپس گئے تو کہنے لگے : اے ہمارے ابا! ہمارے لیے غلے کی بندش ہو گئی لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے تاکہ ہم غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم بھائی کی حفاظت کریں گے۔

٦٤۔ یعقوب بولے : کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا ؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ سب سے بہترین رحم کرنے والا ہے۔

٦٥۔اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا ان کی پونجی انہیں واپس کر دی گئی کہنے لگے :اے ہمارے ابا! ہمیں اور کیا چاہیے ؟دیکھئے ! ہماری یہ پونجی ہمیں واپس کر دی گئی ہے اور ہم اپنے اہل و عیال کے لیے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ غلہ زیادہ لائیں گے اور وہ غلہ آسانی سے (حاصل) ہو جائے گا۔

٦٦۔ (یعقوب نے ) کہا: میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے ساتھ عہد نہ کرو کہ تم اسے میرے پاس ضرور واپس لاؤ گے مگر یہ کہ تم (کسی مشکل میں ) گھیر لیے جاؤ پھر جب انہوں نے اپنا عہد دے دیا تو یعقوب نے کہا: ہم جو بات کر رہے ہیں اس پر اللہ ضامن ہے۔

٦٧۔ اور یعقوب نے کہا: بیٹو! تم سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا اور میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکتا، حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے ، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور بھروسا کرنے والوں کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔

٦٨۔اور جب وہ داخل ہوئے جہاں سے ان کے والد نے انہیں حکم دیا تھا تو کوئی انہیں اللہ سے بچانے والا نہ تھا مگر یہ کہ یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی جسے انہوں نے پور ا کر دیا اور یعقوب یقیناً صاحب علم تھے اس لیے کہ ہم نے انہیں علم دیا تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٦٩۔ اور جب یہ لوگ یوسف کے ہاں داخل ہوئے تو یوسف نے اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی۔ کہا : بے شک میں ہی تیرا بھائی ہوں پس ان لوگوں کے سلوک پر ملال نہ کرنا۔

٧٠۔ پھر جب (یوسف نے ) ان کا سامان تیار کر لیا تو اپنے بھائی کے سامان میں پیالہ رکھ دیا پھر کسی پکارنے والے نے آواز دی : اے قافلے والو! تم چور ہو۔

٧١۔ وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے : تمہاری کیا چیز کھو گئی ہے ؟

٧٢۔ کہنے لگے : بادشاہ کا پیالہ کھو گیا ہے اور جو اسے پیش کر دے اس کے لیے ایک بار شتر (انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں۔

٧٣۔ قافلے والوں نے کہا : اللہ کی قسم تم لوگوں کو بھی علم ہے کہ ہم اس سرزمین میں فساد کرنے نہیں آئے اور نہ ہی ہم چور ہیں۔

٧٤۔ انہوں نے کہا : اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو اس کی سزا کیا ہونی چاہیے ؟

٧٥۔ کہنے لگے : اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں (مسروقہ مال) پایا جائے وہی اس کی سزا میں رکھ لیا جائے ، ہم تو ظلم کرنے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔

٧٦۔ پھر یوسف نے اپنے بھائی کے تھیلے سے پہلے ان کے تھیلوں کو (دیکھنا) شروع کیا پھر اسے اپنے بھائی کے تھیلے سے نکالا، اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی ورنہ وہ شاہی قانون کے تحت اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ اللہ کی مشیت ہو، جس کے ہم چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں اور ہر صاحب علم سے بالاتر ایک بہت بڑی دانا ذات ہے۔

٧٧۔(برادران یوسف نے ) کہا: اگر اس نے چوری کی ہے (تو نئی بات نہیں ) اس کے بھائی (یوسف)نے بھی تو پہلے چوری کی تھی، پس یوسف نے اس بات کو دل میں سہ لیا اور اسے ان پر ظاہر نہ کیا (البتہ اتنا ضرور) کہا: تم لوگ برے ہو (نہ کہ ہم دونوں ) اور جو بات تم بیان کر رہے ہو اسے اللہ بہتر جانتا ہے۔

٧٨۔ وہ کہنے لگے :اے عزیز ! اس کا باپ بہت سن رسیدہ ہو چکا ہے پس آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیں ہمیں آپ نیکی کرنے والے نظر آتے ہیں۔

٧٩۔کہا : پناہ بخدا! جس کے ہاں سے ہمارا سامان ہمیں ملا ہے اس کے علاوہ ہم کسی اور کو پکڑیں ؟ اگر ہم ایسا کریں تو زیادتی کرنے والوں میں ہوں گے۔

٨٠۔ پھر جب وہ اس سے مایوس ہو گئے تو الگ ہو کر مشورہ کرنے لگے ، ان کے بڑے نے کہا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی یوسف کے بارے میں تقصیر کر چکے ہو؟ لہٰذا میں توا س سرزمین سے ہلنے والا نہیں ہوں جب تک میرے والد مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ میرے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

٨١۔ تم اپنے والد کے پاس جاؤ اور ان سے کہو: اے ہمارے ابا جان!آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے اور ہمیں جو علم ہوا اس کی ہم نے گواہی دے دی ہے اور غیب کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔

٨٢۔ اور اس بستی (والوں ) سے پوچھیے جس میں ہم ٹھہرے تھے اور اس قافلے سے پوچھیے جس میں ہم آئے ہیں اور (یقین جانیے ) ہم بالکل سچے ہیں۔

٨٣۔(یعقوب نے )کہا: بلکہ تم نے خود اپنی طرف سے ایک بات بنائی ہے پس بہترین صبر کروں گا امید ہے کہ اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے ، یقیناً وہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

٨٤۔ اور یعقوب نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف اور ان کی آنکھیں (روتے روتے ) غم سے سفید پڑ گئیں اور وہ گھٹے جا رہے تھے۔

٨٥۔ (بیٹوں نے ) کہا: قسم بخدا ! یوسف کو برابر یاد کرتے کرتے آپ جان بلب ہو جائیں گے یا جان دے دیں گے۔

٨٦۔ یعقوب نے کہا : میں اپنا اضطراب اور غم صرف اللہ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور اللہ کی جانب سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

٨٧۔ اے میرے بیٹو! جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کے فیض سے مایوس نہ ہونا کیونکہ اللہ کے فیض سے تو صرف کافر لوگ مایوس ہوتے ہیں۔

٨٨۔ پھر جب وہ یوسف کے ہاں داخل ہوئے تو کہنے لگے : اے عزیز ! ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت تکلیف میں ہیں اور ہم نہایت ناچیز پونجی لے کر آئے ہیں پس آپ ہمیں پورا غلہ دیجیے اور ہمیں خیرات (بھی) دیجیے ، اللہ خیرات دینے والوں کو یقیناً اجر عطا کرنے والا ہے۔

٨٩۔یوسف نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ جب تم نادان تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

٩٠۔ وہ کہنے لگے : کیا واقعی آپ یوسف ہیں ؟ کہا: میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ، اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے ، اگر کوئی تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

٩١۔ انہوں نے کہا: قسم بخدا! اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے اور ہم ہی خطاکار تھے۔

٩٢۔ یوسف نے کہا: آج تم پر کوئی عتاب نہیں ہو گا، اللہ تمہیں معاف کر دے گا اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے

٩٣۔ یہ میرا کرتا لے جاؤ پھر اسے میرے والد کے چہرے پر ڈال دو تو اس کی بصارت لوٹ آئے گی اور تم اپنے تمام اہل و عیال کو میرے پاس لے آنا۔

٩٤۔ اور جب یہ قافلہ (مصر کی سرزمین سے ) دور ہوا تو ان کے باپ نے کہا: اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ سمجھو تو یقیناً مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔

٩٥۔ لوگوں نے کہا: قسم بخدا! آپ اپنے اسی پرانے خبط میں (مبتلا) ہیں۔

٩٦۔ پھر جب بشارت دینے والا آیا تو اس نے یوسف کا کرتا یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا تو وہ دفعتاً بینا ہو گئے ، کہنے لگے : کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ؟

٩٧۔ بیٹوں نے کہا: اے ہمارے ابا! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے دعا کیجیے ، ہم ہی خطاکار تھے۔

٩٨۔(یعقوب نے ) کہا: عنقریب میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروں گا،وہ یقیناً بڑا بخشنے والا،مہربان ہے

٩٩۔جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھایا اور کہا : اللہ نے چاہا تو امن کے ساتھ مصر میں داخل ہو جائیے۔

١٠٠۔ اور یوسف نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب ان کے آگے سجدے میں گر پڑے اور یوسف نے کہا:اے ابا جان! یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا، بتحقیق میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا اور اس نے سچ مچ مجھ پر احسان کیا جب مجھے زندان سے نکالا بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈالا آپ کو صحرا سے (یہاں ) لے آیا، یقیناً میرا رب جو چاہتا ہے اسے تدبیر خفی سے انجام دیتا ہے ، یقیناً وہی بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

١٠١۔ اے میرے رب ! تو نے مجھے اقتدار کا ایک حصہ عنایت فرمایا اور ہر بات کے انجام کا علم دیا، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ! تو ہی دنیا میں بھی میرا سرپرست ہے اور آخرت میں بھی، مجھے (دنیا سے )مسلمان اٹھا لے اور نیک بندوں میں شامل فرما۔

١٠٢۔ یہ غیب کی خبروں کا حصہ ہیں جنہیں ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں وگرنہ آپ اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اپنا عزم پختہ کر کے سازش کر رہے رہے تھے۔

١٠٣۔ اور آپ کتنے ہی خواہش مند کیوں نہ ہوں ان لوگوں میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

١٠٤۔اور (حالانکہ)آپ اس بات پر ان سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے اور یہ (قرآن) تو عالمین کے لیے بس ایک نصیحت ہے۔

١٠٥۔ اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ بغیر اعتنا کے گزر جاتے ہیں۔

١٠٦۔ ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لائے بھی ہیں تو اس کے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں۔

١٠٧۔کیا یہ لوگ اس بات سے بے فکر ہیں کہ اللہ کی طرف سے کوئی عذاب انہیں گھیر لے یا ناگہاں قیامت کی گھڑی آ جائے اور انہیں خبر تک نہ ہو؟

١٠٨۔کہہ دیجیے :یہی میرا راستہ ہے ، میں اور میرے پیروکار، پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور پاکیزہ ہے اللہ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

١٠٩۔ اور آپ سے پہلے ہم ان بستیوں میں صرف مردوں ہی کو بھیجتے رہے ہیں جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے ، تو کیا یہ لوگ روئے زمین پر چل پھر کر نہیں دیکھتے کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا؟ اور اہل تقویٰ کے لیے تو آخرت کا گھر ہی بہتر ہے ، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟

١١٠۔ یہاں تک کہ جب انبیاء (لوگوں سے ) مایوس ہو گئے اور لوگ بھی یہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا تو پیغمبروں کے لیے ہماری نصرت پہنچ گئی، اس کے بعد جسے ہم نے چاہا اسے نجات مل گئی اور مجرموں سے تو ہمارا عذاب ٹالا نہیں جا سکتا۔

١١١۔ بتحقیق ان (رسولوں ) کے قصوں میں عقل رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے ، یہ (قرآن) گھڑی ہوئی باتیں نہیں بلکہ اس سے پہلے آئے ہوئے کلام کی تصدیق ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔

 

 

سورۃ رعد۔ مکی۔ آیات ۷۳

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ الف لام میم را، یہ کتاب کی آیات ہیں اور جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

٢۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے آسمانوں کو تمہیں نظر آنے والے ستونوں کے بغیر بلند کیا پھر اس نے عرش پر سلطنت استوار کی اور سورج اور چاند کو مسخر کیا، ان میں سے ہر ایک مقررہ مدت کے لیے چل رہا ہے ، وہی امور کی تدبیر کرتا ہے وہی نشانیوں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے شاید تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔

٣۔ اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا بنائے اور ہر طرح کے پھلوں کے دو جوڑے بنائے ، وہی رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے ، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقیناً اس میں نشانیاں ہیں۔

٤۔ اور زمین میں باہم متصل ٹکڑے ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں نیز کھیتیاں اور کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ دوہرے تنے کے ہوتے ہیں اور کچھ دوہرے نہیں ہوتے ، سب کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے لیکن پھلوں میں (لذت میں ) ہم بعض کو بعض سے بہتر بناتے ہیں ، عقل سے کام لینے والوں کے لیے یقیناً ان چیزوں میں نشانیاں ہیں۔

٥۔ اور اگر آپ کو تعجب ہوتا ہے تو ان (کفار) کی یہ بات تعجب خیز ہے کہ جب ہم خاک ہو جائیں گے تو کیا ہم نئی پیدائش میں ہوں گے ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے منکر ہو گئے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں اور یہی جہنم والے ہیں جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے۔

٦۔ اور یہ لوگ آپ سے بھلائی سے پہلے برائی میں عجلت چاہتے ہیں جب کہ ان سے پہلے عذاب کے واقعات پیش آ چکے ہیں اور آپ کا پروردگار ظلم و زیادتی کے باوجود لوگوں سے یقیناً درگزر کرنے والا ہے اور آپ کا رب یقیناً سخت عذاب دینے والا (بھی) ہے۔

٧۔ اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ کہتے ہیں : اس شخص پر اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی نازل کیوں نہیں ہوتی؟ آپ تو محض تنبیہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کا ایک رہنما ہوا کرتا ہے۔

٨۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہر مادہ (مونث) کیا اٹھائے ہوئے ہے اور ارحام کیا گھٹاتے اور کیا بڑھاتے ہیں اور اس کے ہاں ہر چیز کی ایک (معین) مقدار ہے۔

٩۔ (وہ ) پوشیدہ اور ظاہر چیزوں کا جاننے والا بزرگ برتر ہے۔

١٠۔ تم میں سے کوئی آہستہ بات کرے یا آواز سے اور کوئی پردہ شب میں چھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں (سر عام) چل رہا ہو (اس کے لیے ) برابر ہے۔

١١۔ ہر شخص کے آگے اور پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے پہرے دار ( فرشتے ) مقرر ہیں جو بحکم خدا اس کی حفاظت کرتے ہیں ، اللہ کسی قوم کا حال یقیناً اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے اور جب اللہ کسی قوم کو برے حال سے دوچار کرنے کا ارادہ کر لے تو اس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار ہوتا ہے۔

١٢۔ وہی ہے جو تمہیں ڈرانے اور امید دلانے کے لیے بجلی کی چمک دکھاتا ہے اور بھاری بادلوں کو پیدا کرتا ہے۔

١٣۔ اور (بجلی کی) گرج اس کی ثنا کے ساتھ اور فرشتے اس کے خوف سے (لرزتے ہوئے ) تسبیح کرتے ہیں اور وہی بجلیوں کو روانہ کرتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے گراتا ہے جب وہ اللہ کے بارے میں الجھ رہے ہوتے ہیں اور وہ سخت طاقت والا ہے۔

١٤۔ صرف اللہ کو پکارنا برحق ہے اور وہ اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہیں وہ انہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے ، ایسے ہی جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ پانی (از خود) ا س کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس تک پہنچنے والا نہیں ہے اور کافروں کی دعا (اسی طرح) محض بے سود ہی ہے۔

١٥۔ اور آسمانوں اور زمین میں بسنے والے سب بشوق یا بزور اور ان کے سائے بھی صبح و شام اللہ ہی کے لیے سر بسجود ہیں۔

١٦۔ ان سے پوچھیے :آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے ؟ کہہ دیجئے : اللہ ہے ، کہہ دیں : تو پھر کیا تم نے اللہ کے سوا ایسوں کو اپنا اولیاء بنایا ہے جو اپنے نفع و نقصان کے بھی مالک نہیں ہیں ؟ کہہ دیجئے : کیا بینا اور نابینا برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا جنہیں ان لوگوں نے اللہ کا شریک بنایا ہے کیا انہوں نے اللہ کی خلقت کی طرح کچھ خلق کیا ہے جس کی وجہ سے پیدائش کا مسئلہ ان پر مشتبہ ہو گیا ہو؟ کہہ دیجئے : ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا، بڑا غالب آنے والا ہے۔

١٧۔ اللہ نے آسمانوں سے پانی برسایا پھر نالے اپنی گنجائش کے مطابق بہنے لگے پھر سیلاب نے پھولے ہوئے جھاگ کو اٹھایا اور ان (دھاتوں ) پر بھی ایسے ہی جھاگ اٹھتے ہیں جنہیں لوگ زیور اور سامان بنانے کے لیے آگ میں تپاتے ہیں ، اس طرح اللہ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے ، پھر جو جھاگ ہے وہ تو ناکارہ ہو کر ناپید ہو جاتا ہے اور جو چیز لوگوں کے فائدے کی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے ، اللہ اسی طرح مثالیں پیش کرتا ہے۔

١٨۔جنہوں نے اپنے رب کی دعوت مان لی ان کے لیے بہتری ہے اور جنہوں نے اس کی دعوت قبول نہیں کی وہ اگر ان سب چیزوں کے مالک بن جائیں جو زمین میں ہیں اور اتنی دولت مزید بھی ساتھ ہو تو وہ (آخرت میں ) ان سب کو (اپنی نجات کے لیے ) فدیہ دے دیں ، ایسے لوگوں کا برا حساب ہو گا اور جہنم ان کا ٹھکانا ہو گا اور وہ برا ٹھکانا ہے۔

١٩۔ کیا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ برحق ہے ، اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو نابینا ہے ؟ نصیحت تو بس عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔

٢٠۔ جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور پیمان کو نہیں توڑتے۔

٢١۔ اور اللہ نے جن رشتوں کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں قائم رکھتے ہیں اور اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں اور بر ے حساب سے بھی خائف رہتے ہیں۔

٢٢۔ اور جو لوگ اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو روزی ہم نے انہیں دی ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعے برائی کو دور کرتے ہیں آخرت کا گھر ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔

٢٣۔(یعنی) ایسی دائمی جنتیں ہیں جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آبا اور ان کی بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی اور فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے۔

٢٤۔ (اور کہیں گے ) تم پر سلامتی ہو یہ تمہارے صبر کا صلہ ہے ، پس عاقبت کا گھر کیا ہی عمدہ گھر ہے۔

٢٥۔ اور جو لوگ اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں منقطع کر دیتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ایسے ہی لوگوں پر لعنت ہے اور ان کے لئے ٹھکانا بھی برا ہو گا۔

٢٦۔ اللہ جس کی چاہے روزی بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے اور لوگ دنیاوی زندگی پر خوش ہیں جب کہ دنیاوی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک (عارضی) سامان ہے۔

٢٧۔ اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ کہتے ہیں : اس (رسول) پر اپنے رب کی طرف سے کوئی معجزہ کیوں نازل نہیں ہوتا؟ کہ دیجئے : اللہ جسے چاہے گمراہ کر دیتا ہے اور جو (اللہ کی طرف) رجوع کرتا ہے اپنی طرف اس کی رہنمائی فرماتا ہے۔

٢٨۔ (یہ لوگ ہیں ) جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دل یادِ خدا سے مطمئن ہو جاتے ہیں اور یاد رکھو! یاد خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔

٢٩۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیے ان کی نیک نصیبی ہے اور ان کے لیے بہترین ٹھکانا ہے۔

٣٠۔ (اے رسول )اسی طرح ہم نے آپ کو ایسی قوم میں بھیجا ہے جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں تاکہ آپ ان پر اس (کتاب) کی تلاوت کریں جس کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے جبکہ یہ لوگ خدائے رحمن کو نہیں مانتے ،کہہ دیجئے : وہی میرا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، اسی پر میں نے بھروسا کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے۔

٣١۔ اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا جس سے پہاڑ چل پڑتے یا زمین پھٹ جاتی یا مردے کلام کرتے (تو بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے ) بلکہ یہ سارے امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں ، کیا اہل ایمان پر یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ہدایت دے دیتا اور ان کافروں پر ان کے اپنے کر دار کی وجہ سے آفت آتی رہے گی یا ان کے گھروں کے قریب (مصیبت) آتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آ پہنچے ، یقیناً اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

٣٢۔ اور آپ سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا ہے پھر میں نے ان کافروں کو ڈھیل دی پھر میں نے انہیں گرفت میں لے لیا (تو دیکھ لو) عذاب کیسا شدید تھا۔

٣٣۔ کیا وہ اللہ جوہر نفس کے عمل پر کڑی نظر رکھتا ہے (بے حس بتوں کی طرح ہو سکتا ہے جنہیں ) ان لوگوں نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے ؟ کہہ دیجئے : ان کے نام (اور اوصاف) بیان کرو (جیسے اللہ کے اسمائے حسنیٰ ہیں )، کیا تم اللہ کو ایسی خبر دینا چاہتے ہو جسے وہ اس زمین میں نہیں جانتا یا یہ محض ایک کھوکھلی بات ہے ؟ بلکہ دراصل کافروں کے لیے ان کی مکاری زیبا بنا دی گئی ہے اور ان کے لیے ہدایت کا راستہ مسدود ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے گمراہ کر دے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔

٣٤۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو زیادہ مشقت والا ہے اور انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔

٣٥۔ اہل تقویٰ سے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان ایسی ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اس کے میوے اور ان کا سایہ دائمی ہیں ، یہ ہے اہل تقویٰ کی عاقبت اور کافروں کا انجام تو آتش ہے۔

٣٦۔اور جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ آپ کی طرف نازل ہونے والی کتاب سے خوش ہیں اور بعض فرقے ایسے ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے ، کہہ دیجئے : مجھے تو صرف یہ حکم ملا ہے کہ میں اللہ کی بندگی کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤں ، میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے رجوع کرنا ہے۔

٣٧۔ اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی میں ایک دستور بنا کر نازل کیا ہے اور اگر آپ نے علم آ جانے کے بعد بھی لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں آپ کو نہ کوئی حامی ملے گا اور نہ کوئی بچانے والا۔

٣٨۔ بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے اور انہیں ہم نے ازواج اور اولاد سے بھی نوازا اور کسی رسول کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے ، ہر زمانے کے لیے ایک دستور ہوتا ہے۔

٣٩۔ اللہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔

٤٠۔ اور جو وعدے ہم ان سے کر رہے ہیں خواہ ان کا کچھ حصہ ہم آپ کو (زندگی میں ) دکھا دیں یا ہم آپ کو اٹھا لیں بہرحال آپ کے ذمے صرف پیغام پہنچانا اور ہمارے ذمے حساب لینا ہے۔

٤١۔ کیا ان لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کا رخ کرتے ہیں تو اس کو اطراف سے کم کرتے چلے آتے ہیں ؟ اللہ حکم صادر فرماتا ہے اس کے حکم کو پس پشت ڈالنے والا کوئی نہیں اور وہ بلا درنگ حساب کر لینے والا ہے۔

٤٢۔ اور بے شک ان سے پہلے والوں نے بھی مکاریاں کی ہیں لیکن تمام تر تدبیریں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ، وہ ہر نفس کے عمل سے باخبر ہے اور کافروں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ عاقبت کا مسکن کس کے لیے ہے۔

٤٣۔ اور کافر کہتے ہیں : کہ آپ رسول نہیں ہیں ، کہہ دیجئے : میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے کافی ہیں۔

 

 

 

سورۃ ابراہیم۔ مکی۔ آیات ۵۲

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ الف لام را،یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو انکے رب کے اذن سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں ، غالب آنے والے قابل ستائش اللہ کے راستے کی طرف۔

٢۔ جس اللہ کی ملکیت میں آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات ہیں اور کافروں کے لیے عذاب شدید کی تباہی ہے۔

٣۔ جو آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی سے محبت کرتے ہیں اور راہ خدا سے روکتے ہیں اور اس میں انحراف لانا چاہتے ہیں یہ لوگ گمراہی میں دور تک چلے گئے ہیں۔

٤۔ ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی قوم کی زبان میں تاکہ وہ انہیں وضاحت سے بات سمجھا سکے پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

٥۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا(اور حکم دیا)کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ اور انہیں ایام خدا یاد دلاؤ، ہر صبر و شکر کرنے والے کے لیے یقیناً ان میں نشانیاں ہیں۔

٦۔ اور (یاد کیجیے ) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اللہ نے تمہیں جس نعمت سے نوازا ہے اسے یاد کرو جب اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات بخشی، وہ تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑا امتحان تھا۔

٧۔ اور (اے مسلمانو! یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے خبردار کیا کہ اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔

٨۔ اور موسیٰ نے کہا: اگر تم اور زمین میں بسنے والے سب ناشکری کریں تو بھی اللہ یقیناً بے نیاز، لائق حمد ہے۔

٩۔ کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں (مثلاً) نوح، عاد اور ثمود کی قوم اور جو ان کے بعد آئے جن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے ؟ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے منہ پر رکھ دیے اور کہنے لگے : ہم تو اس رسالت کے منکر ہیں جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس میں ہم شبہ انگیز شک میں ہیں ۔

١٠۔ ان کے رسول نے کہا: کیا (تمہیں ) اس اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے ؟ وہ تمہیں اس لیے دعوت دیتا ہے تاکہ تمہارے گناہ بخش دے اور ایک معین مدت تک تمہیں مہلت دے ، وہ کہنے لگے : تم تو ہم جیسے بشر ہو تم ہمیں ان معبودوں سے روکنا چاہتے ہو جن کی ہمارے باپ دادا پوجا کرتے تھے ، پس اگر کوئی کھلی دلیل ہے تو ہمارے پاس لے آؤ۔

١١۔ ان کے رسولوں نے ان سے کہا: بے شک ہم تم جیسے بشر ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے اور ہمارے اختیار میں نہیں کہ ہم تمہارے سامنے کوئی دلیل (معجزہ) اذن خدا کے بغیر پیش کریں اور مومنوں کو اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔

١٢۔ اور ہم اللہ پر توکل کیوں نہ کریں جب کہ اس نے ہمارے راستے ہمیں دکھا دیے ہیں ، (منکرو) جو اذیتیں تم ہمیں دے رہے ہو اس پر ہم ضرور صبر کریں گے اور توکل کرنے والوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔

١٣۔ اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا: ہم تمہیں اپنی سرزمین سے ضرور نکال دیں گے یا بہر صور ت تمہیں ہمارے دین میں واپس آنا ہو گا، اس وقت ان کے رب نے ان پر وحی کی کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے۔

١٤۔ اور ان کے بعد اس سرزمین میں ہم ضرور تمہیں آباد کریں گے ، یہ (خوشخبری) اس کے لیے ہے جو میرے حضور کھڑے ہونے (کے دن) سے ڈرتا ہو او ر اسے میرے وعدہ عذاب کا خوف بھی ہو۔

١٥۔ اور انبیاء نے فتح و نصرت مانگی تو ہر سرکش دشمن نامراد ہو کر رہ گیا۔

١٦۔ اس کے بعد جہنم ہے اور وہاں اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔

١٧۔ جسے وہ گھونٹ گھونٹ کر پیے گا مگر وہ اسے نہایت ناگوار گزرے گا، اسے ہر طرف سے موت آئے گی مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور اس کے پیچھے (مزید) سنگین عذاب ہو گا۔

١٨۔ جن لوگوں نے اپنے رب کا انکار کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے آندھی کے دن تیز ہوا نے اڑا دیا ہو، وہ اپنے اعمال کا کچھ بھی (پھل) حاصل نہ کر سکیں گے ، یہی تو بہت گہری گمراہی ہے۔

١٩۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے ؟ اگر وہ چاہے تو تمہیں تباہ کر دے اور (تمہاری جگہ) نئی مخلوق لے آئے۔

٢٠۔ اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

٢١۔ اور سب اللہ کے سامنے پیش ہوں گے تو کمزور لوگ ان لوگوں سے جو (دنیا میں ) بڑے بنتے تھے کہیں گے : ہم تمہارے تابع تھے تو کیا تم اللہ کے عذاب کا کچھ حصہ ہم سے ہٹا سکتے ہو؟ وہ کہیں گے : اگر اللہ نے ہمارے لیے کوئی راستہ چھوڑ دیا ہوتا تو ہم تمہیں بھی بتا دیتے ، ہمارے لیے یکساں ہے کہ ہم فریاد کریں یا صبر کریں۔، ہمارے لیے فریاد کا کوئی راستہ نہیں۔

٢٢۔ اور (قیامت کے دن) جب فیصلہ ہو چکے گا تو شیطان کہ اٹھے گا: اللہ نے تمہارے ساتھ یقیناً سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا پھر وعدہ خلافی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہیں چلتا تھا۔ مگر یہ کہ میں نے تمہیں صرف دعوت دی اور تم نے میرا کہنا مان لیا۔ پس اب تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ خود کو ملامت کرو (آج) نہ تو میں تمہارے فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو، پہلے تم مجھے (اللہ کا شریک) بناتے تھے میں (اب) یقیناً اس سے بیزار ہوں ، ظالموں کے لیے تو یقیناً دردناک عذاب ہے۔

٢٣۔ اور جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے وہ ان جنتوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ اپنے رب کی اجازت سے ہمیشہ ان میں رہیں گے ، وہاں (آپس میں ) ان کی تحیت سلام ہو گی۔

٢٤۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال پیش کی ہے کہ کلمہ طیبہ شجرہ طیبہ کی مانند ہے جس کی جڑ مضبوط گڑی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ؟

٢٥۔ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں اس لیے دیتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔

٢٦۔ اور کلمہ خبیثہ کی مثال اس شجرہ خبیثہ کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا گیا ہو اور اس کے لے ے کوئی ثبات نہ ہو۔

٢٧۔اللہ ایمان والوں کو دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی قول ثابت پر قائم رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ اپنی مشیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔

٢٨۔ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں اتار دیا؟

٢٩۔ وہ جہنم ہے جس میں وہ جھلس جائیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے۔

٣٠۔ اور انہوں نے اللہ کے لیے کچھ ہمسر بنا لیے تاکہ راہ خدا سے (لوگوں کو) گمراہ کریں ، ان سے کہہ دیجئے : (کچھ دن) لطف اٹھا لو آخر کار تمہارا ٹھکانا آتش ہے۔

٣١۔ میرے ایمان والے بندوں سے کہ دیجئے :نماز قائم کریں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کریں ، اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ سودا ہو گا اور نہ دوستی کام آئے گی۔

٣٢۔ اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہارے روزی کے لیے پھل پیدا کیے اور کشتیوں کو تمہارے لیے مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے سمندر میں چلے اور دریاؤں کو بھی تمہارے لیے مسخر کیا۔

٣٣۔ اور اسی نے ہمیشہ چلتے رہنے والے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا اور رات اور دن کو بھی تمہارے لیے مسخر بنایا۔

٣٤۔ اور اسی نے تمہیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کر سکو گے ، انسان یقیناً بڑا ہی بے انصاف، ناشکرا ہے۔

٣٥۔ اور (و ہ وقت یاد کیجیے ) جب ابراہیم نے دعا کی: پروردگارا! اس شہر کو پر امن بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔

٣٦۔ پروردگارا! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر رکھا ہے پس جو شخص میری پیروی کرے وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو یقیناً بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔

٣٧۔ اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایا، اے ہمارے پروردگار! تاکہ یہ نماز قائم کریں لہٰذا تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ یہ شکرگزار بنیں۔

٣٨۔ ہمارے رب ! جو کچھ ہم پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں تو اسے جانتا ہے ، اللہ سے کوئی چیز نہ تو زمین میں چھپ سکتی ہے اور نہ آسمان میں۔

٣٩۔ ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے عالم پیری میں مجھے اسماعیل اور اسحٰق عنایت کیے ، میرا رب تو یقیناً دعاؤں کا سننے والا ہے۔

٤٠۔ پروردگار مجھے قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، ہمارے پروردگار میری دعا قبول فرما۔

٤١۔ ہمارے رب مجھے اور میرے والدین اور ایمان والوں کو بروز حساب مغفرت سے نواز۔

٤٢۔ اور ظالم جو کچھ کر رہے ہیں آپ اس سے اللہ کو غافل تصور نہ کریں ، اللہ نے بے شک انہیں اس دن تک مہلت دے رکھی ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

٤٣۔ وہ سر اٹھائے دوڑ رہے ہوں گے ، ان کی نگاہیں خود ان کی طرف بھی لوٹ نہیں رہی ہوں گی اور ان کے دل (خوف کی وجہ) کھوکھلے ہو چکے ہوں گے۔

٤٤۔ اور لوگوں کو اس دن کے بارے میں تنبیہ کیجیے جس دن ان پر عذاب آئے گا تو ظالم لوگ کہیں گے : ہمارے رب ہمیں تھوڑی مدت کے لیے ڈھیل دے دے۔ اب ہم تیری دعوت پر لبیک کہیں گے اور رسولوں کی اتباع کریں گے ، (انہیں جواب ملے گا) کیا اس سے پہلے تم قسمیں نہیں کھاتے تھے کہ تمہارے لیے کسی قسم کا زوال و فنا نہیں ہے ؟

٤٥۔ حالانکہ تم ان لوگوں کے گھروں میں آباد تھے جو اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے اور تم پر یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا اور تمہارے لیے مثالیں بھی بیان کی تھیں۔

٤٦۔ اور انہوں نے اپنی مکاریاں کیں اور ان کی مکاریاں اللہ کے سامنے تھیں اگرچہ ان کی مکاریاں ایسی تھیں کہ جن سے پہاڑ بھی ٹل جائیں۔

٤٧۔ پس آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا، اللہ یقیناً بڑا غالب آنے والا، انتقام لینے والا ہے۔

٤٨۔ یہ (انتقام) اس دن ہو گا جب یہ زمین کسی اور زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب خدائے واحد و قہار کے سامنے پیش ہوں گے۔

٤٩۔ اس دن آپ مجرموں کو ایک ساتھ زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھیں گے۔

٥٠۔ ان کے لباس گندھک کے ہوں گے اور آگ ان کے چہروں پر چھائی ہوئی ہو گی۔

٥١۔ تاکہ اللہ ہر نفس کو اس کے عمل کی جزا دے ، اللہ یقیناً بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔

٥٢۔ یہ (قرآن) لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کی تنبیہ کی جائے اور وہ جان لیں کہ معبود تو بس وہ ایک ہی ہے نیز عقل والے نصیحت حاصل کریں۔

 

 

سورۃ حجر۔ مکی۔ آیات ۹۹

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ الف لام را ،یہ کتاب اور قرآن مبین کی آیات ہیں۔

پارہ : رُبَمَا 14

 

٢۔ ایک وقت ایسا ہو گا کہ کافر لوگ آرزو کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔

٣۔ انہیں چھوڑ دیجئے کہ وہ کھائیں اور مزے کریں اور ( طویل )آرزوئیں انہیں غافل بنا دیں کہ عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔

٤۔ اور ہم نے کسی بستی کو ہلاکت میں نہیں ڈالا مگر یہ کہ اس کے لیے ایک معینہ مدت لکھی ہوئی تھی۔

٥۔ کوئی قوم اپنی معینہ مدت سے نہ آگے نکل سکتی ہے اور نہ پیچھے رہ سکتی ہے۔

٦۔ اور (کافر لوگ) کہتے ہیں : اے وہ شخص جس پر ذکر نازل کیا گیا ہے یقیناً تو مجنون ہے۔

٧۔ اگر تو سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا؟

٨۔ (کہہ دیجئے ) ہم فرشتوں کو صرف (فیصلہ کن) حق کے ساتھ ہی نازل کرتے ہیں اور پھر کافروں کو مہلت نہیں دیتے۔

٩۔ اس ذ کر کو یقیناً ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

١٠۔ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی گزشتہ قوموں میں رسول بھیجے ہیں۔

١١۔ اور ان کے پاس کوئی رسول ایسا نہیں آیا جس کا انہوں نے استہزاء نہ کیا ہو۔

١٢۔ اسی طرح ہم اس ذکر کو مجرموں کے دلوں میں سے گزارتے ہیں ،

١٣۔ کہ وہ اس (رسول) پر ایمان نہیں لائیں گے اور بے شک پہلوں کی روش بھی یہی رہی ہے۔

١٤۔ اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ روز روشن میں اس پر چڑھتے چلے جائیں۔

١٥۔ تو یہی کہیں گے : ہماری آنکھوں کو یقیناً مدہوش کیا گیا بلکہ ہم پر جادو کیا گیا ہے۔

١٦۔ اور بتحقیق ہم نے آسمانوں میں نمایاں ستارے بنا دیے اور دیکھنے والوں کے لیے انہیں زیبائی بخشی۔

١٧۔ اور ہم نے ہر شیطان مردود سے انہیں محفوظ کر دیا ہے۔

١٨۔ ہاں اگر کوئی چوری چھپے سننے کی کوشش کرے تو ایک چمکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔

١٩۔ اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑ گاڑ دیے اور ہم نے زمین میں معینہ مقدار کی ہر چیز اگائی۔

٢٠۔ اور ہم نے تمہارے لیے زمین میں سامان زیست فراہم کیا اور ان مخلوقات کے لیے بھی جن کی روزی تمہارے ذمے نہیں ہے۔

٢١۔ اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں پھر ہم اسے مناسب مقدار کے ساتھ نازل کرتے ہیں۔

٢٢۔ اور ہم نے بار دار کنندہ ہوائیں چلائیں پھر ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہیں سیراب کیا (ورنہ) تم اسے جمع نہیں رکھ سکتے تھے۔

٢٣۔ اور بے شک ہم ہی زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی وارث ہیں۔

٢٤۔ اور بتحقیق ہم تم میں سے اگلوں کو بھی جانتے ہیں اور پچھلوں کو بھی جانتے ہیں۔

٢٥۔ اور آپ کا رب ہی ان سب کو (ایک جگہ) جمع کرے گا، بے شک وہ بڑا حکمت والا، علم والا ہے۔

٢٦۔ بتحقیق ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا۔

٢٧۔ اور اس سے پہلے ہم لو (گرم ہوا) سے جنوں کو پیدا کر چکے تھے۔

٢٨۔ اور ( وہ موقع یاد رکھو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا: میں سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔

٢٩۔ پھر جب میں اس کی تخلیق مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ ریز ہو جاؤ۔

٣٠۔ پس تمام کے تمام فرشتوں نے سجدہ کر لیا،

٣١۔ سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔

٣٢۔ اللہ نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟

٣٣۔ کہا: میں ایسے بشر کو سجدہ کرنے کا نہیں ہوں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا ہے۔

٣٤۔ اللہ نے فرمایا: نکل جا! اس مقام سے کیونکہ تو مردود ہو چکا ہے۔

٣٥۔ اور تجھ پر تا روز قیامت لعنت ہو گئی۔

٣٦۔ کہا : پروردگارا! پھر مجھے لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک مہلت دے دے۔

٣٧۔ فرمایا: تو مہلت ملنے والوں میں سے ہے

٣٨۔ معین وقت کے دن تک۔

٣٩۔ (ابلیس نے ) کہا: میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے بہکایا ہے (لہذا) میں بھی زمین میں ان کے لیے (باطل کو) ضرور آراستہ کر کے دکھاؤں گا اور سب کو ضرور بالضرور بہکاؤں گا۔

٤٠۔ ان میں سے سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔

٤١۔ اللہ نے فرمایا: یہی راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔

٤٢۔ جو میرے بندے ہیں ان پر یقیناً تیری بالا دستی نہ ہو گی سوائے ان بہکے ہوئے لوگوں کے جو تیری پیروی کریں۔

٤٣۔ ان سب کی وعدہ گاہ جہنم ہے۔

٤٤۔ جس کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کے لیے ان کا ایک حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے۔

٤٥۔ (ادھر) اہل تقویٰ یقیناً باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔

٤٦۔ (ان سے کہا جائے گا) سلامتی و امن کے ساتھ ان میں داخل ہو جاؤ۔

٤٧۔ اور ان کے دلوں میں جو کینہ ہو گا ہم نکال دیں گے وہ برادرانہ طور پر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

٤٨۔ جہاں نہ انہیں کوئی تکلیف پہنچے گی نہ انہیں وہاں سے نکالا جائے گا۔

٤٩۔ (اے رسول) میرے بندوں کو بتا دو کہ میں بڑا درگزر کرنے والا، مہربان ہوں۔

٥٠۔ اور یہ کہ میرا عذاب بھی یقیناً بڑا دردناک عذاب ہے۔

٥١۔ اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا حال بھی سنا دو۔

٥٢۔ جب وہ ابراہیم کے ہاں داخل ہوئے تو انہوں نے کہا: سلام! ابراہیم نے کہا: ہم تم سے خوفزدہ ہیں۔

٥٣۔ کہنے لگے : آپ خوف نہ کریں ہم آپ کو ایک دانا لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔

٥٤۔ کہا: کیا تم مجھے اس وقت خوشخبری دیتے ہو جب بڑھاپے نے مجھے گرفت میں لے لیا ہے ؟ کس بات کی خوشخبری دیتے ہو؟

٥٥۔ کہنے لگے : ہم نے آپ کو سچی خوشخبری دی ہے آپ مایوس نہ ہوں۔

٥٦۔ ابراہیم بولے : اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔

٥٧۔ پھر فرمایا: اے فرستادگان ! تمہاری مہم کیا ہے ؟

٥٨۔ کہنے لگے : ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔

٥٩۔مگر آل لوط کہ ان سب کو ہم ضرور بچا لیں گے۔

٦٠۔ البتہ ان کی بیوی کے بارے میں ہم نے یہ طے کیا ہے کہ وہ ضرور پیچھے رہ جانے والوں میں ہو گی۔

٦١۔ جب یہ فرستادگان آل لوط کے ہاں آئے۔

٦٢۔ تو لوط نے کہا: تم تو ناآشنا لوگ ہو۔

٦٣۔ کہنے لگے : ہم آپ کے پاس وہی چیز لے کر آئے ہیں جس کے بارے میں لوگ شک کر رہے تھے۔

٦٤۔ اور ہم تو آپ کے پاس امر حق لے کر آئے ہیں اور ہم بالکل سچے ہیں۔

٦٥۔ لہٰذا آپ اپنے گھر والوں کو لے کر رات کے کسی حصے میں یہاں سے چلے جائیں اور آپ ان کے پیچھے چلیں اور آپ میں سے کوئی شخص مڑ کر نہ دیکھے اور جدھر جانے کا حکم دیا گیا ہے ادھر چلے جائیں۔

٦٦۔ اور ہم نے لوط کو اپنا فیصلہ پہنچا دیا کہ صبح ہوتے ہی ان کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔

٦٧۔ ادھر شہر کے لوگ خوشیاں مناتے (لوط کے گھر) آئے۔

٦٨۔ لوط نے کہا: بلا شبہ یہ میرے مہمان ہیں لہٰذا تم مجھے رسوا نہ کرو۔

٦٩۔ اور اللہ سے ڈرو اور مجھے بدنام نہ کرو۔

٧٠۔ کہنے لگے : کیا ہم نے تمہیں ساری دنیا کے لوگوں (کی پذیرائی ) سے منع نہیں کیا تھا؟

٧١۔ لوط نے کہا: یہ میری بیٹیاں ہیں اگر تم کچھ کرنا ہی چاہتے ہو۔

٧٢۔ (اے رسول) آپ کی زندگی کی قسم! یقیناً وہ بدمستی میں مدہوش تھے۔

٧٣۔ پھر سورج نکلتے وقت انہیں خوفناک آواز نے گرفت میں لے لیا۔

٧٤۔ پھر ہم نے کسی بستی کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا اور ہم نے ان پر کنکریلے پتھر برسائے۔

٧٥۔ اس واقعہ میں صاحبان فراست کے لیے نشانیاں ہیں۔

٧٦۔ اور یہ بستی زیر استعمال گزرگاہ میں (آج بھی) موجود ہے۔

٧٧۔ اس میں ایمان والوں کے لیے یقیناً نشانی ہے۔

٧٨۔اور ایکہ والے یقیناً بڑے ظالم تھے۔

٧٩۔ تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور یہ دونوں بستیاں ایک کھلی شاہراہ پر واقع ہیں۔

٨٠۔ اور بتحقیق حجر کے باشندوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی۔

٨١۔ اور ہم نے انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں لیکن وہ ان سے منہ پھیرتے تھے۔

٨٢۔ اور وہ پہاڑوں کو تراش کر پر امن مکانات بناتے تھے۔

٨٣۔ اور انہیں صبح کے وقت ایک خوفناک آواز نے گرفت میں لے لیا۔

٨٤۔ پس جو وہ کیا کرتے تھے ان کے کام نہ آیا۔

٨٥۔ اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان موجودات کو برحق پیدا کیا ہے اور قیامت یقیناً آنے والی ہے لہٰذا (اے رسول)ان سے با وقار انداز میں درگزر کریں۔

٨٦۔ یقیناً آپ کا رب خالق اور بڑا دانا ہے۔

٨٧۔ اور بتحقیق ہم نے آپ کو (بار بار) دہرائی جانے والی سات (آیات) اور عظیم قرآن عطا کیا ہے۔

٨٨۔ (اے رسول) آپ اس سامان عیش کی طرف ہرگز نگاہ نہ اٹھائیں جو ہم نے ان (کافروں ) میں سے مختلف جماعتوں کو دے رکھا ہے اور نہ ہی ان کے حال پر رنجیدہ خاطر ہوں اور آپ مومنوں کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں۔

٨٩۔ اور کہہ دیجئے : میں تو صریحاً تنبیہ کرنے والا ہوں۔

٩٠۔ جیسا (عذاب) ہم نے دھڑے بندی کرنے والوں پر نازل کیا تھا۔

٩١۔جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔

٩٢۔پس آپ کے رب کی قسم ہم ان سب سے ضرور پوچھیں گے۔

٩٣۔ان اعمال کی بابت جو وہ کیا کرتے تھے۔

٩٤۔ آپ کو جس چیز کا حکم ملا ہے اس کا واشگاف الفاظ میں اعلان کریں اور مشرکین کی اعتنا نہ کریں۔

٩٥۔ آپ کے واسطے ان تمسخر کرنے والوں سے نپٹنے کے لیے یقیناً ہم کافی ہیں۔

٩٦۔ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنا لیتے ہیں عنقریب انہیں (اپنے انجام کا) علم ہو جائے گا۔

٩٧۔ اور بتحقیق ہمیں علم ہے کہ یہ جو کچھ کہ رہے ہیں اس سے آپ یقیناً دل تنگ ہو رہے ہیں۔

٩٨۔ پس آپ اپنے رب کی ثنا کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔

٩٩۔ اور اپنے رب کی عبادت کریں یہاں تک کہ آپ کو یقین (موت ) آ جائے۔

 

 

    سورۃ نحل۔ مکی۔ آیات ۱۲۸

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ اللہ کا امر آ گیا پس تم اس میں عجلت نہ کرو وہ پاک اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

٢۔ وہ اپنے حکم سے فرشتوں کو روح کے ساتھ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے (اس حکم کے ساتھ) کہ انہیں تنبیہ کرو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا تم میری مخالفت سے بچو۔

٣۔ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور جو شرک یہ لوگ کرتے ہیں اللہ اس سے بالاتر ہے۔

٤۔ اس نے انسان کو ایک بوند سے پیدا کیا پھر وہ یکایک کھلا جھگڑالو بن گیا۔

٥۔ اور اس نے مویشیوں کو پیدا کیا جن میں تمہارے لیے گرم پوشاک اور فوائد ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو۔

٦۔ اور ان میں تمہارے لیے رونق بھی ہے اور جب تم انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور صبح کو چرنے کے لیے بھیجتے ہو۔

٧۔اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر ایسے علاقوں تک لے جاتے ہیں جہاں تم جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے ، تمہارا رب یقیناً بڑا شفیق، مہربان ہے۔

٨۔ اور (اس نے ) گھوڑے خچر اور گدھے بھی (اس لیے پیدا کیے ) تاکہ تم ان پر سوار ہو اور تمہارے لیے زینت بنیں ، ابھی اور بھی بہت سی چیزیں پیدا کرے گا جن کا تمہیں علم نہیں ہے۔

٩۔اور سیدھا راستہ (دکھانا) اللہ کے ذمے ہے اور بعض راستے ٹیڑھے بھی ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کرتا۔

١٠۔ وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جس سے تمہیں پینے کو ملتا ہے اور اس سے درخت اگتے ہیں جن میں تم جانور چراتے ہو۔

١١۔ جس سے وہ تمہارے لیے کھیتیاں ، زیتون کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے ، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے ان چیزوں میں یقیناً نشانی ہے۔

١٢۔ اور اس نے تمہارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے اور ستارے بھی اس کے حکم سے مسخر ہیں ،عقل سے کام لینے والوں کے لیے ان چیزوں میں یقیناً نشانیاں ہیں۔

١٣۔ اور تمہارے لیے زمین میں رنگ برنگ کی جو مختلف چیزیں اگائی ہیں نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے ان میں یقیناً نشانی ہے۔

١٤۔ اور اسی نے (تمہارے لیے ) سمندر کو مسخر کیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنتے ہو اور آپ دیکھتے ہیں کہ کشتی سمندر کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہے تاکہ تم اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور شاید تم شکر گزار بنو۔

١٥۔ اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو گاڑ دیا تاکہ زمین تمہیں لے کر ڈگمگا نہ جائے اور نہریں جاری کیں اور راستے بنائے تاکہ تم راہ پاتے رہو۔

١٦۔ اور علامتیں بھی (بنائیں ) اور ستاروں سے بھی لوگ راستہ معلوم کر لیتے ہیں۔

١٧۔ کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کرتا؟ کیا تم غور نہیں کرتے ؟

١٨۔ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو انہیں شمار نہ کر سکو گے ، اللہ یقیناً بڑا درگزر کرنے والا، مہربان ہے۔

١٩۔ اور اللہ سب سے باخبر ہے جو تم پوشیدہ رکھتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔

٢٠۔ اور اللہ کو چھوڑ کر جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہیں۔

٢١۔ وہ زندہ نہیں مردہ ہیں اور انہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔

٢٢۔ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے لیکن جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل (قبول حق کے لیے ) منکر ہیں اور وہ تکبر کر رہے ہیں۔

٢٣۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ جو کچھ پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اللہ اسے جانتا ہے ، وہ تکبر کرنے والوں کو یقیناً پسند نہیں کرتا۔

٢٤۔ جب ان سے کہا جاتا ہے : تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے ؟ تو کہتے ہیں : داستان ہائے پارینہ۔

٢٥۔ (گویا) یہ لوگ قیامت کے دن اپنا سارا بوجھ اور کچھ ان کا بوجھ بھی اٹھانا چاہتے ہیں جنہیں وہ نادانی میں گمراہ کرتے ہیں دیکھو! کتنا برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں۔

٢٦۔ ان سے پہلے لوگوں نے مکاریاں کی ہیں لیکن اللہ نے ان کی عمارت کو بنیاد سے اکھاڑ دیا، پس اوپر سے چھت ان پر آ گری اور انہیں وہاں سے عذاب نے آ لیا جہاں سے انہیں توقع نہ تھی۔

٢٧۔ پھر اللہ انہیں قیامت کے دن رسوا کرے گا اور (ان سے ) کہے گا: کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے بارے میں تم جھگڑتے تھے ؟ (اس وقت) صاحبان علم کہیں گے : آج کافروں کے لیے یقیناً رسوائی اور برائی ہے۔

٢٨۔ فرشتے جن کی روحیں اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہے ہوں تب وہ کافر تسلیم کا اظہار کریں گے (اور کہیں گے ) ہم تو کوئی برا کام نہیں کرتے تھے ، ہاں ! جو کچھ تم کرتے تھے اللہ یقیناً اسے خوب جانتا ہے۔

٢٩۔ پس اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ جہاں تم ہمیشہ رہو گے ، تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا نہایت برا ہے۔

٣٠۔ اور متقین سے پوچھا جاتا ہے : تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے ؟ وہ کہتے ہیں : بہترین چیز، نیکی کرنے والوں کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو بہترین ہے ہی اور اہل تقویٰ کے لیے یہ کتنا اچھا گھر ہے۔

٣١۔ یہ لوگ دائمی جنت میں داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں ان کے لیے جو چاہیں گے موجود ہو گا۔ اللہ اہل تقویٰ کو ایسا اجر دیتا ہے۔

٣٢۔ جن کی روحیں فرشتے پاکیزہ حالت میں قبض کرتے ہیں (اور انہیں ) کہتے ہیں : تم پر سلام ہو! اپنے (نیک) اعمال کی جزا میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔

٣٣۔ کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے (ان کی جان کنی کے لیے ) ان کے پاس آئیں یا آپ کے رب کا فیصلہ آئے ؟ ان سے پہلوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا، اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں۔

٣٤۔ آخرکار انہیں ان کے برے اعمال کی سزائیں ملیں اور جس چیز کا یہ لوگ مذاق اڑاتے تھے اسی نے انہیں گھیر لیا۔

٣٥۔ اور مشرکین کہتے ہیں : اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا اس کے علاوہ کسی اور چیز کی پرستش نہ کرتے اور نہ اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام قرار دیتے ، ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا، تو کیا رسولوں پر واضح انداز میں تبلیغ کے سوا کوئی اور ذمہ داری ہے ؟

٣٦۔ اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو، پھر ان میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض کے ساتھ ضلالت پیوست ہو گئی، لہٰذا تم لوگ زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا تھا۔

٣٧۔ اگر آپ کو ان کی ہدایت کی شدید خواہش ہو بھی تو اللہ انہیں ہدایت نہیں دیتا جنہیں وہ ضلالت میں ڈال چکا ہو اور نہ ہی کوئی ان کی مدد کرنے والا ہو گا۔

٣٨۔ اور یہ لوگ اللہ کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں : جو مر جاتا ہے اسے اللہ زندہ کر کے نہیں اٹھائے گا، کیوں نہیں (اٹھائے گا)؟ یہ ایک ایسا برحق وعدہ ہے جو اللہ کے ذمے ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٣٩۔ تاکہ اللہ ان کے لیے وہ بات واضح طور پر بیان کرے جس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں اور کافر لوگ بھی جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔

٤٠۔ جب ہم کسی چیز کا ارادہ کر لیتے ہیں تو بے شک ہمیں اس سے یہی کہنا ہوتا ہے : ہو جا ! پس وہ ہو جاتی ہے۔

٤١۔ اور جنہوں نے ظلم کا نشانہ بننے کے بعد اللہ کے لیے ہجرت کی انہیں ہم دنیا ہی میں ضرور اچھا مقام دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے ، اگر وہ جانتے ہوتے۔

٤٢۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صبر کیا اور جو اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔

٤٣۔ اور ہم نے آپ سے سے قبل صرف مردان (حق) رسول بنا کر بھیجے ہیں جن ر ہم وحی بھیجا کرتے ہیں ، اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔

٤٤۔ (جنہیں ) دلائل اور کتاب دے کر بھیجا تھا اور (اے رسول) آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں اور شاید وہ (ان میں ) غور کریں۔

٤٥۔ جو بدترین مکاریاں کرتے ہیں کیا وہ اس بات سے بے خوف ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان پر ایسی جگہ سے عذاب آئے کہ جہاں سے انہیں خبر ہی نہ ہو؟

٤٦۔ یا انہیں آتے جاتے ہوئے (عذاب الٰہی) پکڑ لے ؟ پس وہ اللہ کو عاجز تو کر نہیں سکتے۔

٤٧۔ یا انہیں خوف میں رکھ کر گرفت میں لیا جائے ؟ پس تمہارا رب یقیناً بڑا شفقت کرنے والا، مہربان ہے۔

٤٨۔ کیا انہوں نے اللہ کی مخلوقات میں ایسی چیز نہیں دیکھی جس کے سائے دائیں اور بائیں طرف سے عاجز ہو کر اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے جھکتے ہیں ؟

٤٩۔ اور آسمانوں اور زمین میں ہر متحرک مخلوق اور فرشتے سب اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔

٥٠۔ وہ اپنے رب سے جو ان پر بالا دستی رکھتا ہے ڈرتے ہیں اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔

٥١۔ اور اللہ نے فرمایا: تم دو معبود نہ بنایا کرو، معبود تو بس ایک ہی ہے پس تم صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔

٥٢۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کی ملکیت ہے اور دائمی اطاعت صرف اسی کے لیے ہے تو کیا تم اللہ کے سوا دوسروں سے ڈرتے ہو؟

٥٣۔ اور تمہیں جو بھی نعمت حاصل ہو وہ اللہ کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو تم اس کے حضور زاری کرتے ہو۔

٥٤۔ پھر جب اللہ تم سے تکلیف دور کر دیتا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ اپنے رب کے ساتھ شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔

٥٥۔ اس طرح وہ ان نعمتوں کی ناشکری کرنا چاہتے ہیں جو ہم نے انہیں دے رکھی ہیں سو ابھی تم مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

٥٦۔ اور یہ لوگ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے ان کے لیے حصے مقرر کرتے ہیں جنہیں یہ جانتے بوجھتے تک نہیں ، اللہ کی قسم اس افترا کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔

٥٧۔ اور انہوں نے اللہ کے لیے بیٹیاں قرار دے رکھی ہیں جس سے وہ پاک و منزہ ہے اور (یہ لوگ) اپنے لیے وہ (اختیار کرتے ہیں ) جو یہ خود پسند کرتے ہیں (یعنی لڑکے )۔

٥٨۔ اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو مارے غصے کے اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے۔

٥٩۔ اس بری خبر کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے ) کیا اسے ذلت کے ساتھ زندہ رہنے دے یا اسے زیر خاک دبا دے ؟ دیکھو! کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں ؟

٦٠۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لیے بری صفات ہیں اور اللہ کے لیے تو اعلی صفات ہیں اور وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

٦١۔ اور اگر لوگوں کے ظلم کی وجہ سے اللہ ان کا مواخذہ کرتا تو روئے زمین پر کسی چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا، لیکن اللہ انہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دیتا ہے پس جب ان کا مقررہ وقت آ جاتا ہے تو وہ نہ گھڑی بھر کے لیے پیچھے ہو سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

٦٢۔ اور یہ لوگ وہ چیزیں اللہ کے لیے قرار دیتے ہیں جو خود (اپنے لیے ) پسند نہیں کرتے اور ان کی زبانیں جھوٹ کہتی ہیں کہ ان کے لیے بھلائی ہے جب کہ ان کے لیے یقیناً جہنم کی آگ ہے اور یہ لوگ سب سے پہلے پہنچائے جائیں گے۔

٦٣۔ اللہ کی قسم! آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف ہم نے (رسولوں کو) بھیجا لیکن شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر کے دکھائے پس آج وہی ان لوگوں کا سرپرست ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

٦٤۔ اور ہم نے صرف اس لیے آپ پر کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ وہ باتیں ان کے لیے واضح طور پر بیان کریں جن میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ثابت ہو۔

٦٥۔ اور اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کو زندہ کیا اس کے مردہ ہونے کے بعد، سننے والوں کے لیے یقیناً اس میں نشانی ہے۔

٦٦۔ اور تمہارے لے ے مویشیوں میں ے قے نا اے ک سبق ہے ، ان کے شکم میں مو جود گوبر اور خون کے درمے ان سے ہم تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔

٦٧۔ اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے تم نشے کی چیزیں بناتے ہیں اور پاک رزق بھی بنا لیتے ہو، عقل سے کام لینے والوں کے لیے اس میں ایک نشانی ہے۔

٦٨۔ اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی پر وحی کی کہ پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو عمارتیں بناتے ہیں ان میں گھر (چھتے ) بنائے۔

٦٩۔ پھر ہر (قسم کے ) پھل (کا رس) چوس لے اور اپنے پروردگار کی طرف سے تسخیر کردہ راہوں پر چلتی جائے ، ان مکھیوں کے شکم سے مختلف رنگوں کا مشروب نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے ، غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں ایک نشانی ہے۔

٧٠۔ اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے اور تم میں سے کوئی نکمی ترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے ، اللہ یقیناً بڑا جاننے والا، قدرت والا ہے۔

٧١۔ اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت دی ہے ، پھر جنہیں فضیلت دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں کو دینے والے نہیں ہیں کہ دونوں اس رزق میں برابر ہو جائیں ، کیا (پھر بھی) ہ لوگ اللہ کی نعمت سے انکار کرتے ہیں ؟

٧٢۔ اور اللہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں اور اس نے تمہاری ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا کیے اور تمہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں تو کیا یہ لوگ باطل پر ایمان لائیں گے اور اللہ کی نعمت کا انکار کریں گے ؟

٧٣۔ اور اللہ کو چھوڑ کر یہ لوگ ایسوں کی پوجا کرتے ہیں جنہیں نہ آسمانوں سے کوئی رزق دینے کا اختیار ہے اور نہ زمین سے اور نہ ہی وہ اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔

٧٤۔ پس اللہ کے لیے مثالیں نہ دیا کرو، (ان چیزوں کو) یقیناً اللہ بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

٧٥۔ اللہ ایک غلام کی مثال بیان فرماتا ہے جو دوسرے کا مملوک ہے اور خود کسی چیز پر قادر نہیں اور دوسرا (وہ شخص) جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق دے رکھا ہے پس وہ اس رزق میں سے پوشیدہ و علانیہ طور پر خرچ کرتا ہے ، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٧٦۔ اور اللہ دو (اور) مردوں کی مثال دیتا ہے ، ان میں سے ایک گونگا ہے جو کسی چیز پر بھی قادر نہیں ہے بلکہ وہ اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے ، وہ اسے جہاں بھی بھیجے کوئی بھلائی نہیں لاتا، کیا یہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود صراط مستقیم پر قائم ہے ؟

٧٧۔ اور آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ کے لیے (خاص) ہے اور قیامت کا معاملہ تو ایسا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا بلکہ اس سے بھی قریب تر، یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

٧٨۔ اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ شاید تم شکر کرو۔۔

٧٩۔ کیا انہوں نے ان پرندوں کو نہیں دیکھا جو فضائے آسمان میں مسخر ہیں ؟ اللہ کے سوا انہیں کسی نے تھام نہیں رکھا، ایمان والوں کے لیے یقیناً ان میں نشانیاں ہیں

٨٠۔ اور اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے سکون کی جگہ بنایا ہے اور اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے گھر بنائے جنہیں تم سفر کے دن اور حضر کے دن ہلکا محسوس کرتے ہو اور ان (جانوروں مثلاً بھیڑ) کی اون اور (اونٹ کی) پشم اور (بکرے کے ) بالوں سے گھر کا سامان اور ایک مدت تک کے لیے (تمہارے ) استعمال کی چیزیں بنائیں۔

٨١۔ اور اللہ نے تمہارے لیے اپنی پیدا کردہ چیزوں سے سائے بنائے اور پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں اور تمہارے لیے ایسی پوشاکیں بنائیں جو تمہیں گرمی سے بچائیں اور ایسی پوشاکیں جو تمہیں جنگ سے بچائیں ، اس طرح اللہ تم پر اپنی نعمتیں پوری کرتا ہے شاید تم فرمانبردار بن جاؤ۔

٨٢۔ پھر اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو (اے رسول) آپ کی ذمے داری تو صرف واضح انداز میں تبلیغ کرنا ہے۔

٨٣۔ یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچان لیتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر تو کافر ہیں۔

٨٤۔ اور اس روز ہم ہر امت میں سے ایک گواہ اٹھائیں گے پھر کافروں کو نہ تو اجازت دی جائے گی اور نہ ہی ان سے اپنے عتاب کو دور کرنے کے لیے کہا جائے گا۔

٨٥۔ اور جب ظالم لوگ عذاب کو دیکھ لیں گے تو نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔

٨٦۔ اور جنہوں نے شرک کیا ہے جب وہ اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے : اے ہمارے پروردگار! یہ ہمارے وہی شریک ہیں جنہیں ہم تیری بجائے پکارتے تھے تو وہ (شرکاء) اس بات کو مسترد کر دیں گے (اور کہیں گے ) بے شک تم جھوٹے ہو۔

٨٧۔ اور اس دن وہ اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیں گے اور ان کی افترا پردازیاں ناپید ہو جائیں گی۔

٨٨۔ جنہوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو ) راہ خدا سے روکا ان کے لیے ہم عذاب پر عذاب کا اضافہ کریں گے اس فساد کے عوض جو یہ پھیلاتے رہے۔

٨٩۔ اور (انہیں اس دن سے آگاہ کیجیے ) جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک گواہ خود انہیں میں سے اٹھائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لے آئیں گے اور ہم نے آپ پر یہ کتاب ہر چیز کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے والی اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر نازل کی ہے۔

٩٠۔ یقیناً اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔

٩١۔ اور جب تم عہد کرو تو اللہ سے عہد کو پورا کرو اور قسموں کو پختہ کرنے کے بعد نہ توڑو جب کہ تم اللہ کو اپنا ضامن بنا چکے ہو، جو کچھ تم کرتے ہو یقیناً اللہ اسے جانتا ہے۔

٩٢۔ اور تم اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے پوری طاقت سے سوت کاتنے کے بعد اسے تار تار کر ڈالا، تم اپنی قسموں کو آپس میں فساد کا ذریعہ بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ جائے ، اس بات کے ذریعے اللہ یقیناً تمہیں آزماتا ہے اور قیامت کے دن تمہیں وہ بات کھول کر ضرور بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے۔

٩٣۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔

٩٤۔ اور تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان فساد کا ذریعہ نہ بناؤ کہ قدم جم جانے کے بعد اکھڑ جائیں اور راہ خدا سے روکنے کی پاداش میں تمہیں عذاب چکھنا پڑے اور (ایسا کیا تو) تمہارے لیے بڑا عذاب ہے۔

٩٥۔ اور اللہ کے عہد کو تم قلیل معاوضے میں نہ بیچو، اگر تم جان لو تو تمہارے لیے صرف وہی بہتر ہے جو اللہ کے پاس ہے۔

٩٦۔ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور جن لوگوں نے صبر کیا ہے ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر ضرور دیں گے۔

٩٧۔ جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے۔

٩٨۔ پس جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو راندہ درگاہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں۔

٩٩۔ شیطان کو یقیناً ان لوگوں پر کوئی بالا دستی حاصل نہ ہو گی جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔

١٠٠۔ اس کی بالا دستی تو صرف ان لوگوں پر ہے جو اسے اپنا سرپرست بناتے ہیں اور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔

١٠١۔ اور جب ہم ایک آیت کو کسی اور آیت سے بدلتے ہیں تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا نازل کرے ، یہ لوگ کہتے ہیں : تم تو بس خود ہی گھڑ لاتے ہو، درحقیقت ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

١٠٢۔کہہ دیجیے :اسے روح القدس نے آپ کے۔رب کی طرف سے برحق نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کو ثابت (قدم) رکھے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور بشارت (ثابت) ہو۔

١٠٣۔ اور بتحقیق ہمیں علم ہے کہ یہ لوگ (آپ کے بارے میں ) کہتے ہیں : اس شخص کو ایک انسان سکھاتا ہے ، حالانکہ جس شخص کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ (قرآن)تو واضح عربی زبان ہے۔

١٠٤۔ جو لوگ اللہ کی نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے ، یقیناً اللہ ان کی ہدایت نہیں کرتا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

١٠٥۔ جھوٹ تو صرف وہی لوگ افترا کرتے ہیں جو اللہ کی نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں۔

١٠٦۔جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ کا انکار کرے (اس کے لیے سخت عذاب ہے ) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں ) لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

١٠٧۔ یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کیا ہے اور اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا۔

١٠٨۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور یہی لوگ غافل ہیں۔

١٠٩۔ لازماً آخرت میں یہی لوگ خسارے میں رہیں گے۔

١١٠۔ پھر آپ کا پروردگار یقیناً ان لوگوں کے لیے جنہوں نے آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور صبر سے کام لیا ان باتوں کے بعد آپ کا رب یقیناً بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

١١١۔ اس دن ہر شخص اپنی صفائی کی حجتیں قائم کرتے ہوئے پیش ہو گا اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

١١٢۔ اور اللہ ایسی بستی کی مثال دیتا ہے جو امن سکون سے تھی، ہر طرف سے اس کا وافر رزق اسے پہنچ رہا تھا، پھر اس نے اللہ کی نعمات کی ناشکری شروع کی تو اللہ نے ان کی حرکتوں کی وجہ سے انہیں بھوک اور خوف کا ذائقہ چکھا دیا۔

١١٣۔ اور بتحقیق ان کے پاس خود انہی میں سے ایک رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلایا پس انہیں عذاب نے اس حال میں آ لیا کہ وہ ظالم تھے۔

١١٤۔ پس جو حلال اور پاکیزہ رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اس کی بندگی کرتے ہو۔

١١٥۔ اس نے تو تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور اس چیز کو جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو حرام کر دیا ہے ، پس اگر کوئی مجبور ہوتا ہے نہ (قانون کا ) باغی ہو کر اور نہ (ضرورت سے ) تجاوز کا مرتکب ہو کر تو اللہ یقیناً بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

١١٦۔ اور جن چیزوں پر تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگاتی ہیں ان کے بارے میں نہ کہو یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ تم اللہ پر جھوٹ افترا کرو، جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ یقیناً فلاح نہیں پاتے۔

١١٧۔ چند روزہ کیف ہے اور پھر ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

١١٨۔ اور جنہوں نے یہودیت اختیار کی ہے ان پر وہی چیزیں ہم نے حرام کر دیں جن کا ذکر پہلے ہم آپ سے کر چکے ہیں اور ہم نے تو ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

١١٩۔ پھر بے شک آپ کا رب ان کے لیے جنہوں نے نادانی میں برا عمل کیا پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور اصلاح کر لی تو یقیناً اس کے بعد آپ کا پروردگار بڑا بخشنے والا ، مہربان ہے۔

١٢٠۔ ابراہیم (اپنی ذات میں ) ایک امت تھے اللہ کے فرمانبردار اور ( اللہ کی طرف) یکسو ہونے والے تھے اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔

١٢١۔ (وہ) اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے ، اللہ نے انہیں برگزیدہ کیا اور صراط مستقیم کی طرف ان نکی ہدایت کی۔

١٢٢۔ اور ہم نے دنیا میں انہیں بھلائی دی اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہیں۔

١٢٣۔ (اے رسول) پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ یکسوئی کے ساتھ ملت ابراہیمی کی پیروی کریں اور ابراہیم مشرکین میں سے نہ تھے۔

١٢٤۔ سبت (کا احترام ) ان لوگوں پر لازم کیا گیا تھا جنہوں نے اس بارے میں اختلاف کیا اور آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے تھے۔

١٢٥۔ (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں ، یقیناً آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

١٢٦۔ اور اگر تم بدلہ لینا چاہو تو اسی قدر بدلہ لو جس قدر تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور اگر تم نے صبر کیا تو یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہتر ہے۔

١٢٧۔ اور آپ صبر کریں اور آپ کا صبر صرف اللہ کی مدد سے ہے اور ان (مشرکین) کے بارے میں حزن نہ کریں اور نہ ہی ان کی مکاریوں سے تنگ ہوں۔

١٢٨۔ اللہ یقیناً تقویٰ اختیار کرنے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

 

 

سورۃ اسراء۔ مکی۔ آیات ۱۱۱

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

پارہ :سُبحٰنَ الّذِی 15

 

1۔ پاک ہے وہ جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے اس مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش میں ہم نے برکتیں رکھیں تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں ، یقیناً وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

٢۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس (کتاب) کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت قرار دیا کہ میرے علاوہ کسی کو کارساز نہ بناؤ۔

٣۔ اے ان لوگوں کی اولاد جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں )سوار کیا تھا! نوح یقیناً بڑے شکر گزار بندے تھے۔

٤۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں آگاہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ ضرور فساد برپا کرو گے اور ضرور بڑی طغیانی دکھاؤ گے۔

٥۔ پس جب دونوں میں سے پہلے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے زبردست طاقتور جنگجو بندوں کو تم پر مسلط کیا پھر وہ گھر گھر گھس گئے اور یہ پورا ہونے والا وعدہ تھا۔

٦۔ پھر دوسری بار ہم نے تمہیں ان پر غالب کر دیا اور اموال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہاری تعداد بڑھا دی۔

٧۔ اگر تم نے نیکی کی تو اپنے لیے نیکی کی اور اگر تم نے برائی کی تو بھی اپنے حق میں کی پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے ایسے دشمنوں کو مسلط کیا ) وہ تمہارے چہرے بدنما کر دیں اور مسجد (اقصیٰ) میں اس طرح داخل ہو جائیں جس طرح اس میں پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے اسے تباہ کر دیں۔

٨۔ امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کرے گا اور اگر تم نے (شرارت) دہرائی تو ہم بھی (اسی روش کو) دہرائیں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے۔

٩۔ یہ قرآن یقیناً اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے اور ان مومنین کو جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

١٠۔ اور یہ کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لیے ہم نے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

١١۔ اور انسان کو جس طرح خیر مانگنا چاہیے اسی انداز سے شر مانگتا ہے اور انسان بڑا جلد باز ہے۔

١٢۔ اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے پھر ہم نے رات کی نشانی کو ماند کر دیا اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور سالوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو اور ہم نے ہر چیز کو پوری تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔

١٣۔ اور ہم نے ہر انسان کا عمل اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب پیش کریں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔

١٤۔ پڑھ اپنا نامۂ اعمال! آج اپنے حساب کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔

١٥۔ جو ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے لیے ہدایت حاصل کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ اپنے ہی خلاف گمراہ ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا اور جب تک ہم کسی رسول کو مبعوث نہ کریں عذاب دینے والے نہیں ہیں۔

١٦۔ اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں ، تب اس بستی پر فیصلہ عذاب لازم ہو جاتا ہے پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔

١٧۔ اور نوح کے بعد کتنی نسلوں کو ہم نے ہلاکت میں ڈال دیا اور آپ کا رب ہی اپنے بندوں کے گناہوں پر آگاہی رکھنے ، نگاہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

١٨۔ جو شخص عجلت پسند ہے تو ہم جسے جو چاہیں اس دنیا میں اسے جلد دیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم کو مقرر کیا ہے جس میں وہ مذموم اور راندہ درگاہ ہو کر بھسم ہو جائے گا۔

١٩۔ اور جو شخص آخرت کا طالب ہے اور اس کے لیے جتنی سعی درکا رہے وہ اتنی سعی کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو ایسے لوگوں کی سعی مقبول ہو گی۔

٢٠۔ ہم (دنیا میں ) ان کی بھی اور ان کی بھی آپ کے پروردگار کے عطیے سے مدد کرتے ہیں اور آپ کے پروردگار کا عطیہ (کسی کے لیے بھی) ممنوع نہیں ہے۔

٢١۔ دیکھ لیجیے : ہم نے کس طرح ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور آخرت تو درجات کے اعتبار سے زیادہ بڑی اور فضیلت کے اعتبار سے بھی زیادہ بڑی ہے۔

٢٢۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنا ورنہ تو مذموم اور بے یار و مددگار ہو کر بیٹھ جائے گا۔

٢٣۔ اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا۔

٢٤۔ اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو: پروردگارا! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے ) پالا تھا۔

٢٥۔جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس پر تمہارا پروردگار زیادہ باخبر ہے ، اگر تم صالح ہوئے تو وہ پلٹ کر آنے والوں کے لیے یقیناً بڑا معاف کرنے والا ہے۔

٢٦۔اور قریبی ترین رشتہ داروں کو ان کا حق دیا کرو اور مساکین اور مسافروں کو بھی اور فضول خرچی نہ کیا کرو۔

٢٧۔ فضول خرچی کرنے والے یقیناً شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔

٢٨۔ اور اگر آپ اپنے پروردگار کی رحمت کی تلاش میں جس کی آپ کو امید بھی ہو ان لوگوں کی طرف توجہ نہ کر سکیں تو ان سے نرمی کے ساتھ بات کریں۔

٢٩۔ اور نہ تو آپ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر رکھیں اور نہ ہی اسے بالکل کھلا چھوڑ دیں ، ورنہ آپ ملامت کا نشانہ اور تہی دست ہو جائیں گے۔

٣٠۔ یقیناً آپ کا رب جس کے لیے چاہتا ہے روزی فراخ اور تنگ کر دیتا ہے ، وہ اپنے بندوں کے بارے میں یقیناً نہایت با خبر، نگاہ رکھنے والا ہے۔

٣١۔ اور تم اپنی اولاد کو تنگ دستی کے خوف سے قتل نہ کیا کرو، ہم انہیں رزق دیں گے اور تمہیں بھی، ان کا قتل یقیناً بہت بڑا گناہ ہے۔

٣٢۔ اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، یقیناً یہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔

٣٣۔ اور جس جان کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے تم اسے قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ اور جو شخص مظلوم مارا جائے تو ہم نے اس کے ولی کو(قصاص کا) اختیار دیا ہے ، پس اسے بھی قتل میں حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے ، یقیناً نصرت اسی کی ہو گی۔

٣٤۔ اور تم یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے سے جس میں بہتری ہو یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو، یقیناً عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

٣٥۔ اور تم ناپتے وقت پیمانے کو پورا کر کے دو اور جب تول کر دو تو ترازو سیدھی رکھو، بھلائی اسی میں ہے اور انجام بھی اسی کا زیادہ بہتر ہے۔

٣٦۔ اور اس کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں ہے کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب سے باز پرس ہو گی۔

٣٧۔ اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو، بلاشبہ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ ہی بلندی کے لحاظ سے پہاڑوں تک پہنچ سکتے ہو۔

٣٨۔ ان سب کی برائی آپ کے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔

٣٩۔ یہ حکمت کی وہ باتیں ہیں جو آپ کے پروردگار نے آپ کی طرف وحی کی ہیں اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ ورنہ ملامت کا نشانہ اور راندہ درگاہ بنا کر جہنم میں ڈال دیے جاؤ گے۔

٤٠۔ (اے مشرکین) کیا تمہارے رب نے تم کو بیٹوں کے لیے چن لیا اور خود فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا، بتحقیق تم لوگ بہت بڑی (گستاخی کی) بات کرتے ہو۔

٤١۔اور ہم نے اس قرآن میں (دلائل کو) مختلف انداز میں بیان کیا ہے تاکہ یہ لوگ سمجھ لیں مگر وہ مزید دور جا رہے ہیں۔

٤٢۔ کہہ دیجئے : اگر اللہ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہ رہے ہیں تو وہ مالک عرش تک پہنچنے کے لیے راستہ تلاش کرتے۔

٤٣۔ پاکیزہ اور بالاتر ہے وہ ان باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

٤٤۔ ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو موجودات ہیں سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی ثنا میں تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو، اللہ یقیناً نہایت بردبار، معاف کرنے والا ہے۔

٤٥۔ اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک نامرئی پردہ حائل کر دیتے ہیں۔

٤٦۔ اور ہم ان کے دلوں پر پردے ڈال دیتے ہیں کہ وہ کچھ سمجھ ہی نہ سکیں اور ان کے کانوں میں سنگینی کر دیتے ہیں اور جب آپ قرآن میں اپنے یکتا رب کا ذکر کرتے ہیں تو وہ نفرت سے اپنی پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔

٤٧۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ جب یہ لوگ آپ کی طرف کان لگا کر سنتے ہیں تو کیا سنتے ہیں اور جب یہ لوگ سرگوشیاں کرتے ہیں تو یہ ظالم کہتے ہیں : تم (لوگ) تو ایک سحرزدہ آدمی کی پیروی کرتے ہو۔

٤٨۔ دیکھ لیں ! ان لوگوں نے آپ کے بارے میں کس طرح کی مثالیں بنائی ہیں پس یہ گمراہ ہو چکے ہیں چنانچہ یہ کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔

٤٩۔ اور وہ کہتے ہیں : کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھائے جائیں گے ؟

٥٠۔ کہہ دیجئے : تم خواہ پتھر ہو جاؤ یا لوہا۔

٥١۔ یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے خیال میں بڑی ہو (پھر بھی تمہیں اٹھایا جائے گا) پس وہ پوچھیں گے : ہمیں دوبارہ کون واپس لائے گا؟ کہہ دیجئے : وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا، پس وہ آپ کے آگے سر ہلائیں گے اور کہیں گے : یہ کب ہو گا؟ کہہ دیجئے : ہو سکتا ہے وہ (وقت) قریب ہو۔

٥٢۔ جس دن وہ تمہیں بلائے گا تو تم اس کی ثنا کرتے ہوئے تعمیل کرو گے اور (اس وقت)تمہارا یہ گمان ہو گا کہ تم (دنیا میں ) تھوڑی دیر رہ چکے ہو۔

٥٣۔ اور میرے بندوں سے کہہ دیجیے : وہ بات کرو جو بہترین ہو کیونکہ شیطان ان میں فساد ڈلواتا ہے ، بتحقیق شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

٥٤۔ تمہارا رب تمہارے حال سے زیادہ باخبر ہے ، اگر وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور اگر چاہے تو تمہیں عذاب دے اور (اے رسول) ہم نے آپ کو ان کا ضامن بنا کر نہیں بھیجا۔

٥٥۔اور(اے رسول)آپ کا رب آسمانوں اور زمین کی موجودات کو بہتر جانتا ہے اور بتحقیق ہم نے انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور داؤد کو ہم نے زبور عطا کی ہے۔

٥٦۔کہہ دیجئے :جنہیں تم اللہ کے سوا (اپنا معبود) سمجھتے ہو انہیں پکارو، پس وہ تم سے نہ کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ (ہی اسے ) بدل سکتے ہیں۔

٥٧۔ جن (معبودوں ) کو یہ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب تک رسائی کے لیے وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ ان میں کون زیادہ قریب ہو جائے اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خائف بھی، کیونکہ آپ کے رب کا عذاب یقیناً ڈرنے کی چیز ہے۔

٥٨۔ اور کوئی بستی ایسی نہیں جسے ہم قیامت کے دن سے پہلے ہلاک نہ کریں یا سخت عذاب میں مبتلا نہ کریں ، یہ بات کتاب (تقدیر) میں لکھی جا چکی ہے۔

٥٩۔ اور نشانیاں بھیجنے سے ہمارے لیے کوئی مانع نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس سے پہلے کے لوگوں نے اسے جھٹلایا ہے اور (مثلاً) ثمود کو ہم نے اونٹنی کی کھلی نشانی دی تو انہوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا اور ہم ڈرانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں۔

٦٠۔ اور (اے رسول وہ وقت یاد کریں ) جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے اور وہ درخت جسے قرآن میں ملعون ٹھہرایا گیا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کی آزمائش قرار دیا اور ہم انہیں ڈراتے ہیں مگر یہ تو ان کی بڑی سرکشی میں اضافے کا سبب بنتا جاتا ہے۔

٦١۔ اور (یاد کریں ) جب ہم نے فرشتوں سے کہا:آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ، اس نے کہا: کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے ؟

٦٢۔ پھر کہا: مجھے بتاؤ! یہی ہے وہ جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے ؟ اگر تو نے مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دی تو قلیل تعداد کے سوا میں اس کی سب اولاد کی جڑیں ضرور کاٹ دوں گا۔

٦٣۔ (اللہ تعالیٰ نے ) فرمایا : دور ہو جا! ان میں سے جو کوئی تیری پیروی کر ے گا تو تم سب کے لیے جہنم کی سزا ہی یقیناً مکمل سزا ہے۔

٦٤۔ اور ان میں سے تو جس جس کو اپنی آواز سے لغزش سے دوچار کر سکتا ہے کر اور اپنے سواروں اور پیادوں کے ساتھ ان پر چڑھائی کر دے اور ان کے اموال اور اولاد میں ان کا شریک بن جا اور انہیں (جھوٹے ) وعدوں میں لگا رکھ اور شیطان سوائے دھوکے کے انہیں اور کوئی وعدہ نہیں دیتا۔

٦٥۔ میرے بندوں پر تیری کوئی بالا دستی نہیں ہے اور آپ کا پروردگار ہی ضمانت کے لیے کافی ہے۔

٦٦۔ تمہارا پروردگار وہ ہے جو سمندر میں تمہارے لیے کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل (روزی) تلا ش کرو، اللہ تم پر یقیناً نہایت مہربان ہے۔

٦٧۔ او ر جب سمندر میں تمہیں کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو سوائے اللہ کے جن جن کو تم پکارتے تھے وہ سب ناپید ہو جاتے ہیں پھر جب اللہ تمہیں خشکی کی طرف نجات دیتا ہے تو تم منہ موڑنے لگتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ثابت ہوا ہے۔

٦٨۔تو کیا تم اس بات سے خائف نہیں ہو کہ اللہ تمہیں خشکی کی طرف زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسانے والی آندھی چلا دے ، پھر تم اپنے لیے کوئی ضامن نہیں پاؤ گے۔

٦٩۔ آیا تمہیں اس بات کا خوف نہیں کہ اللہ تمہیں دوبارہ سمندر کی طرف لے جائے پھر تم پر تیز ہوا چلا دے پھر تمہارے کفر کی پاداش میں تمہیں غرق کر دے ؟ پھر تمہیں اپنے لیے اس بات پر ہمارا پیچھا کرنے والا کوئی نہ ملے گا۔

٧٠۔ اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی۔

٧١۔ قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے پھر جن کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا پس و ہ اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔

٧٢۔ اور جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ (اندھے سے بھی) زیادہ گمراہ ہو گا۔

٧٣۔ اور (اے رسول) یہ لوگ آپ کو اس وحی سے منحرف کرنے کی کو شش کر رہے تھے جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی ہے تاکہ آپ (وحی سے ہٹ کر) کوئی اور بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کریں اس صورت میں وہ ضرور آپ کو دوست بنا لیتے۔

٧٤۔ اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بلاشبہ آپ کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ہو جاتے۔

٧٥۔ اس صورت میں ہم آپ کو زندگی میں بھی دوہرا عذاب اور آخرت میں بھی دوہرا عذاب چکھا دیتے پھر آپ ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار نہ پاتے۔

٧٦۔ اور قریب تھا کہ یہ لوگ آپ کے قدم اس سرزمین سے اکھاڑ دیں تاکہ آپ کو یہاں سے نکال دیں اور اگر یہ ایسا کریں گے تو آپ کے بعد یہ زیادہ دیر یہاں نہیں ٹھہر سکیں گے۔

٧٧۔ یہ ہمارا دستور ہے جو ان تمام رسولوں کے ساتھ رہا ہے جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

٧٨۔ زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب و عشاء کی) نماز قائم کرو اور فجر کی نماز بھی کیونکہ فجر کی نماز (ملائکہ کے ) حضور کا وقت ہے۔

٧٩۔ اور رات کا کچھ حصہ قرآن کے ساتھ بیداری میں گزارو، یہ ایک زائد (عمل) صرف آپ کے لیے ہے ، امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔

٨٠۔ اور یوں کہیے : پروردگارا! تو مجھے (ہر مرحلہ میں ) سچائی کے ساتھ داخل کر اور سچائی کے ساتھ (اس سے ) نکال اور اپنے ہاں سے مجھے ایک قوت عطا فرما جو مددگار ثابت ہو۔

٨١۔ اور کہہ دیجئے : حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقیناً مٹنا ہی تھا۔

٨٢۔ اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لیے تو شفا اور رحمت ہے لیکن ظالموں کے لیے تو صرف خسارے میں اضافہ کرتی ہے۔

٨٣۔ اور جب ہم انسان کو نعمتوں سے نوازتے ہیں تو وہ روگردانی کرتا ہے اور اپنی کروٹ پھیر لیتا ہے اور جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے۔

٨٤۔کہہ دیجیے : ہر شخص اپنے مزاج و طبیعت کے مطابق عمل کرتا ہے ، پس تمہارا رب بہتر علم رکھتا ہے کہ کون بہترین راہ ہدایت پر ہے۔

٨٥۔ اور لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں ، کہہ دیجئے : روح میرے رب کے امر سے متعلق (ایک راز) ہے اور تمہیں تو بہت کم علم دیا گیا ہے۔

٨٦۔ اور اگر ہم چاہیں تو ہم نے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی ہے وہ سب سلب کر لیں ، پھر آپ کو ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں ملے گا۔

٨٧۔ سوائے آپ کے رب کی رحمت کے ، آپ پر یقیناً اس کا بڑا فضل ہے۔

٨٨۔ کہہ دیجئے : اگر انسان اور جن سب مل کر اس قرآن کی مثل لانے کی کوشش کریں تو وہ اس کی مثل لا نہیں سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔

٨٩۔ اور بتحقیق ہم نے اس قرآن میں ہر مضمون کو لوگوں کے لیے مختلف انداز میں بیان کیا ہے لیکن اکثر لوگ کفر پر ڈٹ گئے۔

٩٠۔ اور کہنے لگے : ہم آپ پر ایمان نہیں لاتے جب تک آپ ہمارے لیے زمین کو شگافتہ کر کے ایک چشمہ جاری نہ کریں۔

٩١۔ یا آپ کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایسا باغ ہو جس کے درمیان آپ نہریں جاری کریں۔

٩٢۔ یا آپ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں جیسا کہ خود آپ کا زعم ہے یا خود اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئیں۔

٩٣۔ یا آپ کے لیے سونے کا ایک گھر ہو یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے جب تک آپ ہمارے لیے ایسی کتاب اپنے ساتھ اتار نہ لائیں جسے ہم پڑھیں ، کہہ دیجئے : پاک ہے میرا رب، میں تو صرف پیغام پہنچانے والا انسان ہوں۔

٩٤۔ اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آ گئی تو اس پر ایمان لانے میں اور کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ کہتے تھے : کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟

٩٥۔ کہہ دیجئے : اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چلتے پھرتے بس رہے ہوتے تو ہم آسمان سے ایک فرشتے کو رسول بنا کر ان پر نازل کرتے۔

٩٦۔ کہہ دیجئے : میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ کافی ہے ، وہی اپنے بندوں کا حال یقیناً خوب جانتا اور دیکھتا ہے۔

٩٧۔ اور ہدایت یافتہ وہ ہے جس کی اللہ ہدایت کرے اور جسے اللہ گمراہ کر دے تو آپ اللہ کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں پائیں گے اور قیامت کے دن ہم انہیں اوندھے منہ اندھے اور گونگے اور بہرے بنا کر اٹھائیں گے ، ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا، جب آگ فرو ہونے لگے گی تو ہم اسے ان پر اور بھڑکائیں گے۔

٩٨۔ یہ ان کے لیے اس بات کا بدلہ ہے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کا انکار کیا اور کہا: کیا جب ہم ہڈیاں اور خاک ہو جائیں گے تو کیا پھر ہم نئے سرے سے خلق کر کے اٹھائیں گے ؟

٩٩۔ کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا ہے وہ ان جیسوں کو پیدا کرنے پر قادر ہے ؟اور اس نے ان کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں لیکن ظالم لوگ انکار پر تلے ہوئے ہیں۔

١٠٠۔کہہ دیجئے : اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں پر اختیار رکھتے تو تم خرچ کے خوف سے انہیں روک لیتے اور انسان بہت (تنگ دل) واقع ہوا ہے۔

١٠١۔اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو نو (٩) واضح نشانیاں دی تھیں یہ بات خود بنی اسرائیل سے پوچھ لیجیے ، جب موسیٰ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان (موسیٰ) سے کہا: اے موسی! میرا خیال ہے کہ تم سحرزدہ ہو گئے ہو۔

١٠٢۔ موسیٰ نے کہا: (اے فرعون دل میں ) تو یقیناً جانتا ہے کہ ان نشانیوں کو آسمانوں اور زمین کے پروردگار نے ہی بصیرت افروز بنا کر نازل کیا ہے اور اے فرعون! میرا خیال ہے کہ تو ہلاک ہو جائے گا۔

١٠٣۔ پس فرعون نے ارادہ کر لیا تھا کہ انہیں زمین سے ہٹا دے مگر ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک ہی ساتھ غرق کر دیا۔

١٠٤۔ اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا: تم اس سرزمین میں سکونت اختیار کرو پھر جب آخرت کا وعدہ آ جائے گا تو ہم تم سب کو ایک ساتھ لے آئیں گے۔

١٠٥۔ اور اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور اسی حق کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے اور (اے رسول) ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔

١٠٦۔ اور قرآن کو ہم نے جدا جدا رکھا ہے تاکہ آپ اسے ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج نازل کیا ہے۔

١٠٧۔ کہہ دیجئے : تم خواہ ایمان لاؤ یا ایمان نہ لاؤ، اس سے پہلے جنہیں علم دیا گیا ہے جب یہ پڑھ کر انہیں سنایا جاتا ہے تو یقیناً وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں۔

١٠٨۔ اور کہتے ہیں : پاک ہے ہمارا پروردگار اور ہمارے پروردگار کا وعدہ پورا ہوا۔

١٠٩۔ اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گرتے ہیں اور روتے جاتے ہیں اور ان کا خشوع مزید بڑھا دیتا ہے۔

١١٠۔ کہہ دیجئے : اللہ کہ کر پکارو یا رحمن کہ کر پکارو، جس نام سے بھی پکارو اس کے سب نام اچھے ہیں اور آپ اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھیں ، نہ بہت آہستہ بلکہ درمیانی راستہ اختیار کریں۔

١١١۔ اور کہہ دیجئے : ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور نہ وہ ناتواں ہے کہ کوئی اس کی سرپرستی کرے اور اس کی بڑا ئی کماحقہ بیان کرو۔

 

#

 

سورۃ کہف۔ مکی۔ آیات ١١٠

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی قسم کی کجی نہیں رکھی۔

٢۔ نہایت مستحکم ہے تاکہ اس کی طرف سے آنے والے شدید عذاب سے خبردار کرے اور ان مومنین کو بشارت دے جو نیک عمل کرتے ہیں کہ ان کے لیے بہتر اجر ہے۔

٣۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

٤۔اور انہیں تنبیہ کرے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے۔

٥۔ اس بات کا علم نہ انہیں ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو، یہ بڑی (جسارت کی) بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ، یہ تو محض جھوٹ بولتے ہیں۔

٦۔ پس اگر یہ لوگ اس (قرآنی) مضمون پر ایمان نہ لائے تو ان کی وجہ سے شاید آپ اس رنج میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

٧۔ روئے زمین پر جو کچھ موجود ہے اسے ہم نے زمین کے لیے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں سب سے اچھا عمل کرنے ولا کون ہے۔

٨۔ اور اس پر جو کچھ ہے اسے ہم (کبھی) بنجر زمین بنانے والے ہیں۔

٩۔ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ غار اور کتبے والے ہماری قابل تعجب نشانیوں میں سے تھے ؟

١٠۔ جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی تو کہنے لگے : اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بارگاہ سے رحمت عنایت فرما اور ہمیں ہمارے اقدام میں کامیابی عطا فرما۔

١١۔ پھر کئی سالوں تک غار میں ہم نے ان کے کانوں پر (نیند کا) پردہ ڈال دیا۔

١٢۔ پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ ہم دیکھ لیں کہ ان دو جماعتوں میں سے کون ان کی مدت قیام کا بہتر شمار کرتی ہے۔

١٣۔ ہم آپ کو ان کا حقیقی واقعہ سناتے ہیں ، وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے انہیں مزید ہدایت دی۔

١٤۔ اور جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا پس انہوں نے کہا: ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ، ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو ہرگز نہیں پکاریں گے ، (اگر ہم ایسا کریں ) تو ہماری یہ بالکل نامعقول بات ہو گی۔

١٥۔ ہماری اس قوم نے تو اللہ کے سوا اوروں کو معبود بنایا ہے ، یہ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لائے ؟ پس اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنے والوں سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے ؟

١٦۔ اور جب تم نے مشرکین اور اللہ کے سوا ان کے معبودوں سے کنارہ کشی اختیار کی ہے تو غار میں چل کر پناہ لو، تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے معاملات میں تمہارے لیے آسانی فراہم کرے گا۔

١٧۔ اور آپ دیکھتے ہیں کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے داہنی طرف سمٹ جاتا ہے اور جب غروب ہو تا ہے تو ان سے بائیں طرف کترا جاتا ہے اور وہ غار کی کشادہ جگہ میں ہیں ، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے ، جسے اللہ ہدایت کرے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے آپ سرپرست و رہنما نہ پائیں گے۔

١٨۔ اور آپ خیال کریں گے کہ یہ بیدار ہیں حالانکہ وہ سو رہے ہیں اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے رہتے ہیں اور ان کا کتا غار کے دھانے پر دونوں ٹانگیں پھیلائے ہوئے ہے اگر آپ انہیں جھانک کر دیکھیں تو ان سے ضرور الٹے پاؤں بھاگ نکلیں اور ان کی دہشت آپ کو گھیر لے۔

١٩۔ اسی انداز سے ہم نے انہیں بیدار کیا تاکہ یہ آپس میں پوچھ گچھ کر لیں ، چنانچہ ان میں سے ایک نے پوچھا: تم لوگ یہاں کتنی دیر رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ایک دن یا اس سے بھی کم، انہوں نے کہا : تمہارا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی مدت رہے ہو پس تم اپنے میں سے ایک کو اپنے اس سکے کے ساتھ شہر بھیجو اور وہ دیکھے کہ کون سا کھانا سب سے ستھرا ہے پھر وہاں سے کچھ کھانا لے آئے اور اسے چاہیے کہ وہ ہوشیاری سے جائے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔

٢٠۔ کیونکہ اگر وہ تم پر غالب آ گئے تو وہ تمہیں سنگسار کر دیں گے یا اپنے مذہب میں پلٹائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو تم ہرگز فلاح نہیں پاؤ گے۔

٢١۔ اور اس طرح ہم نے (لوگوں کو) ان سے باخبر کر دیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت (کے آنے ) میں کوئی شبہ نہیں ، یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگ ان کے بارے میں جھگڑ رہے تھے تو کچھ نے کہا: ان (کے غار) پر عمارت بنا دو، ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے ، جنہوں نے ان کے بارے میں غلبہ حاصل کیا وہ کہنے لگے : ہم ان کے غار پر ضرور ایک مسجد بناتے ہیں۔

٢٢۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین ہیں ، چوتھا ان کا کتا ہے اور کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے ، یہ سب دیکھے بغیر اندازے لگا رہے ہیں اور کچھ کہیں گے : وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے ، کہہ دیجئے : میرا رب ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے ان کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے ہیں لہٰذا آپ ان کے بارے میں سطحی گفتگو کے علاوہ کوئی بحث نہ کریں اور نہ ہی ان کے بارے میں ان میں سے کسی سے کچھ دریافت کریں۔

٢٣۔اور آپ کسی کام کے بارے میں ہرگز یہ نہ کہیں کہ میں اسے کل کروں گا،

٢٤۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے اور اگر آپ بھول جائیں تو اپنے پروردگار کو یاد کریں اور کہہ دیجیے : امید ہے میرا رب اس سے قریب تر حقیقت کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا۔

٢٥۔ اور وہ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو کا اضافہ کیا۔

٢٦۔ آپ کہہ دیجئے : ان کے قیام کی مدت اللہ بہتر جانتا ہے ، آسمانوں اور زمین کی غیبی باتیں صرف وہی جانتا ہے ، وہ کیا خوب دیکھنے والا اور کیا خوب سننے والا ہے ، اس کے سوا ان کا کوئی سرپرست نہیں اور نہ ہی وہ کسی کو اپنی حکومت میں شریک کرتا ہے۔

٢٧۔(اے رسول) آپکے پروردگار کی کتاب کے ذریعے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھ کرشنا دیں کوئی اس کے کلمات کو بدلنے والا نہیں ہے اور نہ ہی آپ اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ پائیں گے۔

٢٨۔ اور (اے رسول) اپنے آپ کو ان لوگوں کی معیت میں محدود رکھیں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اپنی نگاہیں ان سے نہ پھیریں ، کیا آپ دنیاوی زندگی کی آرائش کے خواہشمند ہیں ؟ اور آپ اس شخص کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حدسے گزرا ہوا ہے۔

٢٩۔ اور کہہ دیجئے : حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے ، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے ، ہم نے ظالموں کے لیے یقیناً ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیرے میں لے رہی ہوں گی اور اگر وہ فریاد کریں تو ایسے پانی سے ان کی داد رسی ہو گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا بدترین مشروب اور بدترین جائے گاہ ہے۔

٣٠۔ جو ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں تو ہم نیک اعمال بجا لانے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔

٣١۔ ان کے لیے دائمی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ سونے کے کنگنوں سے مزین ہوں گے اور باریک ریشم اور اطلس کے سبز کپڑوں میں ملبوس مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے ، بہترین ثواب ہے اور خوبصورت منزل۔

٣٢۔ اور (اے رسول) ان سے دو آدمیوں کی ایک مثال بیان کریں جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عطا کیے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگا دی اور دونوں کے درمیان کھیتی بنائی تھی۔

٣٣۔ دونوں باغوں نے خوب پھل دیا اور ذرا بھی کمی نہ کی اور ان کے درمیان ہم نے نہر جاری کی۔

٣٤۔ اور اسے پھل ملتا رہتا تھا، پس باتیں کرتے ہوئے اس نے اپنے ساتھی سے کہا: میں تم سے زیادہ مالدار ہوں اور افرادی قوت میں بھی زیادہ معزز ہوں۔

٣٥۔ اور وہ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا، کہنے لگا:میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی فنا ہو جائے گا۔

٣٦۔ اور میں خیال نہیں کرتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر مجھے میرے رب کے حضور پلٹا دیا گیا تو میں ضرور اس سے بھی اچھی جگہ پاؤں گا۔

٣٧۔ اس سے گفتگو کرتے ہوئے اس کے ساتھی نے کہا : کیا تو اس اللہ کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پھر نطفے سے پیدا کیا پھر تجھے ایک معتدل مرد بنایا؟

٣٨۔ لیکن میرا رب تو اللہ ہی ہے اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔

٣٩۔ اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں نہیں کہا: ما شآء اللّٰہ لا قوۃ الا باللّٰہ؟ (ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہے طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ ہے ) اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر سمجھتا ہے ،

٤٠۔تو بعید نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تیرے باغ سے بہتر عنایت فرمائے اور تیرے باغ پر آسمان سے آفت بھیج دے اور وہ صاف میدان بن جائے۔

٤١۔ یا اس کا پانی نیچے اتر جائے پھر تو اسے طلب بھی نہ کر سکے۔

٤٢۔ چنانچہ اس کے پھلوں کو (آفت نے ) گھیر لیا پس وہ اپنے باغ کو اپنی چھتوں پر گرا پڑا دیکھ کر اس سرمائے پر کف افسوس ملتا رہ گیا جو اس نے اس باغ پر لگایا تھا اور کہنے لگا: اے کاش! میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا۔

٤٣۔اور (ہوا بھی یہی ہے کہ) اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کے لیے مددگار ثابت نہ ہوئی اور نہ ہی وہ بدلہ لے سکا۔

٤٤۔ یہاں سے عیاں ہوا کہ اقتدار تو خدائے برحق کے لیے مختص ہے ، اس کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا ہوا انجام اچھا ہے۔

٤٥۔ اور ان کے لیے دنیاوی زندگی کی یہ مثال پیش کریں : یہ زندگی اس پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی روئیدگی گھنی ہو گئی پھر وہ ریزہ ریزہ ہو گئی، ہوائیں اسے اڑاتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

٤٦۔ مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں اور ہمیشہ باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے پروردگار کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے اور امید کے اعتبار سے بھی بہترین ہیں۔

٤٧۔ اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین کو آپ صاف میدان دیکھیں گے اور سب کو ہم جمع کریں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔

٤٨۔ اور وہ صف در صف تیرے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے (تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا) تم اسی طرح ہمارے پاس آ گئے ہو جیسا کہ ہم نے پہلی بار تمہیں خلق کیا تھا، بلکہ تمہیں تو گمان تھا کہ ہم نے تمہارے لیے وعدے کا کوئی وقت مقرر نہیں کیا ہے۔

٤٩۔ اور نامۂ اعمال (سامنے ) رکھ دیا جائے گا، اس وقت آپ دیکھیں گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر ڈر رہے ہیں اور یہ کہ رہے ہیں : ہائے ہماری رسوائی! یہ کیسا نامۂ اعمال ہے ؟ اس نے کسی چھوٹی اور بڑی بات کو نہیں چھوڑا (بلکہ) سب کو درج کر لیا ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ ان سب کو حاضر پائیں گے اور آپ کا رب تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

٥٠۔ اور (یہ بات بھی) یاد کریں جب ہم نے فرشتوں سے کہا:آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ، وہ جنات میں سے تھا، پس وہ اپنے رب کی اطاعت سے خارج ہو گیا، تو کیا تم لوگ میرے سوا اسے اور اس کی نسل کو اپنا سرپرست بناؤ گے حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ؟یہ ظالموں کے لیے برا بدل ہے۔

٥١۔ میں نے انہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا مشاہدہ نہیں کرایا اور نہ خود ان کی اپنی تخلیق کا اور میں کسی گمراہ کرنے والے کو اپنا مددگار بنانے والا نہیں ہوں۔

٥٢۔ اور جس دن اللہ فرمائے گا: انہیں بلاؤ جنہیں تم نے شریک ٹھہرایا تھا تو وہ انہیں بلائیں گے لیکن وہ انہیں جواب نہیں دیں گے اور ہم ان کے درمیان ہلاکت کی ایک جگہ بنا دیں گے۔

٥٣۔ اور مجرمین اس دن آتش جہنم کا مشاہدہ کریں گے اور سمجھ جائیں گے کہ انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں پائیں گے۔

٥٤۔ اور بتحقیق ہم نے اس قرآن میں انسانوں کے لیے ہر مضمون کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو (ثابت ہوا ) ہے۔

٥٥۔ اور جب ان کے پاس ہدایت آ گئی تھی تو ایمان لانے اور اپنے پروردگار سے معافی طلب کرنے سے لوگوں کو کسی چیز نے نہیں روکا سوائے اس کے کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جائے جو ان سے پہلوں کے ساتھ ہوا یا ان کے سامنے عذاب آ جائے۔

٥٦۔ اور ہم پیغمبروں کو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور تنبیہ کریں اور کفار باطل باتوں کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں تاکہ وہ اس طرح حق بات کو مسترد کر دیں ، انہوں نے میری آیات کو اور ان باتوں کو جن کے ذریعے انہیں تنبیہ کی گئی تھی مذاق بنا لیا۔

٥٧۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی تو اس نے ان سے منہ پھیر لیا اور جو ان گناہوں کو بھول گیا جنہیں وہ اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکا تھا؟ ہم نے ان لوگوں کے دلوں پر یقیناً پردے ڈال دیے ہیں تاکہ وہ سمجھ ہی نہ سکیں اور ان کے کانوں کو سنگین کر دیا ہے (تاکہ وہ سن نہ سکیں ) اور اب اگر آپ انہیں ہدایت کی طرف بلائیں بھی تو یہ کبھی راہ راست پر نہیں آئیں گے۔

٥٨۔ اور آپ کا پروردگار بڑا بخشنے والا، رحمت کا مالک ہے ، اگر وہ ان کی حرکات پر انہیں گرفت میں لینا چاہتا تو انہیں جلد ہی عذاب دے دیتا لیکن ان کے لیے وعدے کا وقت مقرر ہے ، وہ (اس سے بچنے کے لیے ) اس کے سوا کوئی پناہ گاہ ہرگز نہیں پائیں گے۔

٥٩۔ اور ان بستیوں کو ہم نے اس وقت ہلاکت میں ڈال دیا جب انہوں نے ظلم کیا اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے بھی ایک وقت مقرر کر رکھا تھا۔

٦٠۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا: جب تک میں دونوں سمندروں کے سنگم پر نہ پہنچوں اپنا سفر جاری رکھوں گا خواہ برسوں چلتا رہوں۔

٦١۔ جب وہ ان دونوں کے سنگم پر پہنچ گئے تو وہ دونوں اپنی مچھلی بھول گئے تو اس مچھلی نے چیر کر سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا۔

٦٢۔جب وہ دونوں آگے نکل گئے تو موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا : ہمارا کھانا لاؤ ہم اس سفر سے تھک گئے۔

٦٣۔ جوان نے کہا: بھلا آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی وہیں بھول گیا؟ اور مجھے شیطان کے سوا کوئی نہیں بھلا سکتا کہ میں اسے یاد کروں اور اس مچھلی نے تو عجیب طریقے سے دریا میں اپنی راہ بنائی۔

٦٤۔ موسیٰ نے کہا: یہی تو ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، چنانچہ وہ اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس ہوئے۔

٦٥۔ وہاں ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر) کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اپنی طرف سے علم سکھایا تھا۔

٦٦۔ موسیٰ نے اس سے کہا :کیا میں آپ کے پیچھے چل سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ مفید علم سکھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے ؟

٦٧۔ اس نے جواب دیا، آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔

٦٨۔ اور اس بات پر بھلا آپ کیسے صبر کر سکتے ہیں جو آپ کے احاطہ علم میں نہیں ہے ؟

٦٩۔ موسیٰ نے کہا: انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔

٧٠۔ اس نے کہا: اگر آپ میرے پیچھے چلنا چاہتے ہیں تو آپ اس وقت تک کوئی بات مجھ سے نہیں پوچھیں گے جب تک میں خود اس کے بارے میں آپ سے ذکر نہ کروں۔

٧١۔ چنانچہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہوئے تو اس نے کشتی میں شگاف ڈال دیا، موسیٰ نے کہا: کیا آپ نے اس میں شگاف اس لیے ڈالا ہے کہ سب کشتی والوں کو غرق کر دیں ؟ یہ آپ نے بڑا ہی نامناسب اقدام کیا ہے

٧٢۔اس نے کہا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے ؟

٧٣۔موسیٰ نے کہا: مجھ سے جو بھول ہوئی ہے اس پر آپ میرا مؤاخذہ نہ کریں اور میرے اس معاملے میں مجھے سختی میں نہ ڈالیں۔

٧٤۔پھر روانہ ہوئے یہاں تک کہ وہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو اس نے لڑکے کو قتل کر دیا، موسیٰ نے کہا : کیا آپ نے ایک بے گناہ کو بغیر قصاص کے مار ڈالا؟ یہ تو آپ نے واقعی برا کام کیا۔

 

پارہ : قَالَ اَلَمَ 16

 

٧٥۔ اس نے کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے ؟

٧٦۔موسیٰ نے کہا: اگر اس کے بعد میں نے آپ سے کسی بات پر سوال کیا تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں میری طرف سے آپ یقیناً عذر کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔

٧٧۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک بستی والوں کے ہاں پہنچ گئے تو ان سے کھانا طلب کیا مگر انہوں نے ان کی پذیرائی سے انکار کر دیا، پھر ان دونوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرنے والی تھی پس اس نے اسے سیدھا کر دیا، موسیٰ نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے سکتے تھے۔

٧٨۔ انہوں نے کہا: (بس) یہی میری اور آپ کی جدائی کا لمحہ ہے ، اب میں آپ کو ان باتوں کی تاویل بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔

٧٩۔ وہ کشتی چند غریب لوگوں کی تھی جو سمندر میں محنت کرتے تھے ، میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنا دوں کیونکہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر (سالم )کشتی کو جبراً چھین لیتا تھا۔

٨٠۔ اور لڑکے (کا مسئلہ یہ تھا کہ اس) کے والدین مؤمن تھے اور ہمیں اندیشہ ہوا کہ لڑکا انہیں سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔

٨١۔ پس ہم نے چاہا کہ ان کا رب انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر اور محبت میں اس سے بڑھ کر ہو۔

٨٢۔ اور (رہی) دیوار تو وہ اسی شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ موجود تھا اور ان کا باپ نیک شخص تھا، لہٰذا آپ کے رب نے چاہا کہ یہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکالیں اور یہ میں نے اپنی جانب سے نہیں کیا، یہ ہے ان باتوں کی تاویل جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔

٨٣۔ اور لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں ، کہہ دیجئے : جلد ہی اس کا کچھ ذکر تمہیں سناؤں گا۔

٨٤۔ بے شک ہم نے اسے زمین میں اقتدار عطا کیا اور ہم نے ہر شے کے (مطلوبہ) وسائل بھی اسے فراہم کیے۔

٨٥۔ چنانچہ پھر وہ راہ پر ہو لیا۔

٨٦۔ یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اس نے سورج کو سیاہ رنگ کے پانی میں غروب ہوتے دیکھا اور اس کے پاس اس نے ایک قوم کو پایا، ہم نے کہا: اے ذوالقرنین! انہیں سزا دو یا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو (تمہیں اختیار ہے )۔

٨٧۔ ذوالقرنین نے کہا: جو ظلم کا ارتکاب کرے گا عنقریب ہم اسے سزا دیں گے پھر جب وہ اپنے پروردگار کی طرف پلٹایا جائے گا تو وہ اسے برا عذاب دے گا۔

٨٨۔ لیکن جو ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو اسے بہت اچھا اجر ملے گا اور ہم بھی اپنے معاملات میں اس سے نرمی کے ساتھ بات کریں گے۔

٨٩۔ پھر وہ راہ پر ہو لیا۔

٩٠۔ یہاں تک کہ جب وہ طلوع آفتاب کی جگہ پہنچا تو دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جن کے لیے ہم نے آفتاب سے بچنے کی کوئی آڑ نہیں رکھی۔

٩١۔ اسی طرح (کا حال تھا) اور جو کچھ ان کے پاس تھا ہمیں اس کی مکمل خبر تھی۔

٩٢۔ پھر وہ راہ پر ہو لیا۔

٩٣۔ یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اسے ان دونوں پہاڑوں کے اس طرف ایک ایسی قوم ملی جو کوئی بات سمجھنے کے قابل نہ تھی۔

٩٤۔ لوگوں نے کہا: اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج یقیناً اس سرزمین کے فسادی ہیں کیا ہم آپ کے لیے کچھ سامان کا انتظام کریں تاکہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند باندھ دیں ؟

٩٥۔ ذوالقرنین نے کہا : جو طاقت میرے رب نے مجھے عنایت فرمائی ہے وہ بہتر ہے ، لہٰذا تم محنت کے ذریعے میری مدد کرو میں تمہارے اور ان کے درمیان بند باندھ دوں گا۔

٩٦۔ تم مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو، یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کی درمیانی فضا کو برابر کر دیا تو اس نے لوگوں سے کہا: آگ پھونکو یہاں تک کہ جب اسے بالکل آگ بنا دیا تو اس نے کہا: اب میرے پاس تانبا لے آؤ تاکہ میں اس (دیوار) پر انڈیلوں۔

٩٧۔ اس کے بعد وہ نہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ ہی اس میں نقب لگا سکیں۔

٩٨۔ ذوالقرنین نے کہا : یہ میرے رب کی طرف سے رحمت ہے لہٰذا جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اسے زمین بوس کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔

٩٩۔ اور اس دن ہم انہیں ایسے حال میں چھوڑ دیں گے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہو جائیں گے اور صور پھونکا جائے گا پھر ہم سب کو ایک ساتھ جمع کریں گے۔

١٠٠۔ اور اس دن ہم جہنم کو کافروں کے سامنے پیش کریں گے۔

١٠١۔ جن کی نگاہیں ہماری یاد سے پردے میں پڑی ہوئی تھیں اور وہ کچھ سن بھی نہیں سکتے تھے۔

١٠٢۔ کیا کافر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو سرپرست بنائیں گے ؟ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے مہمان سرا بنا کر تیار رکھا ہے۔

١٠٣۔ کہہ دیجئے : کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے نامراد کون لوگ ہیں ؟

١٠٤۔ جن کی سعی دنیاوی زندگی میں لاحاصل رہی جب کہ وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ درست کام کر رہے ہیں۔

١٠٥۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی نشانیوں اور اللہ کے حضور جانے کا انکار کیا جس سے ان کے اعمال برباد ہو گئے لہٰذا ہم قیامت کے دن ان کے (اعمال کے ) لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔

١٠٦۔ ان کے کفر کرنے اور ہماری آیات اور رسولوں کا استہزاء کرنے کی وجہ سے ان کی سزا یہی جہنم ہے۔

١٠٧۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں ان کی میزبانی کے لیے یقیناً جنت الفردوس ہے۔

١٠٨۔ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ، وہاں سے کہیں اور جانا پسند نہیں کریں گے۔

١٠٩۔ کہہ دیجئے : میرے پروردگار کے کلمات (لکھنے ) کے لیے اگر سمندر روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائیں گے لیکن میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں گے اگرچہ ہم اتنے ہی مزید (سمندر) سے کمک رسانی کریں۔

١١٠۔ کہہ دیجئے : میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں مگر میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود تو بس ایک ہی ہے لہٰذا جو اللہ کے حضور جانے کا امیدوار ہے اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ ٹھہرائے۔

 

19 سورۃ مریم۔ مکی۔ آیات ٩٨

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ کاف ، ہا، یا ، عین ، صاد۔

٢۔ یہ اس رحمت کا ذکر ہے جو آپ کے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔

٣۔جب انہوں نے اپنے رب کو دھیمی آواز میں پکارا۔

٤۔عرض کی: پروردگارا! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور بڑھاپے کی وجہ سے سر کے سفید بال چمکنے لگے ہیں اور اے میرے رب! میں تجھ سے مانگ کر کبھی ناکام نہیں رہا۔

٥۔ اور میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما۔

٦۔جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور میرے پروردگار! اسے  (اپنا) پسندیدہ بنا۔

٧۔ (جواب ملا) اے زکریا! ہم آپ کو ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے ، اس سے پہلے ہم نے کسی کو اس کا ہمنام نہیں بنایا۔

٨۔ عرض کی: پروردگارا! میرے ہاں بیٹا کس طرح ہو گا جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بھی بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں ؟

٩۔ فرمایا: اسی طرح ہو گا، آپ کے پروردگار کا ارشاد ہے : یہ تو میرے لیے آسان ہے ، چنانچہ اس سے پہلے خود آپ کو بھی تو میں نے پیدا کیا جب کہ آپ کوئی چیز نہ تھے۔

١٠۔ کہا: اے پروردگار! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما، فرمایا: آپ کی نشانی یہ ہے کہ آپ تندرست ہوتے ہوئے بھی (کامل) تین راتوں تک لوگوں سے بات نہ کر سکیں گے۔

١١۔ پھر وہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اشارتاً کہا: صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو۔

١٢۔ اے یحییٰ!کتاب (خدا)کو محکم تھام لو اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت عطا کی تھی۔

١٣۔اور اپنے ہاں سے مہر و پاکیزگی دی تھی اور وہ پرہیز گار تھے۔

١٤۔ اور وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور سرکش و نافرمان نہیں تھے۔

١٥۔ اور سلام ہو ان پر جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن انہوں نے وفات پائی اور جس دن انہیں زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔

١٦۔ اور (اے رسول!) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجیے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔

١٧۔ پھر انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا پس ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا، پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔

١٨۔ مریم نے کہا: اگر تو پرہیزگار ہے تو میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔

١٩۔ اس نے کہا: میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔

٢٠۔ مریم نے کہا : میرے ہاں بیٹا کیسے ہو گا؟ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں ہے اور میں کوئی بد کردار بھی نہیں ہوں۔

٢١۔ فرشتے نے کہا: اسی طرح ہو گا، آپ کے پروردگار نے فرمایا: یہ تو میرے لیے آسان ہے اور یہ اس لیے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لیے نشانی قرار دیں اور ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ ہے۔

٢٢۔ اور مریم اس بچے سے حاملہ ہو گئیں اور وہ اسے لے کر دور چلی گئیں۔

٢٣۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، کہنے لگیں : اے کاش! میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔

٢٤۔ فرشتے نے مریم کے پائیں پا سے آواز دی: غم نہ کیجیے ! آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک نہر جاری کی ہے۔

٢٥۔ اور کھجور کے تنے کو ہلائیں کہ آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔

٢٦۔ پس آپ کھائیں اور پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہہ دیں : میں نے رحمن کے لیے روزے کی نذر مانی ہے اس لیے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔

٢٧۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں ، لوگوں نے کہا: اے مریم! تو نے بہت غضب کی حرکت کی۔

٢٨۔ اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی۔

٢٩۔ پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا لوگ کہنے لگے : ہم اس سے کیسے بات کریں جو بچہ ابھی گہوارے میں ہے ؟

٣٠۔ بچے نے کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔

٣١۔ اور میں جہاں بھی رہوں مجھے بابرکت بنایا ہے اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے۔

٣٢۔ اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔

٣٣۔ اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا اور جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔

٣٤۔ یہ ہیں عیسی بن مریم، (اور یہ ہے ) وہ حق بات جس میں لوگ شبہ کر رہے ہیں۔

٣٥۔ اللہ کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے ، وہ (ایسی باتوں سے ) پاک ہے ، جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس سے فرماتا ہے : ہو جا سو وہ ہو جاتا ہے۔

٣٦۔ اور یقیناً اللہ ہی میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے پس اس کی بندگی کرو، یہی راہ راست ہے۔

٣٧۔ مگر (مختلف) فرقوں نے باہم اختلاف کیا پس تباہی ان کافروں کے لیے ہو گی بڑے دن کے حاضر ہونے سے۔

٣٨۔ جس دن وہ ہمارے سامنے ہوں گے تو اس وقت کیا خوب سننے والے اور کیا خوب دیکھنے والے ہوں گے لیکن آج یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔

٣٩۔ اور (اے رسول) انہیں حسرت کے دن سے ڈرائیے جب قطعی فیصلہ کر دیا جائے گا اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہیں اور یہ ایمان نہیں لاتے۔

٤٠۔ اور ہم ہی زمین کے اور جو کچھ اس پر ہے سب کے وارث ہوں گے پھر وہ ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔

٤١۔ اور اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجیے ، یقیناً وہ بڑے سچے نبی تھے۔

٤٢۔ جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) سے کہا: اے ابا! آپ اسے کیوں پوجتے ہیں جو نہ سننے کی اہلیت رکھتا ہے اور نہ دیکھنے کی اور نہ ہی آپ کو کسی چیز سے بے نیاز کرتا ہے۔

٤٣۔ اے ابا! بتحقیق میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا پس آپ میری بات مانیں ، میں آپ کو سیدھی راہ دکھاؤں گا۔

٤٤۔ اے ابا! شیطان کی پوجا نہ کریں کیونکہ شیطان تو خدائے رحمن کا نافرمان ہے۔

٤٥۔ اے ابا! مجھے خوف ہے کہ خدائے رحمن کا عذاب آپ کو گرفت میں لے لے ، ایسا ہوا تو آپ شیطان کے دوست بن جائیں گے۔

٤٦۔ اس نے کہا: اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہو گیا ہے ؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کروں گا اور تو ایک مدت کے لیے مجھ سے دور ہو جا۔

٤٧۔ ابراہیم نے کہا: آپ پر سلام ہو! میں آپ کے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا یقیناً وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے۔

٤٨۔ اور میں تم لوگوں سے نیز اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ان سے علیحدہ ہو جاتا ہوں اور میں اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا، مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب سے مانگ کر کبھی ناکام نہیں رہوں گا۔

٤٩۔ پھر جب ابراہیم ان لوگوں سے اور اللہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پوجتے تھے ان سے کنارہ کش ہوئے تو ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے اور سب کو ہم نے نبی بنایا۔

٥٠۔ اور ہم نے انہیں اپنی رحمت سے بھی نوازا اور انہیں اعلی درجے کا ذکر جمیل بھی عطا کیا۔

٥١۔ اور اس کتاب میں موسیٰ کا ذکر کیجیے ، وہ یقیناً برگزیدہ نبی مرسل تھے۔

٥٢۔اور ہم نے انہیں طور کی داہنی جانب سے پکارا اور راز دار بنانے کے لیے انہیں قربت عطا کی۔

٥٣۔ اور ان کے بھائی ہارون کو ہم نے اپنی رحمت سے نبی بنا کر (بطور معاون) انہیں عطا کیا۔

٥٤۔ اور اس کتاب میں اسماعیل (بھی) کا ذکر کیجیے ، وہ یقیناً وعدے کے سچے اور نبی مرسل تھے۔

٥٥۔ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھے۔

٥٦۔ اور اس کتاب میں ادریس کا (بھی) ذکر کیجیے ، وہ یقیناً راست گو نبی تھے۔

٥٧۔ اور ہم نے انہیں اعلیٰ مقام پر اٹھایا۔

٥٨۔ یہ وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا جو اولاد آدم میں سے ہیں اور ان میں سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں اٹھایا اور ابراہیم و اسماعیل کی اولاد میں سے اور ان لوگوں میں سے جنہیں ہم نے ہدایت دی اور برگزیدہ کیا، جب ان پر رحمن کی آیات کی تلاوت کی جاتی تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے۔

٥٩۔ پھر ان کے بعد ایسے نا خلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کے پیچھے چل پڑے پس وہ عنقریب ہلاکت سے دوچار ہوں گے۔

٦٠۔ مگر جو توبہ کریں ، ایمان لائیں اور نیک اعمال بجا لائیں تو وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ ہو گا۔

٦١۔ ایسی جاودانی بہشت (میں ) جس کا اللہ نے اپنے بندوں سے غیبی وعدہ فرمایا ہے ، یقیناً اس کا وعدہ آنے والا ہے۔

٦٢۔ وہاں وہ بیہودہ باتیں نہیں سنیں گے سوائے سلام کے اور وہاں انہیں صبح و شام رزق ملا کرے گا۔

٦٣۔ یہ وہ جنت ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے متقین کو بنائیں گے۔

٦٤۔ اور ہم (فرشتے )آپ کے پروردگار کے حکم کے بغیر نہیں اتر سکتے ، جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اسی کاہے اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے۔

٦٥۔ وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو، کیا اس کا کوئی ہمنام تمہارے علم میں ہے ؟

٦٦۔ اور انسان کہتا ہے : جب میں مر جاؤں گا تو کیا میں زندہ کر کے نکالا جاؤں گا؟

٦٧۔ کیا اس انسان کو یاد نہیں کہ ہم نے اسے پہلے اس وقت پیدا کیا، جب وہ کچھ بھی نہ تھا؟

٦٨۔ آپ کے رب کی قسم! پھر ہم ان سب کو اور شیاطین کو ضرور جمع کریں گے پھر ہم انہیں جہنم کے گرد گھٹنوں کے بل ضرور حاضر کریں گے۔

٦٩۔ پھر ہم ہر فرقے میں سے ہر اس شخص کو جدا کر دیں گے جو رحمن کے مقابلے میں زیادہ سرکش تھا۔

٧٠۔ پھر (یہ بات) ہم بہتر جانتے ہیں کہ جہنم میں جھلسنے کا زیادہ سزاوار ان میں سے کون ہے۔

٧١۔ اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہو گا جو جہنم پر وارد نہ ہو، یہ حتمی فیصلہ آپ کے رب کے ذمے ہے۔

٧٢۔ پھر اہل تقویٰ کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا چھوڑ دیں گے۔

٧٣۔ اور جب انہیں ہماری صریح آیات سنائی جاتی ہیں تو کفار اہل ایمان سے کہتے ہیں : دونوں فریقوں میں سے کون بہتر مقام پر (فائز) ہے اور کس کی محفلیں زیادہ با رونق ہیں ؟

٧٤۔ اور ہم ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو سامان زندگی اور نمود میں اس سے کہیں بہتر تھیں۔

٧٥۔ کہہ دیجئے : جو شخص گمراہی میں ہے اسے خدائے رحمن لمبی مہلت دیتا ہے لیکن جب وہ اس کا مشاہدہ کریں گے جس کا وعدہ ہوا تھا، خواہ وہ عذاب ہو یا قیامت تو اس وقت انہیں معلوم ہو گا کہ کس کا مقام زیادہ برا ہے اور کس کا لاؤ لشکر زیادہ کمزور ہے۔

٧٦۔ اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ ان کی ہدایت میں اضافہ فرماتا ہے اور آپ کے پروردگار کے نزدیک باقی رہنے والی نیکیاں ثواب کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انجام کے لحاظ سے بھی بہتر ہیں۔

٧٧۔ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو ہماری آیات کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے : مجھے مال اور اولاد کی عطا ضرور بالضرور جاری رہے گی؟

٧٨۔ کیا اس نے غیب کی اطلاع حاصل کی ہے یا خدائے رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہے ؟

٧٩۔ ہرگز نہیں ، جو کچھ یہ کہتا ہے ہم اسے لکھ لیں گے اور ہم اس کے عذاب میں مزید اضافہ کر دیں گے۔

٨٠۔ اور جو کچھ وہ کہتا ہے اس کے ہم مالک بن جائیں گے اور وہ ہمارے پاس اکیلا حاضر ہو گا۔

٨١۔ اور انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا لیے ہیں تاکہ ان کے لیے باعث تقویت بنیں۔

٨٢۔ ہرگز نہیں ، (کل) یہ سب ان کی عبادت ہی سے انکار کریں گے اور ان کے سخت مخالف ہوں گے۔

٨٣۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیاطین کو کفار پر مسلط کر رکھا ہے جو انہیں اکساتے رہتے ہیں ؟

٨٤۔ پس آپ ان پر (عذاب کے لیے ) عجلت نہ کریں ، ہم ان کی گنتی یقیناً پوری کریں گے۔

٨٥۔ اس روز ہم متقین کو خدائے رحمن کے پاس مہمانوں کی طرح جمع کریں گے۔

٨٦۔ اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسے جانوروں کی طرح ہانک کر لے جائیں گے۔

٨٧۔ کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہو گا سوائے اس کے جس نے رحمن سے عہد لیا ہو۔

٨٨۔ اور وہ کہتے ہیں : رحمن نے کسی کو فرزند بنا لیا ہے۔

٨٩۔ بتحقیق تم بہت سخت بیہودہ بات (زبان پر) لائے ہو۔

٩٠۔ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں۔

٩١۔ اس بات پر کہ انہوں نے رحمن کے لیے فرزند (کی موجودگی) کا الزام لگایا ہے۔

٩٢۔ اور رحمن کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔

٩٣۔ جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس رحمن کے حضور صرف بندے کی حیثیت سے پیش ہو گا۔

٩٤۔ بتحقیق اس نے ان سب کا احاطہ کر رکھا ہے اور انہیں شمار کر رکھا ہے۔

٩٥۔ اور قیامت کے دن ہر ایک کو اس کے سامنے تنہا حاضر ہونا ہے۔

٩٦۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں ان کے لیے رحمن عنقریب دلوں میں محبت پیدا کرے گا۔

٩٧۔ (اے محمد) پس ہم نے یہ قرآن آپ کی زبان میں یقیناً آسان کیا ہے تاکہ آپ اس سے صاحبان تقویٰ کو بشارت دیں اور جھگڑا لو قوم کی تنبیہ کریں۔

٩٨۔ اور ہم نے اس سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کیا ہے۔ کیا آج آپ کہیں بھی ان میں سے کسی ایک کا نشان پاتے ہیں یا ان کی کوئی آہٹ سنتے ہیں ؟

 

20 سورۃ طہٰ۔مکی۔ آیات ١٣٥

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ طا، ہا۔

٢۔ ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔

٣۔ بلکہ یہ تو خوف رکھنے والوں کے لیے صرف ایک یاد دہانی ہے۔

٤۔ یہ اس کی طرف سے نازل ہوا ہے جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو بنایا ہے۔

٥۔ وہ رحمن جس نے عرش پر اقتدار قائم کیا۔

٦۔ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان کے درمیان اور جو کچھ زمین کی تہ میں ہے سب کا وہی مالک ہے۔

٧۔ اور اگر آپ پکار کر بات کریں تو وہ رازوں کو بلکہ اس سے زیادہ مخفی باتوں کو بھی یقیناً جانتا ہے۔

٨۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، بہترین نام اسی کے ہیں۔

٩۔ اور کیا آپ تک موسیٰ کی خبر پہنچی ہے ؟

١٠۔ جب انہوں نے ایک آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا: ٹھہر جاؤ ! میں نے کوئی آگ دیکھی ہے ، شاید میں اس میں سے تمہارے لیے کوئی انگارے لے آؤں یا آگ پر پہنچ کر راستے کا پتہ کر لوں۔

١١۔ پھر جب وہ آگ کے پاس پہنچے تو آواز آئی: اے موسیٰ!

١٢۔ میں ہی آپ کا رب ہوں ، پس اپنی جوتیاں اتار دیں ،بتحقیق آپ طویٰ کی مقدس وادی میں ہیں۔

١٣۔ اور میں نے آپ کو منتخب کر لیا ہے لہٰذا جو وحی کی جا رہی ہے اسے سنیں۔

١٤۔ میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ، پس صرف میری بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کریں۔

١٥۔ قیامت یقیناً آنے والی ہے ، میں اسے پوشیدہ رکھوں گا تاکہ ہر فرد کو اس کی سعی کے مطابق جزا ملے۔

١٦۔ پس جو شخص قیامت پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے کہیں وہ آپ کو اس راہ سے نہ روک دے ، ایسا ہوا تو آپ ہلاک ہو جائیں گے۔

١٧۔ اور اے موسیٰ! یہ آپ کے داہنے ہاتھ میں کیا ہے ؟

١٨۔ موسیٰ نے کہا : یہ میرا عصا ہے ، اس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور میرے لیے اس میں کئی اور مفادات بھی ہیں۔

١٩۔ فرمایا: اسے موسیٰ ! اسے پھینکیں۔

٢٠۔ پس موسیٰ نے اسے پھینکا تو وہ یکایک سانپ بن کر دوڑنے لگا۔

٢١۔ اللہ نے فرمایا: اسے پکڑ لیں اور ڈریں نہیں ، ہم اسے اس کی پہلی حالت پر پلٹا دیں گے۔

٢٢۔ اور اپنا ہاتھ اپنی بغل میں رکھیے تو وہ بغیر کسی عیب کے چمکتا ہوا نکلے گا، یہ دوسری نشانی ہے۔

٢٣۔ (یہ اس لیے ) کہ ہم تمہیں اپنی بڑی نشانیاں دکھا دیں۔

٢٤۔ اب آپ فرعون کی طرف جائیں کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔

٢٥۔ موسیٰ نے کہا: میرے پروردگار! میرا سینہ کشادہ فرما،

٢٦۔ اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے ،

٢٧۔اور میری زبان کی گرہ کھول دے ،

٢٨۔ تاکہ وہ میری بات سمجھ جائیں۔

٢٩۔ اور میرے کنبے میں سے میرا ایک وزیر بنا دے۔

٣٠۔ میرے بھائی ہارون کو۔

٣١۔ اسے میرا پشت پناہ بنا دے ،

٣٢۔ اور اسے میرے امر (رسالت) میں شریک بنا دے ،

٣٣۔ تاکہ ہم تیری خوب تسبیح کریں ،

٣٤۔ اور تجھے کثرت سے یاد کریں۔

٣٥۔ یقیناً تو ہی ہمارے حال پر خوب نظر رکھنے والا ہے۔

٣٦۔ فرمایا: اے موسیٰ! یقیناً آپ کو آپ کی مراد دے دی گئی۔

٣٧۔ اور بتحقیق ہم نے ایک مرتبہ پھر آپ پر احسان کیا۔

٣٨۔ جب ہم نے آپ کی والدہ کی طرف اس بات کا الہام کیا جو بات الہام کے ذریعے کی جانا تھی۔

٣٩۔ (وہ یہ) کہ اس (بچے ) کو صندوق میں رکھ دیں پھر اس (صندوق) کو دریا میں ڈال دیں تو دریا اسے ساحل پر ڈال دے گا (تو) میرا اور اس کا دشمن اسے اٹھا لے گا اور میں نے آپ پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی تاکہ آپ میرے سامنے پرورش پائیں۔

٤٠۔ (وہ وقت یاد کرو) جب آپ کی بہن (فرعون کے پاس) گئیں اور کہنے لگیں : کیا میں تمہیں ایسا شخص بتا دوں جو اس بچے کی پرورش کرے ؟ اس طرح ہم نے آپ کو آپ کی ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی ہو جائے اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور آپ نے ایک شخص کو قتل کیا پس ہم نے آپ کو غم سے نجات دی اور ہم نے آپ کی خوب آزمائش کی، پھر سالوں تک آپ مدین والوں کے ہاں مقیم رہے پھر اے موسیٰ! اب عین مقرر وقت پر آ گئے ہیں۔

٤١۔اور میں نے آپ کو اپنے لیے اختیار کیا ہے۔

٤٢۔ لہٰذا آپ اور آپ کا بھائی میری آیات لے کر جائیں اور دونوں میری یاد میں سستی نہ کرنا۔

٤٣۔ دونوں فرعون کے پاس جائیں کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔

٤٤۔ پس دونوں اس سے نرم لہجے میں بات کرنا شاید وہ نصیحت مان لے یا ڈر جائے۔

٤٥۔ دونوں نے کہا: اے ہمارے پروردگار! ہمیں خوف ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا مزید سرکش ہو جائے گا۔

٤٦۔ فرمایا: آپ دونوں خوف نہ کریں میں آپ دونوں کے ساتھ ہوں اور (دونوں کی بات) سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔

٤٧۔ دونوں اس کے پاس جائیں اور کہیں : ہم دونوں تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے اور ان پر سختیاں نہ کر، بلاشبہ ہم تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر تیرے پاس آئے ہیں اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔

٤٨۔ ہماری طرف یقیناً وحی کی گئی ہے کہ عذاب اس شخص کے لیے معین ہے جو تکذیب کرے اور منہ موڑے۔

٤٩۔ فرعون نے کہا: اے موسیٰ! تم دونوں کا رب کو ن ہے ؟

٥٠۔ موسیٰ نے کہا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی۔

٥١۔ فرعون بولا:پھر گزشتہ نسلوں کا کیا بنا ؟

٥٢۔ موسیٰ نے کہا: ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں ہے ، میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے۔

٥٣۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے اور آسمانوں سے پانی برسایا پھر اس سے ہم نے مختلف نباتات کے جوڑے اگائے۔

٥٤۔ تم بھی کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ، صاحبان علم کے لیے اس میں یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔

٥٥۔ اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے۔

٥٦۔ اور بتحقیق ہم نے فرعون کو ساری نشانیاں دکھا دیں سو اس نے پھر بھی تکذیب کی اور انکار کیا۔

٥٧۔ فرعون نے کہا: اے موسیٰ! کیا تو اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہماری سرزمین سے نکالنے ہمارے پاس آئے ہو؟

٥٨۔ پس ہم بھی تمہارے مقابلے میں ایسا ہی جادو پیش کریں گے ، لہٰذا ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت جس کی نہ ہم خلاف ورزی کریں اور نہ تم، صاف میدان مقرر کر لو۔

٥٩۔ موسیٰ نے کہا: تمہارے ساتھ جشن کے دن وعدہ ہے اور یہ کہ دن چڑھے لوگ جمع کیے جائیں۔

٦٠۔ پس فرعون نے پلٹ کر اپنی ساری مکاریوں کو یکجا کیا پھر (مقابلے میں ) آ گیا۔

٦١۔ موسیٰ نے ان سے کہا: تم پر تباہی ہو!تم اللہ پر جھوٹ بہتان نہ باندھو وگرنہ اللہ تمہیں ایک عذاب سے نابود کرے گا اور جس نے بھی بہتان باندھا وہ نامراد رہا۔

٦٢۔ پھر انہوں نے اپنے معاملے میں آپس میں اختلاف کیا اور (باہمی) مشورے کو خفیہ رکھا۔

٦٣۔ وہ کہنے لگے : یہ دونوں تو بس جادوگر ہیں ، دونوں چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری اس سر زمین سے نکال باہر کریں اور دونوں تمہارے اس مثالی مذہب کا خاتمہ کر دیں۔

٦٤۔ لہٰذا اپنی ساری تدبیریں یکجا کرو پھر قطار باندھ کر میدان میں آؤ اور آج جو جیت جائے گا وہی فلاح پائے گا۔

٦٥۔ (جادوگروں نے )کہا: اے موسی! تم پھینکو گے یا پہلے ہم پھینکیں ؟

٦٦۔ موسیٰ نے کہا: بلکہ تم پھینکو، اتنے میں ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو دوڑتی محسوس ہوئیں۔

٦٧۔ پس موسیٰ نے اپنے اندر خوف محسوس کیا۔

٦٨۔ ہم نے کہا: خوف نہ کر یقیناً آپ ہی غالب آنے والے ہیں۔

٦٩۔ اور جو کچھ آپ کے دائیں ہاتھ میں ہے اسے پھینک دیں کہ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے یہ ان سب کو نگل جائے گا، یہ لوگ جو کچھ بنا لائے ہیں وہ فقط جادوگر کا فریب ہے اور جادوگر جہاں بھی ہو کامیاب نہیں ہو سکتا۔

٧٠۔ پھر جادوگر سجد ے میں گر پڑے اور کہنے لگے : ہم ہارون اور موسیٰ کے پروردگار پر ایمان لے آئے۔

٧١۔ فرعون بولا: تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں ، یہ یقیناً تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا اب میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کٹوا دوں گا اور کھجور کے تنوں پر تمہیں یقیناً سولی چڑھوا دوں گا پھر تمہیں ضرور معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے سخت اور دیرپا عذاب دینے والا کون ہے

٧٢۔ جادو گروں نے کہا: جو دلائل ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں ان پر اور جس نے ہمیں خلق کیا ہے اس پر ہم تجھے مقدم نہیں رکھیں گے لہٰذا اب تو نے جو فیصلہ کرنا ہے کر ڈال، تو بس اس دنیا کی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔

٧٣۔ ہم اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہیں تاکہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور جس جادوگری پر تم نے ہمیں مجبور کیا تھا اسے بھی معاف کر دے اور اللہ سب سے بہتر اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔

٧٤۔ بے شک جو مجرم بن کر اپنے رب کے پاس آئے گا اس کے لیے یقیناً جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور نہ جیے گا۔

٧٥۔ اور جو مومن بن کر اس کے پاس حاضر ہو گا جب کہ وہ نیک اعمال بھی بجا لا چکا ہو تو ایسے لوگوں کے لیے بلند درجات ہیں۔

٧٦۔دائمی باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی پاکیزہ رہنے والے کی جزا ہے۔

٧٧۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو لے کر رات کے وقت چل پڑیں پھر ان کے لیے دریا میں خشک راستہ بنا دیں ، آپ کو (فرعون کی طرف سے ) نہ پکڑے جانے کا خطرہ ہو گا اور نہ ہی (غرق کا) خوف۔

٧٨۔ پھر فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا تعاقب کیا اور پھر سمندر ان پر ایسا چھایا کہ جس طرح چھا جانا چاہیے تھا۔

٧٩۔ اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کر دیا اور ہدایت کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔

٨٠۔ اے بنی اسرائیل! تمہارے دشمن سے یقیناً ہم نے تمہیں نجات دی اور تمہیں طور کی دائیں جانب وعدہ دیا اور ہم نے تم پر من و سلویٰ نازل کیا۔

۔ جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور اس میں سرکشی نہ کرو ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہو گا اور جس پر میرا غضب نازل ہوا بتحقیق وہ ہلاک ہو گیا۔

٨٢۔ البتہ جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل انجام دے پھر راہ راست پر چلے تو میں اسے خوب بخشنے والا ہوں۔

٨٣۔ اور (فرمایا) اے موسیٰ! آپ نے اپنی قوم سے پہلے (آنے میں )جلدی کیوں کی؟

٨٤۔ موسیٰ نے عرض کیا: وہ میرے پیچھے آ رہے ہیں اور میرے رب ! میں نے تیری طرف (آنے میں ) جلدی اس لیے کی کہ تو خوش ہو جائے۔

٨٥۔ فرمایا: پس آپ کے بعد آپ کی قوم کو ہم نے آزمائش میں ڈالا ہے اور سامری نے انہیں گمراہ کر دیا ہے۔

٨٦۔ چنانچہ موسیٰ غصے اور حزن کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹے ، بولے : اے میری قوم ! کیا تمہارے رب نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا مدت تمہارے لیے لمبی ہو گئی تھی؟ یا تم نے یہ سوچا کہ تمہارے رب کا غصہ تم پر آ کر رہے ؟ اسی لیے تم نے میرے ساتھ وعدہ خلافی کی؟

٨٧۔ انہوں نے کہا: ہم نے آپ سے وعدہ خلافی اپنے اختیار سے نہیں کی بلکہ ہوا یہ کہ ہم پر قوم کے زیورات کا بوجھ لادا گیا تھا تو ہم نے اسے پھینک دیا اور سامری نے بھی اس طرح ڈال دیا۔

٨٨۔ اور ان کے لیے ایک بچھڑے کا قالب بنا کر نکالا جس میں گائے کی سی آواز تھی پھر وہ بولے : یہ ہے تمہارا معبود اور موسیٰ کا معبود پھر وہ بھول گیا۔

٨٩۔ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ (بچھڑا) ان کی کسی بات کا جواب تک نہیں دے سکتا اور وہ نہ ان کے کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہے۔

٩٠۔ اور ہارون نے ان سے پہلے کہہ دیا تھا: اے میری قوم! بے شک تم اس کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے ہو جب کہ تمہارا پروردگار تو رحمن ہے لہٰذا تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو۔

٩١۔ وہ کہنے لگے : ہم موسیٰ کے ہمارے پاس واپس آنے تک برابر اسی کی پرستش میں منہمک رہیں گے۔

٩٢۔ موسیٰ نے کہا : اے ہارون! جب آپ دیکھ رہے تھے کہ یہ لوگ گمراہ ہو رہے ہیں

٩٣۔ تو میری پیروی کرنے سے آپ کو کس چیز نے روکا؟ کیا آپ نے میرے حکم کی نافرمانی کی؟

٩٤۔ ہارون نے جواب دیا: اے ماں جائے ! میری داڑھی اور سر کے بال نہ پکڑیں ، مجھے تو اس بات کا خوف تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔

٩٥۔ کہا : اے سامری! تیر ا مدعا کیا ہے ؟

٩٦۔ اس نے کہا: میں نے ایسی چیز کا مشاہدہ کیا جس کا دوسروں نے مشاہدہ نہیں کیا پس میں نے فرستادہ خدا کے نقش قدم سے ایک مٹھی(بھر خاک) اٹھا لی پھر میں نے اسے (بچھڑے کے قالب میں ) ڈال دیا اور میرے نفس نے یہ بات میرے لیے بھلی بنا دی۔

٩٧۔موسیٰ نے کہا: دور ہو جا(تیری سزا یہ ہے کہ ) تجھے زندگی بھر یہ کہتے رہنا ہو گا مجھے ہاتھ نہ لگانا اور تیرے لیے ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ٹلنے والا نہیں ہے اور تو اپنے اس معبود کو دیکھ جس (کی پوجا) میں تو منہمک تھا، ہم اسے ضرور جلا ڈالیں گے پھر اس (کی راکھ ) کو اڑا کر دریا میں ضرور بکھیر دیں گے۔

٩٨۔ بتحقیق تمہارا معبود تو وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔

٩٩۔ (اے رسول) اسی طرح ہم آپ سے گزشتگان کی خبریں بیان کرتے ہیں اور ہم نے آپ کو اپنے ہاں سے ایک نصیحت عطا کی ہے۔

١٠٠۔ جو اس سے منہ موڑے گا پس بروز قیامت وہ یقیناً ایک بوجھ اٹھائے گا۔

١٠١۔ جس میں یہ لوگ ہمیشہ مبتلا رہیں گے اور قیامت کے دن یہ ان کے لیے بدترین بوجھ ہو گا۔

١٠٢۔ اس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو جمع کریں گے (خوف کے مارے ) جن کی آنکھیں بے نور ہو جائیں گی۔

١٠٣۔ (اس وقت) وہ آپس میں دھیمے دھیمے کہیں گے (دنیا میں ) تم صرف دس دن رہے ہو گے۔

١٠٤۔ ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ کرتے ہیں جب ان میں سے زیادہ صائب الرائے کا یہ کہنا ہو گا کہ تم تو صرف ایک دن رہے ہو۔

١٠٥۔ اور یہ لوگ ان پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ، پس آپ کہہ دیجئے : میرا رب انہیں اڑا کر بکھیر دے گا۔

١٠٦۔ پھر اسے ہموار میدان بنا کر چھوڑے گا۔

١٠٧۔ نہ آپ اس میں کوئی ناہمواری دیکھیں گے نہ بلندی۔

١٠٨۔ اس دن لوگ منادی کے پیچھے دوڑیں گے جس میں کوئی انحراف نہ ہو گا اور رحمن کے سامنے آوازیں دب جائیں گی، پس آپ آہٹ کے سوا کچھ نہ سنیں گے۔

١٠٩۔ اس روز شفاعت کسی کو فائدہ نہ دے گی سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور اس کی بات کو پسند کرے۔

١١٠۔ اور وہ لوگوں کے سامنے اور پیچھے کی سب باتیں جانتا ہے اور وہ کسی کے احاطہ علم میں نہیں آ سکتا۔

١١١۔ سب کے چہرے اس حی اور قیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے اور جو کوئی ظلم کا بوجھ اٹھائے گا وہ نامراد ہو گا۔

١١٢۔ اور جو نیک اعمال بجا لائے اور وہ مومن بھی ہو تو اسے نہ ظلم کا خوف ہو گا اور نہ حق تلفی کا۔

١١٣۔ اور اسی طرح ہم نے یہ قرآن عربی میں نازل کیا اور اس میں مختلف انداز میں تنبیہیں بیان کی ہیں کہ شاید وہ پرہیز گار بن جائیں یا (قرآن) ان کے لیے کوئی نصیحت وجود میں لائے۔

١١٤۔ پس وہ بادشاہ حقیقی اللہ برتر ہے اور آپ پر ہونے والی اس کی وحی کی تکمیل سے پہلے قرآن پڑھنے کی عجلت نہ کریں اور کہہ دیا کریں : پروردگارا میرے علم میں اضافہ فرما۔

١١٥۔ اور بتحقیق ہم نے آدم سے عہد لیا تھا لیکن وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں عزم نہیں پایا۔

١١٦۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کے لیے سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ، اس نے انکار کیا۔

١١٧۔ پھر ہم نے کہا :اے آدم! یہ آپ اور آپ کی زوجہ کا دشمن ہے ، کہیں یہ آپ دونوں کو جنت سے نکال نہ دے پھر آپ مشقت میں پڑ جائیں گے۔

١١٨۔ یقیناً اس جنت میں آپ نہ تو بھوکے رہیں گے اور نہ ننگے۔

١١٩۔ اور یقیناً اس میں آپ نہ تو پیاسے رہیں گے اور نہ دھوپ کھائیں گے۔

١٢٠۔ پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا اور کہا: اے آدم! کیا میں تمہیں ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میں بتاؤں ؟

١٢١۔چنانچہ دونوں نے اس میں سے کھایا تو دونوں کے لیے ان کے ستر کھل گئے اور دونوں نے اپنے اوپر جنت کے پتے گانٹھنے شروع کر دیے اور آدم نے اپنے رب کے حکم میں کوتاہی کی تو غلطی میں رہ گئے۔

١٢٢۔ پھر ان کے پروردگار نے انہیں برگزیدہ کیا اور ان کی توبہ قبول کی اور ہدایت دی۔

١٢٣۔ فرمایا: یہاں سے دونوں اکٹھے اتر جاؤ ایک دوسرے کے دشمن ہو کر پھر میری طرف سے تمہارے پاس کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی اتباع کرے گا وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ شقی۔

١٢٤۔ اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقیناً ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔

١٢٥۔ وہ کہے گا: پروردگارا ! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو بینا تھا؟

١٢٦۔ جواب ملے گا: ایسا ہی ہے ! ہماری نشانیاں تیرے پاس آئی تھیں تو نے انہیں بھلا دیا تھا اور آج تو بھی اسی طرح بھلایا جا رہا ہے۔

١٢٧۔ اور ہم حد سے تجاوز کرنے والوں اور اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان نہ لانے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو زیادہ شدید اور تا دیر باقی رہنے والا ہے۔

١٢٨۔ کیا انہوں نے اس بات سے کوئی ہدایت حاصل نہیں کی کہ ان سے پہلے بہت سی نسلوں کو ہم نے ہلاک کر دیا جن کی بستیوں میں آج یہ لوگ چل پھر رہے ہیں ؟ اس بات میں یقیناً ہوشمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

١٢٩۔ اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات طے نہ ہو چکی ہوتی اور ایک مدت کا تعین نہ ہو چکا ہوتا تو (عذاب کا نزول) لازمی تھا۔

١٣٠۔ لہٰذا جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کریں اور طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے پروردگار کی ثنا کی تسبیح کریں اور کچھ اوقات شب میں اور دن کے اطراف میں بھی اس کی تسبیح کیا کریں تاکہ آپ خوش رہیں۔

١٣١۔ اور (اے رسول) دنیاوی زندگی کی اس رونق کی طرف اپنی نگاہیں اٹھا کر بھی نہ دیکھیں جو ہم نے آزمانے کے لیے ان میں سے مختلف لوگوں کو دے رکھی ہے اور آپ کے رب کا دیا ہوا رزق بہتر اور زیادہ دیرپا ہے۔

١٣٢۔ اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہیں ، ہم آپ سے ہم کوئی رزق نہیں مانگتے بلکہ ہم آپ کو رزق دیتے ہیں اور انجام (اہل) تقویٰ ہی کے لیے ہے۔

١٣٣۔ اور لوگ کہتے ہیں :یہ اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے ؟ کیا ان کے پاس اگلی کتابوں میں سے واضح ثبوت نہیں آیا؟

١٣٤۔ اور اگر ہم (نزول قرآن سے ) پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ ضرور کہتے : ہمارے پروردگار! تو نے ہماری طرف کسی رسول کو کیوں نہیں بھیجا کہ ذلت و رسوائی سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی اتباع کر لیتے ؟

١٣٥۔ کہہ دیجئے : سب انتظار میں ہیں لہٰذا تم بھی انتظار کرو پھر عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ راہ راست پر چلنے والے کون ہیں اور ہدایت پانے والے کون ہیں۔

پارہ : اقتَرَبَ 17

21 سورۃ انبیاء۔ مکی۔ آیات ١١٢۔

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے جب کہ وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

٢۔ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی تازہ نصیحت آتی ہے یہ لوگ اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں۔

٣۔ ان کے دل لہویات میں مصروف ہوتے ہیں اور ظالم آپس کی سرگوشیاں چھپاتے ہیں کہ یہ شخص بھی تم جیسا بشر ہے ، تو کیا تم لوگ دانستہ طور پر جادو کے چکر میں آتے ہو؟

٤۔ رسول نے کہا: میرا پروردگار ہر وہ بات جانتا ہے جو آسمان و زمین میں ہے اور وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

٥۔ بلکہ وہ کہتے ہیں : یہ (قرآن) تو پریشان خوابوں کا ایک مجموعہ ہے بلکہ یہ اس کا خود ساختہ ہے بلکہ یہ تو شاعر ہے ورنہ یہ کوئی معجزہ پیش کرے جیسے پہلے انبیاء (معجزوں کے ساتھ) بھیجے گئے تھے۔

٦۔ان سے پہلے جس بستی کو بھی ہم نے ہلاک کیا وہ ایمان نہیں لائی، تو کیا یہ لوگ ایمان لائیں گے ؟

٧۔ اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردان (حق) ہی کی طرف وحی بھیجی ہے ، اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔

٨۔ اور ہم نے انہیں ایسے جسم نہیں بنایا جو کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ ہی وہ ہمیشہ (زندہ) رہنے والے تھے۔

٩۔ پھر ہم نے ان کے ساتھ وعدہ پورا کیا پس ہم نے انہیں اور جنہیں ہم نے چاہا بچا لیا اور تجاوز کرنے والوں کو ہلاک کر دیا۔

١٠۔ بتحقیق ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہاری نصیحت ہے تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟

١١۔ اور ہم نے کتنی ظالم بستیوں کو درہم برہم کر کے رکھ دیا اور ان کے بعد دوسری قوم کو پیدا کیا۔

١٢۔ پس جب انہوں نے ہمارے عذاب کو محسوس کیا تب وہ وہاں سے بھاگنے لگے۔

١٣۔ بھاگو نہیں ، اپنی عیش پرستی میں اور اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ، شاید تم سے پوچھا جائے۔

١٤۔ کہنے لگے : ہائے ہماری تباہی! بے شک ہم لوگ ظالم تھے۔

١٥۔ اور وہ فریاد کر رہے ہیں یہاں تک کہ ہم نے انہیں (جڑوں سے ) کاٹ کر خاموش کر دیا۔

١٦۔ اور ہم نے اس آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کو بیہودہ خلق نہیں کیا۔

١٧۔ اگر ہم کھیل کا ارادہ کرتے تو ہم اسے اپنے پاس سے بنا لیتے اگر ہم (ایسا) کرنے والے ہوتے (تو تمہیں خلق کرنے کی کیا ضرورت تھی)۔

١٨۔ بلکہ ہم باطل پر حق کی چوٹ لگا تے ہیں جو اس کا سر کچل دیتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے اور تم پر تباہی ہو ان باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔

١٩۔ اور آسمانوں اور زمین میں موجود مخلوقات اسی کی ہیں اور جو اس کے پاس ہیں وہ اللہ کی عبادت سے نہ تو تکبر کرتے ہیں اور نہ ہی اکتاتے ہیں۔

٢٠۔ وہ شب و روز تسبیح کرتے ہیں ، تساہل نہیں برتتے۔

٢١۔ کیا انہوں نے زمین سے ایسے معبود بنا رکھے ہیں جو انہیں زندہ کرتے ہوں ؟

٢٢۔ اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا معبود ہوتے تو دونوں (کا نظام) درہم برہم ہو جاتا، پس پاک ہے اللہ، پروردگار عرش ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں۔

٢٣۔ وہ جو کام کرتا ہے اس کی پرسش نہیں ہو گی اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اس کی ان سے پرسش ہو گی۔

٢٤۔ کیا انہوں نے اللہ کے سوا معبود بنا لیے ہیں ؟ کہہ دیجئے : تم اپنی دلیل پیش کرو، یہ میرے ساتھ والوں کی کتاب اور مجھ سے پہلے والوں کی کتاب ہے ، (ان میں کسی غیر اللہ کا ذکر نہیں ) بلکہ اکثر لوگ حق کو جانتے نہیں اس لیے (اس سے ) منہ موڑ لیتے ہیں۔

٢٥۔ اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا ہے اس کی طرف یہی وحی کی ہے ، بتحقیق میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم صرف میری عبادت کرو۔

٢٦۔ اور وہ کہتے ہیں : اللہ نے بیٹا بنایا ہے ، وہ پاک ہے (ایسی باتوں سے ) بلکہ یہ تو اللہ کے محترم بندے ہیں۔

٢٧۔ وہ تو اللہ (کے حکم) سے پہلے بات (بھی) نہیں کرتے اور اسی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

٢٨۔ اللہ ان باتوں کو جانتا ہے جو ان کے روبرو اور جو ان کے پس پردہ ہیں اور وہ فقط ان لوگوں کی شفاعت کر سکتے ہیں جن سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ کی ہیبت سے ہراساں رہتے ہیں۔

٢٩۔ اور ان میں سے جو کوئی یہ کہہ دے کہ اللہ کے علاوہ میں بھی معبود ہوں تو ہم اسے جہنم کی سزا دیتے ہیں ، چنانچہ ظالموں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔

٣٠۔ کیا کفار اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ یہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کر دیا ہے اور تمام جاندار چیزوں کو ہم نے پانی سے بنایا ہے ؟ تو کیا (پھر بھی) وہ ایمان نہیں لائیں گے ؟

٣١۔ اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنا دیے تاکہ وہ لوگوں کو متزلزل نہ کرے اور ہم نے اس میں کشادہ راستے بنائے کہ لوگ راہ پائیں۔

٣٢۔ اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا اور اس کے باوجود وہ اس کی نشانیوں سے منہ موڑتے ہیں۔

٣٣۔ اور اسی نے شب و روز اور آفتاب و ماہتاب پیدا کیے ،یہ سب کسی نہ کسی فلک میں تیر رہے ہیں۔

٣٤۔ ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی انسان کو حیات جاودانی نہیں دی تو کیا اگر آپ انتقال کر جائیں تو یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟

٣٥۔ ہر نفس کو موت (کا ذائقہ) چکھنا ہے اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں اور تم پلٹ کر ہماری ہی طرف آؤ گے۔

٣٦۔ اور کافر جب بھی آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا بس استہزاء کرتے ہیں (ا ور کہتے ہیں ) کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا (برے الفاظ میں ) ذکر کرتا ہے ؟ حالانکہ وہ خود رحمن کے ذکر کے منکر ہیں۔

٣٧۔ انسان عجلت پسند خلق ہوا ہے ، عنقریب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا پس تم جلد بازی نہ کرو۔

٣٨۔ اور وہ کہتے ہیں : اگر آپ سچے ہیں تو بتائیں یہ (عذاب کا) وعدہ کب پورا ہو گا؟

٣٩۔ کاش! کفار کو اس وقت کا علم ہو جاتا جب وہ آتش جہنم کو نہ اپنے چہروں سے اور نہ ہی اپنی پشتوں سے ہٹا سکیں گے اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔

٤٠۔ بلکہ یہ (قیامت کا ہولناک عذاب ) ان پر اچانک آئے گا تو انہیں بدحواس کر دے گا پھر انہیں نہ اسے ہٹا نے کی استطاعت ہو گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔

٤١۔ اور بتحقیق آپ سے پہلے بھی رسولوں کا استہزا ہوتا رہا ہے مگر ان استہزا کرنے والوں کو اسی عذاب نے آ گھیرا جس کا وہ استہزا کیا کرتے تھے۔

٤٢۔ کہہ دیجئے :رات اور دن میں رحمن سے تمہیں کون بچائے گا؟ بلکہ یہ لوگ تو اپنے رب کے ذکر سے منہ موڑے ہوئے ہیں

٤٣۔ کیا ہمارے علاوہ بھی ان کے معبود ہیں جو انہیں بچا لیں ؟ وہ تو خود اپنی مدد کی بھی استطاعت نہیں رکھتے اور نہ ہی ہماری طرف سے ان کا ساتھ دیا جائے گا۔

٤٤۔ بلکہ ہم تو انہیں اور ان کے آبا کو سامان زیست دیتے رہے یہاں تک کہ ان پر عرصہ دراز گزر گیا تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم عرصہ زمین ہر طرف سے تنگ کر رہے ہیں ؟ تو کیا (پھر بھی) یہ لوگ غالب آنے والے ہیں۔

٤٥۔ کہہ دیجئے : میں وحی کی بنا پر تمہیں تنبیہ کر رہا ہوں مگر جب بہروں کو تنبیہ کی جائے تو (کسی) پکا ر کو نہیں سنتے۔

٤٦۔ اور اگر انہیں آپ کے پروردگار کا تھوڑا سا عذاب بھی چھو جائے تو وہ ضرور کہنے لگ جائیں گے : ہائے ہماری تباہی! ہم یقیناً ظالم تھے۔

٤٧۔ اور ہم قیامت کے دن عدل کا ترازو قائم کریں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا اور اگر رائی کے دانے برابر بھی (کسی کا عمل) ہوا تو ہم اسے اس کے لیے حاضر کر دیں گے اور حساب کرنے کے لیے ہم ہی کافی ہیں۔

٤٨۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان اور ایک روشنی اور ان متقین کے لیے نصیحت عطا کی۔

٤٩۔ جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے رہے اور قیامت سے بھی خوف کھاتے ہیں۔

٥٠۔ اور یہ( قرآن) ایک مبارک ذکر ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ، کیا تم اس کے بھی منکر ہو؟

٥١۔ اور بتحقیق ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے کامل عقل عطا کی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے۔

٥٢۔ جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے گرد تم جمے رہتے ہو؟

٥٣۔ کہنے لگے : ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایا ہے۔

٥٤۔ ابراہیم نے کہا: یقیناً تم خود اور تمہارے باپ دادا بھی واضح گمراہی میں مبتلا ہیں۔

٥٥۔ وہ کہنے لگے : کیا آپ ہمارے پاس حق لے کر آئے ہیں یا بیہودہ گوئی کر رہے ہیں ؟

٥٦۔ ابراہیم نے کہا: بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور میں اس بات کے گواہوں میں سے ہوں۔

٥٧۔ اور اللہ کی قسم! جب تم یہاں سے پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی تدبیر ضرور سوچوں گا۔

٥٨۔ چنانچہ ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت) کے تاکہ و ہ اس کی طرف رجوع کریں۔

٥٩۔ وہ کہنے لگے : جس نے ہمارے معبودوں کا یہ حال کیا ہے یقیناً وہ ظالموں میں سے ہے۔

٦٠۔ کچھ نے کہا: ہم نے ایک جوان کو ان بتوں کا (برے الفاظ میں ) ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں۔

٦١۔ کہنے لگے : اسے سب کے سامنے پیش کرو تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں۔

٦٢۔ کہا :اے ابراہیم! کیا ہمارے معبودوں کا یہ حال تم نے کیا ہے ؟

٦٣۔ ابراہیم نے کہا: بلکہ ان کے اس بڑے (بت )نے ایسا کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں۔

٦٤۔ (یہ سن کر) وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور کہنے لگے : حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو۔

٦٥۔ پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے اور (ابراہیم سے کہا) : تم جانتے ہو یہ نہیں بولتے۔

٦٦۔ ابراہیم نے کہا: تو پھر تم اللہ کو چھوڑ کر انہیں کیوں پوجتے ہو جو تمہیں نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان؟

٦٧۔ تف ہو تم پر اور ان (معبودوں ) پر جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو، کیا تم عقل نہیں رکھتے ؟

٦٨۔ وہ کہنے لگے : اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی نصرت کرو۔

٦٩۔ ہم نے کہا: اے آگ! ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا۔

٧٠۔ اور انہوں نے ابراہیم کے ساتھ اپنا حربہ استعمال کیا اور ہم نے خود انہیں ناکام بنا دیا۔

٧١۔ اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس سرزمین کی طرف لے گئے جسے ہم نے عالمین کے لیے بابرکت بنایا ہے۔

٧٢۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب بطور عطیہ دیے اور ہم نے ہر ایک کو صالح بنایا۔

٧٣۔ اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے نیک عمل کی انجام دہی اور قیام نماز اور ادائیگی زکوٰۃ کے لیے ان کی طرف وحی کی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔

٧٤۔ اور لوط کو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا اور ہم نے انہیں اس بستی کے شر سے نجات دی جہاں کے لوگ بے حیائی کا ارتکاب کرتے تھے ، یقیناً وہ برائی والے اور بدکار قوم تھی۔

٧٥۔ اور ہم نے انہیں (لوط کو) اپنی رحمت میں داخل کیا وہ یقیناً صالحین میں سے تھے۔

٧٦۔ اور نوح کو بھی (ہم نے نوازا) جب انہوں نے ابراہیم سے پہلے (ہمیں ) پکارا تو ہم نے ان کی دعا قبول کی، پس انہیں اور ان کے گھر والوں کو بڑی پریشانی سے نجات دی۔

٧٧۔ اور اس قوم کے مقابلے میں ان کی مدد کی جو ہماری نشانیوں کی تکذیب کرتی تھی، یقیناً وہ برے لوگ تھے چنانچہ ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔

٧٨۔ اور داؤد و سلیمان کو بھی (نوازا) جب وہ دونوں ایک کھیت کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت لوگوں کی بکریاں بکھر گئی تھیں اور ہم ان کے فیصلے کا مشاہدہ کر رہے تھے۔

٧٩۔ تو ہم نے سلیمان کو اس کا فیصلہ سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکمت اور علم عطا کیا اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو داؤد کے لیے مسخر کیا جو ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور ایسا کرنے والے ہم ہی تھے۔

٨٠۔ اور ہم نے تمہارے لیے انہیں زرہ سازی کی صنعت سکھائی تاکہ تمہاری لڑائی میں وہ تمہارا بچاؤ کرے تو کیا تم شکر گزار ہو ؟

٨١۔ اور سلیمان کے لیے تیز ہوا کو (مسخر کیا) جو ان کے حکم سے اس سرزمین تک چلتی تھی جسے ہم نے بابرکت بنایا تھا اور ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے ہیں۔

٨٢۔ اور شیاطین میں سے کچھ (کو مسخر بنایا) جو ان کے لیے غوطے لگاتے تھے اور اس کے علاوہ دیگر کام بھی کرتے تھے اور ہم ان سب کی نگہبانی کرتے تھے۔

٨٣۔ اور ایوب کو بھی (اپنی رحمت سے نوازا) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: مجھے (بیماری سے ) تکلیف ہو رہی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔

٨٤۔ تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کی تکلیف ان سے دور کر دی اور انہیں ان کے اہل و عیال عطا کیے اور اپنی رحمت سے ان کے ساتھ اتنے مزید بھی جو عبادت گزاروں کے لیے ایک نصیحت ہے۔

٨٥۔ اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو بھی (اپنی رحمت سے نوازا) یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے۔

٨٦۔ اور ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کیا، یقیناً یہ صالحین میں سے تھے۔

٨٧۔ اور ذوالنون کو بھی (اپنی رحمت سے نوازا) جب وہ غصے میں چل دیے اور خیال کرنے لگے کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے ، چنانچہ وہ اندھیروں میں پکارنے لگے : تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک ہے ، یقیناً میں ہی زیادتی کرنے والوں میں سے ہوں۔

٨٨۔ پھر ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ہم نے انہیں غم سے نجات دی اور ایمان والوں کو ہم اسی طرح نجات دیتے ہیں۔

٨٩۔ اور زکریا کو بھی (رحمتوں سے نوازا) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: میرے پروردگار! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو بہترین وارث ہے۔

٩٠۔ پس ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں یحییٰ عطا کیے اور ان کی بیوی کو ان کے لیے نیک بنا دیا، یہ لوگ کارہائے خیر میں سبقت کرتے تھے اور شوق و خوف (دونوں حالتوں ) میں ہمیں پکارتے تھے اور ہمارے لیے خشوع کرنے والے تھے۔

٩١۔ اور اس خاتون کو بھی (نوازا) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی اس لیے ہم نے ان میں اپنی روح پھونک دی اور انہیں اور ان کے بیٹے (عیسیٰ) کو تمام اہل عالم کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔

٩٢۔ یہ تمہاری امت یقیناً امت واحدہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں لہٰذا تم صرف میری عبادت کرو۔

٩٣۔ لیکن انہوں نے اپنے (دینی) معاملات میں تفرقہ ڈال دیا۔ آخرکار سب نے ہماری طرف رجوع کرنا ہے۔

٩٤۔ پس جو نیک اعمال بجا لائے اور وہ مومن ہو تو اس کی کوشش کی ناقدری نہ ہو گی اور ہم (اس کے اعمال) اس کے لیے لکھ رہے ہیں۔

٩٥۔ اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کیا ہے اس کے (مکینوں ) کے لیے ممکن نہیں کہ وہ (دوبارہ ) لوٹ کر آئیں۔

٩٦۔ یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج (کا راستہ) کھول دیا جائے گا تو وہ ہر بلندی سے نکل پڑیں گے۔

٩٧۔ اور برحق وعدہ قریب آنے لگے گا تو کفار کی آنکھیں یکایک کھلی رہ جائیں گی، (وہ کہیں گے ) ہائے ہماری تباہی! ہم واقعی اس سے غافل تھے ، بلکہ ہم تو ظالم تھے۔

٩٨۔ بتحقیق تم اور تمہارے وہ معبود جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے تھے جہنم کا ایندھن ہیں جہاں تمہیں داخل ہونا ہے۔

٩٩۔ اگر یہ معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے اور اب سب کو اسی میں ہمیشہ رہنا ہے۔

١٠٠۔ جہنم میں ان کا شور ہو گا اور وہ اس میں کچھ نہ سن سکیں گے۔

١٠١۔ جن کے حق میں ہماری طرف سے پہلے ہی (جنت کی) خوشخبری مل چکی ہے وہ اس آتش سے دور ہوں گے۔

١٠٢۔ جہاں وہ اس کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور وہ ہمیشہ ان چیزوں میں رہیں گے جو ان کی خواہشات کے مطابق ہوں گی۔

١٠٣۔ انہیں قیامت کے بڑے خوفناک حالات بھی خوفزدہ نہیں کریں گے اور فرشتے انہیں لینے آئیں گے ( اور کہیں گے ) یہ تمہارا  وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔

١٠٤۔ اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جس طرح طومار میں اوراق لپیٹتے ہیں ، جس طرح ہم نے خلقت کی ابتدا کی تھی، اسے ہم پھر دہرائیں گے ، یہ وعدہ ہمارے ذمے ہے جسے ہم ہی پورا کرنے والے ہیں۔

١٠٥۔ اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔

١٠٦۔ اس( بات) میں بندگی کرنے والوں کے لیے یقیناً ایک آگاہی ہے۔

١٠٧۔ اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

١٠٨۔ کہہ دیجئے : میرے پاس وحی آئی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے ، تو کیا تم تسلیم کرتے ہو؟

١٠٩۔ پھر اگر انہوں نے منہ موڑ لیا تو کہ دیجئے : ہم نے تمہیں یکساں طور پر آگاہ کر دیا ہے اور جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا دور، یہ میں نہیں جانتا۔

١١٠۔ اور وہ بلند آواز سے کہی جانے والی باتوں کو بھی یقیناً جانتا ہے اور انہیں بھی جانتا ہے جنہیں تم پوشیدہ رکھتے ہو۔

١١١۔ اور میں نہیں جانتا شاید اس (عذاب کی تاخیر) میں تمہاری آزمائش ہے اور ایک مدت تک سامان زیست ہے۔

١١٢۔ رسول نے کہا: میرے پروردگار تو ہی حق کا فیصلہ فرما اور تم جو باتیں بناتے ہو اس کے مقابلے میں ہمارے مہربان رب سے ہی مدد مانگی جاتی ہے۔

 

 

سورہ حج۔ مدنی۔ آیات: ۷۸

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو کیونکہ قیامت کا زلزلہ بڑی (خوفناک) چیز ہے۔

٢۔ جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی (ماں ) اپنے شیرخوار کو بھول جائے گی اور تمام حاملہ عورتیں اپنا حمل گرا بیٹھیں گی اور تم لوگوں کو نشے کی حالت میں دیکھو گے ، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب بڑا شدید ہو گا۔

٣۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو لاعلمی کے باوجود اللہ کے بارے میں کج بحثیاں کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔

٤۔ جب کہ اس شیطان کے بارے میں یہ لکھا گیا ہے کہ جو اسے دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کرے گا اور جہنم کے عذاب کی طرف اس کی رہنمائی کرے گا۔

٥۔ اے لوگو! اگر تمہیں موت کے بعد زندگی کے بارے میں شبہ ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت کی تخلیق شدہ اور غیر تخلیق شدہ بوٹی سے تاکہ ہم (اس حقیقت کو) تم پر واضح کریں اور ہم جس کو چاہتے ہیں ایک مقررہ وقت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تمہیں ایک طفل کی شکل میں نکال لاتے ہیں تاکہ پھر تم جوانی کو پہنچ جاؤ اور تم میں سے کوئی فوت ہو جاتا ہے اور کوئی تم میں سے نکمی عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ وہ جاننے کے بعد بھی کچھ نہ جانے اور تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک ہوتی ہے لیکن جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو یہ جنبش میں آ جاتی ہے اور ابھرنے لگتی ہے اور مختلف اقسام کی پر رونق چیزیں اگاتی ہے۔

٦۔ یہ سب اس لیے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔

٧۔ اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کوئی شک نہیں اور یہ کہ اللہ ان سب کو اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں۔

٨۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر کسی علم اور ہدایت اور روشن کتاب کے کج بحثیاں کرتے ہیں۔

٩۔ تاکہ متکبرانہ انداز میں لوگوں کو راہ خدا سے گمراہ کریں ، اس کے لیے دنیا میں خواری ہے اور قیامت کے روز ہم اسے آگ کا عذاب چکھائیں گے۔

١٠۔ یہ سب تیرے اپنے دونوں ہاتھوں سے آگے بھیجے ہوئے کی وجہ سے ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

١١۔ اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی یکطرفہ بندگی کرتا ہے ، اگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تو منہ کے بل الٹ جاتا ہے ، اس نے دنیا میں بھی خسارہ اٹھایا اور آخرت میں بھی، یہی کھلا نقصان ہے۔

١٢۔ یہ اللہ کے سوا ایسی چیز کو پکارتا ہے جو اسے نہ ضرر دے سکتی ہے اور نہ اسے فائدہ دے سکتی ہے ، یہی تو بڑی کھلی گمراہی ہے۔

١٣۔ وہ ایسی چیز کو پکارتا ہے جس کا ضرر اس کے فائدے سے زیادہ قریب ہے ، کتنا برا ہے اس کا سرپرست اور اس کا رفیق بھی کتنا برا ہے۔

١٤۔ اللہ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو یقیناً ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اللہ جس چیز کا ارادہ کر لیتا ہے اسے یقیناً کر گزرتا ہے۔

١٥۔ جو یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ دنیا و آخرت میں رسول کی مدد نہیں کرے گا ( اب رسول کی کامیابی سے تنگ ہے ) تو اسے چاہیے کہ ایک رسی اوپر کی طرف باندھے پھر اپنا گلا گھونٹ لے پھر دیکھے کہ کیا اس کا یہ حربہ اس کے غصے کو دور کر دیتا ہے ؟

١٦۔ اور اسی طرح ہم نے قرآن کو واضح آیات کی صورت میں نازل کیا اور اللہ جس کے لیے ارادہ کرتا ہے اسے ہدایت دیتا ہے۔

١٧۔ یقیناً ایمان لانے والوں ، یہودیوں ، صابیوں ، نصرانیوں ، مجوسیوں اور مشرکوں کے درمیان اللہ قیامت کے دن فیصلہ کرے گا، یقیناً اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

١٨۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے نیز سورج، چاند، ستارے ،پہاڑ ، درخت، جانور اور بہت سے انسان اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے لوگ جن پر عذاب حتمی ہو گیا ہے اور جسے اللہ خوار کرے اسے عزت دینے والا کوئی نہیں ، یقیناً اللہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔

١٩۔ ان دونوں فریقوں نے اپنے رب کے بارے میں اختلاف کیا ہے ، پس جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے آتشیں لباس آمادہ ہے ، ان کے سروں کے اوپر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔

٢٠۔ جس سے ان کے پیٹ میں جو کچھ ہے اور کھالیں گل جائیں گے۔

٢١۔ اور ان (کو مارنے ) کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہوں گے۔

٢٢۔ جب وہ رنج کی وجہ سے جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو پھر اسی میں پلٹا دیے جائیں گے اور (کہا جائے گا) جلنے کا عذاب چکھو۔

٢٣۔ جو لو گ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ یقیناً انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے ان کی آرائش کی جائے گی اور ان جنتوں میں ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔

٢٤۔ اور انہیں پاکیزہ گفتار کی طرف ہدایت دی گئی اور انہیں لائق ستائش (خدا) کی راہ دکھائی گئی ہے۔

٢٥۔جو لوگ کافر ہوئے اور راہ خدا میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور اس مسجد الحرام کی راہ میں بھی جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے اور جس میں مقامی لوگ اور باہر سے آنے والے سب برابر ہیں اور جو اس میں زیادتی کے ساتھ کجروی کا ارادہ کرے اسے ہم ایک دردناک عذاب چکھائیں گے۔

٢٦۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کو مستقر بنایا (اور آگاہ کیا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع اور سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔

٢٧۔ اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔

٢٨۔ تاکہ وہ ان فوائد کا مشاہدہ کریں جو انہیں حاصل ہیں اور خاص دنوں میں اللہ کا نام لو ان جانوروں پر جو اللہ نے انہیں عنایت کیے ہیں ، پس ان سے تم لوگ خود بھی کھاؤ اور مفلوک الحال ضرورتمندوں کو بھی کھلاؤ۔

٢٩۔ پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں۔

٣٠۔بات یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کی عظمت کا پاس کرے تو اس کے رب کے نزدیک اس میں اس کی بہتری ہے اور تم لوگوں کے لیے مویشی حلال کر دیے گئے ہیں سوائے ان کے جن کے بارے میں تمہیں بتایا جائے گا، پس تم لوگ بتوں کی پلیدی سے اجتناب کرو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔

٣١۔ صرف (ایک) اللہ کی طرف یکسو ہو کر، کسی کو اس کا شریک بنائے بغیر اور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے تو وہ ایسا ہے گویا آسمان سے گر گیا پھر یا تو اسے پرندے اچک لیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دے۔

٣٢۔ بات یہ ہے کہ جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔

٣٣۔ اس (قربانی کے جانور) سے ایک معین مدت تک فائدہ اٹھانا تمہارے لیے (جائز) ہے ، پھر اس کا (ذبح ہونے کا) مقام قدیم خانہ کعبہ کے پاس ہے۔

٣٤۔ اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک دستور مقرر کیا ہے تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں عطا کیے ہیں ، پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پس اسی کے آگے سر تسلیم خم کرو اور (اے رسول) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔

٣٥۔ جن کا یہ حال ہے کہ جب اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپنے لگتے ہیں اور وہ مصیبت پر صبر کرنے والے ہوتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

٣٦۔ اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے ، پس اسے کھڑا کر کے اس پر اللہ کا نام لو پھر جب یہ پہلو پر گر پڑے تو اس میں سے خود بھی کھاؤ اور سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے فقیر کو کھلاؤ، یوں ہم نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔

٣٧۔ نہ اس کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ، اسی طرح اللہ نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ اللہ کی عطا کردہ ہدایت پر تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اور (اے رسول) آپ نیکی کرنے والوں کو بشارت دیں۔

٣٨۔ اللہ ایمان والوں کا یقیناً دفاع کرتا ہے اور اللہ کسی قسم کے خیانت کار کو یقیناً پسند نہیں کرتا۔

٣٩۔ جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقیناً قدرت رکھتا ہے۔

٤٠۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے ہیں ، محض اس جرم میں کہ وہ یہ کہتے تھے : ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے روکے نہ رکھتا تو راہبوں کی کوٹھریوں اور گرجوں اور عبادت گاہوں اور مساجد کو جن میں کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے منہدم کر دیا جاتا اور اللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا جو اس کی مدد کرے گا، اللہ یقیناً بڑا طاقتور اور بڑا غالب آنے والا ہے۔

٤١۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

٤٢۔ اگر لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو ان سے پہلے بھی تکذیب کی قوم نوح نے اور قوم عاد اور ثمود نے ،

٤٣۔ اور قوم ابراہیم اور قوم لوط نے ،

٤٤۔اور مدین والوں نے بھی، اور موسیٰ کی بھی تکذیب کی گئی ہے پس میں نے کفار کو پہلے مہلت دی پھر میں نے انہیں گرفت میں لے لیا پھر (دیکھ لو) میرا عذاب کیسا سخت ہے ؟

٤٥۔ پھر (قابل فکر ہے ) کتنی ہی بستیاں ان کے ظلم کی وجہ سے ہم نے تباہ کیں اور وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں اور کتنے کنویں اور اونچے قصر بیکار پڑے ہیں۔

٤٦۔ کیا یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہو جاتے ؟ حقیقتاً آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔

٤٧۔ اور یہ لوگ آپ سے عذاب جلدی طلب کر رہے ہیں اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف ہرگز نہیں کرتا اور آپ کے پروردگار کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے مطابق یقیناً ہزار برس کی طرح ہے۔

٤٨۔ اور بہت سی بستیاں ایسی ہیں جنہیں مہلت دیتا رہا ہوں جب کہ وہ ظلم کرنے والی تھیں ، پھر میں نے انہیں گرفت میں لیا اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔

٤٩۔ کہہ دیجئے : اے لوگو! میں تو تمہارے لیے صرف صریح تنبیہ کرنے والا ہوں۔

٥٠۔ پس جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال انجام دیتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔

٥١۔ اور جو لوگ ہماری آیات کے خلاف سعی کرتے ہیں کہ (ہم کو) مغلوب کریں وہ اہل جہنم ہیں۔

٥٢۔ اور (اے رسول) آپ سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسول بھیجا اور نہ نبی مگر جب اس نے (کامیابی کی) تمنا کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی لیکن اللہ شیطان کے خلل کو نابود کرتا ہے ، پھر اللہ اپنی آیات کو محکم کرتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

٥٣۔ تاکہ شیطان کی خلل اندازی کو ان لوگوں کے لیے آزمائش قرار دے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل جامد ہیں اور ظالم لوگ یقیناً بہت گہرے عناد میں مبتلا ہیں۔

٥٤۔ اور اس لیے بھی ہے کہ جنہیں علم دیا گیا ہے وہ جان لیں کہ یہ آپ کے پروردگار کی طرف سے حق ہے ، پس وہ اس پر ایمان لے آئیں اور اللہ کے سامنے ان کے دل نرم ہو جائیں اور اللہ ایمان والوں کو یقیناً راہ راست کی ہدایت کرتا ہے۔

٥٥۔ اور کافر لوگ تو اس کی طرف سے ہمیشہ اسی شک میں مبتلا رہیں گے یہاں تک کہ ان پر یکایک قیامت آ جائے گی یا نامراد دن کا عذاب ان پر آ جائے گا۔

٥٦۔ اس روز بادشاہی صرف اللہ ہی کی ہو گی، وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا، لہٰذا جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک اعمال بجا لائے وہ نعمتوں والی جنتوں میں ہوں گے۔

٥٧۔ اور جو کافر ہوئے اور ہماری آیات کی تکذیب کرتے رہے پس ان کے لیے ذلت آمیز عذاب ہو گا۔

٥٨۔ اور جنہوں نے راہ خدا میں ہجرت اختیار کی پھر وہ مارے گئے یا مر گئے انہیں اللہ یقیناً اچھی روزی سے ضرور نوازے گا اور رزق دینے والوں میں یقیناً اللہ ہی بہترین ہے۔

٥٩۔ وہ ایسی جگہ میں انہیں ضرور داخل فرمائے گا جسے وہ پسند کریں گے اور اللہ یقیناً بڑا دانا، بڑا بردبار ہے۔

٦٠۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر کوئی شخص اتنا ہی بدلہ لے جتنا سخت برتاؤ اس کے ساتھ کیا گیا تھا پھر اس پر زیادتی بھی کی جائے تو اللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا، بتحقیق اللہ بڑا درگزر کرنے والا معاف کرنے والا ہے۔

٦١۔ ایسا اس لیے ہے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بڑا سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

٦٢۔ یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے اور اس کے سوا جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یہ کہ اللہ بڑا برتر ہے۔

٦٣۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا تو (اس سے ) زمین سرسبز ہو جاتی ہے ؟ اللہ یقیناً بڑا مہربان، بڑا باخبر ہے۔

٦٤۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کاہے اور اللہ ہی بے نیاز اور لائق ستائش ہے۔

٦٥۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز کو مسخر کر دیا ہے اور وہ کشتی بھی جو سمندر میں بحکم خدا چلتی ہے اور اسی نے آسمان کو تھام رکھا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر وہ زمین پر گرنے نہ پائے ، یقیناً اللہ لوگوں پر بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔

٦٦۔ اور اسی نے تمہیں حیات عطا کی پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے پھر وہی تمہیں زندہ کرے گا، انسان تو یقیناً بڑا ہی ناشکرا ہے۔

٦٧۔ ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک دستور مقرر کیا ہے جس پر وہ چلتی ہے لہٰذا وہ اس معاملے میں آپ سے جھگڑا نہ کریں اور آپ اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں ، آپ یقیناً راہ راست پر ہیں۔

٦٨۔ اور اگر یہ لوگ آپ سے جھگڑا کریں تو کہہ دیجئے : جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

٦٩۔ اللہ بروز قیامت تمہارے درمیان ان چیزوں کا فیصلہ کرے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔

٧٠۔ کیا آپ کو علم نہیں کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اللہ ان سب کو جانتا ہے ؟ یہ سب یقیناً ایک کتاب میں درج ہیں ، یہ اللہ کے لیے یقیناً نہایت آسان ہے۔

٧١۔ اور یہ لوگ اللہ کے علاوہ ایسی چیزوں کی بندگی کرتے ہیں جن کی نہ اس نے کوئی دلیل نازل کی ہے نہ اس کے بارے میں یہ کوئی علم رکھتے ہیں اور ظالموں کا تو کوئی مددگار نہیں ہے۔

٧٢۔ اور جب انہیں ہماری صریح آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو آپ کافروں کے چہروں پر انکار کے آثار دیکھتے ہیں اور جو لوگ ہماری آیات پڑ ھ کر انہیں سناتے ہیں یہ ان پر حملہ کرنے کے قریب ہوتے ہیں ، کہہ دیجئے : کیا میں تمہیں اس سے بھی بری چیز کی خبر دوں ؟ وہ آگ ہے جس کا اللہ نے کفار سے وعدہ کر رکھا ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ ٧٣۔ اے لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے ،اسے سنو: اللہ کے سوا جن معبودوں کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بنانے پر بھی ہرگز قادر نہیں ہیں خواہ اس کام کے لیے وہ سب جمع ہو جائیں ، اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اس سے اسے چھڑا بھی نہیں سکتے ، طالب اور مطلوب دونوں ناتواں ہیں۔

٧٤۔ لوگوں نے اللہ کی ویسی قدر نہیں کی جیسی قدر کرنی چاہیے تھی، اللہ یقیناً بڑا طاقت رکھنے والا، غالب آنے والا ہے۔

٧٥۔ اللہ فرشتوں اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرتا ہے اللہ یقیناً خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔

٧٦۔ جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اسے سب کا علم ہے اور سب معاملات کی برگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔

٧٧۔ اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو نیز نیک عمل انجام دو، امید ہے کہ (اس طرح) تم فلاح پا جاؤ۔

٧٨۔ اور راہ خدا میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے ، اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین کے معاملے میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا، یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس (قرآن) سے پہلے اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسول تم پر گواہ رہے اور تم لوگوں پر گواہ رہو، لہٰذا نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ ے ساتھ متمسک رہو، وہی تمہارا مولا ہے سو وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے۔

 

 

پارہ : قد افلح 18

 سورہ مومنون۔ مکی۔ آیات ۱۱۸

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ وہ ایمان والے یقیناً فلاح پا گئے

٢۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں ،

٣۔ اور جو لغویات سے منہ موڑنے والے ہیں ،

٤۔ اور جو زکوٰۃ کا عمل انجام دینے والے ہیں ،

٥۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ،

٦۔ سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت ہوتی ہیں کیونکہ ان پر کوئی ملامت نہیں ہے۔

٧۔لہٰذا جو ان کے علاوہ اوروں کے طالب ہو جائیں تو وہ زیادتی کرنے والے ہوں گے۔

٨۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور معاہدوں کا پاس رکھنے والے ہیں ،

٩۔ اور جو اپنی نمازوں کی محافظت کرنے والے ہیں ،

١٠۔ یہی لوگ وارث ہوں گے ،

١١۔ جو (جنت) فردوس کی میراث پائیں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

 

١٢۔ اور بتحقیق ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے بنایا۔

١٣۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ بنا دیا۔

١٤۔ پھر ہم نے نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی کی شکل دی پھر بوٹی سے ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے

١٥۔پھرا س کے بعد تم بلاشبہ مر جاتے ہو۔

١٦۔ پھر تمہیں قیامت کے دن یقیناً اٹھایا جائے گا۔

١٧۔ اور بتحقیق ہم نے تمہارے اوپر سات راستے بنائے ہیں اور ہم تخلیقی کارناموں سے غافل نہیں ہیں۔

١٨۔ اور ہم نے آسمان سے ایک خاص مقدار میں پانی برسایا پھر اسے زمین میں ہم نے ٹھہرایا اور ہم یقیناً اسے ناپید کرنے پر بھی قادر ہیں۔

١٩۔پھر ہم نے اس سے تمہارے لیے کھجوروں اور انگور کے باغات پیدا کیے جن میں تمہارے لیے بہت سے پھل ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو۔

٢٠۔ اور اس درخت کو بھی پیدا کیا جو طور سینا سے نکلتا ہے اور کھانے والوں کے لیے تیل اور سالن لے کر اگتا ہے۔

٢١۔ اور تمہارے لیے جانوروں میں یقیناً ایک درس عبرت ہے ، ان کے شکم سے ہم تمہیں (دودھ)پلاتے ہیں اور ان میں تمہارے لیے (دیگر) بہت سے فوائد ہیں اور ان میں سے کچھ کو تم کھاتے بھی ہو۔

٢٢۔ اور ان جانوروں پر اور کشتیوں پر تم سوار کیے جاتے ہو۔

٢٣۔ اور بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، پس نوح نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے کیا تم بچتے نہیں ہو؟

٢٤۔ تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: یہ تو بس تم جیسا بشر ہے ، جو تم پر اپنی بڑائی چاہتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو فرشتے نازل کرتا، ہم نے اپنے پہلے باپ دادا سے یہ بات کبھی نہیں سنی۔

٢٥۔ بس یہ ایک ایسا شخص ہے جس پر جنون کا عارضہ ہوا ہے لہٰذا کچھ دیر انتظار کرو۔

٢٦۔ نوح نے کہا: اے میرے پروردگار! انہوں نے جو میری تکذیب کی ہے ان پر تو میری مدد فرما۔

٢٧۔ پس ہم نے نوح کی طرف وحی کی (اور کہا) ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ، پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابلنا شروع کر دے تو ہر قسم کے (جانوروں کے ) جوڑوں میں سے دو دو سوار کرو اور اپنے گھر والوں کو بھی، ان میں سے سوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں پہلے فیصلہ صادر ہو چکا ہے اور (اے نوح) ان ظالموں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرنا کہ یہ اب یقیناً غرق ہونے والے ہیں۔

٢٨۔اور جب آپ اور آپ کے ساتھی کشتی پر سوار ہو جائیں تو کہیں : ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دلا دی۔

٢٩۔ اور کہیں : پروردگارا! ہمیں بابرکت جگہ اتارنا اور تو بہترین جگہ دینے والا ہے۔

٣٠۔ اس (واقعے ) میں یقیناً نشانیاں ہیں اور ہم آزمائش کر گزریں گے۔

٣١۔ پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور قوم کو پیدا کیا۔

٣٢۔ پھر خود انہی میں سے ایک رسول ان میں مبعوث کیا، ( جس کی دعوت یہ تھی کہ لوگو) اللہ کی بندگی کرو تمہارے لیے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے کیا تم بچنا نہیں چاہتے ؟

٣٣۔ اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے جو آخرت کی ملاقات کی تکذیب کرتے تھے اور جنہیں ہم نے دنیاوی زندگی میں آسائش فراہم کر رکھی تھی کہا : یہ تو بس تم جیسا بشر ہے ، وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔

٣٤۔ اور اگر تم نے اپنے جیسے کسی بشر کی اطاعت کی تو بے شک تم خسارے میں رہو گے۔

٣٥۔ کیا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور تم خاک اور ہڈی ہو جاؤ گے تب تم نکالے جاؤ گے ؟

٣٦۔ جس بات کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے بعید ہی بعید ہے۔

٣٧۔ بس یہی دنیاوی زندگی ہے جس میں ہمیں مرنا اور جینا ہے اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔

٣٨۔ یہ تو بس ایسا آدمی ہے جو اللہ پر جھوٹی نسبت دیتا ہے اور ہم اس پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

٣٩۔ عرض کیا: پروردگارا! ان لوگوں کی تکذیب پر میری نصرت فرما۔

٤٠۔ اللہ نے فرمایا: تھوڑے وقت میں یہ لوگ پشیمان ہو جائیں گے۔

٤١۔ چنانچہ (وعدہ) حق کے مطابق زوردار آواز نے انہیں گرفت میں لے لیا تو ہم نے انہیں خس و خاشاک بنا کر رکھ دیا، پس (رحمت حق سے ) دور ہو یہ ظالم قوم۔

٤٢۔ پھر ان کے بعد ہم نے اور قومیں پیدا کیں۔

٤٣۔کوئی امت اپنے مقررہ وقت سے نہ آگے جا سکتی ہے اور نہ پیچھے رہ سکتی ہے۔

٤٤۔ پھر ہم نے یکے بعد دیگرے برابر اپنے رسول بھیجے ، جب بھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آتا تو وہ اس کی تکذیب کرتی تو ہم بھی ایک کے بعد دوسرے کو ہلاک کرتے رہے اور ہم نے انہیں افسانے بنا دیا، (رحمت حق سے ) دور ہوں جو ایمان نہیں لاتے۔

٤٥۔ پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا۔

٤٦۔ فرعون اور ان کے درباریوں کی طرف مگر انہوں نے تکبر کیا اور وہ بڑے متکبر

لوگ تھے۔

٤٧۔ اور کہنے لگے : کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں جب کہ ان کی قوم ہماری تابعدار ہے ؟

٤٨۔ پھر انہوں نے دونوں کی تکذیب کی، (نتیجے کے طور پر) وہ ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو گئے۔

٤٩۔ اور ہم نے موسیٰ کو اس امید پر کتاب دی کہ وہ (لوگ) اس سے رہنمائی حاصل کر لیں گے۔

٥٠۔ اور ابن مریم اور ان کی والدہ کو ہم نے ایک نشانی بنایا اور انہیں ہم نے ایک بلند مقام پر جگہ دی جہاں اطمینان تھا اور چشمے پھوٹتے تھے۔

٥١۔ اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور عمل صالح بجا لاؤ، جو عمل تم کرتے ہو میں اسے خوب جاننے والا ہوں۔

٥٢۔ اور تمہاری یہ امت یقیناً امت واحدہ ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں لہٰذا مجھ ہی سے ڈرو۔

٥٣۔ مگر لوگوں نے اپنے (دینی) معاملات میں تفرقہ ڈال کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اب ہر فرقہ اپنے پاس موجود (نظریات) پر خوش ہے۔

٥٤۔ انہیں ایک مدت تک اپنی غفلت میں پڑا رہنے دیجیے۔

٥٥۔ کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مال اور اولاد سے جو انہیں مالامال کرتے ہیں ،

٥٦۔ تو ہم انہیں تیزی سے بھلائی پہنچا رہے ہیں ؟ نہیں بلکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔

٥٧۔ (حقیقت یہ ہے کہ) جو لوگ اپنے رب کے خوف سے ہراساں ہیں ،

٥٨۔ اور جو اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لاتے ہیں ،

٥٩۔ اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے ،

٦٠۔ اور جو کچھ وہ دیتے ہیں اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل اس بات سے لرز رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

٦١۔ یہی لوگ ہیں جو نیکی کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں اور یہی لوگ نیکی میں سبقت لے جانے والے ہیں۔

٦٢۔ اور ہم کسی شخص پر اس کی قوت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے اور ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو حقیقت بیان کرتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔

٦٣۔ مگر ان (کافروں ) کے دل اس بات سے غافل ہیں اور اس کے علاوہ ان کے دیگر اعمال بھی ہیں جن کے یہ لوگ مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔

٦٤۔ حتیٰ کہ جب ہم ان کے عیش پرستوں کو عذاب کے ذریعے گرفت میں لیں گے تو وہ اس وقت چلا اٹھیں گے۔

٦٥۔ آج مت چلاؤ! تمہیں ہم سے یقیناً کوئی مدد نہیں ملے گی۔

٦٦۔ میری آیات تم پر تلاوت کی جاتی تھیں تو اس وقت تم الٹے پاؤں پھر جاتے تھے۔

٦٧۔ تکبر کرتے ہوئے ، افسانہ گوئی کرتے ہوئے ، بیہودہ گوئی کرتے تھے۔

٦٨۔ کیا انہوں نے اس کلام پر غور نہیں کیا یا ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی بات آئی ہے جو ان کے پہلے باپ دادا کے پاس نہیں آئی تھی؟

٦٩۔ یا انہوں نے اپنے رسول کو پہچانا ہی نہیں جس کی وجہ سے وہ اس کے منکر ہو گئے ہیں ؟

٧٠۔ یا وہ یہ کہتے ہیں : وہ مجنون ہے ؟ نہیں بلکہ وہ ان لوگوں کے پاس حق لے کر آئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے ہیں۔

٧١۔ اور اگر حق ان لوگوں کو خواہشات کے مطابق چلتا تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب تباہ ہو جاتے ، بلکہ ہم تو ان کے پاس خود ان کی اپنی نصیحت لائے ہیں اور وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑتے ہیں۔

٧٢۔ یا (کیا) آپ ان سے کوئی خراج مانگتے ہیں ؟ (ہرگز نہیں کیونکہ) آپ کے رب کا دیا ہوا سب سے بہتر ہے اور وہی بہترین رازق ہے۔

٧٣۔ اور آپ تو انہیں یقیناً صراط مستقیم کی دعوت دیتے ہیں۔

٧٤۔ اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یقیناً وہ راستے سے منحرف ہو جاتے ہیں۔

٧٥۔ اور اگر ہم ان پر رحم کر دیں اور انہیں جو تکلیف لاحق ہے اسے دور کر بھی دیں پھر بھی یہ لوگ اپنی سرکشی میں برابر بہکتے جائیں گے۔

٧٦۔ اور بتحقیق ہم نے تو انہیں اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا تھا لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے رب سے نہ عاجزی کا اظہار کیا نہ زاری کی۔

٧٧۔ یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر شدید عذاب کا ایک دروازہ کھول دیا تو پھر ان کی امیدیں ٹوٹ گئیں۔

٧٨۔ اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے لیکن تم پھر بھی کم شکر گزار ہو۔

٧٩۔ اور اللہ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پیدا کیا اور اسی کی طرف تم سب کو جمع کیا جانا ہے۔

٨٠۔ اور وہی ہے جو زندگی دیتا ہے اور موت بھی اور اسی کے قبضہ قدرت میں شب و روز کا آنا جانا ہے تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟

٨١۔ لیکن یہ لوگ وہی بات کر رہے ہیں جو ان سے پہلے والے کرتے رہے۔

٨٢۔ وہ کہتے تھے : کیا جب ہم مر جائیں گے اور ہم مٹی ہو جائیں گے اور ہڈی (رہ جائے گی) تو کیا ہم اٹھائے جائیں گے ؟

٨٣۔ یہی وعدہ یقیناً ہم سے اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا سے بھی ہوتا رہا ہے یہ تو صرف قصہ ہائے پارینہ ہیں۔

٨٤۔ کہہ دیجئے : یہ زمین اور جو اس پر (آباد) ہیں کس کی ہے اور اگر تم جانتے ہو؟ (تو بتاؤ)۔

٨٥۔ وہ کہیں گے : اللہ کی ہے ، کہہ دیجئے : تو پھر تم سوچتے کیوں نہیں ہو؟

٨٦۔ کہہ دیجئے : سات آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے ؟

٨٧۔ وہ کہیں گے : اللہ ہے ، کہہ دیجئے : تو پھر تم بچتے کیوں نہیں ہو؟

٨٨۔ کہہ دیجئے : وہ کون ہے جس کے قبضے میں ہر چیز کی بادشاہی ہے ؟ اور وہ کون ہے جو پناہ دیتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا، اگر تم جانتے ہو؟ (تو بتاؤ)۔

٨٩۔ وہ کہیں گے : اللہ، کہہ دیجئے : تو پھر تمہاری یہ خبطی کہاں سے ہے ؟

٩٠۔بلکہ ہم حق کو ان کے سامنے لے آئے ہیں اور یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں۔

٩١۔ اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ، اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی مخلوقات کو لے کر جدا ہو جاتا اور ایک دوسرے پر چڑھائی کر دیتا، اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔

٩٢۔ وہ غیب و شہود کا علم رکھتا ہے پس وہ منزہ ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

٩٣۔ (اے رسول) کہہ دیجئے : میرے پروردگار! اگر تو وہ عذاب مجھے دکھا دے جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے ،

٩٤۔ تو میرے پروردگار! مجھے اس ظالم قوم کے ساتھ شامل نہ کرنا۔

٩٥۔ اور جس (عذاب) کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے ہم اسے آپ کو دکھانے کی یقیناً طاقت رکھتے ہیں۔

٩٦۔ آپ برائی کو احسن برتاؤ کے ذریعے دور کریں ، ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں۔

٩٧۔ اور کہہ دیجئے : اے میرے پروردگار! میں شیطانی وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

٩٨۔ اور اے پروردگار! میں ان کے میرے سامنے آنے سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں۔

٩٩۔ (یہ غفلت میں پڑے ہیں ) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ لے گی تو وہ کہے گا: اے پروردگار! مجھے واپس دنیا میں بھیج دے ،

١٠٠۔ جس دنیا کو چھوڑ کر آیا ہوں شاید اس میں عمل صالح بجا لاؤں ، ہرگز نہیں ، یہ تو وہ جملہ ہے جسے وہ کہہ دے گا اور ان کے پیچھے اٹھائے جانے کے دن تک ایک برزخ حائل ہے۔

١٠١۔ پھر جب صور پھونکا جائے گا تو ان میں اس دن نہ کوئی رشتہ داری رہے گی اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔

١٠٢۔ پس جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی نجات پانے والے ہیں۔

١٠٣۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا ہو اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

١٠٤۔ جہنم کی آگ ان کے چہروں کو جھلسا دے گی اور اس میں ان کی شکلیں بگڑی ہوئی ہوں گی۔

١٠٥۔ کیا تم وہی نہیں ہو کہ جب میری آیات تمہیں سنائی جاتیں تو تم انہیں جھٹلاتے تھے ؟

١٠٦۔ وہ کہیں گے : ہمارے پروردگار! ہماری بدبختی ہم پر غالب آ گئی تھی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔

١٠٧۔ اے ہمارے پروردگار!ہمیں اس جگہ سے نکال دے ، اگر ہم نے پھر وہی (جرائم) کیے تو ہم لوگ ظالم ہوں گے۔

١٠٨۔ اللہ فرمائے گا: خوار ہو کر اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔

١٠٩۔ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ یقیناً یہ دعا کرتے تھے : اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لائے ہیں پس ہمیں معاف فرما اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔

١١٠۔ تو تم نے ان کا مذاق اڑایا یہاں تک کہ انہوں نے تمہیں ہماری یاد سے غافل کر دیا اور تم ان پر ہنستے تھے۔

١١١۔ آج میں نے ان کے صبر کا انہیں یہ بدلہ دیا کہ وہی لوگ کامیاب ہیں۔

١١٢۔ اللہ پوچھے گا: تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟

١١٣۔ وہ کہیں گے : ایک روز یا روز کا ایک حصہ (ہم وہاں ) ٹھہرے ہیں ، پس شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے۔

١١٤۔ فرمایا: تم وہاں تھوڑا ہی (عرصہ) ٹھہرے ہو، کاش کہ تم (اس وقت) جانتے۔

١١٥۔ کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤ گے ؟

١١٦۔ پس بلند و برتر ہے اللہ جو بادشاہ حقیقی ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ عرش کریم کا مالک ہے۔

١١٧۔ اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں ہے تو اس کا حساب اس کے پروردگار کے پاس ہے اور کافر یقیناً فلاح نہیں پا سکتے۔

١١٨۔ اور کہہ دیجئے : اے میرے پروردگار! معاف فرما اور رحم فرما اور تو سب سے بہترین رحم کرنے والا ہے۔

 

سورۃ النور۔ مدنی۔ آیات ٦٤

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ یہ ایک سورہ ہے جسے ہم نے نازل کیا اور اسے فرض کیا اور اس میں صریح آیات کو نازل کیا تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

٢۔ زناکار عورت اور زناکار مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور دین خدا کے معاملے میں تمہیں ان پر ترس نہیں آنا چاہیے اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور ان کی سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت موجود رہے۔

٣۔ زانی صرف زانیہ یا مشرکہ سے نکاح کرے گا اور زانیہ صرف زانی یا مشرک سے نکاح کرے گی اور مومنوں پر یہ حرام کیا گیا ہے۔

٤۔ اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں پھر اس پر چار گواہ نہ لائیں پس انہیں اسّی (٨٠) کوڑے مارو اور ا ن کی گواہی ہرگز قبول نہ کرو اور یہی فاسق لوگ ہیں۔

٥۔ سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں ، اس صورت میں اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٦۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا کوئی گواہ نہ ہو تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ سچا ہے۔

٧۔ اور پانچویں بار کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

٨۔ اور عورت سے سزا اس صورت میں ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔

٩۔ اور پانچویں مرتبہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر وہ سچا ہے۔

١٠۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو تمہیں اس سے خلاصی نہ ملتی) اور یہ کہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، حکمت والا ہے۔

١١۔ جو لوگ بہتان باندھ لائے وہ یقیناً تمہارا ہی ایک دھڑا ہے ، اسے اپنے لیے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لیے اچھا ہے ، ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کے لیے اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے بڑا حصہ لیا ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔

١٢۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہ کیا اور کیوں نہیں کہا کہ یہ صریح بہتان ہے ؟

١٣۔ وہ لوگ اس بات پر چار گواہ کیوں نہ لائے ؟ اب چونکہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں لہٰذا وہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔

١٤۔ اور اگر دنیا اور آخرت میں تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جن باتوں کا تم نے چرچا کیا تھا ان کے سبب تم پر بڑا عذاب آ جاتا۔

١٥۔ جب تم اس جھوٹی خبر کو اپنی زبانوں پر لیتے جا رہے تھے اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہ رہے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہ تھا اور تم اسے ایک معمولی بات خیال کر رہے تھے جب کہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی بات ہے۔

١٦۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو کیوں نہ کہا: ہمیں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی؟ خدایا تو پاک ہے ، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔

١٧۔ اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو آیندہ کبھی بھی ایسے کام کا اعادہ نہ کرنا۔

١٨۔ اور اللہ آیات تمہارے لیے بیان کرتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔

١٩۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کے درمیان بے حیائی پھیلے ، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے ، اللہ یقیناً جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے۔

20۔اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو تم پر فوری عذاب آ جاتا ) اور یہ کہ اللہ بڑا شفیق ، مہربان ہے۔

21۔ اے ایمان والو ! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلنا اور جو شخص شیطان کے نقش قدم پر چلے گا تو وہ بے حیائی اور برائی کا حکم دے گا اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے ایک شخص بھی کبھی پاک نہ ہوتا مگر اللہ جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے اور اللہ خوب سننے ،جاننے والا ہے۔

22۔ تم میں سے جو لوگ احسان کرنے والے اور ( مال و دولت میں ) وسعت والے ہیں وہ قریبی رشتہ داروں ، مسکینوں اور فی سبیل اللہ ہجرت کرنے والوں کو کچھ دینے سے دریغ نہ کریں اور انہیں عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے۔ کیا تم خود یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے اور اللہ غفور ، رحیم ہے۔

23۔جو لوگ بے خبر پاک دامن مومنہ عروتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔

24۔ اس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان سب اعمال کی گواہی دیں گے جو یہ کرتے رہے ہیں۔

٢٥۔ اس دن اللہ ان کا حقیقی بدلہ پورا کرے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق ہے (اور حق کا) ظاہر کرنے والا ہے۔

٢٦۔ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں ، یہ ان باتوں سے پاک ہیں جو لوگ بناتے ہیں ، ان کے لیے مغفرت اور با عزت روزی ہے۔

٢٧۔ اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہونا جب تک اجازت نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ کر لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے شاید تم نصیحت حاصل کرو۔

٢٨۔ اور اگر تم اس گھر میں کسی کو موجود نہ پاؤ تو بغیر اجازت کے اس میں داخل نہ ہونا اور اگر تم سے لوٹ جانے کے لیے کہا جائے تو لوٹ جاؤ، اسی میں تمہاری پاکیزگی ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب آگاہی رکھتا ہے۔

٢٩۔ البتہ ایسے گھروں میں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں جن میں کوئی رہائش پذیر نہ ہو اور ان میں تمہارا کوئی سامان ہو اور اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔

٣٠۔ آپ مومن مردوں سے کہہ دیجئے : وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کو بچا کر رکھیں ، یہ ان کے لیے پاکیزگی کا باعث ہے ، اللہ کو ان کے اعمال کا یقیناً خوب علم ہے۔

٣١۔ اور مومنہ عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اور اپنی زیبائش (کی جگہوں ) کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں ، آبائ، شوہر کے آبائ، اپنے بیٹوں ، شوہروں کے بیٹوں ، اپنے بھائیوں ، بھائیوں کے بیٹوں ، بہنوں کے بیٹوں ، اپنی (ہم صنف) عورتوں ، اپنی کنیزوں ، ایسے خادموں جو عورت کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور ان بچوں کے جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے واقف نہ ہوں ، اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ (چلتے ہوئے ) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائے اور اے مومنو! سب مل کر اللہ کے حضور تو بہ کرو، امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے۔

٣٢۔ اور تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموں اور کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو، اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت والا، علم والا ہے۔

٣٣۔ جو لوگ نکاح کا امکان نہ پائیں انہیں عفت اختیار کرنی چاہیے یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے انہیں خوشحال کر دے اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کی خواہش رکھتے ہوں ان سے مکاتبت کر لو۔ اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان میں کوئی خیر ہے اور انہیں اس مال میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے دے دو اور تمہاری جوان لونڈیاں اگر پاکدامن رہنا چاہتی ہوں تو انہیں دنیاوی زندگی کے متاع کے لیے بدکاری پر مجبور نہ کرو اور اگر کوئی انہیں مجبور کر دے تو ان کی اس مجبوری کے بعد یقیناً اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

٣٤۔ اور بتحقیق ہم نے تمہاری طرف واضح کرنے والی آیات نازل کی ہیں اور تم سے پہلے گزرنے والوں کی مثالیں بھی اور تقویٰ رکھنے والوں کے لیے موعظہ بھی (نازل کیا ہے )۔

٣٥۔ اللہ آسمانوں اور زمین کانور ہے ، اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے ، اس میں ایک چراغ رکھا ہوا ہے ، چراغ شیشے کے فانوس میں ہے ، فانوس گویا موتی کا چمکتا ہوا تارا ہے جو زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی، اس کا تیل روشنی دیتا ہے خواہ آگ اسے نہ چھوئے ، یہ نور بالائے نور ہے ، اللہ جسے چاہے اپنے نور کی راہ دکھاتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بھی بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

٣٦۔ (ہدایت پانے والے ) ایسے گھروں میں ہیں جن کی تعظیم کا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے کا بھی، وہ ان گھروں میں صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔

٣٧۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت، ذکر خدا اور قیام نماز اور ادائیگی زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتیں وہ اس دن سے خوف کھاتے ہیں جس میں قلب و نظر منقلب ہو جاتے ہیں۔

٣٨۔ تاکہ اللہ انہیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دے اور اپنے فضل سے انہیں مزید بھی عطا کرے اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دے دیتا ہے۔

٣٩۔ اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے ایک چٹیل میدان میں سراب،جسے پیاسا پانی خیال کرتا ہے مگر جب وہاں پہنچتا ہے تو اسے کچھ نہیں پاتا بلکہ اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے تو اللہ اس کا حساب پورا کر دیتا ہے اور اللہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔

٤٠۔ یا ان کی مثال اس تاریکی کی طرح ہے جو گہرے سمندر میں ہو جس پر ایک موج چھائی ہوئی ہو اس پر ایک اور موج ہو اور اس کے اوپر بادل، تہ بہ تہ اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ، جب انسان اپنا ہاتھ نکالے تو وہ اسے نظر نہ آئے اور جسے اللہ نور نہ دے تو اس کے لیے کوئی نور نہیں۔

٤١۔کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جو مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اور پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی؟ ان میں سے ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے اور اللہ کو ان کے اعمال کا بخوبی علم ہے۔

٤٢۔ اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

٤٣۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ ہی بادلوں کو چلاتا ہے پھر اسے باہم جوڑ دیتا ہے پھر اسے تہ بہ تہ کر دیتا ہے ؟ پھر آپ بارش کے قطروں کو دیکھتے ہیں کہ بادل کے درمیان سے نکل رہے ہیں اور آسمان سے پہاڑوں (جیسے بادلوں ) سے اولے نازل کرتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اسے ہٹا دیتا ہے۔

٤٤۔ اللہ شب و روز کو بدلتا رہتا ہے جس میں صاحبان بصیرت کے لیے یقیناً عبرت ہے۔

45۔ اور اللہ نے زمین پر چلنے والے ہر جاندار کو پانی سے خلق فرمایا پس ان میں سے کوئی اپنے پیٹ کے بل چلتا ہے اور کوئی چار ٹانگوں پر ، اللہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

46۔ بتحقیق ہم نے حقیقت بیان کرنے والی آیات نازل کیں اور اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی رہنمائی فرماتا ہے۔

47۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں : ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت بھی کی پھر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ پھر جاتا ہے ، یہ لوگ مومن ہی نہیں ہیں۔

48۔ اور جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے تو ان میں سے ایک فریق منہ پھیر لیتا ہے۔

49۔ اور اگر حق ان کے موافق ہو تو فرمانبردار بن کر رسول کی طرف آ جاتے ہیں۔

50۔ کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا انہیں کوئی شبہ یا ڈر ہے کہ کہیں اللہ اور اس کا رسول ان کے ساتھ ظلم نہ کریں ؟ ( نہیں ) بلکہ یہ لوگ خود ظالم ہیں۔

51۔ جب مومنوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو مومنوں کا قول تو بس یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں : ہم نے سن لیا اور اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

٥٢۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا اور اس (کی نافرمانی) سے بچتا ہے تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہوں گے۔

٥٣۔ اور یہ لوگ اللہ کی کڑی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے ، ان سے کہہ دیجئے : تم قسمیں نہ کھاؤ، اچھی اطاعت (قسم سے بہتر) ہے ، بتحقیق اللہ کو تمہارے اعمال کا۔خوب علم ہے۔

٥٤۔ کہہ دیجئے : اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم نے منہ موڑ لیا تو سمجھ لو کہ جو بار رسول پر رکھا گیا ہے اس کے وہ ذمے دار ہیں اور جو بار تم پر رکھا گیا ہے اس کے تم ذمے دار ہو اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور رسول کی ذمے داری تو صرف یہ ہے کہ واضح انداز میں تبلیغ کریں۔

٥٥۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔

٥٦۔ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

٥٧۔ آپ یہ خیال نہ کریں کہ کافر لوگ زمین میں ( ہمیں ) عاجز بنا دیں گے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا جو بدترین ٹھکانا ہے۔

٥٨۔ اے ایمان والو! ضروری ہے کہ تمہارے مملوک اور وہ بچے جو ابھی بلوغ کی حد کو نہیں پہنچے ہیں تین اوقات میں تم سے اجازت لے کر آیا کریں ، فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں ، ان کے بعد ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے میں نہ تم پر کوئی حرج ہے اور نہ ان پر، اللہ اس طرح تمہارے لیے نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

٥٩۔۔اور جب تمہارے بچے بلوغ کو پہنچ جائیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اجازت لیا کریں جس طرح پہلے (ان کے بڑے ) لوگ اجازت لیا کرتے تھے ، اس طرح اللہ اپنی آیات تمہارے لیے بیان کرتا ہے

اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

٦٠۔ اور جو عورتیں (ضعیف العمری کی وجہ سے ) خانہ نشین ہو گئی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں ان کے لیے اپنے (حجاب کے ) کپڑے اتار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والیاں نہ ہوں تاہم عفت کا پاس رکھنا ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ بڑا سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔

٦١۔ اندھے پر کوئی حرج نہیں ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ مریض پر کوئی حرج ہے اور نہ خود تم پر اس بات میں کوئی حرج ہے کہ تم اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ کے گھروں سے یا اپنی بڑی ماؤں (نانی دادی) کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان کے گھروں سے جن گھروں کی چابیاں تمہارے اختیار میں دے دی گئی ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے ، اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم مل کر کھاؤ یا جدا جدا اور جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو اپنے آپ پر سلام کیا کرو اللہ کی طرف سے بابرکت اور پاکیزہ تحیت کے طور پر، اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے ، شاید تم عقل سے کام لو۔

٦٢۔ مومن تو بس وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب وہ کسی اجتماعی معاملے میں رسول اللہ کے ساتھ ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر نہیں ہلتے ، جو لوگ آپ سے اجازت مانگ رہے ہیں یہ یقیناً وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں لہٰذا جب یہ لوگ اپنے کسی کام کے لیے آپ سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جسے آپ چاہیں اجازت دے دیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں ، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

٦٣۔ تمہارے درمیان رسول کے پکارنے کو اس طرح نہ سمجھو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، تم میں سے جو دوسروں کی آڑ میں کھسک جاتے ہیں اللہ انہیں جانتا ہے ، جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات کا خوف لاحق رہنا چاہیے کہ مبادا وہ کسی فتنے میں مبتلا ہو جائیں یا ان پر کوئی دردناک عذاب آ جائے۔

٦٤۔ متوجہ رہو !آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کاہے اور جس دن انہیں اس کی طرف پلٹا دیا جائے گا تو وہ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں اور اللہ کو ہر چیز کا خوب علم ہے۔

 

 

 

سورہ فرقان۔ مکی۔ آیات ۷۷

 

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ سارے جہاں والوں کے لیے انتباہ کرنے والا ہو۔

٢۔ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور جس کی بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے اور جس نے ہر چیز کو خلق فرمایا پھر ہر ایک کو اپنے اندازے میں مقدر فرمایا۔

٣۔ لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہیں اور وہ اپنے لیے بھی کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور وہ نہ موت کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ حیات کا اور نہ ہی اٹھائے جانے کا۔

٤۔ اور کفار کہتے ہیں : یہ قرآن ایک خود ساختہ چیز ہے جسے اس شخص نے خود گھڑ لیا ہے اور دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے ، (ایسی باتیں کر کے ) یہ لوگ ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔

٥۔ اور کہتے ہیں : (یہ قرآن) پرانے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھ رکھی ہیں اور جو صبح و شام اسے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔

٦۔کہہ دیجئے : اسے تو اس اللہ نے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کا راز جانتا ہے ، بے شک وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔

٧۔ اور وہ کہتے ہیں : یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ؟ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں ہوتا؟ تاکہ اس کے ساتھ تنبیہ کر دیا کرے۔

٨۔ یا اس کے لیے کوئی خزانہ نازل کر دیا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھا لیا کرتا اور ظالم لوگ (اہل ایمان سے ) کہتے ہیں : تم تو ایک سحرزدہ شخص کی پیروی کرتے ہو۔

٩۔ دیکھیے ! یہ لوگ آپ کے بارے میں کیسی باتیں بنا رہے ہیں ، پس یہ ایسے گمراہ ہو گئے ہیں کہ ان کے لیے راہ پانا ممکن نہیں ہے۔

١٠۔ بابرکت ہے وہ ذات کہ اگر وہ چاہے تو آپ کے لیے اس سے بہتر ایسے باغات بنا دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور آپ کے لیے بڑے بڑے محل بنا دے۔

١١۔ بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) انہوں نے قیامت کو جھٹلایا اور جو قیامت کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے جہنم تیار کر رکھی ہے۔

١٢۔ جب وہ (جہنم) دور سے انہیں دیکھے گی تو یہ لوگ غضب سے اس کا بپھرنا اور دھاڑنا سنیں گے۔

١٣۔ اور جب انہیں جکڑ کر جہنم کی کسی تنگ جگہ میں ڈال دیا جائے گا تو وہاں وہ موت کو پکاریں گے۔

١٤۔ (تو ان سے کہا جائے گا) آج ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی اموات کو پکارو۔

١٥۔ کہہ دیجئے : کیا یہ مصیبت بہتر ہے یا دائمی جنت جس کا اہل تقویٰ سے وعدہ کیا گیا ہے ، جو ان کے لیے جزا اور ٹھکانا ہے۔

١٦۔ وہاں ان کے لیے ہر وہ چیز جسے وہ چاہیں گے موجود ہو گی جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، یہ لازمی وعدہ آپ کے پروردگار کے ذمے ہے۔

١٧۔ اور اس دن اللہ، ان لوگوں کو اور اللہ کو چھوڑ کر جن معبودوں کی یہ لوگ پوجا کرتے تھے ان کو (بھی) جمع کرے گا اور پھر فرمائے گا: کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود گمراہ ہوئے تھے ؟

١٨۔ وہ کہیں گے : پاک ہے تیری ذات ہمیں تو حق ہی نہیں پہنچتا کہ ہم تیرے سوا کسی کو اپنا ولی بنائیں لیکن تو نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو نعمتیں عطا فرمائیں یہاں تک کہ یہ لوگ (تیری) یاد کو بھول گئے اور یہ ہلاکت میں پڑنے والے لوگ تھے۔

١٩۔ پس انہوں (تمہارے معبودوں ) نے تمہاری باتوں کو جھٹلایا لہٰذا آج تم نہ تو عذاب کو ٹال سکتے ہو اور نہ ہی کوئی مدد حاصل کر سکتے ہو اور تم میں سے جو بھی ظلم کرے گا ہم اسے بڑا عذاب چکھا دیں گے۔

٢٠۔ اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے تھے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنا دیا کیا تم صبر کرتے ہو؟ اور آپ کا پروردگار تو خوب دیکھنے والا ہے۔

 

پارہ : وَقَالَ الّذِیْنَ ١٩

 

 

٢١۔ اور جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں : ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کیے گئے یا ہم اپنے رب کو کیوں نہیں دیکھ لیتے ؟ یہ لوگ اپنے خیال میں خود کو بہت بڑا سمجھ رہے ہیں اور بڑی حد تک سرکش ہو گئے ہیں۔

٢٢۔ جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان مجرموں کے لیے مسرت کا دن نہ ہو گا اور وہ (فرشتے )کہیں گے تمہارے لیے مسرت) حرام ممنوع ہے۔

٢٣۔ پھر ہم ان کے کیے ہوئے عمل کی طرف توجہ کریں گے اور ان کے کیے ہوئے عمل کو اڑتی ہوئی خاک بنا دیں گے۔

٢٤۔ اہل جنت اس دن بہترین ٹھکانے اور بہترین سکون کی جگہ میں ہوں گے۔

٢٥۔ اور اس دن آسمان ایک بادل کے ذریعے پھٹ جائے گا اور فرشتے لگاتار نازل کیے جائیں گے۔

٢٦۔ اس دن سچی بادشاہی صرف خدائے رحمن کی ہو گی اور کفار کے لیے وہ بہت مشکل دن ہو گا۔

٢٧۔ اور اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا: کاش میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا۔

٢٨۔ ہائے تباہی! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔

٢٩۔ اس نے مجھے نصیحت سے گمراہ کر دیا جب کہ میرے پاس نصیحت آ چکی تھی اور انسان کے لیے شیطان بڑا ہی دغا باز ہے۔

٣٠۔ اور رسول کہیں گے : اے میرے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو واقعی ترک کر دیا تھا۔

٣١۔ اور اس طرح ہم نے ہر نبی کے لیے مجرمین میں سے بعض کو دشمن بنایا ہے اور ہدایت اور مدد دینے کے لیے آپ کا پروردگار کافی ہے۔

٣٢۔ اور کفار کہتے ہیں : اس (شخص) پر قرآن یکبارگی نازل کیوں نہیں ہوا ؟ (بات یہ ہے کہ) اس طرح (آہستہ اس لیے اتارا) تاکہ اس سے ہم آپ کے قلب کو تقویت دیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سنایا ہے۔

٣٣۔ اور یہ لوگ جب بھی آپ کے پاس کوئی مثال لے کر آئیں تو ہم جواب میں آپ کو حق کی بات اور بہترین وضاحت سے نوازتے ہیں۔

٣٤۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے ، ان کا ٹھکانا بہت برا ہے اور وہ راہ حق سے بہت ہی دور ہو گئے ہیں۔

٣٥۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت فرمائی اور ان کے بھائی ہارون کو مددگار بنا کر ان کے ساتھ کر دیا۔

٣٦۔ پھر ہم نے کہا: تم دونوں اس قوم کی طرف جاؤ جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی ہے ، چنانچہ ہم نے انہیں تباہ و برباد کر دیا۔

٣٧۔ اور جب قوم نوح نے رسولوں کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں غرق کر دیا اور انہیں لوگوں کے لیے نشان (عبرت) بنا دیا اور ہم نے ظالموں کے لیے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

٣٨۔ اور یہی (حشر) عاد اور ثمود اور اصحاب الرس کا بھی ہوا ہے اور ان کے درمیان بہت سی امتوں کا بھی۔

٣٩۔ اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے مثالوں سے سمجھایا اور (آخر میں ) سب کو بالکل ہی تباہ کر دیا۔

٤٠۔ اور بتحقیق یہ لوگ اس بستی سے گزر چکے ہیں جس پر بدترین بارش برسائی گئی تھی تو کیا انہوں نے اس کا حال نہ دیکھا ہو گا؟ بلکہ (اس کے باوجود) یہ دو بارہ اٹھائے جانے کی توقع ہی نہیں رکھتے۔

٤١۔ اور جب یہ لوگ آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں (اور کہتے ہیں ) کیا یہی وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ؟

٤٢۔ اگر ہم اپنے معبودوں پر ثابت قدم نہ رہتے تو اس(شخص) نے تو ہمیں ان سے گمراہ ہی کر دیا ہوتا اور جب یہ لوگ عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو اس وقت انہیں پتہ چلے گا کہ (صحیح راستے سے ) گمراہ کون ہے ؟

٤٣۔ کیا آپ نے اس (شخص) کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے ؟ کیا آپ اس شخص کے ضامن بن سکتے ہیں ؟

٤٤۔ یا کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سننے یا سمجھنے کے لیے تیار ہیں ؟ (نہیں ) یہ لوگ تو محض جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔

٤٥۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کا پروردگار سائے کو کس طرح پھیلاتا ہے ؟ اگر وہ چاہتا تو اسے ساکن بنا دیتا، پھر ہم نے سورج کو سائے (کے وجود) پر دلیل بنا دیا۔

٤٦۔ پھر ہم تھوڑا تھوڑا کر کے اسے اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔

٤٧۔ اور وہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کو پردہ اور نیند کو سکون اور دن کو مشقت کے لیے بنایا۔

٤٨۔ اور وہی تو ہے جو ہواؤں کو خوشخبری کے طور پر اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی برسایا ہے۔

٤٩۔ تاکہ ہم اس کے ذریعے مردہ دیس کو زندگی بخشیں اور اس سے اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپاؤں اور انسانوں کو سیراب کریں۔

٥٠۔ اور بتحقیق ہم نے اس (پانی) کو مختلف طریقوں سے ان کے درمیان پھرایا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر اکثر لوگ انکار کے علاوہ کوئی بات قبول نہیں کرتے۔

٥١۔اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک تنبیہ کرنے والا مبعوث کرتے۔

٥٢۔ لہٰذا آپ کفار کی بات ہرگز نہ مانیں اور اس قرآن کے ذریعے ان کے ساتھ بڑے پیمانے پر جہاد کریں۔

٥٣۔ اور اسی نے دو دریاؤں کو مخلوط کیا ہے ، ایک شیریں مزیدار اور دوسرا کھارا کڑوا ہے اور اس نے دونوں کے درمیان ایک حد فاصل اور مضبوط رکاوٹ بنا دی ہے۔

٥٤۔ اور وہی ہے جس نے پانی سے بشر کو پیدا کیا پھر اس کو نسب اور سسرال بنایا اور آپ کا پروردگار بڑی طاقت والا ہے۔

٥٥۔ اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی بندگی کرتے ہیں جو نہ تو انہیں نفع پہنچا سکتی ہیں اور نہ ضرر اور کافر اپنے رب کے مقابلے میں (دوسرے کافروں کی) پشت پناہی کرتا ہے۔

٥٦۔ اور (اے رسول) ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔

٥٧۔ کہہ دیجئے : اس کام پر میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر یہ (چاہتا ہوں ) کہ جو شخص چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔

٥٨۔ اور (اے رسول) اس اللہ پر توکل کیجیے جو زندہ ہے اور اس کے لیے کوئی موت نہیں ہے اور اس کی ثناء کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اپنے بندوں کے گناہوں سے مطلع ہونے کے لیے بس وہ خود ہی کافی ہے۔

٥٩۔ جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے (سب کو) چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر اقتدار قائم کیا، وہ نہایت رحم کرنے والا ہے لہٰذا اس کے بارے میں کسی باخبر سے دریافت کرو۔

٦٠۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں : رحمن کیا ہوتا ہے ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے لیے تو کہہ دے ؟ پھر ان کی نفرت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

٦١۔ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں ستارے بنائے اور اس میں ایک چراغ اور روشن چاند بنایا۔

٦٢۔ اور وہی ہے جس نے ایک دوسرے کی جگہ لینے والے شب و روز بنائے ، اس شخص کے لیے جو نصیحت لینا اور شکر ادا کرنا چاہتا ہے۔

٦٣۔ اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر (فروتنی سے ) دبے پاؤں چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے گفتگو کریں تو کہتے ہیں : سلام۔

٦٤۔اور جو اپنے پروردگار کے حضور سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں۔

٦٥۔ اور جو یوں التجا کرتے ہیں : ہمارے رب! ہمیں عذاب جہنم سے بچا، بے شک اس کا عذاب تو بڑی تباہی ہے۔

٦٦۔ بے شک جہنم تو بدترین ٹھکانا اور مقام ہے۔

٦٧۔ اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان اعتدال رکھتے ہیں۔

٦٨۔ اور یہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنا کر نہیں پکارتے اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر جائز طریقہ سے اور زنا کا ارتکاب (بھی) نہیں کرتے اور جو ایسا کام کرے گا وہ اپنے گناہ میں مبتلا ہو گا۔

٦٩۔ قیامت کے دن اس کا عذاب دوگنا ہو جائے گا اور اسے اس عذاب میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ رہنا ہو گا۔

٧٠۔ مگر جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور نیک عمل انجام دیا تو اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے اور اللہ تو بڑا غفور و رحیم ہے۔

٧١۔ اور جو توبہ کرتا ہے اور نیک عمل انجام دیتا ہے تو وہ اللہ کی طرف حقیقی طور پر رجوع کرتا ہے۔

٧٢۔ اور (عباد الرحمن وہ ہیں ) جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ باتوں سے ان کا گزر ہوتا ہے تو شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔

٧٣۔ اور وہ لوگ جنہیں ان کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جائے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں گرتے۔

٧٤۔ اور جو دعا کرتے ہیں : اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔

٧٥۔ ایسے لوگوں کو ان کے صبر کے صلے میں اونچے محل ملیں گے اور وہاں ان کا استقبال تحیت اور سلام سے ہو گا۔

٧٦۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، بہت ہی عمدہ ٹھکانا اور مقام ہے۔

٧٧۔ کہہ دیجئے : اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی نہ کرتا، اب تم نے تکذیب کی ہے اس لیے (سزا) لازمی ہو گی۔

٭٭٭

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید