FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

اس آباد خرابے میں

 

 

 

                   ابنِ انشا

 

کلامِ تازہ اور انتخاب

 

 

 

 

 

پیش لفظ

 

انشا جی کا پہلا مجموعہ کلام چاند نگر تھا جو 1955 میں پہلی بار شائع ہوا۔ یہ اس دور کی بات تھی جب انسان کے قدم چاند پر نہ پہنچے تھے انشا جی یہ اس زندگی کے خاکے ہیں جو میں نے اٹھائیس برس میں بسر کی ہے گرجا کا گھڑیال جو دو بجاتا ہے گاڑی کی سیٹی جو گونج اٹھتی ہے ریل کی پلیا بھی کہ مضافات میں نظر آتی ہے اور چاند۔ ۔ ۔ آبادیوں اور ویرانوں کا چاند۔ ۔ ۔ یہ سب ماضی کی کھونٹیاں ہیں جن پر میں نے یادوں کے پیراہن لٹکا رکھے ہیں اب آپ میراساتھ چھوڑ کر اس چاند نگر کی سیر کیجئے اور میں نے اسے تلابخلی دے کر کسی نئے سفر پر نکلوں گا نہ مجھے اپنا حسن کا ایلڈوریڈو ملا ہے نہ زندگی کا شہر تمنا۔ ۔ ۔ میری منزل چاند کی پہاڑیوں کے ادھر سایوں کی وادی طویل میں ہے اس سے واپسی ہوئی تو جو کچھ دامن میں ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کلیاں، کانٹے، یا غبار، وہ پیش کروں گا۔

 

لیکن چاند کی پہاڑیوں سے انشا جی واپس لوٹے تو انسان کے قدم چاند پر پہنچ چکے تھے لیکن نیچے دھرتی کا احوال وہی تھا جو کچھ چاند نگر کے دیباچے میں لکھا تھا اور وہ آج بھی ہے دھرتی اور دھرتی والوں کے مسئلے وہی ہیں جنگ و امن، امارات و احتیاج، استعمار و محکومیت یہاں ملک تو آزاد ہو رہے ہیں لیکن انسان آزاد نہیں ہو رہے۔ اپنے دو سرے مجموعے ’اس بستی کے ایک کوچے میں ‘، جو ۶۷ء میں طبع ہوئی، کے دیباچے میں انشا جی لکھتے ہیں ’ایک طرف اسباب دنیا کی فراوانی ہے غلے کے گودام بھرے ہیں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں دوسری طرف حبشہ اور چڈاریٹڑ کی جھلسی ہوئی ویرانی میں انسان اناج کے ایک دانے کے لئے جانوروں کاسوکھا گوبر کرید رہا ہے اور ہزاروں لاکھوں لوگ تپتے تانبے کے آسمان تلے ایڑیاں رگڑتے دم توڑ رہے ہیں ‘ُ۔

شاعر اور ادیب کا ضمیر عالم کی آواز کہلاتا ہے، اپنی ذات کے خول میں دم سادھے بیٹھا ہے احتجاج کی منحنی صدا بھی نہیں۔ ایسے میں ذاتی جوگ بجوگ کی دھوپ چھاؤں کا یہ مرقع پیش کرتے ہوئے ہم کیسے خوش ہو سکتے ہیں یہ ہمارے پچھلے بیس سال کا نامۂ اعمال ہے اب پڑھنے والا بھی حکم صادر کرے انشا جی کے دونوں مجموعۂ کلام کے درمیان بیس سال کا وقفہ تھا اور اب جب کہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں وہ چاند کی پہاڑیوں کے ادھر سایوں کی وادی طویل میں اتنی دور نکل گئے کہ واپسی کا امکان ہی نہیں ہے۔ ان کے کاغذات میں سے ایک بیاض بھی ملی تھی جس کا عنوان دل وحشی تھا۔ شاید انہوں نے اپنے تیسرے مجموعہ کلام کا عنوان سوچا تھاسو اب یہ مجموعہ اسی نام سے شائع کیا جا رہا ہے اس مجموعہ کلام میں جو غزلیں، نظمیں، شائع کی جا رہی ہیں وہ انشا جی کی بیاض میں لکھی ہوئی ہیں ہو سکتا ہے ان کا ارادہ نظر ثانی کرنے کا ہو لیکن زندگی نے مہلت نہ دی ہمیں یہ جس حالت میں ملی ہیں اسی صورت میں شائع کر دی ہیں۔ بہت سی نظمیں۔ غزلیں، نامکمل ہیں ممکن ہے خام صورت میں ہوں۔ کچھ کے صرف ایک دو شعر ہی کہے گئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اشعار جو ہمیں ملے ہیں انشا جی نے مختلف ادوار میں کہے ہیں۔ اس لے و ہو سکتا ہے کہ قاری کو اس میں پہلے دور کی تازگی محسوس ہو۔ رہی رومانویت اور پرانے موسموں کی خوشبو جو چاند نگر کا خاصا ہیں اور کہیں اس پختگی کا احساس ہو جو اس بستی کے ایک کوچے میں پائی جاتی ہے لیکن مجموعی طور پر آپ کو اس میں انشا جی کا تیسرا رنگ نظر آئے گا اس میں انہوں  نے اپنے جوگ بجوگ کی دھوپ چھاؤں کا مرقع ہی نہیں انسانی زندگی کی دھوپ چھاؤں کا مرقع بھی پیش کیا ہے،

اس مجموعے میں اگر آپ کو کوئی خامی یا کمزوری نظر آئے تو اسے صرف ہم سے منسوب کیجئے گا انشا جی سے نہیں کہ اگر زندگی وفا کرتی تو نہ جانے کس صورت میں آپ کے ہاتھوں میں پہنچتا

سردار محمود

محمود ریاض

***

 

 

 

 

 

جب عمر کی نقدی ختم ہوئی

 

 

 

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی

اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے

ہے کوئی جو ساہو کار بنے

ہے کوئی جو دیون ہار بنے

کچھ سال، مہینے، دن لوگو

پر سود بیاج کے بن لوگو

ہاں اپنی جاں کے خزانے سے

ہاں عمر کے توشہ خانے سے

کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں

کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں

جب ناما دھر کا آیا کیوں

سب نے سر کو جھکایا ہے

کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں

جنہیں جاننے والے جانے ہیں

کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں

کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں

ہم مانگتے نہیں ہزار برس

دس پانچ برس دو چار برس

ہاں، سود بیاج بھی دے لیں گے

ہاں اور خراج بھی دے لیں گے

آسان بنے، دشوار بنے

پر کوئی تو دیون ہار بنے

تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے

کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے

کیوں اس مجمع میں آئی ہو

کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لاتی ہو

یہ کاروبار کی باتیں ہیں

یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں

ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے

سب عمر کی نقدی ختم کیے

گر شعر کے رشتے آئی ہو

تب سمجھو جلد جدائی ہو

اب گیت گیاسنگیت گیا

ہاں شعر کا موسم بیت گیا

اب پت جھڑ آئی پات گریں

کچھ صبح گریں، کچھ رات گریں

یہ اپنے یار پرانے ہیں

اک عمر سے ہم کو جانے ہیں

ان سب کے پاس ہے مال بہت

ہاں عمر کے ماہ و سال بہت

ان سب کو ہم نے بلایا ہے

اور جھولی کو پھیلایا ہے

تم جاؤ ان سے بات کریں

ہم تم سے نا ملاقات کریں

کیا پانچ برس ؟

کیا عمر اپنی کے پانچ برس ؟

تم جان کی تھیلی لائی ہو ؟

کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟

جب عمر کا آخر آتا ہے

ہر دن صدیاں بن جاتا ہے

جینے کی ہوس ہی نرالی ہے

ہے کون جو اس سے خالی ہے

کیا موت سے پہلے مرنا ہے

تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے

پھر تم ہو ہماری کون بھلا

ہاں تم سے ہمارا رشتہ ہے

کیاسود بیاج کا لالچ ہے ؟

کسی اور خراج کا لالچ ہے ؟

تم سوہنی ہو، من موہنی ہو ؛

تم جا کر پوری عمر جیو

یہ پانچ برس، یہ چار برس

چھن جائیں تو لگیں ہزار برس

سب دوست گئے سب یار گئے

تھے جتنے ساہو کار، گئے

بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے

یہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟

ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟

ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے

جب مانگیں جیون کی گھڑیاں

گستاخ آنکھوں کت جا لڑیاں

ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے

کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے

جو ساعت و ماہ و سال نہیں

وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں

لو اپنے جی میں اتار لیا

لو ہم نے تم کو ادھار لیا

٭٭٭

 

 

 

 

انشا جی کی کیا بات بنے گی

 

 

انشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے

ہم کس دل کا روگ بنے، کس سینے کا ناسور ہوئے

بستی بستی آگ لگی تھی، جلنے پر مجبور ہوئے

رندوں میں کچھ بات چلی تھی شیشے چکنا چور ہوئے

لیکن تم کیوں بیٹھے بیٹھے آہ بھری رنجور ہوئے

اب تو ایک زمانہ گزرا تم سے کوئی قصور ہوئے

اے لوگو کیوں بھولی باتیں یاد کرو، کیا یاد دلاؤ

قافلے والے دور گئے، بجھنے دو اگر بجھتا ہے الاؤ

ایک موج سے رک سکتا ہے طوفانی دریا کا بہاؤ

سمے سمے کا ایک راگ ہے، سمے سمے کا  اپنا بھاؤ

آس کی اُجڑی پھلواری میں یادوں کے غنچے نہ کھلاؤ

پچھلے پہر کے اندھیارے میں کافوری شمعیں نہ جلاؤ

انشا جی وہی صبح کی لالی۔ انشا جی وہی شب کاسماں

تم ہی خیال کی جگر مگر میں بھٹک رہے ہو جہاں تہاں

وہی چمن وہی گل بوٹے ہیں وہی بہاریں وہی خزاں

ایک قدم کی بات ہے یوں تو رد پہلے خوابوں کا جہاں

لیکن دورا فق پر دیکھو لہراتا گھنگھور دھواں

بادل بادل امڈ رہا ہے سہج سہج پیچاں پیچاں

منزل دور دکھے تو راہی رہ میں بیٹھ رہے سستائے

ہم بھی تیس برس کے ماندے یونہی روپ نگر ہو آئے

روپ نگر کی راج کماری سپنوں میں آئے بہلائے

قدم قدم پر مدماتی مسکان بھرے پر ہاتھ نہ آئے

چندرما مہراج کی جیوتی تارے ہیں آپس میں چھپائے

ہم بھی گھوم رہے ہیں لے کر کاسہ انگ بھبھوت رمائے

جنگل جنگل گھوم رہے ہیں رمتے جو گی سیس نوائے

تم پر یوں کے راج دلارے، تم اونچے تاروں کے کوی

ہم لوگوں کے پاس یہی اجڑا انبر، اجڑی دھرتی

تو تم اڑن کھٹولے لے کر پہنچو تاروں کی نگری

ہم لوگوں کی روح کمر تک دھرتی کی دلدل میں پھنسی

تم پھولوں کی سیجیں ڈھونڈو اور ندیاں سنگیت بھری

ہم پت جھڑ کی اجڑی بیلیں، زرد زرد الجھی الجھی

ہم وہ لوگ ہیں گنتے تھے تو کل تک جن کو پیاروں میں

حال ہماراسنتے تھے تو لوٹتے تھے انگاروں میں

آج بھی کتنے ناگ چھپے ہیں دشمن کے بمباروں میں

آتے ہیں نیپام اگلتے وحشی سبزہ زاروں میں

آہ سی بھر کے رہ جاتے ہو بیٹھ کے دنیا داروں میں

حال ہمارا چھپتا ہے جب خبروں میں اخباروں میں

اوروں کی تو باتیں چھوڑو، اور تو جانے کیا کیا تھے

رستم سے کچھ اور دلاور بھیم سے بڑھ کر جودھا تھے

لیکن ہم بھی تند بپھرتی موجوں کا اک دھارا تھے

انیائے کے سوکھے جنگل کو جھلساتی جوالا تھے

نا ہم اتنے چپ چپ تھے تب، نا ہم اتنے تنہا تھے

اپنی ذات میں راجا تھے ہم اپنی ذات میں سینہ تھے

طوفانوں کا ریلا تھے ہم، بلوانوں کی سینا تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھر تمہارا خط آیا

 

شام حسرتوں کی شام

رات تھی جدائی کی

صبح صبح ہر کارہ

ڈاک سے ہوائی کی

نامۂ وفا لایا

پھر تمہارا خط آیا

 

پھر کبھی نہ آؤ

موجۂ صبا ہو تم

سب کو بھول جاؤں گی

سخت بے وفا ہو تم

دشمنوں نے فرمایا

دوستوں نے سمجھایا

پھر تمہارا خط آیا

 

ہم تو جان بیٹھے تھے

ہم تو مان بیٹھے تھے

تیری طلعتِ زیبا

تیرا دید کا وعدہ

تیری زلف کی خوشبو

دشتِ دور کے آہو

سب فریب سب مایا

پھر تمہارا خط آیا

 

ساتویں سمندر کے

ساحلوں سے کیوں تم نے

پھر مجھے صدا دی ہے

دعوت وفا دی ہے

تیرے عشق میں جانی

اور ہم نے کیا پایا

درد کی دوا پائی

دردِ لادوا پایا

کیوں تمہارا خط آیا

٭٭٭

 

 

 

 

کیوں نام ہم اس کے بتلائیں

 

 

تم اس لڑکی کو دیکھتے ہو

تم اس لڑکی کو جانتے ہو

وہ اجلی گوری ؟ نہیں نہیں

وہ مست چکوری نہیں نہیں

وہ جس کا کرتا نیلا ہے ؟

وہ جس کا آنچل پیلا ہے ؟

وہ جس کی آنکھ پہ چشمہ ہے

وہ جس کے ماتھے ٹیکا ہے

ان سب سے الگ ان سب سے پرے

وہ گھاس پہ نیچے بیلوں کے

کیا گول مٹول سا چہرہ ہے

جو ہر دم ہنستا رہتا ہے

کچھ چتان ہیں البیلے سے

کچھ اس کے نین نشیلے سے

اس وقت مگر سوچوں میں مگن

وہ سانولی صورت کی ناگن

کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے

یہ گیت اسی کا در پن ہے

یہ گیت ہمارا جیون ہے

ہم اس ناگن کے گھائل تھے

ہم اس کے مسائل تھے

جب شعر ہماری سنتی تھی

خاموش دوپٹا چنتی تھی

جب وحشت اسے سستاتی تھی

کیا ہرنی سی بن جاتی تھی

یہ جتنے بستی والے تھے

اس چنچل کے متوالے تھے

اس گھر میں کتنے سالوں کی

تھی بیٹھک چاہنے والوں کی

گو پیار کی گنگا بہتی تھی

وہ نار ہی ہم سے کہتی تھی

یہ لوگ تو محض سہارے ہیں

انشا جی ہم تو تمہارے ہیں

اب اور کسی کی چاہت کا

کرتی ہے بہانا۔ ۔ ۔ بیٹھی ہے

ہم نے بھی کہا دل نے بھی کہا

دیکھو یہ زمانہ ٹھیک نہیں

یوں پیار بڑھانا ٹھیک نہیں

نا دل مانا، نا ہم مانے

انجام تو سب دنیا والے جانے

جو ہم سے ہماری وحشت کا

سنتی ہے فسانہ بیٹھی ہے

ہم جس کے لئے پردیس پھریں

جو گی کا بدل کر بھیس پھریں

چاہت کے نرالے گیت لکھیں

جی موہنے والے گیت لکھیں

اس شہر کے ایک گھروندے میں

اس بستی کے اک کونے میں۔

کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے

اس درد کو اب چپ چاپ سہو

انشا جی لہو تو اس سے کہو

جو چتون کی شکلوں میں لیے

آنکھوں میں لے ل، ہونٹوں میں لیے

خوشبو کا زمانہ بیٹھی ہے

لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں

کیوں نام ہم اس کا بتلائیں

ہم جس کے لیے پردیس پھرے

چاہت کے نرالے گیت لکھے

جی موہنے والے گیت لکھے

جو سب کے لیے دامن میں بھرے

خوشیوں کا خزانہ بیٹھی ہے

جو خار بھی ہے اور خوشبو بھی

جو درد بھی ہے اور دار و بھی

لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں

کیوں نام ہم اس کا بتلائیں

وہ کل بھی ملنے آئی تھی

وہ آج بھی ملنے آئی ہے

جو اپنی نہیں پرائی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دور تمہارا دیس ہے مجھ سے

 

 

 

دور تمہارا دیس ہے مجھ سے اور تمہاری بولی ہے

پھر بھی تمہارے باغ ہیں لیکن من کی کھڑکی کھولی ہے

آؤ کہ پل بھر مل کے بیٹھیں بات سنیں اور بات کہیں

من کی بیتا، تن کا دکھڑا، دنیا کے حالات کہیں

اس دھرتی پر اس دھرتی کے بیٹوں کا کیا حال ہوا

رستے بستے ہنستے جگ میں جینا کیوں جنجال ہوا

کیوں دھرتی پہ ہم لوگوں کے خون کی نسدن ہولی ہے

سچ پوچھو تو یہ کہنے کو آج یہ کھڑکی کھولی ہے

بیلا دیوی آج ہزاروں گھاؤ تمہارے تن من ہیں

جانتا ہوں میں جان تمہاری بندھن میں کڑے بندھن میں

روگ تمہارا جانے کتنے سینوں میں بس گھول گیا

دور ہزاروں کوس پہ بیٹھے ساتھی کا من ڈول گیا

یاد ہیں تم کو سانجھے دکھ نے بنگالے کے کال کے دن

راتیں دکھ ور بھوک کی راتیں دن جی کے جنجال کے دن

تب بھی آگ بھری تھی من میں اب بھی آگ بھری ہے من میں

میں تو یہ سو چوں آگ ہی آگ ہے اس جیون میں

اب سو نہیں جانا چاہے رات کہیں تک جائے

ان کا ہاتھ کہیں تک جائے  اپنی بات کہیں تک جائے

سانجھی دھرتی سانجھاسورج، سانجھے چاند اور تارے ہیں

سانجھی ہیں سبھی دکھ کی ساری باتیں سانجھے درد ہمارے

گولی لاٹھی ہیسہ شاسن دھن دانوں کے لاکھ سہارے

وقت پڑیں کس کو پکاریں جنم جنم کے بھوک کے مارے

برس برس برسات کا بادل ندیاسی بن جائے گا

دریا بھی اسے لوگ کہیں گے ساگر بھی کہلائے گا

جنم جنم کے ترسے من کی کھیتی پھر بھی ترسے گی

کہنے کو یہ روپ کی برکھا پورب پچھم برسے گی

جس کے بھاگ سکندر ہوں گے بے مانگے بھی پائے گا

آنچل کو ترسانے والا خود دامن پھیلائے گا

انشا جی یہ رام کہانی پیت پہلی بوجھے کون

نام لے بن لاکھ پکاریں بوجھ سہیلی بوجھے کون

وہ جس کے من کے آنگن میں یادوں کی دیواریں ہوں

لاکھ کہیں ہوں روپ جھروکے، لاکھ البیلی ناریں ہوں

اس کو تو ترسانے والا جنم جنم ترسائے گا

کب وہ پیاس بجھانے والا پیاس بجھانے آئے گا

٭٭٭

 

 

 

 

اے دل دیوانہ

 

مہجور ہے دکھانا ؟

رنجور ہے دکھانا ؟

اپنے سے غافل تھا

ان کو بھی نہ پہچانا

کیوں اے دل دیوانہ

 

وہ آپ بھی آتے تھے

ہم کو بھی بلاتے تھے

کل تک جو حقیقت تھی

کیوں آج ہے ا فسانہ

ہاں اے دل دیوانہ

 

وہ آج کی محفل میں

ہم کو بھی نہ پہچانا

کیاسوچ لیا دل میں

کیوں ہو گیا بیگانہ

کیوں اے دل دیوانہ

ہاں کل سے نہ جائیں گے

پر آج تو ہو آئیں

ہاں رات کے دریا میں

مہتاب ڈبو آئیں

وہ بھی ترا فرمانا

ہاں اے دل دیوانا

٭٭٭

 

 

 

 

ہاں اے دل دیوانا

 

وہ آج کی محفل میں

ہم کو بھی نہ پہچانا

کیاسوچ لیا دل میں

کیوں ہو گیا بیگانہ

ہاں اے دل دیوانا

 

وہ آپ بھی آتے تھے

ہم کو بھی بلاتے تھے

کس چاہ سے ملتے تھے

کیا پیار جتاتے تھے

کل تک جو حقیقت تھی

کیوں آج ہے ا فسانہ

ہاں اے دل دیوانا

 

بس ختم ہوا قصہ

اب ذکر نہ ہو اس کا

وہ شخص وفا دشمن

اب اس سے نہیں ملنا

گھر اس کے نہیں جانا

ہاں اے دل دیوانا

 

ہاں کل سے نہ جائیں گے

پر آج تو ہو آئیں

اس کو نہیں پا سکتے

اپنے ہی کو کھو آئیں

تو باز نہ آئے گا

مشکل تجھے سمجھانا

وہ بھی ترا کہنا تھا

یہ بھی ترا فرمانا

چل اے دل دیوانا

٭٭٭

 

 

 

 

جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل

 

دل بہلنے کی نہیں کوئی سبیل

جنوری کی سرد راتیں ہیں طویل

ڈالتا ہوں اپنے ماضی پر نگاہ

گاہے گاہے کھنچتا ہوں سرد آہ

کس طرح اب دل کو رہ پر لاؤں میں

کس بہانے سے اسے بھولاؤں میں

سب کو محو خواب راحت چھوڑ کے

نیند آتی ہے مرے شبستاں میں مرے

مجھ کو سوتے دیکھ کر آتا ہے کوئی

میرے سینے سے چمٹ جاتا ہے کوئی

دیکھتا ہوں آ کے  اکثر ہوش میں

کوئی ظالم ہے مری آغوش میں

خود کو مگر تنہا ہی پاتا ہوں میں

پھر گھڑی بھر بعد سوجاتا ہوں میں

پھر کسی کو دیکھتا ہوں خواب میں

اس دفعہ پہچان لیتا ہوں تمہیں

بھاگ جاتے ہو قریب صبح دم

چھوڑ دیتے ہو رہین رنج و غم

مجھ کو تم سے عشق تھا مدت ہوئی

ان دنوں تم کو بھی الفت مجھ سے تھی

کم نگاہی اقتصائے سال و سن

کیا ہوئی تھی بات جانے ایک دن

بند اپنا آنا جانا ہو گیا

اور اس پر اک زمانا ہو گیا

تم غلط سمجھے ہوا میں بد گماں

بات چھوٹی تھی مگر پہنچی کہاں

جلد ہی میں تو پشیماں ہو گیا

تم کو بھی احساس کچھ ایسا ہوا

نشہ پندار میں لیکن تھے مست

تھی گراں دونوں پہ تسلیم شکست

ہجر کے صحرا کو طے کرنا پڑا

مل گیا تھا رہنما امید سا

ہے مری جرات کی اصل اب بھی یہی

دل یہ کہتا ہے کہ دیکھیں تو سہی

جس میں اترا تھا ہمارا کارواں

اب بھی ممکن ہے وہ خالی ہو مکاں

آج تک دیتے رہے دل کو فریب

اب نہیں ممکن ذرا تاب شکیب

آؤ میرے دیدہ تر میں رہو

آؤ اس اجڑے ہوئے گھر میں رہو

حوصلے سے میں پہل کرتا تو ہوں

دل میں اتناسوچ کر ڈرتا بھی ہوں

تم نہ ٹھکرا دو مری دعوت کہیں

میں یہ سمجھوں گا اگر کہہ دو نہیں

گردش ایام کو لوٹا لیا

میں نے جو کھو دیا تھا پا لیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تلانجلی

 

 

تو جو کہے تجدید محبت میں تو مجھے کچھ عار نہیں

دل ہے بکار خویش ذرا ہشیار، ابھی تیار نہیں

صحرا جو عشق جنوں پیشہ نے دکھائے دیکھ چکا

مد و جرز کی لہریں گھٹتے بڑھتے سائے دیکھ چکا

عقل کا فرمانا ہے کہ اب اس دام حسیں سے دور ہوں

زنداں کی دیواروں سے سر پھوڑ مرا نوخیز جنوں

صحبت اول ہی میں شکست جرات تنہا دیکھ چکا

(۲)

کاوش نغمہ رنگ اثر سے عاری کی عاری ہی رہی

جلوہ گری تیری بھی نشاط روح کاساماں ہو نہ سکی

سوچ رہا ہوں کتنی تمناؤں کو لیے آیا تھا یہاں

مجھ پہ نگاہ لطف تری اب بھی ہے مگر پہلی سی کہاں

آج میں ساقی یاد ہوں تجھ کو درد تہ ساغر کے لے ھ

کل کی خبر ہے کس کو بھلا اتنا بھی رہے کل یا نہ رہے

دھند کے بادل چھوٹ رہے ہیں ٹوٹتے جاتے ہیں افسو

سوچ رہا ہوں کیوں نہ اسی بے کیف فضا میں لوٹ چلوں

ساقی رعنا تجھ سے یہی کم آگہی کا شکوہ ہی رہا

کاوش نغمہ رنگ اثر سے عاری کی عاری ہی رہی

حیلہ گری تیری بھی نشاط روح کاساماں ہو نہ سکی

لذت و زیر و بم سے رہی محروم نوائے بربط و نے

ڈھل نہ سکے آہنگ میں خاکے آنہ سکی فریاد میں لے

کر دیکھی ہر رنگ میں تو نے سعی نشاط سوزدروں

پھر بھی اے مطرب خلوت محمل میں رہی لیلائے سکوں

کشتی آوارہ کو کسی ساحل کاسہارا مل نہ سکا

دیکھ چکا انجام تمنا، جان تمنا تو ہی بتا

ہے یہی نشہ غایت صہباساقی رعنا تو ہی بتا

چارہ غم تھا دعوی نغمہ، خالق نغمہ تو ہی بتا

حسن کا احسان اٹھ نہ سکے تو عشق کاسوداچھوڑ نہ دوں

کیف بقدر ہوش نہ ہو تو ساغر صہبا پھوڑ نہ دوں

بربط و نے سے کچھ نہ بنے تو بربط و نے کو توڑ دوں

قطع جنوں میں جرم ہی کیا ہے پھر مری لیلی تو ہی بتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

 

 

 

شبوں کو نیند آتی ہی نہیں ہے

طبیعت چین پاتی ہی نہیں ہے

بہت روئے اب آنسو ہیں گراں یاب

کہاں ڈوبا ہے جا کے دل کا مہتاب

ستارے صبح خنداں کے ستارے

بھلا ا تنی بھی جلدی کیا ہے پیارے

کبھی پوچھا بھی تو نے۔ ۔ ۔ کس کو چاہیں

لے پھرتے ہیں ویراں سی نگاہیں

ہماری جاں پہ کیوں ہیں صدمے بھاری

نفس کاسوز، دل کی بے قراری

خبر بھی ہے ہمارا حال کیا ہے

عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

حکایت ہے ابھی پچھلے دنوں کی

کوئی لڑکی تھی ننھی کا منی سی

گلے زیبا قبائے، نو بہارے

سیہ آنچل میں اوشا کے ستارے

بہت صبحوں کی باتیں تھیں انیلی

بہت یادوں کی باتیں تھیا نیلی

کبھی سامان تھے دل کے توڑنے کے

کبھی پیمان تھے پھر سے جوڑنے کے

عجب تھا طنز کرنے کا بہانا

نہ تم انشا جی ہم کو بھول جانا

بہت خوش تھے کے خوش رہنے کے دن تھے

بہر ساعت غزل کہنے کے دن تھے

زمانے نے نیا رخ یوں دیا

اسے ہم سے ہمیں اس سے چھڑایا

پلٹ کر بھی نہ دیکھا پھر کسی نے

اسی عالم میں گزرے دو مہینے

کگر ہم کیسی رو میں بہ چلے ہیں

نہ کہنے کی ہیں باتیں کہہ چلے ہیں

ستارے صبح روشن کے ستارے

تجھے کیا ہم اگر روتے ہیں پیارے

ہمارے غم ہمارے غم رہیں گے

ہم اپنا حال تجھ سے نہ کہیں گے

گزر بھی جا کہ یاں کھٹکا ہوا ہے

عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اندھی شبو ؛ بے قرار راتو

 

 

اندھی شبو ؛ بے قرار راتو ؛

اب تو کوئی جگمگاتا جگنو

اب کوئی تمتماتا مہتاب

اب تو کوئی مہرباں ستارہ

گلیوں میں قریب شام ہر روز

لگتا ہے جو صورتوں کا میلہ

آتا ہے جو قامتوں کا ریلا

کہتی ہیں حیرتی نگاہیں

کس کس کو ہجوم میں سے چاہیں

لیکن یہ تمام لوگ کیا ہیں

اپنے سے دور ہیں جدا ہیں

ہم نے بھی تو جی کو خاک کر کے

دامان شکیب چاک کر کے

وحشت ہی کا آسرا لیا تھا

جینے کو جنوں بنا لیا تھا

اچھا نہ کیا۔ ۔ ۔ ۔ مگر کیا تو

اندھی شبو، بے قرار راتو

 

کب تک یونہی محفلوں کے پھیرے

اچھے نہیں جی کے یہ اندھیرے

اب تو کوئی بھی دید نہیں ہے

ہونے کی بھی امید نہیں ہے

ہم بھی تو عہد پاستاں ہیں

ماضی کے ہزار داستاں ہیں

پیماں کے ہزار باغ توڑے

دامان وفا پہ داغ چھوڑے

دیکھیں جو انا کے روزنوں سے

پیچھے کہیں دور دور مدھم

پراں ہیں خلا کی وسعتوں میں

اب بھی کئی ٹمٹماتے جگنو

اب بھی کئی ڈبڈباتے مہتاب

اب بھی کئی دستاں ستارے

آزردہ بحال، طپاں ستارے

پیچھے کو نظر ہزار بھاگے

لوگو رہ زندگی ہے آگے

جتنے یہاں راز دار غم ہیں

تارے ہیں کہ چاند ہے کہ ہم ہیں

ان کا تو اصول ہے یہ بان کے

اس دل میں نہ اور کوئی جھانکے

خالی ہوئے جام عاشقی کے

اکھڑے ہیں خیام عاشقی کے

قصے ہیں تمام عاشقی کے

٭٭٭

 

 

 

 

واردات

 

 

رات پھر ان کا انتظار رہا

رات پھر گاڑیاں گزرتی ہیں

وہ کوئی دم میں آئے جاتے ہیں

راہیں سرگوشیاں ہی کرتی رہیں

ایک امید باز دید جو تھی

دل کبھی یاس آشنا نہ ہوا

کب ہوئے وہ نگاہ سے اوجھل

کب انھیں سامنے نہیں پایا

رات پھر میں نے ان سے باتیں کی

رات تک میرے پاس تھے گویا

ہونٹ، رخسار، کا کلیں، باہیں

ایک اک چھو کے دیکھ سکتا تھا

پڑ گیاسست رات کا جادو

دیکھتے دیکھتے سماں بدلا

ہولے ہولے سرک گئے تارے

چاند کا رنگ پڑ گیا پھیکا

اور پھر مشرقی جھروکے سے

صبح دم آفتاب نے جھانکا

در پہ باہر کسی نے دستک دی

(ڈاکیا ڈاک لے کے آیا تھا )

ایک دو ہی تو لفظ تھے خط میں

اب سکوں آشنا ہیں دیدہ و دل

 

اب کرین انتظار تو کس کا

وہ حسیں ہونٹ وہ حسیں آنکھیں

پھول سا جسم چاند سا چہرہ

عنبریں زلفیں، مخملیں باہیں

آج تک جن کا لمس باقی تھا

اب فقط ان کی یاد باقی ہے

لٹ گیا عشق کاسرو ساماں

شہر امید ہو گیا ہے ویراں

اس کی اک روئداد باقی ہے

ایک اجڑ سواد باقی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

شام ہوئی ہے

 

 

شام ہوئی ہے ڈگر ڈگر میں پھیلی شب کی سیاہی ہے

پچھم اور کبھی کا ڈوبا، چار پہر کا راہی ہے

آج کا دن بھی آخر بنتا جگ جگ کا جنجال لیے

اندھیارے نے ایک جھپٹ میں چاروں کوٹ سنبھال لیے

رات نے خیمے ڈیرے ڈالے ہولے ہولے کہاں کہاں

پورپ پچھم اتر دکھن، پھیلا کالا بھبھوت دھواں

سانجھ سمے کی چھایا بیری، اس کا ناش ناش ہو

دھندکا پھندا جگ جگ پھیلا اندھا نیل آکاش ہوا

سہماسہما ریل کے کالے پل پر دیر سے بیٹھا ہوں

سوچ رہا ہوں سیر تو ہولی ٹھہروں یا گھر لوٹ چلوں

شنٹ کے انجن دھواں اڑاتے آتے ہیں کبھی جاتے ہیں

رنگ برنگے سنگنل ان کو کیا کیا ناچ نچاتے ہیں

جنگلے پر پل کو جھکا اور انگلیوں سے اسے تھپکایا

کوئی مسافر مزے مزے میں پیت کا گیت الاپ چالا

چھاؤنی کے ایک کمپ کا گھنٹہ ٹن ٹن آٹھ بجاتا ہے

شنٹ انجن دھواں اڑاتا آتا ہے کبھی جاتا ہے

آج کی رات اماوس ہے آج گگن پر چاند نہیں

تبھی تو سائے گھنے گھنے ہیں تبھی ستارے ماند نہیں

تبھی تو من میں پھیل چلا الجھا الجھاسوچ کا جال

کل کی یادیں آج کی فکریں آنے والے کل کا خیال

کال کی باتیں کھیتی کھیتی، بستی بستی، گلی گلی

جنگ کے چرچے محفل محفل، گدھوں کی تقدیر بھلی

ایک پہر سے اوپر گزراسورج کو است ہوئے

کھیت کے جھینگر سوندھی سوندھی خوشبو پا کر مست ہوئے

تن تن تن تن، دب دب دب دب دب الجھی الجھی دبی دبی

ایک بجے کی نوبت شاید وقت سے پہلے بجا ٹھی

طوفانی جیکاروں کا اک شور سر صحرا ا ٹھا

کان بجے یا دشت میں گونجی گھوڑوں کی ٹاپوں کی صدا

کوچ کرو دل دھڑکے بولے پچھم کوا ٹھ جانا ہے

کمپ کنارے باجا باجے دور کا دیس بسانا ہے

ایک سجیلی بستی دائیں، ایک البیلا رستہ بائیں

دیرسے کالے پل پہ کھڑے ہیں اے دل آج کدھر کو جائیں

لہک لہک کر قرنق چیخے دل کے تیس بلو ان کرے

کھن کھن کھن کھن کھنڈا باجے کیا کیا کتھا بیان کرے

اجلی خندق اپنے ہی جیالوں کے لہو میں نہائی ہے

جیت نے جھلسی ویرانی کی شوبھا اور بڑھائی ہے

٭٭٭

 

 

 

تحقیق

 

 

تھوڑی کڑوی ضرور ہے بابا

اپنے غم کا مگر مداوا ہے

ذائقہ کا قصور ہے بابا

تلخ و شیریں میں فاصلہ کیا ہے

رنگ و روغن کو سال و سن کو نہ دیکھ

پیڑ گننا کہ آم کھانا ہے

عمر گزری ہے خانقاہوں میں

ایک شب یاں گزار جانا ہے

حسن مختوم خوب تھا بابا

کاش حصے میں آپ کے آ سکتا

عشق معصوم کیا کہا بابا

کاش میں یہ فریب کھا سکتا

حسن کا مل عیار عشق نفیس

سب مراحل سے گزر چکا ہوں میں

دل خریدا تھا کبھی ان کا

اب فقط اتنا جانتا ہوں میں

ایک رنگین خواب تھے بابا

موجہ ہائے سراب تھے بابا

ورنہ سرحد پہ تشنہ کامی کی

مئے رنگیں ہے سادہ پانی ہے

شرط حسن و وفا اضافی ہے

قید تسکین نفس کافی ہے

٭٭٭

 

 

 

سونا شہر

 

 

کہنہ صدیوں کی افسوں زدہ خامشی

تنگ گلیوں کی پہنائی میں چھائی ہے

ایک ویرانی جاوداں و جلی

ساتویں آسماں سے اتر آئی ہے

 

ایک کہرا ہے پھیلا ہوا دور تک

پھول بن میں نہ پیلی ہری کھتیاں

ایک مذبح کی دیوار کے اس طرف

چیلیں منڈلا رہی ہیں یہاں سے وہاں

 

گھاٹ خالی ہے پانی سے اترا ہوا

کوئی ملاح بیٹھا نہیں ناؤ میں

دھندلا دھندلا افق کھو گیا ہے کہیں

دیواروں کے جھنڈوں کے پھیلاؤ

زنگ رو دو کش سرنگوں ہو گئے

جیسے ہاری ہوئی فوج کے سنتری

سونے آنگن میں الجھی ہوئی گھاس

بام چھانے میں کیوں دیر اتنی کری

ایک قسمت کا مارا ہوا کارواں

جانے کس دیس سے جانے کس شہر سے

ہا پتا کانپتا آ گیا ہے یہاں

خالی فردا کی خالی امیدیں لیے

ٹھنڈے چولھوں میں ٹھٹھری ہوئی آگ ہے

بیکراں درد چہروں پہ پر قوم ہے

کب ٹھکانا ملے کب جنازہ اٹھے

کوئی بتلائے کیا، کس کو معلوم ہے

شہر آباد تھے گاؤں آباد تھے

عالم رنگ و بو تھا یہیں دوستو

کار گاہوں میں تھا شور محشر بپا

یہ بہت دن کی باتیں نہیں دوستو

 

کون آیا تھا یہ اور کیا کر گیا

لے گیا کون دھرتی کی تابندگی

جنگلوں میں سے گزرے تو چیخے ہوا

زندگی، زندگی، زندگی، زندگی

کونسی نہر  ہے کون سا باغ ہے

کون سے پات ہیں کون سا پھول ہے

زندگانی کے دامن کے پھیلاؤ میں

دشت کے خار ہیں دشت کی دھول ہیں

 

موٹروں گاڑیوں پیدلوں میں کوئی

طاقت و عزم رفتار باقی ہے

کس کے ایماء و  ارشاد کے منتظر

مدتوں سے کھڑے ہیں وہیں کے وہیں

راہ گیروں کے  اٹھتے قدم تھم گئے

سحر کے وقت نے بے خبر آ لیا

جانے والے جہاں تھے وہیں جم گئے

آگے جانے کا جب راستہ نہ ملا

 

چوک پر آ کے سیلِ زماں رک گیا

چوک پر آ کے سب راستے کھو گئے

اک سپاہی چلیپا کی صورت کھڑا

سرخ پگڑی ہے سر جمائے ہوئے

مومی شمعوں کی لوئیں لرزنے لگیں

محفلوں کا اجالا گیا، سو گیا

آمد آمد ہے بلوان طوفان کی

دیکھنا، دیکھنا، دیکھنا، دیکھنا

مہر سے چاند تارے الجھنے لگے

آندھیوں سے غبارے الجھنے لگے

کیسے وحشت کے مارے الجھنے لگے

ایک دشمن سے سارے الجھنے لگے

آرتی کے لیے منتظر ہے جہاں

گوشت اور خون کے سردو جامد بتو

اپنی آنکھوں کی پھیلاؤ تو پتلیاں

کچھ تو بولو زبانوں سے کچھ تو کہو

٭٭٭

 

 

 

 

ودیالہ سے رام نگر تک

 

 

ودیالہ سے رام نگر تک

گرد کا کہرا پھیلا پھیلا

تاروں کی لو پھیکی پھیکی

چاند کا چہرا میلا میلا

انشا جی اس چاند رات میں

کرتے ہوئے کشتی کی سواری

پھر کب آؤ، پھر کب آؤ

کاشی کی ہر بات ہے نیاری

اسی گنگا کا پانی پی کر

اسی کاشی میں بڑھے پلے ہیں

ہمرے کون دلدر چھوٹے

ہمرے کتنے پاپ کٹے ہیں

ان چوبوں کو درشن دیویں

رام کبھی کبھی شام مراری

ہم لوگوں کی سار نہ لیویں

کاشی کی ہر بات ہے نیاری

کھیت کھیت میں ٹھا کر لوٹیں

پینٹھ پینٹھ میں بنجارے ہیں

مندر مندر لوبھی بامن

گھاٹ گھاٹ پر ہر کارے ہیں

ایک طرف سرکار کے پیارے

ایک طرف یہ دھن کے پجاری

بندے بھی بھگوان بھی دشمن

 

کاشی کی ہر بات ہے نیاری

جھونکے متوالی پروا کے

پرات کال دریا کا کہتا

ڈال ڈال گاتے ہوئے پنچھی

ترل ترل بہتی ہوئی دھار

پورب اور گگن پر کرنیں

پنکھ سنہرے تول رہی ہیں

رات کے اندھیارے کی کرنیں

ایک اک کر کے کھول رہی ہے

رکشا والے بگ ٹٹ بھا گے

اسٹیشن سے لے سواری

آج تو ہم نے بھی آ دیکھی

کاشی کی ہر بات ہے نیاری

دور دور کے یا تریوں کے

گھاٹ گھاٹ پر ڈیرے ڈالے

پنڈت پنڈت نوکا والے

ا مڈ پڑے کی گٹھڑی کو ڈبونے

ہم بھی پنجا دیس سے آئے

جیون کا دکھ کون بٹائے

جیون کا دکھ سہا نہ جائے

ہم لوگوں پر کشٹ پڑا ہے

ہم لوگوں پر وقت ہے بھاری

لیکن کس کو کون بتائے

کاشی کی ہر بات ہے نیاری

٭٭٭

 

 

 

 

جپو ست

 

 

جب درد کا دل پر پہرا ہو

اور جب یاد کا گھاؤ گہرا ہو

آ جائے گا آرام

جپو ست نام

جپو ست نام

 

یہ بات تو ظاہر ہے بھائی

ہے عشق کا حاصل رسوائی

پر سوچو کیوں انجام

جپو ست نام

جپو ست نام

 

یہ عمر کسی پر مرنے کی

کچھ بیت گئی کچھ بیتے گی

وہ پکی ہے تم خام

جپو ست نام
جپو ست نام

 

جب عشق کا درد تم بھرتے ہو

کیوں ہجر کے شکوے کرتے ہو

یہ عشق کا ہے انعام

جپو ست نام

جپو ست نام

 

سب اول اول گھبراتے ہیں

سبا خر آخر لے آتے

اس کافر پر اسلام

جپو ست نام

ٍ جپو ست نام

 

اب چھوڑ کے بیٹھو چپکے سے

سب جھگڑے دین اور دنیا کے

آتی ہے وہ خوش اندام

جپو ست نام

جپو ست نام

 

جہاں میر سفر، وزیر بھی ہے

اس بھیڑ میں ایک فقیر بھی ہے

اور اس کا ہے یہ کلام

جپو ست نام

جپو ست نام

٭٭٭

 

 

 

 

چار پہر کی رات

 

 

جھوٹی سچی مجبوری پر لال دلھن نے کھینچا ہات

باجے گاجے بجتے رہے پر لوٹ گئی ساجن کی برات

سکھیوں نے اتنا بھی نہ دیکھا ٹوٹ گئے کیا کیاسنجوگ

ڈھولک پر چاندی کے چوڑے چھنکاتے میں کاٹی رات

بھاری پردوں کے پیچھے کی چھایا کو معلوم نہ تھا

آج سے بیگانہ ہوتا ہے کس کا دامن کس کا ہات

میلے آنسو ڈھلکے جھومر، اجلی چادرسونی سیج

اوشا دیوی یوں دیکھ رہی ہو کس کی محبت کی سوغات

 

چاند کے اجیالے پی نہ جاؤ موم کی یہ شمعیں نہ بجھاؤ

باہر کے سورج نہ بلا ؤ جلنے دو تنکے کے ا لاؤ

کس مہندی کا رنگ ہوا یہ کس سہرے کے پھول ہوئے

بوجھنے والے بوجھ ہی لیں گے لاکھ نہ بولو لاکھ چھپاؤ

ہم کو کیا معلوم نہیں سمجھوں کو ناحق سمجھاؤ

جیسے کل کی بات ہو جانی پیت کے سب پیمان ہوئے

پردے اڑیں دریچے کانپیں پروا کے جھونکے آئیں جائیں

سانجھ سمے کے شوکتے جنگل کس کو پکاریں کس کو بلائیں

درد کی آنچ جگر کو جلائے پلکیں نہ جھپکیں نیند نہ آئے

روگ کے کیڑے سینہ چاٹیں زخموں کی دیواریں سہلائیں

یاد کے دوار کو تیغہ کر دو جگہ جگہ پہرے بٹھلا دو

اجنبی بنجاروں سے کہہ دو پیت نگر کی راہ نہ آئیں

 

انشا جی اک بات جو پوچھیں تم نے کسی سے عشق کیا ہے

ہم بھی تو سمجھیں ہم بھی تو جانیں عشق میں ایسا کیا ہوتا ہے

مفت میں جان گنوا لیتے ہیں ہم نے تو ایساسن رکھا ہے

نام و مقدم ہمیں بتلائیں آپ نہ اپنے جی کو دکھائیں

ہم ابھی مشکیں باندھ کے لائیں کون وہ ایسا ماہ لقا ہے

 

سانس میں پھانس جگر میں کانٹے سینہ لال گلال نہ پوچھ

اتنے دنوں کے بعد تو پیارے بیماروں کا حال نہ پوچھ

کیسے کٹے جیسے بھی کٹے اب اور بڑھے گا ملال نہ پوچھ

قرنوں اور جگنوں پر بھاری مہجوری کے سال نہ پوچھ

جن تاروں کی چھاؤں میں ہم نے دیکھے تھے وہ سکھ کے خواب

کیسے ان تاروں نے بگاڑی اپنی ہماری چال نہ پوچھ

٭٭٭

 

 

 

پہلاسجدہ

 

وہ ارمانوں کی اجڑی ہوئی بستی

پھر آج آباد ہوتی جا رہی ہے

جہاں سے کاروان شوق گزرے

نہ جانے کتنی مدت ہو گئی ہے

پلا تھا صحبت اہل حرم میں

میں برسوں سے تبستاں آشنا تھا

بنی لیکن خداسے نہ بتوں سے

میں دونوں آستانوں سے خفا تھا

مگر کچھ اور ہی عالم ہے اب تو

میں اپنی حیرتوں میں کھو گیا ہوں

مجسم ہو گئے ہیں حسن و جبروت

مجھے لینا میں بہکا جا رہا ہوں

کوئی یزداں ہو بت ہو آدمی ہو

اضافی قیمتوں سے ماورا ہوں

میں پہلی بار سجدہ کر رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

سعیِ رائیگاں

 

کتنی ٹھنڈک ہے یہیں نہر کنارے بیٹھیں

دل بہل جائے گا اس میں بھی ہے مشکل کوئی

ننھے بزغالوں کی سبزے پہ کلیلیں دیکھیں

اپنے سواگت کو پون آئی ہے دھیمی دھیمی

کتنے اند وہ سے کر پایا ہوں ان کو رخصت

وہ بھی افسردہ و مضطر تھا نگاہیں بھی غمیں

سند با ادب کے تو ہمراہ مجھے بھی لے چل

(دل جو بہلا تو کتابوں ہی میں آ کر بہلا)

میں تیرے ساتھ زمانے کی نظر سے اوجھل

لے کے چلتا ہوں خیالوں کاسفینہ اپنا

کیا خبر اب میں انھیں یاد بھی ہوں گا کہ نہیں

کاش میں نے ہی انھیں ایسے نہ چاہا ہوتا

کتنے ہنگاموں سے آباد ہیں گلیاں بازار

(کلفتیں شہر کے ماحول نے دھوئیں دل سے )

آج ہر چیز کی صورت پہ انوکھا ہے نکھار

اتنے چہرے ہیں کہ پہلے کبھی دیکھے بھی نہ تھے

اتفاقات سے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کہیں

خام امیدوں سے بہلاؤں کا دل کو کیسے ؟

خام امیدوں سے بہلاؤں گا دل کو کیسے

اتفاقات سے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کہیں

کتنے اندوہ سے کر پایا ہوں ان کو رخصت

دل بھی افسردہ و مضطر تھا نگاہیں بھی غمیں

کاش میں نے انھیں ایسے نہ چاہا ہوتا

اب تو شاید میں انھیں یاد بھی آؤں کہ نہیں

٭٭٭

 

 

 

حفاظتی بند باندھ لیجئے

 

 

ہم میں آوارہ سو بو لوگو

جیسے جنگل میں رنگ و بو لوگو

ساعت چند کے مسافر سے

کوئی دم اور گفتگو لوگو

تھے تمہاری طرح کبھی ہم بھی

رنگ و نکہت کی آبرو لوگو

قریۂ عاشقی ہراچہ و دل

گھر ہمارے بھی تھے کبھی لوگو

وقت ہوتا تو آرزو کرتے

جانے کس شے کی آرزو لوگو

تاب ہوتی تو جستجو کرتے

جانے کس کس کی جستجو لوگو

کوئی منزل نہیں روانا ہیں

ہم مسافر میں بے ٹھکانا ہیں

٭٭٭

 

 

 

دو راہا

 

تم کسی کا بساؤ گی پہلو

مل رہے گا مجھے نیاساتھی

تم کو سب کچھ گنوا کے پایا تھا

تم بھی کھو جاؤ گی خبر کیا تھی

درد نا گفتنی ہے ضبط غم

کیوں سمجھتی ہو سنگدل مجھ کو

تم بھی چاہو تو پوچھ لو آنسو

زخم کچے ہیں دل کے مت چھیڑو

مغتنم ہے یہ صحبت دو دم

مسکرا دو ذرا گلے مل لو

ہائے کتنا حسیں زمانا تھا

دیر پا شے حسیں نہیں ہوتی

دن تھے لمحات سے سبک رو تر

رخصت مہر کی خبر نہ ہوئی

باتوں باتوں میں کٹ گئی راتیں

نیند سحر اپنا آزما نہ سکی

نرم رو قافلے ستاروں کے

چاند جیسے تھکا تھکا راہی

دیکھتے دیکھتے گزر بھی گئے

دل میں اک بے خودی سی طاری تھی

خیر اب اپنی راہ پر جاؤ

آ گیا زندگی کا دورا ہا

حشر لاکھوں کا ہو چکا ہے یہی

عشق میں کون کامران رہا

تم مری ہو نہ میں تمہارا ہوں

اب تو رشتہ نہیں ہے کچھ اپنا

جب کبھی یاد آئے ماضی کی

ساتھ مجھ کو بھی یاد کر لینا

وصل کو جاوداں سمجھتے تھے

ہائے یہ سادگی محبت کی

کاش پہلے سے جانتے ہوتے

انتہا یہی محبت کی

٭٭٭

 

 

 

 

شکستِ ساز

 

 

مُدّتوں ان کو فقط ان کو سنانے کے لئے

گیت گائے دل آشفتہ نوانے اے دوست

پر انھیں گوش توجہ سے نوازا نہ گیا

نا شنیدہ ہی رہے اپنے فسانے اے دوست

عشق بیچارہ کو محروم نوا چھوڑ کے وہ

کھو گئے کونسی دنیاؤں میں جانے اے دوست

پھر کبھی فرصتِ اظہار تمنا نہ ہوئی

نا شنیدہ ہی رہے دل کے فسانے اے دوست

اب وہ لوٹے ہیں تو کہتے ہیں جگا سکتے ہیں

دل کو تجدید محبت کے بہانے اے دوست

ان سے کہہ دو کہ وہ تکلیف مروت نہ کریں

اب نہ پھوٹیں گے کبھی اس سے ترانے اے دوست

ان سے کہہ دو کہ بڑی دیر سے خاموش ہے ساز

٭٭٭

 

 

 

یہ کیا شکل بنائی

 

 

یہ کیا شکل بنائی دیوانے سو دائی

تجھ کو راس نہ آئی

رین اندھیری، دکھیاروں کو

پل پل کرتے بین کٹے

پورب میں جب تارا چمکے

تب جا کر یہ رین کٹے

 

پُورب میں اک اچپل گوری تیکھی مانگ نکالے

اجبنیوں کے من پر پہلے پریم کے ڈورے ڈالے

اجلا بانا روپ منوہر میٹھا نرم سبھاؤ

چپکے سے پھر کان میں کہہ دے ہم سے پیت نبھاؤ

٭٭٭

 

 

 

ساحل پر

 

 

اب تو نظروں سے چھپ چکا ہے جہا ز

اڑ رہا ہے افق کے پار دھواں

اب وہ آئیں نہ آئیں کیا معلوم

جانے والوں کا  اعتبار کہاں

وقت رخصت وہ رو دیے ہیں جب

میں نے مشکل سے اشک روکے تھے

مسکرا کر کہا تھا۔ ۔ غم نہ کرو

تم بہت جلد لوٹ آؤ گے

لیکن اب جبکہ رو رہا ہوں میں

آ کے ڈھارس مری بندھائے کون

وہ مجھے چھوڑ جائیں، نا ممکن

وہ چلے بھی گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بتائے کون ؟

٭٭٭

 

 

 

معبدِ ویراں

 

 

ٹوٹے کاس والے کھنڈر

اے دیوتاؤں کے مکاں

گھنٹی تری خاموش ہے

ناقوس ہے تیرا کہاں

تیرے پجاری ہیں کدھر

ہے کون تیرا پاسباں

یہ گنبد و محراب دور

ماضی کی شوکت کے نشاں

ویران ہیں کب سے پڑے

بتلا جو کچھ بتلا سکے

بتلا تو کیوں کر ہو گئے

ناراض تجھ سے دیوتا

چھوڑا ہے جو سب نے تجھے

کیا جُرم تجھ سے ہو گیا

بتلا اے گرد آلود بت

بتلا اے پتھر کے خدا

بتلا اے ختنہ شمع داں

بتلا اے شمع بے ضیاء

تم کس لے خاموش ہو

تم کس لے خاموش ہو

 

دن ڈھل گیا شام آ گئی

بستی میں اب جاؤں گا میں

تجھ پر چڑھانے کے لیے

جو کچھ ملا لاؤں گا میں

اے بت اے پتھر کے خدا

تو نا چنا، گاؤں گا میں

رسمیں جو مجھ سے ہو سکیں

تیری بجا لاؤں گا میں

برکت عنایت کر مجھے

آ۔ ۔ یاد کرتا ہوں تجھے

٭٭٭

 

 

 

 

کون چلائے مل کا پہیا

 

کون چلائے مل کا پہیا محنت والا ہیا  ہیا

کون کمائے ٹکا روپیہ محنت والا ہیا  ہیا

 

کون بچھائے یہ ہر پاول کون اگائے گیہوں چاول

گنا، سرسوں۔ توری، گھیا محنت والا ہیا ہیا

کون ہے یہ بنے لٹھا کھدر تہمد، کرتا، چولی، چدر

کون سبھی کو کرے مہیا محنت والا ہیا  ہیا

اب تک جو مظلوم رہا دکھ جس کا مقسوم رہا

آیا اس کا دور ہے بھیا محنت والا ہیا  ہیا

 

اپنی کھیتی آپ ہی مالک اپنی مل ہے آپ ہی چالک

اپنی کشتی آپ کھویا محنت والا ہیا  ہیا

ختم ہوئی بیکار غلامی آئی ہے سرکار عوامی

مرتی ہے خرکار کی میا محنت والا ہیا  ہیا

جاگے ہیں ہاری بیگاری مزدوروں کی آئی باری

بدلے گا اب سیٹھ رویہ محنت والا ہیا  ہیا

ہم بھی ان کا ہاتھ بٹائیں ہم بھی ان کے آڑے آئیں

انشا جی کی ہاں کرو تہیا محنت والا ہیا  ہیا

ہم بھی انہی کی محنت کھائیں آج سے ان کی مہما گائیں

انشا جی کی ہاں کرو تھیا محنت والا ہیا  ہیا

٭٭٭

 

 

 

 

محبت بنا کچھ درکار نہیں

 

وہ دوست جنہوں نے من میں میرے

میرے درد کا پودا بویا تھا

وہ دوست تو رخصت بھی ہو چکے

اور بار غم دل ساتھ مرا

اب چارہ گرد کچھ بولو نہیں

اب ان باتوں سے تمہیں حاصل کیا

میرے دوست تو شہد کے گھونٹ پیئے

تجھے تلخ مزے کا پتہ ہی نہیں

تیرے دوست تو ہوں گے جلو میں ترے

ترا دل تو مگر ہے غموں کا امیں

یہ جو اجنبی لوگ ہیں ان کی بتا

کبھی ان کو بھی یاد کرے گا کوئی

کبھی طنز سے پوچھیں گے ایل جہاں

تیرے دوست کا ہاتھ کہاں ہے بتا

مگر اہل وفا تو جھجھکتے نہیں

جہاں سر پہ چمکتی ہے تیغ حنا

بڑے ناز سے دیتے ہیں سر کو جھکا

نہیں مانگتے کچھ بھی اجل کے سوا

٭٭٭

 

 

 

 

ساحل دور سے تو پوں کی دھمک

 

ساحل دور سے تو پوں کی دھمک تو آتی ہے

کتنی گمبھیر ہے ساون کے نئے چاند کی رات

الکحل کرتی ہیں خوابیدہ رگوں سے چہلیں

سوجتی ہے دل و حشی کو بڑی دور کی بات

سینہ بحر پہ طوفان کو دبائے لے کر

رقص کرنے کو چلی آتی ہے بھوتوں کی برات

ساحل دور سے تو پوں کی دھمک آتی ہے

کون ہے کس نے سمندر میں سلامی داغی

جانے کس برج میں الجھی ہے خیالوں کی کمند

کوئی پشتے پر کھڑا چیخ رہا ہے دیکھو

کوئی کشتی تو نہیں دور کہیں ڈوب چلی

ساحل دور سے توپوں کی دھمک آتی ہے

ابر کے ساتھ تو دیکھا ہے گرجتا بادل

کیا گرا دی ہے کہیں موجۂ دریائے فصیل

کیا زمیں بوس ہوا کسی کسری کا محل

حلقۂ رقص میں ہیں باب جزیرے کے بلوچ

وہ جو اک غول نظر آتا ہے مشعل مشعل

درد سینے میں جگائی ہوئی دھیمی پروا

جانے کس دیس سے آئی کہاں جاتی ہے

بحر کاہل کے جزیروں کے افیمی باسی

قسمت مشرق اقصی کے خداوند بنے

ہائے یہ ذہن یہ باتوں سے بہلتا ہی نہیں

ہائے یہ درد کہ برسوں کا ملاقاتی ہے

صبح کاسرخ ستارہ ہوا پیکن سے طلوع

کوس بجتا ہے کہ بڑھے لگی دل کی دھڑکن

ساحل دور سے توپوں کی دھمک آتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سائے

 

بادل امڈیں بجلی کڑکے طوفاں بڑا ڈرائے

چنچل چندا دور دور سے دیکھے اور مسکائے

نیلم نیل آکاش پہ اپنا پیلا جال بچھائے

مگھم مگھم سندیسوں سے اپنے پاس بلائے

لیکن ہاتھ نہ آئے

اونگھ رہے ہیں چار کوٹ میں پھیلے پھیلے سائے

قدم قدم پہ ناگ کھڑے ہیں اپنے پھن پھیلائے

اونچی نیچی چٹیل راہیں، کومل جی گھبرائے

انشا کس کو پاس بیٹھا کے دل کی بات بتائے

کوئی نہ سننے آئے

نیلامی کے چوک میں انشا جھوٹے دانت لگائے

جھوٹے سکھوں کو چنکا کر اونچی ہانگ لگائے

آدھی رات تلک بیٹھا رہتا ہوں لیمپ جلائے

سوچ رہا ہوں اتنے دن میں کتنے پاپ کمائے

کس کو گنتی آئے

یاروں نے تو لال پھریرے دیس لہرائے

لاکھ کوس کی باٹیں کاٹیں تب جا کر ستائے

اب سندر سندر کویتاؤں سے کوئی نہ دھوکا کھائے

انشا جیسے ایک بار بھٹکے تو ہوئے پرائے

پھر واپس نہ آئے

٭٭٭

 

 

 

 

پانچ جولائی پھر نہیں آئی

 

پانچ جولائی پھر نہیں آئی

پانچ جولائی پھر بھی آنی تھی

چھ مہینے میں جو تمام ہوئی

کس قدر مختصر کہانی تھی

میری فرحانہ اے میری فینی

پیت کچھ روز تو نبھانی تھی

کون سی شے نہ تھی تمہارے پاس

حسن تھا، ناز تھا، جوانی تھی

موت دی تم نے زیست کے بدلے

کیا یہی عشق کی نشانی تھی

تم تو بیگانہ ہو گئیں ہم سے

اپنی حالت ہمیں سنانی تھی

تم نے کچھ اور جی میں سوچا تھا

ہم نے کچھ اور بھی ٹھانی تھی

شام تیسیوں نومبر کی

کتنی دلکش تھی کیاسہانی تھی

تیری گفتار میں تلاطم تھا

تیری رفتار میں جوانی تھی

تیرے غمزوں نے ہم کو جیت لیا

ہم نے کب کس ہار مانی تھی

اب فقط یاد کا خرابہ ہے

ورنہ اپنی بھی زندگانی تھی

اپنے لب کیوں بچا لیے تم نے

اپنے انشا کی جاں بچانی تھی

٭٭٭

 

 

 

8 January 1952

 

آج کچھ لوگ گھر نہیں آئے

کھو گئے ہیں کہاں تلاش کرو

دامن چاک کے ستاروں کو

کھا گیا آسماں تلاش کرو

ڈھونڈ کے لاؤ یوسفوں کے تیس

کارواں کارواں تلاش کرو

ناتواں زیست کے سہاروں کو

یہ جہاں وہ جہاں تلاش کرو

گیس آنسو رلا رہی ہے غضب

چار جانب پولس کا ڈیرا ہے

گولیوں کی زبان چلتی ہے

شہر میں موت کا بسیرا ہے

کون دیکھے تڑپنے والوں میں

کون تیرا ہے کون میرا ہے

آج پھر اپنے نونہالوں کو

صدر میں وحشیوں نے گھیرا ہے

حکم تھا ناروا گلہ نہ کرو

خون بہنے لگے جو راہوں میں

یعنی سرکار کو خفا نہ کرو

پی گئے بجلیاں نگاہوں میں

آج دیکھو نیاز مندوں کو

خون ناحق کے داد خواہوں میں

سرنگوں اور خموش صف بستہ

کتنے لاشے لیے ہیں باہوں میں

آستینوں کے داغ دھو لو گے

قاتلوں آسماں تو دیکھتا ہے

چین کی نیند جا کے سو لو گے

تم کو سارا جہاں تو دیکھتا ہے

قسمت خلق کے خداوند

تم سے خلقت حساب مانگتی ہے

روح فرعونیت کے فرزندو

بولو بولو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جواب مانگتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اے گمنام سپاہی

 

ایک گمنام سپاہی ہوں چلا جاتا ہوں

بات پوری بھی نہیں تم نے سنی یا اللہ

اے گمنام سپاہی

کس دھرتی کا بیٹا ہے تو

کس منزل کا راہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے گمنام سپاہی

فوجیں گزریں، لشکر گزرے

پیدل گزرے،ا ڑ کے کر گزرے

چھائی شب کی سیاہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے گمنام سپاہی

دیکھ چمن میں بیلا پھولا دیکھ پپیہے چہکے

کیوں گلچیں سے پینگ بڑھائے یہیں چمن میں رہ کے

تجھ پر یہ ہتھیار سجائے دشمن نے کیا کہہ کے

بستی بستی موت کا پہرا

چاروں کوٹ تباہی۔ ۔ ۔ ۔ اے گمنام سپاہی

دے ہر چیز گواہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

اِنشا جی ہاں تمہیں بھی دیکھا

 

انشا جی ہاں تمہیں بھی دیکھا درشن چھوٹے نام بہت

چوک میں چھوٹا مال سجا کر لے لیتے ہو دام بہت

یوں تو ہمارے درد میں گھائل صبح نہ ہو شام بہت

اک دن ساتھ ہمارا دو گے اس میں ہمیں کلام بہت

باتیں جن کی گرم بہت ہیں کام انہی کے خام بہت

کافی کے ہر گھونٹ پہ دوہا کہنے میں آرام بہت

 

دنیا کی اوقات کہی، کچھ اپنی بھی اوقات کہو

کب تک چاک دہن کوسی کر گوں گی بہری بات کہو

داغ جگر کو لالہ رنگیں اشکوں کو برسات کہو

سورج کو سورج نہ پکارو دن کو اندھی رات کہو

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ رنگ ہیں

 

 

کچھ لوگ کہ اودے، نیلے پیلے، کالے ہیں

دھرتی پہ دھنک کے رنگ بکھیرنے والے ہیں

کچھ رنگ چرا کے لائیں گے یہ بادل سے

کچھ چوڑیوں سے کچھ مہندی سے کچھ کاجل سے

کچھ رنگ بسنت کے رنگ ہیں رنگ پتنگوں کے

کچھ رنگ ہیں جو سردار ہیں سارے رنگوں میں

کچھ یورپ سے کچھ پچھم سے کچھ دکھن سے

کچھ اتر کے اس اونچے کوہ کے دامن سے

اک گہرا رنگ ہے اکھڑ مست جوانی کا

اک ہلکا رنگ ہے بچپن کی نادانی کا

کچھ رنگ ہیں جیسے پھول کھلے ہوں پھاگن کے

کچھ رنگ ہیں جیسے چھینٹے بھادوں ساون کے

اک رنگ ہے برکھا رت میں کھلتے سیئسو کا

اک رنگ ہے بر ہات میں ٹپکے آنسو کا

یہ رنگ ملاپ کے رنگ یہ رنگ جدائی کے

کچھ رنگ ہیں ان میں وحشت کے تنہائی کے

ان خون جگر کا رنگ ہے گلگوں پیارا بھی

اک دن رنگ ہمارا بھی ہے تمہارا بھی

٭٭٭

 

 

 

 

بستی بستی گھومنے والے

 

بستی بستی گھومنے والے پیتوں کے بنجارے

روپ نگر کی ابلا گوری آئے شہر تمہارے

کیا جانے کیا مانگیں چاہیں جنم جنم کے لو بھی

ہم سے پیت کرو گی گوری ہم سے پیت کرو گی

 

بال اندھیری رات کے بادل گال چٹکے گیسو

ہونٹ تمہارے نورس کلیاں نین تمہارے جادو

ان کی دھوپ اجالا من کا ان کی چھاؤں گھنیری

ہم سے پیت کرو گی گوری ہم سے پیت کرو گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

فردا

 

ہاری ہوئی روحوں میں

اک وہم سا ہوتا ہے

تم خود ہی بتا دو نا

سجدوں میں دھرا کیا ہے

امروز حقیقت ہے

فردا کی خدا جانے

کوثر کی نہ رہ دیکھو

تر ساؤں نہ پیمانے

داغوں سے نہ رونق دو

چاندی سی جبیوں کو

ا ٹھنے کا نہیں پردا

ہے بھی کہ نہیں فردا

٭٭٭

 

 

 

 

صبح کو آہیں بھر لیں گے ہم

 

صبح کو آہیں بھر لیں گے ہم

رات کو نالے کر لیں گے ہم

مست رہو تم حال میں اپنے

تم بن کیا ہم جی نہ سکیں گے

 

پھر بھی کہو تو خوش خوش جی لیں

سوچ سکو تو بگڑا کیا ہے

دیکھ سکو توا دیکھو نا

اب بہت کچھ ہو سکتا ہے

رات کوئی پہلو میں تھا میرے

صبح سے لیکن پہلے پہلے

اک ایک سے اب پوچھ رہا ہوں

تم تو نہیں تھے تم تو نہیں تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

انشا جی کیوں عاشق ہو کر

 

 

انشا جی کیوں عاشق ہو کر درد کے ہاتھوں شور کرو

دل کو اور دلاسا دے لو من کو میاں کٹھور کرو

آج ہمیں اس دل کی حکایت دور تلک لے جانی ہے

شاخ پہ گل ہے باغ میں بلبل جی میں مگر ویرانی ہے

عشق ہے روگ کہا تھا ہم نے آپ نے لیکن مانا بھی

عشق میں جی سے جاتے دیکھے انشا جیسے دانا بھی

ہم جس کے لیے ہر دیس پھرے جو گی کا بدل کر بھیس

بس دل کا بھرم رہ جائے گا یہ درد تو اچھا کیا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

طوفان

 

باد و باراں کا تند خو طوفاں

سائبانوں پہ دندناتا ہے

دور کش چیختے ہیں رہ رہ کر

ان میں یوں پیچ و تاب کھاتا ہے

رات تاریک ہے بھیانک ہے

کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے

بند کمرے میں امن ہے لیکن

تھر تھرانے لگی چراغ کی لو

دل میں بھی اک شمع روشن ہے

جس کی مدھم سی رائے گاں سی ہے ضو

اس کو انجام کا ہراس نہیں

کوئی طوفاں بھی آس پاس نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

خود میں ملا لے یا ہم سے آ مل

 

خود میں ملا لے یا ہم سےا مل

اے نور کامل اے نور کامل

روز ازل بھی رشتہ یہی تھا

تو ہم میں پنہاں ہم تجھ میں شامل

ہم سا رضا جو تم سا جفا جو

دیکھا نہ معمول پایا نہ عامل

دل کی زباں ہے اس کو تو سمجھ

ہم تم سے بولیں تلگو نہ تامل

اے بے وفا مل اے بے وفا مل

٭٭٭

 

 

 

 

ابیات

 

در سے تو ان کے ا ٹھ ہی چکا ہے کہہ دو جی سے بھلانے کو

لے گئے ہاتھوں ہاتھا ٹھا کر لوگ کہیں دیوانے کو

 

اے دل وحشی دشت میں ہم کو کیا کیا عیش میسر ہیں

کانٹے بھی چب جانے کو ہیں تلوے بھی سہلانے کو

 

ان سے یہ پوچھو کل کیوں ہم کو دشت کی راہ دکھائی تھی

شہر کا شہر امڈ آیا آج یہی سمجھانے کو

٭٭٭

 

 

 

 

ڈرتے ڈرتے آج کسی کو

 

ڈرتے ڈرتے آج کسی کو دل کا بھید بتایا ہے

اتنے دنوں کے بعد لبوں پر نام کسی کا آیا ہے

اب یہ داغ بھی سورج بن کر انبر انبر چمکے گا

جس کو ہم نے دامن دل میں اتنی عمر چھپایا ہے

کون کہے گا وہ کان ملاحت چارہ درد محبت ہے

چارہ گری کی آڑ میں جس نے خود کو روگ لگایا ہے

ٹوٹ گیا جب دل کا رشتہ اب کیوں ریزے چنتی ہو

ریزوں سے بھی کبھی کسی نے شیشہ پھر سے بنایا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

میں ہوں انشا، انشا، انشا،

 

کیوں جانی پہچانی گئی ہو

انشا جی کو جان گئی ہو

جس سے شام سویرے ا کر

فون کی گھنٹی پر بلوا کر

کیا کیا بات کیا کرتی تھیں

کیا کیا عہد لیا کرتی تھیں

دیکھو پیت نبھانا ہو گا

دیکھو چھوڑ نہ جانا ہو گا

پیت لگائی ریت نبھائی

ہم لوگوں کی ریت پرائی

میں ہوں انشا، انشا، انشا

٭٭٭

 

 

 

دُوری کے جو پردے ہیں

 

دوری کے جو پردے ہیں ٹک ان کو ہٹاؤ

آواز ہے مدماتی، صورت بھی دکھاؤ نا

راہوں میں بہت چہرے نظروں کو لبھاتے ہیں

بھر پور لگاوٹ کے جادو بھی جگاتے ہیں

ان اجنبی چہروں کو خوابوں میں بساؤ نا

ان دور کے شعلوں پر جی اپنا جلاؤ نا

ہاں چاندنی راتوں میں جب چاند ستاتا ہے

یادوں کے جھروکے میں اب بھی کوئی آتا ہے

وہ کون سجیلا ہے کچھ نام بتاؤ نا

اوروں سے چھپاتے ہو ہم سے تو چھپاؤ نا

٭٭٭

 

 

 

 

میرے گھر سے تو سر شام ہوئے رخصت

 

میرے گھر سے تو سر شام ہوئے ہو رخصت

میرے خلوت کدۂ دل سے نہ جانا ہو گا

ہجر میں اور تو سب موت کے ساماں ہوں گے

اک یہی یاد بہلنے کا بہانا ہو گا

تم تو جانے کو ہو اس شہر کو ویراں کر کے

اب کہاں اس دل و حشی کا ٹھکانا ہو گا

بھیگی راتوں میں فقط درد کے جگنو پکڑیں

سونی راتوں میں کبھی یاد کے تارے چو میں

خواب ہی خواب میں سینے سے لگائیں تجھ کو

تیرے گیسو ہی کبھی درد کے مارے چومیں

اپنے زانو پہ تراسر ہی کوئی دم رکھ لیں

اپنے ہونٹوں سے ترے ہونٹ بھی پیارے چومیں

٭٭٭

 

 

 

 

خواب ہی خواب تھا

 

خواب ہی خواب تھا تصویریں ہی تصویریں تھی

یہ ترا لطف ترے مہرو و محبت، لیکن

تیرے جانے سے یہ جینے کے بہانے بھی چلے

تجھ کو ہونا تھا کسی روز تو رخصت لیکن

اپنا جینا بھی کوئی دن ہے ہمیشہ کا نہیں

تو نے کچھ روز تو دی زیست کی لذت لیکن

پھر وہی دشت ہے دیوانگی دل بھی وہی

پھر وہی شام وہی پچھلے پہر کا رونا

اب تری دید نہ وہ دور کی باتیں ہوں گی

٭٭٭

 

 

 

 

ابھی تو محبوب کا تصور

 

ابھی تو محبوب کا تصور بھی پتلیوں سے مٹا نہیں تھا

گراز بستر کی سلوٹیں ہی میں آسماتی ہے نیند رانی

ابھی ہو اول گزرنے پایا نہیں ستاروں کے کارواں کا

ابھی میں اپنے سے کہہ رہا تھا شب گزشتہ کی اک کہانی

ابھی مرے دوست کے مکاں کے ہرے دریچوں کی چلمنوں سے

سحر کی دھندلی صباحتوں کا غبار چھن چھن کے آ رہا ہے

ابھی روانہ ہوئے ہیں منڈی سے قافلے اونٹ گاڑ یوں کے

فضا میں شور ان گھنٹیوں کا عجب جادو جگا رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایف اینڈ ایف

 

فینی ہوں کہ۔ ۔ ۔ فرہانہ

سب جان کی دشمن ہیں

سب پیت کی بیری ہیں

ایمان کی دشمن ہیں

گو نام تو دنیا میں

کر جاتے ہیں بیچارے

ہوں کیٹس کہ انشا جی

مر جاتے ہیں بیچارے

 

جیتے ہیں تو رہتے ہیں

افسر دہ و رنجیدہ

سب جان کی دشمن ہیں

فینی ہوں کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرہانہ

٭٭٭

 

 

 

 

یہ نین مرے

 

ان نینوں میں پیت بھری ہے ان کی انوکھی ریت

کھوٹے کا کبھی کھوٹ نہ دیکھیں دیکھیں پیت ہی پیت

کاگوں کو ابھی نوچ کھلاؤں پاؤں جو بگڑے طور

یہ نیناں کچھ اور جو دیکھیں پیت بنا کچھ اور

 

پیاروں کی جہاں سنگیت دیکھے جم کر رہے نگاہ

تم من کو مرے صحبت ان کی کعبے کی درگاہ

 

دن بھر دیکھیں سیر نہ ہو ویں پیت کو ان کی پیاس

پیت جو پائیں تب کہیں آئیں لوٹ کے میرے پاس

تیغیں پیت کے دن میں ہاریں نینوں کی وہاں جیت

کس کس کا دکھ درد اپنائیں ان کی انوکھی ریت

٭٭٭

 

 

 

 

سفر باقی ہے

 

دوستو دوستو آؤ کہ سفر باقی ہے

اپنے گھوڑوں کو بڑھاؤ کہ سفر باقی ہے

یہ پڑاؤ بھی اٹھاؤ کہ سفر باقی ہے

ہی الاؤ بھی بجھاؤ کہ سفر باقی ہے

ہار کے بیٹھ نہ جاؤ کہ سفر باقی ہے

پھر نئی جوت جگاؤ کہ سفر باقی ہے

رہبروں کو نہ بلاؤ کہ سفر باقی ہے

ان کے وعدوں پہ نہ جاؤ کہ سفر باقی ہے

٭٭٭

 

 

 

میں ازل سے تمہاری ہوں

 

میں ازل سے تمہاری ہوں پیارے

میں ابد تک تمہاری رہوں گی

مجھ کو چھوڑا ہے کس کے سہارے

کیسے جاؤ گے، جانے نہ دوں گی

آسماں پر ستارے کہاں ہیں

اور جو ہیں وہ ہمارے کہاں ہیں

زندگی تازگی کھو چکی ہے

بات ہونی تھی جو ہو چکی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سو جاؤ

 

 

سب بوجھو گے سب جانو گے سب سمجھو گے

کیا ہم نے سمجھ کر پایا جو تم اب سمجھو گے

بس نیند کی چادر اوڑھ کے غافل سوجاؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 

اے رودِ رائن

 

 

اے رودِ رائن اے رودِ رائن

ساحل بہ ساحل تیرے قرا ئن

شہر اور قصبے تیرے مدائن

صدیوں کی تاریخ باندھے ہے لائن

 

کہسار کہسار قلعوں کے مینار

وادی بہ وادی گرجوں کے مینار

گرما کہ سرما میلوں کی بھر مار

رقص اور نغمہ حسن طرح دار

٭٭٭

 

 

 

 

لوٹ چلے تم اپنے ڈیرے

 

لوٹ چلے تم اپنے ڈیرے ڈوب چلے ہیں تارے

پردیسی پردیسی میرے بنجارے بنجارے

یاروں دو نین ہمارے یا جنگل کا جھر نا

ہم سے پیت نہ کرنا پیارے ہم سے پیت نہ کرنا

٭٭٭

 

 

 

سانجھ سمے کی کومل کلیاں

 

سانجھ سمے کی کومل کلیاں مسکائیں مرجھائیں

نگری نگری گھومنے والی پھر واپس نہ آئیں

ہم بیلوں پر اوس کے موتی ہم پھولوں کی خوشبو

پی پی پڑا پپہیا بولے کویل کو کو، کو کو

٭٭٭

 

 

 

 

الوداع

 

ہونے والا ہوں جدا تیرے نواحات سے آج

اے کہ موجیں ہیں تری شاہ سمندر کا خراج

اب نہ آؤں گا کبھی سیر کو ساحل پہ ترے

الوداع اے جوئے سرداب ہمیشہ کے لیے

لاکھ ضو ریز ہوں خورشید ترے پانی پر

عکس افگن ہو اس آئینے میں سو بار قمر

پر نہ آؤں گاسیر کو ساحل پہ ترے

الوداع اے جوئے سرداب ہمیشہ کے لیے

پھر اراروٹ پہ کشتی کوئی آ کر ٹھہری

 

پھر اراروٹ پہ کشتی کوئی آ کر ٹھہری

کوئی طوفاں متلاطم سر جودی آیا

سینٹ برنارڈ کے کتوں نے جو نہ خوشبو پائی

برف نے لا شئر آدم بہ زمیں دفنایا

سینگ بدلے ہیں زمیں گاؤ نے حیراں ہو کر

یا مہا دیو غضبناک ہوا چلا یا

بطن اٹناسے ابلتے ہوئے لاوے کا خروش

صرصر موت نے ہر چار جہت پہنچا یا

پمپیائی کے جھروکے ہوئے یکسر مسدور

آل قابیل نے دنیا کا قبالہ پایا

٭٭٭

 

 

 

 

دید کا تمنائی

 

تیری باتوں میں زندگی کا رس

تیری آواز میں ہے رعنائی

فون پر بولتی ہوئی محبوب

تو ابھی سامنے نہیں آئی

دل تجھے دیکھنے کو کہتا ہے

دل تری دید کا تمنائی

اک طرف عاشقی سے ہم مجبور

اک طرف ہم کو خوف رسوائی

صبر کا حوصلہ نہیں باقی

سن بیکار، جان زیبائی

ہم نے ما نا، تو خوبصورت ہے

دیکھ ہم کو تری ضرورت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سندیس

 

ساگر کے ساحل سے لائی سرد ہوا کیساسندیس

درد کی دھوپ میں جھلسنے شاعر گھوم نہیں اب دیس بدیس

عشق کا درد، جنوں، وحشت، بیتے جگ کی باتیں ہیں

اب تو چاند سر بام آیا اب سکھ کی راتیں ہیں

یاد کبھی اس پونم کی تجھے اور نہیں تڑ پائے گی

آپ ہی آپ وہ دل کی رانی پہلو میں آ جائے گی

درد کی راہ دکھانے والا آپ دوا بن جائے گا

پھول سے نازک ہونٹوں سے امرت رس پلوائے گا

ہاں اب دیکھ حجاب اٹھائے ہاں اب کس سے چوہدری ہے

پونم ہے تو کس کی پونم، گوری کس کی گوری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پایان فارم

 

ہم لوگ تو ظلمت میں جینے کے بھی عادی ہیں

اس درد نے کیوں دل میں شمعیں سی جلا دی ہیں

اک یاد پہ آہوں کا طوفاں امڈتا ہوا آتا ہے

اک ذکر پہ اب دل کو تھا ما نہیں جا تا ہے

اک نام پہ آنکھوں میں آنسو چلے آتے ہیں

جی ہم کو جلاتا ہے ہم جی کو جلاتے ہیں

ہم لوگ تو مدت سے آوارہ و حیراں تھے

اس شخص کے گیسو کب اس طور پریشاں تھے

یہ شخص مگر اے دل پردیس سدھارے گا

یہ درد ہمیں جانے کس گھاٹ اتارے گا

عشق کا چکر ہے انشا کے ستاروں کو

ہاں جا کے مبارک دو پھر نجد میں یاروں کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

جس کی محنت اس کا حاصل

 

سکھ کے سپنے دیکھتے جاگے

جگ جگ کے دکھیارے سائیں

 

کھلتا ہے محنت کا پرچم

سنتے ہو جیکارے سائیں

 

دھرتی کانپنے انبر کانپے

کانپیں چاند ستارے سائیں

 

لوہے کو پگھلانے والے

آپ بھی ہیں انگیارے سائیں

 

گولی لاٹھی، پیہ، ساسن

ان کے آگے ہا رے سائیں

 

کل تک تھے یہ سب بیچارے پر

آج نہیں بیچارے سائیں

 

تو نے تو یہ بات سمجھ لی

اوروں کو سمجھا رے سائیں !

 

ان کی محنت ہم نے لوٹی

ہم سب ہیں ہنڈارے سائیں

 

ان کی قسمت کٹیا کھولی

ہم نے محل اسارے سائیں

 

ان کا حصہ آدھی روٹی

اپنے پیٹ اپھارے سائیں

 

ان کے گھر اندھیارا ٹوٹا

سورج چاند ہمارے سائیں

 

اندھیاروں کا جاد و ٹوٹے

اب وہ جوت جگارے سائیں

 

ان سے جگ نے جو کچھ لوٹا

آج انہیں لوٹا رے سائیں

 

تو بھی دیکھے میں بھی دیکھوں

محنت کے نظارے سائیں

 

آج بھی کتنی خالی دھرتی

کتنے کھیت کنوارے سائیں

—– ٭—–

 

یہ دھرتی کا پوٹا چیریں

کوئلہ۔ لوہا بھر بھر لائیں

 

خون پسینے فرق نہ سمجھیں

بھاری بھر کم ملیں چلائیں

 

چونا پتھر مٹی گارا

یہی سنبھالیں یہی اٹھائیں

 

پھر بھی ہے دل میں یہی دبدھا

کل کیا پہنیں کل کیا کھائیں

 

پیٹ پہ پتھر باندھ کے سوئیں

فٹ پاتھوں پر عمر بتائیں

—– ٭ —–

 

اندھیاروں کاسینہ چیرے

اب وہ جوت جگانا ہو گا

 

ان سے جگ نے جو کچھ لوٹا

آج انہیں لوٹا نا ہو گا

 

جس کی محنت اس کا حاصل

اب ہی بھید بتا نا ہو گا

 

اب تو اور ہی شام سویرا

اب تو اور زمانہ ہو گا

 

اب ان کو سمجھا نا کیسا

اپنے کو سمجھا نا ہو گا

 

پہلے تھے ارشاد ہمارے

اب ان کافر ما نا ہو گا

 

ان کے بھاگ جگا کر سائیں

اپنا بھاگ جگا نا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

ایک آسیب زدہ شام

 

 

کل شام کی پیلی روشنی جب ڈوب رہی تھی

گھر پہنچا میں سوچ میں ڈوبا، گھبرا یا

دور کہیں بنسری کی تانا ڑا کے

ایک پرانے دوست نے جنگل میں بلایا

ویرانی ہے تنہائی ہے خاموشی ہے

ٹھیر ذرا اے دوست میں آیا ابھی آیا

دور کہیں اک بنسری کی تان البیلی

گونج رہی تھی اور میں دبکا دبکا یا

آنگن کی ویران فضا میں گھوم رہا تھا

ایک ایک کمرے میں جھانکا، دیا جلایا

کھڑکی کے پٹ کھول کے تاروں کو دیکھا

بھیگی بھیگی نرم ہوا کا جھونکا آیا

کون ہوا کس دیس کا یہ چھیل چھبیلا

پیت کے ہاتھوں باؤلا قسمت کاستا یا

روپ نگر کی شہزادی کی کھوج میں حیراں

وقت کی تپتی دھوپ میں جھلساسنو لایا

دیس دیس کے راکشوں سے لڑتا بھڑتا

آج ہمارے شہر کی جانب نکل آیا

کس ظالم نے شام کے اس شانت سمے میں

مہجوری کے درد کو، سوتے سے جگا یا

گونج رہی ہے بنسری کی تان البیلی

درد برہ کا ہو گیا کچھ اور رسوایا

کھڑکی کے پٹ بھیڑ دوں اور دیا جلالوں

چاروں کوٹوں پھیل چکی ہے رات کی چھایا

 

دور دیس کے باولے او چھیل چھبیلے

ہم نے کیا اس پیت میں کھویا، کیا پا یا

صحراؤں میں راہ راہ کی مٹی چھانی

دریاؤں کا موڑ موڑ پر ساتھ نبھایا

بادل بن کر انبر انبر گھومے لیکن

کب پہنچا ہے چاند تک دھرتی کا جایا

روپ نگر کی شہزادی کی کھوج میں حیراں

دیکھ چکے جو پیت ہم کو دکھلایا

راج کیا کبھی دوار دوار پر بھکشا مانگی

تحفے میں کبھی پھول ملے کبھی پاتھر کھایا

لیکن اب تو بھیگے دامن سوکھ چکے ہیں

ٹھہر ذرا اے دوست میں آیا ابھی آیا

روندے رہے ہیں اوس کو دھلتے دھلتے پاؤں

ہر پتی نے دیکھ کے ہم کو سیس نوایا

وادی گھیری گاؤں کے چولھوں کے دھوئیں نے

دور دور سے سرمئی بادل گھر آیا

پچھم میں سونے کی نوکا ڈوب چلی ہے

کانٹے تو نے چبھ کر ناحق پاپ کمایا

سونک رہا ہے بوڑھا پیپل سائیں سائیں

دیکھو چوتھی رات کا چندا ابھر آیا

لیکن اب وہ بنسری کی تان کہاں ہے

تو نے پھر کیوں رانجھڑے یاں ہمیں بلایا

دھندلے سائے دھندلی راہیں میٹ رہی ہیں

میں تو بستر چھوڑ کے آ کے پچھتا یا

شاخ شاخ پر شور مچاتے پنچھی دبکے

دیکھو دیکھو جھیل میں کیسا طوفاں آیا

چٹے چٹے سارس بیٹھے ایک کنارے

ڈھونڈ رہے ہیں چندا کی لہراتی چھایا

بنسی کی آواز فضا میں ڈوب رہی ہے

کوئی چھلاوا تھا کہ ہمیں نے دھوکا کھایا

نیلا انبر پیلے چاند کا جھومر باندھے

دیکھو اب اس پیڑ کے اوپر اتر آیا

پھندے ڈالے گاؤں کے چولھوں کے دھوئیں نے

دور کہیں اک جانور، بن کر ڈکرایا

کوئی بگولا کفنی ڈالے ناچ رہا ہے

کوئی ستارہ ٹوٹ کر وہ گرا۔ ۔ خدایا

بیتی گھڑیاں بھولی یادیں، مٹتے سپنے

سب بیری ہیں سب نے مل کر جال بچھایا

اوس گری تو بنسی کے شعلے مرجھائے

چار کوٹ سے اندھیارے کا طوفاں آیا

روح میں گھس کر بیٹھ گئے مٹیالے سائے

دیکھا اپنی سوچ نے کیا کیاسونگ رچایا

 

بنسی کی آواز فضا میں گونج رہی ہے

گھر پہنچا ہوں سوچ میں ڈوبا گھبرایا

دوس دیس کے باؤلے او چھل چھبیلے

تجھ پر بھی کیا کسی آسیب کاسایا

کھڑکی کے پٹ بھیڑ لوں اور دیا بجھا دوں

ٹھہر ذرا اے دوست میں آیا ابھی آیا

٭٭٭

 

 

 

 

کیسا بلنکا

 

پھر گولیاں چل چل اوب گئیں۔ ۔ ۔ اے کیسا بلنکا

تری سڑکیں خون میں ڈوب گئیں۔ ۔ ۔ اے کیسا بلنکا

مقتل ہے کہ کھاٹی اطلس کی۔ ۔ اے کیسا بلنکا

گل رنگ ہے ماٹی اطلس کی۔ ۔ ۔ ۔ اے کیسا بلنکا

بڑھے لشکر لشکر ہتیارے۔ ۔ ۔ ۔ اے کیسا بلنکا

لیے توپیں ٹینک اور طیارے۔ ۔ ۔ اے کیسا بلنکا

پر تیری دلاور آبادی۔ ۔ ۔ ۔ اے کیسا بلنکا

ہر لب پہ ہے نعرہ آزادی۔ ۔ ۔ اے کیسا بلنکا

کھل جائیں ان کے پیچ سبھی۔ ۔ ۔ اے کیسا بلنکا

ہیں فور و فرانکو ہیچ سبھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے کیسا بلنکا

دو روز کی ان کو مہلت ہے اے کیسا بلنکا

پھر کوچ نکارا باجت ہے۔ ۔ ۔ ۔ اے کیسا بلنکا

لا ہاتھ میں دیں ہم ہاتھ ترے۔ ۔ ۔ اے کیسا بلنکا

ہم لوگ کروڑوں ساتھ ترے۔ ۔ ۔ اے کیسا بلنکا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کنارِ بحر کی ایک رات

 

کسی سے دور جا پڑے کسی کے پاس ہو گئے

کنار کیپسین پہ ہم بہت اداس ہو گئے

ادھر کنار بحر تھا ادھر بلند گھاٹیاں

جنوں کی وحشتیں ہمیں لے پھر ہیں کہاں کہاں

وہ رات ایک خواب تھی مگر عجیب خواب تھی

کتاب زندگی کا ایک لا جواب باب تھی

ادھر ادھر کی گفتگو زمانے بھر کی گفتگو

رہ دراز عشق کے کٹھن سفر کی گفتگو

دلوں کی آرزو زباں تک آن پلٹ گئی

اسی میں رات کٹ گئی اسی میں بات کٹ گئی

انھیں تو ہم نے پا لیا یہ اپنا آپ کھو گئے

کنار کیپسین پہ ہم بہت اداس ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

قطعہ

 

ہنستا کھیلتا جھومر تو بس اس کے منہ پر کھلتا ہے

بیشک لوگ تجھے بھی چاہیں بیشک تو بھی تمام ہے چاند

آج جو اک لڑکی کو ہم نے چوما چوم کر چھوڑ دیا

قابو میں اوسان نہیں اس لڑکی کا نام ہے چاند

٭٭٭

 

قطعہ

 

وہ نیناں بھی وہ جادو بھی

وہ گیسو بھی وہ خوشبو بھی

یہ دل تو سبھی کچھ جانتا ہے

پر دوست کا ہے فرمانا کیا

٭٭٭

 

 

قطعہ

 

پردہ ہے جو دوری کا ٹک اس کوا ٹھاسونا

درشن کے جھروکے کا یہ دیپ جلا دونا

دل درد کا مارا ہے کتنا دکھیارا ہے

بس آس کے دامن سے چمٹا بیچارا ہے

ان اجنبی راہوں کی تقدیر جگا دو نا

٭٭٭

 

 

قطعہ

 

تم کو معلوم سہی مجھ کو تو معلوم نہیں

درد جب لطف کی منزل سے گزر جاتا ہے

نہ دلاسوں سے بہلتا ہے تڑپتا ہوا دل

نہ نگاہوں کو کسی طور قرار آتا ہے

٭٭٭

 

قطعہ

 

جو راہ تم نے سمجھائی تھی درمیاں ہے ابھی

ستارو ڈوب چلے ہو سحر کہاں ہے ابھی

وہی امیں ہے وہی اپنا آسماں ہے ابھی

وہی جہاں ہے وہی وسمت جہاں ہے ابھی

٭٭٭

 

 

 

 

اس آباد خرابے میں

 

لو وہ چاہِ شب سے نکلا، پچھلے پہر پیلا مہتاب

:ذہن نے کھولی، رُکتے رُکتے، ماضی کی پارینہ کتاب

یادوں کے بے معنی دفتر، خوابوں کے افسردہ شہاب

سب کے سب خاموش زباں سے، کہتے ہیں اے خانہ خراب

گُزری بات، صدی یا پل ہو، گُزری بات ہے نقش بر آب

یہ رُوداد ہے اپنے سفر کی، اس آباد خرابے میں

دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

 

شہرِ تمنّا کے مرکز میں، لگا ہُوا ہے میلا سا

کھیل کھلونوں کا ہر سو ہے، اک رنگیں گُلزار کھلا

وہ اک بالک، جس کو گھر سے، اک درہم بھی نہیں ملا

میلے کی سج دھج میں کھو کر، باپ کی اُنگلی چھوڑ گیا

ہوش آیا تو، خُود کو تنہا پا کے بہت حیران ہوا

بھیڑ میں راہ ملی نہی گھر کی، اس آباد خرابے میں

دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

 

وہ بالک ہے آج بھی حیراں، میلا جیوں کا تُوں ہے لگا

حیراں ہے، بازار میں چُپ چُپ، کیا کیا بِکتا ہے سودا

کہیں شرافت، کہیں نجات، کہیں مُحبّت، کہیں وفا

آل اولاد کہیں بِکتی ہے، کہیں بُزرگ، اور کہیں خُدا

ہم نے اس احمق کو آخر، اِسی تَذبذُب میں چھوڑا

اور نکالی، راہ مَفر کی، اس آباد خرابے میں

دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

 

رہ نوردِ شوق کو، راہ میں، کیسے کیسے یار مِلے

ابرِ بہاراں، عکسِ نگاراں، خالِ رُخِ دلدار مِلے

کچھ بالکل مٹّی کے مادھُو، کچھ خنجر کی دھار مِلے

کچھ منجدھار میں، کچھ ساحل پر، کچھ دریا کے پار مِلے

ہم سب سے ہر حال میں لیکن، یُونہی ہاتھ پسار مِلے

اُن کی ہر خُوبی پہ نظر کی، اس آباد خرابے میں

دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

 

ساری ہے بے ربط کہانی، دھُندلے دھُندلے ہیں اوراق

کہاں ہیں وہ سب، جن سے جب تھی، پل بھر کی دُوری بھی شاق

کہیں کوئ ناسُور نہیں، گو حائل ہے، برسوں کا فراق

کِرم فراموشی نے دیکھو، چاٹ لئے کتنے میثاق

وہ بھی ہم کو رو بیٹھے ہیں، چلو ہُوا قِصّہ بے باق

کھُلی، تو آخر بات اثر کی، اس آباد خرابے میں

دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

 

خوار ہُوئے دمڑی کے پیچھے، اور کبھی جھولی بھر مال

ایسے چھوڑ کے اُٹّھے، جیسے چھُوا، تو کر دے کا کنگال

سیانے بن کر بات بِگاڑی، ٹھیک پڑی سادہ سی چال

چھانا دشتِ محبّت کتنا، آبلہ پا، مجنوں کی مثال

کبھی سکندر، کبھی قلندر، کبھی بگُولا، کبھی خیال

سوانگ رچائے، اور گُزر کی، اس آباد خرابے میں

دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

 

زیست، خُدا جانے ہے کیا شے، بھُوک، تجسّس، اشک، فرار

پھول سے بچّے، زُہرہ جبینیں، مرد، مجسّم باغ و بہار

مُرجھا جاتے ہیں کیوں اکثر، کون ہے وہ جس نے بیمار

:کیا ہے رُوحِ ارض کو آخر، اور یہ زہریلے افکار

کس مٹّی سے اُگتے ہیں سب، جینا کیوں ہے اک بیگار

ان باتوں سے قطع نظر کی، اس آباد خرابے میں

دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

 

دُور کہیں وہ کوئل کُوکی، رات کے سنّاٹے میں، دُور

کچّی زمیں پر بِکھرا ہو گا، مہکا مہکا آم کا بُور

بارِ مُشقّت کم کرنے کو، کھلیانوں میں کام سے چُور

کم سِن لڑکے گاتے ہوں گے، لو دیکھو وہ صبح کا نُور

چاہِ شب سے پھُوٹ کے نکلا، میں مغموم، کبھی مسُرور

سوچ رہا ہوں، اِدھر اُدھر کی، اس آباد خرابے میں

دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں

٭٭٭

 

 

 

 

فرض کرو

 

فرض کرو ہم اہل وفا ہوں فرض کرو دیوانے ہوں

فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں

 

فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو

فرض کرو ابھی اور ہو اتنی آدھی ہم نے چھپائی ہو

 

فرض کرو تمھیں خوش کرنے کے ڈھونڈھے ہم نے بہانے ہوں

فرض کرو یہ نین تمھارے سچ مچ کے میخانے ہوں

 

فرض کرو یہ روگ ہو جھوٹا، جھوٹی پیت ہماری ہو

فرض کرو اس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پہ بھاری ہو

 

فرض کرو یہ جوگ بجوگ ہم نے ڈھونگ رچایا ہو

فرض کرو بس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

شہرِ دل کی گلیوں میں

 

 

شہرِ دل کی گلیوں میں

شام سے بھٹکتے ہیں

 

چاند کے تمنائی!

 

بے قرار سودائی

دل گداز تاریکی

 

روح جاں کو ڈستی یے

روح و جاں میں بستی ہے

شہرِ دل کی گلیوں میں

 

تاک شب کی بیلوں پر

شبنمیں سر شکوں کی

بے قرار لوگوں نے

بے شمار لوگوں نے

یاد گار چھوڑی ہے

اتنی بات تھوڑی یے

 

صد ہزار باتیں تھیں

حیلۂ شکیبائی

صورتوں کی زیبائی

قامتوں کی رعنائی

ان سیاہ راتوں میں

ایک بھی نہ یاد آئی

جا بجا بھٹکتے ہیں

کس کی راہ تکتے ہیں

 

چاند کے تمنائی

ہی نگر کبھی پہلے

اس قدر نہ ویراں تھا

کہنے والے کہتے ہیں

قریہ نگاراں تھا

خیر اپنے جینے کا

ہی بھی ایک ساماں تھا

 

آج دل میں ویرانی

ابر بن کے گھر آئی

آج دل کو کیا کہیے

با وفا نہ ہرجائی

پھر بھی لوگ دیوانے

آ گئے ہیں سمجھانے

 

اپنی وحشت دل کے

بن لیے ہیں افسانے

خوش خیال دنیا نے

گرمیاں تو جاتی ہیں

وہ رتیں بھی آتیں ہیں

جب ملول راتوں میں

دوستوں کی باتوں میں

جی نہ چین پائے گا

اور اوب جائے گا

آہٹوں سے گونجے گی

شہرِ دل کی پہنائی

اور چاند راتوں میں

چاندنی کے شیدائی

ہر بہانے نکلیں گے

آزمانے نکلیں گے

آرزو کی گھرائی

ڈھونڈنے کو رسوائی

سرد سرد راتوں کو

زرد چاند بخشے گا

بے حساب تنہائی

بے حجاب تنہائی

شہرِ دل کی گلیوں میں !

٭٭٭

 

 

 

 

 

غزلیں

 

 

 

لب پر کسی کا بھی ہو، دل میں تیرا نقشا ہے

اے تصویر بنانے والی، جب سے تجھ کو دیکھا ہے

 

بے ترے کیا وحشت ہم کو، تجھ بن کیسا صبر و سکوں

تو ہی اپنا شہر ہے جانی تو ہی اپنا صحرا ہے

 

نیلے پربت، اودی دھرتی، چاروں کوٹ میں تو ہی تو

تجھ سے اپنے جی خلوت، تجھ سے من کا میلا ہے

 

آج تو ہم بکنے کو آئے، آج ہمارے دام لگا

یوسف تو بازار وفا میں ایک ٹکے کو بکتا ہے

 

لے جانی اب اپنے من کے پیراہن کی گرہیں کھول

لے جانی اب آدھی شب ہے چار طرف سناٹا ہے

 

طوفانوں کی بات نہیں ہے، طوفاں آتے جاتے ہیں

تو اک نرم ہوا کا جھونکا، دل کے باغ میں ٹھہرا ہے

 

یا تو آج ہمیں اپنا لے یا تو آج ہمارا بن

دیکھ کہ وقت گزرتا جائے، کون ابد تک جیتا ہے

 

فردا محض فسوں کا پردا، ہم تو آج کے بندے ہیں

ہجر و وصل وفا اور دھوکا سب کچھ آج پہ رکھتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

فقیر بن کر تم ان کے در پر ہزار دھونی رما کے بیٹھو

جبیں کے لکھے کو کیا کرو گے جبیں کا لکھا مٹا کے بیٹھو

 

اے ان کی محفل میں آنے والو اے سو دو سو دام بتانے والو

جو ان کی محفل میں آ کے بیٹھو تو ساری دنیا بھلا کے بیٹھو

 

بہت جتاتے ہو چاہ ہم سے مگر کرد گے نباہ ہم سے

ذرا ملاؤ نگاہ ہم سے، ہمارے پہلو میں آ کے بیٹھو

 

جنوں پرانا ہے عاشقوں کا جو یہ بہانہ ہے عاشقوں کا

تو اک ٹھکانا ہے عاشقوں کا حضور جنگل میں جا کے بیٹھو

 

ہمیں دکھاؤ زرد چہرا، لے یہ وحشت کی گرد چہرا

رہے گا تصویر درد چہرا جو روگ ایسے لگا کے بیٹھو

 

جناب انشا یہ عاشقی ہے جناب انشا یہ زندگی ہے

جناب انشا جو ہے یہی ہے نہ اس سے دامن چھڑا کے بیٹھو

٭٭٭

 

 

 

 

رہ صحرا چلا ہے اے دل اے دل

دوانا ہو گیا ہے اے دل اے دل

 

سمیٹیں کارو بار عشق خوباں

بہت نقصاں ہوا ہے اے دل اے دل

 

چلیں اب کوئی تازہ غم خریدیں

کہ ہر غم کی دوا ہے اے دل اے دل

 

کریں کیا آرزو حسن جا ناں

زمانہ کونسا ہے اے دل اے دل

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے

اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے

 

ہم اہل محبت کی وحشت کا وہ درماں ہے

ہم اہل محبت کو آزاد جوانی ہے

 

ہاں چاند کے داغوں کو سینے میں بساتے ہیں

دنیا کہے دیوانا۔ ۔ ۔ دنیا دیوانی ہے

 

اک بات مگر ہم بھی پوچھیں جو اجازت

کیوں تم نے یہ غم یہ کر پردیس کی ٹھانی ہے

 

سکھ لے کر چلے جانا، دکھ دے کر چلے جا نا

کیوں حسن کے ماتوں کی یہ ریت پرانی ہے

 

ہدیہ دل مفلس کا چھ شعر غزل کے ہیں

قیمت میں تو ہلکے ہیں انشا کی نشانی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کوئی اور دم بیٹھے ہیں یہ فرصت پھر کہاں لوگو

چلے آؤ جو سننی ہو ہماری داستاں لوگو

 

بہت مدت ہوئی آدھی کی نوبت کو بجے لیکن

ابھی کچھ دھندلے دھندلے ہیں سویرے کے نشاں لوگو

 

یہ راہی کون ہیں آخر کدھر کو جانے والے ہیں

کہاں ہے کارواں لوگو، کہاں ہے کارواں لوگو

٭٭٭

 

ایک اک گاؤں میں ویرانی سی ویرانی ہے

پنشنیں ملتی ہیں تمغوں کی فراوانی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

قرب میسر ہو تو یہ پوچھیں درد ہو تم یا درماں ہو

دل میں تو آن بسے ہو لیکن مالک ہو یا مہماں ہو

 

دوری، آگ سے دوری بہتر قربت کا انجام ہے راکھ

آگ کا کام فروزاں ہونا راکھ ضرور پریشاں ہو

 

سودا عشق کا سودا ہم جان کے جی کو لگایا ہے

عشق یہ صبر و سکوں کا دشمن پیدا ہو یا پنہاں ہو

 

عشق وہ آگ کہ جس میں تپ کر سونا کندن بنتا ہے

آگ میں تجھ کو کچھ نہیں ہو تو اس آگ میں بریاں ہو

 

شہر کے دشت کہو بھئی سادھو ہاں بھئی سادھو شہر دشت

ہم بھی چاک گریباں ٹھہرے تم بھی چاک گریباں ہو

٭٭٭

 

 

 

 

سو سو تہمت ہم پہ تراشی کوچہ رقیبوں نے

خطبے میں لیکن نام ہمیں لوگوں کا پڑھا خطیبوں نے

 

شب کی بساط ناز لپیٹو، شمع کے سرد آنسو پونچھو

نقارے پر چوب لگا دی صبح کے نئے نقیبوں نے

 

کس کو خبر ہے رات کے تارے کب نکلے کب ڈوب گئے

شام و سحر کا پیچھا چھوڑا آپ کے درد نصیبوں نے

 

امن کی مالا جپنے والے جیالے تو خاموش رہے

فتح مبین کے جھنڈے گاڑے شہر بہ شہر صلیبوں نے

 

انشا جی اب آئے جو ہو دو بیت کہوا ور اٹھ جاؤ

تمہی کہو تمہیں شاعر ما نا کب سے بڑے ادیبوں نے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

حال دل جس نے سنا گر یہ کیا

ہم نہ روئے ہاں ترا کہنا کیا

 

یہ تو اک بے مہر کا مذکورہ ہے

تم نے جب وعدہ کیا ایفا کیا

 

پھر کسی جان وفا کی یاد نے

اشک بے مقدور کو دریا کیا

 

تال دو نینوں کے جل تھل ہو گئے

ابر رسا اک رات بھر برسا کیا

 

دل زخموں کی ہری کھیتی ہوئی

کام ساون کا کیا اچھا کیا

 

آپ کے الطاف کا چرچہ کیا

ہاں دل بے صبر نے رسوا کیا

 

 

بات جب ہم نے کہی تھی تو زمانے انشا

اب سوئے دشت چلے خاک اڑانے انشا

٭٭٭

 

 

 

 

 

قیس پہ ہم کو خیال کیا ہے میاں انشا سمجھا

ہم نہیں عشق و جنوں کے قابل آنے ہم کو کیا سمجھا

 

پھر اس کوچے میں جا پہنچے ہار گئے سمجھا سمجھا

ہم دل کو اپنا سمجھے تھے دل نے ہمیں اپنا سمجھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

چاند سے چہرے والے لوگ

 

 

کتنی حسیں مکھڑے کی پھبن تھی

کتنی مدھر آواز کسی کی

رات کی نیند اڑا دیتے ہیں

چاند سے چہرے والے لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

متفرق

 

آنکھ ملے آنسو بھر آئیں

ہم یہ تاب کہاں سے لائیں

 

ہم راہ تمہاری تکتے تکتے اوب گئے

پورب میں سپیدی پھیلی، تارے ڈوب گئے

 

اب تو پڑے گی تجھ سے نبھانی

سپنوں کی رانی، اے سپنوں کی رانی

 

 

دودھیا فرش پہ مکھن سے تھر کتے پاؤں

بحر کاہل کے سوا حل کے افیمی باسی

قسمت مشرق اقصی کے خداوند بنے

صبح کا سرخ ستارہ ہوا پیکن سے طلوع

وٹیکن کا تو ہے فتووں کی تجارت پہ مدار

کیا ہوئے وہ تری بھٹکی ہوئی بھیڑوں کے شبان

 

 

چھیڑ دیں تو نے بھی اے دل یہ کہاں کی باتیں

مہ رخاں، سروقداں، گلبدناں کی باتیں

دشت مہجوری میں آ ہو نگہاں کی باتیں

 

نیل گگن پر اودا بادل اڑتے اڑتے بولا

انشا جی تم دھارن کر لو لاکھ فقیری چولا

شہروں میں درویش کہا لو چیلوں کو پر حاپو

٭٭٭

 

 

 

 

 

اشرف ریاض کے عید کارڈ کے جواب میں

 

 

یہ جورو جوش تھے کہاں پہلے عشق میں

تم نے جفا ریاض سے رسم وفا چلی

ان کے دماغ میں جو چلی بھی تو کیا چلی

کہنے لگے ریاض سے رسم و فا چلی

ہم پر گمان جور، بنے آپ جو رکش

لب پر ہمارے موج تبسم سی آ چلی

یہ التفات بھی ہے غنیمت کہ آج کل

ہے بزم دوستاں کی روایت چلا چلی

انشا چلے، ریاض چلے، یوسفی چلے

خلقت تمام جانب کوہ ندا چلی

کس طور کون کون سے پتے کو تھامیے

باغ وفا میں تو ہے خزاں کی ہوا چلی

٭٭٭

 

 

 

 

اے دور نگر کے بنجارے

 

نوحہ(سدا ہنس مکھ محمد اختر کا جو ایک طوفانی صبح منہ لپیٹ کر رخصت ہو گیا )

 

اے دور نگر کے بنجارے کیوں آج سفر کی ٹھانی ہے

یہ بارش، کیچڑ، سرد ہوا اور راہ کٹھن انجانی ہے

آ محفل چپ چپ بیٹھی ہے آ محفل کا جی شاد کریں

وہ لوگ کہ تیرے عاشق ہیں کے روزسے تجھ کو یاد کریں

وہ ٹھور ٹھکانے ڈھونڈ چکے، وہ منزل منزل چھو آئے

اب آس لگائے بیٹھے ہیں کب دستک ہو کب تو آئے

اے دور نگر کے بنجارے گر چھوڑ کے ایسا جا نا تھا

کیوں چاہ کی راہ دکھانی تھی کیوں پیار کا ہاتھ بڑھانا تھا

ہے دنیا کے ہنگاموں میں رنگینی بھی رعنائی بھی

ہر چیز یہاں کی پیاری ہے محرومی بھی رسوائی بھی

سب لوگ یہاں پر قسمت کے بے طور تھپیڑے سنتے ہیں

پر جیتے ہیں اور جینے کی آس سے چمٹتے رہتے ہیں

ا ور تو تو ایک کھلاڑی تھا کیوں کھیل ہی سے منہ موڑ لیا

کیوں جان کی بازی ہار گیا کیوں عمر کا رشتہ توڑ لیا

گو جانے کے مشتاق یہاں سے ہمم جیسے لاکھ بچارے ہوں

وہ لوگ ہی رخصت ہوتے ہیں جو لوگ کہ سب کو پیارے ہوں

ہر سال رتوں کی گردش سے جب بیس دسمبر آئے گی

یہ اشک چھما چھم برسیں گے، یہ آہ گھٹا بن جائے گی

تم عرش کے ایک فرشتے تھے بس فرش کی چوکھٹ چوم گئے

تم تیس برس تک دنیا میں معصوم رہے معصوم گئے

ہم یاد کی روشن شمعوں سے اس جی میں اجالا رکھیں گے

ا ور سینے میں آبادی کا سامان نرالا رکھیں گے

تم اجنبی اجنبی راہوں میں جب تھک جاؤ اک کام کرو

اس دل میں آن قیام کرو اس سینے میں بسرام کرو

اس جگ کی رات اندھیری میں اک تارا تھا وہ ڈوب گیا

ا ور وعدے ساتھ نبھانے کے سب بھول بھلا کر خوب گیا

یہ انشا ہاروں، زید بکر، شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

سب دوست ہمارے اچھے ہیں پر کون ہے اس ساکوئی نہیں

کیوں نازک نازک سینوں ہر تم غم کا توڑ پہاڑ چلے

پھر دیکھ زمیں پر کیچڑ ہے پھر دیکھ فلک پر پانی ہر

اے دور نگر کے بنجارے کیوں آج سفر ٹھانی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بنجارن کا بوجھ

(ایک پنجابی نظم کا ترجمہ )

 

پہلی بار بنجارن آئی

خوشیوں کی لئے کھاری

ہونٹ عنابی باتیں شرابی

کھاری اس کی بھاری

ایک خوشی تو میں نہیں دوں گی

لیتی ہو لو ساری

دو جی بار بنجارن آئی

کھاری آن اتاری

آدھی خوشیاں آدھی غم

ملی جلی تھی کھاری

خوشیاں دے جا غمیاں لے جا

نا ممکن میں واری

تیجی بار بنجارن آئی

سر پر بوجھا بھاری

جی گھایلا ور چپ چپ چہرا

کھاری نہ جائے اتاری

آگے بڑھ کر آ خر میں نے

سر پہ لے لی ساری

بھاری سی وہ کھاری

٭٭٭

 

 

 

 

پنجابی نظم

 

تینوں دسیاتے توں ہنسا اے

اسیس تینوں سمجھ نئیں دسنا اے

بس اگ اپنی وچ جلنا اے

ا ور آپے پکھا جھلنا اے

اسیس پکے آں تو خام کڑے

کجھ ہو یا نئیں کی ہونا سی

اک دن داہسنا رونا سی

اوہ ساگر چھلاں ایویں سی

اوہ سا ریاں گلاں ایویں سی

پر چر چا کرنا تمام کڑے

اسیس کہندے کہندے مرجانا

توں ہسدے ہسدے مر جا نا

اسیس اجڑے اجڑے رہ جا نا

توں وسدے وسدے مر جا نا

ہاں سوچ لیا انجام کڑے

اک گھر وچ دیوا بلدا ای

کی دیکھ سند یسے گھلدا ای

کیوں پورب پچھم جانی ایں

کیوں من اپنا بھٹکائی ایں

گھر آ جا پے گئی شام کڑے

٭٭٭

 

 

 

 

شعلے

 

 

گر تیرا تصور تجھے پروانہ بنا دے

شعلوں کی حضوری میں وفا سے نہ گزرنا

دولہا کی طرح حجلۂ محبوب میں جا نا

اس حسن جہاں سوز کی تابش سے نہ ڈرنا

کچا ہے تو اے دوست گل خام کی مانند

بھٹی کی تپش تجھ کو سکھائے گی سنورنا

( شاہ لطیف بھٹائی )

٭٭٭

 

 

 

 

لطیف چئی

 

جمال ناز

 

مہرباں مہرباں وا شگفتہ جبیں

مرے آنگن میں آتا ہے پیارا مرا

اس سے بڑھ کے ہے میرا وہ مہر جبیں

چاند اچھا سہی چودھویں رات کا

مرے در پہ ہے لوگوں کی منڈلی کھڑکی

میرے پیارے کی سب لوگ باتیں کریں

میرے گھر میں تو ہے آج اتری خوشی

جن کو جلنا ہے جلتے ہیں جلتے رہیں

سیکڑوں مہر ہوں۔ بیسوں ماہ ہوں

مجھ کو سو گندا للہ کے نام کی

اس کے مکھڑے بنا منزلوں منزلوں

رات ہی رات مجھ کو نظر آئے گی

کتنا کم ارز ہے ہیچ ہے چاند تو

شب کو آئے نظر، شب کو چمکا کرے

میرے پیارے کے آگے بہت ماند تو

دائمی میں اجالے مرے دوست کے

صبح دم اٹھ کے محبوب کے کان ہیں

یہ سندیسہ ہمارا سنا نا سجن

تجھ پہ ہم غم زدوں کی ہیں آنکھیں لگیں

دیکھ ہم کو نہیں بھول جانا سجن

٭٭٭

 

 

 

 

داستان لیلاں چنسیر سے

 

لیلا۔ ۔ تو نے کیوں محو کیا ہے انہیں لوح دل سے

حاصل زیست سمجھتے ہیں جو پیارے تجھ کو

اے مرے و سرو کنور ؛ میرے چنسیر راجہ

دل مرا آج بھی رو رو کے پکارے تجھ کو

ان کے زخموں پہ مدھر بولوں کا مرہم رکھنا

اب بھی اپنا جو سمجھتے ہیں بچارے تجھ کو

ان کو خلقت کی نگاہوں نہ رسوا کر نا

واسطہ دیتی ہوں جینے کے سہارے تجھ کو

میں تری پیت کی ماری ہوں بچاری ابلا

کچھ خیال آتا ہے اس بات کا بارے تجھ کو

تیری سو رانیاں، تو میرا اکیلا پتیم

دل بسارے تو بھلا کیسے بسارے تجھ کو

شاہ لطیف۔ ۔

ایک ادنی سا گلو بند تھا جس کی خاطر

کھو دیا دل کے خداوند کو ناداں تو نے

تجھ سے بر گشتہ ہوا تیرا چنبر راجا

کپٹی کو نرو سے کیا ایک جو پیماں تو نے

اپنی قسمت کا عجب الٹا ہے صفحہ غافل

بات کی ہے بڑی رسوائی کے شایاں تو نے

چل گیا ادنی سے زیور کی ڈلک کا جادو

جانے کیا سمجھا تھا چاہت کو مری جاں تو نے

لیلا، ، ، ، ، میں یہ سمجھتی تھی کہ یہ ہار مرصع رتنار

ہاتھ آئے تو مرا روپ سوایا ہو گا

یہ نہ سمجھی تھی کہ یہ ہار ہے ظالم بیری

کپٹی کنرو نے کوئی جال بچھا یا ہو گا

شاہ لطیف، ، ، چل ذرا ڈال کے اب اپنے گلے میں پلو

ڈھونڈ اس چیز کو جو کھوئی ہے لیلا نے

شاید اب تجھ سے بنا لے تجھے پھر اپنا لے

عذر اس سے کو کیا عاجزو گریاں تو نے

پھر بھی مقصود مبارک نہ جو دل کا پا یا

درگہ یار سے محبوبہ کیا حیراں تو نے

یوں ہی فریاد کناں عفو کی طالب رہنا

ہاں جو چھوڑا کہیں امید کا داماں تو نے

ایک لغزش سے گنوایا، نہ گنوایا ہو تا

اپنے محبوب کا الطاف فرا واں تو نے

رکھنا فریاد فغاں اب بھی وظیفہ اپنا

زیست کرنی ہے اگر زود پشیماں تو نے

لیلا۔ ۔ ۔ گن جو ہیں ایک زمانے کے گنائے تم نے

تم سمجھتے ہو کہ مجھ میں کوئی خوبی ہی نہ تھی

اپنی بخشش سے نوازو مجھے پتیم پیارے

کیوں کوئی اور بنے دل کی تمہارے رانی

میں نے سوچا ہے بہت سوچا یہ آ خر پا یا

دہر میں سوختہ جانوں کا مقدر ہے یہی

جس پہ غصے کی نگہ ہو تری پتیم پیارے

باندی بن جائے جو رانی ہو چہیتی رانی

آج میں در پہ ترے آئی ہوں سرو پیارے

اپنا اک عمر کا سرماۂ عصیاں لے کر

تو جو آزردہ ہے کیوں آؤں میں در پہ تیرے

دل آشفتہ و مجبور و پریشاں لے کر

( ترجمہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی )

٭٭٭

 

 

 

 

داستاں ماروی سے

 

جو کانوں میں میرے یہ لفظیں پڑیں

بتا میں بھلا تیرا مالک نہیں

مرے دل نے چپکے سے ہاں کہہ دیا

کہ کچھ اور کہنا تو ممکن نہ تھا

مرے لوگ مجھ سے دور ہو گئے

مرے پاس آنے سے معذور تھے

مرا قید ہونا ہی تقدیر تھی

یہ پتھر یہ قدرت کی تحریر تھی

کہ اپناؤں گھر بار کو چھوڑ کر

یہ زنداں یہ زنداں کے دیوارو در

جو چر وا ہے اپنے میں دور ہوں

تو اس حال کو زندگی کیوں کہوں

خداوند میرے تو یہ حکم دے

کہ اب ماروی مارووں سے ملے

لکھی تھی مری زندگانی میں قید

ہوئی رنج و درد و مصیبت کی صید

کتاب مقدس میں ہے جو بیاں

مرا من ترے پاس تن ہے یہاں

یہی اک دعا ہے خداوند سے

وہ قدرت سے اپنی یہ ساماں کرے

عزیزوں سے اپنے میں جا کے ملوں

شب و روز بیٹھی یہ سوچا کروں

جو لکھا گیا پھر نہ بدلا گیا

قلم ہو گیا خشک تقدیر کا

تراوش ہوئی کلک تقدیر سے

کہ مارو تو کانٹے چنیں دشت کے

ادھر میں الگ اس طرح سے جیوں

کہ ان بالا خانوں میں بیٹھی رہوں

عزیزوں سے دوری وطن کا تیاگ

لگا دوں نہ ان اونچے محلوں میں آگ

ہر اک شے کہیں بھی ہو کیسی بھی ہو

پلٹتی ہے اپنی قدیم اصل کو

مرے دل پہ بھاری ہے ان کا بجوگ

کہاں ہیں کہاں ہیں وہ صحرا کے لوگ

یہاں ان کے آنے کی صورت بنے

کہ مالیر جانے کی صورت بنے

 

نے پیامی ہے یہ پیغام عزیزاں کوئی

گرد صحرا سے نہ ابھرے گا شتر باں کوئی

میرے اللہ مری حسرت دیدار کو دیکھ

بھیج اس دیس میں اس دیس کا مہماں کوئی

خوش ہوں مسرور ہوں یہ راہیں یہ قلعے یہ حصار

آئے پھر قطع مسافت کی جولاں کوئی

دھوؤں ان آنکھوں اے اس کے قدم گرد آلود

جان سکتا ہے مرے شوق کا پایاں کوئی

ددر افتادہ ہوں، محبوس ہوں، غم دیدہ ہوں

لوگو اس درد کی تسکین کا ساماں کوئی

لے نویدیں لیے آیا کوئی ڈاچی دالا

اپنے محبوب کو یادوں سے فراموش نہ کر

ایسی پاگل تو نہ ہو لوٹ کے آئے گا یہاں

ایک پل کے لیے قلعے میں ٹھرا، اور ٹھر

ایک ہی پل کے لیے قلعے میں رہنا ہے تجھے

دیکھنا تجھ سے نہ کملی یہ پرانی چھوٹے

پیاری من موہنی اونچا ہے گھرانہ تیرا

وضع مت چھوڑنا دل دکھتا ہے مانا تیرا

سوئے مالیر بھی ہو گا کبھی آنا تیرا

میرے بابل کے یہاں سے کوئی آ خر آیا

کون آیا ہے خدارا اسے لاؤ لاؤ

اس کے قدموں پہ میں گر جاؤں گی ہو کا بھر کے

اس کو دکھلاؤں گی اس دل کے یہ آلے گھاؤ

میرا کچھ دوش نہیں بات یہ میری مانو

اپنی مرضی سے نہ آئی ہوں نہ ہر گز آئی

خداوندا وہ گلہ بان ماڑو

مجھے اپنا لیں، میری لاج رکھ لیں

میں کتنی بھی بری ہوں ہاں بری ہوں

وہ لطف و مہر بانی سے نہ گزریں

ادھر مالیر میں برکھا ہوئی ہے

پرندے چہچہاتے ا ڑ رہے ہیں

مرے کپڑوں کا عالم دیدنی ہے

کہ میلے، بے تکے، اوگن بھرے ہیں

تو عیبوں کا چھپانے والا ٹھرا

خداوندا تو میری لاج رکھنا

مری چولی میں ٹانکے سیکڑوں ہیں

مری کملی پرانی ہے پھٹی ہے

چھوئی پونی، نہ گز بھر سوت کاتا

کہ آس اپنے عزیزوں سے لگی ہے

جو دہت میں میں نے پہنے تھے وہ کپڑے

مرے تن کے لے کافی رہیں گے

میری چولی میں ٹانکے سیکڑوں ہیں

مری کملی پرانی ہے پھٹی ہے

کسی دن بھی بال اپنے سنوارے

پریشاں زلف خوشبو کھو چکی ہے

کبھی مارد کے مکھڑے کو میں دیکھوں

فقط دل میں یہی حسرت بسی ہے

میں پھر صحرا میں اپنے گھر میں پہنچوں

کہ یہ جینا بھی کوئی زندگی ہے

مری چولی میں ٹانکے سینکڑوں ہیں

مری کملی پرانی ہے پھٹی ہے

اسی عالم میں میں صحرا میں پہنچوں

مرے دل میں جو حضرت یہی ہے

کہ مارو مجھ کو دیکھیں اور یہ جانیں

میں جیتی تھی امیدوں کے سہارے

کہ ہم آئیں گے اس کی سار لیں گے

چھڑائیں گے غم زنداں سے بارے

ہوا ہے جس جگہ سے میرا آ نا

کسم کا پھول واں کھلتا نہیں ہے

جہاں شادی کے میلے ہوں وہاں بھی

مجھے کملی سوا جامہ نہیں ہے

 

نہ بالوں کو دھونا دھلانا اسے

نہ ہنسنا، نہ پینا، نہ کھانا اسے

عمر ماردی گیت گاتی پھرے

تری داد کے، تری بیداد کے

ترا ظلم بخشا نہیں جائے گا

یہ اک دن ترے سامنے آئے گا

نہ بالوں کو پانی دکھانا اسے

نہ زلفوں کی بگڑی بنانا اسے

وہ ہانکے وہ سبزہ گہوں کے مکیں

انہیں ماردی بھول سکتی نہیں

عمر ماردی کو کہاں یہ پسند

کہ بیٹھی رہے تیرے محلوں میں بند

نہ بالوں میں پانی دکھانا اسے

نہ زنداں سے باہر ہی جانا اسے

اسے بھائے کیا مارووں کے بنا

یہ صابن، یہ خوشبو، یہ عطر حنا

کٹھن ہے یہ اس کے لیے زندگی

کہ گوری ہے دیہات کی ماردی

نہ بالوں کو پانی دکھانا اسے

نہ بھولے سے بھی مسکرانا اسے

ہے کانوں میں اس کے صدا گونجتی

صدا اے اے عمر تیرے انصاف کی

شکایت کرے ہے وہ اندد ہگیں

مرے لوگ مجھ پاس آتے نہیں

اداسی پہ مائل ہوئی ماردی

غم دل کی گھائل ہوئی ماردی

یہ الجھے سے گیسو، یہ چہرہ اداس

وہ اٹھتی جوانی کی لوہے نہ باس

غموں نے اڑا دی ہے چہرے کی آب

اداسی سے سنولا گیا ہے شباب

لطیف اس کے پنڈلے کو لو جو لگی

اڑی باس خوشیوں کے کافور کی

وہ گوری کہ من جس کا بھاری رہے

خوشی کس طرح اس کو پیاری رہے

بھلا چھٹ پیاروں سے جیسا ہے کھیل

نہ مسکان لب پر نہ بالوں میں تیل

جدھر اس کا مالیر آباد ہے

ادھر رخ ہے ہونٹوں پہ فریاد ہے

میں مارد کی سمرد میں مارو کی ہوں

ترے گھر کی خوشیوں کو خوشیاں کہوں

یہ پھانسی کا پھندا ہیں پھانسی کا جال

میں تیری بنوں یہ تو ہونا محال

مرے دل کے وہ لوگ مالک ہوئے

چھڑانا ہے مشکل اسے قید سے

جدھر اس کا مالیر آباد ہے

ادھر رخ کہے وقف فریاد ہے

اسے ماروں نے جو دی تھی کبھی

ابھی پاس اس کے ہے کملی وہی

تو اس کو تو سمرو نہ زنجیر کو

کہ مشکل ہے اس کا من آنا ادھر

جدھر میرا مالیر آباد ہے

ادھر قبلۂ جان ناشاد ہے

میں قلعے پہ چڑھ کے پکاری بہت

میں کرتی رہی آہ و زاری بہت

کسی نے نہ لیکن سنی یہ فغاں

مرا درد سنتا ہے کوئی کہاں

عمر جس کا من ہو دکھی ہو اداس

اسے بھائیں کیسے یہ اجلے لباس

پیا اپنے صحرا میں آہیں بھریں

غموں میں گرفتار نالے کریں

وہ ناری ہے اسے سمرو ناری کہاں

وہ اپنے پیا کی ہے پیاری کہاں

 

جو الفت کے قول و وسم توڑ دے

جو پی سے خیال وفا چھوڑ دے

مرے پی پہ بھاری یہ ٹھنڈی ہوا

ترے نرم گدوں پہ سووؤں میں کیا

عمر میرے کپڑوں پہ ہنستا ہے کیوں

گدیلوں پہ آرام کیسے کروں ؟

جو پی میرا صحرا میں آہیں بھرے

غموں میں گرفتار نالے کرے

عمر اپنے شربت کے شیشے ا ٹھا

عزیزوں میں پیا سے ہی رہنا بھلا

مرا دل ہے انہیں کے ساتھ سائیں

جو جنگل کے دہاتوں کے مکیں ہیں

مجھے چھوڑے تو ان کے پاس جاؤں

ان ہی کا ساپیوں، ان کا سا کھاؤں

جہاں تک سائیں دنیا میں جیوں گی

اسی پیارے کے قدموں پر چلوں گی

میں بے تقصیر بیٹھی جی کھپاؤں

یہی سوچوں کہ دیس اپنے کو جاؤں

ان ہی پیاروں عزیزوں سے ملوں میں

جو موٹے جھوٹے کپڑوں ہی میں خوش ہیں

 

میں اس کملی کو چھوڑوں کیسے چھوڑوں

اس آرام اور راحت کی طلب میں

جو دو دن کے لے ہے پھر نہیں ہے

 

کہاں گیا مرا حسن اے سمرو چہرا میرا میلا

قسمت نے میرا روپ انیلا چھین لیا سب لوٹا

اے سمرو اک بار کسی کا روپ اگر لٹ جائے

لاکھ جتن کر دیکھے لیکن پھر وہ بات نہ پائے

کھو کے میں اپنا روپ اے سمرو دیس اپنے کیا جاؤں

اپنے نگر لے چرواہوں کو کیسے مکھ دکھلاؤں

جیسے تھا یاں آنا میر ویسے ہی میرا جا نا

اکثر جیسی برستی بوندیں پل پل ہے شرما نا

ان اونچے چوباروں میں جو جیون کے دن بیتے

زحمت، ذلت اور ستم تھے مجھ کو وہ یاد رہیں گے

مجھ کو تو بس پی کی ہے چاہت لیکن میں شرماؤں

کس منہ سے اونچا کر کے ماروں آگے جاؤں

مجھ کو کہیں تو دفن ہی کر دے اے سمرو اے بیری

میں نے یہاں پر آ کر چھوڑی ریت وہ چرواہوں کی

 

کاش کہ یہ پیدا ہی نہ ہوتی ہوتی تو مر جا تی

عمر کوٹ میں آ کر اس نے جیتی یہ بد نامی

چوباروں میں بیٹھی کڑھتی ایسے وقت گزارے

چرواہوں کی مدد کی خاطر پل پل پڑی پکارے

اے اللہ تو سنے جو میری قید ہی میں مر جاؤں

دن کو تو بیٹھی روؤں دھوؤں شب کو بھی چین نہ پاؤں

لیکن مجھ کو موت سے پہلے گھر میرا دکھلا دے

کیا دھوؤں میں کپڑے اپنے میلے اور پرانے

مٹی میں ملی عزت میری مالک میرے کرم کر

سمرو ہے بڑی طاقت والا رحم والا اسے مجھ پر

گاؤں میں اپنے ہو گا وہ بان کا بیٹھی سوچ رہی ہوں

مجھ کو پی سے آس لگی ہے کب جاؤں اسے دیکھوں

گھر والوں تک بات نہ پہنچی میری اس بپتا کی

ورنہ یہ قیدی قید میں اپنے اتنی بیا کل ہو تی ؟

بھول گئے مجھے مارو شاید گھر کی یاد ستائے

اچھا ہے یوں ہی یاد میں ان کی موت مجھے آ جائے

لاش کو میری مالک میرے کھر میرے پہنچا نا

مر کے چین ملے کچھ شاید مارووں میں دفنا نا

قبر مری مالیر ہو تو میں تو یہی سمجھوں گی

موت نہیں ہے جیون ہے یہ چین سے میں سوؤں گی

انہیں میں سمرو کیسے بھول جاؤں

کہ وہ گلے چرانے والے پیارے

میرے جیون میں رگ رگ میں بسے ہیں

بھلانا ان کا آساں تو نہیں ہے

محبت ان کی دل میں جا گزیں ہے

بہت دن ہو گئے ہیں مجھ کو دیکھے

وہ گلے بان وہ ان کے گھروندے

یہ جامے ریشمیں، نرما ور ملائم

بھلا اس کے شایاں ہیں سمرو

کہ چروا ہے کی بی بی ان کو پہنے

وہ موٹے کھردرے جاموں کو اپنے

کہیں جو لاکھ ہی رنگ دے لے

تو شالوں سے ہو بڑھ کر ان کی شو بھا

نہ اون ان کے برابر کی نہ مخمل

کوئی کپڑا نہ ان کو پہنچے سمرو

مرا کمبل کہ موٹا کھردرا ہے

مجھے ہی سارے جاموں سے بھلا ہے

میں یہ اپنے قبیلے کی نشانی

یہ کمبل، کیوں اتاروں اس سے پہلے

یہ بہتر ہے کہ موت آ جائے مجھ کو

ہوئے پھر تازہ یادوں کے وہ گھاؤ

مجھے ان گاؤں والوں کی جدائی

بہت ہی مضطرب رکھتی ہے سمرو

مرے دل میں ابھی ان کی جگہ ہے

جو صحرا کے گھروندوں کے مکیں ہیں

جہا مارو کا پیارے کا ہے ڈیرا

خدا یا اس جگہ تو مجھ کو پہنچا

نہ تم جی کو دکھاؤ میرے پیارے

نہ یوں آنسو بہاؤ میرے پیارے

جہاں غم کا ہے دکھ کا ہے بسیرا

وہیں دیکھو گے پھر خوشیوں کا ڈیرا

جہاں دکھ ہیں وہاں سکھ بھی گوری

یہ چروا ہے کا دل بھی جانتا ہے

وفا پر تو جو یوں قائم رہے گی

تو یہ مجلس، یہ زنداں چیز کیا ہے

ترا دل نا امیدی میں نہ بھٹکے

یہ زنجیریں تو گر جائیں گی کٹ کے

من میرے کا مالک مارو

مار و کا من میرا

کیوں اپنا منہ دھوؤں میں سمرو

مالک مرا کہے گا

اجنبیوں میں گئی تھی تو کیا

منہ دھونے خوش ہونے

لے میں چلی اب پی کے ڈیرے

چھوڑ کے رونے دھونے

( ترجمہ عبداللطیف بھٹائی )

٭٭٭

 

 

 

 

آتی ہے پون جاتی ہے پون

 

جو گی کا بنا کر بھیس پھرے

برہن ہے کوئی، جو دیس پھرے

سینے میں لیے سینے کی دُکھن

آتی ہے پوَ ن، جاتی ہے پوَن

 

پھولوں نے کہا، کانٹوں نے کہا

کچھ دیر ٹھہر، دامن نہ چھڑا

پر اس کا چلن وحشی کا چلن

آتی ہے پوَ ن، جاتی ہے پوَن

 

اس کا تو کہیں مسکن نہ مکاں

آوارہ بہ دل، آوارہ بہ جاں

لوگوں کے ہیں گھر، لوگوں کے وطن

آتی ہے پوَ ن، جاتی ہے پوَن

 

یہاں کون پوَن کی نگاہ میں ہے

وہ جو راہ میں ہے، بس راہ میں ہے

پربت کہ نگر، صحرا کہ چمن

آتی ہے پوَ ن، جاتی ہے پوَن

 

رکنے کی نہیں جا، اٹھ بھی چکو

انشاء جی چلو، ہاں تم بھی چلو

اور ساتھ چلے دُکھتا ہُوا مَن

آتی ہے پوَ ن، جاتی ہے پوَن

٭٭٭

 

 

 

 

بستی میں دیوانے آئے

 

بستی میں دیوانے آئے

چھب اپنی دکھلانے آئے

دیکھ رے درشن کی لو بھی

کر کے لاکھ بہانے آئے

پیت کی ریت نبھانی مشکل

پیت کی ریت نبھانے آئے

اُٹھ اور کھول جھروکا گوری

سب اپنے بیگانے آئے

پیر، پروہت، مُلّا، مُکھیا

بستی کے سب سیانے آئے

طعنے، مہنے، اینٹیں، پاتھر

ساتھ لئے نذرانے آئے

سب تجھ کو سمجھانے والے

آج انہیں سمجھانے آئے

اب لوگوں سے کیسی چوری؟

اُٹھ اور کھول جھروکا گوری

درشن کی برکھا برسا دے

ان پیاسوں کی پیاس بُجھا دے

اور کسی کے دوار نہ جاویں

یہ جو انشاء جی کہلا دیں

تجھ کو کھو کر دنیا کھوئے

ہم سے پوچھو کتنا روئے

جگ کے ہوں دھتکارے ساجن

تیرے تو ہیں پیارے ساجن

گوری روکے لاکھ زمانہ

ان کو آنکھوں میں بٹھلانا

 

بجھتی جوگ جگانے والے

اینٹیں پاتھر کھانے والے

اپنے نام کو رسوا کر کے

تیرا نام چھپانے والے

سب کچھ بوجھے، سب کچھ جانے ؟

انجانے بن جانے والے

تجھ سے جی کی بات کہیں کیا

اپنے سے شرمانے والے

کر کے لاکھ بہانے آئے

جو گی لیکھ جگانے آئے

 

دیکھ نہ ٹوٹے پیت کی ڈوری

اُٹھ اور کھول جھروکا گوری

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا

وہ شہر، وہ کوچہ، وہ مکاں، یاد رہے گا

 

وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی

وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا

 

ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں

وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا

 

کچھ میر کے ابیات تھے کچھ فیض کے نسخے

اک درد کا تھا جن میں بیاں یاد رہے گا

 

جاں بخش سی اس برگ گل تر کی تراوت

وہ لمس عزیز دو جہاں یاد رہے گا

 

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے

تو، یاد رہے گا، ہاں ہمیں یاد رہے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی، ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا !

کبھی شہرِ بتاں میں خراب پھرے، کبھی دشتِ جنوں آباد کیا

 

کبھی بستیاں بن، کبھی کوہ و دمن، رہا کتنے دنوں یہی جی کا چلن

جہان حُسن ملا وہاں بیٹھ گئے، جہاں پیار ملا وہاں صاد کیا

 

شبِ ماہ میں جب بھی یہ درد اٹھا، کبھی بیت کہے، لکھی چاند نگر

کبھی کوہ سے جاسر پھوڑ مرے، کبھی قیس کو جا استاد کیا

 

یہی عشق بالآخر روگ بنا، کہ ہے چاہ کے ساتھ بجوگ بنا

جسے بننا تھا عیش وہ سوگ بنا، بڑا مَن کے نگر میں فساد کیا

 

اب قربت و صحبتِ یار کہاں، اب و عارض و زلف و کنار کہاں

اب اپنا بھی میر سا عالم ہے، ٹک دیکھ لیا جی شاد کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا

وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جو گی کا نگر میں ٹھکانا کیا

 

اس وقت کے دریدہ دامن کو، دیکھو تو سہی سوچو تو سہی

جس جھولی میں سو چھید ہوئے، اس جھولی کا پھیلانا کیا

 

شب بیتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے پہ

کیوں دیر گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانا کیا

 

پھر ہجر کی لمبی رات میاں، سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی

جو دل میں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کیا گھبرانا کیا

 

اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں

جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانہ کیا

 

جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں، کیوں بَن میں نہ جا بسرام کرے

دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابلِ دید ہوا

ایک ستارا بیٹھے بیٹھے تابش میں خورشید ہوا

 

آج تو جانی رستہ تکتے، شام کا چاند پدید ہوا

تو نے تو ان کار کیا تھا، دل کب نا امید ہوا

 

آن کے اس بیمار کو دیکھے، تجھ کو بھی توفیق ہوئی؟

لب پر اس کے نام تھا تیرا، جب بھی درد شدید ہوا

 

ہاں اس نے جھلکی دکھلائی، ایک ہی پل کو دریچے میں

جانو اک بجلی لہرائی، عالم ایک شہید ہوا

 

تو نے ہم سے کلام بھی چھوڑا، عرضِ وفا کی سنتے ہیں

پہلے کون قریب تھا ہم سے، اب تو اور بعید ہوا

 

دنیا کے سب کارج چھوڑے، نام پہ تیرے انشاء نے

اور اسے کیا تھوڑے غم تھے ؟تیرا عشق مزید ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا

وہ شہر، وہ کوچہ، وہ مکاں یاد رہے گا

 

وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی

وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا

 

ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں

وہ شمعِ فسردہ کا دھواں یاد رہے گا

 

ہاں بزمِ شبانہ میں ہمیں شوق جو اس دن

ہم تو تری جانب نگراں یاد رہے گا

 

کچھ میر کے ابیات تھے، کچھ فیض کے مصرعے

اک درد کا تھا، جن میں بیاں یاد رہے گا

 

جاں بخش سی اس برگِ گُلِ تر کی تراوت

وہ لمس عزیز دہ جہاں یاد رہے گا

 

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے

تو یاد رہے گا ہمیں، ہاں یاد رہے گا

 

اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا

وہ شہر، وہ کوچہ، وہ مکاں یاد رہے گا

 

وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی

وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا

 

ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں

وہ شمعِ فسردہ کا دھواں یاد رہے گا

 

ہاں بزمِ شبانہ میں ہمیں شوق جو اس دن

ہم تو تری جانب نگراں یاد رہے گا

 

کچھ میر کے ابیات تھے، کچھ فیض کے مصرعے

اک درد کا تھا، جن میں بیاں یاد رہے گا

 

جاں بخش سی اس برگِ گُلِ تر کی تراوت

وہ لمس عزیز دہ جہاں یاد رہے گا

 

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے

تو یاد رہے گا ہمیں، ہاں یاد رہے گا

٭٭٭

ماخذ:

http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/10048.txt

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید