فہرست مضامین
- انتخابِ میر انیسؔ
- میر ببر علی انیس
- نہ منصب سے غرض، نے خواہشِ جاگیر رکھتے ہیں
- پڑا جو عکس تو ذرہ بھی آفتاب بنا
- سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
- رنجِ دُنیا سے کبھی چشم اپنی نم رکھتے نہیں
- جز پنجتن کسی سے تولّا نہ چاہیے
- مرا رازِ دل آشکارا نہیں
- آ کے جو بزمِ عزا میں رو گئے
- زرد چہرہ ہے نحیف و زار ہوں
- مجرائی! جب کہ شہ نے سر اپنا کٹا دیا
- خوشا زمینِ معلیٰ، زہے فضائے نجف
- چہلم ہے آج سرورِ عالی مقام کا
- کوئی انیس، کوئی آشنا نہیں رکھتے
- ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے
- نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں
- زباں پر مدح ہے باغِ علی کے نونہالوں کی
- سنبلِ تر ہے پریشاں زلفِ اکبر دیکھ کر
- میر ببر علی انیس
- مخمس بر کلام مرزا مونس
- مخمس بر کلام مرزا فصیح
- منقبت حضرت علی بن ابی طالب
- مناجات
انتخابِ میر انیسؔ
میر ببر علی انیس
نہ منصب سے غرض، نے خواہشِ جاگیر رکھتے ہیں
جو رکھتے ہیں تو عشقِ روضۂ شبیر رکھتے ہیں
خیالِ زلف و روئے حضرتِ شبیر رکھتے ہیں
ہم اپنی چشم میں دن رات کی تصویر رکھتے ہیں
شبِ ہفتم سے ہے غیظ و غضب عباسِ غازی کو
نہ کاندھے سے سپر، نہ ہاتھ سے شمشیر رکھتے ہیں
ٹپک پڑتے ہیں مثلِ شمع آنسو، جلنے والوں کے
مرے دل سوز نالے بھی عجب تاثیر رکھتے ہیں
بِلا قید آئیں سائل، تھا یہ حکمِ حیدرِ صفدر
سخی جو ہیں وہ دروازے میں کب زنجیر رکھتے ہیں
تجرد پیشہ ہیں، ہم کو عداوت ہے تعلق سے
کمر میں بہرِ قطعِ آرزو، زنجیر رکھتے ہیں
نبی کے نقشِ پا ہیں، یہ زمانہ جن سے روشن ہے
مہ و خورشید کب اس طرح کی تنویر رکھتے ہیں
ورائے فقر کیا ہے اور، گھر میں ہم فقیروں کے
وہ دیوانے ہیں دروازے میں جو زنجیر رکھتے ہیں
خوشی ہے قربِ حق کی، آرزو امت کی بخشش کی
گلا خود زیرِ خنجر حضرتِ شبیر رکھتے ہیں
بھلا دیکھیں فشارِ قبر یاں تک کیوں کر آتا ہے
کفن میں ہم غبارِ تربتِ شبیر رکھتے ہیں
وہ کٹواتے ہیں امت کے لیے سوکھے گلے اپنے
جو فردوسِ بریں میں جوئے شہد و شِیر رکھتے ہیں
علی کی تیغ سے کھودی ہے رن میں قبر چھوٹی سی
لحد میں آپ حضرت لاشۂ بے شِیر رکھتے ہیں
وطن سے جن سبھوں نے شاہ کو مہماں بلایا تھا
وہ تلواروں پہ باڑھیں ترکشوں میں تیر رکھتے ہیں
چبھو دیتا ہے خولی نوکِ نیزہ پشتِ عابد پر
زمیں پر ہاتھ سے جب پاؤں کی زنجیر رکھتے ہیں
یہ وقتِ ظہر گردوں سے صدا آتی تھی ہاتف کی
کہ ہاتھ اب قبضۂ شمشیر پر شبیر رکھتے ہیں
وہ پنجہ ہے کہ جس میں قوتِ مشکل کشائی ہے
وہ بازو ہیں جو زورِ شاہِ خیبر گیر رکھتے ہیں
کسی نے نزع میں یہ مرتبہ، یہ اوج پایا ہے ؟
سرِ حُر اپنے زانو پر شہِ دل گیر رکھتے ہیں
توقع جن سے تھی وہ لوگ مطلب آشنا نکلے
انیس افسوس! ہم بھی کیا بری تقدیر رکھتے ہیں
٭٭٭
پڑا جو عکس تو ذرہ بھی آفتاب بنا
خدا کے نور سے جسمِ ابو ترابؑ بنا
بِنائے روضۂ سرور جو کربلا میں ہوئی
مَلَک پکارے کہ اب خلد کا جواب بنا
جو آبرو کا ہے طالب تو کر عرق ریزی
یہ کشمکش ہوئی تب پھول سے گلاب بنا
مرے گناہوں کے دفتر کی ابتری کے لیے
نئے سیاق سے بگڑا ہوا حساب بنا
عمارتیں تو بنائیں خراب ہونے کو
اب اپنی قبر بھی او خانماں خراب بنا
یہ مشتعل ہوئی سینے میں آتشِ غمِ شاہ
کہ آہ سیخ بنی اور جگر کباب بنا
یہ غل تھا دیکھ کے دولھا دلھن کو خیمے میں
جو بے عدیل بنی ہے تو لاجواب بنا
ہوا پہ کیوں ہیں تنک مایگانِ بحرِ فنا
جو بڑھ گیا کوئی قطرہ تو وہ حباب بنا
فلک پہ نالۂ سوزاں نے آگ بھڑکائی
دھواں جو آہ کا نکلا مری، سحاب بنا
ترے سلام میں ہے مرثیے کا سارا لطف
انیس نظمِ غمِ شہ میں اک کتاب بنا
٭٭٭
سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو
پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو
خیال صنعت صانع ہے پاک بینوں کو
لحد میں سوئے ہیں چھوڑا ہے شہ نشینوں کو
قضا کہاں سے کہاں لے گئی مکینوں کو
یہ جھریاں نہیں ہاتھوں پہ ضعف پیری نے
چنا ہے جامہ ہستی کی آستینوں کو
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
بجا ہے اس لیئے اکبر سے تھا حسین سے عشق
کہ دوست رکھتا ہے اللہ بھی حسینوں کو
حسین جاتے ہیں بحر نبرد میداں میں
چڑھائے مثل ید اللہ آستینوں کو
بھلا تردّد بے جا پہ اس میں کیا حاصل
اٹھا چکے ہیں زمیندار ان زمینوں کو
علم لیئے ہوئے عبّاس نکلے خیمے سے
چڑھا لیا علی اکبر نے آستینوں کو
مزہ یہ طرفہ ہے مضمون تک بھی یاد نہیں
مقابلہ پہ چڑھائے ہیں ہیں آستینوں کو
غلط یہ لفظ’وہ بندش بری’ یہ مضموں سست
ہنر عجیب ملا ہے یہ نکتہ چینوں کو
فلک پہ جب ہوئی آواز ارکبو دم تو
تو غازیوں نے رکھا مرکبوں پہ زینوں کو
لگا وغا میں ٹپکنے لہو جو قبضہ سے
چڑھا لیا شہ والا نے آستینوں کو
دہان کیسہ زر بند کر پر ائے منعم
خدا کے واسطے وا کر جبیں کی چینوں کو
خیال خاطر احباب چاہیئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
٭٭٭
رنجِ دُنیا سے کبھی چشم اپنی نم رکھتے نہیں
جُز غمِ آلِ عبا ہم اور غم رکھتے نہیں
کربلا پُہنچے زیارت کی ہمیں پروا ہے کیا؟
اب ارم بھی ہاتھ آئے تو قدم رکھتے نہیں
در پہ شاہوں کے نہیں جاتے فقیر اللہ کے
سر جہاں رکھتے ہیں سب، ہم واں قدم رکھتے نہیں
دیکھنا کل ٹھوکریں کھاتے پھریں گے اُنکے سر
آج نخوت سے زمین پر جو قدم رکھتے نہیں
کہتے تھے اعدا کہ بچے بھی علی کے شیر ہیں
جب بڑھاتے ہیں تو پھر پیچھے قدم رکھتے نہیں
چادریں جب چھینیں رانڈوں کی تو عابد نے کہا
کچھ حیا و شرم یہ اہلِ ستم رکھتے نہیں
مرثیے اِک دن میں کیا سب کہہ کے اُٹھو گے انیس
ہاتھ سے کیوں آج قرطاس و قلم رکھتے نہیں
٭٭٭
جز پنجتن کسی سے تولّا نہ چاہیے
غیر از خدا کسی کا بھروسا نہ چاہیے
ہم عازمِ سفر ہیں بتاؤ مسافرو
کیا اس سفر میں چاہیے اور کیا نہ چاہیے
ہر اک کے واسطے ہے ترقی بقدرِ حال
اَسفل کو فکرِ منصبِ اعلیٰ نہ چاہیے
ہر کوہ پر نہ ہو گی تجلی مثالِ طور!
ہر ہاتھ کے لیے یدِ بیضا نہ چاہیے
پانی کا ذکر کرتی سکینہ تو کہتے شاہ
بی بی محال شے کی تمنا نہ چاہیے
کہتی تھی فضّہ شام میں بازاریو ہٹو!
زہرا کی بیٹیوں کا تماشا نہ چاہیے
یہ کون بی بیاں ہیں تمہیں کچھ خبر بھی ہے
آلِ رسول پر ستم ایسا نہ چاہیے
مرقد چراغِ داغ سے روشن رہے انیس
شب کو اکے لیے گھر میں اندھیرا نہ چاہیے
٭٭٭
مرا رازِ دل آشکارا نہیں
وہ دریا ہوں، جس کا کنارا نہیں
وہ گُل ہوں جدا سب سے ہے جس کا رنگ
وہ بُو ہوں کہ جو آشکارا نہیں
وہ پانی ہوں شیریں، نہیں جس میں شور
وہ آتش ہوں، جس میں شرارا نہیں
بہت زالِ دنیا نے دیں بازیاں
میں وہ نوجواں ہوں، جو ہارا نہیں
جہنم سے ہم بے قراروں کو کیا
جو آتش پہ ٹھہرے، وہ پارا نہیں
فقیروں کی مجلس ہے سب سے جدا
امیروں کا یاں تک گزارا نہیں
سکندر کی خاطر بھی ہے سدِّ باب
جو دارا بھی ہو تو مدارا نہیں
گئے پہنے نعلین واں مصطفیٰ
فرشتے کا جس جا گزارا نہیں
فقیروں کو پیسو، نہ اے منعمو!
تمہارا خدا ہے، ہمارا نہیں ؟
انہیں کو وہ رزاق دیتا ہے رزق
جنہیں نانِ جو کا سہارا نہیں
پھرے دوست، جب ہو گئی قبر بند
کھُلا اب کہ کوئی ہمارا نہیں
گرے ڈگمگا کر زمیں پر حسین!
کسی نے فرس سے اتارا نہیں
ترے صبر کے میں فدا یا حسین!
چھُری کے تلے دم بھی مارا نہیں
ہے صف بستہ گویا ملائک کی صف
یہ بزمِ شہِ دیں صف آرا نہیں
کسی نے تری طرح سے اے انیس
عروسِ سخن کو سنوارا نہیں
٭٭٭
آ کے جو بزمِ عزا میں رو گئے
مجرئی! وہ فردِ عصیاں دھو گئے
یاد آیا دامنِ مادر کا چین!
پاؤں پھیلا کر لحد میں سو گئے
اشک کیا نکلیں کڑے احوال پر
سنتے سنتے قلب پتھر ہو گئے
موت آئی ہے محبّو، "الفراق”
آج سب وعدے برابر ہو گئے
ہاتھ سے جاتا رہا نقدِ حیات
جان لے کر آئے، بے جاں ہو گئے
عالمِ فانی میں ہم کو کیا ملا
اور کچھ اپنی گرہ سے کھو گئے
راحت آبادِ عدم ہے خوب جا
پھر نہ آئے وہ، جہاں سے جو گئے
ہتھکڑی اور بیڑیوں کو دیکھ کر
دست و پا عابد کے ٹھنڈے ہو گئے
چھد گیا مثلِ گہر ناوک سے حلق
لعل سی جاں اصغر اپنی کھو گئے
خون گردن سے جو نکلا گرم گرم
بھر کے آہِ سرد ٹھنڈے ہو گئے
آ کے تربت پر پکارے شاہِ دیں
ہائے آج اصغر اکے لیے ہو گئے
احمد و زہرا و حیدر اور حسن
آ کے سب لاشے پہ حُر کے رو گئے
عالمِ پیری میں یہ غفلت انیس
رات بھر جاگے، سحر کو سو گئے
٭٭٭
زرد چہرہ ہے نحیف و زار ہوں
ماتمِ سجاد میں بیمار ہوں
مثلِ بوئے گل سفر ہو گا مرا
وہ نہیں میں جو کسی پر بار ہوں
بلبلیں دم بھر جدا ہوتی نہیں
کس گلِ تر کے گلے کا ہار ہوں
عالمِ پیری میں آئے کون پاس
اے عصا گرتی ہوئی دیوار ہوں
ہر کس و ناکس سے جھکنے کا نہیں
ہمدمو میں تیغِ جوہر دار ہوں
اے زمیں مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ
آسماں کا طرّۂ دستار ہوں
شہ کو عرضی میں یہ صغرا نے لکھا
رحم کیجیے طالبِ دیدار ہوں
شام سے گنتی ہوں تارے تا سحر
صورتِ مہتاب شب بیدار ہوں
کہتے تھے عباس اے فوجِ یزید
میں غلامِ سیدِ ابرار ہوں
میرا آقا ہے حسین ابنِ علی
ابنِ زہرا کا علم بردار ہوں
کہتے تھے عابد قدم کیوں کر اٹھیں
اے ستمگارو نحیف و زار ہوں
دم بدم کھینچو نہ میرے ہاتھ کو
پاؤں پڑ سکتے نہیں ناچار ہوں
سوکھ کر کانٹا ہوا ہوں پر انیس
آنکھ میں دشمن کی اب تک خار ہوں
دنیا میں آج حشر کا دن آشکار ہے
سبطِ نبی کے سینے پہ قاتل سوار ہے
چلّا رہی ہے خیمے سے زینب اتر لعیں
بھائی کا میرے زخموں سے سینہ فگار ہے
کہتے تھے شاہ شمر سے مجھ کو نہ ذبح کر
دنیائے چند روزہ کا کیا اعتبار ہے
مر جاؤں گا میں آپ ہی اب تھوڑی دیر میں
قالب میں روح کا کوئی دم کو قرار ہے
اُنّیس سو ہیں تیغ و سنان و تبر کے زخم
سنگِ ستم کے خوں سے بدن لالہ زار ہے
قرآں ہے صاف سینہ یہ بیٹھا ہے جس پہ تو
بوسہ گہِ رسول پہ خنجر کی دھار ہے
ہے زلزلہ زمیں کو گہن میں ہے آفتاب
بارش ہے خوں کی چشمِ فلک اشکبار ہے
ہے عنقریب پھونکے سرافیل صور کو
بس حکمِ کبریا کا فقط انتظار ہے
اب آگے کر بیاں نہ انیسِ جگر فگار
یہ دن وہ ہے کہ سارا جہاں اشکبار ہے
٭٭٭
مجرائی! جب کہ شہ نے سر اپنا کٹا دیا
تب ظالموں نے خیمۂ اقدس جلا دیا
ہم شکلِ مصطفیٰ کو لعینوں نے، حیف ہے
گھوڑے سے برچھی مار کے نیچے گرا دیا
کہتی تھی صغرا کھیلنے کہتیں جو لڑکیاں
بابا کی یاد نے مجھے سب کچھ بھلا دیا
واللہ جیتے جی نہیں ہونے کی میں جدا
گر، اب کی حق نے مجھ کو پدر سے ملا دیا
جب شہ کو دفن کر چکے سجاد کہتے تھے
زہرا کا چاند خاک میں مَیں نے چھپا دیا
پیچھے ہٹے نہ جنگ میں حضرت کے جاں نثار
تیغوں سے دوڑ دوڑ گلوں کو ملا دیا
کیا آبدار تیغ، عَلَم دارِ شہ کی تھی
دریا کے پاس خون کا دریا بہا دیا
پیاسے کو یاد پیاس جو آئی سکینہ کی
چلّو میں لے کے نہر سے پانی گرا دیا
کس درجہ اشتیاقِ شہادت تھا شاہ کو
خنجر گلے پہ چلتے ہوئے مسکرا دیا
کہتے تھے رن میں شامی کہ اکبر کے حُسن نے
ہم کو خدا کے نور کا جلوہ دکھا دیا
لب پر زباں پھرا کے یہ کہتے تھے رن میں شاہ
زخموں نے بھوک پیاس میں کیا کیا مزا دیا
عابد جو دفن کر چکے قاسم کی لاش کو
تربت پہ اس کی پھولوں کا سہرا چڑھا دیا
ماتم میں اس کے روتے رہو، مومنو! مدام
شبیر نے تمہارے لیے سر کٹا دیا
کیا رانڈ بیبیوں میں تلاطم تھا اس گھڑی
جب ناریوں نے شاہ کا خیمہ جلا دیا
اللہ! کیا حسین کو امت کا پاس تھا
سر کو کٹا کے عاصیوں کو بخشوا دیا
خنجر کو لے کے شمر جب آیا تو شاہ نے
کس بیکسی سے سر کو زمیں پر جھکا دیا
کیا عشق تھا حسین سے زینب کے بیٹوں کو
دونوں نے کس خوشی سے سروں کو کٹا دیا
اصغر کو بوند بھر نہ پلایا کسی نے آب
لشکر کو حُر کے شاہ نے پانی پلا دیا
بستر سے اٹھ نہ سکتا تھا جو مارے ضُعف کے
طوقِ گراں لعینوں نے اس کو پنہا دیا
اس کا ادائے شکر ہو کس طرح اے انیس
جس نے اٹھا کے خاک سے انساں بنا دیا
٭٭٭
خوشا زمینِ معلیٰ، زہے فضائے نجف
ریاضِ خلد بھی ہے شائقِ ہوائے نجف
یہ شوق ہے کہ نہ بیدار ہوں قیامت تک
جو خواب میں کبھی نقشہ مجھے دکھائے نجف
پہنچ کے خلد میں جب دیکھتے ہیں قصرِ رفیع
پکار اٹھتے ہیں زوّار، ہائے ہائے نجف
مریض کے لیے اکسیر ہیں یہ دو نسخے
غبارِ مرقدِ شبیر اور ہوائے نجف
جسے خدا سے محبت ہے اس کو کعبے سے
جسے ولائے علی ہے، اسے ولائے نجف
ملی انگوٹھی بھی ویسی ہی، تھا نگیں جیسا
نجف برائے علی تھا، علی برائے نجف
وہاں قدم کا ہے کیا کام، اے ادب، توبہ
سروں سے چلنے کے قابل ہیں کوچہ ہائے نجف
جسے بہشت میں آنا ہو، آئے وہ مجھ تک
ہر اک دیار میں آتی ہے یہ صدائے نجف
علی کی قبر کے زوّار، پاک دامن ہیں
گناہ ڈھنپ گئے، جب اوڑھ لی ردائے نجف
شراب بنتی ہے سرکہ، علی کی دہشت سے
یہ انقلاب نہ دیکھا کہیں، سوائے نجف
اِدھر سے کوششِ کامل ہے، اُس طرف سے کشش
انیس ہم نہ رہیں گے کہیں، سوائے نجف
٭٭٭
چہلم ہے آج سرورِ عالی مقام کا
عریاں ہے سر رسول علیہ السلام کا
زنداں سے چھُٹ کے آئے ہیں مقتل میں اہلِ بیت
لاشہ اٹھانے سبطِ رسولِ انام کا
تیاریاں ہیں دفنِ شہیدانِ پاک کی
مرقد بنا ہے ان میں ہر اک نیک نام کا
فضّہ پکاری بیبیو! آ کر شریک ہو
سجاد دفن کرتے ہیں لاشہ امام کا
بھائی کے ساتھ گاڑ دو اے کاش مجھ کو بھی
تھا یہ بیان زینبِ ناشاد کام کا
کہتی تھی بانو ملتا جو اک جام شِیر کا
دلواتی فاتحہ علی اصغر کے نام کا
یا رب دعا ہے تجھ سے یہ ہر دم انیس کی
روضہ دکھا حُسین علیہ السلام کا
٭٭٭
کوئی انیس، کوئی آشنا نہیں رکھتے
کسی کی آس بغیر از خدا نہیں رکھتے
نہ روئے بیٹوں کے غم میں حسین، واہ رے صبر
یہ داغ، ہوش بشر کے بجا نہیں رکھتے
کسی کو کیا ہو دلوں کی شکستگی کی خبر
کہ ٹوٹنے میں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے
حسین کہتے تھے سونے کو پاؤں پھیلا کر
سوائے قبر کوئی اور جا نہیں رکھتے
سوائے کوثر و تسنیم و خلد و باغِ بہشت
یہ اشک ہیں وہ گہر، جو بہا نہیں رکھتے
ابو تراب سے جو پیشوا کے پیرو ہیں
قدم بھی خاک پہ وہ بے رضا نہیں رکھتے
یہ غل تھا دیکھ کے رخسارۂ علی اکبر
فلک پہ شمس و قمر یہ ضیا نہیں رکھتے
قناعت و گہرِ آبرو و دولتِ دیں
ہم اپنے کیسۂ خالی میں کیا نہیں رکھتے
فشارِ قبر کا ڈر ہو تو ان کو ہو، جو لوگ
کفن میں صرّۂ خاکِ شفا نہیں رکھتے
ہمیں تو دیتا ہے رازق بغیرِ منتِ خلق
وہی سوال کریں، جو خدا نہیں رکھتے
فقیر دوست جو ہو، ہم کو سرفراز کرے
کچھ اور فرش، بجز بوریا نہیں رکھتے
غمِ حسین کے داغوں سے دل کرو روشن
خبر لحد کے اندھیروں کی کیا نہیں رکھتے
مسافرو! شبِ اول بہت ہے تیرہ و تار
چراغِ قبر ابھی سے جلا نہیں رکھتے
وہ لوگ کون سے ہیں، اے خدائے کون و مکاں
سخن سے کان کو جو آشنا نہیں رکھتے ؟
نبی کے حکم سے سر پھیرنا، معاذ اللہ
وہ کون ہیں، جو یہ ماتم بپا نہیں رکھتے ؟
خدا نے آیۂ تطہیر جن کو بھیجا تھا
وہ پردہ دار سروں پر ردا نہیں رکھتے
مسافرانِ عدم کا پتہ ملے کیونکر
وہ یوں گئے کہ کہیں نقشِ پا نہیں رکھتے
نہ لُوٹو آل کو، اعدا سے کہتی تھی فضّہ
نبی کی روح سے بھی تم حیا نہیں رکھتے
سکینہ کہتی تھی، کیونکر نہ دم گھٹے، اماں !
دہاں ہیں بند، جو حجرے ہوا نہیں رکھتے
غش آتا راہ میں جس دم تو کہتے تھے عابد
وہ درد ہیں جو امّیدِ شفا نہیں رکھتے
تپِ دروں، غمِ فرقت، وَرَم، پیادہ روی
مرض تو اتنے ہیں اور کچھ دوا نہیں رکھتے
فلک پہ شور تھا، کٹتا ہے حلقِ پاکِ رسول
حسین تیغ کے نیچے گلا نہیں رکھتے
جہازِ آلِ نبی کیا بچے تباہی سے
تلاطم ایسا ہے اور ناخدا نہیں رکھتے
حسین تیغوں کے نیچے سے کس طرح ہٹتے
بڑھا کے پیچھے قدم، پیشوا نہیں رکھتے
گلوئے اصغرِ معصوم و تیر، واویلا
یہ ظلم وہ ہیں کہ جو انتہا نہیں رکھتے
شہادتِ پسرِ فاطمہ کا ہے یہ الم
کہ تابِ ضبط، رسولِ خدا نہیں رکھتے
فقط حسین پہ، یہ تفرقہ پڑا، ورنہ
کسی کی لاش سے سر کو جدا نہیں رکھتے
پنہا کے بیڑیاں کہتا تھا شمر، عابد سے
میانِ حلقۂ آہن، گلا نہیں رکھتے
سویم تو باپ کا کرنے دو، کہتے تھے سجاد
یہ پھول وہ ہیں، کہ جن کو اٹھا نہیں رکھتے
کھُلے گا حال اُنہیں، جبکہ آنکھ بند ہوئی
جو لوگ، الفتِ مشکل کشا نہیں رکھتے
جہاں کی عزت و خواہش سے ہے بشر کا خمیر
وہ کون ہیں ؟ کہ جو حرص و ہوا نہیں رکھتے
انیس، بیچ کے جاں اپنی ہند سے نکلو
جو توشۂ سفرِ کربلا نہیں رکھتے
٭٭٭
ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے
اُڑ گیا جب رنگ رُخ سے، استخواں پیدا ہوئے
خاکساری نے دکھائیں رفعتوں پر رفعتیں
اس زمیں سے واہ کیا کیا آسماں پیدا ہوئے
علمِ خالق کا خزانہ ہے، میانِ کاف و نون
ایک کُن کہنے سے یہ کون و مکاں پیدا ہوئے
ہاتھ خالی آئی لاشوں پر شہیدوں کے نسیم
پھول بھی اس فصل میں ایسے گراں پیدا ہوئے
نوبتِ جمشید و دارا و سکندر اب کہاں
خاک تک چھانی، نہ قبروں کے نشاں پیدا ہوئے
جب کوئی آیا عدم سے یاں، تو بولی ہنس کے موت
اور لو، دو چار دن کے میہماں پیدا ہوئے
ضبط دیکھو، سب کی سُن لی اور نہ کچھ اپنی کہی
اس زباں دانی پہ ایسے بے زباں پیدا ہوئے
جان دی حُر نے تو حضرت نے دیا باغِ ارم
میہماں ایسے، نہ ایسے میزباں پیدا ہوئے
یک بیک ایسا زمانے میں ہوا ہے انقلاب
قدر داں سب اٹھ گئے، نا قدر داں پیدا ہوئے
بود و نابودِ علی اصغر کا کیا کیجے بیاں
بے زباں دنیا سے اُٹھے بے زباں پیدا ہوئے
دیکھ کر لاشوں کو حضرت کہتے تھے وا غربتا
موت لے آئی کہاں ان کو کہاں پیدا ہوئے
شور بختی آئی حصے میں انہیں کے، وا نصیب
تلخ کامی کے لیے شیریں زباں پیدا ہوئے
احتیاطِ جسم کیا، انجام کو سوچو انیس
خاک ہونے کو یہ مشتِ استخواں پیدا ہوئے
٭٭٭
نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں
وہ جاگتے ہیں جو دنیا کو خواب سمجھے ہیں
کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا
ہر ایک ذرے کو ہم آفتاب سمجھے ہیں
کریم مجھ کو عطا کر وہ فقر دنیا میں
کہ جس کو فخر رسالت مآب سمجھے ہیں
بھگو کے کھاتے ہیں پانی میں نانِ خشک کو وہ
اِس آبرو کو جو موتی کی آب سمجھے ہیں
ابو تراب کے در کا ہے ذرۂ بے قدر
ہم آسماں پہ جسے آفتاب سمجھے ہیں
ارے نہ آئیو دنیائے دوں کے دھوکے میں
سراب ہے یہ جسے موجِ آب سمجھے ہیں
یہ اشکِ تاک ہے کہتے ہیں جس کو آبِ طرب
یہ خونِ گل ہے جسے سب گلاب سمجھے ہیں
شباب کھو کے بھی غفلت وہی ہے پیروں کو
سحر کی نیند کو بھی شب کا خواب سمجھے ہیں
جھکائیں سر کو نہ کیونکر عراق کے فصحا
سوالِ شاہ کو سب لاجواب سمجھے ہیں
خدا کی راہ میں ایذا سے جن کو راحت ہے
زمینِ گرم کو وہ فرشِ خواب سمجھے ہیں
انیس مخمل و دیبا سے کیا فقیروں کو
اسی زمین کو ہم فرشِ خواب سمجھے ہیں
٭٭٭
زباں پر مدح ہے باغِ علی کے نونہالوں کی
گلستاں سے ہیں رنگیں مجلسیں نازک خیالوں کی
وہ پہلو اور پیکانِ سہ پہلو، کیا قیامت ہے
وہ سینہ شہ کا اور نوکیں ستمگاروں کے بھالوں کی
کمر کس کر علی اکبر نے جب سر پر رکھا شملہ
بلائیں لے لیں اٹھ کر ماں نے گھونگر والے بالوں کی
جوانانِ حسینی نے صفیں توڑیں، پرے اُلٹے
نہ بھولے گی لڑائی تا قیامت، مرنے والوں کی
قلم بھی رہ گیا ہر بار نقطہ دے کے ناخن پر
نہ سوجھی جب کوئی تشبیہ روئے شہ کے خالوں کی
علی اکبر کے ابرو دیکھتا تھا جو، وہ کہتا تھا
یہ تصویریں ہیں دونوں چاند کے پیچھے ہلالوں کی
"بحمد اللہ!” عابد کہتے تھے جب پوچھتیں زینب
"پھپھی قربان اب کیا شکل ہے تلووں کے چھالوں کی”
معاذاللہ! رعبِ دلبرانِ حضرتِ زینب
علی کا رعب، چتون شیر کی، آنکھیں غزالوں کی
جھکے تھے سر، عرق چہروں پہ تھا اور بند تھیں آنکھیں
پڑی تھیں چادریں سیدانیوں کے منہ پہ بالوں کی
جھکا تھا پشت پر ایک اک کی، سر ایک ایک بی بی کا
یہ نقشہ قیدیوں کا تھا، یہ صورت پردے والوں کی
اٹھائے یہ سکینہ نے جفائے شمر کے صدمے
کہ رنگت ہو گئی تھی سوسنی، اُن گُل سے گالوں کی
ہوا اک حشر، جب زینب نے پوچھا آ کے مقتل میں
کہاں قبریں بنی ہیں، میرے دونوں مرنے والوں کی
عزا دار، اِس طرف سب تعزیے شہ کے اٹھاتے ہیں
اُدھر نقلیں لکھی جاتی ہیں جنت کے قبالوں کی
جو پوچھا حالِ انصار آ کے زعفر نے شہِ دیں سے
کہا شہ نے حقیقت کچھ نہ پوچھو مرنے والوں کی
جری ایسے نہ ہوں گے باغِ عالم میں کبھی پیدا
زباں سے کیا بیاں تعریف ہو یوسف جمالوں کی
غمِ اصغر میں، بانو کہتی تھیں، مرتی ہوں اے بیٹا
سُنگھاؤ اٹھ کے خوشبو اپنے گھونگھر والے بالوں کی
رفیقانِ حسین ابنِ علی کیا کیا بہادر تھے
سناں کھائی ہر اک نے چاند سے سینے پہ بھالوں کی
جب آتا ذکر بیٹوں کا، تو زینب سب سے کہتی تھیں
خدا بخشے ابھی کیا عمر تھی اُن مرنے والوں کی
جگہ جب مول لی شہ نے، تو ہاتف نے کہا رو کر
یہیں بستی بسے گی، فاطمہ کے نونہالوں کی
پڑے تھے خاک پر اہلِ حرم، تکیہ نہ بستر تھا
ہوئی تھی شکل زنداں میں یہ اُن یوسف جمالوں کی
کہا زینب سے بیٹوں نے اجازت آپ تو دیجے
سِنانیں شوق سے ہم کھائیں گے سینوں پہ بھالوں کی
بوقتِ جوشِ گریہ فاطمہ کہتی تھیں محبّوں سے
جگہ آنکھوں میں اور دل میں ہے اِن سب رونے والوں کی
جب آئے غیض میں عباس فوجِ شام کے آگے
صفیں ہٹ ہٹ گئیں میدان سے جنگی رسالوں کی
گرے جب شاہ گھوڑے سے، ندا ہاتف کی یہ آئی
جگہ جھاڑی ہوئی ہے، فاطمہ زہرا کے بالوں کی
کبھی مقتل، کبھی کوفہ، کبھی صحرا، کبھی زنداں
حقیقت کچھ نہ پوچھو فاطمہ کبریٰ کے چالوں کی
جب آئی لوٹنے کو فوج خیمے میں ہوا محشر
صدا پہنچی فلک پر فاطمہ زہرا کے نالوں کی
چمکتی برق کی صورت تھی ہر شمشیر میداں میں
برستے سر تھے ہر جا پر گھٹا چھائی تھی ڈھالوں کی
انیس اب تو ہلال و بدر کو یکساں سمجھتے ہیں
رہی ہے منصفوں میں قدر یہ صاحب کمالوں کی
٭٭٭
سنبلِ تر ہے پریشاں زلفِ اکبر دیکھ کر
کٹ گیا ہے ماہِ تاباں روئے انور دیکھ کر
آب ہو جائے گا حُسنِ روئے اکبر دیکھ کر
سامنے آئینہ لانا، اے سکندر دیکھ کر
جب چلی اعدا پہ تیغِ شہ، پکارے جبرئیل
یا حُسین ابنِ علی! خادم کے شہپر دیکھ کر
حشر تھا اہلِ حرم میں وقتِ قتلِ شاہِ دیں
روتے تھے دشمن بھی شہ کو زیرِ خنجر دیکھ کر
خم ہوئی شہ کی کمر، ہاتھوں کی طاقت گھٹ گئی
دونوں شانوں سے قلم، دستِ برادر دیکھ کر
کی رسائی بختِ حُر نے جب، تو پہنچا شہ کے پاس
آ گیا خود راہ پر جنت کا رہبر دیکھ کر
جب جھپٹ کر بابِ خیبر کو اکھاڑا آپ نے
ہو گئے کفار ششدر، زورِ حیدر دیکھ کر
کربلا کے بَن میں جا پہنچے جو شاہِ بحر و بر
خوش ہوئے مقتل کو سب انصار و یاور دیکھ کر
مسکرائے دیکھ کر صحرا کو ہم شکلِ نبی
تن گئے دریا کو عباسِ دلاور دیکھ کر
ہو چکیں جس وقت مُہریں فردِ قتلِ شاہ پر
رو دیے خود شاہ اپنے خوں کا محضر دیکھ کر
خاک پر بے دم پڑے ہیں سب عزیز و اقربا
روتے ہیں شبیر لاشوں کو برابر دیکھ کر
کہتے تھے یہ حلق ہے نانا کا میرے حلق پر
پھیرنا شمشیر او شمرِ ستمگر دیکھ کر
خلد میں یاد آئی جب عباس کو بچوں کی پیاس
رو دیا وہ با وفا بھی سوئے کوثر دیکھ کر
پیشِ خالق سب ہیں یکساں، رشک او غافل نہ کر
آپ کو کم دیکھ کر، اوروں کو برتر دیکھ کر
آسماں پر شرم سے برقِ درخشاں چھپ گئی
ذوالفقارِ حیدرِ صفدر کے جوہر دیکھ کر
صُرّۂ خاکِ شفا سے یوں کھِلا تربت میں دل
جس طرح بلبل ہو بالیدہ گُلِ تر دیکھ کر
کربلا کو ہند سے جاتے اگر ہم اے انیس
شاد ہو جاتے وہ صحرائے منور دیکھ کر
٭٭٭
مخمس بر کلام مرزا مونس
چمکا خدا کے عرش کا اختر کہاں کہاں
کھایا علی کے چاند نے چکر کہاں کہاں
پہنچا سناں پہ نیرِ اکبر کہاں کہاں
اے مجرئی! گیا سرِ سرور کہاں کہاں
قرآں لیے پھرے ہیں ستمگر کہاں کہاں
یثرب میں پوچھتا تھا جو شہ سے بچشمِ تر
دل مضطرب ہے اے اسداللہ کے پسر
کعبے سے جائیے گا کہاں، قصد ہے کدھر؟
کہتے تھے شاہ، ہے یہ سفر آخری سفر
لے جائے دیکھیں ہم کو مقدر کہاں کہاں
بعدِ پدر اسیریِ زنداں کے دکھ اٹھائے
چھوٹے تو نابلد تھے کہیں بھاگنے نہ پائے
وا غربتا! کہ پنجۂ حارث میں دونوں آئے
مسلم کے لاڈلوں کو نہ چھوڑا اجل نے ہائے
چھپتے پھرے وہ بیکس و مضطر کہاں کہاں
دیکھا حواس باختہ جب حُر کی فوج کو
جانا کہ تشنگی ہے غضب حُر کی فوج کو
اپنے قریب کر کے طلب حُر کی فوج کو
پانی دیا امام نے سب، حُر کی فوج کو
برسا سحابِ رحمتِ داور کہاں کہاں
کچھ دردِ دل کا حال سناؤ تو باپ کو
مرتے ہوئے گلے سے لگاؤ تو باپ کو
برچھی کہاں لگی ہے ! بتاؤ تو باپ کو
کہتے تھے رو کے شاہ، دکھاؤ تو باپ کو
کھائے ہیں زخم اے علی اکبر کہاں کہاں
ہوں بے گناہ، فوجِ غریباں گواہ ہے
نہ کوئی آشنا، نہ کوئی خیرخواہ ہے
گردابِ غم میں تیرے کرم پہ نگاہ ہے
سجاد کہتے تھے مری کشتی تباہ ہے
یارو! سنبھالوں طوق کا لنگر کہاں کہاں
سارا زمانہ غرب سے دشمن ہے تا بہ شرق
دریا پہ یہ ستم ہوں تو تڑپے مثالِ برق
تو رحم کر، صبر و رضا میں نہ آوے فرق !
بابا تو سر کٹا کے ہوئے بحرِ خوں میں غرق
میں کھینچتا پھروں تنِ لاغر کہاں کہاں
دیکھے نہ یہ سنے کسی مجروح کے حواس
ضربیں گلے پہ چلتی تھیں اور کچھ نہ تھا ہراس
سوکھی زباں لبوں پہ پھرا کر بہ درد و یاس
قاتل سے شاہ کہتے تھے، کیوں دیکھی میری پیاس
انصاف کر، رکا ترا خنجر کہاں کہاں
چلا رہی تھیں بانوئے سلطانِ مشرقین
ہے ہے حسین، ہائے محمد کے نورِ عین
سر پیٹتی تھی بالی سکینہ بہ شور و شین
مقتل میں شہ کی لاش پہ زینب کے تھے یہ بین
اے بھائی روئے زینبِ مضطر کہاں کہاں
بے دست ہے کہیں مرا عباسِ نامور
قاسم کہیں پڑا ہے زمیں پر کٹائے سر
اک سوگوار خاک اڑائے کدھر کدھر
ہیں غرقِ خوں کہیں تو بھتیجے، کہیں پسر
پیٹے سر اپنا جا کے یہ خواہر کہاں کہاں
ہوتی ہیں شہر شہر میں اس غم کی مجلسیں
ہر جا ہیں نذرِ سرورِ عالم کی مجلسیں
کس جا نہیں ہیں ماہِ محرم کی مجلسیں
گھر گھر بپا ہے شاہ کے ماتم کی مجلسیں
جا جا کے روئے عاشقِ حیدر کہاں کہاں
ہر ذی حیات پر ہے یہ صدمہ جہان میں
ہر عضو میں یہ درد ہے، ہر استخوان میں
تن میں، رگوں میں، روح میں، لب میں، زبان میں
دل میں، جگر میں، سینۂ پر خوں میں، جان میں
ڈوبا ہے ایک غم کا یہ نشتر کہاں کہاں
جن و ملک کے دل ہیں سدا اضطرار میں
نالاں ہیں بلبلیں چمنِ روزگار میں
ماہی بھی مبتلا ہے اسی خار خار میں
افلاک میں، زمیں میں، ہوا میں، بحار میں
برپا ہے ایک ماتمِ سرور کہاں کہاں
یہ رحمتیں، یہ لطف و کرم کب ہے ابر میں
تسکیں ابھی عطا ہو، جو فرق آوے صبر میں
اللہ رے اختیار، مصیبت میں، جبر میں
دکھ میں، مرض میں، نزع میں، ایذائے قبر میں
دیکھو مدد کو آتے ہیں حیدر کہاں کہاں
ہر جا چلی، پھری سپہِ اہل غدر میں
گردن میں، سر میں، شانے میں، پہلو میں، صدر میں
بالا رہی قمر سے بھی رفعت میں، قدر میں
صفین میں، حنین میں، خیبر میں، بدر میں
چمکی علی کی تیغِ دو پیکر کہاں کہاں
باغی کمی نہ کرتے تھے، بدعت میں، کینے میں
شاخیں نئی نکالتے تھے ہر مہینے میں
کیوں خار خارِ غم نہ ہو بلبل کے سینے میں
مشہد میں، کربلا میں، نجف میں، مدینے میں
بکھرے گلِ ریاضِ پیمبر کہاں کہاں
کوفے میں، شام میں، حبش و زنگبار میں
خوشبو گئی جزیروں میں اور کوہسار میں
یاں ہے سوادِ ہند بھلا کس قطار میں
چیں میں، ختن میں، دشتِ خطا میں، تتار میں
مہکی شمیمِ کاکلِ سرور کہاں کہاں
نکہت وہ مشکِ تر کی جو تھی تار تار میں
تاروں سے پہنچی دامنِ ابرِ بہار میں
بادِ بہار لے کے گئی ہر دیار میں
چیں میں، ختن میں، دشتِ خطا میں، تتار میں
مہکی شمیمِ کاکلِ سرور کہاں کہاں
گزرے ستم جو مالکِ کوثر پہ دہر میں
ہے پیچ و تاب بحر کی ایک ایک لہر میں
کیوں سرخ آندھیاں نہ اٹھیں شہر شہر میں
صحرا میں، قتل گاہ میں، ریتی میں، نہر میں
ٹپکا ہے خونِ سبطِ پیمبر کہاں کہاں
ہر دم سرِ بریدہ تھا ایذائے سخت میں
روتا تھا خوں، فراقِ تنِ لخت لخت میں
پر تھی پسِ فنا بھی صعوبت جو بخت میں
چوبِ سناں میں، قلعے کے در میں، درخت میں
لٹکا ہے شہ کا فرقِ مطہر کہاں کہاں
تھا ماہِ فاطمہ پسِ مردن بھی سیر میں
گہ اپنی انجمن میں، کبھی بزمِ غیر میں
گہ زیرِ کوہ، گاہ مکانِ عذیر میں
صندوق میں، تنور میں، زنداں میں، دیر میں
رکھا حسین کا سرِ انور کہاں کہاں
بے پردہ شہر شہر گئے اژدہام میں
پہنچے یزیدِ نحس کے دربارِ عام میں
دیکھے حدیث، شک ہو جسے اس کلام میں
رے میں، دیارِ کوفہ میں، اقلیمِ شام میں
آلِ نبی پھرے ہیں کھلے سر کہاں کہاں
لکھا ہے بنتِ فاطمہ کی سرگذشت میں
پیٹی منہ اپنا، دیکھ کے سر شہ کا طشت میں
آنسو تھمے نہ تا بہ وطن بازگشت میں
شہروں میں، جنگلوں میں، پہاڑوں میں، دشت میں
بھائی کو روئی زینبِ مضطر کہاں کہاں
حالِ عوام جانتے ہیں صاحبِ علوم
جو خاص ہیں اسی طرف ان سب کا ہے ہجوم
اکثر انیس نے یہ کہا ہے، علی العموم
مونس ترے سخن کی ہوئی شش جہت میں دھوم
تیغِ زباں کے پہنچے ہیں جوہر کہاں کہاں
٭٭٭
مخمس بر کلام مرزا فصیح
غل ہے جہاں میں مری تقریر کا
نظم میں ہر مصرعہ ہے تاثیر کا
ہے یہ سبب عزت و توقیر کا
ہوں میں سلامی شہِ دلگیر کا
مومنو مداح ہوں شبیر کا
بھولتی اک دم نہیں ہے یادِ شام
وردِ زباں ہے شہِ والا کا نام
نالہ و اندوہ سے ہے دل کو کام
روتا ہوں جب کرتا ہوں موزوں کلام
ہے یہ سبب نظم کی تاثیر کا
سینے میں جو آتشِ غم تیز ہے
آہِ دلِ زار شر ر ریز ہے
اشک میں خونِ جگر آمیز ہے
دل غمِ شبیر سے لبریز ہے
ورد ہے ہر دم مری تقریر کا
پڑھنا ہے قرآں کا مقدم پڑھو
مرثیۂ شاہ بھی ہر دم پڑھو
محفلِ غم میں کتبِ غم پڑھو
اہلِ عزا سورۂ مریم پڑھو
شوق اگر ہے تمہیں تفسیر کا
ہائے یہ خاصانِ خدا دکھ سہیں
بس میں ستمگاروں کے قیدی رہیں
حال جو اِن کا ہے اُسے کیا کہیں
اشک مرے کیوں نہ مسلسل بہیں
دھیان ہے بیمار کی زنجیر کا
رونا ہے اب شہ کے لیے فرضِ عین
دشتِ ستم میں نہ ملا جس کو چین
آہ نہ کس طرح کروں شور و شین
یاد مجھے آتا ہے حلقِ حسین
حلق کٹا دیکھ کے نخچیر کا
برچھی کا پھل دیکھوں جو میں نامراد
ہوتا ہے دل پر غمِ اکبر زیاد
خاطرِ غمگیں نہیں اک لحظہ شاد
تیر و کماں دیکھ کے آتا ہے یاد
زخمی گلا اصغرِ بے شیر کا
ننھی سی جاں پر جو یہ صدمہ ہوا
درد سے تھرانے لگے دست و پا
بات نہ کچھ کرنے کا یارا رہا
دیکھ کے بابا کی طرف ہنس دیا
زخم لگا حلق پہ جب تیر کا
خوں جو ٹپکنے لگا سوفار سے
جان نے رخصت لی تنِ زار سے
اشک بہے چشمِ گہر بار سے
چوم لیا شاہ نے منہ پیار سے
خون میں ڈوبی ہوئی تصویر کا
گر جو پڑے خاک پہ گھوڑے سے شاہ
پیاس سے حالت تھی نہایت تباہ
گرد تھی زخمی کے عدو کی سپاہ
کاٹ لے سر شاہ کا جس دم یہ آہ
قصد ہوا ظالمِ بے پیر کا
کھینچ کے تب شمر نے تیغِ دو دم
سینۂ پُر نور پہ رکھا قدم
کانپ گئے کرسی و لوح و قلم
شہ نے کہا سجدے کو ہونے دے خم
وقت نہیں ہے مری تکبیر کا
عرش کے حامل کریں جن کا ادب
اُن پہ یہ ظلم اور یہ رنج و تعب
حاکمِ فاسق کرے اُن کو طلب
شان میں جن بیبیوں کے، ہے غضب
ہو نزول اب آیۂ تطہیر کا
سر کھلے بلوے میں ہوں وہ خوش صفات
ہائے ستم اور کوئی پوچھے نہ بات
خلق میں ہے عقدہ کشا جن کی ذات
اُن کے بندھے شام میں رسی سے ہات
حال یہ ہو عترتِ شبیر کا
سائے سے بھی اپنے جنہیں تھا عذر
شام میں ہے ہے وہ پھریں دربدر
ظالموں کی عورتیں ہوں اپنے گھر
بانوئے شبیر کا عریاں ہو سر
منہ ہو کھلا شاہ کی ہمشیر کا
کوئی ردا دے تو کہیں کینہ جو
ہیں یہ گنہگار انہیں چادر نہ دو
ہاتھوں سے اور بالوں سے منہ ڈھانپ لو
بلوے میں اس شکل سے ناموس ہو
سیدِ با عزت و توقیر کا
ذبح جو وہ شاہِ شہیداں ہوا
نازنیں تن خون میں غلطاں ہوا
دفن ہر اک دشمنِ دیں واں ہوا
روتی تھی زینب کہ نہ ساماں ہوا
تربتِ شبیر کی تعمیر کا
تیرِ ستم چلتے تھے سوئے حسین
سیکڑوں ظالم تھے عدوئے حسین
خشک تھا بن پانی گلوئے حسین
تر ہوا سب خون سے روئے حسین
زخم لگا سر پہ جو شمشیر کا
جب کہا دلہا نے دلہن سے کہو
مرنے کا صاحب ہمیں اب اذن دو
شرم سے تا دیر نہ کچھ بولی وہ
پڑھ کے جو نوش اہ نے تعویذ کو
ذکر کیا باپ کی تحریر کا
شکلِ قلم سینے میں دل شق ہوا
اشکوں کا سہرا سا بس اک بندھ گیا
زانوئے اندوہ پہ سر کو جھکا
بولی دلہن جو کہ چچا نے لکھا
تھا یہی لکھا مری تقدیر کا
مثلِ انیس اب ہے فراغت فصیح
ہوں میں غنی شہ کی بدولت فصیح
خاک مجھے زر کی ہو حسرت فصیح
جب سے ملا صرۂ تربت فصیح
شوق نہیں ہے مجھے اکسیر کا
٭٭٭
منقبت حضرت علی بن ابی طالب
علی فخرِ بنی آدم، علی سردارِ انس و جاں
علی سرور، علی صفدر، علی شیرِ صفِ میداں
علی ہادی، علی ایماں، علی لطف و علی احساں
علی حکمت، علی شافی، علی دارو، علی درماں
علی جنت، علی نعمت، علی رحمت، علی غفراں
علی واصل، علی فاصل، علی شامل، علی قابل
علی فیض و علی جود و علی بذل و علی باذل
علی نوح و علی کشتی، علی دریا، علی ساحل
علی عالم، علی عادل، علی فاضل، علی کامل
علی افضل، علی مفضل، علی لطف و علی احساں
علی آقا، علی مولا، علی سید، علی سرور
علی کعبہ، علی قبلہ، علی مسجد، علی منبر
علی تارک، علی افسر، علی زینت، علی زیور
علی نور و علی انور، علی دُرّ و علی گوہر
علی ساقی، علی کوثر، علی مالک، علی رضواں
علی بحر و علی معدن، علی برّ و علی گلشن
علی فتح و علی نصرت، علی آرامِ جان و تن
علی درع، علی خود و علی تیغ و علی جوشن
علی محسن، علی احسن، علی خازن، علی مخزن
علی مامن، علی مومن، علی آہن، علی ایماں
علی مخبر، علی صادق، علی بینا، علی سامع
علی فائق، علی فاتح، علی مانع، علی قانع
علی امر و علی نہی و علی حاکم، علی نافع
علی شافع، علی نافع، علی رافع، علی واقع
علی جامع، علی قاطع، علی حجت، علی برہاں
علی عیسیٰ، علی موسیٰ، علی خضر و علی یحییٰ
علی دانا، علی بینا، علی گوہر، علی دریا
علی حاکم، علی عادل، علی جنت، علی طوبیٰ
علی قاضی، عالی اقضیٰ، علی مرجع، علی ملجا
علی یٰسیں، علی طحٰہ، علی حرز و علی قرآں
علی سابق، علی صادق، علی ثابت، علی قائد
علی اشرف، علی اعلیٰ، علی ناصر، علی ماجد
علی کافی، علی وافی، علی واجد، علی شاہد
علی واحد، علی زاہد، علی راکع، علی ساجد
علی مرشد، علی ہادی، علی رہبر، علی رہباں
امامِ مشرق و مغرب، شریفِ یثربِ بطحا
امینِ وحیِ پیغمبر، امامِ مسجدِ اقصیٰ
علیم و عالِمِ اسرارِ سبحٰن الذی اسریٰ
علی والی، علی عالی، علی والا، علی اعلا
علی جامع، علی فارق، علی ادنیٰ، علی فرقاں
انیس، ان چند بندوں کا صلہ ہے گلشنِ جنت
نہ گھبرا اس مرض سے، بعد ہے آزار کے راحت
نئی طاقت بھی دیں گے، ان کو ہے ہر طرح کی قدرت
علی فرحت، علی نصرت، علی شوکت، علی حشمت
علی حکمت، علی صحت، علی دارو، علی درماں
٭٭٭
مناجات
مبتلائے غم دلِ ناشاد ہے
منحرف چرخِ ستم ایجاد ہے
یہ زمانہ بر سرِ بیداد ہے
آپ پر روشن مری روداد ہے
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
یا علی، یا ایلیا، یا بوالحسن
اے رسولِ کبریا کے جان و تن
اے مددگارِ حبیبِ ذو المنن
ہے ہجومِ حسرت و رنج و محن
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
ہے مدد کا وقت یا شاہِ نجف
اک طرف میں اور زمانہ اک طرف
دیجیے مولا صدائے لا تخف
جانِ شیریں مفت ہوتی ہے تلف
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
دکھ تو یہ، اور ہم نفس کوئی نہیں
دیکھتا ہوں پیش و پس کوئی نہیں
میں تنِ تنہا ہوں، بس کوئی نہیں
آپ ہیں فریاد رس، کوئی نہیں
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
روز و شب رہتا ہے راحت میں خلل
کل نہیں اک آن دل کو آج کل
بجھ گیا ہے خود بخود دل کا کنول
آپ گر چاہیں تو سب عقدے ہوں حل
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
سب طرح کی آپ کو قدرت ہے آج
جس کو چاہیں اُس کو بخشیں تخت و تاج
خود بخود افسردہ رہتا ہے مزاج
اے مسیحا کیا کروں اِس کا علاج
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
آپ ہیں نامِ خدا، دستِ خدا
آفتابِ مشرقِ لطف و عطا
جانشینِ حضرتِ خیر الوریٰ
مقتدا، والا ہمم، بحرِ سخا
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
سب پہ روشن ہے یہ اے والا جناب
مہر سے ذرے کو کر دو آفتاب
ان دنوں ہے دل کو رنج و اضطراب
حل مری مشکل بھی ہو جائے شتاب
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
ہے محبت دل کو جو حد سے زیاد
بھولتی اک دم نہیں حضرت کی یاد
آپ پر ظاہر ہے میرا اعتقاد
کس سے مانگوں پھر بھلا دل کی مراد
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
اے خدائے ملکِ دیں، شاہِ حجاز
اے دو عالم کے معین و کارساز
اے دُرِ دریائے رازِ بے نیاز
قلزمِ آفت میں ہے میرا جہاز
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
آپ کے در کا گدا ہوں، یا علی!
نامِ اقدس پر فدا ہوں، یا علی!
لائقِ لطفِ عطا ہوں، یا علی!
قیدیِ دامِ بلا ہوں، یا علی!
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
ایک سینہ اور سو حسرت کے داغ
گھر نہ بھاتا ہے، نہ صحرا اور نہ باغ
بجھ گیا ہے دل، نہیں غم سے فراغ
گر مراد آئے تو روشن ہو چراغ
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
ہے زباں پر قصۂ سلمان و شیر
سرکشوں کو کر دیا حضرت نے زیر
خود کیے فاقے، کیا بھوکوں کو سیر
میرے مطلب میں، شہا! کیوں اتنی دیر
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
کھول دو عقدوں کو، یا مشکل کشا!
تھام لیجے ہاتھ یا دستِ خدا
آپ ہیں کونین کے حاجت روا
میں پکاروں کس کو حضرت کے سوا؟
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
دُرِّ بحرِ صولت و شوکت ہیں آپ
اور قسیمِ کوثر و جنت ہیں آپ
عاصیوں کے واسطے رحمت ہیں آپ
ناخدائے کشتیِ امت ہیں آپ
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
بطنِ ماہی میں ہوئے یونس جو بند
خار خارِ غم سے تھا دل دردمند
آپ نے ان پر نہ آنے دی گزند
فکر میں ہے میری جانِ مستمند
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
مصر کے زنداں میں تھے یوسف اسیر
اور نہ تھا غربت میں کوئی دست گیر
دی رہائی ان کو اے کُل کے امیر
قیدِ غم میں حال ہے میرا تغئیر
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
شاہِ من، مقصودِ امرِ کن فکاں
شیرِ حق، مطلوبِ روح و جسم و جاں
عالمِ اسرارِ پیدا و نہاں
قاسمِ روزی، امامِ انس و جاں
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
زیبِ فرش و عرش و کرسی و فلک
خادمِ درگاہِ عالی ہیں ملک
مالکِ کل ہو، نہیں کچھ اس میں شک
میرے مطلب میں تامل کب تلک
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
یا علیُّ روحی و قلبی فداک
تاجِ سر ہے آپ کے قدموں کی خاک
تیغِ غم سے ہے کلیجہ چاک چاک
لاکھ صدموں میں ہے جانِ دردناک
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
العطا، اے تاجدارِ ہل اتیٰ
الحفیظ، اے شہسوارِ لا فتیٰ
الاماں، اے ضیغمِ ربِّ عُلا
الغیاث، اے خسروِ خیبر کشا
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
اے چراغِ طورِ ایماں، الغیاث!
اے محمد کے دل و جاں، الغیاث!
اے شہنشاہِ غریباں، الغیاث!
الغیاث اے شاہِ مرداں، الغیاث!
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
آپ کو روحِ پیمبر کی قسم
آپ کو زہرائے اطہر کی قسم
آپ کو شبیر و شبر کی قسم
آپ کو سلمان و قنبر کی قسم
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
قربِ زین العابدیں کا واسطہ
باقرِ علمِ مبیں کا واسطہ
جعفرِ صاحب یقیں کا واسطہ
کاظمِ گردوں نشیں کا واسطہ
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
بہرِ سوزِ سینۂ موسیٰ رضا
بہرِ اکرامِ تقیِ مقتدیٰ
بہرِ توقیرِ نقی شاہِ ہُدا
بہرِ قربِ عسکریِ با خدا
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
مہدیِ ہادی کا صدقہ یا امام
مطلبِ دل میرے بر لاؤ تمام
مجھ سے ہو سکتا نہیں کچھ انتظام
آپ پر موقوف ہیں سب میرے کام
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیرالمومنیں ! فریاد ہے
ہے زیارت کے لیے دل بے قرار
روضۂ اقدس پہ ہوں کیوں کر نثار
ہاں بلا لے، اے امیرِ تاجدار
آپ ذی قدرت ہیں، میں بے اختیار
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
گھیرے رہتی ہے مجھے اکثر بلا
ہند میں موجود ہے گھر گھر بلا
میں بلا گرداں، کرو رد ہر بلا
ہو نجف مسکن، تو مدفن کربلا
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
طبع میں مولا روانی دیجیے
تشنۂ کوثر ہوں، پانی دیجیے
طاقتِ رنگیں بیانی دیجیے
دل کو شوقِ مدح خوانی دیجیے
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
آپ کا مدّاحِ احقر ہے انیس
سب ثنا خوانوں میں کم تر ہے انیس
عاجز و حیران و مضطر ہے انیس
بندۂ سلمان و قنبر ہے انیس
اب مدد کیجے دمِ امداد ہے
یا امیر المومنیں ! فریاد ہے
٭٭٭
متن کا ماخذ: کتاب ایپ
www.idealideaz.com
www.kitaabapp.com
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید