FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

                   معید رشیدی

 

[عالم تمام حلقۂ  دام خیال ہے…غالبؔ]

کہا جاتا ہے کہ تخلیقی متن کی قرأت ایک قسم کا مجاہدہ ہے۔ اگر یہ درست ہے تو کیوں ؟ اس مسئلے کی تفہیم کے لیے تخلیقی متن کے تشکیلی عمل پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ اس عمل میں کون کون سے عناصر کارفرما ہیں اور ان عناصر میں حاوی عنصر کون سا ہے، جس کے بغیر ادبی تخلیق ممکن ہی نہیں ۔ دنیا کے تمام ادبیات میں تخلیقی عمل سے متعلق ایک کلیہ ہے کہ وجود میں آنے والے متن کی بنیاد تخیل پر ہو گی۔ ہماری کلاسکی شعریات بھی کہتی ہے کہ کلامِ موزوں مخیل کو شعر کہتے ہیں ۔ شاعری میں موزونیت لازمہ نہیں ، خاصہ ہے۔ اس لیے تخیل ہی بنیاد بنتی ہے۔ تو پھر تخیل کیا ہے، اور تخلیقی عمل میں کون سا تخیل حصہ لیتا ہے؟ تخلیقی متن کے اس بنیادی عنصر پر الگ الگ ناقدین نے اپنے اپنے طور پر خامہ فرسائی کی ہے۔ مشرق و مغرب کی نظری تنقید میں تخیل کی تعریف و توضیح/افہام و تفہیم کی روایت پرانی ہے۔ تخیل کی سب سے اچھی تعریف کولرج نے کی ہے۔ اردو شعریات میں حالی، شبلی اور ان کے بعد کے ناقدین نے بھی اس موضوع پر کہیں کہیں اور کچھ کچھ روشنی ڈالی ہے۔ حالی اور شبلی نے اس موضوع پر تفصیلی توجہ دی ہے۔ یہاں تخیل اور اس کے مدارج کی تعریف کے ساتھ اس باب میں حالی اور شبلی کے خیالات کا محاسبہ بھی مقصود ہے۔

کولرج (S.T. Coleridge)مغربی ادب میں پہلا ناقد نہیں ہے جس نے شاعری کی نوعیت اور ساخت پر بحث کی ہو، یا جس نے تخیل کو موضوع بنایا ہو۔ اس سے بہت پہلے ارسطو نے فلسفۂ شعر میں کئی انتہائی اہم اور بنیادی قسم کے سوالات قائم کیے تھے۔ اس نے شاعری کو محض نقل کے بجائے ترجمانی کا نام دیا تھا۔ جب ارسطو نے حقیقت کے بجائے واقعیت پر زور دیا تو اسی وقت ادب کی تفہیم و تنقید میں رومانیت کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ کولرج (1772-1834) کی فکر بھی رومانیت کے اثر میں ہے۔ اسی لیے شاعری کی ماہیت پر اس نے جو سوالات اٹھائے ہیں ، ان کی تفہیم اور تمحیص /تجزیے کے لیے رومانی افکار اور نظریاتی خصائص پر نظر ڈالنا ضروری ہے، لیکن پہلا سوال یہی ہے کہ رومانیت کیا ہے اور تنقید سے اس کا کیا رشتہ ہے؟ رومانیت سے مراد محض حسن و عشق کا قدیم اور افلاطونی بیان نہیں ہے، بلکہ جذبات کا وفور، آزادیِ خیال، نااطمینانی/ناآسودگی اور ان کے کرب کا احساس بھی رومانیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔ رومانیت کا احساس مادّی اسباب سے کہیں زیادہ خیالات و تصورات کی رنگین دنیا میں ہوتا ہے۔ ان تمام پہلوئوں کی بنیاد پر ادب کا مطالعہ، تجزیہ اور فیصلہ، رومانی تنقید کے ذیل میں آتا ہے۔

مغربی ادب میں کولرج کا بھی شمار رومانی دبستانِ نقد میں ہوتا ہے۔ مختلف تنقیدی نظریات اور افکار میں وہ رومانی تنقید کا نمائندہ ہے۔ مغربی تنقید میں لونجائنس (Longinus) کو پہلا رومانی نقاد کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس نے ادب کی تخلیق کے لیے وفورِ  جذبات اور فکر کی بلندی پر زور دیا تھا، کولرج کا کلیدی لفظ تخیل (Imagination) ہے، جس میں شدید حسی اور جذباتی کیفیات بھی شامل ہیں ۔ لونجائنس نے تخیل/امیجینیشن کو بطورِ  تنقیدی اصطلاح استعمال نہیں کیا۔ اس کی اصل اصطلاح’Hypsos‘ہے، جو یونانی لفظ ہے۔ اس کا ترجمہ انگریزی میں Sublime کیا گیا۔ وہ Sublime یا رفعتِ خیال کے توسط سے تخیل کی روح تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی بھی تخلیق کے لیے کولرج ہی کی طرح وہ بھی تخیل کو اولین /بنیادی شرط قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ وہ صفت ہے جو سیکھی نہیں جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسے عطیۂ خداوندی سے تعبیر کرتا ہے اور نہایت فطری بتاتا ہے، جبکہ کولرج’تخیل‘ کو موضوع بناکر اس کی تہوں میں اترتا ہے اور اس کی درجہ بندی بھی کرتا ہے۔ لونجائنس بلاغت کے دیگر عناصر پر بھی تفصیلی توجہ دیتا ہے، جبکہ کولرج کا نقطۂ ارتکاز ’تخیل‘ کی تعریف و توضیح ہے۔

کولرج کے تصورِ تخیل کی تفہیم میں چند مخصوص اصطلاحات بار بار آتی ہیں ۔ تخیل (Imagination)، حرکت (Motion)، منضبط قوتِ حاسّہ (Good Sense)، قانونِ تناسب (Law of association)، قوت واہمہ (Fancy)…یہی وہ اصطلاحات ہیں جو کولرج کے تصورِ تخیل میں فکری اساس کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ کولرج کی کتاب’Biographia Literaria‘ ورڈسورتھ (Wordsworth) کی ـ’تمہید‘ (Preface) کے سترہ سال بعد لکھی گئی تھی، جس کے چودہویں باب میں وہ کہتا ہے:

"Finally, GOOD SENSE is the BODY of poetic genius, FANCY its DRAPERY, MOTION its LIFE, and IMAGINATION the SOUL that is everywhere, and in each; and forms all into one graceful and intelligent whole.”(P:13,CH-XIV,Vol-II)/ (1)

اگر شاعری کو جسم فرض کیا جائے تو منضبط قوتِ حاسہ (GOOD SENSE)کو اس کا بدن، FANCY کو اس کا لباس/آرائش(DRAPERY)، اس کی حرکت کو اس کی زندگی اور تخیل کو اس کی روح کہنا چاہیے۔ اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ تخیل کیا ہے؟ تخیل حاصل شدہ مواد میں نظم و ترتیب پیدا کرنے کا نام /وسیلہ ہے۔ کولرج تخیل کو فن پارے کی روح قرار دیتا ہے۔ وہ تخیل کو ذہنی قوت سمجھتا ہے، اور اسے علم و جہل کے درمیان پُل یا رابطے کا ذریعہ تسلیم کرتا ہے، جس کا اولین عمل لاعلمی سے علم کی طرف مائل کرنا ہے۔ اس کے ہاں تخیل کی تعریف کا محور اس کی ماہیت /نیچر اور تخلیق/تکوین(Genesis) ہے۔ اس کی خودنوشت ’Biographia Literaria‘ پہلی دفعہ 1817 ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کے مختصر تعارف میں اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے THOMAS MCFARLAND نے اپنے مضمون ’The Origin and Significance of Coleridge’s Theory of Secondary Imagination‘ میں لکھا ہے:

"Biographia Literaria, a book that is largely about poetry, the definition of the secondary imagination emphasizes and honors poetic creation. But it operates more as a link between its author’s poetic and his systematic theological and philosophical interests than as a program for how poetry should be written” (2)

تخیل کی تعریف کرتے ہوئے کولرج نے اسے دو خاص حصوں میں تقسیم کیا ہے جو بنیادی (Primary Imagination)اور ثانوی (Secondary Imagination) تخیل سے موسوم ہے۔ بنیادی تخیل کو وہ تمام انسانی ادراک اور زندہ قوت کا محرک سمجھتا ہے۔ بنیادی تخیل حقیقت کا محض ادراک ہے، جبکہ ثانوی تخیل بنیادی تخیل کی توسیع ہے۔ دونوں کا عمل ایک ہے یعنی اشیا کا ادراک کرنا، لیکن طریقۂ عمل مختلف ہے۔ دونوں میں درجے اور دائرۂ عمل کا فرق ہے۔ ثانوی تخیل بنیادی تخیل کی صدائے بازگشت ہے۔ اس کی بنیاد تعمیرِ  نو/رد تشکیل پر ہے، مگر اس کے عمل میں شعوری ارادے(Conscious Will) کو دخل ہوتا ہے۔ شعور فکر کی اعلیٰ ترین منزل ہے جو اشیا کی شناخت میں زمان و مکان سے آزاد اور فاعل و مفعول کا اتحاد ہے۔ اشیا کی شناخت حدود ہی میں ممکن ہے۔ تخیل ان حدود میں اتحاد پیدا کرتا ہے۔ ثانوی تخیل منطقی اور وجدانی شعور کی ملی جلی کیفیت میں آگے بڑھتا ہے۔ آگے چل کر بعض اوقات وہ راستہ بھٹک جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ خود کو دریافت کرتا ہے۔ خود کو دہرانے کا یہ عمل بیّن اور سادہ نہیں ہوتا۔ یہاں پیچیدگی در آتی ہے اور شعور کے ساتھ غیر شعوری عناصر بھی کام کرنے لگتے ہیں ۔ کسی شے کی دریافت کا یہ تخیلی تجربہImaginative Experience) (ادبی تخلیق کو نئی شکل عطا کرتا ہے۔ بقول شری کرشنا مشرا:

"The former is the purest type of experience; the latter is the poetic experience”. (3)

عام اور شعری تجربے میں فرق ہے۔ عام تجربہ کسی شے کے محدود تصور کا نام ہے، جبکہ شعری تجربہ تخیلی تجربہ ہے اور یہ اشیا کے لامحدود تصور کا نام ہے۔ یہاں انسانی روحِ کل (Whole Soul of Man) بیدار ہو جاتی ہے اور محدود تجربہ لامحدود تجربے میں بدل جاتا ہے۔ اسی کو آفاقیت کہتے ہیں ۔ ادراک/بنیادی تخیل، شعور کا ایک حصہ ہے جو کسی نئی شے کی تشکیل نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی چیز کو مکمل طور پر سمجھ سکتا ہے۔ اس کے برعکس (ثانوی )تخیل کی اڑان لامحدود اور تخلیقی ہوتی ہے، کیوں کہ اس کا رشتہ بیدار اور تیز ترین شعور سے ہوتا ہے۔ خیال ہی زندگی کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی تخلیق کا درجہ، جس کی بنیاد ثانوی تخیل پر ہے، سائنسی ایجاد سے زیادہ عظیم ہے۔ ادراک محض معلومات عطا کرتا ہے، بصیرت نہیں ۔ یہ حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے، واقعیت کی نہیں ، جبکہ(ثانوی) تخیل متحرک اور امکانی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے، اور واقعیت کی ترجمانی کرتا ہے۔ تخیلی تجربہ آفاقی شعور کو بیدار کرتا ہے۔ یہ تمام بحث اس بات کے ثبوت کے لیے ہے کہ بنیادی تخیل کا کام صرف ادراک کا حصول ہے، جبکہ ثانوی تخیل ادراک سے ماورا ہو کر اس کے تضادات میں ربط پیدا کر کے امکانی صورتِ حال پیدا کرتا ہے، جس کا مقصد شعری جوہر کی دریافت ہے۔

کولرج کے تصورِ تخیل میں قوتِ واہم ور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبیدز عبیدہ (Fancy) کی اصطلاح بار بار آتی ہے جس کا دونوں مذکورہ تخیلات سے عمیق رشتہ ہے۔ Fancy کی تعریف کرتے ہوئے Lucy Newlyn کہتا ہے:

"Fancy is a sort of loose association. It does not bind thoughts and images tightly togather, but allows them to proliferate, as though they had a will of their own”. (4)

کولرج کے مطابق قوت واہمہ یاد داشت کا ایک عمل ہے جو کسی ایک نتیجے پر اصرار نہیں کرتا۔ یہ بعض صورتوں میں فائدہ مند بھی ہوتا ہے اور نقصان دہ بھی۔ بعض حضرات قوتِ واہمہ اور قوتِ متخیلہ کو ایک ہی شے تصور کرتے ہیں ، جو صحیح نہیں ہے۔ قوتِ واہمہ تخیل کی مختلف منازل کی ایک حالت ہے۔ کولرج انتہائی شاعرانہ ذہانت کے لیے قوتِ واہمہ کو لباس (Drapery) سے تعبیر کرتا ہے۔ لباس جسم کی آرائش کا ایک ذریعہ ہے جو ہماری مرضی پر منحصر ہے۔ ہم جب چاہتے ہیں اپنی پسند کے مطابق دوسرا لباس بدل لیتے ہیں ۔ اس عمل میں ہمارا جو دخل ہے وہ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی دخل کو کولرج نے ’GOOD SENSE‘کا نام دیا ہے۔ اگر کوئی عورت مردانہ لباس پہن لے، یا کوئی مرد زنانہ لباس زیبِ تن کر لے، تو یقیناً یہ عمل مضحکہ خیز معلوم ہو گا۔ اسی طرح قوت واہمہ بھی لباس ہی کی طرح ہے جس میں مناسب ترتیب و تنظیم کا اہتمام لازمی ہے۔ یہی ترتیب و تنظیم منضبط قوت حاسّہ(Good Sense) کہلاتی ہے، جو Fancy کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ قوت واہمہ کو تخیل کا تابع ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ ثانوی تخیل کی تشکیل منضبط قوت حاسّہ ہی کے ذریعے ہوتی ہے۔ اگر یہ تخیل کی اعلیٰ قوت کی تابعدار ہوتی ہے تو شاعری کے لیے صحت مند ثابت ہوتی ہے اور جب یہ تخیل کی گرفت سے باہر نکل جاتی ہے تو نہ صرف آوارہ اور غیر مہذب ہو جاتی ہے، بلکہ اس کی کوئی اہمیت بھی نہیں رہتی۔ شاعری اعلیٰ متوازن ذہن کی پیداوار ہے، اور بہترین ترتیب کا نام ہے۔ اس لیے قوتِ واہمہ کو تخیل کے کنٹرول میں رہنا چاہیے، تاکہ تخلیقی عمل میں توازن قائم رہے۔ قوتِ واہمہ کا تعلق ثانوی تخیل سے ہے لیکن تخلیقی عمل میں بنیادی تخیل بھی در آتا ہے۔ اس لیے دونوں میں توازن قائم رکھنا ضروری ہے۔ توازن کی یہ صفت کولرج کے تصور تخیل میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ الفاظ، خیالات اور جذبات ظاہر و باطن دونوں سطح پر توازن /ترتیب کے متقاضی ہوتے ہیں ۔ اس ترتیب و تہذیب سے جمالیاتی حظ حاصل ہوتا ہے، اور کولرج کے نزدیک ادب کا بنیادی مقصد مسرت بہم پہنچانا ہے۔ تخلیقی عمل میں مختلف عناصر کار فرما ہوتے ہیں ۔ ان عناصر میں وحدت کا احساس، انبساط کا موجب بنتا ہے۔ فن پارے میں وحدتِ کل کا احساس ہی کولرج کے ہاں اصل عرفان ہے۔

تخیل کی تعریف و توضیح اور اس کی تفہیم سے متعلق اردو تنقید پر نظر ڈالی جائے تو پہلی نگاہ محمد حسین آزاد پر پڑتی ہے۔ کلیم الدین احمد نے آزاد سے متعلق لکھا ہے کہ ان میں نقد کا مادّہ مطلق نہ تھا۔ اس لیے کہ انگریزی لالٹینوں کی روشنی ان کے دماغ تک نہیں پہنچی تھی(اردو تنقید پر ایک نظر، ص:57)۔ ان کی یہ رائے مطلق نفی کا اعلان کرتی ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ گول مول باتیں کرتے ہیں ، لیکن یہ صورت حال یکساں نہیں رہتی۔ وہ کام کی باتیں بھی کرتے ہیں ۔ ’نظم اور کلامِ موزوں کے باب میں خیالات‘ ان کا نہایت اہم لکچر ہے، جس میں اپنے ڈھب سے انھوں نے تخیل پر گفتگو کی ہے، کہ شاعر ’’تمام عالم میں اس طرح حکومت کرتا ہے جیسے کوئی صاحبِ خانہ اپنے گھر میں پھرتا ہے۔ پانی میں مچھلی اور آگ میں سمندر ہو جاتا ہے۔ ہوا میں طائر بلکہ آسمان میں فرشتہ کی طرح نکل جاتا ہے۔ جہاں کے مضامین چاہتا ہے بے تکلف لیتا ہے اور بہ تصرف مالکانہ اپنے کام میں لاتا ہے۔ ‘‘(5)

وہ کہتے ہیں کہ شاعر اگر چاہے تو ’’پتھر کو گویا کر دے۔ درختانِ پادرِ گل کو رواں کر دکھائے، ماضی کو حال، حال کو استقبال کر دے، زمین کو آسمان، خاک کو طلا، اندھیرے کو اجالا کر دے۔ ‘‘(6) ان تمام باتوں میں تخیل کی کارفرمائی صاف طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ ماضی کو حال، حال کو استقبال، زمین کو آسمان، آسمان کو زمین، خاک کو طلا، طلے کو خاک، اندھیرے کو اجالا اور اجالے کو ظلمت میں بدلنے کے عمل میں قوت واہمہ(Fancy)کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ یہ امورفینسی کی مثالیں ہیں ۔ آزاد نے الگ سے کوئی مخصوص باب قائم کر کے کہیں تخیل کی تعریف نہیں کی اور نہ ہی تخیل اور قوتِ واہمہ کی اصطلاح استعمال کی، بلکہ ان کی تحریر کے بعض ٹکڑوں میں اس کے اشارے مل جاتے ہیں ۔ بقول ابوالکلام قاسمی:

’’تخیل کی بحث حالی اور شبلی نے بہت تفصیل سے اپنی کتابوں میں کی ہے۔ آزاد اس اہم شعری مسئلے پر باقاعدہ بحث نہیں کرتے مگر بعض ایسے اشارے ضرور کر گزرتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ان مسائل سے پوری طرح باخبر تو ہیں لیکن اپنی کتابوں کے موضوعات کی پابندی کے سبب ان پر پوری توجہ صرف نہیں کر پاتے۔ زبان و بیان پر شاعر کی قدرت اور اشیا پر تخلیقی تصرف کا ذکر، آزاد جگہ جگہ کرتے ہیں ۔ وہ تخیل، تصور یا واہمہ کی اصطلاحات کا استعمال نہیں کرتے مگر شاعرانہ قدرت کا ذکر اس طرح کرتے ہیں گویا وہ ان اصطلاحات کی مدد کے بغیر اپنی بات لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں ۔ ‘‘(7)

حالی اردو میں پہلے نقاد ہیں جنھوں نے شعر کی ماہیت پر بحث کی اور بنیادی سوالات قائم کیے۔ شاعر کے لیے انھوں نے جن تین شرائط (تخیل،  مطالعۂ  کائنات اور تفحصِ الفاظ) کا ذکر کیا، ان میں پہلی شرط ’تخیل‘ ہے۔ ’تخیل‘ کا عنوان قائم کر کے انھوں نے اس پر کچھ تفصیلی گفتگو کی۔ وہ انگریزی سے واقف نہ تھے۔ کسی سے سن سناکر یا ترجمہ کرا کے انھوں نے انگریزی متون سے استفادہ کیا۔ اس لیے ’’اپنے زمانہ، اپنے ماحول، اپنے حدود میں حالی نے جو کچھ کیا وہ بہت تعریف کی بات ہے۔ ‘‘(کلیم الدین احمد، اردو تنقید پر ایک نظر)/(8) اور بقول وارث علوی…’’حالی کے Limitationکو کمزوری سمجھنا ایک غیر عقلی رویہ ہے۔ ‘‘(9)

حالی کی تنقید کا ڈھانچہ مشرقی بنیادوں پر ہے۔ مغربی میزان سے ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوسکتا۔ یہی بڑی بات ہے کہ تخیل پر انھوں نے قلم اٹھایا۔ جب اصل ماخذ تک ان کی رسائی تھی ہی نہیں تو ان سے ہم کیوں تقاضا کریں کہ وہ بھی تخیل کی وہی تعریف کریں جیسی کو لرج نے کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہFancy اور Imagination میں وہ فرق نہ کرسکے۔ وہ Imagination کی اصطلاح سے تو واقف ہیں ، لیکن Fancy کی اصطلاح سے واقف نہیں ۔ اسی لیے کہیں بھی ان کی تحریروں میں یہ لفظ نہیں ملتا۔ کولرج کی طرح وہ تخیل کی درجہ بندی بھی نہیں کرتے۔ ممتاز حسین اپنی کتاب ’حالی کے شعری نظریات: ایک تنقیدی مطالعہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’حالی نے جو کچھ تخیل کی تعریف سے متعلق لکھا ہے اس کا اطلاق فینسی پر ہوتا ہے، نہ کہ تخیل یاامیجینیشن پر۔ ‘‘(10) ممتاز حسین نے حالی پر مغربی افکار کے اثرات پر بہت اچھی کتاب لکھی ہے، لیکن ان کے مذکورہ بیان سے ہر ذی نظر اختلاف کرے گا۔ تخیل کی تعریف حالی یوں کرتے ہیں :

’’وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجزیہ یا مشاہدہ کے ذریعہ سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے یہ اس کو مکرر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے۔ ‘‘(11)

تخیل کی اس تعریف کو کلیم الدین احمد نے بھی سراہا ہے۔ (اردو تنقید پر ایک نظر، ص:96)کولرج اسی کو ثانوی تخیل (Secondary Imagination) سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں :

"It (Secondary Imagination) dissolves, diffuses, dissipates, in order to recreate.”(P:202,CH-XIII,Vol-I)/ (12)

مذکورہ بالا حالی کی تعریف تخیل کی ہے، فینسی کی نہیں ۔ اس لیے ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے تخیل کے نام پر محض فینسی ہی کی تعریف کی ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ فینسی کو بھی انھوں نے تخیل ہی سمجھ لیا ہے۔ مقدمہ سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرتی ہے۔ اور ماضی و استقبال اس کے لیے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے۔ وہ آدم اور جنت کی سرگذشت اور حشرو نشر کا بیان اس طرح کرتا ہے گویااس نے تمام واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں ۔ اور ہر شخص اس سے ایسا ہی متاثر ہوتا ہے جیسا کہ ایک واقعی بیان سے ہونا چاہیے۔ اس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جن اور پری، عنقا اور آب حیواں جیسی فرضی اور معدوم چیزوں کو ایسے معقول اوصاف کے ساتھ متصف کرسکتا ہے کہ ان کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر آتی ہے۔ جو نتیجے وہ نکالتا ہے گو وہ منطق کے قاعدوں پر منطبق نہیں ہوتے لیکن جب دل اپنی معمولی حالت سے کسی قدر بلند ہو جاتا ہے تو وہ بالکل ٹھیک معلوم ہوتے ہیں ۔ ‘‘(13)

یہ تعریف فینسی کی ہے جو حالی کے ہاں تخیل کے تحت آئی ہے۔ فینسی /قوتِ واہمہ زمان و مکان (Time and Space) کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ یہی بات کولرج نے بھی کہی ہے۔ حالی نے تخیل کی تعریف میں قوتِ ممیزہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تخیل کو قوتِ ممیزہ کا محکوم ہونا چاہیے۔ حالاں کہ انھیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ فینسی کو قوتِ ممیزہ کا محکوم ہونا چاہیے۔ کولرج کے ہاں قوتِ ممیزہ کے لیے’GOOD SENSE‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ کولرج قوتِ ممیزہ کو تخیل کا جسم قرار دیتا ہے۔ قوتِ ممیزہ کے باب میں حالی کے خیالات میں کچھ تضاد پایا جاتا ہے:

’’قوتِ متخیلہ ہمیشہ خلاقی اور بلند پروازی کی طرف مائل رہتی ہے، مگر قوتِ ممیزہ اس کی پرواز کو محدود کرتی ہے، اس کی خلاقی کی مزاحم ہوتی ہے۔ ‘‘(14)

’’قوتِ متخیلہ کیسی ہی دلیراور بلند پرواز ہو جب تک وہ قوتِ ممیزہ کی محکوم ہے شاعری کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ ‘‘(15)

حالی کہتے ہیں کہ قوتِ ممیزہ تخیل کے لیے نقصان دہ نہیں لیکن یہ کہہ کر اپنی بات خود رد کر دیتے ہیں کہ قوتِ ممیزہ تخیل کی خلاقی میں مزاحم ہوتی ہے اور اسے محدود کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوتِ ممیزہ تخیل کو صحیح سمت میں بڑھنے کی اجازت دیتی ہے۔ چاہے اس کی پرواز جتنی بلند ہو۔ وہ یہاں مزاحم نہیں ہوتی۔ اس سے قطع نظر حالی کی یہ رائے نہایت قیمتی ہے کہ ’’دنیا میں جتنے بڑے بڑے شاعر ہوئے ہیں ان میں قوتِ متخیلہ کی بلند پروازی اور قوتِ ممیزہ کی حکومت دونوں ساتھ ساتھ پائی جاتی ہیں ۔ ‘‘(16)دونوں میں توازن لازمی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم شبلی کی طرف بڑھیں ، ایک بنیادی سوال ذہن میں ابھی بھی کھٹک رہا ہے۔ وہ یہ کہ تخیل کا تصور حالی نے کہاں سے لیا۔ وحید قریشی رقم طراز ہیں :

’’کولرج ہندوستان میں اس وقت مشہور نہ تھا۔ اگر چہ اس کی Biographia Literaria میں سے ایک فقرے کا نصف حالی نے لیا ہے۔ باقی نصف کو بھی اگر وہ دیکھتے تو شاید ان کا نظریۂ شعر اپنی موجودہ صورت سے مختلف ہوتا۔ ‘‘(17)

وحید قریشی کی اس بات میں کچھ وزن ضرور ہے کہ حالی کے زمانے میں ہندوستان میں کولرج مشہور نہیں تھا، لیکن ہمیں یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ اس عہد میں اردو کے ادبی حلقوں میں انگریزی ادب تک رسائی، مطالعے اور تفہیم کی صورتِ  حال کیا تھی۔ نوآبادیاتی سائیکی نے ذہنوں میں انگریزی زبان و ادب کا رعب بیٹھا دیا تھا۔ اس لیے بعید نہیں کہ محدود حلقے ہی میں صحیح، کولرج کے خیالات پہنچ چکے تھے۔ Biographia Literariaکی پہلی اشاعت 1817ء میں ہوئی۔ حالی کا مقدمہ 1893ء میں چھپا۔ دونوں کی اشاعت میں 76سالوں کا فرق ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ حالی کو اس کتاب کے مندرجات کا کسی سے علم ہوا ہو گا اور کولرج کے کلیدی لفظ Imagination پرکسی انگریز/ہندوستانی دوست سے انھوں نے تبادلۂ خیال کیا ہو گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے تخیل کے لیے ’Imagination‘ہی کا لفظ کیوں استعمال کیا۔ یہ پہلو بھی دلیل کے لیے کافی ہے۔ پھر سادگی، اصلیت اور جوش کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے جس ’یوروپین محقق‘ کا ذکر کیا ہے، وہ کولرج ہی تو ہے۔ اس باب میں ممتاز حسین کی کتاب’ حالی کے شعری نظریات: ایک تنقیدی مطالعہ‘ اور شمس الرحمٰن فاروقی کے مضمون’ سادگی، اصلیت اور جوش‘ (مطبوعہ: ماہنامہ ’اوراق‘، لاہور، 1990ء، مدیر: وزیر آغا) کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ’یوروپین محقق‘ کی تفصیل ممتاز حسین نے مدلل پیش کی ہے۔ حالی اور کولرج کے اقتباس میں انھوں نے خیالی مماثلت بھی دکھائی ہے لیکن ممتاز حسین کی یہ رائے درست نہیں کہ حالی نے تخیل کی تعریف میں صرف کولرج اور ورڈسورتھ ہی کے خیالات دہرائے ہیں ۔ حالی کے ہاں کو لرج کی کچھ ترجمانی ضرور ہے، ترجمہ نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کولرج نے تخیل کی جو تعریف کی ہے، وہ حالی تک من و عن یا صحیح صورت میں نہیں پہنچی۔ دوسری بات یہ ہے کہ انھوں نے جو کچھ اخذ کیا اسے من و عن نہیں لکھا۔ ورنہ جس طرح انھوں نے ملٹن کا نام لیا ہے، اس ضمن میں کولرج کا نام بھی ضرور لیتے۔ جب ان کے ذہن میں کولرج کی تعریف کا خاکہ ہی صاف نہیں تھا تو ہم کیوں کر کہہ سکتے ہیں کہ تخیل کی پوری تعریف ان کے ہاں کولرج ہی سے مستعار ہے۔ اگر کولرج کی تعریف کی بنیاد پر انھوں نے اپنی عمارت تعمیر کی ہوتی تو جس طرح وہ Imagination کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، اس حصے کی بنیادی اصطلاح Fancy کا بھی ذکر کرتے۔ دیگر اصطلاحات کا بھی ذکر کرتے۔ اس لیے استفادہ کرنا اور چیز ہے، ہو بہو خیالات لے لینا اور بات ہے۔ حالی نے کولرج کی تعریف کو جس قدر سمجھا اسے مشرقی تصورات سے ہم آہنگ کیا اور اپنے شعور کی روشنی میں تخیل کی تعریف متعین کی۔ اس طرح حالی کے ہاں مشرقی تصورات ہی بنیاد کا درجہ پاتے ہیں ۔ وحید قریشی کے اس جملے پر بھی نظر ٹھہرتی ہے کہ حالی نے کولرج کے کسی فقرے کا نصف حصہ اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ حیرت ہے کہ انھوں نے اس فقرے کی نشاندہی کیوں نہیں کی۔ پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی فقرے کے نصف حصے سے کسی کے تمام خیالات ماخوذ تو نہیں ہو جاتے۔ اس ضمن میں ابوالکلام قاسمی کی رائے حقیقت پر مبنی ہے:

’’تخیل پر بحث کرتے ہوئے بعض نقادوں نے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ حالی نے تخیل کی تعریف میں کولرج کی کتاب Biographia Literaria سے استفادہ کیا ہے۔ مگر یہ بات بھی غلط نہیں کہ تخیل کے یونانی تصور تک حالی کی رسائی عہدِ عباسی کے عرب نقادوں کی کتابوں کے توسط سے ہوئی تھی۔ اس کاثبوت تخیل کے ساتھ تفحصِ الفاظ اور مطالعۂ کائنات جیسی شرطوں کے اضافے سے بھی ملتا ہے۔ ‘‘(18)

حالی کی طرح شبلی نعمانی نے بھی شاعری کی بنیاد تخیل کو بتایا ہے لیکن شبلی تخیل /تخئیل کے ساتھ محاکات کو بھی شاعری کا بنیادی عنصر بتاتے ہیں کہ ’’شاعری اصل میں دو چیزوں کا نام ہے، محاکات اور تخئیل، ان میں سے ایک بات بھی پائی جائے تو شعر شعر کہلانے کا مستحق ہو گا۔ ‘‘(19) باقی اور اوصاف یعنی سلاست، صفائی، حسن بندش وغیرہ شعر کے اجزائے اصلی نہیں بلکہ شبلی انھیں عوارض اور مستحسنات میں شمار کرتے ہیں ۔ حالی کی طرح بعض معاملات میں ان کے ہاں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ ابھی ابھی انھوں نے کہا کہ شعر محاکات اور تخئیل کا مجموعہ ہے یا کوئی ایک عنصر سے بھی شعر شعر کہلائے گا، لیکن یہ کہہ کر اپنی بات خود رد کر دیتے ہیں کہ ’’اگر چہ محاکات اور تخئیل دونوں شعر کے عنصر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاعری دراصل تخئیل کا نام ہے۔ ‘‘(20) انھوں نے محاکات اور تخئیل پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ مشرق و مغرب سے مثالیں ڈھونڈ لائے۔ نتائج کے استخراج میں کچھ باتیں گڈ مڈ بھی ہو گئیں ۔ محاکات(Mimesis) کا تصور یونانی ہے۔ ارسطو نے محاکات/نقل کی تعریف بہتر طور پر پیش کی اور اس میں حقیقت کے بجائے واقعیت کے عناصر کو ضروری قرار  دیا۔ محاکات نو کلاسکی تصور ہے اور تخیل رومانی تصورات کا زائیدہ ہے۔ شبلی کے نزدیک محاکات پر مبنی رائے یہ ہے:

’’محاکات میں جو جان آتی ہے وہ تخئیل ہی سے آتی ہے، ورنہ خالی محاکات نقالی سے زیادہ نہیں ۔ ‘‘(21)

شبلی کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ محاکات محض نقل ہے، مگر تخیل کی آمیزش سے اس میں نقلِ محض سے آگے کا بھی تصور شامل ہو جاتا ہے۔ شاعری اگر صرف محاکات کا نام ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شاعری نقل کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ تو پھر درد، زخم کی ٹیس، خواب، تعبیر وغیرہ کی من و عن نقل ممکن ہے؟ ایسے موقعوں پر تخیل سے کام لینا پڑتا ہے۔ تجریدی تصورات تک کچھ رسائی تخیل ہی کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ شبلی دھندلی تصویر کھینچنے کی بات کرتے ہیں ۔ دھندلی تصویر کھینچنے میں محاکات کی نہیں ، تخیل کی ضرورت پڑتی ہے۔ مذکورہ بیان میں انھوں نے قوتِ متخیلہ کو قوتِ متصورہ /محاکات پر برتر تو ثابت کردیا لیکن اصل نکتہ یہ ہے کہ محاکات میں تخئیل کی آمیزش کیوں ہو، تخئیل میں محاکات کی آمیزش کیوں نہ ہو؟ بنیادی چیز تو تخئیل ہی ہے۔ وہ بھی حالی کی طرح Fancy کی اصطلاح سے واقف نہیں اور تخیل کو فینسی سے الگ کر کے دیکھنے سے قاصر ہیں ۔ ان کی بھی رسائی کولرج کے اصل ماخذ تک نہیں تھی۔ انھوں نے بھی کسی سے سن سناکریا ترجمہ کراکے بعض انگریزی متون سے استفادہ کیا ہو گا۔ سچ بات یہی ہے کہ وہ جملہ جو کلیم الدین احمد نے حالی کے بارے میں کہا تھا، ان پر بھی صادق آتا ہے کہ اپنے زمانہ، اپنے ماحول، اپنے حدود میں ا نھوں نے جو کچھ کیا، وہ بہت تعریف کی بات ہے۔

٭٭٭

                   حواشی

  1. S.T.Coleridge,Biographia Literaria,1973,Edited with his Aesthetical Essays by J.Shawcross, Volume:II,Chapter:xiv,Oxford University Press,P:13.
  2. Thomas Mcfarland,”The Origin and Significance of Coleridge’s theory of Secondary Imagination”,included in NEW PERSPECTIVES ON COLERIDGE AND WORDSWORTH, Edited by Geoffrey H.Hartman,1972,New York and London ,Columbia University Press,P:204.

3.Shrikrishna Mishra, Coleridge and Abhinava Gupta(A Comparative study of the philosophy of poetry in the East and the West),1970,Printed in India by Pradip Kumar Hazra at Sreemudran,40, Shibnarayan Das Lane,Calcutta-700006,P:178.

4.Lucy Newlyn ,Coleridge, Wordsworth and the Language of Allusion,1986,Clarendon Press, Oxford,P:92

5۔ محمد حسین آزاد، نظم آزاد، 1899، لاہور: مفید عام پریس، ص ص: 3-4

6۔ ایضاً، ص:2

7۔ ابوالکلام قاسمی، مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت، 2002، نئی دہلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ص ص:239-240

8۔ کلیم الدین احمد، اردو تنقید پر ایک نظر، 1983، پٹنہ: بک امپوریم، ص:89

9۔ وارث علوی، حالی، مقدمہ اور ہم، 1983، الہ آباد: اردورائٹرس گلڈ، ص:20

10۔ ممتاز حسین، حالی کے شعری نظریات: ایک تنقیدی مطالعہ، 1988، کراچی: سعد پبلی کیشنز، ص:117

11۔ خواجہ الطاف حسین حالی، مقدمہ شعرو شاعری، مرتبہ:وحید قریشی، 2002، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص:114

12.S.T.Coleridge,Biographia Literaria,1973,Edited with his Aesthetical Essays by J.Shawcross, Volume: I, Chapter: xiii, Oxford University Press, P:202.

13۔ خواجہ الطاف حسین حالی، مقدمہ شعرو شاعری، مرتبہ: وحید قریشی، 2002، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ، ص:113

14۔ ایضاً، ص:126

15۔ ایضاً

16۔ ایضاً

17۔ وحید قریشی، مضمون، حالی کی تنقید، مشمولہ: مقدمہ شعر و شاعری، 2002، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص:55

18۔ ابو الکلام قاسمی، مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت، 2002، نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ص:259

19۔ شبلی نعمانی، شعر العجم(جلد:چہارم)، 2007، اعظم گڑھ: دار المصنفین، شبلی اکیڈمی، ص:5

20۔ ایضاً، ص:19

21۔ ایضاً

٭٭٭

ماخذ:

سہ ماہی۔ تفہیم۔ راجوری۔ جموں و کشمیر

http://www.urdualive.com/pagedet.aspx?q=19035

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید