FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

مشرف عالم ذوقی  کی منتخب کہانیاں

               حصہ اول

اصل کتاب کی پچیس کہانیوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پیش ہے یہ پہلا حصہ

اعجاز عبید

 

 

امی مرحومہ

سکینہ خاتون

کے نام

خوابوں کے اُس پار

مجھے

ڈر لگتا ہے

 

دو بھیگے ہوئے لفظ

’بہت تیز آندھی تھی۔ چھتیں اُڑ رہی تھیں۔ درخت ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہ تھے۔ بھیانک منظر تھا۔ کچّی دیواروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی کٹیا تھی۔ دو بوڑھے، بوڑھی تھے۔ باہر میدان میں اونچے اونچے پیڑوں کی دیکھ بھال کے لئے___ جیسے درخت نہیں ہوں، بچے ہوں اُن کے۔

’دیکھو۔  وہ درخت بھی۔  آہ۔ ‘ بوڑھی عورت چیخی۔ تم کچھ کرتے کیوں نہیں۔

’بھیانک طوفان ___کیا تم دیکھ نہیں رہی ہو۔ ‘

’ہاں، دیکھ رہی ہوں مگر۔ ‘

بوڑھی عورت، اپنے بوڑھے شوہر کا ہاتھ پکڑے اس خوفناک طوفان میں، اُسے لے کر باہر آ گئی ___اور ایک جوان درخت کے پاس ٹھٹھک کر کھڑی ہو گئی___

’میں نہیں جانتی۔ لیکن تمہیں اسے بچانا ہو گا۔ ‘

’دیکھو۔ کیسے ہل رہا ہے۔  یہ درخت بھی گر جائے گا___‘

’تمہیں بچانا ہو گا___‘ بوڑھی عورت زور سے گرجی___

دونوں نے موٹی رسیاّں تیار کیں۔ درخت کو دونوں طرف سے لپیٹا___ اور اس زوروں کے طوفان میں، دونوں نے اپنے ہلتے لڑکھڑاتے وجود کے باوجود اُس درخت کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے ساری قوت لگا دی___‘

عرصہ پہلے یہ کہانی پڑھی تھی۔ خدا معلوم، کہانیوں کے دونوں بوڑھے کردار اُس درخت کو ٹوٹنے سے بچا پانے میں کامیاب ہوئے یا نہیں ___یا، اتنے سارے درختوں میں اُن کی ساری محنت صرف اسی درخت کے حصّے میں کیوں آئی تھی___؟ شاید، انسانی کمزوری اور محبت کے بہت سارے گوشے ایسے ہیں جسے علم نفسیات ابھی تک سمجھنے میں ناکام رہا ہے___

پتہ نہیں کیوں، کہانیوں کے انتخاب کی بات آئی تو اچانک کھلے چور دروازے سے اس کہانی نے دستک دی___ ’انتخاب کا مطلب جانتے ہو؟‘

’ہاں؟‘

’کن کہانیوں کو بچاؤ گے؟‘

’مطلب؟‘

’دیکھا نہیں وہ بوڑھے بوڑھی اتنے سارے درختوں میں، اُس ایک پیڑ کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ‘

’ہاں، لگاؤ ہو گا‘

’ادب میں لگاؤ سے بات نہیں بنتی۔ ‘

کیسی سچی بات ہے___ آپ کا خوبصورت، سب سے پیارا بچہ زندگی کے امتحان میں، ہار جاتا ہے___ اُس کا بدصورت بھائی بازی مار جاتا ہے___ پریم چند کو کہانی ’کفن‘ کچھ زیادہ پسند نہیں تھی۔ اب ’کفن‘ کے بغیر اردو کہانی کی گفتگو آگے نہیں بڑھتی۔ ممکن ہے میرے بعد اگر کوئی دوسرا میری 300-350 کہانیوں میں سے 25 کہانیوں کے انتخاب کی ذمہ داری قبول کرے تو صورت بالکل دوسری ہو___

اس لئے کس کو ‘بچانا‘ ہے کس کو نہیں___

کس کو رکھنا ہے اور کس کو نہیں___؟

میں نہیں جانتا، اس انتخاب میں مجھے کتنی کامیابی ملی۔ مگر اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ اس انتخاب کے لئے مسلسل سوچتے اور غور کرتے ہوئے مجھے دو سال لگ گئے___

شاید ان کہانیوں کے انتخاب کا خیال ہی میرے ذہن میں نہیں آتا اگر میرے بھائی اور میرے مخلص دوست آصف فرخی نے یہ ذمہ داری مجھے نہیں سونپی ہوتی۔ یہ اُن کا بڑپن ہے اور محبت بھی___

اور اس محبت کے لئے میں انہیں سلام کرتا ہوں۔

ذوقی         

 

اس پُر ہیبت حقیقت کے مقابل، جسے تمام انسانی زمانوں میں ایک یوٹوپیا کی حیثیت حاصل رہی ہو گی، ہم، کہانیوں کے موجد، جن کے نزدیک ہر بات قابلِ یقین ہے، اس بات پر یقین کرنے کے بھی پوری طرح حق دار ہیں کہ ایک بالکل دوسری قسم کے یوٹوپیا کی تخلیق میں خود کو منہمک کر دینے کا وقت ابھی ہاتھ سے نہیں گیا۔ زندگی کا ایک نیا اور ہمہ گیر یوٹوپیا، جہاں کسی کو دوسروں کی موت کے حالات کا تعین کرنے کا اختیار نہیں ہو گا، جہاں محبت سچی، اور خوشی ممکن ہو گی اور جہاں سو سال کی تنہائی کی سزا بھگتنے والی قوموں کو، آخر کار اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے، اس زمین پر ایک اور موقع دیا جائے گا۔

گابرئیل گارسیامارکیز ____

 

اصل واقعہ کی زیراکس کاپی

’’وہ جو،

ہر طرح کے ظلم، قتل عام اور بربریت/

کے پیچھے ہیں، /

تلاش کرو/

اور ختم کر دو/

اس لئے کہ وہ اس نئی تہذیب کی داغ بیل/

ڈالنے والے ہیں/

جو تمہاری جانگھوں یا ناف کے نیچے سے ہو کر گزرے گی۔ ‘‘

               گرمی کی ایک چلچلاتی دوپہر کا واقعہ

سپریم کورٹ کے وسیع و عرض صحن سے گزرتے ہوئے اچانک وہ ٹھہر گیا۔ سامنے والا کمرہ جیوری کے معزز حکام کا کمرہ تھا۔ اس نے اپنی نکٹائی درست کی۔ خوبصورت سلیٹی کلر کے جیمنی بریف کیس کو، جسے اس نے سوئزرلینڈ کے 25 سالہ ورک شاپ سے خریدا تھا، داہنے ہاتھ میں تھام لیا اور اس جانب دیکھنے لگا جدھر سے پولیس کے دو سپاہی ایک منحنی سے آدمی کو ہتھکڑی پہنائے لئے جا رہے تھے۔

سموئل یہ بھی آدمی ہے۔  وہ بے اختیار ہو کر ہنسا ____جیسے اس دبلے پتلے سے آدمی کو ہتھکڑیوں میں دیکھتے ہوئے ہنسنے کے علاوہ دوسرا کوئی کام نہیں کیا جا سکتا۔

’’آدمی۔  تم کیا سمجھتے ہو سموئل، اس نے کوئی جرم کیا ہو گا۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہو۔ یہ آدمی ایک مکھی بھی نہیں مار سکتا۔

’’آپ کا دعویٰ صحیح ہے یور آنر، سموئل نے قدرے کھل کر اس کی طرف دیکھا____‘‘

’’یہ مکھی بھی نہیں مار سکتا۔ مگر پچھلے دنوں آپ نے وہ چرچا سنی ہو گا۔ ایک شخص نے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ۔  اپنی سگی دو بیٹیوں کے ساتھ۔ ‘‘

’’کیا یہ شخص۔ ‘‘

سموئل نے سر کو جنبش دی۔ ’’یور آنر، یہ وہی شخص ہے۔ ‘‘

***

منحنی سا دبلا پتلا آدمی۔ چہرہ عام چہرے جیسا____ آگے کے بال ذرا سا اُڑے ہوئے___ بالوں پر سفیدی نمایاں ہو چکی تھی۔ سانولا رنگ، کرتا پائجامہ پہنے۔ ایک ہاتھ سے اپنے چہرے کو بہت ساری چبھنے والی نگاہوں سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ سپاہی اسے لے کر کورٹ روم میں داخل ہو گئے۔

اس نے گھڑی دیکھی۔ ’’بینک تو بارہ بجے بند ہوتا ہے نا۔

’’یس یور آنر‘‘

’’مجھے یور آنر مت کہا کرو۔ میں ہوں نا، ایک بہت عام سا آدمی۔ معمولی آدمی، کہتے کہتے وہ ٹھہرا___ تم نے کبھی اس طرح کا کوئی مقدمہ دیکھا ہے سموئل؟

’’نہیں میں نے نہیں دیکھا۔ ‘‘

’آہ۔ میں نے بھی نہیں دیکھا۔ ‘

میں سمجھ سکتا ہوں سر، ۔  سموئل جھک جھک کر سر ہلا رہا تھا۔

***

اب وہ کورٹ روم میں تھے۔ جیوری کے ممبر موٹی موٹی کتابوں، فائلوں کے ساتھ اپنی جگہ لے چکے تھے۔ بیچ بیچ میں کوئی وکیل اٹھ کھڑا ہوتا۔ جج درمیان میں بات روک کر گمبھیر آواز میں کچھ کہتا۔ جیوری کے ممبر نظر اٹھا کر اس منحنی سے شخص کو دیکھ کر کچھ اشارہ کرنے لگتے۔

پھر بہت ساری نظریں کٹہرے میں کھڑے ہوئے ملزم کی جانب اٹھ جاتیں۔ وہ آدمی، وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔ وہ چہرے سے عیاش اور ’پاجی‘ بھی نہیں لگ رہا تھا۔ وہ چہرے سے اس قماش کا قطعی نہیں لگ رہا تھا۔ چہ میگوئیوں، شور کرتی آوازوں کے بیچ دو لڑکیاں اپنی جگہ سے اٹھیں۔ ایک کی عمر کوئی سترہ سال کی ہو گی۔ دوسری کی پندرہ سال___ دونوں کے چہرے پر ایک خطرناک طرح کا تیور تھا جیسے کسی زمانے میں افریقی نسل کے سیاہ فام ’جمپانا‘ نام کے بندر کے چہرے پر پایا جاتا تھا۔

اسے وحشت سی ہوئی___ چلو سموئل۔ باہر چلتے ہیں۔

’مگر یور آنر‘۔  سموئل کے چہرے پر ہلکی سی ناراضگی پل بھر کو پیدا ہوئی____ جسے حسب عادت اپنی مسکراہٹ کے ساتھ وہ پی گیا۔  ’جیسی آپ کی مرضی یور آنر۔ ‘

***

دونوں سڑک پر آ گئے۔ اس کی آنکھوں میں سراسیمگی اور حیرانی کا دریا بہہ رہا تھا۔

’’تم وہاں رکنا چاہتے تھے سموئل۔ کیوں؟ میں سمجھ سکتا ہوں اس نے سر کو جنبش دی، مگر بتاؤ، آخر کو وہ آدمی____ کیوں تمہارے ہی جیسا تھا، نا۔ ؟‘‘

’’سموئل گڑبڑا گیا___ پھر فوراً سنبھل کر بولا۔ ’’ہاں بالکل سر، ہمارے آپ کے جیسا۔  آدمی____ جیسے سبھی آدمی ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’چہرے پر ملال ہو گا۔ ہونا چاہئے۔  ہو گا ہی۔  تم نے دیکھا نا، سموئل، وہ کٹہرے میں کیسا نظریں بچائے کھڑا تھا۔ ‘‘

’’یس یور آنر۔ ‘‘

’’میری سمجھ میں ایک بات نہیں آتی سموئل___ آخر خود پر لگائے گئے الزامات کی وہ کیا صفائی بیان کر رہا ہو گا۔ وہ کہہ رہا ہو گا کہ‘‘۔  اس کے چہرے کے تیور بدل رہے تھے___ آدمی کو ایک زندگی میں ایک ہی کام کرنا چاہئے۔ یا تو بس اپنے کام سے جنون کی حد تک پیار ہو یا پھر شادی کر کے گھر بسا لینا چاہئے۔ دونوں میں سے ایک کام ___یہ کیا۔ کہ شادی ہوئی اور ماں کی گود سے کود کر بچی دندناتی ہوئی تاڑ جتنی لمبی ہو گئی___ اور لوگوں کی نگاہوں میں ٹینس بال کی طرح پھسلنے لگی۔ ادھر۔  کبھی ادھر۔

سموئل ہنسا، وہ دیکھئے سر!

سامنے سے دو کانونٹ کی پراڈکٹ ٹھہاکہ لگاتی ہوئی گزر گئیں۔ ایک پل کو اس کی نگاہیں چار ہوئیں۔ جسم میں ایک تیزابی ہلچل ہوئی۔ بجلی کو ندی___ گرجی اور خاموش ہو گئی۔

’’ایسی لڑکیاں۔  ہم آپ کسی نظر سے دیکھیں مگر میرا دعویٰ ہے۔  ان کا ایک باپ ہو گا۔ گھر میں چائے پیتا ہوا۔ اخباروں پر جھکا۔ بیوی سے کسی نامناسب بحث میں الجھا ہوا___ اور بیٹیوں کو دیکھ کر اشارتاً کوئی بے معنی سا سوال پوچھتا ہوا۔ یا۔  بریک فاسٹ لنچ، ڈنر یا چائے بنا دینے کی بے چارگی بھری فرمائش کرتا ہوا۔ ایک عام باپ۔  جیسا کہ وہ تھا۔ جیسا کہ اسے ہونا چاہئے۔  اور جیسا کہ سب ہوتے ہیں۔  ‘‘

سموئل نے داڑھی کھجلائی___ پھر یوں چپ ہو گیا جیسے ابھی غیر ارادی طور پر اس کے منہ سے جو بھی بول پھوٹے ہیں وہ اس کے لئے شرمسار ہو۔  اس نے بھی دھیرے سے گردن ہلائی جیسے گہرے صدمے سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا ہو۔

اس نے کچھ سوچتے ہوئے دوبارہ گردن ہلائی اور  جیسے، آنکھوں کے آگے بہت کچھ روشن ہو گیا۔ ماں کے ’حمل‘ سے کود کر، آن میں کودتی پھاندتی تاڑ جتنی بڑی ہو جانے والی لڑکی۔

یہ لزا بار بار آنکھوں کے آگے کیوں منڈلاتی ہے اور وہ۔  ایک لاچار باپ۔  چھپ کیوں نہیں سکتا۔ نہیں دیکھے اسے۔ ایک بار بھی____ بچپن میں اُچک کر کندھوں پر سوار ہو جانے والی لزا____ اچانک ہرنی کی طرح قلانچیں بھرتی ہوئی، کتنی ڈھیر ساری بہاروں کے ساتھ ہوا کے رتھ پر سوار ہو گئی تھی___ نہیں لزا، یہاں نہیں۔ یہاں مت بیٹھو۔  یہاں میں ہوں نا۔  جاؤ اپنا ہوم ورک کرو۔ اپنے کمرے میں جا کر اسٹڈی کرو لزا۔ یہاں سے۔  یہاں سے جاؤ، پلیز۔  عمر کے پاؤں پاؤں چلتی ہوئی لڑکی کے بڑے ہوتے ہی باپ اچانک نظریں کیوں چرانے لگتا ہے۔  ہوٹل، کلب، ریستوران کے ڈھیر سارے جانے انجانے لمس کے بیچ یہ رشتے کی نازک پتنگ اسے پریشان کیوں کر دیتی ہے۔ کیوں کر دیتی ہے۔  کہ ایک باپ ہونے کے ناطے اسے سمجھانا پڑتا ہے خود کو۔  ایک اچھا لڑکا۔  ایک عمدہ آدمی۔ ‘‘

’’یہ عمدہ آدمی کہاں بستا ہے۔  کہاں ملتا ہے___ کیوں سموئل!‘‘

سموئل نے کوئی جواب نہیں دیا___ وہ کسی اور سوچ میں گم تھا___عمدہ آدمی۔  بہتر آدمی، بے لوث، بے غرض، مخلص، ہمدرد اور عمدہ آدمی___روانڈا کی سڑکوں پر بھی ایسے کسی آدمی سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی۔ لندن، پیرس، برلن کی گلیوں میں بھی اسے سے ایسا کوئی آدمی نہیں ٹکرایا۔ افریقہ کی سڑکوں پر بھی نہیں___جہاں دھوپ سے جھلسے سیاہ فام چہروں پر اس نے ’بیٹک‘ کی نظم لکھی دیکھی تھی۔

’’اس دھرتی پر۔

ہم اپنے سفید دانتوں سے ہنستے ہیں۔

اس وقت بھی۔

جب ہمارا دل لہو لہان ہو رہا ہوتا ہے۔ ‘‘

کمپالا (یوگانڈا) کے ہوٹل میں سیاہ فام نگونگی نے اس کے بدن سے کھیلتے ہوئے اچانک پوچھا تھا۔ سر، ایک لمحے کو سوچئے اگر میں آپ کی سگی بیٹی ہوتی تو۔  وہ بستر سے چھلانگ لگا کر اتر گیا تھا۔ ننگ دھڑنگ۔  وہ کانپ رہا تھا۔ نگونگی ایک بے شرم سفاک مسکراہٹ کے ساتھ اس کے بوکھلائے چہرے کو دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔

’’سموئل، ہم یہ کمینہ پن کیوں کرتے ہیں؟‘‘

’’ہم۔  تھک جاتے ہیں سر۔  تھک جاتے ہیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے پرے ہو جاتے ہیں۔ ‘‘

اس نے گہرا سانس کھینچا۔  ’’ٹھیک کہتے ہو۔  ہم تھک جاتے ہیں۔  اس جسم میں کتنی طرح کی لذتیں دفن ہیں سموئل؟  ہاں دفن ہیں۔ اس نے پھر سانس کھینچا۔  کتنی طرح کی لذتیں۔  کتنے ملکوں کی۔  نرم۔  گرم اور۔ ہم کچھ بھی نہیں دیکھتے۔  یہ کہ چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے اور ہم ایک غیر جسم سے چپکے ہوئے ہیں۔ کھیل رہے ہیں____ جب ہم اپنے گلاس میں اسکاچ انڈیلتے ہیں۔  کاکروچ مارتے ہیں۔  لوگ مر رہے ہیں۔  ہر لمحہ۔  ہندوستان میں۔  پاکستان میں۔  کوئی سا بھی ملک____ باقی نہیں ہے۔ جب ہم اپنی ٹائی درست کرتے ہیں۔  لوگ مر رہے ہیں۔  امریکہ، روس، جاپان، ویتنام۔  ایٹم بم اور میزائلس سے باہر نکلو تو وہی ایک جسم آ جاتا ہے۔  لوگ مر رہے ہیں۔  اور لوگ اپنی سگی بیٹیوں  کے ساتھ۔ ‘‘

’’یور آنر، بینک آگیا ہے۔ ‘‘

               مہنگے ہوٹل کی ایک رات اور ٹرائل

’’اچھا، وہ کیا جرح کر رہا ہو گا سموئل! ذرا سوچو، اس کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لئے کیا رہ جاتا ہے۔ اچھا ایک منٹ کے لئے مان لو۔  وہ آدمی میں ہوں۔  تم وکیل ہو جج ہو یا کچھ بھی مان لو۔  ماننے کو تو کچھ بھی مانا جا سکتا ہے سموئل۔  یوں پاگلوں کی طرح مجھے مت گھور کر دیکھو۔  مان لو۔  اور سمجھ لو، ٹرائل شروع ہوتا ہے۔  اگر شروع ہوتا ہے تو کیسے۔ ؟‘‘

’’یور آنر۔ سموئل نے کچھ کہنے کے لئے حامی بھری، اس نے روک دیا___

’’نہیں۔ یہاں یور آنر تم ہو سموئل۔ اور سمجھو مقدمہ شروع ہو چکا ہے۔ جیوری کے ممبر بیٹھ چکے ہیں۔ کٹہرے میں، میں کھڑا ہوں___ ایک لاچار اپرادھی باپ جس نے اپنی سگی بیٹیوں سے۔  نہیں مجھے یہ جملہ ادا کرنے میں دشواری ہو رہی ہے سموئل۔  تاہم۔  میں۔  کہنا یہ چاہتا ہوں کہ۔ ‘‘

اس نے آنکھیں بند کیں۔ جیسے اپنے تمام تاثرات چہرے پر لا کر جمع کر رہا ہو۔

’’ہاں تو میں۔  ایک لاچار کمینہ باپ۔ کسی ایک جبر و کشمکش کے لمحے کے ٹوٹ جانے کے دوران۔  نہیں۔  مجھے اعتراف ہے کہ ____وہ حوا کی کوکھ سے نہیں، میرے خون سے نکلی تھی۔ جنی تھی___ مجھے اعتراف ہے کہ ___نہیں، مجھے کہنے نہیں، آ رہا۔  اور کیسے آ سکتا ہے۔  آپ سب مجھے ایسے گھور رہے ہیں۔ سب کی نگاہیں___ عیاشی کی اس سے بھدی مثال اور کمینگی کی اس سے زیادہ انتہا اور کیا ہو سکتی ہے۔ مجھے سب اعتراف ہے۔ مگر۔  میں کیسے سمجھاؤں۔  بس ایک جبر و کشمکش کے ٹوٹ جانے والے لمحے کے دوران۔ ‘‘

’’آرڈر۔  آرڈر۔   ملزم جذباتی ہو رہا ہے____ ملزم کو چاہئے کہ اپنے جذبات پر قابو رکھے۔ ‘‘

سموئل کے چہرے پر کٹھورتا تھی۔

’’مورکھتا۔ ملزم جب وہاں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پایا تو یہاں___ خیر، میں کہہ رہا تھا___ میں پچھلے دنوں ویتنام گیا تھا۔ سیاحت میرا شوق ہے۔  تو میں کہہ رہا تھا کہ میں ویتنام۔ ‘‘

’’اس پورے معاملے کا ملزم کے ویتنام جانے اور سیاحت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ‘‘

’’میں مانتا ہوں می لارڈ۔  مگر جو واقعہ یا حادثہ ایک لمحے میں ہو گیا۔ ایک بے حد کمزور لمحے میں____ اس کے لئے مجھے ویتنام تو کیا، فلسطین، ایران، عراق، امریکہ، روس، روانڈا سب جگہوں پر جانے دیجیے____ میں گیا اور میں نے دیکھا۔  سب طرف لوگ مر رہے ہیں۔  مر رہے ہیں۔   ہر لمحے میں۔  جب ہم ہنستے ہیں روتے ہیں___ باتیں کرتے ہیں، قہوہ یا چائے پیتے ہیں___ قتل عام ہو رہے ہیں۔  لوگ مر رہے ہیں۔  مارے جا رہے ہیں۔

سموئل نے ناگواری سے دیکھا___ بیوقوفی بھری باتیں۔ کوری جذباتیت___ اس کیس میں ایک ریپ ہوا ہے۔  ریپسٹ ایک۔  باپ ہے۔ جس نے اپنی۔  کہیں تم گے (GAY)، لیسبن (Lesbian) یا فری کلچر کے حق میں تو نہیں ہو۔ ؟

’’نہیں۔ آہ تم غلط سمجھے سموئل، اس نے گردن ترچھی کی___ شاید میں سمجھا نہیں پا  رہا ہوں۔  ابھی تم نے جن کلچرز کا ذکر چھیڑا، وہ سب دکھ کی پیداوار ہیں۔  دکھ۔  جو ہم جھیلتے ہیں___ یا جھیلتے رہتے ہیں___ مہاتما بدھ کے مہان بھشکرمن سے لے کر بھگوان کی آستھاؤں اور نئے خداؤں کی تلاش تک___ پھر ہم کسی روحانی نظام کی طرف بھاگتے ہیں___ کبھی اوشو کی شرن میں آتے ہیں۔  کبھی گے (GAY) بن جاتے ہیں تو کبھی لیسبین۔ قتل عام ہو رہے ہیں۔  اور بھاگتے بھاگتے اچانک ہم شدبد کھو کر کنڈوم کلچر میں کھو جاتے ہیں___ ہم مر رہے ہیں سموئل اور جو نہیں مر رہے ہیں وہ جانے انجانے ایچ آئی وی پازیٹیو(H.I.V. POSITIVE) کی تلاش میں بھاگ رہے ہیں۔ ‘‘

’’ہمارا ملزم اپنا دفاع نہیں کر پا رہا ہے۔ اس لئے مقدمہ خارج۔ ‘‘

وہ غصّے سے سموئل کی طرف مڑا___ ایک باپ پشیمانی کی انتہا پر کھڑا ہے اور تم اسے اپنی بات مکمل کرنے کا موقع بھی ہیں دینا چاہتے۔ ویدک ساہتیہ کولو۔ دھرم کے بعد کام کا ہی استھان ہے۔ موکش کا نمبر اس کے بعد کا ہے۔ گیتا میں کہا گیا ہے، شری کرشن سب جگہ ہیں۔  انسانوں کے اندر وہ کامیکچھا کے روپ میں موجود ہیں___ کھجوراہو کے  مندروں میں سمبھوگ کے چتر اس بات کے ثبوت ہیں کہ سمبھوگ پاپ نہیں ہے___ اگر پاپ ہوتا، اپوتر ہوتا تو اسے مندروں میں جگہ کیوں کر ملتی سموئل___؟

’’بھیانک۔  بہت بھیانک۔ ‘‘

’’مان لو کوئی کہتا ہے۔  فلاں چیز میری ہے۔  میں جو چاہوں کروں۔  تم اس بارے میں کیا جو اب دو گے سموئل۔  مثلاً کوئی کہتا ہے کہ بیوی میری ہے۔   فرج میری ہے۔  میں جو چاہوں کروں۔ ‘‘

’’بھیانک۔  بہت بھیانک۔  سموئل کے چہرے کے رنگ بدل رہے تھے۔

’’اور مان لو سموئل دنیا ختم ہو جاتی ہے بس ایک ایٹم بم یا اس سے بھی کوئی بھیانک ہتھیار۔  ویتنام کے شعلے تو سیگون ندی سے اٹھ کر آسمان چھو گئے تھے۔ مان لو، صرف دوہی شخص بچتے ہیں اور دنیا کا سفر جاری رہتا ہے۔ ایک باپ ہے اور دوسری۔ ‘‘

بہت بھیانک۔  سموئل چیخا___ بس کرو۔  میں اور تاب نہیں لا سکتا۔ ‘‘

وہ جبر، کشمکش کا ٹوٹ جانے والا لمحہ اس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک ہو سکتا ہے سموئل___ ایک بچی___ ’چھوٹی ہے۔  باپ اسے دلار کر رہا ہے___ پیار کر رہا ہے، بڑی ہوتی ہے___ اسکول جاتی ہے۔  بیل کی طرح بڑھتی ہے___ کونپل کی طرح پھوٹتی ہے___ گا ہے بہ گا ہے باپ کی نظریں اس پر پڑتی ہیں___ وہ اس سے بچنا چاہتا ہے۔  بچنے کے لئے وہ شادی کی بات چھیڑتا ہے___ وہ کئی کئی طرح سے اسے رخصت کرنے کی بات سوچتا ہے___ اور بس چھپنا چاہتا ہے۔  بچنا چاہتا ہے ____پھر ڈرنے لگتا ہے اپنے آپ سے۔  جیسے ایک نئی صبح شروع کرنے والے اخبار اور اخبار کی خون اگلتی سرخیوں سے۔ ‘‘

’’تم ایک گناہ کی وکالت کر رہے ہو____‘‘ سموئل پھر چیخا۔

’’نہیں، اس نے جھرجھری بھری____‘‘ جنگ ہمیں تباہ کر رہی ہے سموئل۔  اور کنڈوم ہمیں اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ‘‘

وہ جیسے ہی چپ ہوا، کچھ دیر کے لئے دونوں طرف خاموشی چھا گئی۔

               اختتام

معزز قارئین! اگر آپ اسے سچ مچ کہانی مان رہے ہیں تو اس کہانی کا اختتام بہت بھیانک ہے۔  بہتر ہے آپ اسے نہ پڑھیں اور صفحہ پلٹ دیں۔

مقدمہ ختم ہوا تو دونوں اپنے معمول میں لوٹ آئے۔

اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔  بدلی بدلی سی مسکراہٹ۔  ’’سموئل، ہر مقدمے کا ایک فیصلہ بھی ہوتا ہے۔  میں سمجھتا ہوں، تمہیں فیصلہ ابھی اسی وقت سنانا چاہئے۔ ‘‘

’’یس یور آنر۔ سموئل بے دردی سے ہنسا۔ ذرا توقف کے بعد اس نے ایک بوتل کھول لی۔ اس کی طرف دیکھ کر بولا۔  ’’دو پیگ بناؤں یور آنر۔

’’فیصلہ کا کیا ہوا۔ ؟‘‘ اس کی آنکھوں میں مدہوشی چھا رہی تھی۔

سموئل نے دو پیگ تیار کر لئے۔ پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک چیز نکالی۔ وہ اسے دکھا کر مسکرایا۔ یہ امریکن کمپنی کا بنا ہوا کنڈوم کا پیکٹ تھا۔ وہ مسکرایا۔  تو یہ ہے فیصلہ یور آنر۔  وہ آ چکی ہے۔  آواز لگاؤں۔ ‘‘

’’تم ایسے ہر معاملے میں، بہت دیر کرتے ہو سموئل۔  کہاں ہے وہ۔ ؟‘‘

اس نے گلاس ٹکرائے۔  سموئل نے دروازہ کی طرف دیکھا۔ منہ سے سیٹی بجانے کی آواز نکالی۔ اسی کے ساتھ دروازے سے ایک لڑکی برآمد ہوئی۔

معزز قارئین! ذرا ٹھہر جائیے۔ اس انجام کے لئے میرا دل سو سو آنسو رو رہا ہے مگر۔  اس لڑکی کو آپ بھی پہچانتے ہیں۔ !

٭٭٭

 

باپ اور بیٹا

               (۱)

باہر گہرا کہرا گر رہا تھا___  کافی ٹھنڈی لہر تھی۔ میز پر رکھی چائے برف بن چکی تھی۔ کافی دیر کے بعد باپ کے لب تھرتھرائے تھے۔  ’میرا ایک گھر ہے‘ اور جواب میں ایک شرارت بھری مسکراہٹ ابھری تھی۔ ’اور میں ایک جسم ہوں___ اپنے آپ سے صلح کر لو گے تب بھی ایک جنگ تو تمہارے اندر چلتی ہی رہے گی۔ ذہن کی سطح پر، ایک آگ کے دریا سے تو تمہیں گزرنا ہی پڑے گا۔ اپنے آپ سے لڑنا نہیں جانتے۔ گھر۔ بچے۔ ایک عمر نکل جاتی ہے۔ ‘

باپ اس دن جلدی گھر لوٹ آئے تھے۔ شاید، ایک طرح کے احساس جرم سے متاثر، یہ ٹھیک نہیں۔  وہ بہت دیر  تک اندھیرے کمرے میں اپنی ہی پرچھائیوں سے لڑتے رہے۔ کمرے میں اندھیرا اور سکون ہو تو اچھا خاصا میدان جنگ بن جاتا ہے۔ خود سے لڑتے رہو۔  میزائلیں چھوٹتی ہیں___ تو پین چلتی ہیں___ اور کبھی کبھی اپنا آپ اتنا لہو لہان ہو جاتا ہے کہ۔  تنہائیوں سے ڈر لگنے لگتا ہے۔  مگر تھکے ہوئے پریشان ذہن کو کبھی کبھی انہیں تنہائیوں پر پیار آتا ہے۔ یہ تنہائیاں قصے ’’جنتی‘‘ بھی ہیں اور قصے سنتی بھی ہیں___

کمرے میں اتری ہوئی یہ پرچھائیاں دیر تک باپ سے لڑتی رہی تھیں۔  پاگل ہو۔  تم ایک باپ ہو۔  ایک شوہر ہو۔  باپ گہری سوچ میں گُم تھے۔ جسم کی مانگ کچھ اور تھی شاید۔ مگر نہیں۔  شاید یہ جسم کی مانگ نہیں تھی۔ جسم کو تو برسوں پہلے اداس کر دیا تھا انہوں نے___  بس ایک کھردری تجویز___  جیسے بوڑھے ہونے کے احساس سے خود کو بچائے رکھنے کی ایک ضروری کارروائی بس___ زندگی نے شاید اداسی کے آگے کا، کوئی خوبصورت سپنا دیکھنا بند کر دیا تھا___

اور ایک دن جیسے باپ نے زندگی کی دور تک پھیلی گپھا میں اپنے مستقبل کا اختتامیہ پڑھ لیا تھا۔  ’بس۔  یہی بچے۔  انہی میں سمائی زندگی اور۔  یہی اختتام ہے۔  فل اسٹاپ؟‘

وہ اندر تک لرز گئے تھے۔

باپ اس کے بعد بھی کئی دنوں تک لرزتے رہے تھے۔ دراصل باپ کو یہ روٹین لائف والا جانور بننا کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ مگر شادی کے بعد سے، جیسے روایت کی اس گانٹھ سے بندھے رہ گئے تھے۔ بس یہیں تک۔ پھر بچے ہوئے اور اندر کا وہ رومانی آدمی، زندگی کی ان گنت شاہراہوں کے بیچ کہیں کھو گیا، باپ کو اس کا پتہ بھی نہیں چلا۔

               (۲)

باپ کے اس بدلاؤ کا بیٹے کو احساس تھا۔ ہو سکتا ہے، گھر کے دوسرے لوگ بھی باپ کی خاموشی کو الگ الگ طرح سے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں، مگر باپ اندر ہی اندر کون سی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ بیٹے سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ یہ نفسیات کی کوئی ایسی بہت باریک تہہ بھی نہیں تھی، جسے جاننے یا سمجھنے کے لئے اسے کافی محنت کرنی پڑی ہو۔ باپ کی اندرونی کشمکش کو اس نے ذرا سے تجزیے کے بعد ہی سمجھ لیا تھا۔

باپ میں ایک مرد لوٹ رہا ہے؟

شاید باپ جیسی عمر کے سب باپوں کے اندر، اس طرح سوئے ہوئے مرد لوٹ آتے ہوں؟

باقی بات تو وہ نہیں جانتا مگر باپ اس ’مرد‘ کو لے کر الجھ گئے ہیں___ ذرا سنجیدہ ہو گئے ہیں۔ تو کیا باپ بغاوت کر سکتے ہیں۔ ؟

بیٹے کو احساس تو تھا کہ باپ کے اندر کا مرد لوٹ آیا ہے مگر وہ اس بات سے نا آشنا تھا کہ باپ گھر والوں کو اس مردانگی کا احساس کیسے کرائیں گے؟ باپ کو، گھر والوں کو اس مردانگی کا احساس کرانا بھی چاہئے یا نہیں___ ؟

ہو سکتا ہے آپ یہ پوچھیں کہ بیٹے کو اس بات کا پتہ کیسے چلا کہ باپ کے اندر کا ’مرد‘ لوٹ آیا ہے؟۔  تاہم یہ بھی صحیح ہے کہ باپ میں آنے والی اس تبدیلی کو گھر والے طرح طرح کے معنی دے رہے تھے۔ جیسے شاید ماں یہ سوچتی ہو کہ پنکی اب بڑی ہو گئی ہے، اس لئے باپ ذرا سنجیدہ ہو گئے ہیں۔

لیکن بیٹے کو اس منطق سے اتفاق نہیں اور اس کی وجہ بہت صاف ہے۔ باپ کی حیثیت بیٹے کو پتہ ہے___ دس پنکیوں کی شادی بھی باپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں، باپ کے پاس کیا نہیں ہے، کار، بنگلہ اور ایک کامیاب آدمی کی شناخت___ لیکن بیٹے کو پتہ ہے اس شناخت کے بیچ، اچانک کسی تنہا گوشے میں  کوئی درد اتر آیا ہے۔

باپ کے اندر آئی ہوئی تبدیلیوں کا احساس بیٹے کو بار بار ہوتا رہا۔  جیسے اس دن۔  باپ اچانک رومانٹک ہو گئے تھے۔

***

’’تمہیں پتہ ہے، باتھ روم میں یہ کون گا رہا ہے؟‘‘ اس نے ماں سے پوچھا تھا، ایک بے حد روایتی قسم کی ماں۔

ماں کے چہرے پر سلوٹیں تھیں۔

’’میں نے پاپا کو کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا، کیوں ماں؟‘‘

ماں کے چہرے پر بل تھے۔

’’وہ ٹھیک تو ہیں نا؟‘‘ ماں کے لہجے میں ڈر تھا۔

’’کیوں؟‘‘

’’انہیں کبھی اس طرح گاتے ہوئے۔ ‘‘

بیٹے کو ہنسی آ گئی۔ ’’کمال کرتی ہو تم بھی ماں___ یعنی باپ کو کیسا ہونا چاہئے۔ ہر وقت ایک فکرمند چہرے والا، جلاد نما۔  غصیلا، آدرش وادی‘‘۔  بیٹا مسکراتے ہوئے بولا۔  ’’باپ میں بھی تو جذبات ہو سکتے ہیں‘‘ بیٹے نے پروا نہیں کی۔ ماں اس کے آخری جملے پر دکھی ہو گئی تھی۔  شاید ماں کو اس کے آخری جملے سے شبہ ہوا تھا۔ پورے بیس سال بعد۔ باپ کے تئیں۔  کہیں باپ میں۔

ماں نے فوراً ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی تسلی کا سامان کیا تھا۔  ’کوئی زور دار رشوت ملی ہو گی۔ ‘ ماں کو پتہ تھا کہ کسی سرکاری افسر کو بھی اتنا سب کچھ آرام سے نہیں مل جاتا، جتنا کہ اس کے شوہر نے حاصل کیا ہوا تھا۔

باپ اس دن رومانٹک ہو گئے تھے۔ پھر بعد میں کافی سنجیدہ نظر آئے___  جیسے تپتی ہوئی زمین پر بارش کی کچھ بوندیں برس جائیں۔ بیٹا دل ہی دل میں مسکرایا تھا۔  ہو نہ ہو یہ مینہ برس جانے کے بعد کا منظر تھا۔ باپ کی زندگی میں کوئی آگیا ہے۔ پہلے باپ کو اچھا لگا ہو گا اس لئے باپ تھوڑے سے رومانی ہو گئے ہوں گے۔ پھر باپ کو احساس کے آکٹوپس نے جکڑ لیا ہو گا۔  بیٹے کو اب باپ کی ساری کارروائیوں میں مزہ آ رہا تھا۔

               (۳)

باپ کو یہاں تک، یعنی اس منزل تک پہنچنے میں کافی محنت کرنی پڑی تھی___ جدوجہد کے کافی اوبڑ کھابڑ راستوں سے گزرنا پڑا تھا۔ بیٹے کو پتہ تھا کہ باپ شروع سے ہی رومانی رہا ہے___  جذباتی___  آنکھوں کے سامنے دور تک پھیلا ہوا چمکتا آسمان۔ بچپن میں چھوٹی چھوٹی نظمیں بھی لکھی ہوں گی۔ ان نظموں میں اس وقت رچنے بسنے والے چہرے بھی رہے ہوں گے۔ تب گھر کے اداس چھپروں پر خاموشی کے کوے بیٹھے ہوتے تھے۔ باپ کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ خوشبوؤں کے درختوں پر رہنے والی رومانی تتلیوں کی تلاش میں اسے ذرا سا پریکٹیکل بننا ہو گا۔ باپ ہوشیار تھا۔ اس نے پتھریلے راستے چنے___  نظموں کی نرم و نازک دنیا سے الگ کا راستہ۔ ایک اچھی نوکری اور گھر والوں کی مرضی کی بیوی کے ساتھ زندگی کے جزیرے پر آگیا۔ مگر وہ رومانی لہریں کہاں گئیں یا وہ کہیں نہیں تھیں۔  یا اس عمر میں سب کے اندر ہوتی ہیں___  باپ کی طرح۔ اور سب ہی انہیں اندر چھوڑ کر بھول جاتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی میں کبھی کوئی سیلاب نہیں آتا تھا۔ مگر باپ کی آنکھوں میں سیلاب آ چکا تھا، اور وہ بھی اچانک___  اور وہ بھی ایسے وقت جب پنکی جوان ہو چکی تھی اور بیٹے کی آنکھوں میں رومانی لہروں کی ہلچل تیز ہو گئی تھی۔ ٹھیک بیس سال پہلے کے باپ کی طرح۔ لیکن بیس سال بعد کا یہ وقت اور تھا، باپ والا نہیں۔

بیٹے کے ساتھ باپ جیسی اداس چھپر کی داستان نہیں تھی۔ بیٹے کے پاس باپ کا بنگلہ تھا۔ ایک کار تھی۔ کار میں ساتھ گھومنے والی یوں تو کئی لڑکیاں تھیں، مگر سمندر کی بہت ساری لہروں میں سے ایک لہر اسے سب سے زیادہ پسند تھی۔ بیٹے کو سب سے زیادہ گدگداتی تھی۔  اور بے شک بیٹا اس کے لئے، اس کے نام پر رومانی شاعری بھی کر سکتا تھا۔

بیٹے کے سامنے مشاہدہ ’منطق اور تسلیوں کے سب دروازے کھلے تھے۔ بیٹا، انٹرنیٹ، کلون اور کمپیوٹر پر گھنٹوں باتیں کر سکتا تھا، اسے اپنے وقت کی ترقی کا اندازہ تھا۔ بہت ترقی یافتہ ملک کا شہری نہ ہونے کے باوجود، خود کو ترقی یافتہ سمجھنے کی بہت سی مثالیں وہ گھڑ سکتا تھا۔

ہاں، یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی وہ پھسل بھی جاتا تھا۔ جیسے، اس دن۔  اس خشک شام۔  کافی شاپ میں بیٹے کی نظر اچانک اس طرف چلی گئی۔ اس طرف___ مگر جو وہ دیکھ رہا تھا وہ صد فی صد سچ تھا۔ اس نے دانتوں سے انگلیوں کو دبایا۔ نہیں جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا، وہ قطعی طور پر نظروں کا دھوکہ نہیں تھا___  اس کے ٹیبل کے بائیں طرف والی ٹیبل، ٹیبل پر رینگتا ہوا ایک مردانہ ہاتھ۔  کافی کی پیالیوں کے بیچ تھرتھراتا ہوا ایک زنانہ ہاتھ۔  سخت کھردری انگلیاں، دھیرے سے ملائم انگلیوں سے ٹکرائیں۔

’’چھپکلی!‘‘ بیٹے کے اندر کا ترقی یافتہ آدمی سامنے تھا۔

’’کیا؟‘‘ لڑکی اچھل پڑی تھی۔

’’نہیں۔ ‘‘

’’تم نے ابھی تو کہا۔ ‘‘

’’نہیں۔ کچھ نہیں بس یہاں سے چلو‘‘

بیٹا سیٹ چھوڑ کر اٹھ گیا تھا۔ لڑکی حیران تھی___

’’کیوں چلوں، ابھی ابھی تو ہم آئے ہیں۔ ‘‘

لڑکی کی آنکھوں میں شرارت تھی___  ’’کوئی اور ہے کیا؟‘‘

اٹھتے اٹھتے۔ پلٹ کر لڑکی نے اس سمت دیکھ لیا تھا، جہاں۔

دونوں باہر آ گئے۔ باہر آ کر لڑکی کے لہجے میں تلخی تھی___

’’کون تھا وہ؟‘‘

’’کوئی نہیں‘‘

’’پھر باہر کیوں آ گئے؟‘‘

’’بس یوں ہی۔ ‘‘

’’یوں ہی نہیں۔ سنو‘‘___ لڑکی اس کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی مسکرا رہی تھی۔

’’کوئی تمہاری جان پہچان کا تھا؟‘‘

وہ چپ رہا۔

لڑکی کی آنکھوں میں ایک پل کو کرسی پر بیٹھے اس شخص کا چہرہ گھوم گیا___

’’سنو اس کا چہرہ کچھ جانا پہچانا سا لگا‘‘

’’تم ناحق شک کر رہی ہو‘‘

’’سنو، وہ تم تو نہیں تھے؟‘‘ لڑکی ہنس دی۔

’’پاگل!‘‘ لڑکے کا بدن تھرتھرایا۔

’’اچھا، اب میں جان گئی کہ اس کا چہرہ جانا پہچانا کیوں لگا‘‘ لڑکی زور زور سے ہنس پڑی۔  اور  میں نے یہ کیوں کہ کہا کہ۔  وہ تم تو نہیں تھے‘‘

’’پھر۔ ‘‘ لڑکے کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک اٹھیں___

’’کیوں کہ وہ تمہارے۔  تمہارے ڈیڈ تھے، تھے نا؟ اب جھوٹ مت بولو مگر ایک بات سمجھ نہیں سکی۔ تم بھاگ کیوں آئے۔ ؟‘‘

لڑکی حیران تھی۔  ’’تمہاری طرح تمہارے ڈیڈ کو، یا ہمارے پیرینٹس کو یہ سب کرنے کا حق کیوں نہیں؟‘‘

بیٹے کو اب دھیرے دھیرے ہوش آنے لگا تھا۔ ’’آؤ کہیں اور بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ ‘

               (۴)

باپ ان دنوں عجیب حالات سے دوچار تھا۔ باپ جانتا تھا کہ ان دنوں جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہو رہا ہے، اس کے پیچھے ایک لڑکی ہے۔ لڑکی جو پنکی کی عمر کی ہے تاہم باپ جیسا اسٹیٹس(Status) رکھنے والوں کے لئے اس طرح کی باتیں کوئی خبر نہیں بنتی ہیں، مگر باپ کی بات دوسری تھی۔ باپ اس معاشرے سے تھا، جہاں ایک بیوی اور ایک خوشگوار گھریلو زندگی کا ہی سکہ چلتا ہے۔ یعنی جہاں ہر بات کسی نہ کسی سطح پر خاندانی پن سے جڑ جاتی ہے۔ زندگی کے اس الجھے ہوئے پل سے گزرتے ہوئے باپ کو اس بات کا احساس ضرور تھا کہ وہ لڑکی یونہی نہیں چلی آئی تھی۔ دھیرے دھیرے ایک ویکیوم یا خالی پن اس میں ضرور سما گیا تھا جس کی خانہ پری کے لئے کسی چور دروازے سے وہ لڑکی، اس کے اندر داخل ہو کر اس کے ہوش و حواس پر چھا گئی تھی۔ کہیں ایک عمر نکل جانے کے بعد بھی ایک عمر رہ جاتی ہے، جو زندگی کے تپتے ریگستان میں کسی امرت یا کسی ٹھنڈے پانی کے جھرنے کی آرزو رکھتی ہے۔ باپ نے سب کچھ تو حاصل کر لیا تھا، مگر اسے لگتا تھا، سب کچھ پا لینے کے باوجود وہ کسی مشینی انسان یا روبوٹ سے الگ نہیں ہے___ اور یہ زندگی صرف اتنی سی نہیں ہے۔ وہ ایسے بہت سے لوگوں کی طرح زندگی بسر کرنے کے خلاف تھا، جن کے پاس جینے کے نام پر کوئی بڑا مقصد نہیں ہوتا۔ یا جو اپنی تمناؤں اور آرزوؤں اور زندگی کے تئیں سبھی طرح کے رومان کو سلاکر اداس ہو جاتے ہیں___ باپ کے نزدیک ایسے لوگوں کو بس یہی کہا جا سکتا تھا۔ ایک ناکام آدمی! لیکن اچانک باپ کو لگنے لگا تھا۔ کیا وہ بھی ایک ناکام آدمی ہے؟

دراصل باپ کے اندر ’تبدیلی‘ لانے میں اس سپنے کا بھی ہاتھ رہا تھا۔  کہنا چاہئے وہ ایک بھیانک سپنا تھا اور باپ کے لئے کسی ذہنی حادثے سے کم نہیں۔ کیا ایسے سپنے دوسروں کو بھی آتے ہیں یا آ سکتے ہیں؟ دنیا سے اگر اچھائی برائی۔ گناہ و ثواب جیسی چیزیں ایک دم سے کھو جائیں تو؟ اس سے زیادہ ذلیل سپنا۔ نہیں، کہنا چاہئے باپ ڈر گیا تھا، وہ ایک عام سپنا تھا___ جیسے سپنے عنفوان شباب میں عام طور پر آتے رہتے ہیں۔ سپنے میں کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی، بلکہ بہت ہی معمولی سا سپنا۔ جو بہت سے ماہرین نفسیات جیوی ریڈلس، پیٹرہاوز اور فرائڈ کے مطابق۔ ناآسودہ خواہشات والے بوڑھے شخص کے لئے یہ کوئی غیر معمولی حادثہ نہیں___  یعنی سپنے میں کسی سے زنا بالجبر___ باپ سے سپنے میں ایسے ہی جرم کا ارتکاب ہوا تھا___  لڑکی خوف زدہ حالت میں پیچھے ہٹتی گئی تھی۔ باپ پر پاگل پن سوار تھا۔  چر۔ ر۔ سے آواز ہوئی، خوف زدہ لڑکی کا گداز جسم اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ تپتے ریگستان میں جیسے ٹھنڈے پانی کی ایک بوند۔ بوند۔  ٹپ سے گری۔

سقراط اور ارسطو سے لے کر سگمنڈ فرائڈ تک، سبھی کا یہ ماننا ہے کہ۔  سپنوں میں کہیں نہ کہیں دبی خواہشات اور جنسی افعال رہتے ہیں۔  تو کیا جو کچھ سپنے میں ہوا۔  وہ۔

تو کیا یہ باپ کی کوئی دبی خواہش تھی؟ نا آسودہ خواہشات فقط جنسی ہیجانات ہی ہوتے ہیں، باپ کو پتہ تھا۔

سپنوں کے بارے میں باپ کا کوئی گہرا مطالعہ تو نہیں تھا پھر بھی اپنی دلچسپی کے لحاظ سے باپ ایسی باتوں سے آشنا تھا۔ کلیئرواینٹ، ٹیلی پیتھی، پریکا گنیشن، رینڑوکا گنیشن سے لے کر سپنوں میں ہونے والی جنسی خواہش وغیرہ کے بارے میں اسے مکمل جانکاری تھی، باپ کو لگا، عصمت دری کا مرتکب شخص وہ نہیں، کوئی پریت آتما ہے؟ (ایسی پریت آتماؤں کو پیرا نفسیاتی زبان میں انکیوبی اور سکیوبی نام دیئے گئے ہیں۔ یہ شیطانی روحیں عورت اور مرد میں سوئی روحوں کے ساتھ اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرتی ہیں۔  تو کیا وہ سچ مچ باپ نہیں تھا۔  وہ کوئی بد روح تھی؟)

لیکن یہ تسلی کچھ زیادہ جاندار نہیں تھی۔ اس نے نفسیات اور پیرا نفسیات کے سارے چیتھڑے بکھیر دیئے تھے۔ باپ کے لئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا۔ اس لئے کہ سپنے میں جس لڑکی کے ساتھ باپ نے زنا بالجبر کیا تھا۔ وہ لڑکی پنکی تھی۔

دیر تک باپ کا بدن کسی سوکھے پیڑ کی مانند تیز ہوا سے ہلتا رہا تھا۔ انسان کے ذہنی حرکات و سکنات کو قابو کرنے والے جذبے کا نام ہے LIBIDO ___یہ مرد، عورت کے ملن سے ہی ممکن ہے۔ اپنے من چاہے ساتھی کے ساتھ جنہیں اس خواہش کی تکمیل میسر ہوتی ہے وہ ذہنی اعتبار سے صحت مند ہو جاتے ہیں___ اپنی پسند کی تسکین حاصل نہ ہو تو ذہن میں دبی خواہش ڈراؤنے خوابوں کو جنم دیتی ہے۔ تو کیا باپ نا آسودہ تھا؟ بہت دنوں تک عورت کے بدن کی شبیہیں جیسے اوکھلی، دوات، کمرا، کنواں وغیرہ اس کے سپنوں میں ابھرتے رہے اور ان سپنوں کا خاتمہ کہاں ہوا تھا۔  وہ بھی ایک ایسے ’’زانی‘‘ کے ساتھ۔ اس نے پوری ننگی عورت کے ساتھ مباشرت کی تھی___

باپ گہرے سناٹے میں تھا۔ ایسے گہرے سناٹے میں، جہاں اس طرح کے تجزیے بھی غیر ضروری معلوم ہونے لگتے ہیں کہ۔  وہ ابھی تک صحت مند ہے؟ جوانی ابھی اس میں باقی ہے۔  ابھی تک اس میں پت جھڑ نہیں آیا۔ بیوی کی طرح۔  وہ کسی ٹھنڈے سوکھے کنویں میں نہیں بدلا۔ جانگھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جسم میں، خون کی تمام لہروں پر اس کی نظر رہتی ہے۔ ایک گرم جسم شاید اس کے جوان بیٹے سے بھی زیادہ گرم، بیوی نے برسوں پہلے جیسے یہاں، سکھ کے اس مرکز پر دیوار اٹھا دی تھی۔ اس کے پاس سب سے زیادہ باتیں تھیں پنکی کے بارے میں، پنکی کے لئے اچھا سا شوہر ڈھونڈنے کے سپنے کے بارے میں شاید بیوی کے پاس مستقبل کے نام پر کچھ اور بھی بوڑھے سپنے رہے ہوں، مگر۔

اس دن پنکی شاور سے نکلی تھی، نہا کر۔ شاید باپ کسی ایسے ہی کمزور لمحے میں، وقت سے پہلے اپنی بیٹی کی شادی کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ باپ نے نظر نیچی کر لی تھی پنکی کے جسم سے میزائلیں چھوٹ رہی تھیں۔ اس نے شلوار اور ڈھیلے گلے کا جمپر پہن رکھا تھا۔ وہ سر جھکائے تولیے سے بال سکھا رہی تھی۔ پہلی ہی نظر میں اس نے آنکھ جھکا لی تھی، آہ! کسی بھی باپ کے لئے ایسے لمحے کتنے خطرناک اور چیلنج سے بھرپور ہوتے ہیں۔

تو کیا اس اَن چاہے سپنے کے لئے یہ منظر ذمہ دار تھا، یا۔  اس کے اندر دبی خواہش نے اسے ظالم حکمراں میں بدل دیا تھا۔

خالی دماغ شیطان کا گھر___ باپ خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنا چاہتا تھا۔ گزرے ہوئے بہت سارے خوبصورت لمحوں یا بچھڑی ہوئی ا س رومانی دنیا میں ایک بار پھر اپنی واپسی چاہتا تھا۔ اپنی حدوں کو پہچاننے کے باوجود۔  شاید اسی لئے لڑکی کی طرف سے ملنے والی لگاتار دعوتوں کو ٹھکرانے کے بعد، اس دن، اس نے، اسے پہلی بار منظوری دی تھی۔

               (۵)

’’چلو!کہیں باہر چائے پینے چلتے ہیں۔ ‘‘

بیٹا کچھ دیر تک خاموش رہا۔

لڑکی کے لئے تجسس کا موضوع دوسرا تھا۔ اس نے پوچھا۔ ’’تمہیں پہلی بار کیسا لگا اپنے باپ کو دیکھ کر۔ ‘‘ وہ تھوڑا مسکرائی تھی۔ ’’عشق فرماتے ہوئے دیکھ کر؟‘‘

’’باپ ہمیں دیکھ لیتے تو، کیسا لگتا انہیں‘‘۔

لڑکی کو یہ جواب کچھ زیادہ پسند نہیں آیا___

لڑکا کچھ اور سوچ رہا تھا۔ ’’اچھا مان لو، وہ باپ کی گرل فرینڈ نہ ہو۔ وہ بس باپ کے دفتر میں کام کرنے والی ایک عورت ہو۔ ‘‘

’’عورت نہیں۔ ایک کمسن، جوان اور خوبصورت لڑکی، جیسی میں ہوں‘‘___ لڑکی ہنسی۔ ’’میری عمر کی۔ ؟‘‘

’’کیا اس عمر کی لڑکیاں دفتروں میں کام نہیں کرتیں؟‘‘

’’کرتی کیوں نہیں۔ باپ جیسے لوگ ان کے ساتھ چائے پینے بھی آتے ہوں گے، مگر وہ۔  میرا دعویٰ ہے، جس طرح تمہارے پاپا نے۔  اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا، میرا یقین ہے، وہ تمہارے پاپا کی گرل فرینڈ ہی ہو گی۔ ‘‘

’’اچھا بتاؤ، مجھے کیسا لگنا چاہئے تھا؟‘‘

’’مجھے نہیں پتہ۔ ‘‘

’’اچھا بتاؤ۔ اگر وہ تمہارے پاپا ہوتے تو۔ ؟‘‘

لڑکی نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ ’’میرے پاپا ممی میں طلاق ہو چکی ہے۔ میں ممی کے ساتھ رہتی ہوں، اس لئے کہ پاپا کی زندگی میں کوئی اور آ گئی تھی۔ ہو سکتا ہے وہ اس کے ساتھ ایسے ہی گھومتے ہوں جیسے۔ ‘‘

’’اس حادثے کے بعد تمہارے ممی نے کسی کو نہیں چاہا؟‘‘

’’نہیں، لیکن یہ ممی کی غلطی تھی جو یہ سوچتی ہیں کہ جوان ہوتی لڑکی کی موجودگی میں کسی کو چاہنا گناہ ہے۔ کبھی کبھی مجھے ممی پر غصہ آتا ہے۔ صرف میرے لئے ایک پوری زندگی انہیں دیوداسی کی طرح گزارنے کی کیا ضرورت تھی۔ میرے لئے، میرے ساتھ رہنے والی زندگی کا خاتمہ اس طرح ہو جائے، یہ مجھے گوارا نہیں۔ ‘‘

’’مان لو اگر تمہاری ممی کا کوئی رومانس شروع ہو جاتا تو۔ ؟‘‘

’’ایک سدیش انکل تھے۔ ممی کا خیال رکھتے تھے مگر ممی نے سخت لفظوں میں انہیں آنے سے منع کر دیا۔ ‘‘

’’کیا تمہیں یقین ہے کہ ممی کے اندر، تمہاری طرح ایک جوان عورت بھی ہو گی؟‘‘

’’مجھے یقین ہے کہ ممی سدیش انکل کو بھولی نہیں ہوں گی اور یہ کہ۔  ان کے اندر کوئی نہ کوئی بھوک ضرور دبی ہو گی۔ میں جانتی ہوں، ممی اس بھوک کو لئے ہوئے ہی مر جائیں گی۔ ‘‘

بیٹے کی آنکھوں میں اُلجھن کے آثار تھے۔ تو کیا باپ بھی اسی طرح برسوں سے اپنی بھوک دبائے ہوئے ہوں گے؟

’’تمہاری ممی کیسی ہیں؟‘‘

’’ہمارے لئے بہت اچھی۔ ہاں !پاپا کے لئے نہیں۔  لگتا ہے۔ ممی اس عمر میں صرف ہمارے لئے رہ گئی ہیں۔ وہ پاپا کے لئے نہیں ہیں۔ ‘‘

لڑکی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’پاپا کی زندگی میں ’کئی‘ آ جائیں تو بھیانک بات نہیں۔ ایسے بہت سے مرد ہمارے سماج میں ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ بہت سی گھر والیاں بھی یہ سب جانتے ہوئے چپ رہ جاتی ہیں۔ اس سے گھر نہیں ٹوٹتا۔ باپ کی زندگی میں کوئی دوسرا آ جائے، تب خطرے کی بات ہے۔ اس دوسرے کے آنے سے گھر ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ جیسا، میرے باپ کے ساتھ ہوا۔ ‘‘

’’پتہ نہیں، باپ کیا کریں گے۔ ‘‘ لڑکے کو فکر تھی۔ ’’لیکن ایک بات کہوں یہ دہرے پن کا زمانہ ہے، دہرے پن کا۔ ‘‘

لڑکی ہنسی___ سیدھی سچی بات کہوں تو ’’دوغلا بن کر ہی جی سکتے ہو تم۔ آرام سے___ زندگی میں بیلینس کے لئے دوہرے پن کا کردار ضروری ہے یعنی آپ ایک وقت میں دو جگہ ہو سکتے ہیں۔ الگ الگ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے۔ سیدھے سیدھے کہوں تو، اگر آپ بیوی ہیں تو آپ کو بھولنا ہو گا کہ گھر سے باہر  آپ کا شوہر کیا کرتا ہے اور اگر شوہر ہیں تو بھول جائیے کہ باقی وقت آپ کی بیوی کیا کرتی ہے۔ اس مارکیٹنگ ایج میں اگر آپ اخلاقی اقدار یا روایات کی بات کریں گے تو خسارہ آپ کا ہی ہو گا۔ ‘‘

لڑکا بولا۔ ’’شاید اتنا کچھ قبول کرنا سب کے لئے آسان نہ ہو۔ ‘‘

’’تمہارے باپ کی زندگی میں ایک لڑکی آ چکی ہے، یہ قبول کرتے ہوئے تمہیں کیسا لگے گا؟‘‘

لڑکے نے بہت سوچنے کے بعد کہا___ ’’ابھی اس میز پر بیٹھ کر میں اس کا جواب صحیح طور پر نہیں دے پاؤں گا۔ ‘‘

***

باپ کے لئے یہ ایک غیر متوقع سمجھوتہ تھا۔ یعنی اس سپنے سے اس لڑکی تک کا سفر۔ لڑکی کا ساتھ پاکر جیسے اس کا پورا جسم گنگنا اٹھا تھا۔ نہیں، اس سے بھی زیادہ۔ باپ کا جسم جیسے اچانک وائلن میں بدل گیا ہو اور وائلن کے تار جھنجھنا کر مستی بھری دھنیں پیدا کر رہے ہوں۔

لڑکی کم عمر تھی، باپ نے پوچھا___

’’تم نے اپنی عمر دیکھی ہے؟‘‘

’’ہاں۔ ‘‘ لڑکی ڈھٹائی سے مسکرائی۔ ’’اور تم نے؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’تمہاری جیسی عمر کو میری ہی عمر کی ضرورت ہے‘‘

’’اور تمہاری عمر کو۔ ؟‘‘ باپ اس فلسفے پر حیران تھا۔

لڑکی مدہوش تھی۔ ’’نئے لڑکے نا تجربہ کار ہوتے ہیں___ مورتی کی تراش خراش سے واقف نہیں ہوتے۔ اس عمر کو ایک تجربہ کار مرد کو ہی سوچنا چاہئے۔ جیسے تم۔ ‘‘ لڑکی ہنسی تھی۔

***

گھر آ کر بھی باپ کو لڑکی کی ہنسی یاد رہی۔ اس دن لڑکی کے صرف ہاتھوں کے لمس اور خوشبو نے، گھر میں طرح طرح سے اس کی موجودگی درج کرا دی تھی۔ جیسے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھاتے ہوئے دفعتاً غیر شعوری طور پر اس کے ہاتھ ’طبلہ‘ بن گئے تھے۔ جیسے باتھ روم میں وہ یونہی گنگنانے لگا تھا۔ جیسے۔  اور بھی بہت کچھ ہوا تھا۔ مگر شاید اب وہ یاد کرنے کی حالت میں نہیں تھا۔  کیونکہ اب اس لمس یا خوشبو سے گزرتے ہوئے وہ ساری رات اپنی ’اگنی پریکشا‘ دینے پر مجبور تھا۔ پتہ نہیں، بیوی کو اس بدلاؤ پر حیران ہونا چاہئے تھا یا نہیں؟ مگر بیوی ڈر چکی تھی یہ سوچتے ہوئے کہ اس کا شوہر کسی سخت ذہنی الجھن میں گرفتار ہے۔ وہ اپنے باپ کے گھر کی روایت کو نبھانے یا بیوی کا دھرم نبھانے پر مجبور تھی___ اور وہ بار بار شوہر کے آگے پیچھے گھوم کر کچھ ایسی مضحکہ خیز صورت حال پیدا کر رہی تھی جیسے کسی چھوٹے بچے پر پاگل پن کا دورہ پڑا ہو اور ماں اپنی مکمل ممتا بچے پر انڈیل دینا چاہتی ہو۔ شوہر کے بدلاؤ پر اس کا ذہن کہیں اور جانے کی حالت میں نہیں تھا۔

’’پنکی کے لئے پریشان ہو؟‘‘

باپ کی مٹھیاں سختی سے بھنچ گئیں۔ ابھی ابھی تو وہ یک ڈراؤنے سپنے کے سفر سے واپس لوٹا تھا۔

’’مت سوچو زیادہ‘‘

’’نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں‘‘

’’قرض چڑھ گیا ہے؟‘‘

’’نہیں‘‘

’’نوکری پر۔  کوئی۔ ‘‘

’’کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ‘‘ باپ کا لہجہ ذرا سا اکھڑا ہوا تھا۔

’’لاؤ سر میں تیل ڈال دوں۔ ‘‘

باپ نے گھور کر دیکھا۔ بیوی کے چہرے کی جھریاں کچھ زیادہ ہی پھیل گئی تھیں۔ سر پر تیل بھی چپڑا ہوا تھا۔ تیل ڈالنے سے سر کے بال اور بھی چپک گئے تھے___

’’نہیں، کوئی ضرورت نہیں ہے، اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ ‘‘

دوسرے دن بھی ماں پریشان رہی۔

بیٹے نے ماں کو دیکھ کر چٹکی لی۔  ’’تم نے کچھ محسوس کیا؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’تم محسوس کر بھی نہیں سکتی ہو!‘‘

’’کیوں؟‘‘ ماں کے لہجے میں حیرانی تھی۔

’’کیونکہ تمہارے مقابلے میں، باپ ابھی تک جوان ہے۔ ‘‘

ماں کو خوفزدہ چھوڑ کر بیٹا آگے بڑھ گیا۔

اسی دن شام کے وقت بیٹے نے اپنی محبوبہ سے کہا۔

’’سب کچھ خیال کے مطابق ہی چل رہا ہے‘‘

’’کیسا لگ رہا ہے تمہیں؟‘‘

’’کہہ نہیں سکتا، مگر لگتا ہے، کشش کے لئے ہر عمر ایک جیسی ہے۔ ‘‘

’’یا ہر عمر کی کشش ایک جیسی ہوتی ہے‘‘

’’شاید۔ مگر شاید میں اتنے تذبذب میں نہ ہوتا باپ کی عمر میں پہنچ کر‘‘

’’ہر عمر ایک جیسی ہوتی ہے۔ حادثات اپنا چہرہ بدلتے رہتے ہیں‘‘ بدلتے صرف حادثات ہیں لڑکی بولی۔ ’’خیر اس دن میں نے تم سے پوچھا تھا۔  تمہارے باپ کی زندگی میں ایک لڑکی آ چکی ہے یہ قبول کرتے ہوئے تمہیں کیسا لگے گا؟‘‘

’’ابھی تک کچھ سوچ پانے کی حالت میں نہیں ہوں‘‘

لڑکی پھر ڈھٹائی سے ہنس دی۔  ’’اور شاید آگے بھی نہ ہو ا س لئے کہ باپ پر غور فکر کرتے ہوئے تم صرف باپ پر غور نہیں کر رہے ہو بلکہ باپ کے ساتھ اپنے، پنکی، ماں اور صورت حال پر بھی غور کر رہے ہو۔ ا ن سب کو ہٹا کر صرف باپ کے بارے میں سوچو۔ ‘‘

’’لیکن ایسا کیسے ممکن ہے۔ ؟‘‘

لڑکی نے پتہ نہیں کس سوچ کے تحت کہا۔ ’’اسے ممکن بناؤ ورنہ ایک بار پھر یہ دنیا جڑنے کے بجائے ٹوٹ جائے گی۔ ‘‘

               (۶)

باپ کو کوئی فیصلہ نہیں لینا تھا۔ بلکہ اندر بیٹے بوجھل آدمی کو ذرا سا خوش کرنا تھا۔ کسی کا ذرا سا ساتھ اور بدلے میں بہت سی خوشیاں یا بے رنگ کاغذ پر نقاشی کرنی تھی۔ ایک کامیاب آدمی کے اندر چھپے ناکام اور ڈرپوک آدمی کو ٹھنڈے اور خوشگوار ہوا کے جھونکے کی تلاش تھی اور یہ کوئی ایسی بے ایمانی بھی نہیں تھی۔ اس میں کوئی مکر و فریب بھی نہیں تھا۔ ریگستان کی تپتی زمین پر جیسے کسی امرت بوند کی تلاش۔ شاید اسی نا آسودہ جنسی خواہش نے اس اذیت ناک سپنے کو جنم دیا تھا۔ باپ اس نئی رفاقت کو کامیابی کی کنجی بھی مان سکتا تھا کہ تسکین میں ہی کامیابی چھپی ہے۔ تسکین ذہنی طور پر اسے غیر صحتمند نہیں رہنے دیتی۔ وہ آرام سے پنکی کی شادی کرتا۔ بیوی سے دوچار اچھی بری باتیں، بیٹے کے ساتھ تھوڑا ہنسی مذاق اور زندگی آرام سے گزرنے والی سیڑھیاں پہچان لیتی۔

مگر باپ کی آزمائش بھی یہیں سے شروع ہوئی تھی۔ وہ بھیانک اذیت سے گزر رہا تھا۔ صرف ایک لمس یا خوشبو سے وہ خود اپنی نظروں سے کتنی بار ننگا ہوتے ہوتے بچا تھا۔ اس کی عمر، کی تفصیل اس کے اصول، اس کا خاندانی پن۔ باپ کئی راتیں نہیں سویا، اس کے بعد باپ کئی دنوں تک اس لڑکی سے نہیں ملا۔

ظاہر ہے، آزمائش میں باپ ہار گیا تھا۔ مکمل شکست، باپ کا جرم ثابت ہو چکا تھا۔ باپ کو پھر سے گھر والوں کی نظر میں پہلے جیسا بننا تھا۔ باپ کو اس ’غیر انسانی زاویے، سے باہر نکلنا تھا۔

اور باپ دھیرے دھیرے باہر نکلنے بھی لگا تھا اور کہنا چاہئے۔

               (۷)

’’باپ نارمل ہو چکا ہے۔ ‘‘

بیٹے نے اس کہانی کا کلائمکس لکھتے ہوئے کہا۔

’’کیا؟‘‘ لڑکی چونک گئی تھی۔

’’ہاں، اس میں توازن لوٹ آیا ہے۔ وہ برابر برابر ہنستا ہے یعنی جتنا ہنسنا چاہئے، وہ برابر برابر۔  یعنی اتنا ہی مسکراتا ہے، جتنا مسکرانا چاہئے اور کبھی کبھی، کسی ضروری بات پر اتنا ہی سنجیدہ ہو جاتا ہے، جتنا۔ ‘‘

’’یعنی وہ لڑکی اس کی زندگی سے دور جاچکی ہے؟‘‘

’’یا اسے باپ نے دور کر دیا؟‘‘

لڑکی کی آنکھوں میں جیسے گھنگور اندھیرا چھا گیا ہو۔ وہ ایک لمحے کے لئے کانپ گئی تھی۔ شاید ایک قطرہ آنسو اس کی آنکھوں میں لرزاں تھا___

’’کیا ہوا تمہیں؟‘‘

’’کچھ نہیں۔ ماں کا خیال آگیا‘‘

’’اچانک۔ مگر کیوں۔ ؟‘‘

لڑکی نے موضوع بدل دیا۔ ’’اب سوچتی ہوں میری ماں مکمل کیوں نہیں ہو سکی۔ میری ماں بدنصیب ہے۔ ‘‘

٭٭٭

 

دادا اور پوتا

(اپنے پانچ سالہ بیٹے عکاشہ کے لئے جس کی خوبصورت اور ’خطرناک‘ شرارتوں سے اس کہانی کا جنم ہوا)

               (۱)

کچھ دنوں سے بڈھے اور پوتے میں جنگ چل رہی تھی۔ بڈھا چلّاتا رہتا تھا اور پوتا اس کی ہر بات نظر انداز کر جاتا تھا۔

’سنو، میرے پاس وقت ہیں۔ ‘

’کیوں وقت نہیں ہے؟‘

’بس کہہ دیا نا، وقت نہیں ہے۔ ‘

’ایک ہمارا بھی زمانہ تھا۔ ‘

بڈھا کہتا کہتا ٹھہر جاتا۔ بھلا جوان پوتے کے پاس اتنا سب کچھ سننے کے لئے وقت ہی کہاں تھا۔ بڈھا اس وقت پیدا ہوا تھا جب لوگوں کے پاس وقت ہی وقت تھا اور پوتے نے اس وقت آنکھیں کھولی تھیں جب دنیا تیزی سے بدلنے لگی تھی۔

***

بڈھے کو پوتے پر رشک آتا تھا اور بیٹے سے اسی قدر اکتاہٹ محسوس ہوتی تھی۔ اس کی امید کے برخلاف بیٹا ذرا سا بھی موقع پاتے ہی اس کے آگے پیچھے گھومتا ہوا فرمانبرداری ثابت کرنے میں جٹ جاتا۔

’ابا، آپ کو چائے ملی؟‘

’مل گئی۔ ‘

’کھانا ہو گیا‘

’ہاں‘

’کچھ چاہئے تو نہیں آپ کو؟‘

’نہیں‘

’طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی؟‘

’میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم جاؤ، اپنا کام کرو۔

***

بڈھے کو بیٹے کی بات سے کوفت محسوس ہوتی۔ اسے لگتا، بیٹا درمیان کی اڑان میں کہیں پھنسا رہ گیا ہے___ اور پوتا، اس کی اڑان کا تو نہ کوئی اور ہے نہ چھور___بیٹا ایک محدود زمین میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔ پوتے کے سامنے ایک کھلا آسمان ہے۔  بیٹا، اپنی، اس کی (یعنی بڈھے کی) نسل اور ان دو نسلوں کی اخلاقیات کے بیچ کہیں الجھ کر رہ گیا ہے۔  اور پوتا، اس کی نظروں میں ایسا شاطر پرندہ، جو ایسی تمام بندشوں کے پر کترنا جانتا ہو۔ بڈھے کو بیٹے پر رحم آتا تھا اور پوتے کے لئے اس کے اندر ایک خاص طرح کا جذبہ رقابت تھا، جو اب جوش مارنے لگا تھا۔

***

بڈھے کو احساس تھا، وہ غلط وقت میں پیدا ہوا ہے۔ تب کتنی معمولی معمولی چیزیں اس کے لئے خوشی بن جایا کرتی تھیں۔ وہ ایک مدت تک دھوپ، ہوا، آنگن اور آنگن کے پیڑ کو ہی دنیا سمجھتا آیا تھا۔ باہر کی سب چیزیں ایک لمبی مدت تک، یعنی اس کے کافی بڑا ہو جانے کے بعد تک جادو گر کا بن ڈبہ ہی رہیں۔ یعنی جس کے بارے میں وہ سوچ سکتا تھا۔ خوش  ہو سکتا تھا، چونک سکتا تھا اور مچل سکتا تھا___ اماں، ابا، بھائی بہنوں کی فوج، اس کی کل کائنات بس اتنی تھی۔  اور کیا چاہئے۔  بڈھا اسی دنیا میں گم رہا کہ اس وقت کے سارے بچے اسی دنیا میں گم تھے۔  وہ اسی کائنات میں غوطہ کھاتا رہا کہ اس وقت کے سارے بچے۔

دھوپ، ہوا، آنگن اور پیڑ۔  ایک دن گھر کی دیوار اونچی اٹھ گئی___ دھوپ رخصت ہو گئی___ ہوا کا آنا بند ہو گیا۔ آنگن پاٹ دیا گیا اور پیڑ کاٹ ڈالا گیا___

بڈھے نے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھا۔ اب وہاں ایک پختہ کار مرد تھا اور دنیا دھیرے دھیرے بدلنے لگی تھی۔

لیکن شاید نہیں۔ یہ بڈھے کا وہم تھا۔ دنیا اسی طرح اپنے محور پر ٹکی ہوئی تھی، جیسے پہلے تھی۔  جیسے بڈھے کے باپ کے وقت میں تھی۔

***

تو بڈھا ’ان‘ بہت سارے لوگوں میں سے ایک تھا جو بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں پر خوش ہو جایا کرتے ہیں۔ پھر اس نے یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ورثہ میں اپنے بیٹے کے حوالے کر دیں۔ بیٹے کے زمانے میں وقت صرف اس قدر بدلا تھا کہ زمین زیادہ پتھریلی ہو گئی تھی۔ بڈھے باپ کی طرح اسے سب کچھ آسانی سے نہیں مل گیا تھا۔  اسے باپ سے زیادہ مشقت کرنی پڑی۔ کچھ زیادہ جدوجہد کرنی پڑی۔  تب اس کے چھوٹے سے شہر میں تھوڑی تھوڑی تبدیلیاں آنے لگی تھیں۔ خاندان کے بڑھنے پر بٹوا رہ اور گھر کا چھوٹا ہونا لازمی تھی۔  یہی وہ چھوٹی چھوٹی باتیں  تھیں جسے بڈھا___ دنیا کے ایک دم بدل جانے کے طور پر دیکھ رہا تھا۔

لیکن دراصل دنیا تب بدلی تھی جب۔

***

بیٹا اپنی آدھی زندگی کی ناؤ کھے چکا تھا۔ بڈھا اب اکیلا تھا۔ بیوی گزر چکی تھی۔ بیٹے کو مشقت اور جدوجہد کے بدلے میں ایک اچھی زندگی ملی تھی___ مگر نیا شہر ملا تھا۔ نئے شہر میں کالونیاں تھیں۔ ان میں کہیں ایک گھر بیٹے کا بھی تھا۔

اس گھر میں آنگن نہیں تھا___

اس گھر میں پیڑ نہیں تھے___

اس گھر میں دھوپ کم کم آتی تھی۔ ہوا کا گزرنا بھی کم کم ہوتا تھا___

پوتے نے اسی گھر میں آنکھ کھولی تھی۔  آنگن، پیڑ، ہوا، دھوپ نہ ہوتے ہوئے بھی پوتے نے زبردست ہاتھ پاؤں نکالے تھے۔

پوتے کا ہر دن ایسا تھا جو اس کے بیٹے کی زندگی میں نہیں آیا تھا۔

جو بڈھے کی زندگی میں نہیں آیا تھا۔

پوتا بلا خطر کچھ بھی کر سکتا تھا۔  اور شاید اسی لئے، اسے دیکھتا، پڑھتا ہوا بڈھے قدم قدم پر اس سے کڑھتا رہتا تھا۔

               (۲)

اور حقیقت ہے، پوتے نے جب آنکھیں کھولیں، اس وقت دنیا بے حد تیزی سے بدلنے لگی تھی۔

پوتے نے بے حد  چھوٹی نازک عمر میں ہی اپنے پر نکال لئے۔ ایک دن پڑھتے پڑھتے وہ تیزی سے دروازہ کھول کر باہر نکلا۔

’کہاں جا رہے ہو؟ بڈھے نے پوچھا۔

’کھیلنے جا رہا ہوں‘

بڈھے نے بیٹے سے کہا۔ ’اسے روکو۔ وہ کھیلنے جا رہا ہے۔ ‘

بیٹے نے آنکھیں پھیرتے ہوئے کہا___ ’’وہ نہیں مانے گا۔  وہ اپنی مرضی کا مالک ہے آپ دیکھتے نہیں۔ ‘‘

’ہاں، میں سب دیکھ رہا ہوں‘

بڈھے نے گہرا سانس بھر کر کھلے دروازے کو دیکھا۔ پوتا نظر سے اوجھل ہو چکا تھا۔

***

بے حد ننھی، کچی سی عمر میں اور اس کالونی میں یہ پوتے کا پہلا دن تھا۔ جب نرسری میں پڑھتے ہوئے اس نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔  اس دن بڈھا دیر تک سوچتا رہا___ بچپن میں ایسی آزادی اس کے حصے میں کیوں نہیں آئی؟‘

وہ پہلا دن تھا، جب بڈھے نے پوتے سے جلن محسوس کی تھی۔

***

پوتا تھوڑی دیر بعد کھیل کر واپس آیا، تو بڈھا دروازے پر اس کا راستہ روک کر کھرا ہو گیا۔

اس کی متجسس آنکھوں میں سوالات تھے___

’تمہارے پاس کیا ہے جو میرے پاس نہیں ہے‘

’ہٹو، جانے دو‘

’نہیں، پہلے بتاؤ۔ تمہارے پاس کیا ہے جو میرے پاس۔ ‘

پوتے نے پھر دہرایا۔  نہیں جانے دو گے؟‘

’نہیں۔ ‘

’ٹھینگا‘

پوتا مست ہوا کے جھونکوں کی طرح دوبارہ بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ بڈھا دیکھتا رہ گیا۔  شاید فرار کے اتنے راستے، بغاوت کا یہ مادہ، جو پوتے میں تھا، بڈھے میں نہیں آیا تھا۔  وہ دیر تک دو قدم آگے بڑھ کر پوتے کو سیڑھیوں سے نیچے اتر کر دوڑ کر، سرپٹ بھاگتے ہوئے دیکھتا رہا___

یہ سلسلہ دراز ہوتا رہا۔

انحراف، احتجاج اور بغاوت کی کشادہ سڑک پر پوتے کے قدم بھاگتے رہے۔ بڈھا خود سے دریافت کرنے میں مصروف رہا۔

’اس میں ایسا کیا ہے، جو میرے پاس نہیں ہے‘

اور کہنا چاہئے، بار بار اٹھنے والے اسی ایک سوال نے اسے پوتے کے بہت قریب  کر دیا تھا۔  اور پوتا بھی اسی دشمنی، رقابت کے پردے میں بڈھے کو ’کچھ‘ بھی بتاتے یا پوچھتے ہوئے گھبراتا یا شرماتا نہیں تھا۔  مثلاً جیسے پوتا پوچھتا۔

’تم اپنے وقت میں ایسے نہیں تھے؟‘

’نہیں۔ ‘

’پھر تم کرتے کیا تھے؟‘

’ہم چپ رہتے تھے۔ بڑوں کے سامنے بولنا منع تھا۔ ‘

اور۔ ؟‘

’پیدا ہوتے ہی ہمیں ایک ٹائم واچ دے دی جاتی تھی۔ اس وقت اٹھنا ہے، فلاں وقت میں یہ کام انجام دینا ہے۔ ‘

’اور لڑکی۔ ؟‘

پوتا ہنستا ہے۔

بڈھا آنکھیں تریرتا ہے۔  ’’ہمیں چھت پر بھی جانا منع تھا۔ تمہارا باپ بھی چھت پر نہیں جا سکتا تھا۔ لڑکی کا نام لینا تو بہت دور کی چیز ہے۔ ‘‘

’تم لوگ گھامڑ تھے___‘ اس بار پوتے کو غصہ آتا ہے۔

***

دادا جوابی کارروائی کے طور پر، گفتگو کے ہر نئے موڑ پر بیٹے کے ساتھ شیئر کرتا___

’___وہ اڑ رہا ہے۔ ‘

’یہ عمر اس کے اڑنے کی ہی ہے___‘ بیٹا اپنے کام میں مصروف رہتا۔

’___وہ ہنس رہا ہے۔ ‘

’وہ ہنس سکتا ہے۔  یہ عمر ہی۔ ‘

’ ___نہیں، وہ ایسے نہیں ہنس رہا ہے جیسے ہم لوگ۔ ‘

بڈھا کہتے کہتے غصہ ہوتا ہے۔  ’وہ اڑ رہا ہے۔  وہ بڑا ہو رہا ہے۔  وہ پھسل رہا ہے۔ ‘

بیٹا ہر بار اپنی مصروفیت میں آنکھیں جھکائے، ویسے ہی جواب دیتا___

’وہ ایسا کر سکتا ہے۔ ‘

ظاہر ہے، ایسے موقع پر بڈھے کو اپنے غصے کو چھپانا، ناممکن ہو جاتا۔  اور جیسے ایسے ہر موقع پر غصہ ور بڈھا خود سے دریافت کیا کرتا۔

’آخر اس میں ایسا کیا ہے، جو اس کے پاس نہیں تھا۔ ‘

               (۳)

بڈھے کے دیکھتے ہی دیکھتے پوتے میں جوانی کے پر نکل آئے۔ تیزی سے بدلتی فاسٹ فوڈ(Fast food) کی اس دنیا میں اب وہ ایک آزاد مرد جوان کی حیثیت سے تھا اور یہ سب، کہ اس میں کیسے کیسے اور کتنے پر نکلے، یا یہ کہ خالی وقت میں وہ کیا کیا کرتا رہا ہے، ان مہملات کے لئے بیٹے کے پاس وقت نہیں تھا۔ مگر بڈھے کی گدھ نگاہیں ہر دم اس کے آگے پیچھے گھومتی رہتی تھیں اور حقیقت یہ ہے کہ صرف گھومتی ہی نہیں رہتی تھی بلکہ قدم قدم پر چونکتی اور پریشان بھی ہوتی رہتی تھیں۔

مثلاً یہ کہ وہ۔  بہت زیادہ دوڑ رہا ہے، اڑ رہا ہے___

مثلاً یہ کہ وہ۔  نئے پن کی تلاش میں، خواہ وہ نیا پن کیسا بھی ہو، بلا خوف، بے جھجھک ’جنون‘ میں مبتلا ہو رہا ہے___

مثلاً یہ۔  کہ اب اسے دیکھ پانا، ہاں دیکھ پانا روز بروز ایک مشکل امر ہوا جا رہا ہے۔

بڈھا ہمت جٹا کر اپنے مصروف بیٹے کے پاس آتا___

’___اس نے اول جلول کپڑے، پہنے ہیں۔ ‘

’اس کے دوست بھی پہنتے ہوں گے‘۔  بیٹے کی نگاہیں اپنے کام میں مصروف ہوتیں۔

’___اس کے کانوں میں چھلے ہیں۔ ‘

’نیا فیشن ہو گا۔ ‘

’___وہ راتوں کو دیر سے آتا ہے۔ ‘

’کلب اور دوستوں میں دیر ہو جاتی ہو گی‘

’___وہ۔ ‘

بیٹے کے پاس ہر بات کا جواب موجود تھا۔ لیکن ویر یور اٹی چیوڈ (Wear your attitude) والا لہجہ بڈھے کو ہضم نہیں ہوتا تھا اور پوتے کے We are like this only یعنی ہم تو ایسے ہی ہیں، جیسے ریمارک پر اس کانک چڑھا پن اور بھی بڑھ جاتا تھا___

***

پوتا جوشیلا تھا، تیز طرار تھا۔ نگاہیں ملا کر بات کرتا تھا۔ وہ ہر لمحہ خود کو نئے Attitude میں ڈھال رہا تھا۔ رنگ برنگے بال، کانوں میں چھلے، پھٹی ہوئی جینس___ کبھی کبھی تیز تیز آواز میں گانے لگتا۔ بڈھے کی ہر بات کا پوتے کے پاس ایک ہی جواب تھا۔

’ہم اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ ‘

’___چاہے تم جتنی بھی تیز آواز میں ناچو، گاؤ۔ ‘

’ہاں‘

’___کسی کی موجودگی کا خیال بھی نہ کرو۔ ‘

’ہاں۔ ‘

’___کسی کے دکھ، پریشانی کا۔ ‘

’ہاں۔  ہم صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں___ اس لئے کہ we are like this only۔ ‘

’___ہم اپنے زمانے میں۔ ۔ بڈھے کا لہجہ کھوکھلا تھا۔

’تم لوگ آخر اتنے دبو کیوں تھے۔ اس لئے کہ تم لوگ ڈر ڈر کر جی رہے تھے۔ ‘

یہ ایک بھیانک حقیقت تھی۔ یا یہ ایک ایسا کنفیشن تھا جسے کرتے ہوئے بوڑھے نے ہمیشہ ہی خوف محسوس کیا تھا۔  بڈھے کو اپنا زمانہ معلوم تھا۔ بڈھے کی غلطی یہ تھی کہ اس کے بیٹے کو بھی یہی زمانہ وراثت میں ملا___ بڈھا اپنے زمانے میں کسی لڑکی سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراتا تھا___ فرق اتنا تھا کہ بیٹے کی زندگی میں ایک لڑکی آئی تھی۔  لیکن ایک خاموش رومانی کہانی، شروع ہونے سے پہلے ہی بھیانک طوفان میں بکھر گئی۔  بڈھے کو سب کچھ یاد تھا۔  وہ پاگلوں کی طرح اپنی خاندانی عزت کو بچانے کے لئے ساری ساری رات کمرے میں ٹہلتا رہا تھا۔  ایسا تو اس کی سات پشتوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔  صبح کا دھند لکا ہونے سے پہلے ہی بیٹے کو نیند سے جگا کر اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

’ایسا کرنا میرے لئے ممکن نہیں___ تم چاہو تو بغاوت کر سکتے ہو؟‘

بیٹے کا چہرہ ایک لمحے کو کانپا۔ پھر جھک گیا۔

بڈھے کو یقین سا ہے، کہ اس موقع پر بغاوت کے خاتمے کے اعلان پر اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکان ضرور نمودار ہوئی تھی۔ پھر بیٹے نے وہی کچھ کیا جو کچھ اس بڈھے نے چاہا۔  یا جیسا کہ اس کے پہلے والی نسل کے لوگ کرتے آئے تھے۔

               (۴)

لیکن پوتا، اپنی اس دنیا سے کتنا خوش تھا، یہ وہی بتا سکتا تھا۔ وہ ایک ایسے کامیاب آدمی کا بیٹا تھا جن کے پاس بیکار کی باتوں کے لئے وقت نہیں رہتا۔ پوتے کے پاس اپنی ایک اسپورٹس کار تھی جس میں وہ اپنی دوست لڑکیوں کے ساتھ سیر سپاٹا کر سکتا تھا۔ ایک پلاسٹک کارڈ یا کریڈٹ کارڈ تھا۔ ایک موبائل، جس میں زیادہ تر اس کی دوست لڑکیوں کے فون آیا کرتے تھے۔ وہ الٹی بیس بال ٹوپی پہنتا تھا۔ ڈھیلی ڈھالی باکسر شرٹس اس کی پہلی پسند تھی۔ وہ فاسٹ فوڈ کا شیدائی تھا اور ریڈی میڈ رومانس میں ہی اس کی دلچسپی تھی۔ یعنی کچھ دن ہنسے، بولے پھر کپڑے بدل دیئے۔ جس دن پوتے نے پہلی بار اپنے ننگے بدن پر ’’گودنے‘‘ گدوائے تھے، اس دن بڈھا بری طرح اچھلا تھا۔

’___یہ سب کیا ہے؟‘

’آپ دیکھتے نہیں، یہ سانپ ہے۔  یہ مچھلی ہے۔  یہ سیڑھیاں ہیں۔ ‘

’’___لیکن یہ سب کیوں ہے؟‘

’کیوں کہ ہمیں یہی اچھا لگتا ہے۔ ‘

’___لیکن اس کے بعد۔ ‘

’سوچا نہیں ہے۔ ‘

***

بڈھا ایک بار پھر اپنے مصروف بیٹے کے پاس تھا۔

’___اسے روکو۔ ‘

بیٹا خاموش رہا۔

’___اسے سمجھنے کی کوشش کرو‘

’بیٹے نے اس بار بھی اپنی نظریں جھکائے رکھیں۔ ‘

بڈھے کے چہرے پر تناؤ تھا۔

’میں تمہارا باپ ہوں۔ تم سے ایک نسل بڑا۔  پھر مت کہنا کہ مجھے خبر نہ ہوئی۔  اس نے آزادی چاہی۔ اسے آزادی ملی۔  وہ آزادی جو مجھے اور تمہیں نہیں ملی تھی۔ تم اسے روکتے، وہ تب بھی نہیں رکتا، تم اسے بندشوں میں جکڑنے کی کوشش کرتے، تو وہ یہ زنجیریں توڑ دیتا۔ کیونکہ وہ بہر صورت تمہاری طرح بزدل نہیں ہے۔ ایک معمولی محبت کے لئے بھی بغاوت نہیں کرنے والا۔  سن رہے ہو، نا۔ ‘

بات ویسے ہی سر جھکائے فائلوں میں مصروف رہا۔

بڈھے نے کہنا جاری رکھا۔ ’اس نے سب سے پہلے اپنی حدیں توڑیں۔ سمجھ رہے ہونا، حدیں۔  وہ گھر سے باہر رہا۔ ساری ساری راتیں باہر۔  شراب، جوئے اور لڑکیوں میں۔  لیکن یہ سب وہ باتیں تھیں جو بہت آؤٹ ڈیٹیڈ تھیں۔  یعنی جن کے بارے میں زیادہ باتیں کرنا تمہارے جیسے لوگوں کے لئے تضیع اوقات ہے۔ اس نے اپنی اڑان جاری رکھی۔  بال منڈوائے، گودنے گدوائے، الٹی ٹوپی پہنی اور زمانے بھر سے الٹا ہو گیا۔  تم سمجھ رہے ہو میں کیا کہہ رہا ہوں۔ ‘

بیٹا ویسے ہی مصروف رہا، جیسے بڈھے کی باتیں اس کے سمجھ میں نہیں آ رہی ہو___

’’میں نے سمجھا ہے انہیں۔ تم سے زیادہ۔ اس لئے کہ پل پل میں تم سے زیادہ ان کے قریب رہا ہوں۔ سنو۔  غور سے سنو۔  یہ بہت تیز طرار ہیں۔ غضب کے اڑان والے___ انہیں زندگی اور وقت پر بھروسہ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ وقت سے پہلے کر لینا چاہتے ہیں___ ہم اور تم تھوڑا تھوڑا کر کے سفر آگے بڑھاتے تھے۔ اس لئے عمر کا ایک بڑا حصہ ڈھل جانے کے بعد بھی ہمارے پاس بہت وقت  رہ جاتا تھا۔ مگر ان کے پاس۔ ‘‘

بڈھے کا لہجہ ڈراؤنا تھا۔  ’جب یہ سب کچھ کر لیں گے تو؟ یعنی اس چھوٹی سے عمر میں ہی___ تو باقی عمر کا کیا کریں گے یہ۔ ؟ بڈھا کھانس رہا تھا۔  غم اسی بات کا ہے کہ یہ باقی عمر کی پرواہ نہیں کریں گے۔ مت سنو تم۔  جہنم میں جاؤ۔ ‘

***

پوتے کے اندر آنے والی یہ وہ تبدیلیاں تھیں، جس کے بعد بڈھے نے خود سے سوال کرنا چھوڑ دیا۔  کہ آخر اس میں (پوتے) ایسا کیا ہے جو اس کے پاس نہیں ہے۔ بڈھا کے پاس اپنے پوتے کی ذہنی سطح کے لئے بس ایک ہی جملہ تھا___ یعنی ہیجان کی آخری سطح۔ !

اس کے بعد۔ ؟

بڈھے کو سوچ سوچ کر خوف آتا تھا۔  بڈھے کے اندر پوتے کے لئے اب رقابت نہیں بلکہ ترحم کا جذبہ جاگ اٹھا تھا۔ اسے رہ رہ کر پوتے پر افسوس آتا تھا۔  اس دن پوتے کے ساتھ ایک نئی لڑکی تھی۔ پوتا لڑکی کے ساتھ کمرے میں بند ہو گیا۔  بڈھے کی آنکھوں میں ایک پل کو شعلہ سا چمکا۔  پھر پتہ نہیں کیا سوچ کر یہ شعلہ بجھ سا گیا۔

لڑکی کے جانے کے بعد وہ پوتے کے پا س آیا۔

’___کون تھی یہ لڑکی؟‘

’نہیں معلوم‘

’___تمہارے ساتھ پڑھتی ہے؟‘

’نہیں۔ ‘

’___دوست ہے؟‘

’شاید۔ نہیں۔ ‘

’___کنفیوزڈ ہو تم۔ ورنہ اتنی چھوٹی سی بات کے لئے ’شاید‘ اور ’نہیں‘ کا سہارا نہیں لیتے۔

’تم نے کیا سمجھا، کون ہے یہ ؟‘ پوتے نے پلٹ کر پوچھا۔

’___میں نے سمجھا، شاید تمہاری سپاٹ زندگی میں ایک کرن چمکی ہے۔ ‘

’تم بڈھے ہو گئے ہو۔ ‘

’___نہیں۔ مجھے تم پر ترس آتا ہے۔ ‘

’مجھ پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں۔ ‘

’___ضرورت ہے___ بڈھے کو مزہ مل رہا تھا۔ اس لئے کہ اگر وہ لڑکی وہی ہوتی، جیسا میں نے سوچا تھا۔  تو۔ ‘

’تو کیا۔ ؟‘

’___اب سوچتاہوں۔ تمہارے باپ کے زمانے میں، میں کتنا غلط تھا۔ بہت ممکن تھا، وہ محض ایک پیسہ کمانے والی مشین ثابت نہیں ہوتا۔ آدمی، ایک متوازن آدمی ہونا بہت مشکل کام ہے اور یقیناً محبت یہ کر سکتی ہے۔ ‘

’محبت۔ شٹ___‘ پوتے کے ہونٹوں میں مضحکہ خیز ہنسی تھی۔

’___نہیں۔ تم نہیں جانتے کہ ابھی ابھی جو لڑکی تمہارے کمرے سے نکل کر گئی ہے۔ تم اس کے نزدیک کیا تھے۔ سنو، تم لوگوں نے مجھے اتنا ایڈوانس تو بنا ہی دیا ہے کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں، تم اس لڑکی کے لئے صرف ایک اسٹریپر تھے۔ ایک میل اسٹریپر۔ ‘

بڈھا ہنسا۔  ’مجھ پر غصہ نہیں ہو۔ اپنے آپ کو سمجھو۔ ورنہ اندر کا یہ اندھیرا تمہیں تباہ کر دے گا۔ ۔ ‘

پھر وہ ٹھہرا نہیں۔ تیزی سے باہر نکل گیا۔

اور اس کے ٹھیک دو ایک روز بعد ہی رات کے اندھیرے میں بڈھے نے محسوس کیا، پوتے کے کمرے سے تیز تیز سسکیوں کی آوازیں گونج رہی ہیں۔

               (۵)

اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد___بڈھا ایک بار پھر اپنے مصروف بیٹے کے سامنے کھڑا تھا۔

’سنو، وہ چپ ہو گیا ہے۔ ‘

بیٹا شانت تھا۔

’___وہ کچھ بولتا نہیں۔ ‘

بیٹا بے اثر رہا۔

’___وہ کھویا کھویا رہنے لگا ہے، وہ راتوں کو روتا ہے۔ ساری ساری رات جاگتا رہتا ہے۔

بیٹے نے ذرا سی نگاہ اوپر اٹھائی۔

’آپ ذرا سی بات کو طول دے رہے ہیں۔ اس میں نیا کیا ہے؟‘

’___نیا ہے آہ!تم ابھی بھی نہیں سمجھے___ بڈھا فرط حیرت سے چلّایا۔ وہ سب کچھ کر گزرا ہے اپنی اس چھوٹی سی عمر میں۔  جو ہم تم اتنی عمر گزار کر بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔

’یہ نئی نسل ہے۔ جیٹ رفتار۔  یہ ایسی ہی ہے۔ ‘بیٹے کی آواز بوجھل تھی___ ’نہیں۔ ‘ بڈھا غصے سے اُچھلا۔  اس نسل کے پاس سے فنتاسی ختم ہو گئی ہے اور فنتاسی کو پانے کے لئے یہ نسل کچھ بھی کر سکتی ہے۔

’’مثلاً‘‘

’یہ نسل آتنک وادی بن سکتی ہے۔ ‘

’یہ بھی نہ ہو، تو۔ ؟‘

’___سنو، ہیجان کی آخری منزلوں میں، یہ نسل کسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔ تمہاری بھی۔

’اور اگر یہ دونوں ممکن نہیں ہوا تو‘

’___آخری فنتاسی کے طور پر یہ اپنی جان لینا چاہے گی یعنی خودکشی؟‘

بڈھا کمرے سے نکل گیا تھا۔

بیٹا پہلی بار حیران سا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا___

               (۶)

پوتے کے ہاتھوں میں چرمی بیگ تھا۔ جس میں اس نے ضروری کپڑے، سامان وغیرہ رکھ لئے تھے، جو آگے کے سفر میں اس کے کام آ سکتے تھے۔  اس نے ایک ڈھیلا ڈھالا ’پیڈل پشر‘ پہن رکھا تھا۔  فل جینس کی جگہ ایک آدھی پھٹی ہوئی ہاف جینس تھی۔ آنکھوں میں ایسی انوکھی چمک تھی جسے بڈھا اور بیٹا پہلی بار دیکھ رہے تھے۔

’___تو تم نے ارادہ کر لیا ہے، بیٹے کا لہجہ اداسی سے پر تھا۔

’ہاں، یہ ہم تمام دوستوں کا ارادہ ہے۔ ‘

’___تم کتنے لوگ جا رہے ہو۔ ‘

’ہم پانچ چھ دوست ہیں۔ ‘

’___صرف لڑکے۔ ‘

’___نہیں ایک لڑکی بھی ہے۔ ‘

’___وہاں برف کے گلیشیر بھی ہوں گے۔ ‘ باپ کے لہجہ میں تھرتھراہٹ تھی۔

’ہم گلیشیر کی نچلی سطح پر پانی جمع ہوتا ہے۔ یخ پانی، کبھی بھی وہاں اچھے بھلے آدمیوں کی بھی قبر بن جاتی ہے۔ ‘ بڈھے کا لہجہ پوتے کو سفر کے ارادے سے روکنے کا تھا۔

پوتے کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی___ ’ہم کبھی گلیشئر کو پگھلتے نہیں دیکھا۔ ‘‘

’___تم لوگ سب سے پہلے کہاں جاؤ گے، ۔ باپ کے لئے یہ جاننا ضروری تھا۔

یہ ایک اسیکی رسارٹ (Ski-Resort) ہے۔ ہم برف کی کسی ایک اونچی چٹان پر کھڑے ہو جائیں گے___ وہاں سے رسی کا ایک سرا مضبوطی سے ان چٹانوں میں باندھ دیں گے۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا۔ ‘ پوتا دلچسپی سے اپنے کھیل کے بارے میں بتا رہا تھا۔ آئس ہاکی یا اسکٹینگ جیسے کھیلوں سے بھی لوگ اکتا چکے ہیں۔ رسی کا دوسرا سرا ہم اپنے جسم میں باندھیں گے اور اونچائی سے برف کی آغوش میں لیں گے۔ ایک لمبی اندھی چھلانگ___‘

بڈھے نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں۔ بیٹے کے بدن میں تھرتھری ہوئی۔

’___لیکن اس میں خطرہ تو ہے۔ اس میں تو بہت سے لوگ مر بھی جاتے ہوں گے۔ ‘

’ہاں ایسا بہت ہوتا ہے۔ ‘ پوتے کے ہونٹوں پر ہنسی تھی۔  اس نے بہت عام انداز میں اپنا جملہ پورا کیا___ مرنا جینا تو لگا رہی رہتا ہے۔ لیکن ہے یہ ایک دلچسپ کھیل، ایک لاجواب فنتاسی۔ ‘

بڈھے نے بس اتنا پوچھا۔

’___کب جاؤ گے۔ ؟‘

’کل صبح ہونے سے پہلے ہی ہم لوگ نکل جائیں گے۔ ‘

’___یعنی ایک دن ہمارے پاس ہے۔ بڈھا دھیرے سے بڑبڑایا ___ایک دن۔ بس ایک دن۔ پھر۔ ایک اندھی چھلانگ۔ موت کی چھلانگ۔  پوتا اگر واپس نہیں لوٹتا ہے تو۔ ‘

بڈھے نے اپنے آپ سے پوچھا۔

’اس کے (بڈھے) کے پاس ایسا کیا ہے جو پوتے کے پاس نہیں تھا۔ ‘

               (۷)

رات ہوئی۔ بڈھا چپ چاپ چلتا ہوا پوتے کے کمرے میں آیا۔

’___چلو، کالونی کی چھت پر چلتے ہیں۔ ‘

’کیوں؟‘

’وہیں سوئیں گے، بات کریں گے۔ ‘

’لیکن بات یہاں بھی تو ہو سکتی ہے۔ ‘

’___نہیں وہاں چھت ہو گی، کھلی کھلی چھت ___سرپر آسمان ہو گا۔ کھلا آسمان، تم نے برسوں سے آسمان دیکھا ہے؟‘

’نہیں۔ ‘

’___میں نے بھی نہیں دیکھا۔  یہ سب شہر کی ہجرت کے راستے کھو گئے۔ نیلا آسمان۔ ستاروں کی چادر، چمکتا ہوا دودھیا چاند، بہتی ہوئی تیز ہوا اور۔

’فولڈنگ لے چلوں؟‘

’نہیں چادر بچھا لیں گے۔ ‘

***

بڈھے نے چادر بچھا لی۔  بڈھا اور پوتا کالونی کی چھت سے کچھ دیر تک شہر کا نظارہ کرتے رہے۔ یہاں سے شہر کیسا نظر آتا ہے۔ دور تک چمکتی ہوئی روشنیوں کی قطار۔  کالونی کے بند فلیٹ میں یہ چمک ایک دم سے دفن کیوں ہو جاتی ہے!

’پوتے نے ٹوکا___  یہاں کیوں لائے؟‘

’___تمہیں کیا لگا؟‘

’مجھے لگا، اپدیش دو گے۔ روکو گے۔ زندگی، موت اور گھر کا واسطہ دو گے___‘

’ایسا کرنے سے کیا تم رک جاتے؟‘

’نہیں۔ ‘

’اس لئے بس تم سے باتیں کرنے کے لئے ہی ہم چھت پر آئے ہیں۔ کیونکہ یہ باتیں ہم کمرے کے اندر نہیں کر سکتے تھے۔ ‘

پوتے کو الجھن تھی۔ کون سی باتیں؟‘

’کل تو تم چلے ہی جاؤ گے۔  اور ایک وہ تمہارا مصروف باپ ہے___ کسی سے کچھ بھی بات کرنے کے لئے مجھے بس آج کی ہی رات ملی ہے۔  تم چلے گئے تو پھر باتیں کرنے کے لئے میرے پاس کون ہو گا۔ ؟

پوتا لیٹ گیا۔

بڈھے کو کچھ یاد آ رہا تھا۔ چھت پر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔  بڈھا کسی خیال میں گم تھا۔  اس نے آہستہ آہستہ کچھ یاد کرنا شروع کیا۔

’۔ جب ہم چھوٹے تھے تب دنیا اس قدر نہیں پھیلی تھی۔ تب ہمارے پاس وقت ہی وقت تھا۔ دیکھنے، محسوس کرنے اور گزارنے کے لئے وقت ہی وقت۔  اور سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے بہتوں کو وقت کا استعمال کرنے بھی نہیں آتا تھا کہ اتنا ڈھیر سارا وقت۔  آگے دور تک پھیلی عمر کی سیڑھیاں۔  اتنا بڑا خاندان۔  اتنے سارے رشتے دار۔  آتے جاتے لوگ۔  نصیحتیں، ڈانٹ پھٹکار۔  اور بس بات ہی بات۔  نہ بات ختم ہوتی تھی نہ مکالمے کم پڑتے تھے۔  تب دن بھی لمبے تھے۔  راتیں بھی۔  مہینے اور سال تو بہت لمبے ہوتے تھے۔  یہاں تک کہ ہر روز گننے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتے تھے۔ ‘‘

پوتے نے پہلو بدلا۔

’۔ ایک ابا تھے۔  ذرا ذرا سی بات پر ڈانٹ دیتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر غصہ ہو کر پیٹ دیتے تھے۔ میں روتا ہوا اماں کے پاس آنچل میں سمٹ جاتا تھا۔ کچھ دیر بعد ابا مجھے نہ پاکر مجھے ڈھونڈھتے ہوئے اماں کے پاس پہنچ جاتے۔ کہیں دیکھا ہے اپنے منے کو۔  اماں کی یہی غلطی تھی۔ اماں کے اندر کوئی بات نہیں پچتی تھی۔  اماں ہنس دیتی تھیں۔ ابا مجھے سینے سے لپٹا لپٹا کر پیار کرتے۔ مارنے کے عوض مجھے ٹافیاں انعام میں ملتیں۔ ‘‘

پوتے نے اس بار دادا پر اپنی نگاہیں پیوست کر دیں___

’___ایک دن میں کھیل رہا تھا۔ گاؤں، قصبے اور چھوٹے شہروں میں ان دنوں کھیل ہی کیا تھے۔  گلی ڈنڈا۔  گلی زور کا جھٹکا کھاتی میری آنکھوں کے پاس لگی تھی۔ ڈھیر سا خون نکلا تھا۔  مجھے یاد ہے۔ اس رات___ ساری رات، سارا گھر مجھے گھیر کر بیٹھا تھا۔ ابا کو اتنا گھبرائے ہوئے میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ ‘

***

’چپ کیوں ہو گئے؟‘ یہ پوتے کی آواز تھی۔

’یاد کر رہا ہوں‘___ بڈھے کا لہجہ بھاری تھا۔

’اس وقت کے لوگ کتنے جذباتی تھے۔ جذباتی___ پوتے کے لہجے میں آہ تھی۔

’بہت کچھ یاد آ رہا ہے اور سناتے ہوئے اچھا بھی لگ رہا ہے۔  آج تمہیں سب کچھ سناؤں گا۔  مگر تمہیں نیند آ گئی تو۔ ؟‘

’نہیں تم سناؤ۔ نیند نہیں آئے گی۔ ‘

’___اچھا سنو، کیسی کیسی شرارتیں یاد آ رہی ہیں۔ پرانا گھر۔ دنیا بھر کے لوگ۔ معصوم  شرارتیں۔  پٹنے کے واقعات۔  اسکول کے قصے۔  اچھا، پہلے تم بتاؤ۔ ‘

بڈھے نے گھور کر پوتے کو دیکھا۔

’یہ سب قصے جو میں نے تم کو بتائے، کس دور کے ہیں۔ ‘

’مطلب؟‘ پوتا چونک کر بولا۔

’میں نے پوچھا ہے۔ یہ سب قصے میرے کس زمانے کے ہیں۔ ‘

’میں نے سمجھا نہیں___‘

’میرا مطلب ہے، یہ قصے کب کے ہو سکتے ہیں؟‘

پوتے نے جلدی سے کہا۔ ’بچپن کے۔ ‘

دوسرے ہی لمحے اس کے ہونٹوں پر ایک افسردہ سی مسکان تھی۔  ’میں نے بچپن نہیں دیکھا۔ ‘

بڈھے نے چونک کر پوتے کو دیکھا، جو مسلسل ایک ٹک آسمان کو گھورے جا رہا تھا۔

               (۸)

دوسرے دن پوتا چلا گیا۔

اس کے جانے کے بعد بڈھا خاموشی سے چلتا ہوا، بیٹے کے پاس آ کر ٹھہر گیا۔ بیٹے کا سر ابھی بھی جھکا ہوا تھا۔

’___وہ چلا گیا۔ ‘بڈھے کی آواز بھاری تھی۔  تم اسے روک سکتے تھے۔ ‘

’کیا وہ رک جاتا؟‘

بڈھا اچانک چونک پڑا، اسے ایک لمحے کو بیٹے پر ترس آیا___

’___وہ رک جاتا، کیا تمہارے ذہن میں پہلے کبھی یہ خیال آیا تھا؟‘

’کہہ نہیں سکتا۔ لیکن کیا ساری غلطی۔ ؟‘بیٹا کہتے کہتے ٹھہر گیا۔ اس نے عجیب نظر سے بڈھے کو دیکھا۔

بڈھے کے چہرے پر ایک خوشگوار حیرت تھی۔

’___نہیں غلطی کسی کی نہیں ہے۔ شاید وہ تمہارے کہنے سے بھی نہیں رکتا۔ اس لئے کہ بہت دیر ہو چکی تھی۔ ‘

’دیر ہو چکی تھی۔ ؟ بیٹا کسی لمبے، ’محاسبے‘ کے پل سے ایک لمحے کو گزر گیا___

’ہاں، کیونکہ تم دیکھنے میں تو خاموش لگ رہے تھے۔ لیکن تم ہر بار ہمارے، پوتے کے اور اپنے تجزیے میں مصروف تھے___ اور یہی تم غلطی کر رہے تھے۔  جبکہ ہم آسان سی زندگی گزار رہے تھے۔ ‘

بیٹا نے اور زیادہ سر جھکا لیا___

ذرا توقف کے بعد وہ بولا۔ ’کیا وہ واپس آئے گا___؟‘

’___پتہ نہیں۔ ‘

بڈھے کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔ وہ چپکے سے کمرے سے نکل گیا___ لیکن اس کا دماغ ابھی بھی پوتے میں الجھا ہوا تھا۔ جیسے ابھی، اس وقت وہ کیا کر رہا ہو گا۔

               (۹)

وہ پانچ چھ نوجوان تھے۔ سرتا پا گرم کپڑوں سے ڈھکے ہوئے۔ پاؤں میں ان فیلش، کے نئے اور ایسے ماڈرن جوتے تھے جو آج کل کے بچے ایسی تفریح گاہوں کے لئے استعمال کرتے تھے۔ برف پر چلنے یا برفیلی چٹانوں پر چڑھنے میں اس سے آسانی ہوتی تھی___ ان میں پوتا بھی تھا___ ان کے چہروں سے ان کا جوش اور ارادہ ٹپکتا تھا۔ آگے کی منزل کچھ بھی ہو سکتی تھی۔ بہت ممکن ہے، موت کی منزل۔ مگر یہ خوف زدہ نہیں تھے۔ ان میں سے کوئی بھی موت کی بات نہیں کر رہا تھا۔ اس کے برخلاف ان کا چہرہ کسی ایسے شگفتہ پھول کی مانند ہو رہا تھا جو موسم سرما یا بہار کی آمد یا دھوپ کی پہلی کرن سے اچانک کھل اٹھا ہو___

پوتے کے چہرے پر جنگلی پودوں جیسی شادابی تھی۔  ’وہ لمحہ کب آئے گا___؟‘

قافلے میں موجود وہ واحد لڑکی تھی۔ لڑکی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔  ’وہ لمحہ آ چکا ہے۔ وہ دیکھو۔ ‘

***

برف کی اونچی چوٹیوں سے انہوں نے نیچے کی طرف جھانکا۔ ہزارو ں فٹ نیچے کی گہرائی میں  برفانی ندی، موجوں کے الہڑ رقص میں محو حیراں تھی۔ دور تک برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں اب پُر اسرار معلوم نہیں ہو رہی تھیں۔ نوجوانوں نے گننا شروع کیا___ جہاں وہ کھڑے تھے، اس کے اطراف پہاڑوں کی اٹھ1 رہ بیس چوٹیاں ہوں گی۔ پوتا اور ساتھی ان سرکاری اشتہاروں کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے آئے تھے جو ان کے قدموں کو آگے کے خطرات سے روکنے کے لیے لگائے گئے تھے۔

انہوں نے اپنے اپنے چرمی بیگ اتارے، کپڑوں کا بھاری بھرکم وزن کم کیا۔ برفیلی چٹانوں سے گزرتی۔ یخ ہوائیں سنسناتی ہوئی بدن سے ہو کر گزر رہی تھیں۔ انہوں نے جوتے اتارے___ چرمی بیگ سے ہزاروں فٹ گہرائی تک لے جانے والی رسیاں کھولی گئیں۔ ان کے چہرے ایسے چمک رہے تھے جیسے برفانی پہاڑیاں دھوپ کی کرن سے جگمگا اٹھتی ہیں۔

’ہم یہاں پہلے کیوں نہیں آئے؟‘

گھانسوں پر اُگے ہوئے خود رو پھول ہنس رہے تھے۔ کائی دار پہاڑیوں کے کنارے سرخ اسٹابیری کی جھاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں۔  پہاڑ کے اس پار سے برفیلی ہوائیں پگھلے گلیشیرس اور پتھروں سے گزر کر نیچے بہتی ہوئی ندی میں پہنچ رہی تھیں۔ برف گلیشیر میں پتلی پتلی دھاروں میں تبدیل ہو رہے تھے۔

’اب بہت دیر ہو رہی ہے۔ مجھے رہا نہیں جاتا۔ ‘ پوتے کے چہرے پر ایک سفاک مسکراہٹ تھی۔

’___نیچے پہلے کون جائے گا___؟‘

’پہلے میں۔ ‘

لڑکی نے بے دھڑک رسّی کا ایک سرا اپنے کمرے سے بندھی ہوئی آئرن بیلٹ سے جوڑ لیا تھا۔

’___نہیں تم نہیں۔ ‘ دوسرے ساتھی نے لڑکی کا ہاتھ تھام لیا۔

’کیوں؟ لڑکی کے چہرے پر خفگی تھی۔

’کیوں کہ اس ایڈونچر پر سب سے پہلا اختیار میرا ہے۔ ‘

رسّی کا سرا اب پوتے کے ہاتھ میں تھا۔  ’’کیوں کہ یہ آئیڈیا بھی میرا تھا۔ تم لوگوں کو یہ آئیڈیا سب سے پہلے میں نے ہی بتایا تھا۔ ‘

ایک برفیلی لہر بدن کو چیرتی گزر گئی۔ ہزاروں فٹ نیچے کھائی ہیں، پگھلتے ہوئے، گلیشیر ندی کے پانی میں گھل رہے تھے۔

***

لڑکی کا چہرہ بجھ گیا تھا۔ اپنی اپنی باری کے انتظار میں سب امید بھری نظروں سے پوتے کو دیکھ رہے تھے، جس نے رسی کا ایک سرا پہاڑی کے ایسٹ پول میں پھنسا کر، دوسرا سرا اپنے آئرن بیلٹ سے جوڑ لیا تھا۔ اب وہ چمکتی نگاہوں سے، چمکتی برفیلی چٹانوں اور اپنے دوستوں کا چہرہ پڑھ رہا تھا۔

’اچھا مان لو، تم واپس نہیں آئے تو؟‘ ایک ساتھی نے مسکرا کر دریافت کیا۔

’___کیا واپس آنا ضروری ہے؟‘ پوتے کے لہجے میں ہنسی تھی۔

’نہیں‘ دوست شرمندہ تھا۔

’___پھر ہم کہاں ملیں گے؟‘

’کیا پھر ملنا ضروری ہے___؟ پوتا اس بار زور سے ہنسا۔

’نہیں‘

’___لیکن! اس کے باوجود ہم ملیں گے۔ اگر واپس نہیں آئے تو؟‘

’کہاں؟‘

پوتے نے اشارہ کیا۔  ’’وہاں___ گلیشیرس میں___ ٹھنڈی موجوں میں___ بہتے پانی میں۔  اور چمکیلی برف میں۔ ‘‘

پوتے نے اس بار ہنسنے سے پہلے ہی چھلانگ لگا دی۔

نیچے ہزاروں فٹ کھائی میں، گلیشیر ابھی بھی پگھل پگھل کر ندی میں گھل رہا تھا۔

٭٭٭

 

انکیوبیٹر

(اپنی بٹیا صحیفہ کے لئے____  جو دو برس کے سفر میں اتنا کچھ دے گئی، جو پوری زندگی پر بھاری ہے)

               نرسری

سیمون د بووار(Simone De Beauvoir) نے کہا تھا۔

’عورت پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔ ‘

لیکن، نیل پیدا کہاں ہوئی تھی۔ نیل تو بن رہی تھی۔ نیل تو ہر بار بننے کے عمل میں تھی۔ شاید اسی لئے، پیدا ہوتے ہی وہ ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال بھیج دی گئی تھی۔ اُسے میں نے نہیں دیکھا تھا۔ ماں نے نہیں دیکھا تھا۔ بلکہ کہنا چاہئے ڈاکٹروں کو چھوڑ کر، جو آپریشن کے وقت یقیناً پاس پاس لیبر روم میں موجود ہوں گے، یا جیسے ڈاکٹروں نے بھی ہنستے ہوئے کہا ہو گا۔  ’’وشواس کیجئے____  ہم نے بھی نہیں دیکھا۔ لیکن وہ ہے۔ اور سانس چل رہی ہے۔ ‘

اور۔  ڈاکٹروں کے مطابق نیل پیدا ہو چکی تھی اور سانس بھی چل رہی تھی۔  اور اب صرف اس کے بچائے جانے یعنی زندہ رکھنے کی کارروائی باقی تھی۔ جس اسپتال میں نیل پیدا ہوئی، وہاں نرسری کا کوئی اچھا انتظام نہیں تھا۔ اس لئے ڈاکٹروں نے ایک چھوٹی سی ایمرجنسی میٹنگ کے بعد نیل کو ایک دوسرے اسپتال شفٹ کر دیا تھا۔

نیل اسپتال سے گھر نہیں آئی۔ نیل ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال چلی گئی۔  جس ایمبولنس میں اسے دوسرے اسپتال شفٹ کیا گیا، اس میں نیل کے ساتھ رشتے کے ایک بھائی کو بٹھایا گیا۔ واپسی میں اس بھائی سے پوچھا گیا۔

تم نے اسے دیکھا؟

۔ نہیں

کیوں ؟ تم تو ایمبولنس میں اس کے پاس ہی بیٹھے ہو گے نا؟

۔ ہاں بیٹھا تو پاس ہی تھا، مگر!

۔ مگر کیا؟

وہ نہیں تھی۔ میرا مطلب ہے۔

بھائی سر کھجا رہا تھا۔ آنکھیں چرانے کی کوشش کر رہا تھا۔

***

مدرنرسری میں سب کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اسپتال کی پانچویں منزل پر یہ نرسری آباد تھی۔ نومولود، ابھی ابھی پیدا ہوئے بچے کی آرام گاہ۔  یہ پورا ہال ہی ائیرکنڈیشنڈ تھا۔  اندر شیشے کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سی دنیا۔  شیشے کے اس عجیب و غریب ڈزنی لینڈ میں چھوٹے چھوٹے لاتعداد انکیوبیٹر پڑے تھے۔  چھوٹے چھوٹے شیشے کے گھروندے۔  ان گھروندوں میں ایسے نومولود بچوں کے لئے ایک نقلی دنیا آباد تھی۔ یعنی جیسی دنیا وہ آنکھیں جھپکاتے ماں کی کوکھ میں دیکھتے یا محسوس کرتے ہوں گے۔ شیشہ کی اس چھوٹی سی دنیا کے اندر کا ٹمپریچر بھی وہی تھا جو ماں کی کوکھ میں بچہ محسوس کرتا تھا۔ انکیوبیٹر میں آکسیجن کی ٹیوب بھی لگی تھی۔ مگر دور سے، شیشے کے بڑے دروازے سے جھانکنے پر، یہ ڈھیر سارے چھوٹے چھوٹے گھروندے ہی لگتے تھے۔

’نیل کہاں ہے؟‘

مدر نرسری دکھانے والا، ڈاکٹر جوش میں ہاتھ کے اشارے سے کچھ دکھانے کی کوشش کر رہا تھا۔

’وہ۔ وہ رہی نا۔ ‘

۔ وہ۔ موٹا سا بچہ۔

’نہیں اس کے پاس والا۔ ‘

۔ اچھا۔ وہ، جو بے بی الٹی پڑی ہے۔

’نہیں، اس کے دائیں طرف دیکھئے۔ ‘

۔ وہ۔ مگر وہ انکیوبیٹر تو۔

’خالی ہے‘۔  ڈاکٹر مسکرا رہا تھا۔ وہ بن رہی ہے۔ وہ ہے اور آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ‘

***

واپس اسپتال آ کر میں نے اس کی ماں کو یہ مژدہ سنا دیا۔ ماں کو اب ہوش آ چکا تھا۔ بیٹی ہونے کی اطلاع ڈاکٹر اسے دے چکے تھے۔ یہ بھی بتایا جا چکا تھا، کہ وہ مدر نرسری بھیج دی گئی ہے۔ مجھے دیکھ کر ماں کی آنکھوں میں تجسس کے دیئے ٹمٹما اُٹھے۔

۔ تم نے دیکھا۔

ہاں

۔ کیسی ہے، وہ۔ ؟

وہ۔ ہے۔  یعنی کہ۔

کس پر گئی ہے۔

۔ گئی نہیں ہے۔ بن رہی ہے۔ گھبراؤ نہیں، جب تک تمہیں مکمل طور پر گھر جانے کی اجازت مل جائے گی، وہ بن چکی ہو گی۔

’’مطلب۔ ؟‘‘

۔ فکر مت کرو۔ وہ بن رہی ہے اور دیکھتے دیکھتے۔ ہاں تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا، وہ تمہارے سامنے آ کر کھڑی ہو جائے گی۔ وہ خوب زور سے چیخے گی اور تم چہرے کو انتہائی سنجیدہ بنا کر کہو گی۔  نیل۔ بی ہیو یور سیلف۔

لیکن، ماں شاید اب کچھ بھی سن نہیں رہی تھی۔

ماں ایک لمبی خاموشی میں ڈوب گئی تھی۔

ترپتی مینن کے دو رنگ(ادب اور آرٹ)

ترپتی مینن۔ ایک ایسی خاتون جن کے بارے میں، میں بار بار الگ الگ نظریے گڑھتا تھا اور نظریے کچّی مٹی کے گھڑے کی طرح ٹوٹ جاتے تھے۔  نہیں، مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ ہماری پہلی ملاقات کہاں ہوئی تھی۔ یا ترپتی مینن میں یاد رکھی جانے والی کون سی ادا یا بات تھی کہ میں نے پہلے پہل اپنی نوٹ بک میں۔  پھر آہستہ آہستہ اس کی ’اول جلول‘ اداؤں کو دل کی گرہ میں باندھ لیا۔

’چلو خالی وقت کا ایک سامان تو ہوا‘۔

پہلی بار میں ہم بہت کم بولے تھے۔ مجھے یاد ہے، اس وقت بھی ہمارے مکالمہ کا عنوان عورت تھی۔ وہ ایک ہندی میگزین میں اپنی کہانی چھپوانے آئی تھی۔ میگزین کے ایڈیٹر میرے بزرگ دوست تھے۔  آنکھوں پر کالا چشمہ۔ بڑھی ہوئی داڑھی۔  نام تھا، رادھیکا رمن۔ رادھیکا جی درویش صفت منش ہیں۔ مگر کچھ ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں۔ بقول رادھیکا جی، کہ ’چٹکی‘ لینے کی خواہش زور پکڑنے لگتی ہے۔  چائے آ گئی تھی۔ ترپتی مینن آہستہ آہستہ چائے کی سپ لے رہی تھی۔ دھیان کہیں اور تھا۔ آنچل ذرا سا ہٹ گیا تھا۔ سانولی بانہیں۔  نیم عریاں، آدھی سوئی ہوئی بہار کے قصّے سنا رہی تھی۔ چہرے پر ایک تیکھی مگر بچوں جیسی مسکراہٹ تھی۔ ترپتی بار بار رادھیکا جی کے مذاق کی عادت پر پسری جا رہی تھی۔

عورت میں ہر بار ایک نئی عورت آ جاتی ہے۔  یہ رادھیکا جی تھے۔

عورت میں ہر بار ایک عورت گُم ہو جاتی ہے۔  یہ میں تھا۔

عورت۔  آپ لوگ اسے عورت کیوں نہیں رہنے دیتے۔ یہ ترپتی تھی۔

***

میں نے پہلی بار اداؤں میں ڈوبے اُس کے جسم کا جائزہ لیا۔ اس جسم میں کتنی بہاریں قید ہوں گی۔ چالیس۔  چالیس بہاریں۔ مگر ترپتی جانتی تھی، خزاں سے پہلے اس بہار کی کیسے حفاظت کرنی ہے۔ مگر ہر بار نوخیز اداؤں کی گرفت میں اس کا پورا وجود ایک ’جوکر‘ میں تبدیل ہوا جا رہا تھا۔

تم اپنی عمر کو نہیں بھولی ہو۔ رادھیکا جی نے پھر چٹکی لی۔

’’عمر کو۔ ‘‘

میں آہستہ آہستہ مسکرا رہا تھا۔

’میں سمجھی نہیں۔ ‘ ترپتی کے سانولے چہرے پر بجلی دوڑ گئی تھی۔

’’سب سمجھتی ہو تم۔ گھر سے چلتے ہوئے عمر کو کسی لاک اَپ میں بند کر کے آتی ہو۔  پھرو اپس آ کر جب عمر کو لاک اَپ سے نکالنے کی کوشش کرتی ہو تو۔ ‘‘ رادھیکا رمن مسکرائے۔  یہ صرف تمہارا مسئلہ نہیں ہے ترپتی۔ تمہاری جیسی تمام عورتوں کا مسئلہ ہے۔

’نہیں۔ سر، میرا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ‘

’اور مینن؟‘

’ہم نے لو میرج کی ہے۔ ‘

’لو(Love)تم نے کیا تھا یا مینن نے کیا تھا۔ ‘‘، رادھیکا رمن زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے بولے۔

نیم عریاں شانے پر اس نے آنچل پھر سے بار بار کر دیا تھا۔  ’’اب۔  اب میں چلوں گی سر۔ کہانی دیکھ لیجئے گا‘

چہرے پر ناراضگی تھی۔

’ارے بیٹھو۔ ‘

’نہیں سر۔ آج آپ کچھ زیادہ ہی مذاق کر رہے ہیں۔ ‘

’اس نے کرسی خالی کر دی۔ گولڈن کلر کا بیگ شانہ سے لٹکایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دروازے سے اوجھل ہو گئی۔

’ترپتی ناراض ہو گئیں۔ ‘ میرے لئے یہ پہلا اتفاق تھا۔

رادھیکا رمن ہنس رہے تھے۔ ’’پاگل مت بنو۔ ترپتی کو تم نہیں سمجھو گے..ہو ہو..وہ یہی کرتی ہے۔ عادت ہے اس کی ..ہو ہو.. دراصل وہ چاہتی بھی یہی ہے۔ ‘‘

’کیا۔ ‘

’جو میں نے کیا۔ ‘ وہ مسکرا رہے تھے۔

’مطلب؟‘

’ارے۔ اس میں حیرانی کی بات کیا ہے۔ اپنشدوں میں کہا گیا ہے۔ ناری کو نہ سمجھو تو بہتر ہے۔  ناری سمجھنے کی وستو نہیں ہے۔ رہسیہ ہے۔ گھور رہسیہ۔ ترپتی اسی رہسیہ کا حصہ ہے۔  ایسا نہیں کرو تو وہ ناراض ہو جاتی ہے۔ ناراضگی پر کیوں جاتے ہو۔ اس میں پراکرتک سوندریہ، کیوں نہیں، دیکھتے۔ ۔ اس آیو میں بھی۔  تم نے دیکھا۔ سانولے جسم میں سارے سمندر کی ’سنہلی‘، مچھلیاں ایک ساتھ کہاں جمع ہوتی ہیں۔  ان ساری ’سنہلی‘ مچھلیوں کو جوڑ کر ترپتی ایک بہت لمبی ’سنہلی‘ مچھلی بن گئی ہے۔ ‘‘

وہ ہنس رہے تھے۔  اس مچھلی کے پیچھے دوڑو گے۔ بولو۔ ؟‘

***

لیکن مجھے زیادہ دور تک دوڑنے کی ضرورت نہیں پڑی۔

یہ ترپتی سے میری دوسری ملاقات تھی۔

وہ کارلٹن آرٹ گیلری میں کھڑی تھی۔  ایک لمحے کو میں نے اس سے چھپنے کی کوشش کی____ وہ کسی کو اپنے بارے میں بتا رہی تھی۔

’انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ اینڈ کرافٹس سے کمرشیل ڈیزائن کا کورس کیا ہے۔ آرٹ میرا شوق نہیں ہے۔ زندگی ہے۔ سانسیں ہیں۔ آئل ان کینوس کے علاوہ آئل آن پلائی وڈ، واٹر کلر پیسٹل، پین اینڈ انک، پلاسٹر آف پیرس، سیمنٹ آن گلاس وغیرہ میڈیمز میں کام کر چکی ہوں۔ ‘

درمیان میں اس کی کھنک دار ہنسی گونجی____

’پچھلی بار فیسٹیول آف ویمن سیریز میں، میں نے بھی اپنی کچھ تصویروں کی نمائش لگائی تھی۔ ‘

میں ایک دم سے چونک گیا تھا۔

موٹے بھدّے جسم والی خاتون نے حیرت سے دریافت کیا۔ ’آپ۔  یعنی آپ بھی۔ ‘

’کیوں‘ ترپتی مسکرائی ہے۔ ’’آئل ان کینوس۔ کبھی کبھی کینوس پر صرف آئیل بیچتا ہے اور عورت آئیل کی طرح پوچھ ڈالی جاتی ہے۔  نہیں؟ ایک کورا کینوس۔ ۔ میں نے عورت کے ’رحم‘ کو دکھانے کی کوشش کی تھی۔

’رحم‘۔ ؟‘

رحمِ مادر یعنی ’Womb‘۔  جہاں نو مہینہ تک بچے کے روپ میں ایک مرد سڑتا ہے۔ پتہ ہے۔ میرے شوہر تک جب اس نمائش کی بات پہنچی تو وہ پانچ مہینے تک مجھ سے غصہ رہے تھے۔ بات چیت کمپلیٹلی بند۔ میں نے بھی کوشش نہیں کی۔  عورت کا ننگا بدن۔ آپ دکھانا ہی چاہتے ہیں تو وہ جگہ کیوں نہیں دکھاتے جہاں سے سرشٹی، یعنی ایک عورت Creator بنتی ہے۔ رچیتا۔ مرد کو جننے والی۔ خالق۔ اب یہاں دیکھئے نا۔

وہ آرٹ کے عریاں فن پاروں کو دکھا رہی تھی۔

’دکھانا ہے تو عورت کو پورا پورا ننگا کرنے سے کیا حاصل۔ بس وہ جگہ دکھا دو، جو مرد دیکھنا چاہتا ہے۔ ‘

’مائی گاڈ۔ ترپتی۔ تم میں کتنا دکھ بھرا ہے۔ Leave it   یار۔ پینٹنگس دیکھتے ہیں۔ ‘

ترپتی اچانک مڑی تھی۔ مڑی اور چونک گئی۔ میری طرف دیکھا۔ مسکرائی۔ ہاتھ نہیں بڑھایا۔

’آپ‘؟

’مجھے نہیں ہونا چاہئے تھا۔ !‘

’نہیں۔ ہونا کیوں نہیں چاہئے تھا۔ ‘ وہ جھینپ رہی تھی۔  کب آئے؟

شاید وہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہ آپ دیر سے تو نہیں ہیں۔ ہماری بات تو نہیں سن رہے تھے۔ میں نے جھوٹ بولنے ہی میں عافیت سمجھی۔

’بس۔ ابھی آیا۔ ‘

’اوہ۔ ’ترپتی کو تسلی ملی تھی۔  موٹے جسم والی عورت سے پیچھا چھڑاتے ہوئے اب وہ میرے ساتھ پینٹنگس پر اپنی تنقیدی نظر ڈال رہی تھی۔

’اچھی ہیں نا۔ ‘

’ہاں‘

’دراصل۔ ‘ وہ کہتے کہتے ٹھہری۔ ’مجھے موڈس والی پینٹنگس کچھ زیادہ ہی پسند ہیں۔ ایچنگ ورک، فیگریٹو ورک اور رئیلسٹک ایپروچ مجھے پسند ہیں۔ ان تصویروں میں امپریشن ازم کے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

’کیوں‘۔ میں تعجب سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ ایک سانس میں اپنی معلومات کی توپ چھوڑتی چلی گئی۔ وہ کمپوزیشن اچھا ہے۔ فلاں غلط۔ وہاں کینواس کی سطح کم گاڑھی ہونی چاہئے تھی۔ فلاں تصویر میں Baseبناتے ہوئے ٹیکسچر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ناہموار سطح پر پاورفل اسٹروکس کے ذریعہ رنگوں کا خوبصورت استعمال کیا جانا چاہئے تھا۔ ‘

’رنگ۔ ‘ میں نے ایک لمبی آہ کھینچی تو وہ چونک گئی۔

’زندگی سے رنگ جھڑ جائیں تو۔ ؟‘

’’آرٹ گیلری سے باہر بھی ملاقات کا ایک راستہ جاتا ہے۔ ‘

وہ اداس ہو گئی تھی۔  Sorry‘

’Sorryکیوں؟‘

تمہارا نمبر ہے؟‘’

’نمبر۔ ‘

’میں فون کر لوں گی۔ ‘

اس کے جسم میں تھرتھراہٹ تھی۔  پرانی ترپتی غائب تھی۔ میں ایک نئی ترپتی کو دیکھ رہا تھا۔ جو ڈر رہی تھی۔  یا ڈرنے کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔

رادھیکا جی کے لفظ کانوں میں گونج رہے تھے۔ ناری گھور رہسیہ ہے۔ ترپتی اسی رہسیہ کا حصہ ہے۔ ۔ ۔ ‘

میں نے ترپتی کو نمبر لکھوا دیا۔

آرٹ گیلری سے سڑک دو الگ الگ دشاؤں میں مڑ گئی تھی۔

               آثار قدیمہ اور ترپتی کا تیسرا رنگ (میوزک)

صحافیو ں کے لئے یہ دنیا ایک سیپ کی طرح ہے۔ یہ بات کس نے کہی تھی، یاد نہیں۔ لیکن فرصت کے اوقات اس بارے میں سوچتا ہوں تو اپنی ذات سیپ کی ’ڈگی‘ میں بند ’گھونگھے‘ سے زیادہ نہیں لگتی۔ بس بھاگتے رہو۔  بھاگتے بھاگتے تھک جاؤ تو اپنی چھوٹی سی دنیا میں بند ہو جاؤ اور آپ جانئے۔  فری لانس جرنلسٹ کو کیسے کیسے محاذ پر لڑنا ہوتا ہے۔  اس دن طبیعت ناساز تھی لیکن میگزین کی طرف سے بھارت سنگاپور اتسو، میں شامل ہو کر اس کی رپورٹ تیار کرنی تھی۔ بانسری کا مجھے کبھی شوق نہیں رہا۔ بچپن کے دنوں میں ہونٹوں سے لگایا ہو، اب یاد نہیں۔ لیکن ہری پرساد چورسیا میں میری دلچسپی ضرور تھی۔  اور یہی دلچسپی مجھے اس اُتسو میں کھینچ کر لے گئی تھی۔  فکّی آڈیٹوریم کا مین ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کسی نے مجھے ذرا سا دھکا دیا اور تیز تیز اندر کی طرف قدم بڑھائے۔ میں غصہ میں کچھ بولنا چاہتا تھا کہ ٹھہر گیا۔

’ترپتی۔ ‘

***

یہ ترپتی سے میری تیسری ملاقات تھی۔ شو شروع بھی ہوا اور ختم بھی ہو گیا۔ میں برابر اس پر نظر رکھے ہوا تھا۔ وہ ہال میں ہو کر بھی ہال میں نہیں تھی۔ کسی چور جیسی، اپنی سیٹ پر دُبکی ہوئی تھی۔  بلی کی طرح سہمی ہوئی۔ آہٹ سے ڈر ڈر جانے والی۔ شو ختم ہونے کے بعد میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔ گیٹ کے پاس ہی میں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

’آہ ترپتی۔ یہاں بھی تم۔ ‘

’ہاتھ چھوڑو۔ ‘ اس کے لہجہ میں سختی تھی۔  میں نے تمہیں دیکھ لیا تھا۔ میں خود تم سے ملنے والی تھی۔

میں نے ہاتھ ہٹا لیا۔ ’شو کیسا لگا تمہیں؟‘

وہ ابھی بھی کہیں اور تھی۔ بھیڑ سے الگ ہم باہری گیٹ سے دوسری طرف کھڑے ہو گئے۔ نکلنے والی گاڑیوں کا شور انسانی شور سے کہیں زیادہ تھا۔

’بہلانے آئی تھی خود کو۔ مگر بور۔ انڈین اوشن کے اس ’بینڈ‘ کو دیکھا تم نے۔ ‘ اس کے لہجے میں کڑواہٹ تھی۔  فن مر گیا ہے۔ ہم دو سنسکرتیوں کو ملا دینا چاہتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ ایک جھوٹا تماشہ۔ تمہیں لکھنا چاہئے۔ بھارتیہ سروں کا یہ کیسا میل ہے۔ جاز، ریگے، راک، پاپ اور بھارتیہ سنسکرتی کا بریک فاسٹ ملا دیا۔ مکسچر تیار۔ کلچرل موٹف کو نئے ماڈرن ڈھانچہ میں ڈال دیا اور نیو جنریشن کے سامنے پروس دیا۔ یہی ’فیوزن‘ ہے۔  سکڑتی سمٹتی دنیا کو، پاگل بنا دینے والی میوزک کمپنیوں کا دیا ہوا ودیشی تحفہ____

’تمہیں فیوزن سے چڑھ کیوں ہے؟‘

آپ اسے ویسے کا ویسا رہنے کیوں نہیں دیتے، جیسا کہ وہ ہے۔ لیکن نہیں۔ بات پروفیشنل منافع کی ہے____  کنزیومر ورلڈ کی ہے____  بازار کی ہے____  آپ وہی تہذیب فروخت کریں گے، جس کی ودیشوں میں مانگ ہے۔ ‘

اس کی ہرنی جیسی آنکھیں اب بھی سہم سہم کر اِدھر اُدھر دیکھ لیتی تھیں۔ سنو۔ ‘

اس نے آہستہ سے میرا ہاتھ تھاما۔

’مینن ایک ہفتہ کے لئے باہر گئے ہیں____  ساؤتھ____  کل آ سکتے ہو۔ ‘

’کس وقت؟‘

’شام کے وقت۔ ‘

تیزی سے آتے ہوئے آٹو کو اس نے ہاتھ دے کر روک لیا تھا۔  مینن غلطی سے گاڑی کی چابی اپنے ساتھ لے گئے۔ آؤ گے نا؟‘

اس نے آہستہ سے میرا ہاتھ دبایا۔ آٹو پر بیٹھی اور آٹو روانہ ہو گیا۔ میرے ہاتھ میں ایک چھوٹے سے کاغذ کی پرچی تھی۔ جس پر اس کا ایڈریس لکھا ہوا تھا۔ لیکن یہ ایڈریس اس نے کب لکھا۔ جب وہ ہال میں تھی۔ یا۔ مجھے دیکھ کر وہ پہلے سے ہی مجھ سے ملنے کامن بنا چکی تھی۔

’ناری گھور رہسیہ مے وستو ہے‘۔  مسکراتے ہوئے میں نے کاغذ جیب کے حوالے کر دیا۔

***

کال بیل کی پہلی آواز پر ہی دروازہ کھل گیا۔ شاید وہ میرے انتظار میں تھی۔ میرے اندر آتے ہی اس نے ’کھٹاک‘ سے دروازہ بند کر دیا۔

میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ترپتی کے چہرے پر اب بھی ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔

’’مینن صاحب کب آئیں گے؟‘‘

’’پتہ نہیں‘‘

میں نے گھر کی سجاوٹ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔  ’مینن صاحب کرتے کیا ہیں؟‘

ترپتی بجھ گئی تھی۔ آہستہ سے بولی۔ ان کا تعلق محکمۂ آثار قدیمہ سے ہے۔

ترپتی مینن کی آواز اس بار برف کی طرح سرد تھی۔  ’وہ ہر بار کچھ نہ کچھ برآمد کر لیتے ہیں۔ محنتی اور سخت____ صرف اور صرف اپنے کام پر یقین رکھنے والے____ لیکن ہر بار۔  مجھے تعجب ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ۔ ‘

’جیسے؟‘

’کوئی۔ قدیم تہذیب____ قدیم شہر۔ ‘ ترپتی مینن نے اپنی زلفوں کو جھٹکا دیا____ آنچل اُس کے سیاہ جمپر سے پھسل کر گود میں آ گرا تھا____  لیکن ترپتی نے آنچل کو اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔ اُس کی عریاں بانہیں نمایاں تھیں۔ ’صندلی‘ برہنہ بازوؤں کے گوشت آہستہ آہستہ چنگاریاں دینے لگے تھے۔ ترپتی کسی سوچ میں ڈوب گئی تھی۔

***

’’وہ ہر بار کچھ نہ کچھ برآمد کر لیتا ہے۔ لیکن مجھے تعجب ہے۔ وہ آج تک مجھے برآمد نہیں کر پایا۔ اپنی بیوی کو۔ ‘

ترپتی نے جیسے اپنے آنسو پوچھے ہوں! دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے جذباتی لہجے پر قابو پا لیا تھا۔ ارے میں تو بھول ہی گئی۔

’کیا؟‘

’آپ پہلی بار آئے ہیں۔ اور شاید۔ ‘ اس کا لہجہ داس تھا۔

’مینن صاحب ہوتے تو۔ ‘

’میں ہمت تو کُجا، سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ ‘

’کیوں؟‘

پتہ نہیں۔ وہ مسکرائی۔  ’پہلے چائے۔ آپ چائے لیں گے یا کافی۔ ‘

’کچھ بھی چلے گا۔ ‘

***

ترپتی کیبن میں گئی تو میں نے اس کے کمرے کا جائزہ لیا۔ دیوار پر دو خوبصورت بچوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ کمرے میں ایسا بہت کچھ تھا، جو ترپتی کے ذوق و شوق کی کہانیاں بیان کر رہا تھا____  دیوار پر ٹنگی تصویروں میں ایک بچہ کم از کم تیرہ سال کا ہو گا۔ دوسرا دس کے آس پاس۔ ترپتی تو اتنی عمر کی نہیں لگتی۔ کیا پتہ۔ ساؤتھ کے رتی رواج اور کلچر کے بارے میں ہم ابھی بھی کتنے انجان ہیں۔

ترپتی کافی لے کر آئی تو میں نے دیوار کی تصویر کی طرف اشارہ کیا____

’میرے بچے ہیں۔ ‘ ترپتی نے سر جھکا لیا۔

تمہارے یا مینن کے؟‘ میری آنکھیں اس کی آنکھوں میں سما گئی تھیں۔

مینن کے۔ میں ان کی دوسری بیوی ہوں۔ پہلی بیوی اتفاقیہ طور پر۔

اس کا گلا بھر آیا تھا۔

’تم نے کہا تھا، مینن سے تمہاری لو میرج ہوئی تھی۔ ‘

وہ سامنے بیٹھ گئی۔ کافی آہستہ آہستہ سڑکتی رہی۔  ہاں لو میرج کی تھی۔ کسی کسی لمحے کا بوجھ ساری زندگی ڈھونا پڑتا ہے۔ انہی دنوں مینن کی پتنی کا دیہانت ہوا تھا۔ وہ گھر آئے تھے۔ بابو جی سے ملنے۔ اُن دنوں۔  بزنس میں مسلسل گھاٹے کی وجہ سے سارا گھر پریشان چل رہا تھا۔ بابو جی نے مینن کے بارے میں بتایا۔ یہ بھی، کہ وہ آثار قدیمہ میں ہیں۔ سامنے بیٹھا ہوا آدمی مجھے ایسا ہی کچھ لگ رہا تھا۔  کسی کھنڈر یا قدیم تہذیب سے نکلا ہوا۔  بس میں آہستہ سے مسکرا دی۔ ‘

’پھر سودا ہو گیا۔ ؟‘

’ہاں۔ تم اسے سودا بھی کہہ سکتے ہو۔ گھر والوں کو صرف میری فکر تھی۔ میرا کیا ہو گا۔ میں دودھ سے بالائی کی طرح ہٹا دی گئی تو سارا نقصان پورا ہو گیا۔ میں مینن کے ساتھ خوش تھی مگر۔ ‘

کافی کا پیالہ اس نے میز پر رکھ دیا۔ میں نے اسے بغور دیکھا۔ اس نے ہلکے نیلے رنگ کی نائیٹی پہن نہیں رکھی تھی۔  نائیٹی کے ’وی‘شیپ سے گولائیوں کی پہاڑی جیسی ڈھلانیں ایک بے حد خوبصورت منظر کی عکاسی کر رہی تھیں۔ نیلے پربتوں کے درمیان ایک ہلکی سی کھائی برانگیختہ کرنے والی تھی۔   اس نے نظر جھکا لیا تھا۔

’تحفہ میں دو بچے ملے تھے۔ ان بچوں کی اپنی زندگی تھی۔ اس زندگی میں، میں نہیں تھی۔ میں ایک نقلی عورت بن کر اس زندگی میں داخل ہونے کی کوشش تو کرتی رہی____ شاید مینن کو خوش کرنے کے لئے۔ مگر۔ بچوں نے صاف کہہ دیا۔

’’ماں بننے کی جستجو میں دوسری عورت ایک فاحشہ بن جاتی ہے۔ فاحشہ۔ ‘‘

مجھے وہ لمحہ یاد ہے۔ دن تاریخ یاد ہے۔ چودہ فروری ویلنٹائن ڈے____ رات سات بج کر بیس منٹ۔ فاحشہ۔  بچوں کے لفظ چہرے پر آ کر جھّریاں بن گئے____ پل میں خوشیوں کے انگور سوکھ کر کشمش ہو گئے____ مجھے لگا، بچوں نے ریوالور کی تمام گولیاں میرے بدن میں اتار دی ہیں۔ میں چیختی ہوئی غصّے سے پلٹی تو وہیں کنارے میز پر____  جلتے ہوئے لیمپ کی روشنی میں مینن بہت سے کوڑے کباڑ کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

’تم نے سنا۔ ‘ میں روتی چیختی ہوئی زور سے گرجی تھی۔

’ہاں سنا۔ مگر یہ دیکھو۔  یہ۔ ۔ اس کے چہرے پر ذرا بھی شکن نہیں تھی۔  میں سانسوں کے رتھ پر سوار تھی۔  جیسے لکڑی کے ’سانکچے‘ سے____ لحاف میں روئی بھرنے والے____ روئی دھُنکتے ہیں۔ میں سانسیں ’دھنک‘ رہی تھی۔ مینن کہہ رہا تھا۔ یہ دیکھو۔ ‘

میں دیکھ رہی تھی۔ میز پر کباڑ پڑا تھا۔ ہاں کباڑ۔ جیسے کیچڑ یا گندہ نالا صاف کرنے والے پرانی ٹوٹی پھوٹی اشیاء کو دھو پوچھ کر رکھ لیتے ہیں۔

میں سانسیں ’دھن‘ رہی تھی۔  ’’ان بچوں نے مجھے۔ ‘‘

’رنڈی کہنے سے کوئی رنڈی نہیں ہو جاتا۔ سنا ہے۔ ‘ اس کا چہرہ تاثر سے عاری تھا۔ میں نے ایک تیز چیخ ماری۔  غصّے میں میز الٹ دی۔ دوسرے ہی لمحے مینن کے لات جوتوں کی زد میں تھی۔ وہ مجھے ویسے ہی دھُن رہا تھا جیسے لحاف میں پرانی روئی بھرنے والے۔ وہ مجھ پر سڑی گلی گالیوں کی بوچھار کر رہا تھا۔ بچے مشینی انداز میں، پڑھائی کرنے میں لگے تھے۔

مینن چیخ رہا تھا۔ ’جاہل عورت۔ پتہ ہے تم نے کیا کر دیا____ تہذیب۔ قدیم تہذیب۔  ارے آرکیالوجیکل سروے سے ملی تھی یہ نادر چیزیں____ بدقسمت عورت۔ برسوں کی کھوج کے بعد تو یہ خزانہ ملا تھا۔ ہم جس کے لئے مدتوں بھٹکتے رہے ہیں۔ تال سے پاتال تک۔  اسٹوپڈ۔  ڈاٹر آف سوائن۔ بچ۔  اس نے مجھے دیوار کی طرف ڈھکیلا۔  شکل دیکھی ہے۔  بچے ٹھیک کہتے ہیں۔ بچے کوئی غلط نہیں کہتے۔ ‘‘

’میں فاحشہ ہوں‘۔ ترپتی، اچانک میرے سامنے آ کر تن گئی تھی____ اتنے قریب کہ میں سانسوں کی سرگم سننے لگا تھا۔  میں فاحشہ ہوں۔  میرے بدن کے ’تاروں‘ سے روئی کے گولے بکھرتے چلے گئے۔ اس نے نائیٹی ہوا میں اڑا دی۔  میں نے اسے مضبوط بانہوں کے شکنجے میں لے لیا۔

’روئی دھننے والے‘ کی آواز آہستہ آہستہ مدھم مدھم ہوتی ہوئی ایک دم سے کھو گئی____ وہ اٹھی۔ نائیٹی پہنی۔ دل کھول کر مسکرائی۔ میرے گالوں کو پکڑ کر زور سے بوسہ لیا۔ آہستہ سے بولی____  تھینک یو۔ واش بیسن پر پانی کے دو چار چھینٹے چہرے پر مارے۔ پھر مسکراتی ہوئی سامنے آ کر بیٹھ گئی۔

میں نے آہستہ سے پوچھا۔

’وہ بچوں کو بھی لے گیا۔ ‘؟

’ہاں۔ میرے پاس اکیلے رہنے سے وہ اور بچے دونوں ہی خود کو ان سیکور فیل کرتے ہیں۔ ‘

’شاید اسی لئے تمہاری آتما بھٹکتی رہتی ہے۔ کبھی میگزین کا دفتر۔ کبھی آرٹ گیلری، کبھی میوزک ورکشاپ____‘

میں ایک آترپت آتما ہوں۔ وہ ہنس رہی تھی۔ شاید اسی لئے ماں باپ نے مذاق کے طور پر میرا نام ترپتی رکھ دیا۔

میں نے کپڑے پہن نہیں لئے تھے____ وہ اچانک اٹھی۔ بے اختیار ہو کر ایک بار پھر میرے جسم سے لگ گئی۔ وہ رو رہی تھی۔

’ترپتی۔ ترپتی‘۔  میرے ہاتھ بارش بن گئے تھے۔  اُس کے جسم کے لئے۔  اس کے تھر تھراتے مچلتے جسم کے لئے۔ وہ ہر جگہ برس رہے تھے۔ بوسوں کی بارش کر رہے تھے۔  پھر جیسے بجلی تیزی سے گرجی۔ اسے جیسے غلطی کا احساس ہوا ہو۔ وہ تیزی سے پیچھے ہٹی۔ میری طرف دیکھ کر ہنسی۔ پھر بولی۔

’’آخر اسے ایک تہذیب مل گئی۔ جس کی کھوج میں وہ برسوں سے لگا تھا۔ ایک قدیم تہذیب۔ یہ اس ڈراؤنے ویلٹائن ڈے کے چوتھے دن بعد کا قصہ ہے۔ مسوری، ہماچل وغیرہ میں برف گری تھی شاید۔ سردی اچانک تیز ہو گئی تھی۔  وہ رات کے 3بجے آیا۔ میں سو گئی تھی۔ عام طور پر جب میں اکیلے ہوتی ہوں۔ بیڈروم میں ____تو برائے نام لباس پہنتی ہوں۔  وہ مجھے اٹھا رہا تھا۔ جانوروں کی طرح۔

’’ہو ہو.. اٹھو..اٹھو۔ ‘‘

میں نے سمجھا، ایک جانور پیاسا ہے۔ عام طور پر وہ اسی طرح، ایک بے حس جانور کی طرح اپنی بھوک مٹاتا تھا۔ رات کے تین بجے اُٹھا کر اس نے مجھے صوفہ پر بیٹھا دیا۔ وہ خوشی سے جھوم رہا تھا۔ ’جھومر‘ کی طرح مسکراہٹ اس کے پور پور سے روشنی دے رہی تھی۔

’بولو۔ اُٹھایا کیوں۔ میں گہری نیند میں تھی۔ ‘‘

’مل گیا۔ یوریکا۔ ’’اسے میرے لفظوں کی، نیند کی فکر نہیں تھی۔ ’’تمہیں یاد ہے۔  وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا____ میں نے بتایا تھا نا، 1991ء کے آس پاس جرمن سیاحوں کو آلپس کی پہاڑیوں پر ٹہلتے ہوئے انسانی اعضاء ملے تھے۔ یاد ہے؟ وہ بیسویں صدی کی سب سے عظیم دریافت تھی____ سب سے عظیم دریافت۔ گیا رہ برس بعد____ اس کے ٹھیک گیا رہ برس بعد۔ آہ تم یقین نہیں کرو گی۔ مگر ہم دنیا بدل دیں گے۔ تاریخ نئے سرے سے لکھی جائے گی۔ میں ان کچھ لوگوں میں سے ایک تھا____ گجرات کے ساحل سے 30کلو میٹر دور کھمباٹ کی کھاڑی میں ایک عظیم خزانہ ہاتھ آگیا ہے۔ سونو فوٹو گرافی۔ تمہیں یاد ہے نا، چار دن پہلے۔

’جلتے ہوئے گجرات میں۔ عظیم خزانہ۔ ‘

’ہاں‘ مجھے یاد ہے‘۔ میرے لہجہ میں ناگواری تھی۔  چار دن پہلے، ویلنٹائن ڈے کے دن جو کچھ ہوا میں اسے کبھی بھول نہیں سکتی۔ ‘

’بھولنا بھی نہیں چاہئے۔ ‘مینن کے لہجہ میں کہیں بھی دکھ یا اداسی کی جھلک نہیں تھی۔ ’جھومر‘ جیسے اندھیرے میں سوئچ کی حرکت سے روشنی کی طرح بکھر گیا تھا۔  ’سونو فوٹوگرافی سے نکلی تصویریں جب لیب سے باہر آئیں تو ہمیں اچانک احساس ہوا____ سمندر میں 40میٹر نیچے دفن قدیم ترین تہذیب اچانک رنگین ستاروں کی طرح ہماری قسمت سے جوڑ دی گئی ہو۔  ایک قدیم شہر، موہن جداڑو کی طرح رہائشی مکانات____ سیڑھیوں کی طرح نیچے اترتے پوکھر___ تالاب۔

’’اور سب کچھ اُسی گجرات کے ساحلی علاقے میں۔ ‘‘

میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔ میں دیواروں کا خیال رکھتے ہوئے چیخی۔ ’’میں  بھی ایک عظیم پوکھر ہوں۔ ایک عظیم تالاب ہوں اور انتہائی قدیم۔ تمہیں اس عظیم پوکھر میں بہتے پانیوں کے اشارے کیوں نہیں ملتے۔ ‘؟

اس نے میری آواز کو نظرانداز کیا۔  وہ بتا رہا تھا۔ تہذیبیں کہیں جاتی نہیں ہیں۔ وقت کے ڈائنا سور انتہائی خاموشی سے انہیں نگل جاتے ہیں____  تہذیبیں ’ممی‘ سے باہر نکلنے کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ آہ، تم نہیں جانتی۔  میں کس قدر خوش ہوں۔ سمندر کے گہرے پانی میں 90کلو میٹر کے دائرے تک، اس قدیم تہذیب کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں____ قدیم شہر____ ایک پورا شہر ندی میں سما گیا____ سندھو گھاٹی کی تہذیب کی طرح۔ یہ شہر اسی طرح کا ہے۔ جیسے ہڑپا کے برامدات میں پایا گیا تھا____مٹی کی بنی ہوئی نالیاں۔ کچی سڑکیں۔ چھوٹے چھوٹے مٹی کے گھر۔ پتھر کے تراشے اوزار۔ گہنے____ مٹی کے ٹوٹے پھوٹے برتن____ جواہرات____ ہاتھی کے دانت اور۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ سب کچھ یعنی 7500 ق۔ م۔ یعنی قبل مسیح کا۔

’یہ سب مجھے کیوں سنا رہے ہو‘؟

وہ آگے بڑھا۔ میرے جسم پر یوں بھی کپڑے اس وقت برائے نام تھے۔  ’اس نے باقی بچے کپڑے بھی جسم سے الگ کر دیئے۔  اس لئے کہ۔  ’’میری آثار قدیمہ۔  تمہیں اب انہیں کھنڈروں میں بیٹھانا چاہتا ہوں۔  لیکن اس سے پہلے تمہارے ان کھنڈروں پر ریسرچ کرنا چاہتا ہوں۔  اس نے ایک بھدّی گالی دی۔ مجھے بستر تک کھینچنا چاہا اور شاید۔ ‘‘

وہ ہانپ رہی تھی۔  یہ اس کے ساتھ مسلسل، گزر رہے لمحوں کا جبر تھا کہ میں نے الٹا ہاتھ اس کے گال پر جڑ دیا۔

’کتیا۔ ‘ وہ ہانپ رہا تھا۔  ’’ایک بہت قدیم تہذیب برآمد کرنے کے بعد مجھے تمہارے ٹوٹے پھوٹے کھنڈر کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘

اس نے مجھے دھکا دیا اور خود کو بستر پر سونے کے لئے ڈال دیا____ میں زمین کے تنہا گوشہ میں دیر تک اپنے آنسوؤں کا شکار ہوتی رہی۔

***

’’پھر کیا ہوا، اس نے تمہیں ڈیورس دے دیا؟‘‘

’نہیں۔ ‘ وہ مسکرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایسے لوگوں کو جانتی ہوں۔ جان گئی ہوں۔ ایسے لوگ، ڈرپوک ہوتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں بہت دور تک دھوپ اور سایہ دیکھنے والے۔  ایسے لوگ قدم قدم پر ان سیکوریٹی کے مارے ہوتے ہیں____ مینن بھی ایسے ہی جذبہ سے دو چار تھا____ میرے بعد۔ ؟ اپنی، جسمانی اور بچوں کی۔ ترپتی مینن میری طرف مڑ گئی تھی۔ تمہیں کیا لگتا ہے ایسے لوگ جیت سکتے ہیں؟ نہیں۔ کسی ایک لمحے کا____ بولا گیا سچ ان کی اپنی ذات پر بھاری پڑتا ہے۔ دوسرے دن وہ ایک سدھا، ہوا بلڈاگ بن گیا تھا____ میرے قدموں پر لوٹتا ہوا۔ بچے اسکول جا چکے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔

ترپتی آگے بڑھ کر کھڑکی کے پٹ کھول رہی تھی۔ باہر رات کی سیاہی مکمل طور پر چھا چکی تھی۔ ٹھنڈ بڑھ گئی تھی۔ تیز ہوا کے جھونکے کھڑکی کھولتے ہی اندر ہمارے جسموں میں داخل ہو گئے۔

 ’’ہوا تیز چل رہی ہے، نہیں؟‘‘

’ہاں۔ ‘

باہر کہرے کے ’آبشار‘ گر رہے تھے۔ وہ کھڑکی کے پاس اپنے منہ کو لے گئی۔ پھر میری طرف پلٹی۔ ہلکی سانس چھوڑی۔ چہرے کو اپنی ہتھیلیوں سے خشک کیا۔

’’کہرے کا احساس چہرے پر کیسا لگتا ہے۔ آں؟ جیسے ایک نم سی ٹھنڈی، روئی آپ کے چہرے پر رکھ دی گئی ہے۔ ہے نا؟‘‘

وہ پھر مسکرائی____  میں کہاں تھی۔ ہاں، یاد آیا۔ وہ ایک سدھے ہوئے بلڈاگ کی طرح اپنے نتھنے، میرے جسم پر رگڑ رہا تھا۔ کتّا____ مجھے ابکائی آ رہی تھی۔ تیز نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سیکس کے بخار میں جل رہا تھا۔

’’پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے مجھے۔ کل رات۔ معاف کر دو ترپتی‘۔  اس کے رکھڑے، بن ماس جیسے ہاتھ میرے جسم پر مچل رہے تھے۔ وہ میرے کپڑے کھول رہا تھا۔ میں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ میمنے، کی طرح معصومیت سے، اپنے غصّے کو دبائے اس کے جانور نما، پنجوں کا کھیل دیکھتی رہی۔ جب وہ میرے کپڑے اتار چکا اور کسی جنگلی بھیڑیے کی طرح اپنی ہوس پوری کرنے کے لئے تیار تھا____ ایک دم اسی وقت، میں کسی جنگلی بلی کی طرح غرائی____ دھب سے زمین پر کودی____ غصّے میں اسے پرے ڈھکیلا____ کپڑے پہنے اور چلائی۔

یو، سن آف بلڈی سوائن۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی۔ ؟

وہ جل رہا تھا۔ وہ اپنے بدن کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ گڑگڑا رہا تھا۔ وہ اپنے بھوکے بدن کی دہائیاں دے رہا تھا۔ میں کسی فاتح کی طرح مسکرائی۔ اس بار اسے سیراب کرنے کے لئے، میں نے سکندر بادشاہ کی طرح فتح کا سہرا  اپنے سر لکھ لیا تھا۔

ترپتی نے کھڑکی بند کر دی۔ ’چلو، اس حادثے کو بھی بھول گئی میں۔  بھولنا پڑتا ہے۔ وہ چلتی ہوئی میرے قریب آئی۔ میری جانگوں پر بیٹھ گئی۔

’سنو۔ تمہارے یہاں کون کون ہیں؟‘‘

’ملو گی؟‘

’ہاں۔ ملنا چاہوں گی۔ ‘

’مینن آ گئے تو؟‘

’اب میں اسے ڈرانا چاہتی ہوں____ وہ میرے شرٹ کے بٹن سے کھیل رہی تھی۔ کھیلتے کھیلتے خود بولی۔

’ایک بیوی ہو گی!؟‘

’ہاں‘

’اسے بتاؤ گے کہ تم سے ایک ندی کی لہر ٹکرائی تھی____‘

’نہیں‘

’ڈرتے ہو۔ ‘

’ڈرنا پڑتا ہے۔ بیویاں صرف ایک سمندر۔ سمندر کی صرف ایک لہر سے واقف ہوتی ہیں____ دوسرے لفظوں میں کہوں تو وہ ساری لہروں پر خود ہی حکومت کرنا چاہتی ہیں۔ ‘

وہ ہنس رہی تھی۔  اور کون ہے۔

’ایک بیٹا‘

’کتنے برس کا؟‘

’آٹھ برس کا‘

اور۔ ‘

میں نے اسے جانگھوں سے پرے کیا۔ شریانوں میں گرم گرم طوفان کی آمد سے خود کو بچانا چاہتا تھا۔

’تم نے بتایا نہیں۔ اور کون ہے۔ ‘

’ایک بیٹی ہے۔ مگر۔ ‘

’مگر۔ ؟‘

’نہیں۔ وہ ہے نہیں۔ میرا مطلب ہے، وہ بن رہی ہے۔ بس وہ بن رہی ہے اور ایک دن یقین جانو وہ پوری طرح بن جائے گی۔ ‘

’اس نے چونک کر تعجب سے مجھے دیکھا‘

’پہلیاں مت بجھاؤ‘

’دراصل۔  میں نے اپنا جملہ مکمل کیا۔  وہ انکیوبیٹر میں ہے اور مسلسل بننے کے عمل میں ہے۔ ‘

’کیا مجھے ملواؤ گے؟‘

ترپتی نے اپنا بدن ایک بار پھر میرے بدن پر ڈال دیا تھا____

***

لفٹ پانچویں فلور پر رک گئی تھی۔ یہ اسپتال کا نرسری وارڈ تھا۔ فل ائیرکنڈیشنڈ____ باہر ایک لمبی راہداری چلی گئی تھی۔ ترپتی نے آہستہ سے میرا ہاتھ تھام لیا____ شیشے کے بنے دروازوں سے گزرتے ہوئے ہم ’ماترتو سدن‘ کے بورڈ کے آگے ٹھہر گئے____

’یہاں جوتے اتارنے ہوں گے۔ ‘

ترپتی کے پاؤں جاپانیوں اور چینی عورتوں کی طرح چھوٹے اور ملائم تھے۔ گیٹ کیپر نے دروازہ کھول دیا۔ دروازے کے اندر شیشے کی ایک عجیب سی دنیا تھی۔ ترپتی حیرت سے شیشے کے اس پار دیکھ رہی تھی۔ شیشے کے اس پار بھی، شیشے کے کتنے ہی چھوٹے چھوٹے گھروندے بنے ہوئے تھے____ ایسے ہر گھروندے میں نیلے بلب جل رہے تھے۔

’نیل کہاں ہے؟ ترپتی کی آنکھوں میں تجسس تھا۔ ‘

وہاں ان گنت انکیوبیٹرس تھے۔ ترپتی کی انگلیاں تیر رہی تھیں۔ وہاں۔

’نہیں‘، ’نہیں؟‘

’وہ۔ ‘

’وہ بھی نہیں۔ ‘

’اچھا وہ۔ دائیں طرف۔ ‘

’نہیں۔ ‘

’پھر نیل کہاں ہے؟‘

’نیل وہ رہی‘

’مگر۔ وہ انکیوبیٹر تو خالی ہے۔  ترپتی چونک گئی تھی۔

’خالی نہیں ہے۔ غور سے دیکھو۔ ‘

’خالی ہے!، ترپتی کا لہجہ اُداسی سے پُر تھا۔

’ہے نا۔  میں نے کہا تھا۔ وہ بن رہی ہے____‘ میں نے ترپتی کا ہاتھ زور سے تھام لیا تھا۔  یاد ہے ترپتی۔ میں نے کہا تھا، عورت ہر بار بننے کے عمل میں ہوتی ہے۔ ایک بے چین آتما۔  ایک یونانی دنت کتھا میں پڑھا تھا____ عورت کی جون میں پرویش سے پہلے، آتما دھرتی کی سوپریکر مائیں پوری کرتی ہے۔ تمہاری آتما بھی بے چین تھی۔ کبھی ساہتیہ۔ کبھی آرٹ اور کبھی۔ ‘

ترپتی میری طرف تیزی سے مڑی۔ ہنستے ہوئی بولی۔

’سنو۔ اس انکیوبیٹر میں مینن کو ڈال دوں؟‘

’نہیں۔ ‘

میرا لہجہ نپا تُلا تھا۔  ’سب سے پہلے ابھی تمہیں اس انکیوبیٹر سے باہر نکلنا ہے‘

میں نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔  اس کا ہاتھ تھام کر باہر آگیا۔  لفٹ کے بٹن پر انگلیاں رکھتے ہوئے بھی میں نے اس کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا____

         ممکن ہے وہ انکیوبیٹر میں رہ گئی ہو۔ یا ممکن ہے، شوہر کے آثار قدیمہ میں بھٹک رہی ہو!

٭٭٭

 

لینڈ اسکیپ کے گھوڑے

(پیارے دوست اس۔ ال۔ حسین کے نام)

               سب سے بُری خبر

’’نہیں، اس گھوڑے کے بارے میں نہیں پوچھئے۔ برائے مہربانی‘‘۔ وہ زور زور سے ہنس رہا تھا۔ برائے مہربانی اور جیسا کہ میں نے کہا۔ آپ یقین کیجئے۔ وہ گھوڑا۔ با۔ بابا۔  ایک بے حد دلچسپ کہانی اور جیسا کہ میں ہوں۔ کیا آپ مجھ پر یقین کریں گے۔ ہاں آپ کو کرنا چاہئے۔  اور وہ گھوڑا چانک کورے کینواس سے چھلانگ لگا کر میرے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ ‘‘

کالے چشمہ کے اندر حسین کی پتلیاں تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔ نہیں۔ مجھے مغالطہ ہوا تھا۔ کسی بھی انسانی آنکھ کی پتلیوں میں یہ جوش میں نے کم دیکھا تھا۔  حسین کی پتلیاں ٹھہرتی نہیں تھیں۔  وہ شرارتی کنچے، کی گولیوں کی مانند تھیں۔ ادھر سے ادھر چمکیلے فرش پر تیرنے والی۔  اور مجھے لگتا ہے باتیں کرتے ہوئے بھی حسین ان پتلیوں کو وقفے وقفے آپ کی نظر بچا کر اپنی ہتھیلیوں میں تھام لیتا ہے۔ ۔  گو، ایسا کرتے ہوئے وہ پریشان بھی ہو اٹھتا ہے کہ پتہ نہیں سامنے بیٹھا ہوا آدمی اس کے اس عمل کو کیا نام دے؟ مگر۔  کنچے کی گولیوں کی طرح اس کی آنکھوں کی شرارتی پتلیاں۔  اور گھوڑے۔

شراب کے دو ایک گھونٹ کے بعد ہی ہو وہ جذباتی حد تک فلسفی بن جاتا____

’دوست، سب سے بُری خبر ابھی لکھی جانی باقی ہے۔ ‘ وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہل رہا ہے۔ مجھے معلوم ہے۔ حسین کو چڑھ گئی ہے۔ چڑھنے کے بعد حسین کے اندر سنبھال کر رکھا ہوا، بوجھل آدمی مر جاتا ہے اور ایک حساس، جذباتی اور پاگل آدمی زندہ ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔

’’دوست، ابھی سب سے بُری خبر لکھی جانی باقی ہے۔ لیکن یہ بُری خبر آہستہ آہستہ لکھی جائے گی اور ممکن ہے۔ ممکن ہے۔  اس کے لکھے جانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہو۔ ‘‘

حسین پھر اپنی کرسی پر واپس آ کر بیٹھ گیا ہے۔

’کیا یہ خبر تم سے جڑی ہے؟، میں ہنسنا چاہتا ہوں۔ حسین کو چھیڑنے کا منشا ہے۔ مگر۔  حسین کے اندر کا آدمی دکھ گیا ہے۔

’’سب سے بُری خبر۔  سب سے بُری خبر کا تعلق محبت سے ہو گا دوست۔ سب سے بُری خبر ہو گی کہ محبت کرنے والے نہیں رہیں گے۔ سب سے بُری خبر ہو گی کہ محبت پر کچھ بھی تحریر نہیں کیا جائے گا۔ سب سے بُری خبر ہو گی۔ ‘‘

حسین بہک رہا ہے۔

میں اپنے دل کو سمجھاتا ہوں۔ حسین، جیسے بہت دیکھے ہیں۔  بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سارے پینے والے ہی حسین ہوتے ہیں۔ پی کر، خود پر قابو نہیں رکھنے والے۔  اپنے آپ کو بھول جانے والے۔ پھر۔ اندر کا فرسٹریشن مزے لے لے کر آپ کو ایک بیوقوف قسم کے جو کر میں بدل دیتا ہے۔  یعنی جیسے آپ آئینہ کے سامنے کھڑے ہوں اور اپنے عکس کو دیکھ کر عجیب عجیب حرکتیں کر رہے ہوں۔ فرق اتنا ہے کہ پینے کے بعد آپ اپنی عجیب عجیب حرکتوں کے لئے تو بچ جاتے ہیں لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ پاتے۔ پھر بے سر پیر کی کہانیاں اور فلسفے شروع ہو جاتے ہیں اور شراب کا نشہ ہرن ہونے تک، فلسفے بھی شیمپئن کے جھاگ کی طرح بہہ جاتے ہیں۔

لیکن۔ سب سے بُری خبر۔

***

مجھے اس خبر نے چونکایا تھا تو کیا اس آدمی نے، اس پچاس باون سالہ جذباتی خبطی آدمی نے محبت کا روگ بھی لگایا ہو گا۔  نہیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس پچاس باون سالہ آدمی نے۔  ایک انتہائی تجربہ کار، حساس اور جذباتی آدمی نے____ سوچنے کے آخری لمحے میں میں نے حسین سے اپنے دل کی بات پوچھ لی تھی۔

’’آپ کی سب سے حسین پینٹنگ کون ہے؟‘‘

’’جو میں نے اب تک نہیں بنائی‘‘۔

اس کی آنکھوں کی پتلیاں، پھر سے کنچے کی گولیاں بن گئی تھیں۔

               اور جو کچھ حسین نے بتایا

یہ کہانی یوں بھی شروع ہو سکتی تھی کہ ایک تیس سال کا پینٹر تھا اور ایک دبئی یا کسی بھی عرب ممالک میں رہنے والی لڑکی تھی۔ لیکن حسین کے لئے صرف لڑکی ہونا، محبت کے لئے کافی نہیں تھا۔ اور وہ بھی تب۔ جب ایک عمر نکل جانے کے بعد بھی ایک عمر آپ میں چھپی بیٹھی رہ جاتی ہے۔ یہ پوچھنے کے لئے کہ میں ہوں تو مجھے جیتے کیوں نہیں ہو۔

’وہ کیسے ملی۔ ؟‘

حسین کے لفظوں میں۔  پہلی بار لگا، وہ لڑکی دیکھتے دیکھتے میرے سامنے ایک پینٹنگ میں بدل گئی ہو۔ ایزل، کینواس، برش، رنگ۔  اس پینٹنگ میں سب کچھ تھا۔ لیکن لڑکی غائب ہو گئی تھی۔ لڑکی کی جگہ۔ ‘

’گھوڑے نے لے لئے تھے۔ ’میں مسکرایا۔ دلّی کی نمائش گاہ میں اس کی جس پینٹنگ کی، میں نے سب سے زیادہ داد دی تھی، وہ وہی دو گھوڑے تھے۔ دو وجیہہ گھوڑے۔ حسین ایرانی گھوڑے۔  آپس میں گلے ملتے ہوئے۔  کاغذ کے کینواس پر پنسل کی باریک لکیروں سے، ان دو گھوڑوں نے جنم لیا تھا۔

’کیا یہ تم ہو، حسین؟‘

’’آہ نہیں۔ لیکن تم قریب قریب پہنچ رہے ہو۔ ‘‘

’کیا ان میں سے ایک گھوڑا ہندستانی ہے اور ایک۔ ‘

’نہیں۔ حسین پر اس بار پینٹنگ والی لڑکی حاوی ہو گئی تھی۔  ’’اس سے پہلے میں نہیں جانتا تھا۔ عورتیں، مردوں کی کمزوری سے کس حد تک واقف رہتی ہیں۔ اور شاید وہ اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن شاید اپنی ان کمزوریوں کو مرد بھی پہچانتا ہے۔ مرد ان کمزوریوں سے واقف رہتا ہے۔  اس وقت بھی جب عورت اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہی ہوتی ہے۔ لیکن آہ، عورت کبھی مرد کی اس طاقت کو نہیں پہچان پائی۔  جس کے بارے میں وہ جان لے تو شاید عورتوں کا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے۔ کیونکہ ان کی پہچان کا ایک راستہ مرد کی طاقت سے بھی ہو کر گزرتا ہے۔ حسین کہتے کہتے ٹھہر گئے تھے۔

’’وہ میرے دوست کی بہن تھی اور اس دن، میرا دل بار بار کہہ رہا تھا، حسین کچھ ہونے والا ہے۔  یہ اندر کے گھوڑے کی بے چینی تھی، جس نے اپنے علاج کے لئے ڈاکٹر دوست کا گھر دیکھ لیا تھا۔

’’میں اپنے اسی لباس میں تھا۔ کرتا پائجامہ اور جیسا کہ میں عام طور پر پہنتا ہوں۔ کرتے پر کالے رنگ کی ایک صدری یا بنڈی۔ آپ جو بھی نام دے دیں۔ کال بیل پر انگلی رکھتے ہوئے بھی میرے ہاتھ لرز رہے تھے۔ ‘‘

اور وہ آئی۔ وہ سامنے کھڑی تھی۔ تصویر ساکت تھی۔ وہ مجسم، میری اس پینٹنگ میں بدل گئی تھی، جو میں نے اب تک نہیں بنائی تھی۔ کیا یہ کیوپڈ کا تیر تھا؟ لمحہ رک گیا تھا اور پینٹنگ ساکت تھی۔

ایک بہت ہی عام چہرہ جیسا کہ میں ہوں۔

اور ایک بے حد خاص چہرہ جیسا کہ وہ تھی۔

ایک بے حد عام سا مرد۔ اور بے حد خاص سی لڑکی۔

ہم دونوں دروازے پر تھے۔ ایک دروازے پر ہاتھ رکھے۔ اور دوسرا دروازے کے باہر۔

خاموش ان لمحوں کا جادو ایسا تھا کہ کسی حسین پینٹنگ کی طرح میں اسے آنکھوں کے کینواس پر قید کر رہا تھا۔ بکھری ہوئی زلفیں۔ آسمانی رنگ کی شلوار، قمیض۔  اسی رنگ سے میچ کرتا ہوا دوپٹہ۔  دوپٹّہ ہڑبڑاہٹ میں، اس کے کندھے سے ہوتا ہوا سینے پر جھول گیا تھا۔ وینس دی میلو۔ خوبصورت آدھے کٹے ہاتھوں والی عورت اور اس کا بّراق حسین سینہ۔ وہ سینہ مصفّی وہ دو قبہ نور۔  یقیناً وہ حسین تھے اور بھرے بھرے۔ اس کے ہونٹ موٹے تھے۔ موٹے ہونٹ میری کمزوری ہیں۔ موٹے اور رسیلے۔ وہ تو وینس دی میلوتھی۔ لیکن میں کیا تھا۔ ؟

وہ مجھ میں کیا دیکھ رہی تھی۔

میں اس پر نثار ہو رہا تھا اور چاہتا تھا، وہ اپنے لئے میری اس کمزوری کو محسوس کرے۔

’’عمر۔ عمر کیا ہو گی اس کی؟‘‘

ان جادوئی خاموش لمحوں میں، میں اس کی عمر کی، رواں سڑک سے گزر رہا تھا۔ سولہ، اٹھا رہ یا زیادہ سے زیادہ بیس۔  یا عمر کہیں کسی سرکش گھوڑے کی طرح ٹھہر گئی تھی۔  ندی بہہ رہی تھی۔

پھر ندی ایک دم سے ٹھہر گئی۔

وینس کو اپنے ہونے کا احساس ہو گیا تھا۔

’دیکھئے۔ ‘

میں نے ٹھہر ٹھہر کر کہا۔ ’’میری طبیعت خراب ہے۔ اس وقت بھی بخار سے جل رہا ہوں۔ فرقان میرے دوست ہیں اور آپ کے ملک میں میرا ساتواں دن ہے۔  آنے سے قبل، پاکستان سے فرقان سے میری فون پر بات ہوئی تھی‘‘

اس کی آنکھوں میں نشہ تھا۔ وہ ہرن کی طرح لہرائی۔ ندی کی لہروں کی طرح گھومی۔  دوپٹہ کو ریشم کی ڈوری کی طرح نچایا۔  اپنی ’لانبی‘‘ گردن کو جنبش دی۔

مجھے اندر آنے کے لئے جگہ دیا۔ مسکرائی۔

’’آ جائیے۔ فرقان میرے بڑے بھائی ہیں‘‘۔

               ڈاکٹر فرقان، پینٹنگ اور وہ

وہ بات بات پر ہنس پڑتا تھا۔ یا یوں کہئے، اسے ہنسنے کی بیماری تھی۔ یا یوں کہئے، ہنسنا اس کے لئے مریضوں کو ’رُجھانے‘ کا ایک شغل بن چکا تھا۔ مجھے یقین تھا وہ رات میں سوتے سوتے بھی بلاواسطہ ہنستا ضرور ہنستا ہو گا۔ تو یہ ڈاکٹر فرقان تھا۔ (نہیں، آپ اس آدمی یا اُس کی کہانی پر تعجب مت کیجئے، جس کے بارے میں، بعد میں معلوم ہوا کہ فرضی اور جعلی ڈگریوں کے حوالے سے اس نے نہ صرف میڈیکل کی ڈگری حاصل کی۔ بلکہ دبئی تک کا سفر بھی کر آیا۔ بہر کیف ان باتوں کا کہانی سے کوئی زیادہ تعلق نہیں ہے) مجھے تعجب تھا، اتنی حسین لڑکی ڈاکٹر فرقان کی بہن کیسے ہو سکتی ہے اور اس سے مسلسل، باتیں کرنے کے دوران مجھے یہ خیال بھی پیدا ہو رہا تھا کہ اس جیسے کسی ڈاکٹر کو یعنی جس کا ٹارچر کرنے والا پیشہ اس کے چہرے پر بھی لکھا ہوتا ہے، کی کوئی بہن نہیں ہونی چاہئے۔ بہن اور وہ بھی اتنی خوبصورت۔

’ہو..ہو..۔ ڈاکٹر فرقان پھر ہنسا۔  تو اب بھی تمہاری وہی عادت ہے، یعنی آڑی ترچھی لکیریں..ہو ہو..

وہ ہنس رہا تھا۔

وہ سامنے آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ مسکرا رہی تھی۔

’’تو آپ پینٹنگ بناتے ہیں؟‘‘

ہو ..ہو۔ ڈاکٹر فرقان کو اپنی بے کار کی ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔

’آئیے۔ آپ سے کچھ پینٹنگ کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔  کھڑے کھڑے اس نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا۔ انتہائی شفاف۔ لانبی مخروطی انگلیاں۔  کیا یہ وینس دی میلو کی انگلیاں ہیں۔ آج اس کا دوپٹہ غائب تھا۔ کھلے گلے سے ’قبہ نور‘ کے دیدار کے لئے آج اس نے میری مسحور نظروں کو روکا یا ٹوکا نہیں تھا۔ جی بھر کر دیکھنے دیا تھا۔ اس کی انگلیاں گرم تھیں۔ ہتھیلیاں، آگ کا گرم انگارہ بن گئی تھیں۔

ڈاکٹر فرقان ہنس رہا تھا۔  پینٹنگ۔ ہو ہو..جاؤ میری بہن اس موضوع پر تم سے کچھ زیادہ اچھی باتیں کر سکتی ہے۔ ہو  ہو..

اس نے ہاتھ تھامے ہوئے اپنی بہن کو کچھ ایسی نظروں سے دیکھا، جیسے عام طور پر وہ اپنے مریضوں کو دیکھتا ہو گا۔

اس کی آواز سرد تھی۔ جیسے کسی گہرے کنویں سے آ رہی ہو۔

’بھیا ایسے ہی ہیں۔  ہمیشہ سے۔ یعنی پورے ڈاکٹر۔ ‘

ہم بالکونی میں تھے۔ پلاسٹک کی کرسیوں کے پاس کی جگہ ایک چھوٹے سے گارڈن کا نمونہ پیش کر رہی تھی۔ جہاں ہم بیٹھے تھے، وہاں سے آسمان پتوں کی قطار سے جگمگا تا ہوا، کچھ زیادہ ہی گہرا نیلا ہو گیا تھا۔ اس نے نظر جھکائی۔ بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے تھام لیا۔ وہ اپنے ناخنوں پر لگی پالش سے کھیل رہی تھی۔

’’تہذیب نے آرٹ کو جم دیا اور آرٹ نے تہذیب کے لئے راستے پیدا کئے۔  پہلے تہذیب پیدا ہوئی یا پہلے آرٹ؟ پہلے بیج پیدا ہوا یا پہلے درخت؟۔ مجھے لگتا ہے، پہلے پہلے ایموشنس، رہے ہوں گے۔ جذبات۔  دو آنکھوں، دو دریا اور دو دلوں کے بیچ۔  جیسے ندی میں کنکری پھینکو۔ پہلے پہلے کسی نے اس کنکری کی چیخ سنی ہو گی۔  اور اس چیخ کو ’پاشان‘ والوں نے کسی درخت کے کھوکھل یا زمین کے ماتھے پر لکھ دیا ہو گا۔ آرٹ پہلے آیا اور تہذیب۔ ؟‘‘

اس نے کنچوں والے جھولتے گل دستے سے ایک پتہ توڑ لیا۔  ’’تہذیبیں کتنی آگے نکل گئیں۔ اسٹون، کوپر اور آئرن ایج کے انسان نے اپنے ہر کرشمہ کے لئے آرٹ کو آواز دی ہو گی۔ ؟ ہے نا؟‘‘ وہ میری طرف گھومی تھی۔

’’تم پینٹر، عورت میں کیا دیکھتے ہو۔ ؟‘‘

وہ جھکی تو اس کے قبہ نور کے شعلے انگاروں کی بارش کرنے لگے۔ اس نے مجھے اپنے جادو میں تیرنے دیا۔ ذرا توقف کے بعد وہ پھر بولی۔

’’تم نے جواب نہیں دیا۔ تم لوگ عورت میں کیا ڈھونڈھتے ہو۔ ؟‘ ایک ننگا جسم؟ وہ میری آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔  گداز بانہیں، حسین چکنے پاؤں، جیسے ایک چکنی سڑک اور۔  وہ مسکرا رہی تھی۔

پھر اس کی مسکراہٹ کچھ زیادہ ہی گہری ہو گئی۔

’کیا تم مجھے دیکھنا چاہو گے۔ ؟‘

اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ وہ اٹھی۔ میرا بدن لرز رہا تھا۔  اٹھتے اٹھتے میں نے دیکھا اس نے جھولتے گلدستہ سے جو پتہ توڑا تھا۔ اس کے ٹکڑے زمین پر بکھر گئے تھے۔

ڈاکٹر فرقان! میرے لب تھرتھرائے۔

’نہیں۔ وہ مریضوں کو دیکھنے جا چکے ہیں اور شام کے 8بجے سے قبل لوٹیں گے بھی نہیں۔ ‘

وہ مجھے اپنے بیڈروم میں لے آئی تھی۔ آگے بڑھ کر پچھم کی طرف کھلنے والی کھڑکی اس نے بند کر دی۔ پردہ کھینچ دیا۔ بلب روشن کر دیا۔ مجھے صوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر میز پر، کتابوں کے درمیان سے کچھ تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہی۔  پھر تیز تیز میرے قریب آ کر، البم سے ایک تصویر نکال کر ہنس پڑی۔

’’پہچانو۔ ‘‘

تصویر میں ایک سال کی بچی، نہانے والی بالٹی کے پاس کھڑی رو رہی تھی۔ ایک عورت ہاتھ میں پانی کا مگ لئے کھڑی مسکرا رہی تھی۔

’’یہ میں ہوں، اس نے بچی کی طرف اشارہ کیا۔ ‘‘ اور یہ ماں ہے۔ ‘‘ اس کے چہرے پہ معصوم شرارت تھی۔

’دیکھ لیا مجھے۔ اس بچی کو ایک پینٹنگ میں کتنا بڑا کر سکتے ہو؟۔  میرے برابر؟۔  پھر وہ یہ رہی۔ یا یہ میں بن گئی۔ ؟‘‘

’’اس بچی نے کچھ بھی نہیں پہنا ہوا ہے۔ ‘

’اور میں لباس سے ہوں‘۔

وہ ہنس رہی تھی۔  کمال تو تب ہے جب تم اس بچی کو ربر کی طرح کھینچ کر پینٹنگ میں ڈال دو۔ ڈال سکتے ہو۔ ؟

مجھے گھبراہٹ ہو رہی تھی

’تو کیا یہ میں ہوں گی حسین۔ ؟ یعنی، میں جو ابھی ہوں۔ یا وہ بچی ہو گی، جو اس تصویر میں ہے اور جو نہانے کے نام پر رو رہی ہے۔ برہنہ‘‘

’تم یہ بات کس طرح جاننا چاہتی ہو؟‘

’پتہ نہیں۔ ‘

’اس بچی کو اگر ربر کی طرح کھینچا جائے تو۔  ’میں بچی اور اس کے چہرے کو تول رہا تھا ’’بچی میں تم نہیں ہو اور تم میں بچی نہیں ہے‘‘۔

____’یہ میری بات کا جواب نہیں ہوا‘

اس بار میرا لہجہ سخت تھا____ سنو، پریم پجاری۔ امتحان مت لو میرا۔ پینٹنگ کی زبان میں یہ دونوں الگ چہرے اور جسم رکھتے ہیں۔ تمہیں چھوٹا کروں تو اب کی تم کل والی اس بچی میں داخل نہیں ہو سکتی۔  اور بچی کو ربر کی طرح کھینچوں تو، یہ تمہاری طرح آگ نہیں بن سکتی۔ ‘

’’پینٹنگ کی زبان چھوڑ کر زندگی کی زبان میں بات کرو تو۔ ‘‘ وہ مسکرا رہی تھی۔

’’بچی کے ساتھ سیکس کا خیال نہیں ابھرتا اور تمہارے ساتھ‘‘

اس نے گرم ہتھیلیاں میرے ہونٹوں پر رکھ دیں____

قبّہ نور۔ کو اب لباس کی ضرورت نہیں تھی____

وہ ناچی، اچھلی، تڑپی اور میرے جسم میں سما گئی۔

یہ پہلے گھوڑے سے میری ملاقات تھی۔

***

کمرے میں ٹپ ٹپ بارش رک چکی تھی۔

’’برسوں پہلے موہن جوداڑو کی کھدائی سے____ تمہیں یاد ہے۔  ’سفید چادر میں اس کے ہلتے پاؤں نے میرے ننگے پاؤں پر اپنا گداز بوجھ ڈال دیا تھا____ تمہیں یاد ہے حسین، وہ آرکائیو والوں کے لئے یقیناً ایک انوکھی، قیمتی اور مہنگی چیز تھی۔ مجھے یاد کرنے دو۔ ایک عظیم بھینسا، رالچھس جیسا۔  بڑی بڑی سینگیں۔  لیکن چھوٹا سر۔  دو نوکیلی سینگیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔  میں نے یہ تصویر کسی امریکن میگزین میں دیکھی تھی۔  لیکن، مجھے یاد رہ گئی۔ پتہ ہے، وہ عظیم بھینسا کون تھا۔ وہ تم تھے حسین!‘‘

وہ اچھلی۔ سفید چادر اس کے اجلے نرم ملائم بدن سے پھسل کر اس کی جانگھوں تک چلی گئی تھی____

’’تم اس وقت بھی تھے۔ موہن جودڑو کی تہذیب میں۔ ایک عظیم بھینسے کی صورت میں۔ لیکن اس وقت میں کہاں تھی حسین۔ ؟‘‘

وہ تارکول کی طرح میرے بدن پر پھسل رہی تھی۔  ’’میں بن رہی تھی شاید۔  ہر بار بننے کے عمل میں تھی۔ عیسیٰ قبل کئی صدیاں پہلے یونان میں۔  کبھی ’پارتھنیان‘، کے آدھے گھوڑے آدھے انسانی مجسمے کی صورت۔  کبھی وینس اور ’اپالو‘ کی پینٹنگ میں۔  کبھی لیونارڈو دی ونچی کی مونالزا اور جن آف راکس، دی میڈونا اینڈ چائلڈ اور باچیوز میں۔  اور کبھی رافل، رمبراں اور جان اور میر کی تصویروں میں۔ ‘‘

وہ کچھوے کی طرح پھدکی۔ میرے پاؤں کے انگوٹھے کو اپنے ہونٹوں میں بھرا۔  پھر اچھل کر میرے پاؤں کے بیچوں بیچ آ کر بیٹھ گئی۔

’’سچ کہنا، مونالزا کا صرف چہرہ مسکراتا تھا اور میرا جسم۔ ‘‘

’’لیونارڈو  دی ونچی نے تمہیں نہیں دیکھا تھا۔ اس لئے وہ جسم کی ایسی کسی مسکراہٹ سے واقف نہیں تھا۔ ‘‘

’’کیا میں مائیکل اینجلو کا تصور ہوں؟‘‘

’’تم ایک حسین بدن کا تصور ہو‘‘

’’کیا میں۔ ‘‘

میں نے اپنے چیختے بدن کو ایک بار پھر اس کے حوالے کر دیا تھا۔

’’تم ایک گھوڑا ہو اور یقیناً یہ گھوڑا پارتھینان کے گھوڑے سے مختلف ہے۔ ‘‘

اور اسی کے ساتھ میں نے اس کے جسم کے دریا میں چھلانگ لگا دیا تھا۔

               خالی کینواس، ننگا بدن اور چھلاوہ

اس رات، بلکہ یوں کہئے ساری رات میں خود سے لڑتا رہا۔  ’ایزل‘ کسی ایرانی گھوڑے کی طرح تنا ہوا، کورے کینواس کا بوجھ اٹھائے تھا۔  اور کینواس کا ’کورا بدن‘ میرے ہاتھوں کی انگلیوں کے تعاقب میں تھا۔ رنگ بھرے جانے تھے۔ لیکن رنگ کون بھرتا۔ پینسل کا پورا ڈبہ بلیڈ  کی حیوانیت کی نذر ہو چکا تھا۔ سفید کاغذ پر دھبے جمع ہو رہے تھے۔ پارتھینان کا آدھا گھوڑا، آدھا انسان۔ ایک سرکش ندی کا بدن۔  خیال آ رہے تھے۔ مچل رہے تھے۔  اور اس کے مخملی بدن سے پھسلتے ہوئے لوٹ ج رہے تھے۔ آدھی جل مچھلی، آدھا گھوڑا۔  یہ بھی نہیں۔ مکمل گھوڑا۔ یہ بھی نہیں۔ اس کا بولتا بدن۔  چیختا بدن۔  اس کے موٹے، پھل کے رس سے بھرے ہونٹ۔ میں بار بار اس کی زندہ پینٹنگ میں دفن ہوا جا رہا تھا۔ پھر میں نے سوچ لیا۔

’’کیا؟‘‘

میں یہاں رہا۔ تو میں مر جاؤں گا۔ ٹھیک اپنے کینواس کی طرح____کورا۔  میں اس کا جسم بن جاؤں گا۔ کیونکہ سمندر کو، ندیوں کو ضم کرنے کا حق حاصل ہے۔  وہ سمندر تھی اور

 ’تم ندی تھے؟۔ ‘

’’میں ندی بھی نہیں تھا۔ میں ندی کی معمولی لہر بھی نہیں تھا۔  اور وہ۔  بلا خیز طوفان تھی۔ اس نے مجھے۔  آسمان سے باتیں کرنے والا۔ دو عظیم سینگوں والا بھینسا غلط کہا تھا۔ دراصل‘‘۔

’’مطلب۔ ؟‘‘

’’موہن جوداڑو کی تہذیب سے نکلے جس مجسمے کی تصویر کو اس نے امریکن میگزین میں دیکھا تھا‘‘ وہ۔  وہ خود تھی۔ وہ مجھے خوش کر رہی تھی۔ سمندر ندیوں کو پی کر مہان بننے کا ہنر جانتا ہے۔ یہ ایک طرح سے ایگو پرابلم تھا۔ میں ایسی کوئی ندی نہیں بننا چاہتا تھا جسے سمندر آسانی سے ہضم کر ڈالے۔ ندی سہی، لیکن میں ندی بن کر ہی اپنے آرٹ کو زندہ رکھنا چاہتا تھا۔ ‘‘

’’پھر۔ ؟‘‘

’’اس سنسنی خیز حادثے کے بعد میں وہاں دو دن اور رہا۔ دو دنوں میں، میں نے اپنی واپسی کی پوری تیاری کر لی۔ اس درمیان ڈاکٹر فرقان کے کئی فون میری تلاش میں آئے۔ لیکن میں کسی بھی طرح اپنی واپسی کی اطلاع کو اس سے چھپا کر رکھنا چاہتا تھا۔ ‘

’’تو کیا یہ ممکن ہوا۔ ؟‘‘

’’آہ۔ نہیں۔ فلائیٹ میں چار گھنٹے باقی رہ گئے تھے۔ دو بڑے بڑے سامان پیک ہو کر دروازے کے پاس رکھے تھے۔ بیل بجی۔ میں نے دروازہ کھولا۔  سامنے، سمندر کی شانت لہریں میری طرف دیکھ رہی تھیں۔  اسے میرے واپس جانے کی خبر مل گئی تھی۔

’’جاؤ‘‘۔

وہ ایک بے حد ’’اچھالدار‘‘ لہر تھی۔  ’’مگر یاد رکھو، میرا بدن تمہارے بدن میں رہ گیا ہے۔ کیا اس بدن کو بھول سکو گے؟۔ ‘‘

جانے سے پہلے وہ پلٹی۔  ’’اور یاد رکھو۔ یہ پارتھینان کے آدھے انسان کا بدن یا وینس دی میلو نہیں ہے۔ ‘‘

’’سنو۔ ‘‘

جانے سے پہلے، اسے آخری بار دیکھ کر، میں نے اپنے آنسو چھپا لئے تھے____ ’’برسوں پہلے تمہارے جنم میں میں نے اپنا جنم رکھ دیا تھا۔  آواگون کو مانتی ہو تو ہم پہلے بھی ملے تھے اور ہم۔  پھر ملیں گے۔ ‘‘

دروازے پر کوئی نہیں تھا۔

میری فلائیٹ کا وقت قریب آ چکا تھا۔

               دو گھوڑے

قارئین!

سب سے پہلے میں آپ کی توجہ ایک بے حد خاص موقع کے لئے، بنائی گئی اس بے حد خاص پینٹنگ کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا۔  اس پینٹنگ میں دو گھوڑے ہیں۔ دو حسین گھوڑے۔ یہ گھوڑے جوناتھن سوئفٹ، کے خیالی گھوڑوں کی طرح خوبصورت بھی ہیں اور وجیہہ بھی۔  یعنی دو بے حد حسین ایرانی نسل کے شاندار گھوڑے۔  ان کے دو پاؤں دھرتی پر اور دو ہوا میں معلق ہیں۔  اس طرح جیسے یہ کوئی بہت اہم پیغام لے کر ایک دوسرے کے گلے مل رہے ہوں۔ یہ پینٹنگ میری ڈرائنگ روم کی زینت ہے۔ یعنی ایک بے حد خاص موقع کے لئے بنائی گئی۔  پینٹنگ۔ اور ایک بے حد خاص دوست کی طرف سے____ اور جیسا کہ پہلی بار دلّی کی نمائش گاہ میں جیتے جاگتے ان دو گھوڑوں کے ملاپ پر، شیشے کے اوپر سے ہاتھ پھیرتے ہوئے میں نے حسین سے پوچھا تھا۔

’’کیا ان میں سے ایک ہندستان ہے؟‘‘

حسین کی آنکھوں میں چمک تھی۔

’’اور دوسرا پاکستان۔ ؟‘‘

اور جواب کے طور پر حسین نے کہا تھا۔  ’’آہ نہیں، لیکن اب تم قریب قریب صبح جگہ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہو۔ ‘‘

پاکستان جانے سے پہلے حسین کا ایک مختصر دستی خط مجھے ملا تھا۔ ’’آپ کی پینٹنگ چھوڑے جا رہا ہوں۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے، یہ پینٹنگ آپ کو وہیں رفیع مارگ، اسی بلڈنگ میں مل جائے گی جہاں میری تصویروں کی نمائش لگی تھی۔ ‘‘

اور اس طرح، قارئین، بے حد خاص موقع پر بنائی گئی وہ پینٹنگ میرے گھر، میرے ڈرائنگ روم کی زینت بن گئی۔  لیکن یہ کہانی چونکہ انہی وہ گھوڑوں کی مدد سے شروع ہوئی ہے اور اس کے خالق حسین ہیں، اس لئے حسین کے بارے میں کچھ اہم اطلاعات آپ تک پہچانا ضروری ہے۔

تقسیم وطن کے دو ایک سال بعد، جب مار کاٹ میں کچھ کمی آ گئی تھی، ہندوستان، پاکستان دو آزاد ملکوں کے طور پر اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔  یہ وہی وقت تھا جب نوابوں کے شہر لکھنؤ کی ویران بستیوں میں حسین کا جنم ہوا تھا۔ ویران بستیاں۔  مجھے اپنے الفاظ پر شرمندگی ہے۔ لٹا تو پورا ملک تھا، بلکہ بٹوارے میں تو دل اور دماغ بھی بٹ گئے تھے۔  لیکن لکھنؤ کی تہذیب کا خون کچھ زیادہ ہی ہوا تھا____ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ لکھنؤ چھوڑ کر حسین کا خاندان پاکستان کیوں آباد ہو گیا____ ظاہر ہے، کچھ تو وجہ رہی ہو گی۔ امین آباد کی انہی سونی گلیوں میں سے ایک میں ڈاکٹر فرقان کے والد، والدہ کا گھر آباد تھا، جن سے بچپن میں حسین کے مراسم تھے۔  ہاں، پاکستان جانے تک وہ لڑکی، جس کا ذکر کہانی کے شروع میں بار بار آیا ہے، کا دور دور تک وجود نہیں تھا____ فرقان پانچ ساتھ برس، حسین سے بڑے ہوں گے____ اور پاکستان سے دبئی جاتے ہوئے حسین کو اتفاقیہ طور پر ان کا پتہ ملا تھا۔  لیکن حسین کو کیا خبر تھی کہ اس غیر ملک میں ایک بہت عجیب خبر، ایک بے حد خاص خبر میں بدلنے کے لئے ان کا انتظار کر رہی ہے۔

تو میں اس پینٹنگ کی بات کر رہا تھا، جو میرے ڈرائنگ روم میں آویزاں ہے۔ (اور پینٹنگ کے پہلے گھوڑے کی کہانی آپ حسین کی زبانی آپ سن چکے ہیں۔ )

’’دوسرا گھوڑا۔ ‘‘

ہم ہوٹل جن پتھ کے ’بار‘ میں تھے۔ یہ حسین کے واپس جانے سے دو دن قبل کا واقعہ ہے۔ حسین تین پیک لے چکے تھے اور حقیقتاً، کہنا چاہئے آنکھوں کی تھرکتی پتلیاں، ایک بار پھر کانچ کی گولیاں بن گئی تھیں۔

’’قصوں سے کہیں زیادہ پُر اسرار ہوتی ہیں سچی کہانیاں‘‘

’’بچپن میں لکھنؤ چھوڑا۔ پاکستان آباد ہو گیا۔ 80ء کے آس پاس دبئی گیا۔ یعنی اچھے کام کی تلاش میں۔ تب عمر ہو گئی یہی کوئی تیس کے آس پاس۔  ڈاکٹر فرقان کی بہن ٹکرائی۔  اور میں واپس پاکستان لوٹ گیا‘‘

’’پھر۔ ‘‘

حسین نے ایک بڑا سا پیگ بنایا۔ اس کی آنکھوں میں نشہ اتر رہا تھا۔

***

یعنی یہ پچھلے سال گرمیوں کا ذکر ہے۔  سن 2001ء کے اگست ستمبر کا مہینہ۔  اس خوبصورت حادثہ کے 20-22 برس بعد ’پیس مشن‘ سلسلہ میں حسین کو ہندوستان کے دوسرے فنکاروں کے ساتھ ویزا ملا تھا۔ ویزا کے مطابق وہ دلّی کے علاوہ اپنے وطن لکھنؤ جا سکتے تھے۔ سیاسی سطح پر ہند و پاک کے تعلقات اس حد تک خراب ہو چکے تھے کہ فنکار اور دانش وروں کا طبقہ ان دنوں لگاتار پاکستان سے پیس مشن پر ہندوستان آ رہا تھا____

لیکن۔ کیسا پیس مشن۔ ؟ جہاں دلوں کو سیاسی دیواروں نے بانٹ رکھا ہو، وہاں شانتی اور امن کے پیغام بھی بے معنی لگنے لگتے ہیں۔  شاید اسی لئے ان دو گھوڑوں کی محبت بھری ادا کو دیکھ کر میں نے پوچھا تھا۔ ان میں سے ایک ہندوستان ہے اور دوسرا۔ ‘

نمائش گاہ سے باہر نکل کر حسین نے مجھے چونکا دیا تھا۔ ’’یقین کرو گے یہ میری تازہ پینٹنگ ہے۔ ‘‘

’’یعنی۔ ‘‘

’’دوبئی میں اس رات جو کینواس ادھورا رہ گیا تھا، وہ لکھنؤ مسعود نیّر کے شہر سے واپسی پر کل رات میں نے پورا کیا۔

’’مسعود نیر؟‘‘

’فرقان کو مذاق مذاق میں، ہم لوگ مسعود نیّر بھی کہتے ہیں۔ (اور جس کے، میڈیکل کی جعلی ڈگری لے کر دبئی آنے کا تذکرہ آپ پہلے سن چکے ہیں)

’’ممکن تھا، میں اس رات جانے کا ارادہ ترک کر چکا ہوتا۔ ممکن تھا، میں نے پینٹنگ بنا لی ہوتی۔ لیکن میرا یقین ہے۔ ‘‘

حسین نے زور سے میز پر ایک مکّا مارا۔ بار میں بیٹھے دوسرے لوگوں نے پلٹ کر حسین کی طرف دیکھا۔ حسین کی آنکھوں میں دھرے دھیرے مدہوشی چھانے لگی تھی۔

’’شاید میرا پیس مشن پر آنا کامیاب ہو گیا تھا۔ تمہیں یاد ہے نا؟ وہ ہماری آدھی ملاقات تھی جب اس نے کہا تھا، کیا تم اس بدن کو بھول سکو گے۔ ہاں، مجھے اس کی ایک ایک بات یاد رہی اور پورے بیس بائیس برسوں تک____ پاکستان کی آمرانہ فوجی حکومت۔  سیاسی اتھل پتھل اور زندگی کے ہنگاموں کے دوران کا ہر لمحہ۔  وہ چہرہ میری آنکھوں کے سامنے رہا۔  وہ لفظ میرے کانوں میں گونجتے رہے۔ ‘ یہ پارتھنیان کے آدھے انسان کا بدن یا وینس دی میلو نہیں ہے۔  میں جینے کی کوشش کرتا تھا اور سمندر کی لہریں اچانک اچھلتی، گرجتی چاروں طرف سے۔ مجھے اپنے قبضہ میں کر لیتی تھیں۔  میں نے سوچا تھا، اس سے دور جا کر میں جیت جاؤں گا۔  مگر نہیں۔ شاید 20-22 برسوں تک۔ اس سے الگ کی ایک لمبی زندگی____ شاید میں سچ مچ ندی تھا اور سمندر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ مجھے اپنے میں ضم کر لے۔  وہ دور رہ کر بھی سمندر رہی۔  اور میں اتنے طویل برس لگاتار اسی سمندر میں تیرتا ابھرتا رہا۔  ہاں پارتھینان کے آدھے گھوڑے والے حصے کو اپنی ناکامی کے طور پر کاغذ کے کینواس پر رنگ دے چکا تھا مگر۔

’’دوسرا گھوڑا۔ ؟‘‘

حسین مسکرائے۔  بوتل خالی پڑی تھی۔ گلاس بھی خالی تھا۔ نیپکن سے ہاتھ پوچھتے ہوئے حسین نے گلاس پلٹ کر ٹیبل کر رکھ دیا۔

’’لکھنؤ گیا تو معلوم ہوا مسعود نیّر دبئی کی پریکٹس چھوڑ کر واپس آگیا ہے۔ (واپس آنے کی وجہ وہی جعلی ڈگری تھی۔ یعنی مسعود نیّر نے زندگی بھر جو کچھ کمایا وہ سب جعلی ڈگری کے عوض تھا)۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا، وہ بیمار رہ رہا ہے۔ میں اس کی عیادت کے لئے گیا اور۔  لکھنؤ میں امین آباد کی، انہی ویران گلیوں میں سے ایک میں، ذرا سا پوچھ تاچھ کرنے پر اس کا مکان مل گیا۔ میں نے دروازہ پر دستک دی اور مسعود نیّر کے دروازہ کھولنے کے انتظار میں کھڑا رہا۔

کیا آپ۔ ؟

حسین کے چہرے پر نشہ کا دور تک نام نہیں تھا۔  کیا آپ جنم جنمانتر کا بندھن یا آواگون پر یقین رکھتے ہیں؟ مجھے میرے لفظ یاد آئے، جو میں نے آخری بار اس کے واپس جاتے قدموں کو روک کر ادا کئے تھے۔ ’’برسوں پہلے تمہارے جنم میں، میں نے اپنا جنم رکھ دیا تھا۔ ‘‘ دروازہ کھولنے والی وہی تھی۔  وہ ذرا سی بجھ گئی تھی۔ لیکن 20-22برس کے فاصلے کو بہت زیادہ اس میں محسوس نہیں کیا جا سکتا تھا۔  اس نے ’ول پال‘ کی پینٹنگ کی طرح بہتے ہوئے پانی اور بہتی ہوئی ہوا کو ہاتھ کے اشارے سے، آدھے میں ہی روک رکھا تھا____ مجھے دیکھ رک اسے ذرا بھی تعجب نہیں تھا۔ یہ سب کچھ ایسا تھا، جیسے میں اپنے ہی گھر میں، صبح آفس سے گیا گیا شام کو واپس گھر لوٹ آیا تھا۔ ہاں، اس کی آنکھیں تھکی تھکی تھیں۔ لیکن ان آنکھوں میں اس نے ایک لمبا انتظار رکھ دیا تھا____ تو اس نے دروازہ کھولا۔ میری طرف دیکھا اور میرا، آخری ملاقات میں بولا گیا، میرا ہی جملہ میرے سامنے رکھ دیا۔

’’آواگون کو مانتی ہوں۔ ہم پہلے بھی ملے تھے اور ہم پھر مل رہے ہیں۔ ‘‘

’’کون ہے؟‘‘ اندر سے ڈاکٹر کی آواز آئی تھی۔

’’ہو ہو..ہو..آڑی ترچھی لکیریں. .ہو ہو۔  آدھی ہنسی کے راستے میں دمہ کے مرض نے اسے بے چین کر دیا تھا۔  کم بخت کھانسی۔

’’تم لوگ باتیں کرو’۔  اندر جاتے ہوئے میں نے ڈاکٹر فرقان کا غور سے جائزہ لیا۔ ان برسوں نے اسے ایک بدنما شخصیت میں تبدیل کر دیا تھا۔ پھولا پیٹ۔ بدن پر چڑھی ہوئی کچھ زیادہ چربی۔ آنکھوں پر کالا چشما اور پیشانی پر سجدے کا داغ۔

سامنے آ کر اس نے اپنی ہتھیلیاں میری طرف بڑھائیں۔

’یہ میرے دوسرے گھوڑے کا چہرہ تھا۔ ‘

***

اور اس کے ٹھیک دو دن بعد ہی، میرے لئے ایک دستی خط اور ایک، دو گھوڑوں کا پورٹریٹ چھوڑ کر حسین پاکستان واپس لوٹ گئے تھے____ خط میں ایک جملہ اور بھی تھا، جسے میں نے جان بوجھ کر کہانی کے حسین اختتام کے لئے آپ سے چھپا کر رکھا تھا____ اصل میں حسین کے آناً فاناً پاکستان بھاگنے کے پیچھے بھی ایک راز تھا اور اسی لئے خط کے آخر میں حسین نے تحریر کیا تھا۔  ’’مائی ڈیر، وہ لڑکی مجھ سے شادی کے لئے راضی ہو چکی ہے۔  پاکستان جا کر بہت سے کام مکمل کرنے ہیں۔ میں بہت جلد واپس آؤں گا۔ عقد مسئولہ کے لئے۔ میرے لئے اپنے انتظار کو سنبھال کر رکھنا۔ بس الٹی گنتی شروع کر دو۔ میں پہنچنے ہی والا ہوں۔ تمہارے ملک۔  اپنے ملک۔ ‘‘

               دہشت گردی بنام جنگ اور حسین کی آمد

یہ وہ اُنہی دنوں کا واقعہ ہے جب ای میل سے مجھے حسین کا پیغام ملا تھا۔ میں آ رہا ہوں۔ میں بہت جلد تم سے ملوں گا۔ بائیس برسوں کی مسافت کم نہیں ہوتی یار۔  اور جب آپ نے محسوس کیا ہو کہ وہ برس تو آپ نے خرچ ہی نہیں کئے۔ دراصل ہم دونوں نے وہ 22 برس اپنی اپنی ذات کی تحویل میں رکھ کر، کنجی وقت کے والے کر دی تھی۔  وقت نے اب جا کر یہ کنجی ہمیں واپس کی ہے۔ یقین جانو، یہ ایک انوکھی شادی ہو گی۔ ‘‘

***

اور آپ جانئے، یہ انہی دنوں کا واقعہ ہے، جب دنیا کی تقدیر میں دہشت کے نئے باب لکھے جا رہے تھے۔ قارئین ! یہ کہانی کی مجبوری ہے کہ یہ اپنے وقت اور حالت کے تجزیے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔  ’پرانے ہزارہ‘ کے تاریخی دھماکے ابھی کم بھی نہیں ہوئے تھے کہ نئے ہزارہ کی چیخوں نے انسانیت کی کتاب میں کتنے ہی لہو لہو باب کا اضافہ کر دیا۔  11!ستمبر ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگن پر دہشت گردوں کے ہنگامے کے بعد ہندو پاک کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔  پھر 13!دسمبر ہندستانی پارلیامنٹ پر دہشت پسندوں کے حملے کے بعد صورت حال آہستہ آہستہ جنگ میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔  نتیجہ کے طور پر اپنی اپنی سطح پر دونوں ہی ملکوں نے کئی بھیانک قدم اٹھائے____ ہندوستان نے نہ صرف اپنا سفارت خانہ بند کیا بلکہ اپنے ہائی کمشنر بھی واپس بلا لئے۔  فضائیہ اڑانوں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔  ابھی تعلقات کی سرحدوں پر آخری کیل ٹھوکنے کی کارروائی باقی تھی۔

اور وہ کارروائی تھی۔ ہندوستان سے پاکستان جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس اور بسوں کو بند کرنے کی کارروائی۔

قارئین! ان پابندیوں کا وقت وہی تھا، جب حسین، اپنی بائیس برسوں کی گمشدہ محبت کو نیا عنوان دینے کے لئے ہندوستان آنے والے تھے۔  یعنی سمجھوتہ ایکسپریس سے باراتیوں کا قافلہ آنے والا تھا۔

سرحدیں بارود اُگل رہی تھیں۔ واگہہ بارڈر سے دلّی بس اڈے تک گھنا کہرا چھایا ہوا تھا۔ باہر سرد لہر چل رہی تھی۔ میں اپنے ڈرائنگ روم میں تھا۔

اچانک یوں ہوا۔  پورٹریٹ سے حسین کے دونوں گھوڑے کودے اور میرے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔  میں نے غور سے دیکھا۔ یقیناً یہ پارتھینان کے آدھے حصے والے گھوڑے نہیں تھے۔ یہ گھوڑے اپنے حسن میں مکمل تھے۔ لیکن یہ گھوڑے ٹھہرے نہیں، بلکہ پلک جھپکتے ہی ڈرائنگ روم سے اوجھل ہو گئے۔ میں نے ڈرائنگ روم میں، دیوار پر آویزاں پورٹریٹ کی طرف دیکھا۔  وہاں ایک خالی کینواس پڑا تھا۔ مجھے حسین کے الفاظ شدت سے یاد آ رہے تھے۔

’’سب سے بُری خبر لکھی جانی ابھی باقی ہے۔ سب سے بُری خبر یہ ہو گی کہ محبت کرنے والے نہیں رہیں گے۔ سب سے بُری خبر کا تعلق محبت سے ہو گا دوست۔ ‘‘

اور میں نے جوابی کارروائی کے طور پر کہا تھا۔ ’’سب سے بُری خبر آہستہ آہستہ لکھی جائے گی۔ جنگ اور دہشت کے ماحول میں‘‘۔

٭٭٭

 

فزکس، کیمسٹری، الجبرا۔

(اپنی بیٹی صحیفہ کے نام____ کوئی نہ جانے____تم کو کیسے کیسے سوچا

میں نے____کیسے کیسے جانا میں نے____!)

               (1)

’نہیں انجلی۔ یہاں نہیں۔ یہاں میں پڑھ رہا ہوں، نا۔ یہاں سے جاؤ____‘

’لیکن کیوں پاپا۔ ‘

’بس۔ میں نے کہہ دیا نا۔ جاؤ۔ کبھی کبھی سن بھی لیا کرو____‘

’پاپا۔ مجھے یہاں اچھا لگ رہا ہے۔ ‘

’نہیں۔ میں نے کہہ دیا نا۔ میں کچھ ضروری کام کر رہا ہوں۔ سنا نہیں تم نے۔ ‘

’پاssپاss‘ آواز میں ہلکی سی خفگی تھی____ تمہارے پاس اچھا لگتا ہے مجھے۔ ‘

***

 ہّمت جٹاتا ہوں۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے قریب آتا ہوں۔ بن ماں کی بچی۔ دل میں بہت سارا پیار امڈتا ہے____اندر کے غصّے کو اس کے معصوم چہرے پر ہولے، سے رکھ دیتا ہوں____ جیسے ’دیا سلائی‘ کے ننھے سے شعلے پر موم کو۔  پتہ نہیں کتنا پگھلا ہوں____؟ یا شاید پگھل گیا ہوں____ اس کے سر پر آہستہ آہستہ انگلیاں پھیرتا ہوں۔

’میں تمہارے سامنے پڑھتی ہوں تو اس طرح ناراض کیوں ہوتے ہو؟‘

انجلی ’ہپّا‘ ہے۔ ’جاؤ نہیں بولتی۔ ‘

’اچھا۔ ناراض نہیں ہو، نا____‘ میں ہنس دیتا ہوں۔

’ہپّا‘ انجلی خوش ہو کر بچوں کی طرح مجھ پر بچھنا چاہتی ہے۔ میں پیچھے ہٹتا ہوں۔ اس کے ہاتھوں کو____ نہیں۔ اس کے جسم کو____ خود سے دور رکھنا چاہتا ہوں۔

’نہیں۔ نہیں انجلی۔ ٹھیک ہے۔  بچپنا نہیں۔ اب بڑی ہو رہی ہو تم۔  سمجھ گئی۔  بڑی ہو رہی ہو۔ ‘

’’ہونہہ۔ پپاّ کے سامنے بڑے، بچے ہی رہتے ہیں۔ ‘

’لیکن تم۔ ‘، بچی ہو____کہتے کہتے ٹھہر جاتا ہوں۔ انجلی حیرانی سے میرا منہ تکتی ہے۔

’تم کیا پاپا۔ ‘

مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں____ ’تم نہیں سمجھو گی، انجلی۔

انجلی منہ بچکاتی ہے____ ’میں اب بڑی ہو گئی ہوں۔ میں اب سب سمجھتی ہوں پاپا۔ کبھی کبھی تم سمجھ میں نہیں آتے پاپا۔ لو، میں تمہارے پاس سے جا رہی ہوں۔ لیکن سنو، اکیلے کمرے میں مجھے ڈر لگتا ہے۔ اب میں تمہارے پاس ہی سویا کروں گی، پاپا____ تمہارے ہی کمرے میں۔ ‘

’میرے کمرے میں؟‘

’کیوں، سب بچے سوتے ہیں۔ ‘

’نہیں۔ میں نے اس لئے پوچھا کہ میں رات بھر لائٹ جلا کر کچھ نہ کچھ آفس کا کام کرتا رہتا ہوں۔ ‘

’مجھے لائٹ ڈسٹرب نہیں کرے گی پاپا____‘ انجلی مسکرائی ہے۔ ‘ کل سے یہیں سو جاؤں؟‘

’نہیں۔ بس کہہ دیا نا۔ اب تم بڑی ہو رہی ہو۔ اس سے زیادہ سوال نہیں۔ ‘

انجلی کے معصوم چہرے پر سوالوں کی سلوٹیں بکھر جاتی ہیں۔ میں جاتے جاتے اس کے الفاظ میں دکھ محسوس کر لیتا ہوں۔

’کوئی بات نہیں پاپا‘

انجلی اپنے کمرے میں واپس لوٹ گئی ہے۔ اس کی سلوٹوں بھری سوالیہ آنکھیں اب بھی کمرے میں موجود ہیں۔ یہ آنکھیں مجھے گھور رہی ہیں۔

’انجلی کو کیوں بھیج دیا؟

میز پر آفس کی کچھ بے حد ضروری فائلیں بکھری پڑی ہیں۔ لیکن ابھی، اس لمحے مجھے ان فائیلوں کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔

’انجلی کیوں گئی؟ میں نے اسے اپنے کمرے میں کیوں بھیج دیا۔ ؟

پتہ نہیں____ لیکن شاید یہ میرے اندر کا سناٹا ہے، جو مجھ سے لڑ رہا ہے۔ کیا ہو جاتا ہے تمہیں۔ کیا ہو جاتا ہے تمہیں۔ اچھے خاصے آدمی سے اچانک ’لڑکی‘ کے باپ کیوں بن جاتے ہو۔ بن جاتے ہو____ چلو کوئی بات نہیں۔ لیکن اپنی ہی لڑکی سے ڈرنے کیوں لگتے ہو۔

ایک بزدل آدمی جرح کرتا ہے____ ’نہیں۔ جھوٹ ہے۔ ڈروں گا کیوں؟‘

سناٹا ہنستا ہے____ ’دیکھو‘ اپنے آپ کو غور سے دیکھو۔ تم ڈر گئے تھے۔ کیونکہ۔ ‘ اندر کا سناٹا ایک انتہائی فحش سا جملہ اچھا لتا ہے____ تم اسے عموماً ایسے لباسوں میں نہیں دیکھ پاتے۔ ہے نا sss یار، وہ کانونٹ میں پڑھتی ہے۔ ‘ سناٹا قہقہہ لگاتا ہے۔ کانونٹ یا نئے زمانہ کی لڑکیاں اب آنچل یا اوڑھنی کا استعمال نہیں کرتیں۔ وہ اپنے بدن پر کپڑوں کا بہت زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتیں۔ تو کیا ہوا۔ وہ تمہاری بیٹی ہے۔ ‘

’بس ڈر جاتا ہوں۔ ‘

’لیکن کیوں؟‘

لمبی لمبی سانس لیتا ہوں۔ کہہ نہیں سکتا۔

’بیٹی میں لڑکی تو نہیں دیکھنے لگتے؟‘

اندر کا سناٹا دیر تک ہنستا رہتا ہے۔

               (2)

اس دن مسز ڈھلن سے یہی تو پوچھا تھا میں نے۔

’بیٹیوں میں لڑکیوں کا جسم کیوں آ جاتا ہے۔ ‘

’کیا؟‘ مسز ڈھلن زور سے چونکی تھیں۔  لڑکیوں کا جسم۔  ہنستے ہنستے چائے کے کپ پر ان کے ہاتھ تھرتھرائے تھے۔  ’آپ شادی کر لو، آپ کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ ‘

’بیٹی میں لڑکی کا جسم۔ میں نے بہت معمولی بات کہی ہے، مسز ڈھلن۔ یہ لڑکیاں کیوں آ جاتی ہیں بیٹی میں۔  لڑکیاں۔ پرائی لڑکیاں۔ پرائی لڑکیوں کے جسم پر، مدھو مکھی کے چھتوں کی طرح، گرتی ہوئی پرائی آنکھیں۔  یہ بیٹیاں بس بیٹیاں کیوں نہیں رہتیں۔  بغیر جسم والی۔  نہیں، سنو مسز ڈھلن! قصور آپ کا نہیں____ یقیناً آپ میری بات نہیں سمجھ سکتیں۔  لیکن بیٹیوں میں یہ لڑکیوں والا جسم نہیں آنا چاہئے۔  ہے، نا؟‘

***

شاید سب کچھ اچانک بدلا تھا____ اچانک____

ہاں، شاید سب کچھ اچانک ہی بدل جاتا ہے۔ گھر میں خوشیوں کا ایک روشندان تھا میرے پاس____ سنہری کرنیں آیا کرتی تھیں____ یہ سنہری کرنیں مسکراتیں تو گھر جگ مگ، جگ مگ کرنے لگتا۔

وہ انجلی کی ماں تھی۔ روشن دان سے جھن جھن جھانکنے والی روشنی کی کرن۔

’تمہیں پتہ ہے، پہلی بار اسکیٹنگ کرنے والوں کو برف کیسی لگتی ہے؟‘

’نہیں‘

’چکنی اور خوبصورت۔ ‘

یہ اس کے لئے میرا پہلا کمپلی منٹ تھا۔

وہ زور سے ہنسی تھی۔ ’’کیا یہ تمہاری پہلی اسکیٹنگ ہے؟‘

’اگر ہاں کہوں تو؟‘

یقین کر لوں گی۔ ‘

’’تو پھر یقین کرو۔ اس سے پہلے کبھی برف پر چلنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ ‘

’برف پر۔ ‘ اس کے موتیوں جیسے دانت ہنس رہے تھے۔ اُف کتنے شفاف اور قرینے سے رکھے ہوئے____

’کیا یہ سارے ہیرے میرے ہیں؟‘ میں نے اس کے ہونٹوں کا بوسہ لیا۔

’ہاں‘____ وہ پھر دلکش انداز میں ہنسی تھی۔  ’اس کے لئے جو پہلی بار اسکیٹنگ سیکھ  رہا ہے۔ ‘

***

پھر یہ ’اسکیٹنگ‘ جیسے زندگی کا ایک حصہ بن گئی____ گھر میں خوشیوں والا روشندان کھل گیا۔

وہ مسکراتی تھی۔

’اب کہیں اسکیٹنگ کرنے جاتے ہویا نہیں؟‘

’اب تو تم سے ہی فرصت نہیں ملتی‘

’اب کرو گے بھی نہیں۔ اس لئے کہ تمہیں اسکیٹنگ سے روکنے والی آ رہی ہے۔ ‘

***

یہ انجلی تھی____ جس کے بارے میں شروع سے ہی اس کا خیال تھا۔ بچی ہو گی۔

’کیوں۔ ‘

’زیادہ تر بچیاں اپنے لئے سردیاں پسند کرتی ہیں۔ میں خود سردی کے موسم میں پیدا ہوئی تھی____ سنو۔ اگر بیٹی ہوئی اور بیٹی نے تمہاری طرح اسکیٹنگ کرنی چاہی تو۔ ؟‘

میرا چہرہ ایک لمحے کو فق ہو گیا تھا____

وہ زور سے ہنسی۔ بس ہو گئی نا چھٹی۔ تم مردوں میں ہر وقت ایک چور مرد کیوں رہتا ہے۔ بیٹا ہو تو تاڑ پر چڑھا دو۔ دس گنا ہ معاف۔ کچھ بھی پہن لے۔ دس دس محبوباؤں کے ساتھ گھومتا رہے۔ مگر بیٹیاں۔ ‘

وہ میرے چہرے پر جھک گئی تھی۔

’ساری۔ میں کھیل کر رہی تھی۔ ‘ اس کی مخروطی، جلتی انگلیاں میرے برف جیسے چہرے پر موم کے شعلوں کی طرح اپنی آنچ دے رہی تھیں۔  میں جانتی ہوں، تم ایسے نہیں ہو۔ تم اپنی بیٹی سے بھی ویسی ہی محبت کرو گے، جیسے۔  ہے نا۔ بیٹی اگر میری طرح ہوئی تو۔ ‘

میں نے پھونک مار کر شعلہ بجھا دیا تھا____

’بیٹی تمہاری طرح نہیں ہونا چاہئے‘

’کیوں‘

میں شاید خاموش رہ گیا تھا____ بیٹی اگر بڑی ہوئی تو۔ ؟ وہی خاموشی سے ڈس جانے والا کمپلیکس۔  ’یہ بدن کچھ جانا پہچانا سا ہے۔ یہ چہرہ کچھ۔ !‘

               (3)

شاید اسی لئے انجلی کی پیدائش پر میں زور سے ڈرا تھا۔ نو مولود بچوں کا چہرہ اتنا زیادہ ماں یا باپ سے نہیں ملتا۔ لیکن انجلی میں اس کی ماں مسکرا رہی تھی۔  انجلی کو نہارتے ہوئے میں اچانک زور سے چیخا تھا۔

’’نیکر۔ نیکر کہاں ہے؟‘‘

’شی۔ جاگ جائے گی؟‘ اس کے چہرے پر خفگی تھی۔ زور سے چلائے کیوں____ وہ ہنسی۔  ’شوشو ہو گئی تھی اس لیے۔ دیکھو۔ وہاں میز پر نیکر پڑا ہے۔ بدل دونا پلیز۔ ‘

پتہ نہیں۔ لیکن شاید بہت کچھ بدلنے کی ابتدا ہو چکی تھی۔

میں نے میز سے نیکر اٹھا لیا۔

مگر میرے ہاتھ کیوں کانپ رہے تھے۔

’سنو، تم بدل دو۔ ‘

’کیوں____ اِتا سا کام بھی تم لوگوں سے نہیں ہوتا____ تم مردوں سے۔ بس بیوی ہی نو مہینے تک پاگل بنی رہے۔ تمہارا بچہ ہے۔ تم کیوں نہیں نیکر بدل سکتے۔ سنو۔ ‘

وہ انجلی کا نیکر بدل رہی تھی۔ میں کہیں اور دیکھ رہا تھا۔

’سنو۔ انجلی کے آ جانے سے میرے بھی کام بڑھ جائیں گے____ تم بزی رہتے ہو۔ لیکن سنو____ انجلی کو صبح صبح تم ہی نہایا کرو گے۔ ٹھیک ہے نا؟

’نہیں۔ ‘

سردیوں کے موسم میں جیسے دانت بجتے ہیں____ اندر کنوئیں سے کوئی صدا اوپر تک آتے آتے تھم گئی تھی۔

’کیسے باپ ہو، اپنے بچے کو گود میں تو لو؟‘

اس نے انجلی کو اچانک اٹھا کر میری گود میں ڈال دیا تھا۔ وہ ہنس رہی تھی۔

’کیسا عجیب سا لگ رہا ہے۔ ہے نا؟ جیسے میں ننھی سی ہو کر تمہارے ہاتھوں میں سمٹ گئی

ہوں۔

 مجھے زور کا کرنٹ لگا تھا۔

***

انجلی کے ایک سال کے ہونے تک یہ سب سلسلے چلتے رہے۔ یہ لڑکیاں صفائی کے معاملے میں پیدائش سے ہی بڑی Sensitiveہوتی ہیں۔ انجلی زیادہ اسی وقت روتی تھی، جب اس نے شو شو کر دیا ہو۔ کبھی کبھی وہ کچن میں مصروف ہوتی تو وہیں سے ڈانٹ لگاتی۔

’نیکر بدل دو____‘

شاید وہ پہلا واقعہ تھا۔ نہیں حادثہ۔ نہیں، واقعہ کہنا ہی بہتر ہو گا۔ وہ شاید شاپنگ کے لئے گئی تھی اور انجلی زور زور سے روئے جا رہی تھی۔ مجھ میں ایک باپ جاگ چکا تھا۔

لیکن کیا، ہمت کی کمی تھی مجھ میں؟

اور کیوں____؟

پیشاب سے چپ چپاتے پھلیے سے، میں نے اسے اٹھا تو لیا۔ مگر میرے ہاتھ پیشاب میں سنے نیکر اتارتے ہوئے کانپ رہے تھے۔  اس کے ننھے ننھے سے پاؤں میں دو بارہ صاف ستھری نیکر پہنانے تک، میں نے ایک لمحے کے لئے بھی اس کی طرف دیکھنا گوا رہ نہیں کیا تھا۔ لیکن کیوں؟

ایک سہمے سہمے سے باپ کو آخر اتنا سمجھانا کیوں پڑتا ہے؟

بچی ہنس پڑی تھی۔ اب میں نے اسے غور سے دیکھا۔ ہولے سے، ’منّے‘ سے ہاتھوں کو چھوا۔  پاؤں میں چاندی کے کڑے تھے۔  وہ آسمان سے اترا ہوا فرشتہ لگ رہی تھی۔

بیساختہ اسے میں نے گود میں اٹھا لیا۔ پیشانی پر چمی لی۔

’میری بیٹی۔ میری بیٹی‘

وہ شاید پہلے ہی آ چکی تھی____ لیکن چھپ کر یہ تماشہ دیکھ رہی تھی۔ اس نے زور سے تالیاں بجائیں۔

’گڈ آج سے تم باپ بن گئے۔ اب میری ضرورت نہیں رہی۔ ‘

’ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟‘

’کیونکہ تم میں ایک باپ آگیا ہے؟ وہ ہنس رہی تھی۔ ‘ سنو، اس باپ کو بزدل نہیں ہونا چاہئے۔  سنو، میں اس باپ کو بزدل نہیں دیکھ سکتی۔ ‘

وہ دوڑ کر آئی____ اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔

’دیکھو۔  انجلی ہنس رہی ہے۔ ہنس رہی ہے نا۔ ؟‘

***

شاید اس نے صحیح کہا تھا۔

مجھ میں ایک باپ جاگ گیا تھا اور شاید اسی لئے وہ ہمیشہ کے لئے سونے چلی گئی۔  اس رات کی نیند اتنی گہری تھی کہ وہ کبھی نہیں جاگی۔ انجلی میری گود میں تھی۔  اور میں آسمان کے کنارے تلاش کر رہا تھا۔ اس کنارے سے اس کنارے تک پھیلا ہوا آسمان۔  ایک لمبی زندگی اور معصوم سی، مٹھی بھر ہاتھوں میں سما جانے والی انجلی۔

انجلی بڑی ہو رہی تھی۔ باپ ڈر رہا تھا۔  باپ دوست بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن، لڑکی یا عورت کے بدن سے جڑی ہوئی کچھ ایسی ’خفیہ‘ کہانیاں بھی ہوتی ہیں، جو اچانک پُراسرار راتوں کی طرح جاگ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی، سہمی سہمی راتیں مجھ میں ڈر پیدا کر دیتیں۔  خاص کر سرما جیسے موسم میں____ ایک ہی لحاف میں۔ انجلی کے بدن سے لپٹے ہوئے ہاتھ اچانک، خرگوش سے سانپ جیسے بھیانک ہو جاتے۔

میں لیمپ روشن کر دیتا۔ کمرے کو اپنی لمبی لمبی، گہری گہری سانسیں سونپ دیتا ہوں۔

یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔ انجلی بیٹی ہے۔ بیٹی ہے۔ دو ایکم دو۔ دو دونی چار۔  انجلی بیٹی ہے۔ بیٹی ہے۔  بیٹی ہے۔  دو ایکم دو۔ دو دونی چار/ انجلی بیٹی ہے۔ بیٹی ہے۔ بیٹی ہے۔ میں اپنی سانسوں سے الجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

انجلی میری بیٹی ہے۔ میری جانو۔ یار____ یہ بیٹیوں میں، اچانک لڑکی جیسا بدن کیوں آ جاتا ہے۔ ؟

شاید اپنے آپ کو مضبوط کر رہا ہوں۔ مسکراتا ہوں۔ انجلی کی پیشانی کا بوسہ لیتا ہوں۔ پاکیزگی سے بھرا بوسہ۔ لحاف اوڑھاتا ہوں۔ ٹھنڈک بڑھ گئی ہے۔  لیمپ بجھاتا ہوں۔

لیکن انجلی کے لحاف میں گھسنے کی ہمت نہیں ہوتی۔

کیوں؟

لحاف کے اندر انجلی کا بدن جل رہا ہے۔  میں ٹھٹھر رہا ہوں۔ باہر ٹھنڈک بڑھ گئی ہے۔  کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے۔ سگار، ایش ٹرے____، اندھیرے میں یہ ہاتھ میں سب کچھ تلاش کر لیتے ہیں۔ ریوالولنگ چیئر پر بیٹھ گیا ہوں۔  سگار کا دھواں اور لحاف کے اندر ہلتی ڈلتی ہوئی انجلی۔

شاید یہ اسی فیصلے کی گھڑی تھی۔

’نہیں انجلی، اب تمہیں بستر الگ کرنے ہوں گے۔  سمجھ رہی ہونا۔  اب بڑی ہو رہی ہو تم۔  اور۔  پڑھائی بھی تو کرنی ہے تمہیں۔ !‘

***

’انجلی کی کیا عمر ہو گئی ہو گی اب____؟‘

یہ مسز ڈھلن تھیں۔ فائل پر جھکی ہوئی نگاہیں____

’چہ۔ چودہ۔ ‘ کہتے کہتے ٹھہر گیا ہوں____

’مائی گاڈ۔ مسز ڈھلن کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی ہے۔ ’’چودہ کی ہو گئی انجلی۔  اب آپ کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی سر۔ گھر میں اور کون کون ہے۔  میرا مطلب، عورت۔

’پہلے ایک آیا تھی۔ ‘

’تھی۔ ؟‘

’ہٹا دیا۔ ‘

’کیوں____؟‘

’وہ انجلی سے زیادہ مجھ میں دلچسپی لیتی تھی۔ ‘

’اوہ نو۔ ‘ فائل سے اوپر اٹھی ہوئی نگاہیں۔ انجلی کو اس عمر میں عورت کی ضرورت ہے سر۔ ‘

’عورت کی ہے؟‘

’Obviously۔  عورت کی سر۔ ‘ مسز ڈھلن ہنستی ہیں____ میں کیسے سمجھاؤں آپ کو۔  آپ۔ ‘

ایک خوفزدہ باپ اپنی منہ لگی اسسٹنٹ کے سامنے چپ ہے۔ پریشان سا۔

’کیا بات ہے مسز ڈھلن‘

’آپ کی زبان میں سمجھاؤں سر____ وہ ہنستی ہے۔ اس عمر میں ایک خوبصورت حادثہ، لڑکی کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔  خوبصورت____ نہیں سمجھ میں آنے والا اور دماغ کی رگیں چٹخانے والا۔  کیونکہ لڑکی جوان ہو رہی ہوتی ہے۔

’جوان۔ ‘ سناٹے میں میزائل چھوٹی۔

’یس سر____‘

مسز ڈھلن نے فائل بند کر دی۔ ’بہتر ہے آپ اس آیا کو پھر سے بلالیں۔ ‘

مسز ڈھلن پر آہستہ سے چیختا ہوں____ آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔

’پی۔ پی ریڈ۔ اس عمر میں لڑکیوں کو۔ ‘

مسز ڈھلن آگے بڑھ جاتی ہیں____

مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ کمرے کا رنگ اچانک سرخ ہو گیا ہے۔ لال لال۔  کھڑکیوں پر چڑھے ہوئے شیشے۔  دیواریں۔  اور زمین۔  سب لال لال۔  سرخ سرخ۔  میری آنکھوں کے آگے۔  اندھیرا بھی لال اور سرخ____ میں سر تھامنے کی کوشش کرتا ہوں۔

’انجلی‘

یہ بیٹیوں میں لڑکیاں کیوں آ جاتی ہیں۔

***

’اس دن میں، دفتر سے گھر جلد لوٹ آیا تھا____ دروازے پر داخل ہوتے ہی زور سے چیخا۔

انجلی!

مگر کوئی نہیں۔ دروازے کے پٹ کھلے تھے۔ سیڑھیاں خاموش تھیں۔  اندھیرے میں، اسکرین پر الفریڈ ہچکاک کی کوئی فلم شروع ہو گئی تھی۔ سسپینس اور تحیر سے بھری ہوئی فلم۔

انجلی۔

باپ الگ الگ دروازے پر دستک دیتا ہے۔  چّلاتا ہے۔  انجلی۔  وہ ’بڑی سی انجلی‘ کو اچانک دریافت کر لینا چاہتا ہے۔ مگر اس اچانک دریافت کے بعد۔  سرخ سناٹے___ جیسے ذہن کو چیونٹیوں کی طرح کاٹے جا رہے ہیں۔  انجلی۔  یہاں بھی نہیں۔  اس کمرے میں بھی نہیں۔ کہاں گئی۔ بیک گراؤنڈ سے تیز میوزک۔  دروازہ کھلا ہے۔ انجلی نہیں ہے____ کہاں گئی ہو گی۔  کہیں گئی ہو گی یار۔  بیٹیاں اچانک جوان ہو جاتی ہیں۔ کشمکش بھرے لمحے میں خود کو دی جانے والی تسلیاں۔ کہیں گئی ہو گی۔ مگر۔ اس طرح۔ گھر کو کھلا چھوڑ کر۔  اور۔ وہی۔  سرخ انقلاب۔

ذہن میں چکر ا رہے ہیں۔

بالکنی پر آگیا ہوں۔  یہ سانسیں دھونکنی کی طرح کیوں چل رہی ہیں۔ تیز تیز۔ شاید مجھے کچھ ہو رہا ہے____ نظروں کے آگے یہ کیسا سرخ انقلاب مجھے پریشان کئے جا رہا ہے۔

ایک بار پھر زور سے چلاتا ہوں۔ انجلی!

سرخ منظر ایک ایک کر کے ’لیزر‘ کرنوں کی طرح انجلی کے بدن میں داخل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سامنے اسکرین پر انجلی کا بدن روشن ہے۔  اور لیزر کرنیں۔ سرخ لیزر کرنیں۔

مجھے شاور کی ضرورت ہے۔  اس بدن کو ہٹاؤ۔ انجلی کے بدن کو ہٹاؤ۔

میں دونوں ہاتھوں سے سر تھامتا ہوں۔ باتھ روم کی طرف تیزی سے بھاگتا ہوں۔  دروازہ کھولتا ہوں اور۔

باتھ روم کا دروازہ کے کھلتے ہی____  ہینگر پر لپٹے ہوئے سانپ، جیسے زور سے اُچھل کر مجھے ڈس لیتے ہیں____ چیخنا چاہتا ہوں____ مگر چیخ جیسے اندر گھٹ کر رہ گئی ہے۔  میرا جسم تھر تھر کانپ رہا ہے۔ باتھ روم کی ہر ایک شئے میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ سرخ ٹائلس____ ان کے درمیان اسی کلر سے میچ کرتا باتھ ٹب۔  ہلکا ہلکا کھلا ہوا شاور۔  شاور کے چھید سے ٹپکتے ہوئے قطرہ قطرہ پانی کی بوندیں۔  اور اُدھر شاور کے داہنی طرف بے ڈھنگے پن سے ہینگر کے سرخ ’رڈ‘ میں ’کھوسی‘ گئی انجلی کی برا اور پینٹی____

شاور کے چھید سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی ہیں۔  ٹپ۔ ٹپ۔

میری آنکھیں سہم گئی ہے۔

بدن لرز رہا ہے۔

گلہ سوکھ گیا ہے۔

جسم کے اندر بھونچال آگیا ہے۔

ریزہ ریزہ کانپ رہا ہے۔

کیمرہ باتھ روم میں نہ اب کہیں Panہو رہا ہے____ نہ ٹلٹ اَپ____ نہ ہی ٹلٹ ڈاؤن۔  وہ جیسے اُسی منظر پر Freezeہو گیا ہے۔  انجلی کے کپڑے اور۔

شاور کے چھید سے ٹپکتی ہوئی پانی کی بوندیں

انجلی!

جیسے بجلی کا کرنٹ لگتا ہے۔

میرے منہ سے ایک زور کی چیخ نکلتی ہے۔  تھر تھر کانپتا ہوا کمرے میں آتا ہوں۔  بستر پر رکھا ہوا کمبل اٹھاتا ہوں۔  نہیں، مجھے ایک شکار کرنا ہے۔  باتھ روم میں سانپ آگیا ہے۔  یہ کمبل نہیں ہے، شکاری کا پھندہ ہے۔

پھر وہی باتھ روم۔ سرخ ٹائلس۔  اور میرا شکار ہے۔  آنکھیں خوفزدہ ہو کر دوسری طرف کرتا ہوں۔ کمبل ایک جھٹکے سے انجلی کے اندر پہنے جانے والے لباس پر پھینکتا ہوں۔  پکڑ لیا چور۔ ہاتھ لرز رہا ہے۔ بدن میں خون کی گردش بڑھ گئی ہے۔ پاؤں کانپ رہے ہیں۔  ہاتھ میں چوہے دانی ہے____ اور اندر حرکت کرا ہوا چوہا۔  لو پکڑ لیا۔  انجلی کا کمرہ ہے۔  اس کا وارڈ روب۔  آنکھ بند کر کے کمبل کھولتا ہوں۔ اور یہ گیا چوہا۔ کمبل وہیں پھینک کر باتھ روم کی طرف دوڑتا ہوں۔ شاور چلاتا ہوں۔  آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ پانی کی تیز بوند سرپر پڑتی ہے۔ ایک ذرا سا، خیالوں کی برہنہ گپھاؤں سے باہر نکلا ہوں۔

یہ مجھے کیا ہو گیا تھا۔

میں انجلی کی آواز سن رہا ہوں۔ پاپا۔ پاپا۔

انجلی آ گئی ہے۔

پانی میں ارتعاش پیدا ہوا ہے۔  میں اپنے جسم کو نارمل ٹمپریچر پر لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔

پاپا۔ پاپا۔

انجلی بیٹی ہے۔  بیٹی۔  میری پیاری بیٹی۔  دو ایکم دو۔ دو دونی چار۔  بیٹی ہے۔  بیٹی ہے۔

***

’پاپا چیخ کیوں رہے تھے؟‘

’تم گئی کہاں تھی؟‘

’جاؤں گی کہاں۔ مینو سے نوٹس مانگنے گئی تھی۔ ‘

’مینو؟‘

’ہاں۔ وہ پڑوس والے شرما انکل کی بیٹی۔ لیکن تم چیخ کیوں رہے تھے۔ پتہ ہے۔ دروازہ کھلا رہ گیا تھا، اس لئے ____ساری پاپا۔ مجھے خیال نہیں رہا۔

’کوئی بات نہیں،

میں مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔ انجلی بیٹی ہے۔ دو دونی چار۔ دو ایکم دو۔

’ایسے کیا دیکھ رہے ہو پاپا‘

’کچھ نہی‘

’نہیں۔ کچھ تو ہے۔ ‘

’دیکھ رہا ہوں کہ اب میری بیٹا بڑی ہو گئی ہے۔ ‘

’تو؟ اب میری شادی کرو گے؟‘ انجلی مسکرا رہی ہے۔ یہ ایک دم سے باپ کیوں بن جاتے ہو____ اولڈ فیشنڈ۔ ‘ آگے بڑھ کر اس نے میرے گلے میں پیار سے اپنی بانہیں ڈال دی ہیں۔ ’تم ایک دوست ہو پاپا۔ میرے لئے۔ پاپا سے زیادہ دوست۔ ‘

’ہاں بیٹا‘ میں تمہارا دوست ہی ہوں۔ ‘

انجلی کے ماتھے پر Kissکرتا ہوں۔  ’دوست ہوں۔ لیکن تمہیں اچانک اتنا بڑا نہیں ہو جانا چاہئے تھا۔ ‘

مسز ڈھلن کے لفظ چاروں طرف سے مجھے گھیر رہے ہیں۔  ایک خاص طرح کا ساؤنڈ ایفیکٹ ECHO۔ انجلی کو دیکھ کر میں مسکرانا چاہتا ہوں مگر وہی۔

۔ ہر زور ظلم کی ٹکر میں انصاف ہمارا نعرہ ہے۔

سرخ سرخ انقلاب۔

مسز ڈھلن کے بجتے ہوئے لفظ۔  ’’اس عمر میں ایک خوبصورت حادثہ لڑکی کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔  خوبصورت اور نہیں سمجھ میں آنے والا۔  پھر دھماکہ ہوتا ہے۔  پیریڈ۔  تیز دھماکہ۔  جیسے ایک ملک نے دوسرے پر بمباری شروع کر دی ہو۔  دھائیں دھائی۔

اپنی دنیا میں واپس آنے تک، ایک اٹ پٹا سا سوال کر دیتا ہوں۔

’تم ٹھیک تو ہو بیٹی۔ میرا مطلب ہے  رات میں؟‘

’رات میں۔ ‘

’ر۔ ا۔ ت ____‘رات میرے ہونٹوں پر آ کر____  طلسم ہوش رُبا کی پتھر بنانے والی ساحرہ بن گئی ہے۔  ہاں، رات میں۔  ٹھیک ہو، نا۔  میرا مطلب ہے۔ ‘

’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ مجھے رات وات میں کچھ نہیں ہوتا ہے____ دیکھو۔ میں بالکل فٹ ہوں۔ ‘

انجلی میرے سامنے تن گئی ہے۔

میں مسکرانے کی کوشش کرتا ہوں۔  اندھیرے میں، آسمان پر چمکتے ایک پیارے سے تارے کو ’ہولے‘ سے چھو لیتا ہوں۔  نہیں۔  میں بالکل ٹھیک ہوں اور صحتمند۔

               (5)

کیا میں ’پرورٹیڈ ہوں؟

نہیں۔ مجھے یقین ہے____ میں پرورٹیڈ نہیں ہوں۔ میں گندے ذہن کا آدمی نہیں ہوں۔ ویسا آدمی، جیسا ہمارے ماحول میں عام طور پر 40 کے بعد کے مرد ہو جاتے ہیں۔  انہیں کہیں بھی دیکھ لیجئے۔ بس اسٹاپ سے کلب اور اپنے خوبصورت دفتر کے ’رعب دار‘ کمرے میں اپنی حسین سکریٹری کو ڈکٹیشن دیتے ہوئے۔  وہ اس بات پر دل کھول کر ہنستے ہیں کہ بغیر کرسیوں والے باس کے کمرے میں، باس کے ’بیٹھ جاؤ‘ کہنے پر نئی نئی آئی ہوئی سکریٹری نے اِدھر اُدھر کرسیاں تلاش کرنے کے بعد پوچھا تھا____ کہاں بیٹھوں سر، یہاں تو کرسیاں ہی نہیں ہیں۔ ‘

وہ بہت کچھ گھر سے اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔  پرانی بیوی کا اداس بستر۔  اس کے ڈھلتے جسم کی ’سدا بہار‘ جوانی____ اور پہلے جن پتھ Kissکے نان ویج لطیفے۔  جانتا تھا، یہ سب اندر کا فرسٹریشن ہے اور کچھ نہیں۔  ان ڈھلتی ہوئی عمر کی پائیدان پر کھڑے مردوں کے لئے جوانی کا اشتہار، بن جانے کی روایت کوئی نئی نہیں ہے۔  جسم سونے لگتا ہے تو ہونٹ بولنے لگتے ہیں اور آنکھیں زہریلی ہونے لگتی ہیں۔

لیکن۔

انجلی کی ماں کے مرنے کے بعد سے لے کر اب تک، کسی Psychiatrist یا Sexologist کے پاس جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ میں کبھی بھی گندی ذہنیت کا قائل، کبھی نہیں رہا۔  ’ڈھلان‘ پر کی ڈھلان باتیں____ نان ویج لطیفے۔  میں ان لطائف میں انجلی کی ماں کا مذاق نہیں اڑا سکتا تھا۔  عورت میرے لئے دیوی یا تقدس کی مورتی نہ سہی، لیکن لائق احترام شئے ضرور رہی، اس لئے مجھے ہمیشہ خود پر ناز رہا۔  میں ان ڈھلتی عمر کے بوڑھوں میں سے نہیں ہوں۔  جو اندر کچھ باہر کچھ ہوتے ہیں۔

لیکن یہ سب اچانک۔

یہ میرے لئے عمر کا ایک نیا موڑ ہے____ یار، یہ بیٹیوں میں ایک دم اچانک سے، لڑکیاں کیوں آ جاتی ہیں۔

’’چلئے۔ مان لیا میں پرورٹیڈ نہیں تھا۔ پھر انجلی کے اندر گارمنٹس کو دیکھ کر ڈر کیوں گیا تھا۔  ؟حواس باختہ۔  میری چیخ کیوں نکل گئی تھی____؟

بیٹی مقدس شئے ہے تو اس کے کپڑے بھی مقدس ہوئے۔  پھر۔ ؟ میں ڈر کیوں گیا تھا؟ چوہے کو جال میں چھپانے جیسا، کمبل ڈالنے کا واقعہ کیوں پیش آیا____شاید، انسانی سائیکی ابھی بھی اپنے اندر کا بہت کچھ سراغ لگا پانے میں ناکام ہے۔

مگر۔ سرخ انقلاب اور

***

’انجلی بڑی ہو رہی ہے۔ ‘

’کتنے کی۔ چودہ۔ چودہ کی ہو گئی نا انجلی۔ ‘ مسز ڈھلن میری آنکھوں میں جھانک رہی ہیں۔  اُن کی آنکھوں میں شرارت ہے۔

’آپ کو۔  آپ کو ہشیار رہنا چاہئے سر۔ ‘

’کیوں؟‘

’بس‘ کہہ دیا نا____ ’یہ عمر ہی ایسی ہے۔ ‘

’یعنی 14۔ 14 کی عمر۔ ‘

’سب سے سنسنی خیز____ لڑکیوں کے لئے سب سے سنسنی خیز عمر یہی ہوتی ہے۔  اس عمر میں لڑکیاں Love Letterبھیجنا شروع کر دیتی ہیں۔

’لو۔ لیٹر____ ‘  میری سانس رک رہی ہے۔  انجلی کا چہرہ ایک پل کو، آنکھوں کے آگے دوڑ جاتا ہے۔ یہ معصوم سی بچی۔  آنکھوں کے پردے پر چھوٹے چھوٹے انجلی کے ہاتھ ہیں۔  نہیں، یہ ہاتھ محبت بھرے خط نہیں لکھ سکتے۔ ‘

’کیا سوچ رہے ہیں سر؟ مسز ڈھلن مسکراتی ہیں۔ لیکن آپ کے لئے۔ آپ کے لئے کیا غلط ہے سر۔  آپ تو اس معاملے میں بہت لبرل ہیں۔  یعنی۔ مجھے لگتا ہے، آپ اس معاملے میں بھی انجلی سے شیئر کریں گے۔  کیوں سر۔  زمانہ بدل رہا ہے۔ بس انجلی کو پھسلنا نہیں چاہئے۔  سمجھ رہے ہیں نا سر۔ بس اسی جگہ تھوڑا سا ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ‘

لیکن کیوں ضرورت ہے مجھے____؟ بڑے ہوتے ہی ہم اپنا زمانہ کیوں بھول جاتے ہیں۔ انجلی کی جگہ لڑکا ہوتا تو؟ تب تو چلا چلا کر اس کی پہلی پہلی محبت کی خوشی میں فائیو اسٹار میں ڈنر دیتا۔  لوگ پوچھتے معاملہ کیا ہے؟ تو چلا کر کہتا۔  میرے بیٹے کو پہلی بار کسی سے محبت ہوئی ہے۔  میرے۔  بیٹے کو۔

انجلی کی محبت پر پارٹی کیوں نہیں دے سکتا۔ ؟

نہیں۔ انجلی لڑکی ہے۔ انجلی کو محبت نہیں کرنا چاہئے۔ لڑکیوں کے معاملے الگ ہوتے ہیں۔ مسز ڈھلن بتاتی ہیں۔ جب ان کی بیٹی سات سال کی ہوئی تھی اور مسٹر ڈھلن بہت پیار کرنے والی اپنی بیٹی کو باتھ روم سے نہلا کر____ ٹاول باندھ کر باہر لائے تھے____ تو ان کی ممی نے اسے سمجھایا تھا۔

Not, not again.  اب بیٹی کو تم ہی نہلایا کرو۔

’لیکن کیوں ممی۔ وہ باپ ہے۔ ‘

’باپ ہے تو کیا ہوا۔ ہے تو مرد‘

مرد۔ ؟ باپ کو مرد نہیں ہونا چاہئے۔  بیٹی۔ سگی بیٹی۔  باپ کتنی کتنی باتوں سے محروم ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے۔

مسز ڈھلن نے پوچھا تھا۔

’آپ۔ آپ کیا کرتے ہیں سر۔ ‘

’میں انجلی کو سات آٹھ سال کی عمر تک خود ہی۔ ‘

مسز ڈھلن نے قہقہہ لگایا تھا۔  وہی۔  آپ نے کہا تھا، نا سر____ یہ بیٹیوں میں لڑکیاں کیوں آ جاتی ہیں____ ماں غسل دیتی ہے تو بیٹیوں میں لڑکیاں نہیں آتیں____ بیٹیوں میں بیٹیاں ہی رہتی ہیں مگر۔ ‘

مسز ڈھلن نے کتنی آسانی سے یہ سچ اگل دیا تھا۔  اور حقیقت تھی کہ انجلی کے پھیلتے جسم کے ساتھ ہی، تقدس کے رشتے نے، قدم قدم پر اپنی Limitations کی دیوار اٹھانی شروع کر دی تھی۔  یہ جوان ہوتی لڑکیوں کا جسم اچانک لاؤڈاسپیکر کی طرح چیخنے کیوں لگتا ہے۔ !

اور یہ چیخ میرے اندر اتر رہی تھی۔ ایک کمزور باپ کی آتما میں۔  کیا انجلی کسی کو لیٹر لکھ سکتی ہے۔

’نہیں۔ ‘

’کیوں؟‘

’بس نہیں لکھ سکتی‘

’کیوں نہیں لکھ سکتی؟‘

’اس لئے کہ میری بیٹی ہے۔ ‘

لیکن اس نے اگر لکھنا شروع کر دیا تو____؟ کالج ہے۔ سارا دن اکیلے رہتی ہے۔  اس نے کبھی اس بارے میں پوچھا نہیں____ وہ اپنی تنہائیاں کس کے ساتھ شیئر کرتی ہے۔  سارا دن کس طرح اپنا دل بہلاتی ہے۔  کالج میں کیا کرتی ہے۔  کالج سے کتنے بجے گھر واپس آتی ہے۔

سوچ کی رفتار رک نہیں پا رہی تھی۔

اور اس دن گھر میں داخل ہوتے ہی ایک بار پھر وہ نازیبا واقعہ رونما ہو گیا تھا____

               (6)

وہ اپنے کمرے میں تھی____ وارڈ روب کے، ہینگر میں لپٹے کپڑے اس کے بستر پر پھیلے تھے____ مجھے سامنے دیکھ کر وہ ڈر گئی تھی____ اس نے اپنے ہاتھوں کو اچانک پیچھے کر لیا تھا۔ چھپا کر۔  مسز ڈھلن کے لفظ میرے اندر چیخ رہے تھے۔

’کیا۔ کیا بات ہے پاپا۔ ‘

وہ چوکنّا تھی____ اس کی نظریں مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھیں۔ ‘ یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟‘

’کچھ نہیں۔ ‘

’کچھ نہیں کچھ۔  لاؤ دکھاؤ۔ ‘

’نہیں پاپا۔ ‘

’دکھاؤ۔ ‘

’میں نے کہہ دیا نا، کچھ نہیں ہے پاپا۔ ‘

’پھر چھپا کیوں رہی ہو۔ ‘

بس ایسے ہی۔

’لاؤ دکھاؤ، میں غصّے کا مظاہرہ کرتا ہوں۔ وہ بستر سے چھلانگ لگاتی ہے۔  یقیناً لو لیٹر۔  اشارہ سے دکھانے کو کہتا ہوں۔ وہ پیچھے دیوار کی طرف، میری طرف منہ کئے ہٹتی ہے۔

’نو۔ نو پاپا۔  کچھ نہیں ہے۔ آپ جاؤ۔ ‘

’نہیں۔ لاؤ۔ ‘

اور۔  اب دیوار ہے۔ وہ پیچھے نہیں جا سکتی۔ وہ دیوار کے پار نہیں ہو سکتی۔ میں چیختا ہوں____ اور وہ چور خط میرے سامنے کھول دیتی ہے۔  انجلی کی آنکھیں بند ہیں۔ بدن تھر تھر کانپ رہا ہے۔ کھلے ہوئے ہاتھوں پر اس کی ’برا‘ اچانک سانپ کے پھن کی طرح میرے سامنے تن جاتی ہے۔

’نہانے جا رہی تھی۔ ‘

’کیا۔ ؟‘

وہ اچھلی۔ باپ کے سامنے جوان ہوتی عمر کے چغلی کھانے کا احساس اُسے اچھا نہیں لگا تھا____ انجلی نے برا کو پھر سے مٹھیوں میں جکڑ لیا تھا اور باتھ روم بھاگ گئی تھی۔

***

میں سرتا پا لرز رہا تھا۔

اس کی کھلی مٹھی میں جگنو نہیں تھے____ تارے نہیں تھے____ محبت بھرے خط نہیں تھے۔  دھماکہ تھا۔  اشتعال تھا۔ سنسنی خیزی تھی۔  وہ شئے تھی، جس کے احساس سے ذہن، بدن کے خطوط ناپنے لگتا ہے۔

انجلی کی کھلی مٹھیاں۔  انجلی کی بند آنکھیں۔ پھر انجلی کا اچھل کر بھاگنا۔

یہ۔ یہ کیا ہو گیا۔ کیا سمجھا ہو گا انجلی نے۔  کتنا Guilt محسوس کیا ہو گا۔  اس کا ذہن تناؤ کا شکار ہے۔ رگیں پھٹ رہی ہیں۔

میزائلیں مسلسل چھوٹ رہی ہیں۔

بدن۔ بارش۔ شاور۔  اور کھلی ہوئی ہتھیلیاں ____اور کھلی ہتھیلیوں کا چور____مجھے کچھ کرنا ہو گا۔ اپنے آپ کو شانت کرنے کے لئے مجھے کچھ کرنا ہو گا۔   لیکن کیا کرنا ہو گا۔

انجلی۔ بدن۔ بارش۔ شاور اور کھلی ہتھیلیوں کا چور۔ مجھے کچھ کرنا ہو گا۔

واتسائن اور انجلی

انجلی اور وانسیائن۔

مجھے کچھ کرنا ہو گا____

ٹہلتا ہوں۔ تیز تیز سانسوں کو دل کے کبوتر خانے میں جکڑنے کی کوشش کرتا ہوں۔  سانسوں کی لہروں کو سمجھاتا ہوں۔ اتنا تیز مت بہو۔

کیوں۔

مت بہو  اتنا تیز۔

انجلی بیٹی ہے۔ دو ایکم دو۔ دو دونی۔  انجلی بیٹی ہے۔  ٹہلتے ہوئے انجلی کی میز تک آگیا ہوں۔ کتنی گندی ہو رہی ہے یہ میز۔ کتابیں بکھری پڑی ہیں۔  یہ آنکھیں____  ان کتابوں پر جمانے کی کوشش کرتا ہوں۔

فزکس۔ کیمسٹری۔ الجبرا۔

موٹی موٹی کتاب کے صفحات میرے ہاتھوں کا لمس جذب کرتے ہیں۔ کتنی مدت ہو گئی۔ انجلی کو ساتھ پڑھانے بھی نہیں بیٹھا۔ کبھی پوچھا بھی نہیں۔ دسویں پاس کرنے کے بعد کیا لیا۔  سائنس یا آرٹس____ بس کالج اور ٹیوشن کے پیسے دیتا ہوں۔  اور یہ کتابیں____ فزکس۔ کیمسٹری۔ الجبرا۔ میز کتنی گندی ہو رہی ہے۔ روشنائی بھی گر گئی ہے۔ میز صاف کر رہا ہوں____ فزکس، کیمسٹری۔  الجبرا۔

انجلی کی کھلی ہتھیلیاں اور بند آنکھیں ذہن کی Retina پر Freeze ہو جاتی ہیں۔ انڈر گارمنٹس۔ پینٹی، برا اور۔ فزکس۔ کیمسٹری۔

پینٹی برا۔

فزکس، کیمسٹری۔

کتابوں کو قرینے سے سجا رہا ہوں۔

یہ انجلی کی کتابیں ہیں اور وہ۔  انجلی کے انڈر گارمنٹس۔

فزکس، کیمسٹری، الجبرا۔

پینٹی اور برا۔

میں وہیں کرسی پر بیٹھ گیا ہوں____ ان میں فرق کیا ہے۔ کتابوں میں اور کپڑوں میں۔ دونوں انجلی کے ہیں۔

انجلی میری بیٹی ہے۔

کتابیں میز پر سجا سکتا ہوں تو بیٹی کے انڈر گارمنٹس چھوتے ہوئے بدن میں زلزلہ کیوں آ جاتا ہے۔

مقدس باپ کے ذہن میں کہیں کوئی ایک چور دروازہ بھی ہوتا ہے کیا۔ ؟

اس چور دروازے سے ہو کر بیٹی لڑکی کیوں بن جاتی ہے۔

فزکس۔ کیمسٹری۔

کیمرہ پین ہوتا ہے____ سرخ ٹائلس۔ باتھ روم۔ باتھ روم کی دیواریں۔ سرخ بیسن۔ باتھ ٹب۔  ایک بار پھر شاور کے پاس ہی ہینگر سے جھولتے انجلی کے انڈر گارمنٹس۔  پینٹی اور برا۔  فزکس، کیمسٹری۔ الجبرا۔

مڈ شاٹ ____کلوز میں، میں ہوں۔ میں نے ہاتھ بڑھا دیا ہے اور یہ کیا____ میرے ہاتھوں سے سانپ کے پھن غائب ہو گئے ہیں۔  کلوز میں میرا ہنستا ہوا چہرہ۔  ڈیزالو۔

انجلی کپڑے بدل کر کمرے میں آ جاتی ہے۔  سجی ہوئی میز کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکراتی ہے۔

I am proud of you, my papa ____ تم نے میری میز صاف کر دی۔

’کیوں؟‘ اس میں Proud کی بات کیا ہے؟‘

’ہے کیسے نہیں؟‘

’کیسے____ ؟‘

’میری سہیلیوں کے پاپا ایسا نہیں کر سکتے۔ ‘

’کیوں نہیں کر سکتے۔ ‘

’بس نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ وہ میرے پاپا نہیں ہیں۔

وہ اُچھل کر اپنی بانہیں میرے گلے میں حمائل کرتی ہے۔ I love you papa

’فزکس، کیمسٹری۔  الجبرا۔ ‘

میں مسکراتا ہوا، اس کو اپنی بانہوں میں لیتا ہوں____

انجلی میری بیٹی، تم اپنی ماں سے کتنی ملنے لگی ہو۔ ‘

’ماں سے؟‘ وہ ہنستی ہے____  ’’مسکراتی ہے۔ اسی لئے پیار ہو رہا ہے۔ کیونکہ مجھ میں ماں آ گئی ہے۔ ‘‘

انجلی پیار بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی ہے۔ وقت نے یہ منظر یہیں فریز کر دیا ہے۔

٭٭٭

 

فریج میں عورت

               (1)

وہ چپ چاپ اس بات کا اعتراف کر لیتا تھا۔  ’’ہاں، میرے فریج میں ایک عورت ہے‘‘۔

۔ فریج میں عورت؟‘

۔ ’کیوں۔ عورت فریج میں نہیں ہو سکتی۔ میں جب چاہوں، اسے فریج سے باہر بلا لیتا ہوں۔ کمرے میں یار، اس کے ساتھ ہنستا ہوں۔ باتیں کرتا ہوں۔ دل بہلاتا ہوں۔ ‘

***

فریج والی عورت پہلی بار اس کے کمرے میں کب آئی یا اس کے کمرے نے پہلی بار فریج کا منہ کب دیکھا، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔  ممکن ہے آپ اس کہانی پر کچھ زیادہ یقین بھی نہ کریں، یا یہ کہانی آپ کو بے وقوفی سے بھری ہوئی ایک من گھڑنت کہانی نظر آئے۔ تسلیم! اس کے باوجود میں کہوں گا آپ اس کہانی کا مطالعہ ضرور کریں۔

بہار کے موتیہاری ضلع کے رہنے والے نربھے چودھری کو دلّی میں جگہ کیا ملی، قسمت کھل گئی۔ عام طور پر مہانگر میں آنے کے بعد آنکھیں چوندھیا جاتی ہیں۔ مگر نربھے چودھری کا رویہ دوسرا تھا۔

’’کا ہے، موتیہاری اب کم ہے کا۔ ارے اب یہاں بھی شوٹنگ ہوتی ہے۔ بڑے بڑے ہیرو ہیروئین آتے ہیں۔ ‘‘

ان دنوں موتیہاری میں شول فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی، اور نربھے چودھری کے اپنے لفظوں میں۔  ’’یار روینہ کو تو دیکھے کے ہم پگلئے۔  گئے۔ ‘‘

آپ مانیں یا نہ مانیں، ہر آدمی کے دماغ کے اندر ایک رنگین گلیمر کی دنیا ہوتی ہے۔ سویہ دنیا ہمارے ہیرو نربھے چودھری کے ذہن میں بھی موجود تھی۔  غلط پہاڑا رٹنے کی باری تب آئی جب اپنے نربھے چودھری کو کچھ دنو ں تک جے این یو یعنی جواہر لال نہرو یونیورسٹی رہنے کا اتفاق ہوا۔ پیسوں کی تنگی ہوئی تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کمپیوٹر میں گھس گئے۔  کمپیوٹر کے آئیں۔ بائیں۔ شائیں، بٹنوں پر کمانڈ نہیں ہوا تو، ائیر کنڈیشن، والوں کو جوائن کر لیا۔  ائیر کنڈیشن کی ٹھنڈک برداشت نہیں ہوئی تو واشنگ مشین بنانے والی ایک نئی کمپنی میں سلیس مین ہو گئے۔ یہ نوکری بھی نہیں پچی تو کچھ دنوں تک ٹیوشن پڑھانے کا کام شروع کیا۔  یہاں تک کہ ساؤتھ ایکس جیسی پاش کالونی میں ایک لڑکی کو پڑھانے کا کام مل گیا۔ آخر ایم اے پاس تھے۔ لیکن ’بہاری‘ میں انگریزی بولنے کی وجہ سے۔ یہ ’’ریسپیکٹیڈ‘‘ کام بھی ان کے ہاتھوں سے نکل گیا۔  ان کی دقّت یہ تھی کہ:۔

’’ایاں لوگ انگریزی نہیں جانتے ہیں نا۔ بڑبک۔ ہم کو بہاری کہتے ہیں۔ بتائیے بہار کوئی انڈیا سے باہر کا ہے۔ ؟ بڑے قابل بنتے ہیں۔ ارے ہم جو انگریزی بول دیں گے۔ ای کا بولیں گے۔ گاندھی جی بھی موتیہاری گئے تھے۔ پتہ ہے۔ ‘‘

ڈھنگ کی نوکری کیا ملتی، چپل گھستے گھستے دور درشن کے لئے سیریل بنانے والے پروڈیوسر اجے گوسوامی سے ملاقات ہو گئی۔ کریٹیو ریلس۔  بن گئے۔ کریٹیو ریلس کے پروڈکشن منیجر۔ ویزیٹنگ کارڈ بھی چھپ گیا۔ جمنا پار علاقے میں سستے ریٹ پر ایک چھوٹا سا کمرہ بھی مل گیا۔

تو گلیمر کی جو رنگین سی دنیا کبھی فلم ریل کی طرح  ذہن کے پردے پر چلتی تھی، اب آنکھوں کے سامنے تھی۔  شوٹنگ، ایکشن، کٹ، لائٹس، لڑکے، لڑکیاں۔  اور مزے کی بات یہ، کہ چاروں طرف دوڑتے ہوئے ہمارے نربھے چودھری۔ کہیں اکڑتے ہیں۔ کسی لائٹ والے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے باتیں کرتے ہیں۔ کبھی ’’ہیروئین‘‘ کے سامنے ٹھمکا لگاتے ہیں۔ ۔

کچھ چاہئے تو نہیں آپ کو۔ ؟

ہیروئین مسکرا کر پوچھتی۔ ’آج آپ بڑے خوش نظر آ رہے ہیں۔ ‘

جو اب ملتا۔ ’آپ کو دیکھ کر کون خوش نہیں ہو گا۔ ‘

’ہوs s  ہو‘۔  ہیروئین قہقہہ مار کر ہنستی۔

پیک اپ کے بعد جب چار یار شراب کی بوتلیں کھول رہے ہوتے، تو یہ باتیں ایک دم سے فنٹاسی کی طرح نربھے چودھری کو پاگل بنا دیتی____  عورت۔  سیکس۔  سچویشن۔ یہاں گفتگو میں صرف اور صرف عورتیں ہوتیں۔ چور دروازے سے دل میں داخل ہونے والی عورتیں۔  ان عورتوں کو لے کر ہزاروں قصّے تھے ____اور ایسا ہر قصہ نربھے چودھری کو زخمی کر جاتا تھا۔

***

رات گئے شوٹنگ کے خاتمے کے بعد نربھے چودھری جب اپنے کمرے میں پہنچتے تو خالی کمرے کا اندھیرا انہیں ڈسنے لگتا۔  گفتگو والی عورتیں۔  تنہائی اور خاموشی کی بین کی آواز پر ناگن جیسی لہرانے لگتیں۔  بین کی آواز تیز ہوتی جاتی۔ پھر یہ ناگ ناگن تیز تیز لہراتے ہوئے ایک دم سے نربھے چودھری کے جسم میں داخل ہو جاتے۔ کافی دیر بعد جب اندر کا طوفان تھم جاتا تو نربھے چودھری کو لگتا۔  اس کی زندگی میں ایسی ہریالی کب آئے گی؟ کب تک عورت کے بغیر رہنا ہو گا۔

***

اجے گوسوامی۔ نربھے چودھری کی نگاہ میں دنیا کا سب سے خوش قسمت آدمی تھا۔ آخر کو پروڈیوسر تھا۔ لڑکیاں اس سے چپکی رہتی تھیں۔ زندگی ہو تو ایسی، نربھے چودھری کو، اجے گوسوامی یعنی اپنے ہونہار آقا پر رشک آتا تھا۔

لیکن بھائی، پیٹ کا اپنا ’اتہاس‘ ہے۔  اور کبھی کبھی جب پیٹ کا جغرافیہ بگڑتا ہے نا، تو حالت بڑی بے رحم ہو جاتی ہے۔ کہنے کو تو نربھے چودھری فلمی دنیا کے آدمی بن گئے تھے، مگر اصل میں تھے کیا خاک پتی۔  نہ لاکھ پتی۔  نہ ہزار پتی۔ بک بک جھک جھک کے بعد تو اجے گوسوامی کی گانٹھ سے بندھے ٹکے دو۔ چار۔ پانچ سو روپے نکلتے تھے____ ’کیا کہوں بھائی۔ دوردرشن کی حالت خراب ہے۔ ٹونٹی پرسنٹ تک دینے کو تیار نہیں۔ اب تم لوگوں کو دوں تو کہاں سے دوں۔ ‘

یہ الگ بات ہے کہ پروڈیوسر کو دھکا دھک ٹریپل فائیو پینے کے پیسے مل جاتے تھے۔  کبھی کبھی نربھے چودھری عجیب عجیب حساب لگاتا۔ ایک آدمی کے کھڑے ہونے میں کتنے پیسے درکار ہیں؟ شادی کرنے میں کتنا خرچ بیٹھے گا؟ شادی کے بعد کے خرچ میں کیا ہوں گے؟ اور اگر بچے آ گئے تو؟ یعنی کم پیسے میں ایک ایسی دنیا جسے طے کرنے میں قطب مینار کی بلندی تک کے فاصلے پسینے نکال دیتے تھے۔  ’نابھائی۔ وہ ساری زندگی شادی نہیں کر سکتے۔ نانو من تیل ہو گا، نا رادھا ناچے گی۔ ‘

نربھے چودھری گھبرا جاتے تو اجے گوسوامی کے بیڈروم میں منڈرانے والی لڑکیاں چپکے چپکے ان کے دل و دماغ پر قبضہ کرنے بیٹھ جاتیں۔  ہری ہری لڑکیاں۔ آسمان سے اتری ہوئی پریاں۔  جیسے ایک دھند ہوتی ہے۔  جیسے اس گھنی دھند میں کچھ بھی آگے پیچھے دیکھنا ممکن نہیں ہوتا ہے____لیکن نربھے چودھری اپنی پریشانی کی کینچلی اتارتے ہوئے دھند میں چپکے چپکے اتر جاتے۔

***

گھر سے خط آ رہے تھے۔ پیسے چاہئیں۔ اجے گوسوامی سے ڈرتے ڈرتے پیسے مانگے تو ناراض ہو گئے۔ ’’پیسے کیا ڈال میں پھلتے ہیں‘‘

نربھے چودھری کے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی۔ لہجہ کمزور ہوا۔  دھیرے سے بولا

’’ڈال میں تو نہیں۔ لیکن ہمارے بنتے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے۔ ‘‘

اجے گوسوامی نے ایک پل کو انہیں دیکھا۔ پھر ٹھٹھا کر ہنسے۔

’کتنے دن سے شیون ہیں بنایا ہے‘  وہ پھر ہنسے۔ پروڈکشن میں ہو۔ ایسے چہرہ بگاڑ کر رہو گے تو لڑکیاں گھاس نہیں ڈالیں گی۔ سنو، تم کہہ رہے تھے کہ ٹھنڈے پانی کی تکلیف ہے۔ کہہ رہے تھے نا؟

***

گودریج کمپنی کا ایک پرانا سا فریج اس نے ڈرائنگ روم کے پاس والے کباڑ خانے میں دیکھا تھا۔ ایک دم علاء الدین کے چراغ جیسا۔  کبھی کبھی اس میں بوتلیں بھی رکھی دیکھی تھیں۔  دو ایک بار اس نے خود اس میں سے بوتل نکال کر پانی پیا تھا۔ خشک گلے کو تر کیا تھا۔ اسے یاد آگیا۔ اجے گوسوامی اسے ٹٹولتے ہوئے کہہ رہے تھے۔

’اچھا فریج ہے۔ پینٹ کرا لو تو کوئی مانے گا نہیں کہ سترہ ہزار سے کم کا ہے۔ صرف اندر کی لائٹ نہیں جلتی۔  ’ڈھبری؛ ڈھبری کہتے ہونا۔ وہ پھر ہنسے۔  مگر کیا روشنی میں موم بتی ڈھونڈنا ہے۔  ارے کھانا رکھو۔ چار دن بعد کھاؤ۔ تازہ ملے گا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پیو۔ برف جماؤ۔ شربت لسیّ بناؤ، کیوں، فریج چاہئے۔ ؟‘

اور اس طرح علاء الدین کے چراغ جیسی وہ فریج کب کیسے، نربھے چودھری کے کمرہ میں آ گئی، اس واقعہ کا ذرا تاریخ یاد نہیں ہے۔ لیکن فریج ان کے کمرہ نما دنیا میں آ چکی تھی اور یہیں سے اس کہانی کی شروعات ہوئی تھی۔  جس نے نربھے چودھری کے مکمل وجود کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

               (2)

بہت پیچھے چھوٹا ہوا ایک گھر۔  گھر کے کسی تنگ کمرے اور تنگ کمرے کے کسی گرد آلود طاقچے پر رکھی ہوئی کچھ آدھی ادھوری خواہشیں۔  مٹی کے مرجھائے پودے والے گملوں میں رکھے ہوئے کچھ خواب۔ شہر کی تنگ ویران گلیوں میں، اب اکیلے مٹر گشتی کرنے والے دوستوں کی جماعتیں۔

گھر سے چٹھی آتی تو جیسے یادوں کا ایک کارواں چل پڑتا۔  اور جیسے سب نربھے چوھدری کو گھیر کر بیٹھ جاتے۔  ’’وہاں موتیہاری میں سب کچھ چھوڑ کر آئے ہو۔ ہیاں تیر مار لیا؟

نربھے چودھری کو پرچھائیاں گھیر کر بیٹھ جاتیں۔

اس دن گھر سے پھر چٹھی آئی تھی۔ چٹھی میں ایک ماں کا خواب بند تھا۔  وہی پرانی داستاں کے بوسیدہ صفحے۔  باپ ریٹائر ہو رہا ہے۔ بہن جوان ہے۔  فکر کے چھوٹے چھوٹے طاقچوں سے گزرتے مسئلے۔

نیند نہیں آ رہی تھی نربھے چودھری کو۔

آسماں کے نیلگوں پردے پر رات بکھر چکی تھی۔ اچانک کمرے میں سرسراہٹ سی ہوئی۔  پہلے چھم سے کوئی پائل بجی۔

نربھے چونک گئے۔ کون؟

نقرئی سا قہقہہ گونجا۔

نربھے چودھری اچھل گئے۔

’کون۔ ؟‘‘

’’میں۔ میں ہوں‘‘

وہاں روشنی تھی۔ روشنی کے دائرے میں ایک بلا کی قیامت کھڑی تھی____ قیامت کے بدن پر کپڑے بھی قیامت کے تھے۔ چہرہ ایسا کہ خوبصورتی نے اپنی حدوں کو چھو لیا ہو۔  ’بس اس سے زیادہ نہیں‘____بدن کے نقوش اتنے تیکھے کہ دنیا کی ساری حسین عورتوں کے بدن بھی شرما جائیں____ کپڑے اتنے باریک کہ شاہی مخمل و کمخواب کے خزانے بھی ماند پڑ جائیں۔

اپنے نربھے چودھری خاصہ ہکلا رہے تھے۔

____’کہاں۔ کہاں سے آئی ہو؟‘

____’وہاں۔ فریج سے!‘

____’فریج سے؟‘

____’ہاں۔ ‘

____’کیوں۔ ؟‘

____’کیوں!‘ عورت کے ہونٹوں پر بلا خیز تبسم تھا۔  ’بوتل سے جن آ سکتا ہے فریج سے عورت نہیں آ سکتی‘

____’لیکن کیوں آئی ہو؟‘

جواب میں عجیب سی بے تکلفی شامل تھی۔

____’تمہارے لئے‘

____’میرے لئے!‘

____’ہاں۔ تمہارے لئے‘

یقیناً وہ دنیا کی سب سے خوبصورت مسکراہٹ تھی جو اس کے ہونٹوں پر سجی تھی۔

۔ ’صرف تمہارے لئے‘

۔ ’مجھے۔ یقین کیوں نہیں ہو رہا ہے‘‘

____’پاگل ہو، فریج والی عورت ہنسی۔ دیکھو میں صرف تمہارے لئے ہوں۔ ‘

۔ تو کیا میں تمہیں چھو سکتا ہوں____؟

نقرئی قہقہہ پھر گونجا____ ’دریا سے صرف قطرے کی تمنا رکھتے ہو۔ ارے آگے بڑھو۔ میں تمہاری ہوں صرف تمہاری۔ ‘‘

اس نے ہلکی سی انگڑائی لی۔  کمرے میں یوں ہلچل ہوئی جیسے آندھی سے گھر کی کھڑکیاں۔ دروازے ہلنے لگے ہوں۔ یقیناً یہ ایک توبہ شکن انگڑائی تھی۔  سرخ پھولے ہوئے ہونٹ۔  لمبی گردن۔  کپڑوں سے انگاروں کی بارش کرتا ہوا نوخیز بدن۔

وہ والہانہ طریقے سے ہنسی۔  ’’بڑھو، نا۔  آگے بڑھو۔ ‘‘

اور ایک جھٹکے سے اس نے کپڑوں کے ہوک کھول دئے تھے۔  اندھیرے کمرے میں روشنی کے گول دائرہ کے بیچ ایک برہنہ جسم دعوت نظارہ دے رہا تھا۔

 ’’یار! یہ صرف تمہارا ہے۔  دریا سے صرف قطرے کی توقع رکھتے ہو۔ !‘‘

نربھے چودھری کے بدن میں لرزش ہوئی۔ جسم میں ایک طوفان سا آیا۔ شریانوں میں خون کے گرم گرم لاوے دوڑ گئے۔ تو کیا یہ کوئی خواب تھا۔ مگر نہیں۔  وہ مجسم سامنے کھڑی تھی۔  اور ایسا تو بہ شکن، پُر کشش بدن انہوں نے کبھی خوابوں خیالوں میں بھی نہیں دیکھا تھا۔

پھر جیسے چاند کی کشتی میں ہلچل ہوئی۔  اور کشتی چاند کی برفیلی سطح کو پگھلاتے پگھلاتے دھند کی سرنگ میں ڈوب گئی۔

وہ ہوش میں آئے تو سانس تیز تیز چل رہی تھی۔  کپڑے ادھر ادھر بکھرے تھے۔  عورت غائب تھی۔  فریج کا دروازہ بند تھا۔  مگر، کمرے میں ایک عجیب سی خوشبو پھیلی تھی۔  اور اس سے بھی زیادہ بدن ایک عجیب سی لذت میں ڈوبا ہوا تھا۔

               (3)

’’سنو یہ کیا کہہ رہا ہے۔ ‘‘ اجے گوسوامی زور زور سے قہقہہ لگا رہے تھے۔  ’نہیں بھائی، مجھے۔  مجھے مت روکو۔ ہنسنے دو۔  یعنی کہ فریج میں عورت۔ فریج میں۔  اور کہیں نہیں ملی ss ہو s۔ ہو ہو sss۔ یعنی کہ چوکی کے نیچے، نہیں، ٹب کے اندر نہیں۔   ssانٹرنیٹ کی عورت سنی ہے ss ٹیلی فون کال والی عورت کے بارے میں سنا ہے۔ نمبر ملایئے مستی بھری باتیں کیجئے۔  یہ سب ٹھیک۔  مگر فریج میں، ہو ہو؟ یار تم سچ مچ پگلا گئے ہو۔ s

اجے گوسوامی کے ساتھ بیٹھے ہوئے دوسرے لوگوں نے بھی ٹھہاکہ لگایا۔ اس وقت ان کے گھر نئی اسکرپٹ کو لے کر میٹنگ چل رہی تھی۔ نربھے چودھری نے بس یونہی دریافت کیا تھا۔  یار فریج ٹھیک سے کام کر رہا ہے نا؟

’کام کیا کر رہا ہے۔  فریج میں عورت آ گئی ہے۔ ‘

نربھے چودھری کے منہ سے یہ جملہ نکل تو گیا لیکن ماحول پر جیسے اس جملے کا پہلی بار میں کوئی اثر نہیں ہوا۔ اجے گوسوامی رائٹر کے ساتھ اسکرپٹ کی بات چیت میں لگا رہا۔ ہاں پاس بیٹھے آدمی نے چٹکی لی۔

’’نربھے جی! شادی نہیں کرو گے تو فریج میں عورت ہی رہے گی۔ سامان تو نہیں رہیں گے نا۔ ‘‘

’’اب لو جیسے ہم جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ عورت آ گئی ہے تو سامان کہاں رکھیں بھائی۔ ‘‘

اجے گوسوامی نے ڈانٹا۔  ’’اپنا بہاری غصہ یہاں مت دکھاؤ۔  کہہ دیا نا، پیسے مل جائیں گے۔  شوٹنگ شروع ہونے والی ہے۔ تم آرٹ ڈائرکٹر، سیٹ ڈیزائنر، کسٹیوم، میک اَپ مین، کی ڈیٹل تیار رکھو۔  اور ہاں۔ وہ رائٹر کی طرف دیکھتے ہوئے ہنستے تھے۔ ’’شادی کر لو۔  کہو تو اس سیریل کی ہیروئین سے کروا دیں۔ کیوں؟‘‘

رائٹر نے بھی ٹھہاکہ لگایا۔ ’’پھر فریج سے عورت نہیں آئے گی۔ ‘‘

’’آپ سمجھتے ہیں کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں۔ پیسہ مانگنے کے لئے اپنی جھنجھلاہٹ دکھا رہے ہیں۔ سمجھئے۔  آپ کی مرضی۔  لیکن ہم جھوٹ نہیں بول رہے ہیں۔ ہنمان جی۔  جے بجرنگ بلی، جس کی چاہیں قسم لے لیجئے۔ وہ عورت تھی۔ ہاڑ مانس کی عورت، ارے، پری لوک میں ایسی کیا عورت ہو گی۔ جو وہ تھی۔  ہم تو آواز سنتے ہی سکپکا گئے۔ ‘‘

کمرے میں ہنسی کا دورہ پڑا۔

ایک آواز ابھری۔  ’پھر وہ فریج کھول کر آپ کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ ‘

’ہاں ایسا ہی ہوا۔ بالکل ایسا ہی۔ ‘

’پھر تو آپ نے۔ ‘

اس کے بعد ہنسی کے دورے نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔

’’ہنسئے آپ لوگ۔ ہنسئے۔ میرے پاس بے کار کا وقت نہیں ہے۔ آپ کی ہنسی میں شریک ہونے کے لئے۔  میں جا رہا ہوں۔ ‘‘

نربھے چودھری غصّے کے عالم میں ہنسی ٹھہاکہ کے بیچ کمرے سے باہر نکل گئے تھے۔

مگر۔  جاتے کہاں؟

ذہن سائیس سائیں کر رہا تھا۔ کیا سچ مچ رات جو کچھ ہوا وہ خواب نہیں تھا۔  فریج میں سے عورت۔  جیسے آسمان سے دودھیا چاند، خاموشی سے ایک رات آپ کے ساتھ رہنے کے لئے آ جائے۔  نہیں نربھے چودھری، وہم ہوا ہے تمہیں۔  وہم۔ !

***

نربھے شام گئے تک آوا رہ سڑکیں ناپتے رہے۔ سڑکوں پر ناچتی تتلیاں۔  لیکن فریج والی تتلی۔  شام کے گھنے سائے پھیل گئے تھے۔ ڈھابے میں کھانا کھایا۔ تب تک رات کے نو بج چکے تھے۔ اب ایک ہی منزل تھی، گھر____ پھر وہی راستے۔  وہی کمرہ۔  وہی تنہائی۔  مگر۔

دروازے کا تالا کھولتے تک، نئے احساسوں والا کپڑا بدل چکے تھے نربھے چودھری____ کیوں؟ اس کا جواب نہیں دے سکتے تھے۔ بس دروازے۔  اور تالا کھولنے تک کوئی پختہ ذہن کا آدمی ان کے اندر سما گیا تھا۔ کہیں سے خوشبو کا تیز ریلا اٹھا تھا۔ ایک جانی پہچانی سی خوشبو۔  یہ خوشبو ان کے پورے جسم، پورے وجود کو معطر کر رہی تھی____ لیکن کیوں؟ دل دھڑک رہا تھا۔ اس طرح کی بے چینی سے پہلے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا____ اور یہ سب کل ملا کر ایسا تھا، جیسے ابھی حال میں ان کی شادی ہوئی ہو۔ گھر پر نئی نویلی دلہن انتظار کر رہی ہو۔

وہ دروازہ کھول کر اندر گئے اور جیسے سہم گئے۔  چھناکہ سا ہوا۔

کمرے میں روشنی تھی۔ بتی جلی ہوئی تھی۔ ایک خالی میز جو کافی دنوں سے بیکار پڑی تھی۔ صفائی کر کے اسے سنگھار میز میں بدلا جا چکا تھا۔ کمرے میں جیسے عطر کا چھڑکاؤ ہوا تھا۔ نیا بستر۔  نئی چادر، چادر پر خوشبو دیتے پھول بھی بکھرے تھے۔ سنگھار میز کے پاس وہ دنیا جہاں سے بے نیاز اپنے سنگھار میں یوں ڈوبی تھی، جیسے نئی نویلیاں  دولھے کے آنے کے انتظار میں دنیا جہاں سے بے خبر ہو جایا کرتی ہیں۔

اس نے نظر اٹھائی۔ مسکرائی____ کان کے جھمکے کی کیل درست کی۔  آئینے میں فخر سے اپنا چہرہ دیکھا۔  پھر جیسے جل ترنگ کو دھیرے سے چھوڑ دیا گیا ہو۔ !

۔ ’آ گئے تم؟‘

۔ ’میں۔ ‘ نربھے پسینے پسینے تھے۔

۔ ’ہاں تم۔  تم‘

وہ آہستہ سے ہنسی۔  جسے موسیقی سناتی لہروں کو، موسیقار نے اچانک ایک نئی دھن دے دی ہو۔  وہ آگے بڑھی۔  آج اس نے ریشمی ساڑی پہن رکھی تھی۔ ہلکی، آسمانی رنگ کی۔  اس پر سانولی دھوپ کے رنگ کی لکیریں جھلملا رہی تھیں____ اس سے میچ کرتا بلاؤز تھا۔ وہ اس کے بلکل قریب آ کر ٹھہر گئی۔  اتنے قریب کہ وہ اس کے سانسوں کے سرگم سن سکتا تھا۔  اتنے قریب کے وہ دھڑکنوں کا حساب لگا سکتا تھا۔ وہ ہنس رہی تھی۔

۔ کیا آج بھی تمہیں سب کچھ خواب سا لگ رہا ہے۔

۔ ہاں!

۔ ’پاگل ہو۔ دیکھو۔ میں کتنی دیر سے تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ کہہ سکتے ہو، یہ وہی کمرہ ہے جہاں تم رہتے تھے۔ ‘

۔ نہیں!

۔ ’وہ پینٹنگس دیکھی؟‘

۔ ’پینٹنگس؟‘

۔ ’’ہاں، وہ ہنسی۔  وہ دیکھو۔ ’ناریوفو‘، کی پینٹنگس۔  خواب دیکھتی عورت کے ہاتھ میں ایک مرا ہوا بچہ۔ ‘‘

۔ بچہ مر کیوں گیا ہے؟‘‘

میں نہیں بتاؤں گی۔ تم بولو۔  میں تو فریج سے آئی ہوں اور یہ پینٹنگ تمہاری دنیا، تمہارے لوگوں کے لئے ہے۔  لیکن سچائی یہی ہے کہ عورت خواب دیکھ رہی ہے اور بچہ۔  بچہ مر چکا ہے۔ !‘

۔ ’’بچہ مر کیوں گیا ہے۔ ؟‘‘ وہ پھر بوجھل آواز میں بولا۔

’اس لئے کہ عورت خواب دیکھ رہی ہے۔  جانتے ہو۔  نا ریوفو نے یہ غیر معمولی پینٹنگ کب بنائی تھی؟ 1942ء کے آس پاس۔ جب تم دنیا کو دوسری عالمی جنگ میں جھونک چکے تھے۔ کیا نہیں۔ ؟ یاد آیا اور خود تم لوگ کیا تھے۔  آزادی مانگ رہے تھے۔ بھکاریوں کی طرح۔  مٹھی بھر لوگ جو تمہارے گھر پر قبضہ کر چکے تھے۔ تم ان سے چلے جانے کی مانگ کر رہے تھے۔  ہے نا، وہ بھی بھکاریوں کی طرح۔  ایسے ہی ہو تم۔ ‘ اس نے ٹھنڈا سانس بھرا۔

’’ایک پُر اسرار تہذیبی شہر کی تعمیر کرنے والے اور ایک جھوٹی جذباتیت کا استقبال کرنے والے۔  ہے نا۔ ‘‘ وہ کہتے کہتے پھر ہنسی۔

۔ ’لیکن یہ سب تم۔ ؟‘

۔ ’تمہارے لئے لائی ہوں۔ گھبراؤ مت۔ چوری نہیں کی ہے۔ چوری کربھی نہیں سکتی ہوں۔  بازار سے لائی ہوں؟

۔ ’تم بازار گئی تھی؟‘

۔ ہاں، کیوں؟‘

۔ نہیں میں سمجھ رہا تھا۔ ‘

۔ تم زیادہ سمجھنے کی کوشش مت کیا کرو۔  سنو مجھے اس طرح گندے میں رہنا پسند نہیں ہے۔  سنا تم نے۔ اس لئے میں صفائی کی۔  عطر کا چھڑکاؤ کیا۔  دیواروں پر پینٹنگس لگائی۔ پھر تمہارے آنے کی راہ تکنے لگی اور تم آ گئے۔ ‘‘

اس نے گلے میں با نہیں ڈال دیں۔

شاید وہ دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی کی سب سے خوبصورت انگلیاں تھیں۔  ایسی انگلیاں۔  جن کے لئے الفاظ اور محاورے بھی کم پڑ جاتے ہیں۔

پشت پر اس کی گرم گرم ہتھیلیوں کا رقص، جسم میں عجیب سی سنسناہٹ پیدا کر رہا تھا۔ پھر جیسے ’تابڑ توڑ‘ اپنے گرم گرم بوسے سے اس نے نربھے کی آتما کے اندر تک، عجیب سی سنسنی پھیلا دی۔ ایک لمحہ کو ٹھہری۔ پھر بارش کے آخری قطرے تک اسے شرابور کرتی چلی گئی۔

’سنو!‘

’کیا ہے۔  نربھے کی آواز جیسے ہزاروں فٹ نیچے کنویں میں چھوٹ کر رہ گئی تھی۔

’سنو، جب تم چلے جاتے ہو، تو بڑے یاد آتے ہو۔ اتنا انتظار کیوں کراتے ہو۔ ‘

قسم سے۔ وہ دنیا کے سب سے مدھر، سب سے ذائقہ دار، سب سے حسین اور سب سے زیادہ جلتے ہوئے ہونٹ تھے۔  جس نے اپنی تپش سے ایک بار پھر اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے تھے۔

’’چلو منہ ہاتھ دھولو۔  تم کتنے کمزور ہو گئے ہو۔ گھبراؤ مت۔  اب تمہارا پورا خیال رکھوں گی۔ میں۔  مگر۔ ‘‘

’’مگر۔ مگر کیا۔ ؟‘‘

’ابھی نہیں۔ اوہ۔ تم میں کچھ بھی جاننے کی بے چینی کس قدر ہے۔ شاید تم نہیں جانتے۔  انہیں باتوں نے۔  ہاں، انہیں باتوں نے تو۔  اوہ۔  آئی لو یو نربھے۔ ‘‘

جیسے زمین چلتے چلتے رک گئی ہو۔ آسمان تھم سا گیا ہو۔  کوئی چونکانے والا، جذباتیت سے بھرا فلمی نظارہ ہو۔  پہلی بار اس لڑکی کے ہونٹوں پر نربھے کا نام آیا تھا۔  نر۔ بھے____ پہلی بار۔  دلّی کے بازار، کنزیومر کلچر میں آہستہ آہستہ یہ نام کتنا عجیب، کتنا بے رس اور کتنا بدنما لگنے لگا تھا۔  جیسے ’موتیہاری کی ایک خاص خوشبو اس کے نام سے لپٹی ہوئی ہو۔  وہ اس نام کو بار بار دلّی کے رنگ میں بدلنے کا خواہشمند تھا۔ مگر آج۔  جیسے اس نام سے زیادہ خوبصورت کوئی دوسرا نام ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

’چائے‘۔  وہ اچانک جیسے خواب سے جاگا۔

۔ اتنی دیر میں اس نے چائے بھی بنا لی تھی۔ چائے نربھے کے ہاتھ میں کانپ رہی تھی۔  وہ اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔

’ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟‘ وہ مسکرائی

’کیا یہ خواب ہے؟‘

’کیوں؟‘

’سوچ رہا تھا‘ ہم جیسوں کے لئے خواب ہی کیوں ہوتے ہیں؟ زندہ رہنے کے لئے بھی خواب۔  محبت کرنے کے لئے بھی خواب۔ ‘

’لیکن یہ خواب نہیں ہے۔ ‘

’پتہ نہیں‘

’خواب کا جسم نہیں ہوتا ہے۔  اس کی نقرئی ہنسی کمرے میں پھیلتی چلی گئی۔  وہ اٹھ کر سنگھار میز کے قریب کھڑی ہو گئی۔ وہ جیسے اپنے عکس کو بے حد پُر کشش انداز میں دیکھنے کی  کوشش کر رہی تھی۔  پھر جیسے کمرے کی تنہائی میں شعلہ بھڑکا۔  رات اسٹوب گیس کی طرح چیخی۔  اور کمرے میں آگ کی تیز لپٹیں اٹھنے لگیں۔  اس نے بلاؤز کے ہوک کھول دیئے تھے۔  ریشمی ساڑی، دنیا کے سب سے حسین جسم سے الگ ہو کر، اس کے بستر پر، بے ترتیبی سے  پھیل گئی تھی ____ کمرے میں جیسے ’لیزر ریز‘ کا رقص چل رہا ہو۔  گداز بانہیں، صدیوں کی پیاس اور عقیدت کی حد تک، میناروں کے سفید گنبد کی طرح، تنے ہوئے مصفّہ سینے۔  یا۔ دو      قبۂ نور۔  دنیا کے سب سے حسین پاؤں۔  اس کی آنکھوں کی کشتیوں میں اس وقت وہی کشش تھی جو شاید خالق دوجہاں کو، سب سے خوبصورت ’تصور‘ گڑھنے کے دوران ہوئی ہو____! ا س نے اپنی بانہیں بچھائیں۔

’آؤ۔ ‘ اس کی آواز میں ’ہیجان‘ کی حد تک سنسنی خیزی، آ گئی تھی____ ’۔ آؤ۔ ‘ اوہ۔  تم دیر کر رہے ہو۔  آؤ۔ اس سچ کے لئے، جس کے لئے ہم پیدا ہوئے ہیں۔  اُس سچ کے لئے جس کے لئے آخری سانس تک ہم اپنے جینے کی آس قائم رکھتے ہیں۔

اور نربھے چودھری۔ جیسے آنکھیں بند تھیں____ جیسے خوابوں سے جنت کی طرف ایک خوشبو لٹاتی، کھڑی کھل گئی ہو۔  جیسے ہوا میں تیرتا ہوا ایک رتھ ہو۔  اور رتھ، زندگی کے سب سے خوبصورت ذائقے کو پور پور میں اُتارتا ہوا اڑتا جاتا ہو۔

۔ جیسے ہوا تھم گئی۔  سانسیں رُک گئیں۔  اُس کے بدن پر دنیا کا سب سے خوبصورت ننگا جسم اور۔ تمام تر ہیجان خیزیاں لٹا کر تھکا ہارا۔  اس کے جسم کے گوشت سے ’عبادت‘ کی ایک نئی عبارت لکھنے میں مصروف تھا____ اس کی آنکھوں میں شوخیاں تھیں۔

’سنو۔ ‘

اس کے بدن کی بے کراں موجیں، اس کے بدن کے ساحل سے ٹکرا ٹکرا کر لوٹ رہی تھیں۔

’سنو۔ اب میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ‘ آواز میں تھرتھراہٹ تھی۔

’ہاں پیسے۔ جو تھے سب ختم ہو گئے۔ پینٹنگس۔  عطر، چادریں اور۔ جو پیسے تھے۔ وہ تمہارے گھر کی خریداری میں لگ گئے۔

’ہاں‘

’مجھے چاہتے ہو تم؟‘

’ہاں‘

’میری سانسوں سے پیار ہے؟‘

’ہاں‘

’میرے جسم سے؟‘

’ہاں؟

’اور مجھ سے؟‘

’ہاں‘

’اور یہ بھی چاہتے ہو کہ میں کہیں نہیں جاؤں۔ میں ہمیشہ تمہارے پاس رہوں۔ ‘‘

’ہاں‘

’تو پھر تمہیں میرا خیال رکھنا ہو گا۔ ‘

وہ اپنے بدن کی ’بے کراں موجوں‘ کو سنبھالے، اس کے بدن کے ساحل سے ہٹ گئی تھی۔

’سمجھ رہے ہونا، نربھے چودھری۔ تمہیں میرا خیال رکھنا ہو گا۔ ‘‘

وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنی ریشمی ساڑی کی ’شکنوں‘ میں کھو گئی تھی____

’تمہیں مجھے خوش رکھنا ہو گا۔ میری۔  میری فرمائشیں پوری کرنی ہوں گی۔  سن رہے ہو، نربھے چودھری۔  میرے لئے۔ ‘

اس کی نقرئی، لڑکھڑاتی آواز کا ’جل ترنگ‘ کمرے میں گونج رہا تھا۔

’سوچو میں۔  ڈھل جاؤں تو؟ میں جیسی ہوں، ویسی نظر نہ آؤں تو____ یہ سب کچھ تم پر ہے نربھے چودھری۔  تم پر____ مجھے خوبصورتی پسند ہے۔ اس کمرے کو جنت سے زیادہ خوبصورت بنا دو۔  مجھے خوشبوئیں پسند ہیں۔  میرے لئے خوشبوؤں کا خزانہ لے آؤ____ میرے لئے تم بھی اپنے آپ کو بدلو گے نربھے چودھری۔  بدلو گے نا۔ ؟ خوشبو کو، خوشبو اور ایک حسین جسم کو ایک حسین جسم کی چاہت ہوتی ہے۔  میرے لئے تم یہ سب کرو گے نا، نربھے چودھری، ورنہ۔  ورنہ۔ ‘

***

لفظ بجتے رہے۔  بجتے رہے۔  وہ اٹھا تو سورج کی شعاعیں سیدھے کھڑکی سے ہوتی ہوئی اس کی آنکھوں پر پڑ رہی تھیں۔  فریج والی لڑکی غائب تھی____ رات کی سچائی کے احساس کے لئے وہ سب چیزیں، یہاں تک کہ ’ناریوفو‘ کی پینٹنگس تک کمرے میں موجود تھی۔ بستر پر وہ ننگ دھڑنگ پڑا تھا۔ ابھی بھی جیسے خوشبوؤں نے چاروں طرف سے، اسے اپنے دائرے میں لے رکھا تھا۔ مسرت کا عجیب سا احساس اب بھی ہو رہا تھا۔

’یہ سب کیا ہے؟‘

یہ کیا کیسا خواب ہے۔ وہ سمجھ پانے سے قاصر تھا۔ کپڑے پہن کر اس نے ڈرتے ڈرتے فریج کھولا۔ فریج خالی تھا۔  مگر وہی رات والی خوشبوئیں فریج کے اندر بھی بسی ہوئی تھیں۔

               (4)

اب نربھے چودھری نکلنے کے لئے تیار تھے۔ لیکن کیا یہ وہی پرانے نربھے چودھری تھے۔ ’حلیہ پوری طرح سے بدلا ہوا۔ کالی آئرن کی گئی پینٹ پر، پوری آستین والی سفید شرٹ۔  اور دنوں کی طرح جھٹ پٹ جو ملا پہن کر تیار نہیں ہوئے نربھے چودھری۔  کپڑے ہی کتنے تھے۔ اس پر بھی دھُلے ہوئے کپڑوں کی تعداد کتنی ہوتی تھی۔ لے دے کر ایک جوڑا۔  کپڑے بھی خود ہی دھونے پڑتے تھے۔ لاجپت نگر مارکیٹ سے دو نمبر کا سستا سا آئرن مل گیا تو اٹھا کر لے آئے نربھے چودھری۔ لیکن کپڑے آئرن کون کرے۔ صبح صبح بس پکڑنے کے چکّر میں آئرن بے چارا ویسے ہی ’کوٹ‘ کے ڈبے میں بند رہا لیکن۔  دلّی آنے کے اتنے برسوں بعد جیسے سارے قاعدے قانون ان کے لئے بدل گئے تھے؟۔  اور تو اور۔  دو ایک ٹائی لوہے والے صندوق میں پڑی تھی۔ کبھی گفٹ میں ملی ہو گی۔ لیکن پہننے کی نوبت نہیں آئی۔ وہی موتیہاری کا چھیلا۔ اپنے یہاں عام دنوں میں وہ ایسے سوٹیڈ بوٹیڈ ہو کر نکل سکتے تھے؟ کیوں نربھے چودھری؟ پیچھے سے ’’سٹاک‘‘ سے کمینٹ پاس ہوتا۔  ’’نیا ہے‘‘ کا ہے بھائی۔ موتیہاری کا چھیلا‘‘۔

لیکن آج موتیہاری کے اسی چھیلے نے اپنی شکل و صورت بدل ڈالی تھی۔ اس پر پرفیوم۔ یہ پرفیوم کی شیشی اسے مادھری نے دی تھی۔ اپنے کریٹیو ریلس کی پرمانینٹ ایکٹریس۔ جس کے بارے میں یونٹ والوں کا کہنا تھا۔  ارے مادھری کا ٹانکا اجے گوسوامی سے، کوئی آج سے ’بھڑا‘ ہے۔  دیکھتے نہیں، ان کے ہر پروڈکشن میں کوئی نہ کوئی رول ضرور ہوتا ہے۔

’مادھری!‘

ایک مخمور کا یا۔  بنداس۔ پتہ نہیں، اس دن کیا خاص بات تھی۔ کوئی خاص بات تھی، تو بس یہ تھی کہ مادھری اسے سیٹ پر تلاش کرتی پھر رہی تھی۔ پھر اسے دیکھ کر مادھری کی آنکھوں میں جیسے چمک آ گئی۔  ’’نربھے جی! آپ یہاں ہو‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’ارے ہم آپ کو کہاں کہاں تلاش کر رہے تھے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘ اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ مادھری جیسی لڑکی اسے تلاش کر سکتی ہے۔  بیٹا یہ ہے فلم میں آنے کا مطبل۔  کا؟ کہ مادھری جیسی لڑکیاں بھی۔  ہےs s ہے s sاس نے کھیسیں نپوریں۔ اور مادھری نے پرفیوم اس کی طرف بڑھا دیا۔  ’’خاص تمہارے لئے۔ دارجلنگ گئی تھی شوٹنگ میں۔ دیکھو وہاں بھی تمہیں نہیں بھولی۔ ‘‘

نازک سا لمس۔ مادھری نے ہلکے سے پرفیوم کا چھڑکاؤ اس کی قمیض پر کیا۔ آنکھوں میں قوس قزح تن گئے۔ لیکن فوراً ہی الیا راجا کی فلم ’اپوّ راجا‘ کا وہ بونا اُسے یاد آگیا۔  جسے فلم کی اداکارہ نے انگوٹھی دیتے ہوئے جلدی جلدی کہا تھا۔  ’’منگنی سمجھتے ہونا۔ کل صحیح وقت پر پہنچ جانا۔ دیر مت کرنا۔ ‘‘ اداکارہ نے وہ انگوٹھی اس کی انگلی میں پہنا دی تھی۔ بونا کمل ہاسن اپنے بونے جوکر دوستوں میں منگنی کی اس انگوٹھی کو لے کر کتنا خوش ہوا تھا۔ گانا بھی گایا۔ دوستوں نے بھگوان کی طرف سے ’اچنبھے کے طور پر لکھی جانے والی تقدیر‘ کے لئے اُسے مبارکباد بھی دی۔ مگر آگے۔  اس وقتی خوشی کا نتیجہ کیا نکلا تھا۔  ’’ارے اپوّ!  انگوٹھی تو نکالو۔ دیر ہو رہی ہے۔ ‘ اور اداکارہ رجسٹرار کے پوچھے جانے پر ہنستی ہے۔  ’’گواہ یہ ہے اپنا اپوّ۔  چلے گا۔ ‘‘

’چلے گا۔ ؟‘ رجسٹرار ہنستا ہے۔

پرفیوم لے کر دیر تک نربھے چودھری گم صُم کھڑا رہا۔  لیکن وہاں اس پر ہنسنے کے لئے کوئی رجسٹرار نہیں تھا۔ اسے لگا، الف لیلیٰ جیسی کسی کہانی کے اوراق اس کے سامنے کھل گئے ہوں۔  مادھری بنداس ہے تو کیا ہوا۔  لوگ غلط بولتے ہیں۔  مادھری ایسی ہو ہی نہیں سکتی۔  وہ بھی اجے گوسوامی۔ ؟ کیا اس کے پاس اجے گوسوامی جیسے لوگوں کی کمی ہے۔ ؟ اور پھر۔  یہ تو میڈیا ہے میڈیا۔ یہاں تو ایسی کہانیاں روز بن جاتی ہیں۔

’مادھری!‘

ہونٹوں تک آ کر یہ نام جیسے ’رس شرنگار‘ سے بھرپور غیر معمولی شاعری میں بدل گیا ہو۔  لیکن شاعری کتنی جلد باسی اور سڑاند دینے لگی تھی۔

’مادھری‘۔  وہ اسے پکارتا ہوا میک اَپ روم میں چلا گیا۔  دروازہ کے پٹ آن میں کھلے تو، وہ جیسے موتیہاری کا لمبے قد والا بونا بن گیا تھا۔  اجے گوسوامی کی بانہوں میں قید مادھری۔ مادھری نے چلا کر آواز دی تھی۔  ’ارے۔  نربھے۔  سنو تو۔ ‘

’جانے دو۔ ‘ یہ اجے گوسوامی کی آواز تھی۔

’تمہارے والے میں سے ایک پرفیوم میں نے۔ ‘

اجے ہنس رہے تھے۔  ’’پرفیوم، اور یہ بہاری۔  تم بھی پاگل ہو مادھوری۔ ‘‘

دونوں کا ایک ساتھ قہقہہ گونجا تھا۔ لیکن اب، کچھ بھی آگے سننے کو وہاں رُکا نہیں، نربھے چودھری۔ جیسے پیچھے ہزاروں کی تعداد میں کتے پڑے ہوں۔  ڈیفوڈل ڈاگس۔  ڈیفوڈل۔ جلتے ہوئے۔  ان گنت تعداد میں۔ اداکارہ نے منو کو انگوٹھی دی ہے۔ مادھری نے نربھے کو پرفیوم دیا ہے۔  ’اپوّ سمجھتا ہے کہ‘۔ ’نربھے کو لگتا ہے کہ۔ ‘

بونا اپوّ  ’پست‘ ہوتے ہوئے اپنے قد سے کتنا کم ہوا ہو گا؟ مگر۔  نربھے۔  وہ اپوّ سے زیادہ ’بے وجود‘ ہو گئے تھے____ چھوٹا لمبے قد والا بونا۔  پھر وہ پرفیوم کمرے کی کال کوٹھری میں پھینک دیا گیا۔ شاید اسی، نئی صبح کے انتظار کے لئے۔ اسی دھانی دھانی صبح کے انتظار کے لئے۔

پرفیوم کپڑے میں مارتے ہوئے ایک عجیب سی خفیف ہنسی، نربھے کے ہونٹوں پر کھل رہی تھی۔ کمرے سے باہر نکلتے ہوئے اس نے پیسے گنے تھے اور پہلا کام کیا تھا۔  اپنے قدم پاس والے بیوٹی پارلر کی طرف تیز کئے تھے۔

               (5)

’’تم نربھے ہو۔  نہیں، یقین نہیں آتا۔ ‘‘ اجے گوسوامی کے چہرے پر عجیب سی سنجیدگی تھی۔  آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں نے نربھے کو غور سے دیکھا۔ چھوٹے چھوٹے، ڈھنگ سے تراشے گئے بال۔  بدن پر قاعدے کی پینٹ اور شرٹ۔

’’تو تم سچ مچ نربھے ہو؟‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’یقین نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’لیکن اس میں یقین نہیں ہونے کی۔ ‘‘

نربھے ’کہتا کہتا‘ ٹھہر گیا۔  اجے گوسوامی اسے غور سے گھور رہے تھے۔ وہ جب بھی اس طرح گھورتے تھے۔ اسے ڈر لگتا تھا۔

’’رہنے دو۔ دیکھتے نہیں۔ ‘‘

’’مطلب۔ ؟‘‘

’’مطلب، آج یہ خود پروڈویوسر بن گیا ہے۔ ذرا بال تو دیکھو s s s ‘‘

’’ذرا چال تو دیکھو s s s ‘‘

کمرے میں ٹھمکا الگ رہا تھا۔

’’بال تو دیکھو s s sگال تو دیکھو s s sچال تو دیکھو s s s شرٹ تو دیکھو s s sپینٹ تو دیکھو s s sپھر پورا ڈسکو شروع ہو گیا۔ ‘‘

’’دیکھو جی دیکھو۔  نربھے کو دیکھوs sایک بار دیکھوs s بار بار دیکھو۔ ‘‘

نربھے گم صُم تھا۔ وہ جان رہا تھا۔ مذاق اپنی حدوں کو پار کر رہا ہے۔  سب سوچ رہے ہوں گے۔  سالا s s بدلا بدلا سا لگ رہا ہے بہاری۔ بہاری مطلب۔ ۔ اسے لگا، مادھری اُسے دیکھ رہی ہے۔

لیکن فوراً ہی وہ عورت اس کی آنکھوں کی اسکرین پر چھا جاتی ہے۔  ’سن رہے ہونا نربھے! خوشبو کو خوشبو اور ایک حسین جسم کو ایک حسین جسم کی چاہت ہوتی ہے۔  میرے لئے تم یہ سب کرو گے نا۔ ؟ کرو گے نا، نربھے چودھری؟۔  ورنہ s s sورنہ۔ ‘‘

لفظ لگاتار چیخ رہے تھے۔

اور ادھر ڈسکو جاری تھا۔

’’ذرا گھوم کے دیکھیوs sجے نربھےs s آگے سے دیکھیوs s جے نربھے۔ ‘‘

اجے گوسوامی نے اس کے بدلے چہرے کی آگ کو پڑھ لیا تھا۔ ’ٹھہرو۔ ٹھہرو‘۔ وہ چیخے۔  یعنی حد ہوتی ہے۔ حد ہوتی ہے بے شرمی کی۔ آپ سب نے ایک سیدھے سادھے بہاری کو۔  معنی۔  ہنسئے مت۔  بہاری کوئی گالی تھوڑے ہی ہے۔ ‘‘

اجے خالص نربھے ’اسٹائل‘ سے بول رہے تھے۔  ’’بہاری بدل نہیں سکتا کا۔ ؟

ضرور بدل سکتا ہے۔  اور پوچھ کے دیکھو۔  یقیناً، اس کے پیچھے بھی اُسی عورت کا ہاتھ ہو گا۔ کیوں نربھے؟

’’جی s s s s ‘‘

کسی نے آواز لگائی۔  ’فریج والی عورت کا‘۔

’’ہاں بالکل‘‘۔

’’لو دیکھو۔ ‘‘

ہنسی کا فوارا چھوٹا تو نربھے نے یکایک سامنے والے آرٹسٹ کا گریبان پکڑ لیا۔  ’’سالے‘‘۔ ماحول حیرت زدہ ’طبلوں‘ کی آواز رک گئی۔  جیسے، سوئی بھی گرے تو آواز سن لو۔ یکایک بہتی ہوئی ہوا تھم گئی۔ ‘‘ مذاق اُڑاتے لوگوں پر بجلی گر گئی۔  نربھے کا سارا غصّہ چہرے پر سمٹ آیا تھا۔

اس نے جھٹکے سے بے چارے آرٹسٹ کا گریبان چھوڑا۔ ہتھیلیاں ابھی بھی گرم تھیں۔ وہ یکایک پلٹا۔

’’سنو اجے گوسوامی! ایک بات جان لو۔ بہاری ’بڑبک بن سکتا ہے۔ تو گریبان بھی تھام سکتا ہے۔ مجھے نہیں کرنا تمہارے ساتھ کام۔  کل پھر آؤں گا۔ پئی سا نکال کر رکھنا۔ ‘‘

پھر وہ ٹھہرا نہیں، واپس آگیا۔

ماحول میں سناّٹا چھا گیا۔ جو جہاں تھا، وہیں آنکھیں نیچے کئے کھڑا رہا۔ یہ کیوں ہو گیا؟ یہ سارا کچھ ویسا تھا، جیسے دوستو فسکی کے ’ایڈیٹ‘ نے پرنسز کی پارٹی میں کیا تھا۔  سناّٹے کو بھنگ کیا اجے گوسوامی نے۔

’’چلو چلو اسکرپٹ پر بیٹھتے ہیں۔ ‘‘

مگر وہ ابھی بھی اپنے چہرے کے احساس کو چھپا نہیں پائے تھے۔

               (6)

’’زندگی سرکس نہیں ہے اور سنو نربھے۔ تم اپوّ نہیں ہو۔ تم اپوّ ہو بھی نہیں سکتے۔ تمہارے ساتھ میں ہوں، میں۔  سن رہے ہونا۔ ؟‘‘

کمرے میں خوشبو پھیل چکی تھی۔  نقرئی قہقہہ پھر گونجا۔

’’دیکھو s s s s s آج میں نے نیا سنگھار کیا ہے، تمہارے لئے صرف تمہارے لئے ‘‘

عورت اُٹھتے ہوئے، آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ پور پور سے خوشبو کی لہریں پھوٹ رہی تھیں۔  ’آئینہ‘ یقیناً حیران تھا کہ کبھی اس کے شیشے، جیسے وجود میں اتنا غیر معمولی ’عکس‘ بھی سما سکتا ہے۔

’’پتہ نہیں مجھے۔ مجھے کیا ہو گیا تھاs s پتہ نہیں۔ اب وہ۔ ‘‘

’’ڈرتے ہو۔ ‘‘

’’ڈرنا پڑتا ہے۔  گھر ہے۔  پتا جی ہیں۔  اور۔ ‘‘

’’میں s s ‘‘۔  آئینہ نشے میں ڈوب گیا تھا۔

’’میں s s sتمہیں میری پرواہ نہیں۔ پتھر ہو تم۔ میری طرف دیکھو۔  اُس کا ’سنگھار‘ ویسا تھا۔  جیسے سارا عالم ہنسی روکے ہو، کہ بادشاہ تو ننگا ہے۔ !

’’کیا دیکھ رہے ہو۔ ‘‘

جسم سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔

’’تم نے کوئی غلط کام نہیں کیا نربھے۔ سمجھ رہے ہونا۔  دیکھو تم مضبوط ہوئے۔  اور یہ کمرہ پہلے سے زیادہ روشن ہو گیا۔ یقین کرو میں صرف تمہارے لئے بنی ہوں۔  تمہارے لئے۔  میں لہر ہوں۔  جھرنا ہوں۔  سنگیت ہوں۔  خوشبو ہوں۔  اور سب سے زیادہ میں تمہاری ہوں۔  تمہاری ہوں نربھے۔ s s ‘‘

پھر جیسے روشنی کا جھماکہ ہوا۔

’’آواز میں سنگیت پیدا ہوا۔ ’آؤ مجھ میں سما جاؤ s s سما جاؤ s s s  ‘‘

اور۔

قارئین!

ٹھیک اُسی لمحہ جو کچھ پیش آیا۔ نہیں جانے دیجئے۔ نہیں ٹھہرئیے۔ یعنی، جو کچھ ہونے جا رہا تھا۔ نہیں ٹھہرئیے۔ میں اپنا تبصرہ اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔ مگر اُسی لمحہ، اس جگمگاتے، روشن کمرے میں یکایک بھگدڑ مچ گئی۔ یکایک باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ عورت پہلے متحیر ہوئی۔ پھر سنگیت تھما۔ خوشبو اُڑی۔ لہریں گم ہوئیں۔

دستک بڑھتی گئی۔

کمرہ یکایک چیخ و پکار کرنے لگا۔ عورت فریج میں چلی گئی۔

دروازے پر اجے کے آدمی کھڑے تھے۔ لفافہ میں نربھے کے پیسے پڑے تھے۔

’’گن لو۔ ‘‘

’’گنّے کی ضرور نہیں ہے‘‘

’’اور۔  صاحب نے کہا ہے کل سے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘

’’ٹھیک‘‘۔  نربھے نے دروازہ بند کرنا چاہا۔

آگے والے ’مسٹنڈے‘ آدمی نے دروازہ چھیک لیا____

’’سنئے، دروازہ مت بند کیجئے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’مزدور ساتھ میں ہیں۔  صاحب نے فریج واپس منگوایا ہے!۔ ‘‘

نربھے حیرت زدہ کھڑے ہیں۔

مزدور فریج اُتارنے اور لے جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

٭٭٭

 

بارش میں ایک لڑکی سے بات چیت

               (۱)

تب ڈرامہ کی ریہرسل شروع نہیں ہوئی تھی۔

ریہرسل سے ایک مہینہ قبل یہ ’’حادثہ‘‘ پیش آیا تھا اگر اسے حقیقت میں ’حادثہ‘ کا نام دیا جائے تو!

لیکن___ اس ’حادثہ‘ سے پہلے بھی وہ کہیں ٹکرائی تھی۔ کہاں؟سمینار میں۔ بس، ایک سرسری سی ملاقات تھی۔ وہ بھی ایسے خالص ادبی سمیناروں میں بولنے کے لئے ہوتا ہی کیا ہے؟ نہیں، مجھے سوچ لینے دیجئے۔ سمینار کا خاص موضوع تھا___ ’’عورت‘‘___ ملینیئم یعنی ہزاروں برسوں کے اس سفر میں کہاں کھو گئی ہے عورت؟ پہلے بھی کہیں تھی یا نہیں؟ قدیم گرنتھوں میں دروپدی، کنتی، سیتا، ساوتری، پاروَتی، دمنیتی، شکنتلا، میتری وغیرہ___ عزت سے پکارے جانے والی، ملینئیم صدی کے آخر تک لکس کا نیم عریاں اشتہار کیسے بن گئی؟ یا وہ اشتہار نہیں بنی۔ ’لرل‘ اور ’لکس‘ کے اشتہاروں سے آگے نکل کر اور بھی مورچے سنبھالے ہیں اس نے۔ کہا جائے تو ایک پڑاؤ W.W.F بھی ہے۔ آنے والی ملینیئم صدی میں کہاں ہو گی یہ عورت؟

مجھے یاد نہیں، میں نے اپنی گفتگو میں کیا کیا جوڑا تھا۔ مگر___ شاید!مجھے یاد کرنے دیجئے۔ ہمیشہ کی طرح میں لفظوں کی لہروں میں بہہ گیا تھا۔ میں نے بات عورت کی آئی ڈنٹیٹی(Identity) یا آئی ڈنٹیٹی کرائسیس (Identity Crisis)سے شروع کی تھی۔ میں بڑی بڑی فلسفیانہ قسم کی باتوں میں الجھنا نہیں چاہتا تھا، اس لئے میں نے ٹودی پوائنٹ مختصر میں اپنے نظریات  لوگوں کے سامنے رکھے تھے۔ یعنی کیوں ہے عورت میں یہ آئی ڈنٹیٹی کرائسیس___؟ پہلے باپ کا گھر، باپ کے نظریوں پر سنبھل سنبھل کر پاؤں رکھنے والی۔ یہاں سے باہر جب وہ پرائے گھر میں بھیج دی جاتی ہے، یعنی شوہر کا گھر۔ شوہر کے نظریات۔ باپ اور شوہر کے الگ الگ نظریات کو ماننے پر مجبور عورت کی اپنی آئی ڈنٹیٹی کہاں باقی رہتی ہے؟ اگر کبھی وہ اپنی یعنی سیلف آئی ڈنٹیٹی کے لئے لڑنا چاہتی ہے تو___ نہیں!اُف، سماج میں انجنا مشرا جیسی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ کیا غلطی پہلی بار وہاں نہیں ہوتی، جب وہ اپنے شوہر کا آدھا نام اوڑھ لیتی ہے، یعنی، اگر وہ سیما ورما ہے اور شادی کسی راجن شری واستو سے ہوتی ہے تو، وہ سیما ورما سے اچانک سیما شری واستو ہو جاتی ہے۔ کیوں؟ وہ صرف اپنی پہچان نہیں بدلتی، شاید انجانے میں بہت کچھ کھو دیتی ہے۔ پھر کھونے اور بدلنے کا ایک لمبا سلسلہ لگاتار چل پڑتا ہے۔ ‘‘۔

***

مجھے یاد نہیں، میں کب تک بولتا رہا___

مجھے یہ بھی یاد نہیں۔ میں کیا کیا بولتا رہا، کتنی دیر تک ہال تالیوں سے گونجتا رہا، سمینار کب ختم ہوا، کب میں باہر نکلا؟ مگر استقبالیہ ہال سے بس تھوڑی دور پر وہ کھڑی تھی۔

وہ___ وہی ’حادثہ‘ والی لڑکی۔

اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی___

’’آپ___ آپ کافی اچھا بول لیتے ہیں۔ ‘‘

(اس کی آواز سرد تھی۔ اتنی سرد جیسے کسی گہرے کنویں سے، برف کے ڈھیر کو ہٹاتی ہوئی اوپر اٹھ رہی ہو۔ )

’’اس سے پہلے بھی آپ کو بہت بار پڑھا تھا___ مگر___ آج___ آپ کو سننے کے بعد___ کیا عورت آپ کے لئے سچ مچ وہ نہیں ہے، جو دوسرے مردوں کے لئے ہے___‘‘

(اس کی آواز میں، میں نے کسی ناگن کی پھپھکار محسوس کی۔ مگر___اس کی آواز پُر سکون تھی۔ )

’’آپ نے اچھی بات اٹھائی ہے۔ آپ سے متفق ہوں میں۔ مگر___سچ مچ کیا آپ ایسے ہی ہیں۔ مثلاً گھر کے دروازے تک جانے والا آدمی آئیڈیالوجی کی سطح پر ایک ہی رہتا ہے نا۔ ؟

اُف کسی آتما جیسی آواز۔ میں دھک سے رہ گیا۔ ہو ہنس رہی تھی۔  وہ قد میں عام لڑکیوں سے زیادہ لمبی تھی۔ میں نے چونک کر پوچھا___

’’میں۔ میں سمجھا نہیں؟‘‘

وہ پھر ہنسی___ ’’سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے ابھی، لیکن___ اگر میں آپ سے ملنا چاہوں تو؟ کسی___ کسی بھی دن___؟کیا کسی دن آپ کے گھر آ سکتی ہوں؟‘‘

’’ہاں، ہاں کیوں نہیں۔ ‘‘

مجھے یاد ہے، گاڑی میں بیٹھنے تک میرے دانت بج رہے تھے۔ مجھے گھر تک پہنچانے والے میرے میزبان دوست نے پوچھا بھی تھا___’’بات کیا ہے؟ سردی تو بہت زیادہ نہیں۔ نیا سال شروع ہونے میں تو ابھی ایک ماہ باقی ہے۔ ‘‘

میں نے بات بدلتے ہوئے کہا___’’نیا سال نہیں، سن دو ہزار___ ایک نئے ملینیئم کی شروعات، میں نے اپنی گفتگو میں ’وِٹ‘ پیدا کرتے ہوئے کہا تھا___ ’’دراصل یہ دانت ملینیئم کے اختتام کے استقبال میں بج رہے ہیں۔ ‘‘

               (۲)

تب تک میں نے ڈرامہ لکھا بھی نہیں تھا۔ (ڈرامہ کی ریہرسل شروع ہونا تو دور کی بات۔ ہاں، مجھے اپنے ڈائریکٹر سمیر مہادیون کی طرف سے بار بار غصے کو جھیلنا پڑ رہا تھا۔

’’سن دو ہزار کے دوسرے ہفتہ تک ہمیں یہ ڈرامہ کر لینا ہے۔ اُف اور کتنی دیر لگائیں گے آپ؟‘‘

’’بس، جلد ہی ناٹک پورا کر لوں گا۔ ‘‘

سمیر مہادیون تھیٹر کا آدمی تھا۔ تھیٹر پر دل و جان سے فدا۔ اپنی پائی پائی تھیٹر پر لٹا دینے والا۔ تھیٹر، اس کے لئے صرف تھیٹر نہیں تھا۔ جب وہ کوئی نیا ڈرامہ ہاتھ میں لیتا، یوں ہی ’بورایا‘ سا گھومتا رہتا۔ اس بار ڈرامہ کے لئے اس کا خاص موضوع تھا___ ’’عورت‘‘ وہ بار بار میرے کمرے کی میز پر مُکاّ مارتا تھا۔

’’لکھو۔ ایسا لکھو کہ ہال تالیوں سے گونج جائے۔ یہ آنے والی نئی صدی میں میرا پہلا ڈرامہ ہو گا۔ یاد، عورت کو کوئی بالکل نیا کردار دو۔ ہزار سال بیت گئے، اب نئے ہزار سال کی شروعات ہوئی ہے۔ مجھے سائنس یا کسی نئی ایجاد سے زیادہ قیمتی کھوج نظر آتی ہے___ عورت میں۔ لگاتار آنے والی تبدیلیوں کی کھوج___ بس یار___ جھٹ پٹ لکھ ڈالو تم___ میں جانتا ہوں، اسے تم ہی لکھ سکتے ہو۔ کوئی دوسرا تم سے اچھا نہیں لکھ سکتا۔ ‘‘

وہ مجھے مسکہ لگا رہا تھا۔

میں نے یکایک پوچھا___ ’’سمیر مہادیون، تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟‘‘

وہ اپنے بال کھجا رہا تھا___ ’’کیا کہوں، ہزار برسوں میں کوئی نہیں ملی۔ ‘‘

***

اس رات میں ڈرامہ ہی لکھنے کی تیاری کر رہا تھا، کیوں کہ سمیر مہادیون کو اب ’نا‘ کرنا میرے بس کی بات نہیں رہ گئی تھی۔ اس رات کئی دلچسپ باتیں رونما ہوئی تھیں۔ جیسے میں گیس پر چائے کا پانی چڑھا کر بھول گیا تھا۔ جلنے کی بو آنے پر جب میں بھاگا بھاگا گیا تو چائے دانی بالکل کالی پڑ چکی تھی۔ شاید پانی کا آخر قطرہ تک سوکھ کر کاربن بن چکا تھا اور سارے کمرے میں دھواں پھیل گیا تھا___تین بار ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تھی اور ہر بار بلینک کال۔ میرے پاؤس سے ٹکرا کر ’عربی‘ شمع دان کی کرچیاں پورے کمرے میں پھیل گئی تھیں، جسے صاف کرنے میں مجھے پورے آدھے گھنٹے لگ گئے تھے۔ تو کیا یہ سب مجھے ڈرامہ شروع کرنے سے روک رہے تھے؟

نہیں، شاید اس رات ایک اور بھی ’حادثہ‘ دیر سے مجھے پاگل اور پریشان کئے جا رہا تھا___

باہر زور زور سے بارش ہو رہی تھی، پیٹ پیٹ کر۔ آپ نہیں جانتے۔ مجھے بارش کا گیت کتنا پسند ہے۔ مجھے جیسے اکیلے، غیر شادی شدہ آدمی کو بارش کا یہ گیت کس قدر پاگل اور بے چین بنا  دیتا ہے۔ کبھی چھت پر___ جیسے وائلن کے تاروں کو ہلکی ہتھیلیوں سے لہرا کر چھوڑ دیا گیا ہو۔ کبھی چھّجے سے گرتے ہوئے۔  کبھی یہ احساس کہ آپ کی آنکھیں بند ہیں۔ بدن کسی مونا لیزا کے اندر میں بے جان سا پڑا ہے لیکن اس کی سب سے چمکیلی آنکھیں بند ہیں اور تصور کیجئے___ دائیں بائیں چاروں طرف سے بارش کی بوچھاریں گر رہی ہیں___ بغیر آپ کو چھوئے، گنگنائے بھگوئے۔  بس! آپ کے ننگے تلووں کو چھوتی پانی کی دھاریں دور تک بہتی جا رہی ہوں۔

تو میں اسی تصور میں شرابور تھا۔ آگے بڑھ کر میں نے کھڑکی اور شیشوں کے درازوں سے پردے کھینچ دئے تھے۔

کمرے میں ایک عجب طرح کی ’’ادبی تاریکی‘‘ تھی___ ’’ادبی تاریکی‘‘ نہیں، آپ اس کا تجزیہ مت کیجئے۔ مجھے لگتا ہے آپ اس کا تجزیہ کر بھی نہیں سکتے۔ کیسی، بے چین کرنے والی یہ ادبی تاریکی ہوتی ہے، اسے ادب تخلیق کرنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ وہ بھی ایسے عالم میں، جب وہ کچھ تخلیق کرنے کا ذہن بنا چکے ہوتے ہیں اور وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ باہر زوروں کی بارش ہو رہی ہو۔

تو باہر زوروں کی بارش ہو رہی تھی۔  اور ٹین کے چھجے سے لڑھکتی پانی کی بوندوں کا سنگیت ایک عجب طرح کا سماں پیدا کر رہا تھا۔  ایک طرف میری لمبی خاموشی سے نکلی ادبی تاریکی تھی اور دوسری طرف۔

کوئی تھا، جو دروازے کا شیشہ تھپتھپا رہا تھا۔

دوسرے ہی پل مجھے کسی عورت کی کانپتی آواز سنائی دی تھی___

’’کھولئے، دروازہ کھولئے۔ میں بری طرح بھیگ گئی ہوں۔ ‘‘

میں نے گھوم کر دیکھا۔ شیشے پر سفید سی ہتھیلیاں رکھی ہوئی تھیں۔ نہیں، جڑی ہوئی تھیں۔ کوئی پیکر تھا جو ہلکی روشنی اور شیشے کے باوجود، دھند میں کسی کی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔

کون___؟

لیکن اس وقت میرا یہ پوچھنا کسی حماقت سے کم نہیں تھا۔ میں تیزی سے آگے بڑھا اور دروازہ کھول دیا۔

سامنے وہی تھی___ وہی سیمینار والی لڑکی۔

’’پہچانا آپ نے؟‘‘___ وہی جانی پہچانی ہنسی___ ’’یا بھول گئے؟‘‘

’’نہیں۔  اتنی جلدی۔ نہیں۔

’’یعنی___ دیر میں بھولنے کے عادی ہیں آپ۔ اُف! میں بُری طرح سے بھیگ گئی ہوں۔ کیا آپ اندر آنے کو نہیں کہیں گے۔ ‘‘

’’ارے، اندر آ جائیے۔ ‘‘

مجھے شرمندگی ہوئی اور میں نے پہلی بار اس کا بغور جائزہ لیا۔ وہ بُری طرح بھیگ گئی تھی۔ اس نے ہلکے گلابی رنگ کی ساڑی پہنے ہوئی تھی۔ جواب اس کے بدن سے پوری طرح چپک گئی تھی۔ اس کی گردن لمبی تھی۔ بالوں کے ’’گچھوں‘‘ سے ہو کر پانی کے قطرے، اس کی لمبی گردن سے ٹکراتے، اس کے بلاؤز کو تر کر رہے تھے۔ لانبی گردن۔ مجھے افسوس ہوا۔ کاش، اس کے پہلے میں نے سندل کے پیڑوں کی طرح ہوتی ہیں___ شفاف اور چکنی۔ وہ تھوڑی دبلی پتلی تھی۔ ساڑی سے میچ کرتا ہوا بلاؤز تھا___ وہ گوری نہیں تھی۔ رنگ ہلکا سانولہ تھا مگر بارش سے بھیگی ہوئی یہ لڑکی ایک دم سے کمرے کی تاریکی میں ایک دوسرا ہی نقش بھر گئی تھی۔

یقیناً لڑکیوں کے پورے بدن پر آنکھیں ہوتی ہیں اور انہیں فخر کے ساتھ اس بات کا احساس بھی رہتا ہے کہ انہیں کوئی بغور دیکھ رہا ہے۔ بُری طرح پانی سے شرابور ہونے کے باوجود شاید اسے اپنے بھیگے ہونے کا ذرا بھی احساس نہیں تھا۔

’’دیکھ چکے۔ ‘‘

وہ میری طرف دیکھتے ہوئے ہنسی___ میں ایک دم سے گھبرا گیا۔

وہ ایک بار پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

’’کیوں۔  تمہیں‘‘ وہ کہتے کہتے ٹھہری۔  ’’آپ کہنا مجھے بوجھل لگتا ہے، تمہیں کہوں تو۔ ‘‘

’’چلے گا۔ ‘‘

وہ پھر ہنسی۔ ’’کیوں تمہیں عجیب سا نہیں لگا۔ بارش کی رات ایک جوان لڑکی اس طرح تمہارے کمرے میں آ جاتی ہے۔ ‘‘

’’تمہارے کپڑے بھیگ گئے ہیں۔ ‘‘

’’جانتی ہوں۔ آگے یہ تو نہیں کہو گے کہ ہینگر سے کپڑے نکال  کر لے آؤں۔ ‘‘

’’اوہ، مجھے سچ مچ افسوس تھا۔  ابھی آیا___ سچ مچ سب سے پہلے تمہیں کپڑوں کی ضرورت ہو گی۔ ‘‘

’’رُکو۔ پھر گرما گرم چائے کی۔   تھرمس تمہارے پاس ہے نا؟‘‘

وہ کھل کھلا کر ہنس پڑی۔

میں جانے کو مڑا تو اس نے روک دیا۔  ’’ٹھہرو___ مت جاؤ میں یوں ہی کہہ رہی تھی۔ ‘‘

’’میرے کپڑے تمہیں۔ ‘‘

’’آ جائیں گے___ یہی کہنا چاہتے ہونا۔ ‘‘ وہ پھر ہنسی___ ’’نہیں آئیں گے، ڈھیلے ہوں گے۔ میں تم سے زیادہ دبلی ہوں۔ جسم اور کپڑوں کے ساتھ کچھ بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ ‘‘۔  وہ پھر ہنسی۔

’’سنو میں ان لڑکیوں میں نہیں ہوں، جو بھیگ کر پرائے مرد کے کمرے میں گھس کر اس کا وارڈ روب تلاش کر لیتی ہیں۔ ‘‘

’’پھر تم چاہتی کیا ہو؟‘‘

’’یہاں بیٹھ جاؤں صوفے پر اجازت ہو تو___ صوفہ تھوڑا سا گیلا ہی تو ہو گا___‘‘  وہ پھر بے مطلب ہنسی۔ ’’یقیناً ایک گیلی شئے، دوسرے کو گیلا۔ کر دیتی ہے۔ ‘‘

’’کیوں آئی ہو؟‘‘

’’ارے تم تو ایسے پوچھ رہے جیسے ڈر رہے ہو۔ ‘‘

’’کیوں ڈروں گا؟‘‘

’’میں کیا جانوں، خود سے پوچھو___ وہ اچانک سنجیدہ ہو گئی تھی۔  ’’تمہیں یاد ہے، وہ سیمینار‘‘___ میں نے پوچھا تھا نہ، میں اگر اچانک، بنا بتائے تمہارے گھر آ جاؤں تو۔  بارش کے اس موسم سے زیادہ مناسب وقت مجھے دوسرا نہیں لگا۔ مجھے لگا، یہی صحیح وقت ہے جب تم سے ملاقات کی جا سکتی ہے___ اس کے چہرے پر ذرا سی سختی تھی۔  ’’کبھی کبھی کوئی ایسا آدمی ہونا چاہئے جس سے آپ کچھ شیئر کر سکیں آپ کا پسندیدہ آدمی۔ ‘‘ اس نے میری طرف گھور کر دیکھا۔  سیمینار والے دن تمہاری باتیں سن کر لگا تھا، تم سے اپنا آپ شیئر کیا جا سکتا ہے اور اپنا آپ شیئر کرنے کے لئے بارش کی رات سے زیادہ خوبصورت وقت کوئی نہیں۔  ’’ادیب ہو نہ تم‘‘۔  آگے بڑھ کر اس نے کھڑکی کے پردے کھینچ دیے۔ باہر بجلی چمکی تھی۔ وہ خوف سے پیچھے ہٹی۔

’’میرے شوہر ہیں لیکن میں نے شوہر کا گھر چھوڑ دیا ہے‘‘۔  وہ دوبارہ صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ کچھ دیر تک دائیں ہاتھ کے ناخنوں کو چباتی رہی۔  اس دن آپ نے تخلیقی کرائسس، آئیڈنٹیٹی کرائسس کا ذکر نہ چھیڑا ہوتا تو۔  خیر۔  جانے دیجئے۔ آئڈنٹیٹی کرائسس۔ ‘‘

وہ ہنس رہی تھی۔  مرد اسے پرایا ہی سمجھ سکتا ہے۔ آئڈنٹیٹی کیا دے گا؟۔  شادی کے کچھ ہی دنوں بعد لگا، اس میں ایک ساتھ بہت سارے جنگلی مرد یا بھیڑیئے اکٹھا ہو گئے ہیں۔ ہم شادی کے بعد اس کے، الگ کے فلیٹ میں آ گئے تھے۔ کافی پیسے والا تھا وہ۔ کافی بڑا فلیٹ اور رہنے والے صرف دو آدمی۔ وہ بہت کم باتیں کرتا تھا۔ رومانس کرنا یا رومانٹک باتیں کرنا شاید اسے آتا ہی نہیں تھا اور جلد ہی مجھے اس کے دو شوق کا پتہ لگا، جو بہت ہی مختلف تھا اور۔ ‘‘

اس نے چونک کر میری طرف دیکھا۔  ’’وہ کراس ورڈس سے کھیلتا تھا۔ پہلی، معمہ یا Puzzle ’’___سارا دن وہ پنسل لئے خالی خانوں میں کچھ نہ کچھ بھرتا رہتا اور ایسا کرتے ہوئے اسے کسی بات کی فکر نہیں ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ اپنی نئی نویلی دلہن کی بھی، جسے یہاں آئے ہوئے ابھی بہت دن نہیں گزرے تھے۔ مجھے پر جو گزر رہی تھی میں جانتی تھی۔ پھر۔  یا تو اس پر پاگل پن کا دورہ پڑنے لگا یا پھر اس نے ایک دوسرا شوق پال لیا‘‘

’’وہ کیا۔ ؟‘‘

’’وہ بہت سارے پتھروں کو جیب میں جمع کرنے لگا۔ کراس ورڈس حل کرنے کے درمیان جب پریشان ہو جاتا تو گھر کی چیزوں کو پتھروں سے نشانہ بنانے لگتا۔  چھوٹے چھوٹے بلب، قمقمے، جھاڑ فانوس۔   شیشے کی کھڑکیاں، گلاس۔  اس کی آنکھوں میں بے رحمی ہوتی۔ ایک دن اسی طرح گھر کی چیزوں کو نشانہ بناتے بناتے میرے پاس آ نکلا۔ ‘‘

’’پوچھا۔  تمہیں میں پاگل تو نہیں لگتا‘‘

’’نہیں بالکل نہیں‘‘۔  میں نے جواب دیا میں جانتی ہوں کہ یہ سب تم کیوں کر رہے ہو۔ ‘‘

’’کیوں کر رہا ہوں؟‘‘

’’اس لئے کہ تمہارے پاس سے فنٹاسی سرک گئی ہے۔ تم سب کچھ اپنی چھوٹی سی عمر میں ہی کر گزرے ہو۔ ‘‘

اس کا چہرہ اچانک سفید پڑ گیا۔

’’افسوس اس بات کا ہے کہ گھر کی ساری چیزیں ٹوٹ جائیں گی تو؟‘‘

اس کی آنکھوں میں ایک خوفناک چمک تھی۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ واپس نکالا تو اس کے ہاتھ دو۔ تین نکیلے پتھروں سے بھرے تھے۔

میں ہنسی تھی۔  ’’مجھے پتہ تھا اس کے بعد تم یہی کرو گے۔  چلاؤ۔ مجھ پر پتھر چلاؤ۔ ‘‘

اس نے تین بار باری باری سے پتھر چلایا۔ میں تینوں بار جھک جھکا کر اس کا وار بچاتی رہی۔ جب اس کے ہاتھ خالی ہو گئے۔ میں نے وہیں زمین سے ایک بڑا سا پتھر اٹھا لیا۔

’’تو کیا تم نے اسے مار ڈالا؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘ وہ ہنس رہی تھی۔  ’’اتنا پاگل سمجھتے ہو مجھے۔ جو ایسے آدمی کو مار کر اپنی زندگی ختم کر لیتی۔ مجھے پتہ تھا، ایک ایسا دن میری زندگی میں آنے والا ہے اور سچائی یہ ہے کہ اتنی جلد وہ دن میری زندگی میں آ جائے گا، مجھے یقین نہیں تھا اور حقیقت یہ تھی کہ میں اسے ڈرانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ ‘‘

’’پھر؟‘‘

’’اس رات وہ غائب رہا۔ دوسرے دن دروازے پر دستک ہوئی۔ ‘‘ میں نے دروازہ کھولا تو اس کے ساتھ ایک نئی لڑکی تھی اور ایک دو مزدور تھے۔ جو یقیناً گھر کی ٹوٹی ہوئی چیزیں ٹھیک کرنے یا بدلنے آئے تھے اور یقیناً اس کی جیبیں بھاری ہوں گی اور اس میں پتھر پڑے ہوں گے۔  میں چپ چاپ ان کو اندر آنے کا راستہ دے کر باہر نکل گئی۔

’’باہر یعنی کہاں۔ ؟‘‘

’’پاگل۔ کیسے آدمی ہو۔ وہ ہنس رہی تھی۔  تمہارے کمرے میں اور کہاں۔  سنو کپڑے سچ مچ بہت گیلے ہیں اتار دوں۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

وہ پھر کھلکھلا کر ہنسی۔  ’’سمجھو۔ تمہارا وارڈ روب استعمال کرنا نہیں چاہتی۔ تو کیا تم مجھے دیکھتے رہو گے؟‘‘ وہ زور سے ہنسی۔ بارش میں بھیگی لڑکی کا بھیگا ہوا جسم۔ اگر مان لو۔ اگر میں کپڑے اتاروں۔ ؟ پوری طرح عریاں ہو جاؤں تو؟ کیا بغیر دیکھے تم اس طرح مجھ سے باتیں کیوں کر سکتے ہو جیسے اپنے کسی دوست سے کر رہے ہو، ۔  اس نے زور دیا۔  اپنے مرد دوست سے۔ ‘‘

وہ ہونٹ چبا کر چیخی تھی۔  ’’اپنی آنکھیں ادھر کرو۔  میں سچ مچ۔ ‘‘

اور سچ مچ اس نے کپڑے اتار دیئے تھے۔ میں نے اپنی پشت کی آنکھوں سے اس کے پورے جسم کو کپکپا دینے والے احساس کے ساتھ محسوس کیا۔ میرا سارا جسم جل رہا تھا۔ ہونٹوں تک تیز لپٹیں اچانک سامنے آ کر بھڑک گئیں تھیں۔ مجھے کہنا چاہئے۔ اتنا خوبصورت، سڈول جسم آج اور اس سے قبل میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

باہر بجلی کڑک رہی تھی۔

بارش کی بوندیں تیز رفتار سے برس رہی تھیں۔ میں اس کی طرف مڑا تو وہ بلند آواز سے چیخی۔  ’’یہ۔ ای۔  ای۔ ‘‘

لیکن اس کی کمزور آواز پر جیسے بجلی کی کڑک حاوی ہو گئی تھی۔

بارش کب بند ہوئی، پتہ نہیں چلا۔ میں اس کے جسم سے ہٹا تو وہ بلاؤز کے بٹن بند کر رہی تھی۔ پھر وہ ٹھہری نہیں، میں نے اسے دروازہ کھول کر جاتے ہوئے دیکھا۔

جاتے وقت بھی اس نے مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔

بس۔ وہ ایک چھلاوے کی طرح آئی اور چھلاوے کی طرح چلی گئی۔

               (۳)

یہ سچ ہے کہ تب تک ناٹک لکھا نہیں گیا تھا۔

ایک پورے ملینیم کے اختتام میں اب صرف بیس دن باقی رہ گئے تھے۔ ادھر سمیر مہادیون ایک دم سے میرے سر پر سوار تھا۔

’’یہ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ قلم بانجھ تو نہیں ہو گیا؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’تمہارے لئے شادی کرنا ضروری ہے سمجھ گئے۔ میرا۔ پہلے بھی یہی خیال تھا۔ عورت۔  عورت، جیسے موضوع پر تم سے نہیں لکھا جائے گا۔ ‘‘

وہ ہنس رہا تھا۔

حقیقت میں سمیرمہادیون کو مجھ پر ہنسنے کا حق حاصل تھا۔ اس لئے کہ وہ میری دماغی حالت سے واقف نہیں تھا۔ میں لگاتار ڈرامہ کو اس ’’حادثے‘‘ سے جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ مجھے اس عورت کی تلاش کرنی تھی جو ویدک عہد میں عزت و احترام کی چیز تھی، ویدک عہد، اُتر ویدک عہد، بھکتی آندولن اور مسلمانوں کی آمد تک جو ہندوستانی کلچر میں کئی روپ بدل چکی تھی اور اس انٹرنیٹ عہد تک آتے آتے اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا آسان نہیں رہ گیا تھا۔ ان سب کچھ کے باوجود وہ عورت تھی۔  وجود میں ایک نشہ رکھنے والی۔ سمبھوگ کے وقت ہر بار پُر اسرار ہو جانے والی۔ پُراسرار۔  لیکن عورت بہر حال عورت ہوتی ہے۔ چاہے وہ کتنے ہی ملینیم کیوں نہ اوڑھ لے۔

موضوع میں نے وہیں سے لیا تھا۔ وہی بارش والی عورت۔ اس پُر اسرار عورت کی ایک ایک بات مجھے یاد رہ گئی تھی۔ ضروری  یہ تھا کہ مجھے اس سارے واقعے کو نئے انداز سے لکھنا تھا۔ لکھتے وقت ’واقعے‘ کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں۔ حقیقی کردار کسی دوسرے کردار میں سما جاتا ہے۔  ملینیم کے خاتمے کی عورت۔ میں نے اس کے شوہر کا کردار، اس عورت میں ڈال دیا تھا۔ مجھے پتھر اچھے نہیں لگے تو میں نے اس کے ہاتھوں میں پستول تھما دیا۔ وہ چست چوکس لباس یعنی جینس، ٹی شرٹ وغیرہ پہنتی تھی۔ بال چھوٹے تھے۔ قد مناسب۔ کمر کی پیٹی میں ہر وقت ایک پستول ہوتی تھی۔ وہ زمانے سے تھکی نہیں تھی، نہ ہی وہ زمانے کو مٹھیوں میں کرنا چاہتی تھی۔ زمانہ اس کے لئے ایسی ہی ایک لاچار سی شئے تھا، جیسے گھر کی کوئی بیکار سی لگنے والی چیز، جس پر بڑے آرام سے، کمر سے پستول نکال کر، وہ گولی چلا دیتی تھی۔ بس۔  ایک ذرا سی ٹھائیں۔  خالی وقت میں وہ کراس ورڈس سے کھیلتی تھی۔ کھیلتے کھیلتے پریشان ہو جاتی تو وہی ’دوست پستول‘ اس کے ہاتھوں میں آ جاتا۔

ٹھائیں۔  بلب ٹوٹ گیا۔

ٹھائیں۔ فانوس کے شیشے زمین پر بکھر گئے۔

ٹھائیں۔ کتابوں کی الماری کے آر پار گولیاں نکل گئیں۔

اور۔ ٹھائیں۔  ٹھائیں۔  پرندوں کی طرح۔  کبھی آسمان کی طرف۔  کبھی شانت لہروں کی طرف۔  اور کبھی۔  بس پزل (Puzzle)۔ کراس ورڈس۔  دنیا میں اس کے لئے کوئی کشش باقی نہیں تھی۔

یہ ایک خوبصورت سا  کردار تھا۔ ناٹک کے لئے یہ ایک انتہائی نیا کردار تھا۔ مجھے یقین تھا، جب یہ کردار تھیٹر میں زندہ ہو اٹھے گا تو مجھے چاروں طرف سے تالیاں ملیں گی۔ یہ کردار ملینیم کی ہزار سالوں میں بدلتی عورت سے میل کھاتا تھا۔ لیکن مجھے یہیں، ایک کردار کی اور ضرورت تھی۔ ایک ایسا کردار جو اسے سہارا دے سکے۔ یقیناً یہ کردار میرا تھا۔ (اور یہ ناٹک میں بھی مجھے ہی نبھانا یا ادا کرنا تھا)۔ اب میرے لئے اہم تھا، میرے اپنے اس کردار کو سنجانا یا سنوارنا۔ مجھے پتہ تھا کہ یہ عورت آسانی سے قابو میں نہیں آئے گی۔ جس طرح اس کا شوہر قابو میں آگیا تھا (اس نے پتھر پھینکے اور ہر بار بچ گئی اور دوسری صبح، ایک دوسر، پتھر کھانے والی کو راستہ دے کر، موسلا دھار بارش کی ایک رات میرے کمرے تک پہنچ گئی۔ )

حقیقت میں مجھے ایک نئی سچائی کو پیش کرنا تھا۔  اور میں ’کہانی‘ سے، نئے سرے سے گزر رہا تھا۔

یہ اور بات ہے کہ میں کمرے میں تیز تیز ٹہل رہا تھا اور لگاتار سگریٹ پیئے جا رہا تھا۔

               (۴)

خاموش جگہ، خاموش فضا۔ ایک ٹھہری ہوئی ندی۔ ان سب کو اسٹیج پر دکھانا آسان نہیں۔  مگر مجھے یہیں، اپنے ہیرو یعنی اپنے آپ کو لانا تھا۔  فنتاسی سے اکتائی عورت، کراس ورڈس کے بیکار سے کاغذ کو ہوا میں اُچھال کر گولیاں چلاتی ہے۔  ایک، دو، تین۔  ٹھائیں۔  ٹھائیں۔  ٹھائیں۔  اچانک ایک چیخ گونجتی ہے۔ ایک انسانی آواز۔ یہ کسی جانور کی آواز نہیں تھی۔ عورت اس چیخ کی طرف مڑتی ہے۔ چونک جاتی ہے۔ ایک انسانی جسم۔ لہو لہان بازو۔ مرد نظر اٹھاتا ہے۔ عورت کو دیکھتا ہے۔ پھر لہو لہان بازو سے گولیاں نکالنے میں ایسے محو ہو جاتا ہے، جیسے اس سناٹے میں اس کے سامنے کوئی عورت نہیں، بے کشش سی کوئی شئے کھڑی ہو۔ جیسے پتےّ،  جیسے پیڑ، جیسے گھومتے جانور، جیسے آسمان۔ جیسے ستارے۔

وہ اپنی گولیاں نکال رہا ہے۔  اس طرح، جیسے اس پر احسان کر کے، کوئی ایک کام دے دیا گیا ہو۔

عورت اس کے پاس آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ دیر تک دیکھتی ہے۔ پھر پوچھتی ہے۔

’’درد ہو رہا ہے؟‘‘

’’درد۔ یہ لفظ کچھ سنا سنا سا ہے۔ پتہ نہیں!‘‘۔  وہ سر جھٹکا دیتا ہے۔

’’کافی خون بہہ گیا ہے چلو۔ ‘‘

زندگی کے تمام تجربوں سے گزرنے، انہیں ریجکٹ (Reject) کرنے کے بعد۔  زندگی کے تئیں مایوس ہو جانے والی عورت کے اندر مجھے پھر سے ہمت اور حوصلہ پیدا کرنا تھا۔ یعنی ایک نیا ملینیم۔  پھر سے ایک نئی شروعات۔ کیوں گم ہوئے رشتوں کی پھر سے پہچان۔ ہزاروں برس گزر جانے کے بعد ہم پھر سے نئے کیوں نہیں ہو جاتے؟ جیسے ابھی ابھی جنم ہوا ہو۔ مجھے احساس تھا۔ نئے ملینیم کی شروعات میں تمام طرح کا آڈمبرا تار کر اسے پھر سے ایک لڑکی بن جائے۔ ویسی لڑکی، جیسی نظموں میں ہوتی ہیں۔ چھوئی موئی سی، پتہ نہیں کیوں، میں اس میں سوئے ہوئے جذبات کو جگانا چاہتا تھا۔  اور میرا کردار ایسے پیر، فقیر، سنت یا ایک ایسے ’بے ضرر‘ انسان کا تھا، جو اچانک ہی، بوڈم کا شکار ہوئی اس عورت کے رابطے میں آگیا تھا۔

ڈرامہ کا ایک فریم یہ بھی تھا۔  کہ لڑکی خون صاف کرتے ہوئے اچانک میرے کپڑوں کو اتارنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے اندر کہیں گہرائی میں چھپی جنسی خواہشات جاگ جاتی ہے۔ وہ کسی شیرنی کی طرح مجھ پر جھپٹتی ہے اور میں۔  میرے اندر کہیں گہرائی تک چھپا ڈر جاگ جاتا ہے۔

میں گھبراہٹ میں پیچھے ہٹتا ہوں۔

لڑکی میرا ہاتھ تھام لیتی ہے۔

ناٹک کے اگلے منظر میں لڑکی تھکی تھکی سی لیٹی ہے، میں چپ چپ اُسے اکیلا چھوڑ کر بغیر کچھ کہے واپس چلا جاتا ہوں۔

***

ڈرامہ میں کچھ اور بھی واقعات تھے۔ ڈرامہ میں سمبھوگ، کائنات اور کائنات سے متعلق نئے احساس اور فلسفے پر باتیں کی گئی تھیں۔  ڈرامہ تیار تھا۔ اور حقیقت ہے کہ سمیر مہادیون اسے بار بار پڑھتا ہوا جھوم رہا تھا۔

’’واہ۔  واہ میرے دوست۔  واہ۔ میں اپنی بات واپس لیتا ہوں۔ میں نے کہا تھا۔ ‘‘

وہ چونک کر پوچھتا ہے۔  ’’مگر اس ناٹک میں مرد کا کردار تمہیں کچھ اٹ پٹا نہیں لگا۔ یعنی ایک بے حد معصوم، میمنے جیسی عورت۔  وہ زیادہ لاؤڈ ہو گئی ہے۔ میرا مطلب کچھ زیادہ۔ ‘‘

’’مرد۔ اوہ۔ تم سمجھے نہیں سمیر مہادیون۔ مجھے مرد ہمیشہ معصوم لگا ہے عورت کے مقابلے۔ اب ہارٹ اٹیک کو ہی لو۔ کتنی عورتوں کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ ظاہر ہوا، دل تو صدا سے مردوں کے پاس رہا ہے۔ درد کا احساس ہمیشہ مردوں نے ہی کیا ہے۔ وہ سچ مچ معصوم ہے۔ میں نے اس ختم ہوتی ملینیم میں عورت کا حقیقی چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘

سمیر مہادیون کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر بولا۔

’’تو چلو دیر کس بات کی۔ ڈرامہ کی ریہرسل شروع کرتے ہیں۔ ‘‘

               (۵)

ڈرامہ کی ریہرسل شروع ہو چکی تھی۔ ملینیم کے ختم ہونے میں ابھی کئی دن باقی تھے۔ اس پُر اسرار عورت کا کردار ایک بنگالن لڑکی ادا کر رہی تھی۔ سومیا چٹرجی۔ سومیا لمبی بھی تھی اور دبلی پتلی۔ حالانکہ چہرے مہرے کے تاثرات قطعی طور سے اس عورت سے میل نہیں کھاتے تھے، اور میل کھا بھی نہیں سکتے تھے۔ سومیا کو لینے کی دو ہی وجہ تھیں۔ ایک اس کا لمبا قد۔ دوسرا وہ تھیٹر کی منجھی ہوئی ایکٹریس مانی جاتی تھی۔

ریہرسل کو چار پانچ دن گزر چکے تھے۔ مگر سمیر مہادیون سومیا کی ایکٹنگ کو لے کر پُریقین نہیں تھا۔ وہ بار بار غصے میں اپنے بالوں کو نوچنے لگتا۔ ’’نو۔ ناٹ ایٹ آئی۔ ‘‘ سومیا۔ یہ ویسی عورت نہیں ہے۔ آئی مین۔  ہنٹر والی ٹائپ۔  تمہیں اس میں حقیقت کا رنگ بھرنا ہو گا۔  حقیقت کا رنگ۔  یو۔  نو۔  مجھے ریلیٹی چاہئے۔  ریلیٹی۔  ایکٹنگ نہیں چاہئے۔ ‘‘ سومیا حیران سی اس کی طرف دیکھتی۔  ’’میں سمجھ نہیں پا رہی ہوں سر۔ انفیکٹ۔ ‘‘

’’یہ کردار۔ ‘‘ سمیر مہادیون غصے سے میر پر مکا مارتا ہے۔  ’’سومیا! سمجھنے کی کوشش کرو۔  ایک پوری صدی، نہیں، ملینیم اس عورت کے پاس سے جا رہا ہے۔  شٹ، گزر چکا ہے۔  کبھی رسم و رواج کی بیڑیاں، کبھی پاک دامانی کی اگنی پرکشا اور کبھی۔  دراصل وہ اداس ہو گئی ہے۔ آئی مین۔   نیوٹرل۔  چیزوں میں اس کے لئے کوئی کشش نہیں ہے۔  رشتوں میں احساس میں۔  جذبات میں۔  اور سومیا دس از فنٹاسٹک رول فاریو۔  یو شُڈ انجائے۔  یہ صرف ایک واقعہ یا کردار نہیں ہے، یہ ایک بدلی ہوئی عورت ہے۔ ‘‘

’’بس سر۔ ‘‘ جواب میں سومیا کے چہرے پر شکن آ جاتی ہے۔  وہ دوبارہ اسکرپٹ پر جھک جاتی ہے۔  فنٹاسٹک۔ ‘‘ سمیر مہادیون میری طرف مڑتا۔  تم دیکھنا یہ ناٹک تھیٹر ورلڈ میں ہلچل مچا دے گا۔ ‘‘

سچائی یہ ہے کہ میرے اندر اس ڈرامہ کے لئے اتنا جوش نہیں تھا جتنا سمیر مہادیون میں بھرا ہوا تھا۔ حالانکہ بارش کی اس رات والی پوری کہانی اب بھی میرے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔  اور میں ریہرسل کرتے کرتے کتنی بار چونک کر بڑبڑایا تھا۔  اور  ہر بار سومیا نے مجھے حیرت زدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔  ’’کیا بات ہے سر! طبیعت کچھ۔

’’نہیں۔ طبیعت ٹھیک ہے۔ ‘‘ سمیر مہادیون ایک بار پھر ٹھہر کر زور سے چلایا۔  ’’ریڈی۔  ریڈی فار ریہرسل۔  سین نمبر۔  او کے سومیا۔ ریڈی؟۔  گو فار ریہرسل۔  چلیں۔ ‘‘

منظر وہی تھا۔  عورت خون دیکھ کر چونک جاتی ہے۔  وہ آگے بڑھ کر میرے کپڑوں کو اتارنے کی کوشش کرتی ہے۔ اچانک وہ جنسی جذبات سے لبریز ہو جاتی ہے۔  اس کا سارا جسم جذبات کی شدت سے لرز رہا ہوتا ہے۔ وہ پاگلوں کی طرح میری طرف بڑھتی ہے۔  ایک اینٹی ویمن کردار۔ ‘‘ سومیا ریڈی ہے۔

سمیر مہادیون چلاتا ہے۔

میں گھبرایا سا پیچھے ہٹتا ہوں۔ اور۔

ریہرسل روم کا دروازہ اچانک کھلا ہے۔

ٹھک۔  ٹھاک۔  ہیل والے جوتے بجے ہیں۔  کوئی آ رہا ہے۔ کوئی آگیا ہے۔ سمیر مہادیون نے چونک کر دیکھا ہے۔  میں ٹھہر گیا ہوں۔

’’معاف کیجئے گا۔ ‘‘ وہی سرد سا لہجہ۔  ’’میں ریہرسل دیکھ سکتی ہوں۔ ؟‘‘

’’کیوں نہیں۔  کیوں نہیں، بیٹھنے۔ ‘‘

’’شکریہ۔ ‘‘

وہ کرسی پر  بیٹھ گئی ہے۔  اس کی آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں۔ میرے ماتھے پر پسینہ کی بوندیں جھلملا اٹھتی ہیں۔  یہ وہی ہے۔ کتنے آرام سے کرسی پر بیٹھی ہوئی ہے۔  جیسے۔  مجھ سے شناسائی ہی نہیں ہو۔ مجھے جانتی ہی نہیں۔

سمیر مہادیون میرے قریب آگیا ہے۔  ’’کیا بات ہے۔  طبیعت۔  وہ سومیا بھی کہہ رہی تھی۔ ‘‘ ’’نہیں۔ ‘‘ ایک بار پھر مسکرانے کی ناکام کوشش۔  ’’نہیں بالکل ٹھیک ہوں۔ ‘‘

’’تو پھر آرام سے ریہرسل کرو نا۔ ‘‘

سمیر مہادیون کے چہرے پر شکن ہے۔  وہ پھر چلاّتا ہے۔  ’’گو فار۔  سین نمبر۔

سومیا میری طرف بڑھتی ہے۔  میں پیچھے ہٹتا ہوں۔  پیچھے دیوار ہے۔  میں دیوار سے لگ گیا۔  میری آنکھیں برابر اس لڑکی میں لگی ہوئی ہیں۔  یہ کیا۔  وہ کھڑی ہو گئی ہے۔  وہ آہستہ آہستہ سمیر مہادیون سے باتیں کر رہی ہے۔ سمیر گردن جھکائے دھیرے دھیرے ہاں، میں گردن ہلا رہا ہے۔ میرے ماتھے پر ایک بار پھر پسینہ کی بوندیں پھیل گئی ہیں۔ وہ دھیرے دھیرے ایڑی زمین سے رگڑتی ہوئی دنوں ہاتھوں سے کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

’’اوہ۔ یس۔ ‘‘

سمیر مہادیون نے زور سے تالیاں بجائی ہیں۔ اب وہ مجھے بلا رہا ہے

’’کیا ہے۔ ؟‘‘

’’یہ۔  ان سے ملو۔  یار۔  کمال ہے۔ کمال، ابھی انہوں نے جو سین سمجھایا ہے، بس کمال ہے۔

’’سین۔ ؟‘‘

’’ہاں سین، بھائی مجھے تو اس آئیڈیا نے زیادہ متاثر کیا ہے۔  اور ویسے بھی تمہارے چہرے پر وہ تاثرات نہیں آ رہے ہیں، نہ ہی سومیا وہ تاثرات دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ‘‘

’’مطلب۔ ‘‘

میں ایک دم سے چونک گیا۔

’’مطلب۔   کردار بدل دیئے جائیں گے۔  نو۔  نو۔  یو کانٹ انٹرپٹ۔  سمجھو۔  یہ تھیٹر ہے بھائی۔  تھیٹر۔  یہاں سب کو مل جل کر کام کرنا ہے۔ وہی کرنا ہے جو سب کو اچھا لگے۔ یہی تو فرق ہے تھیٹر اور سنیما میں۔ ‘‘

’’مطلب۔  میرا رول بدل جائے گا۔ ‘‘

’’ہاں، جیسا انہوں نے بتایا۔ دیکھو، بُرا مت ماننا۔ ان کی بات میں  وزن ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو تمہارے کردار والی عورت کو پسند کریں گے۔  یعنی وہ ہنٹر والی۔  یار پھر وہی۔  جذباتی ہو رہے ہو تم۔  بھاڑ میں گیا ملینیم۔  بھاڑ میں گئی وہ ملینیم والی عورت۔  عورت ہر بار وہی ہو گی۔  وہی عورت۔  کمزور۔ ‘‘

’’مگر۔ ‘‘

’’مگر وگر۔ کچھ۔ نہیں۔ ‘‘

میرا لہجہ کمزور تھا___  ’’مگر یہ تو میری اسکرپٹ کے ساتھ ناانصافی ہو گی___‘‘

’’پھر وہی اسکرپٹ۔  یار۔ ‘‘ وہ مجھے دونوں ہاتھوں سے ہلا رہا تھا۔  ’’پھر جذباتی ہو رہے ہو تم۔  ارے یار۔  یہ تھیٹر ہے۔  تھیٹر۔  اس میں سب کی مرضی چلتی ہے۔  سب کے کہنے سے چلتا ہے تھیٹر۔  پھر، جس سے سب کو فائدہ ہو۔ ‘‘ سمیر مہادیون عورت کی طرف گھوما تھا۔  ’’تو آپ لکھ دیں گی___ ٹھیک___ ایسا کیجئے، یہی سین___ سمجھ رہی ہیں نا، آپ۔  یہی سین۔  کل آپ لکھ کر لے آیئے۔  پھر دیکھتے ہیں۔ ‘‘

میں نے اب آخری حملہ کیا تھا___

’’مجھے۔  معاف کرنا۔  شاید میں یہ رول نہ کر پاؤں؟‘‘

سمیر مہادیون نے اس بار کچھ غصّے کچھ جوش سے میرا ہاتھ تھاما تھا___ ’’خالص جذبات، آدرش۔  صرف کردار بدلے ہیں۔  تم ہو۔  اور تم بدلے ہوئے کردار بھی تم ہی کر رہے ہو___ دوسری طرح سے کیوں تو___ تمہیں کرنا ہی پڑے گا۔ اب بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔  سمجھ رہے ہو تم۔

’’اچھا، میں چلتی ہوں۔ ‘‘

اس نے میری طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔

اُف۔ برف جیسا سرد ہاتھ___

’’میری کوئی بات لگی ہو تو۔ ‘‘

وہ اچانک جانے کے لئے مڑی تھی۔ پھر ایڑیاں بجاتی ہوئی تیزی سے ریہرسل ہال سے باہر نکل گئی۔

یقیناً، چونکنے کی باری اب میری تھی___ یہ کیا ہوا۔ ایسا کیونکر ہوا۔ اس نے مجھے پہچانا کیوں نہیں۔  اور وہ چاہتی کیا ہے؟۔

سمیر مہادیون مجھے زور زور سے ہلا رہا تھا___‘‘ فلموں میں جاؤ گے تب پتہ چلے گا۔  یار وہاں تو پوری کہانی بدل جاتی ہے یہاں تو صرف کردار بدلے گئے ہیں۔

کردار۔ ؟

لیکن کیا حقیقت میں صرف کردار بدلے گئے تھے۔

دوسرے دن ریہرسل کامیابی سے گزر گئی۔ معلوم نہیں یہ اتفاق تھا، یہ سومیا چٹرجی اس کردار کے لئے زیادہ فٹ تھی___ اب کردار میں میری جگہ وہی آگیا تھا، اس کا شوہر، ایک بے رحم آدمی۔  سومیا نئی نویلی دلہن تھی، جو مرد کی بے رحمی کی سزا کاٹ رہی تھی۔

’’دیکھا___‘‘

سمیر مہادیون پُر یقین تھا___ میرا پہلے بھی خیال تھا___ عورت کو لاؤڈ نہیں ہونا چاہئے۔ لاؤڈ تو___ تم ___

چلو اچھی بات ہے، تم آج زیادہ گمبھیر نہیں ہو۔ ‘‘

لیکن___ وہ کتنا جانتا تھا مجھے؟ یہ وہی کردار تھا وہی بارش والی رات۔  جب میں اچانک پاگل ہو کر اس عورت کی طرف جھپٹا تھا۔  وہ چیخی تھی، خوف سے پیچھے ہٹی تھی۔  مگر ایک پرائے مرد کے کمرے میں آ کر بے لباس ہو جانا۔  ادبی اندھیرا، حقیقت کے اندھیرے میں بدل گیا تھا۔  ریہرسل کرتے وقت مجھ میں پورا پورا مجرم اتر آیا تھا۔  ریہرسل ہوتے ہی اس نے زور زور سے تالیاں بجائی تھیں___

پھر میری طرف اپنا سرد ہاتھ بڑھایا تھا۔

"Congratulations”

سمیر مہادیون آگے آگیا تھا۔ میری طرف دیکھ کر۔

وہ بے رخی سے مڑا، پھر عورت کی طرف گھوما___

’’آپ آگے۔ آں سمجھ رہی ہیں نہ۔  باقی سین بھی۔  سن دو ہزار کے دوسرے ہفتے میں ہی___ آپ سمجھ رہی ہیں نہ۔ ‘‘

عورت گھومی تھی۔  ’’انہیں اگر کوئی شکایت نہ ہو تو۔  سمیر مہادیون نے میرا ہاتھ تھاما تھا___‘‘یقین دلاتا ہوں، انہیں۔  انہیں کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ ‘‘

اور یقیناً___ بھلا مجھے کیا شکایت ہو سکتی تھی۔ ؟ یہ کہ میرا کردار بدل گیا تھا۔ یہ کہ اسکرپٹ کا پورا نام جھام اس نے سنبھال لیا تھا___ پورا کردار___ یا پورے ناٹک میں___ اب میں وہی غیر شائستہ سا مرد تھا۔ جاہل، جنگلی۔ ریہرسل پورا ہوا۔

ہم نے ایک نئے ملینیم میں قدم رکھا۔

ڈرامے کا پہلا شو تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ ختم ہوا___ نہ معلوم کیوں مجھے بار بار لگ رہا تھا___ میرے ادب کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ یا یہ کہ اپنے ادب یا ادیب ہونے کا مذاق میں نے خود اڑایا ہے۔

اس رات پہلے شو سے واپسی کے بعد ایک حادثہ، اور ہوا تھا___ اس نے فون کیا تھا___ وہی، برفیلی آواز۔ اس نے مجھے ایک ویران جگہ کا پتہ دے کر بلایا تھا___ ملنے کے لئے۔

               (۶)

وہ سامنے کھڑی تھی۔  اس کا چہرہ سفید ہو رہا تھا۔ بے نشان، روح جیسا۔

’’تم۔  جانتے ہو، میں نے تمہیں یہاں کیوں بلایا ہے۔ ‘‘

اف، وہی برف کے پگھلنے جیسا لہجہ۔

’’نہیں___‘‘

وہ مسکرا  رہی تھی___ ’’مجھے کبھی برا نہیں لگا، کہ میں___ میں جو سوچتی ہوں، وہ حقیقت میں کیوں نہیں ہوتا۔ یعنی آدمی ہونے کے باوجود آدرش واد کی چٹان، جوالا مکھی کی طرح اندر ہی اندر کیوں دھنستی جاتی ہے۔  کسی بڑے دھماکے کے لئے___ آئیڈیالوجی۔ ‘‘

وہ ہنس رہی تھی___

’’  بُرا مت ماننا۔ یاد ہے، سیمینار کے روز میں نے پوچھا تھا۔  سیمینار سے گھر۔  اور گھر کے دروازے پر قدم رکھنے والا آدمی آئیڈیالوجی کی سطح پر تو ایک ساہی رہتا ہے نہ۔ ‘‘

وہ پھر ہنسی___ ’’تم ویسے نہیں نکلے۔ نکل بھی نہیں سکتے تھے۔  اور اسی لئے میں نے تمہیں اس کردار سے نکلوایا۔ جانتے ہو کیوں___‘‘

’’نہیں___‘‘

’’تم اس کردار میں فٹ نہیں تھے۔  یعنی پہلے والے کردار میں___ اس لئے میں نے پوری کہانی بدل دی۔  تم کہیں سے فٹ نہیں تھے۔ ‘‘

اس نے بڑے آرام سے پستول نکال لی تھی۔

میں نے خوف سے اس کی طرف دیکھا۔

اُس کی آنکھوں میں ایک زہریلی مسکراہٹ تیر رہی تھی___ ’کیوں، ڈر گئے؟ ڈرو مت۔ ؟ ’تمہیں کیا لگا، میں تم پر ایک گولی برباد کر دوں گی۔ ‘

وہ مسکرا رہی تھی___ اب میں اتنی بھی بے وقوف نہیں ہوں___ وہ تو بس۔  ایسے ہی۔  شوقیہ۔  اچھا لگتا ہے نا، تمہارے ناٹک کے پہلے والے کردار سے میل کھاتا ہوا۔ ‘

اچانک اُس کے چہرے سے ہنسی غائب تھی___ جاؤ تم!

وہ زور سے چیخی___ سنا نہیں تم نے___

پھر اُس نے آنکھیں جھکا لیں___ میری فکر کئے بغیر وہ وہیں ایک چٹان نما پتھر پر بیٹھ گئی___ اُس کے ہاتھ میں پتہ نہیں، کہاں سے ایک میلا سا صفحہ آگیا تھا، یقیناً یہ کراس ورڈس تھا۔ وہ فاؤنٹین پین لے کر پورے وجود کے ساتھ اُس پر جھک گئی تھی۔

واپس لوٹتے ہوئے میرے قدم شل تھے اور دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ۔

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید