FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ادیبوں اور کتابوں کی  باتیں

راشد اشرف

 

آپس کی باتیں یا آپس کی کدورتیں

لاہور کے ناشر مقبول اکیڈمی کے مالک ملک مقبول احمد کا قلم کچھ عرصے سے رواں ہے۔ اردو ادب کی کئی اصناف میں در اندازی کر چکے ہیں، پذیرائی، گلشن ادب، سیاحت نامہ ترکی اور ۵۰ نامور ادبی شخصیات کے عنوانات سے ان کی کتابیں شائع ہوئیں۔ سفر جاری ہے کے عنوان سے خودنوشت تحریر کی جس کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۸ میں منظر عام پر آیا۔ ادب کی ایک صنف ایسی بھی ہے جس کا کوئی باضابطہ نام نہیں ہے،اس کو کئی نام دیے جا سکتے ہیں۔ ہم اس کو کدورت بھی کہہ سکتے ہیں، عداوت اور بغض کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ اس صنف ادب کی ترویج میں کئی نامور اہل قلم کا لازوال حصہ ہے او ر یہ کوئی آج کا قصہ نہیں ہے۔ مصحفی و انشاء، شرر اور چکبست، مولانا آزاد اور مولانا ماجد، اوپندر ناتھ اشک اور سعادت حسن منٹو، چراغ حسن حسرت اور ایم ڈی تاثیر، سر سید احمد خاں اور اکبر الہ آبادی (اقدار کا تصادم)، معرکہ حمایت علی شاعر اور محسن بھوپالی (سکھر کے اخبار کی زینت بنا)، منیر نیازی و جون ایلیا اور جمیل یوسف اور ظفر اقبال کے درمیان چپقلش سے ایک دنیا واقف ہے۔ اور پھر اُدھر نارنگ و شمس الرحمان فاروقی اور ادھر احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا کے درمیان رسوائے زمانہ معرکے اس پر مستزاد۔ موخر الذکر میں ڈاکٹر انور سدید او ر ڈاکٹر سلیم اختر نے بھی بقدر ظرف اپنا اپنا حصہ ڈالا اور اسے ترقی کے بام عروج پر پہنچا دیا۔ ایک مرتبہ اہل قلم کانفرنس کے دوران تو احمد فراز اور اجمل نیازی دست و گریباں بھی ہو گئے تھے، فراز نے اجمل نیازی کی ریش پر ہاتھ ڈالا اور جواب میں نیازی صاحب نے کرسی اٹھا لی تھی۔

معرکہ ’ حسرت و تاثیر ‘ میں دونوں جانب کے حریفوں کو مغربی پاکستان اور امروز کے صفحات میسر تھے جہاں مورچہ بند ہو کر ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کیے جاتے تھے۔ انتظار حسین اپنی خودنوشت میں اس کی ایک جھلک دکھاتے ہیں :

’’ دونوں جانب سے توپیں دغنے لگیں۔ مگر تاثیر صاحب جو ایک شعر روانی میں لکھ گئے اس کا جواب نہیں آیا، وہ شعر یہ تھا

عجیب بات وہ جنتا کا یار کہتا ہے

کہ شعر وہ ہے جو فتو لہار کہتا ہے

لڑائی میں بڑھتے بڑھتے یہ نوبت آئی کہ حسب نسب بھی یاروں نے بکھان ڈالے۔ آخر مولانا عبدالمجید سالک فکر مند ہو کر گھر سے نکلے اور چھڑی ٹیکتے امروز کے دفتر میں آن دھمکے۔ دن بھر بیٹھے رہے اور فریقین میں صلح کرانے کی کوششیں کرتے رہے۔ لیجیے شام تک سیز فائر ہو گیا۔ ‘‘ (چراغوں کا دھواں۔ انتظار حسین۔ سن اشاعت: ۱۹۹۹)

ادبی چپقلشوں کے تعلق سے اس ضمن میں کئی لطیفے بھی مشہور ہوئے۔ مشفق خواجہ نے شاہد دہلوی اور جوش ملیح آبادی کے درمیان چپقلش کے تعلق سے نومبر ۱۹۹۵ کے ایک کالم میں یہ پر لطف واقعہ درج کیا:

’’مصطفی زیدی نواب شاہ سندھ میں ڈپٹی کمشنر تھے۔ انہوں نے ایک ادبی کانفرنس منعقد کی اور اس میں شاہد احمد دہلوی اور جوش ملیح آبادی کو مدعو کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ان دونوں میں زبردست معرکہ آرائی ہو رہی تھی۔ مصطفی زیدی نے ان دونوں بزرگوں کو کراچی سے نواب شاہ لے جانے کا کام طفیل احمد جمالی کے سپرد کیا۔ سفر ریل گاڑی سے کرنا تھا، اس لیے جمالی نے ایک گاڑی سے جوش صاحب کو روانہ کیا اور دوسری سے شاہد صاحب کو لے کر وہ خود نواب شاہ پہنچے۔ مصطفی زیدی نے جمالی سے کہا :

 ’’ اگر آپ ان دونوں کو ایک ہی گاڑی سے لے کر آتے تو مجھے استقبال کے لیے دو مرتبہ ریلوے اسٹیشن پر آنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑتی۔ ‘‘۔۔

جمالی نے جواب دیا

’’ آپ کو اپنی زحمت کا تو خیال ہے لیکن اس کا خیال نہیں کہ اگر یہ دونوں بزرگ ایک ساتھ سفر کرتے اور راستے میں ان کے درمیان صلح ہو جاتی تو اس حادثے کا کون ذمہ دار ہوتا ؟ ‘‘

خواجہ صاحب نے مزید لکھا: ’’اس واقعے سے جو اخلاقی نتیجہ برآمد ہوتا ہے، اس کی بنا پر ہمارا یہ خیال ہے کہ ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر سلیم اختر کو کسی محفل میں یک جا نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘

صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر جریدہ نقوش کو ۱۹۸۱ میں ادبی معرکے کے عنوان سے خاص نمبر چھاپنا پڑا تھا، اس سلسلے میں مواد کی کمی نہ تھی، پڑھنے والے لطف اندوز ہوئے۔ نقوش کے اس جریدے میں دلچسپ کارٹونز بھی شائع ہوئے۔ ایک کارٹون میں مصحفی، انشاء اللہ خاں انشاء کی جانب پشت کیے کھڑے ہیں اور انشاء اپنے دونوں کانوں پر انگوٹھے رکھے، بقیہ انگلیاں عمودی حالت میں ہوا میں لہرا رہے ہیں، جوش اور شاہد دہلوی ایک دوسرے پر سیاہی والے قلم سے روشنائی کے چھینٹے اڑا رہے ہیں۔ اور ایک کارٹون تو ایسا کہ تمام صورتحال دیکھنے والے پر عیاں ہو جائے، اس میں دو ممکنہ مشاہیر ادب ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں، ایک حضرت اپنے حریف پر تلوار سے وار کر رہے ہیں جبکہ حریف اس کو ایک ضخیم لغت پر روک رہے ہیں، عقب میں ان دونوں کے چند دیگر پروردہ و کاسہ لیس، ایک دوسرے پر تیر اور بھالوں سے نبرد آزما  ہیں، ایک لاغر سا شخص آپس کی اس لڑائی کی زد میں آ کر مضروب حالت میں زمین پر ڈھیر پڑا ہے جبکہ ایک ہرے رنگ کے چہرے والا (عموماً شیطان کو اس حلیے میں دکھایا جاتا ہے ) کتابوں کی الماری کی اوٹ سے فساد کا یہ منظر دیکھ کر مسکرا رہا ہے!

خدا سلامت رکھے ڈاکٹر انور سدید کو کہ اس قوی صنف ادب اور اپنے ترکش، دونوں کو نہ صرف فعال رکھا ہوا ہے بلکہ شنید ہے کہ ترکش کا آخری تیر سائنایڈ میں بجھا کر اپنے آخری زندہ بچ جانے والے دشمن کے لیے محفوظ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو شکایت ہے کہ بعض لوگ انہیں ’زبان دراز سرگودھوی ‘کہتے ہیں اور بعض وزیر آغا کا مزارع۔ ڈاکٹر سدید نے تمام زندگی بقول شخصے ’ نہر کے موگے توڑ‘ محکمے میں بحیثیت انجینئر نوکری کی۔

 ساتھ ساتھ ہی ساتھ وہ ادبی نہر کے موگے توڑنے میں بھی تندہی سے مصروف رہے۔ توڑ پھوڑ کا یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ڈاکٹر انور سدید کی کثیر التعداد تصنیفات اور ڈاکٹر صاحب کی احمد ندیم قاسمی سے چپقلش کو مشفق خواجہ نے ایک ہی جگہ کچھ یوں باندھا ہے :

’’ڈاکٹر انور سدید کی تصانیف پڑھنے کا کام خوشگوار ہونے کے ساتھ ساتھ خاصا خطرناک بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی کتابیں پڑھنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر بھی بڑھ جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کے ذریعے حاصل کردہ علم تو بے ضرر ہوتا ہے کہ خود ڈاکٹر صاحب بھی اسے اپنے پاس رکھنا پسند نہیں کرتے اور قارئین میں تقسیم کر دیتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی کتابیں پڑھنے سے بلڈ پریشر میں اضافہ کیوں ہوتا ہے، اس کی تفصیل میں جانے کے بجائے ہم یہ بتائے دیتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی تازہ تصنیف ’ دلی دور نہیں ‘ پڑھنے کے دوران ہم پر کیا گزری۔  احمد ندیم قاسمی کا ذکر اس سفرنامے میں ایک درجن سے زیادہ مرتبہ کیا گیا ہے اور ہر جگہ سخن گسترانہ انداز میں ہے۔ حیرت ہے کہ دلی میں بھی ڈاکٹر انور سدید نے احمد ندیم قاسمی کا پیچھا نہ چھوڑا، مثلاً ۱۹۸۸ کے لاہور کے فیض میلے میں بعض سخن نا شناسوں نے قاسمی صاحب کو کلام نہیں سنانے دیا۔ اس واقعے کا دلی یا دلی کے سفرنامے سے کوئی تعلق نہیں لیکن داد دیجیے ڈاکٹر سدید کو کہ انہوں نے اس واقعے کا کئی مرتبہ ذکر کیا ہے۔ انداز یہ اختیار کیا ہے جیسے سخن نا شناسوں کی یہ حرکت انہیں ناگوار گزری ہو لیکن بین السطور سے دلی مسرت پھوٹی پڑتی ہے۔ ‘‘

 مقبول اکیڈمی کے مالک ملک مقبول احمد نے حال ہی میں (۲۰۱۱) ’آپس کی باتیں ‘ کے عنوان سے کتاب مرتب کی ہے۔ خدا ہی جانے کہ ایسا کر کے انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے دوستی نبھائی ہے یا کچھ اور معاملہ ہے۔ مذکورہ کتاب میں ڈاکٹر سدید کے جولائی ۱۹۹۳ سے جولائی ۲۰۰۱ تک مختلف جرائد میں شائع ہونے والے انٹرویوز کو یک جا کیا گیا ہے۔ کتاب میں کل اٹھارہ انٹرویوز شامل ہیں اور کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جس نے ڈاکٹر سدید سے احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر سلیم اختر کے بارے میں سوال نہ پوچھا ہو، حسن اتفاق یا قباحت اتفاق سے، ڈاکٹر سدید کے جوابات ملتے جلتے (جلتے کو زبر سے پڑھا جائے) نظر آئے۔ دو ایک اقتباسات تو ذاتی نوعیت کے ہیں، ایسے رکیک کہ اگر ہم نے یہاں شامل کر دیے تو شاید زیر نظر مضمون کو کوئی چھاپنے کو تیار نہ ہو۔

یہاں ہمیں مشفق خواجہ مرحوم ایک مرتبہ پھر یاد آئے، فرماتے ہیں :

ڈاکٹر وزیر آغا سے ڈاکٹر انور سدید کی دوستی مثالی ہے، مگر دوستی کا لفظ تعلقات کی گہرائی اور نوعیت کا پوری طرح احاطہ نہیں کرتا، معاملہ دوستی سے کچھ آگے کا معلوم ہوتا ہے۔ موصوف سے سوال کیا گیا کہ اگر آپ کی ملاقات ڈاکٹر وزیر آغا سے نہ ہوتی تو آپ کی زندگی میں کس چیز کی کمی ہوتی ؟۔۔  انہوں نے جواب دیا:

’’میری زندگی ادھوری رہتی، میں اردو ادب سے بھاگا ہوا فرد بھی شمار نہ ہوتا، محکمہ آب پاشی کے ایک گم نام کارکن کی حیثیت میں ملازمت سے ریٹائر ہو جاتا۔ جس دن وزیر آغا سے ملاقات نہیں ہوتی، میں اسے اپنی زندگی میں شمار نہیں کرتا۔ ‘‘

 خواجہ صاحب تبصرہ کرتے ہیں : ’’خوشی کی بات یہ ہے کہ محکمہ آب پاشی کا ایک گمنام کارکن آج محکمہ نمک پاشی میں ملک گہر شہرت رکھتا ہے۔ ‘‘

 بات اگر محض طنز کے پیرائے میں کہی گئی ہو تو غنیمت لیکن یہاں معاملہ اس سے کچھ سوا ہے۔ طنز کے بارے میں ایک جید نقاد کا کہنا ہے کہ ’’ طنز کی تخریبی کاروائی صرف ناسور پر نشتر چلانے کی حد تک ہے، طنز کے لیے ضروری ہے کہ یہ مزاح سے بیگانہ نہ ہو بلکہ کونین کو شکر میں لپیٹ کر پیش کرے۔ ‘‘

’آپس کی باتیں ‘ میں شامل کردہ انٹرویوز میں ڈاکٹر سدید شکر کو کونین میں لپیٹ کر پیش کرتے نظر آتے ہیں !

ہمارے خیال سے آپس کی باتیں کا درست عنوان آپس کی کدورتیں ہونا چاہیے کہ یہ کتاب ایسی باتوں سے پر ہے جن میں قاری کے ہاتھ بھی ما سوائے کدورت کے، اور کچھ نہیں آتا۔ ملک صاحب نے کتاب شائع تو کر دی لیکن اس کے جواز میں انہیں پیش لفظ بھی لکھنا پڑا۔ کتاب کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری ناقص رائے میں اس کا عنوان پیش لفظ سے بہتر پیش قبض ہونا چاہیے تھا۔

ملک مقبول پیش لفظ میں لکھتے ہیں :

’’مجھے حیرت ہوئی کہ ان (انور سدید) کے بارے میں جو باتیں ایک کان سے دوسرے کان تک خفیہ سرگوشی کی صورت میں پہنچائی جاتی تھیں ان میں انور سدید کی کردار شکنی کا زاویہ ہوتا تھا لیکن ان سے ملاقات ہوئی اور لمبی گفتگو ہوئی تو وہ افواہوں سے پھیلائے ہوئے تاثر سے مختلف انسان نظر آئے۔ میں نے یہ کتاب چھاپنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ انور سدید ہر سوال کے جواب میں نہ صرف اپنا باطن عریاں کر ڈالتے ہیں بلکہ ادبی معاشرے میں پھیلی ہوئی گرد کو بھی صاف کر دیتے ہیں ‘‘

 پیش لفظ میں تو ملک صاحب کی رائے تبدیل ہوتی دیکھی گئی لیکن ان تمام انٹرویوز کو پڑھنے کے بعد اس رائے کے ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو جانے کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ملک صاحب، ڈاکٹر سدید کی کتابوں کے پرانے ناشر ہیں، ان کی رائے کے تبدیل ہو جانے کا براہ راست تعلق ان کے کاروبار سے ہے اور ایک کامیاب کاروباری شخص ہونے کے ناطے ملک صاحب ہرگز یہ گوارا نہیں کریں گے۔ باطن عریاں کر کے ادبی معاشرے میں پھیلی ہوئی گرد صاف کرنے کا خیال اچھوتا ہے۔، بشرطیکہ گرد صاف کرنے والے کا،اسے پھیلانے میں اپنا ہاتھ نہ ہو۔

ملک صاحب نے پیش لفظ میں جناب شبیر احمد خان میواتی کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے ان انٹرویوز کو کتابی شکل میں چھپوانے کے خیال کو سب سے زیادہ تقویت دی اور ذاتی ذخیرے سے تمام انٹرویوز کے تراشے فراہم کیے۔ ہم ٹھہرے سدا کے قنوطی، اس ’میوے‘ سے کچھ انتخاب پیش خدمت ہے، یاد رہے کہ پہلے ہی انٹرویو میں (صفحہ ۱۱) ڈاکٹر سدید نے یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ دریائے جہلم کی بڑی طغیانی کے دنوں میں پیدا ہوئے تھے۔ ہم اپنے قارئین سے امید کرتے ہیں کہ وہ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اقتباسات پڑھیں گے:

جواز جعفری کا سوال : اردو تنقید میں سب سے بڑی تنقید کس نے لکھی ؟

انور سدید:’’ کیا آپ کا اشارہ عطاء الحق قاسمی کے اس جملے کی طرف ہے کہ جو نقاد ان کے ’ پیر ‘کے ایک افسانے ’بین ‘کی تعریف نہیں کرتا وہ باسٹرڈ ہے۔ ‘‘

جولائی ۱۹۸۲

٭

۔ ’’گارساں دتاسی کے بعد سب سے زیادہ ادبی جائزے میں نے اور سلیم اختر نے لکھے ہیں۔ ‘‘

۔ ’’میں احمد ندیم قاسمی سے گزارش کروں گا کہ وہ اس ادیب کو نوبل ایوارڈ دلائیں، ان کی رسائی سرکاری دربار تک ہے۔ ‘‘

۔ ’’میں ڈاکٹر سلیم اختر پر رائے دینے کا اہل نہیں ہوں، وہ سچ سننے سے گریز کرتے ہیں اور تحسین دروغ آمیز کے لیے کان کھلے رکھتے ہیں، ان کا ریاض ابھی نامکمل ہے۔ ‘‘

۔ ’’پہلے ان کا (ڈاکٹر سلیم اختر) خلوص وہاں تک جاتا تھا جہاں تک ان کی سائیکل جاتی تھی، اب وہاں تک جاتا ہے جہاں تک ڈاکٹر یزدانی کی کار انہیں لے جاتی ہے۔ ‘‘

۔ ’’میں نے ڈاکٹر وزیر آغا کو اور احمد ندیم قاسمی کو ایک خط لکھا تھا کہ وہ میرے غریب خانے پر قدم رنجہ فرما کر اکھٹے چائے نوش کریں، قاسمی صاحب نے جواب ہی نہیں دیا۔ ‘‘

۔ ’’سلیم اختر کی رائے ان کی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کے ہر ایڈیشن پر بدل جاتی ہے، جو ادیب اچھی چائے نہ پلائے وہ قابل مذمت، جو پلا دے وہ قابل تعریف ہے۔ ‘‘

۔ ’’میں انشاء اللہ اپنا دفاع راجپوتی قلم سے کروں گا۔ اس جھوٹے الزام (انور سدید کی کتاب سلیم اختر کی اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کا چربہ ہے۔ راقم) پر میں سلیم اختر کا دامن حشر کے روز بھی پکڑوں گا لیکن بقول شخصے وہ تو خدا اور اسلامی بنیادوں پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ عید کے دن بھی بیت الخلا میں بیٹھے رہتے ہیں۔ ‘‘ (افسوس کہ ڈاکٹر سدید یہ بھول گئے کہ عورت، جنس اور جذبات جیسی تخلیقات بیت الخلا ہی میں بیٹھ کر لکھی جاتی ہیں۔ راقم)

جولائی۱۹۸۲

٭

۔ ’ ’ مشفق خواجہ بنیادی طور  پر محقق ہیں اور محقق بھی اس قسم کے جو پرانی کتابوں میں سے اغلاط تلاش کر کے ان کی تصحیح کرتے ہیں۔ ‘‘

۔ ’’ڈاکٹر سلیم اختر نفسیات کے بہت بڑے نقاد ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ انہوں نے صرف نصابی سطح کی نفسیات پڑھی ہے اور اسے بھی استعمال کرنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ ‘‘

۔ ’’ ڈاکٹر سلیم اختر کے مقالے پر وزیر آغا نے اختلافی نوٹ لکھا لہذا سلیم اختر ناراض ہو گئے۔ ‘‘

۔ ’’عطاء الحق قاسمی کا پیرس کا ایک سفرنامہ فنون میں چھپا تو محترمہ افضل توصیف نے فنون ہی میں ایک خط کے ذریعے بتایا کہ اس سفرنامے میں جن مقامات اور واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ تو پیرس میں موجود ہی نہیں، یہ سفرنامہ تو ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر لکھا گیا ہے‘‘

۔ ’’ ہجرہ ایوارڈ بھی آپ کے سامنے ہے، ایک سال تو وہ ملتا ہے ڈاکٹر سلیم اختر کو اور پھر امجد اسلام امجد کو، شاید شاعری کا معیار ہی امجد اسلام امجد رہ گیا ہے۔ ‘‘

۔ ’’میں احمد ندیم قاسمی کی بخشش کی دعا کروں گا، ترقی پسندوں میں وہ جنت کے حقدار ہیں، وہ اپنے آپ کو کمیونسٹ مسلمان شمار کرتے ہیں۔ ‘‘

ماہنامہ کھیل رنگ۔ دسمبر ۱۹۸۵

٭

۔ ’’ڈاکٹر سلیم اختر پر اب تھکن کے آ ثار نظر آرہے ہیں ‘‘

۔ ’’مجھ میں حسد کی شدید کمی ہے۔ ‘‘

۔ ’’احمد ندیم قاسمی کی روحانیت پر ترقی پسندی غالب آ گئی اور وہ مادہ پرستی میں دب گئے، ان کے ہاں انسان دوستی محض نعرہ ہے لیکن باطن میں مفاد پرستی اور آدم دشمنی کا عنصر موجود ہے۔ ‘‘

۔ ’’احمد ندیم قاسمی کا یہ ارشاد ان کی پوری شخصیت کا آئینہ دار ہے کہ انور سدیدکا نام لینے سے ان کی زبان پلید ہو جاتی ہے۔ ‘‘

ُ۔ ’’ میں وزیر آغا کے علم کی چاندنی میں غسل ماہتابی کرتا رہا ہوں، میں نے (احمد ندیم) قاسمی صاحب کے جلال کی کرنیں دور سے محسوس کی۔ ‘‘

تحقیقی مقالہ ’انور سدید کی ادبی خدمات‘ کے لیے سوالنامہ۔ جون ۱۹۸۶

٭

۔ ’’ ادب میں تعصب کی، خواہ وہ ذاتی ہو یا گروہی، کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ‘‘

۔ ’’ میری تحریریں سوچ کے مسلسل عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ‘‘

۔ ’’ میں نے لودھراں میں انشائیہ کانفرنس میں گزارش کی تھی کہ انشائیہ پر مہر لگانے کا کام ڈاکٹر سلیم اختر کو سونپ دیا جائے کیونکہ وہ خود انشائیہ لکھنے پر قدرت نہیں رکھتے لیکن انشائیہ کی بنیاد ہلانے کے درپے ہیں۔ ‘‘

ماہنامہ نیرنگ خیال، راولپنڈی، فروری ۱۹۹۰

٭

حسن رضوی کا سوال: ابھی آپ احمد ندیم قاسمی کے انٹرویو کے حوالے سے ایک جملے کا حوالہ دے رہے تھے، کیا آپ یہ محسوس نہیں کرتے کہ ایسا جملہ کسی سے اکتا کر ہی ادا کیا جاتا ہے۔ آخر آپ نے بھی تو دشنام طرازی کی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ‘‘ ؟

ڈاکٹر سدید کا جواب:ہمارے بزرگ قاسمی صاحب ادبی دنیا میں ستر سال سے سیاست آزمائی کر رہے ہیں، انہیں ابھی تک کیا ادبی معاشرے کے رسوم و آداب سے بھی آگہی حاصل نہیں ہوئی ؟

۔ ’’ ڈاکٹر سلیم اختر زود رنج نقاد ہیں، مطالعے کو ہضم کرنے سے پہلے اگل دیتے ہیں، کاتنے ( کتاب میں یہ لفظ اسی طرح لکھا گیا ہے،یہ کاتب کی غلطی ہے یا پروف ریڈر کی ڈاکٹر سلیم اختر سے ہمدردی، خدا ہی جانے۔ راقم)سے پہلے دوڑنے لگتے ہیں اور زیادہ دوڑتے ہیں، ان کی تنقید مالی مفادات اور مخصوص مقاصد کی تابع فرمان ہے۔ ‘‘

۔ ’’ مجھے وزیر آغا کے قریب ہونے کا اعزاز یقیناً حاصل ہے لیکن میں نے ان کا دفاع کرنے کے بجائے ادب کا دفاع کیا ہے۔‘‘

۔ ’’ یہ اطلاع شاید آپ سب کے لیے حیرت انگیز ہو کہ وزیر آغا ا پنے خلاف لکھے دشنام کے پشتاروں کو پڑھتے ہی نہیں، مجھے یہ سب کچھ پڑھنے میں بہت مزہ آتا ہے اور جواب لکھ کر بھی میں عجیب لطف و انبساط حاصل کرتا ہوں۔ ‘‘

گفت و شنید، سنگ میل پبلیکیشنز،لاہور۔ ۱۹۹۰

٭

۔ ’’ بدقسمتی سے احمد ندیم قاسمی نے اپنے بی اے کے مطالعے کو آگے نہیں بڑھایا۔ ‘‘

۔ ’’ احمد ندیم قاسمی کی شخصی کمزوریاں اور ان کا بڑھاپا ان کے آڑے آ رہا ہے، اسی لیے ان کو مشاعروں سے نکال دیا جاتا ہے یا بلایا ہی نہیں جاتا، مجھے تو ان پر رحم آتا ہے،‘‘۔

۔ ’’ عطاء الحق قاسمی کی شاعرانہ حیثیت کو نذیر قیصر نے مشکوک قرار دیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ وہ ان (عطاء الحق قاسمی) کو غزلیں لکھ کر دیتے رہے ہیں۔ ‘‘

ماہنامہ صدائے انقلاب، لاہور۔مئی ۱۹۹۰

٭

۔ ’’ میں تو احمد ندیم قاسمی کا نیاز مند ہوں، ان کا خورد ہوں، ان کی بے پناہ عزت کرتا ہوں، انہیں ادب میں ان کے شایان شان مقام دیتا ہوں۔ میں نے حال ہی میں ان کی ۷۹ ویں سالگرہ اپنے گھر پر منائی۔ ‘‘

روزنامہ رفاقت لاہور، ۲ جنوری ۱۹۹۶

 ٭

’آپس کی بات ‘ کی قیمت ساڑھے چار سو روپے ہے، ہم نے زندگی میں پہلی مرتبہ قیمت دے کر ادبی تنازعات ’مول ‘لیے ہیں، لیکن اس کے بغور مطالعے کے بعد ہم پر کئی انکشافات ہوئے جن کے بعد یہ سودا ہمیں گراں محسوس نہیں ہوتا۔

اول: ڈاکٹر سلیم اختر عید کے دن بیت الخلا میں بیٹھے رہتے ہیں۔

دوم:ڈاکٹر انور سدید دریائے جہلم کی بڑی طغیانی کے دنوں میں پیدا ہوئے تھے۔

 سوم : ڈاکٹر وزیر آغا ا پنے خلاف لکھے دشنام کے پشتاروں کو پڑھتے ہی نہیں تھے، وہ سب تو ڈاکٹر انور سدید نہ صرف مزے لے کر پڑھا کرتے تھے بلکہ ان کے جوابات بھی ایک عجیب لطف اور انبساط کے ساتھ دیا کرتے تھے۔

چہارم : ڈاکٹر انور سدید ایک نجیب الطرفین راجپوت ہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ان کے آباء و اجداد نے کب اسلام قبول کیا تھا، یہ دوسری بات ہے کہ اس بات کا علم ڈاکٹر سدید کو بھی نہیں ہے ( بحوالہ:۱۹۹۱ کا انٹر ویو)

پنجم : ڈاکٹر انور سدید کو زبان دراز سرگودھوی کا خطاب جناب عطاء الحق قاسمی نے دیا تھا۔

ششم : عطاء الحق قاسمی صاحب کو جوابی حملے میں اللہ دتہ کالمی کا خطاب دینے والے ڈاکٹر انور سدید تھے۔

ہفتم : ڈاکٹر انور سدید کو ’ وزیر آغا کا مزارع ‘ کا خطاب ڈاکٹر سلیم اخترنے دیا تھا۔

ہشتم : ڈاکٹر انور سدید، پانی سے نہیں بلکہ ڈاکٹر وزیر آغا کے علم کی چاندنی سے غسل کرتے تھے۔

نہم : مشفق خواجہ بنیادی طور پر ایک ایسے محقق تھے جو پرانی کتابوں میں سے اغلاط تلاش کر کے ان کی تصحیح کرتے ہیں۔ (یہ جان کر ہمیں اس لیے اور زیادہ افسوس ہو رہا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے ہم مشفق خواجہ صاحب کو ایک اہم ادبی شخصیت جان کران کے سینکڑوں کالمز کا ایک انتخاب مرتب کر رہے ہیں اور اب یہ کام ہمیں رائیگاں جاتا محسوس ہو رہا ہے۔ )

دہم: ڈاکٹر انور سدید نے خلیج کی جنگ صدر جارج بش کے ساتھ بغداد میں لڑی تھی، وہ اس فوجی طیارے میں بھی سوار تھے جو فوجی بنکروں میں گھس گیا تھا، وہ بوسنیا ہرزو وینا کے مجاہد عبد العزیز سے بھی ملاقات کر چکے ہیں (جولائی ۱۹۹۳۔ انٹرویو)۔۔  لیکن ذرا ٹھہریے! یہ تمام جنگی معرکے انہوں نے خواب میں سر کیے ہیں، حقیقی زندگی کے ادبی معرکوں میں وہ حریفوں کے بنکروں میں گھسنے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں، یہ ہم ان کے زندہ بچ جانے والے حریفوں سے دریافت کریں گے۔

گیارہ: ڈاکٹر انور سدید ایک اچانک موت کے خواہشمند ہیں، وہ کہتے ہیں کہ انہیں رحمان مذہب جیسی موت پسند ہے جو لکھتے لکھتے اس دنیا سے کو چ کر گئے تھے۔ (کاش کہ کوئی ادب کا محقق ان لوگوں کی فہرست بھی مرتب کرے جو ڈاکٹر صاحب کی تحریریں پڑھتے پڑھتے اس دنیا سے کوچ کر گئے ہیں )

کتاب ’آپس کی باتیں ‘،کے آخر میں پروفیسر صابر لودھی کا ایک تبصرہ شامل ہے، وہ لکھتے ہیں :

جب انور سدید محکمہ انہار کے طویل و عریض بنگلے سے نکل کر اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہوئے تو بے حد خوش تھے۔ ان کے پرانے ساتھی نے پوچھا:

’’ اس مکان میں دل لگ جائے گا ‘‘؟

انور سدید نے مسکرا کر جواب دیا:

’’ میں طویل عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں پہنچ کر انسان کو چھ فٹ زمین کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ‘‘

ڈاکٹر صاحب کی دیگر کتابیں تو یقیناً ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں لیکن ’آپس کی باتیں ‘ کے مطالعے کے بعد اس کے قاری کو چھ فٹ زمین ہی کا خیال آئے گا۔

ممکن ہے کہ بہت سے لوگ یہ اعتراض کریں کہ ہم نے ’آپس کی بات‘ میں جملہ معترضہ پر مبنی اقتباسات ہی کیوں نکالے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جب ملک مقبول احمد، ڈاکٹر سلیم اختر، عطاء الحق قاسمی یا احمد ندیم قاسمی کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب مرتب کریں گے تو جواب آں غزل کے طور پر اس میں سے بھی ہم اقتباسات پیش کریں گے۔

٭٭٭

 

گھومتی ندی۔ ایک گھومتی خودنوشت

گھومتی ندی،پروفیسر وارث کرمانی کی خودنوشت ہے جو رام پور کی رضا لائبریری سے ۲۰۰۶ میں شائع ہوئی تھی۔ لگ بھگ ۴۵۰ صفحات پر مشتمل اس خودنوشت کے ناشر ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی ہیں، کتاب میں جن کا تعارف بطور افسر بکار خاص درج ہے۔ گھومتی ندی ماہنامہ شبخون الہ آباد میں ۲۰۰۲ سے ۲۰۰۵ تک قسط وار شائع ہوتی رہی تھی۔ پروفیسر کرمانی مدرس کی حیثیت سے علی گڑھ یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔

اس خودنوشت کی ورق گرانی کے دوران مشفق خواجہ مرحوم کے سدا بہار کردار استاد لاغر مراد آبادی یاد آئے۔ ایسی ہی ایک آپ بیتی کو پڑھنے کے بعد، استاد خواجہ صاحب سے اس کا معاوضہ طلب کرنے لگے تھے۔ فرمایا کہ مصنف کو اس کے لکھنے میں اتنی محنت نہ کرنی پڑی ہو گی جتنی مجھے اس کو پڑھنے میں صرف ہوئی ہے۔ خودنوشت سوانح عمریوں کا ’پوسٹ مارٹم ‘ کرنے میں ڈاکٹر پرویز پروازی کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ پس نوشت، پس پس نوشت اور اس کے بعد پس نوشت سوم میں ڈاکٹر پروازی نے یہ عمل جراحی بڑی بیدردی سے آزمایا ہے۔ کچھ کی اس عمل کے بعد سلائی کر دی ہے، لیکن بہتیری تو ایسی ہیں کہ آپریشن کے بعد میز پر کھلے زخموں کے ساتھ جراح کے انتظار میں پڑی ہی رہ گئیں۔

ڈاکٹر پروازی نے ہندوستان بالخصوص پٹنہ سے شائع ہوئی تمام خود نوشتوں کو روکھا پھیکا قرار دیا ہے۔ گھومتی ندی ان کی نظر سے اوجھل رہی ورنہ شاید وہ بھی اس کی زد میں آ جاتی۔

یہ ایک ایسے شخص کی داستان ہے جو ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ کل نو ابواب پر مشتمل اس کتاب میں جابجا ایک بیان کردہ موضوع سے یک لخت دوسرے پر جست لگانے کی علت پائی جاتی ہے۔ ایک جگہ مصنف امریکہ کے پروفیسر برو س اور ان کی اہلیہ، جو علی گڑھ میں تحقیق کے لیے آئے ہوئے تھے، سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہیں اور پھر یکایک دیوا شریف کی اودھی زبان کے اشعار اور کہاوتوں کا تذکرہ شروع ہو جاتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم یہ کہیں کہ وارث کرمانی ۱۹۲۵ میں دیوا شریف میں پیدا ہوئے اور اب ریٹائر ہو کر دیوا شریف ہی واپس چلے گئے ہیں۔

یادوں کی برات میں حضرت جوش نے اپنے اٹھارہ معاشقوں کا ذکر کیا ہے۔ یادوں کی برات پاکستان سے شائع ہوئی تھی، پروفیسر وارث کو ہندوستان میں یہ محاذ خالی جاتا دیکھنا گوارا نہ ہوا اور انہوں نے بھی جوش کی تقلید میں اپنی رومان پرور داستانوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک معاملہ تو ایسا ہوا کہ وہ اپنی بیوی کی سہیلی کے خط کا جواب لکھنے کے دوران ان (سہیلی) پر عاشق ہو گئے۔۔ ۔ ۔  کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا، پھر دونوں کو بیوی کے ڈر سے چھوڑ دیا۔

قرۃ العین حیدر نے اپنا ناول آگ کا دریا زہرا خاتون بیگم جرار حیدر کے نام کیا تھا، انہی زہرا خاتون پر بھی پروفیسر صاحب عاشق ہو گئے تھے۔ نتیجہ خاتون کی بیزاری کی صورت میں نکلا۔

کہیں کہیں مصنف نے اپنے بارے میں بڑی بیباکی سے الفاظ و تشبیہات کا استعمال کیا ہے، ایک جگہ کہتے ہیں :

’’علی گڑھ یونیورسٹی میں، میں نے اپنے حلقہ احباب کو اخوان الشیاطین کا خطاب دے رکھا تھا، بغیر یہ سوچے ہوئے کہ میں خود انہی میں شامل تھا۔ ‘‘

کتا ب کے شروع میں چند حضرات کے تبصرے بھی اہتمام کے ساتھ شامل کیے گئے ہیں۔ جموں سے کسی جگناتھ آزاد نے لکھا ہے: ’’ وارث کرمانی کی گھومتی ندی کا تیسرا باب ارض کنعاں میں نے اپنی علالت کے باوجود اول سے آخر تک پڑھ لیا۔‘‘

 جگناتھ آزاد صاحب نے یہ نہیں لکھا کہ مذکورہ باب کو پڑھنے کے بعد ان کی علالت میں کیا رد و بدل ہوا ؟ یہ معمہ بھی حل طلب ہی رہا کہ آزاد صاحب ’ارض کنعاں ‘ پڑھنے سے پہلے علیل تھے یا اس کے بعد ہوئے !

گھومتی ندی کے مطالعے کے دوران قاری، اس کتاب کے ساتھ ہی گھومتا رہتا ہے۔ اور آخر میں اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی دائرے میں گھوم رہا تھا۔

دائرہ وار ہی تو ہیں عشق کے راستے تمام

راہ بدل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

گھومتی ندی ایک خودنوشت سے زیادہ پروفیسر وارث کرمانی کا ذاتی روزنامچہ معلوم ہوتی ہے۔ اس بات کا اعتراف انہوں نے کتاب کے صفحہ نمبر ۱۵۰ پر کھلے دل سے کیا ہے۔ اسی صفحے پر وہ مزید لکھتے ہیں : ’’ میری اس سوانح حیات میں جو حصہ سوانح نہیں ہے، وہی قابل توجہ اور باعث دلچسپی ہو سکتا ہے۔ ‘‘

حیرت انگیز طور پر یہ بات اس کے برعکس ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ مذکورہ کتاب کا و ہ تھوڑا سا حصہ جو سوانح ہے، وہی قابل توجہ ہے۔

پروفیسر صاحب نے ایک جگہ ظفر اقبال کے یہ اشعار نقل کیے ہیں اور خود بھی حیرت کا اظہار کیا ہے اور پڑھنے والے کو بھی اپنے انتخاب پر ششدر کر دیا ہے:

رنگت ہی بدل گئی بدن کی

جب سانپ نے پہلی بار ڈسا

ڈھیلے ہیں پڑے ہوئے میاں تو

بیگم کا ابھی وہی ہے ٹھسا

پانی اتنا ملا کے اس نے

لسی کا کر دیا ہے لسا

 ایک دلچسپ اور واقعات سے بھری پری خودنوشت میں سے اقتباسات نکالنا بہت دقت طلب کام ہوتا ہے، اور کیا لیا جائے اور کیا چھوڑا جائے، اس کا فیصلہ مشکل۔۔ ۔ ۔  لیکن گھومتی ندی میں ایسے اقتباسات نکالنا جن میں میں دلچسپی کا عنصر ہو، اتنا آسان نہیں۔ اس کے لیے آپ کو لگ بھگ ۴۵۰ صفحات کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ کہتے ہیں کہ بعض سفلی عملیات میں الہامی کتابوں کو الٹا پڑھا جاتا ہے، اگر آپ اس پر عمل کرتے ہوئے گھومتی ندی کو بھی اسی طور برتیں تو منزل یک دم سہل ہو جائے گی اور کتاب کے آخری صفحے پر درج سب سے عمدہ پیراگراف سامنے ہو گا جو کچھ اس طرح ہے:

 ’’ گھومتی ندی بہت سے پیچ و خم اور نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی اپنے مخرج تک پہنچنے والی ہے۔ میری پر شور زندگی گزر چکی ہے اور اس کی بہت دھندلی سی آواز بہت دور سے کانوں میں آ رہی ہے، کبھی ابھرتی اور کبھی ڈوب جاتی ہے۔ میرے چاہنے والے میرے سرپرست رخصت ہو چکے ہیں۔ ندی کے پانی میں غروب آفتاب کا منظر میرے سامنے ہے۔ شاد عظیم آبادی کی طرح میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں۔ ساحل پر حسرت بہت کم ہے، البتہ حیرت زیادہ ہے۔ ‘‘

مندرجہ بالا اقتباس ہمیں اس لیے حسب حال لگا کہ گھومتی ندی پڑھنے کے بعد ہم بھی اسے ہاتھ میں تھامے حیرت و حسرت کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔ حسرت بہت کم ہے، البتہ حیرت زیادہ ہے۔ !

٭٭٭

کہاں سے لاؤں انہیں

خاکہ نگاری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ تحریر ہے جس میں خاکہ نگار کسی انسان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اس طرح اجاگر کرے کہ وہ شخصیت قاری کو ایک زندہ شکل میں نظر آئے اور خاکہ نگار نے اس انسان کی زندگی کا جس قدر مشاہدہ کیا ہو، غیر جانبداری سے اس سے متعلقہ حالات و واقعات کو قاری کے مطالعہ میں لے آئے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں :

’’ اردو ادب میں خاکہ مختصر افسانے کی طرح ایک نئی صنف ہے۔ اس سے پہلے ہمیں طویل سوانح عمریاں تو ملتی ہیں لیکن ان کی حیثیت عام طور پر ادبی کم اور تاریخی زیادہ ہے۔ غالب کے فورا بعد کے دور میں سوانح نگاری نے ایک خاص اہمیت حاصل کر لی اور حالی کی یادگار غالب، حیات سعدی، حیات جاوید، شبلی کی حیات ابو حنیفہ، المامون اور الفاروق وغیرہ سامنے آئیں۔ یہ چیزیں مستقل تصانیف ہیں اور ان میں کسی ایک شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو ہر زاویہ نگاہ سے دیکھا اور دکھایا گیا ہے۔ ان میں تاریخی اہمیت زیادہ اور کردار نگاری کا عنصر کم ہے۔ ‘‘

مختلف شخصیات پر مبنی خاکوں کی کتابیں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہتیں ہیں لیکن کیا ہر کتاب ڈاکٹر جالبی کے بیان کردہ معیار پر پورا اترتی ہے ؟

اس ضمن میں ممتاز رفیق تصویر خانہ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :

’’ سعادت حسن منٹو نے اپنے خاکوں میں فرشتوں کا مونڈن کیا اور آج ہم خاکہ نگاروں کے ہاتھوں خاکہ نگاری کا مونڈن ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ان دنوں شائع ہونے والے خاکوں کے مجموعوں میں ہمیں فرشتوں کا اجتماع نظر آتا ہے جس میں ہر فرد دھلا منجھا اور تقریباً ہر انسانی کم زوری سے مبرا دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خاکہ نگاری بے حد مشکل صنف ہے جس کا تمام حسن سچائی، دیانت داری اور اس کے غیر جانبدارانہ اظہار میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ خاکہ نگار کی مثال ایک ایسے فرد کی سی ہے جو اپنے ہاتھوں میں آئینہ لیے پھرتا ہے اور جو فرد اس آئینے میں تصویر ہوتا ہے اسے پوری ایمانداری سے بے کم و کاست کاغذ پر نقش کر دیتا ہے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، اشرف صبوحی، مولوی عبدالحق، شاہد احمد دہلوی، ڈاکٹر آفتاب احمد، قرۃ العین حیدر، نصر اللہ خان، مالک رام اور ڈاکٹر اسلم فرخی بلا شبہ خاکہ نگاروں کی فہرست کے قد آور نام ہیں۔

محمد طفیل، حمید اختر، انور ظہیر خان اور صبیح محسن خاکہ نگاری میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ فلمی خاکوں میں رضا ہاشمی (لاہور)، انیس امروہوی (دہلی)نے دلچسپ خاکے تحریر کیے ہیں۔ دسمبر 2011 میں مدیر و ناشر جناب اجمل کمال نے اپنے سہہ ماہی جریدے آج کے شمارہ نمبر 71 میں ہندوستان کے جاوید صدیقی کے تحریر کردہ گیارہ اہم فلمی شخصیات کے رنگا رنگ خاکے شائع کیے ہیں۔

ڈاکٹر بشیر سیفی نے چند اہم خاکہ نگاروں کے تحریر کردہ خاکوں کو مختلف خانوں میں بانٹا ہے۔ ان کے مطابق تعارفی خاکوں میں چراغ حسن حسرت اور رئیس احمد جعفری، مدحیہ خاکوں میں رشید احمد صدیقی، نفسیاتی خاکوں میں ممتاز مفتی اور یک رخی خاکوں میں دوزخی از عصمت چغتائی اور جوش ملیح آبادی از شاہد احمد دہلوی کے نام بہ آسانی لیے جا سکتے ہیں۔

چند روز قبل (دسمبر 2011) خاکوں کی ایک ایسی کتاب شائع ہوئی ہے جس کے مصنف کہنے کو تو ایک نامور محقق، مدرس و فارسی داں ہیں لیکن یہ کتاب لکھ کر انہوں نے وصف خاکہ نگاری کے تمام اہم تفاضوں کو پورا کیا ہے۔ یہ ذکر ہے حافظ محمود شیرانی کے پوتے اور اختر شیرانی کے صاحبزادے پروفیسر مظہر محمود شیرانی اور ان کی کتاب ’ کہاں سے لاؤں انہیں ‘ کا۔

پروفیسر مظہر شیرانی 9 اکتوبر 1935 کو راجپوتانہ کی ریاست جودھ پور میں کے گاؤں شیرانی آباد میں پیدا ہوئے۔ دربار ہائی اسکول ٹونک اور میونسپل ہائی اسکول لاڑکانہ (سندھ) سے ابتدائی تعلیم حاصل کی او ر بعد ازاں نقل مکانی کر کے پنجاب چلے آئے۔ شیخوپورہ سے میٹرک اور لاہور سے ایف اے، بی اے اور اس کے بعد تاریخ میں ایم اے کیا۔ فارسی زبان سے قلبی لگاؤ کی بنا پراس میں ایم اے کیا اور پھر اپنی تمام تر صلاحیتیں اسی شعبے کی نذر کر دیں۔ مظہر شیرانی نے 1963 میں شیخوپورہ میں رہائش اختیار کی اور تا حال وہ اسی شہر میں مقیم ہیں۔ پہلے گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں تدریسی خدمات سر انجام دیں۔ سن اسی کی دہائی میں اپنے دادا حافظ محمود شیرانی پر پی ایچ ڈی مکمل کی۔ 1995 میں گورنمنٹ کالج شیخوپورہ سے ریٹائر ہوئے لیکن 2003 میں 51 جلدوں پر مشتمل فارسی لغت کو مرتب کرنے کا وہ جناتی کام شروع کیا جو انہیں ایک مرتبہ پھر گورنمنٹ کالج لاہور لے آیا۔ مظہر محمود شیرانی کے علمی و تحقیقی مضامین پاکستان کے نامور جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ 2006 میں ’بے نشانوں کا نشاں ‘ کے عنوان سے خاکوں کی پہلی کتاب شائع ہوئی جس میں عام لوگوں کے خاکے ہیں، بالکل ویسے جیسا کہ بابائے اردو نے نام دیو مالی کا خاکہ لکھ کر اسے امر کر دیا ہے۔ رشید احمد صدیقی کا کندن اور اشرف صبوحی دہلوی کا مٹھو بھٹیارا ایسی ہی چند مزید مثالیں ہیں۔

کہاں سے لاؤں انہیں میں کل بارہ خاکے ہیں۔ ’ شعلہ مستجل ‘کے عنوان سے کتاب کا پہلا خاکہ مصنف نے اپنے والد اختر شیرانی مرحوم پر لکھا ہے۔ دیگر خاکوں میں احمد ندیم قاسمی، مشفق خواجہ، مولانا سید محمد یعقوب حسنی، پروفیسر حمید احمد خان، سید وزیر الحسن عابدی، حکیم نیر واسطی، اکرام احسن خان، ڈاکٹر ضیاء الدین دیسائی، ڈاکٹر غلام مصطفی خان،رشید حسن خان اور پروفیسر وحید قریشی کے خاکے شامل ہیں۔ ان تمام  خاکوں کے عنوانات ایسے دلچسپ ہیں کہ قاری انہیں پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

نباض الملک، صاحب اکرام، بن ٹھن کے کہاں چلے؟، نظیر خویش نہ بگذاشتند و بگذ شتند، کون گلی گیو خان، سانجھ بھئی چودیس وغیرہ۔

کتاب کا ابتدائی خاکہ نہ صرف اہم ہے بلکہ شاعر رومان کی زندگی کی تہہ در تہہ پرتوں کو عیاں کرتا ہے۔ اس سے قبل اختر شیرانی ہمیں منٹو کے خاکے میں ایک رند بلا نوش نظر آئے تھے۔ لیکن ’شعلہ مستجل ‘ میں مظہر شیرانی نے جہاں اپنے والد کی شفیق شخصیت کو دیانتداری سے نمایاں کیا ہے وہاں ان کی بادہ نوشی اور اس کے اثرات کا ذکر بھی تفصیل سے کیا ہے۔ مذکورہ خاکے کا طرز بیاں ملاحظہ ہو:

’’ درمیانہ قد، وجیہ چہرہ، کسرتی جسم پر کھلے پا ئنچوں کا پاجامہ،قمیض اور شیروانی، پاؤں میں گرگابی یا پمپ شو، یہ تھے ہمارے والد اختر شیرانی جنہیں ہم پنجابی محاورے کے مطابق بھا ء جی کہا کرتے تھے۔ وہ ہم بہن بھائیوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے کبھی مجھے مارا یا جھڑکا ہو۔ کھانے پینے کا انہیں شوق نہیں تھا، ان کی ضروریات شراب کے علاوہ سگریٹ اور پان تک محدود تھیں۔

۔۔ ۔  ان ایام میں خندہ روئی اور خوش مزاجی ان پر غالب رہتی تھی۔ ہم بچوں سے ہنسی مذاق کرتے اور پھلجھڑیاں سی چھوڑتے رہتے۔ ایک روز سہہ پہر کی چائے میں ذرا تاخیر ہوئی۔ انہوں نے یاد دلایا۔ ہماری والدہ نے کہا پانی رکھا ہوا ہے، جوش نہیں آیا۔ بولے جوش کی کیا ضرورت ہے، جب اختر موجود ہے۔ ماں نے ایک بار بیٹے (اختر شیرانی) کے لیے کرتا سلوایا اور پہناتے وقت بڑے چاؤ سے اپنی طلائی گھنڈیاں جن میں تہری زنجیریں پڑی ہوئی تھیں، لگا دیں۔ وہ باہر نکلے۔ کسی ضرورت مند نے سوال کیا، انہوں نے زنجیریں نوچ کر اس کو بخش دیں۔ ‘‘

اختر شیرانی کی بادہ نوشی ان کے گھرانے کے لیے اور بالخصوص ان کے والد حافظ محمود شیرانی کے لیے سوہان روح بن گئی تھی۔ اس علت کو چھڑانے کی غرض سے ان کے اہل خانہ طرح طرح کے ٹو ٹکے آزماتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے بھنگ کی تجویز پیش کی، اگلے روز دستر خوان پر بھنگ ملی برفی موجود تھی جسے اختر شیرانی نے آنکھ تک اٹھا کر نہ دیکھا۔ مظہر شیرانی لکھتے ہیں :

’’ ایک روز کسی بقراط نے شیر کا جھوٹا گوشت پکا کر کھلانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس عمل سے شراب ہمیشہ کے لیے چھوٹ جاتی ہے۔ جے پور کے چڑیا گھر سے رابطہ کر کے شیر کا پس خوردہ منگوایا گیا اور بڑے اہتمام سے اختر صاحب کے آگے رکھا گیا۔ انہوں نے کھایا بھی لیکن نتیجہ وہی ٹائیں ٹائیں فش۔ اور شراب چھوڑی تو کس وقت! جب مرض الموت میں مبتلا ہو کر میو اسپتال میں داخل ہوئے۔ حالت سقیم ہوئی تو ڈاکٹروں نے صلاح کر کے کوشش کی کہ انہیں دو گھونٹ بطور دوا پلائے جائیں، لیکن جب آب طربناک کا جام منہ کے نزدیک لے جایا گیا تو اس کی بو سونگھتے ہی ہونٹ بھینچ لیے او ر منہ کی طرف اشارہ کر کے انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھا دی۔ مطلب تھا کہ مے آلودہ دہن لے کر بارگاہ خداوندی میں حاضر ہونا مناسب نہیں ‘‘

مظہر شیرانی نے متذکرہ خاکے میں بحوالہ قمر تسکین ایک حیرت انگیز بات لکھی ہے۔ 1942 کی بات ہے، اختر شیرانی عرب ہوٹل میں احباب کے ساتھ محفل جمائے ہوئے تھے کہ ایک سانولے رنگ کا نوجوان اندر داخل ہوا اور اختر مرحوم کو سلام کر کے اور ایک کاغذ ان کی جانب بڑھا کر ادب سے ان کے قریب بیٹھ گیا۔ اختر صاحب نے جیب سے قلم نکالا اور اصلاح شروع کر دی۔ اختر کو نوجوان کی غزل میں ایک شعر سخت ناپسند تھا جسے حذف کر کے انہوں نے اس کی جگہ ایک اور شعر لکھا اور پھر اس شعر کو احباب کے سامنے پڑھا:

اے دوست ہم نے ترک تعلق کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

قمر تسکین لکھتے ہیں کہ اختر کے اس نوجوان شاگرد کا نام ناصر کاظمی تھا اور متذکرہ شعر ناصر کاظمی کی غزل میں استاد کا عطیہ تھا۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ شعر اس غزل کی جان قرار پایا۔

حکیم نیر واسطی کا خاکہ نباض الملک بھی ماضی کی یادوں اور متفرق واقعات کا مرقع ہے۔ اختر شیرانی کے حکیم نیر واسطی کے ساتھ مراسم انتہائی بے تکلفانہ نوعیت کے تھے۔ مظہر شیرانی لکھتے ہیں کہ ’’ والد کا مزاج گھڑی ماشہ گھڑی تولہ۔ جب لاڈ میں ہوتے تو حکیم صاحب کو قبلہ کہہ کر مخاطب کرتے اور جب ترنگ میں بگڑ بیٹھتے تو مجمع میں بے نقط سنا دیتے۔ مگر واہ رے حکیم صاحب مجال ہو کہ کبھی چتون پر بل آیا ہو۔ ہنس ہنس کر فرماتے مولانا! یہ سب گالیاں پرانی ہو گئی ہیں، کوئی نئی گالی دیجیے۔ ‘‘

حکیم نیر واسطی کی طبیعت میں بذلہ سنجی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ایک روز مظہر شیرانی اپنے ایک دوست کے بھائی کو لے کر حکیم صاحب کے پاس پہنچے۔ نوجوان لڑکا تھا، تبخیر معدہ کا مریض، بیماری بڑھتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کہ جنون کی کیفیت میں دو مرتبہ خودکشی کی کوشش کرتے پکڑا گیا۔ حکیم صاحب نے نوجوان کی نبض پکڑی اور بولے میں جو پوچھتا جاؤں اس کا جواب دیتے جانا۔ پیٹ سے گیس اٹھتی ہے ؟ یہ گیس دل کو چڑھتی ہے؟ کھانا ہضم نہیں ہوتا؟ گھبراہٹ، پریشانی، خودکشی کرنے کو جی چاہتا ہے ؟

مریض ہر سوال کے جواب میں جی ہاں، جی ہاں کرتا جاتا تھا۔ آخری سوال کے جواب میں اس نے بڑے خشوع و خضوع سے اثبات میں جواب دیا۔

حکیم صاحب نے نبض چھوڑی اور اور ایک قہقہہ لگا کر کہا تو پھر کب ارادہ ہے ؟

 نظیر خویش نہ بگذاشتند و بگذ شتند، ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب (حیدرآباد،سندھ ) کا خاکہ ہے۔ مظہر شیرانی نے ڈاکٹر صاحب قبلہ کی کتاب فضل کبیر میں درج کئی مکاشفات بیان کیے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ:

۔۔  ’ ’ایک مرتبہ حضرت عیسی علیہ السلام کی مجھ سیاہ کار پر شفقت ہوئی۔ فرمایا کہ مجھے مسلمان قوم سے شرم آتی ہے کہ میری قوم نے ان کو بہت دھوکے دیے ہیں۔ ‘‘

۔۔  ’’ ایک مرتبہ حضرت شہباز قلندر کی خدمت میں پروفیسر علی نواز جتوئی کے ساتھ ریل میں سہیون پہنچا، وہاں سے تانگے میں بیٹھ کر ہم لوگ مزار شریف کی طرف جانے لگے تو حضرت شہباز قلندر خود ہی تشریف لے آئے۔ فرمایا: تم کہاں جا رہے ہو ؟ میں تو بدعات کی وجہ سے وہاں نہیں رہتا۔

۔۔  ’’ بالا کوٹ میں موٹر اسٹینڈ کے قریب ہی حضرت سید احمد شہید کا مزار ہے۔ وہاں عجیب کیفیت ہوئی۔ مزار کے قریب پھسل کر گر پڑا اور بے تاب ہو گیا۔ پھر سکون ہوا تو حضرت سید احمد شہید نے فرمایا میں اسی جگہ شہید ہوا تھا اور میرا گھوڑا بھی یہیں کھڑا ہوا تھا، شاہ اسمعیل لڑتے ہوئے آگے بڑھ گئے اور آگے جا کر شہید ہوئے، تمہارے (ڈاکٹر غلام مصطفی) بعض اعزا بھی میرے ساتھ تھے۔ ‘‘

۔ ۔  اپریل 1968 میں معروف دانشور علامہ آئی آئی قاضی نے دریائے سندھ میں کود کر خودکشی کر لی تھی، اس موقع پر ایک بزرگ نے کہا کہ ان کی نماز جنازہ پڑھانا جائز نہیں ہے لیکن ڈاکٹر غلام مصطفی خان نے علامہ صاحب کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ڈاکٹر غلام مصطفی بیان کرتے ہیں کہ یہ واقعہ تیرہ اپریل کا ہے، نماز جنازہ اور تدفین سے فارغ ہو کر میں گھر آیا اور سو گیا۔ رات کو تین بجے علامہ صاحب تشریف لائے۔ مجھے جگایا اور فرمایا تم نے ابھی تک تہجد کی نماز نہیں پڑھی۔ میں نے وضو کیا اور نماز شروع کی، علامہ صاحب میرے مصلے کے قریب بیٹھے رہے، پھر فرمایا مجھ سے غلطی ہوئی لیکن اللہ تعالی بڑا رحیم و کریم ہے۔

مظہر شیرانی لکھتے ہیں کہ :

 ’’ڈاکٹر غلام مصطفی خان قبلہ کی نظر صحیح معنوں میں کیمیا اثر تھی۔ ان کے تصرف کا ایک واقعہ ڈاکٹر اسلم فرخی کے حوالے سے یہاں درج کرتا ہوں۔ 1988 میں جب ڈاکٹر صاحب کو انجمن ترقی اردو کی طرف سے نشان سپاس پیش کیا جانا تھا، ان دنوں انجمن کے صدر نور الحسن جعفری تھے۔ وہ حکومت پاکستان کے معتمد مالیات کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے اور ’صاحب‘ آدمی تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے اعزاز میں جلسے کی اجازت تو دے دی لیکن خود اس میں شرکت سے معذرت کر لی۔ بہرحال انجمن کے دوسرے کار پردازان کے اصرار پر نور الحسن جعفری جلسے کی صدارت پر آمادہ ہو گئے۔ مختلف تقاریر کے بعد آخر میں جعفری صاحب صدارتی کلمات کہنے کے لیے مائیک پر آئے تو بجائے کچھ کہنے کے زار و قطار رونے لگے۔ پھر ہاتھ جوڑ کر بولے حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خان صاحب، مجھے معاف کر دیجیے۔ میں آپ کے مقامات ظاہری اور مراتب باطنی سے بالکل بے خبر تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اٹھ کر انہیں سینے سے لگایا اور تسلی دی تب کہیں جا کر ان کو قرار آیا۔ ‘‘

’ کہاں سے لاؤں انہیں ‘ ایک ایسی کتاب کہلانے جانے کی حقدار ہے جس کے مصنف نے خاکہ نگاری کے بھاری پتھر کو محض چوم کر نہیں رکھ دیا ہے بلکہ تمام شخصیات کی یادوں کو دلنشیں و مربوط انداز سے سمیٹا ہے اور ان سے متعلق ہر اس بات کا ذکر کیا ہے جس سے ان شخصیات کے مصنف سے تعلقات نکھر کر سا منے آتے ہیں۔

خوبصورت سرورق سے مزین اس کتاب کو القا پبلشر، لاہور نے شائع کیا ہے۔ صفحات 285 اور قیمت 590 ہے

ناشر کا پتہ و فون نمبر یہ ہے:

12 K، مین بلیوارڈ، گلبرگ 2، لاہور 54660

فون نمبر: + 92-42-35757877

ای میل پتہ:

info.iqbalpublications@reading.com.pk

٭٭٭

 

اثر غوری کی شاعری میں آسیبی کیفیات

آندھرا پردیش، حیدرآباد دکن سے ایک کرم فرما نے ہمیں محترم اثر غوری کے کلام پر حضرت نادر المسدوسی کا ستائشی تبصرہ ارسال کیا ہے اور تبصرے کے بارے میں ہماری رائے جاننا چاہی ہے۔

صاحبو ! خامہ بگوش نے کیا خوب کہا تھا کہ فی زمانہ جس رفتار سے شعراء کرام پیدا ہو رہے ہیں، اس کے مقابلے پر قارئین کی شرح پیدائش بہت کم ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ آگے چل کر یہ صنف بالکل ہی معدوم ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں قاری کی پریشانی کا تذکرہ غیر ضروری ہے، شعرائے کرام کی پیدائش پر شکر کرتے رہنا ہی کافی ہے۔ نیز اس عذاب الہی سے ڈرتے رہنا چاہیے جو شاعروں کی صورت میں قوموں پر مسلط کیا جاتا ہے۔ ‘‘

نادر المسدوسی، غوری صاحب کو دکن کے صف اول کے شعراء میں شمار کرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ صف کن اشخاص پر مشتمل ہے۔ حضرت مسدودی کے مطابق،اثر غوری کا ایک وصف خاص جسے وہ ودیعت الہی سے تعبیر کرتے ہیں،یہ ہے کہ جناب غوری کی ابتدا سے تا حال (۱۹۸۳ تا ۲۰۰۵) شاعری کی سطح ہموار ہے۔ ہمارے ایسے طفل مکتب کے مطابق یہ سطح اس قدر ہموار ہے کہ یہاں آپ کچھ بھی کاشت کر سکتے ہیں۔

 اپنی بیان کی تائید میں نادر المسدوسی نے اثر غوری کے ۱۹۸۳ کے مجموعے سے یہ شعر نقل کیا ہے:

ہیں ویران کیوں شہر کے بام و در

اندھیرا تو کچے مکانوں میں ہے

اس کا موازنہ انہوں نے غوری صاحب کے ۲۰۰۵ کے مجموعے کے مندرجہ ذیل شعر سے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان دونوں مجموعوں کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سا کلام کس زمانے کا ہے۔

مجھے تو لگتا ہے پاگل ہے گھر کا سناٹا

تمام رات جو دیوار و در میں رہتا ہے

 دونوں مجموعوں کے درمیان ۲۲ برس کا وقفہ ہے اور اس دوران بات ویرانی اور اندھیرے سے ہوتے ہوتے پاگل پن اور سناٹے کی کیفیت میں آ پہنچی لیکن حیرت کی بات ہے کہ مسدودی صاحب اسے محسوس نہ کر پائے۔

مسدوسی صاحب نے اپنے تجزئیے میں ایک ستم یہ بھی کیا ہے کہ جا بجا اثر غوری کے کلام کا موازنہ غالب، فیض اور ناصر کاظمی سے کر ڈالا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :

 ’’ ملاحظہ فرمائیے کہ ناصر کاظمی کہتے ہیں :

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر

اداسی بال کھولے سو رہی ہے

اثر غوری کہتے ہیں :

چٹائی شام غم کی کیا بچھاؤں

میرے کمرے کا چھپر بن رہا ہے

ایک اور جگہ حضرت مسدودی فرماتے ہیں :

’’پرانے دور کے شاعر کی تنہائی اس کی ذات اور درون خانہ کی حد تک محدود تھی۔ لیکن آج کے شاعر کی تنہائی سماج کے ہر فرد کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ ‘‘

مسدوسی صاحب اپنے بیان کی تائید میں مزید لکھتے ہیں :

فیض کا یہ شعر دیکھئے:

درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا

اور سکون ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

غالب نے کہا تھا:

تھی وہ اک شخص کے تصور سے

اب وہ رعنائی خیال کہاں

مسدوسی صاحب نے مندرجہ بالا جید شعراء کی ٹکر پر اثر غوری کا یہ ٹکڑا نقل کیا ہے:

جدا ہو کر بھی ہم ایک دوسرے سے

جانے کیوں محبت کر رہے ہیں

 آنکھ بند بھی کر لے تو دکھائی دوں گا

عمر بھر میں ترے کانوں میں سنائی دوں گا

ان اشعار کو سن کر ای این ٹی کے ڈاکٹروں کے کان کھڑے ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔ ہمارے خیال سے عاشق اگر محبوب کے کانوں میں عمر بھر سنائی دیتا رہے گا تو محبوب کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہ سکتا۔ بلکہ اس کی زندگی تو عمر بھر کے لیے ’گونجتے کانوں ‘ کا مرکب بن کر رہ جائے گی اور اس بات کا قوی امکان بھی ہے کہ یہ گونجتے کان کچھ عرصہ میں بہنے بھی لگیں گے۔ محض گونجتے کانوں پر کیا موقوف، مسدوسی صاحب نے اثر غوری کے کلام میں چند مزید پرہول کیفیات کی بھی نشان دہی کی ہے۔ لکھتے ہیں :

’’ اثر غوری کا جدید لب و لہجہ دیکھئے کہ کس طرح انہوں نے چونکا دینے والی کیفیت پیدا کی ہے۔

رات بھر چیختے ہیں سناٹے

کوئی آسیب ہے مکان میں کیا

 اثر غوری کے پہلے مجموعہ کلام ’بوند بوند روشنی‘ کا یہ شعر بھی اسی تنہائی کی طرف اشارہ کرتا ہے:

ہر طرف خوفناک چیخیں ہیں

کس بھیانک کھنڈر میں اترا ہوں ‘‘

 ہمیں تو ان اشعار کا قاری چونکنے سے زیادہ خوف زدہ ہو تا نظر آتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کو جناب اثر غوری کی سلامتی کی فکر بھی لاحق ہو جاتی ہے۔ خامہ بگوش کی رحلت کے بعد ان کے دیرینہ ہمدم، استاد لاغر مراد آبادی ہمیں ایک سالخوردہ چائے خانے میں بیٹھے مل گئے۔ ان چھ برسوں میں وہ مزید لاغر ہو چکے ہیں لیکن بذلہ سنجی کا وہی عالم ہے جو خامہ بگوش کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔ استاد نے یہ اشعار سن کر فرمایا کہ ’’ اس قسم کے اشعار کے ساتھ تو کسی کھنڈر ہی میں اترا جا سکتا ہے۔ لیکن شاعر کو فکر مند ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس کے پاس ان آسیبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک موثر حربہ ہے اور وہ ہے ان کی اپنی شاعری! ‘‘

انہی آسیبی کیفیات کو مزید بیان کرتے ہوئے جناب غوری کا تازہ شعر ملاحظہ ہو:

جھولتی ہے فکر کی کرسی اثر

اپنے کمرے کے ذرا اندر چلو

خامہ بگوش نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا:

’’ ہماری طرح بے شمار لوگوں کو پہلے بار معلوم ہو گا کہ شاعری کتنی مشکل سے وجود میں آتی ہے۔ ردیف اور قافیے کی حد تک تو کام آسان ہے لیکن احساس کی مکانیت اور زمانیت تخیل اور جذبے کے جمالیاتی آہنگ کے ساتھ منطق کو صورت پذیر کرنا، ہفت خوان رستم طے کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ ‘‘

 خامہ بگوش نے ٹھیک ہی تو کہا تھا، جناب اثر غوری کے معاملے میں یہ بات واضح ہوئی کہ اتنی مشقت کے بعد ہی اس قسم کے شعر کہے جا سکتے ہیں :

بچے کی آنکھ لگ گئی اتوار بھی ہے کل

بتی بجھاؤ گہری بہت رات ہو گئی

۔۔ ۔

اثر دفتر سے جلدی لوٹ آنا

کوئی ماں کے علاوہ بولتا ہے

حضرت مسدوسی مندرجہ بالا اشعار پر فریفتہ ہو کر یہ نوید بھی سناتے ہیں کہ سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد دکن میں ایک ریسرچ اسکالر انجم شافعی نے پروفیسر محمد انور الدین کی زیر نگرانی ’’ اثر غوری فن اور شخصیت‘‘ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا اور درجہ اول میں کامیابی حاصل کی۔

ہمارے خیال سے یہاں حضرت مسدوسی سے مقالے کے عنوان کے بیان میں سہو ہوا ہے۔ مقالہ ضرور لکھا گیا ہو گا اور اس کی درجہ اول میں کامیابی پر تو ہمیں صد فیصد یقین ہے، البتہ درست عنوان یہ رہا ہو گا:

اثر غوری۔ FUN اور شخصیت

٭٭٭

خلاؤں میں اڑتی شاعری

حال ہی میں ایک ادبی جریدے نے کینیڈا میں مقیم شاعر، ادیب، افسانہ نگار عبداللہ جاوید اور ان کی اہلیہ شہناز خانم عابدی کو قرطاس اعزاز پیش کیا گیا ہے۔ ایک علاحدہ گوشے میں عبداللہ جاوید کے طویل انٹرویو اور افسانے کے علاوہ عبداللہ جاوید کے کمال فن پر اقبال بھٹی، گلزار جاوید، ستیہ پال آنند، صابر وسیم،اے خیام، مبین مرزا، اکرام بریلوی و دیگر کی آراء شامل کی گئی ہیں۔ ادبی جریدوں میں مختلف شعراء و ادباء کے فن اور شخصیت پر خصوصی گوشے شامل کرنے کی روایت زور پکڑتی جا رہی ہے۔ ہم ایسے گوشہ نشین شخص کے لیے تو یہ گوشے بہت معلوماتی ہوتے ہیں، اس طرح گھر بیٹھے بیٹھے گوشہ گمنامی میں پڑے کسی شاعر یا ادیب سے تعارف ہو جاتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ اکتوبر2011 میں کراچی میں ا یکسپریس اخبار کے زیر اہتمام منعقد ہوئی عالمی اردو کانفرنس میں بھارت سے آئی ہوئی محترمہ جیلانی بانو کا ان ادبی گوشوں کے بارے میں موقف سخت تھا، ان کے مطابق ادبی جرائد میں ان گوشوں کی تواتر کے ساتھ اشاعت پڑھنے والوں کو اکتاہٹ میں مبتلا کر رہی ہے اور یہ تمام معاملہ ذاتی تعلقات کی بنیادوں پر انجام پاتا ہے۔

بعض لوگوں کے خیال سے ادبی گوشوں میں ادباء اور شعراء کو قید کرنے سے بہتر ان کی تصانیف کی تقریب رونمائی ہوٹل وغیرہ میں کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے، جہاں لذت کام و دہن کا بھی معقول انتظام رہتا ہے۔ فروری 1966 میں شمس الرحمان فاروقی کے جریدے شب خون کی تقریب اجراء بھی الہ آباد کے گذدر نامی ریسٹورنٹ میں منعقد کی گئی تھی۔ اس کی تازہ مثال انیس جون2010 کو ٹورنٹو میں ممتاز ادیبہ شکیلہ رفیق کی آٹھویں کتاب ’وے صورتیں الہی ‘ کی تقریب تعارف ہے جو ٹورنٹو کے ’’تندوری چکن ریسٹورنٹ‘‘ میں منعقد کی گئی تھی۔ کتاب میں جنس کے موضوع پر افسانے شامل ہیں، شاید اسی مناسبت سے یہ تقریب ’تندوری چکن ریسٹورنٹ ‘میں رکھی گئی تھی۔ کتابیں تو روزانہ درجنوں کے حساب سے شائع ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن ایسی جگہوں پر تقریبات منعقد کرنے کا اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شرکاء کو کتاب کے مندرجات بے شک یاد رہیں یا نہ رہیں، تندوری چکن کا ذائقہ ایک عرصے تک یاد رہتا ہے۔ یہاں ہزاروں میل دور کراچی میں بیٹھ کر ہم نے کتاب پڑھی اور تندوری چکن کا لطف پایا۔ تقریب مذکورہ کا حاصل عابدہ کرامت کا وہ تبصرہ تھا جس میں انہوں نے شکیلہ رفیق کے بارے میں فرمایا کہ ’’ وہ منافقت کا دوپٹہ نہیں اوڑھ سکتی اور اگر ضرورتاً اوڑھنا ہی پڑے تو اس کے آنچل سے سر نہیں ڈھک سکتی‘‘۔ شکیلہ رفیق صاحبہ نے کب اور کن موقعوں پر ضرورتاً منافقت کا دوپٹہ اوڑھا ہے، عابدہ کرامت نے ان کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی۔ اس پر ستم یہ رہا کہ تقریب کے اختتام پر شکیلہ رفیق نے عابدہ کرامت کے بارے میں حاضرین کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ ’اتنا اندر سے تو انہیں ان کے اپنے بھی نہ سمجھ پائے جتنا عابدہ کرامت نے انہیں سمجھا ہے،‘‘

بات ہو رہی تھی چہار سو اور عبداللہ جاوید صاحب کی۔ جاوید صاحب کی کتاب بیاد اقبال1968 میں منظر عام پر آئی تھی، شاعری پر طبع آزمائی کا نتیجہ1969 میں موج صد رنگ کی اشاعت کی صورت میں نکلا۔ قلم آزمائی کا یہ سلسلہ تا حال جاری ہے اور2010میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’بھاگتے لمحے‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ بعض حاسدوں کا کہنا ہے کہ یہ کتاب بھاگتے ہوئے لکھی گئی ہے اور بھاگتے ہوئے ہی پڑھی جانی چاہیے۔ اس بھاگ دوڑ میں ہم کہاں سے کہاں نکل گئے، ذکر ہے عبداللہ جاوید اور چہا ر سو کا بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اب چہار سو عبداللہ جاوید کا ہی ذکر ہے۔

جریدے کے ابتدا میں شامل انٹرویو میں جناب گلزار جاوید نے عبداللہ جاوید کے شعر:

لاکھ اڑتی پھرے خلاؤں میں

فکر ہم شاعروں کی زد میں ہے

کا حوالہ دیا اور ان پر الزام لگایا کہ اس بارے میں وہ تعلی کا شکار ہیں۔

جواب میں عبداللہ جاوید نے اپنے دفاع میں خلاؤں میں اڑتی فکر کا ہی سہارا لیتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم شاعروں سے میری مراد اردو میں میر، غالب اور اقبال ہیں، دنیا کی دوسری زبانوں کے اکابر شاعر ہیں، میں ان کی جوتیوں کے آس پاس کہیں ہونے کا عرض گزار ہوں۔ ‘‘

خلاؤں میں اڑتی فکروں کا ہمہ وقت شاعر کی زد میں رہنا ایک قابل قدر دعوی ہے لیکن ساتھ ہی شاعر کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خلاؤں میں اڑتی ہوئی چیزیں اکثر کشش ثقل سے باہر نکل جاتی ہیں اور شاعر تو ایک طرف رہے، سائنسدانوں کے قابو سے بھی باہر ہو جاتی ہیں۔ امریکیوں نے خلاؤں میں اڑتی پھرتی ایسی چیزوں کو یو ایف او یعنی Unidentified Flying Object کا نام دیا ہے۔ اردو اور دنیا کی دیگر زبانوں کے اکابر شعراء کی تعداد سینکڑوں میں پہنچتی ہے اور اگر ان کی جوتیوں کو جمع کر لیا جائے تو ہزاروں کی تعداد بنتی ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ ان شعراء کرام کے آس پاس رہنے کی کوشش کی جاتی نہ کہ ان کی ہزارہا جوتیوں کے۔

شاعری درحقیقت ہے کیا، عبداللہ جاوید اس بارے میں مفاہیم و مطالب کو پانی پانی کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’ شاعری وہ ہے جو لفظوں کے لبالب بھرے ہوئے کوزوں میں ہر عصر کی مکانی و زمانی حقیقتوں کے وجدان کو ممکنہ حد تک لامکانی و لازمانی وجدان کے ارتسامات سے برقیا کر،بوند بوند داخل کرے ‘‘

 جناب عبداللہ جاوید نے ٹھیک ہی تو کہا ہے، کوزے میں ہر عصر کی مکانی و زمانی حقیقتوں کو برقیا کر بوند بوند داخل کرنے سے اس قسم کی معنی خیر شاعری وجود میں آتی ہے:

پھول پہ رکھ کر پاؤں

جب واجا نے مونچھ مروڑی

رویا سارا گاؤں

اس کلام سے یہ واضح نہیں ہوا کہ واجا نے درحقیقت اپنی مونچھ مروڑی تھی یا گاؤں والوں کی۔ عبداللہ جاوید کی اس تین سطری نظم کو پڑھ کر گاؤں والوں کے ساتھ ساتھ ان کا قاری بھی بے اختیار رو پڑتا ہے!

 اس رجحان ساز انٹرویو میں عبداللہ جاوید مزید کہتے ہیں کہ’ ’ میرے مزاج میں شہرت گریزی اتنی زیادہ ہے کہ جہاں دھماکہ کرنا لازمی تھا، وہاں بھی دھماکہ نہ کیا‘ ‘

جناب عبداللہ جاوید نے دھماکہ نہ کر کے عقل مندی سے کام لیا ہے، صرف پاکستان ہی ایسی جگہ ہے جہاں آپ کہیں،کسی وقت بھی دھماکہ کر سکتے ہیں، کینیڈا میں اس قسم کی کوشش کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔

 عبداللہ جاوید مزید فرماتے ہیں :

’’ میرا پہلا شعری مجموعہ 1969میں شائع ہوا، اس میں شامل نظموں اور غزلوں کو ساٹھ کی دہائی میں منظر عام پر آنے والے دیگر شعری مجموعوں کے مشمولات کے ساتھ رکھ کر دیکھنے پر میں خود بھی اس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ میرے پاس بہت کچھ ہٹا ہوا، اجنبی اجنبی سا، نیا نیا سا ہے۔ میں نے زبان کو اردو +فارسی کی حدود سے ممکنہ حد تک باہر نکال کر اردو +ہندی میں ڈھانے کی کوشش کی۔ موضوعات میں حسن قاتل کا موضوع میری نظموں کے واسطے سے اردو میں پہنچا۔ وقت کے موضوع پر میرے نظریات علامہ اقبال کے سلسلہ روز و شب کی موجودگی میں بھی ایک علیحدہ مقام بنا چکے ہیں ‘‘

 عبداللہ جاوید1960میں کی گئی اپنی شاعری کو خود ہی اجنبی اجنبی سا قرار دے چکے ہیں۔ جن لوگوں نے جناب عبداللہ جاوید کے پہلے شعری مجموعے کا مطالعہ کیا ہے ان کا یہ خیال ہے کہ آج اکیاون برس گزر جانے بعد بھی یہ’ اجنبیت ‘اسی شان سے قائم ہے۔

 گلزار جاوید نے اس انٹرویو میں طرح طرح کے سوالات سے جاوید صاحب کو دق کیے رکھا، چند مثالیں پیش خدمت ہیں :

۔ احباب کی ایک معقول تعداد آپ کے تجربات کی طرف بھی توجہ دلایا کرتی ہے مگر نشان دہی کوئی نہیں کرتا کہ آپ کو کب، کہاں، کس نوعیت کے تجربات کا وقت میسر رہا ؟

ُ۔ آپ کے یہاں الفاظ کا دائرہ اکثر بحور سے وسیع کیوں کر ہوتا ہے ؟

۔ کچھ لوگوں کے خیال میں آپ نے اپنی ایک دنیا بنا لی ہے جس سے باہر آنا آپ پسند نہیں کرتے ؟

۔ اگر کوئی شخص آپ کے کلام میں طنز، تلخی اور چراندھ کی نشان دہی کرے تو آپ کا جواب کیا ہو گا ؟

۔ آپ کو مظہر جان جاناں، نیاز بریلوی، عبد الحئی تاباں اور میر درد کا سفیر گرداننے والے کس امر کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں ؟

۔ آپ کے تخلیقی سفر میں طویل وقفے کی بابت قاری قطعی طور پر کیوں بے خبر ہے ؟

۔ کچھ لوگوں کے خیال میں آپ نے اپنی بیگم کو بطور افسانہ نگار تسلیم کرانے کی غرض سے خود کو افسانہ نگاری سے اس وقت تک دور رکھا جب تک بیگم صاحبہ مستند افسانہ نگار تسلیم نہ کر لی گئیں ؟

جناب عبداللہ جاوید ان سوالات سے ہرگز پریشان نہیں ہوئے بلکہ اپنے جوابات سے انہوں نے قاری کو پریشان کر دیا، چند متفرق مثالیں ملاحظہ ہوں :

۔ میری شاعری، میرے افسانے اور میری تحریر قاری کو میری اپنی دنیا میں لے آتی ہے، مجھے اور کیا چاہیے۔

۔ قاری ہی کو تھوڑا تھوڑا کر کے مجھے سمجھنا پڑے گا،اگر ہر قرات پر قاری مجھ میں کچھ نیا دریافت کرے گا تو اس کو نئی حیرانی اور نئی خوشی ملے گی۔

۔ میر درد تکیہ صوفی بزرگ تھے،میں بھی تصوف سے عملی طور پر جڑا ہوں لیکن پورا شاعر ہوں۔ میر نے درد کو آدھا شاعر مانا تھا۔

۔ میں خود بھی نہایت چھوٹے درجے کا صوفی ہوں اور وہ بھی صوفیائے ملامیہ کے اڑوس پڑوس والا۔

۔ مجھے زیادہ سطح کے اوپر اوپر ہی دیکھا اور جانچا جا رہا ہے۔

جناب عبداللہ جاوید کا یہ کہنا کہ ’قاری ہی کو تھوڑا تھوڑا کر کے مجھے سمجھنا پڑے گا اگر ہر قرات پر قاری مجھ میں کچھ نیا دریافت کرے گا تو اس کو نئی حیرانی اور نئی خوشی ملے گی‘، قاری کو ایک کٹھن امتحان میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ گویا مظلوم قاری کو دنیا میں اور کوئی کام ہی نہیں ہے، دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قاری کو شاعر پہلی کوشش میں ہرگز سمجھ میں نہیں آئے گا، اسے اپنی تمام مصروفیات کو پس پشت ڈال کر شاعر کو روزانہ تھوڑا تھوڑا سمجھنا چاہیے، شاید وہ دس بیس سال میں وقفے وقفے سے کچھ سمجھ پائے اور جب جب ایسا ہو گا، بقول شاعر، قاری کو ایک نئی حیرت اور نئی خوشی ملے گی، یہاں اس بات کا ڈر لاحق ہوتا نظر آ رہا ہے کہ اس قدر ان گنت خوشیاں سمیٹتے سمیٹتے کہیں قاری شادی مرگ کی کیفیت سے دوچار نہ ہو جائے۔

جناب عبد اللہ جاوید کے مذکورہ بالا بیانات کو پڑھ کر صوفیہ ملامیہ کے اڑوس پڑوس سے تعلق رکھنے والے بہت سے حاسدوں نے کہا کہ جناب شاعر کی شاعری کو علامتی نہیں بلکہ ’ملامتی ‘ کہا جائے تو بہتر ہو گا، لیکن ہم ایسی شر پسندانہ باتوں پر سے کان ہی نہیں دھرتے۔ البتہ جاوید صاحب کے اس دعوے پر کہ وہ میر درد کے مقابلے میں وہ آدھے نہیں پورے شاعر ہیں، ہمیں جناب عبداللہ جاوید کے درج بالا آخری دعوے کی اصل وجہ کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی ہے جس میں وہ گلہ کرتے ہیں کہ ’’مجھے زیادہ سطح کے اوپر اوپر ہی دیکھا اور جانچا جا رہا ہے‘‘۔ لیکن چونکہ اس انٹرویو کو پڑھنے کے بعد ہمیں جناب عبداللہ جاوید سے ایک اپنائیت سی محسوس ہونے لگی ہے، لہذا ہم نے ان کی شاعری کی اوپری سطح کو چھوڑ کر اس کی تہہ میں غوطہ لگایا اور چند آبدار موتی چنے جنہیں خوب جانچ کر یہاں پیش کر رہے ہیں :

سنڈی سے

تتلی کے قالب میں آ جانا

پھر سنڈی بن جانا

مر جانا

تتلی بن کر اڑ جانا

٭

میرے اندر بھی کوئی ناچتا ہے

میں اس کے ساتھ پیارے رقص میں ہوں

٭

فلک پر جب ستارے ٹوٹتے ہیں

زمیں پر دل ہمارے ٹوٹتے ہیں

٭

پھول کے چوکیدار

رنگ و بو پر پہرے وہرے

سب کے سب بے کار

٭

ان اشعار کو پڑھ کر شاعر کے’ کوزے میں ہر عصر کی مکانی و زمانی حقیقتوں کے وجدان کو برقیا کر بوند بوند داخل کرنے ‘ کی بات تو ایک طرف، خود قاری کے جسم میں ایک برقی رو سی دوڑ جاتی ہے۔ البتہ سنڈی اور تتلی والے بیان میں ہمیں جناب عبداللہ جاوید کا یہ کہنا کہ ’قاری ہی کو تھوڑا تھوڑا کر کے مجھے سمجھنا پڑے گا‘ درست معلوم ہو رہا ہے۔ ہم ایسے کوتاہ نظر کو تتلی اور سنڈی کے ہیر پھیر میں بادی النظر میں تو کوئی نئی حیرانی اور نئی خوشی والی بات نظر نہیں آئی لیکن پھر گھنٹوں اس پر غور کرنے سے یہ سمجھ میں آیا کہ یہ دراصل ’زولوجی‘ یا علم الحیوانات سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی عمیق گتھی ہے جس کو سلجھانے پر علم الحیوانات کی دنیا کا تحقیق سے متعلق کوئی بڑا انعام ملنے کی امید رکھی جا سکتی ہے۔

بحیثیت قاری، ہم جناب عبداللہ جاوید کی شاعری پڑھ کر خوش تو کم ہوئے البتہ حیران زیادہ ہوئے ہیں۔ رہا سوال قاری کا جناب شاعر کی دنیا میں چلے جانے کا، تو عرض یہ ہے کہ قاری اپنی ہی دنیا میں خوش ہے، ایسی جگہ جا کر وہ کیا کرے گا جہاں شاعر کا کلام اور اس کی تخلیقات چوری ہو جاتی ہوں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ انٹرویو میں ایک جگہ جناب عبداللہ جاوید بیان کرتے ہیں کہ ’’ جاوید جاوید یوسف زئی کے قلمی نام سے اپنے شائع شدہ افسانوں کی ایک فائل اپنے ساتھ (کینیڈا) لایا تھا وہ غائب کر دی گئی۔ اس کے بعد جب بھی کوئی افسانہ لکھا، کسی پرچے میں بھجوانے سے پہلے ہی گم ہو گیا۔ انگریزی زبان میں براہ راست ٹائپ کیے ہوئے چار چھ افسانوں کا بھی یہی انجام ہوا ‘‘

اس دنیا میں لوگوں پر کیسے کیسے روح فرسا سانحے گزر جاتے ہیں، اس کا اندازہ ہمیں مندرجہ بالا واقعے کو پڑھ کر ہوا، اسے پڑھ کر ہم آبدیدہ ہو گئے، جب طبیعت کچھ سنبھلی تو بے اختیار خامہ بگوش کی یاد آ گئی۔ وہ اسی سے ملتا جلتا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’چند برس قبل اتفاق سے ایک مشہور ادیب کے گھر میں آگ لگ گئی۔ ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں جل گئیں۔ کئی غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر خاک ہو گئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے دوست اظہار ہمدردی کے لیے ان کے ہاں پہنچے۔ ہر دوست نے اپنی بساط کے مطابق آتش زدگی کے واقعے پر اظہار افسوس کیا۔ البتہ ایک دوست نے منفرد انداز سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔ اس نے کہا: ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک دردناک سانحہ ہے لیکن یاد رکھیے کہ ہر شر میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو ہوتا ہے۔ جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے، وہیں آپ کی غیر مطبوعہ تصانیف کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے محفوظ ہو گئے۔ ‘‘

خامہ بگوش کے بیان کردہ اس واقعے پر تبصرہ در تبصرہ مناسب نہ ہو گا، البتہ ہمیں جاوید صاحب سے یہ شکایت ہے کہ انہوں نے شاعری کرتے وقت طبیعات کے بنیادی اصولوں کا خیال نہیں رکھا۔ کشش ثقل کے اصول کے عین خلاف یہ شعر ملاحظہ ہو:

یہ کس کے اشک ہیں اوج فلک تک

کوئی روتا رہا ہے رات بھر کیا

استاد لاغر مراد آبادی نے شعر مذکورہ سن کر فرمایا کہ اشک ہمیشہ نیچے کی طرف رخ کرتے ہیں، وہ آہیں ہیں جو اثر لانے کو آسماں کی طرف جاتی ہیں۔ اصول کشش ثقل کا بانی اگر یہ شعر سن لیتا تو گمان ہے کہ رات بھر روتا رہتا۔

جاوید صاحب نے ایک جگہ لطیف انداز میں شمشان گھاٹ کے مسائل کو بھی عمدگی سے شعر کی زبان میں ڈھالا ہے:

پھول دشمن کے ہوں یا اپنے ہوں

پھول جلتے نہیں دیکھے جاتے

اور آخر میں جناب عبداللہ جاوید کی وہ تخلیق ملاحظہ ہو جس کو چہار سو کے زیر تبصرہ شمارے میں ڈاکٹر الیاس عشقی نے مرزا غالب کے ہم پلہ قرار دیتے ہوئے غالب کے دشت امکاں کو دائرہ امکاں میں ڈھالنا قرار دیا ہے:

پانی

بادل کا

اونچے سے اونچا

جاتا بھی ہے

نیچے سے نیچے

آتا بھی ہے

٭

 غالب کے دشت امکاں کو جس طرح پانی سے بھرے بادلوں کی مدد سے سیراب کیا گیا ہے، اس کی کوئی دوسری مثال ہمیں تو نہیں ملی اور شاید ڈاکٹر الیاس عشقی کو بھی نہ مل پائے۔ مذکورہ مضمون میں ڈاکٹر عشقی نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ’ عبداللہ جاوید کو ناگزیر الفاظ کس آسانی سے جاتے ہیں ‘، حیرت و استعجاب کے اسی عالم میں ڈاکٹر عشقی نے جناب عبداللہ جاوید کی یہ تخلیق درج کی ہے:

دریا میں رہنا بھی ہے

بہنا بھی ہے

پل پل کچھ کرنا بھی ہے

بھرنا بھی ہے

فصل غم بونا بھی ہے

ڈھونا بھی ہے

مرنے سے ڈرنا بھی ہے

مرنا بھی ہے

حضرت جوش ملیح آبادی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے کہ جیسے چاہیں انہیں استعمال کریں۔ مذکورہ بالا کلام میں بہنا بھی ہے، ڈھونا بھی ہے، بھرنا بھی ہے، کرنا بھی ہے جیسے الفاظ کی تکرار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ممدوح کے سامنے الفاظ صرف ہاتھ ہی نہیں بلکہ پاؤں بھی باندھے پڑے رہتے ہیں کہ کہ جیسے اور جب چاہیں انہیں استعمال کریں۔

مذکورہ انٹرویو میں فیض احمد فیض کا ذکر بھی آیا، جواباً، جناب عبداللہ جاوید کی سعادتمندی تو دیکھیے کہ احتراما ً وہ فیض کا نام لینے سے بھی گریزاں نظر آئے:

سوال: ’’تراجم کے حوالے سے آپ پر کچھ ذمہ داریاں لازم تھیں، کم از کم میر، غالب، اقبال اور فیض کا آپ پر کچھ حق تو بنتا ہے ‘‘ ؟

جواب:’’اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنا میرے بس کا کام نہیں تھا۔ یہ آپ نے ایک سانس میں تین ناموں میر، غالب اور اقبال کے ساتھ چوتھا نام کیسے لے لیا۔ کم از کم مجھ سے تو نہ لیا جائے گا۔ معذرت۔ ‘‘

انٹرویو کا نچوڑ عبداللہ جاوید کا وہ تبصرہ ہے جس میں انہوں نے اپنی تمام ادبی سرگرمیوں کا مقصد ایک مختصر جملے میں بیان کر دیا، سوال تھا کہ ’ایک ہی وقت میں روایتی اور عطفی تراکیب کا استعمال قاری کو متجسس کیوں کرتا ہے ؟‘۔۔  عبد اللہ جاوید کا جواب تھا: ’ قاری کو تنگ جو کرنا ہوا‘۔

جناب عبد اللہ جاوید کی اس بات کے جواب میں عرض ہے کہ قاری کو اتنا تنگ کرنا ٹھیک نہیں، اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے، اگر قاری تنگ آمد بجنگ آمد کے محاورے پر عمل کر بیٹھا تو حالات کے نازک ہو جانے کا احتمال ہو سکتا ہے۔

ہمارے قارئین ہمارے اس مضمون کو پڑھ کر یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ ہم ایک کے بعد بات سے بات نکالتے چلے جا رہے ہیں اور ان کو غور کرنے کا موقع فراہم کر ہی نہیں رہے، لہذا اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے ہم جناب عبداللہ جاوید کے اس انٹرویو سے ایک سوال اور اس کا جواب درج کرتے ہوئے اس پر تبصرے کا موقع اپنے پڑھنے والوں کو فراہم کر رہے ہیں :

سوال: ’’عیسی، حسین، سقراط، بقراط، کرشن، سدھارتھ کو آپ نے اندر کا مکیں کیونکر بنا لیا، اگر بنا لیا تو اُن سے کس طرح کی قربت اور فیض حاصل کیا ‘‘؟

جواب: ’’قبضہ مافیا کے لوگ ہیں، مجھ پر قابض ہو گئے۔ جلال الدین رومی کے نام کا اضافہ فرما لیجیے۔ ‘‘

 بزرگ ادیب جمیل الدین عالی نے چہار سو کے زیر تبصرہ شمارے میں شائع ہوئے عبداللہ جاوید کے تنقیدی مضمون کے بارے میں تبصرہ ( روزنامہ جنگ۔ 22ستمبر2011) کرتے ہوئے کہا :

’’ عبداللہ جاوید کے تنقیدی مضمون کو پڑھتے پڑھتے اپنی اس پیرانہ سالی کے باوجود مبہوت ہو کر رہ گیا ہوں۔ کاش اسے پڑھا جا سکے‘‘

عالی صاحب نے آخری جملے میں یہ کہہ کر گویا بات ہی ختم کر دی کہ ’ کاش اسے پڑھا جا سکے‘

جناب جمیل الدین عالی اس پیرانہ سالی میں بھی غضب کے بذلہ سنج ہیں !

٭٭٭

 

مزاح کے کارخانے میں دخل

ان دنوں کتابیں اس کثیر تعداد میں شائع ہو رہی ہیں کہ ادھر کچھ عرصے سے دیکھتے ہی دیکھتے بازار میں کاغذ کا بھاؤ بڑھ گیا ہے۔ قارئین کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ کیا خریدیں اور کیا چھوڑیں۔ شاعری، تنقید، تاریخ،سفرنامہ غرض یہ کہ ایک سیلاب بلا ہے جو کتابوں کی شکل میں گھروں میں داخل ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں معروف ادیبہ سائرہ غلام نبی اپنی ایک تازہ تحریر میں لکھتی ہیں :

’’ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کتابوں کی اشاعت میں بے پناہ تیزی آئی ہے۔ لکھنے والا اعتبار کی سند حاصل کیے بغیر صاحب کتاب باآسانی بن رہا ہے۔ یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ کیا یہ محض جدید دور کا کوئی نیا فیشن ہے یا اس سے کوئی ذاتی قسم کا مفاد وابستہ ہے۔ نظریاتی تحاریک سے جڑے بغیر، content کی گہرائی میں اترے بغیر، سنجیدگی سے علم کا انہماک کیے بنا تخلیقی وفور سے سرشار ہوئے بغیر لفظوں کا ڈھیر لگایا جا رہا ہے۔ چمکتے دمکتے درآمد شدہ کورے اوراق کو فرسودہ اور بے معنی خیالات سے سیاہ تر کیا جا رہا ہے۔ یہ دو نمبر شاعر اور ادیب مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہیں اور بہت تیزی سے اصل مال کے دام کو کھوٹا کر رہے ہیں۔ ہماری تشویش آج سے زیادہ آئندہ کے لیے ہے کہ آج کے مسترد شدہ ادیب و شاعر کل کے بچھے کھچے قاری کی دسترس میں ہوں۔ انہیں اوچھے ہتھکنڈے آتے ہیں جن میں فلیپ لکھنے والے نقاد ان کے مددگار ہیں۔ ایسے ادب کو ادب بننے سے کیسے روکا جائے ؟ بے پناہ کتابوں کی اشاعت پر پابندی کیسے لگائی جائے ؟ ‘‘

سائرہ غلام نبی کی تشویش اپنی جگہ لیکن ہم سمجھتے تھے کہ ایک صنف ادب ضرور ایسی باقی بچی ہے جس میں طبع آزمائی ہر کس و ناکس کی بات نہیں لیکن اب وہ بھی لکھنے والوں کی زد پر آ گئی ہے، یہاں بات ہو رہی ہے مزاح نگاری کی۔ دوسرے لفظوں میں اس کارخانے میں بھی تواتر کے ساتھ دخل اندازی کرنے والوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مزاح کے کارخانے میں دخل کی ترکیب پر مبنی واقعے کے راوی خامہ بگوش ہیں، لکھتے ہیں :

ڈاکٹر عالیہ امام نے اپنی خودنوشت ’شاخ ہری اور پیلے پھول‘ میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ وہ اکثر جوش صاحب کے گھر جایا کرتی تھیں۔ بیگم جوش کو ان کا آنا پسند نہیں تھا۔ ایک روز بیگم صاحبہ کا پیمانہ صبر چھلک گیا اور انہوں نے ڈاکٹر عالیہ امام سے کہا: ’’ مجھے ایسی عورتیں زہر لگتی ہیں جو دوسروں کے کارخانے میں دخل دیں ‘‘

افسوس کہ بیگم جوش کا انتقال ہو چکا ہے۔ اگر ڈاکٹر عالیہ امام کی کتاب ’شاعر انقلاب۔۔ ۔  نظریاتی و تنقیدی مطالعہ‘ ان کی زندگی میں شائع ہوئی ہوتی تو وہ اسے دیکھ کر یہ ضرور کہتیں :

’’ اچھا تو اب آپ تنقید کے کارخانے میں بھی دخل دینے لگیں۔ ‘‘ (خامہ بگوش )

اس خامہ بگوشی کی یاد ہمیں حال ہی میں شائع ہوئی ایک ایسی کتاب کو پڑھنے کے بعد آئی جسے ہم یادداشتوں کا مجموعہ سمجھ کر خرید لائے تھے لیکن کتاب کے ایک ہی نشست میں مطالعے کے پرخطر فیصلے کے بعد یہ علم ہوا کہ فاضل مصنف نے مزاح کے کارخانے میں دخل دینے کی کوشش کی ہے۔۔  کتاب کا عنوان ہے ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘، اس کے مصنف ایک ریٹائرڈ بینکار جناب ایس ایچ جعفری ہیں۔ پس ورق، مصنف کی ایک مسکراتی ہوئی تصویر ہے جو کتاب کے عنوان کی مناسبت سے مختلف ہے۔ آپ نے ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد یہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا، کتاب کے دیباچے میں یہ واضح کر دیا کہ ’یہ سوانح عمری نہیں ہے، بس ایک عام سے آدمی کے اوپر سے گزرنے والے کچھ واقعات ہیں جو ذہنی گرفت میں آ گئی‘‘۔ مصنف نے کتاب کے مطالعے کے بعد اس کے قاری کی ذہنی گرفت کی کیفیت میں ہونے والی تبدیلیوں کا حال جاننے کے لیے اپنا ای میل پتہ بھی درج کیا ہے۔ مصنف نے دیباچے میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی نے مزاح کا معیار اس قدر بلند کر دیا ہے کہ بڑے بڑے مزاح نگار ان کے آگے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ اعتراف کرنے کے باوجود بھی انہوں نے ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کو بمثل عنوان کتاب، ایک جنوں کی کیفیت میں لکھا اور اس بات کی پوری پوری کوشش کی کہ جنوں کی یہ کیفیت ان کے قاری پر بھی طاری ہو جائے خاص کر اپنے پیسوں کو ضائع ہوتا دیکھ کر۔ کتاب عالم جنوں میں لکھی گئی ہے اور قاری بھی دوران مطالعہ یہی کیفیت طاری ہوتی چلی جاتی ہے۔ دوسری طرف مصنف نے ابتدا ہی میں یہ لکھ کر قاری کے دکھوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے کہ ’مذکورہ کتاب کی جملہ آمدنی علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی اولڈ بوائز ایسو سی ایشن کراچی کے لیے وقف ہے۔ ‘۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ علی گڑھ ایسوسی ایشن کے انتظامی و معاشی معاملات پر زیر موضوع کتاب کی فروخت سے حاصل ہوئی آمدنی کی آمیزش کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟

کتاب کے دیباچے میں جعفری صاحب نے یہ راز بھی فاش کر دیا ہے کہ آخر ان کو اس کتاب کے لکھنے کا خیال کیونکر آیا۔ لکھتے ہیں کہ ’’ میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میرا ایک مضمون پڑھ کر میرے چند دوستوں نے پہلے تو مشورہ دیا کہ کہ میں مزید لکھوں، اس کے بعد بھی اصرار کرتے رہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ان کے اس عمل سے مقصود میری ٹانگ کھینچنا رہا ہو لیکن میں نے بڑی سنجیدگی سے ان کے مشورے پر عمل کیا ہے۔ ‘‘

جعفری صاحب نے اپنی کتاب کا انتساب اپنے ہم وطنوں کے نام یہ لکھ کر کیا ہے ’’ جو اگر چاہیں تو نظم و ضبط کو اپنا شعار بنا کر ترقی یافتہ اقوام عالم کی صف میں اپنی ممتاز حیثیت کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔ ‘‘

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک ریٹائرڈ بینکار کے دوست کس قماش کے ہیں جنہوں نے ان کو یہ کتاب لکھنے کا مشورہ دیا اور اس پر مستزاد مصنف ان کی باتوں میں کیونکر آئے۔ اس صورت حال میں وہ محاورہ بھی مصنف کے پیش نظر ہونا چاہیے تھا کہ نادان دوست سے دانا دشمن اچھا۔ رہا سوال ٹانگ کھینچنے کا، تو کتاب میں ایک جگہ انہوں نے اپنا وزن بھی پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافہ کرنے کی غرض سے درج

کیا ہے جو 140 پاؤنڈ ہے۔ اتنے وزن کے حامل کسی شخص کی ٹانگ کھینچنا ذرا مشکل بات نظر آتی ہے۔ کتاب کے انتساب میں مصنف اپنے ہم وطنوں کو نظم و ضبط کو اپنا شعار بنانے کی تلقین کرتے ہیں لیکن انہیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ان کی اس کتاب کا قاری اسے خریدنے کے بعد نظم اور پڑھنے کے بعد اپنا ضبط کیونکر برقرار رکھ سکتا ہے ؟

 ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کے مصنف نے اس کتاب کا آغاز ہی ایک تنازعے کے ساتھ کیا ہے، یہ ہماری ناقص سمجھ کا قصور بھی ہو سکتا ہے کہ شاید مصنف نے کتاب کی ابتدا ہی مزاح سے کرنے کی کوشش کی ہو، بہرکیف انہوں نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے ’ ’تاریخ پیدائش: متنازعہ‘‘۔ یہ بجائے خود ایک متنازعہ بات ہے۔ وہ تمام عمر بینک میں ایک متنازعہ تاریخ پیدائش کے حامل ریکارڈ کے ساتھ کیسے نوکری کرتے رہے؟تاریخ پیدائش کے بعد لکھتے ہیں ’تاریخ وفات: ہنوز نامعلوم‘۔ خدا ان کو لمبی عمر دے لیکن ان کی اس کتاب کے مطالعے کے بعد مصنف کے بجائے اس کے قاری کی تاریخ وفات کا تعین ہونا آسان نظر آ رہا ہے۔ فہرست مضامین کا آغاز ہی مزاحیہ انداز میں کیا گیا ہے، باب نمبر دو کا عنوان ’میں کیوں پیدا ہوا ‘رکھا گیا ہے۔ مذکورہ باب میں مصنف اپنی پیدائش کا سبب تلاش کرتے نظر آتے ہیں، بقول ان کے، ’میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں لیکن تا حال مجھے کوئی تسلی بخش جواز نزول نہیں مل سکا ہے۔،دنیا کی بے انتہا ترقی کے باوجود آج بھی قدرت کے کئی راز ہائے سربستہ سے پردہ نہیں ہٹ سکا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ میرا حادثہ پیدائش بھی ان میں سے ایک ہے ‘۔

ایس ایچ جعفری صاحب نے یہ بات لکھ کر کم از کم ہمیں تو حیران و پریشان کر دیا ہے، اس سے پہلے ہمارے علم میں قدرت کے دس مصدقہ راز ہائے سربستہ مثلاً برمودا ٹرینگل، جیک دی رپر وغیرہ، جیسے پیچیدہ و لاینحل معمے ہی تھے، اب یہ علم ہوا کہ جناب مصنف کا حادثہ پیدائش بھی ان میں سے ایک ہے۔

 ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کا آغاز مصنف کے سوانحی حالات سے ہوتا ہے اور اس سے یہ امید بندھ جاتی ہے کہ یہ سلسلہ آخر تک یونہی چلے گا اور پڑھنے والوں کو ایک بینکار کے حالات زندگی سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا لیکن الہ آباد میں گزرے اپنے بچپن کے واقعات کو بیان کرتے کرتے یکایک مصنف لندن میں بینک کی نوکری کا احوال بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ قاری ان کو کسی قسم کا الزام نہیں دے سکتا کہ کتاب کا عنوان اس کے پیش نظر رہتا ہے۔

ایس ایچ جعفری صاحب کی بذلہ سنجی کے کئی یادگار نمونے کتاب میں جا بجا بکھرے ہیں بلکہ کئی جگہ تو قاری کو ان کی جانب سے بے دھیانی برتنے کی صورت میں ٹھوکر لگنے کا احتمال بھی رہتا ہے۔ لندن میں قیام کے دوران مصنف نے اپنے دوست ملک صاحب کو لاجواب کر دیا تھا۔ ہوا یہ کہ ملک صاحب نے اپنے گھر میں غسل خانہ بنوایا اور ہر ملاقاتی کو جوش و خروش سے دکھانا شروع کیا،مصنف بھی پہنچے اور غسل خانے کا ٹب دیکھ کر ملک صاحب سے کہا:

جناب اسٹیم کہاں سے آئے گی ؟

ملک صاحب نے پوچھا اسٹیم کیسی، یہ تو نارمل باتھ ٹب ہے

مصنف نے جواب دیا :ملک صاحب! اس ٹب میں یا تو آپ آئیں گے یا پانی، دونوں تو بیک وقت نہیں سما سکتے

اس اچھوتی، بے مثال و لاجواب بذلہ سنجی پر مبنی جواب کے بعد مصنف لکھتے ہیں : ملک صاحب نے مجھے دھکا دے کر باہر نکال دیا اور میری بیوی سے کہنے لگے کہ آپ کے شوہر بہت بے ہودہ ہیں۔

ہمیں مصنف کے کہے گئے جملے میں بے ہودگی کی تو کوئی رمق نظر آئی البتہ ملک صاحب کا مصنف کو دھکے دے کر باہر نکال دینا بجائے خود ایک بے ہودگی پر مبنی واقعہ نظر آتا ہے۔

جعفری صاحب ایک کیفے میں چمچوں کا معائنہ کر رہے تھے،یہی ملک صاحب وہاں موجود تھے، انہوں نے جعفری صاحب سے کہا ’کسی خاص چمچے کی تلاش ہے ؟جعفری صاحب نے جواب دیا ’ معاف کیجیے! میں نے آپ کو دیکھا نہیں تھا‘۔ جعفری صاحب لکھتے ہیں کہ ملک صاحب اس وقت تو کچھ نہ بولے، بعد میں خفگی کا اظہار کیا۔ جعفری صاحب نے اس واقعے کو بیان کرنے کے بعد اگلے ہی صفحے پر اپنی ہی بات کی تردید یہ کہہ کر کر دی کہ ’’ ملک صاحب میں اور خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی یہ بھی تھی کہ نہ صرف دوسروں کی بات کا برا نہیں مانتے تھے بلکہ اپنے اوپر چپکائے ہوئے مذاق بھی مزے لے لے کر دوسروں کو سناتے۔ ‘‘

یہ عین ممکن ہے کہ کیفے میں مصنف کے بے مثال جملے کے جواب میں ملک صاحب کی خفگی کو بھی مصنف نے ان کی ایک خوبی سمجھا ہو۔

جن لوگوں کو اسٹیج پر مزاحیہ ڈرامے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو، وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ان ڈراموں کا آغاز اچھے انداز سے ہوتا ہے، لیکن مزاح کا معیار ی تسلسل برقرار رکھنا خالہ جی کا گھر نہیں، درمیان میں ’بھرتی کی کامیڈی‘ کی مدد سے اسے طول دیا جاتا ہے،جہاں ناظرین کی اکتاہٹ کو محسوس کیا، وہاں ایک صحت مند قسم کی رقاصہ کو میدان میں اتارا جاتا ہے کہ ناظرین جمے بیٹھے رہیں۔ لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ میں بھی یہی انداز اپنایا گیا ہے۔ مصنف اپنے قارئین کی خوشی کی خاطر ایسے واقعات کو بیان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جہاں ’ عاشقی میں عزت سادات ‘کے جانے کا خدشہ لاحق ہوتا نظر آتا ہے۔ وہ جملے بازی کے شوق میں اپنے دوست کی بیگمات کو بھی نہیں بخشتے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے یہ جملے پڑھ کر شاید اس کتاب کے کاتب کو بھی ہنسی نہ آئی ہو، قاری تو دور کی بات ہے۔ ہاں، یہ بھی ممکن ہے کہ اس کتاب کی کتابت بھی مصنف نے خود ہی کی ہو، اس صورت میں ہمیں اپنے الفاظ واپس لینے پڑیں گے۔ مصنف اپنے ایک دوست کے گھر کھانے پر مدعو تھے، گپ شپ کا سلسلہ چل رہا تھا، فون کی گھنٹی بجی اور خاتون فون سننے گئیں، واپسی پر مصنف اور وہاں بیٹھے ایک دوسرے دوست کے سامنے گلہ کرنے لگیں کہ ان کی خریدی ہوئی نئی استری خراب ہو گئی، وہ کل اسے واپس کرنے جائیں گی، پیسے تو دکاندار دے گا نہیں البتہ جو ملے گا لے آئیں گی۔

’’ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ خاتون نے اپنی بات کے آخر میں کہا

اس بات پر ہمارے ممدوح رواں ہو گئے: ’’ کسی کی بھی لنگوٹی کو ہتھیانے کی کوشش، خواہ وہ بھوت ہی کیوں نہ ہو، انتہائی غیر شریفانہ حرکت ہے، خصوصاً ایک خاتون کے لیے، شریف بہو بیٹیوں کو اس قسم کے محاورے استعمال کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے ‘‘

 ساتھ بیٹھے دوست نے مصنف کو ٹوکا: ’’ بولے چلے جا رہے ہو، یہ نہیں دیکھ رہے ہو کہ وہ تمہیں کچا کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی ہیں ‘‘

 مصنف نے جواب دیا ’ یہ دوسری غلط حرکت ہو گی، کیونکہ نامحرم کو اس طرح دیکھنا بہت ہی نامناسب بات ہے‘

’’ میں حرام چیزیں نہیں کھاتی‘‘ خاتون نے تنک کر کہا

’’ میں خود کو حلال کروانے پر راضی ہوں ‘‘۔ مصنف نے جواب دیا

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ شریف بہو بیٹیوں ‘کے گھر پر بیٹھ کر اس قسم کی باتیں کرنا کہاں تک درست ہے ؟ نیز یہ کہ اس دوران خاتون کے شوہر کہاں تھے؟ ہمارے معاشرے میں عموماً دوست کی بیوی کو بھابی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے اور یہ رشتہ ایک قابل اعتماد اور پر خلوص رشتہ سمجھا جاتا ہے۔ مصنف کی خود کو اپنے ہی دوست کی بیوی پر حلال کروانے کی برملا خواہش کا کیا نتیجہ نکلا، کتاب میں اس کا کوئی بیان نہیں ملتا۔

ایک دوسرے واقعے میں، جس کو مصنف نے ایک علاحدہ صفحے پر پانچ جملوں میں چھیڑ چھاڑ کے عنوان کے ساتھ اہتمام سے لکھا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’شادی کی تقریب میں ایک پرانے دوست کی بیگم نظر

آئیں، ان کے پاس جا کر میں نے مذاقاً کچھ کہا، وہ بولیں چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں گئی، کچھ تو اپنی عمر کا لحاظ کریں۔ میں بولا عمر ہی کا تو لحاظ ہے ورنہ ادھر (قریب بیٹھی لڑکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے) نہ  جاتا۔ وہ بہت محظوظ ہوئیں۔ ‘‘

مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ لکھا تھا کہ بارش کے بعد بیر بہوٹیاں اور بہو بیٹیاں، دونوں باہر نکل آتی ہیں۔ گمان ہے کہ جعفری صاحب کے بیان کردہ ان واقعات میں موجود فرضی (بظاہر) خواتین اسی قبیل کی رہی ہوں گی۔ استاد لاغر مراد آبادی نے یہ واقعہ سن کر فہمائشی انداز میں ارشاد فرمایا، میاں، جیسی روح ویسے فرشتے، تم کیوں ہلکان ہوتے ہو!

ایک اور جگہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن ترنگ میں آ کر ایک ہمجولی کو بیٹی کہہ دیا۔ وہ اٹھلا کر بولیں اب میں اتنی کم عمر نہیں ہوں۔ ‘‘۔

مصنف کی طبیعت میں رنگین مزاجی کا عنصر اوائل عمری ہی سے رہا۔ عشق کے باب میں ایک جگہ اپنے بارے میں لکھتے ہیں ’میں نے بے شمار عشق کیے، میرے عشق عمر، مذہب، قومیت کی پابندیوں سے آزاد رہے۔ میرے عشق کی مدت چند منٹ، چند گھنٹوں، دنوں ہفتوں اور مہینوں تک محدود رہی۔ ‘۔ نصف سے زیادہ کتاب میں اسی قسم کے روح پرور واقعات لکھ لینے کے بعد مصنف کو خیال آیا کہ موت کو بھی یاد کر لیا جائے لیکن اس بیان میں بھی انہوں نے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی۔ چشم تصور میں اپنے انتقال اور اس کے بعد اہل خانہ پر اس کے اثرات کو دیکھا اور اس میں قاری کو بھی زبردستی شریک کر لیا۔ مصنف کو یونہی خیال آیا کہ ان کے مرنے کا دعوت نامہ اگر ہوتا تو کچھ اس قسم کا ہوتا:

میرا انتقال

بتاریخ۔۔ ۔ ۔ ۔ ، بروز۔۔ ۔ ۔ ۔

ہونا قرار پایا ہے۔ پروگرام حسب ذیل ہے

روانگی جلوس: ایک بجے دوپہر

نماز: ڈیڑھ بجے دوپہر بمقام سلطان مسجد

تدفین: ڈھائی بجے

طعام: تین بجے

درج بالا پروگرام کی آخری پیشکش سب سے زیادہ پر کشش ہے اور گمان غالب ہے کہ شرکاء اسی میں سب سے زیادہ دلچسپی لیں گے ماسوائے ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کے قارئین کو چھوڑ کر کہ وہ تو کتاب کے مطالعے کے بعد حلق تک پر ہو چکے ہوں گے۔

ذہنی پراگندگی کی اس تشویشناک حالت کو مصنف نے ایک جگہ خود ان الفاظ میں بیان کر دیا ہے، ہماری نظر میں تو یہ ان کا اعترافی بیان سمجھا جانا چاہیے:

’’ راتوں کو سوتے سوتے نہ جانے کیوں آنکھ کھلتی ہے تو فیض کے قطعے ’رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی‘ کا ورد ہو رہا ہوتا ہے۔ پریشانی اس بات کی ہے کہ یہ ’تری’ کون ہیں جن کی کھوئی ہوئی یاد نہیں آپا رہی،آخر یہ چکر کیا ہے ؟ کہیں سٹھیانے کے اثرات تو نہیں ؟

آئیے اب کتاب میں موجود مصنف کے زر خیر قلم سے نکلے یک سطری جواہر پاروں پر بھی ایک نظر ڈال لیں جن کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی :

َ۔ خدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا لیکن میں نے لاتعداد گنجوں کے ناخن دیکھے ہیں بلکہ اپنا سر کھجاتے ہوئے پایا

۔ جب ہر طرح کی آزادی ہے تو سوال یہ ہے کہ ڈکیتی کی آزادی کیوں نہ ہو

۔ میں نے آج تک کسی کتے، بلی، گدھے، گھوڑے کو گنجا نہیں پایا

۔ لیکن یہ آپ کے پلے(اس لفظ کے پ پر زبر دے کر پڑھیں، زبر نیچے گر کر زیر ہو گیا تو مفہوم بدل جائے گا) نہیں پڑے گا

۔ میں تشدد کے ہمیشہ خلاف تھا، فٹ بال نسبتاً امن پسند کھیل لگا سو اسے اپنا لیا۔

۔ میں اپنی شادی کا کارڈ دینے گیا تو ہونے والی سالی کے سامنے ایک (اجنبی) بچہ آیا اور ابو کہہ کر مجھ سے لپٹ گیا۔

۔ میں پیدائشی بزرگ واقع ہوا ہوں، یعنی میں جب اس سیارے پر جسے لوگ دنیا بھی کہتے ہیں،وارد ہوا تو یہاں پر پہلے ہی سے بہت سے لوگ موجود تھے جن کا میں رشتہ میں ماموں یا چچا تھا۔

۔ بڑھاپا بھی ایک حقیقت ہے جس سے ہر شخص کسی نہ کسی مرحلے پر دوچار ہونا پڑتا ہے بشرطیکہ وہ اس مرحلے پر پہنچنے سے پہلے گزر نہ گیا ہو۔

۔ مجھے دوسروں کی تمام بیویاں پسند نہیں آتیں، صرف وہ بیویاں پسند آتی ہیں جو واقعی پسندیدہ ہوں۔

اسٹیفن لیکاک نے مزاح کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے: ’’ یہ زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فنکارانہ اظہار ہو جائے۔ ‘‘

ہمیں تو ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کے مصنف جناب ایس ایچ جعفری کے صنف نازک میں حد درجے بڑھے ہوئے لگاؤ اور اس کے جا بجا اور جا بیجا اظہار کو مد نظر رکھتے ہوئے اسٹیفن لیکاک کی درج بالا مزاح کی تعریف کو کچھ اس طرح بیان کرنا مناسب لگ رہا ہے:

یہ زندگی کی ناہمواریوں کے اس ’مردانہ ‘شعور کا نام ہے جس کا معاندانہ (قاری کے لیے) اظہار ہو جائے۔

ہمارے قارئین یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم تو جناب ایس ایچ جعفری کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں تو ایسے تمام احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ پہلے وہ زیر موضوع کتاب اپنی حق حلال کی کمائی سے خریدیں اور اس کے مطالعے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچیں۔ یہ مضمون ہم جناب مصنف کو بھی ارسال کریں گے، ظاہر ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ان کی رائے ہمارے حق میں بہتر تو نہ ہو گی البتہ اگر وہ ہماری کچھ اشک شوئی چاہتے ہیں تو ان سے درخواست ہے کہ پہلے وہ اردو بازار کراچی کے کتب فروشوں کے پاس موجود اس کتاب کے تمام نسخوں کو واپس منگوائیں، اب تک کے فروخت شدہ نسخوں کی آمدنی علی گڑھ ایسوسی ایشن کے بجائے کسی خیراتی ادارے کے حوالے کریں، نئے سرے سے اپنی خودنوشت آپ بیتی لکھیں اور اس کا نام زیر موضوع کتاب کے عنوان میں رد و بدل کے ساتھ استعمال کیے گئے غالب کے اصل شعر کے دوسرے مصرعے پر رکھیں۔

زیر نظر مضمون کا اختتام بھی خامہ بگوش ہی کے ایک اقتباس سے کرنا مناسب نظر آ رہا ہے:

’’ہمارے ننانوے فیصد ادیب اپنے حسن عمل کا نتیجہ اسی دنیا میں دیکھ لیتے ہیں۔ ان کی کتابیں کوئی نہیں پڑھتا۔ جب کوئی پڑھتا نہیں تو کتابوں کے فروخت ہونے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔ بس شرمندگی کی دولت ہاتھ لگتی ہے اور یہی دولت بیدار کتاب لکھنے والے کا خالص منافع ہوتی ہے۔ ‘‘

٭٭٭

 

 مستنصر حسین تارڑ کا تازہ ترین انٹرویو

چند روز قبل (فروری 2012) ایک انگریزی اخبار میں تارڑ صاحب کا انٹرویو شائع ہوا ہے، اسے ہمارے کرم فرما جناب عارف وقار نے لیا ہے۔ مذکورہ انٹرویو کا عنوان ہے:

At home with the wanderer

ہماری انگریزی ان اساتذہ کی اردو جیسی ہے جو گزشتہ 35 برس سے ماسکو یونیورسٹی میں تارڑ صاحب کی تحریریں بطور نصاب طالب علموں کو پڑھا رہے ہیں، لہذا ہم نے انٹرویو کے عنوان کا ترجمہ "ایک خانہ بدوش کے گھر میں ” کے عنوان سے کیا ہے۔ انٹرویو پڑھ کر کئی دلچسپ باتوں کا علم ہوا مثلاً:

A few days later, the young Tarrar was shocked to see a press statement issued by the prime minister of Pakistan saying that Soviet Union was Pakistan’s mortal enemy; and that the boys who had been to Moscow were traitors and would be arrested at the Karachi airport on their return and immediately dispatched to Mianwali jail.

یہ ذکر تارڑ صاحب کے 1957 میں ماسکو کے پہلے سفر سے واپسی کا ہے، ان دنوں تارڑ صاحب کی عمر 18 برس تھی۔ وہ تو میانوالی جیل جانے سے بچ گئے لیکن شنید ہے کہ میانوالی جیل میں ایسے کئی قیدی موجود ہیں جنہوں نے تارڑ صاحب کے ناولز پڑھ رکھے ہیں۔ چند ایک تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے تارڑ صاحب کا سفرنامہ ’نکلے تیری تلاش میں ‘ پڑھ کر دساور کا رخ کیا، وہاں دھر لیے گئے اور شکریے کے ساتھ واپس کیے گئے۔

انٹرویو میں تارڑ صاحب مزید بیان کرتے ہیں

After about half a century, in 2007, I got an invitation from The Moscow State University to deliver a series of lectures about the influence of Russian Classics on Pakistani literature. On that occasion, I was bestowed the Gold Medal for Outstanding Literary Contributions.

خفیہ ذرائع سے ہمیں یہ علم ہوا کہ تارڑ صاحب نے ماسکو یونیورسٹی میں "روسی فن پاروں کے پاکستانی ادب پر اثرات” کے ضمن میں اپنی ہی تحریریں پیش کیں، سند کے طور پر انہوں نے روس کے پس منظر میں لکھی اپنی تخلیقات کو پیش کیا جن میں ان کا ناول جپسی، ماسکو کی سفید راتیں وغیرہ شامل ہیں۔ روسی فن پاروں کے پاکستانی ادب پر جتنے اثرات تارڑ صاحب کی تحریروں میں نظر آتے ہیں، شاید ہی کوئی دوسری مثال مل سکے۔ تارڑ صاحب کا جلد شائع ہونے والا ناول بھی ماسکو ہی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔

ماسکو یونیورسٹی کیProfessor Galina Dushenko کے لیے پاکستان یا تو فیض کی شاعری ہے یا پھر مستنصر کا ناول۔ ان کے الفاظ میں :

For us, Pakistan is Faiz’s poetry and Tarrar’s novels”

فیض کی شاعری تک تو بات سمجھ میں آتی ہے، البتہ خاتون پروفیسر کے بیان کے دوسرے حصے کو پڑھ کر ماسکو اور اسلام آباد کے خراب تعلقات کا سبب اب ذرا واضح طور پر سمجھ میں آیا ہے۔ گزشتہ 35 برس میں تو ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب یہ یہ حالات خطرناک حد تک خراب ہو گئے تھے، خبریں گرم تھیں کہ روس کی جانب سے حملہ اب ہوا کہ تب ہوا۔ یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ خاتون پروفیسر کے لیے پاکستان، تارڑ صاحب کا ناول ہی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں، یہاں ایک مطلب تو سیدھا سیدھا یہ نکلتا ہے کہ شاید خاتون کا اشارہ یہاں تارڑ صاحب کے ناول راکھ کے عنوان کی جانب ہے کہ وطن عزیز میں گزشتہ چند برسوں سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیش نظر خیال "راکھ” اور ’خس و خاشاک‘ ہی کی جانب جاتا ہے۔ ماسکو یونیورسٹی میں 35 برس سے تارڑ صاحب کی چند تحریریں نصاب میں شامل ہیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر تحقیقی کام عموماً سارا سال ہی ہوتے رہتے ہیں اور ان کے عوض پی ایچ ڈی کی سند بھی جاری کی جاتی ہے، ہمیں امید ہے کہ یہ تارڑ صاحب کی تحریروں پر بھی پی ایچ ڈی کی جائے گی یا ہو سکتا ہے کہ اب تک کی جاچکی ہو۔

 خامہ بگوش نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ:

"مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں جن کاموں پر سزا ہو سکتی ہے، انہی کاموں پر بعض پسماندہ ایشیائی ممالک میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جاتی ہے۔ تارڑ صاحب کے معاملے میں مندرجہ بالا بیان کو الٹ کر (مہذب ممالک سے ایشیائی ممالک کے الٹ پھیر کے ساتھ) پڑھا جائے تو مفہوم واضح ہوتا نظر آتا ہے۔

یہ مقام شکر ہے کہ تارڑ صاحب کی تحریریں ماسکو یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کی گئیں، ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں، خدا کا شکر ہے کہ ان کی محنت ضائع نہیں ہوئی ورنہ اس قسم کی کوششوں میں ہم نے خود ادیب کو ضائع ہوتے دیکھا ہے۔ (خامہ بگوش سے معذرت کے ساتھ)

 انٹرویو میں ایک ٹکڑا یہ بھی نظر سے گزرا :

Dr Christina Oesterheld, from the Institute of Modern South Asian Languages and Literatures, Heidelberg University, Germany, is an expert in modern Urdu Literature. She specialises in the fiction of Quratulain Hyder, but she has declared my novel Raakh to be the most representative piece of fiction of the whole subcontinent.”

ڈاکٹر اوسٹر ہیلڈ سے جناب ابن صفی کے تعلق سے ہمارا رابطہ بھی رہا ہے، کیا خوب خاتون ہیں۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ ایک غیر ملک سے تعلق رکھنے والی نے ہمارے ادیب کے مقام کا تعین کیا ہے، یہ کام تو ہمارے نقادوں کو کرنا چاہیے۔ ایک نقاد سے ہماری اس سلسلے میں بات ہوئی تھی، کہنے لگے کہ راکھ کو پڑھنے کے بعد ان کے ہاتھ میں سوائے راکھ کے، اور کچھ نہ آیا لہذا انہوں نے اس پر تبصرہ لکھنے کا خیال ترک کر دیا۔ ہم اس شر پسندانہ رائے سے ہرگز ہرگز اتفاق نہیں کرتے! لیکن حال ہی میں ہمیں ناقدین کے تارڑ صاحب کے بارے میں اس معاندانہ رویے کی ایک اہم وجہ معلوم ہوئی ہے۔ دونوں طرف ہے "آگ” برابر لگی ہوئے کے مصداق تارڑ صاحب بھی نقادوں سے سخت بیزار ہیں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ تارڑ صاحب کا ایک حالیہ بیان لاہور کے الحمراء کے جنوری 2012 کے سالنامے میں شائع ہوا ہے۔ مدیر الحراء کی ہمت کو داد ہے کہ ان کا خط شائع کر دیا۔ اپنے خط میں فرماتے ہیں :

” درانی نامہ اور محمد کاظم کی آپ بیتی ‘دن جو علی گڑھ میں گزرے‘ ایسی تخلیقات ہیں جو الحمراء میں مسلسل شائع ہونے والی زہر ناک اور گھٹیا تحریروں کی کڑواہٹ بھلا دیتی ہیں جن میں کسی ایک ادبی شخصیت پر نہایت پلیدوار کیے جاتے ہیں۔ آپ کی خواہش اور فرمائش سر آنکھوں پر۔ میں اپنے تازہ ناول کے کچھ حصے آپ کی نذر کرتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ محفل احباب میں ہمہ وقت موجود پر تعصب اور مدرسی نقاد اس ناول پر اپنی عالمانہ رائے دینے سے اجتناب کریں، خاموشی اختیار کریں۔ ” (مستنصر حسین تارڑ)

ہم نے الحمراء کے چند گزشتہ شماروں کا بندوبست کرنے کی کوشش کی ہے، ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ محفل احباب میں ایسے کون سے "پُر تعصب اور مدرسی نقاد‘ ہیں جنہیں سوائے الحمراء کی محفل احباب میں موجود رہنے کے، اور کوئی کام ہی نہیں۔

 استاد لاغر مراد آبادی نے مذکورہ خط پڑھنے کے بعد فرمایا کہ "اس عزیز نے اب تک جتنے ناولز لکھے ہیں ان پر ان کے اپنے الفاظ میں ’خاموشی اختیار کر لینا‘ ہی بہتر ہے۔

لیکن تمام لوگ ایک جیسا نہیں سوچتے۔ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان مرحوم نے دو برس قبل تارڑ صاحب کے بارے میں اپنی ایک عقیدت بھری تحریر میں لکھا تھا کہ "تارڑ نے یہی کارنامہ کر دکھایا ہے کہ معمولی کو غیر معمولی بنا دیا ہے اور عام با حیا خواتین کے کرداروں کو پہاڑوں ‘ صحراؤں اور جنگلوں کی بستیوں میں افسانوی کردار بخش کر زندہ و امر کر دیا ہے۔ "

اعوان صاحب کے اس بیان کے پہلے حصے سے ہمیں مکمل اتفاق ہے کہ تارڑ صاحب کی تحریروں کے ہم بھی مداح ہیں لیکن تارڑ صاحب کے سفرناموں و ناولوں بالخصوص نکلے تری تلاش میں، اندلس میں اجنبی اور جپسی میں "عام باحیا خواتین” تو ڈھونڈ ے سے نہیں ملتیں۔ بلکہ ایک آبی ذخیرے کے کنارے غسل کرتی جن خواتین کا تفصیلی بیان’ اندلس میں اجنبی ‘میں ملتا ہے، ان میں تو حیا بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ اگر حسن اتفاق سے تارڑ صاحب کو ڈاکٹر ناژلا سعد، پاسکل، مارگریتا اور مرسیڈس جیسی باحیا خواتین دوران سفر مل بھی جاتی تھیں تووہ بھی ملاقات کے بعد اپنی حیا اور تارڑ صاحب، دونوں کو ڈھونڈتی پھرتی تھیں۔ تارڑ صاحب کے سفر اندلس کے دوران ان کی ملاقات ڈاکٹر ناژلا سعد سے ہوئی تھی، مختصر وقت ہی میں ان کے اس نیک بی بی سے تعلقات اس نہج پر پہنچ گئے کہ وقت رخصت، دونوں قرطبہ کی ایک بند گلی میں پہنچ گئے تھے اور جہاں بقول تارڑ صاحب، ’ اسے چھونے کے لیے مجھے خلیل جبران کی ضرورت نہ تھی‘۔ تارڑ صاحب تو ڈاکٹر ناژلا کو چھوڑ کر کب کے پاکستان واپس آ گئے لیکن مذکورہ سفرنامے کا قاری اب تک اس بند گلی ہی میں بھٹک رہا ہے۔

ایک زمانے میں تارڑ صاحب کے سفرناموں کی مقبولیت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ راوی کے بیان کے مطابق لاہور کے یعقوب ناسک لندن علاج کی غرض سے گئے، وہ ٹیوب میں سفر کر رہے تھے، ان کے برابر میں ایک انگریزی خاتون محو خواب تھیں،سوتے سوتے ان کا سر یعقوب صاحب کے کندھے سے آ لگا۔ انہوں نے خاتون کو جگاتے ہوئے کہا ’’ بی بی اٹھو! میں یعقوب ناسک ہوں، مستنصر حسین تارڑ نہیں ‘‘۔

ظہور اعوان صاحب عقیدت میں اس قدر بڑھ گئے اور یہ لکھنے سے بھی نہیں چوکے کہ "میں کسی زمانے میں مستنصر حسین تارڑ سے کہا کرتا تھا کہ تارڑ صاحب آپ کمرے سے غسل خانے تک جائیں تو اتنے عرصے کا بھی سفرنامہ لکھ دیں گے۔ "

اس جملے سے یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ تعریف ہے یا کچھ اور۔ اعوان صاحب نے یہ غور نہیں کیا ان کی رائے پر عمل کے نتیجے میں تارڑ صاحب کے قاری کو ایک محتاط اندازے کے مطابق سال میں ان کے 1095 سفرنامے پڑھنے کو ملیں گے۔ تارڑ صاحب کے ناشر کو چھوڑ کر ان کے قارئین کو اس کا کتنا مالی نقصان ہو گا، اعوان صاحب نے اس بارے میں نہیں سوچا تھا۔

تارڑ صاحب کے سفرناموں نکلے تری تلاش میں، اندلس میں اجنبی اور ناول فاختہ پر معروف ادیب محمد خالد اختر کے تند و تیز مضامین بھی خاصے کی چیز ہیں۔ ان مضامین میں ستائش بھی ہے اور تنقید بھی، محمد خالد اختر کے منفرد اسلوب نے ان مضامین کو کتابوں پر کیے گئے تبصروں میں ایک الگ مقام دیا ہے۔

انٹرویو کے آخر میں تارڑ صاحب سے ایک دلچسپ سوال کیا گیا:

 Wearing so many feathers in his cap — a travel writer, a novelist, a playwright, a columnist, a television presenter and an actor — how would he like to be remembered, say, 50 years from now, I ask. He looks directly into my eyes for the first time during the conversation and puts me a counter question, rather wryly, “Fifty years from now, or fifty years from the day I’m buried under tons of soil in my family graveyard؟

تارڑ صاحب نے جواب دیا:

All these feathers in my cap will be blown away by the dust-storm of time. The travel writer, the novelist, the media person will vanish in the fog of future. If, however, the impossible happens and some crackpot discovers me in the future, I would like to be remembered as a person who devoted his whole life sweating at his study table, as a travel writer and a novelist. Presumptions are pretensions but two of my novels, Bahaao and

مقتدرہ قومی زبان کی پانچ کلو وزنی لغت میں crackpotکے معنی خبطی، سنکی، نیم باؤلا، پاگل درج ہیں۔ یہاں یہ بات تعجب خیز ہے کہ تارڑ صاحب اپنے کام کو کسی ‘کریک پوٹ‘ ہی سے کیوں دریافت کروانا چاہتے ہیں۔ وطن عزیز میں آج بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو مذکورہ لفظ کی تعریف پر پورا اترتے ہیں لیکن روز بروز بڑھتے معاشی و معاشرتی مسائل کے پیش نظر اس بات کا قومی امکان ہے کہ پچاس برس کے بعد ایسے افراد کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہوگا لہذا اگلے پچاس برس بعد بھی یہ کام کئی ایسے لوگ بخوشی کرنے پر تیار ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پچاس برس بعد ہمارے ممدوح کو دریافت کرنے والے نے ان کے ناولز پڑھ رکھے ہوں، اس صورت میں یہ تلاش بیحد سہل ہو جائے گی۔

چند برس قبل وائس آف رشیا کی ا ناؤنسر ایرینا ماکسی مینکو نے تارڑ صاحب کا انٹرویو کیا تھا جو مذکورہ ریڈیو سے 27 جون 2007 کو نشر ہوا تھا، انٹرویو میں تارڑ صاحب نے انکشاف کیا کہ ماسکو یونیورسٹی کیProfessor Galina Dushenko”نکلے تری تلاش میں” کو بائبل کی طرح پڑھتی ہیں۔واضح رہے کہ تارڑ صاحب نے زیر تبصرہ انٹرویو میں اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے۔

 روسی بحیثیت قوم خدا پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کی کوئی مذہبی کتاب ہے، لہذا پروفیسر صاحبہ نے "نکلے تری تلاش میں” کو ہی ایک مذہبی کتاب کا درجہ دے دیا۔ خاتون چونکہ تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں اور اب تک ہزاروں لاکھوں طالب علموں میں علم بانٹ چکی ہیں، لہذا اس بات سے یہ خدشہ بھی لاحق ہوتا نظر آتا ہے کہ اگر آنے والے وقت میں خاتون پروفیسر کے پیروکار بھی انہی کے نقش قدم پر چل پڑے تو اس بات کا قومی امکان ہے کہ پچاس برس کے بعد "نکلے تری تلاش میں” روس کی مذہبی کتاب قرار پا سکتی ہے۔ یہ ہر گھر میں طاق پر رکھی ملے گی، لوگ اس کے ابواب کے تعویذ بنایا کر گلے میں پہنا کریں گے،  فال نکالنے والے اس سے فال نکالا کریں گے۔ اور کم و بیش یہ وہی وقت ہوگا جب وطن عزیز میں کوئی "کریک پاٹ” تارڑ صاحب کو دریافت کر رہا ہوگا۔

تارڑ صاحب کے انٹرویو میں ایک جگہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کو لکھتے ہوئے 45 برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔

 ادھر ہمارے قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ اب تک ہم نے تارڑ صاحب کی تحریروں کے بارے میں اپنی ذاتی رائے کیوں محفوظ کر رکھی ہے سو اس بارے عرض ہے کہ ہم اوائل عمری ہی سے ان کے بڑے  مداح رہے ہیں، نکلے تری تلاش میں  خانہ بدوش،  اندلس میں اجنبی،جپسی ، پیار کا پہلا شہر ، ہنزہ داستان، کے ٹو کہانی تو ہم نے گھول کر پیے ہوئے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کے بعد کے سفرناموں اور ناولوں نے گھلنے سے انکار کر دیا، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہاں ہمیں اپنے محبوب مصنف جناب ابن صفی کا تحریر کردہ ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جسے درج کرنے میں ہمیں کوئی قباحت نظر نہیں آتی:

ایک بار کا ذکر ہے کہ انگریزی کے مشہور مصنف ایڈگر ویلس نے اپنے مداحوں کے ایک مجمع میں بڑے خلوص سے کہا۔ ” پچاس ناول لکھنے کے بعد ہی مجھے ناول لکھنے کا سلیقہ ہوا ہے۔

چھوٹتے ہی ایک صاحبزادی نے فرمایا ” کاش ایسا نہ ہوا ہوتا! اب تو آپ بور کرنے لگے ہیں۔ شروع شروع کی کتابوں کا کیا کہنا۔ کاش آپ ماضی میں چھلانگ لگا سکیں۔”

٭٭٭

 

نوشاد علی لکھنوی۔ جہاں کی رُت بدل گئی

موسیقار اعظم نوشاد علی لکھنوی (۲۵ دسمبر ۱۹۱۹ تا ۵ مئی ۲۰۰۵ )کی خودنوشت کا کتابی شکل میں شائع ہونا ایک اہم واقعہ ہے!

 براڈوے تھیٹر میں فلم بیجو باورا کا پریمئر تھا۔ اس فلم کی کامیاب موسیقی نوشاد علی لکھنوی نے دی تھی۔ تھیٹر سے باہر نکلتے وقت فلمساز وجے بھٹ نے نوشاد کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو حیرت سے کہا: ’’ یہ خوشی کا موقع کا اور تم رو رہے ہو ؟ ‘‘

نوشاد نے سامنے فٹ پاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

’’ اس فٹ پاتھ کو پار کر کے یہاں براڈوے تھیٹر تک پہنچنے میں مجھے سولہ برس لگے ‘‘

اس فٹ پاتھ پر رات گئے اپنے دور کی مشہور اداکارہ لیلا چٹنس (فلم گائیڈ میں دیو آنند کی ماں کا کردار کیا) فلموں کی شوٹنگ سے واپس لوٹتی تھی، فلیٹ کے راستے میں نوشاد زمین پر خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے تھے، کہتے ہیں کہ اس کی سینڈلوں کی کھٹ کھٹ سے میری آنکھ کھل جاتی تھی اور اکثر بقیہ تمام رات آنکھوں میں کٹ جایا کرتی تھی۔

یہ سرگزشت ایسے ہی لاتعداد دلچسپ واقعات کا مرقع ہے۔

سن ۱۹۳۷ (انیس سو سینتیس) میں نوشاد اپنے ایک دوست سے ریل کا کرایہ لے کر لکھنؤ سے بمبئی چلے گئے تھے۔ کام کی تلاش میں بہت کٹھن وقت دیکھا۔ ان کے بقول ’’ میں ایک ایک کا منہ تکتا تھا۔ ‘‘۔۔  پھر قسمت کی دیوی جب مہربان ہوئی تو ایسی کہ چار دانگ عالم میں ان کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ اپنی اڑتالیس سال کی فلمی زندگی میں نوشاد نے ۶۶ فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان فلموں میں رتن، بیجو باورا، مغل اعظم، انداز، میلہ، آن، اعلان،بیجو باورا، انمول گھڑی، انوکھی ادا، امر، مدر انڈیا، دیدار، گنگا جمنا، پاکیزہ اور رام اور شیام جیسی مشہور زمانہ فلمیں شامل ہیں۔ ان کے چند مشہور گیت ملاحظہ ہوں :

انکھیاں ملا کے جیا برما کے چلے نہیں جانا۔ رتن

 آ جا میری برباد محبت کے سہارے۔ انمول گھڑی

غم دیے مستقل، کتنا نازک ہے دل۔ شاہجہان

 جب دل ہی ٹوٹ گیا۔ شاہجہان

 تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا۔ بیجو باورا

او دنیا کے رکھوالے سن درد بھرے میرے نالے۔ بیجو باورا

دل میں چھپا کے پیار کا طوفان لے چلے۔ آن

اے دل تجھے قسم ہے۔ دلاری

ڈوبا تارا امیدوں کا سہارا۔ اڑن کھٹولا

یاد میں تیری جاگ جاگ کے ہم۔ میرے محبوب

زندہ باد اے محبت زندہ باد۔ مغل اعظم

ملتے ہی آنکھیں دل ہو ا دیوانہ کسی کا۔ بابل

انصاف کا مندر ہے۔ امر

ہوئے ہم جن کے لیے برباد۔ دیدار

مان میرا احسان۔ آن

میرے پاس آؤ نظر تو ملاؤ۔ سنگھرش

نوشاد علی لکھنوی کی سرگزشت کبھی منظر عام پر نہ آتی اگر ظہیر ناصر، نوشاد کے ساتھ بیٹھ کر اسے لفظ بہ لفظ نہ لکھتے۔ ابتدا میں یہ سرگزشت شمع دہلی میں جنوری ۱۹۸۴ (چوراسی) سے نومبر ۱۹۸۵(پچاسی) تک قسط وار شائع ہوئی تھی اور پھر چار برس کے وقفے کے بعد مارچ ۱۹۸۹ (نواسی) سے شمع میں اس کے دوسرے حصے کی اشاعت شروع ہوئی۔ عالمی اردو کانفرنس کے سیکریٹری فاروق ارگلی نے ۲۰۰۶ میں پہلی مرتبہ کتابی شکل میں اسے نوشاد کی شاعری کے مجموعے کے ساتھ دہلی سے شائع کیا اور اس شان سے کہ ۴۹۱ (چار سو اکیانوے) صفحات کی قیمت محض ۱۵۰ (ایک سو پچاس ) روپے مقرر کی گئی۔ ان دنوں دہلی ہی سے ملک زادہ منظور کی آپ بیتی رقص شرر بھی شائع ہوئی تھی۔ صفحات بھی کم و بیش اتنے ہی تھے جتنے نوشاد کی خودنوشت کے ہیں لیکن رقص شرر کی قیمت ۵۵۰ (پانچ سو پچاس) ہے۔

 یہاں اس دلچسپ سرگزشت سے کچھ انتخاب شامل کیا جا رہا ہے:

۱۔فلم مرزا صاحباں میں ایک آؤٹ ڈور گانا تھا کہ ہیروئن پکڑے دھو رہی ہے اور گیت گا رہی ہے۔ یہ گیت پوائی لیک پر فلمانا تھا۔ پوئی لیک پر میوزیشن چھپائے گئے کیونکہ پلے بیک کا زمانہ نہیں تھا اور شوٹنگ میں ہی گانا فلمایا جاتا تھا۔ کلارنٹ بجانے والے کو درخت کی ایک ٹہنی پر بٹھایا گیا۔ مجھے آرگن دیا گیا۔ میں بھی ایک پیڑ پر چڑھا۔ ریہرسل ہوئی، کیمرہ سیٹ کیا گیا۔ ہیروئن نے شکایت کی کہ لے نہیں مل رہی، طبلہ قریب لاؤ۔ اب مشکل یہ کہ طبلے والا اگر ہیروئن کے قریب آئے تو کیمرے میں آئے گا۔ پھر حل یہ نکالا گیا کہ ایک بڑے پیڑ کو کاٹا گیا۔ غوثا پہلوان طبلہ بجا رہے تھے۔ ایک بڑا ٹہنا ان کی کمر سے باندھا گیا۔ شاخوں سے ان کو ڈھانپ دیا گیا، اس طرح یہ ہیروئن کے قریب ہوئے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ غوثا پہلوان طبلہ بجاتے وقت ہل رہے ہیں اور معلوم ہو رہا ہے کہ پیڑ ہوا سے ہل رہا ہے۔

 ۲۔ان دنوں مجھ پر کام کا ایسا جنون سوار رہتا کہ اپنا ہوش نہ رہتا۔ ہر وقت، ہر لمحہ کسی گیت کی دھن، کسی گیت کے بول میرے ہوش و حواس پر چھائے رہتے۔ ایسے عالم میں مجھ سے بڑی بڑی حماقتیں بھی سرزد ہوتیں۔ میں نے دادر میں فلیٹ کرائے پر لیا تھا۔، مگر ایک روز کسی گیت کی دھن سوچتا ہوا سیدھا پریل کی جھونپڑ پٹی کی چال میں پہنچ گیا۔ بڑے اطمینان کے ساتھ کوٹ وغیرہ اتارا اور بستر پر دراز ہو گیا۔ آنکھیں موندے دھن کو سجانے سنوارنے میں مصروف تھا کہ ایک عورت کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ مجھے دیکھ کر چونکی۔ اس نے مراٹھی زبان میں مجھ سے پوچھا۔ ’’ تم کون ہو ؟ ‘‘۔۔  میں اس سوال پر ہڑبڑا کر اٹھا، اپنا کوٹ اٹھایا اور دوڑ لگا دی۔ بھاگتے بھاگتے بس اسٹینڈ پر آیا، بس پکڑی اور دادر کے مکان پر پہنچا۔ گھر آ کر اپنی حماقت پر ہنسی بھی آئی اور یہ سوچ کر جسم میں لرزہ بھی پیدا ہوا کہ کسی غیر کے مکان میں کسی غیر عورت کی موجودگی میں داخل ہونے کی بہت بڑی سزا بھی مل سکتی تھی۔

۳۔اپنے کام کی سرمستی میں ایک مرتبہ لوکل ٹرین میں سفر کر رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں سگرٹ تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ نوٹ بک جس میں گیت تھے۔ جب سگرٹ کی وجہ سے انگلی جلنے لگی تو میں نے اپنی دانست میں سگرٹ چلتی ٹرین سے پھینک دیا، کچھ لمحے بعد احساس ہوا کہ انگلیاں اب بھی جل رہی ہیں تو پتہ چلا کہ سگرٹ کی جگہ نوٹ بک چلتی ٹرین سے پھینک دی ہے۔ پریل قریب تھا۔ اسٹیشن پر اترا اور ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ چلتے چلتے کھار پہنچا۔ وہاں مجھے اپنی نوٹ بک پڑی مل گئی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ نوٹ بک مل گئی کیونکہ اس میں وہ گیت بھی تھا جو دوسرے دن مجھے ریکارڈ کرانا تھا۔

۴۔فلم قانون ریلیز ہوئی تو ایک غلط فہمی کی وجہ سے بڑا زبردست ہنگامہ بھی ہوا۔ فلم کا ایک سین کچھ اس قسم کا تھا کہ گھر میں ایک مندر بنا ہوا ہے جہاں پتنی بھجن گا رہی ہے۔ اس کا پتی آتا ہے اور کہتا ہے کہ بند کرو یہ بکواس، اور مندر کو ٹھوکر مارتا ہے۔ تماشائیوں کو اس بات پر اعتراض تھا کہ مندر کو ٹھوکر کیوں ماری گئی۔ حالانکہ اس مندر میں کسی مورتی کی بجائے پتی کی تصویر رکھی ہوئی ہوتی ہے۔ فیصلہ کیا گیا کہ کمپنی کے تمام ملازمین سینما ہال جائیں اور جب ٹھوکر مارنے کے بعد شوہر کی تصویر نظر آئے تو تالیاں بجائی جاتیں تاکہ لوگ سین کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ پروگرام کے مطابق تمام ملازمین بھیجے گئے۔ ان میں ایک پارسی بابا بھی تھے جو پیانو بجاتے تھے۔ ان بزرگ سے ذرا سی غلطی ہو گئی۔ انہوں نے ٹھوکر لگتے ہی تالیاں بجا دیں۔ دوسرے فلم بینوں نے ان کی پٹائی کر دی۔ لیکن آہستہ آہستہ اس حکمت عملی نے کام دکھانا شروع کیا۔ اور وہ سین فلم کی خوبی بن کر ابھرا۔

۵۔فلم شاہجہاں کی شوٹنگ شروع ہو چکی تھی۔ چونکہ تاریخی فلم تھی لہذا بہت بڑی تعداد میں ایکسٹرا اداکار اور اداکارائیں اس فلم کی شوٹنگ میں حصہ لیتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ شوٹنگ کے بعد یہ اداکار گٹ اپ اور فلمی ملبوسات کے ساتھ اسٹوڈیو کے گیٹ سے رخصت ہو جاتے اور اگلے دن شوٹنگ کے وقت دوبارہ گٹ اپ اور ڈریس تیار کرانے پڑتے۔ کاردار میاں اس صورت حال سے پریشان تھے۔ انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ اسٹوڈیو کے گیٹ پر ایک چوکی دار کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ ہر شخص سے گٹ اپ اور ملبوسات اتروائے۔ حکیم حیدر بیگ، کاردار میاں کے قریبی دوست اور محبوب صاحب کے سمدھی تھے۔ وہ کاردار میاں سے ملنے اسٹوڈیو آئے۔ ملاقات کے بعد جب وہ گیٹ پر پہنچے تو زبردست ہنگامہ ہو گیا۔ حکیم صاحب زور زور سے چلا رہے تھے۔ ہم نے شور کی آواز سنی تو ا سٹوڈیو کے گیٹ پر پہنچے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ چوکی دار حکیم صاحب سے اصرار کر رہا ہے کہ وہ داڑھی اتار کر جائیں۔ حکیم صاحب غصے میں آگ بگولا ہو کر چوکی دار سے کہہ رہے ہیں :

’’ بدتمیز ! خبیث! تیری یہ مجال کہ میرے چہرے کی داڑھی کو اتروائے۔ بے وقوف یہ اصل داڑھی ہے ‘‘

کاردار میاں آگے بڑھے۔ چوکی دار کو ڈانٹ پلائی۔ ایسے واقعات بیسیوں مرتبہ ہوئے۔

کاردار میاں اس فلم میں جنت کے مناظر بھی فلما رہے تھے۔، لہذا علماء کو مشورے کے لیے بلایا جاتا۔ مختلف لوگ آتے اور خوب بحث و مباحثہ ہوتا۔ ان محفلوں میں بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہوتی۔ علماء کو فلمی کہانی، منظر نامہ یا مکالموں سے کیا لینا دینا۔ اکثر پورا منظر سننے سے پہلے علماء اعتراضات شروع کر دیتے۔ کاردار میاں بیچ میں کہتے

 ’’ جناب! پہلے مکمل سین تو سن لیجیے، پھر اعتراض کیجیے گا۔ ‘‘

مجروح سلطان پوری فلم کے گیت سناتے تو مشاعرے کا ماحول پیدا ہو جاتا۔ سبحان اللہ۔۔  سبحان اللہ کا شور بلند ہوتا تو کاردار میاں پریشان ہو کر کہتے۔

’’ حضرت! آپ مشاعرہ سننے نہیں آئے۔ آپ کہانی سنیئے۔ ‘‘

جیسے تیسے یہ مرحلہ ختم ہوتا تو اسٹوڈیو کے دروازے پر وہی ہنگامے۔ چوکی دار کسی عالم سے کہتا کہ پگڑی اتار کر جائیے۔،کسی عالم دین کے انگرکھے کو اتروانے کی ضد کرتا۔

ان واقعات کے بعد کاردار میاں نے گیٹ پر ایک ایسے شخص کو تعینات کر دیا جو مہمانوں کو پہچانتا تھا۔

۶۔لکھنؤ کا سفر بہت عرصے بعد اختیار کیا تھا۔ اداس دل کے ساتھ لکھنؤ پہنچا۔ ہمارے گھر کے پڑوس میں ایک پنڈت جی رہتے تھے۔ پنڈت جی نے میری حالت دیکھی تو تو مجھ سے کہا: ’’ آج کل حضرت وارث علی شاہ کا عرس اور میلہ چل رہا ہے۔ وہاں ہو آؤ۔ ‘‘

میں دیوا شریف پہنچا تو کلکٹر صاحب اپنی کار لیے موجود تھے۔ میں کار کے ذریعے سفر کر رہا تھا اور میرا بچپن میرا تعاقب کر رہا تھا۔ بیتے دنوں کی ایک ایک بات یاد آ رہی تھی۔ بچپن میں جس بانسری والے کی بانسری سنی تھی، اس کی جگہ اس کا بیٹا بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔

’’ چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا ‘‘ غزل گانے والے استاد نصیر خان صاحب کی جگہ دوسرا گویا بیٹھا ہوا تھا۔ برگد کا پرانا درخت جوں کا توں اپنی جگہ کھڑا تھا۔ میں نے فاتحہ پڑھی اور اسی رات لکھنؤ واپس آ گیا۔ جب میں غیر متوقع طور پر رات ہی کو واپس آ گیا تو پنڈت جی کو بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے پنڈت جی کو بتایا کہ دیوا شریف کا میلہ تو وہی ہے، مگر پرانے لوگوں کی جگہ نئی نسل آ گئی ہے۔ پنڈت جی نے میری بات سنی تو اپنے گاؤں کا واقعہ سنایا کہ ایک اسکول ٹیچر سزا کاٹ کر اپنے گاؤں آیا تو زمانہ بدلا ہوا پایا۔ یہ واقعہ سنا کر پنڈت جی نے مجھ سے کہا۔ ’’ بیٹے یہ دنیا میلہ ہی تو ہے ‘‘

یہاں سے فلم میلہ کی ابتدا ہوئی!

میں نے کہانی لکھی اور جے بی ایچ واڈیا کو سنائی۔ انہوں نے کہانی پسند کی اور اسے بنانے کا وعدہ کیا۔ فلم میلہ بننی شروع ہوئی۔ کسی بزرگ شاعر کا ایک شعر میرے ذہن میں تھا:

دنیا کے جو مزے ہیں ہرگز یہ کم نہ ہوں گے

چرچے یہی رہیں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے

میں نے شکیل بدایونی صاحب سے اسی مضمون پر یہ گیت:

یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے

افسوس ہم نہ ہوں گے

لکھوایا۔ محمد رفیع کی آواز میں اسے ریکارڈ کیا۔

 ۷۔ مجھے فلموں کے مرکزی خیال کیسے سوجھے، اس پر روشنی ڈالتا ہوں۔ فلم میلہ کے بارے میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ بابل کی کہانی کا مرکزی خیال مجھے بچپن میں پڑوس میں رہنے والے ایک کوچوان کی جوان بیٹی (جو گونگی اور بہری تھی) سے ملا تھا۔ یہ بچی محلے کی کسی بھی شادی میں جاتی اور دلہن کو دیکھتی تو بہت خوش ہوتی۔ اور وہاں سے آ کر اشاروں میں اپنے باپ سے کہتی ’’ مجھے دلہن کب بناؤں گے ‘‘

باپ اپنی بچی کی یہ فطری خواہش سن کر رو پڑتا۔ وہ اکثر پڑوسیوں سے کہتا ’’ اب اس پگلی کو کیسے سمجھاؤں کہ اس سے شادی کون کرے گا۔ ‘‘

فلم بابل کا کلائمکس اس لڑکی کی زندگی سے ہی سے لیا گیا تھا۔ جب یہ گونگی بہری لڑکی شادی نہ ہونے کے غم اور دلہن نہ بننے کے دکھ میں بستر مرگ پر پڑی تھی تو محلے کے ایک نوجوان نے لڑکی کے باپ سے کہا تھا : ’’ چاچا کیوں روتے ہو ؟ میں تمہاری بیٹی سے شادی کروں گا۔ ‘‘

اس لڑکے نے لڑکی کو بستر مرگ پر دلہن بنایا تھا اور لڑکی اسی دوران مر گئی تھی۔

فلم بابل کا کلائمکس بھی یہی تھا!

۸۔کے آصف (فلمساز، ہدایتکار و مصنف مغل اعظم) کی ہر فلم کی شوٹنگ کے دوران لوگوں کی لائن لگی رہتی تھی۔ ہر شخص کام کی تلاش میں ہوتا اور اپنی پریشانیاں کا اظہار کرتا۔ آصف صاحب ہر شخص کو میک اپ کراتے اور سیٹ پر کھڑا کر دیتے۔ ایسے لوگوں کو روزانہ معاوضہ ملتا رہتا اور زندگی کی گاڑی چلتی رہتی۔ ایک روز ہم دفتر میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ایک ادھیڑ عمر جونئیر آرٹسٹ کمرے میں داخل ہوا اور بیٹھتے ہی رونے لگا۔ ہم دونوں پریشان ہو گئے کہ اس نے رونا کیوں شروع کر دیا۔ آصف صاحب نے اس سے پوچھا  : ’’ ارے روتا کیوں ہے ‘‘۔۔ ۔

جونیئر آرٹسٹ نے جواب دیا :

 ’’ دو روز بعد میری بچی کی بارات آنے والی ہے۔ میں نے اپنے رشتے دار کے پاس اس مقصد کے لیے پیسے جمع کرا رکھے تھے۔ وہ پیسے کھا گیا۔ اب میری عزت کا سوال ہے۔ بیٹی کی شادی کیسے کروں گا۔ ‘‘

آصف صاحب نے اس کی بات سنی۔ اس کے لیے چائے اور بسکٹ منگائے۔ ’’ مرد ہو کر روتا ہے، بتا کتنے پیسے چاہیں ‘‘

اس نے جواب دیا: ’’ آصف صاحب، کم از کم دس ہزار میں کام بنے گا۔ ‘‘

آصف صاحب نے اپنا کوٹ منگوایا۔ اسے اپنے کندھے پر رکھا اور جونیئر آرٹسٹ کو ساتھ لے کر ایک سندھی فنانسر کے پاس گئے۔ ہنڈی پر دس ہزار روپے لیے اور اور یہ کہہ کر آرٹسٹ کے حوالے کیے : ’’ یہ تیری بچی کی شادی پر میرا تحفہ ہے، قرض نہیں ہے۔ ‘‘

جونیئر آرٹسٹ پیسے ملنے کے بعد آصف صاحب سے لپٹ کر رونے لگا۔ کہنے لاگ ’’ آصف صاحب! آپ تو دیوتا سمان ہیں۔‘‘

۹۔مینا کماری مرحومہ نے فلم پاکیزہ دیکھنے کے بعد میری ترتیب دی ہوئی پس منظر موسیقی کی تعریف میرے غریب خانے پر آ کر کی تھی۔ ان دنوں مینا بہت بیمار تھیں۔ او ر میرے گھر کے قریب لینڈ مارک بلڈنگ میں رہتی تھیں۔ ایک شام میرے گھر آئیں اور کہنے لگیں : ’’ نوشاد صاحب! میں رات بھر جاگتی ہوں اس خوف سے کہ دن نکلے گا اور دن اس کشمکش میں گزرتا ہے کہ اب اندھیرا ہونے والا ہے۔ ‘‘

مجھ سے مینا کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ میں نے کاغذ اٹھایا اور مینا کی کیفیت کو اس قطعہ میں سمو دیا۔ :

دیکھ سورج افق میں ڈوب گیا

دھوپ اک سر سے تیرے اور ڈھلی

ایک دن الجھنوں کا اور گیا

اک کڑی زندگی کی اور کٹی

مینا کماری نے یہ قطعہ بار بار پڑھا اور زار و قطار رونے لگیں۔

۱۰۔احمد بھائی کھتری بمبئی میں رہتے ہیں۔ بڑے بزنس مین ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا پیدائشی طور پر گونگا بہرا تھا۔ عمر مشکل سے چار پانچ سال ہو گی۔ احمد بھائی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک عجیب و غریب بات بتائی۔ انہوں نے کہا ’’ نوشاد صاحب، آپ کی فلم ساتھی کے ایل پی ریکارڈ میں ایک گیت ہے جس کے بول ہیں :

آنکھیں کھلی تھیں آئے تھے وہ بھی نظر مجھے

پھر کیا ہوا نہیں ہے کچھ اس کی خبر مجھے

میرا بچہ ہمیشہ بالکل خاموش اور گم صم رہتا ہے۔ ایک دن گھر پر ایل پی ریکارڈ بج رہا تھا۔ جب یہ گیت شروع ہوا تو بچے نے خوشی کا اظہار کیا۔ یہ گیت ختم ہوا اور دوسرا گیت شروع ہوا تو بچہ رونے لگا۔ میں نے دوبارہ یہی گیت لگا دیا۔ جب جب یہ گیت بجتا ہے، بچہ بہت خوش نظر آتا ہے۔ جب گیت ختم ہوتا ہے تو بچہ رونے لگتا ہے۔ میں درجنوں کے حساب سے فلم ساتھی کے ایل پی ریکارڈ لا چکا ہوں اور ہر ریکارڈ کا وہ حصہ گھس گھس کر ختم ہو چکا ہے جہاں یہ گیت ہے۔ ‘‘

بعد میں یہ بچہ سخت بیمار ہو کر ہسپتال پہنچ گیا اور اور وہاں جا کر بے ہوش ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ بچہ کوما میں چلا گیا ہے اور اب دو بارہ ہوش میں کبھی نہیں آئے گا۔ چند گھڑیوں کا مہمان ہے۔ ڈاکٹروں کے منہ سے ایسی بات سن کر احمد بھائی بچے کو گھر لے آئے۔ تین چار روز سے مستقل بے ہوش بچے کو انہوں نے ریڈیو گرام کے سامنے لٹا دیا اور وہی گیت سنایا۔ بچے نے آنکھیں کھولیں، ماں باپ کو مسکراتے ہوئے دیکھا اور گیت ختم ہوا تو بچے نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ احمد بھائی نے اپنے بچے کی قبر پر جو کتبہ لگوایا اس پر اس گیت کا مکھڑا کندہ کرایا۔ بچے کی قبر بمبئی کے سونا پور قبرستان میں ہے۔

٭٭٭

ریڈیو کے دن

 بی بی سی لندن سے عرصہ ۲۴ برس تک وابستہ رہے صاحب اسلوب صحافی و ادیب رضا علی عابدی کی سرگزشت ‘ ریڈیو کے دن‘، لاہور کے ادارے سنگ میل پبلیکیشنز سے شائع ہوئی ہے۔ جون ۲۰۱۱ میں منظر عام پر آنے والی عابدی صاحب کی یہ کتاب ان کی بی بی سی ریڈیو میں گزارے ہوئے ایام کی روداد ہے۔ اس کتاب کے صفحات کی تعداد ۱۸۲ ہے جبکہ قیمت چار سو روپے مقرر کی گئی ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کتابوں کی ہوشربا قیمتوں کے سلسلے میں پڑھے لکھے طبقے کی جانب سے کیا جانے والا احتجاج اور اس کے نتیجے میں کتاب سے روز بروز قاری کے کمزور پڑتے رشتے کو مضبوط کرنے میں ناشران سے لے کر حکومت، کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کتاب کا سرورق دلکش ہے اور اس پر عابدی صاحب کی ایک متانت سے بھرپور تصویر نمایاں ہے۔ ریڈیو کے دن کے بعد جلد ہی رضا علی عابدی کی دوسری سرگزشت بعنوان اخبار کی راتیں منظر عام پر آنے والی ہے۔

رضا علی عابدی ۳۰ نومبر ۱۹۳۶ کو رڑکی میں پیدا ہوئے۔ پاکستان ہجرت کی۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز روزنامہ جنگ اور حریت سے کیا۔ یہ سن ساٹھ کی دہائی بات ہے۔ ۱۹۷۲ میں بی بی ریڈیو لندن سے وابستہ ہوئے جہاں سے ۹۹۶ ۱ میں سبکدوش ہوئے۔ بی بی سے وابستگی کے دوران ان کے کئی سلسلے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے جن میں کتب خانہ، جرنیلی سڑک، ریل کہانی اور شیر دریا قابل ذکر ہیں۔ ان کے پروگرام شاہین کلب نے تو ہند و پاک میں دھوم ہی مچا رکھی تھی۔ شاہین کلب کے سدھو بھائی (محمد علی شاہ مرحوم) کو کون بھول سکتا ہے۔

ریڈیو کے دن میں وہ تمام گزری ہوئی باتوں کو مرحلہ وار یاد کرتے چلے گئے ہیں اور قاری ان کے حسن بیان کے سحر میں ہمیشہ کی طرح مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کتاب میں اکثر واقعات جرنیلی سڑک اور شیر دریا کے سلسلے میں کیے جانے سفر کا تسلسل کہے جا سکتے ہیں۔ کہیں کہیں تو جرنیلی سڑک اور شیر دریا کے مکمل پیراگراف از سر نو درج کیے گئے ہیں۔ جمیل جالبی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ بعض کتابیں دلچسپ ہوتی ہیں، آپ انہیں روانی کے ساتھ پڑھ بھی جاتے ہیں لیکن جب کتاب بند کے کے جائزہ لیتے ہیں کہ کیا پایا اور کیا کھویا تو اندازہ ہوتا ہے کہ وقت آسانی کے ساتھ گزر گیا البتہ بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ آپ کا وقت بھی آسانی کے ساتھ گزر جاتا ہے اور کتاب ختم کرنے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی تپتی دھوپ میں پوری تہذیب کے شجر سایہ دار نے آپ کو ٹھنڈک اور سایہ فراہم کیا ہے۔

 ریڈیو کے دن بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے !

 لیکن رضا علی عابدی کہیں کہیں تو آپ کو لرزا کر رکھ دیتے ہیں۔ ایک جگہ انہوں نے بوٹو بھائی کا ذکر کیا ہے، کراچی میں جن کے مکان پر ایم ایچ نقوی کی تختی لگی رہتی تھی۔ نقوی صاحب کو بے تکلفی سے بوٹو بھائی کہہ کر پکارنے والوں میں سینکڑوں لوگ شامل تھے، ان میں خواجہ ناظم الدین سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی بیوی کے نام لیے جاتے تھے۔ بوٹو بھائی نے سندھ کا چپہ چپہ چھان مارا تھا، دیہاتیوں میں بہت مقبول تھے اور ان میں بھٹو صاحب کہلاتے تھے، جہاں جاتے کچہری لگا کر بیٹھ جاتے اور اپنے خالص کانپوری لہجے میں شروع ہو جاتے تھے۔ منظر یوں ہوتا کہ بوٹو بھائی کسی اطاق یا چائے خانے میں بیٹھے ہیں اور اردگرد مقامی باشندوں کا مجمع ہے اور وہ کہہ رہے ہیں :

ارے صاحب، صبح سے شام تک میں نے اسی مرغابیاں ماری۔۔ ۔  پھر کہتے ’ کتنی ؟‘ اور پورا مجمع یک زبان ہو کر کہتا ’اسی ‘۔ ۔ ۔

کہنے لگے محمد خان جونیجو نے اس علاقے میں چالیس اسکول کھولے۔۔ ۔  ’ کتنے ؟ ‘

اور مجمع آہستہ سے بولا: چالیس۔۔

کہیں بتا رہے تھے: وڈیرہ اللہ بچائیو نے بارہ ہرن پال رکھے ہیں۔۔ ۔  کتنے ؟

مجمع یک زبان ہو کر: ’ بارہ ‘

بوٹو بھائی، رضا علی عابدی کو بی بی سی کے پروگرام شیر دریا کے سلسلے میں سندھ کے کونے کونے میں لے گئے اور اخیر میں عابدی صاحب کی فرمائش پر وہ جگہ دکھائی جہاں دریائے سندھ سمندر (بحیرہ عرب) میں گرتا ہے۔ سفر تمام ہوا، بوٹو بھائی کامیاب سفر کے اختتام پر عابدی صاحب کو کراچی واپس لے آئے۔ بوٹو بھائی کے بے مثال تعاون اور یادگار مہمان نوازی پر تمام راستے عابدی صاحب سفر وسیلہ ظفر اور مسافر نواز بہتیرے جیسے اقوال کو دوہراتے گئے۔ کراچی پہنچ کر عابدی صاحب نے بوٹو بھائی کے ہاتھ چومے اور آوازوں سے بھرے درجنوں کیسٹس خوشی خوشی سنبھالے لندن لوٹ گئے۔۔ ۔  عابدی لکھتے ہیں :

چند روز بعد میں نے اپنے کمپیوٹر پر پاکستان کے ایک اخبار میں یہ خبر پڑھی:

’ ناظم آباد کے بلاک نمبر چار میں تکون باغ کے قریب نامعلوم افراد ایک شخص پر گولیاں برسانے اور اسے ہلاک کرنے بعد فرار ہو گئے۔ مرنے والے کا نام سید محبت حسین نقوی بتایا جاتا ہے۔ ‘

 وہ بوٹو بھائی تھے۔ مارنے والوں نے بالکل قریب سے فائر کیا اور انہیں سات گولیاں لگیں۔

 ’ کتنی ؟ ‘

پہلا سفر

پہلا سفر رضا علی عابدی کی ریڈیو کے تعلق سے برصغیر کے اپنے سفر کی روداد ہے۔ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہے جن کی مقرر کردہ قیمتیں دیگر ناشران کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ ہی رہی ہیں۔ لہذا ناشر کو ۸۰ صفحات کی اس مختصر کتاب کی قیمت ۲۵۰ مقرر کرنے میں کوئی عار محسوس نہ ہوا۔ کتاب کے سرورق پر حیدرآباد دکن میں گولکنڈہ کی شاہی عمارتوں کی ایک شاندار تصویر دی گئی ہے جبکہ کتاب کے زیریں حصے پر ایک دوسری تصویر میں عابدی صاحب اجمیر شریف کی ایک بچی کو گود میں تھامے کھڑے ہیں جو ان کے بیان کے مطابق بی بی سی کے سامعین کی دعاؤں سے اس دنیا میں آئی تھی۔ پہلا سفر کے عقبی ورق پر بھوپال میں مولانا آزاد لائبریری کی عمارت کی پر شکوہ تصویر دی گئی ہے۔

پہلا سفر کو عابدی صاحب کی سفری یادداشتیں کہا جائے تو مناسب ہو گا گرچہ انہوں نے اس کتاب کے اندرونی صفحے پر  ’سفرنامے ‘ کا لفظ کندہ کروایا ہے۔ پیش لفظ میں انہوں نے اس کتاب کے لکھے جانے کا پس منظر بیان کیا ہے۔ ہوا یوں کہ سن ۱۹۸۲ میں جب انہیں بی بی سی لندن سے وابستہ ہوئے بارہ برس ہو چلے تھے، ریڈیو کے حکام بالا نے فیصلہ کیا کہ انہیں پاکستان اور بھارت کے دورے پر بھیجا جائے۔ بقول ان کے، دو باتیں طے ہوئیں، ایک تو یہ کہ عابدی صاحب مختلف شہروں میں اپنے سننے والوں سے ملاقاتیں کریں دوسرے یہ کہ پرانے کتب خانوں کا جائزہ لیں اور پھر اس پروگرام کو سلسلہ وار ریڈیو نے نشر کیا جائے۔ عابدی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کا اولین مقصد تو پورا ہوا لیکن دوسرا پہلو تاریکی ہی میں رہ گیا۔ وہ پہلو یہ تھا کہ کوئی یہ نہ جان سکا کہ یہ جو عابدی صاحب قریہ قریہ گھومے اور اور ان گنت لوگوں سے ملے تو انہوں نے کہاں کہاں کیا کیا دیکھا، ان پر کیا گزری اور بقول ان کے، اپنے مشاہدات کی جھولی میں کیا کیا بٹورا۔

 یہ تو غنیمت ہوئی کہ عابدی صاحب نے اس سفر کی یادداشتوں کے نوٹس محفوظ کر لیے تھے جو پچھلے دنوں ان کے کاغذات سے برآمد ہوئے اور یوں اس مختصر لیکن دلچسپ کتاب کے منصہ شہود پر آنے کا جواز بنا۔ ان کی تحریروں کے اسیر قارئین سرشار ہوئے۔ قلم کی روانی اور کہیں کہیں واقعات کا ادھورا رہ جانا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ یہ قلم یادداشتوں پر مبنی ایسی دو چار مزید کتابیں سپرد قاری کیے بنا نہیں مانے گا۔ اپنی اس نوٹس بنانے کی عادت کو وہ انگریزوں سے سیکھی ہوئی ایک غضب کی عادت مانتے ہیں۔

رضا علی عابدی کی تصانیف میں جہازی بھائی، شیر دریا، جرنیلی سڑک، ملکہ وکٹوریا اور منشی عبدالکریم، کتب خانہ، حضرت علی کی تقریریں، جان صاحب، ریل کہانی، نغمہ گر، جانے پہچانے، اردو کا حال، اپنی آواز اور ریڈیو کے دن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لیے بھی کئی کہانیاں لکھی ہیں۔

پہلا سفر میں عابدی صاحب نے ہند و پاک کے جن شہروں کی یادوں کو سمیٹا ہے ان میں کراچی، حیدر آباد (سندھ)، لاہور، رام پور، لکھنؤ، بھوپال، حیدرآباد دکن، میسور، بمبئی، جے پور، اجمیر اور دہلی شامل ہیں۔

پہلا سفر کے ذریعے رضا علی عابدی کا قاری یہ دیکھتا ہے کہ سن اسی کی دہائی کے اوائل کے برصغیر میں زندگی کا ڈھب کیسا تھا، اس وقت لوگ کیسے جیتے تھے، کیونکر زندہ رہتے تھے۔

پیش لفظ میں رضا علی عابدی کیا خوب لکھتے ہیں :

اپنے اس سفر میں میں جن نوجوانوں سے ملا تھا، اب کسی کے بقول ان کے بالوں سے برف الجھنے لگی ہو گی۔ جن ڈھلتی عمر کے شفیق اور کرم فرمانے والوں کی رفاقت میں عنایات کی جھڑی لگی تھی، وہ کب کے سدھارے اور یہ احساس چھوڑ گئے کہ جس قدر میں ان کو سوچتا ہوں اسی قدر وہ بھی مجھے یاد کرتے ہوں گے۔

 ٭٭٭

 

رفت و بود۔ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کی خودنوشت

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی خودنوشت ‘رفت و بود‘ مرزا ظفر الحسن کے قائم کردہ ادارہ یادگار غالب، کراچی سے شائع (دسمبر 2011) ہو گئی ہے۔ اس کے مرتب ڈاکٹر معین الدین عقیل ہیں۔

ابتدا میں اپنے شاگرد ڈاکٹر معین الدین عقیل کی فرمائش پر جسارت کے ادبی صفحے کے لیے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اس خودنوشت کو قسط وار تقریباً ڈیڑھ سال تک لکھا تھا۔ ستمبر 1994 میں ڈاکٹر صدیقی انتقال کر گئے۔ خودنوشت کے اصل مسودے کی نقل ڈاکٹر معین کے پاس محفوظ تھی جسے انہوں نے شائع کروا کے ڈاکٹر صدیقی کی داستان حیات کو محفوظ کر دیا ہے۔

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی 15 جون 1916 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وکٹوریہ ہائی اسکول، آگرہ مشن اسکول اور اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے مکمل کی۔ بعد ازاں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1942 میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی مکمل کی۔

خودنوشت کے مقدمے میں ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں کہ "ڈاکٹر ابواللیث صدیقی زمانہ طالب علمی ہی سے مضامین و مقالات لکھنے لگے تھے جو جامعہ دہلی، علی گڑھ میگزین علی گڑھ، ہمایوں لاہور، معارف اعظم گڑھ اور نگار لکھنؤ میں شائع ہوتے رہے۔ تنقید اور تحقیق دونوں ہی میں ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی یکساں تھی۔ بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیق مقالے لکھنؤ کا دبستان شاعری نے، جو شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا پہلا تحقیقی کام تھا، انہیں اسی زمانے میں شہرت سے ہمکنار کر دیا تھا۔ یہ مقالہ بھارت اور پاکستان میں کئی بار شائع ہوا۔ "

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی اہم تصانیف کے نام یہ ہیں : مصحفی اور اس کا عہد, جرات، اس کا عہد اور شاعری, نظیر اکبر آبادی، اس کا عہد اور شاعری, تاریخ زبان و ادب اردو, بیسویں صدی کا اردو ادب.

مضامین کے تین مجموعے غزل اور متغزلین، روایت اور تجربے اور ادب اور لسانیات کے عنوانات سے شائع ہوئے۔

ڈاکٹر معین الدین عقیل مزید لکھتے ہیں کہ ” علی گڑھ سے متعلق کئی اہم اور غیر اہم شخصیات کی خودنوشت سوانح عمریاں ان تک منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں علی گڑھ کا ماحول، وہاں کی زندگی اور شخصیات کا احوال ہمارے لیے پرکشش بھی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کی رفت و بود ان میں کئی اعتبار سے زیادہ معلوماتی اور دلچسپ و مفید ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب کے بے ساختہ اسلوب کا بھی بڑا دخل ہے۔ ان کا حافظہ بڑا قوی اور حاضر تھا اور حالات و واقعات کی جزئیات تک انہیں خوب یاد تھیں۔ "

رفت و بود کی فہرست ابواب کے چند عنوانات ملاحظہ ہوں کہ عنوانات کی جاذبیت، ابواب کے متن کے پر کشش ہونے کی بجا طور پر غماز ہے:

قبیلہ کشتگاں، دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے، تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں، یاد ہیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں، دیوار بار منت مزدور سے ہے خم، ہنوز ایک پرتو نقش خیال یار باقی ہے، کاشانہ ہستی کہ براندختنی ہے، نے خون دل ہے چشم میں موج نگہ غبار، بعض اکابر، لاہور کا پہلا سفر، چند تلخ حقیقتیں، ذکر کچھ شام اودھ کا، جیسے استاد ویسے شاگرد، علی گڑھ کے رجسٹرار اور ڈائننگ ہال، علی گڑھ ایک ادارہ ایک روایت، مشرقی تمدن کے کچھ نمونے، لاہور کے گنج ہائے گراں مایہ، کراچی یونیورسٹی: تازہ بستی۔

علی گڑھ کے آفتاب ہوسٹل میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کے ہم عصروں میں اختر حسین رائے پوری، سبط حسن، حیات اللہ انصاری، فضل الرحمن انصاری شامل تھے۔ اسی زمانے میں ان پر اپنی تعلیمی قابلیت کے سبب، علی گڑھ کے اکابرین کی خصوصی عنایت رہی۔ ان اکابرین میں سے نواب سر راس مسعود اور پروفیسر محمد حبیب کا ذکر خاص رفت و بود میں شامل ہے۔

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ان محفلوں کو اور ان نابغہ روزگار شخصیات کو کراچی آ کر یاد کرتے رہے۔ فانی بدایونی اور اصغر گونڈوی ان میں سر فہرست تھے۔ وہ ان شعراء کی تصاویر دیکھ کر اور ان کے کلام کو پڑھ کر گزرے زمانے کو یاد کرتے تھے، اسی ضمن میں کہتے ہیں کہ:

"کان ان آوازوں کو سننے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں، ہیرے تلاش کرتا ہوں تو پتھر ملتے ہیں، گوہر ڈھونڈتا ہوں تو مردہ مچھلیوں کے ڈھانچے نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی دہلی میں مقیم تھے کہ انجمن ترقی اردو کا دفتر دکن سے منتقل ہو کر دہلی آ گیا۔ اس زمانے کے احوال میں انہوں نے اپنے ایک ہم جماعت دوست معین الدین دردائی کا یاس انگیز واقعہ بیان کیا ہے، دردائی صاحب انجمن کے دریا گنج والے دفتر کے ایک کمرے میں کام کیا کرتے تھے اور اسی عمارت میں رہتے تھے۔ کام کے اوقات اتنے تھے کہ دردائی صاحب کسی اور کام کے کیا بلکہ بات کرنے کے قابل بھی نہ رہتے تھے۔ ایک شام ایسی سخت طلبی ہوئی کہ دردائی صاحب رو پڑے۔ کام کرتے کرتے ان کے گھٹنوں میں تکلیف شروع ہو گئی یہاں تک کہ وہ بالکل معذور ہو گئے، انجمن نے انہیں چند ماہ کی چھٹی دے کر رخصت کر دیا اور انہوں نے زندگی کے باقی چالیس برس اس طرح گزارے کہ نہ کھڑے ہو سکتے تھے، نہ چل سکتے تھے، نہ لیٹتے سوتے وقت ٹانگیں سیدھی کر سکتے تھے، بعد ازاں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اپنے دوست کو کراچی بلوا لیا تھا۔ معین الدین دردائی کا انتقال ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے روز ہوا۔ مرتے وقت بھی ان کی ٹانگیں سیدھی نہ ہو سکی تھیں، قبر اور مردہ گاڑی کے لیے خاص انتظام کروانا پڑا!

جب ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اپنے دوست کو دفن کر کے واپس آرہے تھے تو انہیں وہ وقت یاد آ رہا تھا جب ان کے دوست کا خاندان بہار میں زمینداروں کا گھرانہ تھا اور ایک مرتبہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اسٹیشن سے معین الدین دردائی کے ساتھ ان کے گھر پالکی میں گئے تھے اور واپسی پر ہاتھی پر سوار ہو کر آئے تھے۔

رہے نام اللہ کا!

رفت و بود میں جوش ملیح آبادی کا احوال موجود ہے جن سے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی پہلی ملاقات علی گڑھ میں دوران مشاعرہ ہوئی تھی جہاں جوش اپنے خاص شغل کے بعد اس عالم میں تشریف لائے کہ بقول ڈاکٹر صدیقی، ‘جو عین غروب آفتاب کے وقت اپنا پورا رنگ لا چکا تھا’۔ جوش نے شعر پڑھا:

 شیخ صاحب اور خدا کو نہ جانیں

 خدا کے ساتھ کے کھیلے ہوئے ہیں

جوش کا یہ لب و لہجہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی لکھتے ہیں کہ ایک صاحب اسٹیج پر تشریف لائے، یہ ظفر احمد صدیقی تھے اور اپنی گرجدار آواز میں کہا کہ ‘جناب صدر اس طرح کا کلام یہاں برداشت نہیں کیا جا سکتا، جوش صاحب پڑھنا بند کریں "

اس بات پر مشاعرے میں ایک ہنگامہ ہو گیا۔

پاکستان بنا اور جوش صاحب کراچی چلے آئے، یہاں ایک موقع پر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کا ان سے ایک مرتبہ پھر واسطہ پڑا، اس بار اردو کی ترقی کی خاطر بنائے جانے والے بورڈ کی تشکیل کا معاملہ و موقع تھا جس میں جوش کا عہدہ وزارت تعلیم کے بورڈ کے ادبی مشیر کا تھا۔ یہ بقول ڈاکٹر صدیقی، ہرن پر گھاس لادنے والی بات تھی۔ جوش اور بورڈ، دونوں کے معاملات بگڑتے چلے گئے اور نوبت جوش کو بورڈ سے نکالنے تک جا پہنچی۔ ایک روز وزارت تعلیم کے ایک اعلی عہدے دار نے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کو علاحدہ بلا کر راز داری سے کہا: ” دیکھئے نا! یہ جوش صاحب کا میدان نہیں ہے، اس ڈھب کے وہ آدمی نہیں، بورڈ کی گرانٹ محدود ہے، آپ ان کو سبکدوش کیوں نہیں کر دیتے؟ "

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کو بڑا غصہ آیا لیکن انہوں نے ہنس کر جواب دیا

 ” جناب! آپ یہ بندوق میرے یا بورڈ کے کسی ممبر کے کندھے پر رکھ کر ہی کیوں چلانا چاہتے ہیں، رہا یہ سوال کہ جوش کی پرورش ہو رہی ہے اور یہ روپے کا زیاں ہے تو جناب پرورش تو اور بہت سے لوگوں کی ہو رہی ہے اور ان میں سے بیشتر کا ادبی قد جوش سے بہت چھوٹا ہے۔ یہ کام آپ کم از کم مجھ سے نہیں کروا سکتے۔ "

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی جامعہ کراچی کی تازہ بستی آباد کرنے والوں کے سرخیل تھے، وائس چانسلر بشیر احمد ہاشمی کی نگرانی میں کیمپس کی تعمیر کا کام شروع ہوا، ہاشمی صاحب ہی کیمپس کے پہلے مکین تھے اور ان کے اصرار پر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اساتذہ میں پہلے شخص تھے جنہوں نے اس ویرانے میں آنے کی ہمت کی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر صدیقی بیان کرتے ہیں :

” اس وقت تک رہائشی مکان پورے طور پر نہیں بنے تھے، بجلی نہیں تھی، فلش نہیں تھا، پانی کے نلکے نہیں تھے، سڑکیں نہیں تھیں، دکانیں نہیں تھیں، ڈاکٹر اور اسپتال نہیں تھے اور کیمپس سے نیو ٹاؤن پولیس اسٹیشن تک، جو ان ایک آباد اور پر رونق علاقہ ہے، ایک ویرانہ تھا جس سے اندھیرے اجالے گزرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ اس کیمپس کی ایک ایک اینٹ ہم دونوں کے سامنے لگی، سڑکیں بنیں اور زندگی کی بہت سی آسائشیں مل گئیں لیکن تازہ بستیاں آباد کرنا بڑے حوصلے اور ہمت کا کام ہے۔ اور ہاں ہم دونوں (مصنف اور ڈاکٹر عباد الرحمن خان) کیمپس کے پہلے مکین تھے۔ کیمپس میں آخری آرام گاہ کے قیام میں بھی پہل ڈاکٹر عباد الرحمن خان نے کی۔ ایک دن پہلے تک اچھے خاصے تھے، دوسرے روز اللہ کو پیارے ہو گئے۔ "

عمدہ کتابت، مصنف کی با وقار تصویر سے مزین سادہ مگر دلنشیں سرورق کی حامل 448 صفحات پر مشتمل اس خودنوشت کی قیمت 450 مقرر کی گئی ہے۔ کتاب مندرجہ ذیل پتے سے براہ راست حاصل کی جا سکتی ہے:

ادارہ یادگار غالب و غالب لائبریری

پوسٹ بکس نمبر: 2268، ناظم آباد، کراچی-74600

فون نمبر: 021-36686998

٭٭٭

 

روشندان۔ جاوید صدیقی کے بے مثال خاکے

 اجمل کمال کی زیر ادارت شائع ہونے والا کراچی کا ادبی مجلہ آج ستمبر ۲۰۱۱ میں شائع ہوا، یہ آج کا اکہترواں شمارہ تھا جس میں ممبئی کی فلمی دنیا کے معروف کہانی کار و مکالمہ نویس جاوید صدیقی کے تحریر کردہ شخصی خاکے شامل کیے گئے ہیں۔ خاکے کیا ہیں، دل کو پارہ پارہ کر دینے والی تحریریں ہیں۔ بقول عنایت اختر یہ خاکے انفرادیت،لہجے کے بانکپن، اور درد مندی کی مثال ہیں۔ انہیں پڑھ کر کہیں آپ کی آنکھ نم ہو جائے گی، کہیں دل بھر آئے گا، کہیں سکتہ طاری ہو جائے گا اور کہیں آپ سن ہو کر رہ جائیں گے۔ جاوید صدیقی بنیادی طور پر ایک مشتاق مکالمہ و کہانی نویس ہیں، روشندان میں انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا ہے اور خاکوں میں موجود شخصیات اور ان سے متعلق یادوں کو تمام تر جزئیات کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ شخصیات ہمیں اپنے اطراف میں چلتی پھرتی، سانس لیتی محسوس ہوتی ہیں، ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے دکھوں میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں۔ انسان بلاشبہ عظیم ہے لیکن خدا کا تخلیق کردہ یہ انسان بعض اوقات اپنی کم مائیگی پر کس طرح بے دست و پا ہو کر رہ جاتا ہے، اس کا اندازہ روشندان کے کئی خاکوں کو پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔ روشندان میں شامل چند خاکے ممبئی کے جریدے نیا ورق میں شائع ہو چکے ہیں۔

 کل دس خاکوں پر مشتمل کتاب روشندان ۲۰ نومبر ۲۰۱۱ کو دہلی سے شائع ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ سہ ماہی آج میں شائع کیے گئے خاکوں کی تعداد گیارہ ہے۔ روشندان کو اجمل کمال جلد ہی سٹی پریس کراچی سے کتابی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں اس کتاب کو نئی کتاب پبلشرز۔ جامعہ نگر نئی دہلی نے شائع کیا، سرورق ایم ایف حسین کا تخلیق کردہ ہے، قیمت 250 روپے جبکہ ناشر کا پتہ و رابطہ نمبر یہ ہے:

Z-326/3, Okhla Main Road, Jamia Nagar, New Delhi – 110025

 Phone: 65416661 – Mobile: 09313883054

ممبئی میں پچاس سے زائد فلموں کی کہانیاں لکھنے والے جاوید صدیقی نے اپنے فنی سفر کا آغاز ستیہ جیت رے کی شہرہ آفاق فلم شطرنج کے کھلاڑی کے مکالمہ نویس کی حیثیت سے ۱۹۷۷ میں کیا تھا۔ مذکورہ فلم کے مکالمے جاوید صدیقی نے شمع زیدی کے ساتھ مل کر تحریر کیے تھے۔ وہ محض سترہ برس کی عمر میں ممبئی آئے تھے۔ آج وہ ایک شہرت یافتہ شخص کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ جاوید صدیقی روشندان میں اپنے بارے میں لکھتے ہیں : خدا جانے فرشتوں کے دل میں کیا آئی کہ مجھے رامپور کے ایک ایسے خاندان میں تقسیم کر دیا جہاں پڑھنے لکھنے کا رواج کچھ زیادہ ہی تھا۔ اس خاندان نے علی برادران کے علاوہ اور بہت سے نامی لوگوں کو جنم دیا جن میں ایک مشہور پینٹر شاکر علی بھی ہیں۔ اسی خاندان میں حافظ احمد علی خان شوق بھی تھے جو رضا لائبریری کے پہلے لائبریرین تھے (جب یہ شاہی کتب خانہ کہلاتا تھا) اور وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے انگریزی کے طرز پر لائبریری کیٹلاگ بنوایا تھا۔ ‘‘

نوے سے زیادہ فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھنے کے اور دولت و شہرت سمیٹنے کے بعد ایک روز تنہا بیٹھے غم جاناں کا حساب کرتے جاوید صدیقی کو خیال آیا کہ زندگی کے سفر میں وہ بہت دور نکل آئے ہیں اور کیوں نہ ان لوگوں کی جلتی بجھتی یادوں کو صفحہ قرطاس پر یکجا کیا جائے جن کی یادیں آج بھی ان کے ذہن میں بمثل چراغ روشن ہیں۔ جاوید صدیقی کے بقول یہ خاکے نہیں ہیں بلکہ زندگی کے اندھیروں میں کھلنے والے وہ روزن ہیں جن کی روشنی نہ ملتی تو ان کا دم گھٹ جاتا۔ کتاب لکھنے کے دوران ان کے عزیز دوست الیاس شوقی ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے، اشاعت کے دیگر مراحل میں الیاس صاحب کی خدمات قابل قدر رہیں۔ ہندوستانی فلمی صنعت سے وابستہ شاعر کہانی کار جاوید اختر تو کتاب کے مطالعے کے بعد جاوید صدیقی سے یہاں تک کہہ بیٹھے کہ اگر جاوید صدیقی ان پر سلطانہ جعفری جیسا خاکہ لکھنے کا وعدہ کریں تو اسی وقت مرنے کیلیے تیار ہیں۔

روشندان کے بارے میں جاوید صدیقی کہتے ہیں : ’’ یہ ان لوگوں کے قصے ہیں جو جا چکے ہیں مگر وہ جس جگہ تھے وہاں اب تک روشنی ہے اور جب تک آنکھوں میں دیکھنے کی سکت ہے، باقی رہے گی۔ ان میں اکثر وہ ہیں جنہیں دنیا نہیں جانتی مگر دنیا کی آنکھیں تو ہمیشہ سے کمزور ہیں، اسے وہی دکھائی دیتے ہیں جن کے سروں پر اجالے ہوتے ہیں۔ وقت کے ملگجے اندھیرے میں چپ چاپ گزر جانے والوں کو وہ کیا دیکھے، کیا جانے ؟مگر میں ان کے ساتھ چلا ہوں، میں نے انہیں دیکھا بھی ہے، جانا بھی ہے۔ اس لیے میرا فرض ہے کہ میں اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں ہی میں سہی مگر ان کا تعارف کرا دوں۔ ‘‘

روشندان میں ایسا ہی ایک تعارف جاوید صدیقی نے اپنے گرو یعنی ابرار علوی کا کرایا ہے :

’’18 نومبر 2009کی رات کو دس بجے انور کا فون آیا:’’ابا چلے گئے جاوید صاحب…!

میں اسی وقت ان کے گھر پہنچا مگر کمرے کے اندر نہیں گیا۔ بلکہ باہر ہی بیٹھ گیا۔ میری ایک بری یا اچھی عادت یہ ہے کہ میں مرنے والوں کا چہرہ نہیں دیکھتا۔ تاکہ وہ جب بھی تصور میں آئیں زندگی کے ساتھ آئیں۔ ابرار صاحب کے سٹنگ روم میں بیٹھے بیٹھے میں انھیں یاد کرتا رہا اور میری نظریں گرو دت کی تصویر پہ رک گئیں جو ایک سائڈ ٹیبل پہ رکھی ہوئی تھیں۔ کتنی مماثلت تھی ابرار علوی اور گرو دت کی زندگی میں۔ دونوں نے اپنا عروج دیکھا اور زوال بھی۔ دونوں کو اپنی ذاتی زندگی میں کبھی سکون نہیں مل سکا۔ دونوں زندگی کے ریگستان میں چھاؤں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئے تو ہار کر بیٹھ گئے۔ ایک نے اپنی ہار دسمبر 1964 میں قبول کی تھی اور دوسرے نے نومبر 2009میں۔ میں بہت دیر تک ان ہارے ہوئے بہادروں کے بارے میں سوچتا رہا مگر سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کس سے ہارے تھے، وقت سے یا خود سے۔ ‘‘

(گرو جی)

روشندان میں شامل چند خاکوں کے عنوانات اور شخصیات کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:

ایک بنجارہ۔ نیاز حیدر

 حجیانی۔ ایک بزرگ رشتہ دار

موگرے کی بالیوں والی۔ سلطانہ جعفری

گرو جی۔ ابرار علوی

ہارے ہوئے لشکر کا سپاہی۔ مولانا زاہد شوکت علی

ایک تھے بھائی۔ مصنف کے بہنوئی

مما اور بجیا۔ مصنف کے بزرگ

اپنے کامریڈ حبیب۔ حبیب تنویر

نیاز حیدر کے خاکے میں جاوید صدیقی نے ایک دلچسپ قصہ بیان کیا ہے، انہی کی زبانی سنئیے:

بابا کا ایک مزے دار قصہ ہری بھائی (سنجیو کمار) نے مجھے سنایا تھا۔

جب تک وشوا متر عادل بمبئی میں رہے ہر سال اپٹا کی ’’دعوت شیراز‘‘ ان کے گھر پر ہوتی رہی۔ ہر نیا اور پرانا اپٹا والا اپنا کھانا اور اپنی شراب لے کر آتا تھا اور اس محفل میں شریک ہوتا تھا۔ ساری شراب اور سارے کھانے ایک بڑی سی میز پر چن دیے جاتے،جس کا جو جی چاہتا کھا لیتا  اور جو پسند آتا وہ پی لیتا۔ یہ ایک عجیب و غریب محفل ہوتی تھی جس میں گانا بجانا ناچنا، لطیفے، ڈرامے سبھی کچھ ہوتا تھا۔ اور بہت کم ایسے اپٹا والے تھے جو اس میں شریک نہ ہوتے ہوں۔ ایسی ہی ایک ’’دعوت شیراز‘‘ میں ہری بھائی نیاز بابا سے ٹکرا گئے۔ اور جب پارٹی ختم ہوئی تو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ ہری بھائی دیر سے سوتے تھے اور دیر سے جاگتے تھے، اس لیے وہاں بھی صبح تک محفل جمی رہی۔ پتہ نہیں کس وقت ہری بھائی اٹھ کے سونے کے لیے چلے گئے اور بابا وہیں قالین پہ دراز ہو گئے۔

دوسرے دن دوپہر میں ہری بھائی سو کر اٹھے اور حسب معمول تیار ہونے کے لیے اپنے باتھ روم میں گئے۔ مگر جب انھوں نے پہننے کے لیے اپنے کپڑے اٹھانے چاہے تو حیران ہو گئے، کیوں کہ وہاں بابا کا میلا کرتا پاجامہ رکھا ہوا تھا اور ہری بھائی کا سلک کا کرتا اور لنگی غائب تھے۔

ہری بھائی نے نوکر سے پوچھا تو تصدیق ہو گئی کہ وہ مہمان جو رات کو آئے تھے صبح سویرے نہا دھوکر سلک کا لنگی کرتا پہن کے رخصت ہو چکے ہیں۔

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی ہے۔

اس کہانی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کچھ دو مہینے بعد ایک دن اچانک نیاز بابا ہری بھائی کے گھر جا دھمکے اور چھوٹتے ہی پوچھا: ’’ارے یار ہری! پچھلی دفعہ جب ہم آئے تھے تو اپنا ایک جوڑ کپڑا چھوڑ گئے تھے وہ کہاں ہے؟‘‘

ہری بھائی نے کہا: ’’آپ کے کپڑے تو میں نے دھلوا کے رکھ لیے ہیں مگر آپ جو میرا لنگی کرتا پہن کے چلے گئے تھے وہ کہاں ہے؟‘‘

بابا نے بڑی معصومیت سے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا، سر کھجایا اور بولے: ’’ہمیں کیا معلوم تمھارا لنگی کرتا کہاں ہے؟ ہم کوئی ایک جگہ کپڑے تھوڑی بدلتے ہیں ؟‘‘

ہری بھائی جب بھی یہ قصہ سناتے تھے بابا کا جملہ یاد کر کے بے تحاشہ ہنسنے لگتے تھے۔ ‘‘

نیاز حیدر کی پہلو دار شخصیت کو عیاں کرتے ہوئے جاوید صدیقی ایک جگہ یہ واقعہ بیان کرتے ہیں :

جوہو کولی واڑہ اور اس کے آس پاس بہت سی چھوٹی موٹی گلیاں ہیں بابا ایسی ایک گلی میں گھس گئے۔ دور دور تک اندھیرا تھا، دوچار بلب جل رہے تھے مگر وہ روشنی دینے کے بجائے تنہائی اور سناٹے کے احساس کو بڑھا رہے تھے۔ بابا تھوڑی دور چلتے پھر رک جاتے، گھروں کو غور سے دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے۔ اچانک وہ رک گئے، سامنے ایک کمپاؤنڈ تھا جس کے اندر دس بارہ گھر دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی گھر ایک منزل سے زیادہ نہیں تھا اور بیچ میں چھوٹا سا میدان پڑا ہوا تھا جس میں ایک کنواں بھی دکھائی دے رہا تھا۔ بابا نے کہا یہی ہے اور گیٹ کے اندر گھس گئے۔ میں بھی پیچھے پیچھے تھا مگر ڈر رہا تھا کہ آج یہ حضرت ضرور پٹوائیں گے۔ بابا کمپاؤنڈ کے بیچ میں کھڑے ہو گئے۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ کسی گھر میں روشنی نہیں تھی۔ بابا نے زور سے آواز لگائی: ’’لارنس…‘‘

کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ میرا خوف اور بڑھنے لگا۔ کولیوں کی بستی ہے وہ لوگ ویسے ہی سرپھرے ہوتے ہیں آج تو پٹائی یقینی ہے۔

بابا زور زور سے پکار رہے تھے: ’’لارنس… لارنس!…‘‘ اچانک ایک جھوپڑے نما گھر میں روشنی جلی، دروازہ کھلا اور ایک لمبا چوڑا بڑی سی توند والا آدمی باہر آیا، جس نے ایک گندا سا نیکر اور ایک دھاری دار بنیان پہن رکھا تھا۔

جیسے ہی اس نے بابا کو دیکھا ایک عجیب سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی: ’’ارے بابا! کدھر ہے تم؟ کتنا ٹائم کے بعد آیا ہے؟‘‘ یہ کہتے کہتے اس نے بابا کو دبوچ لیا اور پھر زور زور سے گوانی زبان میں چیخنے لگا۔ اس نے بابا کا ہاتھ پکڑا اور اندر کی طرف کھینچنے لگا: ’’آؤ آؤ اندر بیٹھو… چلو چلو‘‘ پھر وہ میری طرف مڑا: ’’آپ بھی آؤ ساب! آ جاؤ آ جاؤ اپنا ہی گھر ہے۔ ‘‘ ہم تینوں ایک کمرے میں داخل ہوئے جہاں دو تین میزیں تھیں، کچھ کرسیاں اور ایک صوفہ، اندر ایک دروازہ تھا جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ بابا پوچھ رہے تھے: ’’کیسا ہے تو لارنس؟… ماں کیسی ہے؟… بچہ لوگ کیسا ہے؟‘‘

اتنی دیر میں اندر کا پردہ کھلا اور بہت سے چہرے دکھائی دینے لگے۔ ایک بوڑھی عورت ایک میلی سی میکسی پہنے باہر آئی اور بابا کے پیروں پر جھک گئی۔ بابا نے اس کی خیر خیریت پوچھی، بچوں کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور جب یہ ہنگامہ ختم ہوا تو لارنس نے پوچھا: ’’کیا پئینگے بابا؟‘‘

’’وہسکی…‘‘ بابا نے کہا

لارنس اندر گیا اور وہسکی کی ایک بوتل ٹیبل پہ لا کے رکھ دی۔ اس کے ساتھ دو گلاس تھے، کچھ چینی کچھ نمک سوڈے اور پانی کی بوتلیں۔ بابا نے پیگ بنایا، لارنس الٰہ دین کے جن کی طرح ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑا ہو گیا: ’’اور کیا کھانے کاہے بابا؟… ماں مچھّی بناتی، اور کچھ چہیئے تو بولو… کومڑی (مرغی) کھانے کا موڈ ہے؟‘‘ بابا نے مجھ سے پوچھا: ’’بولو بولو بھئی کیا کھاؤ گے؟‘‘

میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بابا کی اتنی آؤ بھگت کیوں ہو رہی ہے۔ اگر ایسا بھی ہوتا کہ وہ لارنس کے مستقل گراہکوں میں سے ایک ہوتے تو بھی رات کے دو بجے ایسی خاطر تو کہیں نہیں ہوتی۔ یہاں تو ایسا لگ رہا تھا جیسے بابا اپنی سسرال میں آ گئے ہوں۔

تھوڑی دیر میں تلی ہوئی مچھلی بھی آ گئی، ابلے ہوئے انڈے بھی اور پاؤ بھی۔ بہر حال مجھ سے برداشت نہیں ہوا، کھانا کھاتے ہوئے میں نے بابا سے پوچھا: ’’بابا اب اس راز پر سے پردہ اٹھا ہی دیجئے کہ اس لارنس اور اس کی ماں سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟‘‘

کہانی یہ سامنے آئی کہ برسوں پہلے جب بابا اپنی ہر شام لارنس کے اڈے پر گزارا کرتے تھے تو ایک دن جب لارنس کہیں باہر گیا ہوا تھا اس کی ماں کے پیٹ میں درد اٹھا تھا، درد اتنا شدید تھا کہ وہ بیہوش ہو گئی تھی۔ اس وقت بابا اسے اپنے ساتھ لے کر اسپتال پہنچے، پتہ لگا کہ اپینڈکس پھٹ گیا ہے، کیس بہت Seriousتھا آپریشن اسی وقت ہونا تھا ورنہ موت یقینی تھی۔ بابا نے ڈاکٹر سے کہا آپ آپریشن کی تیاری کیجیے اور نہ جانے کہاں سے اور کن دوستوں سے پیسے جمع کر کے لائے، بڑھیا کا آپریشن کرایا اور جب لارنس اسپتال پہنچا تو اسے خوش خبری ملی کہ اس کی ماں موت کے دروازے پہ دستک دے کے واپس آ چکی ہے۔ Thanks to Niyaz Baba….

اس کہانی میں ایک خاص بات یہ ہے کہ لارنس اور اس کی ماں کے بار بار خوشامد کرنے کے باوجود بابا نے وہ پیسے کبھی واپس نہیں لیے جو انھوں نے اسپتال میں بھرے تھے۔

صبح تین بجے کے قریب جب میں بابا کو لے کر باہر نکل رہا تھا تو میں نے پلٹ کر دیکھا تھا، لارنس کی ماں اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھی اور لارنس اپنے ہاتھ جوڑے سر جھکائے اس طرح کھڑا تھا جیسے کسی چرچ میں کھڑا ہو۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔

کہتے ہیں کہ خاکہ وہ تحریر ہے جس میں خاکہ نگار کسی انسان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اس طرح اجاگر کرے کہ وہ شخصیت قاری کو ایک زندہ شکل میں نظر آئے اور خاکہ نگار نے اس انسان کی زندگی کا جس قدر مشاہدہ کیا ہو، غیر جانب داری سے اس سے متعلقہ حالات و واقعات کو قاری کے مطالعہ میں لے آئے۔ ’مما اور بجیا‘ نامی خاکے سے یہ ٹکڑا ملاحظہ کیجیے:

’ نام زیتون رکھا گیا۔ زیتون کی شاخ صلح و امن کا نشان ہوتی ہے مگر زیتون۔۔  سنا ہے کہ بچپن میں بھی تتیا مرچ تھیں۔ سیدھی تو ہو نہیں سکتی تھیں مگر دو ہاتھ اور ایک پیر کے سہارے لنگڑی بلی کی طرح اچھل اچھل کر ہر جگہ پہنچ جاتی تھیں۔ ہر کھیل میں حصہ لینا چاہتی تھیں اور جب ان کی مجبوری کی وجہ سے نہ کھلایا جاتا تو زبان سے زہر کی ایسی بارش ہوتی کہ جو سنتا اس کے کان میں چھالے پڑ جاتے۔ ‘

حجیانی نامی خاکے سے یہ انتخاب ملاحظہ ہو کہ زبان و بیان کی نزاکتوں کے ساتھ ساتھ مصنف کی تحریر میں کردار نگاری کے تقاضے بھی بہ احسن طریق نبھائے گئے ہیں :

"حجیانی بہت ننھی منی سی تھیں۔ سر پر کھچڑی بال، گہرے سانولے چہرے پر بہت سی جھریاں، بہت چھوٹی چھوٹی مگر چمکتی ہوئی آنکھیں۔ چھوٹی سی ناک جس میں چاندی کی بڑی سی لونگ جو دور سے مسے کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ کان اوپر سے نیچے تک چھدے ہوئے تھے جن میں چاندی کی چھوٹی چھوٹی بالیاں پڑی ہوئی تھیں۔ بالیوں میں لال ہرے اور سفید موتی جھولتے رہتے تھے اور ان کا وزن اتنا زیادہ تھا کہ کان کا اوپری حصہ دوہرا ہو گیا تھا۔ کان کا یہ زیور بالی پتے کہلاتا ہے۔ مجھے یقین ہے یہ بالی پتے جب سے ان کے کانوں تک پہنچے تھے نہ کبھی اترے تھے اور نہ کبھی صاف ہوئے تھے۔ ہاتھوں میں چاندی کی دو دو چوڑیاں پڑی ہوئی تھیں جو ہر وقت دھلتے رہنے کے باوجود کالی ہی رہتی تھیں۔ ہاتھوں کی نسیں ابھر آئی تھیں اور ناخن تو دکھائی ہی نہیں دیتے تھے۔ پیر میں موٹے چمڑے کی جوتی پہنتی تھیں جس کا پچھلا حصہ ایڑی کے نیچے دبا رہتا تھا۔ سیدھی کاٹ کا چست پاجامہ جس کا نچلا حصہ جس میں چوڑیاں پڑتی تھیں ہمیشہ کسی دوسرے کپڑے اور دوسرے رنگ کا ہوتا تھا۔ ڈھیلا ڈھالا کرتا جو کرتی سے ذرا سا ہی لمبا ہوتا تھا۔ سر پر تین گز کا دوپٹہ جو زیادہ تر کسی موٹے کپڑے کا ہوتا تھا اور جس پر رنگین گوٹ لگی ہوتی تھی تاکہ اوڑھنی کے کام بھی آ سکے۔ "

 خاکہ نگاری کی ایک سیدھی سادی تعریف یہ ہے کہ جب ہم کسی کا خاکہ پڑھیں تو اس کی شخصیت سے متعارف ہوتے چلے جائیں اور ساتھ ہی ساتھ اس کی شخصیت کے تمام پہلوؤں سے آگاہی بھی حاصل ہو جائے۔ جاوید صدیقی کی کتاب روشندان میں یوں تو اس وصف کا جا بجا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے لیکن ’ہارے ہوئے لشکر کا سپاہی‘ میں جاوید صدیقی اس وصف کو بام عروج تک پہنچا گئے ہیں۔ مذکورہ خاکہ مولانا زاہد شوکت علی کا ہے جو ہندوستان میں خلافت کے آخری نام لیوا تھے اور علی برادران کے وارث بھی۔ مولانا زاہد اسلام مولانا شوکت علی کے بڑے بیٹے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جاوید صدیقی نئے نئے رام پور سے بمبئی (اب ممبئی ) وارد ہوئے تھے اور خلافت ہاؤس میں پڑاؤ ڈالا تھا۔ مولانا زاہد ان کے دور کے رشتہ دار تھے۔ خلافت ہاؤس تحریک خلافت کا مرکز تھا اور روزنامہ خلافت کا دفتر بھی یہیں واقع تھا۔

جان بیٹا خلافت پہ دے دو

بولیں اماں محمد علی کی

جاوید صدیقی نے مولانا زاہد کا حلیہ کچھ یوں بیان کیا ہے:

’’جامہ زیب آدمی تھے۔ لنگی کرتا بھی پہنے ہوتے تھے تو برے نہیں لگتے تھے۔ مگر جب کہیں باہر جاتے تو دھج دیکھنے کی ہوتی۔ سر پر لکھنوی دو پلی ٹوپی، سفید شیروانی جس میں سے جیبی گھڑی کی سنہری زنجیر جھانکتی رہتی تھی، پنڈلیوں پر منڈھا ہوا آڑا پاجامہ، پیروں میں سفید موزے اور سفید رنگ کی سلیم شاہی۔ خود گورے نہیں تھے مگر سفید کپڑے اور سفید داڑھی ان کی شخصیت کو ایسا وقار دیتے تھے کہ اجنبی بھی مرعوب ہو جایا کرتے تھے۔ ‘‘

مولانا زاہد روزنامہ خلافت کا انتظام دیکھا کرتے تھے۔ اخبار کا کام شام چار بجے کے قریب شروع ہوتا تھا اور رات کے ایک بجے تک جاری رہتا تھا۔ دفتر میں اخبار کے ایڈیٹر سید نور الحسن کے علاوہ دو تین مترجم تھے جو انگریزی سے اردو میں خبروں کا ترجمہ کیا کرتے تھے۔ جاوید صدیقی کے سپرد بھی یہی کام کیا گیا تھا۔ مولانا زاہد ایک مجلسی انسان تھے۔ ان کے چٹکلوں سے دوسروں کا جی لگا رہتا تھا،ساتھ ہی ساتھ ڈانٹ پھٹکار کا سلسلہ بھی چلتا رہتا تھا۔ جاوید صدیقی لکھتے ہیں :

’’شام ہوتی۔ چھڑکاؤ کیا جاتا۔ پیڑوں کو پانی ڈالا جاتا۔ لکڑی کے بڑے بڑے بینچ جن پر سفید رنگ کیا ہوا تھا دھوئے جاتے اور میزیں لگا دی جاتیں۔ جب گیلی مٹی کی سوندھی خوشبو موگرے اور رات کی رانی کی مہک میں شامل ہوکے چاروں طرف پھیل جاتی تو زاہد صاحب نیچے اترتے۔ ایک نظر کاتبوں اور ایڈیٹوریل اسٹاف پر ڈالتے ہوئے باہر نکل جاتے۔ پہلے ایک تنقیدی جائزہ لیتے۔ اگر کوئی چیز قرینے سے نہ ہوتی تو نوکروں کی شامت آ جاتی: ’’لالہ، مالی، میاں جان…حرام زادو! بینچ اب تک گیلی ہے۔ سکھائی کیوں نہیں ؟… صاف کر گنوار۔ جلدی ہاتھ چلا۔ سور کے بچے کوئی کام ٹھیک سے نہیں کر سکتے!…‘‘

جب سارا کام مرضی کے مطابق ہو جاتا تو جامن کے پیڑ کے سائے میں بچھی ہوئی بینچ پر براجمان ہو جاتے۔ اسی بینچ پر بیٹھے بیٹھے مغرب کے تین فرض ادا کرتے اور ان کی انگلیاں ۳۳دانوں والی چھوٹی سی تسبیح پر پھسلنے لگتیں۔ تب تک پانچ پانچ سو واٹ کے دو بلب جلا دیے جاتے، سارا صحن جگمگا اٹھتا۔ ان کے احباب، پرانے خلافتی اور ملنے جلنے والے جمع ہونا شروع ہو جاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری بینچیں بھر جاتیں۔ بالکل ایسا لگتا جیسے کوئی جلسہ یا نشست ہو رہی ہو اور زاہد صاحب اس کی صدارت کر رہے ہوں۔ ‘‘

مولانا کا مزاج بھی ہوا کے جھونکے پر سوار رہتا تھا، پل میں تولا اور پل میں ماشہ۔ ڈانٹتے بھی اس انداز میں تھے کہ سامنے والا بے مزہ نہ ہوتا تھا۔ جاوید صدیقی بھی ابتدا ہی میں زیر عتاب آ گئے، لکھتے ہیں :

’’ بمبئی آئے ہوئے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ عید آ گئی۔ فجر کی نماز پڑھتے ہی زاہد صاحب کھڑکی میں آ کھڑے ہوئے اور خلافت ہاؤس کے تمام رہنے والوں کو نام بنام پکارنا شروع کر دیا:

 ’’لالہ، ابے لالہ حرامزادے کہاں مرگیا۔ ابھی تک نہا رہا ہے کیا؟

ماموں، او ماموں (ارشاد علی صاحب) ارے باہر نکلو بھائی۔ کب تک بیوی کا پلو پکڑے بیٹھے رہو گے۔

عالم صاحب! …اے شاہ محمد جا کے دیکھ عباسی صاحب تیار ہوئے کہ نہیں۔ اور یہ جاوید کہاں ہے۔ اب تک سو رہا ہے کیا، اٹھاؤ نالائق کو۔ عید کی نماز بھی نہیں پڑھے گا کیا…!‘‘

ایک ایک کر کے سبھی جمع ہو گئے اور تھوڑی دیر میں باب عمر سے نمازیوں کا ایک چھوٹا سا جلوس نکلا جس کی قیادت زاہد صاحب کر رہے تھے اور جس کا رخ بائیکلہ مسجد کی طرف تھا۔ انھوں نے پلٹ کر اپنے ساتھ آنے والوں کو دیکھا۔ سب پر ایک ایسی نظر ڈالی جیسے کوئی اصیل مرغا اپنے پیچھے آنے والی مرغیوں کو دیکھتا ہے۔ اور مجھ سے پوچھا: ’’سب چیزیں لے لیں ؟ ‘‘ … میری سمجھ میں نہیں آیا کہ نماز کے لیے کس چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ اچانک خیال آیا کہ میں ننگے سر ہوں۔ یہ ٹوپی کو پوچھ رہے ہیں جو میرے کرتے کی جیب میں تھی۔ میں نے ٹوپی ٹٹولی اور کہا: ’’جی‘‘۔

جب ہمارا قافلہ مسجد پہنچا تو باہر کا فٹ پاتھ بھی نمازیوں سے بھر چکا تھا۔ اور دیر سے آنے والے سڑک پر صف بندی کر رہے تھے۔ زاہد صاحب نے کہا:

’’بچھا ؤ بچھاؤ۔ ادھر ہی بچھا دو!‘‘

’’کیا بچھا دوں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’چٹائی اور کیا؟‘‘ وہ گرجے۔

چٹائی؟… وہ تو میں لایا ہی نہیں تھا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہی نہیں تھا۔ اور لالہ جسے ہر بات معلوم ہوتی تھی نماز پڑھنے کے لیے آزاد میدان چلا گیا تھا۔

زاہد صاحب نے دانت پیس کر مجھے دیکھا اور پھر با وضو مغلظات کا ایسا ریلا آیا کہ الامان۔ میں آنسو پونچھتا ہوا بھاگا اور جب چٹائی لے کر پلٹا تو نماز ختم ہو چکی تھی اور خطبہ شروع ہو چکا تھا۔

اچھی عادت یہ تھی کہ کسی بات کو نہ دل میں رکھتے تھے نہ دماغ میں۔ نماز کے بعد جب گلے لگایا تو شاید انھیں یاد بھی نہیں تھا کہ تھوڑی دیر پہلے وہ مجھے رلا چکے ہیں ‘‘۔

مولانا زاہد کو کاتبوں سے تو اللہ واسطے کا بیر تھا۔ ذرا دیکھیے تو کہ جاوید صدیقی ایک جگہ روزنامہ خلافت کے کاتبوں کی بنی درگت کو کس انداز میں بیان کر رہے ہیں، یہ موقع اس وقت آتا جب ہر ہفتے کاتبوں کی کارگزاری سامنے آتی تھی:

’’اس لطیف لنگڑے کی تو دوسری بھی توڑ دینی چاہیے۔ دیکھو یہ، دیکھو یہ کتابت ہے؟… معلوم ہوتا ہے چیونٹی کی دم میں سیاہی لگا کے کاغذ پر چھوڑ دیا ہے۔ اور اس رونق حیدر آبادی سے تو کتابت ہی نہیں کرانی چاہیے، مسطر بنوایا کرو۔ حرامزادہ خبر کو قبر کہتا ہے، لاحول ولاقو ۃ…۔ اور یہ اختر… ایک سطر میں سات لفظ ہوتے ہیں۔ مردود پانچ غلط لکھتا ہے۔ اور اس خبیث سنبل کو تو ایک پیسہ مت دینا۔ حکیم صاحب کے اشتہار میں لکھا تھا عورتوں کے لیے زنانہ کا معقول انتظام ہے۔ بدمعاش نے لکھا، عورتوں کے لیے زنا کا معقول انتظام ہے۔ جان بوجھ کے کیا ہے حرامزادے نے۔ اشتہار بند ہو گیا نا۔ اب پیسے اس کا باپ دے گا۔ سب حرامی ہیں۔ سب کے سب۔ خدا ان کی بھوک بڑھائے اور کھانے کو کم دے… ‘‘

مگر جب اختر حسین کاتب کی بیوی لمبی بیماری کے بعد گزر گئی تو اس کے پاس اسپتال کا بل ادا کرنے کا کوئی سہارا نہیں تھا۔ زاہد صاحب کو پتہ چلا تو خود اسپتال پہنچ گئے۔ ڈاکٹروں کو بہت برا بھلا کہا اور بل ادا کر کے لاش اختر حسین کے حوالے کی۔ کفن دفن کے لیے کچھ نقد بھی دیا اور بولے، اس پیسے کے بارے میں عالم (منیجر) کو مت بتانا۔ ورنہ وہ تمہارے حساب میں سے کاٹ لے گا۔ ‘‘

مولانا ایک روز فلم دیکھنے پہنچ گئے۔ ہوا یوں کہ ایک روز ناشتے کی میز پر جاوید صدیقی نے مولانا کے سامنے گرو دت اور وحیدہ رحمن کی فلم ’چودھویں کا چاند‘ کی وہ تعریف کی کہ مولانا بے چین ہو گئے، اخبار کھول کر وحیدہ رحمن کو بہت غور سے دیکھا اور جاوید صدیقی سے پوچھا: ’’کون سے تھیٹر میں لگ رہی ہے ‘‘؟ تھیٹر کا معلوم ہونے پر مولانا دو چار نہیں بلکہ پورے بائیس لوگوں کو لے کے وہاں پہنچ گئے۔

مولانا فلم دیکھ کرو اپس ہوئے اور اگلی صبح جاوید صدیقی ان کا رد عمل جاننے کے لیے ناشتے کی میز پر وقت سے ذرا پہلے ہی پہنچ گئے لیکن وہاں تو عالم ہی کچھ اور تھا۔ جاوید صدیقی لکھتے ہیں :

 زاہد صاحب ڈائننگ ٹیبل پر آ چکے تھے اور اخبار ان کے ہاتھ میں تھا۔ انھوں نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا مگر کچھ بولے نہیں۔ میں نے پوچھا، پکچر کیسی لگی آپ کو؟… انھوں نے اخبار جھٹکے سے نیچے رکھا اور گرج کر بولے: ’’اس سے زیادہ ذلیل فلم تو میں نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔ لاحول ولاقوۃ۔ وہ کوئی فلم ہے۔ ‘‘

میرا منہ حیرت سے کھل گیا۔ مجھے اپنے کانوں پہ یقین نہیں آیا۔ ڈرتے ڈرتے پوچھا: ’’آ پ کون سی فلم دیکھ کے آئے ہیں ؟‘‘

ان کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں : ’’کون سی فلم؟… کون سی فلم بتائی تھی تم نے؟‘‘

جی میں نے تو چودھویں کا چاند…‘‘

’’جی وہی… چودھویں کا چاند… ذلیل فلم، بیہودہ گھٹیا فلم… وہ سالی کوئی فلم ہے۔ روتے روتے بری حالت ہو گئی۔ رات بھر نیند بھی نہیں آئی۔ تم سالے پیدا ہوئے تو جائیدادیں ضبط ہو گئیں، بڑے ہوئے تو باپ کو کھا گئے۔ تم ایسی رونے دھونے کی فلمیں دیکھا کرو۔ کیونکہ تمہاری اپنی زندگی ایک ٹریجڈی ہے سالی۔ مگر مجھے رونے کا کوئی شوق نہیں۔ میں سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا، ساری زندگی عیش و آرام سے کٹی۔ باقی بھی اسی طرح کٹ جائے گی۔ میری زندگی میں آنسوؤں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ دوبارہ اگر ایسی حرکت کی تو سیدھا رامپور بھجوا دوں گا۔ جاؤ منہ کالا کرو… لاحول ولاقوۃ۔ رات کا کھانا خراب ہوا، صبح کا ناشتہ بھی خراب ہو گیا۔ ‘‘

ایک روز تو مولانا سچ مچ جاوید صدیقی سے ناراض ہو گئے، اتنے کہ جاوید صدیقی نے وہ گھر ہی چھوڑ دیا۔ ہوا یہ کہ ہندوستان میں سعودی عرب کے سلطان ابن سعود آنے والے تھے،اخبارات میں خبریں شائع ہو رہی تھیں، ضمیمے نکل رہے تھے، جاوید صدیقی نے قلم اٹھایا اور مولانا محمد علی کی ایک لازوال تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ مولانا نے زندگی بھر اس غیر اسلامی تصور کی مخالفت کی جس میں باپ کے بعد بیٹا تخت نشین ہوتا ہے اور خود کو شہنشاہ، بادشاہ یا سلطان کہہ کر اسلامی جمہوری نظام کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ سعودی عرب میں اڑایا جا رہا ہے۔ اگلی صبح جاوید صدیقی کی آنکھ زبردست قسم کے شور سے کھلی، مولانا کف اڑا رہے تھے، روزنامہ خلافت ان کے ہاتھ میں تھا،تمام بدن غصے کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ جاوید صدیقی کو دیکھتے ہی دہاڑ کر بولے: ’’تم سالے، حرامزادے، کمینے، جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں چھید کرتے ہو۔ نکل جاؤ۔ ابھی۔ اسی وقت منہ کالا کرو۔ ورنہ پولیس کے حوالے کر دوں گا۔ ‘‘

 دراصل خلافت اخبار، خلافت ہاؤس اور خود زاہد صاحب اس امداد پر زندہ تھے جو سعودی عرب سے آتی تھی۔

جاوید صدیقی کو خلافت ہاؤس چھوڑے تین برس گزر گئے، ایک روز انہیں معلوم ہوا کہ مولانا کو دل کا دورہ پڑا ہے اور وہ اسپتال میں داخل ہیں، ان سے نہ رہا گیا، لپک کر اسپتال پہنچے،بڑے پیار سے مولانا کے سر پر ہاتھ پھیرا تو انہوں نے آنکھیں کھول دیں۔ جاوید صدیقی لکھتے ہیں کہ انہوں نے مجھے دیکھا تو مسکرائے، ان کے سوکھے ہونٹ کھلے اور مدھم آواز سنائی دی:

’’اتنے دن تک مجھے دیکھنے بھی نہیں آیا ؟… اپنے بڑوں سے اس طرح ناراض ہوتے ہیں کیا؟‘‘

کہتے کہتے ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ میں تو پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا۔ میرا باندھ بھی ٹوٹ گیا۔ جب رونے سے دل ہلکا ہوا تو میں نے پوچھا: ’’ڈاکٹر کیا کہتا ہے؟‘‘

مسکرائے اور بولے: ’’ابھی نہیں مروں گا۔ ‘‘

میں نے ان کا ماتھا چوما اور کہا: ’’میں مرنے بھی نہیں دوں گا۔ ‘ ( ’ہارے ہوئے لشکر کا سپاہی‘ )

لیکن ایک روز مولانا زاہد شوکت علی سچ مچ مر گئے، جاوید صدیقی انہیں مرنے سے نہیں بچا سکے۔ اس دن وہ بالکل اکیلے تھے جب ان پر دل کا آخری دورہ پڑا۔ درد اٹھا تو نماز پڑھ رہے تھے۔ سجدے میں سر رکھا اور وہیں ختم ہو گئے۔

ہمیشہ رہے نام اللہ کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جاوید صدیقی نے اپنے بہنوئی کا خاکہ بھی خوب لکھا ہے۔ جاوید صدیقی کے والد ان کی اوائل عمری میں جیل چلے گئے تھے۔ گھر میں مفلسی نے ڈیرے ڈال دیے۔ گیارہ مہینے بعد ان کے والد جیل سے واپس تو آ گئے لیکن ان کی حالت دن بدن خراب ہوتی چلی گئی اور کچھ ہی مہینے بعد ایک دن جب فجر کی اذان ہو رہی تھی، انھوں نے آنکھیں کھول کر جاوید صدیقی کو دیکھا اور پھر ہمیشہ کے لیے سو گئے۔ ان کے والد کے انتقال کے بعد سب لوگ انہیں ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھتے تھے اور جاوید صدیقی کو اس روش سے چڑ سی ہو گئی تھی۔ بقول ان کے، ’ ہر نظر ترس کھاتی ہوئی دکھائی دیتی تھی اور ہر ہونٹ افسوس کرتا ہوا سنائی دیتا تھا۔ جب بھی کوئی بزرگ سر پر ہاتھ پھیرتا تو ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ ہاتھ بول رہا ہو: ’’ہائے، اب اس معصوم کا کیا ہو گا؟‘‘

ایسے حالات میں صرف ایک گھر ایسا تھا جہاں بے مطلب افسوس اور بے معنی ہمدردی کی برسات نہیں ہوتی تھی۔ یہ گھر ان کی قمر باجی اور بہنوئی کا تھا جو شہر سے بہت دور واقع تھا۔ جاوید صدیقی کا دل جب بہت گھبراتا تو دو آنے پر سائکل کرایے پر لیتے اور وہاں پہنچ جاتے تھے۔ ان کے بہنوئی ’رضا شوگر فیکٹری رام پور ‘میں ملازم تھے۔ فیکٹری کی کالونی میں چوتھا کوارٹر ان کی باجی کا تھا۔ باجی کے گھر میں داخل ہوتے ہی جاوید صدیقی کی نظر سب سے پہلے صحن میں بندھی گائے پر پڑتی تھی، انہیں وہ گائے کبھی پسند نہیں آئی تھی، وہ ہمیشہ یہ سوچتے تھے کہ ایک تو اتنے چھوٹے سے گھر کے اندر اتنا بڑا جانور اور وہ بھی ایسا جو دن بھر کھانے اور گندگی کرنے کے سوا کچھ نہ کرے۔ جاوید صدیقی کو اپنی باجی سے بڑی محبت تھی اور وہ بھی ان کا بہت خیال کرتی تھیں، وہ جب بھی وہاں پہنچتے تھے، ان کی باجی انہیں دیکھ کر کھل اٹھتی تھیں، ان کا سب سے پہلا سوال چائے کے بارے میں ہوتا تھا اور چائے بھی کیسی ؟ بقول جاوید صدیقی، ’’ گھر کی گائے کا خالص دودھ جسے رامپور والے ’’تھن تلے‘‘ کا دودھ کہتے ہیں یعنی وہ دودھ جس میں پانی کی ایک بوند بھی نہ ملی ہو۔ اس میں چائے کی پتی ڈالی جاتی اور اس قدر ابالا جاتا کہ دودھ کا رنگ گرمی میں تپتی ہوئی کسی حسینہ کے گالوں جیسا ہو جاتا۔ کبھی کبھی اس میں الائچی بھی ڈال دی جاتی تاکہ ذائقے میں خوشبو بھی شامل ہو جائے۔ ہم دونوں چائے کے بڑے بڑے مگ بھر کے آمنے سامنے بیٹھ جاتے اور گپیں مارتے۔ انھوں نے جاوید صدیقی سے وہ ذلیل سوال کبھی نہیں کیا کہ اب کیا ہو گا اور تم کیا کرو گے؟… ‘‘

لیکن ان کے بہنوئی اپنی بیگم جیسے نہیں تھے، وہ حاجی شجاعت علی یا داڑھی والے شجاعت کہلاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جاوید صدیقی بہت بدتمیز اور نہایت گستاخ ہیں اور دادی کے بیجا لاڈ پیار نے انہیں خراب کر دیا ہے۔ جب بھی جاوید صدیقی سے ان کا سامنا ہوتا تھا، وہ اپنی ٹوپی اور شیروانی اتارتے اتارتے پوچھ ہی لیتے: ’’ہاں بھائی، تو کیا سوچا تم نے؟ کیا کرنے کا ارادہ ہے آگے؟‘‘…

جواب میں کہنے کے لیے جاوید صدیقی کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا۔ بقول ان کے ’’ مجھے خود ہی نہیں معلوم تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے بلکہ مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔ مجھے تو ایسا لگتا تھا کہ میں کر ہی کیا سکتا ہوں۔ ایک ایسے یتیم بچے کے پاس، جس کے باپ کا کفن دفن بھی کچھ رشتے داروں کی مہربانی سے ہوا ہو، اس کے پاس Options ہی کہاں ہوتے ہیں۔ ‘‘

ایک وقت ایسا آیا کہ جب جاوید صدیقی کے تمام رشتہ دا ر ان کے بارے میں سوچ سوچ کر اتنا پریشان ہو گئے کہ انھوں نے سوچنا ہی چھوڑ دیا۔ تب ایک حیرت انگیز واقعہ ہوا۔ بمبئی سے ان کے رشتے دار مولانا زاہد شوکت علی کا خط آیا، انہوں نے لکھا کہ جاوید صدیقی کو بمبئی بھیج دیا جائے۔ جاوید صدیقی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، آئیے انہی کے الفاظ میں پڑھتے ہیں :

’’اگر امریکی حکومت کسی ہندوستانی کو نیویارک میں رہنے کی دعوت دے اور ساتھ میں گرین کارڈ بھی بھیج دے تو جو خوشی ہو گی ویسا ہی کچھ میرا حال بھی ہوا۔ پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ چھپر پھٹا کیسے۔ کیونکہ زاہد شوکت علی صاحب اپنے خاندان والوں کو ذرا کم ہی منہ لگاتے تھے۔ اور پھر دوریاں بھی اتنی تھیں کہ تصور ہانپنے لگتا تھا۔ باقی سب لوگ تو خوش ہوئے مگر میری نیندیں حرام ہو گئیں۔ جب بھی آنکھیں بند کرتا بمبئی کی وہ تمام تصویریں جو کتابوں اور رسالوں میں دیکھی تھیں، سامنے آ کھڑی ہوتیں۔ گیٹ وے آف انڈیا دکھائی دیتا، جو ہو کا سمندر دکھائی دیتا، سڑکوں پہ دوڑتی ہوئی دو منزلہ بسیں دکھائی دیتیں۔ عالم یہ تھا کہ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔ تمام یاروں دوستوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے خوشخبری سنائی اور ان کی آنکھوں میں رشک دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ مگر یہ خوشی کچھ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی۔

 ایک دن جب میں اپنی دادی کے ساتھ بیٹھ کر اس سامان کی فہرست بنا رہا تھا جو اپنے ساتھ بمبئی لے جانا چاہتا تھا تو وہ اچانک پھٹ پڑیں : ’’ارے رہنے دے یہ سب کچھ، بمبئی جانا اتنا آسان نہیں ہے۔ ‘‘

’’کیوں نہیں ہے؟‘‘ میں تلملا گیا۔ ’’زاہد چچا نے خود بلایا ہے۔ ‘‘

’’اس کے بلانے سے کیا ہوتا ہے، کوئی بھیجنے والا بھی تو ہونا چاہیے۔ ڈیڑھ دو سو کا خرچہ ہے، کون دے گا؟‘‘

مجھے بالکل ایسا لگا جیسے کسی نے میرے پیٹ میں گھونسا مار دیا ہو اور مجھے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہو۔

’’ڈیڑھ دو سو کا خرچہ؟‘‘ یہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔

وہ سوال جو کہیں منہ چھپا کے بیٹھ گیا تھا پھر اچانک اچھل کر باہر آ گیا۔

’’اب کیا ہو گا؟

جاوید صدیقی ہر طرف سے مایوس ہو کر اپنی باجی کے گھر پہنچے، باجی نے ان کی آنکھوں کی سرخی اور پلکوں کی نمی بھی دیکھی مگر کچھ بولیں نہیں۔ چپ چاپ چائے کی چسکیاں لیتی رہیں۔ اور اس گائے کو دیکھتی رہیں جو کونے میں بیٹھی ہوئی جگالی کر رہی تھی اور دم سے مکھیاں اڑاتی جا رہی تھی۔

جاوید صدیقی لکھتے ہیں :

’’شام ہو رہی تھی، بھائی کے آنے کا وقت بھی ہو چکا تھا۔ میں جانے کے لیے اٹھا تو باجی نے روک لیا: ’’ذرا دیر ٹھہر جاؤ، میاں جی آتے ہی ہوں گے مل کے جانا۔ ‘‘مجھے تھوڑا سا تعجب ہوا کیونکہ باجی کو معلوم تھا، میں بھائی کا سامنا کرنے سے گھبراتا ہوں اور وہ بھی مجھے دیکھ کر کسی خوشی کا اظہار نہیں کرتے۔ میں نے بہانہ بنایا اور جانے لگا۔ مگر بھائی ایک دم سے اندر آ گئے۔ انھوں نے سلام دعا کرتے کرتے اپنی شیروانی اور ٹوپی اتاری، اور نل کے سامنے وضو کرنے کے لیے بیٹھ گئے۔ پاؤں دھوتے دھوتے اچانک میری طرف مڑے اور پوچھا: ’’کیا ہوا تمہارے بمبئی جانے کا؟‘‘

’’جی وہ…‘‘۔ میں اس کے آگے نہیں بول سکا۔ باجی نے کم سے کم لفظوں میں بتایا کہ : ’’جانا تو طے ہے، مگر ابھی تک کرایے کا بھی انتظام نہیں ہوا ہے۔ دوچار جوڑے کپڑے اور ایک آدھ اچھا جوتا بھی چاہیے ہو گا۔ بھائی نے ایک لمبی سی ’’ہوں ‘‘ کی اور بولے: ’’میں نے رام دین سے کہہ دیا ہے، وہ اَجوان لے کر آئے گا، گائے کو کھلا دینا۔ دو دن سے چارہ چھوڑ رہی ہے، شاید پیٹ خراب ہے۔ ‘‘اور مصلیٰ بچھا کے نماز کی نیت باندھ لی۔ مجھے معلوم تھا وہ کچھ نہیں کہیں گے اور نہ کچھ کریں گے۔ انھیں مجھ سے زیادہ اپنی گائے کی پرواہ ہے جس کا پیٹ خراب ہے۔ کسی کی زندگی خراب ہو رہی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ میں چپکے سے باہر نکلا، سائیکل اٹھائی اور اس کچی سڑک پر ہولیا جو میرے گھر کی طرف جاتی تھی۔ ‘‘

کئی روز تک جاوید صدیقی کو یوں لگا جیسے بمبئی ٹوٹ ٹوٹ کر ان کے اوپر گر رہی ہے۔ وہ ساری تصویریں جو آنکھوں میں تیرتی تھیں اب ڈوبتی اور ابھرتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ انہوں نے کتابوں میں دل لگایا مگر نہیں لگا۔ کچھ لکھنے کی کوشش کی مگر لفظوں نے ہڑتال کر دی۔ ان کے ایک جاننے والے کنور صاحب نے انہیں پچاس روپے دیے لیکن ضرورت تو پورے ڈیڑھ سو کی تھی۔ انہیں خیال آیا کہ اپنے والد کی الماری کھول کر دیکھی جائے کہ کچھ چھوڑ کر گئے ہیں یا نہیں۔ لیکن وہاں ہاتھ کی بُنی ہوئی کھادی کے کرتے پاجاموں کے سوا دھرا ہی کیا تھا۔ وہ بھی دو تین ہی تھے۔ ایک کونے میں سے Shark Skinکی دو پتلونیں مل گئیں جن کے بقل زنگ کھا کے کپڑے سے چپک گئے تھے۔

مایوسی کے عالم میں ان کو اپنے پھوپھا کا خیال آیا۔ سخت گرمی کے دن تھے، ایک روز انہوں نے سائکل کرایے پر لی اور منزلیں مارتے ہوئے پھوپھا کے گھر جا پہنچے۔ جب اندر داخل ہوئے تو ان کا یہ حال تھا کہ ہاتھوں میں چین کا گریس لگا ہوا تھا، پاجامے کے پائنچے بھی کالے ہو گئے تھے، سر کے بال مٹی اور پسینے سے الجھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ تمام زندگی ان کی پھوپھی نے سوائے حقارت کے انہیں اور کچھ نہیں دیا تھا۔ مدعا جاننے کے بعد تو ان کی تیوریوں پر بل پڑ گئے۔ شام کو پھوپھا آئے تو جاوید صدیقی ان سے بنا کچھ کہے روانہ ہونے لگے۔ بیان کرتے ہیں :

 پھوپھی نے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور کہا: ’’دیکھو بیٹا، ہمارے باپ دادا بھی کوئی جائیداد چھوڑ کر تو مرے نہیں تھے۔ تمہارے باپو کیسے ہیں تم اچھی طرح جانتے ہو۔ ایک پیسہ رشوت نہیں لیتے۔ جو کچھ ہے بس ان کی تنخواہ ہے۔ مجھے معلوم ہے کنور صاحب نے پچاس روپئے بھجوا دیے ہیں۔ تم سچ مچ بتاؤ تمھیں کتنے پیسے کی ضرورت ہے۔ جھوٹ مت بولنا۔ ‘‘

میں نے اپنے گریس لگے پاجامے کو دیکھا جو چین میں آتے آتے کئی جگہ سے پھٹ بھی گیا تھا:’’پھوپھو میرے پاس کپڑے نہیں ہیں ‘‘۔ ان کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آ گئی۔ صاف لگ رہا تھا کہ انھیں میری بات پر یقین نہیں آیا تھا۔

 پھوپھی نے پانچ پانچ کے کچھ نوٹ میرے ہاتھ پہ رکھ دیئے: ’’یہ لو، سنبھال کر لے جانا۔ ‘‘

ڈپٹی گنج سے نکلتے نکلتے جب پہلی بار چین اتری تو میں نے جیب سے نکال کر گنے، پانچ پانچ کے چار نوٹ تھے۔ بیس روپئے کی خطیر رقم جو میری پھوپھی نے مجھے اپنا مستقبل تعمیر کرنے کے لیے دی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ لوٹ کر جاؤں اور روپئے واپس کر دوں یا چپ چاپ رکھ لوں۔ سوچتے سوچتے کوسی کے پل پہ آ گیا جس کے بعد ریلوے لائن ہے۔ بہت سی بسیں گاڑیاں اور ٹرک رکے ہوئے تھے۔ دو چار سائیکلیں بھی تھیں۔ مجھے بہت سے بھکاریوں نے گھیر لیا اور میں انھیں دیکھ دیکھ کر مسکراتا رہا۔ ان بیچاروں کو کیا معلوم کہ میری حالت ان سے زیادہ خراب ہے۔ اچانک میری نظر پانچ چھ برس کے ایک بچے پہ پڑی جو کیلے والے سے ایک کیلے کی بھیک مانگ رہا تھا۔ مجھے پتا نہیں کیا ہوا۔ میں نے اسے پاس بلایا اور پانچ پانچ کے دو نوٹ اس کے ہاتھ میں رکھ دیئے۔ میں اس بچے کے چہرے کا Expression کبھی نہیں بھول سکتا۔ بہت دیر تک تو ایسا لگا جیسے وہ Freeze ہو گیا ہے۔ پھر اچانک مڑ کر تیزی سے بھاگا اور نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔ میں جب شہر پہنچا تو رات ہو چکی تھی مگر متھرا حلوائی کی دکان جاگ رہی تھی۔ میں نے دو گلاس ڈبل ملائی والا گرم دودھ پیا۔ ایک دونا ربڑی کھائی اور جب میں اس کی دکان سے اٹھا تو دل بڑا ہلکا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں پھوپھو سے اپنا انتقام لے چکا ہوں۔ بیس روپئے ختم ہو چکے تھے۔ ‘‘

 جاوید صدیقی گھر واپس پہنچے۔ دوچار دن بعد انہوں نے شہر کے بکنگ آفس سے بمبئی کا ٹکٹ خرید لیا۔ ریزرویشن کے ساتھ بتیس روپئے پچاس پیسے کا ٹکٹ تھا۔ تقریباً اڑتیس گھنٹے کا سفر تھا۔ پچاس روپوں میں سے ساڑھے سترہ روپئے پھر بھی باقی تھے، انہوں نے سوچا کہ دیکھ بھال کر خرچ کیا جائے تو رستہ تو کٹ ہی جائے گا باقی اللہ مالک ہے لیکن پہننے کے لیے کپڑے تو پھر بھی نہیں تھے۔ پرانے سوٹ کیس کے اندر ان کے والد کی دو پرانی پتلونوں اور مزید دو پرانے کپڑوں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔

اچانک ان کے بہنوئی آ گئے۔ جاوید صدیقی لکھتے ہیں :

بہنوئی کہنے لگے ’’چلو بازار چلتے ہیں ‘‘میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ مجھے بازار کیوں لے جانا چاہتے ہیں۔ مگر بھبّا(جاوید صدیقی کی قمر باجی) جو چپ چاپ سن رہی تھیں اور چھالیہ کاٹتی جا رہی تھیں، اچانک بولیں : ’’بھائی کے ساتھ جاتا کیوں نہیں، جا۔ لوٹتے ہوئے میرے لیے پان بھی لیتا آئیو۔ ‘‘

بھائی نے چوک سے کچھ قمیصوں پاجاموں کا کپڑا دلایا، باٹا کا ایک جوڑ سینڈل اور گھر میں پہننے کے لیے ہوائی چپل خریدے گئے۔ کچھ اور ضروری چیزیں جیسے بنیان، رومال، ٹوتھ پیسٹ، برش وغیرہ… ہاں ایک بڑی سی چار خانے والی چادر بھی تھی اور ایک ربر کا تکیہ جس میں منہ سے پھونک بھر کے پھلایا جا سکتا تھا۔

شوکت باجی نے راتوں رات پاجامے سی دیئے، حبیبہ آپا قمیص سینے کی Expertتھیں، انھوں نے کاٹے بھی خود اور سیئے بھی خود۔ اور ایسی فٹنگ دی کہ کوئی درزی بھی کیا دے گا۔ میرا سوٹ کیس بھر چکا تھا اور اس میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ یہاں تک کہ اماں نے اس میں ایک پھٹا ہوا کپڑا بھی رکھ دیا تھا۔ اور میرے پوچھنے پر بتایا تھا: ’’ارے بچے، جوتے صاف کرے گا تو کیا رومال سے کرے گا؟‘‘۔

یہ سب کچھ ہو رہا تھا مگر دل بار بار کہہ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ آدمی جس نے مجھے کبھی پسند نہیں کیا، سیدھے منہ بات نہیں کی اچانک بدل کیسے گیا۔ یہ ہمدردی کہاں سے آ گئی۔ بھائی کی مہربانیوں کے پیچھے ضرور کوئی اور ہے، مگر کون ہو سکتا ہے سمجھ میں نہیں آتا تھا۔

بہرحال جب ساری تیاریاں مکمل ہو گئیں اور میں سب سے رخصت ہولیا تو باجی اور بھائی سے ملنے کے لیے رضا شوگر فیکٹری پہنچا۔ اندر گھسا تو گھر کچھ بدلا بدلا سا نظر آیا۔ وہ گائے جو ہمیشہ دروازے کے سامنے دم ہلاتی ہوئی ملتی تھی غائب تھی۔ اس کا کوئی سامان بھی نہیں تھا اور صحن کو دھوکر صاف کیا جا چکا تھا۔

’’گائے کہاں چلی گئی؟‘‘ میں نے باجی سے پوچھا۔

’’بک گئی‘‘ انھوں نے جواب دیا۔

’’کب؟‘‘

’’کئی دن ہو گئے‘‘

 مجھے یہ سمجھنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگا کہ گائے کیوں بیچی گئی۔ تب تک بھائی کمرے سے باہر آ چکے تھے۔ میں نے ان سے کہا:

’’آپ نے گائے بیچ دی؟‘‘

’’ارے بھائی گائے کا کیا ہے، پھر آ جائے گی۔ تمہارا جانا زیادہ ضروری ہے۔ جاؤ، اللہ تمھیں کامیاب کرے۔ ‘‘

میں ان سے لپٹ گیا اور وہ آنسو جو ابو کی موت پر بھی نہیں گرے تھے اچانک بہہ نکلے۔ تبھی مجھے باجی کی آواز سنائی دی:

’’بازار کا دودھ ہے، مگر اچھا ہے۔ چائے پیو گے؟‘‘

میں نے باجی کی طرف دیکھا۔ ان کا سانولا چہرہ کھلا ہوا تھا اور مسکراہٹ دور تک پھیلی ہوئی تھی۔

جب کبھی یہ آدھی صدی پرانا قصہ یاد آتا ہے، تو سوچتا ہوں کہ ہم لوگ دوسروں کے بارے میں اپنی رائے بنانے میں کتنی جلدی کرتے ہیں اور پھر اس پہ قائم بھی رہتے ہیں۔ ذرا نہیں سوچتے کہ یہ رائے غلط بھی ہو سکتی ہے۔ ‘‘ (ایک تھے بھائی)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 یہ ہو نہیں سکتا کہ جاوید صدیقی ان خاکوں کو لکھتے وقت روئے نہ ہوں، کم تحریریں ایسی ہوتی ہیں جن کا مصنف خود بھی روئے اور اپنے قاری کو بھی رلائے، ایسی تحریریں کبھی نہیں مرتیں۔ شنید ہے کہ وہ روشندان کا دوسرا حصہ تحریر کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ اسے جلد از جلد مکمل کریں گے اور یوں پاک و ہند کے قارئین کو ایک اور عمدہ کتاب کا تحفہ میسر آئے گا۔

٭٭٭

 

سفر گزشت۔ ہندوستان کا ایک سفرنامہ

ہندوستان کے سفرنامے ’سفر گزشت ‘ کی اشاعت سے قبل جناب عتیق صدیقی کا نام ادبی حلقوں میں یقیناً تعارف کا محتاج تھا لیکن اب یقیناً ایسا نہیں رہے گا۔ 1979 میں کیے گئے اس سفر کی روداد گزشتہ برس کراچی کے اخبار روزنامہ اسلام میں شائع ہوتی رہی تھی۔ مذکورہ اخبار کے قارئین کا ایک مخصوص حلقہ ہے لہذا یہ منفرد اور انتہائی دلچسپ سفری روداد اکثریت کی دسترس سے دور ہی رہی۔ مذکورہ اخبار میں یہ سفرنامہ سو اقساط میں مکمل ہوا۔ جون 2010 میں اسے کراچی کے ایک غیر معروف ناشر ایم آئی ایس نے شائع کیا اور تب بھی قارئین کی اکثریت ’جو رہی سو بے خبری رہی‘ کے مصداق اس سے بے خبر ہی رہی۔ پھر یوں ہوا کہ ایک بڑے اخبار نے اکتوبر 2011 میں ’سفر گزشت ‘ کا ایک مختصر تعارف شائع کیا اور ہندوستانی سفرناموں کے شائق ہم اپنے دفتر سے واپسی پر ناشر کی تلاش میں بھٹکتے بھٹکتے اس تک پہنچ ہی گئے۔ ادارے کے منتظم سے عرض کیا کہ رکشے والے نے یہاں پہنچانے کے جو پیسے لیے ہیں وہ کس کھاتے میں جائیں گے؟ انہوں نے جواب میں 350 کی کتاب پر پچاس فیصد رعایت دے دی۔

ہندوستان کے سفرناموں میں چند قابل ذکر نام یہ ہیں :

ہند یاترا۔  ممتاز مفتی

دیکھا ہندوستان۔ حسن رضوی

دیواروں کے پار۔ منیر فاطمی

دلی دور ہے۔ قمر علی عباسی

سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان۔ سید انیس شاہ جیلانی

تین شہروں کی کہانی۔ شہزاد منظر

اے آب رود گنگا۔ رفیق ڈوگر

دلی دور است۔ عطاء الحق قاسمی

سفرنامہ وہ ہے جو ’سرسری ہم جہان سے گزرے‘ کے بجائے ’ ہر جا جہان دیگر‘ کی مثل ہو۔ 1979 کے اس سفرنامے کو 2011 میں پڑھیے یا پھر 2021 میں، اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کا اسلوب کبھی پرانا محسوس نہیں ہو گا۔ عتیق صدیقی اپنے پڑھنے والے کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں، اس کی زبان رواں اور سلیس ہے، انداز بیاں دل نشیں اور جاذب نظر ہے،واقعات میں زیب داستان کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ صنف نازک کا ذکر نہ ہونے کے باوجود بھی یہ ابتدا سے اختتام تک اپنی دلچسپی برقرار رکھتا ہے حالانکہ لکھنؤ میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی خاطر یہ سفر انہوں نے اس وقت کیا تھا جب وہ نوجوان تھے۔ جملہ معترضہ ہی سہی لیکن ہمارے بعض لکھنے والوں نے تو صنف نازک کے ذکر کو اپنے سفرناموں کا ایک لازمی جز بنایا ہوا ہے۔ اس طرح سفرناموں کی مانگ اور نئے نسخوں کی اشاعت مسلسل میں کبھی کمی نہیں آتی۔ مشتاق احمد یوسفی نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ انہوں نے ایک سفرنامہ لکھ رکھا ہے لیکن اسے شائع اس لیے نہیں کرواتے کہ اس میں ذکر صنف نازک عنقا ہے۔ برسوں پہلے ایک واقعہ پڑھا تھا کہ لاہور کے یعقوب ناسک لندن علاج کی غرض سے گئے، وہ ٹیوب میں سفر کر رہے تھے، ان کے برابر میں ایک انگریزی خاتون محو خواب تھیں،سوتے سوتے ان کا سر یعقوب صاحب کے کندھے سے آ لگا۔ انہوں نے خاتون کو جگاتے ہوئے کہا ’’ بی بی اٹھو! میں یعقوب ناسک ہوں، مستنصر حسین تارڑ نہیں ‘‘۔

ہندوستان ہمارا پڑوسی ملک ہے اور وہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ ہندوستان کے ان سفرناموں کی مدد سے قاری وہاں کے عوام کے جذبات و احساسات اور ان کی سوچوں کے رخ سے بخوبی واقف ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قارئین کی ایک بڑی تعداد ان سفرناموں کی ہمہ وقت منتظر رہتی ہے۔

عتیق صدیقی صاحب کے سفر ہندوستان کے ابتدا ہی میں انہیں ایک حادثہ درپیش آ گیا تھا، وہ بذریعہ بس لاہور جا رہے تھے کہ راستے میں رات کے وقت بس الٹ گئی، کھڑکی کا شیشہ توڑ کر وہ باہر نکلے اور ایک دوسری بس میں بیٹھ کر لاہور پہنچے جہاں سمجھوتہ ایکسپریس میں سوار ہو کر ہندوستان کی راہ لی۔ عتیق صدیقی امرتسر پہنچے اور وہاں سے لکھنؤ کا قصد کیا، لکھنؤ کے لیے وہ ایک ٹرین میں بیٹھے جس کی مدد سے انہیں پہلے جالندھر اور پھر وہاں سے سیالدا ایکسپریس کے ذریعے لکھنؤ پہنچنا تھا۔ مسافروں سے بھری اس ٹرین میں ہر مسافر کی ایک کہانی تھی لیکن ایک ایسی پاکستانی خاتون بھی سفر کر رہی تھیں جن کی کہانی سن کر دوسرے مسافر بھی آبدیدہ ہو گئے۔ لاہور کی رہائشی یہ خاتون برصغیر کی تقسیم کے وقت کا ایک عہد نبھانے کے لیے انبالہ جا رہی تھیں، ان کے ہمراہ برتنوں سے بھرا ایک تھیلا تھا، یہ برتن انہوں نے برسوں سے سنبھال کر رکھے تھے۔ تقسیم کے وقت لاہور میں انہیں ایک سکھ خاندان نے پناہ دی تھی جو بعد ازاں ہندوستان روانہ ہو گیا تھا لیکن جاتے جاتے اس گھرانے کی بہو نے اپنے برتنوں پر اس طرح ایک نگاہ حسرت کی جیسے کوئی اپنے کسی پیارے کو آخری بار دیکھ رہا ہو۔ اس لمحے ان خاتون نے خود سے عہد کیا کہ وقت آنے پر یہ امانت انبالہ ضرور پہنچائیں گی۔ ٹرین میں بے انتہا رش کی وجہ سے وہ ایک سردار جی پر خفا ہو رہی تھیں جن کی پتلون پر خاتون کے ٹرنک کا کونا لگ جانے کی وجہ سے کھرونچا پڑ گیا تھا، رفتہ رفتہ دوسرے مسافروں نے بھی اس نوک جھونک میں دلچسپی لینا شروع کر دی، آئیے یہ منظر دیکھتے ہیں :

’’ آپ پاکستان سے آئی ہیں اماں ‘‘۔۔  کسی نے پوچھا

’’ہاں ‘‘۔ خاتون نے مختصر سا جواب دیا

’’کیا حال ہیں پاکستان کے‘‘ ؟۔۔  ایک لہکتی آواز آئی

’’بہت اچھے۔ کرم ہے سوہنے رب کا‘‘

’’سنا ہے مہنگائی بہت ہے پاکستان میں ‘‘ ایک نئی آواز ابھری

’’مہنگائی۔۔  مہنگائی کہاں نہیں ہے؟ تمہارے انڈیا میں مہنگائی نہیں ہے ؟ مہنگائی سے تو دنیا پریشان ہے‘‘

’’مگر وہاں آمدنی بھی زیادہ ہے جی۔ ‘‘ کسی نے اعتراف حقیقت کیا۔ ’’ لوگ باگ زیادہ خوش ہیں ہمارے ملک سے‘‘

خاتون بولیں ’’ تو اور کیا۔ مہنگائی ہو بھی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بازار بھرے رہتے ہیں خریداروں سے۔ ‘‘ خاتون کے لہجے میں فخر تھا۔ ’’ آج کل ہی دیکھو، وہاں آلو دس روپے کلو بک رہے ہیں مگر لوگوں نے کھانا نہیں چھوڑ دیتے، اسی طرح خرید رہے ہیں جیسے روپے ڈیڑھ روپے میں خریدے جاتے تھے۔ ‘‘

’’دس روپے کلو آلو‘‘۔۔  کئی تحیر آمیز آوازیں ایک ساتھ ابھریں اور چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔

’’واہ بھئی واہ پاکستان‘‘ کھرونچا زدہ پتلون والے سردار جی بدبدائے تھے۔

خاتون نے ان کی بات سن لی اور بھنا کر زور سے بولیں ’’ وہاں تیری طرح کپڑے پر ذرا سی لکیر آ جانے سے کوئی اتنی بدتمیزیاں بھی نہیں کرتا عورت ذات سے۔ ایک تو کیا دس پتلونیں پھٹ جائیں، کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔ ‘‘

ان کی اس بات پر زور کا قہقہہ پڑا۔

جالندھر ریلوے اسٹیشن پر ’کنڈکٹر گارڈ ‘ کو عتیق صدیقی کا سوا روپے کا نقصان برداشت نہ ہوا اور وہ اس بات پر افسوس کرتا رہا، ادھر صدیقی صاحب کو سوا روپے کے نقصان سے زیادہ وقت کی بربادی کی فکر لاحق تھی اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر حیرت بھی کہ پاکستان میں تو ریلوے کا وہ حال ہے کہ سوائے مسافروں کو لوٹنے کے، اور کوئی کام ہی نہیں ہوتا اور ادھر اس فرض شناس انسان کو سوا روپے کے ضائع ہونے کا اس قدر افسوس تھا۔ عتیق صدیقی ہندوستان اور پاکستان کے ریلوے کے نظام میں فرق محسوس کرتے رہے۔ گارڈ صاحب کو ان سے ایسی ہمدردی ہوئی کہ سفر کے آغاز میں انہیں اپنا بستر دے گئے، صدیقی صاحب کو احساس ہوا کہ دوران گفتگو ان کا لہجہ کچھ زیادہ ہی تلخ ہو گیا تھا۔ یہ تھے بارہ بنکی کے رہائشی ایس ایم علی جو لکھنؤ کی روایات کے امین ہونے کے ناتے سلام کے بجائے آداب کہتے تھے اور عتیق صدیقی یہ سوچتے رہ جاتے کہ آداب کے جواب میں کیا کہنا مناسب ہو گا۔ سفر کے اختتام پر ایس ایم علی صاحب نے عتیق صدیقی کو اپنے گھر کا پتہ دیا اور یہ ایک اتفاق تھا کہ اس کے کئی روز بعد لکھنؤ میں علی صاحب سے ان کی اچانک ملاقات بھی ہوئی اور و ہ لکھنؤ میں ان کے بھانجے کے مہمان بھی بنے۔

 عتیق صدیقی کو سیالدا ایکسپریس میں سفر کے دوران ہندو معاشرے کی ایک جھلک اس وقت دکھائی دی جب ایک تعلیم یافتہ شخص نے ان کی ناشتے کی دعوت کے جواب میں سخت رویے کا مظاہرہ کیا اور اپنا منہ پھیر لیا، عتیق صدیقی حیران رہ گئے، کچھ دیر بعد وہ صاحب گویا ہوئے:

’’ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، خصوصاً اس لیے کہ مجھے تمہارے بارے میں یقین تھا کہ تم پاکستانی ہو۔ مگر میں ہندو ہوں۔۔  اور ہم ہندوؤں میں اس طرح ایک برتن میں کھانے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے تمہاری دعوت پر میرا ردّ عمل فطری تھا، بہرحال اس سے تمہیں تکلیف پہنچی جس کے لیے میں تم سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ ہندو غیر ہندو کا معاملہ نہیں ہے، ہم ہندو بھی آپس میں اس طرح نہیں کھاتے پیتے ‘‘۔

عتیق صدیقی لکھنؤ کے مضافات میں واقع بستی ’اسیاء مؤ ‘ میں مقیم اپنے چچا کے گھر پہنچے، رات ہو چکی تھی،سب لوگ انہیں دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائے، سفر کی تکان سے چوُر عتیق صدیقی اپنے چچا سے غسل خانے کا پوچھ بیٹھے اور یہ معلوم ہونے پر کہ ایسی کوئی چیز اس گھر میں ہے ہی نہیں، عتیق صدیقی سٹپٹا گئے۔ غسل خانہ صحن میں واقع ایک چبوترے کو کہا جاتا تھا جہاں گھر کے مرد تہمد باندھ کر غسل کرتے تھے۔ ان کی چچی بولیں ’’ تو تمہارے چچا مکان بنوا رہے تھے تو کتنا کہتی رہی کہ ایک غسل خانہ بھی بنوا لو، محل کھڑا کر لیا مگر بالشت بھر کا ایک غسل خانہ نہ بنوایا، اب دیکھو بچہ خیر سے کیسا پریشان ہو رہا ہے،تمہارے گھر میں خیر سے غسل خانے ہوں گے، کراچی تو سنتے ہیں بہت بڑا اور ترقی یافتہ شہر ہے۔ ‘‘

’اسیاء مؤ‘ میں ایک روز قیام کے بعد عتیق صدیقی ملیح آباد میں مقیم اپنے دوسرے چچا اور نانا کے گھر پہنچے۔

 ملیح آباد۔ ۔  جوش ملیح آبادی کا شہر۔۔ ۔  سرپھرے، غصہ ور باسیوں کی بستی!

نانا کے گھر کے اطراف میں رات کو گیدڑ چلایا کرتے اور جگنو چمکا کرتے تھے۔ کراچی کے باسی مسافر کے لیے جگنو ایک نئی چیز تھا، مبہوت ہو کر دیکھا کیے۔ بڑی نانی نوے برس کی تھیں لیکن سوئی میں دھاگا بنا کسی کی مدد کے ڈالتی تھیں۔ نانا کے گھر میں عتیق صدیقی کی اکثر فرمائش بیسن کی روٹی ہوا کرتی تھی اور ان کی نانی اپنی نند (چھوٹی نانی)سے کہتیں : ’’ شکر کرو مریم! اللہ نے سستا مہمان بھیجا ہے۔ کہیں مرغ مسلم، پلاؤ متنجن کی فرمائش کرنے والا ہوتا تو پتہ چل جاتا۔ ‘‘

 نانا کے گھر ایک معصوم سی غلطی بھی عتیق صدیقی سے سرزد ہوئی۔ انہوں نے اپنے نانا کو تحفے میں ’پروفیسی ‘ خوشبو کی دو عدد بوتلیں دیں جو انہوں نے کراچی صدر کے علاقے سے پندرہ روپے فی بوتل کے حساب سے سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے ایک پٹھان سے خریدی تھیں، جواب میں ان کے نانا ان کو دو سو روپے پکڑا دیتے ہیں۔ سرحد کے پٹھان سے خریدی ہوئی چیز ملیح آباد کے پٹھان تک جا پہنچی۔ بتیس برس پرانی اس ناجائز ’منافع خوری ‘پر عتیق صدیقی آج تک شرمندہ ہیں !

ملیح آباد میں عتیق صدیقی کو فلم جنون کی فلم بندی کے دوران پیش آنے والا واقعہ سنایا گیا، ستر کی دہائی کے آخر میں جنون کی فلم بندی ہو رہی تھی، ملیح آباد کے کچھ پٹھان بھی وہاں موجود تھے، ہیرو (ششی کپور)نے  اپنا کام مکمل کروایا اور اپنی قیام گاہ کی طرف جانے کو مڑا، خان صاحبان سے کہہ بیٹھا کہ بھائی ذرا راستہ دے دیجیے۔ اس کے بھائی کہنے پر خان صاحبان کو سخت غصہ آ گیا اور انہوں نے ہیرو کی پٹائی کر دی۔

 ’’ سالے نچنئے، تیری ایسی کی تیسی، ہمیں بھائی کہتا ہے ‘‘۔ ہیرو کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں، بڑی مشکل سے علاقے کے بڑوں نے درمیان میں پڑ کر اس کی گلو خلاصی کروائی۔

 ملیح آباد کے اسی مزاج کی ایک مثال اس وقت سامنے آتی ہے جب مصنف اپنے خالو سے مرگھٹ پر کسی مردے کو نذر آتش کیے جانے کا منظر دیکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے خالو جواب میں کہتے ہیں :

’’ اماں لاحول بھیجو! وہ بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہے۔ اچھا ٹھیک ہے، مرنے تو دو کسی کو۔ یا جلدی ہے تو بولو، مار دیں کسی کو ؟ ‘‘

عتیق صدیقی ملیح آباد اور لکھنؤ کے درمیان آتے جاتے رہے۔ دن کا آغاز مریم نانی کے ہاتھ کے پر تکلف ناشتے سے ہوتا تھا اور دن بھر رشتہ داروں کے ساتھ گھومتے پھرتے گزر جاتا تھا۔ دن گزرتے گئے اور ان کے تیس روزہ ویزے کی مدت ختم ہونے کو آئی۔ ان کا دل کرتا تھا کہ وہ چند دن مزید اپنے آباء کی سرزمین پر اپنے پیاروں کے درمیان گزار لیں، سو ویزے کی میعاد مزید بیس روز کے لیے بڑھوا لی گئی۔ نانا کے گھر ایک روز ان کے دوست آفاقی صاحب آ گئے، محفل جم گئی۔ آفاقی صاحب باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، اپنی جوانی کا ایک قصہ سنانے لگے۔ تقسیم ہند کا زمانہ تھا، آفاقی صاحب علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ اسی اثناء میں گاندھی جی قتل کر دیے گئے، یونیورسٹی میں چھٹیاں ہو گئیں، وہ اپنے چار دوستوں کے ساتھ دہلی کی سیر کو روانہ ہو گئے، وہاں پہنچ کر ایک دوست کے گھر میں ڈیرے ڈالے۔ چند ہی روز میں پیسے ختم ہو گئے، ان کے دوست کے معاشی حالات بھی اچھے نہ تھے، آفاقی صاحب اور ان کے دوستوں نے اس کو مزید زیر بار کرنا مناسب نہ سمجھا، ادھر بس کا واپسی کا کرایہ بھی پلے نہ تھا۔ ایک روز تمام دوست مایوسی کے عالم میں بیٹھے تھے کہ ایک نے نعرہ مستانہ بلند کیا اور کہا کہ ایک ترکیب ذہن میں آئی ہے، چلو میرے ساتھ، عیش کرواؤں گا۔ چار کے ٹولے نے اپنے اپنے حلیے درست کیے، لباس درست کیے اور بالوں میں کنگھی کر کے دہلی کے ہندو کمشنر کے پاس پہنچ گئے۔ کمشنر کے سامنے ترکیبی دوست نے عاجزانہ لیکن پراعتماد لہجے میں کہا کہ صاحب! گاندھی جی کا قتل انسانیت کا قتل ہے اور ہم مسلمان ہونے کے ناتے اس سوگ میں برابر کے شریک ہیں اور ان کی آتما کی شانتی کے لیے ان کا ’تیجا ‘ (سوئم) کرنا چاہتے ہیں، ہم گھروں سے دور ہیں اور اکثر ہمارا ہاتھ تنگ ہی رہتا ہے، براہ کرم اس کار خیر کے لیے آپ ہمیں رقم عنایت کر دیں۔ کمشنر بہت متاثر ہوا اور اس نے اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے چار سو روپے کی خطیر (اس زمانے میں ) رقم انہیں دے دی۔ یاروں کا ٹولہ خوش خوش دہلی کے کمشنر کے دفتر سے باہر نکلا۔ ان روپوں سے تمام دوستوں نے دہلی میں بقیہ چھٹیاں ٹھاٹھ سے گزاریں۔

ہندو معاشرے میں گائے کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ماں کے نام پر اکثر فساد بھی ہوتے رہتے ہیں۔ یہ گاؤ ماتائیں بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں، جہاں جی چاہا، بلا تکلف منہ مار دیا، یہ الگ بات ہے کہ دکاندار اگر ہندو ہے تو زبان سے تو کچھ نہیں کہتا لیکن اپنا دل تھام کر بیٹھ جاتا ہے۔ عتیق صدیقی نے اس سے متعلق کتاب میں ایک مزیدار واقعہ درج کیا ہے۔ ایک روز بس میں سوار ہو کر وہ لکھنؤ جا رہے تھے کہ رستے میں ایک جلوس کی وجہ سے بس رک گئی، عتیق صدیقی بس سے اتر گئے۔ کچھ فاصلے پر ایک بوڑھا سبزیوں سے بھری ٹوکری لیے بیٹھا تھا۔ اسی وقت ایک آوارہ گائے ادھر آ نکلی۔ سجی سجائی ’ڈش ‘ دیکھ کر اس کے قدموں میں تیزی آ گئی تھی۔ بوڑھے کی پشت اس کی جانب تھی، اس لیے وہ نہ دیکھ سکا، گائے نے سبزی پر منہ مارا تو اسے علم ہوا، تیزی سے ٹوکری اپنی جانب کھینچنا چاہی، گائے نے جارحانہ انداز میں سر کو حرکت دی تو وہ بوکھلا کر پیچھے کی جانب الٹ گیا مگر فوراً ہی سنبھلا اور ہاتھ جوڑ کر خوشامدی انداز میں ’ہے ماتا۔ ہے ماتا‘ کرنے لگا۔ مگر ماتا یہ تر مال چھوڑنے کو آمادہ نہ تھیں اور اس وقت تک ڈھائی تین کلو سبزی چٹ فرما چکی تھیں۔ بوڑھے کی برداشت جواب دے گئی۔ دانت کچکچاتے ہوئے بولا:

’’ اچھا۔۔  ہم ماتا ماتا کرت ہیں پن ان کے دماگ ہے نئیں ملتے۔۔  تنی تھمو تو۔۔ ۔  ‘‘

اس نے قریب پڑی ہوئی لاٹھی اٹھائی اور دونوں ہاتھوں میں تھام کر سر سے بلند کر کے ماتا جی کی کمر پر رسید کی۔ وار بھرپور اور ریڑھ کی ہڈی پر پڑا تھا۔ ماتا جی نے ایک بھیانک آواز نکالی اور ادبدا کر بھاگیں۔ سامنے ہی جلوس تھا، اس میں جا گھسیں، کئی لوگ اس کی زد میں آ کر گرے، کچھ بھگدڑ میں ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ کچھ دوسروں کے قدموں تلے آئے۔ ایسی چیخ پکار پڑی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔

’سفر گزشت ‘میں کئی ایسے جملے ہیں جن کو پڑھ کر قاری مصنف کے شگفتہ انداز تحریر سے لطف اندوز ہوتا ہے، چند مثالیں پیش خدمت ہیں :

۔ سائیکل رکشے والا کتوں کو دھتکارتا رہا اور ساتھ ہی ایسے رکیک جملے بھی ادا کیے کہ اگر کتے سمجھنے کے قابل ہوتے اور ان میں تھوڑی سی بھی غیرت ہوتی تو اس کی تکا بوٹی کر ڈالتے۔

۔ چچی نے آگے بڑھ کر سر پہ ہاتھ رکھا، دعائیں دیں، اماں باوا کی خیریت پوچھی اور چونک کر بولیں ’ ’لو میں بھی دوانی ہوئی ہوں، باوا تو خیر سے کب کے گزر گئے۔ ‘‘۔ ۔  بعد میں معلوم ہوا کہ ’خیر سے‘ ان کا تکیہ کلام ہے۔

۔ بوگی میں ایک چھوٹے قد کے منحنی سے سردار سوار ہوئے، قلی سے اپنا سامان پھرتی سے لیا، وہ ہر کام نہایت تیزی سے کرنے کے عادی معلوم ہوتے تھے،ہم نے اتنا ’مختصر مگر ’جامع‘ سردار پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

۔ پہلے تو خاتون نے سردار جی کے جثے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر وہ حرام کھا کھا کر دنبہ نہ ہو گئے ہوتے تو خاتون کے ٹرنک سے سردار جی کی پتلون پر کھرونچا پڑنے کا یہ حادثہ پیش ہی نہ آیا ہوتا۔

لکھنؤ میں پچاس روز گزر چکے تھے اور اب واپسی کی تیاری تھی۔ کون پڑھنے والا عتیق صدیقی کی اپنے رشتہ داروں خاص کر نانا اور چھوٹی و بڑی نانی سے الوداعی ملاقات کے بیان پر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا، ان کے یہ تقریباً تمام ہی رشتہ دار اب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ ایسے منظر تقسیم ہند کے بعد پاک و ہند میں اس وقت تک دیکھے جاتے رہیں گے جب تک دونوں ملکوں کے درمیان ویزے کی شرائط میں نرمی نہیں کی جائے گی۔ لوٹ کر جانے والے کی واپسی کا یقین ہو تو دل کو ایک ڈھارس بندھی رہتی ہے۔ آئیے ہم بھی اس الوداعی منظر میں شریک ہو جاتے ہیں :

مریم نانی، پھوپھی جان سے لپٹی زار و قطار رو رہی تھیں۔ اچانک انہوں نے پھوپھی جان کو دیر سے انتظار میں کھڑی بڑی نانی کے حوالے کیا اور ادھر ادھر نظریں دوڑاتی ہوئی بولیں :

’’ ارے میرا بچہ (عتیق صدیقی) کہاں ہے۔۔  میری بٹیا کی نشانی۔۔  آخری دفعہ جی بھر کر دیکھ لوں ‘‘

ہمارے قریب کھڑے نانا نے کہنی سے ٹہوکا دے کر ہمیں ان کے قریب جانے کا اشارہ کیا۔ اسی وقت نانی نے بھی ہمیں دیکھ لیا اور دونوں بازو پھیلائے ہماری طرف جھپٹیں :

’’ ہائے میرا لعل۔۔ ۔  کیسا ہماری محبت میں کوسوں دوڑا چلا آیا۔۔ ۔  کس دل سے رخصت کروں۔ ‘‘

وہ ہم سے لپٹ کر آنسو بہانے لگیں۔ ہماری آنکھوں کے گوشے بھی نم ہو گئے

’’اب کب دیکھ پائیں گے یہ صورت‘‘ انہوں نے دونوں ہاتھوں کے کٹورے میں ہمارا چہرہ لے کر پوچھا۔ ’’آئے تھے تم تو بہت خوشی تھی۔ اب جانے کا غم نہیں سہا جا رہا۔ اللہ ملائے تو اور بات، ورنہ اب  یقین نہیں کہ مل سکیں گے‘‘ وہ ہچکیوں کے درمیان کہہ رہی تھیں !

 عتیق صدیقی کے سفرنامے سے متعلق چند باتوں کی نشان دہی ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ اس میں پیش لفظ موجود نہیں جس کی وجہ سے اس سفر کے اغراض و مقاصد سے قاری بے خبر رہتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کتاب میں مصنف کا تفصیلی تعارف نہیں دیا گیا جس کے بغیر یہ کتاب کچھ ادھوری سی محسوس ہوتی ہے۔ ہم یہاں اپنے پڑھنے والوں کو آگاہ کرتے چلیں کہ عتیق صدیقی کراچی سے نکلنے والے روزنامہ اسلام کے چیف نیوز ایڈیٹر ہیں۔ 400 صفحات پر مشتمل یہ سفرنامہ آدم جی نگر کراچی میں واقع ایم آئی ایس پبلکیشنز کے دفتر سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ناشر کا رابطہ نمبر اور پتہ یہ ہے:

 92-21-34931044 523-C, Block Z, AdamJi Nagar, Karachi

اس کے علاوہ دار الاشاعت، اردو بازار، کراچی اور اردو بازار کی کئی کتب خانوں پر بھی دستیاب ہے۔

٭٭٭

آغا جانی کشمیری اور ان کی خودنوشت سحر ہونے تک

 آغا جانی کشمیری، نواب کشمیری کے چچا زاد بھائی، وہی نواب کشمیری جن کا خاکہ سعادت حسن منٹو نے لکھا ہے، جنہوں نے فلم یہودی کی لڑکی میں ایک کردار کے لیے اپنے سارے دانت نکلوا دیے تھے۔

آغا جانی کشمیری16 اکتوبر 1908 میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور ایک طویل عمر اور بھرپور زندگی گزار کر 27 مارچ 1998 میں کینیڈا میں وفات پا گئے، تدفین ٹورنٹو، کینیڈا میں ہوئی۔ آغا صاحب کا اصل نام سید واجد حسین رضوی تھا اور وہ ممبئی کی فلمی دنیا میں آغا جانی کشمیری کے نام سے جانے جاتے تھے۔ فلمی دنیا میں ان کی خدمات بحیثیت اداکار، شاعر اور مکالمہ نویس ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ آغا صاحب نے کئی فلموں کی کہانیاں لکھیں اور بہت سی فلموں کے مکالمے و منظر نامے تحریر کیے، ان کی مشہور فلموں میں انمول گھڑی، ضدی، نجمہ، ہمایوں، تقدیر، مالکن، عورت، امر، چوری چوری، جنگلی وغیرہ شامل ہیں۔

 آغا جانی کشمیری نے ساٹھ کی دہائی میں اپنی زندگی کی یادوں کو سمیٹتے ہوئے اپنی خودنوشت ’سحر ہونے تک ‘ کے عنوان سے تحریر کی۔ خودنوشت کو لکھنے جانے کے دوران منور آغا مجنوں لکھنوی اور پروفیسر احتشام حسین ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ کتاب ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ سے 1964 میں شائع ہوئی۔ آغا صاحب نے ’سحر ہونے تک‘ کی ابتدا میں یہ واضح کر دیا تھا کہ:

’’میں یہ کتاب نوبہار قافلوں کے لیے لکھ رہا ہوں، صرف اس لیے کہ وہ زندگی کی ان ٹھوکروں سے بچ سکیں جو میں نے اس رہگزر میں کھائی ہیں۔ ‘‘

یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ فلمی دنیا کی رنگینیوں کے درمیان ایک بھرپور زندگی گزارنے والے آغا صاحب کی خودنوشت ’ سحر ہونے تک ‘ کے مطالعے کے بعد نوبہار قافلے بصد شوق وہ ٹھوکریں کھانا چاہیں گے جن سے ان کو بچانے کی غرض سے آغا صاحب نے یہ کتاب تحریر کی تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آغا جانی کشمیری نے اپنی خودنوشت میں بلا کم و کاست اپنی داستان حیات اپنے قاری کے سامنے بیان کی ہے ا ور جو ڈاکٹر سید عبداللہ کی بیان کردہ آپ بیتی کی اس تعریف پر پورا اتر ی ہے کہ :

 ’’ آپ بیتی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ کسی بڑے دعوے کے بغیر بے تکلف اور سادہ احوال زندگی پر مشتمل ہو۔ ‘‘

اس ضمن میں پروفیسر آل احمد سرور کہتے ہیں کہ ’’ آپ بیتی، جگ بیتی بھی ہوتی ہے کیونکہ ایک فرد اپنے خاندان، ماحول، علمی اداروں، تحریکوں، شخصیات، تہذیبی، ادبی،معاشرتی اور سیاسی حالات سے دوچار ہوتا ہے، ان سے بہت کچھ لیتا ہے اور شاید تھوڑا بہت انہیں دیتا بھی ہے‘‘۔

’سحر ہونے تک ‘ کے مصنف نے اپنے دور کی تاریخ، تمدن، معاشرت اور عادات و اطوار کو اس طور بیان کیا ہے کہ کتاب میں ایک الگ ہی طرح کا رنگ نمایاں ہو گیا ہے۔

یہاں آغا جانی کشمیری کی ’سحر ہونے تک ‘ سے چند دلچسپ اقتباسات پیش خدمت ہیں :

۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایک تھے مولانا سبط حسن مرحوم۔ بے پناہ شاعر، بے پناہ انشاء پرداز، بے پناہ مقرر۔۔  ان کا طرز بیاں، معلوم ہوتا تھا کہ فصاحت و بلاغت کا سمندر موجیں مار رہا ہے۔ نظمیں اردو کے علاوہ فارسی اور عربی میں بھی کہیں۔ موسیقی پر ایک کتاب لکھی جو ان کے لڑکے سالک لکھنوی کے پاس ہے۔ ان کی مجالس میں شیعوں کے علاوہ دوسری قوم کے حضرات بھی شریک ہوتے تھے۔ طرز ادا خدا نے وہ بخشی تھی کہ ہزاروں آدمیوں کا مجمع، محرم کی مجلس میں کہرام مچا ہوا ہے، سب بے تحاشا رو رہے ہیں۔ کچھ سنائی نہیں دیتا اور یہ صرف ہاتھ کے اشاروں سے سب کچھ سمجھا رہے ہیں اور سب کچھ ہر ایک کی سمجھ میں آ رہا ہے۔ سحر بیانی کا یہ عالم کہ ایک مجلس میں بارش ہونے لگی، ایک جملہ انہوں نے کہا

 کاش یہ پانی کربلا میں برس جاتا

سنتے ہی ہر آنکھ بادل کی طرح برسنے لگی۔

کسی ایک آدمی کو پانی سے بچنے کے لیے اٹھتے نہیں دیکھا۔ میں تو چھت کے نیچے محفوظ بیٹھا تھا۔ ان کی سحر بیانی کی انتہا میں نے کانگریس کی ایک میٹنگ میں دیکھی تھی۔ مولانا کو بخار تھا، ایک سو تین ایک سو چار ڈگری۔ نہ جانے کس طرح لوگ ان کو پکڑ لائے۔ کم از کم دو لاکھ آدمیوں کا امین الدولہ پارک میں مجمع تھا۔ ملک کے نمایاں لوگ گاندھی جی، نہرو، حسرت موہانی، سلیمان ندوی، مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد موجود تھے۔ غلامی پر بولنا تھا۔ ہر شخص کو پچیس منٹ دیے گئے تھے۔ اور جب یہ بے پناہ شخصیت کا مالک ابوالکلام آزاد اور محمد علی جوہر کے بعد ڈنڈا ٹیک کر کھڑا ہوا ہے تو ہو پچیس منٹ کے بعد دو لاکھ کا مجمع تالیں بجاتا تھا، گاندھی جی اور دوسرے لیڈر منت کرتے تھے اور یہ پھر بولتا تھا۔ سوا گھنٹے یہ شخص بولتا رہا، پھر بھی کیا ہندو کیا مسلمان کسی ایک کا دل نہیں بھرا تھا۔ اگر یہ سیاست کی دنیا میں آ جاتا تو نہ جانے کیا ہوتا۔

  ایک تھے اس زمانے کے شاید سب سے زیادہ بوڑھے جن کی عمر سو سے اوپر ہو گی۔ ان کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے تھے۔ ایک روز بازار میں میرے والد صاحب کو مل گئے، انہوں نے کچھ روپے ان کی نذر کیے اور گھر کھانا کھلانے بھی لے گئے۔ میں نے کٹے ہوئے ہاتھوں کی وجہ پوچھی تو میرے والد صاحب نے ان کے سامنے بتایا کہ یہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے نہ جانے کتنے محتاجوں کو امیر بنا دیا۔ کسی بھی بگڑے ہوئے اور تباہ شدہ نواب کو پکڑا اور کہا کہ اگر لاکھ دلوا دوں تو پچاس ہزار دو گے ؟، اس نے کہا جی ہاں۔ ان کے نام کا وصیت نامہ نواب مرحوم کے ہاتھ کی تحریر میں تیار کیا۔ خاندانی شجرہ تیار کیا اور مسل تیار کی اس زمانے کے مرحوم کاتب کی تحریر میں۔ ان کاغذات کو جہاں جہاں سے چاہا دیمک سے چٹوا دیا۔ خاص خاص جگہ پر اپنے تیار کیے ہوئے رنگ سے دھبے ڈالے اور کچھ دن بعد ان ٹوٹے ہوئے نواب صاحب سے کچہری میں مقدمہ دائر کروا دیا۔ اس عجیب و غریب آدمی کا ہر کاغذ ولایت تک بھیجا گیا۔ کوئی شناخت نہ کر سکا اور فیصلہ ہمیشہ انہی کے حق میں ہوتا تھا کہ یہ کاغذات سو سال پرانے ہیں اور یہ تحریر انہی نواب نے اپنے ہاتھ سے لکھی تھی۔

اسی طرح کا ایک وصیت نامہ ایک نواب صاحب کی تحریر میں تیار کرنا تھا۔ ان مرحوم نواب کے ہاتھ میں رعشہ تھا۔ اس شخص نے کڑکڑاتے جاڑے میں ٹھنڈے پانی سے نہا کر وہ وصیت نامہ تحریر کیا اور اس طرح رعشہ کی کیفیت تحریر میں پیدا کی۔ نہ جانے کتنے نوابوں کو دولت دلوا دی اور خود بھی کمائی۔ آخر کار پکڑے گئے اور انگریز گورنمنٹ نے ان کے دونوں ہاتھ کٹوا دیے۔ یہ واقعہ لکھنؤ میں بھی اسی طرح مشہور ہے۔

 ————

 وہ سامنے ہے نواب آصف الدولہ کا امام باڑہ۔ اتنا بڑا امام باڑہ ساری دنیا میں دکھائی نہیں دے گا۔ یہ ہزاروں اوپر بنے ہوئے ایک ہی قسم کے در ہیں۔ زمین کے اوپر بھی اور زمین کے نیچے بھی۔ یہ بھول بھلیاں کے نام سے مشہور ہیں، بہت سے انگریز اس میں پھنس کر جان دے چکے ہیں۔ ہر دروازہ ایک ہی قسم کا۔ جہاں ایک دروازے سے اندر داخل ہوئے اور گھوم کر دیکھا تو تو پچاسوں ویسے ہی دروازے دکھائی دیں گے۔ جانتے ہیں یہ امام باڑہ کیونکر بنا۔ رات کو بنایا جاتا تھا، صرف رات کو۔ جب لکھنؤ میں قحط پڑا، نواب آصف الدولہ نے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ کیسے کیسے شریف اور رئیس، کیسے کیسے اونچے خاندان والے، سب ہی رات کی تاریکی میں بنایا کرتے تھے۔ روشنی جلانے کا حکم نہ تھا۔ کوئی کسی کو پہچان نہ سکتا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ پہچاننے کی کوشش بھی نہ کرتا تھا۔ سب ہی ایک دوسرے سے منہ چھپاتے تھے، اس طرح کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والوں کے بچے بھی پل گئے۔ جبھی تو اس وقت کے ہندو مسلمان اپنی اپنی دکانیں صبح یہ کہہ کر کھولتے تھے:

جس کو نہ دیں مولا، اس کو دیں آصف الدولہ۔

 ———–

 ایک تھے لکھنؤ میں میر مچھلی۔ نو دس سال کی عمر میں میں نے خود دیکھا ہے کہ آلتی پالتی جمائے پانی پر اس طرح بیٹھے ہیں جیسے کوئی فرش پر بیٹھے۔ ایک زانو پر حقہ رکھا ہے اور پی رہے ہیں۔ آدھے گھنٹے تک میں نے یہ منظر دیکھا ہے۔ صرف پیروں کے انگوٹھوں اور انگلیوں کی جنبش سے پانی پر قائم رہتے تھے۔ کیا مجال جو ذرا بھی ہل جائیں۔ حسین آباد کے تالاب میں پیراکی کے کرتب دکھائے جاتے تھے۔ شہریوں کے علاوہ بڑے بڑے انگریز افسر بھی اکثر یہ منظر دیکھنے آیا کرتے تھے۔

 ———-

 ایک تھے سجاد علی خاں، بنوٹیے۔ لکڑی کے سب سے بڑے استاد۔ سینکڑوں آدمیوں کے مجمع سے لکڑی گھماتے نکل جایا کرتے تھے۔ ان کا ایک منظر مین نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ نواڑ کی چارپائی کے نیچے ایک جنگلی کبوتر چھوڑ دیا گیا۔ اس زمانے کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اور بہت سے حکام وہاں موجود تھے۔ کیونکر اور کس طرح ہوا یہ میں نہیں جانتا لیکن بیس منٹ تک اس بنوٹیے نے پلنگ پر لیٹ کر ایک چھوٹی سی لکڑی چاروں طرف تیزی سے گھمانا شروع کی۔ اتنی تیزی سے کہ لکڑی کا ایک جال سا پلنگ کے چاروں طرف بُن گیا۔ جدھر سے کبوتر نکالنا چاہے ادھر سجاد علی خاں کی لکڑی موجود۔ کبوتر پھڑپھڑا کر رہ گیا۔ چارپائی کے باہر کسی طرف سے نہیں نکل سکا۔ دو منٹ تک تالیاں بجتی رہیں۔ ان کی لکڑی رکی اور کبوتر اڑ گیا۔

 ———–

 ایک صاحب اور یاد آ گئے۔ مقبرے کے سید مصطفی عرف مچھو بھائی۔ میں والد کی انگلی پکڑے ہوئے بازار سے گزار رہا تھا۔ دن کے دو بجے کے قریب کہ مچھو بھائی دکھائی دیے۔ اسی وقت کابلی والا بھی اپنا خوانچہ سر پر رکھے وہاں سے گزر رہا تھا۔ والد نے خوانچہ اتروایا اور مچھو بھائی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا:

کھاتے ہو ؟

کہنے لگے: واللہ ابھی کھانا کھا کر آ رہا ہوں

والد نے کہا: دو روپے دوں گا

کہنے لگے: بہت کم ہیں

والد نے رقم دوگنی کر دی۔

کہنے لگے: پانچ دے دیجیے گا۔

فیصلہ ہو گیا۔

اس دبلے پتلے ڈیڑھ پسلی کے آدمی نے پکے چار سیر کابلی مٹر کھائے۔ پکے چار سیر آلو کھائے۔ والد نے کہا: اور یہ کھٹائی کی چٹنی؟

جو ایک ہنڈیا میں لبالب بھری تھی اور نہ جانے کتنی لال مرچیں اور پیاز نمک، ان سب کی بھی شرط تھی۔

کہنے لگے۔ بہت خوب، آٹھ آنے اور ہوں گے۔

وہ بھی پی گئے اور کھا گئے۔

والد کی زیادتی تھی، ان کو پانچ گھنٹے گھر پر روکا کہ شاید مر جائے۔ مگر واہ! شام کو چائے پی اور فرمانے لگے: کچھ مٹھائی کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ کیونکہ مٹھائی والے کی برابر آواز آ رہی تھی۔ والد نے کہا: ضرور کھاؤ شاید اسی بہانے مر جاؤ۔

باہر آ کر سیر بھر برفی کھائی۔ کھا کر والد کی طرف دیکھا۔ والد نے کہا: بس اب رحم کرو، یہ لو اپنے ساڑھے پانچ روپے اور دفع ہو جاؤ یہاں سے۔

روپے لے کر مسکراتے ہوئے سلام کر کے چلے، مگر جاتے جاتے والد پر جملہ چپکا گئے کہ شکریہ، جب پھر کبھی کھجلی ہو تو یاد کر لیجیے گا ناچیز کو۔

 —————

ایک تھے میر بنیاد حسین جو سیتا پور کے رہنے والے تھے۔ فلم انڈسٹری کے ڈاکٹر صفدر آہ کے دادا۔ میرا بچپن، ان کی ضعیفی۔ بڑے سے بڑا پہلوان خواہ گاما ہو یا امام بخش، ہندو ہو یا مسلمان، جب بھی کشتی لڑنے لکھنؤ آتا تو پہلے ان کے پیر چھوتا تھا۔ یہ بیحد سفید رنگ کے ایک پسلی کے آدمی تھے۔ کرتا اور پائجامہ پہنا کرتے تھے۔ یہ لکڑی کے بھی بہترین استاد تھے۔ ایک واقعہ چشم دید بیان کر دوں :

جاڑے کا زمانہ، ایک کمرے میں میں، میرے والد مرحوم اور میر بنیاد حسین، حلوہ سوہن کھا رہے تھے۔ بالائی والی کشمیری چائے کا انتظام تھا۔ اتنے میں پانچ آدمی ہاتھوں میں لکڑیاں لیے آ گئے اور آتے ہی استاد کو برا بھلا کہنے لگے۔ کچھ پچھلی دشمنی تھی۔ اس زمانے میں موٹا پیسہ بھی چلا کرتا تھا۔ استاد نے میرے سامنے ایک موٹا پیسہ رومال میں جلدی سے باندھا اور انگنائی میں نکل آئے اور ان پانچوں آدمیوں پر حملہ کر دیا۔ رومال بجلی کی رفتار سے ہوا میں گھوم رہا تھا، لکڑیوں سے بچنے کے لیے استاد بجلی سے زیادہ تیز گھوم رہے تھے۔ جس کے موٹا پیسہ پڑا، وہ گرا۔ استاد کے صرف دو لکڑیاں پڑیں اور دس منٹ کے اندر یہ پانچوں نوجوان بے ہوش پڑے تھے اور میر بنیاد حسین بڑے اطمینان سے ان بے ہوش آدمیوں کی رگیں میرے والد کو دکھا کر لیکچر دے رہے تھے کہ دیکھو، اگر یہاں ہلکی سی چوٹ پڑے تو آدمی صرف بے ہوش ہو جاتا ہے اور اس جگہ ذرا ہٹ کر پڑ جائے تو مر جاتا ہے۔ دس منٹ میں کیا کر گیا وہ موٹا پیسہ اور یہ سو برس کا بوڑھا، جو مجھے آج تک جادو سا معلوم ہوتا ہے۔

 ایک تھے امراؤ صاحب، بالکل پاگل تھے۔ چوسر کھیلتے تھے اور ناممکن پانسوں کا نام لے کر وہی پھینک دیا کرتے تھے۔ انہی کی بتائی ہوئی ایک ترکیب نے اس زمانے میں ایک بڑی بازی جیت لی تھی۔

سائمن کمیشن لکھنؤ آیا۔ قیصر باغ میں بہت بڑی دعوت، پولیس کا سخت پہرہ، کیونکہ کئی مقامات ہر سائمن واپس جاؤ کے نعروں سے ہندوستانی اس کا استقبال کر چکے تھے۔ لکھنؤ میں انگریز حکام نے پورا انتظام کیا تھا کہ کوئی ان کے قریب نہ پہنچ سکے۔ امراؤ صاحب نے ترکیب بتائی کہ آج کل ہوا قیصر باغ کی طرف کی ہے۔ بڑے بڑے کنکؤوں پر ’سائمن گو بیک‘ لکھو اور اس طرح پیچ لڑاؤ کہ کنکوے کٹ کٹ کر ٹھیک اس پارٹی میں گریں۔ یقین مانیے۔ پارٹی ہو رہی تھی۔ بڑے بڑے افسر موجود تھے۔ پولیس اور ملٹری کا پہرہ دور دور تک تھا اور پارٹی میں سینکڑوں کنکوے کٹ کٹ کر گر رہے تھے جن پر لکھا ہوا تھا ’سائمن گو بیک‘

آزادی کی یہ جنگ کچھ لوگوں کی نہیں بلکہ دیش کے بیالیس کروڑ لوگوں کی جیتی ہوئی تھی جس میں اس پاگل نے بھی حصہ لیا ہے۔

 ————-

 آئیے گومتی کی ٹھنڈی سڑک سے ہوتے ہوئے رفاہ عام اور گولہ گنج کے محلوں کی سیر کر لیں۔ تانگہ مل نہیں رہا، اکا لے لیں۔ یہ دو پلی ٹوپی اب تک یہاں پہنی جاتی ہے ؟ ہماری اور آپ کی طرح موٹی انگریزی ہیٹ نہیں پہنتے۔ ارے یہ دو پلی ٹوپی تو اکے والے کی، تیز ہوا سے اڑی جاتی ہے۔ ہر دفعہ ہاتھ سے روکتا ہے۔ کہیں سچ مچ ہوا سے اڑ نہ جائے۔ آپ سے کیا، آپ خاموش رہیے، نہیں تو یہ اکے والا ایسا جملہ چپکا دے گا کہ جنم جنم یاد رہے گا۔ یہ لکھنؤ ہے، اجی چھوڑیے

تو شوق فرمائیے، دل میں حسرت کیوں رہ جائے۔

بھیا اکے والے! ایسی ٹوپی کیوں پہنتے ہو جو تیز ہوا سے اڑ جائے ؟

حضور! یہ غیرت دار ٹوپی ہے، ہوا کے اشارے سے اڑ جاتی ہے، آپ کی بے غیرت موٹی ہیٹ تھوڑی ہے کہ سو جوتے مارو پھر بھی وہیں کی وہیں جمی رہتی ہے۔ ابے کمہار کے لونڈے، ذرا بچ کے، ابے ہٹ کے چل نہیں تو چپاتی بن جائے گا۔

سن لیا جو اب آپ نے ؟ منع کیا تھا کہ یہ لکھنؤ ہے۔ سمجھ بوجھ کے جملے بازی فرمائیے گا۔ ایک بہت موٹے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے اکا رکوایا۔ کیونکہ اکے میں دو آدمی تھے اور حکومت کی طرف سے تین آدمیوں کے بیٹھنے کی اجازت ہے۔ ذرا ہم کو بھی امین آباد چھوڑ دینا۔ بہت موٹے آدمی نے اکے والے سے کہا۔

اکے والے نے معصوم بن کر جواب دیا: صرف تین آدمیوں کو بٹھانے کی اجازت ہے، چار کو نہیں

موٹے صاحب ہنس کر کہنے لگے: دو بیٹھے ہیں، تیسرا میں ہوں، یہ چار کہاں سے ہو گئے ؟ بھنگ پیے ہے کیا ؟

اکے والے نے تیور بدل کر کہا: غلط فہمی میں نہ پڑیے گا، آج ہی کسی لکڑی کی ٹھیکی پر اپنا وزن کرا لیجیے، ڈھائی گدھوں کے برابر نکلے گا آپ کا وزن حضور۔

 ————-

 لیجیے یہ آ گئی بیرسٹر آنند نرائن ملا کی کوٹھی۔ روز مشاعرے ہوتے ہیں یہاں۔ ایک مشاعرے میں میں بھی شریک ہوا تھا۔ منظور صاحب کو مشہور استاد صفی لکھنؤی کے بیٹے ہیں اور شیعہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر، ان کا ایک شعر کانوں میں گونجا کرتا ہے:

 دیوانہ ہے اور وسعت دنیائے تخیل

 وہ بھی نظر آتا ہے جو موجود نہیں ہے

بے مثل شاعر حضرت آرزو لکھنؤی کے ایک مطلع نے ہنگامہ مچا دیا تھا مشاعرے میں، فرماتے ہیں :

 نقش قدم اس کا کہ مرا خط جبیں ہے

 اب ایک ہیں دونوں پہچان نہیں ہے

کیا خوب تھا ایک اور شعر:

 خلوت کدہ دل کا بھرم جائے گا اے شوق

 آواز نہ دینا کہ یہاں کوئی نہیں ہے

 ————

 اس سے قبل کہ کلکتہ چھوڑیں، آئیے آپ کو ایک عظیم شخصیت آغا حشر سے ملوا دیں جو ہندوستانی تھیٹر کا بے تاج بادشاہ مشہور ہے۔ آدمی بیحد دلچسپ، اندھا دھند گالیاں بکنے والے اور بڑی خوبصورت گالیاں۔ ان کو جوئے سے سخت نفرت تھی۔ کلکتہ سے کہیں کمپنی باہر جانے والی تھی اور بڑے بڑے ایکٹر مانگ پتہ کھیل رہے تھے۔ ایک نے ایک روپے کا بادشاہ مانگا تھا۔ دوسرا تاش کی گڈی ہاتھ میں ہے، ایک پتہ اس کے طرف کھلا رکھتا تھا، اور ایک اپنی طرف۔ ہر پتے پر وہ کہتا تھا ’بادشاہ اندر‘ اور دوسرا کہتا تھا ’بادشاہ باہر‘۔ اور لوگ بھی دیکھ رہے تھے۔ اندر سے آغا صاحب آ گئے۔ موٹی سی گالی سے کر چیخے : اس بادشاہ کی تو۔۔ ۔ ۔  جو ایک روپے میں اندر چلا آئے اور ایک روپے میں باہر چلا جائے۔

سب اٹھ کر بھاگے۔

ایک بار کسی نے کہہ دیا کہ حشر صاحب صرف اردو جانتے ہیں، ہندی اور سنسکرت نہیں۔ غصہ آ گیا اور بھیشم پرتگیا کے نام سے ایسا نایاب ڈرامہ لکھا کہ بس۔

یہ ایک ایسا ڈرامہ نویس تھا جس کا مثل ڈرامے کی دنیا آج تک نہ پیدا کر سکی۔ اگر اسے ہم ہندوستان کا شیکسپیئر کہیں تو غلط نہ ہو گا۔ شراب کے خلاف ایک ڈرامہ لکھا۔ دو سال کلکتے میں چلتا رہا۔ یہ اثر ہوا کہ سینکڑوں شراب پینے والوں نے واقعی توبہ کر لی۔

ایک دن خود پیئے جھومتے جا رہے تھے۔ کچھ لوگ قریب آئے۔ بولے، حضور قسم لے لیجیے ہم نے محض آپ کی بدولت شراب چھوڑ ی اور آپ خود پیئے ہوئے ہیں۔

ہنس کر بولے۔ ایک رائٹر اگر نہ پیئے تو اس کو شراب کی اچھائی برائی کا پتہ کیسے چلے ؟

 ————

 ممبئی کی اس بلڈنگ میں جہاں ہم اور کمال امروہوی مقیم تھے ایک بار شادی ہوئی۔ قسم قسم کے کھانے پکے۔ ہم لوگوں کو نہیں بلایا گیا۔ ہم نے ایک قریب کی دکان سے،جہاں سینگ کے کنگھے بنتے تھے، بہت سا برادا خریدا اور حجام کی دکان سے بہت سے بال سمیٹے۔ ٹھیک اسی وقت جب سارے مہمان کھانا کھانے بیٹھے ہم نے آگ پر برادا چھڑکا اور مٹھی بھر بال ڈال دیے۔ پوری بلڈنگ کی سانس گھٹنے لگی۔ کیسا کھانا ؟ تمام مہمان ابکائیاں لیتے اور قے کرتے بھاگے۔

میزبان اور ان کے ایک عزیز ہمارے پاس آئے۔ ہاتھ جوڑنے لگے، ہم نے کہا : واہ واہ یہ کیا بات ہوئی، ہم نے اگر یہ دوا نہیں بنائی تو ہمارا پندرہ روپیہ مٹی میں مل جائے گا۔ ہم نہیں مانتے اور کیوں مانیں جب آپ لوگوں کو اتنی شرم نہیں ہے کہ ہم پڑوسیوں کو کھانے کی دعوت ہی دے دیتے۔

ان لوگوں نے پندرہ روپے تو اسی وقت جیب سے نکال کر ہمیں دے دیے اور نیچے جا کر ہمیں بہت سی بریانی،سالن،روٹیاں اور مٹھائی بھیجی۔ یہ واقعہ آج بھی کمال صاحب سے ملاقات ہوتی ہے تو مزے لے لے کر دوہرایا جاتا ہے اور ہنستے ہنستے برا حال ہو جاتا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایک دن جوش صاحب لیٹے ہوئے تھے۔ میں اور کچھ ادیب پیروں کے پاس بیٹھے تھے۔ الفاظ پر قدرت رکھنے والے جوش نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا:

’’وقت بھی کیا کمینی چیز ہے۔ ذرا دیر تو قائم رہے۔ اس وقت جیسے تم لوگ محبت سے میرے پیروں کے پاس بیٹھے ہو، اسی طرح یہاں بمبئی میں کبھی کبھی آرزو صاحب مرحوم (آرزو لکھنؤی) کے پاس گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا اور آرزو رکھتا تھا کہ کوئی نئی بات، کوئی آبدار موتی اس سمندر کی زبان سے نکلے تو میں اپنے دامن میں چھپا لوں۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عجیب ظلم کی بات ہے کہ میں اپنے ایک دشمن نما بے مثل دوست کو بھولے جا رہا ہوں جس کا نام بابو راؤ پٹیل ہے۔ فلم انڈیا میگزین کا اڈیٹر۔ یہ آدمی عجیب و غریب آدمی ہے۔ یہ کیا ہے، یہ خود نہیں جانتا۔ یہ بھٹکا ہوا دماغ بے مثل و بے نظیر انگریزی لکھتا ہے۔ اس کے لکھنے میں آگ ہی آگ ہے۔ یہ نہ معلوم کس حرکت پر، شاید بچپن میں کسی سے بگڑ چکا ہے جس کا بدلہ غصے میں آ کر ہر ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی سے لینا چاہتا ہے۔ اس کے صحبت میں بیٹھ کر آپ محسوس کریں گے کہ آپ ابھی زندہ ہیں، مرے نہیں۔

سخت ترین ہندو مسلم کشمکش کا زمانہ۔ پاکستان بن چکا تھا۔ اس کا باورچی مسلمان اور کٹر قسم کا۔ میں نے ایک دن پوچھا’ بیٹا یہ کہیں زہر نہ دے دے کھانے میں، پورا گھرانہ میٹھی نیند سو جائے گا۔ ‘

بابو راؤ کہنے لگا: تو مسلمان ہے، یہ بھی نہیں جانتا کہ مسلمان سامنے سے آ کر لڑتا ہے، چوری چھپے نہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایک زمانے میں جب ہم مڈل ایسٹ سے سخت مفلس ہو کر پلٹے ہیں تو ہر دوست کو پرکھ کر دیکھ لیا۔ نہ ہندو دوست کام آیا، نہ مسلمان۔ ہم ایک دن لائن میں کھڑے بس کا انتظار کر رہے تھے۔ جیب میں صرف ایک روپیہ تھا۔ بابو راؤ اپنے بڑے موٹر پر گزرا۔ مجھے دیکھ کر موٹر روکی۔ پہلا جملہ یہ تھا:

 ٹیکسی کیوں نہیں لی تو نے ؟

میں نے کہا: تیرا اجارہ ہے، نہیں لی۔

کہنے لگا : مفلس ہو رہا ہے آج کل ؟

میں نے جل کر کہا: تجھ سے کیا کمینے

اور اس نے گھسیٹ کر موٹر میں بٹھا لیا اور آہستہ آہستہ ہمیں کھلوا ہی لیا اور ہم کھلے۔ کچھ انکم ٹیکس اور کچھ گھر کے خرچ کے لیے چند ہزار کی ضرورت تھی اور سخت ضرورت۔

کہنے لگا: کل دن کے کھانے پر آ جائے گا روپیہ۔ روتا کیوں ہے، میاں بھائی بن۔

میں نے کہا: ابے بہت دیکھے ہیں تیرے ایسے۔ جب کٹر قسم کے مسلمان دوست کام نہ آئے تو ہندو کیا کام آئے گا ؟

صاحب دوسرے دن کھانے پر بیٹھے ہی تھے کہ گھنٹی بجی اور اس کا ڈرائیور ہزاروں روپے کا چیک دے گیا۔ اور اس کمبخت کافر نے کبھی پلٹ کر روپوں کا تقاضہ ہی نہیں کیا۔ جب بھی فراہم ہوا، میں نے تھوڑا تھوڑا کر کے دیا، پھر بھی کچھ ضرور باقی رہ گئے ہوں گے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خواجہ احمد عباس کی بیوی مجی، کیسے کہوں کہ مر گئی۔ بیحد پڑھی لکھی، دھان پان، ہمیشہ کی بیمار، مگر اک شگفتہ کلی، جو ایک تبسم کے لیے نہیں کھلی تھی بلکہ جس نے تبسم کو اپنی زندگی بنا لیا تھا اور زبان کی گل فشانی ؟ توبہ توبہ۔ ہزار محبوب ایک طرف اور اس کی کوثر میں دھلی ہوئی پاکیزہ او ر ستھری زبان ایک طرف۔ ایک دن میں نے چھیڑنے کو پوچھا۔ آخر آپ نے کیا سمجھ کر خواجہ احمد عباس سے شادی کی ؟۔ ایک ایسی معصوم مسکراہٹ کے بعد جواب ملا کہ میں تڑپ کر رہ گیا۔ کہنے لگیں صرف ایک وجہ سے، کیونکہ باچھو، جو خواجہ صاحب کا پیار کا نام ہے، گنجے ہیں اس لیے میں نے ترس کھا کر شادی کر لی۔ میں نے مسکرا کر کہا: میں باچھو سے زیادہ گنجا ہوں، مجھ پر کیوں ترس نہ آیا حضور کو ؟۔ کہنے لگیں : آپ گنجے ضرور ہیں مگر کشمیری خطرناک گنجے ہیں، یہ تو میں اپنی زبان سے نہیں کہتی کہ بد ذات بھی ہیں۔

فارسی کے اس شعر کی طرف اشارہ تھا جس کا دوسرا مصرع ہے کہ:

 اول افغان، دوم کنبوہ، سوم بد ذات کشمیری

 میں نے کہا آپ نے آ کر کہہ ہی دیا

مسکرا کر بولیں : بہت سوچنے کے بعد ہمت کی ہے بد ذات کہنے کی۔ سوچتی تھی آپ کے منہ پر نہ کہوں۔ آپ کہیں خوشامد نہ سمجھیں اور کہیں آپ کا دماغ نہ خراب ہو جائے۔

دیر تک میں اس جملے پر ہنستا رہا۔ آج یہ چند سطریں لکھنے بیٹھا ہوں تو یہی جملہ یاد کر کے رو رہا ہوں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

زیارتوں پر جاتے وقت پانی کے جہاز میں ایک بوڑھے جن کی عمر قریب قریب نوے سال کی ہو گی، سرخ و سفید رنگ کے، جہاز میں گھسے۔ میں عرب سمجھا۔ مگر فورا ہی ان کے ان کے چہرے کے نقوش ان کے ہندوستانی ہونے کی چغلیاں کھانے لگے۔ میں نے غور سے دیکھا۔ غصے سے کہنے لگے : میرے دوست کو کھا لیا، کیا اب مجھے کھانے کا ارادہ ہے ؟۔ میں مسکرا دیا، پاگل سمجھ کر۔ کہنے لگے: وہ کافر مر گیا اور مجھے اس دنیا میں اکیلا چھوڑ گیا۔ میں نے پوچھا: کون ؟۔ کہنے لگے وہی الہ آباد والا کشمیری، نوابی گئی لیکن میں نے وطن نہیں چھوڑا، بیوی بچے مرے لیکن وطن نہیں چھوڑا مگر جب سے یہ بے وفا کافر مرگیا ایک ہندوستان میں اپنا نہیں دکھائی دیتا۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی جیب سے ایک تصویر نکالی اور میں چونک پڑا۔ یہ ان کی اور موتی لال نہرو کی تصویر تھی۔ فورا میرا دماغ ہندوستان، لکھنؤ اور الہ آباد ہوتا ہوا کلکتے پہنچا۔ اب کلکتے کے مٹیا برج میں جا کر ٹک گیا۔ بڑا سا مشاعرہ۔ استاد علامہ آرزو، قیامت کے شاعر رضا علی وحشت، مائل لکھنؤی، سبھی موجود تھے۔ ایک ادھیڑ عمر کا سرخ و سفید رنگ کا آدمی، گیروے کپڑے پہنے اس مشاعرے میں آیا جو جان عالم واجد علی شاہ کے مزار پر بیٹھا کرتا تھا اور یہ مطلع پڑھ کر مشاعرہ لوٹ کر چلا گیا:

 کچھ اس طرح کا موافق مرا زمانہ تھا

 یہ برق گرتی تھی، یہ میرا آشیانہ تھا

 میں نے جھومتے ہوئے جہاز کے کھمبے کا سہارا لیتے ہوئے یہ شعر ان کی طرف دیکھ کر گنگنایا۔ بیک وقت وہ مجھ سے چمٹ گئے، اور ’ تم تو مجھے جانتے ہو ‘ کہہ کر دیر تک روتے رہے۔ اور میں بھی روتا رہا۔ پھر گھوم کر ہم دونوں نے سمندر کی طرف دیکھا جو جو نہ جانے کتنے انقلاب اپنے سینے میں چھپائے ہم دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہم کربلا پہنچے اور صحیح معنوں میں امام حسین کے روضے پر وہ بے کسی برستے ہوئے دیکھی جس کا جواب شاید ہی کوئی تاریخ دے سکے۔ مجھ سا گنہگار گھنٹوں روضے کو دیکھتا رہتا۔ یہ عدم تشدد کا سچا علمبردار۔ بارہ سو سال قبل کئی لاکھ کے مقابل میں صرف بہتر کو لے کر لڑا۔ تین دن کی بھوک پیاس میں کئی لاکھ سے جنگ کر کے وہ اسلام جو رسول نے پھیلایا تھا اسے تباہ ہونے سے بچا لیا۔ یہی تو خواجہ معین الدین چشتی فرما گئے ہیں :

 شاہ است حسین و بادشاہ است حسین

 دین است حسین و دین پناہ است حسین

 سر داد نہ داد دست در دست یزید

 حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

 عجیب بات یہ ہے کہ یہ کم بخت شیعہ سنی کی بحث صرف ہندوستان میں ہے اور مسلم ممالک میں بالکل نہیں ہے۔ اس بات پر مجھے خواجہ حسن نظامی یاد آ گئے جن کی قریب قریب ہر تحریر میں نے پڑھی ہے۔ مجھے ان کا رنگ بے تحاشا پسند ہے۔ ایک کانفرنس ہوئی احمد آباد میں۔ شیعہ اور سنی مولوی ایک ہی پلیٹ فارم پر موجود تھے۔ نہ جانے کیونکر میں بدقسمتی کا مارا، کسی ضرورت سے احمد آباد گیا اور خواجہ صاحب کا نام سن کر وہاں پہنچ گیا۔ جب میں پہنچا ہوں تو یہ کانفرنس شروع ہو چکی تھی۔ شاید کسی سنی مولوی نے حضرت علی کو چوتھا خلیفہ کہہ دیا تھا اور ایک شیعہ مولوی اس پر بگڑ گئے تھے۔ اور قریب قریب یہ کانفرنس درہم برہم ہونے والی تھی کہ خواجہ حسن نظامی کھڑے ہو گئے۔ کیا تقریر کی اس جادوگر نے، آج تک کانوں میں گونج رہی ہے۔ اس نے چیخ کر کہا: آپ سب حضرات سے صرف میرا ایمان سچا ہے اور صحیح معنوں میں میں صرف میں مسلمان ہوں۔ مت توہین کیجیے علی ایسی شخصیت کی کہ وہ پہلے خلیفہ تھے یا چوتھے۔ اگر ان کو خلافت نہ بھی ملتی اور خلیفہ نہ بھی ہوتے تب بھی رسول کے بعد دنیائے اسلام کی دوسری اہم ترین شخصیت علی ہی کی ہوتی۔ خلافت نے علی کا مرتبہ نہیں بڑھایا بلکہ علی نے خلافت کا مرتبہ بڑھا دیا۔

 لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور سب شیعہ سنی مل کر تالیاں بجا رہے تھے۔

 بچپن مین حسن حسین عام بچوں کی طرح پرورش پاتے تھے۔، کبھی کبھی گھر میں فاقہ بھی ہو جاتا تھا۔ لباس بھی وہی جو عام عربوں کا ہوا کرتا تھا۔ علی، رسول کی بیٹی کے شوہر، کام کرتے تھے تو کھاتے تھے۔ خلفاء راشدین کی بھی یہی شان تھی۔ اور صرف یہ رہا ہے سچا اسلامی ہی نہیں بلکہ سچا انسانی دور۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 ٭٭٭

 

شام و سحر کے درمیاں۔ ایک سول سرونٹ کی سرگزشت

شام و سحر کے درمیاں , پاکستان کی سول سروس سے وابستہ رہے رئیس عباس زیدی کی خودنوشت ہے جو حال ہی میں لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ ان کا آبائی تعلق جھنگ سے ہے۔ رئیس زیدی کو یونائٹڈ بینک کے لیے آغا حسن عابدی کے رفقاء کار نے منتخب کیا، وہ جلد ہی وہاں سے استعفیٰ دے کر جھنگ کالج میں پڑھانے لگے، بعد ازاں سول سروس کا امتحان پاس کر کے ڈی ایم جی گروپ میں شمولیت اختیار کی، اسسٹنٹ کمشنر اور پھر ڈپٹی کمشنر رہے۔

اس سے قبل سول سروس کے جن نمائندوں نے اپنی خودنوشت تحریر کی ہیں ان میں سر فہرست قدرت اللہ شہاب ہیں ان کے علاوہ لیاقت علی عاصم (ڈپٹی کمشنر کی ڈائری) اور مہر جیون خان (جیون دھارا – دو ضخیم حصوں میں ) اپنی داستان حیات قلم بند کر چکے ہیں۔ سول سروس سے تعلق رکھنے والے ایک اور صاحب ہیں، خاصے مشہور اور ایک منجھے ہوئے لکھاری, یہ شوکت علی شاہ ہیں جن کے سفرنامے اپنی مثال آپ ہیں۔

سول سروس سے وابستہ رہے لوگ اپنی خودنوشت خال خال ہی تحریر کرتے ہیں، اس کی وجہ سیدھی سی ہے، کتاب وہ شخص لکھے گا جس کا دامن صاف ہو، جو ایماندار رہا، غیر جانبدار رہا، انصاف پسند رہا بصورت دیگر تو معاملات عیاں کرنے سے مشکلات میں اضافہ متوقع ہے۔

رئیس زیدی پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے، گرمیوں کی ایک دوپہر ایک ریچھ والے کا گزر ہوا۔ رئیس کے ساتھی چوہدری صاحب نے ریچھ والے کو آواز دی:

اوئے! ہن تک کنے پیسے کمائے نے؟

ریچھ والے نے کچھ پیسے بتائے۔ چودھری صاحب نے وہ قوی الجثہ ریچھ بمعہ چھڑی اس سے لے لیا۔ اب کیفیت یہ تھی یہ دونوں حضرات ریچھ کو لے کر ہاسٹل کے ہر کمرے میں جاتے اور ریچھ کو کرسی کرسی پر بٹھا کر کمرے کے رہائشی طالب علم سے کہتے کہ تمہارا مہمان آیا ہے اس کی خدمت کرو، پیسٹریاں، شیزان کی بوتل یا پھر پانچ روپے نقد۔ کمرے سو سے اوپر تھے، کچھ خالی بھی تھے، ہوتے ہوتے اڑتالیس روپے اور کچھ پیسے اکھٹے ہوئے۔ یہ پیسے اور ریچھ، ریچھ والے کے حوالے کیے۔ وہ انہیں دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔ سستا زمانہ تھا، یہ رقم اس وقت اچھی خاصی ہوتی تھی۔

سول سروس کے امتحان کا نتیجہ آ چکا تھا، رئیس زیدی منتخب ہو گئے اور سندھ میں تعینات کیے گئے۔

ضلع نواب شاہ۔۔ ۔  وڈیروں کی ریاست۔۔

وڈیرا کیا ہوتا ہے، یہ رئیس زیدی کو ایک روز معلوم ہوا۔ سکرنڈ کی نہر کے کنارے کنارے گشت کرتے ایک ہاری پر نظر پڑی جس کے چہرے پر دو خون آلود سوراخ تھے۔ رئیس کے ساتھ بیٹھے اے ایس پی نے پوچھا کہ کیا ہوا، وہ بتانے پر راضی نہ تھا، مشکل سے بتایا کہ کسی معمولی سے بات پر ناراض ہو کر وڈیرے نے اس کی مونچھیں اکھڑوا دیں۔

بھٹو صاحب کی پھانسی کے دن تھے، سندھ میں شورش عروج پر تھی، رئیس زیدی نے دوران ملازمت کبھی جابرانہ حکم نہیں مانا۔ جلوس بپھرا ہوا تھا، اوپر سے حکم آیا کہ گولی چلاؤ، رئیس زیدی نے حکم عدولی کی اور تبادلے کے احکامات صبح سویرے ہی آ گئے۔

حکام بالا کے دلوں سے اتر گئے لیکن اہل علاقہ کے دلوں میں گھر کیا۔ رخصت ہو رہے تھے تو دو ڈھائی سو کا مجمع تھا، لوگ ہاتھ چوم رہے تھے کہ انہیں حقیقت کا علم ہو چکا تھا۔

"سائیں ہمیں پتہ ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے”

اسی دوران ایک بکریاں چرانے والا ایک بوڑھا شخص وہاں آ نکلا، کہنے لگا:

” سائیں ! اگر ہمارا ایک بھی جرنیل سندھی ہوتا تو ہمارے بھٹو سائیں کو پھانسی نہ لگتی”

ایم آر ڈی کے دوران سندھ میں صرف دو پنجابی افسر زیر عتاب آئے اور دونوں نے سندھیوں پر گولی چلانے سے انکار کیا تھا۔ ایک تو رئیس زیدی تھے اور دوسرے قاضی ایوب جن پر الزام تھا کہ جب تعلقہ قنبر علی خان کی ٹیلی فون ایکسچینج جل رہی تھی تو انہوں نے ہجوم پر فائرنگ کا حکم کیوں نہیں دیا۔ اس استفسار کے جواب میں قاضی بھول پن سے جواب دیتے تھے:

” ٹیلی فون ایکسچینج تو پھر لگ جائے گی۔ "

نواب شاہ کے بعد رئیس زیدی اسسٹنٹ کمشنر ٹھری میر واہ تعینات ہوئے، آفس سپرنٹنڈنٹ ڈی سی آفس خیر پور نے استقبال کیا۔ نام سن کر ڈی سی رو پڑا۔ رئیس زیدی سے کہنے لگا کہ آپ سے پہلے بھی ایک زیدی صاحب یہاں آئے تھے

"تو بھائی اس میں رونے کی کیا بات ہے ” ؟ رئیس نے پوچھا

اس نے بتایا کہ ایم اے انگریزی کر کے اسے کہیں نوکری نہ ملی تو ڈی سی آفس میں کلرک ہو گیا تھا۔ اچھی زبان لکھنے کی وجہ سے مصطفی زیدی (شاعر) اسے ہی ڈکٹیشن دیا کرتے تھے۔ ایک روز ایسا ہوا کہ کچھ غلطیاں

 ہو گئیں، مصطفی زیدی نے پہلے تو ڈانٹا پھر حسب عادت بلا کر پوچھا:

” آج غلطیاں کیوں کیں ؟ خیریت تو ہے ؟ "

اس نے کہا: ” سر! بہن کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی ہے مگر جہیز کے لیے پیسے نہیں ہیں "

مصطفی زیدی مرحوم نے فورا مختار کار کو بلایا اور کہا:

"اسے پچاس ہزار روپے دے دو”

یہ بات 1962 کی ہے۔

 ہائے کیوں خاک کی مانند بجھے بیٹھے ہو

 شعلہ رو شعلہ فشاں بداماں زیدی

سندھ کے عوام سید پرست، رئیس زیدی کا واسطہ پڑا ڈاکوؤں سے۔ ہوا یوں کہ ایک ہندو بنیا اغوا ہو گیا۔ وفاقی وزارت داخلہ سے فون آنے لگے کہ اس مسئلے کو جلد سلجھایا جائے۔ یہ کارنامہ ڈاکو جمعہ خشک کے گروہ کا تھا۔ ایک واسطہ دار وڈیرے کے توسط سے سردار سے ملاقات طے ہوئی۔ چاروں طرف ڈاکو تھے، اتنے میں جمعہ خشک آیا، کافی منت سماجت کے بعد تاوان کی رقم میں کمی پر آمادہ ہو گیا۔ تمام معاملات طے ہو گئے لیکن جمعہ خشک تھا کہ اپنی جگہ کھڑا رہا۔ رئیس زیدی کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے:

” سائیں آپ اولاد علی ہیں، میرے لیے دعا کریں "

اور رئیس زیدی نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا.

اندرون سندھ سے رئیس زیدی کا پہلے کراچی اور پھر پنجاب تبادلہ ہوا۔ منزل تھی گوجرنوالہ۔ ایک صاحب تھے بائی وکیل خاں نامی، رئیس کی ان سے دوستی ہو گئی۔ ایک روز لاہور سے واپسی پر بائی وکیل خاں کی بیٹھک میں رک گئے، وہاں ان کی راجپوت برادری اکھٹی تھی۔ رئیس مجمع سے کہنے لگے کہ آپ راجپوتوں نے ہم سادات کو پناہ دی، زمینیں دیں، آپ لوگ بہادر ہیں، وچن دینے کے بعد مر مٹنے کو تیار۔ اس کے بعد رئیس زیدی نے راجپوتوں کے تاریخ بیان کرنا شروع کر دی۔

اس بیٹھک میں کسی گاؤں سے آئے ہوئے ایک بزرگ رانگڑ بیٹھے تھے۔ مہندی لگے ہوئے لمبے لمبے بال، ہاتھ میں بانس کی ڈنگوری، اپنی پاٹ دار آواز میں گویا ہوئے:

” یاہ چھوکرا ٹھیک کہہ را۔ ہم ایسے تھوڑی تھے۔ یاہ بے غیرت تو ہم مسلمان ہو کر ہو گئے۔ "

رئیس زیدی سیکریٹری اوقاف مذہبی و اقلیتی امور بنائے گئے۔ چودھری پرویز الہی کے عملے کی طرف سے حکم ملا کہ پچھلے وزیر کے حکم پر جتنے لوگوں کو ملازمت دی گئی تھی، ان تمام کو فارغ کر دیا جائے۔ رئیس زیدی پرویز الہی کو پاس گئے اور کہا:

” سر! جب کسی غریب کو ملازمت مل جاتی ہے تو وہ شہر میں مکان کرائے پر لے لیتا ہے، شادی کر لیتا ہے، باپ کی آنکھوں کا آپریشن کروا لیتا ہے، اپنے خرچے بڑھا لیتا ہے، ان لوگوں کو بے روزگار نہ کریں، ان کی دعائیں لیں۔ "”

پرویز الہی نے رئیس زیدی کو گلے سے لگا لیا:

” او شاہ جی، جذباتی کیوں ہوندے او، نہ کڈھو انہاں نو”

ان گیارہ لوگوں کو یہ معلوم نہ ہوا کہ ان کی نوکریاں کس طرح اور کیسے بچ گئیں۔

رئیس زیدی ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی، جدوجہد، افسری لیکن ٹارگٹ فقط دو باتیں ہونی چاہیں – عزت اور محبت۔

سول سروس سے وابستہ رہے افراد کی بیان کردہ داستانوں کے درمیان، زیر تبصرہ خودنوشت "شام و سحر کے درمیاں ” ایک مہکتے پھول کی حیثیت سے یاد رکھی جائے گی۔

 پتہ ناشر:

نستعلیق مطبوعات، ایف ۳، الفیروز سینٹر، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار۔ لاہور

٭٭٭

یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ اعتبار ساجد کی خودنوشت

پروفیسر اعتبار ساجد کی خودنوشت ‘یادیں باقی رہ جاتی ہیں ‘ لاہور کے ایک نسبتاً غیر معروف ادارے بُلسم پبلیکیشنز سے شائع ہو گئی ہے۔ یہ ادارہ، اعتبار ساجد کے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے دوست سینیٹر زمرد حسین مرحوم کے بیٹے کوثر حسین زمرد کا ہے اور انہی کی تحریک پر اعتبار ساجد نے یہ کتاب لکھی ہے۔

زیر نظر مضمون میں آئندہ ہم جناب پروفیسر اعتبار ساجد کو اعتبار ساجد لکھیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی خودنوشت میں صنف نازک کے جا بجا اور جا بیجا تذکروں، خواتین کے ان پر مر مٹنے کے احوال، کتاب میں خواتین کے ہمراہ ان کی تصاویر اور کتاب کے آخر میں ایک نوجوان خاتون کی بھرپور تصویر کی موجودگی سے کم از کم ہمارے سامنے تو مصنف کا تصور تو بطور ایک کھلنڈرے و بے فکرے نوجوان کے سامنے آتا ہے۔ شروع میں اس مضمون میں اعتبار ساجد کے نام کے ساتھ پروفیسر لکھتے ہوئے ’کلیجے کو منہ آ رہا تھا، سو اپنی جان ناتواں کو صحت کے مسائل سے محفوظ رکھنے کی غرض سے یہ کام مجبوراً کرنا پڑا۔

’یادیں باقی رہ جاتی ہیں ’میں دل لبھاتی تصاویر کی بھرمار ہے، مشاہیر ادب کے ساتھ تصویروں کی موجودگی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ایک تصویر میں اعتبار ساجد، مسرت شاہین کے ہمراہ، شکر پڑیاں اسلام آباد کے پتھروں پر بیٹھے ہیں۔ یہ 1985 کی تصویر ہے جب آتش جوان تھا اور پتلون میں ملبوس اداکارہ کی ہم نشینی میں دو آتشہ دکھائی دے رہا ہے۔

مسرت شاہین کی ‘پُر مسرت‘ اداکاری کے کئی ‘چشم دید‘ گواہ ابھی زندہ ہیں، مولانا (؟) فضل الرحمان کے کئی ماننے والے تو ابھی تک ہاتھوں میں پتھر اٹھائے موصوفہ کی تلاش میں بھٹکتے ہیں کہ خاتون کی (اداکاری کے علاوہ) ایک وجہ شہرت مولانا (؟) سے تشویشناک حد تک رہی چپقلش بھی ہے۔

امید کی جاتی ہے کہ تصویر مذکورہ کی وجہ سے مصنف کی شاعری سے زیادہ ان کی یہ خودنوشت مقبول ہو گی۔ ایک اور تصویر میں مسرت شاہین اعتبار ساجد کی کتاب پر ان سے آٹو گراف لے رہی ہیں جبکہ ایک تیسری تصویر میں اعتبار ساجد، راولپنڈی میں مسرت شاہین کی تقریب پذیرائی میں شریک ہیں۔ مسرت شاہین سے اس درجے کے لگاؤ کو دیکھ کر ہم کتاب کے آخر میں گزشتہ تین بھرپور تصاویر کے نتائج پر مبنی چوتھی متوقع تصویر کو بھی تلاش کرتے رہے لیکن ہمیں مایوسی ہوئی۔ البتہ ایک تصویر پر نگاہیں ٹھہر گئیں جس میں لمبے بالوں والی ایک شخصیت والہانہ انداز میں مصنف کے گلے میں اپنی بانہیں ڈالے ان سے لپٹی ہوئی ہے۔ پہلے تو ہم انہیں بھی مسرت شاہین ہی سمجھے تھے لیکن عنوان دیکھ کر علم ہوا کہ یہ حضرت جون ایلیا ہیں جنہوں نے اسلام آباد میں اعتبار ساجد کو ڈھونڈ نکالا تھا لیکن کتاب میں درج واقعے سے یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ جون صاحب نے مصنف کو ان کی شاعری کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے دانت کے درد سے تنگ آ کر تلاش کیا تھا، مصنف نے انہیں ایک خاتون دندان ساز سے ملوایا جو جون صاحب کو اپنے ہمراہ لے کر چلی گئیں، بعد ازاں خاتون نے مصنف کو بتایا کہ جون ایلیا ان سے مسلسل اصرار کرتے رہے کہ "بھئی یہ ڈینٹسٹی چھوڑو اور شاعرہ بنو شاعرہ”۔

اپنی خودنوشت میں مصنف نے قاری کے سامنے تمام پرائیوٹ حالات کھول کھول کر بیان کیے ہیں۔ وہ یہ دلسوز انکشاف کرنے سے بھی نہیں جھجکے کہ ایک رات انہوں نے اداکار محمد علی مرحوم کو فون کر کے مسرت شاہین کا نمبر ’بڑی لجاجت‘ سے مانگا تھا جس پر محمد علی نے ان سے کہا کہ "میاں اعتبار! نہ تم فلمساز، نہ ہدایت کار، نہ پشتو گیت نگار، یہ تمہیں مسرت شاہین کی کیا سوجھی ہے ؟ "

مسرت شاہین کے پر مسرت بیان میں اعتبار ساجد لکھتے ہیں کہ میری ان سے پہلے ہی سے ملاقات تھی، ہم شکر پڑیاں پہنچے، کوہ پیمائی بھی کی اس لیے کہ مسرت شاہین ٹریک سوٹ میں تھیں، پھر ہم تقریب (فلم سے متعلق) میں پہنچے، تقریب اس لیے شاندار رہی کہ کہ میڈم (مسرت شاہین) کی دو فلمیں پنڈی میں کھڑکی توڑ ہفتے منا چکی تھیں۔ پھر سنا کہ وہ سیاست کی طرف آ گئی ہیں، اگر وہ کوئی فلاحی کام کرتیں تو لوگ انہیں دعائیں دیتی، بہرحال بددعا تو اب بھی انہیں کوئی نہیں دے سکتا اس لیے کہ انہوں نے اپنے فلمسازوں اور ہدایت کاروں کی مرضی کے مطابق ایک آرٹسٹ کی دیانت اور خلوص کے ساتھ اپنا کام کیا۔ "

اعتبار ساجد بھی کس قدر بھولے ہیں، یہ جانتے ہی نہیں کہ ان کی ‘میڈم‘ کی فلمیں محض کھڑکی توڑنے کا باعث بننے تک محدود نہیں تھیں۔ جس قماش کے لوگ میڈم کی پشتو فلمیں دیکھنے جاتے تھے وہ میڈم اور فلم کے کیمرہ مین، دونوں کے خلوص کے قائل ہو جاتے تھے۔ میڈم کی متذکرہ فلموں کو دیکھنے کے بعد میڈم کو بددعا دینے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ دعا دیتے ہوئے بھی کسی کو نہیں دیکھا گیا۔

یادیں باقی رہ جاتی ہیں، رنگا رنگ واقعات سے بھرپور ہے، قاری کو چونکا دینے کے اسباب کا اہتمام خصوصی طور پر کیا گیا ہے۔ کتاب میں تقریباً ہر صفحے پر ذیلی عنوانات کو خاص طور پر شامل کیا گیا ہے۔ صفحہ 81 پر "رالف رسل اور مادھوری ڈکشٹ سے ملاقات” کے تحت، رالف رسل کا ذکر ایک سطر جبکہ مادھوری کا سات سطروں میں کیا گیا ہے۔ دہلی کی اس حسین یاد کے بارے میں اعتبار ساجد فرط مسرت سے لبریز ہو کر لکھتے ہیں :

 "مادھوری نے نمستے پر اکتفا نہیں کی بلکہ مصافحہ کیا، میری کتاب پذیرائی دیکھی، مجھ سے آٹو گراف لیا، کتاب تھینک یو کہہ کر اپنے خوبصورت بیگ میں رکھ لی۔ کہاں تو دنیا اس کے آٹو گراف کی دیوانی تھی، کہاں اس فن کی قدردان نے اردو کی کتاب پر مجھ سے انگریزی میں آٹو گراف لیے۔ "

شنید ہے کہ اعتبار ساجد نے مادھوری سے مصافحے کے بعد اپنا ہاتھ رومال میں باندھ کر تبرکاً ایک طرف رکھ لیا تھا، کئی روز تک وہ اپنے ملاقاتیوں سے اسی ہاتھ سے مصافحہ کر کے یہ تبرک ہ خاص و عام تک پہنچاتے رہے۔

اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ایک مشہور نقاد دہلی کی سیر کو گئے، فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کے ڈھیر میں انہیں اعتبار ساجد کی پذیرائی کا وہی نسخہ دکھائی دیا جو انہوں نے مادھوری کو پیش کیا تھا۔

 بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

شاعر چونکہ بے حد حساس ہوتے ہیں لہذا یہ اس اطلاع ہم نے اعتبار ساجد تک پہنچانا مناسب نہیں سمجھا۔ کسی حاسد نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ مادھوری نے اعتبار ساجد سے ان کی اردو کی کتاب پر انگریزی میں آٹو گراف اس بنا پر لیے تھے کہ اسے اردو پڑھنا نہیں آتی۔

دہلی ہی میں اعتبار ساجد مرزا غالب کے مزار پر بھی پہنچے لیکن افسوس کہ منتظمین کو اس بات کا پہلے ہی سے علم ہو گیا اور انہوں نے سر شام مزار پر تالا ڈال دیا۔ کتاب میں ایک تصویر شامل ہے جس میں مصنف بہ حسرت و یاس مزار کے باہر کھڑے ہیں، تصویر کے نیچے لکھا ہے ” مزار غالب کے باہر، گیٹ پر سر شام ہی سے تالا ہے”

ہم اعتبار ساجد سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں یہ مشورہ دیں گے کہ جوابی کاروائی کے طور پر ہندوستان سے کسی بھی شاعر کی لاہور آمد کے موقع پر وہ مزار اقبال پر تالا ڈال کر یہ بدلہ چکا سکتے ہیں۔

کتاب کے ابتدا میں حضرت ضمیر جعفری کا مصنف کے بارے میں تعارفی مضمون شامل ہے۔ جعفری صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس کے ہاں ایسے جملے کم دکھائی دیے جن پر مصنف کی توجہ کم دکھائی دی ہو۔ یہ ایک ایسا شخص ہے جسے یاد رکھنے کے لیے اس سے دوسری مرتبہ ملنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اگر ساتھ ساتھ نہ بھی ہو تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرح آس پاس موجود ہو گا۔ "

مصنف کی خاص توجہ پر مبنی چند جملے تو ہم نے اوپر بیان کر دیے ہیں۔ رہا سوال قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مصنف کو تشبیہہ دیے جانے کا، تو اس بارے میں کراچی میں حالیہ واقعہ ذہن میں آتا ہے جس میں ان اداروں سے وابستہ چند وردی پوش افراد نے ایک اٹھارہ سالہ لڑکے کو گھیرے میں لے کر سر عام گولی مار دی تھی۔ باقی ہمارے قارئین خود سمجھدار ہیں۔

کتاب کے ذیلی عنوانات خاصے چونکا دینے والے ہیں۔ ’راکیل ویلچ سے ملاقات‘ کا عنوان دیکھ کر قاری چونک جاتا ہے لیکن پھر اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کی اس حشر ساماں اداکارہ سے یہ تاریخی ملاقات کوئٹہ کے سینما گھر میں ہوئی تھی۔ اعتبار ساجد نے پورے تین مرتبہ یہ فلم دیکھی۔ یہ خیریت رہی کہ انہوں نے اپنی زندگی میں دیکھی تمام فلموں کی اداکاراؤں سے ملاقات کی تفصیل بیان نہیں کی ورنہ کتاب انہی اداؤں میں تمام ہو جاتی۔

سیارہ ڈائجسٹ کے چیف ایڈیٹر احمد رؤف خان اپنے تعارفی مضمون میں لکھتے ہیں کہ "زیر موضوع خودنوشت کو تو اب لڑکیوں کے کالجوں تک بلکہ تمام اسلامی مدرسوں کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے کہ یہ ان کے علم میں اضافہ کا موجب بنے گا۔ "

رؤف صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ کالج کی لڑکیوں کے علم میں گراں قدر اضافے کے لیے تو اعتبار ساجد کی شاعری ہی کافی ہے البتہ اسلامی مدارس کے نصاب میں شامل کیے جانے کی دلیرانہ تجویز پر ان مدارس کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آنے کا احتمال ہے بالخصوص مولانا فضل الرحمان تو شاید مسرت شاہین کی تصاویر کی شمولیت کی بنا پر کتاب مذکورہ کی ان کے مدارس کے نصاب میں شامل کرنے کی کوشش کو برداشت نہ کر سکیں۔

مصنف کا یہ انکشاف کہ ان کی شاعری میں ‘تپش‘ اور ‘حدت‘ صوفیہ لارین کی وجہ سے پیدا ہوئی، معنی خیز ہے۔ نو آزمودہ شعراء کے لیے یہ ایک نسخہ کیمیا ثابت ہو سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ہالی وڈ میں صوفیہ لارین کی جگہ اب ایسی اداکاراؤں نے لے لی ہے جن کی بے باک اداکاری دیکھ کر شاعری میں تپش اور حدت تو ایک طرف رہی، مکمل کلام کے بھسم ہو جانے کا اندیشہ لاحق ہو سکتا ہے۔

یادیں باقی رہ جاتی ہیں میں اعتبار ساجد نے اپنی زندگی کی بکھری یادوں کو سمیٹا ہے، ان کے والد صاحب کے تواتر کے ساتھ مختلف شہروں میں تبادلے ہوتے رہے اور وہ شہروں شہروں سفر کرتے رہے۔ ایسی ہی آبلہ پائی اعتبار ساجد کے حصے میں بھی آئی اور وہ بسلسلہ ملازمت مختلف شہروں میں مقیم رہے۔ کتاب میں مختلف ادبی شخصیات سے ملاقاتوں کا احوال بھی تفصیل سے درج ہے جبکہ سفر ہندوستان کے حالات بھی بیان کیے گئے ہیں۔

کتاب میں درج اعتبار ساجد کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

 چلو، مرنے سے پہلے زندگی آسان کر جائیں

 کسی کے کام آ جائیں، اپنی آنکھیں دان کر جائیں

 —-

 کیسے کہیں کہ جان سے پیارا نہیں رہا

 یہ اور بات ہے وہ ہمارا نہیں رہا

 —-

 زندگی کے راستے سنگین تر ہوتے گئے

 خون سے دیوار و در رنگین ہوتے گئے

یہ کلام یہاں درج کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہمارے قارئین یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ آخر اعتبار ساجد پر ان کی شاعری کے تعلق سے خواتین کے مر مٹنے کی کیا وجوہات تھیں ؟

خواتین ہمارے ممدوح کو من ہی من میں پوجتی تھیں۔ ایک تقریب کے اختتام پر ایک ڈاکٹر صاحبہ اعتبار ساجد کے پاس آئیں جو بقول ان کے، پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھیں اور دکھ کے لحاظ سے سمندر تھیں۔ خاتون کی آنکھوں میں آنسو جمع رہتے تھے۔ ایک روز اعتبار ساجد نے ان سے کہا کہ یوں کریں کہ ایک ٹب لیں، اس کے آگے سر جھکا کر بیٹھ جائیں، یہ آنسوؤں سے بھر جائے گا، آنسوؤں سے بھرے اسی ٹب سے غسل نہا لیں، ورلڈ ریکارڈ قائم ہو جائے گا۔ "

‘آنسوؤں سے بھری‘ ہوئی یہی ڈاکٹر صاحبہ ایک تقریب میں اعتبار ساجد کے ہمراہ گئیں، یہاں اس کا تذکرہ بے کار ہے کہ مذکورہ تقریب اعتبار ساجد ہی کی ایک کتاب کی تھی، ڈاکٹر صاحبہ کو لوگوں نے اصرار کر کے اسٹیج پر بلا لیا اور دو لفظ کہنے کی فرمائش کی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے صرف اتنا کہا: ” جس شاعر کو دیکھے بغیر اس کی شاعری پڑھ کر اسے چاہا، میری خوش نصیبی ہے کہ وہ آج میرے سامنے بیٹھا ہے اور خدا کا شکر ہے کہ جیسا سوچا تھا اس سے اچھا نکلا ہے”

کتاب میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ جب گاہے بگاہے خواتین کا شاعر پر مر مٹنے کا سلسلہ جاری و ساری تھا اور شاعر جب خواتین کو اشکوں سے بھرے ٹب میں نہانے کا مشورہ دے رہا تھا تو اس دوران شاعر کے اہل خانہ پر کیا بیت رہی تھی۔

’یادیں باقی رہ جاتی ہیں ‘ کے مطالعے کے دوران ہم ایسے’ خشک طبع‘ پڑھنے والوں کی ضیافت کا اہتمام جا بجا نظر آتا ہے۔ اعتبار ساجد صنف کرخت کا ذکر کرتے کرتے صنف نازک کو اکثر درمیان میں لے آتے ہیں۔ ذکر ہو رہا ہے کسی احمد ممتاز قادری کا اور اچانک کسی سعیدہ سیٹھی کی بات شروع ہو گئی جو بقول مصنف ایک معروف شاعرہ ہیں جنہوں نے ہیتھرو ائیر پورٹ پر مصنف کی کتابیں خریدیں، پڑھیں اور نہ صرف فون پر رابطہ کیا بلکہ اعتبار ساجد سے ملاقات کی غرض سے اسلام آباد بھی آئیں۔ ایک تقریب میں مصنف کی غزلوں پر ’دو خوبصورت آنکھوں میں مسلسل ستارے چمکتے اور ٹپکتے رہے‘، ایک روز کالج میں دو لڑکیاں ان کے ملاقات کی غرض سے آئی، ان میں سے بقول مصنف، ایک سانولی سی تھی اور ایک گڑیا سی، سانولی مداح نے اعتبار ساجد کو ایک تسبیح تحفے میں دی۔ ایک ذکر گل زیب زیبا نامی خاتون کا بھی ہے جنہوں نے کراچی میں اعتبار ساجد کے اعزاز میں اپنے گھر کی چھت پر مشاعرہ منعقد کروایا جس میں ایک پر تکلف ڈنر کا اہتمام بھی تھا، ملاقاتیں بڑھتی گئیں اور ایک روز مسماۃ گل زیب زیبا اسلام آباد پہنچیں جہاں اعتبار ساجد انہیں کھانے پر لے گئے، راستہ سنسان تھا، اچانک ایک موٹر سائیکل سوار نمودار ہوا اور اس نیک پروین کے پرس پر جھپٹا مارا اور وہ ایک ہذیانی چیخ مار کر اعتبار ساجد کے کندھے سے لپٹ گئی۔ لٹیرا ناکام رہا اور خاتون بار بار اعتبار ساجد سے کہتی رہیں کہ کیا اسلام آباد میں بھی ایسا ہوتا ہے؟۔ اس تمام واقعے میں ہمارے لیے ’کندھے سے لپٹنے‘ کی ترکیب نئی اور متاثر کن رہی، ہم چشم تصور میں اس ترکیب کو عملی طور پر دیکھنے کی کوشش کرتے رہے اور ناکامی پر اسی لٹیرے کی طرح ناکام آگے بڑھ گئے۔

اسی سے ملتے جلتے ایک دوسرے واقعے میں جسے واقعہ کم اور واردات کہنا زیادہ مناسب ہو گا، چیچہ وطنی کے ایک مشاعرے سے واپسی پر ایک ’طرحدار ‘شاعرہ اعتبار ساجد  سے لفٹ کی خواہاں ہوئی۔ بقول اعتبار ساجد ’’ خالد نے میرے پہلو میں اسے جگہ دے دی۔ وہ اتنی ممنون ہوئی کہ دس بارہ کلومیٹر تک اظہار ممنونیت کرتی رہی، مزید کچھ میل گزرے تو اس ممنونیت نے شدت اختیار کر لی، بارے خدا خدا کر کے اس کا شہر آیا تو وہ مصر ہو گئی کہ میرے گھر چائے پی لیں، ہم نے کہا کہ بی بی اول تو آدھی رات کو شرفاء کسی کے گھر نہیں جاتے، دوم یہ چائے کا وقت نہیں ہے، سوم آپ کا کلام اور اخلاق اچھا ہے۔ ‘‘

البتہ ایک واقعہ ایسا بھی ہوا جس میں اعتبار ساجد کے دو نابینا طالب علموں نے ان کی کتاب ’مجھے کوئی شام ادھار دو‘ کو پسند کیا اور اسے ’بریل سسٹم ‘میں منتقل کر کے نابیناؤں کے مختلف مراکز میں بھیجا۔

مذکورہ واقعہ پڑھ کر کر کم از کم ہمیں تو بہت خوشی ہوئی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہاں ہم اپنے لاہور میں مقیم اہل تحقیق سے امید رکھتے ہیں کہ وہ شہر کے تمام نابیناؤں کے مراکز کا جائزہ لیں کہ وہاں کن کن شعراء کی ’بریل سسٹم‘ میں منتقل ہوئی شاعری کی کتا بیں موجود ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان مراکز میں صرف ’مجھے کوئی شام ادھار دو‘ ہی رکھی ملے اور نابینا طالب علم اسی کو شاعری معیار سمجھ بیٹھیں۔

صنف نازک کے ذکر سے گھائل اس خودنوشت میں ایک ’خوبصورت گونگی لڑکی‘ کا ذکر بھی ہے جو اعتبار ساجد کے ڈاکٹر دوست کے کلینک میں آتی تھی، وہ غریب بھی ان کی شاعری کی گرویدہ تھی، بقول مصنف”وہ لکھ کر بات کرتی تھی، اس کی آنکھوں میں درد کی پرچھائیاں تھیں، کرب کے سائے تھے، مگر میں کیا کر سکتا تھا، گھر بار بیوی بچوں والے نجیب الطرفین لوگ ایسے لوگوں کے کس کام آ سکتے ہیں، یہی کہہ سکتے ہیں نا کہ:

جب ضرورت تھی، سفر میں کوئی ساتھی نہ ملا

 پا شکستہ ہوں تو پیغام بہت آتے ہیں (ص: 119)

ضرورتاً یا بلا ضرورت پیغامات کا آنا ایک خوش آئند بات ہے، اس سے آدمی کا حوصلہ بلند رہتا ہے خواہ وہ شکستہ پا ہونے کی صورت ہی میں کیوں نہ آئے ہوں، ہم نے تو’ فیل پا ’ ہوئے لوگوں کو بھی پیغامات آتے دیکھے ہیں اور پھر یہاں تو لڑکی گونگی تھی جس میں خود مصنف کے کئی فائدے ہوتے نظر آرہے تھے لیکن افسوس کہ انہوں نے یہاں بھی اپنے قاری کو مایوس کیا۔

تا دم تحریر ہمارے مضمون سے شاید یہ تاثر مل رہا ہے کہ زیر موضوع خودنوشت کے مصنف نے سوائے ادھر ادھر کی باتوں کے اور کچھ نہیں لکھا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ کتاب میں کئی اہم واقعات اور احوال بھی ملتے ہیں مثلاً اعتبار ساجد جب اپنی پہلی کتاب کا دیباچہ حضرت احسان دانش سے لکھوانے پہنچے تو احسان دانش نے نہ صرف کئی صفحات پر مشتمل دیباچہ لکھا بلکہ واپسی پر اعتبار ساجد کی پیٹھ تھپک کر یہ بھی کہا کہ ’ میاں ! پڑھنا لکھنا مت چھوڑنا، تم اسی کام کے لیے پیدا ہوئے ہو‘۔ کتاب سے کشید کردہ چند دلچسپ فقرے و احوال ملاحظہ ہوں :

۔ ایک روز افتخار بھائی( افتخار عارف) کہنے لگے ’تم اکادمی کی تقریبات میں نہیں آتے، سبھی تمہارے اس رویے سے نالاں ہیں، کہتے ہیں پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے۔ ‘

۔ احمد نوید جینوئن شاعر تھا، وہ شاعری کھاتا، شاعری پیتا تھا اور شاعری اوڑھ کر سو جاتا تھا۔

۔ جاوید صبا وہ مٹکتے چلے آرہے ہیں، کمال کا ہنسوڑ آدمی تھا، اب شاید صحافت میں آ کر سنجیدہ ہوا ہے۔

۔ آرٹس کونسل میں جس غزل نے سائرہ غلام نبی کو میرے انٹرویو پر مجبور کیا اس کے چند اشعار یہ ہیں (بخوف طوالت پہلا شعر ہی درج کیا جا رہا ہے):

 کشتیاں سلگ اٹھیں، بادبان جل گئے

 آگ ہو گئی زمیں، آسمان جل گئے

۔ افتخار بھائی ( افتخار عارف) کرسی صدارت سے اٹھے، بہت اچھے انداز میں تقریر کی، اچانک انہیں نہ جانے کیا ہوا کہ دوران تقریب میری طرف ہاتھ کا اشارہ کر کے کچھ تمسخرانہ جملے اچھال دیے۔ میں نے قانونی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور انہیں لیگل نوٹس بھجوا دیا۔

۔ میں آج تک ڈاکٹر جمیل جالبی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے تقریب کی صدارت بھی فرمائی اور میرے کان میں چپکے سے میرے ایک شعر کی اصلاحی غلطی کی اصلاح بھی کی۔

 کتاب کے صفحہ 104 پر مصنف نے اپنا ایک شعر درج کیا ہے جس کے دوسرے مصرعے میں پروف کی ایک معمولی سی غلطی نے اس کا مفہوم بدل دیا ہے:

 مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں میرے خال و خد

 مجھے اپنے رنگ میں ’زنگ‘ دو، مرے سارے رنگ اتار دو

ہم ایسے کم علم کی نظر میں پروف کی اس غلطی کے ساتھ جس میں لفظ رنگ، زنگ ہو گیا ہے، یہ شعر اصل سے زیادہ پر اثر ہو گیا ہے۔

اپنی خودنوشت میں اعتبار ساجد ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ملتان میں وہ صوفیہ لورین کی فلم ہنچ بیک آف ناترے ڈیم سات مرتبہ دیکھنے گئے اور ہر بار آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے باہر نکلے۔

’یادیں باقی رہ جاتی ہیں ‘ کے ایک ہی مرتبہ عمیق مطالعے کے بعد یہی کیفیت ہماری بھی ہے!

٭٭٭

 

میر کے تاج محل کا ملبہ یا ظفر اقبال کے ملبے کا تاج محل

(    ایک طویل انتظار کے بعد کراچی کے ادبی مجلے مکالمہ کے دو شمارے ایک ساتھ شائع ہوئے ہیں، کئی مضامین حاصل مطالعہ کہے جا سکتے ہیں جیسے طاہر مسعود کا میرے ابا، کمال احمد رضوی کا احمد پرویز-نامہربان یادیں، شفیع عقیل کا فیض صاحب، سلیم یزدانی کا عزیز حامد مدنی وغیرہ۔ لیکن حضرت ظفر اقبال نے "میر کے تاج محل کا ملبہ‘‘ لکھ کر تو ادبی حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے، موصوف نے کئی برس قبل اپنی شاعری کو آگ لگا دینے کی بات کی تھی جس کے جواب میں خامہ بگوش نے "ادبی منشیات” کے عنوان سے کالم لکھا تھا، کچھ عرصہ قبل انہوں نے بی بی سی اردو کے انور سن رائے کو ایک انٹرویو میں اپنی اس خواہش کو ایک مرتبہ پھر یہ کہہ کر دوہرایا ہے کہ "میں تو اپنی شاعری کو منسوخ کر سکتا ہوں، ساری کی ساری کو۔”۔ ۔۔۔ ۔ زیر نظر تحریر ایک وقتی فوری تاثر کے سوا کچھ نہیں اور اس کا لکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس سے ظفر اقبال صاحب کی علمیت اور ان کے مقام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا، اس لیے کہ وہ اپنی شاعری کے اعتبار سے جس مقام پر چلے گئے ہیں وہاں سے ان کے کلام کی واپسی تو ایک طرف، خود ان کو واپسی بھی مشکل نظر آ رہی ہے۔ راشد اشرف)

    کراچی کے ادبی مجلے مکالمہ کے شمارہ نمبر 19 (مارچ 2012) میں جناب ظفر اقبال کا مضمون ’’میر کے تاج محل کا ملبہ‘‘ شائع ہوا ہے۔ مکالمہ کا یہ شمارہ اس لحاظ سے یادگار ہے کہ اس میں شائع ہوا الزامات سے بھرپور یہ مضمون سخن فہم حضرات کے لیے بحث و تنقید کے نئے راستے کھولے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بغور مطالعے کے بعد سخن فہم، سخن اور فہم دونوں ہی سے ہاتھ دھوتے نظر آرہے ہیں۔ ظفر اقبال نے زیر تذکرہ مضمون میں یگانہ کے بعد اب میر تقی میر کو نشانہ بنایا ہے۔  اس سے قبل یگانہ پر ان کا مضمون ’ میرزا یاس یگانہ۔ایک معمولی شاعر‘ شائع ہو کر ہر خاص و عام سے ’ غیر مقبولیت۔‘ کی سند پا چکا ہے۔ میر پر اپنے اس مضمون میں وہ صرف ایک بات کہنا چاہتے تھے اور وہ یہ کہ خدائے سخن کے کلام میں ہر شعر درخور اعتنا نہیں ہے، یہ بات وہ مدیر کے نام اپنے یک سطری مکتوب میں بھی کہہ سکتے تھے، لیکن اتنی سی بات کہنے کے لیے الزامات کے جو تانے بانے انہوں نے بنے، اس کی زد میں خود ان کا آنا بھی بعید از قیاس نہیں ہے۔

    بزبان ِخامہ بگوش، اتنی تیزی سے تو کسی کو رسوائی بھی نہیں ملتی جتنی تیزی سے ظفر اقبال کو شہرت ملی۔  ان کے مجموعہ کلام ’آب رواں ‘ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ، جس میں آب تو بقدرِ اشک ِ بلبل تھا ، رہی روانی سو اس مجموعہ کلام کو پڑھنے کے بعد اس کا قاری بحق شاعر رواں تو ہوا لیکن کسی بھی قسم کے کلمہ خیر کے بغیر۔ انتظار حسین تو اس قدر جز بز ہوئے کہ تنگ آ کر حال ہی میں ایک سالم کالم لکھ دیا۔انتظار حسین لکھتے ہیں: ’’ آب رواں پر شمس الرحمن فاروقی نے ایک پرمغز دیباچہ باندھا ہے۔ فاروقی صاحب کا قلم اس وقت اور ہی شان سے رواں ہوتا ہے جب ظفر اقبال کی شاعری زیر بحث ہو۔فاروقی صاحب صحیح کہتے ہیں کہ عام حالات میں تو آب رواں کے مصنف کو زندگی بھر ان اشعار کی کمائی کھانا چاہیے تھی۔‘‘

    پروفیسر فاروقی کے بیان سے یہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ظفر اقبال کی اپنے اشعار کے ذریعے حاصل کی گئی کمائی اب ختم ہو گئی ہے۔ اس بات کی تصدیق انتظار حسین نے بھی کی ہے، مزید لکھتے ہیں: ’’ تو پھر کیا ہوا، ظفر اقبال نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور گلافتاب کی اوبڑ کھابڑ کھاڑی میں جا اترے اور    ایسے شعر لکھنے لگے:

    لہو لہلوٹ سیاہی پھیلویں پھب

    کڈھب کاغذ طلب تحریر نے کی

    کوؤں کے شور مچانے سے کوئی مر تو نہیں جاتا۔تو کرتے رہیں یار اغیار ظفر اقبال کی کڈھب غزل پر تھو تھو، اس نے ایک معتبر نقاد سے سند لی اور اجتہاد کا شرف حاصل کر لیا۔ ارے ہم (انتظار حسین)تو اردو کی سخت جانی کی دلیل یہیں سے لاتے ہیں کہ یہ زبان ظفر اقبال کے تشدد کو مسلسل سہہ رہی ہے اور زندہ اور پائندہ چلی آ رہی ہے۔ (انتظار حسین)‘‘

    ظفر اقبال ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہیں جن کے بارے میں نقاد اب لکھتے لکھتے تھک چکے ہیں بلکہ کئی ایک تو یہ دنیا ہی چھوڑ چکے ہیں مثال کے طور پر خامہ بگوش جنہوں نے ایک سے زائد کالمز میں ہمارے ممدوح پر قلم اٹھایا تھا۔ اپنے ایک کالم میں خامہ بگوش لکھتے ہیں:

    ’’    انیس ناگی ایک نہایت عمدہ ادبی رسالے دانش ور سے بھی وابستہ ہیں۔ اس رسالے کی پیشانی پر ایک لیبل چسپاں ہوتا ہے جس پر یہ الفاظ درج ہیں: ’ نئے ادب کا ترجمان‘۔  لیکن جو ادب اس میں چھپتا ہے وہ نئے پن سے آگے کی چیز ہے۔ مثلاً اس کے تازہ شمارے میں ظفر اقبال کی نئی غزلیں شامل ہیں، ایک غزل کے یہ دو شعر ہم نے بطور نمونہ استاد لاغر مراد آبادی کو سنائے:

    جو آن کے ہمسائے ہمارے میں ر ہیں گا

    تحقیق کہ خود ہی خسارے میں رہیں گا

    اس گھر کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ وہ شوخ

    ایک بار رہیں گا تو دوبارے میں رہیں گا

    استاد گرامی نے یہ شعر سن کر فی البدیہہ فرمایا:

    ناگی نے جو چھاپیں ظفر اقبا ل کی غزلاں

    جو ان کو پڑھیں گا وہ خسارے میں رہیں گا

    ’میر کے تاج محل کا ملبہ‘ میں ظفر اقبال نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’ میر کے ہاں کڈھب اور نا ملائم الفاظ کا استعمال زیادہ ہے جس سے سلاست اور روانی بھی مجروح ہوتی ہے تاہم جہاں میر سلیس زبان استعمال کرتے ہیں، وہاں سب سے آگے نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

    میر کے بہتر نشتر ہیں اور ان تمام نشتروں کا جواب ظفر اقبال نے مذکورہ بالا فرمان کے ذریعے دینے کی کوشش کی ہے، حیرت کی بات یہ ہے یہ فرمان جاری کرتے وقت وہ اپنے کلام کو شاید سرے سے فراموش کر بیٹھے جو ’کڈھب اور سلیس ‘ دونوں کی ایک نرالی مثال ہے، یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

    رنگت ہی بدل گئی بدن کی

    جب سانپ نے پہلی بار ڈسا

    ڈھیلے ہیں پڑے ہوئے میاں تو

    بیگم کا ابھی وہی ہے ٹھسا

    پانی اتنا ملا کے اس نے

    لسی کا کر دیا ہے لسا

    ظفر اقبال نے اپنے مضمون میں خدائے سخن میر تقی میر کے تاج محل کے ملبے کی جانب قارئین کی توجہ دلانے کی کوشش تو کی ہے لیکن خود ان کی شاعری کے ملبے کا تاج محل کھڑا کرنے والے اپنے محسن پروفیسر شمس الرحمان فاروقی کو بھی نہیں بخشا۔ فرماتے ہیں۔ ’’ شمس الرحمان فاروقی قابل مواخذہ اس لیے ہیں کہ انہوں نے جدیدیت کا جھنڈا سب سے اونچا اٹھا رکھا ہے اور خود غزل لکھتے بھی ہیں لیکن وہ انصاف اور ایمانداری سے بتائیں کہ کہ جدید غزل میں ان کا کنٹری بیوشن اور مقام کیا ہے؟‘‘

    یہ معاملہ دو بڑے لوگوں کے درمیان ہے لہذا اس میں دخل دینا ہمارے لیے مناسب نہیں لیکن جب ہم نے یہ استاد لاغر مراد آبادی کے گوش گزار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ’’ یہ عزیز یہ بات کیوں بھول جاتا ہے کہ شمس الرحمان فاروقی کے بلند کیے ہوئے جدیدیت کے جھنڈے پر تو یہ خود کئی برس سے براجمان ہے۔ ‘

    اپنے مضمون میں ظفر اقبال نے انکشاف کیا ہے کہ ’ ایک مرتبہ میں نے شمس الرحمان فاروقی کے جریدے شب خون میں لکھا تھا کہ جو شخص جدید غزل کی تنقید لکھتا ہے ، اگر اس کی اپنی غزل جدید نہیں ہے تو اسے جدید غزل پر تنقید لکھنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا، جس پر اسی شمارے میں انہوں (فاروقی) نے ترنت جواب دیا کہ ظفر اقبال جتنے اچھے شاعر ہیں ،اتنے ہی برے نقاد بھی ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تینوں (انتظار حسین،حسن عسکری، شمس الرحمن فاروقی) اور ایسے سب حضرات باہر کے لوگ ہیں، انہیں غزل جیسی اندر کی چیز پر ہاتھ صاف کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔‘‘

    یہاں پھر ہمیں مجبوراً استاد لاغر مراد آبادی کو زحمت دینی پڑی ، خامہ بگوش کی رحلت کے بعد وہ عملی طور پر گوشہ نشین ہی ہو گئے ہیں لیکن گاہے گاہے ان سے ایسے معاملات میں ہم تبصرے کی درخواست کرتے رہتے ہیں۔ استاد نے یہ بیان سن کر تبسم فرمایا اور کہا کہ ’غزل جیسی اندر کی چیز پر تو تمہارے شاعر نے ایسا ہاتھ صاف کیا ہے کہ خود اسی کے الفاظ میں، لسی کا لسا کردیا ہے، بھئی وہ میرا یار خامہ بگوش ،ظفر اقبال کو پیار سے ’علامہ ظفر اقبال ‘ (علامہ اقبال اور ظفر اقبال کا مرکب) یونہی تو نہیں کہتا تھا۔‘ ‘

    یہاں ہم نے خامہ بگوش کا ایک اور تبصرہ استاد کے گوش گزار کیا کہ ’’ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ شمس الرحمن فاروقی جس شاعر کی تعریف کر دیں اس کی دنیا تو کیا عاقبت بھی سنور جاتی ہے یعنی وہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ فاروقی نے شعر شور انگیز کے نام سے کلام میر کی جو شرح لکھی ہے ، اس میں جگہ جگہ ظفر اقبال کے شعر ، میر کے شعروں کے بالمقابل پیش

    کیے گئے ہیں ، اگر یہ شرح میر کی زندگی میں لکھی جاتی تو یہ ان کی زندگی کا دوسرا صدمہ ہوتا۔  پہلا صدمہ دلی کا اجڑنا تھا جسے وہ برداشت کر گئے مگر دوسرا صدمہ آخری صدمہ بن جاتا۔ ‘‘

    ظفر اقبال نے اپنے مضمون ’میر کے تاج محل کا ملبہ ‘ میں چومکھی لڑی ہے۔ بات میر تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن انہوں نے ساتھ ہی ساتھ پروفیسر شمس الرحمان فاروقی، پروفیسر محمد حسن عسکری، انتظار حسین ، حتی کہ خواجہ میر درد کو بھی لپیٹے میں لے لیا۔

    زیر تبصرہ مضمون یوں تو اس قابل ہے کہ تمام کا تمام ہی یہاں نقل کر دیا جائے لیکن مضمون اور صاحب مضمون، دونوں کی طوالت کے خوف سے ایسا کرنا مناسب نظر نہیں آ رہا، لہذا ا مضمون سے چند اچھوتے فرمودات یہاں نقل کیے جار ہے ہیں:

   ۔  میر کے براہ راست متاثرین میں فراق گورکھپوری اور ناصر کاظمی کا نام لیا جاتا ہے، ان میں احمد مشتاق بھی شامل تھے لیکن وہ اس جال سے بہت جلد اپنے آپ کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔

   ۔ میر کے دور کی شاعری اب زیادہ تر محققین ہی کے کام آنے والی چیز ہو کر رہ گئی ہے۔

   ۔ ہر شاعر کی طرح بھرتی کے اشعار غالب کے ہاں بھی فراوانی سے دستیاب ہیں۔

   ۔ عسکری سمیت یہ حضرات مناسباتِ لفظی اور دیگر انسلاکات کے اہتمام کو نہ صرف شاعری سمجھ بیٹھے ہیں بلکہ دوسروں کو اسے منوانے پر بھی مصر ہیں۔

   ۔ میر صاحب نے رونے کے مضمون کو اس تکرار اور کثرت کے ساتھ باندھا ہے کہ اس سے جی ہی اوب گیا ہے حتی کہ اس قبیل کے اشعار دیکھ کر رونے دھونے میں شامل ہونے کے بجائے ہنسی آتی ہے۔

   ۔ اب وقت آگیا ہے کہ میر کا کلام جس جھاڑ جھنکار سے بھرا پڑا ہے، اسے اس سے صاف کر لیا جائے۔

   ۔ میر کو کبھی خدائے سخن کہا گیا ہے تو ضروری نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ خدائے سخن ہی رہیں۔اس وقت سخن کا جو عالم تھا ، وہ اس کے خدا ہو بھی سکتے تھے لیکن اب سخن کی صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے، حتی کہ اب میر کے بہتر نشتروں میں بھی کئی اشعار باقاعدہ مزاحیہ لگتے ہیں۔

   ۔ خدائے سخن ہونا تو درکنار، آج کے دور میں میر فرشتے کے منصب کو بھی پہنچتے نظر نہیں آتے۔

   ۔ میں یہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ محمد حسن عسکری ہوں یا انتظار حسین ،ان کا غزل کے ساتھ کیا تعلق ہے جو وہ اس کے بارے میں اتنی اتھارٹی کے ساتھ بات کرتے ہیں، یہ ا تھارٹی انہوں نے کہاں سے حاصل کی ہے؟

   ۔  جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے۔ رومال دو دو دن تک جوں ابرِ تر رہے ہے۔۔۔۔ میر کے اس شعر کی تعریف میں عسکری صاحب آپے سے باہر ہو رہے ہیں، یہ ایک تھرڈ کلاس شعر ہے۔

   ۔ میر کا شعر ہے:

    جو اس شور سے میر روتا رہے گا۔تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

    روتا کون نہیں ہے لیکن رونے کی بھی ایک تہذیب ہے۔ایک نمونہ (ظفر اقبال کا اپنا) ملاحظہ ہو:

    مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفر

    صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوں میں

   ۔ ۔۔۔

    جناب ظفر اقبال کے ان فرمودات پر مزید تبصرہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ البتہ اسے بہتر طور سے سمجھنے کے لیے جہاں جہاں میر تقی میر کا نام آیا ہے، وہاں وہاں مضمون نگار (میر کے تاج محل کا ملبہ)کا اپنا نام رکھ کر اِسے پڑھنے سے صورت حال خاصی حد تک واضح ہو جاتی ہے۔ رہا سوال حسن عسکری اور انتظار حسین کے اتھارٹی حاصل کرنے کا تو اس سلسلے میں یہی عرض ہے کہ دونوں حضرات نے یہ اتھارٹی وہیں سے حاصل کی ہے جہاں سے پروفیسر فاروقی نے ظفر اقبال کی شاعری کو بطور سند پیش کرنے کے سلسلے میں اسے    حاصل کیا تھا۔ جناب ظفر اقبال نے میر کے کلام میں موجود جھاڑ جھنکار کو صاف کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ یہاں میر کے طرفدار جناب ظفر اقبال کی شاعری کے جھاڑ جھنکار میں موجود کلام کو صاف کرنے کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں یہ کوشش کرنے والا۔  ’ ہمارا تن بدن ہی جھاڑ ہو جھنکار ہو جیسے ‘ کی تفسیر بن سکتا ہے۔

    اپنی شاعری میں جھاڑ جھنکار کو صاف کرنے کی بات سے یہاں ہمیں جناب ظفر اقبال کے اس انٹرویو کے مندرجات یاد آرہے ہیں جسے انہوں نے بی بی سی کے انور سن رائے کو دیا تھا۔مذکورہ انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ میں تو اپنی شاعری کو خود مسترد کرتا ہوں اور کسی بھی وقت اسے منسوخ بھی کر سکتا ہوں، ساری کی ساری کو۔‘‘

    ہم سمجھتے ہیں کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ یہ نیک کام بھی کر ہی لیا جائے۔

    انٹرویو میں ایسی مزے دار باتیں ہیں کہ جو بجائے خود ایک علاحدہ مضمون کے لکھے جانے کی متقاضی ہیں۔ ایک جگہ کہتے ہیں ’’ میری شاعری میں جو عاجزی ہے، جو انکسار ہے، مثلاً میں نے کبھی تعلی کا شعر نہیں کہا، کبھی دعوی نہیں کیا کہ میں نے یہ کیا ہے، میں نے یہ کہا ہے۔ابرار احمد کہا کرتے ہیں کہ یہ میری چالاکی ہے تو میں کہتا ہوں کہ اگر یہ چالاکی ہے تو کر کے دکھاؤ۔ایرج مبارک کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی ہر غزل میں کم از کم تین شعر اپنے خلاف کہے ہوئے ہیں۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ اگر یہ چالاکی ہے تو کر کے دکھائیں، لکھیں ایک دو شعر اپنی غزل میں۔ ایک اور بات سے اس کا شبہ مجھے ہوتا ہے کہ شمس الرحمان فاروقی اور گوپی چند نارنگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں لیکن وہ دونوں بیک زبان یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ظفر اقبال ہی اس وقت اردو دنیا کا، برصغیر کا سب سے بڑا غزل گو شاعر ہے۔‘‘

    اللہ بخشے حفیظ ہوشیارپوری زندہ ہوتے تو اس چالاکی کے مضمون سے تاریخ نکال لیتے لیکن کیا کیجیے کہ چالاکی سے تاریخ تو نکالی جا سکتی ہے لیکن چالاکی سے شاعری نہیں کی جا سکتی۔

    جناب ظفر اقبال کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے دو لوگ زندگی میں کسی ایک بات پر متفق ہو جائیں تو گمان ہے کہ ان کے خون کی پیاس بجھ چکی ہے اور اب وہ کسی تیسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب! یہاں ہمیں جناب ظفر اقبال ہی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:

    مقبولِ عام ہو گیا ہوں

    یعنی کہ تمام ہو گیا ہوں

    انٹرویو میں ایک جگہ جناب ظفر اقبال نے ’ ان گھڑ مقلدین‘ کی ترکیب استعمال کی جس پر انور سن رائے نے استفہامیہ لہجے میں اسے دوہرایا۔  ظفر اقبال نے مصاحبہ گو کی ادب نا شناسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا ’ ’ان گھڑ ، یعنی جو ابھی تیار نہیں ہوتے اور ظفر اقبال کی نقل شروع کر دیتے ہیں اور مار کھا جاتے ہیں۔‘‘۔

    ایک موقع پر تو جناب ظفر اقبال نے انور سن رائے کو یہ کہہ کر بدحواس کر دیا کہ ’’ جہاں تک میرے لب و لہجے کا سوال ہے تو میں اسے تبدیل کرتا رہتا ہوں۔ میں تو کہیں ٹک کر بیٹھتا ہی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کے میرا کام زیادہ تر ایکڈیمک ہے۔ میری شاعری مشاعرے کی شاعری نہیں ہے۔ نہ یوں ہے کہ میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے شعر کہتا ہوں۔ لوگ قاری کو راغب کرتے ہیں، میں قاری کو اشتعال دلاتا ہوں باقاعدہ۔ بعض اوقات۔ ایک چیلنج کے طور پر کہ تیری ایسی کی تیسی دیکھو یہ۔ ‘‘

    میر تقی میر کے 72 نشتر مشہور ہیں ، خامہ بگوش نے مندرجہ ذیل 73 واں نشتر میر ہی کے دیوان سے دریافت کیا تھا:

    قیامت کو جرمانہ ّ شاعری پر

    مرے سر سے میرا ہی دیوان مارا

    ان حالات میں تو یہ 73 واں نشتر جناب ظفر اقبال کے لیے ہی تجویز کیا جا سکتا ہے جو زیر تبصرہ مضمون ’میر کے تاج محل کا ملبہ‘ میں ایک جگہ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں:

’    میں پچپن سال سے اس کوچے (شاعری) میں جھک مار رہا ہوں۔ ‘

    ہم جناب ظفر اقبال سے مودبانہ عرض کریں گے کہ اس قسم کے تبصروں سے گریز ہی کیا کیجیے، مضمون میں قاری جہاں آپ کی تمام باتوں سے اختلاف کرے گا وہاں وہ کسی ایک بات سے اتفاق بھی کر سکتا ہے۔‘‘

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے فائلیں فراہم کی۔

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید