FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اردو شاعری  میں حریت فکر کی روایت

 

پروفیسر غلام شبیر رانا

 

حریت فکر ایک جبلی جذبے کا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حریت ضمیر سے جینے کی روش اپنائی جائے اور معاشرتی زندگی میں پائے جانے والے تضادات، نا قابل برداشت ظالمانہ اقدامات اور بے اعتدالیوں کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ ایک زیرک اور حساس تخلیق کار کو اپنے جذبات اور احساسات پر جو قدرت حاصل ہوتی ہے اس کا تخلیقی اظہار کرتے ہوئے وہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے۔ ادیب جب جذبہ انسانیت نوازی سے سرشار ہو کر حق و صداقت کا علم بلند رکھنے کی جد جہد کرتا ہے تو خیر اور فلاح کے بارے میں ایک وقوفی تعلق قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے۔ حریت ضمیر سے جینے کی تمنا اور حریت فکر و عمل کی روایت پر عمل پیرا ہونا در اصل زندگی کی حرکت و حرارت کو  مہمیز کرنے کا وسیلہ ہے۔ حریت فکر قلب و روح کو مسرت کے لازوال احساس سے متمتع کرتی ہے اس کے بر عکس کاسہ لیسی اور جی حضوری کرنے والے خود اپنی نظروں میں گر جاتے ہیں۔ دنیا بھر کی تذلیل، تضحیک، رسوائی اور جگ ہنسائی ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ ایسے لوگ مستقل طور پر آلام روزگار کے ہو لنا ک بگولوں کی زد میں آ جاتے ہیں اور ناکامی اور نامرادی ان کے لیے نوشتۂ تقدیر بن جاتی ہے۔  فسطائی جبر کا ہر  انداز مسترد کرتے ہوئے مستقل مزاجی سے اپنے حق و صداقت پر مبنی موقف پر ڈٹ جانا حریت فکر کے مجاہدوں کا نصب العین رہا ہے۔ ہزار خوف ہو لیکن ان کی زباں ہمیشہ ان کے دل کی ہم نوائی کرتی ہے۔ حریت فکر  تاریخ کے ایک مسلسل عمل سے عبارت ہے۔ اگر اس عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جائے تو حریت فکر کے مجاہد فسطائی جبر کو کھل کھیلنے کا موقع کبھی نہیں دیتے، وہ حرف صداقت لکھنا اپنا مطمح نظر بنا لیتے ہیں۔ ان کے ریشے ریشے میں انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر جان کی بازی لگانے کا جذبہ سرایت کر جاتا ہے۔ بہ قول احمد ندیم قاسمی  ؎

 بقا اسی کو تو کہتے ہیں، جب کوئی انساں

برائے عظمت انسانیت فنا ہو جائے

مرض ہی حریت فکر کا کچھ ایسا ہے

کہ جو بھی فکر کرے اس میں مبتلا ہو جائے

 اردو شاعری میں حریت فکر کی ایک مضبوط اور مستحکم روایت شروع سے پروان چڑھتی رہی ہے۔ مطلق العنان شہنشاہیت کا دور ہو یا برطانوی نو آبادیاتی عہد حکومت ہر دور میں اردو شعرا نے تیشۂ  حرف سے جبر کے بلند و بالا بے حس ایوانوں پر کاری ضرب لگائی اور کسی کالے قانون سے خوف زدہ نہ ہوئے۔ اردو شاعری میں حریت فکر کی روایت کا مطالعہ کرنے کے لیے تاریخی صداقتوں کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ یہ تاریخی واقعات ہماری تہذیبی و ثقافتی زندگی کے تمام پہلوؤں کے آئینہ دار ہیں۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ سیل زماں کے تھپیڑے اور آلام روزگار کے بگولے  ہر چیز کو بہا کر لے جاتے ہیں لیکن تہذیب اس نوعیت کی تباہ کن موجوں کی ہلاکت خیزی سے محفوظ رہتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حریت فکر کے مجاہد نہ صر ف حریت ضمیر سے زندگی بسر کرنے کی راہ اپناتے ہیں بلکہ اپنے افکار کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حریت فکر کے علم بردار ادیب طوفان حوادث میں بھی اپنے افکار کی مشعل فروزاں رکھتے ہیں۔ روشنی کا یہ سفر مستقل طور پر جاری رہتا ہے اور آنے والی نسلوں کو تاریخی اور تہذیبی میراث کی منتقلی کے لیے جد جہد جاری رہتی ہے۔ اس عمل کے لیے وہ قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانیت کو غیر مہذب ماحول  کے مسموم ماحول سے بچانے کے لیے حریت فکر کے  مجاہدوں نے ہر دور میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ اردو شعرا نے تہذیب و تمدن کے ارتقا اور حق و صداقت کی بالا دستی کے لیے تمام آزمائشوں کا نہایت دلیری سے مقابلہ کیا۔ اردو شاعری میں حریت فکر کی روایت کو پروان چڑھانے والے ادیبوں کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اگر فسطائی جبر کے سامنے سینہ سپر ہونے میں تامل کیا جائے تو تہذیب و تمدن کو نا قابل اندمال صدمات سے دو چار ہونا پڑے گا۔ ان کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر حرف صداقت لکھنے کی روایت ختم ہو گئی تو وہ  تہذیب و تمدن کی میراث گنوا بیٹھیں گے۔ اردو شاعری میں حریت فکر کی روایت کا مطالعہ تاریخی تناظر میں کرنا ضروری ہے۔

  اورنگ زیب نے بر صغیر پر انچاس سال (1658-1707)حکومت کی اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا محمد معظم شاہ پانچ سال حکمران رہا۔ اس کے عہد حکومت میں بد امنی، لوٹ مار اور دہشت گردی کی انتہا ہو گئی۔ اس کے بعد شاہ عالم اپنے دو بھائیوں کا کام تمام کر کے تخت نشین ہوا۔ ہوس اقتدار کے مارے مغل حکمرانوں نے ذاتی مفادات اور ہوس جاہ و منصب سے مغلوب ہو کر خون آشام خانہ جنگیوں، برادر کشیوں اور قتل عام کا جو سلسلہ شروع کیا اس نے مغلیہ سلطنت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ شاہ عالم کے بعد اس کا بیٹا جہاندار شاہ اپنے بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر قصر شاہی میں مسند حکومت پر متمکن ہوا۔ اس کے عہد میں سفہا، اجلاف و ارزال اور خفاش منش عیاش گلچھرے اڑاتے پھرتے تھے۔ بابر اور اکبر کی پر شکوہ حکومت کو ضمیر فروشی، بے غیرتی، بے حیائی، عیاشی اور بے ایمانی  کے اتھاہ سمندر میں غرق کرنے کے منحوس کام کی ابتدا اسی ظالم و سفاک حکمران کے عہد میں ہوا۔ یہ جنسی جنونی عیاش بادشاہ ایک بد نام طوائف لال کنور کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو گیا۔ اس کی کور مغزی اور بے بصری کا یہ عالم تھا کہ اس رذیل طوائف کو (لال کنور )کو امتیاز محل کا خطاب دے دیا اور اسے ملکۂ ہند بنا کر قصر شاہی میں لے آیا۔ یہ طوائف بادشاہ کو انگلیوں پر نچاتی اور خوب داد عیش دیتی۔ بادشاہ اس طوائف کے اشاروں پر ناچتا۔ شاہی خزانہ اس کے تصرف میں تھا۔ شادی کے وقت بیش بہا زر و مال، ہیرے جواہرات کے علاوہ دو کروڑ روپیہ سالانہ لال کنور کے اخراجات کے لیے مقرر کیے گئے۔ (1)لال کنور نے اپنے بھائیوں اور تمام قریبی رشتہ داروں کو کلیدی منصب دار مقرر کرایا۔ یہ تمام ساتا روہن ہر وقت اللے تللے کرتے اور مے گلفام سے سیراب ہوتے۔ لال کنور کا چچا زاد بھائی نعمت خان کلاونت ملتان کا صوبے دار مقرر ہوا۔ جہاں دار شاہ شراب اور شباب، موسیقی اور رقص و سرود کا دلدادہ تھا۔ قصر شاہی میں ہر رات محفل موسیقی  اور رقص کا انعقاد ہوتا۔ جہاں دار شاہ لال کنور کی معیت میں موجود ہو تا۔ گویے اور بھانڈ اکٹھے ہو جاتے ، شراب نوشی کا دور چلتا۔ سچ ہے مست کب بند قبا باندھتے ہیں۔ نشے  کی حالت میں گویے اور بھانڈ جہاں دار شاہ کو ٹھوکریں مارتے (2)۔ جہاں دار شاہ کے گرد ڈوم، ڈھاری، بھانڈ، بھڑوے، مسخرے، لچے اور شہدے اکٹھے ہو گئے تھے اور ان سب مشکوک نسب کے عیاشوں نے بادشاہ کو یرغمال بنا لیا تھا۔ جہاں دار شاہ لال کنور کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن چکا تھا۔ جہاں دار شاہ کا دور ظلم و ستم، شقاوت آمیز نا انصافیوں اور قتل و غارت گری کے خونچکاں واقعات سے لبریز ہے۔ لال کنور کا دیوانہ یہ مستانہ بادشاہ اپنی مجنونانہ حرکات کی وجہ سے ایک فاتر العقل، مخبوط الحواس  اور درندے کے روپ میں مظلوم عوام پر مسلط تھا۔ اس کی سفاکی کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ لال کنور نے جہاں دار شاہ سے فرمائش کی کہ اس نے آج تک مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی کشتی دریا کی طوفانی لہروں میں غرقاب ہوتے نہیں دیکھی۔ اسی وقت جہاں دار شاہ نے ملاحوں کو حکم دیا کہ ایک کشتی کو مسافرونں سے کھچا کھچ  بھرا جائے اور اسے ٹھاٹیں مارتے ہوئے دریا کی طوفانی لہروں میں ڈبو دیا جائے۔ چنانچہ شاہی احکامات کے تحت مسافروں سے بھری ہوئی کشتی دریا کی منجدھار  میں لا کر غرق کر دی گئی۔ (3)اس  طرح ایک مطلق العنان بادشاہ  نے ایک رذیل طوائف کی احمقانہ خواہش کی تکمیل کی خاطر سیکڑوں مجبور، بے بس و لاچار اور بے گناہ انسانوں کو موت کے منہ  میں دھکیل دیا۔  ہر ظلم کا بالآخر خاتمہ ہو کر رہتا ہے۔ فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہوتی ہیں۔ فروری 1712میں فرخ سیر نے جہاں دار شاہ کی حکومت کا  تختہ الٹ دیا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ فرخ سیر جب فاتحانہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا تو ایک ہاتھی پر جلاد بیٹھا تھا جس نے جہاں دار شاہ کا بریدہ سر نیزے پر بلند کر رکھا تھا اور اس کا دھڑ دوسرے ہاتھی کی دم سے بندھا گھسٹتا چلا آ رہا تھا۔ تمام لو گ یہ عبرت انگیز منظر دیکھ رہے تھے۔ (4)  ہوس اقتدار کے باعث  اس قسم کے ظالمانہ انتقامی اقدامات  روز کا معمول بن گیا۔ فرخ سیر نے جوش انتقام میں 21جنوری 1714کو تین مغل شاہزادوں کو اندھا کر دیا تا کہ وہ مستقبل میں حکومت کے قابل نہ رہیں اور اس  کے حریف ثابت نہ ہوں۔ اس بادشاہ نے بھی درندگی اور سفاکی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اس کا سکہ جاری ہوا۔

سکہ زد از فضل حق بر سیم و زر

بادشاہ بحر و بر  فرخ سیر

سید محمد جعفر زٹلی نے اس مطلق العنان بادشاہ کے مظالم کے خلاف اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس  سکے کے جواب میں یہ شعر لکھا جو اس بہادر تخلیق کار کے لیے بہت بڑی آزمائش کی صورت اختیار کر گیا۔ لیکن اس شاعر  نے حریت فکر اور آزادی ء اظہار پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا اور ببانگ دہل فسطائی جبر کو چیلنج کرتے ہوئے کہا :

سکہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر

بادشاہ ہے تسمہ کش فرخ سیر

حریت فکر کے مجاہد سید محمد جعفر زٹلی کو صرف ایک طنزیہ شعر کہنے پر اس بادشاہ نے موت کے گھاٹ اتار دیا(5)۔ اس کی فرد عمل نے اسے تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا تھا۔ اپریل 1719میں سادات بارہہ کے مسلح دستوں نے شاہی محل پر دھاوا بول دیا۔ فرخ سیر کی ماں، بہنیں اور تمام مغل شہزادیاں اس کے گرد گھیرا ڈالے کھڑی تھیں اور رو رو کر دست بستہ رحم اور اس کی جاں بخشی کی التجا کر رہی تھیں۔ سادات بارہہ کے مشتعل سپاہیوں نے ایک نہ سنی اور انھوں نے فرخ سیر کو گرفتار کر لیا۔ اسے ننگے سر، ننگے پاؤں ایک بے بس اور مجبور قیدی کی طرح گھسیٹتے اور مارتے پیٹتے ہوئے باہر لائے اور بادشاہ کو اندھا کر کے ہلاک کر دیا۔ (6)اس زمانے میں سادات بارہہ کو بادشاہ گر کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ اپنی طاقت، سازشوں اور ریشہ دوانیوں پر انھیں بہت گھمنڈ تھا۔ مغل حکمرانوں کو اس قماش کے سازشی لوگوں نے عملی طور پر یر غمال بنا رکھا تھا۔ وہ ان کی ریشہ دوانیوں اور مکر کی چالوں کے سامنے بے بس و لا چار تھے۔  1720  میں حسین علی نے ایک دن بھرے دربار میں بڑی رعونت سے کہا :

’’میں وہ ہوں، جس شہزادے کو جوتا ما دوں وہ بادشاہ بن جائے۔ ‘‘(7)د

  سلطنت مغلیہ شدید عدم استحکام کا شکار ہو چکی تھی۔ سادات بارہہ کی ریشہ دوانیوں کے باعث بادشاہ کٹھ پتلیوں کا روپ اختیار کرتے چلے گئے۔ 18۔ فروری 1719سے لے کر 14۔ اگست 1719تک تین بادشاہ تخت نشین ہوئے۔ 28ستمبر 1719کو سادات بارہہ نے ایک اور مغل شہزادے روشن اختر کے سر پر ہما بٹھا دیا اور یوں یہ شہزادہ سادات بارہہ کی عنایت سے بادشاہ بن گیا۔ تاریخ میں روشن اختر کو محمد شاہ رنگیلا کے نام سے شہرت ملی۔ محمد شاہ رنگیلا 1720میں سادات بارہہ کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس عیاش حکمران کا انتیس سالہ دور حکومت عوام کے لیے عقوبت کا ایک سلسلہ بن گیا۔ ممتاز  مورخ اور نامور ماہر تعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے اس عہد کے متعلق لکھا ہے :

  ’’محمد شاہ  (1719-1748)دہلی کے تخت پر آ بیٹھا اور آصف جاہ نظام الملک  جیسے دانش مند منتظم کے نظم و نسق  میں دربار کے مسخرے اور شہدے روڑے اٹکانے لگے۔ وہ ملت جو سپاہی پیدا کرتی تھی، اب بانکے پیدا کرنے لگی۔ صر ف ایک سلطنت ہی کو زوال نہیں آیا تھا بلکہ ایک ملت اپنے بلند اخلاقی مقام سے پستی کے گڑھے میں گر گئی تھی اور اس نے وہ سب کچھ خاک میں ملا دیا تھا جو اس کی عظمت و قوت کا باعث تھا۔ ‘‘(8)

  ابن الوقت، مفاد پرست اور جو فروش گندم نما عناصر نے محمد شاہ کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔ ذاتی مفاد کی خاطر ضمیر کا سودا کرنے والے درباریوں نے محمد شاہ رنگیلے کو اپنا آلۂ  کار بنا لیا اور اس عیاش حکمران سے ایسے احمقانہ فیصلے کراتے جن کے باعث مرکزی حکومت کا سارا نظام ہی مفلوج ہو کر رہ گیا درباریوں اور امرا میں بد دیانتی، بد نیتی اور بے ضمیر ی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ تمام لوگ بر سر عام  رنگ رلیاں مناتے۔ روم جل رہا تھا اور وقت کا یہ نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا۔ نیت کی پاکیزگی اور مقصد کی یک جہتی عنقا ہو چکی تھی، حکومت کی رہی سہی کسر اور بچی کھچی قوت مر ہٹوں کی غارت گری، نادر شاہ کی خونریزی اور روہیلوں کی بغاوت سے ختم ہو گئی۔ (9)مغلیہ سلطنت کو اندرونی سازشوں اور بیرونی حملہ آوروں کے باعث شدید عدم استحکام کا سامنا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حکومت نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔ مسلسل شکست دل کے باعث عوام میں مایوسی، بے چینی  اور اضطراب بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ حکمران طبقہ شدید بے حسی کا شکار تھا۔ حالات ایسی لرزہ خیز اور اعصاب شکن صورت اختیار کر تے چلے جا رہے تھے کی یہ حقیقت صاف معلوم ہو رہی تھی کہ مغلیہ سلطنت کا جانا ٹھہر گیا ہے اب یہ حکومت صبح گئی کہ شام گئی۔ 1720میں باجی راؤ کو مرہٹوں کا پیشوا مقرر کیا گیا۔ مغلیہ سلطنت کی گرتی ہوئی ساکھ اور رو بہ تنزل معیشت کے علاوہ انتہائی کمزور دفاعی حالت کو دیکھتے ہوئے باجی راؤ نے مرہٹہ سردار ساہو جی سے کہا:

’’  ہمیں اب مرجھائے ہوئے درخت  کے تنے پر کاری ضرب لگانی چاہیے اس کی شاخیں خود بہ خود گر پڑیں گی۔ اور مرہٹہ پرچم کرشنا ندی تک لہرائے گا ‘‘ اس کے بعد راجہ جوش مسرت سے پکارا ’’تم چاہو تو اسے ہمالیہ پر بھی گاڑ سکتے ہو۔ ‘‘(10)

اس بات کی صداقت اس وقت کھل کر سامنے آ گئی جب  1737میں مرہٹہ جنگجوؤں نے دہلی اور اس کے اطراف و جوانب میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا مگر دہلی کی مرکزی حکومت بے بسی کی تصویر بنی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے پر مجبور تھی۔ اس سے مغل حکومت کی ہیبت، قوت اور جاہ و جلال کا راز طشت از بام ہو گیا۔ مغل حکمرانوں کی نا اہلی، کور مغزی بے بصری اور عیاشی کے باعث پور نظام ہی  لرزہ بر اندام تھا۔ ان حالات میں 13 فروری1739کو کرنال کے میدان میں نادر شاہ کی  مہم جو فوج نے محمد شاہ کی تن آسان فوج کو عبرت ناک شکست دی۔ شمشیر و سناں سے ناتہ توڑ کر طاؤس و رباب اور رقص و سرود کی محفلوں کے دلدادہ حکمرانوں کا یہی انجام ہو کرتا ہے۔ محمد شاہ عاجزی اور مسکینی کی تصویر بنا نادر شاہ کے خیمے میں پہنچا اور نادر شاہ کی تمام شرائط من و عن تسلیم کر کے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دئیے اور اس کے بعد نہایت بے بسی کے عالم میں نادر شاہ سے صلح کی التجا کی۔ نادر شاہ نے تاوان جنگ وصول کرنے کے لیے محمد شاہ رنگیلے کو گرفتار کر لیا اور اسے ایک بے وقعت قیدی کی حیثیت سے قید کر کے دہلی لایا گیا۔ دہلی میں نادر شاہ نے قتل عام کا حکم دیا اور تیس ہزار آدمی مروا دیئے۔ (11)نادر شاہ نہتے، مظلوم اور بے بس و لاچار عوام کے خون سے ہولی کھیل رہا تھا  مگر محمد شاہ رنگیلا  خاموش تماشائی بنا یہ سب اعصاب شکن اور لزہ خیز المیہ دیکھ رہا تھا۔ نادر شاہ نے شاہ جہان کا تخت طاؤس اور مجموعی طور پر ایک ارب روپیہ دہلی سے لوٹا۔ (12)۔ محمد شاہ کے بعد اس کا بیٹا احمد شاہ (1748-1754)تخت نشیں ہوا۔ ہمہ وقت شراب اور شباب کے نشے میں مست رہنے والے اس شاہ بے خبر کو 1754میں اندھا کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے انجام کے بعد عالم گیر ثانی (1754-1759)کو تخت دہلی پر بیٹھنے کا موقع ملا۔ جنوری 1757میں احمد شاہ ابدالی نے دہلی پر دھاوا بول دیا اور اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ملکی دفاع کی انتہائی کمزور اور ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے پنجاب اور سرحد کا علاقہ پہلے نادر شاہ اور اس کے بعد احمد شاہ ابدالی کے قبضے میں چلا گیا۔ (12)۔ شاہ عالم ثانی کا عہد حکومت 1759میں شروع ہوا۔ اس کے بارے میں یہ بات زبان زد عام تھی کہ سلطنت شاہ عالم از دلی تا پالم۔ یکم جولائی 1788کو غلام قادر روہیلے نے دہلی پر حملہ کر دیا۔ تباہ حال مغلیہ فوج اس حملے کی تاب نہ لا سکی اور شکست کھا کر تتر بتر ہو گئی۔ 30جولائی1788کو غلام قادر روہیلا شاہی محل میں طاقت کے بل بوتے پر داخل ہو گیا۔ اس کے ہمراہ دو ہزار مسلح سپاہی تھے انھوں نے شاہی محل کا چپہ چپہ چھان مارا جو کچھ ہاتھ لگا لوٹ لیا۔ اس کے بعد شاہی خاندان کی خواتین کی جامہ تلاشی لی اور تمام زیورات چھین لیے۔ 10۔ اگست1788کو غلام قادر روہیلے نے مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی سے شاہی خزانے کے بارے میں بڑے توہین آمیز انداز میں استفسار کیا۔ شاہ عالم نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا تو غلام قادر روہیلے نے اپنے مسلح سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کمینے کو زمین پر گرا دو  اور اسے اندھا کر دو۔ (14د)چنانچہ ان باغیوں نے شاہ عالم کے ساتھ یہی غیر انسانی سلوک کیا۔ روہیلے کے سپاہیوں نے شاہ عالم کو ٹھوکریں مار کر تخت شاہی سے نیچے گرایا اور اس کی آنکھوں میں سلائیاں چبھو دی گئیں۔ صرف اس سفاکی پر ہی اکتفا نہ کیا گیا اس کے بعد غلام قادر روہیلہ نے نوک خنجر سے شاہ عالم کی دونوں آنکھیں نکال کر باہر پھینک دیں اور بصیرت سے یکسر عاری اس نام نہاد بادشاہ کو بصارت سے بھی ہمیشہ کے لیے محروم کر دیا۔ غلام قادر روہیلہ اور اس کے سپاہیوں نے مغلیہ خاندان کی بیگمات اور متعدد خواتین کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا اور دست درازی کر کے  ان کے ساتھ بد اخلاقی کا ارتکاب کیا۔ انھیں اس عالم کسمپرسی میں رقص پر مجبور کیا۔ اس عہد ستم کے بارے میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ مرکزی حکومت کی نا اہلی، بد انتظامی اور عیاشی کی وجہ سے پورا معاشرہ انحطاط کا شکار ہو گیا۔ خاندان تیمور کی عزت و آبرو اور جاہ و جلال کو کٹھ پتلی بادشاہوں نے قصۂ پارینہ بنا دیا۔ ماضی کے تمام حقائق و واقعات محض خیال و خواب بن کر رہ گئے۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ کٹھ پتلی بادشاہ شاہ عالم کے فرمان کے تحت برطانوی افواج کے سالار اعلیٰ جنرل لیک کا دہلی میں آمد کے موقع پر شاندار استقبال کیا گیا۔ مفلس و نابینا شاہ عالم ایک بوسیدہ اور شکستہ شامیانے کے نیچے بے بسی، بے چارگی اور حسرت و یاس کی تصویر بنا  بیٹھا تھا۔ شاہ عالم ثانی کے بعد اس کے جانشین اکبر ثانی (1806-1837)اور بہادر شاہ ثانی(1837-1857) مغلیہ خاندان کی عظمت و قوت، جاہ و جلال، عزت و وقار اور سطوت و شوکت کی متاع گم گشتہ کی نوحہ خوانی کے لیے زندگی کے دن پورے کرنے کے لیے باقی رہ گئے۔

اردو شاعری میں حریت فکر کی روایت ہر عہد میں پروان چڑھتی رہی ہے۔ سید محمد جعفر زٹلی (م1713)نے اپنے عہد کے پر آشوب حالات کو ہدف تنقید بنایا اور جابر سلطان کے  سامنے کلمۂ  حق کہنے میں  اپنی جان کی پروا نہ کی۔ سید محمد جعفر زٹلی نے جان دے دی مگر فسطائی جبر اور ریاستی دہشت گری کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔ اردو کلاسیکی شعرا کے کلام میں حریت فکر اور آزادیِ اظہار کا جو ارفع ترین معیار نظر آتا ہے وہ تاریخ ادب کا درخشاں باب  ہے۔ حریت فکر کی اساس پر استوار یہ تخلیقی  فعالیت دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے کا وسیلہ ثابت ہوئی۔ ذیل میں اردو کلاسیکی شعرا کے کلام میں موجود حریت فکر  کے جذبات کا اجمالی جائزہ  پیش کیا جاتا ہے۔

  سید محمد جعفر زٹلی  (م۔ 1713)

گیا اخلاص عالم سے عجب کچھ دور آیا ہے

ڈرے سب خلق ظالم سے عجب کچھ دور آیا ہے

نہ یاروں میں رہی یاری، نہ بھائیوں میں وفاداری

محبت اٹھ گئی ساری عجب کچھ دور آیا ہے

نہ بولے راستی کوئی، عمر سب جھوٹ میں کھوئی

  اتاری شرم کی لوئی عجب کچھ دور آیا ہے

ولی دکنی (م۔ 1720)

آزاد کوں جہاں میں تعلق ہے جال محض

دل باندھنا کسی سوں دل پر وبال محض

غنچے کے سر کوں دیکھ گریباں میں عندلیب

بولی ظہور خلق یو ہے انفعال محض

  شیخ ظہور الدین حاتم (1699-1783)

شہوں کے بیچ عدالت کی کچھ نشانی نہیں

امیروں بیچ سپاہی کی قدردانی نہیں

بزرگوں بیچ کہیں بوئے مہربانی نہیں

تواضع کھانے کی چاہو کہیں تو پانی نہیں

گویا جہاں سے جاتا رہا سخاوت و پیار

امیر زادے ہیں حیران اپنے حال کے بیچ

تھے آفتاب پر اب آ گئے زوال کے بیچ

پھریں ہیں چرخے سے ہر دن تلاش مال کے بیچ

وہی گھمنڈ امارت ہے پھر خیال کے بیچ

خدا جو چاہے تو ہو، پر اب تو ہے دشوار

کرے ہے چرخ اگر تجھ اوپر جفا حاتم

تو سفلے پاس نہ کر جا کے التجا حاتم

ترے ہے رزق کا ضامن سدا خدا حاتم

تو انقلاب زمانہ سے غم نہ کھا حاتم

کہ تجھ کو رزق بہت اور روزگار ہزار

نجم الدین عرف شاہ مبارک آبرو (1683-1733)

  انسان ہے تو کبر سیں کہتا ہے کیوں انا

آدم تو ہم سنا ہے کہ وہ خاک سے بنا

 زبانی ہے شجاعت ان سبھوں کی

امیر اس جگ کے ہیں سب شیر قالی

محمد شاکر ناجی (م۔ 1747)

 

محمد شاکر ناجی نے جہاندار شاہ کے عہد ستم کے حوالے سے نہایت دردمندی اور خلوص سے اپنے جذبات کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان اشعار میں اس جری تخلیق کار نے جہاندار شاہ، لال کنور  اور اس کے بھائی نعمت خاں کلاونت  کے قبیح کردار اور مذموم رویے کو ہدف تنقید بنایا ہے  اس پر آشوب دور میں قصر شاہی میں ڈوم، ڈھاری، بھانڈ، بھڑوے، مسخرے، لچے، شہدے، کلاونت، مسخرے اور بھگتے پوری طرح دخیل تھے اور ان بے ضمیروں نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ محمد شاکر ناجی کے یہ اشعار اس عہد کے حقیقی تناظر میں گہری معنویت کے حامل ہیں۔

جو سالا شاہ کا ہو کرے ظلم اس سیں مت بولو

محل کی زینت اوس کی بہن، وہ پیاری کا بھائی ہے

ہوا معلوم خم خانے میں تریا راج ہے بے شک

ہر اک سجدے میں یاں دختر رز کی خدائی ہے

میر تقی میر (1722-1810)

  میر تقی میر نے آخری عہد مغلیہ کے تمام حالات و واقعات کا نہایت قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔ وہ اس تجربے کا حصہ  تھے جس میں سے اس عہد کے عوام کو شامت اعمال کے باعث گزرنا پڑا۔ میر تقی میر نے آلام روزگار کے مسموم بگولوں میں بھی حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھی اور جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت فکر کا علم بلند رکھا۔ میر تقی میر کے زمانے میں پے در پے آفتیں اور ناگہانی مصیبتیں نازل ہو رہی تھیں۔ مفلس و قلاش عوام جو مجبوری اور بے چارگی کے عالم میں در در کی خاک چھاننے پر مجبور تھے نان جویں کو ترس رہے تھے۔  میر تقی میر نے جن کٹھن حالات  کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا ان میں بڑے بڑے متوکلوں کے اوسان بجا نہیں رہتے۔ (15)میر تقی میر کی شاعری میں حریت فکر کی درخشاں روایت کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔

مخمس در حال لشکر

جتنے ہیں یاں امیر بے دستور

پھر بہ حسن سلوک سب مشہور

 پہونچنا  ان تلک بہت ہے دور

بات کہنے کا واں کسے مقدور

حاصل ان سے نہ دل کو غیر خراش

 چار لچے ہیں مستعد کار

دس تلنگے جو ہوں تو ہے دربار

 ہیں وضیع و شریف سارے خوار

لوٹ سے کچھ ہے گرمی ء بازار

سو بھی قند سیاہ ہے یا ماش

 اردو کلاسیکی شاعری  میں میر تقی میر کا سب سے بڑا اعزاز و افتخار یہ ہے کہ اس زیرک  اور حساس تخلیق کار نے مطلق العنان بادشاہوں کے قبیح کردار اور عبرت ناک انجام کی سچی مرقع نگاری کی اور اپنے اشعار میں متعدد تاریخی صداقتوں کو  خلوص اور دردمندی  سے پیش کیا۔ ان کی شاعری میں ضمیر کی للکار اور حریت فکر کی پیکار  نہ صرف اذہان کی تطہیر و تنویر کا وسیلہ ہے بلکہ اس کے اعجاز سے قاری پر کئی بسیط حقائق کے راز منکشف ہو تے ہیں۔ میر تقی میر کی شاعری میں بگلا بھگت شخصیات اور جو فروش گندم نما درندوں کے مکر کی چالوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ان اشعار میں کھلے جھوٹ، جعل سازی اور منافقت پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ شیخ، زاہد اور ناصح کے کردار کو اس تناظر میں پیش کر کے میر تقی میر نے آزادیِ اظہار کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔

شیخ کو اس بھی سن میں ہے گی ہوس

تنگ پوشی سے چولی جاوے چس

ہوئے گا سن شریف ساٹھ برس

دانت ٹوٹے گیا ہے کلا دھس

 دیکھ رنڈی کو بہہ چلی ہے رال

میر تقی میر نے واضح کر دیا کہ سیل زماں کے تھپیڑوں میں تخت  و کلاہ و تاج کے سب سلسلے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ دارا اور سکندر گم نامیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ میر تقی میر کی شاعری میں حرف صداقت لکھنے کی یہ مثال ہر دور میں دلوں کو گرماتی رہے گی۔ زندگی کی حقیقی معنویت کو کس حقیقی انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ اسلوب حق و صداقت کی عمدہ مثال ہے۔

شہاں کہ کحل جواہر تھی خاک پا جن کی

انھیں کی آنکھ میں پھرتی سلائیاں دیکھیں

میر جنگل پڑے ہیں آج جہاں

لوگ کیا کیا یہیں تھے کل بستے

سبزان تازہ  رو کی جہاں جلوہ گاہ تھی

اب دیکھیے تو واں نہیں سایہ درخت کا

دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انھیں

تھا کل تلک دماغ جنھیں تاج و تخت کا

مرزا محمد رفیع سودا (1706-1781)

  مرزا محمد رفیع سودا نے اپنے زمانے کے حالات کو اپنی شاعری میں جس قوت، صداقت  اور خلوص کے ساتھ پیش کیا ہے  وہ ان کے منفرد اسلوب کی دلیل ہے۔سودا  کی نظم ’’آئین داوری‘‘اس لحاظ سے اہم ہے کہ اسے اردو شاعری میں پہلی سیاسی نظم کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے اسلوب میں یہ بات نمایاں ہے کہ انھوں نے مطلق العنان بادشاہوں کے جبر کے خلاف کھل کر لکھا۔ ان کی قادر الکلامی اور گرمیِ کلام کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے۔ انھوں نے اردو شاعری میں حریت فکر کی روایت کو پروان چڑھانے میں جو کلیدی کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی شاعری ان کے عہد کی حقیقی تصویر سامنے لاتی ہے۔ یہ شاعری  حکمرانوں کے لیے تازیانۂ  عبرت بھی ہے اور لمحۂ فکریہ بھی۔

سخن جو شہر کی ویرانی سے کروں آغاز

تو اس کو سن کے کریں ہوش چغد کے پرواز

نہیں وہ گھر نہ ہو جس میں شغال کی آواز

کوئی جو شام کو مسجد میں جائے بہر نماز

تو واں چراغ نہیں ہے بہ جز چراغ غول

یہ باغ کھا گئی کس کی نظر نہیں معلوم

نہ جانے کن نے رکھا یاں قدم  وہ کون تھا شوم

جہاں تھے سرو و صنوبر وہاں اگے ہیں زقوم

مچے ہے زاغ و زغن سے اب اس چمن میں دھوم

گلوں کے ساتھ جہاں بلبلیں کر یں تھیں کلول

  مرزا محمد رفیع سودا کی شاعری  میں ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں اور قبیح ظالمانہ کردار  پر سخت گرفت کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ’’ مثنوی در ہجو شیدی فولاد خان کوتوال ‘‘اپنی نوعیت کی ایک  منفرد مثال ہے۔ شاعر نے مقتدر حلقوں کے جابرانہ اقدامات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ یہ رہا  ہے کہ چور محل میں جنم لینے والے ، سانپ تلے کے بچھو جب چور دروازے سے داخل ہو کر جاہ و منصب پر غاصبانہ طور پر قابض ہو جاتے ہیں تو انسانیت پر کوہ الم ٹوٹ پڑتا ہے۔ یہ متفنی جب مجبوروں اور مظلوموں کے چام کے دام چلاتے ہیں تو حساس تخلیق کار تڑپ اٹھتے ہیں۔ مرزا محمد رفیع سودا  نے شیدی فولاد خان کا کچا چٹھا پیش کرتے وقت حق گوئی اور بے باکی کا اعلیٰ معیار پیش نظر رکھا ہے۔

اب جہاں دیکھو واں جھمکا ہے

چور ہے ٹھگ ہے اچکا ہے

کس طرح شہر کا نہ ہو یہ حال

شیدی فولاد اب جو ہے کتوال

شہر کے بیچ کیا کہوں میں اب

روز محشر کی دھوم ہے ہر شب

ولی محمد  نظیر اکبر آبادی (1725-1825)

 نظیر اکبر آبادی کی شاعری میں جس بے باکی، دلیری، صداقت اور خلوص و دردمندی کے ساتھ معاشرتی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے وہ ان کے صاحب طرز تخلیق کار ہونے کی دلیل ہے۔ منافقت، قول و فعل کے تضاد اور ہوس پرستی نے انسانیت کو جو چرکے لگائے ہیں نظیر اکبر آبادی نے اس کا  احوال  بڑی بہادری اور حوصلے سے بیان کیا ہے۔

کیا کیا فریب کہیے دنیا کی فطرتوں کا

مکر و دغا و دزدی ہے کام اکثروں کا

جب دوست مل کے لوٹیں  اسباب مشفقوں کا

پھر کس زباں سے شکوہ اب کیجیے دشمنوں کا

ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا

یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا

 نظیر اکبر آبادی نے نادر، ابدالی، مرہٹوں، روہیلوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے جورو ستم اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ ان کی شاعری زندگی کی تلخ حقیقتوں اور کڑی آزمائشوں کی آئینہ دار ہے۔ انھوں نے مفلسی کی کیفیات اور فاقہ کشی کی اذیتیں بڑے مؤثر اور پر درد انداز  میں زیب قرطاس کی ہیں۔ جس معاشرے میں درندگی کا یہ حال ہو کہ مسلح کٹار بند ہر طرف دندناتے پھرتے ہوں وہاں مظلوم اور بے بس انسانیت کو شدید پریشانیوں اور جان لیوا صدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مغل بادشاہوں کی حکومت دفاعی اور انتظامی صلاحیت سے یکسر محروم تھی۔ معاشرتی زندگی سے امن و عافیت اور سکون  دہشت گردوں نے چھین لیا تھا۔ فوج کو تنخواہیں ادا کرنے کے لیے خزانے میں کوئی رقم موجود نہ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج کاہل، تن آسان، سست اور بزدل ہو گئی۔ نظیر اکبر آبادی نے اس تمام المیے کے بارے میں اپنے جذبات کا برملا  اظہار کیا ہے۔ ان کی شاعری پڑھ کر قاری چشم تصور سے اس عہد نا پرساں کی لرزہ خیز، اعصاب شکن صورت حال کا مشاہدہ کر لیتا ہے

جتنے سپاہی یاں تھے نہ جانے کدھر گئے

دکھن کے تئیں نکل گئے یا پیش تر گئے

ہتھیار بیچ ہو کے گدا گھر بہ گھر گئے

جب گھوڑے بھالے والے بھی یوں در بہ در گئے

پھر کون پوچھے ان کو جو  اب ہیں کٹار بند

  مصائب و آلام کے لہو رنگ منظر نظیر کی شاعری کا اہم ترین موضوع ہیں۔ اسے معلوم ہے کہ مفلسی کے باعث انسان کی تمام زندگی کی رتیں بے ثمر ہو جاتی ہیں۔ امیدوں کی فصل مفلسی کی وجہ سے غارت ہو جاتی ہے  اور غریب آدمی کی صبح و شام کی محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ جب آرزوؤں اور امنگوں کا خون ہو رہا ہو تو سکون قلب اور راحت کا تصور ہی عبث ہے۔ نظیر کی شاعری کے موضوعات آفاقی صداقتوں کے مظہر ہیں۔ ان کے موضوعات میں ندرت اور تنوع موجود ہے جس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ نظیر نے اس بات کا بڑے دکھ کے ساتھ اظہار کیا ہے کہ فرد کی زندگی کا سب سے بڑا اور گمبھیر مسئلہ معاشی ہے۔ معیشت کے افکار غریب آدمی کو زندہ در گور کر دیتے ہیں۔ ان کی نظم مفلسی گہری معنویت کی حامل ہے۔

مفلسی

جب مفلسی ہوئی تو شرافت کہاں رہی

وہ قدر ذ ات کی وہ نجابت کہاں رہی

کپڑے پھٹے تو لوگوں میں عزت کہاں رہی

تعظیم اور تواضع کی بابت کہاں رہی

مجلس کی جوتیوں پہ بٹھاتی ہے مفلسی

غریبوں کو روٹی کے مسئلے پر جان کے لالے پٹرے ہیں جب کہ انسانیت سے عاری، درندے، موذی اور مکار استحصالی طبقے نے غریب لوگوں کو روٹیوں کے ایک نوالے سے بھی محروم کر دینے کی ٹھان لی تھی۔ جس معاشرے میں غریبوں کو عمر بھر کی کمائی سے محروم کر دیا جائے اس کے بارے میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مسند شاہانہ پر متمکن غاصب بے حس ہو چکے ہیں۔ نظیر  ؔ نے اس موضوع پر کہا ہے ؎

روٹی کی تعریف میں :

پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے

یہ مہر و ماہ  حق نے بنائے ہیں کاہے کے

 وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے

ہم تو نہ چاند سمجھیں  نہ سورج ہیں جانتے

با با ہمیں تو یہ  نظر آتی ہیں روٹیاں

دنیا میں اب بدی نہ کہیں اور نکوئی ہے

یاں دشمنی و دوستی  یا تند خوئی ہے

کو ئی کسی کا اور کسی کا نہ کوئی ہے

سب کوئی اسی کا ہے جس ہاتھ ڈوئی ہے

نوکر نفر  غلام بناتی  ہیں روٹیاں

  اودھ کے حکمران طبقے کے بارے میں اس عہد کے ممتاز شاعر جرات کے یہ اشعار حرف صداقت لکھنے کی قابل قدر مثال ہیں۔ 1856میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اودھ کے آخری تاجدار واجد علی شاہ کو مٹیا برج (کلکتہ)میں نظر بند کر کے اودھ کا الحاق ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر تسلط علاقے سے کر لیا۔ جرات کے یہ اشعار ان کی حق گوئی اور بے باکی کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

کہیے نہ انھیں امیر اب نہ وزیر

انگریز کے ہاتھ یہ قفس میں ہیں  اسیر

جو کچھ وہ پڑھائیں سو یہ منہ سے بولیں

بنگالے کی مینا ہیں یہ  پورب کے امیر

مرزا اسداللہ خان غالب (1796-1869)

  1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد پورے بر صغیر کی کایا پلٹ گئی یہ ایک ایسی آگ تھی جو برطانوی ہوس ملک گیری کے منصوبوں کے باعث پورے ملک میں مسلسل سلگ رہی تھی۔ نامور شاعر اور ادیب مرزا اسداللہ خان غالب1857کے الم ناک واقعات میں شروع سے آخر تک دہلی میں موجود رہے۔ انھوں نے اس قلزم خوں کے شناور کی حیثیت سے اپنے تمام تجربات اور مشاہدات کو اپنی تخلیقات میں جگہ دی ہے۔ جب وہ ان خونچکاں واقعات کا احوال بیان کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہے۔ جب ہنستے بستے شہر کو فوجی بوٹوں تلے روند دیا جائے اور آبادیاں خوں میں تر اور زندگیاں پر خطر کر دی جائیں تو حساس تخلیق کار کا تڑپ اٹھنا قابل فہم ہے غالب نے خو د لکھا ہے کہ شہر کو چھاونی اور کیمپ میں بدل دیا گیا ہے۔ ریاستی جبر اور حکومتی قہر و غضب کے خلاف غالب نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ ان کے اشعار میں  رنج و غم اور کرب کی جو کیفیت ہے وہ  حریت فکر کے ایک مجاہد کا امتیازی وصف ہے۔

گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے

زہرہ، ہوتا ہے آب انساں کا

 چوک جس کو کہیں، وہ مقتل ہے

گھر، بنا ہے نمونہ زنداں کا

شہر دہلی کا ذرہ ذرۂ خاک

تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا

کوئی واں سے نہ آسکے یاں تک

آدمی، واں نہ جا سکے یاں کا

میں نے مانا کہ مل گئے، پھر کیا ؟

وہی رونا تن و دل و جاں کا

گاہ جل کر کیا کیے شکوہ

سوزش داغ ہائے پنہاں کا

گاہ رو کر کیا کیے باہم

ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا

اس طرح کے وصال سے یارب

کیا مٹے دل سے داغ ہجراں کا

 غالب نے حق گوئی اور صداقت کو شعار بناتے ہوئے ’’ داغ ہجراں ‘‘کی ترکیب استعمال کی ہے۔ یہ ان سب جانبازوں کا ذکر ہے جو 1857کی ناکام جنگ آزادی میں یا تو زندگی کی بازی ہار گئے یا انگریزوں نے کالے قوانین کے تحت انھیں حکم حبس دوام سنایا یا انھیں جزائر انڈیمان  کے عقوبتی کیمپوں میں قید کیا۔ غالب نے 1857کے الم ناک واقعات کے متعلق حقیقی شعور و آگہی پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ انھیں اس بات کا شدید قلق تھا کہ 1609میں تاجر کے روپ میں آنے والے 1857میں غاصبانہ طور پر تاجور بن بیٹھے۔

ایک اہل درد نے سنسان جو دیکھا قفس

یوں کہا ’’آتی نہیں کیوں اب صدائے عندلیب‘‘

بال و پر دو چار دکھلا کر کہا صیاد نے

’’یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب‘‘

  غالب نے فسطائی جبر کو کبھی تسلیم نہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ غاصب برطانوی حکمرانوں نے یہاں جنگل کا قانون نافذ کر رکھا ہے۔ فرضی مقدمات اور جھوٹی شہادتوں کے ذریعے بے گناہ افراد کو انتقامی  کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مجبوروں اور مظلوموں کے چام کے دام چلائے جا رہے تھے۔ یہ تمام الم ناک واقعات بلا جواز تھے۔ جس قدر تیزی سے جنگل کے قوانین کے ذریعے مظلوموں پر عرصۂ  حیات تنگ کیا جا رہا تھا وہ  سارا عمل نا قابل فہم تھا۔ غالب نے 2فروری1859کو اپنے دیرینہ دوست  میر مہدی مجروح کے نام اپنے ایک مکتوب میں انگریزوں کے ہاتھوں دہلی کی بربادی کے روح فرسا واقعات لکھنے کے بعد یہ شعر لکھ کر اپنا مکتوب ختم کیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غالب نے انگریزوں کے کالے قوانین کو کبھی صدق دل سے تسلیم نہ کیا۔

روز اس  شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے

کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے

  مرزا اسداللہ خان غالب نے 1857کے سانحہ کے بارے میں جس  جذبے، ولولے اور صداقت کے ساتھ اپنا ما فی الضمیر بیان کیا ہے وہ ان کی شان استغنا اور بہادری کا ثبوت ہے۔ جس وقت پورے بر صغیر میں کورٹ مارشل کے ہولناک شعلے بھڑک رہے تھے غالب کا یہ اسلوب نہ صرف ان کی انفرادیت کی عمدہ مثال ہے بلکہ یہ ان کی خاندانی وجاہت کی دلیل بھی ہے۔

گلشن میں بندوبست بہ رنگ دگر ہے آج

قمری کا طوق، حلقۂ بیرون در ہے آج

آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ

تا رنفس، کمند شکار اثر ہے آج

اے عافیت کنارہ کر، اے انتظام چل

سیلاب گریہ، در پئے دیوار و در ہے آج

 رہے نہ جان، تو قاتل کو خوں بہا دیجے

کٹے زبان، تو خنجر کو مر حبا کہیے

سفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا غالب

خدا سے کیا ستم و جور نا خدا کہیے

حکیم مومن خان مومن (1800-1851)

حکیم مومن خان مومن نے اپنی شاعری میں دہلی کے زوال پذیر معاشرے کی جو تصویر پیش کی وہ قاری کو ایک جہان دیگر کی سیر کراتی ہے اس عہد میں تہذیبی اور ثقافتی اقدار کی زبوں حالی کے باعث عوامی زندگی کو سخت اضطراب اور ہیجان کا سامنا تھا۔ مومن کے حقیقت پسندانہ اسلوب کی ایک جھلک ان کی شاعری میں دیکھیں :

ناصحا دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم

لاکھ ناداں ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے

منت حضرت عیسیٰ نہ اٹھائیں گے کبھی

زندگی کے لیے شرمندۂ احساں ہوں گے

سیاسی  و تاریخی عوامل نے اردو شاعری پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ اردو شعرا نے اپنے عہد کے حالات و واقعات سے جو اثرات قبول کیے انھیں پورے خلوص کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا۔ اس تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے اردو شاعری میں حریت فکر کی روایت کو پروان چڑھانے میں مدد ملی۔ اردو شعرا نے بے یقینی اور جمود کے خاتمے کے لیے فکری سطح پر قابل قدر کام کیا اور خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے عوام  کی بیداری کا اپنا شعار بنایا۔ بے یقینی کی مسموم فضا میں تہذیب و تمدن کو سنگین خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ بے یقینی غلامی سے بھی بد تر ہوتی ہے اس کے تباہ کن اثرات سے تہذیب و تمدن کو گہن لگ جاتا ہے۔ اردو شعرا نے آزادی ء اظہار کے لیے جو بے مثال جد وجہد کی ہے اس کا ثمر یہ ہے کہ اچھے شہری بننے میں مدد ملی۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ جب تک ہم اچھے شہری نہیں بن جاتے اس وقت تک انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اردو شعرا نے معاشرتی زندگی کو امن و عافیت کا گہوارہ بنانے کی غر ض سے فکری سطح پر جو کام کیا اس نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔ اس کی بدولت فرد کو ربط ملت سے اپنا وجود قائم رکھنے کا حوصلہ ملا یہی وجہ ہے کی نیکی اور بدی کے مابین پائے جانے والے اختلافات کو سمجھنے میں حریت فکر کے جذبات سے بہت فائدہ پہنچا۔ یہ شاعری نہ صرف روح عصر کی ترجمان ہے بلکہ اس کے ذریعے قاری کو مثبت شعور و عصری آگہی سے بھی متمتع کیا جا سکتا ہے۔ یہ شاعری اس اعتبار اسے ارفع مقام کی حامل ہے کہ اس کا دائرۂ  اثر بہت وسیع ہے اور ہر عہد کی شاعری میں اس کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ حریت فکر کے علم بردار اردو زبان کے ان شعرا نے اس وقت زندہ شاعری کی جس وقت نوع انساں کو ہوس نے انتشار اور پراگندگی کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ زندگی کی وہ اقدار عالیہ جو سیل زماں کی زد میں آ جانے کے باعث اس قدر منتشر اور پراگندہ تھیں کہ ان کا ایک مرکز پر اکٹھا ہونا بعید از قیاس تھا، ان شعر نے انھیں ایک ہی تسبیح میں پرو دیا۔ حریت فکر پر مبنی شاعری جہاں یہ واضح کرتی ہے کہ لالے کی حنا بندی فطرت کا وظیفہ ہے وہاں اس امر پر بھی اصرار کرتی ہے کہ ہوس پرستوں کی غاصبانہ دستبرد کی وجہ سے حیات و کائنات کی وہ تمام اقدار جو بے ہنگم انداز میں جان کنی کے عالم میں ہیں ان کی شیرازہ بندی اس طرح کی جائے رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے سب کے سب استعارے اس سے منسلک ہو جائیں اور اذہان کی تطہیر و تنویر کو یقینی بنایا جا سکے۔ کلاسیکی اردو شاعری میں سے حریت فکر کی چند اور مثالیں پیش خدمت ہیں :

شیخ محمد ابراہیم ذوق (1789-1854)

تخیل نے مرے باندھاطلسم تازہ کیفیت

اسی آتش کا رکھتا ہے شرر سنگ صنم میرا

بہادر شاہ ظفر  (1775-1862)

کر گئی ویراں چمن باد خزاں گل جھاڑ کے

بس قفس میں بیٹھ رہ پر اپنے بلبل جھاڑ کے

خواجہ میر درد (1720-1786)

 ہم نے کہا بہت اسے پر نہ ہوا یہ آدمی

زاہد خشک بھی کوئی سخت خر دماغ ہے

نواب مرزا خاں داغ (1831-1905)

کیوں ناصحوں کو فکر ہے مجھ بادہ نوش کی

صدقہ وہ دیں حواسوں کا بنوائیں ہوش کی

میر مہدی مجروح (1833-1910)

ہو طالب دیدار مگر حضرت موسیٰ

فرمائیے، یہ آپ میں ہے تاب نظر بھی

خواجہ الطاف حسین حالی (1837-1914)

خواجہ الطاف حسین حالی کی شاعری میں حریت فکر کے جذبات کی موجودگی ان کی ولولہ انگیز شخصیت کی مرہون منت ہے۔ ان کی نظمیں ’’آزادی کی قدر‘‘،  ’’انگلستان کی آزادی اور ہندوستان کی غلامی‘‘، ’  اور ’ کالے اور گورے کی صحت کا میڈیکل امتحان ‘‘حق گوئی، بے باکی اور صداقت کا اعلیٰ ترین معیار پیش کرتی ہیں۔ شبلی نعمانی (1857-1914)کی نظم’’ شہدائے قوم ‘‘جو انھوں نے سانحہ مسجد مچھلی بازار کانپور کے بارے میں لکھی حرف صداقت  سے مزین ہے۔ 13اگست 1913کو نہتے مسلمانوں پر دس منٹ تک مسلسل گولی چلائی گئی اور چھ سو کارتوس فائر کیے گئے۔ (16)اس پر درد نظم کے صرف دو اشعار پیش خدمت ہیں جنھیں پڑھ کر قاری فرط غم سے نڈھال ہو جاتا ہے

کل مجھ کو چند لاشۂ بے جاں نظر پڑے

دیکھا قریب جا کے تو زخموں سے چور ہیں

پوچھا جو میں نے کون ہو تم ؟آئی یہ صدا

’’ہم کشتہ گان معرکۂ  کانپور ہیں ‘‘

مولوی نذیر احمد دہلوی  (1836-1912)

نذیر احمد کی شاعری میں مقصدیت کا جو انداز ہے وہ اپنی افادیت کا لوہا منواتا ہے۔ وہ جس دیانت اور خلوص سے کام لیتے ہوئے اصلاحی عمل کی جانب متوجہ کرتے ہیں وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ان کے ہاں واقعیت اور حقیقت کا جو حسین امتزاج ہے وہ حریت  فکر کی درخشاں مثال ہے:

 کھلی آخرش وجہ پستیِ حالت

جہالت !جہالت!جہالت!جہالت

  زمیں بدلی بدلا ہوا آسماں ہے

زمانہ کی اگلی سی حالت کہاں ہے

 وہی جانور ہیں وہی ہیں صفیریں

مسلماں اور اپنی پرانی لکیریں

سر چشمۂ آب حیواں ہیں پیاسے

سبب کیا ؟کہ لڑتے ہیں احمق خدا سے

اسمٰعیل میرٹھی (1844-1917)

  اسمٰعیل میرٹھی کی شاعری اسی روایت کی امین ہے جو حریت فکر کے علم بردار شعرا کا عظیم تاریخی ورثہ ہے۔ اس شاعری میں سنجیدہ، پر خلوص اور رفیع الشان ذہنی اور فکری تجربات، بلند پایہ تصورات اور بے لوث محبت اور بے باک صداقت سے لبریز جذبات قابل توجہ ہیں۔ حریت فکر کی عظیم الشان روایت نے اردو شاعری کی فنی اور جمالیاتی تاریخ کو دور جدید سے ہم آہنگ کر دیا۔ اسمٰعیل میرٹھی کی نظم ’’نام نہاد  رہنمایان قوم‘‘  میں مفاد پرست عناصر کو آئینہ دکھایا گیا ہے۔ ان کے درج ذیل اشعار میں حق گوئی اور بے باکی کا عنصر فکر و نظر کو مہمیز کر رہا ہے۔

خبر دار ہاں اے بزرگان قوم

کہ اجڑا پڑا ہے گلستان قوم

نہ عزت نہ دولت نہ سطوت رہی

ملی خاک میں شوکت و شان قوم

ترقی کے میداں میں کیوں کر بڑھے

کہ الجھا ہے کانٹوں میں دامان قوم

سید اکبر حسین اکبر الہٰ آبادی (1846-1921)

اکبر الہٰ آبادی کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ بر صغیر  کے مسلمانوں میں یہ احساس عنقا ہے کہ قومی تنزل کو کیسے روکا جائے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کارواں کے دل سے احساس زیاں ہی غائب ہو گیا۔ اسی لیے انھوں نے اس خطے کے مسلمانوں کو ’’بدھو‘‘ کہا۔ استعمار ی طاقتوں کی یلغار اور نئی تہذیب کے خلاف انھوں نے فکری سطح پر بھر پور جدو جہد کی۔ ان کی حق گوئی سے توہمات اور فرسودہ رسوم کے تار عنکبوت سے گلو خلاصی کے امکانات پیدا ہوئے۔

پرانی روشنی اور نئی میں فرق اتنا ہے

اسے کشتی نہیں ملتی، اسے ساحل نہیں ملتا

پہنچنا داد کو مظلوم کی مشکل ہی ہوتا ہے

کبھی قاضی نہیں ملتا، کبھی قاتل نہیں ملتا

حریفوں پر خزانے ہیں کھلے یاں ہجر و گیسو ہے

وہاں پے بل ہے اور یاں سانپ کا بھی بل نہیں ملتا

سید فضل الحسن حسرت موہانی (1878-1951)

  حسرت موہانی نے اپنی شاعری کے ذریعے سیاسی بیداری اور حریت فکر کے جذبات کو تقویت بخشی۔ برطانوی استبداد کے خلاف رائے عامہ کی بیداری میں حریت فکر کے ان مجاہدوں کی خدمات تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہیں جنھیں ادب کا کوئی دیانت دار نقاد نظر انداز نہیں کر سکتا۔ یہ شاعری تا ابد دلوں کو گرماتی رہے گی اور آزادی پسندوں کو ایک نیا ولولہ عطا کرتی رہے گی۔

 اچھا ہے اہل جور کیے جائیں سختیاں

پھیلے گی یوں ہی شورش حب وطن تمام

سمجھے ہیں اہل شرق کو شاید قریب مرگ

مغرب کے یوں ہیں جمع یہ زاغ و زغن تمام

مولانا ظفر علی خان (1873-1956)

مولانا ظفر علی خان کو حریت فکر کی پاداش میں غاصب برطانوی حکمرانوں نے پندرہ سال تک پابند سلاسل رکھا۔ ان کے اخبار ’’زمیندار ‘‘ کے اثاثے ضبط کر لیے گئے مگر انھوں نے فرا عنہ کے ظلم و استبداد کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی روش کبھی ترک نہ کی۔ وہ نہایت استقامت اور مستقل مزاجی سے اپنے حریت پسندانہ موقف پر ڈٹے رہے۔ مولانا ظفر علی خان کی استعمار دشمنی سے ظالم و سفاک، غاصب برطانوی حکومت اس قدر خائف تھی کہ جلیاں والا باغ کے سانحہ کے مرکزی کردار جنرل ڈائر نے تسلیم کیا تھا کہ اگر ظفر علی خان کو قید نہ کیا جاتا تو یہ شخص چند دنوں کے  اندر برطانوی اقتدار کی دھجیاں بکھیر دیتا۔ (17)مولانا ظفر علی خان کی شاعری برطانوی استبداد کے خلاف ضمیر کی للکار کی حیثیت رکھتی ہے۔

طریق عدل اس انگریزی حکومت کے بھی نیارے ہیں

ہوئی ہیں مسجدیں ویراں سلامت گردوارے ہیں

خدا ثابت قدم رکھے ہمیں اس آزمائش میں

ادھر ہیں گولیاں ان کی، ادھر سینے ہمارے ہیں

 اردو شعرا نے ہر عہد میں لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھا۔ اپنے قلم اور تخلیقی فعالیت کو قابل احترام بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ انھوں نے وہی کچھ لکھا جو ان کی فہم و فراست اور ضمیر کے مطابق درست تھا۔ اردو شاعری کی تاریخ میں حریت فکر کی روایت نے مہیب سناٹوں کا خاتمہ کیا، جانگسل تنہائیوں کا مداوا کیا، طلوع صبح بہاراں کے امکانات پیدا کیے اور سفاک ظلمتوں کو کافور کیا۔

انھیں اس بات کا بہ خوبی احساس تھا کہ یہ کھنڈر کسی کو کچھ عطا کرنے کی استطاعت سے محروم ہیں۔ جب بے حس معاشرے میں قلم فروش، ضمیر فروش، چربہ ساز، سارق، خفاش اور کفن دزد عناصر کی پانچوں گھی میں تھیں اور یہ ابن الوقت عناصر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف تھے، حریت فکر کے مجاہد اردو شعرا آزمائش و ابتلا کا خندہ پیشانی سے سامنا کر رہے تھے۔ ان با ضمیر تخلیق کاروں نے اس وقت فصیل جبر کو تیشۂ  حرف سے منہدم کرنے کی مساعی کو جاری رکھا جب قلم کے تاجر لوٹ کھسوٹ میں مصروف تھے۔ تاریخ ہر دور میں حریت فکر کے ان مجاہدوں کے نام کی تعظیم کرے گی۔ جب بھی کوئی نئی صورت حال پیدا ہو گی ان شعرا کی شاعری اقتضائے وقت کے مطابق مناسب اور بر محل رد عمل کے اظہار کے لیے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لانے کی راہ دکھاتی رہے گی۔ وہ لوگ جو اخلاقی اور قدرتی اوصاف حمیدہ کی نشو و ارتقا کے  آرزومند ہیں اس شاعری کے خوشہ چیں رہیں گے۔

٭٭٭

 

مآخذ

(1)غلام حسین اذوالفقار(ڈاکٹر): اردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظر، جامعہ پنجاب، لاہور، 1966، صفحہ 58۔

(2)حسن اختر ملک (ڈاکٹر )  : اردو شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک، یونیورسل بکس، لاہور، 1986 ، صفحہ, 17۔

(3)William  Irvine : Later Moughals, Vol, 1, Universal Books, Lahore,………………..Page 192.

(4)غلام حسین ذوالفقار (ڈاکٹر )  : اردو شاعر ی کا سیاسی اور سماجی پس منظر،صفحہ 61۔

(5)ایضاً

(6)نور الحسن ہاشمی (ڈاکٹر ): دلی کا دبستان شاعری، اردو اکیڈمی، سندھ، کراچی،1966 ،صفحہ، 2۔

(7)کلب علی خان فائق رام پوری : مومن، مجلس ترقی ء ادب، لاہور، طبع دوازدہم،  1968،صفحہ، 2۔

(8)اشتیاق حسین قریشی (ڈاکٹر ): بر عظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ، جامعہ کراچی،1983صفحہ 222۔

(9)صباح الدین عبدالرحمٰن سید: بزم تیموریہ، مطبع معارف، اعظم گڑھ،1948،صفحہ 306۔

(10)غلام حسین ذوالفقار ڈاکٹر : اردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظر۔صفحہ 469۔

(11) مبارک علی (ڈاکٹر): آخری عہد مغلیہ کا ہندوستان، نگارشات، لاہور،  1986 ،  صفحہ  19۔

(12)غلام حسین ذوالفقار (ڈاکٹر) :  اردو شاعر ی کا سیاسی اور سماجی پس منظر،  صفحہ 72۔

(13)جمیل جالبی  (ڈاکٹر) : تاریخ ادب اردو، جلد دوم، حصہ اول، مجلس ترقیِ ادب، لاہور،1987  ،صفحہ 469۔

(14)افتخار حسین آغا(ڈاکٹر)  : قوموں کی شکست و زوال کے اسباب کامطالعہ، مجلس ترقی ء ادب، لاہور، 1985 ،صفحہ 45۔

(15)عبدالحق مولوی(ڈاکٹر)  : انتخاب کلام میر، اردو پریس، اورنگ آباد، حیدر آباد دکن، بار سوم، 1926،صفحہ 9۔

(16)سلطان محمود حسین سید(ڈاکٹر):  ’’حادثہ کانپور، مسجد مچھلی بازار، مضمون مشمولہ ماہ نو، لاہور، اگست 1989صفحہ57۔

(17)  افتخار خواجہ’’: ظفر علی خان ‘‘ مضمون مشمولہ روزنامہ جنگ، لاہور، 27۔ نومبر1993  صفحہ 5۔

٭٭٭

مصنف کے شکرئیے کے ساتھ کہ انہوں نے فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید