فہرست مضامین
انتخاب از عشق آباد
عباس تابش کی کلیات ’عشق آباد‘ سے انتخاب
جمع و ترتیب: فلک شیر چیمہ
حمدیہ
نہ صدا کا سمت کشا ہوں میں
نہ ورق پہ میرا وجود ہے
مرے حرف میں وہ چمک نہیں جو ترے خیال کی چھب میں ہے
مرا انگ کیا مرا ڈھنگ کیا
سرِ خامہ روح کا دُود ہے
یہی میرا رازِ شہود ہے
میں شکست خوردہ خیال ہوں مجھے آیتوں کی کمک ملے
مجھے آگہی کی چمک ملے
مجھے درسِ عبرت شوق دے
مری انگلیوں کو پکڑ کے حرفِ جنوں پہ رکھ
رہِ خواندگاں پہ مری کجی مری گمرہی کو بھی ڈال دے
نہ قلم پکڑنے کا ڈھنگ ہے نہ ورق ہے میری بساط میں
مرا منہ چڑاتی ہے لوحِ گل
ابھی وہ ورق نہیں سامنے ترا پاک نام کہاں لکھوں
کہ سپیدی صفحۂ صاف کی مری آنکھوں میں ہے بھری ہوئی
جہاں کوئی سطر ہے خواب کی نہ خرام موجہِ اشک ہے
مجھے خوابِ خوش سے نواز دے کہ یہ چشمِ وا بھی عذاب ہے
میں تہی نوا
میں تہی ثنا
میں لکھوں گا کیا؟
مگر اے خدا مری پوٹلی میں جو تیرے دھیان کی جوت ہے
یہی رت جگا مرا مال ہے
یہی مال مرا کمال ہے
٭٭٭
ادھوری نظم
اندھیری شام کے ساتھی
ادھوری نظم سے زور آزما ہیں
برسرِ کاغذ بچھڑنے کو
سنو…….تم سے دلِ محزوں کی باتیں کہنے والوں کا
یہی انجام ہوتا ہے
کہیں سطرِ شکستہ کی طرح ہیں چار شانے چت
کہیں حرفِ تمنا کی طرح دل میں ترازو ہیں
سنو……ان نیل چشموں سخت جانوں بے زبانوں پر
جو گزرے گی سو گزرے گی
مگر میں اک ادھوری نظم کے ہیجان میں کھویا
تمہیں آواز دیتا ہوں
کہ تنہا آدمی تخلیق سے عاری ہوا کرتا ہے
جانِ من!
سنو……میرے قریب آؤ
کہ مجھ کو آج رات اک ادھوری نظم پوری کر کے سونا ہے!
٭٭
کھڑی ہیں رہ میں دُرودوں کی ڈالیاں لے کر
یہ مدحتیں ہیں کہ ہیں بچیاں مدینے کی
نہ جانے کون مرا کھو گیا ہے مٹی میں
زمیں کریدتی رہتی ہیں انگلیاں میری
سن رہا ہوں ابھی تک میں اپنی ہی آواز کی بازگشت
یعنی اس دشت میں زور سے بولنا بھی اکارت گیا
٭٭
ثبت کر اور کوئی مہر مرے ہونٹوں پر
قفلِ ابجد سے نہیں بند ہوا باب مرا
جس قدر آئی فراخی مرے دل میں تابش
اتنا ہی تنگ ہوا حلقہ احباب مرا
٭٭
پہلے تو چوپال میں اپنا جسم چٹختا رہتا تھا
چل نکلی جب بات سفر کی پھیل گئی اعصاب میں چپ
اب تو ہم یوں رہتے ہیں اس ہجر بھرے ویرانے میں
جیسے آنکھ میں آنسو گم ہو جیسے حرف کتاب میں چپ
٭٭
پہنچے تو سبھی بارگہِ حسن میں لیکن
جلدی کوئی آیا کوئی تاخیر سے پہنچا
٭٭
دستک نے ایسا حشر اٹھایا کہ دیر تک
لرزاں رہا ہے جسم بھی زنجیرِ درکے ساتھ
٭٭
فقط مال و زرِ دیوار و در اچھا نہیں لگتا
جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا
٭٭
راستے گم ہو رہے ہیں دھند کی پہنائی میں
سردیوں کی شام ہے پھر اس کا چک آنے کو ہے
٭٭
شب کی شب کوئی نہ شرمندہ رخصت ٹھہرے
جانے والوں کے لیے شمعیں بجھا دی جائیں
٭٭
مرے حروفِ تہجی کی کیا مجال کہ وہ
تجھے شمار میں لائیں ترا حساب کریں
٭٭
یہ آج شام بھی گزری کسی خیال کے ساتھ
نہ اس سے ملنے گیا میں نہ اپنے گھر بیٹھا
٭٭
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے
٭٭
میں جب بھی دھوپ کے صحرا میں جا نکلتا ہوں
وہ ہاتھ مجھ پہ دعا کا شجر بناتے ہیں
٭٭
کہیں لالی بھری تھالی نہ گر جائے سمندر میں
چلا ہے شام کا سورج کہاں آہستہ آہستہ
مکیں جب نیند کے سائے میں سستانے لگیں تابش
سفر کرتے ہیں بستی کے مکاں آہستہ آہستہ
٭٭
قیدی بھی ہیں اس شان کے آزاد تمہارے
زنجیر کبھی زلف سے بھاری نہیں رکھتے
مصروف ہیں کچھ اتنے کہ ہم کارِ محبت
آغاز تو کر لیتے ہیں جاری نہیں رکھتے
٭٭
کوئی روندے تو اٹھاتے ہیں نگاہیں اپنی
ورنہ مٹی کی طرح راہ سے کم اٹھتے ہیں
٭٭
ویسے تو اس بت کے گھر کا فاصلہ اتنا نہیں
دو قدم چلیے تو مرگِ ناگہاں ہے سامنے
اس طرح شاید وہ عکسِ تہ نشیں کو چوم لے
شاخِ سجدہ ریز کو جوئے رواں ہے سامنے
٭٭
یوں تو سبھی کو عشق نے سونپی ہیں شہرتیں
لیکن کبھی کبھی کوئی گمنام ہی سہی
٭٭
میں اکیلا نہ تھا کوئے رسوائی میں
ساتھ ویرانۂ جسم و جاں بھی گیا
٭٭
جب چاہیں ہم کو آ لیں نقشِ قدم ہمارے
ہم رخشِ عمر تیری رفتار تو نہیں ہیں
٭٭
مری خندق میں اس کے قرب کی قندیل روشن ہے
مرے دشمن سے کہہ دینا میں اس سے پیار کرتا ہوں
اٹھائے پھر رہا ہوں حسرتِ تعمیر کی اینٹیں
جہاں سایہ نہیں ہوتا وہیں دیوار کرتا ہوں
٭٭
تو ہے کہ ابھی گھر سے بھی باہر نہیں نکلا
ہم ہیں کہ شجر بن کے تری رہ میں کھڑے ہیں
٭٭
گاہے گاہے سانسوں کی آواز سنائی دیتی ہے
گاہے گاہے بج اٹھتی ہے دل کے شکستہ ساز میں چپ
٭٭
کہاں گئے جنہیں بارش کی آرزو تھی بہت
کہ اب کی بار تو ساون چھتیں بھی چھید گیا
٭٭
پیش آتے ہیں کچھ ایسے اپنی حیرانی سے ہم
آئینے کو دیکھتے ہیں خندہ پیشانی سے ہم
دل میں اک گوشہ ہمارے واسطے رکھ چھوڑنا
کیا خبر کب تنگ آ جائیں جہانبانی سے ہم
رات کو جب یاد آئے تیری خوشبوئے قبا
تیرے قصے چھیڑتے ہیں رات کی رانی سے ہم
٭٭
تجھے قریب سمجھتے تھے گھر میں بیٹھے ہوئے
تری تلاش میں نکلے تو شہر پھیل گیا
مکان سے مکان نکلا کہ جیسے بات سے بات
مثالِ قصہ ہجراں یہ شہر پھیل گیا
٭٭
یہ دکانیں تو انہیں روکتی رہ جاتی ہیں
جانے کیوں لوگ گزر جاتے ہیں بازاروں سے
٭٭
بیٹھے رہنے سے تو لو دیتے نہیں یہ جسم و جاں
جگنوؤں کی چال چلیے روشنی بن جائیے
٭٭
آنکھ سے اشک نکلنے پہ پشیمان نہ ہو
یہ تو پانی کا پرندہ تھا جو تھل سے نکلا
٭٭
یہ کیا کہ ڈھونڈتے پھریے دیار وار تجھے
اور اس زمین پہ اپنا کوئی مکان ہی نہ ہو
٭٭
ایک ہتھیلی پر اس نے مہکائے حنا کے سندر پھول
ایک ہتھیلی کی قسمت میں لکھا دشت لکیروں کا
٭٭
تیرے لیے چراغ دھرے ہیں منڈیر پر
تو بھی اگر ہوا کی مثال آ گیا تو بس
٭٭
ہر ایک سمت سے اس کو صدائیں آتی ہیں
مجھے پکار کے خود بھی پکار میں گم ہے
نئے چراغ جلا مجھ کو ڈھونڈنے والے
تری نظر تو نظر کے غبار میں گم ہے
٭٭
چار سمتیں تو ہیں دیکھی بھالی ہوئی
اب کسی اور جانب سفر چاہیے
حسن کی تازگی تک ہی قصہ نہیں
بات بھی اب کوئی تازہ تر چاہیے
٭٭
ایک دھن ہے جو شب و روز رواں رکھتی ہے
ورنہ اپنا تو ہر اک کام کیا رکھا ہے
٭٭
ٹوٹے گا نہیں دشت نوردی کا تسلسل
رک جائیں گے ہم لوگ تو اشجار چلیں گے
٭٭
جانے والے نے کہا جی کو برا مت کیجے
اس سے بہتر ہے کوئی اور محبت کیجے
تو جو ہر بات پہ دیتا ہے پرندوں کی مثال
اس کا مطلب ہے، ترے شہر سے ہجرت کیجے
٭٭
سکوتِ دہر رگوں تک اتر گیا ہوتا
اگر میں شعر نہ کہتا تو مر گیا ہوتا
٭٭
ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا
دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے
٭٭
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
٭٭
عشق ہی کارِ مسلسل ہو گیا
زندگی کا مسئلہ حل ہو گیا
میرے آنسو میرے اندر ہی گرے
رونےسے جی اور بوجھل ہو گیا
آسماں پہلے نہیں تھا بے ستوں
لیکن اب دستِ دعا شل ہو گیا
گھومتا پھرتا ہے تنہا رات کو
سردیوں کا چاند پاگل ہو گیا
٭٭
ضرورت ہی نہیں دشمن کی تابش
مجھے میری تن آسانی بہت ہے
٭٭
بچھڑ گیا وہ جدائی کے موڑ سے پہلے
کہ اس کے بعد محبت میں صرف خواری تھی
٭٭
وہی کہ جس نے عطا کی گلاب کو خوشبو
مجھے بھی شوقِ اذیت سے بھر دیا اس نے
٭٭
یہ جو اس سے مجھے محبت ہے
اک ضرورت بلا ضرورت ہے
اپنی تعریف سن نہیں سکتا
خود سے مجھ کو بلا کی وحشت ہے
یہ مرا یوں ہی بولتے رہنا
ان کہی بات کی وضاحت ہے
اپنی تلوار تیز رکھتا ہوں
جانے کس سے مجھے عداوت ہے
دکھ ہوا آج دیکھ کر اس کو
وہ تو ویسا ہی خوبصورت ہے
بات ابھی کی ابھی نہیں ہے یاد
ایک لمحے میں کتنی وسعت ہے
٭٭
کیسے کہوں کی اپنی زباں بولتے ہیں ہم
الفاظ لاکھ اپنے ہوں لہجہ کسی کا ہے
٭٭
اس کا مطلب ہے یہاں اب کوئی آئے گا ضرور
دم نکلنا چاہتا ہے خیر مقدم کے لیے
٭٭
اس خزاں میں بھی وہی کاغذ کے پرزے جوڑ کر
اک شجر میں نے بنایا اپنے موسم کے لیے
٭٭
کوئی اندر کی گھٹن کا بھی علاج
گالیاں کاغذ پہ لکھ کر پھینک دے
٭٭
یہ تیرا دھیان کسی وقت کام آئے گا
ابھی لپیٹ کے رکھا ہے بادباں کی طرح
٭٭
یہ جان کر کہ بالآخر تو مجھ کو گرنا ہے
میں خستگی کو چھپاتا رہا مکاں کی طرح
مرے ہی گھر میں مرا معتبر حوالہ ہے
کہیں نہیں ہے کوئی سچ بھی میری ماں کی طرح
٭٭
تہمت اتا ر پھینکی لبادہ بدل لیا
خود کو ضرورتوں سے زیادہ بدل لیا
جب دیکھا رہزنوں کی توجہ نہیں ادھر
شہزادگی سے خرقۂ سادہ بدل لیا
٭٭
اب کون سیرِ ماہ کرے رات رات بھر
ہر خانماں خراب کو گھر دے دیا گیا
٭٭
ابھی سادہ ورق پر نام تیرا لکھ کے بیٹھا ہوں
ابھی اس میں مہک آنی ہے تتلی نے اترنا ہے
٭٭
اک در بدری ہم کو بھی لاحق ہے مگر ہم
کونجوں کی طرح شور مچایا نہیں کرتے
یہ لوگ بھی قامت میں صنوبر کی طرح ہیں
اُگتے ہیں جہاں، وہاں سایہ نہیں کرتے
٭٭
دیکھا نہ جائے دھوپ میں جلتا ہوا کوئی
میرا جو بس چلے کروں سایہ درخت پر
سب چھوڑے جا رہے تھے سفر کی نشانیاں
میں نے بھی ایک نقش بنایا درخت پر
٭٭
آڑے آتی ہے یہ حساس طبیعت ورنہ
جی تو کرتا ہے یہاں روز تباہی آئے
راستہ اتنا بھی ویراں نہیں دیکھا جاتا
کوئی خوشبو، کوئی جھونکا ، کوئی راہی آئے
٭٭
گلدان میں مری ہوئی تتلی اور ایک بھول
سوچوں اگر تو اس سے زیادہ نہیں ہوں میں
دستک ہر ایک در پہ میں دیتا ہوں دیر تک
لیکن کسی مکاں سے نکلتا نہیں ہوں میں
پچھلے کئی دنوں سے عجب بے خیالی ہے
یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ ہوں یا نہیں ہوں میں
٭٭
ہمارے پاؤں الٹے تھے فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آ گے گئے لیکن بہت پیچھے نکل آئے
بھٹکنے سے بچایا حسنِ کم اطراف نے ہم کو
کہ صد راہے تک آئے اور پھر سیدھے نکل آئے
٭٭
خدا نے ہم میں یہ کیا قدر مشترک رکھی
کہ میری آنکھ ترے لب سے پھول جھڑتا ہے
شکستگی میں بھی معیار اپنے ہوتے ہیں
گرے مکان تو اپنے ہی پاؤں پڑتا ہے
٭٭
سمجھنا ہے اسے لیکن
کتابیں پڑھ رہا ہوں میں
ابھی چڑیاں نہ بولیں
بہت جاگا ہوا ہوں میں
مکمل بھی ادھورا بھی
انوکھا تجربہ ہوں میں
سفر اچھا نہیں لگتا
کہاں سے آ رہا ہوں میں
٭٭
دل کو ناکارہ سمجھ کر رکھ دیا تھا
جب ہوئی کمرے میں تاریکی تو یہ پتھر کھلا
٭٭
اپنے اندر بھی اک تماشا ہے
کیا کریں کھڑکیاں کھول کے ہم
٭٭
اب کسی اور سمت چلتے ہیں
تھک گئی ہے یہ رہگذر اے دوست
اس طرح تو نہ وقت گزرے گا
کوئی اچھی بری خبر اے دوست
٭٭
اتفاقات کو میں نہیں مانتا
کوئی بچھڑے، بچھڑ کر دوبارہ ملے
کیسے ممکن ہے تسخیرِ دنیا نہ ہو
ایک تجھ سا ملے ایک مجھ سا ملے
٭٭
مجھے کلام پہ مجبور اگر نہ کرتا دل
مرا سکوت کوئی کا م کر گیا ہوتا
٭٭
اگر یہ تم ہو تو ثابت کرو کہ یہ تم ہو
گیا ہوا تو کوئی لوٹ کر نہیں آتا
ہماری خاک پہ اندھی ہوا کا پہرہ ہے
اسے خبر ہے یہاں کوزہ گر نہیں آتا
٭٭
اگر سوچا کبھی میں نے تری قامت نگاری کا
حوالہ مختلف دوں گا صنوبر کے حوالے سے
٭٭
اس لب کے سارے پھول تو شاخوں نے لے لیے
اور میں نے ایک گرا ہوا وعدہ اٹھا لیا
انگارہ سی زمیں پہ پڑے ہی تھے دل کے پاؤں
تابش کسی نے بڑھ کے یہ بچہ اٹھا لیا
٭٭
ابھی میں نشہ لا حاصلی میں رہتا ہوں
ابھی یہ تلخیِ دنیا مجھے گوارا نہیں
٭٭
کون کہتا ہے کہ وہ بھولتا جاتا ہے مجھے
اپنا چہرہ نہ سہی رہ تو دکھاتا ہے مجھے
صبح کے ساتھ میں کھو جاتا ہوں بچے کی طرح
شام ہوتے ہی کوئی ڈھونڈ کے لاتا ہے مجھے
آپ کچھ اور بتاتے ہیں مرے بارے میں
آئینہ کوئی اور شکل دکھاتا ہے مجھے
آج اک عمر میں یہ بھید کھلا ہے مجھ پر
وہ کوئی اور نہیں ہے جو ڈراتا ہے مجھے
سرد مہری میں یہ سورج بھی ہے تیرے جیسا
دور ہی دور سے جو دیکھتا جاتا ہے مجھے
یہ نہ میں ہوں نہ ہوا ہے نہ قضا ہے تابش
میرے لہجے میں کوئی اور بلاتا ہے مجھے
٭٭
اب پھول رفتنی نہیں خوشبو گزشتنی نہیں
بچھڑا وہ جس مقام پر موسم وہیں ٹھہر گیا
٭٭
میں ا س کا لمحہ موجود ہوں مگر وہ شخص
فضول سمجھ کر گزارتا ہے مجھے
بظاہر ایسا نہیں پیڑ اس حویلی کا
ہوا چلے تو بہت پھول مارتا ہے مجھے
٭٭
ڈھلتا سورج تو نہ ہاتھ آیا کہ لاتے اس کو
ایک رستہ تھا جسے شام کو گھر لے آئے
٭٭
وہ غزالوں کی طرح گھر سے تو نکلا تابش
عین ممکن ہے اسے خوف ادھر لے آئے
٭٭
میری نظروں میں ہے خس خانہ عالم جو بھی
سب تری نیم نگاہی کے اشارے تک ہے
پہلے ہم ناز اٹھاتے تھے بہت اس دل کے
لیکن اب اس کی کفالت بھی گزارے تک ہے
٭٭
جھونکے کے ساتھ چھت گئی دستک کے ساتھ در گیا
تازہ ہوا کے شوق میں میرا تو سارا گھر گیا
٭٭
لازم ہے کہ جاگے کبھی بچے کی طرح
یہ شہر کسی خواب سے ڈر کیوں نہیں جاتا
ملبے سے نکل آتا ہے آسیب کی مانند
لوگوں کی طرح خوف بھی مر کیوں نہیں جاتا
ملبوس سے کیوں منتِ یکجائی ہے تابش
میں ٹوٹ چکا ہوں تو بکھر کیوں نہیں جاتا
٭٭
گزشتہ امتوں کی انتہا سے ڈر نہیں لگتا
"یہ کیسے لوگ ہیں جن کو خدا سے ڈر نہیں لگتا”
٭٭
سسک رہی ہے اگر بات لفظ کے نیچے
تو ایسا کرتے ہیں پتھر ہٹا کے دیکھتے ہیں
کسی کی راہ میں پتے بچھا رہا ہے کوئی
شجر کی اوٹ سے جھونکے ہوا کے دیکھتے ہیں
٭٭
کبھی نیندیں کبھی آنکھوں میں پانی بھیج دیتا ہے
وہ خود آتا نہیں اپنی نشانی بھیج دیتا ہے
بناتا ہے وہ کاغذ پر شجر اور بعد ازاں ان کو
مری جانب برائے باغبانی بھیج دیتا ہے
٭٭
یہ پیڑ بھی عجیب ہیں ہنستے نہیں کبھی
پھولوں کو ضبط کرتے ہیں جذبات کی طرح
شہروں سے تنگ اور ہم آہنگ بھی بہت
بالکل یہ کنجِ دل ہے مضافات کی طرح
٭٭
کہیں رستے میں پھینک آئے ہیں اپنی مشعلیں ہم لوگ
ہوا کے سامنے ہیں اور ہوا سے ڈر نہیں لگتا
٭٭
جبینِ شوق سے سجدے ٹپکنے والے تھے
سو ہم نے اپنے ہی قدموں کو بارگاہ کیا
اور اب نگاہ میں جس کو چھپائے پھرتا ہوں
اسی چراغ نے ہی آئینہ سیاہ کیا
٭٭
تارے بھی تو محور سے نکل جاتے ہیں پیارے
آخر کوئی کب تک ترے چکر میں رہے گا
٭٭
یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے
٭٭
آنکھ لگتے ہی مری نیند اڑانے لگ جائیں
خواب چڑیوں کی طرح شور مچانے لگ جائیں
یہ بھی ممکن ہے کوئی روکنے والا نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں
دیکھ اے حسنِ فراواں ! یہ بہت ممکن ہے
میرا دل تک نہ لگے تیرے خزانے لگ جائیں
کارِ دنیا بھی عجب ہے کہ مرے گھر والے
دن نکلتے ہی مری خیر منانے لگ جائیں
٭٭
دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا
میں اپنے ہاتھ کا تتلی پہ سایہ کرتا تھا
اگر میں پوچھتا بادل کدھر کو جاتے ہیں
جواب میں کوئی آنسو بہایا کرتا تھا
یہ چاند ضعف ہے جس کی زباں نہیں کھلتی
کبھی یہ چاند کہانی سنایا کرتا تھا
میں اپنی ٹوٹتی آواز گانٹھنے کے لئے
کہیں سے لفظ کا پیوند لایا کرتا تھا
عجیب حسرتِ پرواز مجھ میں ہوتی تھی
میں کاپیوں میں پرندے بنایا کرتا تھا
تلاشِ رزق میں بھٹکے ہوئے پرندوں کو
میں جیب خرچ سے دانہ کھلایا کرتا تھا
ہمارے گھر کے قریب ایک جھیل ہوتی تھی
اور اس میں شام کو سورج نہایا کرتا تھا
یہ زندگی تو مجھے تیرے پاس لے آئی
یہ راستہ تو کہیں اور جایا کرتا تھا
٭٭
تو نہیں جانتا غالب کے طرفداروں کو
جا تجھے چھوڑ دیا ہم نے یگانہ کر کے
٭٭
لفظوں سے چھاؤں وضع کی سطرون کو سائباں کیا
جیسے بھی ہو سکا بسر وقتِ زوالِ جاں کیا
دل کو کسی کا سامنا کرنے کی تاب ہی نہ تھی
اچھا کیا کہ آنکھ نے آنسو کو درمیاں کیا
٭٭
جب انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں
گلی کے لوگ مرے دل پہ چلنے لگتے ہیں
میں اس لیے بھی پرندوں سے دور بھاگتا ہوں
کہ ان میں رہ کے مرے پر نکلنے لگتے ہیں
کبھی کبھی کسی بچے کی روح آتی ہے
کبھی کبھی مرے گھر گیند اچھلنے لگتے ہیں
عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی
ہمارے سامنے کپڑے بدلنے لگتے ہیں
وہ ہاتھ ہاتھ میں آنے کی دیر ہوتی ہے
ستارے اور کسی رخ پہ چلنے لگتے ہیں
جب آسمان پہ تابش دھنک ابھرتی ہے
ہم اپنے ساتھ چھتوں پر ٹہلنے لگتے ہیں
٭٭
جہانِ مرگِ صدا میں اک اور سلسلہ ختم ہو گیا ہے
کلامِ خدا یعنی خدا کا ہم سے مکالمہ ختم ہو گیا ہے
نہ تتلیوں جیسی دوپہر ہے نہ اب وہ سورج گلاب جیسا
جسے محبت کہا گیا وہ مغالطہ ختم ہو گیا ہے
اب اس لیے بھی ہمیں محبت کو طول دینا پڑے گا تابش
کسی نے پوچھا تو کیا کہیں گے کہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے
٭٭
رات کمرے میں نہ تھا میرے علاوہ کوئی
میں نے اس خوف سے خنجر نہ سرہانے رکھا
٭٭
کیا کہیے کس حال میں جھونکوں کے منہ چومتے
گلیوں گلیوں گھومتے دن گزرا بیکار کا
مجھ ایسے آوارگاں لائے اپنے کام میں
بے چینی کی شام میں اِک چکر بازار کا
٭٭
جسم مسمار کروں گا تو لگے گا مرے ہاتھ
اسی دیوار کے نیچے ہے خزانہ دل کا
٭٭
کہاں سمجھتے ہیں یہ لوگ نامرادی کو
جسے بھی پوچھیے کہتا ہے کچھ صلہ نہ ملا
٭٭
عجب طرح کے لوگ ہیں کہ ٹھیک توڑتے نہیں
مگر یہ مجھ کو ڈھونڈتے ہیں کرچیوں کی طرح
٭٭
مکاں کے پائیں باغ میں سبھا جمی تھی یاد کی
میں رات دیر تک رہا گئے ہوؤں کے درمیاں
٭٭
اب اور کیا ثبوت ہو قحط الرجال کا
اِک دوسرے کی ہم کو ضرورت ہے آج کل
٭٭
ترے ساحل پہ پیاسا مر رہا ہوں میں
سمندر! تیرا پانی کیا کروں میں
کوئی انجام دے آغاز جیسا
کہانی سی کہانی کیا کروں میں
٭٭
جمالِ کم نما کو کم صدا کیوں کہہ رہے ہو
میں اپنے وہم کی آواز پر تھوڑی گیا ہوں
٭٭
کوئی حل ایسا کہ جس سے مسئلہ قائم رہے
ختم ہو جائے اُداسی اور فضا قائم رہے
٭٭
قافلہ اشک کا اب روح کے صحرا میں نہیں
اب یہاں ریت ہے اور ریت روانی مانگے
٭٭
دل تو کہتا ہے اُسے معلوم ہونا چاہیے
درد کہتا ہے کہ آوازہ لگا مشکل کے وقت
٭٭
یہ دستِ کوزہ گر میں کارفرما اور ہے کوئی
وگرنہ کس نے بننا تھا بکھر جانے کے موسم میں
٭٭
شاخِ گریہ پہ بھی کھل اُٹھیں ترے عارض و لب
ہم غزل زاد اگر تیرا قصیدہ لکھیں
شاہ زادے! ترا کردار بدل دیں سارا
ہم اگر پانچویں درویش کا قصہ لکھیں
٭٭
اور تو کچھ بھی نہیں گردِ سفر حاضر ہے
ما بدولت سے کہو خاک بسر حاضر ہے
ریت کے واسطے کافی ہے مرے پاؤں کا لمس
تشنگی تیرے لیے دیدۂ تر حاضر ہے
وقت نا وقت حضوری کا تسلسل ٹوٹا
ایک ہی بار میں دل بارِ دگر حاضر ہے
٭٭
تیرے بس میں بھی نہ تھے جو ترے باعث بھی نہ تھے
اُن مسائل کا بھی میں نے تجھے حل جانا تھا
میری حساس طبیعت کا برا ہوجس نے
تیری چپ کو بھی ترا رد عمل جانا تھا
٭٭
طلسمِ ظلمتِ شب کا ازالہ کیا کرتا
پرندے سوئے ہوئے تھے میں نالہ کیا کرتا
خدا کے نام کی پروا نہیں تھی لوگوں کو
یہاں ہمارا تمہارا حوالہ کیا کرتا
٭٭
لوگ عزت سے نام لیتے ہیں
رفتگاں میں شمار ہے اپنا
٭٭
یوں بچایا ہے مجھے مجھ سے خدا نے میرے
سنگ جو ہاتھ میں تھا اب ہے سرہانے میرے
جب نہ کام آئی مرے دستِ ہنر کی کوشش
مرحلے سہل لیے دستِ دعا نے میرے
٭٭
لے لیا یونہی سمندر نے خود اپنے ذمے
ورنہ ہم لوگ تھے مہتاب کے مارے ہوئے لوگ
٭٭
اور ہی کچھ نہ بول دوں عرض ہنر کے شوق میں
میں ہوں کسی کا راز داں میرے لیے دعا کرو
چاہیے پرورش مجھے نخلِ بزرگ کی طرح
دشت کے سب پرندگاں میرے لیے دعا کرو
٭٭
ملتی نہیں ہے ناؤ تو درویش کی طرح
خود میں اتر کے پار اتر جانا چاہیے
٭٭
پسِ گریہ کوئی دیتا ہے تسلی تجھ کو
یہ جو اے دل تجھے بے وجہ سکوں ہے یوں ہے
میر صاحب ہی نہیں اس سے پرے بیٹھتے ہیں
جو بھی شائستہِ آدابِ جنوں ہے یوں ہے
زندگی بھر میں کوئی شعر تو ایسا ہوتا
میں بھی کہتا جو مرا زخمِ دروں ہے یوں ہے
نیست میں ہست کا احساس دلاتی ہوئی آنکھ
شور کرتی ہے کہ ہے کن فیکوں ہے یوں ہے
٭٭
اُس کا رشتہ خواب سے اور خوف سے اور خاک سے
یوں سمجھ لیجیے کہ وہ بالواسطہ میرا بھی ہے
٭٭
ایسے تو کوئی ترکِ سکونت نہیں کرتا
ہجرت وہی کرتا ہے جو بیعت نہیں کرتا
٭٭
ایسے نہیں مانوں گا میں ہستی کا توازن
تقطیع کیا جائے یہ مصرعہ مرے آگے
حیرت ہے کہ دیتی ہیں مجھے طعنہ وحشت
ترتیب سے رکھی ہوئی اشیاء مرے آگے
٭٭
ان کے بچوں کو خدا سانپ سے محفوظ رکھے
دن میں ہوتے ہیں پرندوں کے ٹھکانے خالی
٭٭
غرور ر کذب و ریا کل من علیہا فان
مسلسل ایک ندا کل من علیہا فان
اُسی نے ہم سے کہا عشق مر نہیں سکتا
اُسی نے ہم سے کہا کل من علیہا فان
ہمارے نام شجر پر لکھے ہوئے تھے جہاں
وہیں کسی نے لکھا کل من علیہا فان
٭٭
کیوں پھیرتی ہے چاند کے بالوں میں انگلیاں
کس کام پر ہے شاخِ صنوبر لگی ہوئی
٭٭
نہیں پہنچنا ہمیں گر کسی نتیجے پر
تو پھر جو ہم میں ہے جاری وہ گفتگو کیا ہے
کوئی تو ہو جسے اپنا رقیب ٹھہراؤں
کوئی تو ہو جسے معلوم ہو تو کیا ہے
٭٭
ختم ہوتی ہی نہیں گریہ و زاری اُن کی
میر نے ہاتھ تو ہر لفظ کے سر پر رکھا
٭٭
عشق زادوں کے لہو کا یہ اثر لگتا ہے
آج بھی دشت میں نیزے کو ثمر لگتا ہے
اس زمانے میں غنیمت ہے غنیمت ہے میاں
کوئی باہر سے بھی درویش اگر لگتا ہے
٭٭
اُس کے گل پھول بھی کام آتے نہیں اس کے
پیڑ کے دکھ بھی مرے دستِ ہنر والے ہیں
٭٭
میری تنہائی بڑھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
ہنس تالاب پہ آتے ہیں چلے جاتے ہیں
اس لئے اب میں کسی کو نہیں جانے دیتا
جو مجھے چھوڑ کے جاتے ہیں چلے جاتے ہیں
میری آنکھوں سے بہا کرتی ہے ان کی خوشبو
رفتگاں خواب میں آتے ہیں چلے جاتے ہیں
شادیِ مرگ کا ماحول بنا رہتا ہے
آپ آتے ہیں رلاتے ہیں چلے جاتے ہیں
کب تمھیں عشق پہ مجبور کیا ہے ہم نے
ہم تو بس یاد دلاتے ہیں چلے جاتے ہیں
آپ کو کون تماشائی سمجھتا ہے یہاں
آپ تو آگ لگاتے ہیں چلے جاتے ہیں
٭٭
چلتا رہنے دو میاں سلسلہ دلداری کا
عاشقی دین نہیں ہے کہ مکمل ہو جائے
٭٭
یہ جو ہم تجھ سے تری بات کرنا چاہتے ہیں
جنوں بہ حرف و حکایات کرنا چاہتے ہیں
اسی لیے تو دعا درمیان میں لائے
گلہ برنگِ مناجات کرنا چاہتے ہیں
تمہیں پسند غیاب و حجاب میں رہنا
مگر جو تم سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں
یہ گرد بادِ جہاں کیوں ہمیں گھسیٹتا ہے
کہ ہم تو رقص ترے ساتھ کرنا چاہتے ہیں
اگر قریب سے گزروں تو ایسا لگتا ہے
یہ پیڑ مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں
٭٭
تجھ سے نہیں ملا تھا مگر چاہتا تھا میں
تو ہم سفر ہو اور کہیں کا سفر نہ ہو
تو جانتا نہیں مرے مالک مکان کو
اے دوست! کوئی چیز اِدھر سے اُدھر نہ ہو
٭٭
عجیب لوگ ہیں یہ خاندانِ عشق کے لوگ
کہ ہوتے جاتے ہیں قتل اور کم نہیں ہوتے
٭٭
کوئی ملتا نہیں یہ بوجھ اٹھانے کے لیے
شام بے چین ہے سورج کو گرانے کے لیے
اپنے ہمزاد درختوں میں کھڑا سوچتا ہوں
میں تو آیا تھا انہیں آگ لگانے کے لیے
لفظ تو لفظ یہاں دھوپ نکل آتی ہے
تیری آواز کی بارش میں نہانے کے لیے
٭٭
یہ ہم کو عشق غلط فہمیوں میں ڈال گیا
وگرنہ میں ہوں ضروری نہ تو ضروری ہے
٭٭
ہم کنارے پہ سلگتے ہوئے پیڑوں کی طرح
آپ تصویر میں دریا کی جگہ رہتے ہیں
یہ بھی رہتے نہیں ویران جگہ پر تابش
دکھ بھی پرندوں کی طرح شہر میں آ رہتے ہیں
٭٭
اگر کبھی موجودگاں سے فرصت ہو
تو رفتگاں مری نیندیں حرام کرتے ہیں
ابھی تو گھر میں نہ بیٹھیں کہو بزرگوں سے
ابھی تو شہر کے بچے سلام کرتے ہیں
٭٭
یہ روز و شب ہماری ترجیح نہیں ہیں
ہم تو جمالِ جاناں تجھ کو بسر کریں گے
٭٭
عین ممکن ہے کہ ہو اس سے علاج وحشت
شہر میں زور سے اک نام پکارا جائے
٭٭
خیال و خواب و خبر کے لیے سلام و دعا
لواحقین ہنر کے لیے سلام و دعا
ہوائے تیز کی خاطر پیامِ خندہ لب
چراغِ راہ گزر کے لیے سلام و دعا
چلیں کوئی تو مجھے ڈوبتے بھی دیکھے گا
کنارہ گیر شجر کے لیے سلام و دعا
٭٭
لوگو!اس گلی میں مری عمر کٹ گئی
مجھ کو گلی میں جاننے والا کوئی تو ہو
٭٭
ایک تو مڑ کے نہ جانے کی اذیت تھی بہت
اور اس پر یہ ستم کوئی پکارا بھی نہیں
عمرِ مابعد اگر تیرے علاوہ کچھ ہے
پھر تو میں اب بھی نہیں اور دو بارا بھی نہیں
٭٭
ایک بے کار تمنا کو لگا کے دل پر
ہم نے ٹوٹے ہوئے حجرے کی مرمت کی ہے
چھوٹی اینٹوں سے بنایا ہوا یہ حجرہ دل
گزرے وقتوں میں یہاں کس نے سکونت کی ہے
٭٭
بے سخن ملاقاتیں خوشبوؤں کے جھونکے ہیں
عشق کرنے والوں کے جسم تک مہکتے ہیں
٭٭
پھر اس کے بعد پھلوں میں مٹھاس نہیں آئی
شجر نے کام لیا تھا غلط بیانی سے
تو مل گیا ہے تو اچھا ہوا وگرنہ دوست
کسے غرض تھی محبت میں کامرانی سے
٭٭
آسودگانِ رنج ہیں ہم کو خوشی سےکیا
تو خیریت نہ جان اگر خیریت سے ہیں
کیا طُرفہ لوگ ہیں یہ ترے قیس و کوہکن
حالت کوئی نہیں ہے مگر خیریت سے ہیں
٭٭
دل بستگیء شوق کے سامان بندھے ہیں
گھر میں کہیں پنجرے کہیں گلدان بندھے ہیں
یہ اپنی محبت تو دکھاوے کے لیے ہے
ہم تم تو کہیں اور مری جان بندھے ہیں
تم کاٹ نہ دینا اسے بے کار سمجھ کر
اس پیڑ کے نیچے کئی پیمان بندھے ہیں
یہ ہم جو کسی طور نہیں کھلتے کسی پر
تجھ ہاتھ کی خاطر بہت آسان بندھے ہیں
عالم تھے کئی اور بھی مٹی کے علاوہ
کیا اس میں کشش تھی کہ یہاں آن بندھے ہیں
٭٭
پھر تو اس کی یاد بھی رکھی نہ میں نے اپنے پاس
جب کیا واپس تو کل اسباب واپس کر دیا
التجائیں کر کے مانگی تھی محبت کی کسک
بے دلی نے یہ غمِ نایاب واپس کر دیا
٭٭
تباہ ہو کے بھی رہتا ہے دل کو دھڑکا سا
کہ رائیگاں نہ چلی جائے رائیگانی مری
٭٭
کسی برتن کی طرح توڑ دیا ہے اس نے
اپنے ہاتھوں سے مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
اس کی حسرت میں نکل آیا ہوں اپنی جانب
رائیگانی کو عجب موڑ دیا ہے اس نے
٭٭
لو لگانے سے گئی دربدری کی ذلت
خود کو پہنچا ہوا لگتا ہوں سفر سے پہلے
اک ہتھیلی ہے مری ایک ہتھیلی اس کی
سب دعائیں اثر یاب ہیں اثر سے پہلے
٭٭
غرق شہروں کی کہانی اور ہے
تیری میری رائیگانی اور ہے
جینے مرنے کے علاوہ بھی یہاں
ایک صورت درمیانی اور ہے
میرے گرنے کو زمانے چاہییں
میری بنیادوں میں پانی اور ہے
گھر ٹپکتا دیکھ کر روتی ہے ماں
چھت تلے اک چھت پرانی اور ہے
٭٭
شعر لکھنے کو اب رہا کیا ہے
اس سے کہنے کو اب رہا کیا ہے
میرا ہم عصر صبح کا تارا
میرے بارے میں جانتا کیا ہے
سوچتے ہونٹ ، بولتی آنکھیں
حیرتی کا مکالمہ کیا ہے
میں یہاں سے پلٹنا چاہتا ہوں
اے خدا تیرا مشورہ کیا ہے
جسم کے اس طرف ہے گل آباد
پھاند دیوار، دیکھتا کیا ہے
میری خود سے مفاہمت نہ ہوئی
تو بتا، تیرا مسئلہ کیا ہے
اس لیے بولنے پہ ہوں مجبور
آپ سوچیں گے سوچتا کیا ہے
میں بنا تھا کھنکتی مٹی سے
میرے اندر سکوت سا کیا ہے
٭٭
سکوتِ نیم شبی سے ڈر گئے ہم بھی
ہمیں سنبھال کہ گیتوں سے بھر گئے ہم بھی
بچھڑنے والو! کبھی آئینہ بھی دیکھنا تم
تمہارے ساتھ کوئی ہاتھ کر گئے ہم بھی
٭٭
اب میں ترے دامن سے لگا سوچ رہا ہوں
کیا گرد کو مل جاتا ہے رہگیر سے لگ کر
٭٭
گدائے حرف ہیں، شام و سحر تسبیح کرتے ہیں
ہم اٹھتے بیٹھتے اسمِ ہنر تسبیح کرتے ہیں
کہ جیسے شہر پر کوئی مصیبت آنے والی ہو
ہوا کچھ پڑھتی پھرتی ہے شجر تسبیح کرتے ہیں
خداوندا! یہ کیسی رات آئی ہے قیامت کی
ترے بندے کوئی حرفِ دگر تسبیح کرتے ہیں
٭٭
ممکن ہے اب وقت کی چادر پر میں کروں رفو کا کام
جوتے میں نے گانٹھ لیے ہیں گدڑی میں نے سی لی ہے
٭٭
اسی خیال سے اپنی جڑیں نہ پھیلنے دیں
کہ جس نے پاؤں دیے ہیں کبھی سفر دے گا
اسے پسند نہیں ہوں میں پہلی حالت میں
میں اور ہوں وہ مجھے کوئی اور کر دے گا
٭٭
کسی نے دیکھا کسی نے پوچھا کسی نے روک کسی نے ٹوکا
ہمیں محبت سے پیشتر بھی بڑے بڑے تجربے ہوئے ہیں
دعائیں ان کے لیے جنہیں دل لگانے کی دھن نہیں سمائی
سلام ان پر کہ جو محبت میں جان سے بھی گئے ہوئے ہیں
نہ اس میں آسیبِ آرزو ہے ، نہ اس میں بچوں کی ہاؤ ہو ہے
نہ جانے کیوں اس مکانِ دل سے محلے والے ڈرے ہوئے ہیں
٭٭
اب اس سے اگلا سفر ہمارا لہو کرے گا
کہ ہم مدینے سے کربلا تک پہنچ گئے ہیں
گلابوں اور گردنوں سے اندازہ ہو رہا ہے
کہ ہم کسی موسمِ جزا تک پہنچ گئے ہیں
تری محبت میں گمرہی کا عجب نشہ تھا
کہ تجھ تک آتے ہوئے خدا تک پہنچ گئے ہیں
٭٭
بے تعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں
کتنا کچھ جان کے یہ بے خبری آتی ہے
اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گھل جاتے ہیں تب کوزہ گری آتی ہے
کتنا رکھتے ہیں اِس شہر خموشاں کا خیال
روز اک ناؤ گلابوں سے بھری آتی ہے
زندگی کیسے بسر ہو گی کہ ہم کو تابش
صبر آتا ہے نہ آشفتہ سری آتی ہے
٭٭
پرندے بھی اگر مل بیٹھتے ہیں
یہی لگتا ہے سازش ہو رہی ہے
کسی نے خط میں لکھا ہے کہ تابش
یہاں کچھ دن سے بارش ہو رہی ہے
٭٭
یہ جو نشہ سا طاری ہے طاری رہے رقص جاری رہے
میرے مولا یہ بے اختیاری رہے رقص جاری رہے
ہم لہو میں نہائیں کہ جاں ہی سے جائیں تجھے اس سے کیا
شہرِ تہمت تری سنگباری رہے رقص جاری رہے
ہم نے تو جس جگہ تجھ کو رکھا وہیں آبلہ پڑ گیا
پائے وحشت تری وضعداری رہے رقص جاری رہے
ایک پا کوب سے کہہ رہا ہے چٹختا ہوا خاکداں
جتنی دیر اس جگہ تیری باری رہے رقص جاری رہے
٭٭
کیوں نہ پھر اسی سے تعلق کو نبھایا جائے
جب کسی اور کا ہونا ہے اسی کا ہونا
تیرا سورج کے قبیلے سے تعلق تو نہیں
یہ کہاں سے تجھے آیا ہے سبھی کا ہونا
٭٭
دریا کی روانی ہے روانی کے علاوہ
یہ بھید نہ سمجھا کوئی پانی کے علاوہ
میں تجھ سے کہیں اور ملا ہوں
خوابوں سے اُدھر عالمِ فانی کے علاوہ
آئی جو کسی روز تو پوچھوں گا صبا سے
کیا کرتی ہے پیغام رسانی کے علاوہ
٭٭
یوں بھی منظر کو نیا کرتا ہوں
دیکھتا ہوں اسے حیرانی کے ساتھ
گھر میں ایک تصویر جنگل کی بھی ہے
رابطہ رہتا ہے ویرانی کے ساتھ
٭٭
کوئی کوئی عشق میں ہوتا ہے گمنام
کوئی کوئی عزت والا ہوتا ہے
اپنے دکھ اپنی آنکھیں روتی ہیں
ہر گھر کا اپنا پرنالا ہوتا ہے
رونے سے بھی رونق آتی ہے رخ پر
بارش سے بھی حسن دوبالا ہوتا ہے
روز ہی دل کو صاف کیا کرتا ہوں میں
روز ہی اس کونے میں جالا ہوتا ہے
ان میں سے ہوں جن کا سارا مال و منال
ایک پیالہ ایک دو شالہ ہوتا ہے
٭٭
کہاں وہ وقت کہ پانی سے خوف آتا تھا
اور اب زمین میں چہرہ دکھائی دیتا ہے
یہ دیکھنے کو تماشا بنے تماشائی
وہ دیکھتا ہوا کیسا دکھائی دیتا ہے
٭٭
مجھے بھی اوروں کی طرح کاغذ ملا ہے لیکن
میں اس سے ناؤ نہیں سمندر بنا رہا ہوں
اور اب اداسی کی ستر پوشی کا مرحلہ ہے
تھکن کے دھاگوں سے ایک چادر بنا رہا ہوں
٭٭
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں
٭٭
زخم چھپانے کو ہم خلعت مانگتے ہیں
تم کہتے ہو اجرِ ہجرت مانگتے ہیں
میری دعا سے اور تری آمین سے کیا
اس بستی کے لوگ قیامت مانگتے ہیں
٭٭
تمہارے شہر کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا
وہی اک جھیل ہوتی تھی جدھر جاتے تھے ہم دونوں
سنہری مچھلیاں، مہتاب اور کشتی کے اندر ہم
یہ منظر گم تھا پھر بھی جھیل پر جاتے تھے ہم دونوں
زمستاں کی ہواؤں میں فقط جسموں کے خیمے تھے
دبک جاتے تھے ان میں جب ٹھٹھر جاتے تھے ہم دونوں
عجب اک بے یقینی میں گزرتی تھی کنارے پر
ٹھہرتے تھے نہ اُٹھ کر اپنے گھر جاتے تھے ہم دونوں
کہیں جانا نہیں تھا اس لیے آہستہ رو تھے ہم
ذرا سا فاصلہ کر کے ٹھہر جاتے تھے ہم دونوں
زمانہ دیکھتا رہتا تھا ہم کو چور آنکھوں سے
نہ جانے کن خیالوں میں گزر جاتے تھے ہم دونوں
بس اتنا یاد ہے پہلی محبت کا سفر تھا وہ
بس اتنا یاد ہے شام و سحر جاتے تھے ہم دونوں
حدودِ خواب سے آگے ہمارا کون رہتا تھا
حدودِ خواب سے آگے کدھر جاتے تھے ہم دونوں
٭٭
چاند نکلے اور اس کی عزت افزائی نہ ہو
کیسے ممکن ہے نگر میں کوئی سودائی نہ ہو
٭٭
کس جگہ ہم نے نہیں ٹوٹنے دینا ترا دل
کس جگہ ہم نے بدلنا ہے بیاں جانتے ہیں
٭٭
نیند آتے ہی مجھے اُس کو گزر جانا ہے
وہ مسافر ہے جسے میں نے شجر جانا ہے
چاند کے ساتھ بہت دور نکل آیا تھا
اب کھڑا سوچتا ہوں میں نے کدھر جانا ہے
اس کو کہتے ہیں ترے شہر سے ہجرت کرنا
گھر پہنچ کر بھی یہ لگتا ہے کہ گھر جانا ہے
٭٭
ہم لوگ تری چُپ بھی کہاں جھیل سکے ہیں
اس پہنچے ہوئے تیر کو جملے میں نہ رکھنا
٭٭
دل کی ضد تھی کہ اسے دور سے چاہا جائے
اور تنہائی اسے ہاتھ لگا بھی آئی
میرے اطراف میں رات ایسی بلا کی چُپ تھی
پھول ٹوٹا تو مجھے اس کی صدا یاد آئی
میں ابھی سوچ رہا تھا کہ کھلوں یا نہ کھلوں
میری چپ جا کے اسے بھید بتا بھی آئی
میں نے اب تک نہیں دنیا کو مقابل جانا
اپنی دانست میں وہ مجھ کو گرا بھی آئی
حسنِ محجوب تری ایک جھلک کی خاطر
اِک پیمبرؐ ہی نہیں ، خلق خدا بھی آئی
٭٭
میں بے وفا ہوں مجھ کو گریبان سے پکڑ
اور مجھ سے پوچھ میں ترا غم کدھر کیا
٭٭
شہر کو شورِ قیامت چاہیے
یار یہ دو چار چڑیاں کیا کریں
شاخ سے کیوں توڑ لیں تازہ گلاب
کیوں کسی تتلی کا حق مارا کریں
تم مکمل بات پر خاموش ہو
لوگ تو پورا مرا جملہ کریں
قیس مل جائے تو پوچھیں مرشدا
عشق کرنا چھوڑ دیں ہم یا کریں
٭٭
ہم بھی کہتے ہیں کہ سب کچھ ہے ہمارے دم سے
ہم بھی گزرے ہوئے لوگوں کی طرح سوچتے ہیں
تیرے ہاتھوں سے کسی دن نہ جھپٹ لیں تجھ کو
ہم محبت میں غریبوں کی طرح سوچتے ہیں
یہ میاں اہلِ محبت ہیں انہیں کچھ نہ کہو
یہ بڑے لوگ ہیں بچوں کی طرح سوچتے ہیں
٭٭
زندگی بھر چاہے جانے کی اذیت سے گزر
پیدا کرنے والے نے تجھ کو حسیں پیدا کیا
٭٭
میں کوئی شاخِ شکستہ ہوں اور تو اس کی ٹیک
یار اپنا سلسلہ یک جان و دو قالب نہیں
لیکن اتنا دھیان رکھنا میں پرندوں کی طرح
تم پہ اپنا حق جتاتا ہوں مگر غاصب نہیں
٭٭
یوں ہی پہچان کی ذلت سے نکل کر دیکھوں
نام تبدیل کروں شکل بدل کر دیکھوں
ہو بھی سکتا ہے کنارے پہ کھڑا ہو کوئی
ڈوبتے ڈوبتے اک بار اُچھل کر دیکھوں
٭٭
یہ جو میں بھاگتا ہوں وقت سے آگے آگے
میری وحشت کے مطابق یہ روانی کم ہے
غم کی تلخی مجھے نشہ نہیں ہونے دیتی
یہ غلط ہے کہ تری چیز پرانی کم ہے
ہجر کو حوصلہ اور وصل کو فرصت درکار
اک محبت کے لیے ایک جوانی کم ہے
اس سمے موت کی خوشبو کے مقابل
کسی آنگن میں کھلی رات کی رانی کم ہے
٭٭
کہ جیسے آندھیاں بارش کو ساتھ لاتی ہیں
وہ رو پڑا مجھے قدموں کی دھول کرتے ہوئے
٭٭
کہیں خوشبو کہیں جگنو، کہیں میں تو نکلتے ہیں
بہت بکھرے ہوئے لیکن بہت یکسو نکلتے ہیں
ہم اپنے اپنے گھر سے یوں نکل آئے محبت میں
کہ جیسے شدتِ جذبات میں آنسو نکلتے ہیں
٭٭
جانتا ہوں کیسے ہوتی ہے سحر
زندگی کاٹی ہے بیماروں کے بیچ
٭٭
یوں ہی ممکن ہے یہ وقت آنکھ میں پانی ہو جائے
رات لمبی ہے بہت کوئی کہانی ہو جائے
شعر ہوتے ہیں نہ روتے ہیں نہ مل بیٹھتے ہیں
کس طرح ختم طبیعت کی گرانی ہو جائے
اپنے کمرے کے میں پردے ہی ہٹا دوں تابش
یوں ہی ممکن ہے مری شام سہانی ہو جائے
٭٭
قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ
جانے کس دھن میں سلگتے ہیں بجھائے ہوئے لوگ
اپنا مقسوم ہے گلیوں کی ہوا ہو جانا
یار ہم ہیں کسی محفل سے اٹھائے ہوئے لوگ
شکل تو شکل مجھے نام بھی اب یاد نہیں
ہائے وہ لوگ وہ اعصاب پہ چھائے ہوئے لوگ
٭٭
کیا ستم ہے کہ لگاتا ہوں ترے نام وہ شعر
جو کسی اور کے ہجراں میں کہا ہوتا ہے
وحیِ بے لفظ سمجھ میں نہیں آنے والی
ورنہ طوفان کا چڑیوں کو پتہ ہوتا ہے
٭٭
میں آپ اپنا دیا بجھانے پہ تل گیا ہوں
یہاں سے میرے فرار کا وقت ہو گیا ہے
بگل کی آواز سن کے آنسو نکل پڑے ہیں
کہ پھر کسی شہریار کا وقت ہو گیا ہے
٭٭
سبھی کو شوق اسیری ہے اپنی اپنی جگہ
وہ ہم کو اور ہم ان کا خیال باندھتے ہیں
٭٭
ٹوٹی پڑی ہے موج بھی پتوار کی طرح
اُس پار کے بھی رنگ ہیں اِس پار کی طرح
سادہ بہت مگر کئی پرتیں لیے ہوئے
اس کا بدن ہے میر کے اشعار کی طرح
٭٭
اس قیامت میں گھنے اظہار کی توفیق دے
ربِ سایہ حرفِ سایہ دار کی توفیق دے
دیکھ اب کتنے خدا میرے مقابل آ گئے
میں نہ کہتا تھا مجھے انکار کی توفیق دے
تیرے دل میں جو سخن ہے وہ مرے دل میں بھی تھا
اس کی مرضی ہے جسے اظہار کی توفیق دے
٭٭
اداس شام، تھکے سائے، غالبِ خستہ
بڑے مزے سے ہوں اپنے معاصرین کے ساتھ
٭٭
آدمی اب بھاگ کر جائے کہاں
شہر کے چاروں طرف بھی شہر ہے
مر گیا ہے چاند بھی چڑیوں کے ساتھ
جھیل کے پانی میں کتنا زہر ہے
٭٭
یہ پرندے آیتِ ردِ بلاسے کم نہیں
ان کے ہونے سے ہمارا مستقر محفوظ ہے
٭٭
سانس چڑھتے ہیں چٹخنی کی طرح
کیا بلا شہر میں اتر آئی
پہلے کچھ دن لگا کہ وہ میں ہوں
پھر نہ اس کی کوئی خبر آئی
٭٭
جب کہا دل نے کہ باہر کی طرف
کھنچ گیا میں اور اندر کی طرف
صبح دم اٹھا تھکن سے چور چور
خواب میں چلتا رہا گھر کی طرف
اس مکاں کا ایک دروازہ کتاب
اور اک کھڑکی سمندر کی طرف
٭٭
ہوائیں پیغام دے گئی ہیں کہ مجھے دریا بلا رہا ہے
میں بات ساری سمجھ گیا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
مجھے عزیزانِ من! محبت کا کوئی تجربہ نہیں ہے
میں اس سفر میں نیا نیا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
مجھے کسی سے بھلائی کی اب کوئی توقع نہیں ہے تابش
میں عادتاً سب سے کہہ رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
٭٭
پھر اس کے بعد یہ بازارِ دل نہیں لگنا
خرید لیجیے صاحب! غلام آخری ہے
٭٭
اب میری جان جاتی ہے مجنوں کے نام سے
پہلے پہل یہ لگتا تھا ایسا تو میں بھی ہوں
٭٭
کشیدہ کارِ ازل تجھ کو اعتراض تو نئیں
کہیں کہیں سے اگر زندگی رفو کی جائے
٭٭
دوست! سب سے کہاں کھنچتا ہے غزل کا چلہ
حجرہ میر میں ہوتا ہے سدا ایک ہی شخص
٭٭
اے اپنے عشق کی باتیں سنانے والے شخص
اسی طرح کی کہانی ہمارے پاس بھی ہے
خفا ہوا بھی تو رسوا نہیں کرے گا تجھے
کہ زود رنج ترا مصلحت شناس بھی ہے
تجھے پسند بہت ہے گلاب کا کھلنا
اور اتفاق سے تو آئینے کے پاس بھی ہے
٭٭
تجھ کو اپنے آپ سے فرصت نہیں ہے اور یاں
اے نگاہِ یار میرا وقت گزرا جائے ہے
٭٭
کھینچ لاتی ہے ہمیں تیری محبت ورنہ
آخری بار کئی بار ملے ہیں تجھ سے
٭٭
ہمارے دل میں ہے آسیبِ آرزو ایسا
کبھی کبھی تو ہمیں خود سے خو ف آنے لگے
جہان چھوڑتے جاتے ہیں کس سہولت سے
یہ رفتگاں تو مرا حوصلہ بڑھانے لگے
٭٭
بادباں کب کھولتا ہوں پار کب جاتا ہوں میں
روز رستے کی طرح دریا سے لوٹ آتا ہوں میں
صبح دم میں کھولتا ہون رسی اپنے پاؤں کی
دن ڈھلے خود کو کہیں سے ہانک کر لاتا ہوں میں
ایک بچے کی طرح خود کو بٹھا کر سامنے
خوب خود کو کوستا ہوں خوب سمجھاتا ہوں میں
یہ وہی تنہائی ہے جس سے بہل جاتا تھا دل
یہ وہی تنہائی ہے اب جس سے گھبراتا ہوں میں
٭٭
خلوتِ خاص میں بلوانے سے پہلے تابش
عام لوگوں میں بہت دیر تک بٹھایا گیا میں
٭٭
دل میں ہوتا تو یہ ممکن تھا نکل بھی جاتا
اب تو وہ شخص بہت دور تلک ہے مجھ میں
٭٭
اے رنجِ بے دلی! ترے رہنے کے واسطے
دیوار و در کی شرط ہے دیوار و در کہاں
یہ جاننے کو ان کا تعاقب کروں گا میں
یہ لوگ جا رہے ہیں مجھے چھوڑ کر کہاں
٭٭
چاند نے جھک کر پوچھا ہو گا
شہرِ برباد ترا کیا ہو گا
دور ایسا ہے کہ لحظہ لحظہ
سوچنا پڑتا ہے اب کیا ہو گا
بوجھ وہ آن پڑا ہے دل پر
شعر کہہ کر بھی نہ ہلکا ہو گا
میں جہاں ڈوب رہا ہوں لوگو
کل یہاں ایک جزیرہ ہو گا
سب کو ہجرت کی پڑی ہے تابش
اس گھڑی کون کسی کا ہو گا
٭٭
پھر کوئی لے کے آ گیا دامن کی دھجیاں
لگتا تھا مجھ پہ ہو چکا دیوانہ پن تمام
٭٭
محبت ایک دم دکھ کا مداوا نہیں کرتی
یہ تتلی بیٹھتی ہے زخم پر آہستہ آہستہ
٭٭
یہ محبت تو بہت بعد کا قصہ ہے میاں
میں نے اُس ہاتھ کو پکڑا تھا پریشانی میں
٭٭
اس لیے جل کے کبھی راکھ نہیں ہوتا دل
یہ کبھی آگ میں ہوتا ہے کبھی پانی میں
٭٭
یہ ترے خیال کے لوگ ہیں یہ بڑے کمال کے لوگ ہیں
ابھی پاؤں رکھنے کی جا نہ تھی ابھی خوابِ خوش میں سما گئے
سرِ راہ روک کے پوچھنا شرفاء کا شیوہ نہیں میاں
کبھی فرصتوں میں بتاؤں گا جو معاملے مجھے کھا گئے
٭٭
اپنی سی تو کر رہے ہیں ہم فنا آمادگاں
بس وہی رہ جائے گا جو اُس کی نظر میں رہ گیا
٭٭
تشکر: اردو محفل
ٹائپنگ: فلک شیر چیمہ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
السلام علیکم!
عباس تابش آج کی غزل کے نمائندہ شعراء میں سے ہیں۔ سال بھر قبل عباس تابش کی کلیات "عشق آباد” ڈھونڈی تھی، کیونکہ مدت سے شائع نہ ہوئی تھی ،اب اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئےتابش کے کلام میں سے پسندیدہ اشعار کو اکٹھا کر دیا ہے۔ یہ اشعار مجھے کیوں پسند ہیں، بلکہ عباس تابش خود مجھے کیوں پسند ہے، اس کا جواب کسی اور مجلس کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ، سر دست تو یہ اشعار ، نظمیں یا خال
خال مکمل غزل ہی ملاحظہ فرمائیے۔
میں محترم اعجاز عبید صاحب کا شکرگزار ہوں، کہ انہوں نے اس انتخاب کو اس برقی کتب خانہ میں جگہ دی۔ انتہائی خاموشی سے ادب کی جو خدمت یہ عاجز سے بزرگ کر رہے ہیں………..مشرق کے بڑے اہل علم کا یہی شیوہ ہمیشہ سے رہا ہے……..آج لوگ شور مچاتے ہیں ……بلکہ کرائے کے بھونپو بھی بجواتے ہیں…….ایسے میں ان جیسی صاحب علم اور مخلص ہستیاں غنیمت ہیں ……غنیمت