FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اردو غزل۔ نئی تشکیل

 

حصہ دوم

 

                طارق ہاشمی

 

 

 

 

 

 

اردو غزل کی ہیئت میں تجربات

 

 

i۔      غزل کی ہیئت

قصیدہ اور غزل کی ہیئت

’’ادب لطیف‘‘ کی بحث۔ ہیئت کی اصطلاح

ii۔      ہیئت میں تبدیلی کے تجربات

آزاد غزل۔ مظہر امام کی نظریہ سازی

آزاد غزل کی متنوع صورتیں

’’غزلیہ‘‘۔ مطلعاتی غزل۔ معرّا غزل

نثری غزل

iii۔     داخلی اور تزئینی تجربات

فارسی اور کلاسیکی اردو غزل سے چند مثالیں

ہیئت غزل کی داخلی تبدیلی۔ متنوع صورتیں

 

 

 

 

(۱)

 

اردو غزل کی نئی تشکیل کے سلسلے میں تجربات کی ایک جہت اِس کی ہیئت میں تبدیلیوں سے متعلق بھی ہے۔ فی زمانہ جبکہ آزاد نظم کا ہمہ گیر ہئیتی تجربہ اردو نظم کی جملہ قدیم اصناف پر غالب آ چکا ہے۔ غزل اب بھی اپنی بنیادی شکل میں کسی محاذ پر شکست کھاتی نظر نہیں آتی۔ جو تجربے ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں اُن کی نوعیت ایک تفصیلی مطالعے کی متقاضی ہے لیکن اس سے پہلے یہ تعین ضروری ہے کہ غزل کی ہیئت کیا ہے ؟ اور اس کی شکل کن عناصر ترکیبی سے بنتی ہے ؟

اس سلسلے میں پہلی قابلِ ذکر بات تو یہ ہے کہ غزل قصیدے سے الگ ہو کر معرض وجود میں آئی ہے۔ اس لیے بہ لحاظِ ہیئت یہ قصیدے سے مختلف نہیں ہے۔ غزل کی ساخت کا تعین کرنے والے ناقدین نے بھی اسے قصیدے سے الگ ہو کر نہیں دیکھا البتہ کچھ عناصر جن سے مزاج اور موڈ کے لحاظ سے قصیدے سے غزل کی الگ شناخت بنتی ہے اور ان سے ہیئت بھی قدرے متاثر ہوتی ہے کا ضمناً ذکر کیا گیا ہے۔ ’’ دبیر عجم‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں :

’’قصیدہ اُن اشعار کا حصہ ہے جس کے دوسرے مصرعے میں قافیے کا التزام کیا جاتا ہے بجز مطلع کے کہ جس کے دونوں مصرعے مقفّیٰ ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ قصیدے کی طرح غزل کے لیے مطلع ضروری ہے اور لازم ہے کہ اشعار کی تعداد ۱۵ سے زائد نہ ہو اور اُس کا سلسلۂ کلام مربوط نہیں ہو گا۔ ‘‘(۱)

معروف مستشرق ڈاکٹر براؤن نے غزل کی ہیئت کا تعارف ان الفاظ میں کیا ہے :

’’اب ہم شاعری کی اُس مقفیٰ صورت کا ذکر کریں گے، جس میں ایک قافیہ پوری نظم میں رواں دواں ہوتا ہے اور ہر شعر کے آخر میں آتا ہے۔ (جبکہ دو مصرعوں سے ایک شعر بنتا ہے ) سوائے مطلع یا پہلے شعر کے جس کے دونوں مصرعوں میں قافیہ یکساں طور پر آتا ہے۔ دو بہت اہم اصناف جو اس میں شامل ہیں اور اس دائرۂ قانون میں آتی ہیں۔ ایک غزل اور دوسری قصیدہ ہے۔ دونوں کے لیے ایک ہی قرینہ ہے۔ پہلا شعر جو مطلع کہلاتا ہے دو ہم قافیہ مصرعوں پر مشتمل ہے جبکہ باقی شعروں میں دوسرے مصرعے میں قافیہ آتا ہے۔ غزل قصیدے سے طوالت اور مضمون کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ غزل میں عام طور پر جذباتی اور صوفیانہ عنصر پایا جاتا ہے اور بہت کم دس یا بارہ اشعار سے تجاوز کرتی ہے۔ ‘‘(۲)

مولوی نجم الغنی رام پوری غزل کی ہیئت کا تعین اس طرح کرتے ہیں :

’’غزل اُن اشعار مقفق الوزن و القوافی کو کہتے ہیں جن کے بیت اوّل کے دونوں مصرعے مقفّیٰ ہوں۔ اس بیت اوّل کو مطلع کہتے ہیں۔ باقی ابیاتِ غزل میں صرف مصرع ثانی میں قافیہ ہوتا ہے۔ بیت ثانی کو حسنِ مطلع و زیبِ مطلع کہتے ہیں۔ ایک غزل میں دو یا تین یا زیادہ مطلع بھی لاتے ہیں۔ ۔ ۔ سب سے آخر کی بیت کو متمّمِ غزل اور مقطع کہتے ہیں۔ فارس اور ہند کے شعراء نے ایک اچھا طریقہ وضع کیا ہے کہ اپنی ذات کے لیے ایک مختصر سا نام اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کو اپنی نظم کے بیتِ آخر میں لاتے ہیں۔ اس کا نام تخلص ہے۔ ‘‘(۳)

غزل کی ہیئت کے تعین میں ردیف کو ضروری نہیں سمجھا گیا اور ’’ردیف غزل کے لیے ضروری ہے بھی نہیں۔ تاہم اکثر غزلوں میں ردیف کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ‘‘(۴) بلکہ غزل کے فارسی و اردو مجموعی سرمائے پر نظر ڈالیں تو ردیف کے بغیر بہت کم غزل تخلیق ہوئی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ لحاظ ہے کہ ردیف ایک ہیئتی تجربہ ہے اوراسے ’’ شعرائے عجم نے اختراع کیا ہے۔ شعرائے عرب کے یہاں۔ ۔ ۔ اس کا دستور نہیں ‘‘۔ (۵)

ردیف کے لیے لازمی نہیں قرار دیا گیا کہ ’’ہر جگہ اس کی تکرار ایک ہی معنی میں ہو۔ شاعر اگر چاہے تو ردیف کے کلمے کو ایک شعر یا ایک مصرعے میں ایک معنی میں اور دوسرے شعر یا دوسرے مصرعے میں دوسرے معنی میں بھی استعمال کر سکتا ہے۔ ‘‘(۶) ناصر کاظمی نے اپنے ایک مضمون میں ردیف کے مختلف قرینوں کا ذکر کرتے ہوئے ’’غزل میں قافیے سے ردیف کی جدائی کو جان و تن کی جدائی کے مصداق قرار دیا ہے۔ ‘‘(۷)

ردیف کے لیے ضروری خیال کیا گیا ہے کہ وہ کم از کم ایک مستقل کلمے پر مشتمل ہو۔ طویل ردیفیں بھی اختیار کی گئی ہیں۔ ہیئت کا یہ عنصر جسے لازمی نہیں سمجھا گیا۔ غزل کے مختلف اشعار کے مزاج میں امتزاج اور تسلسل کا باعث ہوتا ہے۔ نیز غزل کا غنائی آہنگ بھی ردیف کے مرہونِ منت ہے۔

غزل کی ہیئت کے بارے میں یہ وہ تصورات ہیں، جن کا تعین اس کی ابتدا ہی سے کر دیا گیا اور ان میں کوئی ایسی ترمیم یا تبدیلی نہیں لائی گئی کہ غزل کی بنیادی ہیئتی شناخت متاثر یا مجروح ہو۔ اس سلسلے میں ہمارے شعری شعور میں یہ عقائد راسخ رہے کہ:

۱۔       ’’غزل کی ہیئت میں لچک نہیں ‘‘(۸)

۲۔       ’’ غزل کی مخصوص ہیئت اپنی جگہ بنیادی چیز ہے۔ بدلتے وقت کے تقاضے خواہ کچھ سے کچھ ہو جائیں۔ یہ تو بس جیسی ہے ویسی ہی رہے گی۔ ‘‘(۹)

۳۔      ’’غزل ایک بنی بنائی فارم ہے۔ ردیف، قافیہ، مطلع، مقطع، دونوں مصرعے برابر۔ ظاہر ہے کہ غزل کی رسمی فارم میں تبدیلی کی جانی ممکن نہیں۔ ‘‘(۱۰)

یہی وہ عقائد ہیں جن کے باعث غزل ’’قدامت پسند ‘‘ (۱۱) بلکہ ’’سخت ضدی اور ہٹیلی‘‘(۱۲) صنفِ سخن قرار پائی۔

مذکورہ حقائق کے باوجود یہ امر واقعہ ہے کہ عصر حاضر میں غزل کی ہیئت میں تبدیلیاں لانے کے تجربات ہوئے ہیں۔ بعض نئے غزل گوؤں نے اس کی ہیئت کو مختلف طریقوں سے توڑنے کی کوشش کی۔ جس کی حمایت و مخالفت میں الگ الگ زاویوں سے جائزہ لیا گیا۔

اردو غزل کی ہیئت میں جدید تجربات کا باقاعدہ آغاز ۶۰ کی دہائی سے ہوا اور ان کوششوں کے سرکردہ غزل گو مظہر امام اور فارغ بخاری ہیں۔ لیکن دلچسپ امر ہے کہ ان تجربات سے بہت پہلے غزل کی ہیئت میں تبدیلی کے سلسلے میں ایک بحث ہوئی تھی جس میں اس پہلو کا تنقیدی تجزیہ کیا گیا تھا۔

اس بحث کا نقطۂ آغاز ڈاکٹر عبادت بریلوی کا ایک مضمون ہے جو ’’ادب لطیف ‘‘ کے مارچ ۱۹۵۵ء کے شمارے میں ’’اردو غزل میں ہیئت کے تجربات ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ‘‘(۱۳)

اس سلسلے میں جو دیگر اہم مضامین شائع ہوئے۔ ان کی تفصیل یہ ہے :

۱۔      پروفیسر سعید احمد رفیق۔ ۔ ’’غزل کی ہیئت ‘‘ (۱۴)

۲۔      سجاد رضوی ’’اردو غزل میں ہیئت کے تجربات ‘‘(۱۵)

۳۔     خواجہ تہور حسین۔ ’’اردو غزل میں ہیئت کے تجربے ‘‘(۱۶)

۴۔     ڈاکٹر سید عبداللہ۔ ’’ غزل کی ہیئت میں تبدیلی ‘‘ (۱۷)

مذکورہ مضامین بحث کے لحاظ سے بہت بھر پور ہیں اور ان میں زبردست نکات اٹھائے گئے ہیں، جن کا متفرق پہلوؤں سے جائزہ بھی لیا گیا، لیکن اس ساری گفتگو میں سوائے ڈاکٹر سید عبداللہ کے مضمون کے غزل کی ہیئت میں تبدیلیوں پر بات چیت پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی بلکہ زیادہ تر ہیئت کی اصطلاح اور اس کے مآخذ کا جائزہ لیتے ہوئے عبادت صاحب کے تصورِ ہیئت پر تنقید کی گئی۔

در اصل ڈاکٹر صاحب موصوف نے ہیئت کی اصطلاح کو بہت وسیع معانی میں لیا تھا جس میں موضوع، اسلوب، تکنیک، غنائیت اور داخلی و معنوی حیثیت سب کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اُن سے دوسرا سہویہ ہوا کہ انھوں نے غزل کی ہیئت کے حوالے سے غزل کی خارجی صورت پر بحث کرتے ہوئے ہیئت کے بجائے دیگر اسلوبیاتی، لسانیاتی یا موضوعاتی مباحث پر توجہ مرکوز رکھی، جس سے یہ گمان گزرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف ہیئت کی اصطلاح کے بارے میں کسی التباس کا شکار ہیں اور انھوں نے اس کی عدم تفہیم کے باعث غزل کے اُن عناصر پر بحث کی جو اُن کے موضوع کے دائرے میں نہیں آتے۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی کے مضمون سے کچھ غزل گوؤں کے بارے میں اُن کے بیانات دیکھیے جو ہیئت کے بارے میں اُن کے تصور کو واضح کرتے ہیں :

ولیؔ :انھوں نے ہندی اور فارسی کی متوازن آمیزش سے غزل کی ہیئت کا ایک نیا ہیولیٰ تیار کیا۔ ‘‘

میرؔ: ’’انھوں نے الفاظ کی سادگی، زبان کی پاکیزگی اور اظہار کی روانی سے ایک ایسی ستھری اور لطیف سی فضا پیدا کی ہے جس نے ان کے یہاں غزل کی ہیئت کو ایک نئے روپ میں جلوہ گر ہونے میں بڑا حصہ لیا ہے۔ میر کے یہاں لہجے کی شیرینی ہے۔ طرز اظہار کی جو حلاوت ہے۔ وہ بھی اس سلسلے میں خاصے کی چیز ہے۔ ان سب کا مجموعی اثر میر کی تمام غزلوں کے تمام اشعار میں غزل کی ایک نئی ہیئت کو رونما کرتا ہے۔ ‘‘

غالبؔ ـ: میر کے بعد غزل میں ہیئت کا ایک اور اہم تجربہ غالب نے کیا۔ غالب کو غزل کی تنگ دامانی کا بہت شکوہ تھا۔ وہ غزل کی ہیئت کو بقدرِ ذوق نہ سمجھ کر اپنے بیان کے لیے کچھ اور وسعت کی تمنا کرتے تھے۔ یہی بنیادی خیال ان کے یہاں غزل کی ہیئت کے ایک نئے تجربے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے … اس طرح انھوں نے پرانے اشاروں میں نئی معنویت بھی پیدا کی ہے۔ بعض مانوس الفاظ کے نئے اشاروں کا روپ بھی دیا ہے۔ ان کا مزاج کی حسیاتی کیفیت (Sensuousness)نے خارجیت کو بھی غزل کے لیے گوا را بنا دیا۔ اور اس لیے غزل کی ہیئت میں ایک نیا رنگ پیدا کیا۔

اقبالؔ:اقبال کو غزل کی ہیئت کے تجربات میں اجتہادی حیثیت حاصل ہے۔ انھوں نے اپنے فکر و فلسفے کی رفعت، بلندی اور گہرائی کو غزل میں اس طرح سمویا کہ اس کی ہیئت میں ایک ہمہ گیر وسعت پیدا ہو گئی۔ انھوں نے غزل کے پرانے اشاروں کو اس طرح برتنے کی کوشش کی کہ وہ نئی معنویت کی ترجمانی اور عکاسی کر سکیں اور اس کے ساتھ ہی ان کے خیالات کی جدت اور افکار کی رنگا رنگی نے اس میں نئے اشاروں اور نئی علامتوں کی تخلیق بھی کی ہے۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ان نئے اشاروں اور علامتوں کو غزل کی روایت کا جزو بنا دیا ہے …اور ان تمام عناصر نے مل کر ان کی غزلوں کی ہیئت میں ایک نئی صورت اختیار کی ہے۔ ‘‘

فراقؔ: وہ مغرب کے جمالیاتی شعور سے پوری طرح واقف ہیں۔ اس جمالیاتی شعور کا ان پر گہرا اثر ہے، اسی لیے یہ شعور بھی اُن تجربات میں اپنا اثر دکھاتا ہے۔ اس لیے ان کی غزلوں میں ہیئت کی ایک نئی فضا ملتی ہے۔

ان بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ غزل کی ہیئت پر بات کرتے ہوئے، غزل کے اسلوب اور داخلی مواد کو توزیر بحث لایا گیا ہے لیکن اُس کی خارجی شکل پر توجہ نہیں کی گئی۔ جس سے ہیئت کے بارے میں ایک شدید مغالطہ جنم لیتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب موصوف کے مضمون کے جواب میں فاضل مقالہ نگاروں نے اس مغالطے کو دور کرنے کی مختلف دلائل سے کوشش کی اور ہیئت کی اصطلاح کا ٹھوس معنی واضح کیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر سید عبداللہ کا یہ بیان مذکورہ بحث کو بہت حد تک سمیٹنے کی ایک سعی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ہیئت صرف اُس ظاہری تکمیلی صورت کو قرار دیتا ہوں جو بادی النّظر میں کسی منظوم یا ادب پارے کو دوسرے ادب پاروں سے یا اصناف سے ممیز کرتی ہے۔ یہ ظاہری شکل ہی اُس کی ہیئت ہے جو ہر چند داخلی ہیئت کا خارجی ظہو رہے۔ مگر داخلی ہیئت یا مواد کے انتخاب کی بحث کو درمیان میں لانے سے تجربے کی نوعیت کی بحث میں الجھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ غرض کسی منظوم یا ادب پارے کی ظاہری جسمانی شکل ہی اُس کی ہیئت ہو گی۔ ‘‘(۱۸)

یہاں مناسب ہو گا کہ غزل کی ہیئت اور اُس میں تبدیلیوں کے بارے میں مذکورہ با حثین کی گفتگو کے علاوہ بھی بعض ناقدین کی آرا سے اعتنا کر لیا جائے تاکہ غزل کی ہیئت میں تجربات کے سلسلے میں اس اصطلاح کا مفہوم کسی ابہام کا شکار نہ ہو۔

با بائے اردو مولوی عبدالحق کے خیال میں ہیئت سے مراد ہے :

’’ صورت، شکل، تربیت، اجزا و اعضا، ظاہری صورت، پیکر، صفاتِ خارجی، شکل یا جانور جیسا کہ وہ بظاہر نظر آتا ہے۔ ‘‘(۱۹)

ریاض احمد کے نزدیک ـ:

’’ لغوی اعتبار سے ہیئت ایک ایسی خارجی شکل کا نام ہے جو کسی چیز کی انفرادیت کی حدود کو متعین کر تی ہے۔ چنانچہ فنی اعتبار سے ہیئت اظہار کی خارجی صورت کا نام ہے …‘‘(۲۰)

درج بالا نکات کی روشنی میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ ہیئت سے مراد کسی صنف یا ادب پارے کا ظاہری و خارجی ڈھانچہ ہے اور غزل کی ہیئت کا مطلب وہ عناصر ترکیبی ہیں جن کا تعین اوپر کیا گیا ہے۔

 

 

 

 

(۲)

 

 

اردو غزل کی ہیئت میں تجربات کا آغاز ۶۰ء کی دہائی میں آزاد غزل کے رجحان سے ہوا جسے ایک طرف اپنے عہد کی سچائی قرار دیتے ہوئے ایک ’’دانشورانہ ہیئتی تجربہ ‘‘ (۲۱)گردانا گیا تو دوسری طرف ایک ’’غیر جمالیاتی اور غیر فنی حرکت ‘‘ (۲۲) قرار دیا گیا۔

اس رجحان کے آغاز کار مظہر امام ہیں اور اس سلسلے کو کرشن موہن، علیم صبا نویدی، ظہیر غازی پوری، فرحت قادری، پرویز رحمانی، مناظر عاشق ہرگانوی، فارغ بخاری، قتیل شفائی، مقصود حسنی اور بعض دیگر شعرا نے مختلف جہتوں سے آگے بڑھایا۔

آزاد غزل کا خیال بقول مظہر امام اُن کے ذہن میں آزاد نظم کے مطالعے کے بعد آیا(۲۳) چنانچہ آزاد غزل میں وہی آزادی دی گئی جو آزاد نظم گو شعرا کو حاصل ہے یعنی مصرعوں میں ارکان کی تعداد پابند غزل کی طرح پہلے سے متعین نہیں ہوتی‘‘(۲۴) اور ان میں کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔ تاہم بعض شعرا نے مزید آزادیاں بھی حاصل کرتے ہوئے اسے مختلف شکلیں دی ہیں۔ آزاد غزل کی ہیئت پر مظہر امام نے مذکورہ آزادی کے ساتھ یوں روشنی ڈالی ہے :(۲۵)

۱۔      آزاد غزل بھی ایک ہی بحر میں ہوتی ہے۔

۲۔      اس میں بھی مطلع ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے۔

۳۔     اس میں بھی مقطع ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے۔

۴۔     اس میں بھی قوافی اور ردیف کی جھنکار اسی طرح بیدار ہوتی ہے جس طرح پابند غزل میں۔

۵۔      اس میں بھی ہر شعر علاحدہ اکائی ہوتا ہے یعنی مضمون و مطلب کے اعتبار سے اپنی جگہ مکمل۔

۶۔      پابند غزل کی ہی طرح اس میں بھی اشعار کے تعداد کی کوئی قید نہیں۔

۷۔      مسلسل غزل کی طرح مسلسل آزاد غزل بھی ہو سکتی ہے۔

۸۔      آزاد غزل میں بھی اسی نوعیت کے مضامین اور خیالات نظم کیے جا سکتے ہیں جس طرح کہ پابند غزل میں۔ یعنی عاشقانہ، فاسقانہ، متصوّفانہ، ترقی پسندانہ، جدید حسّیانہ وغیرہ۔

اس بیان کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آزاد غزل کی پہچان کے تمام تر حوالے وہی ہیں جو پابند یا اصل غزل کے ہیں۔ لیکن آزاد غزل میں شاعر کو یہ آزادی ہے کہ وہ مصرعے کی پیمائش کا پابند نہیں ہے اور اپنی استعداد طبع کے باعث انھیں مختصر یا طویل کر سکتا ہے۔

اس صورت حال میں سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل میں غزل کی ہیئت کی شناخت قائم رہے گی یا نہیں ؟ کیا آزاد غزل کے خدوخال اسی طرح آسانی سے بیان کیے جا سکتے ہیں جس طرح مظہر امام نے کھینچے ہیں ؟ کیا آزاد غزل میں صرف اتنی ہی آزادی ہے کہ اُس میں مصرعے چھوٹے بڑے ہو سکتے ہیں یا یہ آزادی ایک نقطۂ آغاز ہے غزل کی متعین ہیئت سے ایک وسیع تر گریز کا؟ مصرع چھوٹے بڑے کرنے کا جواز کیا ہے ؟ اور کیا بحر کی پیمائش سے چھیڑ چھاڑسے تنگ نائے غزل کو وسیع کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ اس تخریب کے عمل سے تعمیر نو کی کوئی صورت نکلے گی ؟ اور غزل گو اس سے کس حد تک استفادہ کر سکتے ہیں ؟

ان سوالات کے جواب تفصیل اور بحث طلب ہیں لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ آزاد غزل کے نمونے دیکھ لیے جائیں۔ اس کا زمانی و تاریخی ترتیب سے جائزہ لیا جائے اور اُن مختلف شکلوں کو نقد کی کسوٹی پر پرکھا جائے جو آزاد غزل کے رجحان سے پیدا ہوئیں۔ مظہر امام نے آزاد غزل کا جو نمونہ پیش کیا وہ یہ ہے :

پھول ہو زہر میں ڈوبا ہوا پتھر نہ سہی

دوستو! میرا بھی کچھ حق تو ہے چھپ کر سہی، کھل کر نہ سہی

مسئلہ یہ ہے کہ اب بودھ کو کس طرح سے حاصل ہو نجات

مسئلہ موت کا اور زیست کا چکر نہ سہی

سانس لینا ہی اگر زیست کا معیار بنے

یہ بہت ہے کہ فلک سر پہ رہے، در نہ سہی، گھر نہ سہی

آ مرے جسم تک آ، ابرِ طرح دار کی طرح

یہ تو معلوم ہے تو جھانک نہ پائے گی مری روح کے اندر …نہ سہی

یوں بھی جی لیتے ہیں جینے والے

کوئی تصویر سہی، آپ کا پیکر نہ سہی

آج کے دور میں یہ بھی ہے اک احسانِ عظیم

غم تو دے سکتے ہیں افراد کو ہم، دل نہ سہی، سر نہ سہی

آزاد غزل کی ابتدا کے بارے میں مظہر امام کہتے ہیں :

’’ میں نے یہ تجربہ پہلی بار فروری ۴۵ میں کیا، جب میری عمر سترہ سال تھی… یہ تجربہ میں نے محض تجربے کے لیے کیا تھا… اس کی مقبولیت کے بارے میں سوچنا تو درکنار مجھے اندیشہ تھا کہ لوگ اس کا مذاق اڑائیں گے۔ اس لیے ایک عرصہ تک اسے کہیں شائع کرانے کی ہمت نہ ہوئی۔ ‘‘(۲۶)

اُنھیں یہ ہمت کرنے میں عمر کے مزید سترہ سال لگ گئے اور اُن کی پہلی آزاد غزل ۱۹۶۲ ء (۲۷)میں شائع ہوئی۔ غزل یہ تھی :

ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا آپ ہیں

عشق طوفاں ہے، سفینا آپ ہیں

آرزوؤں کی اندھیری رات میں

میرے خوابوں کے افق پر جگمگایا جو ستارا آپ ہیں

کیوں نگاہوں نے کیا ہے آپ ہی کا انتخاب

کیا زمانے بھر میں یکتا آپ ہیں

میری منزل بے نشاں ہے، لیکن اس کا کیا علاج

میری ہی منزل کی جانب جادہ پیما آپ ہیں

ہائے وہ ایفائے وعدہ کی تحیر خیزیاں

اُن کی آہٹ پرہی گھر کا کونا کونا چیخ اٹھا تھا کہ ’’اچھا آپ ہیں ‘‘

اسی سال مظہر امام کا اوّلین مجموعۂ کلام ’’زخم تمنا‘‘ شائع ہوا جس میں مذکورہ آزاد غزل شامل تھی۔ اس مجموعے پر مبصّرین نے جہاں اور حوالوں سے گفتگو کی وہاں غزل کی اس اجنبی ہیئت پر بھی بات چیت ہوئی اور اسے قبولیت عام حاصل کرنے کے حوالے سے شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

آزاد غزل کے بارے میں مزید تاریخی حقائق اور اس کی ہیئتی اشکال کے جائزے سے قبل فیض احمد فیض کی ایک تخلیق کا قضیہ حل طلب ہے۔ ڈاکٹر خالد علوی نے ’’غزل کے جدید رجحانات‘‘ میں فیض کی ایک آزاد غزل کا حوالہ دیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’فیض کے تمام و کمال کلام میں صرف یہی ایک آزاد غزل دستیاب ہے۔ ‘‘(۲۸)یہ غزل ملاحظہ ہو:

شوق دیدار کی منزلیں

پیار کی منزلیں

دل میں پہلی لپک عشق کے نور کی

حسنِ دلدار کی منزلیں

دور پہلی جھلک شعلہ طور کی

نورو انوار کی منزلیں

آن ملنے کے دن

اپنی دھرتی کے آباد و بازار کی منزلیں

منزلیں منزلیں

قول و اقرار کی منزلیں

پھول کھلنے کے دن

حسن عالم کے گلزار کی منزلیں

آس کی پیاس کی

چاند راتوں کی ویران سنسار کی منزلیں

یہ امر واقعہ ہے کہ فیض کے دستیاب اور مطبوعہ کلام میں اس غزل کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ البتہ ’’شام شہریاراں ‘‘ میں ایک گیت ( جو انھوں نے فلم ’’قسم اُس وقت کی ‘‘ کے لیے بطور فرمائش لکھا تھا ) شامل ہے۔ جس کے متن کے بعض مصرعے مذکورہ مبینہ آزاد غزل سے مماثل ہیں۔ تاہم اس گیت کے مصرعوں کی ترتیب آزاد غزل کی طرح قطعی نہیں گیت کا متن یہ ہے :

منزلیں، منزلیں،

شوق دیدار کی منزلیں،

حسن دلدار کی منزلیں، پیار کی منزلیں

پیار کی بے پنہ رات کی منزلیں،

کہکشانوں کی بارات کی منزلیں،

سربلندی کی ہمت کی، پرواز کی

جوش پرواز کی منزلیں

راز کی منزلیں

زندگی کی کٹھن راہ کی منزلیں

سربلندی کی ہمت کی، پرواز کی منزلیں

جوشِ پرواز کی منزلیں

راز کی منزلیں،

آن ملنے کے دن

پھول کھلنے کے دن

وقت کے گھور ساگر میں صبح کی

شام کی منزلیں،

چاہ کی منزلیں

آس کی، پیاس کی،

حسرت یار کی

پیار کی منزلیں،

منزلیں حسن عالم کے گلزار کی

منزلیں، منزلیں

موج در موج ڈھلتی ہوئی رات کے درد کی منزلیں

چاند تاروں کے ویران سنسار کی منزلیں

اپنی دھرتی کے آباد بازار کی منزلیں

حق کے عرفان کی

نور انوار کی منزلیں،

وصلِ دلدار کی منزلیں

قول و اقرار کی منزلیں،

منزلیں، منزلیں

فیض کے ہاں تو آزاد غزل کی کوئی مثال نہیں ملتی، البتہ ظفر اقبال کے ہاں ایک نمونہ ضرور ہے، جو ’’رطب ویابس‘‘ میں شائع ہوا:

اس مکاں کو اُس مکیں سے ہے شرف

یعنی اک افواہ سی اڑنے لگی ہے ہر طرف

یہ ہوا پرزے اڑا دے گی ہمارے

کاش کر لیتے وہ اپنے ساتھ لف

چور ہوں اور چور کا ہو کیا علاج

ماسوائے ہینڈ کف

کف بہ کف

صف بہ صف

وصل کا وعدہ وہ کتنی خوش دلی سے کر رہا تھا

ہم کو بھی معلوم تھا، کرتا ہے بلف

معترض کے منہ سے کتا ہے بندھا

اس لیے سننا پڑے گی عف عف

ہاں اگر رکھتے چلیں فن کے لوازم کا خیال

کام تو خاصا ہے ٹف

خوب ہے دیوان، لیکن

خوب تر ہوتا اگر کچھ حصہ کر دیتے حذف

نظر ثانی بھی کریں گے اس غزل پر اے ظفرؔ

فی الحال تو لکھی ہے رف

رف عمل کا نتیجہ اس غزل کی اشاعت شعوری ہے یا سہولیکن یہ ظفر اقبال کے لیے ایک سوال ہے کہ وہ غزل میں لفظ اور اسلوب کی تمام تر اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود اپنے اس عقیدے کا اظہار بارہا کر چکے ہیں کہ ’’انحرافی حوالے سے غزل کی ہیئت میں کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں اور اگر ہو بھی تو پھر غزل، غزل نہ رہے گی۔ ‘‘(۲۹)

۱۹۶۸ء میں کرشن موہن کا مجموعہ ’’غزال‘‘ شائع ہوا تو ’’ہیئت غزل میں ایک اور تجربہ ‘‘ کے عنوان سے چند غزلیں اس دعوے اور ’’نوید ‘‘ کے ساتھ سامنے آئیں کہ ’’اس سے غزل کے آہنگ میں قدرے آزادہ روی آ گئی ہے جو روایتی غزل کے یکساں مصرعوں کی بوریت کا درماں ہے۔ ‘‘ (۳۰) (گویا مجموعے میں شامل باقی تمام غزلیں بور ہیں اور یہ تر و تازہ ہیں ) کرشن موہن نے غزل کی ہیئت میں دو طرح کی تبدیلیاں کیں۔ ایک یہ کہ پہلے مصرعے میں بحر کے کچھ ارکان کم ہیں جبکہ مصرعہ ثانی مکمل بحر میں ہے۔ پوری غزل میں یہی التزام ہے۔ غزل یہ ہے :

وصل رنگیں کا مزہ اتنا نہ لوٹ

آگہی و ہوش کا رشتہ ہی جس سے جائے ٹوٹ

مت سمجھ اس کی وفا کو جھوٹ موٹ

ایسے اکثر عشق میں تقدیر بھی جاتی ہے پھوٹ

اتنی بدمستی بھی تو اچھی نہیں

کیف دل ہے ساغرِ مے، ہاتھ سے جائے نہ چھوٹ

موت ظلمت، زندگی نور مدام

کس قدر سنگیں ہے یہ سچ، کس قدر رنگیں یہ جھوٹ

کب تلک اس کو سنبھالیں، کیا کریں

کرشن موہن ! من تو کومل کانچ ہے، جائے گا ٹوٹ

دوسری صورت، اس کی ہیئت معکوس ہے۔ یعنی مصرعہ اول مکمل بحر میں ہے جبکہ

مصرعہ ثانی میں کمی کی گئی ہے۔ اس کے صرف دو شعر دیکھیے :

نیستی کے وہم نے مدت سے کر رکھا ہے تنگ

راس آتا ہی نہیں ہستی کا رنگ

درد سے کیوں بھر نہ آئے رنگِ دنیا دیکھ کر

کرشن موہن ! دل نہیں ہے خشت وسنگ

علیم صبا نویدی کے مجموعۂ کلام ’’ردّ کفر ‘‘ کی یہ انفرادیت ہے کہ آزاد غزل کا یہ پہلا مجموعہ ہے۔ جس میں ۶۲ آزاد غزلیں ہیں۔ انھوں نے بھی کرشن موہن کی طرح مصرعوں میں ارکان کی کمی بیشی کی ہے۔ تاہم یہ التزام ہے کہ ہر شعر کا ایک مصرعہ ضرور مکمل بحر میں ہے۔ اس کی صورت یہ ہے :

روشنی چھین کے لے جاؤ تو کچھ بات بنے

مجھ کو تڑپاؤ تو کچھ بات بنے

زینہ زینہ مری سوچوں کی طرح

آسمانوں سے اتر آؤ تو کچھ بات بنے

سمٹا سمٹا سانظر آتا ہے سارا عالم

تم بکھر جاؤ تو کچھ بات بنے

ہے مرے پاس مرا جوہر فن

وقت کو آئنہ دکھلاؤ تو کچھ بات بنے

بے کراں دشت میں کیوں جا کے صبا کو ڈھونڈیں

مرے گھر آؤ تو کچھ بات بنے

اس ہیئت میں کم و بیش ۳۲ غزلیں ہیں۔ دوسری صورت یہ کی گئی ہے کہ شعر کا  مصرعۂ ثانی مکمل ہے جبکہ مصرعۂ اول میں ارکان اتنے کم ہیں کہ مصرعہ نصف ہو گیا ہے۔ اس ہیئت میں ۹ غزلیں کہی گئی ہیں۔ دو شعر بطور مثال ملاحظہ ہوں :

شکوہ کیا تقدیر کا

جب نہیں پیراہن کاغذ مری تصویر کا

ٹوٹتا جاتا ہوں میں

زخم خوردہ، راہ غم میں ہے قدم تدبیر کا

کرشن موہن اور علیم صبا نویدی نے غزل کے لیے جو ہیئت اختیار کی ہے اُس میں آزادی کے ساتھ ساتھ پابندی بھی ہے۔ یعنی ایک مصرعہ مکمل جبکہ دوسرے میں رکن یا ارکان کی کمی ہے، جبکہ پابندی یہ ہے کہ شعر کا ایک مصرعہ ضرور مکمل ہے۔

قتیل شفائی کا مجموعۂ کلام ’’آموختہ ‘‘ ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا، جس میں کچھ ایسی غزلیں شامل تھیں، جنھیں محض ’’تجرباتی ‘‘ کہا گیا لیکن اس تجربے کو کوئی عنوان نہیں دیا گیا۔ ان میں سے کچھ غزلیں ’’ آموختہ ‘‘کے منظر عام پر آنے سے پہلے ’’افکار ‘‘کراچی میں شائع ہوئی تھیں، جن کے ساتھ ایک نوٹ دیا گیا :

’’ غزلوں کی ہیئت میں تبدیلی بظاہر محال ہے، مگر کیوں نہ اس ضمن میں بھی تجربہ کر لیا جائے۔ غزل کی ہیئت میں جو عناصر زیادہ اہم ہیں۔ وہ قافیہ ردیف ہیں کہ انھیں سے غزل کو صوت و آہنگ کی دلکشی ملتی ہے۔ ردیف کو بھی نظرانداز کر دیں تو قافیہ بہرحال غزل کی جان رہے گا۔ سو میں نے قافیہ ردیف کو نہیں چھیڑا۔ صرف کبھی مصرعہ ہائے اول میں اور کبھی مصرعہ ہائے ثانی میں چند رکن کم کر دیے ہیں۔ اس طرح نہ تو غزل کی نغمگی مجروح ہوتی ہے اور نہ ہی موثر طور پر مضامین باندھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ غزل کی یہ ہیئت بعض صورتوں میں صوت و آہنگ کے تقاضے زیادہ خوش اسلوبی سے پوری کر سکتی ہے۔ ‘‘(۳۱)

قتیل شفائی نے اپنے تجربے کی جو نوعیت پیش کی ہے، اُس کی عملی شکل اس غزل میں دیکھیے :

گنگناتا ہے لہو یوں مری شریانوں میں

جیسے قیدی کوئی زندانوں میں

اس سے بہتر ہے کہاں بادہ احمر کا بدل

اپنا خوں پی جیے پیمانوں میں

کتنی تقسیم ہے اندر سے وہ جانِ محفل

اک سبا اتنے سلیمانوں میں

بچ کے رہنا ہے اگر تجھ کو ندامت سے قتیل

جھانک اوروں کے گریبانوں میں

تجرباتی غزل کی یہ وہ ہیئت ہے جو قتیل سے پہلے کرشن موہن اور علیم صبا نویدی کے ہاں ملتی ہے اس لیے انھیں تجربے کی اوّلیت کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔ قتیل نے ہیئت کے جو چند دیگر نمونے پیش کیے ہیں۔ وہ بھی مظہر امام کی پیش کردہ آزاد غزل سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ اس لیے انھیں خود بھی بالآخر اپنی تجرباتی غزلوں کو ’’آزاد غز ل‘‘ ہی کہنا پڑا۔ اس سلسلے میں مظہر امام نے اپنے مضمون میں قتیل کے ایک خط کا اقتباس دیا ہے جس میں قتیل نے یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ تجربات کے کوچے میں آزاد غزل ہی سے متاثر ہو کر آئے،ا س لیے اُن کی غزلوں کے لیے کوئی الگ نام مناسب نہیں۔ (۳۲)

تجرباتی غزلوں کے سلسلے میں ظہیر غازی پوری نے ایک نئی ہیئت کا تصور پیش کیا۔ انھوں نے مصرعوں کے ارکان میں کمی بیشی کی ہے لیکن یہ التزام شعر کے دونوں مصرعوں میں ہے۔ یعنی یہاں مصرعے چھوٹے بڑے نہیں ہیں بلکہ اشعار مختصر یا طویل کیے گئے ہیں۔ ان غزلوں میں ہر شعر مساوی الارکان ہے لیکن بحیثیت مجموعی غزل متّحد الوزان نہیں ہے۔ یہ غزلیں پہلی بار شاعر کے اس نوٹ کے ساتھ شائع ہوئیں :

’’میرا یہ ہیئتی تجربہ مظہر امام کے ہیئتی تجربے سے زیادہ کارآمد اور مفید ثابت ہو گا اور اسے شرف قبولیت حاصل ہو گا۔ مظہر امام کے ہیئتی تجربے سے غزل کی طاقت پر ضرب پڑتی ہے۔ اس لیے کہ شعر کے دونوں مصرعوں میں کمی بیشی کی آزادی دی گئی ہے اور فنی اصطلاح میں ایسے شعر ناموزوں کہے جاتے ہیں۔ ہاں اگر آزاد غزل یوں کہی جائے کہ ارکان کی کمی بیشی کی آزادی تو رہے لیکن ہر شعر کے دونوں مصرعوں کے ارکان برابر ہوں تو یہ ہیئتی تجربہ زیادہ رواج پا سکے گا اور اس سے غزل کی ساخت بھی مجروح نہ ہو گی۔ ‘‘(۳۳)

ظہیر غازی پوری کے تجربے سے غزل کی ساخت مجروح ہوتی ہے کہ نہیں، اس سوال پر آگے بحث ہو گی۔ سردست اُن کے تجربے کی نوعیت دیکھیے :

صحن سے گزرو تو آنگن آئے گا

روشنی کا ایک مسکن آئے گا

قتل احساسات کا الزام مجھ کو دیں مگر

تذکرہ تو آپ کا بھی احتراماً آئے گا

فکر کی ہر راہ میں

مقتل فن آئے گا

دھوپ اڑ جائے گی ہر دہلیز سے

آنکھیں برسیں گی تو ساون آئے گا

آج پھر چھپر پہ بیٹھا کالا کوا کَہ گیا

سال گزرا، چھٹیاں اب ہوں گی ساجن آئے گا

سوچتا ہوں، خود کو پہچانوں گا میں

سامنے جب میرے درپن آئے گا

عقل کو بن باس دیتی جائے گی جب زندگی

توڑ کر ہر حدِّ فاصل روز راون آئے گا

آزاد غزل کے اس نوع کے تجربے پر آزاد غزل کے باحثین نے ملے جلے ردِّ عمل کا اظہار کیا۔ اسے ایک طرف غزل کی کلاسیکی روایات کے پاسداروں کے لیے تسلی کا سامان قرار دیا گیا(۳۴) تو دوسری طرف شعر میں مصرعوں کی پیمائش یکساں ہونے کے باعث اسے آزاد غزل کی شناخت کی حدوں سے باہر سمجھا گیا۔ (۳۵)

آزاد غزل کی اس ہیئتی شکل کو ’’ذو بحرین غزل‘‘ بھی قرار دیا گیا۔ (۳۶) ڈاکٹر گیان چند جین کا خیال ہے کہ ’’اسے غزل کی ذیلی صنف نہیں عروضی تجربہ کہنا چاہیے۔ ‘‘ (۳۷)

فارسی غزل کی روایت کو دیکھا جائے تو بعض شعراء اپنی غزل میں عروض کا ایسا اہتمام کرتے تھے کہ غزل بیک وقت کئی بحروں میں پڑھی جا سکتی۔ ’’فیضی نے ایسی ہی ایک غزل لکھی جو مرصّع بھی ہے اور چار مختلف بحروں میں پڑھی جا سکتی ہے … قاضی مغیث ہانسوی ( بعہد سلاطینِ ہند) نے ایک ایسی غزل لکھی جو انیس بحروں میں پڑھی جا سکتی ہے۔ ‘‘(۳۸) غزل میں اس عروضی اہتمام کو صنعتِ متلّوِن کہا جاتا تھا لیکن ظہیر غازی پوری کا تجربہ اس صنعت سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا کہ اس میں بحر ایک ہی ہے صرف اشعار میں اُن کے رکن کم یا زیادہ کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں کرامت علی کرامت کے دو شعر بھی دیکھیے :

کر رہے ہو سچ سے کیوں تم اختلاف

دیکھ لو چہرہ کہ آئینہ ہے صاف

خاص منزل پر پہنچ کر دونوں بن جاتے ہیں ایک

عقل و دل میں گرچہ رہتا ہے بظاہر اختلاف

آزاد غزل کے وسعت کاروں میں ایک نام فرحت قادری بھی ہے۔ جو آزاد غزل کی تمام تر شکلوں کو اُسی تجربے ہی کی توسیع سمجھتے ہیں جو مظہر امام نے پیش کیا۔ فرحت قادری نے آزاد غزل کی تشکیل جن ہیئتوں سے کی ہے اُن میں بیشتر اُن شکلوں سے مختلف نہیں ہیں جو دیگر شعرا نے اختیار کیں اور اُن پر بحث کی جا چکی ہے۔ لیکن ایک شکل اتنی منفرد ہے کہ جسے دیکھ کر قاری چونک اُٹھتا ہے۔ اس ہیئت میں غزل کے ساتھ عجیب و غریب کام کیا گیا ہے۔ غزل کا آغاز اختیار کی گئی بحر کے صرف ایک رکن سے ہوتا ہے لیکن مطلع سے لے کر غزل کے آخری شعر تک ہر اگلے مصرع میں بحر کے ایک رکن کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یوں غزل کی شکل اس طرح بنتی ہے :

یقیں ہے

جہاں کچھ نہیں ہے

خلاؤں کا دامن ہے خالی

جو میں ڈھونڈھتا ہوں وہ زیر زمیں ہے

مرے خواب اب پلتے پلتے جواں ہو گئے ہیں

ہر اک سانس میں ایسی شورش ہے گویا لبِ آتشیں ہے

مثالوں کی دنیا میں ہر شے کی تشبیہ ممکن ہے مل جائے لیکن

مری دھڑکنوں کا جو عالم ہے اُس کی زمانے میں تشبیہ کوئی نہیں ہے

فرحت قادری نے اسی ہیئتی تجربے کی صورت معکوس کا تجربہ بھی کیا ہے جس میں مطلع سے لے کر آخر شعر تک ہر اگلے مصرعے میں ایک رکن کی تخفیف کی گئی ہے۔ اس تجربے میں غزل کی شکل یہ بنتی ہے :

جیون کے رستے میں جب ہے منزل کے آگے منزل

پھر اُس غم کی حد کیا ہو گی، جس پر نازاں ہے دل

پنچھی پلٹے جب سائے کے پر پھیلائے

اڑتی سوچیں بھی رکھتی ہیں ساحل

اجڑی، اجڑی، سونی سونی

میرے دل کی محفل

میں ہوں اپنا

قاتل

’’فرحت قادری کی یہ آزاد غزل صوری اعتبار سے ’’مثلث غزل ‘‘ کے نام سے موسوم کی جائے تو مناسب ہو گا‘‘ (۳۹) اس تجربے میں ایک مسئلہ ہے کہ جونہی بحر کے ارکان ختم ہوتے ہیں غزل آگے نہیں بڑھتی اس لیے اگر اس تجربہ کووسعت دی جائے اور جہاں بحر کے ارکان ختم ہوں وہاں سے ایک اور غزل شروع کر دی جائے جس کے ہر اگلے مصرعے میں رکن بڑھنا شروع ہو جائے، تو یہ ایک اور عجوبۂ روزگار تجربہ ہو گا اور اس تجربہ کو اگر اسی نوع سے مزید وسیع کیا جائے یعنی جہاں ارکان پہلی غزل کے پہلے مصرعے کے برابر ہو جائیں، وہاں پھر کم کرنا شروع کر دیا جائے تو شاعری کے منظر نامے پر ایک ’’سلسلۂ کوہِ غزلات ‘‘ تخلیق ہو سکتا ہے۔ اب یہ سوال الگ ہے کہ اس سنگلاخ عمل کے بعد ہیئت غزل کی شناخت کا دریا کس سمت بہے گا؟

آزاد غزل کے لیے قتیل شفائی نے ایسے شعرا کو زیادہ موزوں اور مناسب خیال کیا ہے جنھیں ’’صوت و غنا کا پورا شعور ہو اور وہ اسے ایک ایسی صنفِ سخن کے مقام تک پہنچا سکیں جو غزل اور گیت کی یکجائی کا لطف دے سکے۔ ‘‘(۴۰) نہیں معلوم کہ غزل کی ہیئت میں نئے نئے تجربات کرتے ہوئے یہ فلمی نوعیت کا تقاضا کیوں کیا گیا ہے لیکن آزاد غزل کے قافلے میں ایک نام پرویز رحمانی ایسا بھی ہے جو اس تقاضے کی تکمیل کر رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ انھوں نے آزاد غزل کو آزاد غزل کے بجائے اس کے لیے ایک ادغامی اصطلاح(Portmenteau Term) وضع کرتے ہوئے اسے ’’گیتل ’’ کا نام دیا ہے۔ (یعنی گیت +غزل =گیتل )

پرویز رحمانی نے اس سلسلے میں آزاد غزل کی مذکورہ ہیئتوں سے ہٹ کر غزل کی ساخت کا کوئی نیا تصور تو نہیں دیا لیکن اس سلسلے میں موصوف نے ہندی بحر اور لفظیات سے ایک نیا غنائی ذائقہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کی غزل دیکھیے :

کھلے پڑے ہیں میرے آگے برہ کے اشٹ ادھیائے

مت کر اب انیائے

اب تو سونا پن بھی اکیلا پا کر کاٹنے دوڑے

رات الگ دہلائے

آہ سہاگن ڈاہ

سکھیوں کا گدرایا جوبن بھی اب نہ سہائے

تیرا کیا ہے تجھ پر سمٹے دیالو

تو کیا سوچے گا مجھ پر کیا آئے جائے

میں بھی چنتا وشے ہوں پیتم

کون تجھے سمجھائے

سب کی ہولی، سب کی دوالی

میری ہی نہیں ہائے

ہو کر بھی میں نہیں ہوں تیری

من کو لگی ہے سچ مچ میں رحمانیؔ جی کی رائے

اردو غزل کی ہیئت میں بعض ایسے بھی تجربے ہوئے ہیں کہ اسے اردو شاعری کی دیگر اصناف میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں حسن مآب واقف کا دو بیتی کا غزل کا تجربہ سامنے آیا ہے جس میں غزل کے شعر کی ارکان کو دو مصرعوں کے بجائے دو شعروں تک پھیلایا گیا، یعنی پوری غزل میں اشعار کے بجائے قطعات رقم کیے جائیں گے۔ ان کا تجربہ ملاحظہ ہو :

ہم کہ خاکستری پیکر کو دھواں جانتے ہیں

پہلی فرصت میں چلی جائے گی جاں جانتے ہیں

بزم دیکھو کہ تماشائی بنے ہیں ہم لوگ

ڈوب جائیں گے یہ خطرہ کا نشاں جانتے ہیں

کس طرح پکڑیں قلم اور کماں جانتے ہیں

پینترے جنگ کے سب ہم بھی میاں جانتے ہیں

پتھرو! ہم سے نہ ٹکراؤ کہ ہم شیشہ فروش

کیسی یہ چلتی ہے یہ شیشے کی دکاں جانتے ہیں

کیسے جھکتی ہے بڑھاپے میں کماں جانتے ہیں

جا کہ رکتی ہے کہاں ہم عمر ر رواں جانتے ہیں

ہم کو معلوم ہے انجام بہاراں واقف

کیسے آتی ہے دبے پاؤں خزاں جانتے ہیں

دیگر اصناف شعر کے ساتھ غزل کی آمیزش کے تجربات کے سلسلے میں ’’دوہا غزل‘‘ اور ’’ماہیا غزل‘‘ بھی لکھی گئی، جن میں ہیئت غزل کی ہے لیکن اشعار کا ذائقہ منسوب اصناف کا ہے۔

اردو غزل کی ہیئت میں تبدیلیوں کے سلسلے میں ایک قابل ذکر تجربہ خاطر غزنوی نے ’’مطلعاتی غزل‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ اس تجربے نے غزل کی بنیادی ساخت کو آزاد غزل کی طرح مصرعوں کی پیمائش کے حوالے سے متاثر نہیں کیا لیکن اس ہیئت میں تمام اشعار مطلع کی طرز پر کہے گئے ہیں۔ یہاں یہ امر بطور خاص لائق ذکر ہے ہر مطلع کا نظام قوافی مختلف ہے جبکہ ردیف میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس کی مثال ملاحظہ ہو:

ہر زخم ہوا زخم کا مرہم، اسے کہنا

ہونٹوں پہ نہیں ہے مرے اب دم، اسے کہنا

پو جے ہیں جوانی میں بہت بت، اسے کہنا

اب بیت گئی کفر کی وہ رت، اسے کہنا

اپنائی ہے کچھ اور ہی دنیا، اسے کہنا

اب آ گیا تنہائی میں جینا، اسے کہنا

پایا نہیں گو کچھ اسے پا کر، اسے کہنا

تبدیل مگر ہو گئے منظر، اسے کہنا

غزل کی روایت میں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ شاعر ایک غزل کے بعد قافیہ بدل کے غزل در غزل تخلیق کرتا ہے اور ہر غزل اپنے الگ نظام قوافی کے باعث ایک نیا ذائقہ رکھتی ہے جبکہ مطلعاتی غزل کا تجربہ ایسا ہے کہ ’’ اس میں غزل کا وہ رچاؤ پیدا نہیں ہوتا جو قافیوں کی صورت گری اور آہنگ سے پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘(۴۱)

مطلعاتی غزل میں قافیے کی صرف ہیئتی ضرورت سے روگردانی نہیں کی گئی بلکہ اس نفسیاتی تقاضے سے بھی بے تو جہی برتی گئی ہے جس سے غزل کا داخلی تارو پود تشکیل پاتا ہے۔

مطلعاتی غزل میں جیسا کہ مثال سے ظاہر ہے غزل کو مثنوی کی ہیئت سے بھڑا دیا گیا ہے۔ مثنوی کا ہر شعر الگ مطلع ہوتا ہے اور مطلعاتی غزل کی شکل مثنوی سے مختلف نہیں ہے اور یہاں یہ بات بھی سوچنے کے لائق ہے کہ شاعر بعض اوقات مطلع کہنے کے بعد کسی بھی وجہ سے مزید اشعار نہیں کہہ سکتا اور اگر اُس کے پاس اس طرح چند مطلعے ایک ہی بحر میں اکھٹے ہو جائیں تو کیا وہ مجموعی طور پر ایک غزل کی شکل میں ڈھل سکتے ہیں ؟ اگر یہ ممکن ہے تو ’’مطلعاتی غزل ‘‘ اپنا جواز رکھتی ہے۔

اردو غزل میں تجربات کی زمانی ترتیب کے لحاظ سے فارغ بخاری کی ’’غزلیہ‘‘  کا ذکر ذرا پہلے ہونا چاہیے تھا لیکن اُن تجربات کی نوعیّت اتنی مختلف ہے کہ انھیں مباحثِ بالا میں خلط ملط نہیں کیا جا سکتا۔

اب تک جتنے بھی تجربات کا جائزہ لیا گیا ہے اُن میں ہیئت غزل میں شکست و ریخت کے تمام تر عوامل کے باوجود دو عناصر ترکیبی سے گریز نہیں کیا گیا۔

۱۔       شعر کی ماہیت جو دو مصرعوں سے تشکیل پاتی ہے۔

۲۔       غزل کا نظامِ قوافی جس کے مطابق ہر شعر کے دوسرے مصرعے کے آخر میں قافیہ باندھا جاتا ہے۔

فارغ بخاری کی ’’غزلیہ‘‘ میں کیے گئے تجربات میں مذکورہ عناصر سے بھی گریز کی جرأت کی گئی ہے۔ اُن کا یہ شعری مجموعہ پہلی بار ۱۹۸۱ء میں اور دوسری بار ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا۔ اس کے دیباچے (۴۲) میں فارغ بخاری نے اپنے تجربات کا جواز جن دلائل سے دیا ہے۔ انھیں ذیل میں نکات کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے :

۱۔      نئے تجربات کا مطلب ہیئت کی قدیم شکل کو منسوخ کرنے کا آرڈینس جاری کرنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک اضافہ ہے۔

۲۔      ایک مصرعہ کتنا ہی مکمل کیوں نہ ہو۔ شاعر کو شعر بنانے کے لیے مجبوراً دوسرا مصرعہ کہنا پڑتا ہے۔

۳۔     غزل کا ایک اچھا شعر جولانیِ طبع کے باعث تخلیق ہو جاتا ہے جبکہ باقی اشعار محض قافیہ و ردیف نبھانے کے لیے بھرتی کیے جاتے ہیں۔ میرؔ کے ضخیم کلیات میں بھی نشتر ۷۲ نہ سہی، اس سے دس گنا ہی زیادہ ہوں گے۔

۴۔      ’’غزلیہ ‘‘ کے تجربات کا مقصد اظہار کی زیادہ سے زیادہ آزادی فراہم کرنا ہے۔ اگر شعر ایک، ڈیڑھ یا چھوٹے بڑے مصرعوں میں کہا جا سکتا ہے۔ تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ نیز یہ تجربات قافیہ اور ردیف کی ناروا جبریت سے بھی آزادی کاسامان ہیں۔

فارغ بخاری کے ہاں غزل کی ہیئت میں تجربات کی پانچ انواع ہیں۔ ذیل میں ہر نوع اور اُس کی مثالیں ملاحظہ ہوں :

۱۔       ایک ہی بحر اور وزن کے مختلف قافیہ و ردیف کے مکمل مصرعوں کی غزل :

زرد پتوں کو بھی ہے تازہ ہواؤں کی طلب

ہر مسافر اک نئی منزل کا راہی ہے یہاں

تجربے جو کچھ سکھاتے ہیں کتابوں میں نہیں

کاغذی پھولوں سے اب گل دان بھی سجنے لگے

جس نے بھی پرواز سیکھی پر لگا کر اڑ گیا

فارغ اب ہیں ٹوٹنے کو وقت کے اعصاب بھی

غزل کی اس مجوزہ ہیئت میں صرف غزل کی ساخت ہی سے گریز نہیں بلکہ شعر کی ماہیت پر بھی ضرب کاری لگائی گئی ہے۔ جدید ہیئتوں کے متلاشی شاعروں نے یک مصرعی نظم کا تصور پیش کیا ہے۔ فارغؔ کی اس غزل میں اسی تجربے کی بازگشت ہے۔ اس نوع کو ایک ہی بحر اور وزن میں مختلف قافیہ و ردیف کے مکمل مصرعوں کی غزل کا نام دیا گیا ہے۔ جبکہ یہاں قافیے اور ردیف کا مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے کہ مصرعہ ایک ہی ہے جس کا اختتام کسی بھی کلمہ یا کلمات پر ہو سکتا ہے۔ سو قافیہ ردیف کا کیا سوال ہے ؟

۲۔      مختلف بحور کے مختلف قافیہ و ردیف کے مصرعوں کی غزل :

جنم لیتی ہے خوشبو جب ہوا پھولوں کو بوسہ دے

حقیقت واسطوں سے ہم نے اپنائی ہے قسطوں میں

تضاد دانتا تھا میں اُس کے ساتھ نہ چل سکا

کوئی موسم اجنبی موسم نہیں

یہ نوع پہلی قسم میں مزید تخریب ہے۔ اس ہیئت میں فارغ صاحب نے بعض غزلوں میں بحر ایک ہی رکھی ہے لیکن مصرعوں کے ارکان میں کمی بیشی کی ہے :

۳۔      ڈیڑھ مصرع کی مربوط غزل (آزاد غزل )؟

لغزش پا سے بھی بن جاتے ہیں نقش پا کبھی

آدمی قطرہ کبھی، دریا کبھی

کیا یہی تعبیر ہے ان خوش نما خوابوں کی جو

ہم نے دیکھے تھے کبھی

کس قدر بے رحم ہے سفاک موسم کی ہوا

زرد پتوں کے لیے

روشنی کو ظلمتیں زنجیر کر سکتی نہیں

روشنی ہے روشنی

زخم ہیں ہر فرد کے فارغؔ جدا

درد لیکن ایک ہے

اس ہیئت کو خود شاعر کو کوئی عنوان نہیں دے سکا۔ دیباچے میں اسے ’’ڈیڑھ مصرعوں کی آزاد غزل ‘‘ جبکہ متعلقہ حصے پر ’’ڈیڑھ مصرعوں کی مربوط غزل ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ آزاد غزل کی ہیئت جو کرشن موہن، علیم صبا نویدی اور فرحت وغیرہم نے پیش کی ہے اس کے مصرعہ ثانی مقفٰے ہیں۔ جبکہ یہاں یہ صورت حال نہیں ہے۔ رہا مربوط غزل کا عنوان تو سوال یہ ہے کہ یہ ربط کس نوع کا ہے ؟

یہاں یہ امر بھی قابلِ لحاظ ہے کہ ہیئت کی نوع اوّل میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر ایک مصرعے میں بات مکمل ہو جائے تو دوسرا مصرعہ کوئی جواز نہیں رکھتا۔ مذکورہ غزل میں تمام مصرعہ ہائے اول ایک مکمل معنوی اکائی رکھتے ہیں۔ اور یوں باقی نصف مصرعہ بالکل بے جواز ہے۔

۴۔      مختلف بحور کے مختلف قافیہ و ردیف کی غزل :

ہر پھول کے وجود میں عکس بہار ہے

ہر نو شگفتہ غنچے سے خوشبو کو پیار ہے

سمندروں پہ تھکے بادلوں کی سرگوشی

ترے ملن کے نشیلے سمے میں ڈوب گئی

اک اور سال جسم کو ویران کر گیا

اک آندھی آکے اڑا لے گئی مجھے

اُس سفر پہ نکلے ہیں جس کی منزلیں فارغؔ

اپنے کاروانوں سے آگے آگے چلتی ہیں

اس نوع میں سوائے مطلع کے قوافی اور ردیف اور آخری شعر میں تخلص کے اور کوئی بات ہیئت غزل سے علاقہ نہیں رکھتی۔ شعری مجموعوں میں غزلیات کے بعد فردیات دیے جاتے ہیں، جس میں مطلع، مقطع اور آزاد نوع کے اشعار ہوتے ہیں۔ اگر مذکورہ ہیئت غزل قرار دی جائے تو فردیات کو صنفِ غزل کے اعزاز سے کیوں محروم رکھا جائے۔

۵۔      ایک ہی بحر کے مختلف قافیہ، ردیف کے اشعار کی غزل :

نظر نہ آئی کبھی اپنے گھر کی تاریکی

جلا رہا ہوں میں کب سے چراغ راہوں میں

چمن میں رہتے ہوئے ایسی خو پڑی ہے اب

قفس میں بھی ہمیں ہوتی ہے تیلیوں کی تلاش

وہ اتنی نازک و نرم و گداز ہے کہ اگر

بریف کیس میں آ جائے تو عجب بھی نہیں

کہاں وہ راتیں کہ تنہائیاں قیامت تھیں

اب اپنے سائے کے پہلو میں سو نہیں سکتے

میں دھوپ کی طرح پھیلا ہوں ساری دھرتی پر

مری حرارت و راحت ہے سب جہاں کے لیے

ہیئت کی اس آخری شکل، جس میں شعر کی ماہیت پر ضرب نہیں پڑتی ہے۔ تجربے کے نقطۂ نظر سے قابلِ لحاظ ہے۔ اگرچہ قافیہ اور ردیف کا نظام نہ ہونے سے یہ اشعار بھی فردیات ہی ہیں تاہم ہیئت غزل میں تجربے کرنے والے شعرا نے ایک شکل جسے مظہر امام نے ’’معّرا غزل‘‘ کا نام دیا ہے۔ (۴۳) بھی متعارف کرائی ہے اور فارغ صاحب کی پیش کردہ ہیئت کا فریم بھی یہی ہے۔ ’’معّرا غزل ‘‘ کے حامیوں نے یہ اعلان کیا کہ:

’’اب وقت آ گیا ہے کہ جب صنفِ غزل کو بھی روایتی بحر و وزن کے جنگل سے نجات دلائی جائے اور اُس میں داخلی تغیر اور تعمیری آہنگ کو عروضی آہنگ کا نعم البدل قرار دیا جائے۔ اس طرح غزل روایتی صنف سے اپنے رشتے برقرار رکھتے ہوئے بھی تجربہ کاری کی توثیق کرے گی۔ تاہم ردیف و قافیہ غزل کا لازمی عنصر نہیں ہو گا۔ ایسی بھی غزلیں لکھی جا سکتی ہیں جو ردیف و قافیہ کی شکست کر کے بھی اپنی انفرادیت کو قائم رکھیں گی۔ ‘‘(۴۴)

فارغ بخاری نے غزل کی ہیئت میں تجربات کرتے ہوئے ’’بہت سی زمینی صداقتوں سے انحراف کیا ہے اور غزل کی نئی اشکال کی تشکیل نو میں اُن کا رویّہ تخلیقی ہونے سے کہیں زیادہ نئے پن کے اظہار کی شعوری کاوش ہے۔ ‘‘(۴۵)

اُن کی پیش کردہ پانچ صورتوں میں سے پہلی چار کے تتّبع کی مثالیں تو شاذ ہی ملتی ہیں۔ آخری صورت میں بھی چند ایک نے طبع آزمائی کی ہے لیکن اس کی پذیرائی کا وقفہ بھی بہت مختصر ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ معّرا غزل کے تجربے ہندوستان میں ہوئے اور بہت ممکن ہے کہ معّرا غزل کہنے والے شعرا فارغ صاحب کے تجربات سے یا فارغ صاحب اُن شعرا کے تجربات سے متعارف یا متاثر نہ ہوئے ہوں۔

غزل کی بنیادی ہیئتی پہچان متحد الوزن اور متحد القوافی ابیات کا سلسلہ ہے۔ تجربے کرنے والے شعرا نے پہلے متحد الوزن ہونے کی صفت کو مجروح کیا اور جب یہ سلسلہ کچھ آگے بڑھا تو قافیے کے نظام پر بھی حرف زنی شروع ہوئی اور یوں صنفِ غزل کا ہیئتی دھانچہ ہی منہدم ہو گیا۔

وزن کا اتحاد، شعر کی ماہیت اور قافیہ بندی کو دائرۂ غزل سے باہر کرنے کے تجربات کے بعد ایک اور تجربہ جو نظم میں فی زمانہ نثری نظم کے عنوان سے بہت مقبول ہے، نثری غزل کا ہے۔ مذکورہ بالا اعلان میں بھی جہاں قافیہ و ردیف سے عاری غزل لکھنے کی تاکید کی گئی وہاں عروض کے خلاف بغاوت پر بھی آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک اور اعلان جس میں نہ صرف نثری غزل کی اصطلاح متعارف کرائی گئی بلکہ اس ہیئتِ نو کے مختلف پیٹرن بھی بنائے گئے ہیں۔ اعلانچی بھارت کے مقبول عام شاعر بشیر بدر ہیں۔ اُن کا اعلان نامہ ملاحظہ ہو:

’’ غزل کسی فارم کا نام نہیں بلکہ غزل اردو ادب کی تہذیب کا وہ جوہر ہے جو اس کے ماضی، حال اور مستقبل میں اکائی کی صورت جاری و ساری رہتا ہے۔ تخلیقی نثر اور نظم کا وہ مختصر ترین حصہ جو جاودانی حدود میں داخل ہونے لگتا ہے، اُسے غزل کہا جا سکتا ہے۔ غزل کی ہزار تہیں ہیں۔ اس کی اوپری تہوں میں ایک ایسی دلدلی تہہ ہے جس میں کند ذہن ہاتھ پاؤں مارتا اور دھنستا رہتا ہے۔ خان صاحب مرحوم ( عظمت اللہ خاں ) سے لے کر جدید بڈھوں میں سب سے غبی نام ن۔م راشد تک سینکڑوں محنتی لوگ اسی دلدل میں ہاتھ پاؤں چلا رہے ہیں۔

میں نے اپنی نثری غزل کے مختلف پیٹرن رکھے ہیں مثلاً:

۱۔       ایسا طاقت ور تخلیقی تجربہ جسے پرانے آہنگ کے ساتھ مرتب ہونے کی قطعی ضرورت نہ ہو۔ مثلاً:

میں سب کے سامنے شوکیس کی عورت کے سینے پر اپنے ہونٹ رکھوں گا اور مجھے یہ دیکھنا ہے کہ پتھر کی چھاتی میں دودھ کیسے نہیں اترتا ۔

۲۔      ایسے برابر کے مصرعے جن کی تقطیع کی جائے تو نئے وزن میں برابر ہوں مگر شاعر کی دانست میں وہ مروجہ وزن کے مطابق نہ ہوں مثلاً :

چاروں اور آگ، رات کی چیخیں، انزالی لمحوں کی مبہم آوازیں زخموں کو سونگھتے، لجلجے کتے، ٹارچ اور بلم کا نیزہ مار آنکھیں

۳۔      نثروں کے فقرے یا جملے جو شاعری ہیں، مگر پرانی نثر میں گم ہیں۔ اُن کو ایک مصرع طرح مان کر اُن پر طرحی نثری غزلیں کہنا۔ مثلاً :

میری تصویر لے کر کیا کرو گے (غالب کے ایک خط سے )

رومانیت بتِ ہزار شیوہ ہے (پروفیسر آل احمد سرور کے ایک مضمون سے ) سمندروں کا پانی سوکھ رہا ہے (ایک اخبار کی سرخی )…‘‘(۴۶)

بشیر بدر نے اس اعلان کے ساتھ اپنی چار نثری غزلیں بھی پیش کیں۔ ذیل میں اُن کی ایک غزل اور اُن کے دو ہم نواؤں ظفر صہبائی اور حامدی کاشمیری کے کچھ نثری اشعار ملاحظہ ہوں :

میں اپنی زبان کاٹ کر ہتھیلی پر رکھوں گا

برفانی گدھ اسے جھپٹ کر آسماں پر چلا جائے گا

دن کے خارش زدہ کتے میری ہڈیاں چھوڑ یں گے

بوڑھا بابا میرے زخموں پر آگ کا مرہم لگا جائے گا

لیکن رات کے سینے میں سیٹیاں چیخیں گی

اور انجن صبح کا منہ پر کالک مل کر چلا جائے گا

(بشیر بدر)

کالی اور سفید نسلوں کے لوگ

دو نہیں ایک ہی خاندان کے افراد ہیں

آؤ ہم خود کو وسعتوں سے جوڑ دیں

فاصلے محدود ذہنوں کی ایجاد ہیں

( ظفر صہبائی )

نہ ہوا تو ہی قدم رنجہ مثالی رہگذر

دیدہ شوق سے پھر کس نے نکالی رہگذر

(حامدی کاشمیری )

آزاد غزل کے تناظر میں نثری غزل پر تبصرہ کرتے ہوئے مظہر امام کہتے ہیں :

’’اگر کسی صنف کو اُس کے ہیئتی حصار میں مقید کرنا ’’ضدی جہالت‘‘ ہے تو اس حصار کو مجنونانہ طور پر توڑنے کو کیا کہا جائے گا۔ ‘‘(۴۷)

یہ سوال اہم ہے۔ اردو غزل گوؤں میں یہ جنوں آمادگی کیونکر پیدا ہوئی ؟ اس کا پس منظر کیا ہے ؟ اور اس کی ذمہّ داری کس پر عائد ہوتی ہے ؟ ان سوالات کے جواب اپنے باطن میں بعض تلخ حقائق بھی رکھتے ہیں۔

شاعری میں ہیئت کے تجربے، ادب کے دیگر تجربات کی طرح اہم اور مسلم ہیں۔ ادبیات مشرق و مغرب میں جتنی بھی اصناف میں شاعری کی جا رہی ہے اُن کی ہیئتیں انھی تجربات کی مرہونِ منت ہیں۔ اردو شاعری میں مروّجہ تمام تر اصناف مخمّس، مسّدس، مثنوی، قصیدہ، قطع اور رباعی کی ساخت کی تشکیل ہیئت کے تجربوں ہی سے ہوئی۔ یہ الگ بات کہ یہ تجربے اردو شعرا نے نہیں کیے۔ بلکہ ان اصناف کا ہیولا عرب و عجم میں تیار ہوا۔

کلاسیکی اردو شاعری کی تمام اصناف کی ہیئتیں عربی اور فارسی ادب سے تعلق رکھتی ہیں اور کسی صنف کی ہیئت کا خمیر بر عظیم پاک و ہند کی سرزمین میں تیار نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں ایک عرصہ تک وہ اصناف مروّج رہیں جو عربی و فارسی ادب سے مستفادتھیں اور پھر اُن کی شکست و ریخت اُس وقت ہوئی جب ہم مغرب کے زیر اثر آئے۔ فرنگی دور میں جہاں قدیم اصناف کی اہمیت کم بلکہ بہت حد تک ختم ہو ئی اور اُن کی توڑ پھوڑ سے نئی ہیئتوں نے جنم لیا وہاں یورپی ادب کے توسط سے شاعری کی نئی اصناف اور اُن کی ہیئتوں نے بھی رواج پایا۔

اردو شاعری میں ہیئت کے تجربات پر ڈاکٹر عنوان چشتی نے مفصّل لکھا ہے۔ (۴۸) بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ اردو شاعری میں ہیئت کے تجربات نہیں ہیں بلکہ اردو شاعری میں مغربی اصناف کی ہیئتوں کو رواج دینے کی کوششیں ہیں۔

اس تناظر میں اگر کوئی شاعر ہیئت کا تجربہ کرے تو اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ اقبالؔ نے اس سلسلے میں کچھ کوششیں کیں۔ اُس کے بعد مجید امجد نے نظم میں ہیئتوں کا تنوع پیدا کیا لیکن وہ کسی ہیئت کو تشکیل دے کر اُسے رواج نہیں دے پائے اور خود بھی آخری دور میں فعلن فعلن کے Rhythmمیں آزاد نظمیں کہنے لگے۔ یوں اردو شاعری گیت کی روایت سے قطع نظر ہیئت کے لحاظ سے ہنوز عرب، ایران اور یورپ کے ادبوں کی مرہون منت ہے۔

جہاں تک اردو غزل کی ہیئت میں تجربات کا تعلق ہے تو اس کی نوعیت، شاعری میں ہیئت کے تجربات سے قطعی مختلف ہے۔

اردو غزل میں تجربات سے غزل کی جو نئی شکلیں سامنے آئی ہیں انھیں ’’آزاد غزل ‘‘، ’’معّرا غزل‘‘ اور ’’نثری غزل‘‘ کا نام دیا گیا۔ دیکھا جائے تو یہ وہی تجربے ہیں جو نظم میں ہوئے ہیں اور غزل کی ہیئت میں تجربے کرنے والوں نے جواز بھی یہی پیش کیا ہے کہ اگر نظم میں یہ تجربے ہو سکتے ہیں تو غزل میں کیوں نہیں ؟ اس سلسلے میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ یہ تجربات نظم کے تجربات ہی کو سامنے رکھ کر کیے گئے ہیں۔

یہ بات بہت واضح ہے کہ نظم ایک وسیع اصطلاح ہے اور یہ کسی ایک ہیئت کا نام نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں جتنی شاعری ہو رہی ہے، وہ جس بھی صنف میں ہو رہی ہے وہ نظم کی صنف ہے اور ہر صنف کی ایک الگ ہیئت اور شکل ہے۔ معّرا نظم، آزاد نظم یا نثری نظم کا جب تجربہ کیا گیا تو وہ اردو شاعری میں نظم کا بحیثیت کل ایک تجربہ تھا۔ یعنی یہ نہیں کہا گیا یہ معّرا مسدس ہے، آزاد مثنوی ہے یا یہ نثری مخمس ہے بلکہ اردو نظم کی تمام قدیم ہیئتوں سے گریز کرتے ہوئے نظم کی ایک نئی ہیئت تشکیل دی گئی۔ لیکن کسی قدیم صنف کی ہیئت کو نہ توڑا گیا نہ اُس میں کوئی ترمیم کی گئی۔ لہٰذا آج بھی کوئی شاعر اگر اُن ہیئتوں کو اپنے خیالات کے اظہار کے لیے استعمال کرے گا تو اُن کی حالتِ اصل موجود ہے۔

کسی بھی نئی صنف یا اُس میں ہیئت کی تشکیل نو بے بنیاد نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں غزل کی ہیئت میں تجربے کرنے والوں نے بھی کچھ دلائل بطور بنیاد فراہم کیے ہیں۔ مظہر امام نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ نظریہ سازی کی ہے اور متعدد مضامین لکھے ہیں۔ اُن کا ایک اہم مضمون ’’اردو غزل میں ہیئت کے تجربے ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جس میں آزاد غزل کا جواز مختلف دلائل اور ادب کے تاریخی پس منظر میں پیش کیا گیا ہے۔

مظہر امام کے خیال میں :

’’ آزاد نظم ہی کی طرح آزاد غزل کہی جائے اور مصرعوں میں ارکان کی کمی بیشی روا رکھی جائے تو غیر ضروری الفاظ اور فقروں سے نجات پائی جا سکتی ہے۔ ‘‘(۴۹)

آزاد غزل کی حمایت میں کچھ ایسا ہی بیان ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی نے دیا ہے۔ اُن کے مطابق:

’’آزاد غزل میں حشو و زوائد کے بغیر معنویت کی نئی سطحیں ابھر تی ہیں …آزاد غزل میں الفاظ کا متوازن اور با مقصد استعمال اس کی دلنوازی بڑھاتا ہے …یہ صنف اس قدر Compactہے کہ اس کا کوئی بھی لفظ اِدھر اُدھر کرنا مشکل ہے۔ ‘‘(۵۰)

ان دلائل کی روشنی میں مظہر امام کی ایک آزاد غزل دیکھیے :

پھول ہو زہر میں ڈوبا ہوا پتھر نہ سہی

دوستو! میرا بھی کچھ حق تو ہے چھپ کر سہی، کھل کر نہ سہی

مسئلہ یہ ہے کہ اب بودھ کو کس طرح سے حاصل ہو نجات

مسئلہ موت کا اور زیست کا چکر نہ سہی

سانس لینا ہی اگر زیست کا معیار رہے

یہ بہت ہے کہ فلک سر پہ رہے، در نہ سہی، گھر نہ سہی

آ مرے جسم تک آ، ابر طرح دار کی طرح

یہ تو معلوم ہے تو جھانک نہ پائے گی مری روح کے اندر۔ ۔ نہ سہی

یوں تو جی لیتے ہیں جینے والے

کوئی تصویرسہی، آپ کا پیکر نہ سہی

مظہر امام کی اس آزاد غزل کو اب ذرا پابند شکل میں دیکھیے جو ماہ نامہ ’’شاعر ‘‘ کے

’’ نثری نظم اور آزاد غزل نمبر ‘‘ سے حاصل کی گی ہے :

پھول ہو زہر میں ڈوبا ہوا پتھر نہ سہی

دوستو! میر ابھی کچھ حق تو ہے کھل کر نہ سہی

مسئلہ یہ ہے کہ اب بودھ کو کیسے ہو نجات

مسئلہ موت کا اور زیست کا چکر نہ سہی

سانس لینا ہی اگر زیست کا معیار بنے

آسماں سر پہ رہے، در نہ سہی، گھر نہ سہی

آ مرے جسم تک آ، ابرِ طرح دار کی طرح

جھانک پائے نہ مری روح کے اندر نہ سہی

یوں بھی جی لیتے ہیں ہر حال میں جینے والے

کوئی تصویر سہی، آپ کا پیکر نہ سہی

دونوں غزلیں ملاحظہ کرنے کے بعد یہ معاملہ بالکل صاف ہے کہ حشو و زوائد آزاد غزل میں زیادہ جبکہ پابند میں کم ہیں۔ ظاہر ہے جب شاعر کو آزادی ہو کہ وہ مصرعہ جتنا چاہے طویل کر سکتا ہے تو غیر ضروری الفاظ کا در آنا ایک فطری امر ہو گا جبکہ پابند مصرعے میں شاعر کفایتِ لفظی پر مجبور ہوتا ہے۔

مظہر امام نے آزاد غزل کا جواز بعض ماقبل و معاصر شعرا کی تخلیقات سے بھی پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے اقبالؔ کی ایک غزل کا حوالہ دیا ہے، جس میں متعین ہیئت سے گریز کیا گیا ہے۔ یہ غزل بالِ جبریل میں شامل ہے :

کیا عشق ایک زندگی مستعار کا

کیا عشق پائیدار سے نا پائیدار کا

وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک

اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا

میری بساط کیا ہے، تب و تابِ یک نفس

شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا

کر پہلے مجھ کو زندگی جاوداں عطا

پھر ذوق و شوق دیکھ دلِ بے قرار کا

کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو

یارب وہ درد، جس کی کسک لازوال ہو

مقطع میں غزل کی ہیئت سے انحراف کیا گیا ہے۔ جسے مظہر امام نے ہیئت غزل سے گریز کا جواز بنایا ہے، جو محلِ نظر ہے۔

اقبالؔ نے غزل کی لفظیات، اسلوب، موضوعات، علامتی نظام اور لب و لہجہ میں متنوّع تجربات کیے جنھیں اُن کے بعض معاصر شعرا نے بھی قبول کیا اور اُن کے بعد نسلوں پربھی اس کے اثرات واضح ہیں۔ اس لحاظ سے اقبالؔ اردو غزل کے بہت بڑے مجتہد قرار پائے، لیکن جہاں تک اُن کی پیش کردہ اس ہیئت کا تعلق ہے۔ اس کی پیروی کسی نے نہیں کی۔ خود اقبالؔ کے ہاں بھی یہ ایک استشنائی مثال ہے ( ’’زبور عجم ‘‘میں بھی ایک ایسی اجتہاد کی مثال ملتی ہے ) اس لیے اقبالؔ کی اس غزل کو جواز بنانا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ خود مظہر امام نے اسے غزل کی حرمت پر حملہ قرار دیا ہے۔ (۵۱)

فارغ بخاری اور معّرا غزل کہنے والے دیگر شعرا نے اپنے تجربات کا جواز قافیہ اور ردیف کی ناروا پابندی سے نجات(۵۲) کی صورت میں پیش کیا ہے۔

اسی جواز کو بنیاد بناتے ہوئے ایک جدید تر شاعر کاشف نعمان نے بھی اپنے جوہرِ تخلیق کی انفرادیت دکھائی ہے۔ موصوف نے غزل کی ہیئت کے اندر قافیے کی ماہیت میں لچک پیدا کرتے ہوئے اسے ہمہ آواز رکھنے کی پابندی کے بجائے محض ہمہ وزن ہونے کو کافی سمجھا ہے۔ یعنی ’’خمیر‘‘ کے قوافی ضروری نہیں کہ ’’ضمیر‘‘, ’’بصیر‘‘ اور ’’پنیر ‘‘ ہوں بلکہ ’’ نصیب ‘‘ اور ’’ عمیق‘‘ حتّیٰ کہ ’’ ملال‘‘  اور ’’وجود‘‘ بھی ہو سکتے ہیں۔ کاشف نعمان کے نزدیک ’’ اردو غزل میں یہ تجربہ نیا ضرور ہے لیکن انگریزی شاعری میں قافیے کی یہ شکلAssonanceکے نام سے، کم ہی سہی، لیکن عرصۂ دراز سے مستعمل ہے جس میں حروفِ صحیح (Consonants)کی یکسانیت کے بجائے ان کے درمیان حروف علت کی مطابقت کو قافیے کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ (۵۳)

کاشف نعمان کے نقطۂ نظر پر گفتگو سے قبل مناسب ہے کہ اس سلسلے میں ان کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کر لیے جائیں :

ایسا اسیرِ حلقہ شام و سحر ہوا

مجھ جیسا شخص بندہ دام و درم ہوا

وہ جا چکا ہے میرے زمان و مکاں سے دور

کل ایک خواب اور سپرد لحد ہوا

اب کون ساری عمر اٹھائے پھرے یہ بوجھ

بے مائے گی سے در پئے نام و نسب ہوا

گردش میں کہیں ثوابت دسیا گان خلق

فرمان دارو گیر بہ ایمائے شب ہوا

Rosalind Fergusson نے ایک لغاتِ قواف(RHYMING dictionary)مرتّب کی ہے اور موصوفہ نے ایسا کوئی قافیہ قابل ذکر نہیں جانا جس میں مذکورہ نوعیت کی کوئی رعایت لی گئی ہو۔ جہاں تک Assonanceکا تعلق ہے تو یہ نیم قافیہ Half Rhyme یا Off Rhymeکہلاتے ہیں لیکن ان میں بھی آواز کا لحاظ بہر حال رکھا جاتا ہے جو یکساں نہیں تو کسی حد تک قریب ضرور ہوتی ہیں۔ مثلاً groomکا قافیہ moonاور coldکا قافیہ killedاختیار کر لیا جاتا ہے۔ لیکن اس لچک کا مظاہرہ بھی معدودے چند تخلیقات میں ہوا ہے اور اسے کوئی روایت نہیں بنایا گیا۔

شعریات مشرق و مغرب میں کم و بیش ہر صنف شعر کی ہیئت کسی نہ کسی نظامِ قوافی (Rhyming Scheme) کی پابندی ضرور کرتی ہے اور اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے شعرا نے فن کے زندہ شاہ پارے تخلیق کیے ہیں۔ نہیں معلوم کہ غزل کا نظامِ قافیہ ہی کیوں ہدفِ تنقیص بنتا ہے۔ حالانکہ غزل گو شعرا پر تو جب یہ الزام لگتا ہے کہ وہ محض قافیہ پیمائی کرتے ہیں تو گویا دوسری طرف یہ اعتراف بھی کیا جا رہا ہوتا ہے کہ غزل کا قافیہ کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ سہولت ہے۔ اگر چہ اس سہولت کو بھی ناصرؔ کاظمی نے ایک چیلنج قرار دیتے ہوئے یہ کہا کہ :

کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصرؔ

یہ قافیہ پیمائی کوئی کر کے تو دیکھے

غزل کے سانچے کو دیکھیں تو ’’قافیہ اور ردیف کوئی ایسی چیز نہیں جو اظہار کے پیمانے پر اثر انداز ہوں۔ ‘‘(۵۴) غزل کے نظام قافیہ کے بارے میں فراقؔ نے ایک بیان دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزل کا قافیہ محض اُس کا ہیئتی عنصر ترکیبی نہیں ہے بلکہ غزل گو کی ذہنی ساخت کا بھی ایک حصّہ ہے۔ اُن کے بقول ’’غزل میں قافیے شاعر کی نفسیاتی سوانح عمری کی علامت ہیں۔ قافیہ شاعر کے ذہن کے لیے ایک لحاظ سے پہلا قدم اور دوسرے لحاظ سے منزل پر آخری قدم کا کام دیتا ہے۔ قافیہ بیک وقت غزل کا سنگ بنیاد اور اس کا آخری کنگرہ ہے۔ ‘‘(۵۵)

نثری غزل کہنے والوں نے یہ بیان دے کر چونکانے کی کوشش کی کہ ’’غزل کسی فارم کا نام نہیں ہے بلکہ غزل اردو ادب کی تہذیب کا وہ جوہر ہے جو اس کے ماضی، حال اور مستقبل میں اکائی کی صورت جاری و ساری رہتا ہے۔ تخلیقی نثر اور نظم کا وہ مختصر ترین حصہ جو جاودانی حدود میں داخل ہونے لگتا ہے، اُسے غزل کہا جا سکتا ہے۔ ‘‘(۵۶)

یہ بات درست ہے کہ اُسے غزل کہا جا سکتا ہے لیکن وہ غزل ہو گی نہیں بالکل ایسے جیسے شاعر محبوب کو چاند کہتا ہے تو وہ چاند ہوتا نہیں۔ ایک عالی شان عمارت کو اگر تاج محل کہا جائے تو وہ تاج محل نہیں ہو گی۔ ’’ہم جب مکالمات افلاطون یا نطشے کی تحریروں کی داد دیتے ہیں تو انھیں شاعری کَہ اُٹھتے ہیں۔ ایک چیز انداز تحسین ہے اور ایک چیز اصطلاح۔ ہمیں ان دو چیزوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ ‘‘ (۵۷)

یہ کہنا کہ غزل کسی فارم کا نام نہیں ہے، درست نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حسنِ ترتیب کو بھی غزل کہا جاتا ہے۔ غزل موسیقی کی ایک اصطلاح بھی ہے۔ اقبال نے اپنے تمام کلام کو غزل کہ دیا ہے۔ عنادل کی نغمہ سرائی بھی غزل کہلاتی ہے لیکن جب بطور صنف شعر غزل کا لفظ استعمال ہو گا تو اس سے مراد وہ مخصوص فارم ہی ہو گی جو مطلع، مقطع، قافیہ، ردیف اور بحر پر مشتمل ہوتی ہے۔

غزل کی فارم کو ’’قدامت پسند ‘‘ اور ’’سخت ضدی اور ہٹیلی ‘‘ اس لیے قرار دیا گیا کہ نظم میں متنوع ہیئتی تجربے ہوئے ہیں جو قبول بھی ہوئے اور مقبول بھی۔ لیکن ناقدین کو یہ حقیقت نظرانداز نہیں کرنی چاہیے کہ نظم کے ہیئتی تجربے نظم کی کسی ایک صنف میں نہیں ہوئے بلکہ بحیثیت کُل شکست و ریخت کے عمل کے بعد معّرا نظم، آزاد نظم یا نثری نظم معرض وجود میں آئیں یا دوسری نوع کے وہ تجربات ہیں جو یورپی ادبوں میں موجود اصناف کی ہیئتوں کو رواج دینے کے ہیں۔ اس لیے نظم کے مقابلے میں غزل میں ہیئتی تجربوں کی نا قبولیت کو غزل کی قدامت پسندی یا ہٹ سے تعبیر کرنا مناسب نہیں۔

علمِ ہیئت(Physics)کے قانون کے مطابق قلب ماہیت کے بعد اشیا اپنی پرانی ساخت کھو دیتی ہیں اور ایک شکلِ نو معرض وجود میں آتی ہے جو نئی شکل یا نئی شے ہوتی ہے۔ اس لیے کسی شے کی ہیئت میں تبدیلی گو یا اُس کی نفی کے مترادف ہے۔

ہیئت کسی وجود کی بیرونی ساخت اور ظاہری شناخت ہوتی ہے۔ گویا ہیئت بدل جانے کے بعد اس کی ساختیاتی پہچان ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ اُس کا وجود ہی فنا ہو جاتا ہے۔

انسان کرہ ارض پر قرنوں سے آباد ہے اُس کی ایک ہیئت ہے جو اعضا اور اُن کی بناوٹ سے متشکل ہوتی ہے۔ انسان کے ذہن نے ترقی کی ہے۔ اُس کی سوچیں بدلی ہیں۔ اُس نے کئی فکریاتی نظام بنائے، انھیں قبول کیا، رد کیا۔ انسانوں کے عادات، اقدار، ثقافتیں، رسوم، رنگ و نسل اور علم و آگہی میں اختلاف ہے لیکن تمام انسانوں کی بناوٹ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ ایک ہے۔ مکان انسان کی رہائشی ضرورت پورا کرتا ہے۔ قدیم زمانوں سے اب تک مکانوں کے نقشے بدلے۔ فن تعمیر نے بے پناہ ترقی کی ہے۔ ہر مکان دوسرے مکان سے نقشے اور حجم کے لحاظ سے مختلف ہے لیکن مکان کی بنیادی ہیئت ایک ہی ہے جو چھت، دیوار اور دروازے سے تشکیل پاتی ہے۔ کوئی مکان مذکورہ عناصر ترکیبی سے معّرا یا آزاد نہیں ہو سکتا۔

مذکورہ مثالوں سے یہ امر واضح کرنا مقصود ہے کہ ہیئت ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے اور اُس میں تبدیلی ممکن نہیں اور اگر یہ تبدیلی رونما ہوتی ہے تو گویا شے کا وجود معرضِ فنا میں پڑ جاتا ہے۔ آزاد غزل کے امامِ اوّل مظہر امام نے غزل کی ہیئت کی پابندی کرنے کو ’’ضدی جہالت ‘‘ قرار دیا ہے اور ساتھ ہی نثری غزل لکھنے والوں کو مجنوں کے خطاب سے نوازا ہے۔ حالانکہ نثری غزل کا راستہ اُن کی اپنی ’’لچکدار علمیت ‘‘ ہی نے کھولا ہے۔ ظاہر ہے جب غزل کی متحد الوزن خاصیّت سے بغاوت کی جا سکتی ہے تو بعد میں وزن کو اہمیت دیتے رہنے کا کیا جواز ہے ؟ خصوصاً اس ماحول میں جب نثری نظم کی حمایت میں ہر طرف سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔

علم ہیئت میں قلبِ ماہیت کے قانون اور آزاد غزل کے بعد ’’غزلیہ ‘‘ کے تجربات اور نثری غزل کی کوششوں کو سامنے رکھیں تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ غزل کی ہیئت میں تجربات در اصل اُس کی شناخت بلکہ وجود ہی کو ختم کرنے کی راہ ہیں۔ غزل کی گردن زدنی کا خواب اس طرح بھی پورا ہو سکتا ہے۔

(۳)

اردو غزل میں ہیئت کے تخریبی تجربات کے متوازی ہیئتی تجربات کی ایک نرم رو لہر بھی ہے جس میں نئے غزل گوؤں نے غزل کی ہیئت میں تزئینی اور داخلی تبدیلیاں کی ہیں۔ تبدیلیوں کا یہ عمل بھی روایت کے تسلسل میں دیکھا جائے تو نیا نہیں ہے بلکہ فارسی اورکلاسیکی اردو شعراء کے ہاں اس نوع کی بڑی منفرد مثالیں ملتی ہیں۔

غزل کی ہیئت میں تبدیلی کی ایک شکل غزل مستزاد ہے جو فارسی شعرا کے علاوہ دکن اور لکھنؤ کے بعض اردو شعرا خصوصاً انشا، مصحفی اور جرأت کے ہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ غزل کے نظام قوافی کے حوالے سے بھی اس کی ہیئت میں داخلی و تزئینی تجربے ہوئے ہیں جنھوں نے بعد میں باقاعدہ صنائع شعری کی حیثیت اختیار کر لی۔ اس سلسلے میں سب سے قابل ذکر صنعت مسمط ہے جس میں غزل کے ہر شعر کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کر کے پہلے تین حصوں میں قافیوں کے الگ نظام کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے خوبصورت مثال بیدلؔ کے ہاں ملتی ہے :

پئے نافہ ہائے رمیدہ بو مپسند زحمتِ جستجو

بخیالِ حلقۂ زلف او گرہ ای خوروبہ ختن درآ

ہوسِ تو نیک و بدِ تو شد نفسِ تودامِ وددِ توشد

کہ بایں جنوں بلدِ تو شد کہ بعالمِ تو ومن در آ

اندرونی قوافی کے نظام کے حوالہ سے صنعتِ ذو قافیتین بھی غزل گوؤں کو بہت مرغوب رہی ہے۔ اس سے مراد اشعار میں ایک کے بجائے دو قافیوں کا استعمال ہے :

جب بردرِ دل حضرتِ دل آن پکارے

جاتی رہی عقل اور ہوئے اوسان کنارے

(نیاز بریلوی)

ایک صنعت دو قافیتین مع الحاجب بھی ہے جس سے مراد اشعار میں دو قافیے باندھے جائیں اور اُن کے درمیان ردیف بھی ہو۔ ‘‘(۵۸)

مضموں صفاتِ قد کا قیامت سے لڑ گیا

قامت کے آگے سرو خجالت سے گڑ گیا

(انیس)

فارسی اور اردو کے کلاسیکی شعرا نے ایک اہتمام یہ بھی کیا ہے کہ قافیے اور ردیف کو دو الگ کلمات کے بجائے مرکب اضافی یا مرکب عطفی کی صورت میں استعمال کیا ہے۔ اس طرح بعض شعراء نے ردیف کو قافیے کے لاحقے کے طور بھی رکھا ہے:

درِ سرائے مغاں رفتہ بود و آب زدہ

نشستہ پیرو صلائے بشیخ و شاب زدہ

(حافظ )

مذکورہ تجربات کے علاوہ شعراء نے ردیف کے کلمے کی آواز سے بھی رعایت لیتے ہوئے بعض اجتہادات کیے ہیں۔ میرؔ کے ہاں اس کی مثال ملاحظہ ہو:

اثر ہوتا ہماری گر دعا میں

لگ اٹھتی آگ سب ارض و سما میں

کفن کیا، عشق میں میں نے ہی پہنا

کھنچے لو ہو میں بہتیروں کے جامے

ایسی ہی ایک دلچسپ مثال ناسخ کے ہاں دیکھیے جس میں کے ردیف کے کلمے کو توڑ کر دو ایسے مختصر کلمات لائے گئے ہیں جو مجموعی طور پر ردیف کے ہم قافیہ ہیں :

کر دیے خط نے ترے عارضِ پر نور سیاہ

ہو گیا مشک کی مانند یہ کافور سیاہ

پاس جو بیٹھ کے پڑھتے تھے غزل، وہ گئے دن

اب تو ناسخ کبھی کر آتے ہیں ہم دور سے آہ

غزل کی ہیئت میں داخلی تزئین کے حوالے سے دو دلچسپ مثالیں پشتو شاعر رحمان بابا کے ہاں ملتی ہیں۔ ایک غزل میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ مصرعۂ اول جن کلمات پر ختم ہوتا ہے، مصرعۂ ثانی انھیں الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔ نیز مصرعۂ اول جن الفاظ سے شروع ہوتا ہے مصرعۂ ثانی کا اختتام انھیں الفاظ پر ہوتا ہے۔ پوری غزل میں اس التزام کا توازن مجروح نہیں ہوتا ہے :

سر ہوا ساماں ہوا صدقۂ جاناں ہوا

صدقۂ جاناں ہوا سر ہوا ساماں ہوا

صد گل و  ریحاں ہوا، گیسوئے جاناں مجھے

گیسوئے جاناں مجھے، صد گل و ریحان ہوا

بوئے گل افشاں ہوا، تیری گلی کا غبار

تیری گلی کا غبار، بوئے گل افشاں ہوا

اب غم جاناں ہوا، تاب و تواں سے بعید

تاب و تواں سے بعید، اب غمِ جاناں ہوا

(اُردو ترجمہ طٰہ خان)

دوسری غزل میں یہ التزام ہے کہ ہر شعر کا مصرعۂ ثانی آئندہ شعر کا مصرعۂ اولیٰ ہے :

دیدۂ بے نگاہ را چہ خبر

دونوں یکساں ہیں شام ہو کہ سحر

دونوں یکساں ہیں شام ہو کہ سحر

ایک جیسا ہے سنگ ہو کہ گہر

ایک جیسا ہے سنگ ہو کہ گہر

کیسی مٹی ہے کیسا ہوتا ہے زر

(اُردو ترجمہ طٰہ خان)

۶۰ کی دہائی میں جب اردو غزل کی ہیئت میں خارجی تبدیلی کے تجربے شروع ہوئے وہاں فارسی اور کلاسیکی اردو غزل میں نیرنگی ہیئت کے درج بالا نمونوں کی طرح بعض ایسی کوششیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں جن میں ہیئت غزل کے بنیادی فریم کو متاثر تو نہیں کیا گیا البتہ اُسے داخلی طور پر آراستہ کر کے ایک تزئین نو کا سامان ضرور کیا گیا ہے۔ ذیل میں اس نوع کی بعض مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔ جن میں ہیئت کی خارجی تبدیلی کے متنوع رنگوں کی آب و تاب صنف غزل کو ایک حیرت افزا تابندگی سے ہم کنار کر رہی ہے۔ یہاں یہ دعویٰ نہیں کیا جا رہا ہے کہ یہ تجربے پہلی بار انہی شعرا نے کیے بلکہ یہ غزلیں صرف نیرنگیِ ہیئت کی مثال ہیں۔

صوفی تبسم کی ایک غزل جس کے ہر شعر میں جن الفاظ سے مصرعۂ اول کا آغاز ہے انھی الفاظ سے مصرعۂ ثانی بھی شروع ہو رہا ہے۔ پوری غزل میں یہی التزام ہے :

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقف اضطراب

یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو

ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لادوا

ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

اللہ کرے جہاں کو میری یاد بھول جائے

اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو

ایک غزل میں ایک سے زیادہ مطلعے کہنے کی روایت رہی ہے۔ اس سلسلے میں بعض اوقات پوری غزل کے تمام اشعار مطلع کی طرز پر کہنے کی جدت بھی بعض شعرا کے ہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ لیکن جون ایلیا کی ایک غزل میں ایک اور خوبصورت التزام یہ ہے کہ مطلع کے مصرعۂ ثانی کی غزل کے تمام اشعار میں تکرار کی گئی ہے اور ہر شعر مطلع کی طرزپر بھی ہے :

آفرینش ہی فن کی ہے ایجاد

یہی بابا الف کا ہے ارشاد

فن ہے اپنے زیادہ سے بھی زیاد

یہی بابا الف کا ہے ارشاد

ہے گماں ہی گمان کی بنیاد

یہی بابا الف کا ہے ارشاد

تم بھی تو اک جہاں کرو آباد

یہی بابا الف کا ہے ارشاد

خود بھی خود سے کبھی رہو آزاد

یہی بابا الف کا ہے ارشاد

کوئی بنیاد کی نہیں بنیاد

یہی بابا الف کا ہے ارشاد

غزل کی ہیئت میں داخلی تبدیلی کا یہ رنگ شبیر شاہد کے ہاں اور منفرد ہیولے کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اُن کی غزل میں ہر شعر کا مصرعۂ ثانی ایک ہی ہے لیکن مصرعۂ اول کے اختتام میں قافیے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یوں ہر شعر کے مصرعۂ ثانی کو ایک مکمل مصرعے کی ردیف بنا دیا گیا ہے :

سنو یہ آواز دور کی لہر کی صدا ہے

اٹھاؤ لنگر کہ پھر سمندر بلا رہا ہے

ہوا موافق ہے کھول دو بادبان سارے

اٹھاؤ لنگر کہ پھر سمندر بلا رہا ہے

چلو کہ ساگر کی اور بہنے لگے ہیں تارے

اٹھاؤ لنگر کہ پھر سمندر بلا رہا ہے

ہمیں پہنچنا ہے نیل کے دوسرے کنارے

اُٹھاؤ لنگر کہ پھر سمندر بلا رہا ہے

وہاں، جہاں ہیں نئے جزیرے نئے ستارے

اٹھاؤ لنگر کہ پھر سمندر بلا رہا ہے

غزل کی ہیئت میں قافیہ ردیف کی پابندی صرف مصرعۂ ثانی میں کی جاتی ہے۔ جبکہ مصرعۂ اوّل کسی بھی کلمے پر ختم کیا جا سکتا ہے لیکن بعض شعرا نے ایک بہت ہی سنگلاخ اور ہنر آزما تجربہ کیا ہے کہ مصرعۂ اوّل میں بھی قافیہ و ردیف کا ایک نظام رکھا ہے۔ جو مصرعۂ ثانی کے ناگزیر ہیئتی نظام کے متوازی چلتا ہے۔ اس جاں گسل ہیئتی تجربہ کی ایک مثال غلام محمد قاصرؔ کی یہ غزل ہے :

کھلے تھے لفظ گلابوں کی داستاں کے لیے

لبوں کی سرخی سلامی نہ تھی خزاں کے لیے

ندی میں چاند کھلاتا ہے انعکاس کے پھول

ازل سے بہتی شعاعوں کے کارواں کے لیے

مرے بدن پہ منقش ترے لباس کے پھول

یہ ریگ زار ہے توسیع گلستاں کے لیے

کھلے نہ کشتِ سماعت میں التماس کے پھول

یقیں کی فصل جلا دی گئی گماں کے لیے

دیارِ جسم میں چاروں طرف کپاس کے پھول

مگر وہ سر جو ترستا ہے سائباں کے لیے

زمین چنتی رہی سر برہنہ آس کے پھول

بنی تھی شال ستاروں نے آسماں کے لیے

اداس پائے گئے آج آس پاس کے پھول

یہیں ملول تھا بچہ کل اپنی ماں کے لیے

لب فرات کھلائے ہیں تو نے پیار کے پھول

گدائے آب ہے قاصرؔ جوازِ جاں کے لیے

عباس اطہر کی ایک غزل بھی نیرنگِی ہیئت کا ایک نمونہ ہے، جس میں صنعت ذو قافیتین مع الحاجب کو برتا گیا ہے :

اطہر! وقت کو ساجن لکھ، ہرجائی لکھ

اس کے آگے بندھن لکھ، گیرائی لکھ

اے پردیس میں رہنے والے اپنوں کو

اپنے دل کی الجھن لکھ، تنہائی لکھ

پھر اک گھر سے سانسوں کی بارات چلی

اس کا تنہا کنگن لکھ، مہنگائی لکھ

اک جانب سے تیروں کی تو باڑھیں مار

اک جانب سے شیون لکھ، پسپائی لکھ

اطہر! اپنے بارے میں بھی رائے دے

آگ لگاتا ساون لکھ، صحرائی لکھ

جمال احسانی کی ایک مسلسل غزل بھی قابلِ لحاظ ہے جس کے ہر شعر کی ابتدا ایک ہی کلمے سے ہوتی ہے اور یہی اہتمام ہر شعر کے مصرعۂ ثانی میں ایک اور کلمے کے ذریعے کیا گیا ہے :

اک ندی موج در موج پہلو بدلتی رہی

ایک کشتی بڑے رکھ رکھاؤ سے چلتی رہی

اک پرندہ ہوا آب و دانے کی خواہش میں گم

ایک ٹہنی کے دکھ میں ہوا ہاتھ ملتی رہی

اک ستارہ کہیں آسماں پر الجھتا رہا

ایک انگنائی میں رات بھر آگ جلتی رہی

اک شجر شاخ سے شاخ کے فاصلوں پہ جیا

ایک دیوار دو گھر بچھڑنے سے ہلتی رہی

اک صدا نے کئی جال صحراؤں پہ بن دیے

ایک سرگوشی آبادیوں کو نگلتی رہی

اندرونی قوافی، غزل کی ہیئت میں نیرنگی کا باعث رہے ہیں۔ اسلم کولسری کی ایک غزل ملاحظہ ہو جس میں یہ قافیہ اور ردیف ہم قافیہ ہیں اور غزل غنائیت کے لحاظ سے ایک الگ آب و تاب رکھتی ہے :

اپنی آنکھیں یونہی چاند ستاروں پہ مت ٹانک، کنوئیں میں جھانک

غم کا پتھر چاٹ مسافر، من کی مٹی پھانک، کنوئیں میں جھانک

وقت سے پہلے ڈھل جائیں گے سارے رنگ اور روپ چمن کی دھوپ

بھول کے اپنا حسن، جوانی، زور، سلیقہ، بانک، کنوئیں میں جھانک

پل دو پل کی بات ہے پیارے، آنکھوں کے یہ کھیت، سلگتی ریت

پچھتاوے کی لاٹھی سے خوابوں کے ریوڑ ہانک، کنوئیں میں جھانک

شہر میں آ کر، اپنے گاؤں کے کیکر اور ببول، کبھی مت بھول

ورنہ سوکھ سلگ جائے گی سوچ کی سیتل سانک، کنوئیں میں جھانک

جگ ہے اک چوپال، کسی کی پگڑی یہاں اچھال، نہ بھنگڑا ڈال

میرا مول چکا پر پہلے اپنے آپ کو آنک، کنوئیں میں جھانک

تیرے بعد ہوا ہے ٹھنڈے پیڑوں کا وہ جھنڈ بھی اگنی کنڈ

مجھے نہیں تو چلتے منظر کو پلکوں میں ڈھانک، کنوئیں میں جھانک

اسلم پیارے، بستی بستی، چہرہ چہرہ دیکھ نہ اپنے لیکھ

تیرے ہی ماتھے پر ہو گی تیرے غم کی چانک، کنوئیں میں جھانک

حافظ شیرازی کی غزل کا ایک شعر ہے :

ذوقے چناں ندارد بے دوست زندگانی

بے دوست زندگانی، ذوقے جناں ندارد

اس شعر میں تکرار نے عجیب حسن پیدا کیا ہے۔ اس تکرار سے استفادہ کی ایک شکل ریاض الرحمن ساغرؔ کی ایک غزل دیکھیے :

ایک نگر میں چلتے چلتے آخر شام ہوئی

آخر شام ہوئی اور ساغر اپنے نام ہوئی

ٹوٹے پر پرواز سے بچھڑے ایک پرندے کے

ایک پرندے کی ہر کوشش بھی ناکام ہوئی

ایک ہتھیلی پر نیلم تھا، نیلم کا لشکارا

نیلم کا لشکارا دیکھ کے خلق غلام ہوئی

ایک دریچے کی سرگوشی گلیوں نے سن لی

گلیوں نے سن لی اور سارے شہر میں عام ہوئی

ہیئت کا یہ ذائقہ قدرے مختلف حالت میں ہونہار شاعر پرویز ساحر کی غزل میں ملاحظہ ہو:

لمبی آہیں بھرتے، ساری رات گزاری

ہم نے جیتے مرتے، ساری رات گزاری

ساری رات گزاری کوچہ گردی کرنے

کوچہ گردی کرتے ساری رات گزاری

ساری رات گزاری ساحر مرتے مرتے

ساحرؔ مرتے مرتے، ساری رات گزاری

غزل کی ہیئت کے لیے ردیف کو اگرچہ ضروری تو نہیں سمجھا گیا تاہم ردیف ہونے کی صورت میں عموماً کلمۂ ردیف قافیے کے بعد لایا جاتا رہا ہے۔ لیکن تسلیم فیروز کی ایک غزل اس لحاظ سے لائق توجہ ہے کہ اس میں ردیف پہلے اور قافیے بعد میں استعمال کیا گیا ہے :

کور ظرف کی آنکھیں پیار میں نہیں ڈھلتیں

دوستو! سرابوں میں کشتیاں نہیں چلتیں

حسن اپنے ہاتھوں سے آگ ڈال دے جتنی

عشق کے فقیروں کی جھولیاں نہیں جلتیں

ہاتھ کے لگانے سے پتیاں جھلستی ہیں

دھوپ کی تمازت سے کس لیے نہیں جلتیں

آنکھ میں نمی بھی ہے اور لگن بھی ہے دل میں

پھر بھی آرزوؤں کی کھیتیاں نہیں پھلتیں

اک کرن ہی مل جائے آنکھ کو گوارا ہے

سر سے اب اندھیروں کی بدلیاں نہیں ٹلتیں

اس نوع کا ایک تجربہ نکہت یاسمین گل نے بھی کیا ہے لیکن اس سلسلے میں اعظم کمال نے غزل کی ہیئت کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا ہے جس میں نہ صرف یہ کہ ردیف دوہری کی گئی ہے بلکہ اشعار کے مصرعۂ ثانی میں سوائے قافیے کے باقی تمام مصرعہ دہرایا گیا ہے۔

ان کی یہ بھی انفرادیت ہے کہ وہ اس نوع کی غزلیات کا پورا مجموعہ ’’ غزلِ نو ‘‘ کے عنوان سے سامنے لائے ہیں۔ ان کی اختیار کردہ ہیئت کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو۔ واضح رہے کہ انھوں نے اس کو ’’رجوعی غزل‘‘ قرار دیا ہے :

میں عجب موسموں کا قیدی ہوں

میں عجب فاصلوں کا قیدی ہوں

دیکھ میری پناہ میں مت آ

میں عجب زلزلوں کا قیدی ہوں

شہر کے درمیان رہ کر بھی

میں عجب جنگلوں کا قیدی ہوں

اے لٹی شام! پیار کر مجھ سے

میں عجب وحشتوں کا قیدی ہوں

آنکھ میں کرچیاں سی پھیل گئیں

میں عجب رت جگوں کا قیدی ہوں

فیصلے ہو نہیں سکے اعظم

میں عجب وسوسوں کا قیدی ہوں

اردو غزل کی ہیئت میں اس نوع کے تزئینی و داخلی تجربے متعدد شعرا نے کیے ہیں جس سے غزل کی متعین ہیئت کے اندر تبدیلی کے متعدد نئے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ غزل کی ہیئت بدلتی بھی رہی اور نہیں بھی بدلی۔ ۔ ۔ غزل کا چوکھٹا وہی رہا مگر اس میں تصویروں کے ظاہری رنگ مختلف ادوار میں مختلف ہوتے رہے۔ (۵۹) لیکن ’’اس کی ہیئت غیر نامیاتی رہی۔ ‘‘(۶۰)یہ تجربے جہاں غزل میں نیرنگی ٔ ہیئت کے نمونے ہیں وہاں غزل کی ہیئت پر قدامت اور ہٹ کے الزامات کا بھی تخلیقی جواب ہیں۔ تاہم یہ اعتراف بھی بغیر کسی باک یا حجاب کے ضر روی ہے کہ یہ نمونے بھی اگر روایت کی شکل اختیار کر لیں تو اشعار محض مشقِ ذہنی سے آگے نہیں بڑھیں گے اور غزل کا بنیادی اور اصل ذائقہ جو بہت حد تک اِس کی ہیئت کا مرہونِ منّت ہے مجروح ہو گا۔ جہاں تک غزل کی بیرونی ساخت میں تجربات کا تعلق ہے تو وہ اِس کی ہیئتی شناخت ہے جسے تبدیل کرنے یا مسخ کرنے کے تجربات غزل کے مستقبل کے لیے قطعی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔

٭٭

 

استفادہ

 

۱۔       مولانا اصغر علی روحی۔ ’’دبیر عجم ‘‘                        ص: ۵۳

۲      Edward G.Browne.” Literary History of Persia” Page 27

۳۔     مولانا نجم الغنی رام پوری۔ ’’بحرالفصاحت ‘‘ (جلد دوم ) مجلس ترقی ادب لاہور ۲۰۰۱ ص۱۵۸۔ ۱۵۷

۴۔      ابوالاعجاز حفیظ صدیقی۔ ’’کشاف تنقیدی اصطلاحات ‘‘ مقتدرہ قومی زبان ص: ۱۳۰

۵۔     مولوی نجم الغنی رام پوری۔ ’’ بحر الفصاحت ‘‘ (جلد سوم )                   ص: ۱۵۱

۶۔       ابوالاعجاز حفیظ صدیقی۔ ’’کشاف تنقیدی اصطلاحات ‘‘               ص: ۸۷

۷۔     ناصر کاظمی۔ ’’خشک چشمے کے کنارے ‘‘مکتبہ خیال لاہور ۱۹۸۷              ص:۶۴

۸۔     ڈاکٹر عنوان چشتی۔ ‘‘اردو شاعری میں جدے دیت کی روایت ‘‘ تخلیق مرکز لاہور، سن     ص:۳۶

۹۔      جمیل الدین عالی۔ مضمون ’’اردو غزل چند مسائل ‘‘ مطبوعہ پاکستانی ادب (جلد پانچویں) مرتبہ رشید امجد        ص: ۸۸۸

۱۰۔      انیس ناگی۔ مضمون ’’ اردو غزل کا مسئلہ ‘‘ مجلہ ’’دانشور‘‘ لاہور دسمبر ۱۹۹۵ء             ص: ۳۳

۱۱۔      ڈاکٹر سید عبداللہ۔ ’’مباحث ‘‘ مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۶۵            ص: ۵۵۱

۱۲۔     مختار صدیقی۔ مضمون ‘‘غزل اور شہزاد کی غزل‘‘ فنون ( جدید غزل نمبر )              ص: ۳۲۸

۱۳۔    ڈاکٹر عبادت بریلوی۔ مضمون ’’اردو غزل میں ہیئت کے تجربات ‘‘ادبِ لطیف مئی ۱۹۵۵ء         ص: ۱۴

۱۴۔    پروفیسر سید احمد رفیق۔ مضمون ’’غزل کی ہیئت‘‘ ادبِ لطیف جون ۱۹۵۵ء      ص: ۱۶

۱۵۔     سجاد رضوی۔ مضمون ’’اردو غزل میں ہیئت کے تجربات‘‘ ادبِ لطیف اگست ۱۹۵۵ء     ص: ۴

۱۶۔      خواجہ تہور حسین۔ مضمون ’’اردو غزل میں ہیئت کے تجربے ‘‘ادبِ لطیف نومبر ۱۹۵۵ء ص: ۱۱

۱۷۔    ڈاکٹر سید عبداللہ۔ مضمون ’’غزل کی ہیئت میں تبدیلی‘‘ ادبِ لطیف دسمبر ۱۹۵۵ئ      ص: ۹

۱۸۔     ڈاکٹر سید عبداللہ۔ ’’مباحث ‘‘                            ص:۴۶۹

۱۹۔      ڈاکٹر مولوی عبدالحق۔ ’’سٹینڈرڈ انگلش ڈکشنری ‘‘

۲۰۔    ریاض احمد۔ ’’تنقیدی مسائل ‘‘اردو بک سٹال لاہور ۱۹۶۱                    ص: ۱۴۸

۲۱۔     ڈاکٹر امام اعظم۔ مضمون ’’ آزاد غزل۔ ایک دانشورانہ ہیئتی تجربہ‘‘ صریر، کراچی جون۱۹۹۲ء        ص:۶۴

۲۲۔    جون ایلیا۔ عمران الحق کو انٹرویو۔ ادبیات، اسلام آباد شمارہ ۶۱ ۲۰۰۳ء

۲۳۔    مظہر امام۔ مضمون ’’اردو غزل میں ہیئت کے تجربے ‘‘ مشمولہ ’’معاصر اردو غزل ‘‘ ( مرتبہ قمر رئیس )        ص: ۴۷

۲۴۔    ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی۔ مضمون ’’آزاد غزل کا لسانی مطالعہ ‘‘ اوراق لاہور (خاص نمبر ) جون جولائی ۱۹۸۹ء ص: ۲۵۰

۲۵۔    مظہر امام۔ ’’آزاد غزل شناخت کی حدوں میں ‘‘                    ص: ۷۷

۲۶۔     مظہر امام۔ ’’اردو غزل میں ہیئت کے تجربے ‘‘مشمولہ ’’معاصر اردو غزل ‘‘      ص: ۵۱

۲۷۔    مظہر امام۔ ’’رفتارِ نو‘‘ دربھنگا، (سالگرہ نمبر )        جنوری ۱۹۶۲ء          ص:۲۷

۲۸۔    ڈاکٹر خالد علوی۔ ’’اردو غزل کے جدید رجحانات ‘‘ ایجوکیشنل بک ہاؤس دہلی ۱۹۹۶       ص: ۱۹۷

۲۹۔     ظفر اقبال۔ ’’ حالہ نثر ما بشنو ‘                                    ص: ۱۵۸

۳۰۔    کرشن موہن۔ ’’غزال ‘‘                               ص:۸

۳۱۔     قتیل شفائی کا نوٹ۔ ’’افکار ‘‘ کراچی اگست ۱۹۸۰ئ                 ص: ۲۰۱

۳۲۔     مظہر امام۔ ’’اردو غزل میں ہیئت کے تجربے ‘‘ مشمولہ ’’معاصر اردو غزل ‘‘              ص: ۶۵

۳۳۔     ظہیر غازی پوری۔ خصوصی نوٹ۔ ’’سالار ‘‘ بنگلور (ادبی ایڈیشن ) ۱۰ اگست ۱۹۸۱ء

۳۵۔    ناوک حمزہ پوری۔ مضمون۔ ’’ اردو غزل۔ ایک امتحان‘‘سالار بنگلور (ادبی ایڈیشن)۱۲دسمبر ۱۹۸۱ء

۳۶۔     ڈاکٹر خالد علوی۔ ’’غزل کے جدید رجحانات ‘‘                      ص: ۲۰۶

۳۷۔     ڈاکٹر گیان چند جین۔ بحوالہ ’’شعریات ‘‘ گورنمنٹ کالج لاہور ۱۹۹۳ء         ص: ۱۵

۳۸۔     پروفیسر ظہیر احمد صدیقی۔ ’’ فارسی غزل اور اُس کا ارتقاء ‘‘

۳۹۔    طارق ہاشمی۔ مضمون ’’اردو غزل تجربات و امکانات ‘‘ مطبوعہ ’’خیابان ‘‘ (اصناف سخن نمبر ) ۲۰۰۱ء         ص:۸۰

۴۰۔     قتیل شفائی۔ مکتوب بنام مظہر امام۔ مطبوعہ ’’از لاف ‘‘ نئی دہلی شمارہ ۲۔ پشاور ستمبر ۱۹۸۸ء  ص:۳۵

۴۱۔     نذیر تبسم۔ غیر مطبوعہ مضمون ’’خاطر کا فن ‘‘ (حلقۂ ارباب ذوق پشاور میں ۷ جون ۱۹۹۷ء کو پڑھا گیا)

۴۲۔    فارغ بخاری۔ دیباچہ ’’غزلیہ ‘‘ خالد اکیڈمی لاہور ۱۹۸۲                     ص: ۹

۴۳۔     مظہر امام۔ ’’اردو غزل میں ہیئت کے تجربے ‘‘ مشمولہ ’’معاصر اردو غزل ‘‘            ص: ۶۱

۴۴۔    ڈاکٹر حامدی کاشمیری۔ مضمون ’’ہیئت میں تبدیلیوں کی نئی معنویت ‘‘ شاعر، بمبئی (نثری نظم اور آزاد غزل نمبر )۱۹۸۳ء ص:۳۹۴

۴۵۔    نذیر تبسم۔ مضمون ’’سرحد کی شعری روایت ‘‘ سہ ماہی ’’ادراک ‘‘ پشاور ستمبر ۱۹۹۴ء    ص: ۴۴

۴۶۔    بشیر بدر۔ خصوصی نوٹ۔ ہفتہ وار ’’مورچہ ‘‘ گیا ۸ جولائی ۱۹۷۲ء

۴۷۔    مظہر امام۔ مضمون ’’اردو غزل میں ہیئت کے تجربے ‘‘ (مشمولہ معاصر اردو غزل )       ص: ۵۱

۴۸۔     ڈاکٹر عنوان چشتی۔ ’’اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے ‘‘ انجمن ترقی اردو دہلی ۱۹۷۵

۴۹۔    مظہر امام۔ مضمون ’’اردو غزل میں ہیئت کے تجربے ‘‘        (مشمولہ معاصر اردو غزل )        ص: ۴۵

۵۰۔    ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی ’’آزاد غزل کا لسانیاتی مطالعہ ‘‘ اوراق لاہور ( خاص نمبر ) جون جولائی ۱۹۸۹ء ص: ۲۵۰

۵۱۔     مظہر امام۔ مضمون مشمولہ ’’معاصر اردو غزل ‘‘                     ص: ۴۲

۵۲۔     فارغ بخاری۔ دیباچہ ’’غزلیہ ‘‘                          ص: ۲۰

(۵۳)  کاشف نعمانی۔ سہ ماہی الکلام فیصل آباد، شمارہ۲                      ص۲۹۳

۵۴۔    ظہیر کاشمیری۔ ’’اردو غزل کا مستقبل ‘‘ (سمپوزیم ) ’’نقوش ‘‘ غزل نمبر اکتوبر ۱۹۵۵ء    ص: ۶۱۱

۵۵۔     فراق گورکھپوری۔ ’’اردو غزل گوئی ‘‘ ادارہ فروغ ادب لاہور          ص: ۱۱۲

۵۶۔     بشیر بدر۔ خصوصی نوٹ۔ ہفتہ وار ’’مورچہ ‘‘ گیا۔ ۸جولائی ۱۹۷۲ء

۵۷۔     جون ایلیا۔ ’’شاید ‘‘الحمد پبلشرز لاہور ۱۹۹۰                              ص: ۳۲

۵۸۔     مولانا سعید شیر کوٹی۔ ’’مخزن بلاغت ‘‘ کتب خانہ انصاریہ پشاور، سن             ص: ۹۴

۵۹۔    ڈاکٹر سید عبداللہ۔ ’’مباحث ‘‘                            ص:۴۶۹

۶۰۔    پروفیسر سعید احمد رفیق۔ مضمون ’’غزل کی ہیئت ‘‘ ادب لطیف جون ۱۹۵۵ء      ص: ۲۲

٭٭٭

 

 

 

 

اردو غزل۔ ۱۹۷۰ء کے بعد

 

i۔      روایت کا احیا اور قدیم جدید کا امتزاج

غلام محمد قاصر۔ جمال احسانی۔ صابر ظفر۔

سلیم کوثر۔ محمد خالد۔ سجاد بابر

ii۔      ۷۰ کی دہائی میں تجربات

۱۔ اساطیری علائم اور داستانوی عناصر کا تجربہ

شبیر شاہد۔ ثروت حسین۔ افتخار عارف۔

عرفان صدیقی، محمد اظہار الحق۔ افضال احمد سیّد۔

خالد اقبال یاسر۔ غلام حسین ساجد۔ ایوب خاور۔

شوکت ہاشمی۔ دیگر شعرا

۲۔ غزل مسلسل کے نئے قرینے

شبیر شاہد۔ غلام حسین ساجد۔ صابر ظفر۔

علی اکبرعباس۔

۳۔ علاقائی زبانوں اور مقامی ثقافت کے تجربات

علی اکبر عباس۔ جلیل عالی۔ صابر ظفر۔ عبداللہ یزدانی۔

۴۔ مزاحمتی غزل کا نیا لحن

تنویر سپرا۔ سبط علی صبا۔ علی مظہر اشعر۔ اسلم کولسری۔

iii۔     اردو غزل کا رواں منظر نامہ

مابعد جدے دیت۔ نو کلاسیکی روایت

غزل کی عصری صورت حال۔ غزل کا آئندہ

 

 

 

 

 

(۱)

 

اردو غزل کے لیے اسلوب اور زبان و بیان کی نئی راہیں نکالنے کے لیے ۶۰ کی دہائی میں جدیدیت کی تحریک کے زیر اثر یا اس کے متوازی جو دیگر تجربے کیے گئے اُن کے نتیجے میں غزل کے قدیم اور جدید نظریات کے مابین جدلیات کا ایک زبردست عمل سامنے آیا۔ جس میں ایک طرف تو غزل کی ’’زندہ روایت کے شعور کا فقدان تھا۔ ‘‘ (۱) اور دوسری طرف جدید لوگ بھی رد عمل میں اتنا تیز دوڑے کہ ’’جدیدیت کی تحریک۔ ۔ ۔ جس جاہ و جلال کے ساتھ۔ ۔ ۔ آلودہ ادب کی تطہیر کے لیے شروع کی گئی، ۱۹۷۰ء کے آس پاس ہی اُس نے ہانپنا شروع کر دیا۔ ‘‘(۲)

جدلیات کے اس عمل کے نتیجے میں ۱۹۷۰ء کے بعد اردو غزل کے اسلوب میں ایک ایسے امتزاج Synthesisکی تشکیل کی ابتدا ہوئی جس میں قدیم و جدید ہر دو تخلیقی رنگوں کی آمیزش تھی۔ ۷۰ء کی دہائی میں ظہور پذیر ہونے والی نئی نسل نے جہاں روایت کی اہمیت کو تسلیم کیا وہاں ۶۰ء کی دہائی کے جدید شعری نظریات سے بھی بڑی بالغ نظری سے استفادہ کیا۔ اس طرح نہ صرف ’’روایت کے شعور کی ساکھ بحال ہو گئی۔ ‘‘(۳)بلکہ ’’نئی غزل کے پاؤں کلاسیکی غزل کی روایت میں پوری طرح سے جم گئے۔ ‘‘(۴)

بحالی کے اس عمل کے بعد اردو عمل کے لیے وسیع، کشادہ اور جہت نما راستے کی ایک واضح اور ہم وار شکل جن شعراء کے ہاں نظر آتی ہے اُن میں شبیر شاہد، ثروت حسین، افتخار عارف، عرفان صدیقی، غلام محمد قاصر، جمال احسانی، صابر ظفر، عدیم ہاشمی، سلیم کوثر، محمد اظہار الحق، افضال احمد سیّد، غلام حسین ساجد، ایوب خاور، خالد اقبال یاسر، محمد خالد، جلیل عالی، شاہدہ حسن، فاطمہ حسن، سجاد بابر، اسلم کولسری اور خالد احمد کا شعری اسلوب نمایاں ہے۔

مذکورہ شعراء میں سے بعض نے نہ صرف اردو غزل کی روایت کا شعور بحال کرنے کی کوشش کی بلکہ اپنی تہذیبی روایت کا سراغ لگاتے ہوئے غزل میں اساطیری علائم کا تجربہ بھی کیا۔

اس نسل میں غلام محمد قاصرؔ ایسے شاعر ہیں جن کی غزل کو ’’الفاظ کے کلاسیکی رکھ رکھاؤ‘‘(۵) کے باعث پہچانا گیا اور نئی اردو غزل کے تناظر میں اُن کے بارے میں کہا گیا کہ ’’وہ غالباً واحد شاعر ہیں جو تحسین شعری کے پرانے نظام کا احیا چاہتے ہیں۔ ‘‘(۶) اُن کے اسلوبِ غزل کی خاص بات ہی یہی ہے کہ وہ اردو کی شعری روایت کے زندہ شعور سے تاباں ہے اور پرانے الفاظ و تراکیب نئی تاثیر سے آشنا ہوتے ہیں :

تم ناحق ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانہ کا پتہ

ہم نے ہر اُس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے

ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے

اے محبت کے مورخ! ہر حسیں کو بے وفا لکھ

نام اُس بے مہر کا بھی برسبیل تذکرہ لکھ

ان اشعار میں ’’نین نشیلے ‘‘، ’’ادائے جمال ‘‘ اور ’’بے وفا‘‘ ایسی تراکیب ہیں جو نئے شعری شعور پر گراں گزرنے والی ہیں لیکن روایت کے مکمل شعور کے ساتھ انھیں برت کر نہ صرف قابل قبول بنایا ہے بلکہ ان کی محبوبیت کو بھی اجاگر کیا ہے اور ’’پوری روایت جگمگا اٹھی‘‘(۷) ہے۔ غلام محمد قاصرؔ جب روایت کو جدید تصور شعر سے ہم آہنگ کرتے ہیں تو اسلوب ایسی امتزاجی شکل اختیار کرتا ہے کہ قدیم و جدید کی حدِّ امتیاز ماند پڑ جاتی ہے :

یوں تو ایک زمانہ گزرا دل دریا کو خشک ہوئے

پھر بھی کسی نے سراغ نہ پایا ڈوبے ہوئے جہازوں کا

ہتھیاروں کی شکل میں جس نے جنگوں کو تقسیم کیا

درپردہ اُس نے بھی کیا تسلیم کہ امن اکائی ہے

غلام محمد قاصر کے اسلوب کی ایک خاص انفرادیت اُن کے اشعار میں ڈرامائی تاثر ہے۔ اُن کی غزل میں مختلف کیفیّتیں، موڈز، مظاہر کائنات اور مجرّد عناصر غیر معمولی طور پر ایک ڈرامائی کردار کی صورت میں متحرّک دکھائی دیتے ہیں۔ اسلوب کا یہ خاص انداز غزل میں تمثال کاری اور کردار نگاری سے قدرے مختلف بلکہ آگے کی چیز ہے۔ یہاں محض تصویریں نہیں تراشی گئیں اور نہ ہی کرداروں کو بیانیہ انداز میں کلام کرتے دکھایا گیا ہے۔ یہ ایک منفرد انداز ہے جس میں ایک شاعر ایسا منظر تشکیل دیتا ہے کہ شعر کسی ڈرامے یا فلم کا ایسا منظر بن جاتا ہے جس میں مجرد اشیا کرداروں کی صورت میں تحرّک پذیر ہوتی ہیں۔ اردو غزل میں اس منفرد اسلوب کی بعض جھلکیاں غلام محمد قاصر سے پہلے رئیس فروغ کی غزل میں نظر آتی ہیں مثلاً:

اک پیڑ ہوا کے ساتھ چلا

پھر گرتے گرتے سنبھل گیا

اک سانولی چھت کے گرنے سے

اک پاگل سایہ کچل گیا

لیکن اس طورِ غزل کے امکانات کی تلاش اور توسیع، جتنے خوبصورت اور تخلیقی انداز میں غلام محمد قاصر نے کی وہ اپنی مثال آپ ہے :

چِلّا رہی ہے خوشبو، مالا پرونے والے

پھولوں میں گوندھ لائے کانٹوں کی معذرت بھی

گل سے مہکار چلی توڑ کے رنگوں کے حصار

اے صبا! کس نے سلاسل اسے پہنائے ہیں

پہلے ادھر نظر کا ہم نے سفیر بھیجا

پھر اُس نے فتح کر لی خوابوں کی سلطنت بھی

اک بادل آ کر جوڑ گیا

ہر آگ کا رشتہ پانی سے

میں نے پڑھا تھا چاند کو انجیل کی طرح

اور چاندنی صلیب پہ آ کر لٹک گئی

غلام محمد قاصرؔ کی غزل میں ’’چاند ‘‘ اور ’’دستک‘‘ دو ایسے الفاظ ہیں جن کی تکرار معنوّیت کی کئی پرتیں رکھتی ہے۔ ’’چاند ‘‘ کی علامت کلاسیکی دور میں اردو غزل کے خزینۂ علائم کا آب دار موتی رہا ہے لیکن ’’دستک‘‘ ایک تازہ، منفرد اور وسیع الابلاغ علامت ہے جو قاصر کی غزل میں بار بار ظہور کرتی ہے:

دستکوں کے سرخ پتھر، آہٹوں کے زرد پھول

گھر میں بھی ہے رت جگوں کا جو سماں راہوں میں ہے

وہی دل تیرے دروازے پر سب کچھ بھول جائے گا

جو دستک کا قرینہ اپنی ہر دھڑکن میں رکھتا ہے

سماعتوں کا سفر اور کیا عطا کرتا

سجا رہا ہوں سبھی دستکیں قرینے سے

’’دریائے گماں ‘‘ میں شائع ہونے والی آخری دور کی غزلوں میں روز واقعہ کے تلازمات اور نعتیہ شاعری کے حوالوں نے اُن کے ہاں غزل میں نئی وسعت کا امکان روشن کیا ہے :

کتنی دہشت شبِ سیاہ میں تھی

روشنی ایک خیمہ گاہ میں تھی

سحر تک شریکِ تلاوت رہے

ستاروں بھرا آسماں اور وہ

اردو غزل کے کلاسیکی صنائع شعری میں صنعت سیاقتہ الاعداد کے استعمال کی روایت کم و بیش ہر شاعر کے ہاں نظر آتی ہے۔ قاصر نے اس صنعت کو بڑے قرینے اور بیان کے ایک نادر تجربے کے ساتھ برتا ہے۔ جس میں فنی سطح پر روایت کا شعور اور فکری طور پر جدید دور کے تقاضے جھلکتے ہیں :

ساری چابیاں میرے حوالے کیں اور اُس نے اتنا کہا

آٹھوں پہر حفاظت کرنا شہر ہے نو دروازوں کا

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو

اے کاش! ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو

اردو غزل کاسرمایہ عروضی اعتبار سے بھی متنوع آہنگ رکھتا ہے۔ بعض بحریں بہت زیادہ تو بعض کا استعمال قدرے کم ہوا ہے۔ کچھ بحریں طویل ہیں تو کچھ مختصر ہیں۔ اردو شعرا نے ہر دور میں جہاں مروّجہ بحور کا استعمال کیا ہے وہاں کچھ نئے تجربے کر کے اردو غزل کو منفرد غنائیت اور آہنگ سے آشنا کیا ہے۔ اس پہلو سے غلام محمد قاصر کی غزل میں بحروں کے استعمال کا تنوّع بھی توجہ طلب ہے۔ جن میں سے بعض بحریں سماعت کے لیے اجنبی بھی ہیں :

ورائے بزمِ نجم و قمر اندھیرا دیکھتا ہی نہیں

وگرنہ شب سے تابہ سحر تو کوئی فاصلہ ہی نہیں

نہ موجوں کی جوانی نہ اب وہ بے کرانی

ہوا ہے خشک پانی رواں ہے پھر بھی کشتی

غلام محمد قاصر اردو غزل کی کلاسیکی روایت کو کتنے جدید انداز میں روشن کیا ہے اس حوالے سے اُن کا ایک شعر لائق توجہ ہے۔ جس میں غزل کی روایت میں چشم خوں بستہ کی تمثال کو جدید نظام مواصلات سے ہم آہنگ کیا گیا ہے :

خاموش تھے تم اور بولتا تھا بس ایک ستارہ آنکھوں میں

میں کیسے نہ رکتا جلنے لگا جب سرخ اشارہ آنکھوں میں

۰ ۷کی دہائی میں اردو غزل کی کلاسیکی روایت کے شعور کی بحالی اور جدید اسالیب شعر کے درست ادراک کے سلسلے میں غلام محمد قاصر کی تخلیقی سعی مسلسل ’’لمحہ لمحہ بدلتی ہوئی زندگی کی عکس بندی پر کار بند رہنے کے ساتھ ساتھ شاعری کے ایک نئے علاقے کی تعمیر میں پوری طرح کامیاب دکھائی دیتی ہے۔ ‘‘(۸)

اردو غزل کی روایت، کلاسیکی شعور کی بحالی اور اسلوب کے غیر محسوس تجربات کے سلسلے میں دوسرے اہم شاعر جمال احسانی ہیں، جو اس عقیدے کے ساتھ شعر تخلیق کرتے ہیں کہ:

ہوں غالب و اقبال کہ فیض و ظفر اقبال

ہر رنگِ سخن مکتبۂ میر سے نکلا ہے

میرؔ کے تخلیقی سرچشموں کی شیرینی و لطافت کا اعتراف کرنے کے ساتھ جدید غزل میں خود کو ’’ناصر کاظمی کی روایت سے وابستہ ‘‘(۹) قرار دینے والے شاعر جمال احسانی کی غزل میں زبان و بیان کا کلاسیکی شعور تابندہ نظر آتا ہے۔ محاورے کا برجستہ استعمال، تراکیب کی ندرت، بندش کی چستی، سہلِ ممتنع اور زبان کی وضع داری جمال کی غزل میں کلاسیکی روایت کو اپنے شعری وجود میں جذب کرنے کی گواہی دیتے ہیں :

رونقِ شہر بھی صحرا کی فضا لگتی ہے

دل تو وہ بات کہے گا جو خدا لگتی ہے

چشمِ حیراں کو تماشائے دِگر پر رکھا

اور اس دل کو تری خیر خبر پر رکھا

عین ممکن ہے چراغوں کو وہ خاطر میں لائے

گھر کا گھر ہم نے اٹھا راہ گذر پر رکھا

یہ بات درست ہے کہ ’’جمال شعوری طور پر روایت کو Reviveکرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘(۱۰) لیکن اُن کے لہجے میں اُس تیزی اور تندی کا وفور بھی موجود ہے جو ۶۰ کی دہائی کی کم و بیش پوری نسل کی غزل کا ایک نمایاں اور بنیادی پہلو ہے تاہم زبان کے کلاسیکی رکھ رکھاؤ کے باعث جمال کے ہاں درشتی یا کھردرے پن کی مثالیں نہیں ملتیں :

خموش ہوں تو مجھے اتنا کم جواز نہ جان

مرے بیان سے باہر بھی ہیں سبب میرے

یوں نہ ہو بول پڑوں میں تری خاموشی پر

اور تجھے بزم سے مہمان اٹھانا پڑ جائے

جمال کی غزل میں روایت کا شعور ضرور ہے تاہم ایسا ہر گز نہیں کہ وہ روایت کا شکار ہوں اور اردو غزل کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے ’’جدت پسند انھیں روایت کے خانے میں ڈال کر نظر انداز کر دیں۔ ‘‘(۱۱) اُن کے ہاں مصرعوں کی ساخت میں روایت جگمگاتی ضرور ہے لیکن شاعر کے ہاں جدید فنی پرداخت اور اپنی شناخت دھندلاتی نہیں ہے۔ وہ شعر میں اسلوب کا ایسا انوکھا اور اچھوتا پن قائم کرتے ہیں جس میں جدید لہجے کا رچاؤ صاف نظر آتا ہے۔ جمال احسانی کا ایک مصرعہ ہے :

ع:    ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی

ساقی فاروقی کہتے ہیں کہ ’’اس قسم کا مصرعہ دیا شنکر نسیم اور قائم چاند پوری نہیں لکھے سکتے تھے۔ ‘‘(۱۲) جمال کے ہاں ایسا مصرعہ یہ ایک نہیں، لاتعداد ہیں :

نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا

بس ایک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا

یہ سیلِ اشک بھی اپنا ہے آنکھ بھی اپنی

کھڑے رہو کہ یہ دریا یہیں پہ اترے گا

جمال احسانی کی انفرادیت اور قدیم و جدید کے امتزاج کا تجربہ اُن تمثالوں میں بھی نمایاں ہے جو کبھی کبھار ظہور کرتی ہیں مگردیرپا نقوش چھوڑتی ہیں :

ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی

آگے راہ کا سنّاٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی

اردو غزل کی نئی روایت میں جمال احسانی کے دو استعاروں ’’چراغ ‘‘ اور ’’ستارہ‘‘ کا اضافہ بھی بہت زرخیزی کا باعث ہے۔ یہ دونوں استعارے جہاں اپنے اندر معنوّیت کا تنوّع رکھتے ہیں وہاں ان کی بلاغت کی گہرائی بھی کم نہیں۔ مذکورہ استعاروں کی شعری جمالیات سے اُن کے معاصرین اور آئندگاں نے بھی خوب استفادہ کیا ہے :

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا

یہ سانحہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

وہ جس منڈیر پہ چھوڑا آیا اپنی آنکھیں میں

چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا

ستارے کا راز رکھ لیا میہمان میں نے

اک اجلے خواب اور آنکھ کے درمیان میں نے

اک ستارہ مجھ سے مل کر رو پڑا تھا کل جمالؔ

وہ فلک سے اور میں تھا خاک سے بچھڑا ہوا

۷۰ کی دہائی میں روایت اور جدت کا امتزاج قائم کرنے والے شعرا میں سلیم کوثر اور صابر ظفر کا شعری لحن بھی نمایاں ہے۔ سلیم کوثر کی غزل میں طنزیہ لہجے کی تہذیب، شناخت کا بنیادی حوالہ ہے :

یہی ہے ناں تمہیں ہم سے بچھڑ جانے کی جلدی ہے

کبھی ملنا تمہارے مسئلے کا حل نکالیں گے

اب یہ موسم مری پہچان طلب کرتے ہیں

میں جب آیا تھا یہاں تازہ ہوا لایا تھا

سلیم کوثر کے ہاں ’’ہنر ‘‘ کا لفظ بنیادی استعارے کے طور پر رونما ہوتا ہے :

تمہاری طرح جینے کا ہمیں بھی گر ہنر آتا

مکان اپنا وہی رکھتے پتہ تبدیل کر لیتے

سلیم کوثر کے اشعار سہلِ ممتنع کی مثال ہیں۔ ۷۰ کی دہائی میں اُن کے علاوہ صابر ظفرؔ کے ہاں بھی بیان کا یہ قرینہ نظر آتا ہے اور بعض اوقات بہت نکھر کر سامنے آتا ہے :

میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں

جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے

ہمارا عشق ظفر رہ گیا دھرے کا دھرا

کرایہ دار اچانک مکان چھوڑ گیا

۷۰ کی دہائی میں محمد خالد کا نام تواتر سے لیا گیا ہے۔ اُن کی حیثیت تخلیق اور نظریہ سازی دونوں حوالوں سے خاص ہے۔ محمد خالد نے بحور اور آہنگ کے بعض تجربے بھی کیے ہیں مگر اسلوب کی سطح پر اُن کی غزل ’’ایک طرف کلاسیکی شعری روایت میں پیوست ہے اور دوسری طرف جدید سانچوں میں ڈھلی ہوئی ہے۔ ‘‘(۱۳)

اُن کے ہاں دو بنیادی استعارے ’’خاک ‘‘ اور ’’خواب ‘‘ ہیں۔ یہ دونوں استعارے اگرچہ ۷۰ کی دہائی کے شعراء کے ہاں مجموعی طور پر بھی مقبول رہے اور اردو شعر و ادب کے رواں منظر نامے میں بھی ان کی آب و تاب کم نہیں ہوئی لیکن ان استعاروں کی معنویت اور ان کی مختلف تخلیقی جہات کا شعور محمد خالد کے ہاں غالباً سب سے زیادہ ہے :

خطۂ خواب میں تا دیر نہیں رک پاتے

پلٹ آتے ہیں کہ تاثیر عجب خاک میں ہے

یہ مسافت حدِ یک خواب سے آگے نہ گئی

ہم نے اس وادیِ غربت میں گزارا ہی کیا

کبھی باد و آتشِ تیز میں ہے مری نمو

کبھی خاک میں، کبھی آب میں، کبھی خواب میں

محمد خالد کی غزل میں ’’خاک ‘‘ اور ’’خواب ‘‘ کے استعاروں کی تخلیقی تکرار کے پیشِ نظر یہ بات قرین حقیقت ہے کہ ’’اُن کی شاعری خواب سے لے کر خاک تک اور خاک سے لے کر خواب تک کے روحانی سفر کی تفسیر ہے۔ ‘‘(۱۴)

اس دہائی کے ایک اور اہم شاعر سجاد بابر ہیں جن کے ہاں اپنے معاصرین کی طرح روایت کے احیا کے بجائے غزل کے اسلوب اور زبان کی جدید تشکیل کے تجربات کا رجحان زیادہ ہے۔ اُن کا شعری لحن اگرچہ نظمیہ آہنگ سے خالی نہیں ہے، تاہم یہ سعی ضرور نظر آتی ہے کہ ایک شعر میں تراشی گئی تمثال دو مصرعوں کے فریم سے تجاوز نہ کرے :

شہر والے تو ہواؤں میں گھلے زہر کا حال

رنگ تصویر سے اڑ جاتے ہیں تب جانتے ہیں

صحن بھی گونجتا رہتا ہے دھمک سے اُس کی

آسماں پر بھی اسی سوچ کے طیّارے ہیں

ہوا، اندھیر ا، چراغ، شب، صبح اور خوشبو ایسے الفاظ کا تخلیقی استعمال اور ان سے بننے والی متحرّک تمثالیں حواس کو براہ راست متاثر کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ سجاد بابر کے ہاں ’’کاغذ ‘‘ کا لفظ متنوّع استعاروں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ جس سے جدید صنعتی دور سے آلودہ انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کی گئی ہے۔ یہ اشعار شاعر کے عصری شعور کا بھی پتہ دیتے ہیں اور اس شعور کی اپنے قاری تک ترسیل کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ثابت ہوتے ہیں۔ ’’کاغذ ‘‘ کے استعارے کے استعمال سے سجاد بابر نے اُس نفسیاتی خوف کو بھی بڑی عمدگی سے اُجاگر کیا ہے جس سے عہد نو کا انسان دوچار ہے :

مجھے تھا زعم کہ میں نے سکوت توڑا ہے

مگر وہ شور تو بوسیدہ کاغذوں کا تھا

وسوسوں کی چھت کے نیچے بیٹھنے والے کہیں

سانپ کاغذ کا گرا تو سنسنی کیسی رہی

 

 

 

 

(۲)

 

۷۰ کی دہائی کے شعرا نے جہاں روایت کے احیا اور جدید تجربات میں توازن لانے کی سعی کی وہاں اس نسل کی تخلیق کردہ غزل میں تجربوں کا ایک نیا راستہ بھی اسلوب اور زبان و بیان کی نئی جہتوں کی طرف کھلتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم تجربہ اسلامی و عجمی تہذیب سے وابستہ اساطیری علائم اور لفظیات کا استعمال ہے۔ جس نے متعدّد شعرا کے ہاں قبولیت حاصل کی اور غزل میں ایک نیا طرزِ احساس پیدا ہوا۔

اردو غزل میں ان علامتوں اور لفظیات کے امکانات کو دیکھتے ہوئے ان کے فروغ کے سلسلے میں بعض ادیبوں اور تخلیق کاروں نے نظریہ سازی بھی کی جن میں سراج منیر، محمد خالد، غلام حسین ساجد اور ڈاکٹر مرزا حامد بیگ قابل ذکر ہیں۔

سراج منیر نے لکھا ہے کہ ’’ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اس نسل کے تخلیقی ظہور کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تاریخ ایک بہت بڑی قومی واردات سے گزرتی ہے۔ اس نسل کے پورے طرزِ احساس پر اس موسم کا عکس جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ ‘‘(۱۵)

نئے شعرا کا ماضی کی سری، دیومالائی، تاریخی اور مذہبی اساطیر کی طرف رجوع کرنے کوایک عالم خواب سے نمود کر کے موجود کی رمزیت کی تلاش کا ایک فطری عمل قرار دیتے ہوئے غلام حسین ساجد نے لکھا ہے کہ ’’ موجود کی بے حسی اور جمود کو شاید اسی طرح توڑنا ممکن تھا۔ جس سے راستہ نکالنے کے لیے خواب، چراغ، آئینہ، آسمان، شمشیر، رہوار، جھروکے، محل سرا، خدّام و  خرگاہ اور ایسی بہت سی تہہ دار علامتوں کا استعمال میں لانا ضروری تھا۔ ‘‘(۱۶)

غزل میں اسلامی و عجمی اساطیر کی علامات کا استعمال اُن کے نزدیک اس لیے بھی ضروری تھا کہ ’’ شعرا کو اپنے گھائل فکری وجود کے استحکام اور اثبات کے لیے ماضی میں بہت پیچھے تک پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ‘‘(۱۷)

سانحہ کربلا کی استعاراتی حیثیت پر لکھتے ہوئے گوپی چند نارنگ نے بہت عمدہ بات کہی ہے کہ ’’ تاریخ آرائش جمال میں مصروف رہتی ہو یا نہیں لیکن نقاب میں ماضی کا آئینہ دائم پیش نظر رہتا ہے۔ جب جب۔ ۔ ۔ معاشروں کو نئے مطالبات اور نئی ہولناکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ۔ ۔ تو معاشرے قدیم دفینوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور تاریخی روایتوں نیز ثقافتی لاشعور کے خزینوں سے حرکت و حرارت کا نیا ساز و سامان لے کر فکر و عمل کی نئی راہوں کا تعیّن کرتے ہیں۔ ‘‘(۱۸)

اردو غزل کے ارتقائی سفر کو دیکھیں تو بر عظیم پاک و ہند میں جب کوئی ایسا واقعہ ہوا، جس سے کسی تہذیبی آشوب نے جنم لیا ہمارے شعرا ماضی کی طرف رجعت اختیار کر کے اپنا تہذیبی آموختہ کرتے نظر آتے ہیں۔ بر عظیم پر فرنگی غلبے کے بعد غالب کے ہاں اگرچہ:

ع وہ فراق اور وہ وصال کہاں

ایسے رمزیہ مگر بلیغ مصرعوں سے بات آگے نہیں بڑھتی لیکن اقبال ایسے تاریخی شعور رکھنے والے شاعر نے کھوئے ہوؤں کی جستجو کی اور بلادِ اسلامیہ کا آشوب اپنی غزل میں بیان کیا۔

۱۹۴۷ء کے بعد ناصر اور منیر نے بھی ماضی کی طرف رجوع کرتے ہوئے اساطیر میں پناہ لی۔ ناصر کاظمی نے اگرچہ ماضی کی بازیافت ہندوستانی تہذیب و تمدن کے وسیلے سے کی لیکن منیرؔ کے ہاں کینوس وسیع تر ہے۔ تہذیبوں کی شکست و ریخت اور صاحبِ اوج و کمال اقوام کے زوال کے بعد خرابوں کی تصویر کشی منیرؔ کی غزل کا بہت جاندار حوالہ ہے :

ہے بابِ شہر مردہ گزر گاہِ باد شام

میں چپ ہوں اس جگہ کی گرانی دیکھ کر

مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے

اُسے جب بھی چاہا بلالیا اُسے جو بھی چاہا بنا دیا

یہاں رئیس امروہوی کی ایک غزل کے چند اشعار بھی برمحل ہیں جو ہجرت کے تجربے کے تناظر میں اساطیر کی شعری معنویّت و اہمیّت اجاگر کرتے ہیں :

دیارِ شاہدِ بلقیس ادا سے آیا ہوں

میں اک فقیر ہوں شہرِ سبا سے آیا ہوں

جہانِ نو کی طلب ہے اور اس خرابے میں

سوادِ اصطخر و نینوا سے آیا ہوں

مرے رموز کا عرفاں کسے نصیب کہ میں

سروشِ روحِ ازل ہوں سما، سے آیا ہوں

اسی طرح سجاد باقر رضوی کا یہ شعر :

آواز دے رہے ہیں درِ دل پہ وسوسے

ہر گام ایک کوہِ ندا ہے ہمارے ساتھ

۱۹۷۱ء میں سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ اس اعتبار سے ایک بڑا تہذیبی بحران ہے کہ پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوئے ابھی ۲۵سال بمشکل ہوئے تھے کہ اہل پاکستان آدھے وجود کے المیے سے دوچار ہوئے اور اس سے پہلے ۶۵ء کی جنگ کے زخم بھی ہنوز ہرے تھے۔ اس سانحے کے بعد جب کہ وطن عزیز کے باشندوں کی روح مجروح ہوئی تو نئے غزل گوؤں نے ایک بار پھر اپنے تہذیبی ماضی کی ہڑتال کی جس سے ’’ایک مذہبی طرز احساس نے غزل کا رنگ و روپ بدل دیا۔ ‘‘(۱۹)

اس بدلے ہوئے رنگ و روپ میں اساطیری علائم کا اتنا وفور نظر آتا ہے کہ اس نسل کا تخلیق سرمایہ بحیثیت مجموعی ’’اساطیری غزل ‘‘ سے معنون ہوا۔

۱۹۷۰ء کے بعد جن نئے غزل گوؤں کے ہاں مذہبی طرزِ احساس کے تحت اساطیری و تہذیبی علامتوں کا تجربہ نمایاں نظر آتا ہے اُن میں شبیر شاہد، ثروت حسین، افتخار عارف، عرفان صدیقی، محمد اظہار الحق، افضال احمد سیّد، خالد اقبال یاسر، غلام حسین شاہد، ایوب خاور، شوکت ہاشمی اور غلام محمد قاصر کا سرمایۂ شعر قابلِ بحث ہے۔

شبیر شاہد کا بیشتر تخلیقی اثاثہ اُن کے وجود کی طرح پردۂ غیب میں ہے اور چند ایک تخلیقات ہی اُن کے ہونے کی گواہی دیتی ہیں تاہم اُن کی نسل کے لوگ انھیں خود نئی غزل کا پیش رو قرار دیتے ہیں اور اس میں شبہ نہیں کہ شبیر شاہد نے ’’روایت میں نئی سمت دریافت کی اور ایک نئے تخلیقی بہاؤ کو رواج دیا۔ ‘‘(۲۰)

اُن کی محدود میسّر تخلیقات میں ۷۰ کے بعد اردو غزل میں اساطیری علامتوں کے استعمال کی ایک نئی خوشگوار روایت کا آغاز ہوتا ہے :

نگاہ میں ہے شکوہ اُس کی عمارتوں کا

وہ معبدوں کا جلال بھولا نہیں ہے مجھ کو

وہاں ہیں انگور کے چمن، دیویوں کے درشن

بہشت کے اہتمام سارے ہیں اُس کنارے

ثروت حسین کی غزل بقول سراج منیر ’’اس پوری نسل کے شعری تجربے کے عین مرکز میں واقع ہے۔ ‘‘(۲۱) اُن کا شعری منظر نامہ مذہبی طرز احساس اور اس کے تانے بانے سے تاریخ کی علامتوں اور کرداروں سے ترتیب پاتا ہے۔ وہ غزل میں انفس و آفاق کا مطالعہ و مشاہدہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اُن کی جذباتی وابستگی اس کرّۂ خاکی کے مدار سے جدا نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں ’’خاک ‘‘ ایک بہت بلیغ استعارہ ہے، جس کے وسیلے سے وہ اپنی سرزمین اور اس کے حوالوں سے اپنی وارفتگی کرتے ہیں :

نقش کچھ ابھارے ہیں فرشِ خاک پر میں نے

نہر اک نکالی ہے وقت کاٹ کر میں نے

ثروت کے شعری اسلوب میں اساطیر کی معنویت یک سطحی نہیں ہے بلکہ انسان کی داخلی نفسیات سے لے کر خارجی سماجیات تک کا بیک وقت احاطہ کرتے ہوئے روحانی تسکین کا سامان ہے :

سبز اندھیروں سا آنچل

گرم زمین اور ٹھنڈا جل

ایک کٹورے میں کچھ آگ

ایک کٹورے میں بادل

میں سو رہا تھا اور مری خواب گاہ میں

اک اژدہا چراغ کی لَو کو نگل گیا

کنجِ خزاں آثار میں ثروت آج یہ کس کی یاد آئی

ایک شعاعِ سبز اچانک تیر گئی پاتالوں میں

ان اشعار کے معانی کی وسعت کی وضاحت ثروت کے ہاں تب ہوتی ہے جب وہ قندیل مہ و مہر کو افلاک پہ چھوڑ کر اپنے خاک زادہ ہونے پر فخر اور اعتماد محسوس کرتا ہے اور اپنی مٹی کی شادابی اور ہریالی کے خواب دیکھ کر ان کی تعبیر کی دعاؤں سے سرشار ہوتا ہے :

باد و باراں میں چلے یا تہِ محراب رکھے

رکھنے والا مری شمعوں کو ابد تاب رکھے

پورے چاند کی سج دھج ہے شہزادوں والی

کیسی عجیب گھڑی ہے نیک ارادوں والی

آئے ہیں رنگ بحالی پر

رکھتا ہوں قدم ہریالی پر

خوابوں کا مرکز یہ سرزمین تاریخی طور پر بہت معتبر حوالے رکھتی ہے اور ثروت کی غزل میں وہ تمام حوالے اوراقِ مصّور کی طرح جگمگاتے ہیں۔ قمر جمیل کے خیال میں ثروت کے ہاں وجود کے ہزار دروازے ہیں اور ہر دروازے میں آنکھیں، چہرے اور ستارے، بابل اور نینوا سے سفر کرتے ہوئے اسپین اور چلِّی تک ہو آتے ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘(۲۲)

اُن کی غزل میں اُن علامتوں کی پکار واضح سنائی دیتی ہے جن سے سرزمین وطن کے تہذیبی اور روحانی مراسم ہیں :

قریب ہی کسی خیمے سے آگ پوچھتی ہے

کہ اس شکوہ سے کس قرطبہ کو جاتا ہوں

فراتِ فاصلہ و دجلۂ دعا سے ادھر

کوئی پکارتا ہے دشتِ نینوا سے ادھر

اُسی انجمن کی طرف جاؤں گا

یہاں سے یمن کی طرف جاؤں گا

ثروت کے ہاں بعض لفظیات اور تراکیب غزل میں حمد و نعت کا تاثر بھی پیدا کرتی ہیں :

اسی جزیرۂ جائے نماز پر ثروت

زمانہ ہو گیا دستِ دعا بلند کیے

گونجتی گلیوں میں ہے ان کے خیالوں کی چھاپ

گشت و گلیم آشنا پاک پیمبر ترے

اساطیری علامتوں کے تجربات کے سلسلے میں ثروت کے ہاں دیگر عناصر کے ساتھ ساتھ بعض کردار بھی متحرک نظر آتے ہیں۔ جن کے وجود کی معنویّت سے داستانوں کا تار و پود بنتا ہے۔ یہ کردار ثروت کے ہاں اُن کی غزل کی مجموعی فکری معنویت سے الگ نہیں ہیں۔ البتہ ان کی جہات میں تنوّع ضرور ہے، اس حوالے سے ’’شہزادی ‘‘ کا کردار بہت لائق توجہ ہے جو اتنی تخلیقی آب و تاب رکھتا ہے کہ اُس کے پرتو ثروت کے بعض دیگر معاصرین کی غزل میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس کردار کے علاوہ شہر زاد، بلقیس، صوفیہ اور سلیمان کے کردار بھی ثروت کی غزل میں معنویّت سے بھرپور کردار ہیں :

شہزادی تجھے کون بتائے تیرے چراغ کدے تک

کتنی محرابیں پڑتی ہیں، کتنے در آتے ہیں

تو سنِ شعر ہمارے حق میں تختِ سلیماں ہے ثروت

جنّ و ملائک پایہ تھامے آگے آگے چلتے ہیں

اپنی تاریخ و ثقافت اور جغرافیہ سے محبت کا ایک حوالہ اپنی مٹی کی خوشبو بھی ہے۔ ثروت حسین نے اس خوشبو کو اپنے حواس میں اتار کر غزل کو جس نئے اسلوب سے روشناس کرانے کی سعی کی ہے اُس میں پنجاب اور سندھ کے صوفیائے کرام کی کافیوں اور منظوم لوک داستانوں کا رچاؤ بھی ہے۔ ان اشعار میں کہیں تو ترکیب سازی میں لوک شاعری سے استفادہ کیا گیا ہے تو کہیں حیرت و استعجاب، وصل کی سرشاری اور فراق کے کرب کے مضامین کافی رنگ میں باندھے گئے ہیں :

میری کشتی ٹوٹ رہی ہے، سر سے اونچا پانی ہے

پانی کاٹتے جیون بیتا پھر بھی کتنا پانی ہے

لال لہو فوّارہ ھو

یار نے خنجر مارا ھو

سچا سائیں منارے والا

تن من تجھ پر وارا ھو

سانحہ کربلا اور اس کے متعلقات بطور کنایہ اردو غزل کے کلاسیکی دور ہی سے اس صنف کا سرمایہ رہے ہیں۔ تاہم جدید غزل میں کربلا کے استعارے کے باقاعدہ بنیاد گزار محمد علی جوہر اور اقبال ہیں۔ بعد میں ترقی پسند شعرا نے صلیب و دار کی مقبول لفظیات کے ساتھ ساتھ اس سانحے کا استعارہ بھی کہیں کہیں استعمال کیا ہے۔

اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے فیض احمد فیض نے لکھا ہے کہ ’’اب سے پہلے عشق و طلب، ایثار اور جاں فروشی، جبر و تعدّی کا بیان صرف منصور و قیس اور فرہاد و جم کے حوالے سے بیان کیا جاتا تھا۔ پھر جب گھر میں دار ورسن کی بات چلی تو مسیح و صلیب کے حوالے سے بھی آ گئے لیکن المیۂ کربلا اور اس کے محترم کرداروں کا ذکر بیشتر سلام اور مرثیے تک محدود رہا۔ ‘‘(۲۳)

قیام پاکستان کے بعد مجید امجد اور منیر نیازی کے بعض اشعار میں کربلا ایک واضح اور توانا استعارہ ہے لیکن ۱۹۷۰ء کے بعد جب کہ شعرا مذہبی طرز احساس کے تحت اپنے ماضی کی تہذیبی پڑتال کر رہے ہیں، افتخار عارف ایسے شاعر ہیں جن کے ہاں ’’یہ رجحان ایسی محویّت اور تخلیقی شان سے اظہار پذیر ہوا ہے کہ اُن کی شعری شناخت کا ناگزیر حصہ بن گیا ہے۔ افتخار عارف کے تخلیقی وجدان کو اس سے جو گہری مناسبت ہے اُس کی نئی شاعری میں مثال نہیں ملتی۔ ‘‘(۲۴)

سپاہِ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر

کس اہتمام سے پروردگارِ شب نکلا

وفا کے باب میں کارِ سخن تمام ہوا

مری زمین پہ اک معرکہ لہو کا بھی ہو

اردو غزل میں روزِ واقعہ اور اس کے متعلقات کے استعمال کا تجربہ جب افتخار عارف نے کیا تو ابتداء میں بعض اطراف سے اسے غزل اور مرثیے کے مابین فرق کا عدم شعور قرار دے کر اسے شاعر کے لکھنوی تناظر سے نتھی کیا گیا(۲۵) لیکن اس بلیغ استعارے کی سماجی تناظر میں معنوی جہت پر بہت کم غور کیا گیا۔

افتخار عارف کی غزل میں کربلا سے متعلق اشعار بالواسطہ بھی ہیں اور بلاواسطہ بھی۔ اُن کے بعض اشعار میں واقعہ کربلا کے براہ راست اظہار کے بجائے بستی اور شہرِ کی لفظیات کے ذریعے بلیغ اشارے کیے گئے ہیں :

یہ بستی جانی پہچانی بہت ہے

یہاں وعدوں کی ارزانی بہت ہے

کوئی تو شہر تذبذب کے ساکنوں سے کہے

نہ ہو یقین تو پھر معجزہ نہ مانگے کوئی

جن غزلیات میں واقعہ کربلا کا براہ راست اظہار کیا گیا ہے، اُن میں بھی محض رثا نہیں بلکہ اس واقعے کو تاریخ کے تسلسل میں دیکھا گیا ہے۔ مثلاً یہ غزل جس کا مطلع ہے :

وہی پیاس ہے، وہی دشت ہے، وہی گھرانہ ہے

مشکیزے سے پیاس کا رشتہ بہت پرانا ہے

کربلا اور اُس کے جاں نثاروں کو ہدیۂ استحسان پیش کرتے ہوئے افتخار عارف جب تاریخ کے تسلسل پر نظر ڈالتے ہیں تو عہد موجود کے مکروہات بہت ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ شاعر کے لہجے میں طنز و تضحیک ایک بنیادی عنصرِ شعر بن جاتا ہے۔ خصوصاً مصلحت اور منافقت کے رویےّ بہت زیادہ تعریض کا نشانہ بنے ہیں :

کہاں کا نام و نسب، علم کیا فضیلت کیا

جہانِ رزق میں توقیر اہلِ حاجت کیا

دل اُن کے ساتھ مگر تیغ اور شخص کے ساتھ

یہ سلسلہ بھی کچھ اہلِ ریا کا لگتا ہے

ہم اہلِ جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں

سروں کی فصل جب اتری تھی تب سے واقف ہیں

خیمۂ صبر سے ٹکرا کے پلٹنے لگے تیر

اب انھیں سینۂ قاتل میں در آیا جانیں

سانحہ کربلا کے استعارے نے افتخار عارف کی غزل کو لفظیات کے لحاظ سے بھی ثروت مند کیا ہے۔ مشکیزہ، رن، دشت، تیر، سنان، چراغ، دریا، شام، کوفہ، بیعت، مدینہ، نجف، خیمہ اور اس نوع کے متعدد الفاظ ایسے ہیں جو کربلا کے استعارے کے توسط سے اردو غزل کا حصہ بنے ہیں یا انھیں نئی معنویّت ملی ہے۔ اسی طرح بعض منفرد تراکیب بھی قابل توجہ ہیں۔ دمشقِ مصلحت، کوفۂ نفاق، فرات جبر، خیمۂ صبر، خیمہ عافیت اور چراغ سرِکوچۂ باد ایسی تراکیب ہیں جو بڑی تازگی کے ساتھ اردو غزل کا حصہ بنی ہیں۔

کربلا کا استعارہ افتخار عارف کی غزل میں بنیادی ہے لیکن فکری سطح پر اُن کے اشعار کی معنوی جہت اُس جدلیاتی کشمکش سے باہر نہیں جاتی جس پر ترقی پسند تحریک کی نظریاتی اساس کی تعمیر ہے۔

۷۰ کی دہائی میں روز واقعہ کا استعارہ جس شاعر کے ہاں وسیع تر مطلب کے ساتھ ملتا ہے وہ عرفان صدیقی ہیں :

ہم نہ زنجیر کے قابل ہیں نہ جاگیر کے اہل

ہم سے ان کار کیا جائے نہ بیعت کی جائے

جو گرتا نہیں ہے اُسے کوئی پامال کرتا نہیں

سو وہ سر بریدہ بھی پشتِ فرس سے اترتا نہیں

تری تیغ تو میری ہی فتح مندی کا اعلان ہے

یہ بازو نہ کٹتے اگر میرا مشکیزہ بھرتا نہیں

عرفان صدیقی نے سانحہ کربلا کے متعلقات کی لفظیات بہت شاذ استعمال کی ہیں لیکن دشت، صحرا، دریا، تیغ، نیزہ، سناں، سراب اور خیمہ کی علامت کو اس قرینے سے استعمال کیا ہے کہ سانحہ کربلا جبر کی معاصر صورت حال کا ایک بلیغ علامتی پیرایۂ اظہار بن جاتا ہے :

پیاس نے آبِ رواں کو کر دیا موجِ سیراب

یہ تماشا دیکھ کر دریا کو حیرانی ہوئی

تم جو کچھ چاہو وہ تاریخ میں تحریر کرو

یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا

غربت کی دھول، کیسے کسی کو دکھائی دے

میرے برہنہ سر کی ردا ہو گئی ہے شام

تو وہ شب بھر کی رونق چند خیموں کی بدولت تھی

اب اُس میدان میں سنسان ٹیلوں کے سوا کیا تھا

گوپی چند نارنگ نے عرفان صدیقی کی شعری کائنات کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’اُن کا اصل مسئلہ اسلام کا شاندار ماضی ہے اور یہ کہ زندگی عذابوں میں گھر گئی ہے۔ ‘‘(۲۶) توصیف تبسم نے لکھا ہے کہ اُن کی غزل کا بنیادی موضوع ’’قیام پاکستان کے بعد وہ ذہنی و جذباتی فضا ہے جس میں بر صغیر کے مسلمان سانس لے رہے ہیں ‘‘(۲۷)

عرفان صدیقی نے اس جذباتی فضاء کو جن منفرد الفاظ میں تمثال کیا ہے وہ اس گھمبیر آشوب کو اُس کے مکمل کرب کے ساتھ اجاگر کرتے ہیں۔ اُن کی لفظیات اگرچہ روایت سے مستعار ہیں تاہم نقد معنی اپنا ہے۔ ’’ ہندوستان کی معاصر سماجی اور تہذیبی صورتِ حال کی ایسی تخلیقی نقش گری اردو کی جدید غزل میں کم یاب ہے۔ ‘‘(۲۸)

تم ہمیں دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمہیں کیا خبر یا اخی!

کتنے موسم لگے ہیں بدن پر ہمارے نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی!

جنگ کا فیصلہ ہو چکا ہے تو پھر میرے دل کی کمیں گاہ میں کون ہے

اک شقی کاٹتا ہے طنابیں مرے خیمۂ خواب کی رات بھر یا اخی!

یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سرسبز بازو بچا لے گئے

یوں بھی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کو اپنے لہو کا شجر یا اخی!

عرفان صدیقی نے اسلامی تہذیب کے زوال کا نوحہ برصغیر کے عصری آشوب کے حوالے سے کیا ہے۔ یہ نوحہ عالمگیر تناظر میں محمد اظہار الحق کے ہاں سنائی دیتا ہے جن کی ’’ غزل عجمی اسلامی تہذیب اور اس کے عروج و زوال سے ابھر نے والی ایک مسلسل داستان ہے۔ ‘‘(۲۹) اور مسلم تہذیب کی ثروتیں اُن کی شاعری میں مسلسل نمود کرتی ہیں۔ ‘‘(۳۰) اُن کے اشعار میں تہذیب ’’اپنے شوخ رنگوں میں ڈوبتی ابھرتی ہے۔ ‘‘(۳۱)

محمد اظہار الحق جب اشعار کے پیرائے میں داستان سرا ہوتے ہیں تو اردو غزل نہایت نئے اور منفرد لفظیات کے تجربے سے گزرتی ہے اور ’’جدید اردو غزل کا موسم یکسر تبدیل ہوتا نظر آتا ہے۔ اس کی ہوائیں، پھل پھول اور گھاس پات تک مختلف ہیں۔ ‘‘(۳۲)

پروں کی پھڑپھڑاہٹ تھی زمانے زیرِ پا تھے

نہیں معلوم برزخ تھا کہ میں جی کر اُٹھا تھا

ملی ہے اس لیے خلعت کہ میں نے زیرِ عبا

چلا تھا گھر سے تو شمشیر بھی پہن لی تھی

نئی دنیا کی ساری سطوتیں پھوٹی ہیں مجھ سے

اروپا کا فسانہ میرے میناروں میں گم تھا

قرطبہ، سمر قند و بخارا اور بصرہ و بغداد اسلامی دور حکومت کے عروج کی علامت ہیں۔ یہ دیار مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی روشنی آج بھی مختلف نشانیوں میں محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ محمد اظہار الحق نے ان شہروں کاذکر اس وارفتگی کے ساتھ غزل کا حصہ بنایا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ داستانِ عروج و زوال خود شاعر کی سوانحِ حیات ہے اور جیسے شاعر نے ’’قرطبہ میں آنکھ کھولی ہے اور اسلامی لشکروں میں جوان ہوئے ہیں۔ ‘‘(۳۳) چنانچہ اظہار کے ہاں ’’قرطبہ کے گنبدوں میں گونجنے والی صداؤں سے ادھر، الحمرا کے رنگوں سے پرے کہیں کاشغر کو جاتے ہوئے قافلوں کے غبار ہیں، درباروں کے منظروں میں، گھروں کے آنگنوں میں اور آخر شب کسی چراغ کی لو کے ارد گرد ایک لمحۂ ہجر پھیلتا جاتا ہے اور انفرادی سطح سے پھوٹتا ہوا ایک مکمل تہذیبی اور کائناتی ہجر بن جاتا ہے۔ ‘‘(۳۴)

پسِ دیوار نقّاشوں، ہنر مندوں کے سر تھے

پھر اک در تھا لہو کا اور پسِ در قرطبہ تھا

ہمارے گھر، ہمارے بصرہ و بغداد دیکھو

ہیں گرنے کو ستارے بصرہ و بغداد دیکھو

محمد اظہار الحق نے مسلم دور حکومت اور تہذیب و تمدّن کے زوال کے مختلف سانحوں کو بھی تصویر کیا ہے، جن میں سازشوں، محلوں اور غارت گروں کی تاراجی کی کار روائیاں نمایاں نظر آتی ہیں :

کیا رات تھی جب بدلے گئے نام ہمارے

پھر صبح کو خیمے تھے نہ خدّام ہمارے

پہلے بخشے گئے خوب مضبوط شہ پر ہمیں

پھر دکھایا گیا ایک زندانِ بے در ہمیں

اس صورت حال میں بعض کرداروں کی المیاتی تصویریں بھی غزل کے اشعار میں اتاری گئی ہیں :

وہ زربفت، وہ خیمہ گاہیں، وہ لشکر، وہ نقّارچی

وہ بچّوں کو لوری سنا کر بہت روئی تھی

مسلم تہذیب کے زوال کے ساتھ ساتھ بعض ایسی تصویریں بھی دکھائی دیتی ہیں جن میں لمحۂ استقبال نشاۃ الثانیہ کی روشنی سے منّور ہے :

ستارہ گھوڑے کی آنکھ اور چاند نعل ہو گا

سفر میں چاندی کی دھول سونے کی زین ہو گی

تمدّنِ اسلامی کے نوحۂ زوال اور باز آفرینی کے خواب نے اردو غزل کو بعض منفرد لفظیات، تراکیب اور تمثالوں سے تخلیقی طور پراس طرح آشنا کیا ہے کہ تنقید کے بعض زاویوں نے اردو غزل کے پرانے سکوّں کے ٹکسال باہر ہونے کا اعلان کیا۔ (۳۵)پرانے سکے ٹکسال باہر ہوئے کہ نہیں یہ ایک الگ سوال ہے تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ ۰ ۷کی دہائی کے مذکورہ سکوں میں سے بیشتر دکان سخن میں خوب آب و تاب سے چمکے، چلے اور ان کی قدروقیمت میں توازن دیکھا گیا۔

اسلامی تہذیب کی عظمت رفتہ کی بازیافت اور ماضی سے تخلیقی وابستگی کے حوالے سے افضال احمد سیّد اور ایّوب خاور کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔

افضال احمد سیّد کی غزل میں تمثالیں جن شعری نظام کو تشکیل دیتی ہیں، اُن کی تخلیقی کاوش بقول سراج منیر ’’مسلم رزمیہ کی پوری روایت کی معنویّت کی تخلیق کا اصول بن جاتی ہے۔ ‘‘(۳۶) اُن کی لفظیات میں ایک ایسے ہیرو کا مونو لوگ ہے جس کے جذبۂ پیکار میں مبارزت کے جلال کے ساتھ ساتھ سپاہیانہ سرشاری بھی ہے :

آئینِ انتقام سے آئینہ خانہ تھا

میں تیغِ بے نیام سے آئینہ خانہ تھا

وہ ایک ریگ گزیدہ سی نہر چلنے لگی

جو میں نے چوم کے پیکاں کمان پر رکھا

کمانِ شاخ سے گل کس ہدف کو جاتے ہیں

نشیبِ خاک میں آ کر مجھے خیال آیا

۷۰ کی دہائی میں افضال احمد سیّد کا شمار اُن غزل گوؤں میں کیا جا سکتا ہے جنھوں نے محدود لفظیات سے وسیع تر معنویت کا کام لیا اور اُن کے اسلوب نے غزل کے مزاج کو بڑی راز داری سے ایک نئی اور کشادہ راہ سے آشنا کیا ہے۔ اُن کی غزل میں زماں کے تسلسل اور اُس سے وابستہ مبارزت کی معنویت کو دیکھا جائے تو یہ بات قرین حقیقت ہے کہ شاعر نے ’’ماورائے تاریخ سورماؤں کے حوالے سے غزل کو سمٹتے اور گم ہوتے ہوئے وجود کی کایا پلٹ دی۔ ‘‘(۳۷)

ایوب خاور کی غزل میں اساطیری اسلوب اپنی نسل کے غزل گوؤں کی مجموعی

آب و تاب میں ایک پرتو کی حیثیت رکھتا ہے :

اب کیا اونچے بادبان پر خواب ستارہ چمکے

آنکھیں رہ گئیں ساحل پر اور ہاتھ سمندر بیچ

بجھانے والے نے خاور بجھا دیا ہے چراغ

یہی ٹھہرنے کی ساعت، یہی فرار کی ہے

۷۰ کی دہائی میں اردو غزل کو رزمیہ آہنگ سے آشنا کرنے والے دو اور اہم شاعر خالد اقبال یاسر اور غلام حسین ساجدہیں جنھوں نے اپنی تخلیقی تابانی سے تاریخ کے تسلسل کو کچھ اور زاویوں سے روشن کیا۔

خالد اقبال یاسر کی غزل میں زبان کا برتاؤ اپنی نسل کے شعرا کی مجموعی لفظیات کے دائرے سے باہر نہیں ہے لیکن اُن کا مسئلہ ماضی کی باز آفرینی بھی نہیں بلکہ نظامِ شاہی کے متعلقات کا تاریخی شعور حاصل کر کے لمحۂ موجود کی انسانی صورت حال کی مسئلہ فہمی ہے۔ یاسر نے ’’رزم گاہ کے حوالے سے مطلق العنان بادشاہوں کے عہد کو عصری صورتِ احوال سے کچھ اس طرح تال میل دیا ہے کہ قصر، حرم سرا، جھروکے، شہر پناہ اور خیموں کی قطاروں کے ساتھ شاہ، وزیر، مصاحب، کنیزیں، دربان اور کمان دار دوہری معنویت کی حامل علامتیں بن گئی ہیں۔ ‘‘(۳۸)

زمانے کی بے نیاز نظروں سے کب گرے گا

کلَسَ لرزتا ہے اس طرح جیسے اب گرے گا

ستون اپنے شکوہِ رفتہ میں گم کھڑا ہے

بس اک ذرا انہماک ٹوٹے گا تب گرے گا

غزل میں داستانوی عناصر کو معاصر طبقاتی تضادات سے ہم آہنگ کرنے کو بھلے

’’ نو ترقی پسندی ‘‘ (۳۹) کہا جائے لیکن اس حقیقت سے کسے ان کار ہے کہ موجودہ نام نہاد

مہذب و جمہوری معاشروں میں بھی رعونت کا وہ تسلسل رکا نہیں ہے جو جلال پادشاہی کا پروردہ تھا۔ آج بھی ’’دربار کی روایت پورے معاشرے میں کارفرما ہے۔ ‘‘(۴۰) ’’ملوکیّت گو اسی نام سے باقی نہ ہو مگر ہر نئے نظام میں وہ بھیس بدل کر پھر آ نکلتی ہے۔ ‘‘(۴۱)

یاسر نے سماجی طبقاتی تفاوت کو مختلف زاویوں سے واضح کیا ہے اور استبداد کے عصری دیووں کے بدن سے ظاہری جمہوری قبا کو نہ صرف اتارا ہے بلکہ تار تار بھی کیا ہے۔ اُن کی غزل میں لہجے کی تندی اورتیزی دودھاری تلوار کی کاٹ سے کچھ کم نہیں ہے :

غلام کی روز و شب غلامی میں کیا کمی تھی

کنیز کے التفات و خوبی میں کیا کمی تھی

انھیں درِ خواب گاہ سے کس لیے ہٹایا

محافظوں کی وفا شعاری میں کیا کمی تھی

ماضی کے آئینے میں حال کاعکس دیکھتے ہوئے خالد اقبال یاسر کے ہاں زندگی کے حقائق کا شعور جن سماجی زاویوں سے حاصل ہوتا ہے وہ کج نہیں بلکہ راست ہیں :

عبادت و زہد کی منادی تھی قریہ قریہ

جب اپسراؤں سے شام رنگین ہو رہی تھی

سجی ہوئی تھیں حریر و اطلس سے خواب گاہیں

مگر رعایا کو اور تلقین ہو رہی تھی

یاسر کی غزل میں ’’ایک لوک سورما بار بار جھلک دکھاتا ہے۔ ‘‘(۴۲) جو عصری جبر کے خلاف پیکار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کردار کو شاعر کے جدِّ امجد دلا بھٹی کا عکس بھی کہا جا سکتا ہے۔ جو ’’دور اکبری کا زندہ ہیرو تھا۔ ‘‘(۴۳)

یہ کردار مختلف اشعار میں ظہور کرتا ہے اور اپنی غیرت، حمیت اور فقر کا یوں اعلان کرتا ہے :

مبارزت طلبی میں ہے زندگی میری

جو کار زار سے پسپا کبھی ہوا تو گیا

رستے میں رات آئی تو نمدہ بچھا لیا

گھوڑے کی زین اتار کے تکیہ بنا لیا

حیران ہوں کہ مجھ سے ہی میدان چھوڑ کر

اُس کو مری شکست کا ڈر چھوڑتا نہیں

’’اساطیر غزل کے تناظر میں ماضی کے دریچوں سے حال میں جھانکنے کی کوشش ‘‘(۴۴) جو غلام حسین ساجدؔ نے کی ہے اُس کا تعلق طبقاتی تضاد یا کشمکش سے ہٹ کر اقتدار کی ایک ایسی ہوس سے ہے جوہر اُس سطح پر دیکھی جا سکتی ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے غارت گری کا سامنا کرتے ہیں اور آدمیت وحشت ناک تاراجی سے دوچار ہو تی ہے۔ خالد اقبال یاسر کی طرح غلام حسین ساجد کی غزل میں بھی ایک واحد متکلم کا کردار واضح طور پر ابھر تا ہے جو مبارزت کے مختلف مرحلوں میں اپنے جذبۂ پیکار کا اعلان کرتا ہوا نظر آتا ہے :

تمام عمر میں کرنے کا ایک کام کیا

کہ میں نے اُس کے ولی عہد کو غلام کیا

مرے علاوہ نہیں تخت کا کوئی حق دار

یہ فیصلہ دمِ شمشیر پر کیا میں نے

یہ کردار مکافات عمل کا شعور بھی رکھتا ہے :

آج میرے عدو کوعطا کی گئی جو مری نسل کے خاتمے کے لیے

نذر کی تھی کبھی کس قدر شوق سے میرے آبا نے یہ تیغ سلطان کو

مذکورہ کردار کے علاوہ غلام حسین ساجد کی غزل میں ایک اور کردار بھی نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے جو مبارزت کے بجائے مکاشفت کے عمل سے گزرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسے فقر آمادہ فرد کا کردار ہے جس کی نمو خاک سے ہے، وہ خاک ہی کے حوالے سے اپنے خواب مرتب کرتا ہے اور صوفیانہ تجربات سے تخلیقی روشنی حاصل کرتا ہے :

نگار خانۂ دنیا نہیں پسند مجھے

کیا ہے اور کسی چیز نے کمند مجھے

میں اس لیے بھی ہوں دنیا سے بے خبر ساجدؔ

کہ اپنے گھر میں کوئی جام جم نہیں رکھتا

تصوّف کے تجربوں سے اپنے باطن کو منوّر کرنے والے ایک اور شاعر شوکت ہاشمی ہیں جو اپنے شعری آہنگ کو بھیدوں بھری اذان کا مفہوم دیتے ہوئے اردو غزل میں نئی فرہنگ کا اعلان کرتے ہیں :

غزل سے میں نئی فرہنگ میں محوِ سخن ہوں

غزل مجھ سے نئی فرہنگ میں محوِ سخن ہے

شوکت ہاشمی کی غزل میں زہد و تقوی ٰ اور جذب و مستی دونوں کیفیتیں ہیں۔ جدید ارد و غزل میں ان کیفیتوں کی سرشاری کا نور اُن سے پہلے شیر افضل جعفری کے ہاں ظہور کرتا ہے۔ شوکت ہاشمی کے مجموعہ کلام ’’بھیدوں بھری اذان ‘‘ کو غلام حسین ساجد نے دو حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ (۴۵) اُن کے مطابق پہلے حصّے میں تصوف کا نصاب ہے جبکہ دوسرے حصّے میں رقص پیہم کی حالت ہے۔ اس بات کو سادہ لفظوں میں یوں ادا کیا جا سکتا ہے کہ کتاب کا پہلا حصہ ’’قال‘‘ ہے اور دوسرا ’’حال‘‘ کے اظہار پر مشتمل ہے۔

شوکت ہاشمی نے غزل میں جس نئی فرہنگ کا ذکر کیا ہے وہ (پنجابی لفظیات سے قطع نظر ) اُس لغت سے زیادہ مختلف نہیں ہے جو شیر افضل جعفری نے اپنی غزل میں مرتب کی ہے۔ البتہ بعض غزلوں کی ردیفیں ضرور منفرد ہیں جو ایسے کلمات پر مشتمل ہیں جن سے اردو غزل پہلے آشنا نہیں تھی یا ایسا ذائقہ پیدا نہیں ہو سکا تھا:

سرِ صبحِ امکاں کھلے ہیں مقامات سیرِ الی اللہ

سو میں از سرِ نو لکھوں گا روایات سیرِ الی اللہ

لبوں کو ہلاتا نہیں ہوں قبول دعا کے لیے بھی

عجب اک کرامت ملی ہے درود تنجّینا پڑھ کر

نئی تحلیل جاری ہے ہوائے کنجِ لب میں

نئی تسبیح اتری چشمِ نم پر للہ الحمد

چلو صبح تقدیر کے فیصلے کی گھڑی آ گئی

چلو سب پڑھیں رات بھر انی کنت من الظالمین

ہر نیا رقص، نئی طرزِ سخن دیتا ہے

ہر نیا رقصِ ملامت، نیا کشف المحجوب

نئے موسم، نئے دشت و جبل الحمد للہ

کوئی دیکھے مرا ملک غزل الحمد للہ

نور پیشانیوں پر چمکتا ہوا روح میں جاگزیں لیلتہ القدر

صبح تقدیر کے خوش اثر، خوش نما فیصلوں کا یقیں لیلتہ القدر

غزل میں داستانوی عناصر کا تجربہ غلام محمد قاصر کے شعری اسلوب میں مذکورہ شعرا کی طرح مستقل پذیرائی حاصل نہیں کر سکا تاہم اُن کے چند اشعار اساطیری رنگ میں اپنی آب و تاب الگ دکھاتے ہیں :

سارباں محو تھا سن سن کے سکوتِ صحرا

چیخ محمل سے اُٹھی ریت کے کہرام کے ساتھ

آگ درکار تھی اور نور اُٹھا لائے ہیں

ہم ہتھیلی پہ عبث طور اٹھا لائے ہیں

اپنے شانوں کے کسی زخم سے آگاہ نہیں

تختِ شاہی کو جو مزدور اُٹھا لائے ہیں

ترا خیال جو خوابوں میں بھی خبر دے گا

تو عشق جاگ کے بیٹے کو قتل کر دے گا

بن سے فیصلِ شہر تک کوئی سوار بھی نہیں

کس کو بٹھائیں تخت پر گرد و غبار بھی نہیں

سایوں کی زد میں آ گئیں ساری غلام گردشیں

اب تو کنیز کے لیے راہِ فرار بھی نہیں

ساری چابیاں میرے حوالے کیں اور اُس نے اتنا کہا

آٹھوں پہر حفاظت کرنا شہر ہے نو دروازوں کا

اردو غزل میں مذہبی طرز احساس اور اساطیری علائم کے استعمال کا تجربہ مذکورہ شعرا کے علاوہ بعض دیگر شعرا کے ہاں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ذیل میں بعض شعرا کے چند اشعار درج کیے جاتے ہیں جو اساطیری اسلوب غزل کے متنوع تخلیقی نمونے ہیں :

دل دریا میں کھوج ملا ہے کچھ آباد جزیروں کا

درد کی تہہ میں پایا میں نے کشف تری تصویروں کا

یادوں کے اخلاص میں پنہاں راز جمیل جہانوں کے

خون کے نور سے ظاہر ہو گا عہد نئی تقدیروں کا

(اجمل نیازی )

زیر پا منزل جو تھی کوہِ ندا بنتی گئی

میرے چاروں سمت گنبد کی فضا بنتی گئی

(علی اکبر عباس )

تائیدِ ایزدی کی دلیلیں بھی آئیں گی

اے زعمِ ابرہہ! ابابیلیں بھی آئیں گی

(اعزاز احمد آذر)

ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ مت جانا

ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں

( اسعد بدایونی )

غلام گردش میں ایستادہ غلام ارادے بدل چکے ہیں

شہِ زماں اب قیام کیسا کہ کوچ کے طبل بج رہے ہیں

(حسن عباس رضا)

داستانوی اور اساطیری علامتوں کا تجربہ ۰ ۷ کی دہائی کے شعرا نے ایک اجتماعی اور مشترکہ طرزِ احساس کے ساتھ کیا۔ غزل میں دیومالا، تہذیبی داستانوں اور تاریخ سے متعلق لفظیات کا ذخیرہ میسر آنے کی وجوہ سماجی سطح پر وہ محرکات ہیں جو ۶۵ اور ۷۱ کی جنگوں کے بعد پیدا شدہ صورتِ حال سے تخلیق کاروں کی ذہنی افتاد کا حصہ بنے اور شعرا نے داستانوی عناصر کے ذریعے اپنے ماضی کا تہذیبی آموختہ کر کے لمحۂ موجود کی صورت حال کا جائزہ لینے کی سعی کی اور ’’ان علامات کے حوالے سے شخصی اور اجتماعی لاشعور، معاشرتی صورتِ حال، سیاسی منظر نامے اور زندگی کے دوسرے مسائل اور وارداتوں کے بیان کی متنوع صورتیں تلاش کیں۔ ‘‘(۴۶)

اساطیری علامتوں کا تجربہ اردو غزل کے لیے ایک منفرد ذائقہ ہے جس سے اظہار کے بعض نئے قرینے سے میسر آئے اور ’’غزل کا لہجہ گراں مایہ اور پُراَرزش ہوا۔ ‘‘(۴۷) یہ اسلوب اردو شعر و ادب کی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی نمود کے لیے پس منظر اور ماحول بقول غلام حسین ساجد ’’ اقبال کی غزل فراہم کرتی ہے۔ ‘‘(۴۸) لیکن ۰ ۷ کے بعد اس کے بنیاد گزاروں خصوصاً شبیر شاہد اور ثروت حسین کا ذہنی پس منظر دیکھا جائے تو اس سلسلے میں ناصر کاظمی اور منیر نیازی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ ن۔ م۔ راشد کی نظم میں موجود اساطیری عناصر بھی اس نسل کے شعرا کی غزل میں نمایاں نظر آتے ہیں۔

۷۰ کی دہائی میں غزل کا دیومالائی علامات کی طرف رجوع اس لحاظ سے تو اہم ہو سکتا ہے کہ یہ تخلیق کاروں کی اپنی نفسیاتی تسکین یا ذہنی استحکام کا باعث بنیں لیکن اس حقیقت سے گریز ممکن نہیں کہ فی زمانہ ہمارا عام سماجی شعور ان کی معنویّت کی تفہیم سے عاری ہے چنانچہ اساطیری غزل اسلوب کی اجنبیت کے باعث اپنے قاری کو بے مطلب تخلیق ہونے کا احساس بھی دلاتی ہے۔

یہ امر زیادہ خوش آئند نہیں ہے کہ بعض شعرا نے اپنی تاریخ و تہذیب کی جانچ پڑتال میں زیادہ ارتکاز معرکہ آرائی اور مبارزت پر کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ اگرچہ برصغیر پاک و ہند کے سماجی حالات بھی ہیں جن میں دونوں ممالک کے درمیان ایک تناؤ کی کیفیت رہی اور دونوں خطے ایک دوسرے کو دشمن کی آنکھ سے دیکھتے رہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر افغان جنگ نے بھی بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ چنانچہ غزل گو شعرا نے اس صورت حال کے اثرات قبول کرتے ہوئے نئے اسلوب غزل میں آلات حرب کی لفظیات کو رواج دیا۔

تخلیقی جوہر رکھنے والے شعرا نے اس سلسلے میں توازن کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا لیکن بعض شعرا کے ہاں رزمیہ فضا اتنی زیادہ اور اس سے متعلقہ لفظیات کی ایسی تکرار ہے کہ جگالی کا احساس ہوتا ہے اور ایک ناگوار یکسانیت جنم لیتی ہے۔ ہماری ادبی فضا میں اسی یکسانیت کا رد عمل ’’شعرائے اصطبل ‘‘ اور ’’بصرہ و بغدادی شعرا ‘‘ کی پھبتیاں بھی ریکارڈ پر ہیں۔

اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض شعرا نے خود پر اتنی روحانیت طاری کر لی کہ اُن کی غزل اساطیری اسلوب کی تخلیقی آب و تاب رکھنے کے بجائے محض جذبۂ پیکار کی تسکین کا باعث نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض شعرا کے ہاں حمد و نعت کا اتنا اثر ہے کہ غزل کی اپنی صنفی شناخت مجروح ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

بحیثیت مجموعی غزل میں اساطیری علامتوں، دیومالائی عناصر اور داستانوی فضا ء کے تجربات اس صنف کو اسلوب اور زبان کی سطح پر کئی جہتوں سے ثروت مند کرنے کی تخلیقی کوشش ہیں اور ۷۰ کے بعد نئے غزل گوؤں نے اس کے امکانات سے استفادہ کی صورتیں نکالیں۔ زندگی کے متنوع مسائل کے احاطہ کے لیے جدید غزل کے ارتقا میں یہ تجربہ فنی اور فکری دونوں سطح پر اردو شعرا کے لیے ایک تخلیقی قوت کا حامل ہے۔ البتہ سماجی سطح پر اس تجربے کو دیکھا جائے تواس کی معنویت کی تفہیم ایک سوال ضرور ہے۔

۷۰ کی دہائی میں اردو غزل میں اساطیری علائم کے تجربے کے علاوہ بعض شعرا کے ہاں جس نئے رجحان نے فروغ حاصل کیا وہ غزل میں تسلسل خیال کے نئے قرینوں کی تلاش ہے۔ غزلِ مسلسل کی روایت اس صنف کی ابتدا ہی سے موجود ہے اور آج بھی کسی خیال یا موڈ کے تسلسل کے ذریعۂ اظہار کے طور پر مروّج ہے۔ اس کے علاوہ غزل کے اندر قطع بند اشعار کی روایت بھی رہی ہے۔ بلکہ غزلِ مسلسل کو غزلِ قطع بند بھی کہا گیا ہے۔ مثلاً سوداؔ کی یہ غزل، جس کا مقطع ہے :

غرض یہ وہ غزلِ قطع بند ہے سوداؔ

کہ اس کی قدر کوئی کیا جز انوری جانے

قیام پاکستان کے بعد ناصر کاظمی کے ’’پہلی بار‘‘ش کے تجربے نے غزلِ مسلسل کے بعض نئے امکانات واضح کیے ۷۰ کی دہائی کے شعرا میں غزل مسلسل کے نئے قرینوں کی جستجو کرنے والوں میں شبیر شاہد، غلام حسین ساجد، علی اکبر عباس اور صابر ظفر کے تجربات لائق توجہ ہیں۔

شبیر شاہد جن کی گمشدگی حیرت افزا و پراسرار ہے، اُن کا کلام بھی مکمل دستیاب نہیں ہے۔ حال ہی میں اُن کی بعض تخلیقات جو مختلف رسائل میں شائع ہوئی تھیں، ’’گمشدہ ستارہ ‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں طبع ہوئی ہیں۔ اس مجموعے میں اُن کی غزلیں تسلسلِ خیال کے باعث تین مختلف عنوانات ’’مسافت ‘‘، ’’عمرِ رواں ‘‘ اور ’’تمثال ‘‘ کے تحت تقسیم کی گئی ہیں۔

’’مسافت ‘‘ ۶ غزلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی غزل جس میں شاعر ایک ایسی بستی کی یادیں دہراتا ہے جو بر لبِ ساحل واقع ہے اور جس سے شاعر ایک قلبی و روحانی لگاؤ محسوس کرتا ہے کہ یہ نگر ایسے مناظر کاحسن رکھتا ہے جن کے ساتھ ایک تہذیبی روایت کی وابستگی بھی ہے :

ابھی وہ نقشِ کمال بھولا نہیں ہے مجھ کو

وہ ساحل بے مثال بھولا نہیں ہے مجھ کو

وہ ریگِ ساحل سے چاندنی میں لپٹتی لہریں

وہ بحر و بر کا وصال بھولا نہیں ہے مجھ کو

نگاہ میں ہے شکوہ اُس کی عمارتوں کا

وہ معبدوں کا جلال بھولا نہیں ہے مجھ کو

دوسری غزل ایک محفل کی بازیافت ہے۔ شاعر اُس بزم کی اُن آخری ساعتوں کو یاد کرتا ہے جن کے بعد کے لمحوں پر فراق کی مہر لگی ہوئی ہے :

مئے فراغت کا آخری دور چل رہا تھا

سبو کنارے وصال کا چاند ڈھل رہا تھا

فراق کا گیت گا رہا تھا مغنیِ شب

فلک پہ صبحِ سفر کا تارا نکل رہا تھا

نگاہیں دعوت کی میز سے دور کھو گئی تھیں

تمام ذہنوں میں ایک سایہ سا چل رہا تھا

تیسری غزل کے اشعار ایک شوقِ سفر کے جذبات سے معمور ہیں، جس میں گذشتہ کی طرف مراجعت کی خواہش ہے۔ اس غزل میں ایک کردار سفر کا اعلان کرتا ہے :

سنو یہ آواز دور کی لہر کی صدا ہے

اٹھاؤ لنگر کہ پھر سمندر بلا رہا ہے

ہمیں پہنچنا ہے نیل کے دوسرے کنارے

اُٹھاؤ لنگر کہ پھر سمندر بلا رہا ہے

چوتھی غزل کی ردیف ’’رواں ہے پانی ‘‘ ہے۔ یہ ردیف بعض اشعار میں وقت کے بہاؤ کا استعارہ بھی ہے اور اُس سفر کی تمثال بھی جس کی خواہش اس سے گذشتہ غزل کے اشعار میں ہے۔ تاہم واپسی کا یہ سفر شاعر کو کسی شادمانی سے ہم کنار نہیں کرتا بلکہ اس مراجعت میں وہ کچھ خرابوں سے ضرور دوچار ہوتا ہے :

نہ اب وہ ساحل، نہ اب وہ بستی نہ اب وہ فصلیں

نہ اُس زمیں کی کوئی نشانی، رواں ہے پانی

وہاں وہ اقلیم جس پہ سکہ رواں تھا اپنا

یہاں ہواؤں کی حکمرانی، رواں ہے پانی

یہ اشک دھندلا رہے ہیں، پیہم مٹا رہے ہیں

نگاہ میں یاد کی کہانی، رواں ہے پانی

پانچویں غزل میں ’’بہے نہ ساگر ‘‘ کی ردیف وقت کے ساکن ہونے کی تمثال ہے۔ ایک ایسا سکون اور سکوت جو دائم ہے۔ عناصر پیدا ہوتے ہیں، اپنی حیات پوری کرتے ہیں، مر جاتے ہیں لیکن وقت اپنی کلی حیثیت میں ٹھہرا ہوا ہے :

بہے یہ پانی، بہے برابر، بہے نہ ساگر

بہیں رتیں، روپ، رنگ، منظر، بہے نہ ساگر

بہیں سدا اپنی اپنی رو میں یہ کہکشائیں

بہے یہ دھرتی، بہے یہ امبر، بہے نہ ساگر

جہاز، ملاح، موج، گرداب، سیل، سمتیں

بہائے سب کو، بہائے ساگر بہے نہ ساگر

آخری غزل میں اُس دوسرے کنارے کو یاد کیا گیا ہے جو شاعر کے خوابوں، مسرتوں اور آرزوؤں کا مسکن ہے :

بہار کی دھوپ میں نظارے ہیں، اُس کنارے

سفید پانی کے سبز دھارے ہیں، اُس کنارے

وہاں کی راتوں میں خواب ہیں کیمیا گروں کے

رواں مری روح کے ستارے ہیں، اُس کنارے

اس سلسلۂ غزلیات کا اختتام اس سوگوار شعر پر ہوتا ہے :

یہاں یہ خاموش، ماتمی، سوگوار ساحل

وہاں گڈریوں کے گیت پیارے ہیں اُس کنارے

’’مسافت ‘‘ کی غزلوں میں تمثالیں اور سوگواریت جو داستان سناتی ہے اُس میں سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے اور اس کے نتیجے میں ابھر نے والے احساس زیاں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ غزلیں اپنے باطن میں اُس المیاتی احساس کی لے رکھتی ہیں جو اہل پاکستان کے وجود کے آدھے ہونے کے حادثے کے بعد رونما ہوا۔

فنی سطح پر ان غزلوں میں ’’پانی ‘‘، ’’دوسرا کنارہ‘‘ اور اس سے وابستہ مناظر کے استعارے ہیں جن کی معنویت متعدد پرتیں رکھتی ہے۔ ان غزلوں میں بعض علامتوں کی تکرار بھی ہے لیکن یکسانیت کے بجائے تنوع کا احساس ہوتا ہے۔ ’’شبیر شاہد ایک ہی استعارے کو ہر غزل میں کچھ ایسا نیا زاویہ دیتے ہیں کہ یکسانیت پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہی استعارہ پھر سے نیا ہو جاتا ہے۔ ‘‘(۴۹)

گمشدہ ستارہ کا دوسراسلسلۂ غزلیات ’’عمرِ رواں ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ان غزلوں میں ’’مسافت ‘‘ایسی داستان تو نہیں تراشی جا سکتی لیکن زندگی کے بارے میں ایک نظامِ خیال کو متنوع استعاروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شاعر نے عمرِ رواں کو متعدد مفاہیم پہنائے ہیں اور ہر غزل کے اشعار میں ہر معنی کو اُس کی جزئیات کے ساتھ سمجھنے کی کوشش ہے۔

’’عمر رواں ‘‘ کے سلسلے کی سات غزلیں ہیں۔ پہلی چھ غزلوں میں شاعر نے زندگی کی معنویت کے ادراک کے لیے جو استعارے استعمال کیے ہیں، اُن کا اعلان مطلعوں میں کیا گیا ہے :

۱۔      عمر رواں بھی ایک شجر ہے

ایک شجر بے برگ و ثمر ہے

۲۔      عمر رواں بھی ایک دریا ہے

اک دریا صحرا جیسا ہے

۳۔     عمر رواں ہے بہتا پانی

پانی کی سمتیں انجانی

۴۔     عمر رواں بھی اک دیا ہے

ایک دیا گھر گھر جلتا ہے

۵۔     عمرِ رواں اک جادوگر ہے

جادوگر کے پاس ہنر ہے

۶۔      عمر رواں بھی اک صحرا ہے

صحرا شعلوں کا دریا ہے

درج بالا مطلعوں میں ’’عمر رواں ‘‘ کو اگر چہ مختلف شکلوں میں دیکھا گیا ہے لیکن مجموعی طور پر شاعر کو زندگی ہر شکل میں ویران اور زیاں کا شکار نظر آتی ہے۔ زندگی ایک درخت ہے جو پھلوں سے محروم ہے۔ یہ ایسا دریا ہے جو آبِ رواں سے محروم ہے اور اگر پانی ہو بھی تو انجانی سمتوں کی طرف بہتا ہے۔ زندگی کا چراغ ہر گھر میں روشن ہے لیکن ہواؤں کے رحم و کرم پر ہے۔ زندگی ایک جادوگر ہے جس کے سحر کے پراسرار جال میں انسان قید ہے اور زندگی ایک صحرا ہے جس کے ہر طرف آگ ہی آگ ہے۔

عمر رواں کے سلسلے میں ساتویں اور آخری غزل میں رائے گانی کا یہ احساس شاعر کے باطن میں اترتا ہوا نظر آتا ہے اور فنا کا خیال اُس کے وجود کو عدم کے سانچے میں ڈھال رہا ہے :

عمر رواں کا سایہ ہوں میں

ہر دم ڈھلتا رہتا ہوں میں

میرا روگ مری یکتائی

یکتا ہوں اور تنہا ہوں میں

شاعر وجود کے فنا ہونے کے احساس کے ساتھ تخلیقی عمل کے دوام کی سرشاری کا اظہار بھی کرتا ہے۔ گویا جسم فنا ہو جاتا ہے لیکن جوہر کو بقا ہے :

کن فیکوں کی پہنائی میں

کیفِ سخن کا دریا ہوں میں

’’تمثال ‘‘ کے زیر عنوان غزلوں کی تعداد پانچ ہے۔ پہلی غزل میں شاعر حسن محبوب کی مدح کرتا ہے :

ترے گیسو لہکے فضاؤں میں

پھر خوشبو اڑی ہواؤں میں

پھر موج میں آیا رنگِ فلک

پھر لہر اٹھی دریاؤں میں

دوسری غزل میں شاعر جمال محبوب کے دوام کے لیے دستِ دعا بلند کرتا ہے :

اے حسن ! یہی دلبری رہے

ہر ممکن جلوہ گری رہے

یہ لمس کا کندن رہے سدا

ہاتھوں کی چاندی کھری رہے

تیسری غزل میں محبوب کا حسن فطرت کے لطیف نظاروں سے ہم آہنگ نظر آتا ہے :

یہ پھول سے لب، یہ نین کنول

یہ کڑے صبر کے میٹھے پھل

سیندور یہ صبح کے ماتھے پر

یہ رات کی آنکھوں میں کاجل

چوتھی غزل استفہامیہ ہے۔ شاعر یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا جمالِ محبوب اور فطرت کے نظاروں کی خوبی میرے لیے ہے۔ ؟

اے حسن! یہ سب کیا میرے لیے

یہ آنکھ، یہ لب کیا میرے لیے

یہ روشن روشن قرب ترا

یہ چاند، یہ شب کیا میرے لیے

آخری غزل ’’تمثال ‘‘ کے سلسلۂ غزلیات کو ایک وحدت کے سلسلے میں پروتے ہوئے اُس سوال کا جواب بھی فراہم کرتی ہے جو چوتھی غزل میں اٹھایا گیا ہے :

ترے حسن کا خواب سدا ہی رہا

مری نیند کا باغ ہرا ہی رہا

تو دریا تھا، میں ساحل تھا

میں پیاسا تھا، پیاسا ہی رہا

’’تمثال‘‘ کی غزلوں میں شاعر محرمیِ حسن کو ترستا دکھائی دیتا ہے۔ پیاس عشق کا نصیب ہے اور عاشق اسی حالتِ تشنگی میں اپنا سفر آرزو تمام کرتا ہے۔

اردو غزل میں تسلسل خیال کے نئے قرینوں کی تلاش اور تجربات کے حوالے سے

غلام حسین ساجد کے دو شعری مجموعے ’’موسم ‘‘ اور ’’عناصر ‘‘ اپنی انفرادیت کے باعث بہت اہم خیال کیے گئے ہیں۔

’’موسم ‘‘ ۱۳۰ غزلیات پر مشتمل ہے، جس میں مختلف موسموں کے اثرات کے حوالے سے انسانی جذبات و احساسات کی عکس بندی کی گئی ہے۔ یہ کتاب ۶ حصوں میں تقسیم ہے اور ہر حصے میں ایک موسم پر غزلیں ہیں۔ ہر حصے کی ابتدا ایک حمد سے ہوتی ہے جو غزل ہی کی ہیئت میں ہے۔ اس طرح اگر تحمید خداوندی کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان غزلوں کی تعداد کل ۱۳۶ قرار پاتی ہے۔

’’موسم ‘‘ کو اردو غزل میں ایک ’’نیا اور انوکھا تجربہ ‘‘(۵۰) قرار دیا گیا ہے۔ اس تجربے کو بین الاقوامی ادبی تناظر میں دیکھیں تو عالمی ادبیات میں بعض ایسی اصناف ہیں، جن میں موسموں سے متعلق انسانی جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ اس حوالے سے ایک صنف پاسٹرل (Pastoral)قابل ذکر ہے۔ ’’جس میں فطرت اور دیہی لوک ثقافت کے حوالے سے شاعری کی جاتی ہے۔ یہ صنف مغربی ادب میں ۲۰۰۰ سال سے مروّج ہے اور اس کے تعارف کا سہرا عموماً ایک یونانی شاعر تھیوکریٹس سے باندھا جاتا ہے جو تیسری صدی عیسوی قبل مسیح کے پہلے نصف سے تعلق رکھتے ہیں۔ ‘‘(۵۱)

معروف رومن شاعر ورجل کی شاعری کا آغاز بھی اسی صنف سے ہوتا ہے۔ یہ صنف اٹلی میں بھی بہت مقبول ہوئی اور پندرھویں صدی کے شاعر مانتوان (Mantuan)کی بیشتر شاعری اسی صنف میں ہے۔ مانتوان وہی شاعر ہیں جن سے سپنسر نے اثرات قبول کیے جو انگریزی ادب میں ’’شیفرڈز کیلنڈر‘‘ کے باعث شہرت عام رکھتے ہیں۔

جاپانی صنف ہائیکو کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا ’’بیشتر حصہ موسموں پر مشتمل ہے۔ موسم شاعر کے ذہن پر جو اثرات مرتب کرتا ہے۔ شاعر ہائیکو میں اُن کا اظہار کرتا ہے۔ ‘‘(۵۲)

’’موسم ‘‘ کو ہندوستان کے مقامی ادبوں کے تناظر میں دیکھیں تو قدیم ہندی شاعری ایک صنف ’’رتوسن ہار ‘‘ مروّج رہی ہے جس میں ایک ہی بحر میں مختلف موسموں میں اپنے جذبات فراق رقم کرتی ہے۔ اس طرح ’’بارہ ماسہ ‘‘ میں بھی ’’ایک مہجور عورت اپنا دکھ درد ہر مہینے کے تاثرات کے اعتبار سے بیان کرتی ہے۔ ‘‘(۵۳) پنجابی شاعری میں یہی صنف ’’بارہ ماہا‘‘ کہلاتی ہے۔

اردو شاعری میں ایسی کوئی باقاعدہ صنف اظہار تو رواج نہیں پا سکی البتہ بعض موسموں خصوصاً بہار اور برسات پر نظمیں ضرور تخلیق ہوئی ہیں۔ اردو غزل میں بھی موسموں کے حوالے سے بعض اشعار اور بعض مسلسل غزلیں ملتی ہیں تاہم اُن میں انسانی احساسات سے زیادہ ان موسموں کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے :

چلتے ہو تو چمن کو چلیے، سنتے ہیں کہ بہاراں ہے

پھول کھلے ہیں، پات ہرے ہیں، کم کم باد و باراں ہے

(میرؔ )

پھر اس انداز سے بہار آئی

کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی

(غالبؔ )

’’موسم ‘‘ کی غزلیات صرف موسموں کے رنگ و مزاج کے حوالے سے نہیں ہیں بلکہ ان کے اثرات سے انسانی جذبات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تخلیقی اظہار پر مشتمل ہیں۔ دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان غزلوں کا مرکزی کردار ہندی شاعری کی برہ ہے نہ ہی فارسی یا اردو شاعری کا فراق زدہ عاشق ہے۔

ان غزلوں میں ایک ایسا سورما کردار (Heroic Character)مکالمہ کرتا ہوا نظر آتا ہے، جس کا سینہ عظیم تر عزائم کے جذبات سے سرشار ہے اور یہ غزلیں مختلف موسموں میں اُس کردار کے احساسات کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ ان غزلوں کا لہجہ بھی سوز و گداز اور رقّت و رنج کا حامل نہیں بلکہ اپنے اندر ایک رزمیہ آہنگ رکھتا ہے۔

موسم کا پہلا حصہ ’’بہار ‘‘ سے متعلق ہے۔ فصلِ گل میں پھولوں کی رنگا رنگی، صبا کی موج خوشبو اور زمین کی قوتِ نمو کے باعث سبزے کی فراوانی سے انسان کیسا تازہ دم ہوتا ہے اور اُس کے باطن میں نئے جذبے کس طور ظہور کرتے ہیں، ’’بہار ‘‘ کی غزلیں اس صورت حال کی شعری عکاسی کرتی ہیں :

متاعِ برگ و ثمر وہی ہے، شباہتِ رنگ و بو وہی ہے

کھلا کہ اس بار بھی چمن پر گرفتِ دستِ نمو وہی ہے

ایک سایہ سا گزر جائے گا موجِ نور سے

جب اجالے میں وہ شاخِ یاسمیں رکھوں گا میں

کہیں محبت کے آسماں پر وصال کا چاند ڈھل رہا ہے

چراغ کے ساتھ طاقچے میں گلاب کا پھول جل رہا ہے

دوسرا حصہ ’’سعیر ‘‘ کے عنوان سے ہے، جس میں موسمِ گرما کے زیر اثر جذبہ احساس کی ترجمانی کی گئی ہے۔ ان غزلوں میں مرکزی کردار بے تابی اور اضطراب کی کیفیت سے دوچار ہے۔ کہیں کہیں اُس کا اضطراب جھنجلاہٹ کی شکل اختیار کرتا ہے اور ہیرو کے حوصلے کا امتحان بھی نظر آتا ہے۔ بہار کی غزلوں میں احساسات کا اظہار ایک زیریں لہر کی صورت میں ہے جبکہ

’’سعیر ‘‘کی غزلوں میں بیان بہت براہ راست ہے :

افق سے آگ اتر آئی ہے مرے گھر میں

شکست ہوتے ہیں کیا شہر اپنے اندر بھی

دمکنے والے فقط پھول ہی نہ تھے ساجدؔ

کھلے ہوئے تھے انہی کیاریوں میں اخگر بھی

دھوپ تھی اور دھوپ کی حد پر کھلا میدان تھا

دن چڑھا تو میں بھی اپنے خواب پر حیران تھا

کنارِ آتشِ ایّام گھر بنایا تھا

اور ایک پھول کو اپنی سپر بنایا تھا

’’برشگال‘‘ کے زیر عنوان غزلیں برکھا رت سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اس موسم کے حوالے سے جذبات کے بیان پر شاعر کی دسترس قدرے کمزور ہے۔ بہت کم ایسی غزلیں ہیں، جن سے برشگال کے حوالے سے جذبات و احساسات کا تاثّر ابھرتا ہے۔ جن غزلوں میں اس تاثّر کو ابھارنے کی سعی کی گئی ہے، اُن میں بھی زیادہ تر پانی کی تمثالوں اور استعاروں سے کام لیا گیا ہے۔ ایک پہلو البتہ توجہ طلب ہے کہ اس حصّے کی غزلیات کی بحروں میں پانی ایسی روانی ہے :

کیسا عکس مری آنکھوں کی حیرانی میں آیا ہے

پھر یہ ایک ستارہ کیونکر اس پانی میں آیا ہے

اپنے اپنے لہو کی اداسی لیے ساری گلیوں سے بچے پلٹ آئیں گے

دھوپ کی گرم چادر سمٹتے ہی پھر یہ پرندے پلٹ آئیں گے

بہتا پانی اوروں کو دہلاتا ہے

اور مجھے ہر لہر پیمبر ایسی ہے

چوتھے حصے کی غزلیات ’’خزاں ‘‘ سے متعلق ہیں جن کے اشعار میں اداسی کی کیفیت اور ماحول پژ مردہ دکھائی دیتا ہے :

آس کی کلیاں مسل ڈالے گا اپنے پاؤں سے

غم کے نشے میں طلسمی مور بن کر آئے گا

طلوعِ مہر بھی نہ تھا کہ زرد اوس کھل اُٹھی

کسی کی یاد بھی نہ تھی کہ ہم اداس ہو گئے

موسمِ سرما سے متعلق غزلیات کے حصّہ کو ’’زمہریر ‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ جن میں منجمد ماحول کی تصویریں دکھائی گئی ہیں اور سرد ہواؤں سے ٹھٹھرتی ہوئی اس فضا میں حرارت و حدت کی آرزو کی گئی ہے۔ ان غزلوں میں نیند اور غنودگی کی کیفیت بھی واضح طور سے محسوس کی جا سکتی ہے، جو اس موسم سے خاص ہے :

سحر ہوتے ہی جو خورشید کے پیکر میں ڈھلتی ہے

یہ کیسی آگ ہے اور کون سے خیمے میں جلتی ہے

تڑپ اٹھتے ہیں مخمل کی تہوں میں اونگھنے والے

ہوا جب خاک پر سوئے ہوؤں کو پنکھ جھلتی ہے

یوں جاگی ہے آگ بھی ان دالانوں میں

جیسے کوئی ہاتھ شر ر کی اوٹ میں تھا

موسم کا آخری حصہ ’’قدیم ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جو گذشتہ حصّوں سے دس زائد اور کلی طور پر تیس غزلوں پر مشتمل ہے۔ یہ حصہ کسی ایک موسم کے بارے میں نہیں بلکہ یہاں پانچوں موسموں کی یکجائی ہے اور ایسے دنوں کی کیفیت اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن میں کوئی موسم اپنی شدت میں نہیں ہوتا بلکہ کسی موسم کی کسی آن کسی دوسرے موسم کی کیفیت کی تازگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسی حالت چونکہ شاذ ہوتی ہے، اس لیے ان غزلوں میں ایسی کیفیت کا اظہار بھی بہت کم کم ہے البتہ ایک رومانی طرز احساس ان اشعار میں ضرور نظر آتا ہے :

میں سحرِ خواب سے نکلا تو میرے بستر پر

دھری ہوئی تھی اُسی زاویے سے وہ تصویر

شرابِ صبحِ نشاط، شب کے ایاغ میں ہے

اور ایک تازہ الاؤ سینے کے داغ میں ہے

میں نے اُس کو ٹوٹ کے چاہا لیکن اُس سے دور رہا

آخر اک دن وہ خود مجھ سے ملنے کو بے تاب ہوا

’’موسم ‘‘ اردو غزل میں تسلسلِ خیال کا ایک منفرد تجربہ ہے۔ تاہم انفرادی سطح پر یہ غزلیں تسلسل کا ایسا بہاؤ نہیں رکھتیں کہ اشعار کا ربط اُن کے انفرادی معنی کو مجروح کرتا ہو بلکہ ہر شعر مفہوم کی جداگانہ حیثیت کا بھی حامل ہے البتہ مجموعی اعتبار سے ان غزلوں میں موڈ اور کیفیت کا تسلسل ضرور ہے۔

موسم کی غزلوں کے اسلوبیاتی نظام میں بعض علامتوں کی حیثیت بنیادی ہے جو متنوع مفاہیم کی پرتیں رکھتی ہیں۔ ان علامتوں میں ’’چراغ ‘‘ اور ’’آئینہ ‘‘ تواتر سے ظاہر ہوتی ہیں اور ’’اندرونیت، شبینہ مناظر، انعکاس اور خود اپنی ذات سے مستقل ربط ضبط رکھنے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ‘‘(۵۴)

موسم کا تجربہ نہ صرف منفرد ہے بلکہ اردو غزل کے ارتقاء اور تجربات کے سفر میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے اولیّت کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔

غلام حسین ساجد کے ہاں تسلسل خیال کا ایک اور مربوط تجربہ ’’عناصر‘‘ کی غزلیات ہیں۔ ’’موسم ‘‘ میں زمانی مطالعہ کیا گیا ہے جبکہ عناصر مکانی مشاہدے پر مبنی ہے۔ کرۂ ارض پر بظاہر چار عناصر مٹی، پانی، آگ اور ہوا میں تخلیقی عمل کا بنیادی عنصر مٹی ہے۔ جس سے پیکرِ تخلیق کا خمیر حاصل کیا جاتا ہے۔ اس خمیر میں پانی کی آمیزش کے بعد خدوخال کی تشکیل کے عمل کی تکمیل کرتی ہے۔

تخلیقی عمل کے دوران میں ایک اور عنصر خواب بھی برابر کار فرما رہتا ہے لیکن یہ مذکورہ عناصر کی طرح مادی وجود نہیں رکھتا۔ تخلیقی عمل کی ماہیت کا ادراک یہ ثابت کرتا ہے کہ خواب وہ عنصر ہے جو کسی پیکر کی تشکیل سے بھی بہت پہلے عالمِ اعیان میں پیکر تخلیق کے خدوخال تیار کر چکا ہوتا ہے۔

غلام حسین ساجدؔ کے مجموعہ ’’عناصر‘‘ میں اسی نظام خیال کے تحت کائنات کی تخلیق کے عناصر خمسہ مٹی، آگ، پانی، ہوا اور خواب کی ماہیت اور جوہر کے بارے میں غزلیں کہی گئی ہیں جو تعداد کے لحاظ سے ۱۰۰ ہیں اور ہر عنصر پر غزلوں کی تعداد ۲۰ ہے۔

’’عناصر ‘‘ میں کہی گئی غزلیں موسم سے قدرے مختلف ہیں۔ موسم میں ہر رت کا مزاج، صفات اور اُس کے اثرات ایک خاص ایمائی اسلوب میں اشعار کی اندرونی لے کا حصہ ہیں۔ جبکہ عناصر کی غزلوں میں عناصرِ کائنات ردیف کی صورت میں ایک معروضی شکل میں ہیں۔ تاہم یہ عناصر کی مادی تشریح یا سائنسی توضیح نہیں بلکہ ان عناصر کے جوہر کی شعری دریافت کی جستجو ہیں۔ کائنات کے تخلیقی عمل میں عناصر کس طرح کارفرما ہیں۔ مختلف عوامل خصوصاً کسی تبدیلی کے عمل کے دوران میں یہ عناصر اپنی داخلی قوت اور توانائی کو کسی طرح بروئے کار لاتے ہیں۔ عناصر کی غزلوں میں ان سوالات کو ایک شاعر کے متحیّر مزاج اور حیران آنکھ کا حصّہ بنایا گیا ہے۔

غلام حسین ساجدؔ، عناصر کے اشعار میں نہ صرف اپنے استفسارات کا عقدہ کھولنے کی سعی کرتے ہیں بلکہ اُن کالہجہ ان کی توصیف سے سرشار بھی ہے :

اُس جہاں میں خلق کی جاتی ہیں کیسی نعمتیں

اس جہاں میں تو عجب آسودگی مٹی سے ہے

پریشاں حال ذرّوں کی طنابیں ٹوٹ جاتی ہیں

ٹھہرتا ہے کبھی جب فرشِ خاکی پر کہیں پانی

نام دے رکھا ہے لوگوں نے جسے خورشید کا

خلق کی ہے میرے خالق نے یہ نعمت آگ سے

اس پار بھی چلتے ہیں جھونکے تری یادوں کے

اُس پار بھی دریا کے اک شہر ہوا کا ہے

مٹی سے متعلق غزلیں، خاک کی عظمت کے غنائیے بھی ہیں اور اس حوالے سے شاعر نے مٹی سے محبت کے ساتھ ساتھ پیکرِ خاکی کے تقدس اور مقامِ رفعت کا نغمہ بھی چھیڑا ہے :

اگرچہ خواب میں ہر روز اک دریا سے ملتا ہوں

مگر میرے خیالوں میں گذر مٹی ہی کرتی ہے

غیب میں بھی خاک ہی سے دلکشی موجود ہے

اور یہ دنیا بھی اچھی یا بری مٹی سے ہے

لوگ ان ستاروں کو دیوتا سمجھتے ہیں

اور میں پجاری ہوں نیک نام مٹی کا

’’پانی ‘‘ اور ’’ہوا‘‘ کائنات کے تخلیقی عمل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن کائنات شعر میں یہ عناصر ہمیشہ سے حسن اور دلکشی کے استعارے بھی رہے ہیں۔ چنانچہ ان سے متعلق غزلیات ایسی جمالیاتی تمثالوں سے مزین ہیں جو ان کے تخلیقی جوہر کے ساتھ ساتھ حسن کی

آب و تاب کو بھی مصوّر کرتی ہیں :

چھپایا ہے چراغ و آئینہ کو خاک نے لیکن

منوّر کر رہی ہے شہر کو تنویر پانی کی

شفق سے رات بھر ساجدؔ یہ کیسے لعل بہتے ہیں

بدل جاتی ہے دن ڈھلتے ہی رنگت میرے پانی کی

عجیب پھولوں سے اب بھی کچھ ٹہنیاں لدی ہیں

جلوس گزرے گا میری گلیوں سے کب ہوا کا

سحر ہوتے ہی کھلتے ہیں انوکھے رنگ ساجدؔ

بنی ہے اک سلیقے سے مری اجرک ہوا نے

’’عناصر ‘‘ کی غزلوں میں مٹی، آگ، پانی اور ہوا کو اُن کے علامتی معنوں میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مٹی کو خمیر، آگ کو جذبات، پانی کو فطرتِ انسانی اور ہوا کو ہوا و ہوس کا معنی دیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں عناصر کی ماہیّت کو کائنات اکبر کے ساتھ ساتھ کائناتِ اصغر میں بھی سمجھنے کی ایک سعی کی گئی ہے :

مرے اندر کوئی محتاج ہے میری محبت کا

یہ پہلو میری آنکھوں سے نہاں ہے میری مٹی کا

میں ایک ہی جست میں یہ دریا بھی پار کر لوں

مگر مرے راستے میں حائل ہے آگ میری

تھکن سے گھومتا رہتا ہے سر میری ہوا کا

مگر جاری ہے گردُوں کو سفر میری ہوا کا

’’عناصر ‘‘ کے سلسلۂ غزلیات میں رزمیہ آہنگ ایک نئی معنویت پیدا کرتا ہے۔ تخلیق و تشکیل کے عمل میں جہاں عناصر کی آمیزش ہوتی ہے وہاں یہ جدلیات کے عمل سے بھی دوچار ہوتے ہیں۔ عناصر کی غزلوں میں جہاں اس تشکیلی پیکار کی تصویر کشی ملتی ہے وہاں رزمیہ اور اساطیری علامتیں اس مادی مبارزت سے آگے بھی بہت سے مفاہیم کے در کھولتی ہیں۔ یہ غزلیں مجموعی اعتبار سے دیکھی جائیں تو رزمیہ انداز کے استعارے ایک الگ جمالیات کے حامل نظر آتے ہیں۔ خصوصاً عناصر کا تجسیمی عمل ایک عجیب پر سحر کیفیات کا حامل ہے :

اتاروں گا ابھی اک آہنی مخلوق میداں میں

اور اُس کے بعد بھی اک فوج ہے تیار مٹی کی

کسی مفرور لشکر کے تھکے ہارے چراغوں نے

طلب کی ہے پڑاؤ کی اجازت میری مٹی سے

پھر مجھے بلانے آئی ہیں اُس سرسبز جزیرے کی پریاں

پھر میرے پاؤں سے لپٹی ہے اک لہر اچانک پانی کی

وہ بھی اپنے ساتھ لایا ہے غنیمِ ابر کو

فوج میرے بھی جلو میں بیشتر پانی کی ہے

غزل میں تسلسل خیال کے تجربے کے حوالے سے ’’موسم ‘‘ کی طرح ’’عناصر ‘‘ بھی انفرادیت کا حامل تجربہ ہے اور اس سلسلے میں اردو غزل کی روایت میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ عناصر کی غزلوں پر مشتمل یہ ’’دیوان ایک موضوعی وحدّت کی جستجو کے مختلف مراحل کی نشان دہی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ‘‘(۵۵) اور ان کا تخلیق کار ’’اشعار کی انفرادی اکائیوں کو ضعف پہنچائے بغیر اپنی غزل میں کیفیات کا بیان نظم کی طرح ادا کرنے پر قادر ‘‘(۵۶) دکھائی دیتا ہے۔

ارد و غزل میں تسلسل بیان کے نئے قرینوں کی تلاش کے سلسلے میں صابر ظفرؔ نے بڑے متنوع تجربے کیے ہیں۔ اس حوالے سے پہلی کوشش اُن کا مجموعۂ کلام ’’بارہ دری میں شام ‘‘ ہے جو ۱۰ طویل غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان غزلیات میں اشعار کی تعداد مختلف ہے تاہم طویل ترین غزل ۶۸ اور مختصر ترین غزل میں اشعار کی تعداد ۳۶ ہے۔

یہ غزلیں رومانی طرز احساس کی حامل ہیں جن میں عاشق و معشوق کی وصل و فراق سے سرشاری کے ساتھ ساتھ مختلف کیفیات محبّت کو نظم کیا گیا ہے۔ ’’جدید حسیّت سے مملو شاعری میں یہ اپنی نوعیت کا غالباً واحد تجربہ ہے جس میں آتشِ عشق کا گداز اور لذّت گریہ کا تسلسل ایک خاص کیفیت پیدا کرتا ہے۔ ‘‘(۵۷)

دکھا کے اپنے حسن کی ادا، عجب عجب طرح

وہ رات مجھ پہ مہرباں ہوا، عجب عجب طرح

وہ پہلا پہلا تجربہ تھا عشق میں وصال کا

چلی جو سسکیوں بھری ہوا، عجب عجب طرح

ہم ایک دوسرے کے سنگ سنگ بھیگتے رہے

اٹھایا لطف بوند بوند کا عجب عجب طرح

سمجھ رہا تھا میں کہ وہ بہت کٹھور ہے

شباب سے عیاں ہوئی حیا، عجب عجب طرح

اردو غزل میں آپ بیتی کا پہلا تجربہ ناصر کاظمی کی ’’پہلی بار‘‘ش ہے جس میں ایک ہی بحر اور زمین میں ایک داستانِ عشق منظوم کی گئی ہے۔ تاہم ’’ پہلی بار‘‘ش میں اختصار اور ایمائیت ہے اور مختلف کیفیتوں کو علامتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ ’’بارہ دری میں شام ‘‘ میں بھی ایمائیت کسی حد تک ہے لیکن وصل کی سرشاری کا اظہار اتنی شدت کے ساتھ ہے کہ اُس کا بہاؤ رموز و علائم کے کناروں کا وجود برقرار نہیں رہنے دیتا:

وہ دور تھا، قریب آ گیا تو چین آ گیا

اور آ کے روح میں سما گیا تو چین آ گیا

بدن تڑخ تڑخ اٹھا بدل بدل کے کروٹیں

وہ میری پیاس جب بجھا گیا تو چین آ گیا

بکھر رہا تھا اُس کا جسم نثری نظم کی طرح

غزل میں جب پرو دیا گیا تو چین آ گیا

ان غزلیات کو پڑھ کر یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ ’’پہلی محبت کے نقوش کس قدر گہرے ہیں۔ ‘‘(۵۸) ’’بارہ دری میں شام ‘‘ محض ایک عاشق کی آپ بیتی نہیں بلکہ اِس میں معشوق کا احوال بھی رقم ہے۔ ان غزلیات میں جہاں عاشق کلام کرتا ہے وہاں معشوق بھی اپنی کیفیتوں کا اظہار ایک سرور، گداز اور سرشاری کے ساتھ کرتا ہے۔ گویا یہ سلسلۂ غزلیات ’’عشق کا صحیفہ ہے جس میں عاشق اور اُس کے محبوب دونوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ‘‘(۵۹)

رات ساری جاگتی، سوتی رہی میں

ایک میٹھے درد میں ڈوبی رہی میں

رہ گئی تھی اُس کی خوشبو پاس میرے

اپنی سانسیں اُس سے مہکاتی رہی میں

فصل ایسی تھی، سہاگن کوئی جیسے

بیج وہ بوتا رہا، اگتی رہی میں

مہرباں بھنورا تھا یوں مجھ پر کہ جیسے

سارے گلشن میں فقط کھِلتی رہی میں

صابر ظفرؔ کے مجموعہ کلام ’’بے آہٹ چلی آتی ہے موت‘‘ کی غزلیں اُن کی زندگی کے ایک کرب ناک سانحے سے متعلق ہیں۔ اُن کے جواں سال فرزند شاہد مظفر کو قتل کر کے اُس کی لاش نہر میں بہا دی گئی۔ یہ سانحہ ایسا معمولی نہیں کہ جس کا اظہار کسی ایک رثائی نظم یا چند اشعار میں کیا جا سکتا ہو چنانچہ شاعر نے اس دکھ سے وابستہ اپنی داخلی کیفیات کو ۶۰ غزلیات پر مشتمل اس مجموعے میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ یہ غزلیں مسلسل بھی ہیں اور کلّی حیثیت میں یک کیفیتی بھی :

وہ مجھے چھوڑ گیا دکھ بھری حیرانی میں

خاک پر قتل ہوا اور ملا پانی میں

عکس پہلے تھا جہاں اب ہے وہاں بہتا لہو

کیا چھپائے گا کوئی آئینہ عریانی میں

زندہ رہنے کی ظفرؔ آئے نظر شکل کوئی

اصل کی ایک جھلک بھی ہو اگر ثانی میں

یہ غزلیں ایک سانحے کے غم کے تسلسل کا اظہار ہیں۔ تاہم شاعر نے اس ایک غم سے جو شعر کشید کیے ہیں اُن میں اس واقعے کا دکھ زندگی سے دوسرے آلام سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے۔ ان میں بعض ایسی غزلیں ہیں ’’جن میں شاعر براہ راست اپنے دکھ کا اظہار نہیں کرتا بلکہ عمومیت کا رنگ دے کر کسی قدر مبہم انداز میں بات کرتا ہے۔ ‘‘(۶۰) اظہار میں گریہ و ماتم بھی ہے، یاس و نا امیدی بھی، وقت کا جبر بھی اور اس واقعے پر رد عمل کی مختلف شکلیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ’’بے آہٹ چلی آتی ہے موت ‘‘ میں موت کاسایہ ایک تیز روندی کی طرح ہر غزل میں سرایت کرتا اور پھیلتا دکھائی دیتا ہے اور کتاب کے ایک ایک لفظ کو دائمی یاسیت، رنج اور حزن کے غبار سے بھر کر تمام نوع بشر کے لیے دکھ اور احتجاج کا استعارہ بن جاتا ہے۔ ‘‘(۶۱)

ہو گیا بے آرزو میں آرزو کرتا ہوا

ایک روحِ گم شدہ کی جستجو کرتا ہوا

ہر جانب پیغامِ اجل ہے، ہر جانب ہے شامِ اجل

کوئی نہیں ہے سحر کی صورت کہیں نہیں ہے کوئی نوید

ان غزلوں کا دکھ یکساں ہے لیکن اُس کا اظہار یکسانیت کا شکار نہیں بلکہ حیرت انگیز طور پر متنوّع ہے۔ یہ تنوّع کہیں تو بحروں کی رنگا رنگی سے پیدا ہو گیا ہے کہیں منفرد ردیفوں کے جمال سے اور کہیں یہ حسن مختلف تمثالوں کے ذریعے اجاگر کیا گیا ہے :

مٹی میں گلاب سو رہا ہے

یہ سچ پسِ خواب سو رہا ہے

پھر ہو گئی ہے ظلم کی حد، یارِ من مدد

کرنا ہے ایک وار کو رد، یارِ من مدد

سنتا ہوں تیری شہنائی، بسم اللہ خان

دیکھ مگر میری تنہائی، بسم اللہ خان

ساز نفس کیا ٹوٹا، لے نہ رہی کوئی باقی

کوئی ریاضت کام نہ آئی، بسم اللہ خان

غزلِ مسلسل کے سلسلے میں صابر ظفر کی تیسری مربوط اور اہم سعی ’’نامعلوم ‘‘ کی غزلیات ہیں جو شاد عظیم آبادی کی زمین :

ع:    نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

میں کہی گئی ہیں۔ یہ غزلیں اردو غزل کی اُس روایت کا بھی تسلسل ہیں جس کے تحت شاعر ایک ہی زمین میں ایک سے زائد غزلیں تخلیق کرتا تھا۔ بیسویں صدی میں ایسی سعی مسلسل کی مثالیں شاذ ہی ملتی ہیں۔ تاہم اس روایت کا ایک حیران کن احیا ناصر کاظمی نے ’’پہلی بارش ‘‘ کی صورت میں کیا اور ایک ہی زمین میں ۲۲ غزلیں تخلیق کیں۔ اس صورت حال میں صابر ظفر کی ’’نامعلوم ‘‘ کا یہ انفرادی اعزاز کچھ کم نہیں کہ یہ ایک ہی زمین میں ۶۰ غزلوں پر مشتمل ساٹھ غزلہ ہے۔

’’نامعلوم ‘‘ کی غزلیں کئی سطحوں پر تفسیرِ ذات کی ایک کوشش ہیں جن میں شاعر سوال بھی اُٹھاتا ہے، تحیّر کا اظہار بھی کرتا ہے اور ذات و کائنات کے بارے میں اپنے قیاسات ظاہر کر کے امکانات کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔ گویا یہ مسلسل غزلیں ایک ایسا شعری و روحانی اکتشاف ہے جو ایک تخلیقی مراقبے کے بعد ظہور پذیر ہوا ہے :

وجود کیا ہے، عدم کیا ہے، کچھ نہ تھا معلوم

میں روبرو تھا کسی کے، تھا کون، کیا معلوم

ازل سے پہلے تھا کیا اور ابد کے بعد ہے کیا

یہ معجزہ کوئی ہو گا، اگر ہوا معلوم

یہ کائنات ہے اُس کی تو پھر ہے اپنا کیا

وہ ساتھ رہ کے بھی کیوں ہوں علاحدہ معلوم

’’نامعلوم ‘‘ کی غزلوں میں اندرونی خود کلامی بھی ہے اور بعض کرداروں سے مکالمہ بھی۔ جن اشعار میں مکالمہ کا رنگ پیدا ہوا ہے، وہاں یہ تعیّن قدرے مشکل ہے کہ گفتگو کا یہ سلسلہ کس سے ہے ؟ اردو غزل میں رمز و کنایہ کی روایت کا یہ اعزاز بھی ہے کہ کسی ایک سے گفتگو کی بھی متنوع جہات متعین ہو سکتی ہیں اور ’’ نامعلوم‘‘ کی غزلوں میں مقابل کردار کی محبوب، مرشد، خدا، راز داں یا ہمزاد کسی بھی حوالے سے تشریح و توضیح کی جا سکتی ہے۔ اس مکالمے کے دوران میں لہجہ کہیں کہیں نشاطیہ بھی ہے مگر مجموعی طور پر ایک حزن و ملال کی لیَ غالب ہے :

میں اس لیے تجھے اتنا قریب پاتا ہوں

نہیں جدائی کا کوئی بھی ثانیہ معلوم

اٹھاؤ پلکیں کہ آنکھوں کی روشنی میں چلوں

کسی طرح ہو محبت کاراستہ معلوم

نہ خوش گمان ہو اتنا کہ دل کا حال تجھے

ہوا ضرور مگر سرسری ہوا معلوم

یہی تو دکھ ہے کہ بے موت مر رہا ہوں میں

نہ تو ملا نہ ہوا دل کا فیصلہ معلوم

’’نامعلوم ‘‘ کی غزلیات میں خود کلامی یا مکالمہ کی فضا کے حوالے سے یہ فنی پہلو بھی قابل غور ہے کہ شاعر نے کسی بھی شعر میں اضافت کا استعمال نہیں کیا اور اپنے خیالات کے بہاؤ کو ایک رواں بحر میں بڑی روانی اور زبان کی عام نثری ساخت میں بیان کیا ہے۔

اس سلسلۂ غزلیات میں شاعر نے اپنے باطن میں ایک تخلیقی استفسار کا جتنا وجدانی سفر کیا ہے اُس نے بلاشبہ ’’ایک نئے شعری لحن کی دریافت کے ساتھ ساتھ وجود و عدم، حاضر و غائب، ظاہر و باطن اور عکس و معکوس کے مابین وصال کی کیفیت کو جنم دیا ہے۔ ‘‘(۶۲)

غزلِ مسلسل کے حوالے سے صابر ظفر کے ہاں مذکورہ تین کوششوں کے علاوہ بھی بعض شعری مجموعوں میں شامل طویل و مختصر غزلیں حوالے کا درجہ رکھتی ہیں۔ تاہم اُن کی ایک غزل ایک خاص شعری قرینے کے باعث قابل ذکر ہے۔ یہ غزل اُن کے مجموعہ کلام ’’کوئی لو چراغ قدیم کی ‘‘ میں شامل ہے۔ جس کے اشعار کی تعداد ۱۰۰ ہے مگر تمام اشعار کی تخلیقی بنت ایک ہی تلازمے سے ہوئی ہے۔ اس غزل کے اشعار میں جو بھی مضمون باندھا گیا ہے وہ درخت یا اُس کے متعلقات کے حوالے سے ہے۔ غزل کے چند اشعار بطور مثال ذیل میں درج کیے جاتے ہیں :

اُس کے سائے سے اگر دور رہا جائے گا

وہ جو برگد سا مسافر ہے چلا جائے گا

تو نہ ہو گا تو محبت کے چناروں کی طرف

دھیان جائے گا مگر کم ہی ذرا جائے گا

سبز پتوں کے بکھرنے سے نہ ہو جیسے شور

یوں بچھڑتے ہوئے خاموش رہا جائے گا

یہ جو بے عیب نظر آتا ہے شیشے کا شجر

جب یہ ٹوٹے گا بہت زخم لگا جائے گا

خامشی سوکھے ہوئے پیٹر میں جا سوئی ہے

پھول جب گیت بنے گا تو جگا جائے گا

مجھے کفناؤ گے تم کیسے ہرے پتوں میں

دستِ صحرا تو مری خاک اڑا جائے گا

یہ غزل اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت منفرد ہے تاہم بعض اشعار میں ذہنی مشق بہت نمایاں ہے اور زبان و بیان کی ساخت بھی قدرے کمزور ہے۔

۷۰ کی دہائی میں مسلسل غزل کے تجربوں کے حوالے سے ’’رچنا ‘‘ ایک منفرد ذائقہ، ہے جس میں علی اکبر عباس نے کچھ ایسی غزلیں کہی ہیں جن میں پنجاب کی دیہی ثقافت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یوں یہ تجربہ غزل مسلسل کے ساتھ ساتھ اسلوب اور زبان کے حوالے سے بھی لائق بحث ہے۔ یہ غزلیں اپنی انفرادی حیثیت میں بھی ایک تسلسل کی حامل ہیں اور کلی طور پر بھی یہ ’’احساس ہوتا ہے کہ پوری کتاب میں بھی ایک آزاد تسلسل موجود ہے۔ ‘‘(۶۳)

ان غزلوں میں پنجاب کے دیہات کی فضا اور اس سرزمین کی تہذیب و ثقافت کی متنوع تمثالیں تراشی گئی ہیں جن میں کھیتوں کے مناظر بھی ہیں، موسموں کا تنوع بھی ہے، زندگی کے مختلف طبقے اور اُن کی طرز زندگی کا عکس بھی ہے اور مختلف مواقع، مقامات اور تہواروں میں اُن کے انداز و اطوار کا ذکر بھی ہے :

دن چڑھا گلی آباد ہوئی، بُڑھیوں کی جمی چوپال بھلا

گودوں میں پوتے پوتیوں کی کبھی ناک بہے کبھی رال بھلا

کوئی چھاج چنگیر بنے بیٹھی یا رنگلی پنیوں کی پنکھی

کوئی چاول پھٹکے، صاف کرے کوئی چنے بیٹھ کے دال بھلا

کچھ دکھ سکھ پچھلے ویلے کے کچھ یادیں الھڑ عمروں کی

سب اگلی پچھلی نسلوں تک پھیلے باتوں کا جال بھلا

اپنی مٹی کے مظاہر اور اُس کی تصویریں جہاں موسموں اور فصلوں کی تمثالوں کے ذریعے کھینچی گئی ہیں وہاں ایک حوالہ عورت بھی ہے۔ ’’علی اکبر عباس کے ہاں زمین ایک عورت بلکہ ماں کے روپ میں اور اُس کے گھر کا آنگن آسمان تک پھیلا ہوا ہے۔ ‘‘ (۶۴) یہی وجہ ہے کہ رچنا کی غزلیات کا غالب حصہ دیہاتی عورت اور اُس کی مختلف حیثیتوں کے حوالے سے اُس کے نسائی احساسات سے علاقہ رکھتا ہے۔ عورت کہیں ماں کی صورت میں بیٹی کے اچھے مستقبل کے خواب دیکھتی ہوئی نظر آتی ہے تو کہیں بیٹی کے روپ میں ماں سے اُس لحن میں مخاطب ہوتی دکھائی دیتی ہے جو پنجاب کے شاعر صوفیوں کی کافیوں میں سنائی دیتا ہے :

کیا جانوں کہاں گراں میرا

کس گوٹھ مرا سنسار نی ماں

مرا دانہ پانی کن ہاتھوں

کن ہاتھوں میری مہارنی ماں

اب سائیں سنوارے لیکھ مرے

تو اپنا کاج سنوار نی ماں

’’رچنا ‘‘میں پنجاب کا زندہ معاشرہ سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اس معاشرے کا ہر کردار جو کسی بھی طبقے سے متعلق ہے اپنی زندگی کی پوری توانائی کے ساتھ متحرک نظر آتا ہے۔ چودھری، نمبردار، وکیل، نائی، مصلّی، سکول جاتے بچے اور گھر آنگن آباد کی ہوئی عورتیں ان غزلوں میں زندگی کی روح بھرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض قمری مہینوں میں اجتماعی مذہبی مصروفیات کی تصویر کشی بھی لائقِ داد ہے۔

ان غزلوں کا ساراحسن پنجاب کے ماحول اور اس کی مخصوص فضا کی جزئیات نگاری ہے جس کی روشنی میں علی اکبرعباس کو پنجاب کی بستیوں کا نظیر اکبر آبادی (۶۵) اور ’’رچنا ‘‘ کو ’’آدمی نامہ کی طرح ایک بسیط شعری دستاویز ‘‘ (۶۶) قرار دیا گیا ہے تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں :

خوراک میں مستو سردائی پہنا وا ہلکے رنگوں کا

اور سارا دن رجبا ہے پر اک تانتا ننگ دھڑنگوں کا

پھوٹی جو شفق ہاتھوں میں تھے ہندوانے دو کاشے ہو کر

پھر دیکھا دیکھی باڑی میں درآیا میلہ سنگوں کا

’’رچنا‘‘ کی غزلوں میں افسانوی اور ڈرامائی تاثر بھی قاری کی متوجہ کرتا ہے۔ یہاں پہلی غزل سے لے کر آخر تک ایک داستانوی تسلسل زیریں لہر کی صورت میں چلتا ہے۔ اس لحاظ سے رچنا ’’غزل کے نئے ذائقوں میں سے ہے، جس میں مسلسل غزل، نظم کی حد کو چھوکر کہانی اور مسلسل کہانی کی حدود میں داخل ہو رہی ہے۔ ‘‘(۶۷)

مذکورہ تجربات کے علاوہ اردو غزل کے لیے نئے راستوں کی تلاش کی کوششوں کے سلسلے میں ایک تجربہ پاکستان کے علاقائی بولیوں کے الفاظ اور اُن کے ثقافتی عناصر کے استعمال کا ہے۔ یہ کوشش اگرچہ نئی نہیں ہے تاہم رواں دہائی میں ان تجربات کی ایک تخلیقی توسیع ضرور دیکھنے میں آئی۔

اس سلسلے میں سب سے اہم اور مربوط تجربہ علی اکبر عباس کا مذکورہ سلسلۂ غزلیات ’’رچنا‘‘ ہے۔ جس میں نہ صرف پنجاب کی ثقافت کی تصویر گری کی گئی ہے بلکہ مروجہ اردو زبان کی ایک نئی لسانی تشکیل کی بھی ایسی جرأت مندانہ کوشش کی گئی ہے کہ اس کے ناپسند کرنے والوں نے بھی اسے ’’اردو شاعر کی تاریخ کا انتہائی دلیرانہ تجربہ‘‘(۶۸) قرار دیا ہے۔ پاکستانی غزل میں اس لسانی بے باکی کا پہلا اظہار تو شیر افضل جعفری نے کیا تاہم علی اکبر عباس کے ہاں اعتماد اور زبان کے تشکیلی عمل کی پختگی نقش اوّل کی نسبت زیادہ اور صاف ہے۔ اس کی ایک وجہ ’’رچنا‘‘ کی غزلیات کا مزاج بھی ہے کہ ’’پنجاب کا مخصوص ماحول یوپی کے محاورے میں بیان کیا جاتا تو تمام ماحول مصنوعی ہو جاتا اور اس میں واقعیت کا وہ رنگ کبھی نہ دکھائی دیتا جو اب اس میں جلوہ گر ہے۔ ‘‘(۶۹)

علی اکبر عباس نے صرف پنجابی الفاظ کو برتنے کا تجربہ نہیں کیا ہے بلکہ دو زبانوں کے تال میل سے ایک نیا لہجہ تشکیل دینے کی کوشش کی ہے جس میں مصنوعی پن محسوس نہیں ہوتا البتہ اردو غزل کے لحن سے اس لہجے کی ہم آہنگی میں ابھی کچھ وقت درکار ہے۔

اس نوع کی ایک کوشش صابر ظفر کا مجموعۂ کلام ’’سانول موڑ مہار‘‘ ہے جس میں سرائیکی الفاظ کو عمدہ لسانی شعور کے ساتھ اردو غزل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ سرائیکی ثقافت خصوصاً وہ اشعار جو حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی شاعری کی پہچان ہیں، اس مجموعے کی غزلوں میں اپنی تخلیقی آب و تاب کے ساتھ نظر آتے ہیں :

جو اذن ہو تو میں سیارگاں کے ساتھ رہوں

وگرنہ روہی میں ریگِ رواں کے ساتھ رہوں

دیکھ لے تاکہ ختم ہو گریہ

آنکھ میں جو اخیری اتھرو ہے

دلائیں یاد، مہینوال کے ملن کی طلب

یہ سونھنی کے گھڑے ہیں چناں سے آئے ہیں

نہ مار نینوں کے تیر ان کی ہے اولڑی پیڑ

نہ دیکھ، جان مری دیدنی اگر ہے بھی

غزل میں اردو زبان کے برتاؤ کو مقامی لب و لہجے سے ہم آہنگ کرنے کا ایک اور عمدہ تجربہ جلیل عالی کے ہاں توسیع پذیر دکھائی دیتا ہے جو الفاظ کی ترکیب سازی کے سلسلے میں ہے۔ فکِ اضافت کا یہ تجربہ پہلی بار ظفر اقبال نے کیا تاہم اُن کے ہاں زبان کے ساتھ یہ رویہ مستقل حیثیت نہیں اختیار کر سکا اور اس تجربہ کا صحیح امکان جلیل عالی کی غزل میں نظر آتا ہے :

اب کی بہاروں جو بن پر تھے شوق شجر کتنے

کس کو خبر تھی آ جائیں گے درد ثمر کتنے

گزرے کیسے کیسے ظالم لمحوں کی لشکر

کھودی یاد زمین تو نکلے خواب کھنڈر کتنے

فارسی ترکیب سازی سے گریز کے اس عمل نے بیان میں یہ سہولت پیدا کی ہے کہ اب زبانوں کے میل جول کے دوران میں اُن زبانوں کے الفاظ جو آپس میں آہنگ کی اجنبیت کے باعث باہم نہیں جوڑے جا سکتے تھے اب بڑی آسانی سے ترکیب کے پیکر میں ڈھالے جا سکتے ہیں۔

سوچ سفر، خیال پنچھی، ملن ساحل، خواب کھنڈر اور شوق تتلی کی تراکیب میں تجربے کا امکان بھرپور اور روشن ہے۔ معترضین کے نزدیک اگرچہ اس تجربے سے غزل ’’ٹیلی گرافی زبان سے قریب آتی نظر آتی ہے۔ ‘‘(۷۰) لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سہولت بہت فطری اور مستقبل کے لیے خوش آئند ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے اس تجربے کے حوالے سے بہت عمدہ بات کی ہے کہ ’’ہمارے بعض ذہین نوجوان اگر اظہار میں جلیل عالی کے سے اجتہادات برتنے کا حوصلہ کر لیتے تو انھیں نثری نظم کے زیر زمیں غاروں میں پناہ لینے کے لیے نہ اترنا پڑتا۔ ‘‘(۷۱)

اڑا دیے رنگ تتلیوں کے گمان شیشوں اتارنے میں

گنوالیے نقش صورتوں کے نگاہ نقطوں ابھارنے میں

وفا کے سورج نگر سے دل نے کرن سندیسہ نہ کوئی پایا

گزار دیں کتنی چاند راتیں فراق لمحے شمار نے میں

اردو غزل میں کافی رنگ کی جھلک ثروت حسین اور علی اکبر عباس کے ہاں بھی نظر آتی ہے لیکن اس حوالے سے پہلی شعوری، مربوط اور عمدہ کوشش صابر ظفر کی ہے۔ اُن کے مجموعہ کلام ’’عشق میں روگ ہزار ‘‘میں غزل اور کافی کی اصناف کو ہم آہنگ کرنے کا تجربہ کیا گیا ہے :

جشنِ وصال کی لاکھ سبیلیں اور سنجوگ ہزار

ایک مجھے بس تو نہیں ملتا، ویسے لوگ ہزار

بھیس بدل کے جو گی والا، گاتا پھرے ظفرؔ

عشق میں روگ ہزار او سائیں عشق میں روگ ہزار

غزل میں کافی رنگ پیدا کرنے کے لیے صابر ظفرؔ نے جہاں سندھی اور پنجابی الفاظ سے استفادہ کیا ہے وہاں اُن بحروں کو بھی برتا ہے جو لوک شاعری میں مروّج ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی لوک داستانوں کے وہ عشقیہ کردار بھی مکالمہ کرتے نظر آتے ہیں جن کی دکھ بھری آواز کافی کی لوک مقبولیت کا سبب ہے۔ ان غزلوں کا لحن بھی عشق مجازی اور عشقِ حقیقی کی ہم آہنگی سے مرتب ہوتا ہے :

نی مائے مجھے باندھ نہ غیر کے پلّے

میں رانجھے کی، رانجھا میرے ولّے

عشق ہی عشق ہمیشہ چاہوں، کچھ نہیں اور قبول

میں ہوں ترے درشن کاپیاسا، تجھ بن پھروں ملول

جیون ایک ترنگ ہے سائیں، جیون ایک ترنگ

جیسے پیاس کے صحرا میں ہو، ساون ایک ترنگ

اردو غزل کو علاقائی الفاظ اور ثقافت سے ہم آہنگ کرنے کی ایک کوشش عبداللہ یزدانی کی بعض غزلیں بھی ہیں جن میں سرحد کی پشتون اور سرائیکی تہذیبوں کا رچاؤ نظر آتا ہے :

اب حسینوں سے بات کرنے کی

موکھ کہتے ہیں سو روپے ہو گی

پھول تو تب کھلیں گے یزدانی

جب چمن میں وہ گل مخے ہو گی

حور کہتا ہے زمانہ جس کو

وہ مری لعل پٹھانی ہو گی

اسی طرح اُن کی غزل جس میں علاقائی ثقافت کا ذائقہ اپنی پوری مٹھاس کے ساتھ محسوس ہوتا ہے :

بھاگ والی ہے حور ڈھکی کی

کھا رہی ہے کھجور ڈھکی کی

بیٹھ کر یار کے کجاوے میں

کی ہے سرحد عبور ڈھکی کی

دل کو شاداب کر رہی ہیں بہت

خجیّاں بور بور ڈھکی کی

۰ ۷ کی دہائی میں شناخت حاصل کرنے والے بعض شعرا نے فارسی کی کلاسیکی غزل کے بعض تجربوں کو بھی فروغ دینے کی سعی کی ہے۔ اس حوالے سے عدیم ہاشمی کی مکالماتی غزل اور شوق جعفری کی غیر منقوط غزل لائق ذکر ہے۔

عدیم ہاشمی اردو غزل میں اپنے تند و تیز لہجے کے باعث ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں تاہم اپنی غزل کو الگ راستے پر ڈالنے کے لیے انھوں نے ’’مکالماتی غزل ‘‘ لکھنا شروع کی۔ ان غزلوں کی صورت یہ ہے کہ ’’کہیں کہیں پورا ایک شعر مکالمہ ہے یا کہیں کہیں ایک مصرعے میں دو دو مکالمے بھی ہیں اور بسا اوقات ایک مصرعہ مکالمے کی صورت میں ایک سوال ہے اور دوسرا مصرعہ مکالمے کی صورت میں جواب۔ ‘‘(۷۲)

عدیم نے اپنی اس کوشش کو ’’نیا تجربہ ‘‘(۷۳) قرار دیا ہے۔ اس امر میں شک نہیں کہ یہ مجموعہ اردو میں مکالماتی انداز کی غزل کی پہلی مربوط کوشش ہے لیکن فارسی شاعری کو دیکھا جائے تو اس نوع کی کوششیں بہت پہلے سے ایک روایت رہی ہیں۔ سلمان ساوجی، حافظ شیرازی، فرید کاتب اور مولانا جنونی کی بعض مکالماتی غزلیں فارسی ادب میں بہت مقبول ہیں۔

پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ادب میں خصوصاً صوفی شعرا کے ہاں بھی بعض ایسی منظومات دیکھی جا سکتی ہیں جن میں سخن کا رنگ مکالماتی صورت میں ہے۔ اردو غزل کے کلاسیکی دور میں بھی چند اشعار مکالمے کی صورت میں ملتے ہیں۔ جدید دور میں پنڈت دتاتریہ کیفی اور سراج الدین ظفر نے اپنی ایک آدھ غزل مکالماتی اسلوب میں تخلیق کی ہے۔ سراج الدین ظفرؔ کی مکالماتی غزل سے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

میں نے کہا کہ حلِّ معمّائے جاں کرو

اُس نے کہا یہ بات سپردِ بتاں کرو

میں نے کہا بہارِ ابد کا کوئی سراغ

اُس نے کہا تعاقبِ لالہ رخاں کرو

میں نے کہا کہ عشق میں بھی اب مزا نہیں

اُس نے کہا کہ از سر نو امتحاں کرو

میں نے کہا کہ ہم سے زمانہ ہے سرگراں

اُس نے کہا کہ اور اسے سرگراں کرو

میں نے کہا کہ حدِّ ادب میں نہیں ظفرؔ

اُس نے کہا نہ بند کسی کی زباں کرو

عدیم ہاشمی کا یہ اعزاز ضرور ہے کہ انھوں نے مکالماتی غزل صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے نہیں کہی بلکہ اس انداز کو باقاعدہ اختیار کیا اور اس کے امکانات کا ہر پہلو سے جائزہ لے کر ۶۴ غزلوں پر مشتمل ایک مجموعہ ترتیب دیا۔

ان غزلوں میں ایک نمایاں بات ذات کی کھوج ہے تاہم تخلیق کار نے اس ایک تجربے سے متنوع رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے :

کہا ساتھی کوئی دکھ درد کا تیار کرنا ہے

جواب آیا کہ یہ دریا اکے لیے پار کرنا ہے

کہا ہر راستہ بخشا ہے ناہموار کیوں مجھ کو

جواب آیا تجھے ہر راستہ ہموار کرنا ہے

کہا کیا تیغ اٹھانی ہے غنیموں پر غنیموں نے

جواب آیا کہ یاروں نے بھی چھپ کر وار کرنا ہے

کہا مجھ کو بنایا ہے تو پھر یہ دوسرے کیوں ہیں

جواب آیا کہ تجھ کو دوسروں سے پیار کرنا ہے

کہا کینہ بھڑکتا ہے اسے کیسے بجھانا ہے

جواب آیا محبت سے بس اک آنسو بہانا ہے

کہاں کیوں دے دیا ہے صورِ اسرافیل ہاتھوں میں

جواب آیا تجھے سویا ہوا جذبہ جگانا ہے

کہا احساس مرتا جا رہا ہے کیوں زمانے کا

جواب آیا ہمیں آخر قیامت کو بھی لانا ہے

کہا اتنے حسیں چہرے جہاں کو چھوڑ دوں کیسے

جواب آیا ہمیں بھی تو تجھے جلوہ دکھانا ہے

عربی، فارسی اور اردو شاعری میں ایک صنعت غیر منقوط ہے یعنی ایسے الفاظ پر مشتمل

کلام کرنا جن میں نقطے کا استعمال نہ ہو۔ اس سلسلے میں نہ صرف شاعری کی مختلف اصناف بلکہ بعض اوقات نثر میں بھی ایسی کاوشیں سامنے آتی رہی ہیں جن میں اس تجربہ میں ہنر آزمائی کی گئی ہے۔

فارسی شاعری کو دیکھا جائے تو ’’عبدالرحمن جامی نے پورا دیوان بے نقط مرتب کیا ہے۔ ‘‘(۷۴) اس کے علاوہ بعض دیگر شعرا نے بھی ایسی غزلیں کہی ہیں جو بے نقط ہیں لیکن اردو غزل میں ایسی کوئی روایت نظرنہیں آتی اگرچہ اس صنعت کے استعمال کی مثالیں ممکن ہے بعض اشعار میں پائی جاتی ہوں لیکن یہ اتنی شاذ ہوں گی کہ ’’اردو کی پوری روایت میں غیر منقوط شاعری کو یکجا کیا جائے تو شاید ایک کتاب بھی نہ بن سکے۔ ‘‘(۷۵)

حال ہی میں یوسف طاہر قریشی کی تخلیق کردہ نعتوں کا ایک مجموعہ ’’روحِ عالم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس میں صنعتِ غیر منقوط استعمال کی گئی ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مذکورہ نعتیں غزل کی ہیئت میں ہیں۔

اس صورت حال کے تناظر میں شوق جعفری کا یہ اعزاز ہے کہ انھوں نے ۶۶ غزلوں پر مشتمل ’’ہالۂ ملال ‘‘ کے عنوان سے ایک ایسا مجموعہ تخلیق کیا ہے جو غیر منقوط ہے۔ اردو غزل میں یہ تجربہ اولیّت کے ساتھ ساتھ انفرادیت بھی رکھتا ہے۔ ان غزلوں کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اتنے سنگلاخ تجربے کے باوجود اشعار کا اسلوب پیچیدہ نہیں بلکہ آسان اور رواں ہے اور بعض شعر تو سہلِ ممتنع کی مثال ہیں :

حالِ دل کَہ دوں سار آہو سے

مسکرا کر ملا ہوں گل رو سے

ہم ہی عاصی رہے سدا اے دل

لوگ ہم سے ملے وہ سادھو سے

وہ عدو ہے ہمارے ہر دم کا

ہم کو گھائل کرے ہر اک سو سے

اس دور کا ہر لمحہ کوئی اور ہوا دے

مہکا ہوا موسم ہے سرِ دار صدا دے

ہر وادی گل کی طرح موسم وہ ہرا دے

ہر دائرہ گل کی طرح مہر اگا دے

صحراؤں کو صرصر سی کوئی آگ لگی ہے

وہ آکے ادھر سرد گھٹاؤں کی ادا دے

ہاں درد کا ساگر ہے دکھوں کا ہے سوالی

ہاں ہم کو اگر دے وہ سدا درد سدا دے

۷۰ کی دہائی میں اردو غزل کا مضافاتی منظر نامہ دیکھا جائے تو بعض شعرا کے ہاں انوکھی لفظیات کے تجربات کے ساتھ ساتھ بندۂ مزدور کے تلخ اوقات کی تصویر کشی بھی نظر آتی ہے۔ اس کی ایک وجہ اس دہائی کی ابتدا میں ایک معاشی پروگرام کی حامل پارٹی کا برسراقتدار آنا اور دہائی کے اواخر میں اُس کی حکومت کا مارشل لا کے ذریعے خاتمہ بھی ہے۔ طبقاتی تفاوت کے خاتمے کے لیے جہاد بالقلم کی مساعی سے اردو غزل کا دامن کبھی خالی نہیں رہا لیکن ۱۹۳۰ء کے بعد ابھرنے والے عالمی مسائل کے پیش نظر اردو غزل میں ترقی پسند شعرا نے جب انقلاب کے خواب پرونا شروع کیے تو ایک خاص بلند آہنگ لہجہ پروان پروان چڑھنے لگا۔

۷۰ کی دہائی میں جب کہ ملک دو مارشل لاؤں کا جبر سہ چکا تھا ایک جمہوری حکومت کا قیام اُن کے لیے ہرے دنوں کے خواب کی تعبیر کا درجہ ضرور رکھتا تھا۔ چنانچہ ایک بار پھر اردو غزل میں بندۂ مزدور کا دکھ مصوّر ہونے لگا۔ اس سلسلے میں جہاں اساطیری علامتوں کا سہارا لیا گیا وہاں بعض غزل گوؤں نے براہ راست اظہار بھی کیا لیکن چونکہ ان شعرا کا تعلق مضافات سے تھا اور یہ کسی سیاسی تحریک کا معتبر حصّہ نہ تھے اس لیے ان کی غزل میں جبر کی صورت حال میں جنم لینے والوں دکھوں کے اظہار کے علاوہ اور کوئی احتجاجی صورت سامنے نہیں آ سکی۔

لب و لہجے کے اعتبار سے یہ شعرا شکیب جلالی اور اقبال ساجد سے زیادہ مختلف نہیں لیکن ان کے اشعار میں بعض منفرد لفظیات کا استعمال اردو غزل کو ایک الگ راستے کی طرف گامزن ضرور کرتا ہے۔ ان اشعار کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان میں صنعتی زندگی سے وابستہ نچلے طبقے کے کرداروں کے دکھوں کو سمیٹا گیا ہے اور اُن کی محنت کش زندگیوں کی عکاسی کے ساتھ اُن کے گھر کی داخلی فضا کی تصویریں بھی کھینچی گئی ہیں۔

اردو غزل کے اس مضافاتی منظر نامے میں تنویر سپرا، سبط علی صبا، علی مطہر اشعر، شہزاد قمر اور اسلم کولسری ایسے شعرا ہیں جن کی آواز انوکھی لفظیات کے ساتھ نمایاں سنی جا سکتی ہے :

دن بھر تو بچوں کی خاطر میں مزدوری کرتا ہوں

رات کو اپنی غیر مکمل غزلیں پوری کرتا ہوں

آج بھی سپرا اُس کی خوشبو مل مالک لے جاتا ہے

میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں

کتنا بعد ہے میرے فن اور پیشے کے مابین

باہر دانشور کہلاؤں، مل میں آئل مین

اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے

دن بھر کی مشقّت سے بدن ٹوٹ رہا ہے

(تنویر سپرا)

جب چلی ٹھنڈی ہوا، بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا

ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو

کتنا بوسیدہ، دریدہ پیراہن ہے زیب تن

وہ جو چرخہ کاتتی رہتی ہے لڑکی رات کو

دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی

لوگوں نے میرے صحن سے رستے بنا لیے

(سبط علی صبا)

اب مری بیوی کی آنکھوں میں چمک بڑھنے لگی

میرا اک بچہ بھی مزدوری کے قابل ہو گیا

اک چھوٹے سے سیب کو کتنی قاشوں میں تقسیم کروں

کچھ بچوں کا باپ ہوں اشعر کچھ بچوں کا تایا ہوں

(علی مطہر اشعر)

ایک تو مشقِ سخن ہے ہی نہ تھی فرصت ہمیں

وقت لے کر فائلوں اور دفتروں تک آ گیا

یوں غریبِ شہر ہوں شہزاد اپنے شہر میں

صاحبِ ایمان جیسے کافروں تک آ گیا

(شہزاد قمر)

اسلم کولسری کا رنگ غزل ان مسائل کے علاوہ بھی انداز و اسلوب کے نئے پن کا حامل ہے اور اُن کی غزل کو فکری حوالوں سے بعض اور زاویوں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم مذکورہ مسئلے کے سلسلے میں اُن کے ہاں بعض اجنبی الفاظ اپنائیت کا احساس دلاتے ہیں :

لاش کے پہلو سے چوری ہو گئے

اک پرانی سائیکل، خالی ٹفن

شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

(۳)

ادب کے رجحانات اگرچہ اس طرح نہیں بدلتے جیسے ’’کیلنڈر کے اوراق‘‘ (۷۶) تاہم ۱۹۷۰ء ایک ایسی امکانی حد ضرور ہے جب جدیدیت کی کمر خم ہو چکی تھی اور ما بعدِ جدیدیت نے پاؤں پاؤں چلنا شروع کر دیا تھا۔ اس لیے عموماً ۱۹۷۰ء کے بعد تخلیق ہونے والے ادب کو ما بعدِ جدیدیت سے متعلق خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن برصغیر خصوصاً پاکستان میں اس عرصے میں بعض ایسے غیر معمولی واقعات رونما ہوئے کہ ۷۰ء کی دہائی میں اُبھرنے والی شعری نسل کو ما بعدِ جدیدیت کے رشتے سے مکمل طور پر وابستہ نہیں سمجھا جا سکتا۔

سقوطِ مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان میں پہلی بار ایک سوشلسٹ پارٹی کی حکومت، بھارت کا ایٹمی تجربہ، تحریکِ نظام مصطفی، مارشل لا کا نفاذ اور افغانستان پر سوویت یونین کا حملہ، یہ ایسے معمولی واقعات نہیں کہ پاکستانی غزل گو، بالکل غیر وابستہ انداز میں شعر گوئی کرتا رہتا۔

مذکورہ حالات کے تناظر میں غزل ما بعدِ جدیدیت کی نمایاں نشانات تلاش کیے جائیں تو ۱۹۸۰ء کے بعد اُبھرنے والے نئے شعرا کا اسلوب ان کا پتہ دیتا ہے۔ اس نسل کے مزاج کا سب سے نمایاں وصف یہ ہے کہ یہ کسی تحریک یا اجتماعی رجحان سے وابستہ نہیں، نہ ہی ’’خود کو کسی اسکول سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں (۷۷) بلکہ یہ شعرا انفرادی طور پر اپنی داخلی کیفیتوں، دلچسپیوں، محرومیوں اور رنج و راحت کا بیان کر رہے ہیں :

بساطِ شام و سحر سے گزرتا جاتا ہوں

ستارے اور شگوفے شمار کرتا ہوا

(خاور احمد)

ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس

جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

(عباس تابش)

نظر میں نقش ہے صبح سفر کی ویرانی

بس ایک میں تھا اور اِک صبح کا ستارہ تھا

(مقبول عامر)

مجھے دورا ہے پہ لا کے لوگوں نے یہ نہ سوچا

میں چھوڑ دوں گا یہ راستہ بھی، وہ راستہ بھی

(لیاقت علی عاصم)

میانِ شہر ہیں یا آئنوں کے روبرو ہیں ہم

جسے بھی دیکھتے ہیں کچھ ہمیں جیسا نکلتا ہے

(آفتاب حسین)

ہم اپنے عہد کے یوسف ضرور ہیں لیکن

کنویں میں قید ہیں، بازار تک نہیں پہنچے

(رؤف امیر)

کیا جانے کس طرح ہے مرا سر لگا ہوا

کرتا نہیں اثر کوئی پتھر لگا ہوا

(افضال نوید)

ہم نے مانگا نہیں ہے جب کچھ بھی

پھر ہمیں کیا کہ کیا نہیں موجود

(ابرار احمد)

سن یہ رونا نہیں گرانی کا

یہ تو بے قیمتی کا رونا ہے

(اجمل سراج)

سر نہر وجود کھڑے ہوں تو آفاق میں گم ہو جاتے ہیں

اب ربِ جّبال! یہ ہم کیسے اعماق میں گم ہو جاتے ہیں

(ادریس بابر)

رات کیا نیند کا عالم تھا کہ اُس عالم میں

لے گیا کوئی مرا خواب سرہانے رکھا

(طارق نعیم)

لبِ ساحل کوئی دریا نہیں تھا

فقط محرومیوں کے دائرے تھے

(نذیر تبسم)

ہماری آنکھ میں اشکِ ملال کیا آتا

عروج ہی نہیں آیا زوال کیا آتا

(منظر نقوی)

بہے ہیں رات بھر آنکھوں سے آنسو

یہ مٹی پھر مہکنے لگ گئی ہے

(ضیا الحسن)

اگر نہ چاہے تو پیغام تک نہیں لیتا

یہ دل کبھی تو ترا نام تک نہیں لیتا

(اقبال حسین)

عجیب آگ تھی پھیلی ہوئی مرے گھر میں

کہ جل رہا تھا مسلسل مگر دھواں نہیں تھا

(غضنفر ہاشمی)

بس آنے والی ہے اک موج اور صحنِ چمن

مثالِ دیدۂ تر پاک ہونے والا ہے

(شہاب صفدر)

بے نشان و بے امکاں راستے سمندر کے

کاغذی سفینوں میں ولولے سمندر کے

(طاہر شیرازی)

سلگتی سوچتی انساں کی نسلیں

جنھیں پہچان کا غم کھا گیا ہے

(خورشید ربانی)

ہاتھوں میں لیے چند لکیروں کا فسانہ

کم فرصتی کا تب تقدیر پر سوچیں

(محمد علی بخاری)

دل کا صحرا جل رہا ہے اور آنکھیں

چشمہ بے آب ہوتی جا رہی ہیں

(نذر عابد )

سرابوں کا نیا اک سلسلہ ممکن نہیں تھا

تمھارے بعد کوئی دوسرا ممکن نہیں تھا

(بیرم غوری)

یہ چند اشعار اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ۸۰ء کے بعد اُبھرنے والی شعری نسل ایک عجیب بے یقینی سے دوچار ہے۔ یہ شعرا نہ تو کسی جنت گم گشتہ کا ملال رکھتے ہیں نہ ہی کسی سہانے مستقبل کے خواب۔ عدم اطمینان اور نا آسودگی ان کی نفسیات کے بنیادی اوصاف ہیں۔

داخلیت اور دروں بینی کی طرف مائل یہ نسل اپنے مزاج کے باعث تخلیقی عمل کے لئے ’’ترغیب تک تو قبول کرتی ہے کہ ترغیب میں تحرک بھی شامل ہے مگر یہ کسی تحکیم کو نہیں مانتی۔ ‘‘(۷۸)

۱۹۸۰ء کے بعد اردو غزل کا مطالعہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ ادب کے رواں منظر نامے کا حصہ یہ شعرا اپنے ماضی کے تمام تر تجربات کا اب تک کا حاصل وصول اور غزل کے مستقبل کی علامت ہیں۔ ان شعرا کا تخلیقی سرمایہ اس سوال کا جواب بھی ہے کہ اردو غزل اب تک زبان و بیان کے تجربات کے ذریعے نئے راستوں کی تلاش کے بعد کس منزل تک رسائی حاصل کر سکی ہے اور نئے شعرا کا جوہر تخلیق اس سلسلے میں کون سی نئی جہات کا حامل ہے۔

اس سلسلے میں یہ امر قدرے حوصلہ افزا ہے کہ ماضی میں کئے گئے تجربات ۱۹۷۰ء سے جس امتزاجی شکل میں ڈھلنا شروع ہوئے تھے اُس کے تسلسل کو راست انداز میں برقرار رکھتے ہوئے نئے شعرا غزل کی ایک تازہ تر روایت کی تشکیل میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ یہ شعرا چونکہ کسی سیاسی و سماجی تحریک تو کجا تو کسی مخصوص ادبی نظریے سے بھی وابستہ نہیں اور خالصتاً فنی لوازم کی طرف متوجہ ہیں اس لیے ان کے ہاں فن کا شعور گزشتہ کی نسبت زیادہ پختہ نظر آتا ہے۔ ان کے اشعار میں مصرعہ کی ساخت اور لفظیات کی بنت اور تربیت Compact دکھائی دیتی ہے :

متاعِ حرف بھی، خوشبو کے ماسوا کیا ہے

ہوا کے رخ پہ نہ جاؤں تو راستہ کیا ہے

بکھر رہا ہوں تری طرح میں بھی اے زرِ گل!

سو تجھ سے پوچھتا ہوں تیرا تجربہ کیا ہے

(سعود عثمانی)

صدائے صورِ اسرافیل کا غم کھا گیا ہے

ہمیں اپنی عدم تکمیل کا غم کھا گیا ہے

غمِ ابلاغ میں ہم لوگ آدھے رہ گئے ہیں

مکمل سوچ کی ترسیل کا غم کھا گیا ہے

(اختر عثمان)

کسی سے وعدہ و پیمان بھی نہیں میرا

یہاں سے لوٹنا آسان بھی نہیں میرا

سکوتِ شب میں تری چشم نیم وا کے سوا

کوئی چراغِ نگہبان بھی نہیں میرا

(قمر رضا شہزاد)

خوشبو کی طرح پھیلی ہے کمرے میں بصارت

شب چھوڑ گیا کون یہ گلدان میں آنکھیں

نابینا جنم لیتی ہے اولاد بھی اُس کی

جو نسل دیا کرتی ہے تاوان میں آنکھیں

(رفیق سندیلوی)

اُس خوش ادا کے آئنہ خانہ میں جاؤں گا

پھر لوٹ کر میں اپنے زمانے میں جاؤں گا

رہ جائے گی یہ ساری کہانی یہیں دھری

اک روز جب میں اپنے فسانے میں جاؤں گا

(اکبر معصوم)

کریں اُس اس سے اب کوئی شکوہ کیا، دلِ زار رات گزر گئی

مرے دوست وقت بدل گیا، مرے یار رات گزر گئی

وہ جو اجنبی سا گزر گیا تو ٹھہر ٹھہر گیا دل مرا

مرے ایک بجھتے چراغ پر کئی بار رات گزر گئی

(لیاقت علی عاصم)

رنگِ بہارِ حسنِ گزشتہ نہ دیکھ پائے

اب کے تو ہم نے اُس کو جو دیکھا نہ دیکھ پائے

ہوتا رہا تماشہ کہیں آس پاس ہی

ہم تجھ میں ایسے محو تھے، میلہ نہ دیکھ پائے

(احمد حسین مجاہد)

جس کی گردش میں زمانے کئی آئے ہوئے ہیں

ہم بھی اُس چاند کی کرنوں میں نہائے ہوئے ہیں

شب دیجور! تری تاب کہاں سے لائیں

ہم کہ خالِ رخِ جاناں کے ستائے ہوئے ہیں

(عزیز اعجاز)

اے خوابِ پذیرائی! تو کیوں مری آنکھوں میں

اندیشہ دنیا کی تعبیر اُٹھا لایا

میں نیّتِ شب خوں سے خیمے میں گیا لیکن

دشمن کے سرہانے سے شمشیر اُٹھا لایا

(عزم بہزاد)

اس نسل کی ایک نمایاں خوبی جستجو ہے۔ ایک زمانہ تھا جب:

میں ہوں اپنے صنم کی بانہوں میں

میرے قدموں تلے زمانہ ہے

ایسے شعروں سے بھی کام چل جاتا تھا، بلکہ بہت سے شعرا ایسے ہی کلام کی بنیاد عظیم غزل گو بھی قرار پا گئے ہیں لیکن یہ نسل اُس انتہا کا شعور رکھتی ہے جہاں سے اِس نے ابتدا کی ہے۔ اردو غزل ۷۰ء کی دہائی تک آتے آتے تجربات کی ایسی راہوں سے گزر چکی ہے کہ اب سخن کی منزل تک رسائی بغیر جستجو کے ممکن نہیں ہے۔ نئی غزل میں جستجو کا یہ عنصر خیال اور فنی برتاؤ دونوں سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اشیا کی ماہیت کو نئے زاویے سے دیکھنا، زمان و مکاں کی مابعد اطبیعاتی دریافت، باطن کے منفرد، نامانوس مگر دلچسپ تجربات اور خیالات کی نئی بست و کشاد ایسے اوصاف ہیں جو نئی غزل کی شناخت ہیں :

پل بھر وہ چشمِ تر سے مجھے دیکھتا رہا

پھر اُس کے آنسوؤں سے مری آنکھ بھر گئی

(مقبول عامر)

بارود کس کے لیے کس کی دعا ہو گئی ہے

میں ہوا ہوں کہ یہ زنجیر رہا ہو گئی ہے

(سعود عثمانی)

بدلتا جاتا ہوں راستہ اور لباس شہزاد

میں اک زمانہ کئی زمانوں سے آ رہا ہوں

(قمر رضا شہزاد)

میں اپنے ساتھ لیے پھر رہا ہوں اپنی قضا

جدھر گئیں مری راتیں، ادھر گئے مرے خواب

(افضال نوید)

اے سمندر! تری آنکھیں ہیں یہاں سب سے قدیم

اِس جزیرے پہ مکانات سے پہلے کیا تھا

(شناور اسحاق)

یہ کرن کہیں مرے دل میں آگ لگا نہ دے

یہ معائنہ مجھے سرسری نہیں لگ رہا

(ادریس بابر)

بیسویں صدی کے اواخر کی غزل کا جائزہ لیتے ہوئے ابرار احمد نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’غزل کی صنف کی مضبوطی روایت سے مشروط ہے۔ ‘‘ اس حوالے سے یہ بات نئے شعرا کے ہاں خوش کن ہے کہ یہ اپنی کلاسیکی روایت سے جڑے ہوئے ہیں نیز اُس آہنگ کے تموّج کا شعور بھی رکھتے ہیں جو کلاسیکی غزل گوؤں کو حاصل تھا۔ ان شعرا کے ہاں زبان کا برتاؤ، ترکیب سازی کا فن اور اسلوب کی رعایتیں کہیں کہیں تو ایسا رنگ اختیار کرتی ہیں کہ میرؔ و غالبؔ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے :

سجا ہوا ہے جہانِ تعلقات بہت

یہ اور بات کہ دنیا ہے بے ثبات بہت

(اجمل سراج)

عجب ہے عشق، عجب عشق کی اذّیت ہے

نہ رک رہا ہے وہ خنجر، نہ کٹ رہا ہے گلو

(احمد نوید)

کھینچ لائے یہ ماہ و سال کہاں

رہ گئے میرے خدّ و خال کہاں

(رضی حیدر)

دل پسِ چشم کہیں اور کھلا رہتا ہے

کسی آئینے کے اندر نہیں منظر میرا

(اکرم محمود)

آنکھ تر ہو تو نظر آئے نظارہ اُس کا

ربط اسی موج میں ممکن ہے ہمارا اُس کا

(شاہین عباس)

لمحۂ وصل کا کیا ربط ہے سرشاری سے

ہجر کا کرب ہے کیا آنکھ کا پانی کیا ہے

(امجد بہزاد)

روایت کا گہرے شعور اور کلاسیکی برتاؤ اردو غزل کی رگوں میں تازہ خون فراہم کرتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی گریز ممکن نہیں کہ کوئی بھی روایت ایک خاص وقت کے بعد کلیشے کی صورت اختیار کر لیتی ہے خصوصاً اُن حالات میں جب تخلیق کار کسی نوع کا نیا تجربہ کرنے سے گریز پا ہوں اور نئی غزل کا یہی پہلو اس کے مستقبل کے لئے خطرے کی علامت بھی ہے۔

نئی غزل میں انسان کی داخلی کیفیات اور جدید حسیت کا بھرپور اظہار ہو رہا ہے اور اُس کے لئے زبان و بیان کا جو قرینہ اختیار کیا جا رہا ہے یقیناً لمحہ موجود اُسے تحسین کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ کلاسیکی وضع داری مستقبل میں کب تک سود مند رہے گی۔

غزل کا مزاج ابتدا ہی سے داخلیت کی طرف مائل رہا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہ صنف اپنے خارجی ماحول سے بے نیاز رہی ہو۔ ذات کے پردے میں پوری کائنات کی تصویر کشی صنفِ غزل کا امتیازی وصف رہا ہے۔ غزل کا بظاہر دروں بیں شاعر ہر دور میں معاشرے کے ایک باخبر اور با شعور فرد کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے عہد کے مسائل کو بھرپور انداز میں پیش کرتا رہا ہے۔

اردو غزل کی نئی پود کے ہاں بھی یہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن اِس نسل کے شعرا کی دروں بینی اپنے بعض پہلوؤں کے اعتبار سے ایک بالکل مختلف صورت حال کو پیش کر رہی ہے۔ ۸۰ء کے بعد اُبھرنے والے شعرا اپنی داخلی دنیا میں کسی قدر محو ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ غزل کی لفظیات میں صیغہ متکلم کا استعمال حیران کن حد تک بڑھ گیا ہے۔ حال ہی میں اِس نسل کے بعض نمائندہ شعرا کے شائع ہونے والے انتخاب ’’غزل آباد‘‘ میں اس صورتِ حال کا جامع مطالعہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ غزل گو کس طرح متکلم کے دائرے میں محصور ہیں۔ یہاں بطور مثال صرف وہی اشعار درج کیے جا رہے ہیں جو اِن شعرا کے نمائندہ قرار دیے جانے کے طور پر کتاب کی ابتدا میں درج کیے گئے ہیں :

آنکھیں تمہارے ہاتھ پہ رکھ کر میں چل دیا

اب تم پہ منحصر ہے کہ کب دیکھتا ہوں میں

(شاہین عباس)

جب انتظار کے لمحے پگھلنے لگتے ہیں

گلی کے لوگ مرے دل پہ چلنے لگتے ہیں

(عباس تابش)

تری طرح کے کسی شخص کی تلاش میں ہوں

خبر نہیں یہ ترا انتظار ہے کہ نہیں

(سعود عثمانی)

اب مجھ سے ترا بار اٹھایا نہیں جاتا

لیکن یہ مرا عجز ہے، ان کار نہیں ہے

(اکبر معصوم)

میں خود کو دوسروں سے کیا جدا کروں

بہت ملا جلا دیا گیا مجھے

(نوید رضا)

کون سمجھے یہ اشارے، یہ کنائے میرے

جانتا کوئی نہیں مجھ کو سوائے میرے

(مقصود وفا)

دیکھ اے چشمِ مہارت! مری جانب اِک بار

میں فقط گِل نہیں، گردش بھی مرے چاک میں ہے

(احمد نوید)

مرے وجود کے اندر بھڑکنے لگتا ہے

جب اُس چراغ کا ان کار کرنے لگتا ہوں

(آفتاب حسین)

جس کے بغیر جی نہیں سکتے تھے، جیتے ہیں

بس طے ہوا کہ لازم و ملزوم کچھ نہیں

(ضیا الحسن)

ترا خمیر اٹھاتا ہوں اپنے ملبے سے

تجھے بناؤں تو پھر ٹوٹ کر بناتا ہوں

(اختر عثمان)

میں پلٹ آیا تھا دیوار پہ دستک دے کر

اب سنا ہے وہاں دروازہ نکل آیا ہے

(انجم سلیمی)

نئی غزل کا ایک بنیادی مسئلہ اس کی زبان بھی ہے۔ یہ امر بہت غور طلب ہے کہ نئے شعرا اردو زبان کے بعض زمینی حقائق سے گریز کر رہے ہیں۔ نیز اُن کی کوششوں کو نظر انداز بھی کر رہے ہیں جو ماضی میں پاک و ہند کے شعرا نے اردو زبان کی نئی تشکیل کے سلسلے میں کی ہیں۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں جب ایک طرف شعرا روایت اور نئے تجربات کے مابین ایک امتزاج کا راستہ بنا رہے تھے اور دوسری طرف ایک تہذیبی طرزِ احساس بھی ان پر غالب تھا تو جس نوع کی زبان کا برتاؤ اُن کی غزل میں نظر آتا ہے اُس میں فارسی کا اثر زیادہ ہے۔ ۸۰ء کی دہائی میں اور اُس کے بعد اگرچہ یہ اثر کسی حد تک کم ہوا ہے لیکن ہمارے نئے شعرا اب بھی زبان کے اُس خاص رس کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہو رہے جس میں اردو کا اپنا ذائقہ ہے حالانکہ اِن شعرا کے اب تک وہی اشعار ہی قابلِ اعتبار ٹھہرے ہیں جن میں فارسی اثر کم سے کم ہے۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو نئی غزل میں برتی گئی زبان میں اُن زمینوں اور زمانوں کی خوشبو بہت کم محسوس ہوتی ہے جن میں سانس لیتے ہوئے یہ شعرا غزلیں کَہ رہے ہیں :

ہنوز چشمِ طلب تشنہ تماشا ہے

(اختر عثمان)

بجھنے لگی ستارۂ دشتِ جنوں کی لو

(افضال نوید)

جو بے ثباتی عالم پہ بحث تھی سر بزم

(اجمل سراج)

یہ سلسلہ حاضر و غائب ہے ازل سے

(عزم بہزاد)

آخرش گنبدِ شبہات سے باہر نکلا

(اقتدار جاوید)

دکانِ دل بڑھاتے ہیں حسابِ بیش و کم کر لو

(آفتاب حسین)

اٹھا جو زخم رفو کر کے تیرا دستِ رفو

(احمد نوید)

گیاہِ عشق بھی میری، گلِ ہوس بھی مرے

(اسعد بدایونی)

سر بہ زانو ہیں کہ ہم دست بہ سر مت پوچھو

(احمد محفوظ)

ترکیب، غزل کے شعر کی ضرورت رہی ہے کہ چھوٹے سے چوکھٹے میں بڑی تصویر کا اہتمام کرنا ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرورت ایسی ناگزیر بھی نہیں کہ شاعر اس کے ہاتھوں مجبور ہو کر بے دست و پا ہو جائے، خصوصاً زبان کے اُن تجربات کے بعد جو ماضی میں کیے گئے اور اُن کے ذریعے سہولت کے راستے بھی کھولے گئے۔ ان شعرا کے ہاں مسئلہ محض ترکیب کا نہیں بلکہ ترکیب کے بغیر اظہار کو مسئلہ نہ بنانے کا ہے، نئے شعرا کے ہاں فارسیت سے نکلنے کی کوشش بہت کم نظر آتی ہے حالانکہ اردو زبان کی نئی ہیئت اس قابل ہے کہ غزل کے مصرعے کے لیے اظہار کا راستہ ذرا سی کاوش کے بعد آسانی سے بنایا جا سکتا ہے۔

غزل کی نئی زبان کے لیے ماضی میں بہت سے تجربات کیے گئے ہیں جو نہ صرف اس صنف کے لیے بلکہ اردو زبان کے لیے بھی سود مندی کا نشان ثابت ہوئے۔ اب یہ فریضہ نئے شعرا کا تھا کہ وہ ان تجربات کو آگے بڑھا کر امکانات کو مزید روشن کرتے لیکن مذکورہ شعرا کا تخلیقی سرمایہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ بنی بنائی زبان پر انحصار کر رہے ہیں۔ کوئی نیا لفظ تو کجا یہ شعرا ایسے بھی الفاظ سے استفادہ نہیں کر رہے جو ماضی قریب میں غزل کی زبان کا حصہ بنانے کے لیے بطور تجربہ لائے گئے۔

۱۹۷۰ء کی دہائی کے شعرا خصوصاً ثروت حسین، عرفان صدیقی، جمال احسانی، غلام محمد قاصر اور غلام حسین ساجد نے اپنی غزل میں بعض بنیادی لفظیات اور استعاروں کا استعمال کیا۔ خواب، خاک، دشت، وحشت، دریا، صحرا، چراغ، ستارہ، آئینہ، کوزہ اور چاک ایسے الفاظ ہیں جو مذکورہ شعرا کے ہاں بہت مرغوب ٹھہرے اور خود اِن شعرا کی محبوبیت کا باعث بھی بنے۔

۱۹۸۰ء کے بعد اردو غزل کا مطالعہ کیا جائے تو یہی وہ الفاظ ہیں جن سے نئے شعرا اپنے شعر کا تانا بانا بُنتے ہیں اور ان سے انحراف کو اعلیٰ اسلوب سے گراوٹ خیال کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نئی غزل میں مذکورہ مخصوص لفظیات کی تکرار کے باعث یکسانیت کا احساس قاری پر اُن اوصاف یا امکانات کو کھلنے نہیں دیتا جو اِس نسل سے خاص ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ اِس یکسانیت کے باعث ظفر اقبال بھی اس رائے پر غور کرنے لگے ہیں کہ ’’غزل اپنے جملہ امکانات بروئے کار لا چکی ہے اور یہ نظم کا دور ہے۔ ‘‘ (۸۰)

نئی غزل کے حوالے سے ایک اور قابلِ ذکر پہلو ردیف کا استعمال ہے۔ ناسخؔ کا شعر ہے :

سب زمینیں ہیں نئی، بیتیں ہیں اے یار نئی

روز یاں ریختہ کی اُٹھتی ہے دیوار نئی

نئی زمین نکال کر ردیفِ تازہ میں شعر کہنا، کلاسیکی دور ہی سے انفرادیت کا پہلو رہا ہے۔ کوئی استاد اگر کسی نئی ردیف میں شعر کہتا تو شاگرد اُس زمین میں مزید اشعار کہہ کر استاد کی زمین میں غزل کہنے کو اپنے لیے افتخار سمجھتے تھے، لیکن ایسا ہرگز نہیں تھا کہ کلاسیکی شعرا ردیف کو اپنا مطمح نظر بنا لیتے یا تازہ غزل کہنے کے لئے ردیف کی جستجو میں رہتے جبکہ ہماری نئی غزل میں یہ عنصر غالب ہے کہ شاعر نہ صرف نئی نئی اور طویل ردیفیں تلاش کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات اپنی پوری غزل کی عمارت کی تعمیر ہی ردیف پر کرتے ہیں۔

اردو غزل پر یہ الزام تو پہلے ہی ہے کہ شاعر کو نیا مضمون قافیے سے سوجھتا ہے جبکہ نئے شعراء کے ہاں بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ انھیں پوری غزل ہی ردیف سے سوجھی ہے۔ اِس صورتحال میں یہ خدشہ ضرور ہے کہ مستقبل میں کہیں لکیر پیٹنے والے شاہ نصیر دوبارہ نہ پیدا ہو جائیں۔

’’غزل، اکیسویں صدی میں۔ ایک اندازہ‘‘ کے عنوان کے تحت اپنے ایک مضمون میں پروفیسر سید محمد عقیل نے یہ قیاس کیا ہے کہ نئی صدی میں ’’اردو شاعری کی کلاسیکی روایات اور دوسرے لوازم، اگر ختم نہیں تو خاصے منتشر ہو جائیں گے اور تمام تجربے جو ابھی تک کلاسیکی غزل یا اس کے بعد کی غزل نے کیے ہیں، نئے شاعر اُن سے یا تو بے نیازی برتیں گے یا ناواقف ہوں گے۔ (۸۱)

یہ اندازہ اب سے کچھ عرصہ قبل ہونے والے تجربات کے تناظر میں تو کسی حد تک درست ہو سکتا ہے لیکن اردو غرل کی نئی پود کی تخلیقی کاوشیں اس کی سراسر نفی کر رہی ہیں اور مستقبل قریب میں ایسی کسی صورتحال کے نمودار ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کلاسیکی روایات کو بکھر جانا چاہیے لیکن ان روایات کو آگے بڑھانے کے لیے نئے شعرا کو زبان و بیان کی سطح پر بعض تجربات کی طرف ضرور توجہ کرنی چاہیے۔

اردو غزل، اکیسویں صدی میں یا اُس کے بعد کیا صورتحال اختیار کرے گی۔ اس سلسلے میں قیاس تو بہت باندھے جا سکتے ہیں لیکن لمحہ موجود میں اس کے لیے تخلیقی سطح پر فکر نہیں کی جا رہی۔ اکیسویں صدی غزل، بلکہ مجموعی طور پر ادب کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ خود انسان اپنے مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے خدشات سے دوچار ہے۔

سائنس حیران کن ایجادات تو کرتی ہی رہتی ہے لیکن فی زمانہ حیران کن سے زیادہ پریشان کن ایجادات کی کثرت سامنے آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیا وار، روز بروز تجارتی قدروں کی بڑھتی ہوئی سماجی حیثیت اور عالمگیریت ایسے مسائل ہیں جن سے دوچار ہو کر انسان، تہذیب و ثقافت اور ادب کے بارے میں بعض سوالات اٹھا رہا ہے اور فکر و تدبر کی یہ لہر ماضی کی نسبت بہت شدید بھی ہے۔

نئے غزل گوؤں کو اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ اردو ادب کی یہ زندہ اور تابندہ صنف مستقبل میں اپنی بقا کے لیے اسلوب اور لفظ کے کن ہتھیاروں کا کیسے استعمال کرے گی؟ نئے تخلیق کاروں کو یہ سوال بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ محض داخلیت اور دروں بینی کی طرف مائل ہو کر اساتذہ کے رنگ میں حزن و ملال رقم کرنے سے کیا اپنی شعری ذمّہ داری سے عہدہ برآ ہوا جا سکتا ہے ؟

مذکورہ حالات اور سوالات کے تناظر میں فہمیدہ ریاض اگر کلیم الدین احمد اور جوش کے اعتراضات کو دہراتے ہوئے نئی غزل پر ’’کلبیت‘‘(۸۲) کا الزام لگا کر ایک بار پھر ’’غزل کے عارضے میں مبتلا اردو شاعری کی نجات جدید نظم‘‘(۸۳) کو قرار دیں تو جواب کے لیے محض ناقدین کی جذباتی نوعیت کی کوٹیشنز کا سہارا لینے کے بجائے خود نئے غزل گوؤں کو اپنے تخلیقی سرمائے کا تجزیہ کرنا ہو گا۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ شعرا ایک بار پھر کسی اجتماعی ادبی منصوبہ بندی کی طرف مائل ہو جائیں لیکن ان غزل گوؤں کو تخلیق اور تجربے کے اُس تعلق پر ضرور غور کرنا چاہیے اور کرتے رہنا چاہیے جس سے اصناف ہمہ وقت ارتقا کے امکان سے آشنا رہتی ہیں۔

ماضی میں غزل سخت سے سخت مراحل سے دوچار ہو کر ہر بار حیاتِ نو حاصل کر کے خود کو شہزادی شہر زاد ثابت کر چکی ہے اور ہر بار نئی زندگی کے لیے ایک نئے تجربے کی کہانی سنائی ہے۔ تجربات کی اس الف لیلہٰ کو دیکھتے ہوئے اردو ادب میں اس کے لیے ’’مستقبل گیر صنفِ سخن‘‘(۸۴) کی پیش گوئی کوئی عجوبہ نہیں اور بلاشبہ یہ صنف ’’تخلیقی اذہان کے ذریعے تب تک زندہ رہے گی جب تک اردو زبان زندہ ہے۔ ‘‘(۸۵) لیکن دیکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ اردو غزل کے رواں منظر نامے پر تاباں ہمارے یہ ہونہار شعرا جن کی ترو تازگی فکر اور خیال آفرینی میں کوئی شک نہیں، اس سلسلے میں کیا تخلیقی کوششیں کرتے ہیں۔

٭٭

 

استفادہ

 

۱       ڈاکٹر مرزا حمد بیگ۔ دیباچہ ’’دیوار آب ‘‘(مجموعہ محمد اظہار الحق )شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہورص:۱۷

۲      عشرت ظفر۔ مضمون ’’مابعد جدید غزل ‘‘ مشمولہ اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ ( مرتبہ گوپی چند نارنگ ) اردو اکیڈمی دہلی          ۱۹۹۸                                        ص:۱۷۱

۳      ڈاکٹر مرزا حامد بیگ۔ دیباچہ ’’دیوار آب‘‘                        ص: ۱۷

۴      محمد خالد۔ ابتدائیہ ’’نئی پاکستانی غزل۔ نئے دستخط ‘‘خالدین لاہور، سن   ص: ۱۲

۵      محمد خالد۔ ایضاً                                 ص:۱۶

۶      غلام حسین ساجد۔ ’’نئی پاکستانی غزل۔ نئے دستخط ‘‘                  ص۔ ۳۵

۷      احمد ندیم قاسمی۔ ابتدائیہ ’’تسلسل ‘‘ (مجموعہ کلام غلام محمد قاصر ) مکتبہ فنون لاہور       ص: ۱۵

۸      غلام حسین ساجد۔ ’’ نئی پاکستانی غزل۔ نئے دستخط ‘‘                 ص: ۳۵

۹      جمال احسانی۔ غضنفر ہاشمی کو انٹرویو روزنامہ خبریں، اسلام آباد ادبی ایڈیشن ۲۷ نومبر ۱۹۹۷ء

۱۰     فاطمہ حسن۔ مضمون ’’جمال احسانی کی شاعری ‘‘سیپ، کراچی شمارہ ۶۷        ص: ۱۵۳

۱۱      فاطمہ حسن۔ رائے مشمولہ ’’تارے کو مہ تاب کیا ‘‘دوست پبلشرزاسلام آباد ۱۹۹۸       ص: ۱۴۱

۱۲     ساقی فاروقی۔ ابتدائیہ ’’رات کے جاگے ہوئے ‘‘دوست پبلشرزاسلام آباد۱۹۹۹ ص: ۱۳

۱۳     ضیاء الحسن۔ مضمون ’’خاک سے خواب تک ‘‘ ’’ادب لطیف ‘‘ لاہورشمارہ ۸ اگست ۲۰۰۲ء         ص: ۱۰۶

۱۴     غلام حسین ساجد۔ مضمون ’’نقش کوئی کمال کا ‘‘انگارے (آٹھویں کتاب )مرتبہ :عامر سہیل       ص: ۲۵

۱۵     سراج منیر۔ ’’یہ رنگ اک خواب کے لیے ہے ‘‘معاصر لاہور (۲) اگست ۱۹۸۳ء        ص: ۴۵

۱۶     غلام حسین ساجد۔ مضمون ’’نقش کوئی کمال کا ‘‘انگارے (آٹھویں کتاب )، ملتان ص: ۲۳

۱۷     غلام حسین ساجد۔ مضمون ’’ اردو غزل، بیسویں صدی میں ‘‘آئندہ کراچی ( بیسویں صدی نمبر ) دسمبر ۲۰۰۰ء ص: ۱۰۱

۱۸     گوپی چند نارنگ۔ ’’سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ ‘‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ص: ۱۸۔ ۱۷

۱۹     اجمل نیازی۔ مضمون ’’ پاکستانی اردو غزل۔ ایک جائزہ ‘‘ ماہ نو (گولڈن جوبلی نمبر ) اگست ۹۷         ص: ۱۴۳

۲۰     غلام حسین ساجد۔ ’’نئی پاکستانی غزل نئے دستخط ‘‘                   ص: ۲۱

۲۱     سراج منیر۔ مضمون ’’وہ خواب ہے اور کہیں کا‘‘ادبیات شمارہ :۳               ص:۱۶۱

۲۲     قمر جمیل۔ مضمون ’’بچپن اور بہشت ‘‘ پہچانا لہٰ آباد شمارہ ۵            ص: ۲۸۳

۲۳    فیض احمد فیض۔ ابتدائیہ ’’مہر دو نیم ‘‘ (مجموعہ کلام افتخار عارف )             ص:۶

۲۴    گوپی چند نارنگ۔ ’’سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ ‘‘                 ص: ۷۴

۲۵    رؤف امیر۔ ’’اقلیم ہنر ‘‘الوقار، لاہور ۲۰۰۳                              ص: ۵۴

۲۶     گوپی چند نارنگ۔ ’’سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ ‘‘                 ص: ۹۴

۲۷    توصیف تبسم۔ ابتدائیہ ’’دریا ‘‘ ( کلیات عرفان صدیقی )، ابلاغ اسلام آباد ۲۰۰۰   ص: ۱۷

۲۸    ڈاکٹر تحسین فراقی۔ تعارف عرفان صدیقی ’’سیارہ ‘‘ لاہور دسمبر ۱۹۹۴ئ             ص: ۲۰۰

۲۹     خاور اعجاز۔ ’’نئی پاکستانی غزل ‘‘                           ص: ۶۷

۳۰    محمد فیروز شاہ     اوراق، فروری مارچ       ۱۹۹۵ء                 ص: ۴۶۴

۳۱     ڈاکٹر مرزا حامد بیگ۔ ابتدائیہ ’’دیوار آب ‘‘                       ص: ۲۴

۳۲    ظفر اقبال۔ فلیپ ’’پری زاد ‘‘ (مجموعہ کلام محمد اظہار الحق )   سنگ میل لاہور ۱۹۹۴

۳۳    قمر جمیل۔ دیباچہ ’’پری زاد ‘‘                                   ص:۱۱

۳۴    سراج منیر۔ فلیپ ’’دیوار آب ‘‘

۳۵    پروفیسر ممتاز حسین۔ فلیپ ’’پری زاد‘‘

۳۶    سراج منیر۔ مضمون ’’یہ رنگ اک خواب کے لیے ہے ‘‘معاصر (۲)           ص: ۴۶۰

۳۷    غلام حسین ساجد۔ مضمون ’’اردو غزل بیسویں صدی میں ‘‘ آئندہ (بیسویں صدی نمبر)شمارہ۲۰، ۱۹        ص:۱۰۱

۳۸    ڈاکٹر مرز احامدبیگ۔ فلیپ ’’دروبست ‘‘(خالد اقبال یاسر کا مجموعہ کلام )ابلاغ اسلام آباد

۳۹     محمد خالد۔ دیباچہ ’’دروبست ‘‘                           ص: ۱۷

۴۰    ڈاکٹر وزیر آغا۔ فلیپ ’’گردش ‘‘(مجموعہ کلام خالد اقبال یاسر ) ابلاغ اسلام آباد

۴۱     ڈاکٹر خورشید رضوی۔ دیباچہ ‘‘گردش ‘‘                          ص: ۱۶

۴۲    غلام حسین ساجد۔ ’’تائید ‘‘                                    ص: ۹۰

۴۳     ’’اردوجامع انسائیکلو پیڈیا‘‘

۴۴    عامر سہیل۔ دیباچہ ’’کتاب صبح‘‘(غلام حسین ساجد کا مجموعہ کلام )            ص: ۳۰

۴۵    غلام حسین ساجد۔ ’’تائید ‘‘ اورینٹ پبلشرز لاہور ۱۹۹۶                     ص: ۱۱۱

۴۶    آفتاب حسین۔ مضمون ’’جدید اردو غزل میں داستانوی علائم ‘‘ ماہ نو اپریل ۱۹۸۷ء         ص: ۳۸

۴۷    ڈاکٹر تحسین فراقی۔ روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۲۲ جولائی ۱۹۹۷ء

۴۸    غلام حسین ساجد۔ مضمون ’’اردو غزل بیسویں صدی میں ‘‘آئندہ( بیسویں صدی نمبر) ص: ۱۰۰

۴۹     ضیاء الحسن۔ ابتدائیہ ’’گمشدہ ستارہ ‘‘(مجموعۂ نظم و نثر شبیر شاہد) اظہار سنز لاہور ۲۰۰۲   ص: ۲۲

۵۰    ڈاکٹر سجاد باقر رضوی۔ مضمون ’’موسم کا شاعر ‘‘پہچان آلہ آباد نومبر ۱۹۸۶ئ    ص: ۱۳۲

۵۱     ” Encyclopedia Americana ”

۵۲    ڈاکٹر محمد امین۔ ’’توجیہہ‘‘ڈائیلاگ پبلکیشنزکراچی ۱۹۹۸                    ص: ۱۶۹

۵۳    ’’اردو جامع انسائیکلو پیڈیا‘‘

۵۴     محمد سلیم الرحمن۔ مضمون ’’تاروں کا یہ عکس آئنے میں ‘‘پاکستان ٹائمز

۵۵    مظفر علی سیّد۔ فلیپ ’’عناصر ‘‘(مجموعہ کلام غلام حسین ساجد ) خالدین لاہور ۱۹۸۵

۵۶     ڈاکٹر مرزا حامد بیگ۔ دبیاچہ ’’عناصر ‘‘(مجموعہ کلام غلام حسین ساجد )         ص : ۲۲

۵۷    غلام حسین ساجد۔ مضمون ’’نامعلوم کاشاعر ‘‘انگارے (۱۲)ٍ( مرتبہ عامر سہیل )     ص:۵۳

۵۸    محمد علی صدیقی۔ دیباچہ ’’بارہ دری میں شام‘‘ ( مجموعۂ کلام صا بر ظفر )دانیال کراچی ۱۹۹۶ ص: ۱۱

۵۹     قمر جمیل۔ فلیپ۔ ’’بارہ دری میں شام ‘‘

۶۰     توصیف تبسم۔ تبصرہ ’’بے آہٹ چلی آتی ہے موت ‘‘مجلہ ’’آثار‘‘ اسلام آباد (۷)       ص:۲۳۰

۶۱     غلام حسین ساجد۔ مضمون ’’نامعلوم کا شاعر ‘‘انگارے (۱۲)ملتان           ص:۵۴

۶۲     ایضًا                                          ص:۵۴

۶۳    ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا۔ ابتدائیہ ’’رچنا ‘‘ ( علی اکبر عباس کا مجموعہ کلام )پاکستان بکس اینڈ لیٹریری           ساؤنڈز لاہور ۱۹۹۰                                    ص: ۱۴

۶۴    ڈاکٹر وزیر آغا۔ معاصر (۲) لاہور اکتوبر ۱۹۷۹ئ                    ص: ۷۳۶

۶۵    اشفاق احمد۔ دیباچہ ’’رچنا‘‘                                    ص: ۷

۶۶     نظیر صدیقی۔ تبصرہ ’’رچنا ‘‘ ادبیات شمارہ ۱۷                ص:۵۰۷

۶۷    خاور اعجاز۔ ’’نئی پاکستانی غزل ‘‘ابلاغ پبلشرز لاہور ۲۰۰۱             ص:۷۳

۶۸    نظیر صدیقی۔ ’’جدید اردو غزل۔ ایک مطالعہ ‘‘                     ص:۱۴۳

۶۹     ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا۔ ابتدائیہ۔ ’’رچنا ‘‘                           ص: ۹

۷۰    نظیر صدیقی۔ ’’جدید اردو غزل۔ ایک مطالعہ ‘‘                     ص: ۲۰۴

۷۱     احمد ندیم قاسمی۔ دیباچہ ’’خواب دریچہ ‘‘( مجموعۂ کلام جلیل عالی )امپرنٹ لاہور ۱۹۸۵  ص: ۱۱

۷۲    عدیم ہاشمی۔ ’’مکالمہ ‘‘الحمد پبلیکشنز لاہور ۱۹۹۵                      ص : ۱۹

۷۳    ایضاً                                          ص: ۲۱

۷۴    پروفیسر ظہیر احمد صدیقی۔ ’’ فارسی غزل اور اُس کا ارتقاء ‘‘ مجلس تحقیق و تالیف فارسی جی سی ص: ۱۵

۷۵    غلام محمد قاصر۔ پیش لفظ۔ ’’ہالۂ ملال ‘‘( شوق جعفری کا مجموعۂ کلام )نقوش پریس لاہور ۹۸۸ص: ۱۹

۷۶    گوپی چند نارنگ۔ ’’اردو غزل مابعد جدے دیت پرمکالمہ ‘‘                    ص : ۶۷

۷۷    خاور اعجاز۔ مضمون ’’گذشتہ ربع صدی میں سامنے آنے والی غزل ‘‘آفاق (۱)    ص: ۲۷

۷۸    سید محمد عقیل۔ مضمون ’’ذکر اُس پری وش کا، مابعد جدیدت کے رنگ میں ‘‘مشمولہ ’’اردو مابعد جدید یت پر مکالمہ ‘‘ ص: ۱۵۸

۷۹    ابرار احمد۔ مضمون ’’بیسویں صدی کے اوخر کی غزل‘‘ شب خون دلی ستمبر ۲۰۰۲ء         ص: ۴۲

۸۰    ظفراقبال کالم ’’دال دلیہ‘‘ روزنامہ ’’جناح‘‘ اسلام آباد۴اگست۲۰۰۶

۸۱     پروفیسر محمد عقیل۔ ’’غزل کے نئے جہات ‘‘مکتبہ جدید دہلی ۱۹۸۹             ص: ۱۶۸

۸۲    فہمیدہ ریاض۔ مضمون ’’غزلستان ‘‘دنیازاد کراچی جنوری فروعی ۲۰۰۴ء               ص: ۲۰۱

۸۳    انتظار حسین۔ مضمون ’’غزل کی بحث‘‘دنیا زاد کراچی جولائی ۲۰۰۴ء           ص: ۲۳۱

۸۴    رؤف امیر۔ مضمون ’’ اردو غزل۔ بطور مستقبل گیر صنف سخن ‘‘آفرینش(۲)   ص: ۲۹

۸۵    حیدر قریشی۔ مضمون ’’غزل بمقابلہ نظم ‘‘شعر و سخن، مانسہرہ ( غزل ایڈیشن )جولائی ستمبر ۲۰۰۴         ص: ۲۵

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید