FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اور شام ٹھہر گئی

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ

فہرست مضامین

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

اور شام ٹھہر گئی

 ۔۔ امجد اسلام امجد

ایک تو ڈیرہ غازی خان جیسے نسبتاََ دُور افتادہ اور پسماندہ علاقے سے تعلق اُس پر ڈاکٹری جیسے سائنس نژاد مضمون میں تخصیص اور ان دونوں مشکِلات کے باوجود تین عمدہ شعری مجموعوں کی تخلیق ،اپنی جگہ پر ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کو جتنی داد دی جائے کم ہے۔

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری میں آج کل کی بیشتر خواتین شعرا کے مقابلے میں ایک مخصوص نوع کی بے باکی کے بجائے ایک قسم کا Restraintپایا جاتا ہے بات کو نہ کہتے ہوئے بھی کہہ جانے کا یہ رنگ خوشنما بھی ہے اور دِلکشا بھی ۔ غزل یوں تو ہے ہی بہت دھوکے باز قسم کی صنفِ سخن لیکن اس کے بعض مضامین تو ایسے ہیں کہ جو مرد شاعروں کے ہاں تو بظاہر بڑے سیدھے سادے اور Predictableسے دکھائی دیتے ہیں مگر جب یہ کسی خاتون کی زبان سے ادا ہوں تو ان میں ایک بالکل مختلف انداز کا جہانِ معنی کھُلنے لگتا ہے ۔

جہاں تک شعر کے Art یعنی فن کا تعلق ہے اس حوالے سے تو ڈاکٹر نجمہ شاہین کی شاعری اُن کی شخصیت اور ماحول کے مخصوص حوالے سے کم و بیش ٹھیک ٹھاک ہے البتہ جہاں تک Craft یعنی ہنر کا معاملہ ہے اُس میں ابھی انہیں مزید محنت کی ضرورت ہے کہ شاعری کسی مخصوص وزن اور بحر میں الفاظ کو پرونے کا نام ہی نہیں اُس کا تعلق موضوع کی مناسبت سے بہترین الفاظ کے چناؤ سے بھی ہے جسے انگریزی میں Selection of the most appropriate words اور اُردو میں تفحصِ الفاظ کہا جاتا ہے اور جس کی تربیت حاصل کرنے کا موزوں ترین طریقہ اساتذہ کے کلام کا مطالعہ ہے۔

مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر نجمہ شاہین کا یہ تازہ ترین شعری مجموعہ اچھے اور با ذوق قارئین کو مایوس نہیں کرے گا اور امید کرتا ہوں کہ ان کے اس فنی سفرکا اگلا پڑاؤ اس سے بھی زیادہ بہتر علاقے اور موسم میں ہو گا۔

٭٭٭

 

باطن کی سچائیوں کا اظہاریہ

۔۔ قمر رضا شہزاد

جس طرح ادب کو ذات ،مذہب ،نسل اور علاقائی خانوں میں میں رکھ کر پرکھا نہیں جا سکتااسی طرح صنفی سطح پر بھی اس کی قدر و قیمت طے نہیں کی جا سکتی۔مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے تعصبات کی قید سے رہا ہو ہی نہیں سکتے۔کبھی کسی کو ’’مضافاتی ادیب یا شاعر‘‘ کہہ کر اپنی ناکامیوں اور محرومیوں سے نظریں چرا رہے ہوتے ہیں اور کبھی خواتین کی شعری صلاحیتوں سے انکار کر کے اپنی خود ساختہ مردانگی کا ڈنکا پِیٹ رہے ہوتے ہیں۔مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،روشنی اپنا راستہ خود تلاش کر لیتی ہے اور خوشبو کے لئے کسی تعارف کی ضرورت نہیں ہوتی۔اسی طرح شاعر یا ادیب کسی بھی زبان کا ہو یا کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتا ہو اُس کے لفظ اُس کے ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔

محترمہ نجمہ شاہین کھوسہ بھی جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ ضلع ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی ہی شاعرہ ہیں جو اپنی شاعری کے حوالے سے ادبی منظر نامے پر نمایاں ہوئی ہیں ۔بطور ڈاکٹر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ تخلیقِ فن سے بھی اپنی کمٹمنٹ نبھا رہی ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جو کسی بھی تخلیق کار کو اُس کی منزل تک پہنچا سکتا ہے ۔

محترمہ نجمہ شاہین کی غزل اور نظم اُن کے باطن سے پھوٹتی سچائیوں کا اظہاریہ ہے۔اور یہ وہ سچائیاں ہیں جو نہ صرف اُن کے اپنے دکھ سکھ کا احاطہ کر رہی ہیں بلکہ ارد گرد پھیلی ہوئی تمام خوبصورتیوں اور بد صورتیوں کو بھی نہایت سلیقے سے بیان کر رہی ہیں۔چونکہ محبت ان کا بنیادی مقصد ہے لہٰذا یہ تمام معاملات محبت تک پہنچنے کے لئے اُن کی شاعری میں ڈھل رہے ہیں ۔اُن کے لفظ لفظ سے چھلکتی محبت کی خوشبو پوری کائنات کو اپنی گرفت میں لے رہی ہے ۔

محترمہ نجمہ شاہین کھوسہ کا یہ تیسرا شعری مجموعہ اُن کے تخلیقی سفر کا اگلا پڑاؤ ہے اور کسی شاعر کے لئے اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ابھی خدا نے اُس کے تخلیقی چشمے کو رواں دواں رکھا ہوا ہے جس سے وہ تشنگانِ ادب کی پیاس بجھانے پر قادر ہے۔

٭٭٭

 

شام کیوں ٹھہرتی ہے؟

۔۔ رضی الدین رضی

ڈیرہ غازی خان کے نواح میں ایک چھوٹی سی بستی ہے جسے بستی جندانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اسی بستی کی ایک بچی اپنی بہن کے ہمراہ بستی سے دور ایک سکول جایا کرتی تھی۔ایک چھوٹا ساسکول۔۔ جیسے دورافتادہ بستیوں میں ہوتا ہے۔ایک روز اس بچی سے اس کی استانی نے پوچھا ’’تم بڑی ہو کر کیا بنو گی‘‘۔بچی نے کسی توقف کے بغیر جواب دیا ’’ڈاکٹر بنوں گی‘‘ ۔استانی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ممکن ہے کلاس کی باقی لڑکیاں بھی ہنس پڑی ہوں اور یہ بات بھی ہنسنے کی ہی تو تھی ۔ایک چھوٹی سی بستی کی بچی ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھ رہی تھی۔اتنی چھوٹی سی بستی اتنی چھوٹی سی بچی اور اتنا بڑا خواب۔خوابوں پر اگرچہ کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ،سوچوں کو پابندِ سلاسل کرنا بھی ممکن نہیں۔لیکن معاشرے کا ایک رویہ ہے اور طے شدہ اصول بھی کہ خواب ہمیں اپنی حیثیت کے مطابق دیکھنا چاہیے۔کہاں میڈیکل کالج اور کہاں بستی جندانی سے دور ایک پرائمری سکول اوراس پرائمری سکول کی ایک بچی کہتی تھی کہ مجھے ڈاکٹر بننا ہے۔کوئی لڑکا یہ بات کرتا تو شاید اس کا مذاق نہ اڑایا جاتا۔اسے تھپکی بھی دی جاتی کہ لڑکے کے لئے تو بہت آسان ہوتا ڈاکٹر بننا۔وہ پرائمری کے بعد کسی قصبے یا شہر میں جا کر مڈل یا ہائی سکول میں داخلہ لیتا ۔پھرکسی اور شہر میں جا کر  ڈاکٹر بھی بن جاتا۔ لڑکوں کے لئے تو سب کچھ بہت آسان ہوتا ہے۔

استانی کی حیرت بھی غلط نہیں تھی ۔وہ اس علاقے کی روایات سے واقف تھی۔وہ جانتی تھی کہ اس علاقے میں بیٹیوں کو پرائمری کے بعد گھر بٹھا دیا جاتا ہے اوردوچارسال بعد بیاہ دیا جاتا ہے۔لڑکی کے خواب کیسے ہی کیوں نہ ہوں؟وہ کتنی ہی اعلیٰ تعلیم کیوں نہ حاصل کرنا چاہتی ہو؟قبائلی رسوم و رواج میں اُس کی خواہشات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔اور ہم قبائل ہی کو کیوں الزام دیں ماڈرن شہروں میں رہنے والے ہم جیسے نام نہاد ترقی پسند اور روشن خیال لوگ بھی تو عورت کے حوالے سے کم و بیش یہی رویہ رکھتے ہیں۔مذہب نے جب عورت کی گواہی آدھی اور وراثت میں اس کا حصہ ایک چوتھائی کر دیا تو مرد بھلا کیوں خاموش رہتا۔اس نے مذہب کا نام لے کر عورت کے رہے سہے حقوق بھی سلب کر لیے۔اور مذہب کا نام لینے کا تو تکلف ہی کیا گیا،عورت کا بھلا کونسا کوئی مذہب ہوتا ہے۔شادی سے پہلے وہ اپنے والدین کے اپنائے ہوئے مذہب یا فرقے کے مطابق زندگی گزارتی ہے اور شادی کے بعد اسے اپنے شوہر کے عقیدے کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں عقیدت اور عقیدے کی یہی تو اہمیت ہے۔بات دوسری جانب نکل گئی ذکر ہو رہا تھا اُس بچی کا جس نے اپنی استانی کے سامنے ڈاکٹر بننے کا خواب بیان کیا تھا۔استانی حیران تھی کہ بستی جندانی کی اس بچی کو یہ خواب دیکھنے کی جرأت کیسے ہوئی لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ ایک دیہاتی بچی نے یہ خواب دیکھنے کا حوصلہ اس لیے کیا کہ یہ خواب اسے اس کے والد نے دکھایا تھا اور بچی بھی جانتی تھی کہ جس نے اسے یہ خواب دکھایا ہے وہ اس کی تعبیر بھی ضرور لا کر دے گا۔

پھر ایک روزاسی بچی نے ریڈیو پر کوئی غزل سن کر اپنی کاپی میں نوٹ کر لی۔ہوم ورک یا کلاس ورک چیک کرتے ہوئے غزل پراستانی کی نظر پڑ گئی۔’’ہائے میں مر جاؤں تم تو شاعری کرتی ہو‘‘استانی تو جیسے بے ہوش ہوتے بچی ۔’’نہیں استانی جی یہ میری شاعری نہیں ہے میں نے تو ریڈیو پر کچھ سنا ،مجھے اچھا لگا اور میں نے اسے کاپی پر لکھ لیا‘‘۔لیکن یہ وضاحت بھی استانی کی سمجھ سے بالاتر تھی۔بلکہ اس وضاحت میں ایک اور وضاحت طلب سوال یہ تھا کہ آخر اس لڑکی کو کسی اور کی شاعری بھی کیوں پسند آئی۔ہمارے ہاں تو اگر کوئی نوجوان لڑکا بھی شاعری کی طرف راغب ہو تو معاشرے اور خاندان میں خاصی ناگواری کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ہمیں یاد ہے 1978ء میں جب ہمارے گھر والوں کو علم ہوا کہ ہم نے شعر کہنا شروع کر دیئے ہیں تو ہمارے گھر میں بھی گویا صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔شاعری چونکہ لڑکے نے شروع کی تھی اس لیے سب نے صبر و شکر کیا اور خاموش ہو گئے ۔ لیکن معاملہ اگر لڑکی کاہو اور وہ بھی بستی جندانی کی لڑکی کا تو یہ ناقابلِ معافی ہو جاتا ہے۔لیکن اس وقت ابھی اس بچی نے شاعری شروع نہیں کی تھی ۔

وہ بچی جب پیدا ہوئی تواُس کے والد نے اُس کا نام نجمہ شاہین رکھا تھا۔یہ نام بلندی کی علامت ہے۔’’نجمہ‘‘ ایک چمکتا ستارہ اور ’’شاہین‘‘ جو بہت بلندی پر پرواز کرتا ہے۔اس کے والد جان محمد کھوسہ نے یہ نام ممکن ہے لاشعوری طور پر ہی رکھا ہو لیکن آج نجمہ شاہین واقعی بلندی پر ہیں ۔اور اس مقام تک پہنچنے میں بنیادی کردار ان کے والد کاہی ہے کہ اس معاشرے میں کسی بھی عورت کو عملی زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے مرد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ سہارا شادی سے پہلے اس کا باپ اور بھائی ،شادی کے بعد اس کا شوہر بنتا ہے۔جن خواتین کو یہ سہارامیسرنہ ہو ان میں کتنی ہی صلاحیت کیوں نہ ہو وہ پرواز نہیں کرسکتیں۔نجمہ شاہین کو شادی سے پہلے اپنے والد جان محمد کھوسہ اور شادی کے بعد اپنے شوہر غلام فرید کھوسہ کا سہارا میسر آیا تو ان کے راستے کی بہت سی رکاوٹیں دور ہو گئیں۔

پہلا مرحلہ ڈاکٹر بننے کا تھا۔نجمہ شاہین کھوسہ نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کے والد انہیں ڈیرہ غازی خان کی ایک لیڈی ڈاکٹر کی مثال دیا کرتے تھے ۔اس لیڈی ڈاکٹر کا نام ڈاکٹر ثریا نثار تھا۔آج سے کئی سال پہلے کے ڈیرہ غازی خان کو چشم تصور میں دیکھیں ،اس زمانے میں ایک ہی خاتون ڈاکٹر وہاں کی خواتین کے زخموں پر مرہم رکھتی تھیں۔جان محمد کھوسہ بھی چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر ثریا نثار کی طرح انسانیت کی خدمت کرے۔نجمہ شاہین 1991ء میں ملتان آئیں اور جب نشتر میڈیکل کالج سے انہوں نے 1996 ء میں ایم بی بی ایس کیا تو ان کی اپنی ہی نہیں ان کے والد کی خوشی بھی دیدنی تھی۔بستی جندانی سے دور پرائمری سکول میں اپنی استانی کو اپنا خواب بتانے والی بچی اب ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ بن چکی تھی۔آج وہ ڈیرہ غازی خان میں اپنا ہسپتال چلا رہی ہیں اور سرائیکی وسیب کے طول و عرض سے آنے والی خواتین کے زخموں پر مرہم رکھتی ہیں۔

شاعری کا سفر بعد میں شروع ہوا ۔جب بچی نے سکول کی ایک کاپی پر ریڈیو سے کوئی گیت یا غزل نقل کی تھی تو اس وقت اسے خود بھی معلوم نہ تھا کہ کبھی اس نے بھی ایسی ہی غزلیں کہنی ہیں۔لیکن یہ عمل بتاتا ہے کہ شاعری اس کے لاشعور میں کہیں اس وقت بھی موجود تھی ۔شعری سفر اس نے اس وقت شروع کیا جب وہ ڈاکٹر بن چکی تھی۔وقت پر لگا کر اڑ رہا تھا ۔روز و شب معمول کے مطابق بسرہورہے تھے۔موسم تبدیل ہوتے ،شاموں صبحوں اور صبحیں شاموں میں بدلتی تھیں۔ایسے میں ایک شام دبے پاؤں آئی اور ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے جیون میں ٹھہر گئی۔ملتان میں ہی اپنے قیام کے آخری دنوں کی ایک شام ان کے شعری سفرکاآغازبنی ۔شام دلفریب بھی ہوتی ہے اور دل فگار بھی۔یہ دن ڈھلنے کااستعارہ بھی ہے اور وصل کا پیغام بھی۔ہاں یہ شام اگر جیون میں ٹھہر جائے تو آنکھوں کی چمک ماند پڑ جاتی ہے اوراداسی چہرے پر تحریر ہوتی ہے ۔کوئی منظر ،کوئی لمحہ ،کوئی ساعت ایسی ضرور ہوتی ہے کہ جو ہمارے جیون اور ہماری روح میں بسیر ا کرتی ہے ۔یہ ساعت کوئی صبح بھی ہوسکتی ہے اور کوئی شام بھی،کوئی مسکراتا لمحہ بھی اور کوئی اشک بہاتا موسم بھی۔لیکن حقیقت کچھ اور ہوتی ہے ۔حقیقت یہ ہوتی ہے کہ موسم ،لمحے یا ساعتیں جیون میں نہیں ٹھہرتیں ہم خود ہمیشہ کے لئے کسی موسم ،کسی لمحے یا کسی ساعت میں ٹھہر جاتے ہیں۔جیسے ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ ایک شام میں خود ٹھہر گئیں اور اب کہتی ہیں ’’اور شام ٹھہر گئی‘‘۔

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ نے اپنے تیسرے شعری مجموعے کو ’’اور شام ٹھہر گئی‘‘ کا عنوان دیا تو شام کو ایک نئی معنویت مل گئی۔یہ عنوان ان کی ذات سے بالاتر ہو کر پورے معاشرے کا منظرنامہ بن گیا ہے۔ہم جس معاشرے میں سانس لیتے ہیں ،جس ماحول میں بظاہر زندہ ہیں وہاں ہم سب کی زندگیوں میں شام ٹھہر چکی ہے۔ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی شاعری میں بہت سی سچائیاں ہیں اور بہت سی تلخیاں۔وہ تمام تلخیاں اور سچائیاں جو ہمارے گرد و پیش میں موجود ہیں ۔بہت کچھ انہوں نے کہہ دیا اور بہت کچھ ان کہا رہنے دیا۔یہ کتاب سرائیکی وسیب کی خواتین کی زندگیوں سے وابستہ شام کی کہانی ہے۔وہ شام جو ان کے جیون میں ٹھہر گئی یا جس شام میں انہیں ہمیشہ کے لئے مقید کر دیا گیا۔ایک شامِ غریباں ہے جو اب صرف شام کے بازاروں اور درباروں سے ہی وابستہ نہیں اس دھرتی کی ہر گلی،ہر کوچے اورہربستی میں برپا ہے۔ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی اس کتاب میں ہمیں ان کے ذاتی دکھ اجتماعی دکھوں سے ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں اور یہی اچھے شاعر کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنے دکھوں کو صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رہنے دیتا۔ اگر ان کے شعر ،ان کی غزلیں اور ان کی نظمیں ہر خاص و عام میں پسند کی جاتی ہیں تو ا س کی بنیادی وجہ ان کے جذبوں کی سچائی ہے۔بات دل سے نکلتی ہے تو پھر دلوں پر دستک بھی ضرور دیتی ہے۔ان کی غزلوں اور نظموں میں ہمیں ایک خاص اداسی دکھائی دیتی ہے جو قاری کو اپنے حصار میں لیتی ہے۔

آج ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ تین شعری مجموعوں کی خالق ہیں۔ان کی پہلی کتاب ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ اور دوسری ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی۔ہر مرتبہ ہمیں وہ آگے کاسفر طے کرتی دکھائی دیں۔وہ استانی جس نے ان کی ڈائری میں غزلیں دیکھ کر تشویش کا اظہار کیا تھا اب کہاں اورکس حال میں ہیں یہ تو کسی کو معلوم نہیں لیکن ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ اب ڈیرہ غازی خان ہی اپنے پورے وسیب کی پہچان بن چکی ہیں،ماں بن چکی ہیں۔ایک مسیحا کی حیثیت سے بھی اور ایک شاعر کے طور پر بھی۔وہ دن رات مسیحا بن کر خواتین کے زخموں پر مرہم رکھتی ہیں ۔ان کے دکھ سنتی ہیں اور ان دکھوں کا مداوا بھی کرتی ہیں۔پھر انہی دکھوں کو قرطاس پر رقم کر دیتی ہیں۔ان کی شاعری عورت کے دکھوں کی کہانی ہے۔وہ عورت جس کے قدموں کے نیچے جنت ضرور ہے لیکن اس تنگ نظر معاشرے کا مرد اسے اپنے پاؤں کی جوتی سمجھنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔وہ عورت جسے تیزاب پھینک کر قتل کیا جاتا ہے،جسے مرد کی غیرت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے اورجسے قرآن کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے۔ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ اب ان تمام خواتین کی آواز ہیں۔

وہ ایک با وقار،مہذب اورشائستہ خاتون ہیں۔انہوں نے ثابت کیا کہ عورت اپنے تقدس کو  برقرار رکھتے ہوئے بھی وہ سب کچھ حاصل کرسکتی ہے جس کے حصول کے لئے بعض خواتین سبھی کچھ داؤ پر لگا دیتی ہیں۔وہ ایک مثال ہیں ان سینکڑوں ہزاروں لڑکیوں کے لئے اور ان کے والدین کے لئے جنہیں کسی انجانے خوف اور اندیشے کے باعث تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔انہوں نے ثابت کیا کہ والدین جب اپنی بیٹیوں پراعتماد کرتے ہیں تو بیٹیاں بھی ان کے اعتماد پر پورا اترتی ہیں اور ان کے وقار کو کبھی ٹھیس نہیں لگنے دیتیں ۔انہیں اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے شاعری کے لئے بہت کم وقت ملتا ہے لیکن اس کم وقت میں بھی انہوں نے جس تیزی کے ساتھ ارتقائی مراحل طے کیے وہ قابل ستائش ہیں۔ان کے پاس نثر میں بھی بہت کچھ موجود ہے۔بہت سی تحریریں اور بہت سی ڈائریاں جوان کے نثر پاروں سے بھری ہوئی ہیں ابھی اشاعت کی منتظر ہیں۔ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ان کی نثر بھی جلد منظر عام پر آئے گی اور وہ اسی ثابت قدمی ،لگن اور وقار کے ساتھ یہ ادبی سفر جاری رکھیں گی۔اور ان کی تقلید میں دور افتادہ بستیوں کی اور بہت سی لڑکیوں کو بھی پرواز کا حوصلہ ملے گا اور جب بستیوں کی لڑکیوں میں حوصلہ آئے گا تو معاشرے سے بہت سی پستیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔

٭٭٭

 

ٹھہری ہوئی شام میں روشنی کی تلاش

۔۔ شاکر حسین شاکر

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کا شمار اُن شاعرات میں ہوتا ہے جنہوں نے بہت مختصر وقت میں اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کروایا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران شائع ہونے والے اُن کے شعری مجموعوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں اُن کے ہاں بتدریج ایک ارتقائی عمل دکھائی دیتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی شاعری میں جو پختگی آئی اُس کا ثبوت اُن کا زیرِ نظر شعری مجموعہ ہے۔ نجمہ شاہین کی شاعری سرائیکی وسیب میں رہنے والی ہر عورت کے دکھوں کی کہانی ہے۔ محبت اُن کی شاعری کا بنیادی موضوع ہے جس کی دھیمی دھیمی آنچ پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ وہ بہت سادگی کے ساتھ بات کرتی ہیں۔ وہی انداز جو اُن کی شخصیت سے بھی جھلکتا ہے۔ لفظوں کی بُنت، جذبوں کی سچائی مل کر ایک ایسا منظر بناتی ہیں جس میں اُداسی ہے، ہجر کے دُکھ ہیں اور معاشرتی ناانصافیوں کا نوحہ بھی۔ انہوں نے بہت وقار کے ساتھ یہ شعری سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود شاعری کو وقت دینا اُن کی کمٹمنٹ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں کہ آپ ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض بھی تندہی سے انجام دیں اور پھر شاعری کے کٹھن خارزار میں بھی ثابت قدمی کے ساتھ سفر جاری رکھیں۔ ادبی حلقوں نے اُن کے پہلے دو شعری مجموعوں کو بھرپور پذیرائی دی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تیسرا شعری مجموعہ اُس سے کہیں زیادہ مقبولیت حاصل کرے گا اور ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ ٹھہری ہوئی شام میں سے روشنی تلاش کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گی۔

٭٭٭

 

حنائی رنگ، غنائی آہنگ

 ۔۔ بشریٰ رحمٰن

ڈاکٹر نجمہ شاہین کی شاعری کا رنگ حنائی ہے ۔حنا ہمیشہ دو رنگوں کا امتزاج ہوتی ہے ۔حیا دار سبز رُتوں کے اندر جذبوں کا سرخ رنگ بھینی بھینی خوشبو دیتا ہے تو غنائی سُر بیدار ہونے لگتے ہیں۔جو سہاگ کی گت پہ ملن کے گیت چھیڑ دیتے ہیں اور وراگ کے موسم میں ہجر کی کافیاں سناتے ہیں۔یہ رنگ سبک ہتھیلی کو سرخی عطا کرتا ہے مگر مقدر کی لکیروں پر کبھی حاوی نہیں ہو سکتا۔پھر بھی حنا کے رنگ کے اندر غنائیت کی جو ادا پنہاں ہے ۔۔وہ کسی اور رنگ میں نہیں ہے۔

حسنِ اتفاق ہے کہ ڈاکٹر نجمہ شاہین مسیحائی کی ڈگر پر نکلی ہے ۔یہ ڈگر تھی تو مشکل مگر اس کے اندر انسانیت کے لئے وقار اور پیار کا انمول خزینہ تھا۔قدرت نے ویسے بھی عورت کے ذمے کوئی نہ کوئی مسیحائی لگا رکھی ہے۔وہ ماں کی صورت میں ہو ، بہن ،بیٹی یا بیوی کی شکل میں ہو۔اُس کا وجود، اُس کا دَم درود اور اُس کا مقصودانسانی زنجیر میں بندھے ہوئے رشتوں کو بڑھاوا دینا اور دوام بخشنا ہوتا ہے۔اس لئے تقدیر نے نجمہ کے ہاتھ میں قلم کے ساتھ نشتر بھی پکڑا دیا۔ایک طرف حنائی ہنر عطا کر دیاتو دوسری طرف مسیحائی کی ادا بھی بخش دی۔۔غنائی لہجہ اُس کو شاعری نے دیا۔

قلم اور نشتر کا بڑا قدیم رشتہ ہے۔کبھی نشتر سب دکھوں کی دوا بن جاتا ہے اور کبھی قلم درد کا اندمال بن جاتا ہے۔ڈاکٹر نجمہ شاہین دونوں سے بہت خوبصورت کام لے رہی ہے۔شعوری طور پر وہ انسانیت کی خدمت کر رہی ہے اور لاشعوری طور پر وہ محبت کی خوش رنگ کلیاں چُن کر ان کی مالا پرو رہی ہے۔اس لئے اس کی شاعری خوشبوؤں کی پھوہار لگتی ہے۔ہجر، فراق، انتظار، رَت جگے، اضطراب، بے کلی ،آس، امید سب محبت کے قبیلے میں شامل ہیں۔

محبت دل کی وہ اداسی ہے جو زندہ رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔جو دنوں کو شاموں سے ملا کر رکھتی ہے۔۔جو رات کو دئیے کی طرح جلاتی ہے ۔ کبھی کبھی ادراک کے کسی طاقچے میں کوئی شام ٹھہر جاتی ہے ۔۔اور پھر ہر شام اُس پر سے نثار ہوتے ہوئے گذرتی ہے۔

یہ ہجر کا راستہ ہے جس پر میں تنہا تنہا سی چل رہی ہوں

بس اُس کی یادوں کی دھول ہے اور مَیں قطرہ قطرہ پگھل رہی ہوں

ڈاکٹر نجمہ شاہین کی شاعری کی دوسری خوبی اُس کا شیریں لب و لہجہ ہے۔اُس کی مٹھاس ہے۔خواجہ غلام فریدؒ کی دھرتی کے اندر ویسے بھی بڑی مٹھاس ہوتی ہے ۔نجمہ جب بات کرتی ہے تو اس کے لہجے کی شیرینی ماحول کو رنگین بنا دیتی ہے اور جب شعر کہتی ہے تو کلبلاتے ، تڑپتے، مچلتے اور سسکتے جذبوں کے اوپر شہد کا چھڑکاؤ کرتی جاتی ہے۔وہ انسانوں کی دنیا میں انسانوں کے لئے سکھ اور سکون کی خیرات مانگنے نکلی ہے۔۔وہ چاہتی ہے کسی آنکھ میں آنسو نہ ہوں ، کوئی مانگ نہ اُجڑے۔۔کوئی دل نہ ٹوٹے ۔۔نظامِ ہستی میں بلندی پستی ، اونچ نیچ نہ ہو۔

یہ دیس جس میں ہے نفرتوں کا ہی راج ہر سُو

محبتوں کی ہو راجدھانی تو نیند آئے

اور

شاہین دورِ جبر میں جینا محال ہے

کب تک ہمارا ساتھ نبھائے گی اے وفا

نجمہ کی شاعری دلِ زندہ کی شاعری ہے ۔حساس جذبوں سے لدی پندی۔،صحراؤں کی منہ زور ہواؤں نے اس کی پرورش کی ہے اور ریت کے ذروں نے اسے چمکنا سکھایا ہے ۔ میں تو اس خوبصورت شاعرہ سے یہی کہوں گی کہ دل کے لہو میں قلم ڈبو کے نشتر کی طرح چلاتی رہو ۔۔یہی تمہارا سنگھار ہے او ر یہی تمہارا پیار ہے ۔

11؍ فروری 2013ء

٭٭٭

 

نئے شعری امکانات کی مشعل بردار

۔۔ جاوید احسن

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ ہمارے وسیب کی ایک ہر دلعزیز لیڈی ڈاکٹر، دلآویز شخصیت کی مالک اور اُردو شاعرہ ہیں۔ ان کا تعلق ضلع ڈیرہ غازی خان کے معروف قبیلہ کھوسہ کے ایک معزز بلوچ گھرانے سے ہے جو حصول تعلیم، اور روزگار کے بہتر مواقع کے پیش نظر گاؤں سے شہر میں منتقل ہوا۔ پھر یہیں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ نجمہ نے ابتدائی تعلیم مقامی تعلیمی اداروں سے حاصل کی اور ایف ایس سی (پری میڈیکل) گورنمنٹ گرلز کالج ڈیرہ غازی خان سے نمایاں پوزیشن کے ساتھ پاس کی۔ بعد ازاں نشتر کالج ملتان میں داخلہ لیا اور 1996ء میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن گئیں۔ آپ نے نشتر ہسپتال ہی میں دو سال تک گائنی اور میڈیکل کے شعبوں میں ہاؤس جاب کی۔ چنانچہ نشتر میڈیکل کالج اور ہسپتال میں نہ صرف آپ کی زندگی کا ایک سنہرا خواب تعمیر آشنا ہوا بلکہ اس کالج کی خوشگوار یادیں ان کی زندگی کا بہترین اثاثہ بن گئیں۔ شاید ان کی شاعری کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔

ڈاکٹر نجمہ شاہین سے پہلے پہل، میرا تعارف اس وقت ہوا، جب وہ اپنا پہلا مجموعہ کلام ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ 2007ء میں منظرِ عام پر لا چکی تھیں اور مقامی ادبی حلقوں میں بطور شاعرہ متعارف ہو رہی تھیں۔ کتاب کا نام اتنا جاذب نظر تھا کہ اُردو کی نامور شاعرہ پروین شاکر کی یاد تازہ ہوتی تھی۔

ابھی اس شعری گلدستے کی پذیرائی جاری تھی کہ تین سال کے قلیل عرصہ میں اِن کا دوسرا دیدہ زیب شعری مجموعہ ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ 2010ء میں مارکیٹ میں آگیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شاعرہ کا نام قومی سطح پر میڈیا اور ادبی منظر نامے میں نمایاں نظر آنے لگا۔

ڈیرہ غازی خان کے مشہور شاعر سید محسن نقوی مرحوم کے بعد ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ دوسرا نام ہے جسے میڈیا اور ادبی حلقوں میں یکساں پذیرائی حاصل ہے۔ ان کی متاثر کن فعال شخصیت، وجاہت، خوش اخلاقی اور پیہم تخلیقی عمل کا کرشمہ ہے کہ وہ سالوں کا فاصلہ دنوں میں طے کر رہی ہیں۔ بقول شاعرہ

شاہینؔ راہِ شوق میں منزل کہیں نہیں

پیشِ نظر ہے زندگی میدان کی طرح

ڈاکٹر نجمہ شاہین کی شاعری، آزاد اور نثری نظمیں اور جدید شگفتہ غزلیں اس بات کی غمازی ہیں کہ وہ بھرپور تخلیقی توانائی اور خوبصورت مقصد کے ساتھ نئے شعری امکانات کی کہکشاں سجانے اور اپنی باطنی کیفیات کا کیتھارسس کرنے میں مصروف ہیں اور یہی ان کی ذات کا بھید بھی ہے اور تشنہ لب روح کی آواز بھی۔ اس حوالے سے دیکھیے چند اشعارِ آبدار :

وہ بھی دن تھے کہ نگاہوں میں دھنک رہتی تھی

اب تو گھیرے ہوئے رہتی ہے سیہ رات ہمیں

سب کے سب سونپ دئیے حرفِ محبت تجھ کو

اس سے بہتر نظر آئی نہیں سوغات ہمیں

اک مہک سی گذری ہے وہ جہاں سے گزرا ہے

راستہ وہ اب سارا گلستان جیسا ہے

٭٭٭

 

کچھ سوچیں، کچھ باتیں آپ سے ۔۔ پیش لفظ

’’ پھول سے بچھڑی خوشبو ‘‘ اور ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں ‘‘کے بعد سوچا تھا کہ شاید سفر کٹ گیا۔ مگر یہ دکھ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ تنہائیوں، محرومیوں،محبتوں اور جدائیوں کے دکھ ، کہیں انت ہی نہیں ٹھہرتا ان کا۔

کبھی گھٹن بن کر دل کو مٹھی میں کر لیتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انت ہو گیا اور کبھی دور پرے کھڑے مسکراتے اُسی گھٹن کو کم کرتے ہیں ، روشنی بنتے ہیں اور اپنی ذات کی تلاش پھر سے شروع ہو جاتی ہے ۔اِک چاک مل جاتا ہے جس پر ہم گھومتے ہیں اور اِک محور مل جاتا ہے جو ہمیں اپنے گرد دائرہ در دائرہ گھماتا ہے۔ ہم اپنی جستجو میں ہوتے ہیں مگر بھلا دائرے میں بھی کوئی جستجو مکمل ہو ئی ؟ دائرہ بن کے گھومنا تو بس گھومنا ہے جب رُک گئے تو دائرے میں گھومنے والا ہر ذرہ صرف اپنی جگہ سمٹ کر رُک جائے گا وہ اُس خلا کو پُر نہیں کر سکے گا جو اُسے ذات کے اندر قطار در قطار کھڑے دُکھوں ، گرد بنتی ہواؤں اور پس منظر میں سمٹتی ، جدائیاں بانٹتی رفاقتوں نے عطا کیا۔

ایسی رفاقتیں جو اداسی ، ہجر ، خاموشی ، اضطراب ، امید، یاس ، سُکھ، دُکھ، ہنسی، آنسو ، آرزو، خلش اور کسک بانٹتی ہیں۔ جو دل کی دنیا کو غم کے اندھیروں کے باوجود روشن و منور کرتی ہیں۔ سرِشام یادوں کے دیئے جلائے ، دل کے اندر بہتے لہو کے آنسوؤں سے اپنی لَو کو جلانے کی صدیوں پرانی روایت پر ڈگر بہ ڈگر چلتی جاتی ہیں اور بھلا ایسا کیوں نہ ہو یہ رفاقتیں وہی تو ہیں جنہیں اپنی اہمیت کا احساس ہے جنہیں فخر اور غرور ہے اپنے ہونے کا اور دوسروں کے دل میں سب سے اونچی مسند پانے کا۔جنھیں معلوم ہے کہ وہ کوئی مرہم رکھیں یا نہ رکھیں دل کا زخم ناسور بنتا رہے گا اور بن بن کے بگڑے گا مگر ازل تا ابد ختم نہیں ہو گا۔انہیں تا حشر اپنی ذات کا زعم ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ ایسی لوح تو کہیں کہیں ملتی ہے کہ جس پر کسی انمٹ سیاہی سے جو نقش کندہ کر دیا جائے وہ پھر مٹا نہیں کرتا۔یہ سُکھ ، یہ آرزوئیں ، یہ سانسیں ، یہ حرف ، یہ لفظ ، یہ شاعری غلام ہی تو ہیں بس اُن رفاقتوں کے۔یہ جستجوئے ذات جو شروع تو اپنی ذات سے ہوتی ہے مگر اس کا ہر رُخ ،ہر موڑاُن رفاقتوں تک محدود ہوتا ہے ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ دُکھ کبھی کبھی تھکا دیتے ہیں کسی سُکھ کو پانے کی تمنا میں دل مچل اُٹھتا ہے ، روح کی تھکن بڑھ جاتی ہے اور روشنیاں بانٹتی اس دنیا میں چاند کی کرنوں سے چند کرنیں لے کر اپنا جیون روشن کرنے کو دل کرتا ہے۔چاند جو منور ہے ، روشن ہے ، جس کی ٹھنڈی چاندنی جب اَوج پر ہو تو ساحل کی لہروں میں طوفان برپا کر دیتی ہے اور جب بے آب و گیاہ صحرا پر پڑتی ہے تو سراب پیدا کرتی ہے مگر یہ دنیا ہے یہاں تو ہم نے کبھی کبھی کہیں کہیں چاند کو بھی اندھیرے بانٹتے دیکھا ہے۔پہاڑ جیسی ہجر کی شاموں سے لے کر بھیانک اندھیری راتوں میں کہیں اِس کی ایک کرن بھی نہیں ملتی کہ زیست کو بتانے کا کوئی حوصلہ ہی مل سکے۔

ایسے میں سُکھ کی یہ خواہش خودبخود اپنی موت مر جاتی ہے ۔پھر ذات کی وہی تنہائی اور دُکھ کا وہی لامحدود صحرا ۔ اور ازل سے لے کر ابد تک اکیلے پن کا وہی سفر ، وہی ریزہ ریزہ خوابوں کی چُبھتی کرچیاں ، محرومیوں کے بوجھ تلے دبی خواہشیں ، دم توڑتی محبتوں کی بے ترتیب ہچکیاں ، پا بُریدہ حسرتوں کی لاشیں ۔۔بھلا اِس اُجاڑ سفر میں کون کسی کا ساتھ دے، کون مجروح جذبوں پر دلاسوں کے ’’ُ پھاہے‘‘ رکھے ۔ کون ساتھ دے سوائے اپنے ہی دُکھ اور تنہائی کے۔اور اسی تنہائی کے بنجر بن میں گئی رُتوں سے یادوں کے چراغ جلا کر، جذبوں کی محفلیں سجانا اور اُن محفلوں میں گلاب اُگانا اور اپنے بے ربط اور بے ترتیب بہہ جانے والے آنسوؤں سے ان گلابوں کو سراب کرنا اور ان سرابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے رنگوں اور روشنیوں سے سیاہی بنانا اور اسے صفحۂ قرطاس پر لفظوں کی صورت بکھیرنا اِسی کا نام شاعری ہے۔

مگر کیا شاعری سب بولتی ہے ۔ کیا شاعری وہ سب کہہ سکتی ہے جو کہا جانا چاہئے ؟ اِن سنگلاخ درد کے پہاڑوں سے گزرتی، اپنی ناتواں جاں پر تندو تیز ہواؤں کے طوفان برداشت کرتی کرب کی اِن مسلسل راتوں کی کہانی ، بے یقنی اور مایوسی کی دھُول سے اٹی ہوئی بے خواب راتوں کی کہانی ، یہ رتجگوں کے عذاب اندھی راتوں میں اِک امید سحر باندھے مسلسل جاگتی ،بینائی کھوتی اُن آنکھوں کی کہانی ، کیا یہ شاعری کہہ سکے گی مگر کہاں ؟

یہ لفظ بے شک بہت توقیر والے سہی، جذبوں کی جاگیر سے گُندھے ہوئے ، دل کے سے چراغ جلاتے ۔۔مگر یہ لفظ کبھی حرفوں کی صورت میں بول اُٹھتے ہیں۔اور کبھی کبھی دیوان بن کر بھی صرف ردی کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ انہیں اس سے کیا کہ انہیں لکھنے والے کس اذیت اور کرب سے گُزرے ہیں۔

اِک چھوٹی سی بستی کی پگڈنڈیوں پر ننھی ،چہکتی ، کھکھلاتی گڑیا کا ایک لامحدود سفر ، ایک انت نہ ہونے والا امتحان ۔ یہ کیسا امتحان ہے کہ وہ پیدائش سے لے کر اپنے انجام تک سَپلی کے پیپر دیتی رہی اور کبھی پاس نہ ہوئی ۔ سوچتی ہوں کیا وہ ممتحن کو پسند آ گئی یا وہ اس قابل ہی نہ تھی کہ پاس ہو سکے اور اپنی منزل پر پہنچے۔ کبھی کبھی یہ سوچ عجیب لگتی ہے کہ کیا کمی تھی ، سُندرتا کے سانچے میں ڈھلی ، عقل و شعور سے معمور ، اِک کُٹیا کے کونے کو اپنے سجدوں سے روشن منور کیے ہوئے، عشق اور آگہی کا حقیقی شعور لئے، چوڑیوں کی کھنک اور حنا کے رنگوں سے ماورا اپنے ہاتھوں میں شفاء کی نرمی لیے ، مسیحائی کا روپ لیے ، ملتزم اور حطیم میں کیے سجدوں سے سجی جبیں لیے ، جذبوں کی رعنائی کے رتھ پہ سوار اُس معصوم لڑکی میں جو اتنا سچ، اتنا شعور پا لینے کے با وجود اپنی آنکھوں کو کسی ہجر کی شام کے دُکھ میں ڈھلتا دیکھ رہی ہے۔ایسا ہجر جس میں وصل کا کوئی ایک پل بھی نہیں۔ یہ کیسی شام ہے جو اُس کی آنکھوں میں ٹھہر گئی ہے ؟یہ کیسا ادراک ہے جس میں کشف ہونے کو وہ موم کی مانند پگھل رہی ہے؟ یہ کیسی منزل ہے جس کے لیے وہ ہاتھ اُٹھا بیٹھی ؟بنا سوچے کہ ایسی دُعائیں محض نوحہ بن جاتی ہیں۔

ایسی دعاؤں سے دھرتی چُپ اور اَمبر ساکت ہو جاتا ہے۔یہ کیسا احساس زیاں ہے اور عظیم اُداسی ہے جو ہر پل اُس کی ذات کے اندر دھمال ڈالے رکھتی ہے ۔ یہ کیسے خیالات کا جھکڑ ہے کہ جس کا شور دماغ کو پاش پاش کیے رکھتا ہے۔یقینی اور بے یقینی کی سرحد پہ کھڑے وہ گزری صدائیں وہ آپس میں گڈ مڈ بیتے لفظ ، وہ عجیب گریز پا لمحے ، وہ بھید بھرے اسرار اُس کے دل و دماغ کو دیمک کی طرح چاٹتے رہتے ہیں۔اور وہ اِن بیتے لمحوں کو تصویر کرتی ہے مگر سب قاتل لمحوں کو کون تصویر کرے ۔

اس سے بڑھ کر مری وفا کا کوئی نہیں گواہ

غزلیں، نظمیں، سجدے، آنسو، اور اک شب سیاہ

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ

نومبر 2012ء

drnajmashaheen@yahoo.com

٭٭٭

 

حمد

اے میرے مولا اے میرے آقا،بس اپنے رستے پہ ڈال دے تو

یہ فانی دنیا کے غم ہیں جتنے ، یہ میرے دل سے نکال دے تُو

ہو نام تیرا ہی دل کے اندر، ہو ذکر تیرا مرے لبوں پر

ہو اتنی سچی یہ میری چاہت، کہ عشق بھی بے مثال دے تُو

کسی کو رنگ اور نور دے دے، کسی کو عقل اور شعور دے دے

تُو جس کو جو کچھ بھی دے اے مولا،مجھے اک اپنا وصال دے تُو

میں عشق میں تیرے ڈھل ہی جاؤں ،ہر ایک رہ پر سنبھل ہی جاؤں

کرے مری روح رقص جس پر ، مجھے وہ سُر اور تال دے تُو

یہ پھول کلیاں ، ستارے خوشبو، مری زبان اور ترجماں ہوں

اب اپنی مدحت کی ایسی قدرت اے مالکِ ذوالجلال دے تُو

٭٭٭

 

نعت

مَیں مدینے جو پہنچی تو دل میں مرے روشنی ہو گئی

روح مردہ تھی لیکن مجھے یوں لگا زندگی ہو گئی

پھر سحابِ کرم سے خزاؤں میں بھی پھول کھلنے لگے

دیکھ کر سبز گنبد بہاروں سے بس دوستی ہو گئی

ہے مرے واسطے تو یہ روشن مدینہ ہی روشن جہاں

چاند یثرب سے اُبھرا تو چاروں طرف چاندنی ہو گئی

آپؐ علم و محبت کا پیغام لے کر جو آئے تو پھر

بس وہ ظلمت جہالت جہاں میں بہت اجنبی ہو گئی

میرا ماتھا چمکنے لگے گا میں خود بھی نکھر جاؤں گی

دھول شہرِ نبیؐ کی جبیں پر اگر دائمی ہو گئی

تھی جو اک کیفیت رنج اور درد کی کب سے گھیرے ہوئے

مجھ پر اُن کے کرم کی نظر جو پڑی وہ خوشی ہو گئی

آپؐ کی شان کے لفظ ملتے نہ تھے میں پریشان تھی

آپؐ نے لفظ بھیجے تو آقا مری نعت بھی ہو گئی

٭٭٭

 

سلام

دکھوں کی تفصیل لکھنے بیٹھوں تو اشک اپنے تمام لکھوں

لہو میں ڈوبیں جو حرف سارے، امام تیرا سلام لکھوں

وہ جس نے سجدے میں سر کٹا کے ہمیں نوازا بلندیوں سے

وفا کے سجدوں کے شاہ کو ہی میں آج شاہ و اما م لکھوں

یہاں سکینہ کا، اصغر ،اکبر کا اور قاسم کا تذکرہ ہے

ورق ورق پر ہیں اشک پھیلے میں حرف حرف احترام لکھوں

مجھے شہیدوں کا ذکر کرنا ہے سوچ کو معتبر تو کر لوں

قطار میں سارے لفظ رکھوں ،ملے جنہیں پھر دوام لکھوں

ہماری گلیوں میں قتل کب تک روا رہے گا ،سوال پوچھوں

ہمارے ظلمت کدے میں کب ہو گا روشنی کا قیام لکھوں

یہی تقدس ہے اب تو میرا،اسی سے نجمہ مری حفاظت

میں اپنی چادر کے چاروں کونوں پہ بی بی زینب کا نام لکھوں

٭٭٭

 

محبتوں کا یہ طورِ سینا

سنو مسافر

یہ دل صحیفہ سہی مگر اس پہ چاہتوں کی

کوئی کہانی رقم نہ ہو گی

کہ چاہتوں کی ہر اک کہانی اداس آنکھوں سے جھانکتی ہے

اداس چہروں پہ ہی رقم ہے

سو میری مانو تو دل صحیفے کو گزرے وقتوں کی داستانوں سے ہی سجاؤ

یہ دل کی زرخیز جو زمیں ہے

تم اس پہ خوشیوں کے رنگ کاڑھو

اسے گلابوں سے ہی سجاؤ

سنو مسافر

محبتوں کا یہ طورِ سینا

بھٹکتے رہنے کا راستہ ہے

بہت بلندی پہ جانے والوں کو منزلوں کی خبر نہیں ہے

کئی مسافر بھٹک چکے ہیں

کہ اُن کو رستے جھٹک چکے ہیں

ہر اک مسافر کے راستے میں نہ کوئی جنت نہ کوئی دوزخ

اگر ملا بھی کسی کو کچھ تو

ملا ہے بس ہجر کا ہی برزخ

ہاں کچھ مسافر جو طورِ سینا کی عشق منزل پہ جا کے ٹھہرے

اُنہیں بھی مایوسیاں ملی تھیں

اُنہیں تجلی نہیں ملی تھی

کوئی تسلی نہیں ملی تھی

سو وہ محبت کی آیتوں کے بغیر لوٹے

عنایتوں کے بغیر لوٹے

سو اے مسافر

مری جو مانو تو لوٹ آؤ

یہ دل صحیفہ سہی مگر

اس پہ چاہتوں کی کوئی کہانی رقم نہ ہو گی

٭٭٭

یہ ہجر کا راستہ ہے جس پر میں تنہا تنہا سی چل رہی ہوں

بس اُس کی یادوں کی دھوپ ہے ، اور میں قطرہ قطرہ پگھل رہی ہوں

یہ وصل لمحوں کی روشنی ہے جو دل کی دنیا میں آ بسی ہے

مہکتی یادوں کی چاندنی ہے ، میں جس کی کرنوں سے جل رہی ہوں

رہِ وفا میں بھٹکتی رہتی جو تیرے سپنوں میں گم نہ ہوتی

ترے خیالوں میں جی رہی ہوں ، ترے تصور میں ڈھل رہی ہوں

شکستہ خوابوں کی کرچیاں ہیں جو میری آنکھوں میں چبھ رہی ہیں

میں خار زاروں میں چل رہی ہوں ، میں گرتے گرتے سنبھل رہی ہوں

زمانے بھر کی یہ تلخیاں ہیں جو میرے لہجے میں آ بسی ہیں

مَیں اپنے شعروں میں دھیرے دھیرے ، یہ زہر مایہ اگل رہی ہوں

کروں گی کیا بال و پر کو اپنے قفس میں جینا جو لازمی ہے

کہاں ہے شاہین شادمانی ، دکھوں کی دنیا میں پل رہی ہوں

٭٭٭

 

دسمبر لوٹ جاتا ہے

اُسے کہنا کہ حیرانی مجھے حیرت سے تکتی ہے

مرے جیون پہ خود بھی زندگی روتی ہے

ہنستی ہے

نظر جب بھی ہتھیلی کی لکیروں سے الجھتی ہے

ان آنکھوں سے جھڑی ساون کی پھر کچھ ایسی لگتی ہے

مرا دل رک سا جاتا ہے

مہینہ ہجر کا جب بھی مرے آنگن میں آتا ہے

اداسی کے ہر اک منظر کو وہ موجود پاتا ہے

نگاہوں کو جھکا کر بس دسمبر لوٹ جاتا ہے

٭٭٭

 

کبھی محبت ، کبھی تو اپنی انا کی خاطر بھی مارتے ہیں

یہ بھیڑئیے شاہزادیوں کو خدا کی خاطر بھی مارتے ہیں

یہ مقتلوں کی روایتیں بھی عجب ہیں نجمہ یہاں پہ اکثر

گلا دبا کر کسی کو اپنی صدا کی خاطر بھی مارتے ہیں

٭٭٭

 

ایک سوال

دیکھ مسیحا میرے لب پر کب سے ایک سوال

کیسے چھیلوں اپنی آنکھ سے میں اس غم کی چھال

ایک پرندہ قید میں ہے اک مدت سے بے حال

اندر ہجر کا موسم ہے اور باہر وصل کا جال

جنم جنم کے بچھڑے چل کر ایک نکالیں فال

کتنے موسم باقی ہیں اور کتنے ماہ و سال

کتنے آنسو تیری ہیں اور کتنے میرے باقی

اور کہاں تک پھیلا ہے یہ دکھ کا اک جنجال

حدِ نظر تک تاریکی میں درد بھرا ہے راگ

اور اس راگ نے چھینے مجھ سے جیون کے سُر تال

اک چڑیا کُرلاتی تھی بس تنہا پنجرے بیچ

اور باہر کوئی پھول اٹھائے پوچھ رہا تھا حال

ہجر کی تاریکی خوشیوں پر روز کرے اب وار

آج مسیحا لے کر آجا کرنوں کی تو ڈھال

دکھ یہ کیسا ، جس سے میری آنکھیں اب ویران

اور ویرانی میں گزرے ہیں بس یہ ہجر کے سال

٭٭٭

 

گیت

زندگی رک جا ذرا ۔۔۔

زندگی رک جا ذرا اب پھر کہاں تُو ہے چلی

زردیوں کے موسموں میں کب کھِلی کوئی کلی

پھر کہاں تُو ہے چلی

دیکھ وہ اک یاد دل میں موجزن ہے آج بھی

آنکھ میں جو خواب تھے اُن کی چبھن ہے آج بھی

جانتی ہے سامنے تیرے ہے اک اندھی گلی

پھر کہاں تُو ہے چلی

آج بھی رُخ پر ترے کتنے ہی گہرے گھاؤ ہیں

آگ میں دہکے ہوئے اور کچھ سنہرے گھاؤ ہیں

جو دکھوں کی رات تھی وہ بھی نہیں اب تک ٹلی

پھر کہاں تُو ہے چلی

جب وفاؤں کے صلے میں بس وفائیں ہی ملِیں

اس زمانے میں تجھے پل پل سزائیں ہی ملِیں

اور گزرتی جا رہی ہے یہ بری ہے یا بھلی

پھر کہاں تُو ہے چلی

لوگ آئینِ محبت کو نہیں اب جانتے

اور وفا کی منزلوں کو بھی نہیں پہچانتے

کیا ملے گا شمع کی صورت بھی گر تنہا جلی

پھر کہاں تُو ہے چلی

زندگی رک جا ذرا اب پھر کہاں تُو ہے چلی

زردیوں کے موسموں میں کب کھِلی کوئی کلی

٭٭٭

 

موسم ہیں بس چار

میرے بھرم کو توڑنے والے

جفا کا رشتہ جوڑنے والے

میرے دکھوں کو

اور غموں کو دیکھ کے اپنا

رخ مجھ سے یوں موڑنے والے

عمرِ رواں نے اس جیون میں

موسم چار ہی بس دیکھے ہیں

تجھ کو پانا

تجھ سے ملنا

تجھ سے بچھڑنا

اور پھر خود سے بچھڑ کے ہونا

ہر دکھ سے دوچار

موسم ہیں بس چار     ٭٭٭

 

یہ عشق بستی بسانے والو

یہ عشق بستی بسانے والو

مری جو مانو تو لوٹ جاؤ

یہاں تو حاصل فقط زیاں ہے

یہاں بھٹکتے ہر اک مسافرکے پاس دکھ ہے

جو خواب آنکھوں میں بچ گئے ہیں

اب ان کی بھی تواساس دکھ ہے

اے خواب دنیا بسانے والو

وفا کے سپنے سجانے والو

ہے عشق کی بس یہی حقیقت

وفا کی اتنی سی قدرو قیمت جو بِک گیا اُس کا مول ہو گا

وہی ترازو کا تول ہو گا

وگرنہ سب کچھ ہی جھول ہو گا

محبتوں کے تمام دعوے

تمام قسمیں ، تمام وعدے سراب ہیں بس

اور ان کا حاصل عذاب ہیں بس

یہاں بھٹکنے سے پہلے بس اتنا سوچ لینا

فراق راتوں میں پیاسی یادوں کی تیرگی ہے

یہاں تو آنکھوں سے اشک گرتے ہیں

اشک آنکھوں سے زینہ زینہ اُتر کے اکثر

لبوں تک آتے ہی بس چھلکتے ہیں

اور جو پیاسے ہیں

بھیگی آنکھوں کے ساتھ صحرا میں

پانیوں کو تلاش کرتے ہیں

روز جیتے ہیں ،روز مرتے ہیں زندگی میں

رگوں میں خوں تو نہیں ہے ویرانیاں بسی ہیں

بہت سی حیرانیاں بسی ہیں

ہمارے کشکول میں جو خوابوں کے کھوٹے سکے ہیں

ایک دوجے سے بس اُلجھتے ہیں

روز روتے ہیں اور بلکتے ہیں

یہ عشق بستی بسانے والو

مری جو مانو تو لوٹ جاؤ

یہاں کی مٹی تو بانجھ ٹھہری

مت ایسی مٹی میں خود کو گھولو

اگر کبھی پیاس بڑھ بھی جائے

تو پانیوں کی طرف نہ دیکھو

عذاب ڈھونڈو، سراب ڈھونڈو

یہ عشق بستی نہیں بسے گی

مری جو مانو تو لوٹ جاؤ

٭٭٭

 

یہ ہجر کا راستہ ہے جس پر میں تنہا تنہا سی چل رہی ہوں

بس اُس کی یادوں کی دھوپ ہے اور میں قطرہ قطرہ پگھل رہی ہوں

یہ وصل لمحوں کی روشنی ہے جو دل کی دنیا میں آبسی ہے

مہکتی یادوں کی چاندنی ہے ،میں جس کی کرنوں سے جل رہی ہوں

رہِ وفا میں بھٹکتی رہتی جو تیرے سپنوں میں گم نہ رہتی

ترے خیالوں میں جی رہی ہوں ، ترے تصور میں ڈھل رہی ہوں

شکستہ خوابوں کی کر چیاں ہیں ،جو میری آنکھو ں میں چبھ رہی ہیں

میں خار زاروں میں چل رہی ہوں ،میں گرتے گرتے سنبھل رہی ہوں

زمانے بھر کی یہ تلخیاں ہیں ،جو میرے لہجے میں آبسی ہیں

میں اپنے شعروں میں دھیرے دھیرے یہ زہر مایہ اُگل رہی ہوں

کروں گی کیا بال و پر کو اپنے ، قفس میں جینا جو لازمی ہے

کہاں ہے شاہینؔ شاد مانی،دکھوں کی دنیا میں پل رہی ہوں

٭٭٭

 

مجھے جب بھی وہ گلیاں اور وہ رستہ یاد آتا ہے

کوئی دھندلا سا منظر ہے جو اجلا یاد آتا ہے

فضائے دل پہ طاری ہے بہت ہی حبس کا موسم

تری قربت کی خوشبو کا وہ جھونکا یاد آتا ہے

کہا تم تو جدائی کا وہ منظر بھول بیٹھے ہو

خلا میں دیکھ کر مجھ سے وہ بولا ۔’’یاد آتا ہے‘‘

خزاں رُت ہے مگر مجھ کو خیالوں کے تسلسل میں

محبت کے گلابوں کا وہ سپنا یاد آتا ہے

کسی کے دکھ بھرے لمحے میں جب کوئی بلکتا ہے

حقیقت میں اسے ہر زخم اپنا یاد آتا ہے

مسلسل ریت پر چلنا وفا کی رِیت ٹھہری ہے

تری دہلیز تک پھیلا وہ صحرا یاد آتا ہے

وہ لمحہ جو گزرتے موسموں میں ساتھ ٹھہرا ہے

مجھے خود بھی نہیں معلوم کتنا یاد آتا ہے

کبھی جب ہجر کی آہٹ سی دل آنگن میں آتی ہے

بہت اپنائیت سے بس وہ اپنا یاد آتا ہے

ترا ہی عکس اترا ہے مری نظموں میں غزلوں میں

وہ لہجہ تیری چاہت کا وہ چہرہ یاد آتا ہے

 

ہمارا نام لکھا تھا کبھی جو ریت پر اُس نے

کبھی جب یاد آئے تو وہ دریا یاد آتا ہے

مرے آنگن میں جب بھی شام کے سائے اترتے ہیں

مجھے شاہیں محبت کا ہی سایہ یاد آتا ہے

٭٭٭

 

کہیں پہ گرد کہیں پر ہوا بناتی ہوں

میں خود کو اب تو بس اپنے سوا بناتی ہوں

کہیں پہ تارے کہیں پر ہیں آس کے جگنو

خزاں میں بھی میں گلوں کی فضا بناتی ہوں

بکھر گئے تھے کسی نام کے حروف کہیں

اب ان کو جوڑ کر اِک آئینہ بناتی ہوں

یہ طے ہے اُس کو اگر لوٹ کر نہیں آنا

تو کس لیے میں دعا کو عصا بناتی ہوں

اُجالتا ہے یہ تاریکیاں مرے دل کی

تمھاری یاد کو ہر پل دیا بناتی ہوں

جب اپنے اشک چھپاتی ہوں مُسکراہٹ سے

تو اپنے درد کو اپنی دوا بناتی ہوں

تراش کر کسی پتھر کے ایک پیکر کو

کمال عشق سے اُس کو خدا بناتی ہوں

کہ خواب میں رہے تا دیر گفتگو تجھ سے

ذرا سی بات کو میں واقعہ بناتی ہوں

سناتھا میں نے جو شاہینؔ ایک لمحے کو

اس ایک لمحے کو اپنی صدا بناتی ہوں

٭٭٭

 

محبت اک ضرورت ہے

بہت سے لوگ کہتے ہیں

کہ رشتے گر ضرورت سے جڑے ہوں تو

وہ اکثر ٹوٹ جاتے ہیں

ضرورت پوری ہونے پر ضرورت مند اک دوجے سے

اکثر روٹھ جاتے ہیں

مگر یہ بھی حقیقت ہے

کہ یہ دنیا ضرورت ہے

یہاں پر سانس لینا ، بات کرنا

ساتھ چلنا اور دھڑکنا

ہنستے ہنستے ایک دم خاموش ہونا

اور پھر چپکے سے رونا

یاد رکھنا ،بھول جانا

بھول جانے پر کسی کو یاد کر کے مسکرانا

سب ضروری ہے

کسی کا نام لکھ کر ڈائری کو خود چھپانا

گیت لکھنا، گنگنانا

خواب تکنا، راہ تکنا

اور پھر اک دن کسی کی راہ میں چپکے سے مرنا

سب ضروری ہے

یہاں سب کچھ ضرورت ہے

یہاں سب کچھ ضروری ہے

سوتم مانو نہ مانو

بس مجھے تو اچھا لگتا تھا

وہ جب بھی مجھ سے کہتا تھا

مجھے تیری ضرورت ہے

مجھے تیری ضرورت ہے

محبت اک ضرورت ہے

یہی تو اک عبادت ہے

ریاضت ہی ریاضت ہے

٭٭٭

 

چاندنی چپ رہی ، روشنی چپ رہی

میری ہر بات پر زندگی چپ رہی

ہم تو گھٹ گھٹ کے اک روز مر جائیں گے

اس گھٹن میں اگر آنکھ بھی چپ رہی

درد میرا بیاں اِن سے کب ہو سکا

شعر خاموش تھے ، شاعری چپ رہی

اک یقیں تھا پلٹ آئے گا وہ ابھی

میں تو بس اُس کی رہ دیکھتی چپ رہی

مجھ کو مقتل میں جس روز بھیجا گیا

سوچتی ہوں میں کیوں اُس گھڑی چپ رہی

میں نے شاہین جیون گزارا ہے یوں

نیند میں بات کی ، جاگتی چپ رہی

٭٭٭

 

ابتدا درد ہے، انتہا درد ہے

عشق کا درد تو لا دوا درد ہے

میں نے پوچھا وفا کا صلہ جو کبھی

اُس نے ہنس کر یہ مجھ سے کہا درد ہے

پیار سے عشق تک جا بجا روشنی

پیار سے عشق تک جا بجا درد ہے

یہ نیا پھول ہے اور یہ خوشبو نئی

یہ نئی شام ہے اور نیا درد ہے

زخم کیسا ہے بھرتا نہیں ہے کبھی

درد ہوتا نہیں ہے یہ کیا درد ہے

میں تو ڈرنے لگی اس کی تعبیر سے

پیار آنکھوں میں جب سے بنا درد ہے

ایک پل میں کہاں کھو گئی ہے خوشی

اب تو الفت کی بس اک سزا درد ہے

چھوڑ شاہیں وفا کا تُو اب تذکرہ

بے وفا ہے خوشی، با وفا درد ہے

٭٭٭

 

اے خدا، اک دعا

اے خدا ، اک دعا

اک دعا، اے خدا

آج کعبے کا دیدار میں نے کیا

آج تُو نے مکمل کیا ہے مجھے

رحمتوں کو مرا یوں سہارا کیا

خاک تھی ، آسماں کا ستارہ کیا

بس یہیں اب سپردِ زمیں کر مجھے

اپنے ہی شہر کی اب مکیں کر مجھے

کر غلام اب مجھے

مجھ کو باندی بنا اے خدا، اک دعا

اک دعا، اے خدا

مجھ کو واپس نہ بھیج اُس جہاں میں کبھی

نفرتیں ہیں جہاں

ظلمتیں ہیں جہاں

ہر طرف ظلم کا، جبر کا راج ہے

بے بسی کا بسیرا جہاں آج ہے

اے خدا میں تہی دست آئی یہاں

پھر بھی سب کچھ مجھے آج یوں مل گیا

میں دکھی تھی ، یہاں پر سکوں مل گیا

واسطہ ہے تجھے تیرے محبوب کا

چاہے زندہ رہوں یا کہ مر جاؤں میں

اُس جہاں میں نہ اب لَوٹ کر جاؤں میں

٭٭٭

 

محبتوں کا صلہ نہیں ہے

لبوں پہ حرفِ دعا نہیں ہے

نہیں وہ تصویر پاس میرے

سو ہاتھ میرا جلا نہیں ہے

میں اپنی لو میں ہی جل رہی ہوں

جو بجھ گیا وہ دیا نہیں ہے

بس اِک پیالی ہے میز پر اور

وہ منتظر اب مرا نہیں ہے

لکھا جنم دن پہ اس کو میں نے

وہ خط بھی اس کو ملا نہیں ہے

میں کس لئے پار جاؤں شاہیں؟

وہاں مرا ناخدا نہیں ہے

٭٭٭

 

اے عشق اس قفس سے مجھے اب رہائی دے

دیکھوں جدھر مجھے ترا جلوہ دکھائی دے

شہر شب فراق کے گہرے سکوت میں

اپنی صدا مجھے بھی کبھی تو سنائی دے

یادِ حبیب مجھ کو بھی اب مجھ سے کر جدا

مجھ کو ہجوم درد میں میری اکائی دے

کب سے میں خامشی کے نگر میں مقیم ہوں

لیکن یہ کون ہے جو یہاں بھی سنائی دے

ظلمت زدوں کو جادہ و منزل کی کیا خبر

تاریک راستوں میں بھلا کیا سجھائی دے

قطرے میں موجزن ہے سمندر ہی ہر جگہ

اب وہ مجھے فرازِ افق تک رسائی دے

مقتل میں کیسے چھوڑ کے راہیں بدل گیا

یا رب کسی صنم کو نہ ایسی خدائی دے

٭٭٭

 

اے مرے مہرباں!

پوچھتی ہوں تمہیں اک سوال آج میں

پوچھتی ہوں وہ لمحے کہاں ہیں بھلا

جو ترے پاس تھے

جو مری آس تھے

میرے لمحے بھلا دھول کیسے ہوئے ؟

خواب وہ وقت کی دھول کیسے ہوئے ؟

کیسے بجھنے لگے تھے ستارے سبھی؟

کیسے جگنو اندھیروں میں خود کھو گئے ؟

تتلیاں پھول سے دور کیسے ہوئیں ؟

ابر سے آگ کیسے برسنے لگی؟

زندگی کس لئے مجھ پہ ہنسنے لگی؟

ایک شہنائی میں دب گئیں سسکیاں

سوگ کی کیفیت ، وقت ماتم کناں

ہر طرف شور تھا، ہر طر ف تھی فغاں

بے بسی کے وہ لمحے تھے نا مہرباں

ہو رہی تھی رقم اک نئی داستاں

ایسے لمحات میں سو گئے تم کہاں

چھوڑ کر مجھ کو مقتل میں تنہا بھلا

سو گئے تم کہاں

اے مرے مہرباں!

٭٭٭

 

پت جھڑ میں، خزاؤں میں تجھے ڈھونڈ رہی ہوں

میں زرد فضاؤں میں تجھے ڈھونڈ رہی ہوں

بھرنے ہیں کئی رنگ مجھے اپنے دیئے میں

کیوں تیز ہواؤں میں تجھے ڈھونڈ رہی ہوں

نکلی ہوں کسی دھُن میں کسی یاد کو لے کر

اور اجڑی اداؤں میں تجھے ڈھونڈ رہی ہوں

میں خاک نشیں آج بھی تکتی ہوں فلک کو

مدت سے خلاؤں میں تجھے ڈھونڈ رہی ہوں

جیون مجھے منصف نے عطا کی ہیں سزائیں

میں آج سزاؤں میں تجھے ڈھونڈ رہی ہوں

تجھ سے ملے بچھڑے ہوئے لمحوں کی قسم ہے

گم گشتہ صداؤں میں تجھے ڈھونڈ رہی ہوں

شاہین ابھی تک یہ مرے ہاتھ ہیں خالی

بے مہر دعاؤں میں تجھے ڈھونڈ رہی ہوں

٭٭٭

 

جو کھو چکے ہیں وہ منظر تلاش کرتی ہوں

بکھر گئے ہیں جو پیکر تلاش کرتی ہوں

کبھی تلاش جو کرنا ہو اپنا آپ مجھے

تو اُ س کی ذات کے اندر تلاش کرتی ہوں

بچھڑ گئی ہوں میں اُس سے مگر نہیں بچھڑی

جو بند اُس نے کئے در تلاش کرتی ہوں

کبھی جو حد سے گزر جائے دکھ تو ہنستی ہوں

خوشی نہیں جو میسر تلاش کرتی ہوں

قریب رہ کے بھی کرتی رہی تھی قرب تلاش

میں چاہتوں کے ہی زیور تلاش کرتی ہوں

یہ آرزو ہے صنم کو قریب تر دیکھوں

سو ریگزار میں پتھر تلاش کرتی ہوں

کروں گی اس کا طواف عمر بھر میں بس شاہیں

اب اپنا مرکز و محور تلاش کرتی ہوں

٭٭٭

 

جب دل یہ حقیقت سمجھے گا

اس عشق کی تو منزل ہی نہیں

اور وفا تو بس اک قصہ ہے

جب دل یہ حقیقت سمجھے گا

تب خاک بدن پر اوڑھیں گے

یہ اندھیارے اپنے ساتھی

جو ہر دم ساتھ نبھاتے ہیں

یہ چاند بہت ہرجائی ہے

ہم اس سے منہ اب موڑیں گے

یہ گلیاں سب سنسان ہوئیں

اور راہیں بھی ویران ہوئیں

ہم ہجر کے آنگن میں آخر

ہنگامہ کیوں آباد کریں

اب خاموشی ہی بہتر ہے

کیوں دل اپنا برباد کریں

جو زعم میں ہم کو چھوڑ گیا

اُس چاند کو ہم اب چھوڑیں گے

یہ چاہت اور یہ وفا جو ہے

سب برسوں پرانی باتیں ہیں

جن لفظوں کا کوئی مول نہیں

اُن لفظوں سے منہ موڑیں گے

ہم گرد ہوئے اُس نگری کی

جس نگری کے وہ باسی ہیں

ہم دھول ہوئے اُس رستے کی

جس رستے پر وہ اب بھی ہیں

لیکن پھر بھی ہم ہجر بھری

وہ راہ یقیناً دیکھیں گے

اس عشق کی تو منزل ہی نہیں

اور وفا تو بس اک قصہ ہے

جب دل یہ حقیقت سمجھے گا

ہر یاد سے منہ ہم موڑیں گے

اور خاک بدن پر اوڑھیں گے

٭٭٭

 

اس سے بڑھ کر مری وفا کا کوئی نہیں گواہ

غزلیں ، نظمیں ، سجدے،آنسو اور اِک شب سیاہ

ہر اِک گام پہ ہوتا ہے کیوں ارمانوں کا خون

صرف سلامت رہ جاتے ہیں کیوں منصب اور جاہ

اسی لیے تو روشن مصرعے روشنیاں پھیلائے

آنکھ میں روشن تارہ چمکے ، سوچ میں کامل ماہ

اک لمحے کی خوشی کا ایسے دینا ہے تاوان

ہم نے دکھ سے کرنا ہے اب ساری عمر نباہ

پھول بھی شاہیں بن جاتے ہیں ارمانوں کی دھول

سیج کی راہ جو بن جاتی ہے بس مقتل کی راہ ٭٭٭

 

رت جگے ، آنسو ، دعائے بے اثر ہے اور میں

عشق لا حاصل ہے ، اک اندھا سفر ہے اور میں

چھوڑ کر آئی ہوں ہر منزل کو میں جانے کہاں

یہ دلِ سودائی اب تک بے خبر ہے اور میں

اب تلک رستے وہی اور عکس آنکھوں میں وہی

اور خود کو ڈھونڈتی میری نظر ہے اور میں

گم شدہ منظر میں اب تک ہے بھٹکتی زندگی

اجنبی رستوں کا اِک لمبا سفر ہے اور میں

آس اب بجھنے لگی ، وہ لوٹ کر آئے نہیں

جھیل پر اب بھی وہ اِک تنہا شجر ہے اور میں

کیا کہوں شاہین جس پر تھا بہت ہی اعتبار

وہ زمانے کے لئے اب معتبر ہے۔ اور میں ؟

٭٭٭

 

یہ عشق بستی بسانے والو

یہ عشق بستی بسانے والو

مری جو مانو تو لوٹ جاؤ

یہاں تو حاصل فقط زیاں ہے

یہاں بھٹکتے ہر اک مسافرکے پاس دکھ ہے

جو خواب آنکھوں میں بچ گئے ہیں

اب ان کی بھی تواساس دکھ ہے

اے خواب دنیا بسانے والو

وفا کے سپنے سجانے والو

ہے عشق کی بس یہی حقیقت

وفا کی اتنی سی قدرو قیمت

جو بِک گیا اُس کا مول ہو گا

وہی ترازو کا تول ہو گا

وگرنہ سب کچھ ہی جھول ہو گا

محبتوں کے تمام دعوے

تمام قسمیں ، تمام وعدے سراب ہیں بس

اور ان کا حاصل عذاب ہیں بس

یہاں بھٹکنے سے پہلے بس اتنا سوچ لینا

فراق راتوں میں پیاسی یادوں کی تیرگی ہے

یہاں تو آنکھوں سے اشک گرتے ہیں

اشک آنکھوں سے زینہ زینہ اُتر کے اکثر

لبوں تک آتے ہی بس چھلکتے ہیں

اور جو پیاسے ہیں

بھیگی آنکھوں کے ساتھ صحرا میں

پانیوں کو تلاش کرتے ہیں

روز جیتے ہیں ،روز مرتے ہیں زندگی میں

رگوں میں خوں تو نہیں ہے ویرانیاں بسی ہیں

بہت سی حیرانیاں بسی ہیں

ہمارے کشکول میں جو خوابوں کے کھوٹے سکے ہیں

ایک دوجے سے بس اُلجھتے ہیں

روز روتے ہیں اور بلکتے ہیں

یہ عشق بستی بسانے والو

مری جو مانو تو لوٹ جاؤ

یہاں کی مٹی تو بانجھ ٹھہری

مت ایسی مٹی میں خود کو گھولو

اگر کبھی پیاس بڑھ بھی جائے

تو پانیوں کی طرف نہ دیکھو

عذاب ڈھونڈو، سراب ڈھونڈو

یہ عشق بستی نہیں بسے گی

مری جو مانو تو لوٹ جاؤ

٭٭٭

 

منظر تمام آج تک آنکھوں پہ بوجھ ہیں

جتنے بھی خواب ہیں مری پلکوں پہ بوجھ ہیں

اُترے گا چاند تو مری بھر آئے گی یہ آنکھ

تارے فلک سے ٹوٹ کر راتوں پہ بوجھ ہیں

سوچوں پہ نقش ہیں وہ جو پَل تھے وصال کے

دکھ ہجر کے تمام ہی لمحوں پہ بوجھ ہیں

باتیں اُس ایک یاد کی باتوں کا حسن ہیں

یادیں اُس ایک یاد کی یادوں پہ بوجھ ہیں

نجمہ کہیں بھی جھوٹ کا جن پر گمان ہو

ایسے تمام لفظ ہی شعروں پہ بوجھ ہیں

٭٭٭

 

پیار کی کب ہو سکیں شنوائیاں

راہ میں تھیں منتظر رسوائیاں

دے گئیں مجھ کو بہت تنہائیاں

اس دلِ نادان کی دانائیاں

کل خوشی کی چاہ میں مچلا تھا دل

آج ہیں بس درد کی تنہائیاں

طالب و مطلوب جب موجود ہیں

کھو گئیں کیوں عشق کی سچائیاں

دل بھی پتھر آنکھ بھی پتھرا گئی

کھو گئیں دنیا کی سب بینائیاں

دب گئی ان کی صدا چیخوں میں جب

مقتلوں میں رو پڑیں شہنائیاں

ہجر نے چھینے ہیں رنگ و روپ سب

کھو گئیں جتنی بھی تھیں رعنائیاں

دل یہ شاہیں اس لئے بے چین ہے

یاد ہیں اُس کی کرم فرمائیاں

٭٭٭

 

شام کی دہلیز پر لیں درد نے انگڑائیاں

جاگ اٹھے ہیں غم سبھی اور رو پڑیں تنہائیاں

راستوں پر خاک ہے ، پھولوں سے خوشبو کھو گئی

دن کا اب امکاں نہیں ہے کھو گئیں رعنائیاں

جب وفا گھائل ہوئی ، دنیا میں جب سائل ہوئی

گم ہوئیں خوشیاں سبھی ہم کو ملیں رسوائیاں

ساری تحریریں مٹیں اور ساری تنویریں بجھیں

ہچکیاں ہی ہچکیاں ہیں سو گئیں پروائیاں

بے بسی کی شام پر سسکی ہے پہروں زندگی

خواب کی خواہش میں ہم تو کھو چکے بینائیاں      ٭٭٭

 

محبتوں کا یہ طورِ سینا

سنو مسافر

یہ دل صحیفہ سہی مگر اس پہ چاہتوں کی

کوئی کہانی رقم نہ ہو گی

کہ چاہتوں کی ہر اک کہانی اداس آنکھوں سے جھانکتی ہے

اداس چہروں پہ ہی رقم ہے

سو میری مانو تو دل صحیفے کو گزرے وقتوں کی داستانوں سے ہی سجاؤ

یہ دل کی زرخیز جو زمیں ہے

تم اس پہ خوشیوں کے رنگ کاڑھو

اسے گلابوں سے ہی سجاؤ

سنو مسافر

محبتوں کا یہ طورِ سینا

بھٹکتے رہنے کا راستہ ہے

بہت بلندی پہ جانے والوں کو منزلوں کی خبر نہیں ہے

کئی مسافر بھٹک چکے ہیں

کہ اُن کو رستے جھٹک چکے ہیں

ہر اک مسافر کے راستے میں نہ کوئی جنت نہ کوئی دوزخ

اگر ملا بھی کسی کو کچھ تو

ملا ہے بس ہجر کا ہی برزخ

ہاں کچھ مسافر جو طورِ سینا کی عشق منزل پہ جا کے ٹھہرے

اُنہیں بھی مایوسیاں ملی تھیں

اُنہیں تجلی نہیں ملی تھی

کوئی تسلی نہیں ملی تھی

سو وہ محبت کی آیتوں کے بغیر لوٹے

عنایتوں کے بغیر لوٹےسو اے مسافر

مری جو مانو تو لوٹ آؤ

یہ دل صحیفہ سہی مگر

اس پہ چاہتوں کی کوئی کہانی رقم نہ ہو گی

٭٭٭

 

ہر گھڑی درد کی شدت سے بلکتی آنکھیں

آتشِ ہجر سے ہر لمحہ پگھلتی آنکھیں

ایک لمحے کی ملاقات ہوئی عمر کا روگ

اُس کی صورت کو ہیں ہر وقت ترستی آنکھیں

دلِ بے تاب میں اب تک وہ مچلتی خواہش

تیری خوشبو سے مسلسل یہ مہکتی آنکھیں

خواب میں ٹھہرا ہوا جھیل کا وہ نیلا منظر

اور اسی جھیل کنارے ہیں بھٹکتی آنکھیں

اب تو وحشت سی ٹپکتی ہے ہر اک منظر سے

سوز و ہجراں کی تپش سے ہیں سلگتی آنکھیں

عشق نیلام ہوا ، عام یا ناکام ہوا

رِہ گئیں اہلِ وفا کی تو برستی آنکھیں

سامنے پا کے اسے دوسری جانب تکنا

یہ حقیقت میں ہیں شاہین سنبھلتی آنکھیں

٭٭٭

 

درد مسافر ٹھہر گیا تھا اکھیوں کی حیرانی میں

صرف محبت بہتی تھی اور ساتھ یہ اشک روانی میں

کیسے ہوا اور کب یہ ہوا کچھ خبر نہیں تھی دل کو تو

ایک محبت جاسوئی تھی وحشت میں، ویرانی میں

درد کی شدت اور بڑھی تھی شہرِ وفا کی شاموں میں

اور ویرانی بیٹھ گئی تھی ان اکھیوں کے پانی میں

اس ہستی کے اندھیاروں نے بخت کو ایسے گھیرا تھا

اپنی صدا تک اجڑ گئی تھی دل کی نوحہ خوانی میں

ایک سخنور کے لفظوں نے مجھ کو یوں برباد کیا

لطف سماعت کو ملتا ہے اب تو زہر افشانی میں

اس نے انجانی سی باتیں کیں تو پھر یہ علم ہوا

ہم تو دانا سمجھ رہے تھے خود کو بڑی نادانی میں

٭٭٭

 

آدھا بسکٹ

کل ایک ہنستی مگر اُداس آنکھوں والی

معصوم لڑکی کو دیکھا

جو اپنے خوابوں کے شہزادے کی

سنہری آنکھوں میں جھانکتی

اُس کی ہر ادا کو اپنی نیل سمندر آنکھوں

میں اتار رہی تھی

وہ کھکھلاتا ہوا

ایک مٹھائی کا ٹکڑا

اس کے منہ تک لے جاتا اور پھر جب وہ منہ کھولتی

تو ایک بھرپور قہقہے سے اپنے منہ میں لے لیتا

اور لڑکی پھر بھی اُسے دیکھتی رہتی

کچھ حیرت سے کچھ حسرت سے

شاید اُس کی آنکھوں میں کسی آنے والے

ہجر کی ریت چبھ رہی تھی

کسی جدائی کا طوفان اس کی سماعتوں کو

آواز دے رہا تھا

اُسے کسی آدھے بسکٹ

کی کہانی سنا رہا تھا

شاید وقت بے رحم

پھر ایک اور کہانی بنا رہا تھا

یا کسی کہانی کو دُہرا رہا تھا

٭٭٭

 

جیون میں دائمی سی کوئی شام کر گیا

وہ رَت جگے اَبد کے مرے نام کر گیا

تصویر تھی جو آنکھ کے پردے پہ رہ گئی

اک عکسِ خاص تھا وہ جسے عام کر گیا

حرفِ وفا کو حرفِ غلط کہہ کے ایک شخص

میرے یقیں کو کیوں بھلا ابہام کر گیا

کتنے ہی زخم خود مرے دامن میں آ گئے

ہر اک خوشی کو صورتِ آلام کر گیا

اک چاند تھا جو روح کے صحرا میں کھو گیا

اک درد تھا وہ جس کو لبِ بام کر گیا

شاہین جس کا نام ہی بس میرا نام تھا

جاتے ہوئے وہ کیوں مجھے گم نام کر گیا

٭٭٭

 

اجنبی شہر کی اجنبی شام میں

زندگی ڈھل گئی ملگجی شام میں

شام آنکھوں میں اتری اسی شام کو

زندگی سے گئی زندگی شام میں

درد کی لہر میں زندگی بہہ گئی

عمر یوں کٹ گئی ہجر کی شام میں

عشق پر آفریں جو سلامت رہا

اس بکھرتی ہوئی سرمئی شام میں

میری پلکوں کی چلمن پر جو خواب تھے

وہ تو سب جل گئے اُس بجھی شام میں

ہر طرف اشک اور سسکیاں ہجر کی

درد ہی درد ہے ہر گھڑی شام میں

آخری بار آیا تھا ملنے کوئی

ہجر مجھ کو ملا وصل کی شام میں

رات شاہینؔ آنکھوں میں کٹنے لگی

اس طرح گم ہوئی روشنی شام میں

٭٭٭

 

ماں اِک ایسی ہستی ہے

ابر کی صورت میرے سر پر

ایک دعا ہی رہتی ہے

میری اپنی ذات بھی اس کی

خوشبو سے ہی مہکی ہے

اپنے دکھوں پر رونے والی

میرے لیے تو ہنستی ہے

میری تاریکی میں ہر پل

جھلمل کرنوں جیسی ہے

میرا ہر اک دکھ جو سمجھے

بس وہ ماں کی ہستی ہے

٭٭٭

 

سہارا ماں ہے

دکھ کے لمحوں میں مرا ایک سہارا ماں ہے

میں اگر ڈوبتی کشتی ہوں کنارہ ماں ہےا

ُس کے قدموں میں جو جنت ہے تو مطلب یہ ہے

آسمانوں سے جسے رب نے اتارا ماں ہے

خوشبو ایسی کہ مری روح تلک مہکی ہے

روشنی ایسی کہ بس نور کا دھارا ماں ہے

تپتے صحراؤں میں کس طرح بھٹک سکتی ہوں

مجھ کو جو راہ دکھائے وہ ستارہ ماں ہے

اُس کے ہر دکھ کو میں لفظوں میں سموتی کیسے

میں نے اشکوں سے بس اک لفظ اُبھارا ’’ماں‘‘ ہے

سب نے پوچھا کہ بھنور سے تُو بچے گی کیسے

میں نے بے ساختہ نجمہ یہ پکارا ’’ماں ہے‘‘

٭٭٭

 

کرے اگر خواب مہربانی تو نیند آئے

تھمے کبھی آنکھ سے جو پانی تو نیند آئے

یہ دیس جس میں ہے نفرتوں کا ہی راج ہر سوُ

محبتوں کی ہو راجدھانی تو نیند آئے

بہت دلاسہ دیا کہ وہ لوٹ آئے گا بس

یہ بات دل نے مگر ہو مانی تو نیند آئے

یہ وسوسوں کی چبھن نے بے خواب کر دیا ہے

ہو ختم گر دل سے بد گمانی تو نیند آئے

وہ اک نشانی سنبھال کر جو رکھی ہوئی ہے

میں خود گنوا دوں جو وہ نشانی تو نیند آئے  ٭٭٭

 

خوابوں میں بھی گر وصل کا امکان نہیں ہے

شب جاگتے رہنے میں بھی نقصان نہیں ہے

رستہ وہ بدلنا ہی تھا ہم دونوں نے لیکن

حیرت تو یہی ہے کہ تُو حیران نہیں ہے

کیوں خوف زدہ ہو گئے تم ایک گھٹا سے؟

میں نے تو بتایا تھا کہ طوفان نہیں ہے

پھر کون یہاں ایسا جو پہچانتا مجھ کو

جب تیرے سوا کوئی بھی پہچان نہیں ہے

شاہین گو اجڑا ہوا رستہ تو ہے لیکن

یہ دل کی طرح گوشۂ ویران نہیں ہے         ٭٭٭

 

آپ کون ؟

عجیب سی یہ بات ہے

کہ جو مرا یقین تھا

جو تپتے راستوں میں میرے واسطے گلوں کی سر زمین تھا

کہ جو مرا گمان تھا

جو ابر تھا مرے لئے جو میرا آسمان تھا

جو میری ابتدا تھا اور مرا جو اختتام تھا

جو میری صبحِ زندگی جو میرا آسمان تھا

ازل سے جو ابد تلک وفا کا سائبان تھا

بہت ہی مہربان تھا

جو مرکزِ نگاہ تھا

جو میری بارگاہ تھا

وہ ایک دن ملا مجھے بہت ہی تیز دھوپ میں

اک اجنبی کے روپ میں

وہ ہجر میں بسے ہوئے سے ماہ و سال دے گیا

چلا گیا مگر مجھے وہ اک سوال دے گیا

میں سوچتی ہوں آج بھی

رکا تھا سُن کے چاپ کون

جو کہہ رہا تھا’’ آپ کون ؟‘‘

٭٭٭

 

آندھیوں میں اُڑا رہی ہے وفا

دشت کیسے دکھا رہی ہے وفا

چلتے چلتے میں تھک گئی ہوں مگر

اک نئی رہ دکھا رہی ہے وفا

پھر کوئی زخم بھرنے والا ہے

پھر مجھے یاد آ رہی ہے وفا

ایک منظر مٹا دیا میں نے

ایک منظر بنا رہی ہے وفا

 

جس کا انجام ہی نہیں کوئی

داستاں وہ سنا رہی ہے وفا

میری آنکھوں میں خواب رکھا تھا

اُس کو آنسو بنا رہی ہے وفا

٭٭٭

 

کیا کیا مہیب دشت دکھائے گی اے وفا

لے کر تُو کس طرف کو اب جائے گی اے وفا

رستے میں شام ہو گئی اب تو ذرا ٹھہر

کتنا ہمیں تُو اور تھکائے گی اے وفا

چپ ہیں زمین و آسماں سب دیکھتے ہوئے

کیا کیا اب اور زخم لگائے گی اے وفا

کب تک رہے گی منتظر شامِ وصال کی

کب تک فریبِ دوستی کھائے گی اے وفا

شاہین دورِ جبر میں جینا محال ہے

کب تک ہمارا ساتھ نبھائے گی اے وفا         ٭٭٭

 

ریت تو پھر ریت ہے

میرے گھر کی الجھی پگڈنڈیوں سے

اس کے گھر کے راستوں تک

چناب اور سندھ آتے ہیں

چناب پار کرنے کو تو

شاید کچا گھڑا مل بھی جائے

مگر سندھ کے پار اترنے کو

کچے گھڑے کی مٹی نہیں ملتی

کچا گھڑا کیسے بناؤں

ریت تو پھر ریت ہے

بھلا ریت سے بھی کچھ بنا؟

٭٭٭

 

مرا دل اس لیے دھڑکا نہیں ہے

پلٹ کر اُس نے جو دیکھا نہیں ہے

الٰہی میں کہاں پر آ گئی ہوں

اجالا بھی جہاں اُجلا نہیں ہے

یہ آنسو بھی مسافر ہیں جبھی تو

انہیں میں نے کبھی روکا نہیں ہے

وہی اک خواب ہوتا ہے اثاثہ

ہمارے پاس جو ہوتا نہیں ہے

تو کیا اب ظلم حد سے بڑھ گیا ہے

جو کوئی اب تلک رویا نہیں ہے

پلٹنا بھی نہیں شاہینؔ میں نے

اور آگے بھی کوئی رستہ نہیں ہے

٭٭٭

 

عشق سے اپنی نسبت کے کچھ خاص حوالے رکھتی ہوں

اسی لئے تو دشتِ وفا کی دھول سنبھالے رکھتی ہوں

میں بھی کتنی سادہ دل ہوں دشمنِ جاں کو دوست کہوں

مفت میں خود کو وہم و گماں میں اکثر ڈالے رکھتی ہوں

تنہا چھوڑ گئے وہ مجھ کو جن بے سمت سی راہوں میں

تپتی دھوپ میں آج وہیں ہوں، پاؤں میں چھالے رکھتی ہوں

جانے کون ستم گر ہے وہ جس کو بھلانے کی دھن میں

خلوتِ جاں میں روگ ہزاروں آج بھی پالے رکھتی ہوں

تیز ہوا میں دیپ بجھے اور تاریکی سی پھیل گئی

ہجر و فراق کی ہر منزل میں اشک اُجالے رکھتی ہوں

مجھ کو شاہیں دریا پار بھی کب جانا ہے لیکن میں

کشتیِ جاں کو اب ناحق منجدھار میں ڈالے رکھتی ہوں

٭٭٭

 

موسمِ وصل کے استعارے میں ہوں

ہاتھ میں رائیگاں سی لکیریں جو ہیں

آنکھ کے دشت میں یہ جو تصویر ہے

یہ جو تعزیر ہے

آسماں پر بکھرتے ستارے جو ہیں

موسمِ وصل کے استعارے جو ہیں

استخارے جو ہیں

اِن کو دیکھا کبھی

اِن کو جانچا کبھی

تو یہ جانا میں کب ان لکیروں میں ہوں

میں کہاں آسماں کے ستارے میں ہوں

موسمِ وصل کے استعارے میں ہوں

اک شبِ ہجر ہے

اور شبِ ہجر کے میں خسارے میں ہوں

٭٭٭

 

جانتی تھی ایک دن وہ بے خبر ہو جائے گا

راستہ جیون کا بس دشوار تر ہو جائے گا

تھی بہت خاموش ،لیکن تھی طلب گارِ وفا

تھا یقیں مجھ پر دعاؤں کا اثر ہو جائے گا

بے خبر تھی اس حقیقت سے کہ یہ جیون مرا

کرب کے لمحات میں آخر بسر ہو جائے گا

ہجر کی تاریکیوں میں جل اُٹھا دل کا چراغ

عشق کی لَو سے یہ اب مثلِ قمر ہو جائے گا

بس یہاں پر شور ہے اور سسکیاں ہیں چار سُو

یہ جہاں لگتا ہے دہشت کا ہی گھر ہو جائے گا

دل میں اک جذبہ بہت موہوم سا جاگا تھا کل

جانتی کب تھی یہ اک دن اس قدر ہو جائے گا

چشمِ وا میں وہ جو اک خالی سا منظر ہے ابھی

ایک دن میرے لئے میرا ہنر ہو جائے گا

خاک ہو جائیں گے ہم تعبیر کی خواہش لئے

خواب میں ہی اپنا یہ جیون بسر ہو جائے گا

مجھ کو شاہیں خوف ہے تو بس اسی لمحے سے ہے

جب وفا کا نام ہی دنیا میں ڈر ہو جائے گا

٭٭٭

 

سوال کر کے کیا ملا ؟

سوال کر کے کیا ملا

مرے عروج کو تجھے زوال کر کے کیا ملا

یہ عشق اک گلاب تھا

تجھے گلاب کو یوں پائمال کر کے کیا ملا

یقیں میں بد گمانیاں مثال کر کے کیا ملا

میں جانتی تھی ہر جواب اس نصابِ عشق کا

تجھے اے زندگی مجھے سوال کر کے کیا ملا؟

٭٭٭

 

وہ ہم سے یہ کیسی وفا کر گئے ہیں

ہمیں خود سے ہی جو جدا کر گئے ہیں

ہر اک زخم دل کا ہرا کر گئے ہیں

وفا کرتے کرتے جفا کر گئے ہیں

عجب چیز تھی چار دن کی رفاقت

ہمیں غم سے بھی آشنا کر گئے ہیں

یہ سب نے کہا تھا کہ دل مت لگانا

مگر ہم تو سب کو خفا کر گئے ہیں

دکھوں سے عبارت نہ تھی زندگانی

مگر سکھ کے موسم قضا کر گئے ہیں

سنبھالا تھا دل نے جو روزِ ازل سے

وہ قرضِ محبت ادا کر گئے ہیں

کمی کوئی چھوڑی نہ اپنی طرف سے

وہ ہر تیر اپنا چلا کر گئے ہیں

بڑی خوبصورت ہے شاہین دنیا

وہ آنکھوں میں سپنے بسا کر گئے ہیں

٭٭٭

 

یہ مرا ادراک ، بس مجھ تک ہی کیوں محدود ہے؟

ایک پتھر دل ہی کیوں آ خر مرا معبود ہے؟

پا رہے ہیں منزلیں اپنی سبھی سجدوں سے جب

کس وفا کی راہ میں یہ دل مرا مسجود ہے؟

پھول ، تاروں ، خوشبوؤں سے دل ہوا بیزار اور

دھوپ کانٹو ں کا سفر ہی بس مجھے مقصود ہے

ہجر کے لمحوں میں آنکھوں سے جھڑی تھمتی نہیں

اورتھمے بھی کس لئے وہ درد لا محدود ہے

اس کہانی میں کہیں بھی تذکرہ میرا نہیں

لیکن اِک اِک لفظ میں شاہین وہ موجود ہے      ٭٭٭

 

پھر مصر کے بازار میں نیلام ہوا کیوں؟

اے عشق بتا تیرا یہ انجام ہوا کیوں؟

ہم باعثِ راحت جسے سمجھے تھے وہ لمحہ

اب اپنے لئے باعثِ آلام ہوا کیوں؟

اے عشق فلک پر تجھے لکھا جو خدا نے

پھر تیرا مقدر بھلا ابہام ہوا کیوں؟

اے عشق ترا نام ہے جب سچ کی علامت

اے عشق تُورسوا یوں سرِ عام ہوا کیوں؟

جب ایک ہی سجدے میں ترا بھید چھپا ہے

پھر سنگِ ملامت ہی ترا دام ہوا کیوں؟

اے آنکھ تُو بے خواب ہے خوابوں کی طلب میں

یہ ہجر ہی آخر ترا انعام ہوا کیوں؟

چہرے پہ ترے کس لئے حیرت ہے ابھی تک

یہ اتنی وضاحت پہ بھی ابہام ہوا کیوں؟

اس دل کو ہے محبوب وہی درد کا نغمہ

اس دل میں تعجب ہے یہ کہرام ہوا کیوں؟

جو تیری محبت کو سمجھ ہی نہیں پایا

شاہین یہ دل اُس کے بھلا نام ہوا کیوں؟

٭٭٭

 

تُو زندگی ہے مرے مسیحا

کبھی کبھی میں بھی سوچتی ہوں

ترے خیالوں سے اب میں نکلوں

محبتوں کے سبھی حوالوں سے اب میں نکلوں

کسی کا مضبوط ہاتھ تھاموں

کسی حسیں رہگزر کو دیکھوں

یہ مسکراتی ہوئی جو دنیا چہار جانب بسی ہوئی ہے

اسے میں دیکھوں

اسے میں چاہوں

تری رفاقت کے جتنے لمحے ہیں بھول جاؤں

کسی حسیں رہگزر پہ جاؤں

زمانے کے رنگ اوڑھ کر میں بھی مسکراؤں

مگر جونہی میں یہ سوچتی ہوں

تو میری آنکھوں میں مدتوں سے بسی ہوئی وہ تمہاری آنکھیں

ملال بنتی ہیں ، اک سراپا سوال بنتی ہیں

ایک ایسا سوال جو لاجواب کر دے

جو درد کو بے حساب کر دے

پھر ایسے لمحوں میں یوں بھی ہوتا ہے

میں نے برسوں سے بس خیالوں میں

اک تمہارا جو ہاتھ تھاما وہ چھوٹتا ہے

وفا سے اپنی حیا کا ناطہ بھی ٹوٹتا ہے

یہ زندگی کا جو زندگی سے ازل کا رشتہ ہے روٹھتا ہے

سو ،اے خیالوں میں بسنے والے

یہ ساتھ تو میری روشنی ہے

یہ ساتھ پھر کون ٹوٹنے دے

تُو زندگی ہے مرے مسیحا

سو زندگی کو کون روٹھنے دے

٭٭٭

 

زندگی میں یہ کیسی خوشی دے گیا

مجھ کو جاتے ہوئے شاعری دے گیا

اشک آنکھوں میں، راتوں کو دکھ ہجر کا

میں نے جو کچھ نہ مانگا وہی دے گیا

تیرے بن میرا جیون ہی تاریک تھا

تُو نے اچھا کیا روشنی دے گیا

کیا ستم یہ ستم یا کرم ہے ترا

موت مانگی تھی اور زندگی دے گیا

مجھ کو شاہیں سلیقہ ملا عشق سے

عشق ہی پھر مجھے آگہی دے گیا  ٭٭٭

 

زندگی بے قرار لگتی ہے

درد کی آبشار لگتی ہے

پھر سے شامِ فراق آئی اب

ّآنکھ بھی اشکبار لگتی ہے

زخم دل کے شمار کرتی ہوں

ہر گھڑی سوگوار لگتی ہے

کیا بتاؤں یہ ہستی ء موہوم

ایک مشتِ غبار لگتی ہے

سردیوں کی اداس راتوں میں

چاندنی بھی غبار لگتی ہے

بد نصیبی نہ پوچھئے شاہین

زندگی شعلہ بار لگتی ہے        ٭٭٭

 

کیسے کہیں کہ کیسے گزاری ہے زندگی

کیا بوجھ تھی کہ سر سے اتاری ہے زندگی

مقتل تھے گام گام یہ رستہ طویل تھا

اپنے لہو سے ہم نے سنواری ہے زندگی

کرتی ہے خود تلاش یہ کانٹوں کا راستہ

اس واسطے سکون سے عاری ہے زندگی

قائم ہے ایک فاصلہ دونوں کے درمیاں

شک اور یقیں کے ساتھ اب جاری ہے زندگی

میں جانتی ہوں زندگی ہے کرب و اضطراب

سانسوں کے بوجھ سے بڑی بھاری ہے زندگی

شاہین اپنی ہار پر ہے مطمئن کہ بس

اک جیت کے لئے ہی تو ہاری ہے زندگی        ٭٭٭

 

گیت

قاتل شہر کے لوگ

بانٹ رہے ہیں لمحہ لمحہ ہر جانب یہ روگ

قاتل شہر کے لوگ

اندھیارا ہے گلیوں میں اور رستے سب سنسان

ان رستوں پر بھٹک رہی ہوں میں تنہا حیران

ہر جانب کیوں سوگ

قاتل شہر کے لوگ

قاتل شہر کے رستوں میں کل اُتری ایسی شام

سامنے اک دروازہ تھا اور اک روشن سا نام

باہر تھا اک جوگ

قاتل شہر کے لوگ

جب سے اس نے توڑا ہے اس شہر میں اک پیمان

دکھ ہی میرا مذہب ہے اور دکھ میرا ایمان

دکھ میرا سنجوگ

قاتل شہر کے لوگ

٭٭٭

 

خلوص کیوں ہے بے اثر، مجھے نہیں ہے کچھ خبر

کہاں گیا وہ چارہ گر، مجھے نہیں ہے کچھ خبر

کہاں پہ کون ساتھ ہو ، کہاں پہ کون چھوڑ دے

کہاں پہ گم ہو رہ گزر، مجھے نہیں ہے کچھ خبر

وہ لا پتہ ہوں جس نے خود گنوا دیا تھا راستہ

ہوئی کہاں سے در بدر ، مجھے نہیں ہے کچھ خبر

کہاں گیا وہ عہد ہم رہیں گے ساتھ عمر بھر

یہ ہجر کیوں اے ہم سفر، مجھے نہیں ہے کچھ خبر

میں آگ ہوں کہ خاک ہوں کہ گَرد ہوں کہ راکھ ہوں

کہ میں شجر ہوں بے ثمر ،مجھے نہیں ہے کچھ خبر

وہ چارہ گر کہاں گیا ، جو دل میں ہے بسا ہوا

ہے رات کی کہاں سحر ،مجھے نہیں ہے کچھ خبر

خبر نہیں ، خبر نہیں ، کہاں وہ اب مقیم ہے

کہاں سے لاؤں اب خبر،مجھے نہیں ہے کچھ خبر

٭٭٭

 

غم جو دل کو لاحق ہے میں آنکھ میں بانٹنا چاہوں

رات کے ہر اک غم کا منظر خواب میں جھونکنا چاہوں

توڑ دوں پاگل دل کو، یا سمجھا کر رام کروں میں

درد جو بسا ہوا ہے روح میں، اُس کو نوچنا چاہوں

میں چاہوں وہ جیون کے کچھ پل بس مجھ کو سونپے

اور پھر اپنا پورا جیون اُس کو سونپنا چاہوں

تیرے بعد ہے آنکھ سمندر، درد کی لہریں اس میں

اور ان لہروں کو میں کیوں پلکوں سے روکنا چاہوں

ٹھہر گئے ہیں تیرے خیال کے جتنے بھی تھے موسم

اُس رت کی ہر ایک کلی کو شاخ سے نوچنا چاہوں

میرا چہرہ کہہ دیتا ہے جو کہنا ہو مجھ کو

میری آنکھیں بول اٹھتی ہیں جو میں بولنا چاہوں

٭٭٭

 

مَیں؟

اس بدن کے ملبے کے اندر

اک دل کی اجڑی تختی ہے

جس میں سناٹے بولتے ہیں

یادوں کے در جو کھولتے ہیں

کچھ خوابوں کے ذرے ہیں جو

اس لہو میں خلیوں کی صورت

جب رقص کریں تو بولتے ہیں

کچھ بکھرے آس کے ٹکڑے ہیں

جو من میں خوشبو گھولتے ہیں

اک کرب ہی میرے اندر ہے

اک دکھ ہی مرا مقدر ہے

ان خوابوں کے جو لاشے ہیں

وہ من ملبے میں چیختے ہیں

اور اس ملبے کے ڈھیر پہ میں

اب اپنے آپ کو ڈھونڈتی ہوں

یادوں کو اب تک پوجتی ہوں

تم پوچھتے ہو ناں کون ہوں میں

اب کیا بتلاؤں کون ہوں میں؟

٭٭٭

 

چاہتوں میں اُس کا اپنا ہی کوئی معیار تھا

عقل اُس کی تھی طلب ، مجھ کو جنوں درکار تھا

کون تھا جو جل رہا تھا آپ اپنی آگ میں

کون تھا جو ظلمتوں سے بر سرِ پیکار تھا

یوں نہ تھا وارفتگی سے ہم ہی بس چاہا کئے

لطف یہ ہے اُ س کو بھی ہم سے بہت ہی پیار تھا

ایک لمحہ تھا مری مٹھی میں جو آیا نہ تھا

اور اُس کو بھی تو بس لمحہ وہی درکار تھا

ہاتھ پر جس کے لہو تھا بے گناہوں کا یہاں

شہر میں وہ شخص ہی تو صاحبِ دستار تھا

یوں تو دنیا کے لئے ہم نے بہت کچھ پا لیا

بعد اُ س کے تھا اگر کچھ بھی تو بس بے کار تھا

ایک چاہت کب تلک لڑتی وہاں شاہین بس

جس طرف بھی دیکھئے اک مصر کا بازار تھا

٭٭٭

 

غم کے سنسان بیاباں سے نکلتا ہی نہیں

دل مرا درد کے طوفاں سے سنبھلتا ہی نہیں

عشق کی آتشِ خاموش ہے کب سے روشن

مگر احساس کا شعلہ ہے کہ جلتا ہی نہیں

ہر طرف دھند ہے اشکوں کی فراوانی سے

دلِ بیتاب سرابوں سے بہلتا ہی نہیں

تلخیاں اہل زمانہ سے وہ جھیلی ہیں نہ پوچھ

دل مرا فصل بہاراں میں مچلتا ہی نہیں

کب سے حالاتِ زمانہ ہیں دگرگوں لیکن

دل کا موسم کسی حالت میں بدلتا ہی نہیں

کیا کہوں در پئے آزار ہے دنیا شاہین

آدمی قیدِ زمانہ سے نکلتا ہی نہیں

٭٭٭

 

رستہ مجھے دکھا دے

اے زندگی میں تجھ سے

بس اتنا پوچھتی ہوں

منزل کہاں ہے میری ؟کچھ تو مجھے بتا دے

بھٹکی ہوئی مسافر ، رستہ مجھے دکھا دے

صبحِ ازل کہاں ہے ؟

شامِ ابد کہاں ہے ؟

موت و حیات کیا ہے ؟

یہ کائنات کیا ہے؟

جسموں کی موت کیسی ؟

روحِ حیات کیا ہے ؟میرا وجود کیا ؟

اور میری ذات کیا ہے؟

سورج کی ہر کرن میں کیوں جستجو سجن کی ؟

ہر پھول ہر کلی میں کیوں آرزو ملن کی ؟

صبحِ وصال کیا ہے ؟

شامِ فراق کیا ہے ؟

میں گلشنِ وفا کی ، بچھڑی ہوئی کلی ہوں

کرنیں مرا تبسم ،شبنم ہیں میرے آنسو

روؤں کہ مسکراؤں ؟

کیسے یہ بھید پاؤں ؟

گر ہو سکے تو مجھ کو

اے زندگی بتا دے

بھٹکی ہوئی مسافر

رستہ مجھے دکھا دے

٭٭٭

 

قربتِ گل ہمیں نہ راس آئی

روز ڈستی رہے گی تنہائی

اس میں رستے کا تو کمال نہیں

ہم نے ٹھوکر اگر نہیں کھائی

ہم تو سب کو امیر لگتے ہیں

دولتِ درد جب سے ہے پائی

جب مری آنکھ ہی نہیں برسی

پھر تری یاد دل میں کیوں آئی

منزلو ں پر پہنچ کے بھٹکے ہیں

دھند آنکھوں پہ کس طرح چھائی

موت لکھ کر مری ہتھیلی پر

زندگی آپ بھی تو شرمائی

٭٭٭

 

جب زندگی کے نام پر بے جان ہو گئی

میں عشق کے سلوک پر حیران ہو گئی

سب سرحدیں پھلانگ کر عقل و شعور کی

راہِ وفا میں خود سے بھی انجان ہو گئی

جس نے مجھے عطا کیا یہ خامشی کا گیت

اُس کی صدا ہی اب مری پہچان ہو گئی

کرتی رہی ہوں ورد صدا جس کے نام کا

چھینا جب اُس نے نقش تو ویران ہو گئی

دل کب کا جل کے راکھ کا اک ڈھیر بن گیا

چپ چاپ ہر انا پہ میں قربان ہو گئی

مجرم تھی جب وفا کی تو میں نے یہی کیا

اپنے لئے ہی قتل کا فرمان ہو گئی

اپنی وفا پر ناز ہے یوں مجھ کو آج بھی

اُس کی خوشی پہ ہجر کا سامان ہو گئی

٭٭٭

 

زحمت کبھی کبھی تو مشقت کبھی کبھی

لگتی ہے زندگی بھی مصیبت کبھی کبھی

پہلو میں جاگتی ہے محبت کبھی کبھی

آتی ہے ہاتھ درد کی دولت کبھی کبھی

اب تک ترے بغیر مَیں زندہ ہوں کس طرح

ہوتی ہے اپنے آپ پر حیرت کبھی کبھی

اک پل کا جو وصال تھا اُن ماہ و سال میں

دیتا ہے ہجر میں بھی رفاقت کبھی کبھی

چھیڑے وفا کا گیت کوئی نغمہ ساز جب

خود سے بھی ہونے لگتی ہے وحشت کبھی کبھی

اک رات ہجر کی ہے مسلسل ہمارے ساتھ

تم پر گزرتی ہو گی قیامت کبھی کبھی

سلگی ہے تیری یاد میں یہ روح رات دن

دینے لگی ہے لَو یہ رفاقت کبھی کبھی

دنیا کے واسطے جو بہت بے شعور تھا

اُس سے ملی ہے عشق کو وقعت کبھی کبھی

مجھ کو تری جفا کا تو شکوہ نہیں مگر

آتی ہے یوں ہی لب پہ شکایت کبھی کبھی

میں درد سے نجات کی طالب نہیں مگر

شاہین کم ہو تھوڑی سی شدت کبھی کبھی

٭٭٭

 

دوام کرنا

یہ بات کہنی ہے تم سے جاناں

جو ہو سکے تو پلٹ کے آنا

جو میرے خوابوں کی کرچیاں ہیں

وہ آ کے چننا

وہ کرچیاں جن میں آج بھی کچھ نشانیاں ہیں

شرارتیں ہیں ، اداسیاں ہیں

گئے دنوں کی کہانیاں ہیں

وہ دن کہ جن میں تمہیں سنا تھا

تمہارے لہجے کی چاشنی جب مری سماعت میں بس گئی تھی

جو آج تک بھی بسی ہوئی ہے

وہ خواب جن کے طفیل آنکھیں

اداسیوں سے سنور گئی ہیں

وہ اک گھڑی جو ملن کی تھی بس

وہ شام بن کر ٹھہر گئی ہے

پلٹ کے آؤ تو ایک چھوٹا سا کام کرنا

اُس ایک ساعت کو ڈھونڈنا ہے

وہ ڈھونڈ کر میرے نام کرنا

جو ہو سکے تو پلٹ کر آنا

کلام کرنا، دوام کرنا

٭٭٭

 

ہمیں جن کے غم اب بھی مارے ہوئے ہیں

وہ سمجھے کہیں اور ہارے ہوئے ہیں

نہ دیکھا کبھی مُڑ کے پھر عاشقی میں

کہاں ،کس طرح،کب خسارے ہوئے ہیں

یہ اُجڑا نظر آ رہا ہے جو جیون

اِسے عشق میں ہم سنوارے ہوئے ہیں

اُدھر تم ہمارے ہوئے کب ، اِدھر ہم

نہ ہو کر تمہارے، تمہارے ہوئے ہیں

تری کھوج میں اُس فلک تک گئے ہم

جہاں ماند سب چاند تارے ہوئے ہیں

کہیں خواب و خار اور کہیں اشک شاہیں

ہم آنکھوں میں سب کچھ اُتارے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

یہ دکھ تخلیق ہوتا جا رہا ہے

سفر تاریک ہوتا جا رہا ہے

کیا ہے اُس کو اپنے ساتھ شامل

یہ دل تفریق ہوتا جا رہا ہے

میں خود سے دور ہوتی جا رہی ہوں

قفس نزدیک ہوتا جا رہا ہے

کسی کو عشق نے عزت عطا کی

کہیں تضحیک ہوتا جا رہا ہے

اماوس بڑھ رہا ہے ، چاند میرا

بہت باریک ہوتا جا رہا ہے

٭٭٭

 

گر ہم کو تم جھٹلاؤ گے

یہ شہر تو گونگا بہرا ہے

یہ بہتا ہوا اک دریا ہے

یہاں کون مجھے بتلائے گا

مرا خواب کہاں پر سویا ہے ؟

اک آس کا دامن تھام کے یہ

پیاسا من کہاں پہ رویا ہے ؟

اس شہر میں بسنے والو اب

کچھ اپنے لئے ہی سوچو تم

یہ ویراں ویراں آنکھیں ہیں

مت خواب ان کے اب نوچو تم

ان میں کچھ خواب جو روشن ہیں

وہی رہ دکھلائیں جیون کی

یہ خواب اگر کھو جائیں گے

منزل تک کیسے جاؤ گے؟

گر ہم کو تم جھٹلاؤ گے

تو خود کو کیسے پاؤ گے؟

٭٭٭

 

کس کی آس امید پہ اے دل! آنکھیں روز بچھاتے ہیں

دن بھر اس کی راہ تکتے ہیں، شب بھر دئیے جلاتے ہیں

خون کے آنسو روتے ہیں، فرقت کی لمبی راتوں میں

شب بھر تارے گنتے ہیں، ہم چاند سے آنکھ چراتے ہیں

صدیوں سے ہے ریت ہماری اور ہمارا شیوہ بھی

چاہے جتنی عمر بسر ہو، اپنا عہد نبھاتے ہیں

جان لبوں پہ آ جائے تو دشتِ وفا کے ہم سفرو!

اپنے آنسو پی لیتے ہیں، من کی پیاس بجھاتے ہیں

سینے میں کسک سی رہتی ہے، آنکھوں میں جلن سی ہوتی ہے

شاہین شبِ ہجراں میں کیسے اپنا وقت نبھاتے ہیں

٭٭٭

 

جب بھی اس کو بھولنا چاہا یاد بہت وہ آیا ہے

چاروں جانب دکھ کا موسم اور غموں کا سایہ ہے

دشتِ تپاں میں حدِ نظر تک ایک ہی منظر چھایا ہے

دھوپ کے شعلے آگ بگولے کون قیامت لایا ہے

شہرِ نگاراں، محفل یاراں بھول گئے سب دل والے

دورِ زمانہ دیکھ کے ہم نے خود کو خود سمجھایا ہے

دھوپ سروں تک آ پہنچی ہے، نیند کے ماتو اٹھ بیٹھو

آنکھیں کھولو، وقت کو دیکھو، سخت سمے پھر آیا ہے

شاہینؔ ! کسی کو کیا بتلائیں کس نے ہمیں ناشاد کیا

جس کو جاں سے پیارا سمجھے، آج وہ دوست پرایا ہے      ٭٭٭

 

بِکتے دیکھا جہاں

جب چھوٹے تھے ہم

ماں ہم کو پیسے دیتی اور کہتی تھی

جاؤ فلاں دوکان سے جا کر چیزیں لاؤ

ہم معصومیت سے ماں سے سوال کرتے

ماں کیا پیسوں سے ہر شے مل جاتی ہے

ماں مسکرا دیتی

اور کبھی ایسا بھی ہوتا

ایسے ہی کسی چبھتے سوال پر

جب ماں مسکراتی تو یوں لگتا

جیسے اُس کی داہنی آنکھ کا کونہ بھیگ گیا ہے

تب ذہن الجھتا

ماں کے اس طرح مسکرانے پہ

اور یوں اس کی آنکھ کا کونہ بھیگ جانے پہ

پھر یوں ہوا

وقت نے پیرہن بدلا

اٹکھیلیاں کرتا بچپن

جوبن کے رنگ و روپ بدلتے

ذہن و دل کے دریچے بھی وا کرتا گیا

باہر نکلے تو دیکھا

ہر چیز پیسوں سے مل رہی ہے

وفا بھی بِک رہی ہے

اور مروت کے بھی خریدار ہیں بہت

پھر ہم نے سوچا

محبت تو بے مول ہے

یہ تو نہیں بِک سکتی

مگر ظالم وقت کے پیرہن نے

سوچ کا یہ دریچہ بھی بدل ڈالا

عشق کے بھی دام لگتے ہیں یہاں

شاید خرید و فروخت کے لئے بنا ہے یہ جہاں     ٭٭٭

 

رگوں میں درد کے نشتر اُترنے والے ہیں

جو ز خم دل کے ہیں اب یوں سنورنے والے ہیں

ہوا کے دوش پہ جمتے نہیں قدم اپنے

وفا کے نقش بھی ا ب تو بکھرنے والے ہیں

خبر سحر کی نہ ہم کو چراغِ شب کی کوئی

کہ اب تو خواب کے پنچھی گزرنے والے ہیں

جو کہہ رہے تھے محبت میں جاں سے گزریں گے

رہِ وفا میں وہی لوگ ڈرنے والے ہیں

ہمارے خواب ہی جینے کا اک سہارا تھے

اور اب تو خواب بھی لگتا ہے مرنے والے ہیں

٭٭٭

 

تم ہوئے جب سے خفا اپنے گرفتار کے ساتھ

کچھ سروکار نہیں رونقِ بازار کے ساتھ

کتنے انمول ہیں یہ مہر و وفا کے موتی

کوئی پرکھو نہ انہیں درہم و دینار کے ساتھ

کب سے ٹھہری ہے مرے دل میں ادھوری خواہش

کاش دیکھے وہ مجھے ایک نظر پیار کے ساتھ

ہم کو معلوم نہیں عشق کے اسرارو رموز

کس نے فرہاد کو ٹکرایا ہے کہسار کے ساتھ

کیسے کٹتی ہے اُداسی میں ہر اک شامِ فراق

دو گھڑی تم بھی گزارو کبھی نادار کے ساتھ

دل کے ایوانوں میں ہے کب سے بپا شورشِ عشق

ایک ماتم کی صدا ہے مرے اشعار کے ساتھ

سوہنیاں ڈوب رہی ہیں ابھی دریاؤں میں

اور مہینوال نہیں موج کی للکار کے ساتھ

٭٭٭

 

تجھے تو خبر ہے

وفا دینے والے

خوشی کی مجھے اب دعا دینے والے

تجھے تو خبر ہے

مرے پھول مرجھائے ہیں کس طرح سے

یہ دکھ مجھ تلک آئے ہیں کس طرح سے

تجھے تو خبر ہے

تو پھر کیوں خوشی کی دعا دے رہا ہے

وفا دینے والے

دعا دے کے مجھ کو

تُو اک درد بھی لادوا دے رہا ہے

٭٭٭

 

یہ مرا انت ہے

میرے مقتل کو جس دن سجایا گیا

بے بسی کو سہیلی بنایا گیا

ایک شہنائی کی دھن پہ جس روز اک

ماتمی گیت مجھ کو سنایا گیا

ایسے لمحوں میں نے تڑپتے ہوئے

آسماں کو پکارا مدد کے لئے

میں نے دیکھا فلک کے ستارے سبھی

میری حالت پہ بس مسکراتے رہے

چاند ہنستا رہا بس مجھے دیکھ کر

رات گزری تو سورج ابھرنے لگا

مجھ کو سورج سے اتنی سی امید تھی

گر یہ میری مدد کو نہ آیا تو پھر

یہ مری بے بسی پر ہنسے گا نہیں

یہ مگر کیا ہوا ؟

روشنی کی علامت یہ سورج جو ہے

میری تاریکیوں کو بڑھانے لگا

مجھ پہ ہنسنے لگا ، مسکرانے لگا

پھر زمیں کو مدد کے لئے میں نے آواز دی

اُس سے فریاد کی

’’اے زمیں قبر جتنی جگہ چاہئے

ایک حوّا کی بیٹی کی فریاد ہے

بس مدد چاہئے ، ہاں مدد چاہئے ‘‘

مجھ کو معلوم تھا یہ زمیں ماں ہے مجھ کو نہ ٹھکرائے گی

یہ مگر کیا ہوا وہ بھی ہنسنے لگی

میں نے تھک ہار کر پھر پکارا اُسے

وہ جو منسوب تھا

وہ جو محبوب تھاجس کی خاطر یہ جیون زمانے میں اب اتنا معتوب تھا

یہ مگر کیا ہوا ، وہ بھی ہنسنے لگا

ہر طرف قہقہے ، ہر طرف قہقہے

پھول لاتا تھا میرے لئے جو کبھی

اُس گھڑی اُس کے ہاتھوں میں بھی سنگ تھا

یہ مرا انت ہے

یہ مرا انت تھا

٭٭٭

 

زندگی اب اور نہ آزما مجھے

میں جو زمانے کی تیرگی میں روشنی ہوں

میں جو بے خواب آنکھوں کی جاگتی شبوں کی چاندنی ہوں

میں جو بہار کے پھولوں کی شگفتگی ہوں

تازگی ہوں

میری رگوں کے بہتے خون میں تحلیل ہے

میری وفا کی خوشبو

قدم قدم پر لرزتے لمحوں میں سنبھالتی ہوں

میں اپنے جیون کی آبجو میں زمانے کے معتبر ہاتھوں سے بچائے پھرتی ہوں

آنچل کی آبرو

مانا اے زندگی!

مانا کہ تیرے شام و سحر کے دائروں میں

بکھری سب رونقیں گلفشاں ہیں

مانا کہ تیری چلچلاتی تپتی دوپہروں میں

چھاؤں کی حسرتیں نہاں ہیں

مانا کہ وصال رتوں کی سب خواہشیں جواں ہیں

مگر اے زندگی!

تیرے دامن تقدیس کی قسم

رکھنا ہے مجھ کو تیرے آنگن میں چمکتی ہوئی آرزوؤں کا بھرم

رکھنا ہے مجھ کو آسمانوں سے اونچا

اپنی وفاؤں کا علم

اے وقت کی ناؤ میں ٹھہری ہوئی میری ساکن زندگی

وفاؤں کی قتل گاہوں میں

میرے دریدہ دل کو نہ سجا

صدیوں سے جاگتی آنکھوں کو

خواہشوں کے خواب نہ دکھا

مجھے اُجلا مہکتا گلاب رہنے دے ٭٭٭

 

ابھی کچھ وفا رتوں کا حساب رہنے دے

ابھی کچھ وفا رتوں کا حساب رہنے دے

وہ پاکیزہ مہکتی خوشبو بے حساب رہنے دے

راہگذار دشتِ جنوں میں

ہجرتوں کا ثواب رہنے دے

میری پلکوں میں جاگتی شبوں کے

عذاب رہنے دے

میرے سرد جذبوں کی یخ بستگی کو

نوری سحر کا سیماب رہنے دے

میری متاع سخن کو شوخ لفظوں سے سجی بے ردا

ادا نہ سکھا

میرے دل کی اجلی زمین پر

تاریک شبوں کے اندھیرے نہ بچھا

مجھے اے زندگی اب اور نہ رُلا

مجھے اب اور نہ آزما

٭٭٭

 

جب سے تجھ سے دور ہوئے ہم لفظ سے معنی بچھڑ گئے ہیں

فصلِ گُل یہ کیسی آئی موسم دل کے اُجڑ گئے ہیں

میں کیوں تجھ کو ڈھونڈ رہی ہوں بخت کی ریکھاؤں میں آخر

وہ جو شجر تھے چاہت والے ، سب آندھی میں اکھڑ گئے ہیں

٭٭٭

 

ہنستے ہنستے ایک دن سب کو رُلا کر جاؤں گی

زندگی تیرے ستم پر مسکرا کر جاؤں گی

ریزہ ریزہ کر گئیں مجھ کو تری یادیں مگر

ریت کی صورت انہیں میں اب اُڑا کر جاؤں گی

خشک پتوں کی طرح سے ہے مری جو زندگی

ہجر کے شعلوں میں اب اِس کو جلا کر جاؤں گی

میری آنکھوں پر ابھی تک ہے ترے خوابوں کا بوجھ

اِن کی گٹھڑی اپنی پلکوں پر اُٹھا کر جاؤں گی

قصہ گو سے جو مکمل ہی نہیں ہونی کبھی

اک نہ اک دن وہ کہانی میں سنا کر جاؤں گی

تجھ سے بڑھ کر کون ہے اپنا کہ اپناؤں جسے

اِن خیالوں کو گلے اپنے لگا کر جاؤں گی

جانے سے پہلے میں شاہیں توڑ دوں گی خواب کو

اور پھر تعبیر بھی خود ہی سُلاکر جاؤں گی

٭٭٭

 

ہر ایک خواب میں حرف و بیاں میں رہتا ہے

وہ ایک شخص جو دل کے مکاں میں رہتا ہے

نہ دن نکلتا ہے اُس کا ،نہ شام ہوتی ہے

اب اِس طرح سے بھی کوئی جہاں میں رہتا ہے

یقین ہے کہ وہ مجھ پر یقین رکھتا ہے

گمان ہے تو وہ اب تک گماں میں رہتا ہے

میں اس طرح سے ہوں آزاد اپنی دنیا میں

کہ جیسے کوئی پرند آشیاں میں رہتا ہے

رکھا ہوا ہے حفاظت کے ساتھ اسے دل میں

میں بے امان ہوں ، وہ تو اماں میں رہتا ہے

٭٭٭

 

محبت نے مری ہستی میں خشتِ آستاں رکھ دی

جبینِ شوق میں خوئے نیازِ دلبراں رکھ دی

متاعِ دین و ایماں ہے ہمارا داغِ پیشانی

وہیں پر بن گیا کعبہ جبیں اپنی جہاں رکھ دی

ہمارے زخمِ دل دیکھو گلابوں سے حسین تر ہیں

خدا نے اپنے سینے میں بہار گلستاں رکھ دی

میں اپنی لوحِ دل سے کس طرح اس کو مٹا ڈالوں

مرے پہلو میں جس نے اپنی یادِ مہرباں رکھ دی

مجھے شاہینؔ اپنے گھر میں ہر نعمت میسر ہے

خدا نے اپنی رحمت سے ہر اک عیشِ جہاں رکھ دی      ٭٭٭

 

بچھڑ کے اُس سے ابھی ہوں زندہ مگر بہت پر ملال اب تک

خبر نہیں وہ سنبھل چکا ہے یا وہ بھی ہے خستہ حال اب تک

مجھے ترا انتظار کیوں ہے؟یہ دل مرا بے قرار کیوں ہے ؟

مرے خیال و نظر میں دیکھو یہی ہے بس اک سوال اب تک

کہا گیا وقت سارے زخموں کا آپ مرہم بنے گا اک دن

کہو کہ زخموں کو کیوں نہیں ہو سکا بھلا اندمال اب تک

کہاں یہ ممکن کہ بھول جاؤں میں زندگی کی حسین یاد یں

بتاؤں کیسے کہ ہجر میں ہوں ، میں رنج و غم سے نڈھال اب تک

میں ایک مشعل ، میں ایک جگنو، میں ایک شمعِ وفا ہوں شاہیں

مرے خدا نے رکھا ہوا ہے مجھے تو یوں خوش خیال اب تک   ٭٭٭

 

میں بجھنے لگی ہوں

وہ کہتا

تم ہنستے اچھی لگتی ہو

تم ہمیشہ ہنستی رہنا

رونے والوں کا کبھی ساتھ نہ دینا

کہ رونے والے تو سبھی تنہا ہوتے ہیں

میں نے اس کی باتوں اس کے لفظوں کو

لوحِ دل پر لکھا

زمانے کے ساتھ ہنسنا

اور تنہائی میں روناسیکھامگر اب کوئی اسے بتائے

کہ یوں ہنستے روتے

میں تھک کر دیے کی لو کی طرح

اب بجھنے لگی ہوں

اندھیری رات کے اندھیروں میں ڈھلنے لگی ہوں ٭٭٭

 

جو دردِ محبت مجھے معلوم ہے جاناں

بس تیرے حوالے سے ہی موسوم ہے جاناں

یہ وصل کے ہر پَل کی مجھے یاد دلائے

یہ ہجر کا لمحہ بڑا معصوم ہے جاناں

جو نام زمانے نے کھرچ کر تھا مٹایا

وہ اب بھی مرے دل پہ ہی مرقوم ہے جاناں

سوچوں ،تجھے دیکھوں ، تجھے چاہوں ،تجھے لکھوں

جینے کا تو بس اب یہی مفہوم ہے جاناں

جو بھی ہے خوشی وہ تو ہے بے ربط ابھی تک

اور درد ہے جتنا بھی وہ منظوم ہے جاناں

ہر دکھ کا مرے دل کو یہاں پورا یقیں ہے

امید خوشی کی بڑی موہوم ہے جاناں

٭٭٭

 

عجب چیز ہے پا کے جو کھو چکی ہوں

کچھ اس طرح پاگل بھی اب ہو چکی ہوں

جو پلٹا نہیں ہے وہ مصروف ہو گا

یہی سوچ کر میں بھی اب سو چکی ہوں

محبت کی بنجر زمیں ہے اور اس میں

وفا کا ہر اک بیج کیوں بو چکی ہوں

جو قاتل تھے ان کی بھی نظریں جھکی ہیں

میں خود پر بھی شدت سے اب رو چکی ہوں

یہ جیون پہ جتنے بھی ہیں زخم شاہیں

انہیں اپنے اشکوں سے میں دھو چکی ہوں

٭٭٭

ماخذ:

http://www.drnajmashaheen.com/category/%DA%A9%D8%AA%D8%A7%D8%A8%DB%8C%DA%BA/%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%A7%D9%85-%D9%B9%DA%BE%DB%81%D8%B1-%DA%AF%D8%A6%DB%8C/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید