فراق کی جمالیات
’ردِم‘ (Rhythm) کا تعلق یونانی لفظ Rhythmos سے ہے جس کا مفہوم ’رفتار‘ (Tempo)سے قریب تر ہے۔ پوری کائنات میں آہنگ کا قانون موجود ہے، اس کے عمل کو خوب محسوس کر سکتے ہیں۔ تمام فطری عوامل کے باطن میں آہنگ موجود ہے، محسوس ہوتا ہے جیسے ہر صورت کے اندر آہنگ کا زیر و بم ہے۔ تخلیق جو ارتعاشات (Vibrations) کا فینومینن ہے، آہنگ ہی کا خوبصورت کرشمہ ہے، آہنگ کے بغیر کسی صورت کا تصور ہی پیدا نہیں ہو سکتا، کوئی ایسی حرکت نہیں جس میں آواز نہ ہو اور کوئی ایسی آواز نہیں کہ جس میں آہنگ نہ ہو۔ وقت کی رفتار اور لمحوں میں آہنگ موجود ہے۔ آہنگ کی بہترین صورت موسیقی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ آہنگ ہی موسیقی کی رُوح ہے، موسیقی کے مختلف حصے ایک دوسرے سے جذب ہو کر کوئی صورت اختیار کر لیتے ہیں تو مفہوم پیدا ہوتا ہے، بہاؤ میں مفہوم اُبھر آتا ہے۔ شاعری میں اکثر دو مصرعے جب ایک دوسرے میں جذب ہو جاتے ہیں تو بہاؤ کے ساتھ ایک جذبہ خلق ہو جاتا ہے، آہنگ کی ایک جمالیاتی تصویر ابھر آتی ہے۔ آہنگ کا تعلق کمپوزیشن (Composition) یا ترتیب سے ہے، کمپوزیشن جتنا عمدہ ہو گا آہنگ بھی اتنا ہی متاثر کن ہو گا۔ کسی اچھی تصویر میں چند لکیروں، چندر رنگوں کی آمیزش کی تکرار سے جو آہنگ پیدا ہوتا ہے وہ غور طلب ہے۔ تکرار یا Repetition) کی بڑی اہمیت ہے، اس سے آہنگ جنم لیتا ہے۔ یہی آہنگ دیکھنے والے کی نظر کو پوری تصویر میں گھومنے پر مجبور کرتا ہے۔
آہنگ (rhythm) فطرت کا پوشیدہ قانون ہے۔ دل کی دھڑکن، نبض کی حرکت، جسم میں خون کی گردش اور طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب، سمندر کی لہروں کی مسلسل تبدیلیاں، موسموں کی تبدیلی، سب آہنگ کی تبدیلی کا احساس دیتے ہیں۔ پرندوں کی پرواز اور زمین پر چلتے ہوئے ہر ذی روح میں آہنگ موجود ہے۔ رنگوں کی آمیزش کی متوازن صورت سے دلکش آہنگ کی پہچان ہوتی ہے، رنگوں میں توازن نہ ہو تو اچھا آہنگ پیدا ہی نہیں ہو گا۔ اچھی موسیقی کا آہنگ ہی رقص کرنے پر اُکساتا ہے۔
آہنگ ایک اسرار ہے جو وقت کے تسلسل اور لمحوں کی خاموش تبدیلیوں میں موجود رہتا ہے۔
اس عہد میں فراقؔ ادبی روایات کے جلال و جمال کے آہنگ کی مکمل طور پر نمائندگی کرتے ہیں، کلاسیکی روایات کے حسن و جمال کو خوب جانتے پہچانتے ہیں۔ ان کی شاعری میں آہنگِ جلال و جمال کا جو منفرد احساس ملتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
بلاشبہ وہ آہنگِ جلال و جمال کے بڑے شاعر ہیں۔ کلام کا آہنگ عمدہ جذبوں کے رسوں کی دین ہے۔ حسیات و لمسیات کی اس شاعری کا آہنگ ہی مختلف اور منفرد ہے:
سمٹ سمٹ سی گئی ہے فضائے بے پایاں
بدن چُرائے وہ جس دم ادھر سے گزرے ہیں
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
تمام خستگی و ماندگی ہے عالمِ ہجر
تھکے تھکے سے یہ تارے تھکی تھکی سی یہ رات
٭
لفظوں کی تکرار (سمٹ سمٹ، دھواں دھواں، تھکے تھکے، تھکی تھکی، اُداس اُداس) نے شاعر کی حسّی اور لمسی کیفیتوں کو تخلیقی سطح پر حد درجہ محسوس بنا دیا ہے، ایسے اشعار میں کبھی محبوب کے جمال کا آہنگ مختلف متحرک نقش مختلف پرچھائیوں کی صورتیں ابھارتا ہے اور کبھی ماضی کے درد کے تجربوں کی المناکی کو احساس اور جذبے سے قریب کر دیتا ہے۔ آہنگ کبھی سرگوشی کے اسرار تک اس طرح لے جاتا ہے کہ اسرار کی لطافت ہی سے جمالیاتی انبساط حاصل ہونے لگتا ہے، یادوں کی لطیف پُر اسرار دھند میں ذہن اُترنے لگتا ہے۔ اسی کو مسعود آہنگ (Rhythm of Bliss) اور مکمل جمالیاتی آسودگی اور انبساط سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ہندوستانی جمالیات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ سچائی بھی سامنے آئے گی کہ دنیا کو آواز، آہنگ اور روشنی کا اظہار یا ظہور Manifestation سمجھا گیا ہے۔ یہ جمالیاتی فکر و نظر کی بنیادی سچائی ہے، سورج اس فکر و نظر کی بنیادی مرکزی علامت ہے۔ ’سوریہ‘ کے لفظ کا تعلق ’سور‘ (سُر) (Svar) سے ہے کہ جس کے دو معنی ہیں ’چمک، ’روشنی‘ روشن کرنا وغیرہ اور آواز آہنگ! سات بنیادی رنگ موسیقی میں سات ’سوروں ‘ یا ’سُروں ‘ سے قریب ہیں۔ ’سوریہ‘ روشنی اور آواز دونوں کی علامت ہے۔ روشنی اور آواز کی ہم آہنگی ’سوریہ‘ ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں ہر فن میں ’بیانیہ‘ یا Narrative کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، ’بیانیہ‘ فن کی روح ہے، وہ موسیقی ہو یا رقص یا ڈراما، مجسمہ سازی ہو یا فنِ تعمیر۔ تمام فنون درخت کی مانند اپنی مضبوط جڑوں کی بنیاد پر اوپر اٹھتے، بڑھتے نظر آتے ہیں۔ سب روحانی تجربہ لگتے ہیں، لاشعور میں غالباً یہ عقیدہ پوشیدہ ہے کہ زندگی کا تسلسل قائم ہے، ساتھ ہی زندگی کی وحدت بھی موجود ہے۔ ہندوستانی جمالیات نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ انسان اور نیچر کا رشتہ اٹوٹ ہے، ٹوٹنے والا نہیں ہے، انسان اور فطرت، انسان اور وقت اور فضا، انسان اور دیوتا، انسان اور کائنات اور انسان اور انسان ان کی وحدت موجود ہے۔
جن حضرات نے راجپوت مصوری کے نمونے دیکھے ہوں گے انہیں آہنگ اور آہنگ کی وحدت اور جمالِ وحدت کا نقش ضرور ملا ہو گا۔ مثلاً ایک خوبصورت سوگوار عورت کی تصویر سامنے آتی ہے، بادل چھائے ہوئے ہیں، یہ بادل اس عورت کے بہت پاس ہیں، یہ بھی اُداس اور سوگوار ہیں، چاند ہے تو وہ بھی اُداس اُداس، عورت کی سائیکی کی علامت اُداسی کا استعارہ بادلوں اور چاند کو عورت کے وجود اور اس کی ظاہری اور باطنی کیفیتوں سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ عورت اور بادل اور چاند کی وحدت واضح طور پر نظر آتی ہے اور جمالِ وحدت کا گہرا تاثر ملتا ہے۔ اسی طرح شاعری میں تجربے اور ماحول اور فضا کے آہنگ کی وحدت سے جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا رہتا ہے۔ اکثر ماضی اور یادوں کے آہنگ سے رشتہ قائم ہو جاتا ہے اور آہنگ اور آہنگ کی وحدت قاری کو ایک پراسرار لذت آمیز کیفیت عطا کر دیتی ہے۔
غزل کا کینوس چھوٹا تو ہے لیکن گہرا بھی کم نہیں ہے۔ غزل کے کئی تخلیقی فنکاروں نے اس آرٹ میں بڑی گہرائی پیدا کی ہے۔ ’بیانیہ‘ اس کی بھی ایک بنیادی خصوصیت ہے لیکن اس آرٹ کے کینوس کا تقاضہ یہ ہے کہ واقعہ استعاروں اور اشاروں میں بیان ہو یا استعارے اشارے لیے ہوں کہ ذہن واقعے کے پُر اسرار دھُندلکوں تک ہی پہنچ کر جمالیاتی انبساط حاصل کرلے، اَن کہی کہانی میں حسیاتی سطح پر کوئی ’رَس‘ (Rasa) پالے، کچھ چکھ لے اور لذت پالے، فراقؔ جب یہ کہتے ہیں :
دیکھ آئے آج یادوں کا نگر
ہر طرف پرچھائیاں پرچھائیاں
یا:
حسن بھی اُداس اُداس شام بھی تھی دھُواں دھُواں
یاد سی آکے رہ گئیں دل کو کئی کہانیاں
یا:
اُف یہ فضا اُداس اُداس، آہ یہ موج دودِ شام
یاد سی آکے رہ گئیں، دل کو کئی کہانیاں
تو غزل کے چھوٹے کینوں کی گہرائیوں کا کچھ کچھ اندازہ تو ہوتا ہی ہے ’بیانیہ‘ کی پُر اسراریت کی سرگوشیوں کا احساس بھی ملتا ہے۔
آہنگ اور آہنگ کی جمالیاتی وحدت سے جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا رہتا ہے۔ یادوں کے نگر میں ہر جانب صرف پرچھائیاں ہی پرچھائیاں ہیں۔ پرچھائیوں کے پیچھے واقعات و واردات کی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ پرچھائیاں یادیں، حادثات و واقعات چھپائے بیٹھی ہیں۔ یادوں کے نگر کی پرچھائیاں، دھواں دھواں شام، اُداس اُداس فضا، یہ سب عاشق کے وجود سے قریب تر ہیں۔ عاشق کی سائیکی سے ان کا گہرا رشتہ قائم ہے اور اسی طرح ذات اور فضاؤں کی ایک جمالیاتی وحدت قائم ہو گئی ہے۔ مصور اس جمالیاتی وحدت کی خوبصورت تصویر بنا سکتا ہے۔ فراقؔ کی جمالیات میں ایک جانب عاشق اور اس کے ماضی کے لمسی اور جذباتی تجربوں کی جمالیاتی ہم آہنگی کی پُر اسرار کیفیتیں متاثر کرتی ہیں تو دوسری جانب محبوب اور وقت اور جلال و جمال کی ہم آہنگی بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
ہندوستانی جمالیات میں آرٹ زندگی کی نمائندگی نہیں کرتا، یہ زندگی کی سجاوٹ اور آرائش و زیبائش کا نقش بھی نہیں ہے، یہ وجود کا ایک حصہ ہے۔ یہ زندگی کی روح ہے، زندگی کا جوہر ہے اس کا نقطۂ عروج (culmination) ہے۔ کالیداس کے کلام میں ایک مقام پر سیتا زار زار روتی دکھائی دیتی ہیں۔ لکشمن انہیں والمیکی کی کٹیا میں چھوڑ کر چلے گئے ہیں، وہ تنہا ہیں اور روتی جا رہی ہیں، ان لمحوں کو کالیداس نے کائناتی دُکھ (cosmic sorrow) میں تبدیل کر دیا ہے۔ سارا جنگل رو رہا ہے، یہ غم پورے وجود کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ درختوں سے پھول آنسوؤں کی طرح ٹپک رہے ہیں، اس غم میں جیسے ساری کائنات سما گئی ہو۔ ایک عجیب و غریب منظر ہے، ایک عجیب و غریب تجربہ ہے۔ فطرت اور انسان کا پُر اسرار بامعنی رشتہ زندگی کا تجربہ بن جاتا ہے۔ بیانیہ کی کیفیت ایسی ہے کہ لگتا ہے زماں و مکاں سے آگے نکلتے جا رہے ہیں، انسان اور فطرت یا نیچر کے اس پُر اسرار رشتے سے جو ’رس‘ (Rasa) پیدا ہوتا ہے یا ٹپکتا ہے وہی آرٹ کا بنیادی جوہر ہے۔ جس طرح راجپوت مصوری کی دوشیزہ اور بادلوں کی جمالیاتی وحدت متاثر کرتی ہے اسی طرح یہاں مرکزی کردار اور وقت کی جمالیاتی وحدت اثر انداز ہوتی ہے، بہت اچھی شاعری اپنے ’رسو‘ سے متاثر کرتی ہے۔
٭
فراقؔ کی جمالیات میں ’وقت‘ عاشق کے تجربوں میں جذب ہے۔ ’شب ‘ یا ’رات‘ وقت کا سب سے اہم معنی خیز استعارہ ہے، جو عموماً وقت کے المیہ کو احساس اور جذبے سے قریب تر کر دیتا ہے۔ حسّی کیفیتوں اور ’شب‘ کی ہم آہنگی سے جو جمالیاتی وحدت پیدا ہوتی ہے، وہ جمالیاتِ فراقؔ کا جوہر ہے۔ فراق اس بات کو خوب جانتے ہیں، کہتے ہیں :
’’رات کی کیفیتیں اور رات کی رمزیت جس طرح میرے اشعار میں فضا باندھتی ہے وہ کہیں اور نہیں ملے گی‘‘ ۔
فراقؔ کے کلام میں شب، شام اور احساس و ادراک (sensation) کی ہم آہنگی اور وحدت سے ایک عمدہ جمالیاتی منظر نامہ (scenario) سامنے آ گیا ہے، جس سے حسّی، حسیاتی (sensory and sensori) سطح پر جذباتی رومانی قدروں کا مطالعہ جمالیاتی انبساط بخشنے لگتا ہے۔
’رات‘، ’شب‘ اور ’شام‘ کے لمحات کے پیش نظر یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :
فراقؔ دیکھ کسی شب گدازِ قلبِ نجوم
چھڑا ہوا ہے سکوتِ ابد کا افسانا
میٹھی نیند میں سونے والے چونک پڑے ان نالوں سے
رات کے رونے والوں نے بھی کیسا درد بھرا ہو گا
مد بھری آنکھوں کی السائی نظر پچھلی رات
نیند میں ڈوبی ہوئی چند کرن کیا کہنا
لہلہاتا ہوا یہ قد، یہ لہکتا جوبن
زلف سو مہکی ہوئی راتوں کا بن کیا کہنا
رات کی رات کبھی میرا گھر
تیرا رین بسیرا ہوتا
دیئے رہو یونہی کچھ اور دیر ہاتھ میں ہاتھ
ابھی نہ پاس سے جاؤ بڑی اُداس ہے رات
یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات
یاد آرہے ہیں عشق کو ٹوٹے تعلقات
یہ رات کے سنگیت کی لے ہے کہ ہوا ہے
وہ زلف شکن زیر شکن کھیل رہی ہے
تاروں کی فضاؤں کو، ہواؤں کو سلا کر
اے رات کوئی آنکھ ابھی جاگ رہی ہے
ہم لوگ ترا ذکر ابھی کر ہی رہے تھے
اے کاکلِ شب رنگ تری عمر بڑی ہے
پلکیں بھاری، السائی نظر اُف رے نیند آنے کا عالم
آنکھوں کے کنول میں رات گئے اِک چندر کرن سو جاتی ہے
سکوتِ شام مٹاؤ بہت اندھیرا ہے
سخن کی شمع جلاؤ بہت اندھیرا ہے
ہر اِک چراغ سے ہر تیرگی نہیں مٹتی
چراغِ اشک جلاؤ بہت اندھیرا ہے
جو یہ گونج سی ہے فضاؤں میں جو لپٹ سی ہے یہ ہواؤں میں
مری شامِ غم کی ہے داستاں کہ یہ بوئے گیسوئے یار ہے
اُف کس آتش کدے سے اٹھتے ہیں
شامِ غم یہ دھواں دھواں بادل
حسن بھی تھا اُداس اُداس، شام بھی تھی دھواں دھواں
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
ان راتوں کے حریم ناز کا اک عالم ہوئے ندیم
خلوت میں وہ نرم انگلیاں بند قبا جب کھولیں ہیں
اے مری شام انتظار، کون یہ آ گیا لیے
زلفوں میں اک شبِ دراز، آنکھوں میں کچھ کہانیاں
رات چلی ہے جوگن ہو کر بال سنوارے لٹ چھٹکائے
جیسے فراقؔ گگن پر تارے، دیپ بجھے ہم بھی سو جائیں
بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم
جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی
شبِ فراق اٹھے دل میں اور بھی کچھ درد
کہوں یہ کیسے تری یاد رات بھر آئی
داستان عشق کی دہرا گئی تاروں بھری رات
کتنی یادوں کے چراغ آج جلے اور بجھے
دوست کی یاد میں رونے کے تم اوقات فراقؔ
مجھ سے جو پوچھتے ہو رات گئے رات گئے
اِکّا دُکّا صدائے زنجیر
زنداں میں رات ہو گئی ہے
دلوں میں داغِ محبت کا اب عالم ہے
کہ جیسے نیند میں ڈوبے ہوں پچھلی رات چراغ
٭
نظموں میں بھی ’شام‘ اور ’شب‘ کا ذکر ملتا ہے مثلاً ’’وہ نرگسِ سیاہ نسیم باز، میکدہ بدوش ہزار مست راتوں کی جولانیاں لیے ہوئے‘‘ ۔ ( شامِ عیادت)
سیاہ پیڑ ہیں اب آپ اپنی پرچھائیں
زمیں سے تامہ و انجم سکوت کے مینار
جدھر نگاہ کریں اِک اتھاہ گم شدگی
اک ایک کر کے فرسودہ چراغوں کی پلکیں
جھپک گئیں جو کھلی ہیں جھپکنے والی ہیں
جھلک رہا ہے پڑا چاندنی کے درپن میں
رسیلے کیف بھرے منظروں کا جاگتا خواب
فلک پہ تاروں کو پہلی جماہیاں آئیں
٭
کھڑا ہے اوس میں چپ چاپ ہر سنگار کا پیڑ
دلہن ہو جیسے حیا کی سگندھ سے بوجھل
یہ موجِ نور یہ بھر پور یہ کھلی ہوئی رات
کہ جیسے کھلتا چلا جائے اک سفید کنول
خنک فضاؤں میں رقصاں ہیں چاند کی کرنیں
کہ آبگینوں پر پڑتی ہے نرم نرم پھوار
یہ موجِ غفلتِ معصوم یہ خمارِ بدن
یہ سانس نیند میں ڈوبی یہ آنکھ مدماتی
اب آؤ میرے کلیجے سے لگ کر سو جاؤ
یہ پلکیں بند کرو اور مجھ میں کھو جاؤ
(آدھی رات)
٭
فضا کا سرمئی رنگ اور ہو چلا گہرا
گھلا گھلا سا فلک ہے دھواں دھواں سی ہے شام
ہے جھٹپٹا کہ کوئی اژدہا ہے مائلِ خواب
سکوتِ شام میں درماندگی کا عالم ہے
رُکی رُکی سی صفیں ملگجی گھٹاؤں کی
اُتار پر ہے سر صحن رقص پیپل کا
وہ کچھ نہیں ہے اب اِک جنبش خفی کے سوا
خود اپنی کیفیت نیلگوں میں ہر لحظہ
یہ شام ڈوبتی جاتی ہے چھپتی جاتی ہے
حجابِ وقت سر سے ہے بے حس و حرکت
رُکی رُکی دلِ فطرت کی دھڑکنیں یک لخت
یہ رنگِ شام کہ گردش ہی آسماں میں نہیں
بس ایک وقفۂ تاریک، لمحۂ شہلا
سما میں جنبشِ مبہم سی کچھ ہوئی فوراً
تلی گھٹا کے تلے بھیگے بھیگے پتوں سے
ہری ہری کئی چنگاریاں سی پھوٹ پڑیں
کہ جیسے کھلتی جھپکتی ہوں بے شمار آنکھیں
عجب یہ آنکھ مچولی تھی نور و ظلمت کی
سہانی نرم لویں دیتے انگنت جگنو
گھنی سیاہ خنک پتّیوں کے جھرمٹ سے
مثال چادرِ شب آب جگمگانے لگے
کہ تھرتھراتے ہوئے آنسوؤں سے ساغر شام
چھلک چھلک پڑے جیسے بغیر سان گمان
بطونِ شام میں ان زندہ قمقموں کی چمک
کسی کی سوئی ہوئی یاد کو جگاتی تھی
وہ بے پناہ گھٹا وہ بھری بھری برسات
دیکھ کے آنکھیں مری بھر آتی تھیں
(جنگو)
فراقؔ نے شب اور ا ٓہنگِ شب سے جو باطنی رشتہ قائم کیا ہے اس سے ان کی شاعری میں بہت دلکش ’میلوڈی‘ پیدا ہوئی ہے، اردو شاعری میں ہجر اور وصل دونوں کے عمدہ جمالیاتی تصورات و تجربات شب اور آہنگِ شب کی دین ہیں۔ ہجر کے اضطراب اس کی کسک اور اس کے المیہ سب میں آہنگِ شب کی لہریں موجود ہیں۔ اسی طرح وصل کے لمحے اور وصل کے بعد کے لمحے آہنگِ شب کی کیفیتوں کو لیے ہوئے ہیں۔ فراقؔ ہجر اور وصل کے کلاسیکی تصورات کے بہت پاس تو ہیں لیکن ان کی حساسیت نے ایک نئی میلوڈی پیدا کر دی ہے، وہ شب اور آہنگ شب کی قدر و قیمت سے واقف ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شب کے لمحوں کا گہرا اثر فنکار کے تاثرات و خیالات پر نظر آتا ہے، آہنگِ شب احساسات و محسوسات میں کوئی مقامات پر جذب ہو جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حسّی تجربے ہوں یا آہنگِ احساسات، شب کے آہنگ میں جذب ہیں، اسی طرح کہ جس طرح آہنگ شب آہنگِ احساسات میں جذب ہے۔ رات کی اپنی لذت ہے، اس کا اپنا حسن ہے، اندھیرے کے حسن کے تئیں عشق ہی زیادہ بیدار نظر آتا ہے۔ بعض مذہبی خیالات میں یہ بات ملتی ہے کہ اللہ نے دن کی روشنی سے رات کو جنم دیا ہے۔ پھر یہ سوال بھی ذہن میں اٹھتا ہے کہ جب روشنی نہیں تھی تو کیا تھا؟ روشنی سے قبل مسلسل اندھیرا تھا؟ بس رات کا تسلسل تھا؟ تاریکی ہی تھی گہری خاموشی لیے۔ کہا جاتا ہے چراغ روشن کیجئے تاریکی گم ہو جاتی ہے، کیا حقیقت یہ نہیں کہ تاریکی کے گم ہو جانے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے، تاریکی تو موجود رہتی ہے، وہ کبھی گم نہیں ہوتی۔ یہ تو روشنی سے جو آتی ہے، تاریکی کب آتی ہے، وہ تو موجود رہتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ رات تمام ذی روح سے حیاتیاتی آہنگ کو قائم رکھتی ہے، خاموشی کی نعمت لیے رات سناٹے کے ساتھ کبھی کبھی سرگوشیوں کے آہنگ سے بھی آشنا کرتی ہے، چاند اور ستاروں سے بھرے آسمان ذہنی اور روحانی سکون بھی دیتے ہیں اور زندگی کے رموز کی گرہیں بھی کھولتے ہیں۔ روحانی اضطراب اور داخلی بے چینی کو شعرا نے یادوں، مسرتوں، اذیتوں اور تکلیفوں کو شب میں جس شدت سے محسوس کیا ہے اس کا اندازہ دنیا کے بعض بڑے شاعروں کے کلام سے ہو جاتا ہے۔
فراقؔ جب شب میں ’’گداز قلب نجوم‘‘ کو محسوس کرتے ہیں تو انہیں لگتا ہے سکوتِ ابد کا افسانہ چھڑا ہوا ہے، جب رات کے رونے والوں کی درد بھری آواز سنائی دیتی ہے تو میٹھی نیند سونے والے چونک پڑتے ہیں۔ یہ رات ہی ہے جس میں محبوب کی مد بھری آنکھیں نیند میں ڈوبی ڈوبی سی، چندر کرن میں تبدیل ہو جاتی ہیں، محبوب کے لہلہاتے ہوئے قد، مہکی ہوئی زلف اور لہکتے جوبن سے راتوں کا خوبصورت پُر اسرار جنگل وجود میں آ جاتا ہے۔ فراقؔ کی شاعری میں عاشق کی یہ آرزو بھی ملتی ہے، کاش میرا گھر کبھی تیرا رین بسیرا ہو جائے۔ عاشق کے وجود کی اُداسی رات کی اُداسی بن جاتی ہے۔ جی چاہتا ہے محبوب کچھ اور دیر ہاتھ میں ہاتھ دیے رہے، پاس سے نہ اٹھے، وجود کی اُداسی اور رات کی اُداسی کو علیحدہ نہیں کر سکتے، پروجکشن کی ایک خوبصورت تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ شب میں خوشبوؤں کی نرم روی عشق کو ٹوٹے تعلقات کی یادوں تک لے جاتی ہے، یہ وہی رات ہے جس کے سنگیت کی لے زلف شکن زیر شکن کھیلتی دکھائی دینے لگتی ہے۔ لگتا ہے جیسے ہوا چل رہی ہو۔ دراصل یہ رات کے سنگیت کی لے ہے، آہنگ شب کا کرشمہ ہے، جب شب میں تمام تارے اور ہوائیں سو جاتی ہیں تو اس سناٹے میں عاشق کی آنکھ جاگ رہی ہوتی ہے۔ یادوں کا سلسلہ قائم ہو جاتا ہے۔ فراقؔ نے شب اور آہنگ شب کو وجود کا حصہ بنا کر حسنِ شب کا ذکر مختلف انداز سے کیا ہے، جمالِ شب کی کئی جہتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک جہت یہ ہے:
ان راتوں کے حریمِ ناز کا اک عالم ہوئے ندیم
خلوت میں نرم اُنگلیاں وہ بند قبا جب کھولیں ہیں
اور دوسری جہت یہ ہے:
جو یہ گونج سی ہے فضاؤں میں لپٹ سی ہے یہ ہواؤں میں
مری شامِ غم کی ہے داستاں کہ یہ بوئے گیسوئے یار ہے
ایک جہت یہ ہے:
بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم
جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی
شب فراق اٹھے دل میں اور بھی کچھ درد
کہوں یہ کیسے تری یاد رات بھر آئی
اور دوسری جہت یہ ہے:
اِکّا دُکّا صدائے زنجیر
زنداں میں رات ہو گئی ہے
’رات‘ وجود کا حصہ ہے، جمالِ شب کی تابناکی ’یادوں ‘ میں سحر انگیز کیفیت پیدا کرتی ہے، جنسی اضطراب اور جنسی تجربے، جذباتی سوز و ساز، احساسات کی عمدہ صورت گری، ہجر کا درد، وصل کا تجربہ سب ’شب‘ اور آہنگِ شب سے وابستہ ہیں۔ لہجے کا بانکپن لیے ہجر اور وصل دونوں کے تجربے رات کی سیاہی میں عجیب چمک دمک پیدا کرتے ہیں۔ وصل کے بعد جمال کی دوشیزگی میں نکھار شب ہی کا کرشمہ ہے۔ اسی طرح ’’سو سو ہاتھوں سے تھامنے‘‘ کا تجربہ شب کے سحر انگیز لمحوں کی دین ہے۔ شب اور آہنگِ شب کے شعری تجربوں میں ارضیت اور لذّتیت کے شہد کی مٹھاس ملتی رہتی ہے۔
اپنی اس بات کی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں کہ فراقؔ کی جمالیات میں جب حسّی کیفیتیں آہنگ شام و شب پر اثر انداز ہوتی ہیں تو وہ اس آہنگ کو اس طرح جذب کر لیتی ہیں کہ آہنگ شام و شب فنکار کے وجود کا حصہ بن جاتا ہے۔ وجود پر اُداسی ہے تو شام و شب بھی اُداس ہیں، وجود میں سرمستی ہے تو شام و شب کا آہنگ بھی مست مست ہے۔ یہ اشعار توجہ چاہتے ہیں :
یہ سانس لیتی ہوئی کائنات، یہ شبِ ماہ
یہ پُر سکوں یہ پُر اسرار یہ اُداس سماں
یہ نرم نرم ہواؤں کے نیلگوں جھونکے
فضا کی اوٹ میں مردوں کی گنگناہٹ ہے
یہ رات موت کی بے رنگ مسکراہٹ ہے
دھواں دھواں سے مناظر تمام نم دیدہ
خنک دھندلکے کی آنکھیں بھی نیم خوابیدہ
ستارے ہیں کہ جہاں پر ہے آنسوؤں کا کفن
حیات پردۂ شب میں بدلتی ہے پہلو
کچھ اور جاگ اٹھا، آدھی رات کا جادو
(آدھی رات)
ممتاز مصور Vincent Van Gogh نے کہا تھا: ’’میں اکثر سوچتا ہوں کہ رات دن سے زیادہ زندہ اور مختلف گہرے رنگوں کو لیے ہوتی ہے‘‘ ۔ اس کی تصویروں میں اکثر محسوس ہوتا ہے جیسے رات ابدی حسن کے اسرار لیے سرگوشی کر رہی ہے۔ شب کی عطا کی ہوئی تاریکی جتنی گہری اور پُر اسرار ہوتی ہے اُتنی دن کی روشنی نہیں ہوتی۔ دن کی روشنی میں تہہ داری کہاں جو رات کی تاریکی میں ہے۔ شب کے اسرار اور اس کی تاریکی سے جو جمالیاتی لذت اور انبساط حاصل ہوتا ہے وہ روح میں جان پرور کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ فراقؔ کہتے ہیں :
بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم
جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی
پھر رات گئے بزمِ انجم
روداد تری دُہرانے لگی
اِک عالم شبِ تاب ہے بل کھائے لٹوں میں
راتوں کا کوئی بن ہے کہ کاکلِ پیچاں
جو یہ گونج سی ہے فضاؤں میں جو لپٹ سی ہے یہ ہواؤں میں
مری شامِ غم کی ہے داستاں کہ یہ بوئے گیسوئے یار ہے
صحبتِ شب کی داستاں اسی میں سمٹ کے آ گئی
پچھلے پہر کو بزم میں شمع کی تھرتھری تو دیکھ!
غالب ؔکا ایک معنی خیز شعر ہے:
در ہجومِ ظلمت از بس خویش را گم می کند
قطرہ در دریا ست گوئی سایہ در شب ہائی من
(غالبؔ)
یعنی میری راتیں اتنی گہری ہو گئی ہیں کہ سائے کی حالت وہی ہو گئی ہے جو قطرے کی سمندر میں ہوتی ہے، سایہ راتوں کی گہری تاریکی میں گم ہو جاتا ہے، جذب ہو جاتا ہے، دکھائی نہیں دیتا، یعنی گہری تاریک راتیں خود پھیل کر سایہ بن گئی ہیں۔ سایہ تاریکی کے وجود کا حصہ بن جاتا ہے۔ غالبؔ کی جمالیات میں بھی راتیں وجود کا حصہ ہیں، حد درجہ پھیلی ہوئی گہری، سایہ کی تلاش ممکن نہیں ہے۔ غالبؔ کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:
روز از تیرگی آن وسوسہ ریزد بنظر
کہ شبِ تار بہ ہنگام فرد برون شمع
منظر یہ ہے کہ دن بھی تاریک ہو گیا ہے۔ تاریکی اتنی گہری ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے سیاہ رات اور پھیلے گی اور گہری ہو جائے گی اور شمع ہی کو نگل جائے گی، شمع ہی بجھ جائے گی اور تاریکی کا وجود اور پھیل جائے گا۔
وقت نے دن کو بھی تاریک کر دیا ہے، دن بھی تاریک، شب بھی تاریک، ایک ہی آہنگ ہے وقت کا، چراغ کہاں کہ شام کو تلاش کروں :
گشتہ در تاریکی روز نہاں
کو چراغی تا بجویم شام را
(غالبؔ)
حالیؔ نے اس شعر کو اس طرح سمجھایا ہے کہ میرا دن اس قدر تاریک تھا کہ شام کی تاریکی اور اس کی تاریکی دونوں مل گئیں اور یہ نہ معلوم ہوا کہ شام کب ہوئی اور دن کب چھپا۔
میں نے ’’امیر خسرو کی جمالیات‘‘ میں امیر خسروؔ کو ’’بدن کی بھاشا‘‘ کا شاعر بھی کہا ہے۔ ان کا یہ شعر یاد کیجئے، یہ بھی شب کا تجربہ ہے:
بیاد بند قبا باز کن ومے بہ نشیں
کہ عشق بردل من چوں قبائے تو تنگ است
آؤ، بند قبا کھول کے دم بھر کو بیٹھ جاؤ، جیسے تمہارے بدن پر قبا تنگ ہے، اسی طرح میرے دل پر عشق چست ہے۔ ایک طرف جسم قبا سے باہر نکلنا چاہتا ہے اور دوسری طرف عشق کا جوش سینے سے باہر آنا چاہتا ہے۔ محبوب کا جسم اور عاشق کے ہیجانات دونوں مل کر اس تجربے کو انتہائی دل فریب اور پُر کشش بنا دیتے ہیں۔ غالبؔ کا یہ خوبصورت لذّت آمیز شعر بھی توجہ چاہتا ہے:
بخوابم می رسد بند قبا وا کردہ از مستی
ندانم شوقِ من بروی چہ افسون خواندہ است امشب!
مجبوب مستی میں بند قبا کھولے مجھے خواب میں نظر آیا، معلوم نہیں میرے شوق وصل نے آج شب اس پر کیا جادو کر دیا ہے۔
فراق کا یہ شعر یاد کیجئے:
ان راتوں کے حریمِ ناز کا اِک عالم ہوئے ندیم
خلوت میں وہ نرم انگلیاں بند قبا جب کھولیں ہیں
فارسی اور اردو شاعری میں آہنگِ شام و شب کے لیے جانے کتنے جمالیاتی تجربے مختلف رسوں کے ساتھ موجود ہیں، کہیں گہرے غم اور اضطراب کی کیفیت ہے، کہیں شادمانی اور مسرت کی، کہیں یادوں کی لطیف سرسراہٹیں ہیں، کہیں وصل کی آرزو۔ اپنے آہنگ کی مختلف کیفیتوں کو لیے تاریکی اور گہرے اندھیرے میں چمکتے تاروں کے قمقمے سجے ہوئے ہیں۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
غمِ فراق کی تنہائیوں کی آہٹ پر
کشاں کشاں چلے آؤ بہت اندھیرا ہے
(فراقؔ)
ہر اک چراغ سے ہر تیرگی نہیں مٹتی
چراغِ اشک جلاؤ بہت اندھیرا ہے
(فراقؔ)
پسِ گناہ جو ٹھہرے تھے چشم آدم میں
ان آنسوؤں کو بہاؤ بہت اندھیرا ہے
(فراقؔ)
اُف کس آتش کدے سے اٹھتے ہیں
شامِ غم یہ دھواں دھواں بادل
(فراقؔ)
٭
فراقؔ کی جمالیات دو ’آرچ ٹائپس‘ (archetypes) کے تحرک کا احساس بار بار ملتا ہے ’رات ‘ اور ’عورت‘!
دونوں فراقؔ کی ’سائیکی‘ (Psyche) میں اترے ہوئے ہیں اور ان کی جمالیات میں مختلف رنگوں اور جہتوں کے ساتھ نمایاں ہوتے رہتے ہیں، ان کی وجہ سے شاعر کا وجود رقص کرتا ہوا ملتا ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں فنکار کے وجود کے رقص کو ایسا ’نرتن‘ (Nirtan) کہا گیا ہے جس سے حسن کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے دنیا کی تخلیق موسیقی سے ہوئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ جلال و جمال کا اظہار یا حسن کا ظہور (manifestation of beauty) ہوتا رہا ہے۔ جب روح رقص کرنے لگتی ہے تو زندگی کا ہر لمحہ ایک معجزہ بن جاتا ہے، باطن کی گہرائی اور بلندی کو کوئی چھو نہیں سکتا، باطن کی شعاعوں سے ان کا رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔ نغماتی اظہار شدت سے متاثر کرنے لگتا ہے۔ فراقؔ کے دونوں ’آرچ ٹائپس‘ جو Rhythm of Bliss عطا کرتے ہیں اردو شاعری میں منفر حیثیت رکھتے ہیں۔ حسن کے ظہور یا manifestation of beauty کی حیرت انگیز حسّی صورت غالبؔ کے کلام میں اس طرح ابھرتی ہے کہ عکسِ جمالِ دوست سے شراب میں عجیب چمک دمک پیدا ہو جاتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے جیسے پیالے میں آفتاب کے تمام جلال و جمال اور تمام رسوں کو نچوڑ دیا گیا ہے:
نازم فروغ بادہ زعکسِ جمالِ دوست
گوئی فشرددہ اند بجام آفتاب را
(غالبؔ)
اور فراقؔ کے کلام میں حسن کے ظہور کی حیرت انگیز اور پُر اسرار حسی صورت اس طرح سامنے آتی ہے:
ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی!
(فراقؔ)
دونوں اشعار میں الوہی آہنگ (Divine Rhythm) لیے رنگوں کی سمفنی (Symphony) کی پہچان ہوتی ہے۔ آفتاب رنگ و آہنگ کی ایک تہہ دار معنی خیز علامت ہے اور وصل کے بعد محبوب کا جسم الوہی شعاعوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ انسانی حسن اور الوہی شعاعوں کی عجیب و غریب آمیزش ہے، جس سے جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ فراقؔ کی جمالیات کی سطح بھی بلند ہو جاتی ہے۔
فراقؔ کی جمالیات میں عورت، اس کا جسم، اس کا پورا وجود جمالِ کائنات کا نقش ہے۔ ’رسو‘ سے بھرا ہوا، انتہائی لذت آمیز، عورت الوہی حسن (Divine Beauty) میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس عمل میں ’سیکس‘ کی لہروں (waves) کی شدت موجود رہتی ہے۔
ہندوستانی جمالیات میں، جمالیات کے لیے ’سوندریا‘ (saundarya) کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جو گہری اور معنی خیز ہے۔ سندریا لہری سے مراد الوہی حسن کی لہریں اور موجیں ہیں۔ ’سوندریا‘ کی جانے کتنی جہتیں اور پہلو ہیں، انسان کی فطرت میں ستیم (Satyam)، ’شیوم‘ (Shivam) اور ’سندرم‘ (Sundaram) کی صفات ہیں، سچائی، سکون و استقلال، معصومیت اور حسن! اچھی اور بڑی تخلیق میں یہ صفات موجود رہتی ہیں، ’سندرم‘ کی لہریں اٹھتی ہیں تو ’ستیم‘ اور ’شیوم‘ دونوں کا احساس بخشتے ہوئے، جمالیاتی انبساط عطا کرنے لگتی ہیں۔ ہندوستانی جمالیات میں اسے ’سواندر آنند‘ (Saundarananda) کہا گیا ہے۔ تینوں صفات ہی کے تحرک سے وہ ’وژن‘ پیدا ہوتا ہے کہ جس سے بڑی تخلیق وجود میں آتی ہے۔ یہ احساسِ حسن ہی ہے جس سے خارج اور باطن کے آہنگ کی خوبصورت آمیزش ہوتی ہے اور حسن کی نئی تخلیق ہوتی ہے۔ نئی میلوڈی پیدا ہوتی ہے، اس کی گہرائی (depth) کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مادّی اور الوہی حسن کی ہم آہنگی قاری کو گہرائیوں میں لے جاتی ہے جہاں محسوسات کی دنیا ہی ملتی ہے۔ ’عورت‘ جو ’سوندریا‘ کی سب سے گہری اور تہہ دار علامت ہے احساسات کی دنیا میں مختلف صورتوں اور پیکروں میں ابھرتی رہتی ہے۔ فراقؔ احساسات کی دنیا کے سب سے بڑے فنکار غزل گو ہیں، احساسات کی موجوں سے ’سائیکی‘ کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے کئی پیکروں کی تصویریں سامنے آتی ہیں۔ مختلف احساس کی پیکر تراشی کے ساتھ اسلوب کے وقار اور لذت سے ’سوندر آنند‘ (Saundarananda) یا جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا رہتا ہے۔ ’سوندریا لہری‘ کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے، حسن کی ایک لہر کے بعد دوسری لہر دیکھئے کس طرح اٹھتی ہے، ایک موجِ رنگ کے بعد دوسری موجِ رنگ کس طر اٹھتی ہے:
خرام، جیسے گگن کھیلتی ہوئی موجیں
قیام، حسن کا ٹھہرا ہوا کوئی دریا
حریمِ ناز میں اِک بے صدا ترنم ہے
نگاہِ ناز یہ تیرا سکوت نغمہ سرا
رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا
کروٹیں لیتی ہوئی صبحِ چمن کیا کہنا
مد بھری آنکھوں کی السائی نظر پچھلی رات
نیند میں ڈوبی ہوئی چندر کرن کیا کہنا
رُوپ سنگیت نے دھارا ہے بدن کا یہ رچاؤ
تجھ پہ لہلوٹ ہے بے ساختہ پن کیا کہنا
لہلہاتا ہوا یہ قد، یہ لہکتا جوبن
زلف سو مہکی ہوئی راتوں کا بن کیا کہنا
تری آواز سویرا، تری باتیں تڑکا
آنکھیں کھل جاتی ہیں اعجاز سخن کیا کہنا
نیلگوں شبنمی کپڑوں میں بدن کی یہ جوت
جیسے چھنتی ہو ستاروں کی کرن کیا کہنا
پیامِ حسن، پیامِ جنوں، پیامِ فنا
تری نگہ نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا
دہنِ یار یاد آتا ہے
غنچہ اک مسکرائے جاتا ہے
پیکرِ ناز کی دمک، جیسے
کوئی دھیمے سُروں میں گاتا ہے
یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ
ترے خیال کی خوشبو سے بس رہے ہیں دماغ
دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جھلملا اُٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ
وہ چھپ کے تاروں کی آنکھوں سے پاؤں دھرتا ہے
اسی کے نقشِ کفِ پاس ے جل اٹھے ہیں چراغ
اس الاپ کا یہ شعلہ جسے سازِ زیست کھینچے
تجھے کیا بتاؤں کیا ہے تری قامت کشیدہ
یہ رنگ و بوئے بدن سے کہ جیسے رہ رہ کر
قبائے ناز سے کچھ شعلہ سا لپک جائے
ایسے اشعار اور مختلف رسوں کو لیے ایسے جانے کتنے ’سراپا‘ شاعر کے تحت الشعور کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے ’آنند سمادھی‘ (Ananda-Samadhi) کے تجربے سے آشنا کرنے لگتے ہیں، یعنی ایسے تجربوں سے کہ جن میں مراقبے کا جوہر موجود ہوتا ہے۔
’کام دیو‘ کے تیر میں پانچ خوشنما پھول ہوتے ہیں، جو حواسِ خمسہ میں چبھ جاتے ہیں۔ بڑی اور پُر عظمت عشقیہ شاعری میں پانچوں حواس میں چبھے ہوئے صرف پھول ہی دکھائی نہیں دیتے بلکہ ان کی خوشبوؤں سے بھی وجود اور پوری فضا معطر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اچھی پُر عظمت عشقیہ شاعری قاری کے باطن میں حسن کی ایک لہر سی پیدا کر دیتی ہے، ایک موج سی اٹھتی ہے اس کو ’سندریا لہری‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بڑی اور پُر عظمت شاعری میں یہ لہر، یہ موج غیر معمولی ہوتی ہے۔
گہرے احساس حسن سے جو لہریا موج اٹھتی ہے، اس سے کبھی جھرجھری سی پیدا ہوتی ہے اور کبھی ہیجان انگیز کیفیت، جذبات کی تیز لہر سے کبھی ایسی پھریری پیدا ہوتی ہے کہ رگیں متاثر ہونے لگتی ہیں، حسن کے گہرے احساس سے ایک ’تھرِل‘ (Thrill) کبھی کبھی گرفت میں لے لیتی ہے اور پھر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ عشقیہ شاعری چاہے تو سوئے ہوئے شعور اور تحت الشعور کو جگا دے۔ چاہے تو حد درجہ خوشی بخشے اور وجد آفریں کیفیت طاری کر دے اور چاہے تو گہرے مراقبے کے سحر میں گرفتار کر لے۔ اچھی، عمدہ اور پُر عظمت عشقیہ شاعری روحانی پرواز کا احساس بخشتی ہے، وجود کو رقص کرنے پر مجبور کر دیتی ہے بنیادی مقصد جمالیاتی انبساط بخشنا ہوتا ہے۔ عشقیہ شاعری کے تعلق سے ایک بڑی بات یہ ہے کہ تخلیقی فنکار خود اپنی الوہی سطح کے پاس پاس آ جاتا ہے اور حسن کی لہروں میں جذب ہو جاتا ہے۔
٭
’یونیورسٹی آف لیڈ‘ کے ایک معروف سائنسداں Beverley Glover نے یہ انکشاف کیا ہے کہ پھولوں کے باطنی حسن کو صرف شہد کی مکھیاں ہی دیکھ سکتی ہیں۔ گلوور نے پھول پودوں پر جو کام کیا ہے، وہ معلوماتی ہے۔ ان کی تحقیق یہ ہے کہ پھول اندر ہی اندر پُر اسرار طور پر رنگ بدلتے رہتے ہیں کہ جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے، انہیں شہد کی مکھیاں اور بھونرے دیکھ لیتے ہیں۔ رَس چوسنے کے لیے اندر داخل ہو جاتے ہیں، پھولوں کی پتیوں پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو اندر باہر کئی رنگوں کی شعاعیں ابھرتی ہیں جن سے پھولوں کے اندر رنگوں کی تبدیلی کی پہچان شہد کی مکھیوں اور بھونروں کو ہو جاتی ہے اور وہ مستی میں اپنے آہنگ کے ساتھ اندر اُترنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے نغموں کا آہنگ پھولوں کے باطن میں اترنے لگتا ہے۔ بڑے تخلیقی فنکار کا ’وژن‘ بھی اسی طرح سن کی گہرائیوں میں اُترتا ہے۔ جمالیاتی تجربے اسی ’وژن‘ کے کرشمے ہوتے ہیں، جو باطن کا آہنگ لیے ہوئے ہیں۔ روحانی آہنگ کا احساس دیتے رہتے ہیں پہلے وہ نگاہ اِک کرن تھی اب یک جہاں ہو گئی ہے، کا معاملہ ہو جاتا ہے۔
یہ جمالیاتی ’وژن‘ ہی کا کرشمہ ہے:
عالم عالم جمال تیرا
دنیا دنیا ترا بدن ہے
کیا کیا آتا ہے میرے جی میں
کیسا کیسا ترا بدن ہے
صحرا صحرا مری محبت
دریا دریا ترا بدن ہے
جیسے پردے میں راگنی ہو
یوں زیرِ قبا ترا بدن ہے
میں نیند میں ہوں کہ جاگتا ہوں
اک خواب ہے یا ترا بدن ہے
ہر عضو ہے اعترافِ صنعت
تعریف و ثنا ترا بدن ہے
جس کی فطرت کو تھی تمنا
وہ نشو و نما ترا بدن ہے
نکلی تھی جو رحمتوں کے دل سے
پیارے وہ دُعا ترا بدن ہے
اُمڈا ہوا سیلِ رنگ و نکہت
کیا موج نما ترا بدن ہے
گونجے ہوئے نا شنیدہ نغمے
اِک سازِ حیا ترا بدن ہے
چھائی کیفیتوں کی مانند
گھنگھور گھٹا ترا بدن ہے
جیسے کوندا لپکنے کے قبل
ٹھہرا ٹھہرا ترا بدن ہے
جیسے یوں خواب گیت بن جائے
شاعر کی نوا ترا بدن ہے
تو اور یہ خاکدانِ دنیا
جنت کی خطا ترا بدن ہے
عالم کا جمال قدِ آدم
آئینہ نما ترا بدن ہے
مانند نسیم صبح گاہی
سیدھا ٹیڑھا ترا بدن ہے
گم سم ہے فراقؔ محوِ دیدار
حیرت کی سدا ترا بدن ہے
’عورت‘ کے بدن میں جیسے ساری کائنات کے جلوے سمٹ آئے ہوں، عورت کا وجود ایک کائنات ہے۔ ’بدن‘ نیچر کی سب سے خوبصورت علامت ہے، عجیب پُر اسرار کشش ہے اس میں، اسے کسی طرح سمجھانے کے لیے دنیا کی جانے کتنی علامتوں اور جانے کتنے استعاروں کا سہارا لینا پڑا ہے اس لیے کہ:
عالم کا جمال قدِ آدم
آئینہ نما ترا بدن ہے
جنسی عمل اور عورت کے تعلق سے اردو کے کسی شاعر نے کوئی بڑا تجربہ پیش نہیں کیا ہے۔ ان کے لیے ممکن بھی نہ تھا، اس پُر اسرار جمالیاتی تجربے کو پیش کرنا کب آسان تھا۔ فراقؔ میں یہ صلاحیت تھی۔ انہوں نے زیادہ نہیں کہا لیکن جتنا بھی کہا بہت ہے:
ہے لوچ بلور میں کہ پیکر کا رچاؤ
میخانے کو نیند آئے وہ آنکھوں کا جھکاؤ
جس طرح کمانیوں میں پڑ جائے جان
دیکھے کوئی پنڈلی کا گداز اور تناؤ
پنڈلی میں لہکتا ہوا جیسے کوندا
ٹخنے ہیں کہ پرتوے عطارد ہے کھڑا
ہے پاؤں کہ ٹھہری ہوئی بجلی میں ہے لوچ
تلوے ہیں کہ سیماب میں سورج کی ضیا
رنگ تری کچھ اور نکل آتی ہے
یہ آن تو حوروں کو بھی شرماتی ہے
کٹتے ہی شبِ وصال ہر صبح کچھ اور
دوشیزگیِ جمال بڑھ جاتی ہے
چہرہ دیکھے تو رات غم کی کٹ جائے
سینہ دیکھے تو امنڈا ساگر ہٹ جائے
سانچے میں ڈھلا ہوا یہ شانہ یہ بغل
جیسے گلِ تازہ کھلتے کھُلے پھٹ جائے
کھنچنا ہے عبث بغل میں بانہوں کو تولے
کھو جانے کا ہے وقت تکلف نہ رہے
ہنگامِ وصال، کر سنبھلنے کی نہ فکر
سو سو ہاتھوں سے میں سنبھالے ہوں تجھے
٭
’’آنکھوں کے جھکاؤ میں ہے خلوت کی اُمنگ، سینے کے تناؤ میں پکھاوج کی ترنگ، لہراتے ہوئے بدن پہ پڑتی ہے جب نگاہ، رس کے ساگر میں ڈوب جاتی ہے نگاہ، وہ ہونٹ کہ چوسنے کو ساگر ترسے/ ہونٹوں میں وہ رس کی جس پہ بھنورا منڈلائے، وہ روپ کی موہنی، وہ چہرے کا نکھار، وہ کولہے بھرے بھرے، وہ سینے کا ابھار‘‘ ۔
’’ہنگامِ وصال پینگ لیتا ہوا جسم، سانسوں کی شمیم اور چہرہ گلنار، رقصاں شعلہ ہے، لچکی لچکی سی کمر، کندل پر کنول ہے یا دمکتا پیڑو، کچھ سوچ کے خلوت میں بعد ناز اس نے، نرم انگلیوں سے بند قبا کے کھولے فراقؔ کی جمالیات میں جانے کتنے رس ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں، ہر رَس کی اپنی لذّت، اپنی مٹھاس ہے۔ فراقؔ کی لمسیاتی کیفیتوں کی یہ شاعری ’سوندرانند‘ (Saundara Ananda) بخشتے ہوئے بڑی بلندیوں پر چلی جاتی ہے اور بہت گہرائی میں اُتر جاتی ہے۔ جس طرح شہد کی مکھیاں اور بھنورے پھولوں کے اندر، بہت اندر باطنی حسن کا نظارہ کر لیتے ہیں۔ شاعر بھی کم و بیش اسی طرح خارج سے باطن کے اندر رسوں میں اترنے کی کوشش کرتا ہے:
کیا کیا آتا ہے میرے جی میں
کیسا کیسا ترا بدن ہے
جیسے پردے میں راگنی ہو
یوں زیر قبا ترا بدن ہے
ہر عفو ہے اعترافِ صنعت
تعریف و ثنا ترا بدن ہے
اُمڈا ہوا سیلِ رنگ و نکہت
کیا موج نما ترا بدن ہے
کلام میں وجد آفریں لہجے میں جو حسیاتی سوز و ساز ہے، نرمی اور مانوسیت اور معنویت، حیرت و استعجاب اور وجدانی محویت اپنی مثال آپ ہے۔ فراقؔ نے اس سچائی کی جانب خود اشارہ کیا ہے کہ جس سے ان کے ’وژن‘ کی حسّی اور جمالیاتی کیفیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
وہ لکھتے ہیں :
’’جنسی کشش اور جنسی رجحانات میں جب تک جذباتی پائندگی، جذباتی سوز و ساز، نرمی، مانوسیت اور معصومیت، حیرت و استعجاب، سپردگی، وجدانی محویت اور ایک احساسِ طہارت کے عناصر گھل مل نہیں جائیں گے، اس وقت تک تخیل میں وہ حلاوت اور وہ عنصری طہارت پیدا نہ ہو گی جو بلند پایہ عشقیہ شاعری کو جنم دیتی ہے‘‘ ۔ (اردو کی عشقیہ شاعری کی پرک فراق)
ہندوستانی جمالیات کے مطابق تخلیقی تخیل اور تخلیقی ذہن کے تحرک میں خارجی اور مادّی حسّی تجربے (anna) اور ذہنی کیفیات (masomaya) کی وجہ سے چراغاں کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ معروف بدھ مفکر اور معلّمِ جمالیات اشوگھوش (Asvaghosa) نے کہا ہے کہ خارجی (adhibhautika) اور داخلی (نفسیاتی) (adhyatmika) تجربوں کی آمیزش سے تخلیقی فنکار کا ذہن روشن ہوتا ہے۔ دراصل اشارہ’ وژن‘ کی جانب ہے۔ اسی روشنی کی وجہ سے جو ادب پیدا ہوتا ہے وہ سرور بخشتا ہے۔ فراقؔ کا ’وژن‘ جو خارجی اور مادی حسی تجربوں اور ذہنی اور نفسیاتی کیفیتوں کی آمیزش اور جمالیاتی وحدت کا نتیجہ ہے، بڑی گہرائیوں میں اُتر جاتا ہے، عورت کائناتی حسن کا پیکر بن جاتی ہے، اس کا بدن جو رس میں ڈوبا لہراتا بدن ہے ’سیکس‘ کی تازگی اور لذت کا اس قدر احساس بخشتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ کیسا کیسا ترا بدن ہے:
کیا کیا آتا ہے میری جی میں
کیسا کیسا ترا بدن ہے
اور:
ہر عفو ہے اعترافِ صنعت
تعریف و ثنا ترا بدن ہے
فراقؔ نے فطرت کے جلال و جمال کو عورت کے بدن میں جذب کر دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے:
رَس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا
کروٹیں لیتی ہوئی صبحِ چمن، کیا کہنا
باغِ جنت پہ گھٹا جیسے برس کر کھل جائے
سوندھی سوندھی تری خوشبوئے بدن کیا کہنا
روپ سنگیت نے دھارا ہے بدن کا یہ رچاؤ
تجھ پہ لہلوٹ ہے بے ساختہ پن کیا کہنا
قبا میں جسم ہے یا شعلہ زیر پردۂ ساز
بدن سے لپٹے ہوئے پیرہن کی آنچ نہ پوچھ
تمام بادِ بہاری، تمام خندۂ گل
شمیمِ زلف کی ٹھنڈک، بدن کی آنچ نہ پوچھ
دم بہ دم شبنم و شعلہ کی یہ لویں
سر سے پا تک بدن گلستاں گلستاں
٭
ہندوستانی جمالیات میں ’مہاسکھ‘ (Mahasukha) کی اصطلاح سے جمالیاتی انبساط کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ اصطلاح بہت قدیم ہے، انسان کے مختلف جنموں سے آسودگی پانے کے تصور سے اس کا رشتہ رہا ہے۔ بدھ مفکر اور معلم جمالیات اشوگھوش (Asvaghosa) نے فنّی تخلیق سے جمالیاتی انبساط پانے کی جانب اشارے کرتے ہوئے اس اصطلاح ’مہاسکھ‘ کا استعمال کیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اچھی تخلیق سے اسی نوعیت کا انبساط (Pleasure) حاصل ہوتا ہے، جس نوعیت کا انبساط ’یوگ اور سیکس‘ کی ہم آہنگی کے تجربے (Sexo-Yogic experience) سے ہوتا ہے۔ اشوگھوش نے ’سیکسویوگک‘ مسرت یا انبساط کو بڑی بلندیوں پر دیکھا ہے، اس کے نزدیک اچھا اور بڑا ادب وہی ہے جو ان بلندیوں تک جائے اور Sexo-Yogic Pleasure بخشے۔ بلاشبہ فراقؔ صاحب عورت کے جسم اور اس کے وجود کی خوشبوؤں کو لیے بلندیوں کی جانب بڑھتے نظر آتے ہیں، ’مہاسکھ‘ عطا کرنے کی تخلیقی خواہش بھی معمولی حیثیت نہیں رکھتی۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ عام جنسی مسرت کو جذبات کی بلندیوں اور گہرائیوں تک لے جاتے ہیں، عورت کا بدن سامنے ہوتا ہے، آنکھیں سامنے ہوتی ہیں، ہونٹ سامنے ہوتے ہیں، حسن کے تمام نقش سامنے ہوتے ہیں اور شاعر کا ’وژن‘ اندر گہرائیوں میں اُتر کر جمالِ وجود کا احساس دیتا رہتا ہے۔ عورت کے بدن کو مستیوں کی جان اور ایک خمارستان کہتے ہوئے اسے سرمدی فن کا کوئی شاہکار تصور کرتے ہیں، فرماتے ہیں :
خود خبر اس کو نہیں کیا چیز ہوں
کس قدر انجان ہے تیرا بدن
راز اندر راز ہے یہ زندگی
اس کی اِک پہچان ہے تیرا بدن
قبا میں جسم ہے یا شعلہ زیر پردۂ ساز
بدن سے لپٹے ہوئے پیرہن کی آنچ نہ پوچھ
یہ سر سے تا بہ قدم محویت کا عالم ہے
کہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے جیسے بدن
گہوارۂ صد بہار، ہر موجِ نفس
یہ رنگِ نشاط تیرے ہاتھوں کا ہے حبس
نظریں ہیں کہ رہ رہ کے نہا اٹھتی ہیں
ہر عضو بدن سے وہ چھلکتا ہوا رَس
٭
عرصہ ہوا کہیں پڑھا تھا کہ تبّتی زبان میں ایک اصطلاح ہے’ یب-یم‘ (Yab-Yam) جس کے معنی یہ ہیں کہ مرد عورت کے بدن ہی سے اپنی سچی زندگی شروع کرتا ہے، اس کی روحانی زندگی کی ابتدا بھی عورت کے جسم کے ذریعہ ہوتی ہے۔ روحانی سفر ہی میں اسے محسوس ہوتا ہے کہ عورت ایک مختلف وجود ہے کہ جس میں مٹی کی سچی خوشبو، پراسرار حرارت اور ہوا کی طرح پھیلنے کی صلاحیت اور مرد کو آکاش یا مکاں تک کھینچ لے جانے کی طاقت ہے۔
٭٭٭