فہرست مضامین
دس سے بارہ سال تک کے بچوں کے لیے
بنٹی کی دو کہانیاں
محمد ندیم اختر
بنٹی کا فرار
بنٹی اور جیکی منصوبے کے مطابق جنگل سے نکل کر گاجروں کے کھیت کے قریب پہنچ چکے تھے۔ گاجروں کے کھیت کے نزدیک کوئی بھی نہیں تھا۔ جیکی نے ایک جھاڑی کے پیچھے چھپتے ہوئے بنٹی سے کہا کہ پہلے ارد گرد دیکھ لیں۔ کہیں کھیت کا مالک آس پاس نظر نہ آ جائے۔ جب انہیں تسلی ہو گئی کہ کھیت بالکل اکیلا ہے۔ کھیت کا مالک یا کوئی ایسا ذی روح نہیں جو انہیں دیکھ سکے۔ وہ بلا خوف و خطر گاجروں کے کھیت میں داخل ہو گئے۔ بنٹی پہلی بار اپنے گھر سے اتنی دور آیا تھا وہ بھی چوری کی نیت سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے اسے خوف محسوس ہو رہا تھا کہ اگر کھیت کا مالک آن پہنچا اور وہ پکڑے گئے تو ان کا کیا ہو گا۔ لیکن کھیت میں گاجروں کی بھینی بھینی خوشبو نے ان کا خوف ختم کر دیا تھا۔ وہ سبز پتوں کے نیچے زمین میں دھنسی گاجروں کو اپنے پنجوں سے نکال کر کھا رہے تھے۔ گاجریں کھاتے کھاتے بنٹی سوچ رہا تھا کہ کچھ گاجریں وہ اپنے ساتھ بھی لے جائے گا تاکہ اس کے ماں باپ اور بھائی بھی یہ گاجریں کھا سکیں۔ ابھی اس نے تھوڑی سی گاجریں ہی کھائی ہوں گی جب اسے کھٹاک کی آواز سنائی دی۔ اس سے پہلے کہ بنٹی سنبھلتا اس کے پاؤں میں درد کی ٹھیس اٹھی۔ درد اتنا زیادہ تھا کہ وہ اس کی چیخ سن کر جیکی نے چھلانگ لگائی اور کھیت سے نکل کر جنگل کی جانب بھاگ گیا۔ بنٹی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک لوہے کی شکنجے میں جکڑا گیا ہے۔ یہ لوہے کا شکنجہ کھیت کے مالک نے گیڈروں اور اس جیسے دیگر جانوروں کوپھانسنے کے لیے لگا یا تھا۔ آج معصوم بنٹی اس کا شکار ہو کر کھیت کا قیدی بن گیا تھا۔ بنٹی زور لگا کر اپنا پاؤں اس شکنجے سے چھڑانا چاہتا تھا۔ وہ جیسے ہی زور لگا تا اس کے پاؤں میں درد بڑھتا جاتا۔ جب کچھ نہ بن پایا تو وہ بے سدھ کر وہیں لیٹ گیا اور آنے والے وقت کا انتظار کرنے لگا۔ وہ دل ہی دل میں جیکی کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ جیکی مشکل وقت میں مدد کرنے کی بجائے اپنی جان بچا کر بھاگ گیا۔
بنٹی ایک خوبصورت سا خرگوش تھا۔ اس نے جب ہوش سنبھالا تھا تو اپنے آپ کو درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان اچھلتے کودتے پایا تھا۔ بنٹی تینوں بھائی میں سب سے بڑا تھا۔ ان کے گھر کے بالکل ساتھ بہت سے گھر بنے ہوئے تھے۔ ان گھروں میں بالکل اس جیسے سفید بالوں، چھوٹی سی دم اور چمکتی آنکھوں والے خرگوش رہتے تھے۔ ان کا گھر جھاڑیوں کے درمیان ایک چھوٹی سی غار میں تھا۔ وہ بھوک لگنے پر اپنے گھر سے باہر نکلتا اور جھاڑیوں کی اوٹ میں جھانکتا ہوا کھلے میدان میں آ جاتا جہاں اس کی قد سے کئی گنا بڑے درخت تھے۔ درخت کی اوٹ سے ہمیشہ اسے خطرہ محسوس ہوا تھا کہ کوئی نوخیلے پنجوں والا جانور اسے دبوچ لے گا اور مار ڈالے گا۔ بنٹی نے جب ہوش سنبھالا تھا تو اس کے ماں باپ نے اسے بتادیا تھا کہ گھر سے باہر کون کون سے خطرے منڈلا رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ان کا شمار معصوم جانوروں میں ہوتا ہے۔ باہر کی دنیا بڑی ظالم ہے۔ گھر سے باہر بہادر اور خوفناک جانور رہتے ہیں جو موقع ملتے ہی نوکیلا پنجہ مار کر پہلے زخمی کر دیتے ہیں پھر اپنے نوکیلے دانتوں سے ہم معصوم جانوروں کی بوٹی بوٹی کر دیتے ہیں۔ پہلے پہل تو وہ اکیلا تھا لیکن اب اس کے بہت سے دوست بن چکے تھے۔ وہ ایک جھنڈ کی شکل میں اپنی بھوک مٹایا کرتے تھے۔ ایک دن ان کے گھر سے تیسرے گھر میں رہنے والے اس کے ہم عمر جیکی نے بتایا کہ اگر لذیذ کھانا کھانا چاہتے ہو تو ہم مل کر ایک ایڈونچر کرتے ہیں۔ ہمارے جنگل کے پار گاجروں کے کھیت ہیں۔ ان کھیتوں میں میٹھی اور سرخ رنگ کی گاجریں ملتی ہیں۔ جیکی کو اس کے بڑے بھائی نے بتایا تھا کہ وہاں چھپ کر جانا پڑتا ہے ورنہ اس کھیت کا مالک پکڑ لیتا ہے۔ اگر کوئی معصوم خرگوش پکڑا جائے تو پھر سالہا سال اس کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ بنٹی نے جب گاجروں کا سنا تھا تو اس کے منہ میں بھی پانی آگیا کیونکہ ایک دن اس کے ابو ایک گاجر لے کر آئے تھے۔ اس دن ان تینوں بھائیوں نے مل کر خوب دعوت اڑائی تھی۔ وہ اتنی لذیذ تھی کہ بنٹی اکثر اس لذیذ اور میٹھی گاجر کے بارے میں سوچا کر تا تھا۔ بنٹی نے میٹھی اور سرخ گاجر یں کھانے کے لیے جیکی کے ساتھ منصوبہ بنایا۔ پہلے منصوبے کے دوران ہی وہ کھیت میں لگائے گئے لوہے کے شکنجے میں پھنس چکا تھا۔
کافی دیر گزر چکی تھی لیکن گاجروں کے کھیت میں اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔ سورج اپنی پوری شدت سے چمک رہا تھا۔ گرمی کی وجہ سے وہ بالکل بے سدھ ہو چکا تھا۔ بنٹی کو اب رونا آ رہا تھا کہ اس کے امی ابو کتنے پریشان ہوں گے۔ وہ اپنی غلطی پر بھی پچھتا رہا تھا کہ وہ جیکی کے کہنے پر کیوں اس کھیت میں آیا۔ اسی دوران اسے قدموں کی چاپ سنائی تھی۔ ’’ اچھا تو چور پکڑا گیا۔ ‘‘ یہ ایک دو پیروں والا جانور تھا جو شکنجے کے پاس کھڑا بنٹی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ پھر اسے فورا یاد آیا کہ جو ایک انسان کا حلیہ اس کے ماں باپ نے بتایا تھا بالکل اسی حلیے کا ہے۔ یقیناًیہ انسان ہی ہے۔ اسی لمحے اسے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ یہ ہی انسا ن اس کھیت کا مالک ہے۔ بنٹی نے کھیت کے مالک کو دیکھ کر اپنے آپ کو شکنجے سے چھڑانے سے کوشش کی لیکن ایک بار پھر پاؤں میں درد کی ٹھیس کی وجہ سے چیخنے لگا۔ اس کا خیال تھا کہ کھیت کا مالک اس کی چیخ و پکار سن کر اس پر رحم کرے گا۔ کھیت کے مالک نے اس پر اتنا سار حم کیا کہ اپنے نرم ہاتھوں سے اس کی کمر کو سہلا کر دوسرے ہاتھ سے اس کا پاؤں اس شکنجے سے آزاد کرا دیا۔ اس سے پہلے کہ بنٹی آزاد ہوتے ہی بھاگتا۔ بنٹی کو محسوس ہوا کہ وہ ان نرم ہاتھوں کے مضبوط شکنجے میں ایک بار پھر جکڑا جا چکا ہے۔
٭٭٭
کھیت کا مالک بنٹی کو اپنے گھر لے آیا۔ اس گھر کی بڑی بڑی دیواریں دیکھ کر بنٹی پہلے تو حیران ہوا۔ لیکن پھر جب مالک نے زمین پر اسے آزاد کیا تو بنٹی کو بالکل اپنا گھر جیسا ایک گھر نظر آیا وہ زخمی ٹانگ کے ساتھ لنگڑا ہوا بھاگ کر اس چھوٹی سی غار میں گھس گیا۔ غار میں گھستے ہی اس کے لیے حیرانگی کی بات یہ تھی کہ وہاں اس جیسے تین معصوم خرگوش بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ انہوں نے بنٹی کو اپنے درمیان پا کر اسے خوش آمدید کہا۔ بنٹی ان کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس دوران ایک خرگوش بولا پیارے مہمان پریشان نہ ہوں ہم بھی تمہاری طرح اپنے گھروں سے گاجریں کھانے نکلے تھے۔ جب اس کھیت مالک کے ہتھے چڑھ گئے۔ اب کئی ماہ سے اس کھیت مالک کی قید میں ہیں۔ پھر جب انہوں نے اپنے گھروں کا پتہ بتایا تو بنٹی خوشی سے ان کے گلے لگ گیا۔ کیونکہ وہ سب اسی کی بستی کے رہنے والے تھے۔ بنٹی نے اپنے امی ابو سے سن رکھا تھا کہ ان کی بستی کے کن کن گھروں سے خرگوش بھوک مٹانے نکلے اور پھر واپس نہ آئے۔ ایک طرف تو بنٹی خوش تھا کہ اسے اس کی بستی کے خرگوش مل گئے دوسری طرف وہ پریشان تھا کہ کیا اب وہ پوری زندگی اس کھیت مالک کی قید میں گزار دے گا۔ کیا وہ اپنے ماں باپ اور بھائیوں سے نہیں مل پائے گا۔ اس کو پریشان دیکھ کر ایک خرگوش بولا کہ یہاں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس گھر کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ یہاں کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ اس گھر میں تازہ گھاس، تازہ پانی ملتا ہے۔ اس گھر میں ایک بڑی معصوم سی بچی ہے۔ جسے یہ لوگ عبیرہ کہہ کر پکارتے ہیں وہ ہم سے بہت پیار کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے ماموں زاد فیضان اور ریحان بھی ہم سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ابھی تو رات ہو گئی ہے۔ صبح جب ہم اپنے گھر سے نکل کر صحن میں جائیں گے تو دیکھنا ان کا پیار دیکھ کر تمہیں اپنا گھر یاد نہیں آئے گا۔
رات بیت گئی تھی۔ خرگوش اپنے نئے ساتھی کو ساتھ لے کر باہر صحن میں نکلے تو ان کے نکلنے سے پہلے ہی تین بچے جیسے انہی کے انتظار میں تھے۔ ایک معصوم خوبصورت سی بچی غالبا یہ ہی عبیرہ تھی۔ اس نے بھاگ کر نئے مہمان بنٹی کو اپنے ہاتھوں میں دبوچ لیا۔ عبیرہ کے ہاتھ بہت نرم تھے۔ فیضان اور ریحان بنٹی کی کمر پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔ عبیرہ تو بنٹی کو ہاتھوں میں اٹھائے بھاگتی ہوئی اپنی امی جان کے پاس گئی۔ ’’ امی دیکھیں یہ نیا خرگوش کتنا پیارا ہے۔ امی اس کی آنکھیں دیکھیں کتنی پیاری ہیں۔ ‘‘ ابو جو ساتھ ہی چارپائی پر بیٹھے تھے بولے۔ ’’ عبیرہ بیٹی جاؤ اس کو پانی پلاؤ، وہ جو رات میں گھاس لایا تھا وہ گھاس بھی اس ننھے مہمان کو کھلاؤ۔ ‘‘ بنٹی عبیرہ کی مہمان نوازی دیکھ کر خوش ہو گیا کہ اس نئے گھر جسے وہ قید خانہ سمجھ رہا تھا وہاں تو اتنے پیارے پیارے بچے رہتے ہیں جو ظلم نہیں کرتے، بلکہ بہت پیار کرتے ہیں۔ اس طرح شب روز گزرنے لگے۔ دن تو جیسے تیسے گزر ہی جاتا تھا لیکن جیسے ہی رات ہوتی تو بنٹی کو اپنا گھر یاد آنے لگتا۔ پھر وہ گاجروں کے کھیت کے بارے میں سوچ کر پچھتاتا کہ اس دن وہ بغیر بتائے اپنے گھر سے چوری کرنے نکلا تھا۔ چوری کی سزا تو ملنی ہی تھی۔ ایک دن بنٹی نے اپنے دوستوں سے کہا۔ ’کیا کھیت کا مالک اپنے گھر میں گاجریں نہیں لاتا۔ میرا کئی دنوں سے بہت جی کر رہا ہے کہ میں میٹھی میٹھی اور سرخ گاجریں کھاؤں۔ ایک خرگوش بولا مالک روز نہیں تو ایک دو دن بعد گاجر یں لاتا ہے۔ جہاں وہ آگ جلاتے ہیں اسی کمرے میں گاجریں پڑی ہوتی ہیں۔ گاجروں کا سن کر بنٹی کے منہ میں ایک بار پھر پانی آگیا۔ ایک دن اس نے منصوبہ بنایا کہ اس رات وہ اپنی غار سے نکل کر گاجروں تک پہنچے گا تاکہ جن گاجروں کی وجہ سے وہ قید ہوا۔ اب کم از کم جی بھر کر گاجریں تو کھا سکے۔ اس رات اس نے اپنے منصوبے پر عمل کیا اور چوری چوری گاجروں تک پہنچ ہی گیا۔ بنٹی نے جی بھر کر وہ گاجریں کھائیں۔ وہ جس گاجر کو اٹھا تا اسے آدھا کھا کر باقی وہیں پھینک دیتا۔ اس نے اس رات پیٹ بھر کر گاجریں کھائیں اور دبے پاؤں بھاگتا ہوا اپنے غار میں آگیا۔ حسب معمول صبح جب وہ اپنے غار سے باہر نکلے تو عبیرہ کی امی اونچی آواز میں کہہ رہی تھی کہ رات کسی بلی یا کسی اور جانور نے گاجروں کا ستیاناس مار دیا ہے۔ بنٹی نے اپنے شرارتی آنکھوں سے اپنے ساتھیوں کی جانب دیکھا اور پھر گھاس کھانے لگا جیسے اسے پتہ ہی نہ ہو کہ رات کیا ہوا تھا۔ پھر تو اس کا معمول بن گیا جب جب اس کا جی چاہتا وہ رات کے اندھیرے میں گھر میں پڑی گاجریں ڈھونڈ نکالتا اور خوب جی بھر کر کھاتا تھا۔ گھر والوں کے لیے بھی اب پریشانی بن گئی تھی کہ ان کی گاجریں رات کو کون کھا جاتا ہے۔ کبھی بھی گھر والوں کا دھیان بنٹی یا باقی خرگوشوں کی جانب نہیں گیا تھا۔
وہ بھی ایک رات تھی جس دن شام کو بنٹی نے کھیت مالک کو گاجروں کا ڈھیر گھر میں لاتے دیکھ لیا تھا۔ بنٹی اپنے منصوبے کے مطابق رات کے اندھیرے میں اپنی غار سے نکلا اور دھیر ے دھیرے چلتا ہوا اسی جگہ پہنچا جہاں اس نے شام میں عبیرہ کی امی کو گاجریں رکھتے دیکھا تھا۔ پہلے تو اس نے جی بھر کر گاجریں کھائیں۔ وہ اس دن ندیدوں کی طرح گاجریں کھا رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ایک ہی لقمے میں ساری گاڑی ہڑپ کر جائے۔ اسی ندیدے پن میں اس نے ایک بڑی گاجر ہڑپ کرنا چاہی لیکن وہ گاجر گلے میں ہی پھنس گئی۔ بڑے کہتے ہیں کہ ’ٹھنڈی کر کے کھانے سے منہ نہیں جلتا ‘ بنٹی نے شاید بڑوں کے قول نہیں سن رکھے تھے اسی لیے وہ ندیدے پن میں مارا گیا۔ جیسے ہی گاجر اس کے گلے میں پھنسی تو اسے لگا کہ اس کی سانس وہیں رک گیا ہے۔ گلے میں پھنسی گاجر نے اس کا برا حال کر دیا۔ وہ ہلکا ہلکا سانس لے رہا تھا۔ گلے میں درد کے احساس نے اسے بے سدھ کر دیا۔ وہ چاروں شانے چت زمین پر ہی لیٹ گیا۔ جانے کب صبح ہوئی۔ جب عبیرہ کی امی کی نظر چاروں شانے چت بنٹی پر پڑی۔ ’’ہائے …ہائے …اس بے چارے معصوم کو کیا ہوا جو یوں پڑا ہے۔ ‘‘ امی کا شور سن کر عبیرہ کے ابو اور عبیر ہ کی آنکھ بھی کھل گئی۔ بنٹی کی سانس ابھی باقی تھی۔ اب وہ پچھتا رہا تھا کہ اگر انہیں پتہ چل گیا کہ ان کی رات کو گاجریں کھانے والا چور میں ہی ہوں تو یہ مجھے کیا سزا دیں گے۔ اس نے آدھ کھلی آنکھ سے عبیرہ کی جانب دیکھا۔ عبیرہ بنٹی کو یوں بے سدھ پڑا دیکھ کر پریشان نظر آ رہی تھی۔ جب امی نے بنٹی کے منہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عبیرہ کے ابو ذرا دیکھیں اس کے منہ میں کوئی چیز پھنسی ہوئی لگ رہی ہے۔ ‘‘ بنٹی تو پہلے ہی پریشان تھا۔ یہ سن کر کہ اب تو وہ ثبوت کے ساتھ پکڑا جائے گا۔ بنٹی کے اوسان ہی خطا ہو گئے۔ سزا سے بچنے کے لیے بنٹی جھٹ سے ایک فیصلہ کر چکا تھا۔ عبیرہ کے ابو نے جب اس کے منہ میں اپنی انگلی ڈال کر گاجر نکالی تو بنٹی کی جان میں جان آئی۔ ’’اچھا تو یہ معصوم خرگوش ہی تھا جو رات کو ہماری گاجریں کھا جاتا تھا۔ آج تو گاجر چور پکڑا گیا۔ ‘‘ ہائے …ہائے …آپ کو چور پکڑنے کی پڑی ہے۔ بے چارے کو دیکھیں تو سہی زندہ بھی ہے یا مر گیا ہے۔ ‘‘ بنٹی مرنے کی اداکاری کیے لیٹا رہا۔ عبیرہ کے ابو نے اسے ہلایا لیکن بنٹی تو جیسے مرچکا ہو۔ پھر عبیرہ نے پانی کا چھڑکاؤ کیا لیکن مجال کہ بنٹی ہلتا۔ وہ تو مرنے کی اداکاری کررہا تھا۔ اسی دوران عبیرہ کے ابو نے کہا کہ’’ لگتا ہے گلے میں گاجر پھنسنے سے بے چارے کا سانس رک گیا اور بے مر گیا۔ ‘‘ بنٹی کے مرنے کا سن کر عبیرہ نے رونا شروع کر دیا۔ عبیرہ نے بنٹی کو اپنے نرم نرم ہاتھوں میں پکڑ کر اپنے سینے سے لگا یا۔ عبیرہ کو روتے دیکھ کر بنٹی نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ وہ مرنے کی اداکاری چھوڑ دے۔ روتے روتے عبیرہ اسے اٹھائے گھر سے باہر نکل گئی کہ گلی کی نکڑ پر ماموں کے گھر میں فیضان اور ریحان کو بنٹی کا آخری دیدار کرا دے۔ جیسے ہی عبیرہ نے دروازے سے باہر قدم رکھا۔ بنٹی اپنے فرار کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا آخری فیصلہ کر چکا تھا۔ بنٹی نے عبیرہ کے ہاتھوں سے اپنے آپ کو چھڑایا اور چھلانگیں لگا تا ہوا گلی میں دور تک بھاگتا چلا گیا۔ عبیرہ حیرانگی سے اسے دیکھتی رہی۔ گلی سے نکل کر سامنے کھیت تھے۔ ان کھیتوں کے آخر پر وہ ہی کھیت تھا جہاں آخری بار وہ چوری کرتے ہوا پکڑا گیا۔ بنٹی فرار ہونے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ بھاگتے بھاگتے اس کا جی چاہا کہ ایک بار وہ اسی کھیت میں رک کر تھوڑی سی گاجریں کھا لے۔ لیکن پھر لوہے کا شکنجہ یاد آیا تو وہ بغیر رکے جنگل میں داخل ہو گیا۔ جہاں جنگل کے درمیان میں بنٹی کا گھر تھا اور اس گھر میں بنٹی کے امی ابو اور بھائی رہتے تھے۔
سبق !
پیارے بچو! پہلی بات کہ چوری کرنا بری بات ہے۔ دوسری بات یہ کہ ندیدہ پن اکثر اوقات جہاں شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔ وہاں اکثر اوقات کسی بڑی مشکل میں بھی ڈال سکتا ہے۔ آپ کو بنٹی پیارا لگتا ہے کیونکہ اس کی شرارتیں آپ کو اچھی لگتی ہیں۔ لیکن کبھی بھی بنٹی کی طرح چوری نہیں کرنا بلکہ جس چیز کی ضرورت ہو اپنے امی ابو سے مانگ کر، بے شک ضد کر کے لے لیجئے گا۔ ورنہ بنٹی کی طرح کسی بڑی مصیبت میں بھی پھنس سکتے ہیں۔
٭٭٭
بنٹی اور مشن اسکوارڈ
اس وقت جنگل میں موجود خرگوشوں کی بستی کے تمام خرگوش ایک جگہ جمع تھے۔ بنٹی خرگوش اونچا اونچا بول رہا تھا۔ اس نے اچانک ایک ایسی بات کی کہ سب خرگوش اپنی جگہ سے اچھل پڑے۔ انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کس طرح ممکن ہے۔
’’ کیا کہا … تم نے بنٹی ! ‘‘
’’ میں نے ایسا کیا کہ دیا ہے کہ تم سب ہکا بکا ہو گئے ہو۔ ‘‘
’’ یہ کیسے ممکن ہے ؟ ‘‘
’’ کیوں نہیں ممکن۔ ‘‘
’’ اس لیے کہ انھیں تو کافی عرصہ ہو گیا ہے ہم سے بچھڑے ہوئے۔ ‘‘
’’ اس میں کون سی بڑی بات ہے … ہمارے جو ساتھی کافی دنوں سے غائب ہیں … وہ کھیت کے مالک کی قید میں ہیں اور زندہ ہیں۔ ‘‘
’’ تمھیں کیسے پتا ہے ؟ ‘‘
’’ لو جی ! یہ بھی کوئی کرنے والی بات ہے … آپ لوگوں کو تو پتا ہی ہے کہ میں اپنے دوست جیکی کے ساتھ مل کر لال لال گاجریں کھانے کے لیے جنگل سے باہر گیا … ہمارا ارادہ چوری کا تھا … ہمیں کیا پتا تھا … ‘‘
’’ کیا پتا تھا … ؟ ‘‘
’’ یہی کہ کھیت کے مالک نے وہاں لوہے کے شکنجے لگا رکھے ہیں … جیکی تو خوش قسمتی سے بچ گیا، لیکن میرا پاؤں ایک شکنجے میں پھنس گیا … میں خود کو آزاد نہ کروا سکا … جیکی نے بھی میری کوئی مدد نہ کی، کیوں کہ اسے اپنا خطرہ تھا … وہاں جا بجا شکنجے لگے ہوئے تھے … اس لیے یہ بھاگ گیا … اتنے میں کھیت کا مالک آیا، تو اس نے مجھے وہاں سے نکالا اور اپنے گھر جا کر قید کر ڈالا … وہاں میری ملاقات اپنے گم شدہ ساتھیوں سے ہو گئی۔ ‘‘
’’ اچھا ! یہ بتاؤ کہ تم وہاں سے آزاد کیسے ہوئے ؟ ‘‘
’’ میں نے مالک کی بیٹی عبیرہ سے دوستی کر لی … آہستہ آہستہ اسے اپنے اعتماد میں لیا اور ایک دن اسے دھوکا دے کر نکل آیا … اس دھوکے کا مجھے بہت افسوس ہے، کیوں کہ عبیرہ بہت پیاری اور معصوم سی بچی تھی، لیکن میں اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ ‘‘
بنٹی کے آنے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ اس کے ماں باپ تو خوش تھے ہی، لیکن جن کے بچے گم ہو چکے تھے، انھیں جب اس بات کا پتا چلا کہ وہ زندہ ہیں اور مالک کی قید میں ہیں، تو سب بہت خوش ہوئے۔ اب سب خرگوش بنٹی سے ملنے آئے ہوئے تھے۔
’’ چلو ! کوئی بات نہیں … ایک دن وہ بھی آزاد ہو جائیں گے۔ ‘‘
جب سے جنگل میں خرگوشوں کی بستی میں یہ بات معلوم ہوئی کہ ان کے گمشدہ خرگوش زندہ ہیں اور جنگل سے باہر گاجروں کے کھیت مالک کے گھر قید بند کی مشکلات جھیل رہے ہیں، تو اسی دن سے ان کی بستی میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا۔
ایک دن بستی کے تمام بوڑھے خرگوش سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔
’’ آخر کس طرح ہم اپنے قید ی بچوں کو رہا کروائیں ؟ ‘‘
’’ اس میں قصور اس کھیت مالک کا نہیں ہے۔ ‘‘
ایک بوڑھے خرگوش نے کہا، تو سب چلا اٹھے۔
’’ واہ ! کیا بات ہے آپ کی … پھر قصور ہمارا ہے … آپ بوڑھے ہو گئے ہیں، اس لیے آپ کی عقل کام کرنا چھوڑ گئی ہے۔ ‘‘
’’ پہلے میری بات تو سن لو۔ ‘‘
’’ فرماؤ ! ‘‘
’’ قصور ہمارا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو انسانوں کے کھیتوں میں جانے سے منع کیوں نہیں کرتے … ہمارے باپ دادا بھی اسی طریقے سے چوری چکاری کرتے تھے … جنگل سے باہر کھیتوں سے گاجریں چوری کرتے آئے ہیں … اب ہماری اگلی نسل بھی اسی طرح اپنے باپ داد کے طور طریقے اپناتے ہوئے گاجریں چوری کر کے کھاتے ہیں … سنا ہے … ‘‘
’’ کیا سنا ہے ؟ ‘‘
’’ سنا ہے کہ اب تو زمانہ بھی بدل گیا ہے، اس لیے ہمیں بھی اب ایسے کاموں سے پرہیز کرنا چاہیے ‘‘۔
بوڑھے خرگوشوں میں سے ایک بوڑھا بولا۔
’’ہم ہمیشہ سے معصوم اور بے ضرر جانور مانے جاتے ہیں … ہم اس جنگل کے رہنے والے تمام جانوروں میں سب سے زیادہ معصوم ہیں … ہم پودوں کی تازہ کونپلیں کھاتے ہیں … ہری ہری گھاس کھاتے ہیں … اگر کبھی کبھی لال لال گاجریں کھانے کو دل کر ہی لیتا ہے، تو اس میں حرج بھی کیا ہے … کیا ہم اپنے باپ داد ا کی روایات کو بھسم کر دیں کہ زمانہ بدل گیا … کیا ہم معصوم اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا بھی گلا گھونٹ دیں۔ ‘‘
’’میرا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں تھا … میں تو بس اتنا کہنا چاہتا تھا کہ ہمارے بادشاہ سلامت بہت اچھے ہیں … انھوں نے جنگل کے تمام جانوروں کے لیے جنگل میں ’اقرا‘ کے نام سے اسکول قائم کیا ہے … اگر آپ کو یاد ہو، تو … ‘‘
’’ کیا یاد ہو ؟ ‘‘
’’ کہ بھالو میاں دو بار ہماری بستی میں آ کر تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کر کے گئے ہیں، لیکن ہم نے کبھی ان کی بات پر توجہ دی ہے … اسکول میں تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کی مہارتیں بھی دی جاتی ہیں … اب تو سنا ہے کہ اسکول میں شیر کو درخت پر چڑھنے کا ہنر بھی سکھا یا جاتا ہے … اسی طرح الو کی بی بتا رہی تھیں کہ اب تو اسکول میں الو کے بچوں کو دن میں اڑنے کا ہنر بھی سکھا یا جا رہا ہے … اسی وجہ سے دور کے سفید فاموں کے جنگلوں میں عقل مند کی نشانی الو سمجھا جانے لگا ہے … جب کہ ہم ابھی تک الو کو نحوست سمجھتے ہیں۔ ‘‘
اس بوڑھے خرگوش کی باتیں سن کر بنٹی کے ابو بولے۔
’’ اس کا مطلب ہے کہ ہم بھی اپنے بچوں کو ’اقرا‘ میں بھیجیں تاکہ وہ تعلیم حاصل کر کے جہاں شعور حاصل کریں، وہاں زندگی گزارنے کی مہارتیں بھی حاصل کر سکیں۔ ‘‘
’’ جی ہاں ! بلکہ ہم ’اقرا‘ کے ہیڈماسٹر صاحب سے بات کریں گے کہ زندگی گزارنے کی مہارتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے بچوں کو یہ ہنر بھی سکھائیں کہ اگر وہ غلطی سے کسی انسان کی قید میں آ بھی جائیں، تو وہاں سے کیسے بچ کر واپس اپنی بستی میں آ سکتے ہیں۔ ‘‘
یہ بات سن کر سب بوڑھے خرگوشوں کے چہروں پر ان جانی سی خوشی پھیل گئی۔ اس طرح پوری بستی میں یہ بات پھیل گئی کہ بستی کے سارے معصوم خرگوش ’ اقرا ‘ میں داخل ہوں گے۔ اگلے دن بستی کے سارے معصوم خرگوش اپنے اپنے والدین کے ساتھ جنگل میں ندی سے پار ’اقرا اسکول ‘ کی جانب جا رہے تھے۔ ندی پار کرانے کے لیے کچھووں کی ایک فوج ندی کے کنارے پر موجود تھی۔ جنگل کے بادشاہ نے کچھووں کی ذمہ داری لگائی تھی کہ ا سکول آنے والے بچوں کو صبح سویرے وہ ندی پار کرایا کریں گے اور چھٹی کے وقت بھی وہ اپنی ذمہ داری نبھائیں گے۔ اس طرح بنٹی، جیکی اور ان کے دیگر دوستوں کا داخلہ ہو گیا۔ اسکول کی طرف سے جہاں انھیں مفت کتابیں دی گئی تھیں، وہاں انھیں اسکول کا یونیفارم جس میں پینٹ کوٹ اور ٹائی تھا، وہ بھی مفت دیا گیا۔ اس طرح روز وہ اسکول جانے لگے۔ بنٹی اور اس کے دوست بہت خوش تھے۔ بنٹی سمیت بستی کے تقریباًسارے خرگوش دل جمعی سے پڑھتے تھے جب کہ جیکی کی عادتیں نہیں بدلی تھیں، لیکن بنٹی نہیں چاہتا تھا کہ وہ جیکی سے دور ہو جائے۔ اس طرح جیکی مزید بگڑ سکتا تھا، اس لیے بنٹی ہمیشہ اسے اپنے ساتھ رکھتا۔
وقت گزرتے کب دیر لگتی ہے۔ ایک سال بھی مکمل ہو گیا۔ اسکول میں اساتذہ نے پہلا قاعدہ مکمل کرانے کے ساتھ ساتھ انھیں جہاں زندگی گزرانے کی مہارتیں دی تھیں … جن میں چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا، بڑوں کا احترام، جھوٹ سے نفرت اور چوری سے توبہ، لالچ سے دوری وغیرہ شامل تھے … وہیں انھیں کسی بھی مشکل حالات میں پھنسنے کی صورت میں بھاگنے کی تربیت بھی دی گئی تھی۔
ایک سال مکمل ہونے کے بعد بستی کے بوڑھے خرگوش ایک بار پھر اکٹھے ہوئے۔ اس بار بوڑھے خرگوشوں کے ساتھ بستی کے وہ تمام بچے خرگوش بھی شریک تھے، جو جنگل کے اقرا اسکول میں زیر تعلیم تھے۔
’’ ہم لوگ اب تیار ہیں۔ ‘‘
بچے خرگوشوں کی بات سن کر بوڑھے خرگوش بولے۔
’’ کس لیے … ؟ ‘‘
’’ اب ہم اپنے ساتھیوں کو کھیت مالک سے آزاد کرانے کی تربیت لے چکے ہیں، اس لیے اب ہم ’مشن اسکوارڈ ‘ کے لیے تیار ہیں۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے … تیاری کرو۔ ‘‘
پہلے مرحلے میں بستی کے بوڑھے خرگوشوں نے ’مشن اسکوارڈ‘ میں تین نام چنے … جن میں بنٹی، جیکی اور نونی شامل تھے۔ منصوبے کے مطابق اگلے دن صبح ان تینوں نے کھیت مالک کے گھر تک پہنچ کر ڈیڑھ سال سے قید بستی کے خرگوشوں کو آزاد کرانے کی کوشش کرنا تھی۔ بنٹی کو ’مشن اسکوارڈ ‘ لیڈر بنایا گیا جب کہ جیکی اور نونی نے اپنے لیڈر کے ہر حکم کی تعمیل کرنا تھی۔ بنٹی اپنے مشن کو ہر طور پر کامیاب کرنے کے لیے پر جوش تھا۔ اگلے دن وہ اپنے منصوبے کے مطابق اپنے والدین اور بستی والوں کی دعاؤں کے ساتھ مشن پر روانہ ہوئے۔ جنگل سے نکل کر جیسے ہی گاجروں کے کھیت کے قریب پہنچے، تو گاجروں کی بھینی بھینی خوشبو نے ان کی توجہ اپنی طرف موڑ لی۔ بھاگتے بھاگتے ایک لمحے کے وہ کھیت کے کنارے رک گئے۔ جیکی نے مسکراتے ہوئے بنٹی سے کہا۔
’’ بنٹی ! ابھی سورج نہیں نکلا۔ ‘‘
’’ تو پھر ؟ ‘‘
’’ اس لیے کھیت کا مالک اپنے گھر موجود ہو گا … ہمارے منصوبے کے مطابق جب کھیت مالک گھر سے باہر ہو گا، تو ہم اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کھیت مالک کے گھر میں قدم رکھیں گے … اتنی دیر اسی کھیت کے ساتھ رک کر تھوڑا آرام کر لیں۔ ‘‘
جیکی کی بات میں وزن تھا، اس لیے بنٹی اور نونی نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ انھیں وہاں رکے ہوئے ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ گاجروں کی بھینی بھینی خوشبو ان کے منہ میں پانی لے آئی۔ ایک لمحے کے لیے تو بنٹی کا دل بھی للچایا، لیکن دوسرے ہی لمحے اسے ایک سال پہلے کا واقعہ یاد آگیا جب وہ چوری کی نیت سے میٹھی میٹھی اور لذیذ گاجریں کھانے اسی کھیت میں داخل ہوا تھا۔ گاجریں کھاتے ہوئے لوہے کی شکنجے میں پھنس گیا تھا اور کھیت مالک نے سزا کے طور پر اسے اپنے گھر میں قید کر لیا تھا۔ جیکی نے مسکراتے ہوئے بنٹی سے کہا۔
’’ اگر آپ اجازت دیں، تو کھیت کے کنارے سے گاجریں کھالوں۔ ‘‘
’’ تمھیں پچھلے سال کا واقعہ یاد نہیں … اب پھر یہ غلطی نہیں کرنی ہے۔ ‘‘
’’ ہم کھیت کے اندر تک نہیں جاتے بلکہ کنارے سے ہی ایک ایک گاجر کھا لیتے ہیں اور آپ کے لیے کچھ گاجریں لے آتے ہیں … اتنی دیر میں آپ نظر رکھیں کہ کہیں کھیت کا مالک ہی نہ آن پہنچے … کنارے پر کون سا شکنجہ لگایا گیا ہو گا۔ ‘‘
جیکی کی بات میں وزن تھا۔ مشن اسکوارڈ کے لیڈر بنٹی نے جیکی اور نونی کو اجازت دے دی۔ بنٹی وہیں کھڑا ہو کر جیکی اور نونی کو کھیت کے کنارے سے اندر قدم رکھتے ہوئے دیکھنے لگا۔ اس کے خیالوں میں میٹھی میٹھی لذیذ گاجریں تھیں۔
اچانک اسے جیکی کی چیخ سنائی دی۔ ابھی بنٹی چیخ کی سمت دیکھ ہی رہا تھا کہ نونی کو کھیت سے نکلتے اور جنگل کی جانب بھاگتے دیکھا۔ بھاگتے بھاگتے وہ کہہ رہا تھا۔
’’ جیکی کا پاؤں لوہے کی شکنجے میں پھنس چکا ہے۔ ‘‘
بس یہ سننا تھا کہ بنٹی نے بھی جنگل کی جانب چھلانگ لگائی۔ چھوٹے سے لالچ نے ان کے مشن کو ناکام بنا دیا تھا۔ مشن اسکوارڈ کا پہلا منصوبہ ہی ناکام ہو گیا تھا۔ بھاگتے بھاگتے بنٹی کو اپنے استاد کی بات یاد آ رہی تھی۔
’’ جیسے انسان ہمیشہ لالچ میں آ کر اپنا نقصان کرتا ہے، ایسے ہی جب بھی کسی مشن پر روانہ ہوں، تو اس میں کبھی لالچ کا عنصر غالب نہ آنے پائے… کیوں کہ لالچ بری بلا ہے … لالچ تو بڑے سے بڑے مضبوط انسانوں کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنے پر مجبور کر دیتی ہے … ہم تو پھر معصوم اور کمزور سے جانور ہیں … یہ لالچ ہمارا تو برا حشر کر دے گی۔ ‘‘
اب بنٹی پچھتا رہا تھا کہ اس نے اپنے استاد کی اتنی بڑی بات کو کیوں بھلا دیا تھا۔
٭…٭…٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید