FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

عورت(۱)

پریم چند کے رومانی ذہن نے صنم کدہ خلق کیا ہے۔ اس میں عورت کے مختلف و متحرک پیکر ملتے ہیں۔ ’عورت‘ کی نفسیات کی باریکیوں پر نظر ملتی ہے۔ افسانوں میں نرگسی عورتیں بھی ہیں اور شاداب محبت سے سرشار لڑکیاں بھی۔شادی شدہ عورتوں کی ’بت پرستی‘ بھی ملتی ہے اور بیوہ عورتوں کی ویران زندگی بھی۔ طوائفیں بھی ہیں اور نفسیاتی کشمکش میں گرفتار لڑکیا ں بھی۔ شوہر، بیوی اور ماں، بیٹے کے رشتوں کے مختلف پہلو نمایاں ہوئے ہیں۔ خود فریبی میں گرفتار عورتوں کی زندگی بھی پیش ہوئی ہے۔

نرگسیت(Narcissism)کی واضح مثالیں بھی موجود ہیں، مثلاً:

’’کہیں آئینہ ملتا تو وہ ذرا اپنی صورت بھی دیکھتی۔ گھر سے چلتے وقت اس نے اپنی صورت دیکھی تھی۔ اسے چمکانے کے لیے جتنا صیقل کر سکتی تھی وہ کیا تھا لیکن اب وہ صورت جیسے یادداشت سے مٹ گئی ہے۔ اس کی محض ایک دھندلی سی پرچھائیں ذہن میں ہے۔ اسے پھر سے دیکھنے کے لیے وہ بے قرار ہو رہی ہے۔ یوں تو اس کے ساتھ میک اَپ کے لوازمات کے ساتھ آئینہ بھی ہے لیکن مجمع میں وہ آئینہ دیکھنے یا بناؤ سنگار کرنے کی عادی نہیں ہے۔ یہ عورتیں دل میں خدا جانے کیا سمجھیں، یہاں کوئی آئینہ تو ہو گا ہی۔

ڈرائنگ روم میں تو ضرور ہو گا، وہ اٹھ کر ڈرائنگ روم میں گئی اور قد آدم شیشہ میں اپنی صورت دیکھی۔اس کے خدوخال بے عیب ہیں مگر وہ تازگی، وہ شگفتگی وہ نظر فریبی نہیں ہے۔ رام دلاری آج کھلی ہے اور اسے کھلے زمانہ ہو گیا لیکن اس خیال سے اسے تسکین نہیں ہوئی۔ وہ رام دلاری سے ہیٹی بن کر نہیں رہ سکتی۔ یہ مرد بھی کتنے احمق ہوتے ہیں۔ کسی میں اصلی حسن کی پرکھ نہیں۔ انھیں تو جوانی اور نفاست چاہیے۔ آنکھ رکھ کر بھی اندھے بنتے ہیں۔ میرے کپڑوں میں رام دلاری کو کھڑا کر دو پھر دیکھو یہ سارا جادو کہاں اُڑ گیا۔ چڑیل سی نظر آئے۔ ان احمقوں کو کون سمجھائے؟‘‘ (دو بہنیں )

خود پسندی اور نرگسیت کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔ روپ کماری نے اپنی بہن رام دلاری کو دو سال قبل اس کی شادی میں دیکھا تھا۔ اب رام دلاری کلی کی مانند کھل گئی ہے۔ لیکن روپ اسے اپنی نظر کا فریب سمجھنا چاہتی ہے۔ پریم چند نے عورت کی نفسیات کے اس پہلو کو نمایاں کرتے ہوئے شعور اور لاشعور کے تصادم کی ایک عمدہ تصویر پیش کر دی ہے۔ روپ سوچتی ہے ’’یہ حسن اس نے کہاں چھپا رکھا تھا!‘‘ پھر سوچ کا بہاؤ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے ’’نہیں نظروں کو دھوکا ہو رہا ہے، یہ حسن نہیں محض دیدہ زیبی ہے۔ ریشم، مخمل اور سونے کی بدولت نقشہ تھوڑا ہی بدل جائے گا ‘‘ اپنی کشمکش سے دوچار ہونے کے باوجود اسے حقیقت کا احساس حاسد بنا رہا ہے۔ سچائی ایک بچھو کی طرح ڈنک مارتی ہے۔ ’’پھر بھی وہ آنکھوں میں سمائی جا رہی ہے۔ پچاسوں عورتیں جمع ہیں۔ مگر یہ سحر، یہ کشش اور کسی میں نہیں۔ ‘‘ اور وہ تلملا کر آئینہ تلاش کرتی ہے۔

روپ کماری کے نرگسی رجحان کا تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو زیادہ حسین سمجھے۔ جب گھر سے چلی تھی تو اس نے آئینے میں خود کو دیکھا تھا اور شاید اس خیال سے کہ رام دلاری میں دو سال کے اندر کوئی فرق پیدا نہ ہوا ہو گا۔ ذہن میں رام دلاری کی تصویر دو سال پرانی ہے۔ لمبی اور اتنی ہی دبلی۔ زرد رُو اور بدتمیز، ذرا سی بات پر روٹھنے والی لیکن رام دلاری کو دیکھتی ہے تو نفسیاتی کشمکش کی شکار ہو جاتی ہے۔ روپ نے چلتے وقت آئینے کو صاف کر کے خود کو دیکھا تھا لیکن رام دلاری کو دیکھ کر ایسا ہیجان پیدا ہوتا ہے کہ اسے اپنی وہ صورت بھی یاد نہیں رہتی۔محض ایک دھندلی سی پرچھائیں ذہن میں ہے۔ اس صورت کو دیکھنے کے لیے اس کی بے چینی نفسی کیفیت کو بخوبی سمجھا دیتی ہے۔ ’آئینہ‘ موجود ہے لیکن لوگوں کے سامنے خود کو دیکھتے ہوئے جھجک محسوس کرتی ہے۔ ڈرائنگ روم کے قد آدم آئینے میں خود کو چھپ کر دیکھتی ہے۔ شیشے کی روپ کماری کو دیکھ کر اس کی نرگسیت یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے: ’’خدوخال بے عیب ہیں !‘‘ آئینے کے سامنے اپنی صورت کے متعلق یہ اس کا پہلا تاثر ہے۔

شعور اور غیر شعوری طور پر اس کا ذہن رام دلاری کے پیکر سے متاثر ہے۔ ابھی ابھی اس کے پاس اٹھ کر ’’اپنی تلاش میں ‘‘ ڈرائنگ روم میں آئی ہے۔ شعوری طور پر چند لمحوں کے لیے اس زنجیر کو توڑ کر اپنے حسن کو دیکھنے آئی ہے لیکن پھر چند ہی لمحوں بعد محسوس ہوتا ہے جیسے یہ زنجیر ٹوٹی ہی نہیں، آئینے کی روپ کماری کے سامنے دلاری کا پیکر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر محسوس ہوتا ہے آئینے کی روپ کماری میں وہ تازگی، وہ شگفتگی، وہ نظر فریبی نہیں لیکن اس احساس کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں۔ اس کا نرگسی ذہن اس تار کو توڑ دینا چاہتا ہے۔ وہ مرد کی نظر کو غلط سمجھتی ہے ’’کسی میں اصل حسن کی پرکھ نہیں !‘‘ یہ بھرپور جملہ شخصیت کی نرگسی اٹھان کو اچھی طرح سمجھا دیتا ہے۔ اپنے حسن کی قائل ہے، غیر شعوری طور پر خود کو رام دلاری سے خوبصورت سمجھنا چاہتی ہے اس لیے ایک نرگسی حملہ آور کی طرح پہلے مرد کی نظر پر حملہ کرتی ہے پھر ریشم، مخمل اور سونے کی دنیا کو اپنے تخیل میں چور چور کر دینا چاہتی ہے۔ اسے ظاہری تصویر تصور کرتی ہے۔ تسکین کے لیے یہ سہارا ملتا ہے۔ کہتی ہے: ’’میرے کپڑوں میں رام دلاری کو کھڑا کر دو پھر دیکھو، یہ سارا جادو کہاں اڑ گیا۔چڑیل سی نظر آئے!‘‘

روپ کماری کے کردار میں سیمابیت ہے۔ اس کے نرگسی رجحان اور عمل کے گرد کہانی گھومتی ہے۔ شکست کے احساس کو لا شعور نے قبول نہیں کیا ہے لہٰذا خود پسندی رام دلاری کی ذات، اس کے شوہر کی آمدنی اور اس کے گھر کی آرائش سب کوجھٹک کررکھ دیتی ہے۔ نفسیاتی سطح پر طنطنے اور غیر شعوری خواہش کا اندازہ مندرجہ ذیل گفتگو سے کیا جا سکتا ہے:

’’۔۔۔رام دلاری نے جیسے رحم کی آنکھوں سے دیکھ کر کہا: ’’جیجا جی کی کوئی ترقی ورقی ہوئی کہ نہیں بہن یا ابھی تک وہی پچھتّر پر قلم گھس رہے ہیں۔ ‘‘ روپ کماری کے بدن میں آگ سی لگ گئی۔ افوہ رے دماغ، گویا اس کا شوہر لاٹ ہی تو ہے۔اکڑ کر بولی:

’’ترقی کیوں نہیں ہوئی۔ اب تو سوکے گریڈ میں ہیں۔ آج کل یہ بھی غنیمت ہے، نہیں تو اچھے اچھے ایم اے پاس کو دیکھتی ہوں کہ کوئی ٹکے کو نہیں پوچھتا۔ تیرا شوہر اب بی اے میں ہو گا۔‘‘

’’انھوں نے تو پڑھنا چھوڑ دیا بہن، پڑھ کر اوقات خراب کرنا تھا اور کیا، ایک کمپنی کے ایجنٹ ہو گئے ہیں۔ اب ڈھائی سو روپیہ ماہوار پاتے ہیں۔ کمیشن اوپر سے۔ پانچ روپے روز سفر خرچ کے بھی ملتے ہیں۔ یہ سمجھ لو پانچ سو کا اوسط پڑ جاتا ہے۔ ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار تو ان کا ذاتی خرچ ہے بہن۔ اونچے عہدے پر ہیں تو اچھی حیثیت بھی بنائے رکھنی لازم ہے۔ ساڑھے تین سو روپیہ بے داغ گھر دے دیتے ہیں۔ ا س میں سو روپے مجھے ملتے ہیں۔ ڈھائی سو میں گھر کا خرچ خوش فعلی سے چل جاتا ہے۔ ایم اے پاس کر کے کیا کرتے!‘‘

روپ کماری اسے شیخ چلی کی داستان سے زیادہ وقعت دینا نہیں چاہتی تھی مگر رام دلاری کے لہجے میں اتنی صداقت ہے کہ تحت الشعور متاثر ہو رہا ہے۔ چہرے پر خفّت اور شکست کی بدمزگی صاف جھلک رہی ہے۔ نرگسیت کا تقاضا ہے کہ ہوش و حواس قائم رکھے۔ اس اثر کو فوراً مٹا دینا چاہتی ہے۔ اپنے دل کو یقین دلانا چاہتی کہ اس میں ایک چوتھائی سے زیادہ سچائی نہیں ہے۔ احساسِ شکست کو چھپانے کے لیے ایک سنبھالا لیتی ہے:

’’جب ایجنٹی میں اتنی تنخواہ اور بھتے ملتے ہیں تو کالج بند کیوں نہیں ہو جاتے؟ ہزاروں لڑکے کیوں اپنی زندگی خراب کرتے۔‘‘

رام دلاری کے جواب کے بعد اس کی نرگسیت چوٹ کھا کر ایک دَم ڈھیر ہو جاتی ہے۔ لیکن سنبھلنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ تسکین قلب کے لیے راستہ ڈھونڈتی ہے۔ طنز کرتی ہے۔ تحقیر شروع کرتی ہے۔ پریم چند نے روپ کماری کی نرگسیت کو اس کے احساسات کی تمام تھرتھراہٹوں کے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ روپ خاموش ہو جاتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اس کی نرگسیت شکست کھا گئی۔ اس کی گفتگو کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ باقاعدگی سے کسی ایک بات پر غور نہیں کرتی۔ کسی ایک نقطے پر اپنے خیال کو روک نہیں سکتی۔ اپنی خواہشات کو مختلف باتوں کی مدد سے مربوط کرنے کی کوشش میں ہے۔ اپنی زندگی کا جائزہ لیتی ہے اور اس کا مقابلہ رام دلاری کی زندگی سے کرتی ہے۔ ہر لمحہ اسے محسوس ہوتا ہے جیسے ایک ایک قدم پر شکست کھا چکی ہے۔ رام دلاری کی زندگی کی باتیں اس لیے بڑی تلخ ہیں۔ جب پریشان ہو کر گھر پہنچتی ہے تو احساسِ شکست کی وجہ سے اپنا گھر قبرستان نظر آتا ہے۔ اپنے بچوں اور شوہر سے الجھتی ہے۔ ہفتے بھر اپنے ہیجانات سے الجھتی رہتی ہے ایک بار پھر اپنے گھر کو چمکانے کا خیال آتا ہے اور صفائی شروع کرتی ہے۔ اسی وقت رام دلاری کے شوہر کو آتے دیکھ کر ایک بار پھر اپنی شکست کا احساس ہوتا ہے لیکن اسے نشہ میں دیکھ کر کچھ اطمینان ہوتا ہے۔ جب رام دلاری کا شوہر یہ کہتا ہے کہ وہ ایک خفیہ فروش کا ایجنٹ ہے کوکین فروخت کرتا ہے تو روپ کماری کو زبردست نفسیاتی سکون ملتا ہے۔ اس ناجائز دولت کا حال سن کر کسی حد تک مطمئن ہو جاتی ہے۔ جب رام دلاری کا شوہر لڑکھڑاتا ہوا چلا جاتا ہے تو اس کے نرگسی مزاج میں پھر ایک اٹھان پیدا ہوتی ہے۔ خود کو رام دلاری سے زیادہ خوش قسمت سمجھتی ہے۔ رام دلاری کے پاس جانا چاہتی ہے جس گھر سے شکست کھا کر آئی تھی وہاں اب ایک فاتح کی حیثیت سے جانا چاہتی ہے۔ خود پسندی میں پھر ایک چمک سی پیدا ہوتی ہے۔ یہ عمل بھی سیمابی ہے۔ شوہر سے کہتی ہے ’’تم مجھے رام دلاری کے گھر پہنچا دو۔‘‘ غالباً اس کا لاشعور رام دلاری کو گہرے غار میں دیکھ رہا تھا۔ ہمدردی کا جذبہ نہیں ہے بلکہ ایک بار پھر رام دلاری کے ڈرائنگ روم کے آئینے میں خود کو دیکھنے کی تمنا ہے۔ پریم چند نے روپ کماری کی مراجعت سے اس کی برتری کے احساس کو ابھارا ہے۔ رام دلاری کے شوہر کے جانے کے بعد جس طرح روپ کی تمکنت میں کسمساہٹ پیدا ہوتی ہے اس کی تصویر ذہن سے کبھی مٹ نہیں سکتی۔

پریم چند کے افسانہ ’’بازیافت‘‘ کی عورت بھی نرگسی ہے۔ اس کے شوہر کی شخصیت ایک پس منظر ہے۔ اس کے ابھرتے ہوئے نرگسی رجحان کا! ابتدا میں گھر کے ماحول اور خصوصاً ساس اور نندوں کی وجہ سے اس کے احساسات پوشیدہ ہیں۔ اس کی جبلتوں کے اظہار میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ سسر جی کھاتے وقت اگر صرف اتنا کہتے ہیں کہ ’’نمک ذرا اندازہ سے ڈالا کرو‘‘ تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر ڈھیر ہو جاتی ہے۔ اپنی شخصیت کے سامنے ایک پردہ ڈال کر زندہ رہنا چاہتی ہے۔ رامائن پڑھتی ہے۔ بھرت، رام چندر جی کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ان کی حسرت بھری باتوں سے متاثر ہوتی ہے۔ اس کے شوہر کو اس کا اس طرح رہنا قطعی پسند نہیں لہٰذا اس کی شخصیت اور ذہن کے آئینے کو چمکاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ شوہر ایک دیوتا ہے اور اس کے ہر اشارے پر عمل کرنا فرض ہے۔ کہتی ہے:

’’یہ کیسے کہوں کہ مجھے بناؤ سنگھار سے نفرت تھی۔ اس کا مجھے بھی اتنا ہی شوق تھا جتنا ہر ایک عورت کو ہوتا ہے۔ جب مرد اور بچے بھی نمائش پر جان دیتے ہیں تو میں تو عورت ہی ہوں۔ اب تک جو میں اس سے محترز رہتی تھی وہ اپنے اوپر بہت جبر کر کے۔ میری اماں اور دادی نے ہمیشہ مجھ سے یہی کہا کہ بناؤ سنگھار کی عادت اچھی نہیں۔ وہ مجھے کبھی آئینے کے سامنے کھڑے دیکھ پاتیں تو لعن طعن کرنے لگتیں۔ ‘‘

میکے میں یہ رکاوٹ پیدا ہوئی تھی اور ہیجانات متاثر ہوئے تھے۔ سسرال میں بھی ایسا ہی ماحول ملتا ہے لہٰذا اپنی فطرت اور ’ایگو‘ کے مطالبوں سے گریز کرتی ہے۔ ’رامائن‘ کو سہارا بناتی ہے اور جذبات کے رنگ کو بدلنے کی کوشش کرتی ہے۔ شوہر علامت کی حیثیت سے ایک سہارا ہے اسی سہارے سے اس کا نرگسی رجحان ابھرتا ہے اور پھر:

’’گھر کے دھندے میں اب مجھے مطلق دلچسپی نہ تھی۔ میرا وقت یا تو اپنے بناؤ سنگھار میں صرف ہوتا تھا یا پڑھنے لکھنے میں۔ کتابوں سے مجھے ایک عشق سا ہونے لگا تھا۔‘‘

انگریز اور فرانسیسی مصنفوں نے انسانی جذبات کو جس طرح پیش کیا ہے۔ اخلاق یا مذہب کی قیود سے وہ ادیب جس طرح آزاد ہیں اور اس آزادی کی تصویر جس طرح اس کا شوہر پیش کرتا وہ ان سے متاثر ہوتی ہے۔ یہ کتابیں اس عورت کے لیے آئینہ بن جاتی ہیں۔ ان کے تراشے ہوئے متحرک کرداروں کے جذبات میں خود اپنے جذبات کے اتار چڑھاؤ کو دیکھتی ہے۔ ان کے ذہنی تصادم کو اپنے ذہن کی کشمکش تصور کرتی ہے۔ شوہر کا گھر اس کا آئینہ نہ بن سکا لیکن یہ کتابیں آئینہ بن گئی ہیں۔ اب اسے ساس سسر کا تحکمانہ انداز ناگوار لگنے لگتا ہے۔ اس عورت کو اپنی علامت سے عقیدت ہے اور اپنی ذات سے دلچسپی۔ سارا دن بناؤ سنگھار میں گزرتا ہے۔ برتاؤ اور عمل میں بڑا فرق آ جاتا ہے۔

’’مجھے اپنی شخصیت کا احساس ہونے لگا۔ اماں کوئی کام کرنے کا کہتیں تو میں اسے ادبدا کے ٹال جاتی ہوں۔ ‘‘

شخصیت کا یہ احساس آہستہ آہستہ بہت گہرا ہو جاتا ہے۔ ساس کی ایک ڈانٹ پر تلملا کر رونے لگتی ہے تو اس کی علامت سہارا دیتی ہے:

’’دیکھا تم نے آج اماں کا غصہ؟ یہی سختیاں اور زیادتیاں ہیں جن سے عورتوں کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے۔ ایسی باتوں سے کتنی روحانی کوفت ہوتی ہے، اس کا اندازہ کرنا ناممکن ہے۔ زندگی وبال ہو جاتی ہے۔ کلیجہ چھلنی ہو جاتا ہے اور انسان کا ذہنی نشوونما اسی طرح رُک جاتا ہے جیسے ہوا اور دھوپ کے نہ ملنے سے پودے افسردہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ہماری معاشرت کا نہایت تاریک پہلو ہے اور اس نے ہماری قومی نکبت میں خاص حصہ لیا ہے۔‘‘

شوہر کی ان باتوں سے اس کی شخصیت میں اٹھان پیدا ہوتی ہے۔ تیز بہاؤ کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ان کا شوہر درمیان سے پتھر ہٹا دیتا ہے۔ پودا افسردہ ہو رہا تھا لیکن اب اسے دھوپ اور ہوا دونوں مل جاتی ہے۔ ’دیوتا‘ کہتا ہے:

’’ایسی حالت میں دوہی صورتیں ممکن ہیں۔ یا تو ہمیشہ ان کی گھڑکیاں جھڑکیاں سہے جاؤ یا اپنے لیے کوئی دوسرا راستہ نکالو۔‘‘

نرگسی مزاج کے لیے یہ ایک معنی خیز اشارہ بن جاتا ہے۔ نرگسی ذہن کے لیے بیرونی مداخلت قید سے کم نہیں۔ یہ عورت اس تجویز کی مخالفت نہیں کرتی۔ گریز کرنے کے لیے ذہن کو تیار کر لیتی ہے:

’’میں نے اس تجویز کی زیادہ مخالفت نہیں کی۔ گو اکیلے رہنے کا خیال کر کے کچھ طبیعت سہتی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی آزادیوں کے خیال سے دل میں ایک ولولۂ مسرت پیدا ہوتا تھا۔ چل کر کسی دوسرے شہر میں اپنا ڈیرا جماؤں۔ ‘‘

شوہر کی یہ بات پسند آتی ہے جس کا اظہار کھل کر نہیں کرتی۔ ’’دوسرا شہر‘‘ جنت کی صورت سامنے آیا۔ تنہائی اور آزادی کی علامت بن گیا۔ غیر شعوری طور پر اسے تنہائی کی اسی منزل کی تلاش ہے جہاں وہ اپنی شخصیت سے زیادہ دلچسپی لے سکے۔ خود کو نمایاں کر سکے۔ ذات کو آئینہ بنا کر چمکا سکے۔ الہ آباد آ کر آزاد ہو جاتی ہے:

’’اب میں گھر کے کام کاج سے بالکل آزاد ہو گئی۔ بیکاری سے جی گھبراتا تو کوئی نہ کوئی ناول پڑھنے لگتی۔‘‘

ایک عیسائی عورت انگریزی پڑھانے اور گانا سکھانے آتی ہے۔ نئی سوسائٹی میں اس کے طرزِ گفتگو، طرزِ معاشرت اور طرزِ خیال میں تبدیلی آنے لگتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی انفرادیت ابھر کر لہرانے لگتی ہے۔ ابتدا میں حیرت سے کہتی ہے: ’’میں ان لیڈیوں کو کبھی اداس یا متفکر نہ دیکھتی مسٹر داس نہایت سخت بیمار تھے لیکن مسز داس کی پیشانی پر ذرا بھی میل نہ تھا۔ مسٹر باگڑا نینی تال میں تپِ دق کا علاج کراتے تھے لیکن مسز باگڑا روزانہ ٹینس کھیلنے جاتی تھیں۔ ‘‘ لیکن اسے یہ دیکھ کر غیر شعوری طور پر مسرت ہوتی ہے کہ وہ بھی مسز داس اور مسز باگڑا بن رہی ہے۔ اِن عورتوں کی شخصیتیں صاف شیشوں کی مانند سامنے ہیں۔ چاہتی ہے وہ بھی اسی منزل پر پہنچ جائے۔ آئینے کو دیکھ کر کہتی ہے:

’’ان لیڈیوں کی حرکات و سکنات میں ایک جادو تھا جو مجھے بے اختیار ان کی طرف کھینچتا تھا۔ میں انھیں ہمیشہ تفریح و مشاغل پر آمادہ دیکھتی اور میرا بھی جی چاہتا تھا کہ انھیں کی طرح بے باک ہوتی۔‘‘

یہی وہ منزل ہے جہاں اپنی محبوب علامت میں اس کے لیے کسی قسم کی کوئی کشش باقی نہیں رہتی۔ اب ذات بیدار ہو گئی ہے۔ جس آرام کدہ کی متلاشی تھی وہاں پہنچ چکی ہے۔ نرگسی ذہن علامتوں کو توڑتے رہنے کا قائل ہوتا ہے۔ ’’انفرادی انتخابیت‘‘ کا عمل جاری رہتا ہے۔ اب شیشے پر جو علامتیں ابھرتی ہیں ان کے اندر قیامتیں پوشیدہ ہیں۔ ایک ہلکی سی جھلک دیکھئے:

’’تعجب کی یہ بات ہے کہ اب مجھے بھی بابو جی (شوہر) پروہ کامل عقیدت نہ رہی تھی۔ اب ان کے ذرا سا سر دکھنے پرمیرا دل نہ دکھتا تھا۔ میری شخصیت کا نشوونما ہونے لگا تھا۔ اب میں اپنا بناؤ سنگھار اس لیے کرتی تھی کہ یہ میرا دنیاوی فرض ہے۔ اس لیے نہیں کہ میں کسی فردِ واحد کی پابند ہوں۔ مجھ میں اپنے نشۂ حسن سے مخمور ہونے کا مادّہ پیدا ہونے لگا تھا جو نمودِ حسن کی پہلی منزل ہے۔ منشائے زندگی کی جو تعلیم بچپن میں دی گئی تھی وہ اب دل سے محو ہونے لگی تھی۔ میں اب کسی کے لیے نہ جیتی تھی، اپنے لیے جیتی تھی۔ بے نفسی اور قربانی کی اسپرٹ مجھ میں سے مفقود ہوتی چلی تھی۔‘‘

’نرگسیت‘ کی یہ پرواز دیکھئے! ’’اندھیرے کمرے‘‘ سے اپنے شوہر کی انگلی پکڑے ’روشنی‘ میں آئی تھی۔ اس روشنی میں اپنی شخصیت اور اپنے حسن پر فریفتہ ہو گئی کہ شوہر کی شخصیت کا کوئی احترام بھی باقی نہ رہا۔ ہیرو کا بت ٹوٹ چکا ہے۔ نرگسی عورت کا آئینہ اس کے سامنے ہے۔ وہ اپنی ذات ہی سے محبت کرنے لگتی ہے۔ ’’میں اب کسی دوسرے کے لیے نہ جیتی تھی اپنے لیے جیتی تھی‘‘ یہ جملہ سچائی کو سمجھانے کے لیے کافی ہے۔ ’میں ‘ کی ایسی آواز اردو فکشن میں پہلی بار سنائی دیتی ہے:

’’اب مجھے اندازہ ہوا کہ شوقِ نمود میں کتنی زبردست قوت ہے۔ میں اب نِت نئے سنگھار کرتی۔ نت نئے روپ بھرتی۔ محض اس لیے کہ کلب میں، میں ہی سب کی نگاہوں کا مرکز بن جاؤں۔ اب مجھے بابو جی(شوہر) کی آرام و آسائش اور ضرورت کے مقابلے میں اپنے سجاؤ سنگھار کا زیادہ خیال رہتا تھا۔ یہاں تک کہ یہ شوق ایک نشہ سا ہو گیا۔‘‘

نرگسی عورت کی ایسی تصویر اردو فکشن میں پہلے کب آئی تھی! بات اسی حد تک نہیں ہے بلکہ:

’’دادِ حسن کے ملنے سے مجھے ایک غرور آمیز مسرت حاصل ہونے لگی۔ میرے احساسِ غیرت میں بھی ایک دلچسپ وسعت اور لچک پیدا ہو گئی۔ وہ نگاہیں جو کبھی میرے جسم کا ایک ایک رواں کھڑا کر دیتیں، وہ کنایے اور بذلہ سنجیاں جو مجھے زہر کھا لینے پر آمادہ کر دیتیں ان سے اب مجھے ایک شورش انگیز مسرت حاصل ہوتی تھی!‘‘

نرگسی مسرت کی ایک نمایاں مثال سامنے ہے۔ اس عورت کی شخصیت میں پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے اس کے باوجود اپنے جذبات کا اظہار شعوری اور غیر شعوری طور پر کرتی ہے۔ اچانک کبھی خیال آتا ہے کہ اسے کلب جانا نہیں چاہیے پھر وقت پر اضطراری طور پر تیار ہو جاتی ہے۔

شوہر بیمار ہوتا ہے۔ دن بھر بے ہوش رہتا ہے لیکن اس عورت کو اس کے پاس بیٹھتے ہوئے وحشت سی ہوتی ہے۔ اس کا جی ناول کے اس کردار کی جانب ہے کہ جو جذباتی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اپنے اس آئینے کو چھوڑ کر اس فرسودہ اور ٹوٹی ہوئی علامت کے پاس کس طرح رہ سکتی ہے:

’’اُن کے (شوہر) پاس جاتی اور ایک منٹ کے بعد لوٹ آتی۔ ٹینس کا وقت آیا تو میں پس و پیش میں پڑی کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔ بہت دیر تک دل میں یہی کشمکش ہوتی رہی۔ آخر میں نے فیصلہ کیا میرے یہاں رہنے سے یہ اچھے تو ہوئے نہیں جاتے اس لیے یہاں بیٹھے رہنا فضول ہے۔ میں نے اچھے سے کپڑے پہنے اور ریکٹ لے کر کلب گھر جا پہنچی۔‘‘

کلب میں اس کی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں۔ تلخ سچائی ڈنک مارتی ہے لیکن اس کا دل ذہن سے شکست کھا جاتا ہے اور وہ ایک سرد آہ بھر کے کورٹ میں کھیلنے لگتی ہے۔ متواتر تین دن تک اس کے شوہر کو بخار آتا ہے۔مسز داس مشورہ دیتی ہیں کہ وہ اس کی دیکھ بھال کے لیے ایک نرس بلا لے۔ راضی ہو جاتی ہے پھر اسے ذہنی سکون ملتا ہے اور صرف سکون ہی نہیں مسرت بھی ہوتی ہے۔ کہتی ہے:

’’اس دن تیمار داری کے بار سے سبک دوش ہو کر مجھے بے حد مسرت ہوئی۔ اگرچہ دو دن کلب نہ گئی تھی لیکن میرا دل وہیں رہتا تھا بلکہ اپنی اس بزدلانہ نفس کشی پر غصہ آتا تھا۔‘‘

’’نرگسی التباس‘‘، ’’واہمہ‘‘، ’’فریبِ نظر‘‘ کی بہت سی تصویریں دیکھی ہوں گی۔ لیکن ’’نرگسی التباس‘‘، ’’وہم‘‘، ’’چھل‘‘ واہمہ اور فریبِ نظر(Illusion And Hallucination)کی یہ تصویر اردو فکشن میں اپنی مثال آپ ہے۔ پریم چند نے عورت کی نفسیات کے کن نہاں خانوں کو دیکھا ہے۔اندازہ کیا جا سکتا ہے:

’’ایک دن سہ پہر کے وقت میں آرام کرسی پر لیٹی ہوئی ایک انگریزی کتاب پڑھ رہی تھی۔ مجھے خیال آیا کہیں بابو جی کا بخار مہلک ثابت ہوا تو؟ لیکن اس خیال سے مجھے ذرا بھی وحشت نہ ہوئی۔ میں اس ملال تخیل کا مزہ اٹھانے لگی۔ مسز داس، مسز نائیڈو، مسز سریواستو، مس کھرے، مسز شرغہ، مس گھوش ضرور تعزیت کرنے آئیں گی۔ انھیں دیکھتے ہی میں آنکھوں میں آنسو بھرے اُٹھوں گی اور کہوں گی ’’بہنو، میں لٹ گئی، ہاں میں لٹ گئی۔ اب میری زندگی اندھیری رات ہے یا ہولناک جنگل یا شمع مزار لیکن میری حالت پر غم کا اظہار مت کرو۔ مجھ پر جو کچھ گزرے گی میں اس کامل انسان کی نجات کے خیال سے بخوشی سہ لوں گی۔‘‘

تخیل سے ایک ایسی فضا خلق ہوتی ہے جو اس ذات کے لیے حقیقی ہے! غیر شعور کی تمنا تخیل کے ذریعہ ایک ڈراما اسٹیج کر دیتی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک بڑے فنکار کا کارنامہ ہے۔ یہ عورت تخیل میں ایک طولانی ماتمی تقریر کا مسودہ تیار کرتی ہے اور پھر اس ماتمی لباس کا بھی انتخاب کرتی ہے جسے پہن کر جنازے میں شریک ہو گی۔ سوچتی ہے کس طرح اس سانحے کا شہر میں چرچا ہو گا۔ لوگ تعزیت کے خط بھیجیں گے، کس طرح اخباروں میں ایک خط لکھ کر فرداً فرداً اپنے ہمدردوں کے تعزیت ناموں کا جواب دینے کے تعلق سے معذرت چاہے گی۔

نرگسی شخصیت بعض حقیقتوں کو اپنے تخیل کے طلسمی فضا میں کس طرح افسانوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ اس کی عمدہ مثال ہے! خواب اور التباس کی یہ تصویر غیر معمولی ہے۔ غیر شعور میں پوشیدہ آرزو فسانے میں اس طرح ڈھلتی ہے کہ حقیقت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اپنے شوہر کے وجود سے انکار کرنا چاہتی ہے۔ غیر شعوری طور پر اس کے لیے تیار ہے۔ نفسیات کے علما ایسے تخئیلی تجربوں کو لہراتے، سانپ کی مانند پھنکارتے نرگسی مزاج کا تجربہ کہتے ہیں۔ ’خود بینی‘ کی یہ آخری منزل ہے۔

یہ عورت اپنی اِسی دنیا میں کھوئی ہے کہ نرس کہتی ہے ’’آپ کو صاحب یاد کرتے ہیں !‘‘ اچانک اس طلسمی دنیا کے شیشوں کے ٹوٹنے کی آواز گونجنے لگتی ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شوہر کے کمرے کی جانب اس کے قدم کس طرح بڑھے ہوں گے اور اسے سانس لیتے ہوئے دیکھ کر اس کی کیفیت کیا ہو گی۔ اچانک ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ شوہر کو دیکھ کر رحم کھانے لگتی ہے:

’’مجھے اُن پر رحم آ گیا۔ بیٹھ گئی اور ہمدردانہ انداز سے بولی ’’کیا کروں کوئی ڈاکٹر بلاؤں ؟‘‘

یہ نفسیاتی عمل اس کردار کی پختگی کا ثبوت ہے۔ ’’مجھے ان پر رحم آ گیا‘‘ اس جملے کا تجزیہ مشکل نہیں ہے۔ جب اس کا شوہر یہ کہتا ہے کہ وہ اپنی ماں کے پاس جانا چاہتا ہے تو اس عورت کی نرگسیت تلملا جاتی ہے۔ نرگسی لہروں سے اٹھ کر کچھ دیکھنا چاہتی۔ پہلے تو صرف یہ کہہ کر یہ محض خیال ہے۔ آپ وہاں جا کر اچھے نہیں ہو سکتے بات ٹالنا چاہتی ہے لیکن جب شوہر ضد کرتا ہے تو یہ سمجھتی ہے کہ یہ بخار کا ہذیان ہے! نرس سے کہتی ہے ’’ذرا ان کا ٹمپریچر تولو، میں ابھی ڈاکٹر کے پاس جاتی ہوں ‘‘ لیکن اس کا دل ایک نامعلوم خوف سے کانپنے لگتا ہے۔ نرگسی ذہن اندیشوں کے تعلق سے ہمیشہ فکرمند رہتا ہے۔ شوہر کے ذہن اور اس عورت کی نرگسیت کے درمیان ایک اچانک تصادم ہو جاتا ہے۔ شوہر چاہتا ہے اسی سادہ، پاک اور بے تکلف زندگی کی طرف لوٹ جائے جہاں سے وہ اس کی انگلی پکڑ کر لایا تھا اور اس کی نرگسیت اِس ضرب سے بے چین ہوتی ہے۔ سوچتی ہے ’’اِس آزاد زندگی میں کتنا لطف تھا، یہ دلچسپیاں وہاں کہاں، کیا اتنے دنوں آزادی سے ہوا میں اڑنے کے بعد پھر اسی قفس میں جاؤں۔ ۔۔‘‘ ، ’’مجھے اس وقت بابو جی سے ہمدردی نہ ہوئی، ان پر طبیعت جھنجھلائی۔۔۔ اس دائرہ میں دوسری عورتیں جو کچھ کرتی ہیں وہی میں کرتی ہوں پھر شکایت کا کیا موقع؟‘‘ سنبھالا لینا چاہتی ہے، ’’آخر آپ کو یہاں کیا تکلیف ہے؟‘‘ اس سوال کے بعد ہی شوہر کی باتوں سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ جس علامت سے دور رہنا چاہتی تھی اور جسے اپنے تخئیل کی دنیا میں موت سے ہمکنار کر چکی تھی وہ زندہ ہے۔ قریب ہے بہت پاس ہے۔ خود کو تنہا سمجھتی تھی لیکن تنہا نہیں ہے۔شوہر کے آخری وار کے ساتھ ہی یہ نرگسی عورت ڈھیر ہو جاتی ہے۔ اپنے شوہر کی انگلی پکڑے پھر اسی دروازے کی طرف بڑھتی ہے کہ جہاں سے نکلی تھی۔ جہاں اس کے لیے اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ سسرال آ کر بھی بے چین ہے۔ مسٹر داس کے خط اسے تڑپا دیتے ہیں۔ جب اس کا شوہر امیلی زولا اور آسکروائیلڈ کی کتابیں جلاتا ہے تو وہ حسرت بھری نگاہوں سے یہ منظر دیکھتی ہے۔

’’آدرش وادی‘‘ پریم چند نے یہ کیا کہ اپنے ’’اصلاحی نقطۂ نظر‘‘ کا سہارا لے کر اس عورت کو واپس سسرال پہنچا دیا۔ اسے ’رامائن‘ اور ’مہابھارت‘ ایک بار پھر تھما دی۔ یہ بتایا کہ وہ تباہی سے بچ گئی! لیکن اردو فکشن کی یہ خوش نصیبی ہے کہ یہ عورت خلق ہوتے ہی فنکار سے آگے آگے چلتی رہی ہے۔ آخر میں جب افسانہ نگار نے اسے دوڑ کر گرفت میں لینے کی کوشش کی تو ہاتھوں سے پھسل کر آگے بڑھ گئی ہے اور ایک ایسا دلکش مجسمہ بن گئی ہے کہ جس پر اصلاح پسندی کا کوئی آنچل یا آدرش واد کی کوئی چادر نہیں ہے!

’’حسرت‘‘ کی عورت بھی بہت حد تک نرگسی ہے۔ اس کی نرگسیت شوہر کی شخصیت کے بوجھ سے دبی ہوئی ہے۔ اس کی تلملاہٹ کا اندازہ کیجیے:

’’میں انھیں (شوہر کو) گھر میں آتے دیکھتی ہوں تو میرا دل بیٹھ جاتا ہے۔ چہرہ پر مردنی سی چھا جاتی ہے۔ دل میں ایک گرمی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ شاید دشمن کو دیکھ کر بھی کسی کے دل میں اتنی تپش نہ ہوتی ہو گی۔ وہ دو ایک دن کے لیے کہیں جاتے تو دل پر سے ایک بوجھ سا اٹھ جاتا ہے۔ ہنستی بھی ہوں بولتی بھی ہوں، زندگی میں کچھ مزہ آنے لگتا ہے لیکن ان کے آنے کی خبر پاتے ہی پھروہی مردنی، وہی حسرت، وہی تپش!‘‘

جگر کی یہ خلش اور پہلو میں چبھنے والی اس پھانس کی وجہ یہی ہے کہ اس کی شخصیت اور اس کے نرگسی رجحان کو ابھرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اپنی سہیلی سوشیلا کو اپنا ’آئینہ‘ تصور کرتی ہے۔ اسے خوش دیکھ کر اسی طرح جینا چاہتی ہے۔ ایک روز اس کی ذات کا سانپ لہراتا ہے۔ نرگسیت بیدار ہونے کے لیے تڑپنے لگتی ہے۔ اپنے شوہر سے کہتی ہے:

’’اب معلوم ہوا کہ میں اس گھر کی حفاظت کرنے کے لیے لائی گئی ہوں۔ مجھے اس گھر کی چوکیداری کرنی چاہیے اور اپنی قسمت کو سراہنا چاہیے کہ یہ ساری جائداد میری ہے۔۔۔ میں تو محض خزانہ کا سانپ ہوں، ایسے گھر میں آج ہی آگ لگ جائے، سب کچھ جل کر سیاہ ہو جائے۔‘‘

سوچتی ہے جب سے آئی ہے شوہر اس کی طرف شک و شبہے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ’’ذرا بال سنوارے اور ان کے تیوریوں پر بل پڑے‘‘، ’’ذرا کھڑکی کے سامنے کھڑی ہوئی اور انھیں بخار چڑھا‘‘ جب وہ ٹھاکر جی کی جھانکی دیکھنے جانا چاہتی ہے تو اس کا بوڑھا شوہر کہتا ہے ’’جو عورت اپنے شوہر کی خدمت نہیں کر سکتی اسے دیوتاؤں کے درشن سے ثواب کے بدلے عذاب ہوتا ہے‘‘ اور وہ تلملا کر رہ جاتی ہے۔ سوچتی ہے ’’مجھے ان پر رحم آتا ہے، یہ کیا جانیں کہ عورت کی زندگی میں کوئی ایسی بھی چیز ہے جسے کھو کر اس کی نظروں میں جنت بھی دوزخ ہو جاتی ہے۔‘‘ جذبات کی کشمکش اور ذہنی تصادم کے لیے یہ جملہ کافی ہے۔ اس تصادم کے ذریعہ پریم چند بے جوڑ شادی کے المیے کو پیش کر رہے ہیں اور اسی پیش کش میں ایک عورت کی نفسیاتی کیفیتیں اور نرگسی عمل واضح ہوتا جاتا ہے۔ اب اس عورت کو اپنی تنہائی کا احساس زیادہ ہونے لگتا ہے اور تنہائی کے احساس سے وہ لذت حاصل کرنے لگتی ہے۔ سوچتی ہے اس کے دل کا درد کہاں ہے؟ تین دن بغل کے کمرے میں اسے(شوہر کو) کراہتے سنتی ہے لیکن ایک بار بھی دیکھنے نہیں جاتی، اس کردار کی سطح کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے:

’’مجھے تو یہ کہنے میں ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ ان کی بیماری سے مجھے حاسدانہ مسرت ہوتی ہے۔‘‘

جب اس کے شوہر کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کی نرگسیت تیزی سے ابھرتی ہے۔ بوجھ ہٹ جاتا ہے۔ بیوہ ہونے کے باوجود چوڑیاں نہیں توڑتی۔ شوہر کی تکفین کے وقت وہ پاس بھی نہیں پھٹکتی۔ گھرکے لوگوں کی سرگوشیوں سے اس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مانگ، چوٹی، زیور، ہونٹوں کی سرخی اور خوبصورت ساڑیوں سے دلچسپی ہے:

’’اور بھی بنتی سنورتی ہوں، مجھے غم کیوں ہو، میں تو قید سے چھوٹ گئی!‘‘

بے جوڑ شادی کا المیہ اردو مختصر افسانے کو ایک اہم کردار بخش دیتا ہے جس کی پہچان اس مسئلے سے زیادہ کردار نگاری کے حسن سے ہوتی ہے۔ جذباتی زندگی کی اٹھان میں رکاوٹ تھی۔ اب وہ چاہتی ہے کہ اس کی ذات توجہ کا مرکز بنے۔ نفسیاتی سکون حاصل کرنے کے لمحے توجہ طلب بن جاتے ہیں۔ ایک رات جب ایک بوڑھی عورت کو دیوی سمجھ کر اس کے ساتھ جاتی ہے اور جنسی لذت حاصل کرتی ہے تو بظاہر یہ سمجھتی ہے کہ اس نے سماج سے انتقام لیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح اپنی نفسیاتی اور جذباتی زندگی کی تکمیل کرتے ہوئے نرگسی ذہن کو سکون اور انبساط سے آشنا کرتی ہے۔

’’نئی بیوی‘‘ میں عورت کی ازدواجی اور جنسی زندگی کو عورت کی نفسیاتی کی گہرائیوں میں اتر کر دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مندرجہ ذیل جھلکیوں سے کہانی کا جلوہ سامنے آ جاتا ہے:

جگل(نوکر): ’’آپ بیٹھی رہتی ہیں تو میری عقل ٹھکانے رہتی ہے۔‘‘

مالکن: ’’اور میں نہیں رہتی تب؟‘‘

جگل: ’’تب تو آپ کے کمرے کے دروازے پر جا بیٹھتا ہوں !‘‘

’’جگل نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا: ’’آپ چلی جائیں بہو جی، سرکار ناراض ہوں گے۔‘‘

آشا: بکو مت، جلد جلد روٹیاں سینکو نہیں تو نکال دیے جاؤ گے اور آج مجھ سے روپے لے کر اپنے کپڑے بنوا لو، بھک منگوں کی سی صورت بنائے گھومتے ہو اور بال کیوں اتنے بڑھا رکھے ہیں۔ تمھیں نائی بھی نہیں جڑتا؟‘‘

جگل: ’’کپڑے بنوا لوں تو دادا کو کیا حساب دوں گا۔‘‘

آشا: ’’ارے بے وقوف میں حساب میں نہیں دینے کو کہتی، مجھ سے لے جانا۔‘‘

آشا: ’’تم مجھے نظر لگا دو گے، اس طرح کیوں گھورتے ہو؟‘‘

جگل: ’’جب میں یہاں سے چلا جاؤں گا تب آپ کی بہت یاد آئے گی۔‘‘

آشا: ’’روٹی بنا کر تم کیا کیا کرتے ہو، دکھائی نہیں دیتے۔‘‘

جگل: ’’سرکار رہتے ہیں اسی لیے نہیں آتا، پھر اب تو مجھے جواب مل رہا ہے دیکھئے بھگوان کہاں لے جاتے ہیں۔ ‘‘

آشا کا چہرہ سرخ ہو گیا ’’کوئی تمھیں جواب دیتا ہے۔‘‘

جگل: ’’سرکار ہی تو کہتے ہیں تمھیں نکال دوں گا۔‘‘

آشا: ’’اپنا کام کیے جاؤ، کوئی تمھیں نہیں نکالے گا، اب تم روٹیاں اچھی بنانے لگے ہو۔‘‘

جگل: ’’سرکار ہیں بڑے غصہ ور۔‘‘

آشا: ’’دوچار دن میں اُن کا مزاج ٹھیک کیے دیتی ہوں۔ ‘‘

آشا: ’’تمہاری شادی کسی بڑھیا سے کر دوں گی دیکھ لینا۔‘‘

جگل: ’’تومیں بھی زہر کھالوں گا۔ دیکھ لیجیے گا۔‘‘

آشا: ’’کیوں ؟ بڑھیا تمھیں جوان سے زیادہ پیار کرے گی، زیادہ خدمت کرے گی۔ تمھیں سیدھے راستے پر رکھے گی۔‘‘

جگل: ’’یہ سب ماں کا کام ہے۔ بیوی جس کام کے لیے ہے اسی کے لیے ہے۔‘‘

آشا: ’’آخر بیوی کس کام کے لیے ہے۔‘‘

جگل: ’’آپ مالک ہیں نہیں تو بتلا دیتا بیوی کس کام کے لیے ہے۔‘‘

آشا: ’’لالہ کھانا کھا کر چلے جائیں گے، تم ذرا آنا۔‘‘

اختصار کے آرٹ کا حسن متاثر کرتا ہے۔ تفصیل سے کام لیے بغیر پریم چند نے اختصار ہی میں ساری باتیں کہہ دی ہیں۔ کہانی کی پراسرار فطری اور نفسی کسمساہٹ افسانے کی روح بن جاتی ہے۔

’’مس پدما‘‘ (زادِ راہ) ایک دلچسپ کردار ہے جو عورت کی نفسیات کے کئی پہلوؤں کو جلوہ گاہ بناتی ہے۔ جنسی جبلت کا تحرک اور اس تحرک کی حرارت توجہ طلب ہے۔ رتنا بڑی ہے اس کی شادی مسٹر جھلّا سے ہو چکی ہے۔ لیکن وہ شوہر سے خوش نہیں ہے۔ ایک ہی سال میں اس کا ’’شگفتہ اور مخمور چہرہ‘‘ مرجھا جاتا ہے۔ زندگی تلخ ہو جاتی ہے۔ پدما اسے دیکھتی ہے تو اُسے محسوس ہوتا ہے جیسے تصویر مٹ گئی ہے۔ صرف اس تصویر کا خاکہ باقی ہے۔ پدما نے وکالت شروع کر دی ہے۔ اپنی ذہانت، فکاہت اور حسن سے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ عدالت میں بھی اس کی رعنائیوں اور شیریں بیانیوں کا تاثر قائم رہتا ہے۔ یہ عورت شکستوں سے نا آشنا ہے۔ نفسیاتی خواہشوں کی تکمیل ہی حیات کا مقصد ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ اس کا معبود ہے۔ فرائیڈ کے نظریے اس کی زندگی کے لیے مشعل راہ اور مشعل ہدایت ہیں :

’’کسی عضو کو باندھ دو، تھوڑے ہی دِنوں میں دورانِ خون بند ہو جانے کے باعث بیکار ہو جائے گا۔ فاسد مادّہ پیدا کر کے زندگی کو معرضِ خطر میں ڈال دے گا۔ یہ جو جنون اور مراق اور اختلال دماغ کی اتنی کثرت ہے محض اس لیے کہ خواہشات میں رکاؤ ڈالا گیا۔ نفسیات کی یہ نئی تنقیح پدما کی زندگی کا مسلّمہ اصول تھی۔(زادِ راہ، ص۵۱)

اس عورت کے سامنے رتنا اور اس کے شوہر مسٹر جھلّا کا اختلاف ایک دلچسپ مسئلہ ہے۔ جنسی اور ازدواجی زندگی میں یہ اختلاف کیوں ہے؟ پدما کے لیے یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ پراسرار سچائیوں کو سمجھنا چاہتی ہے۔ راز سے واقف ہونا چاہتی ہے۔ لہٰذا رتنا سے ملتی ہے اور پھر اس کی بھوک غائب ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ دوسری بھوک پیدا ہو جاتی ہے۔ اپنے تسکین اور اپنی لذت کے لیے پہلے رتنا کے دل کی باتیں جان لینا چاہتی ہے۔ اس کے سوالات پر غور کیجیے تو اندازہ ہو گا کہ وہ کتنی سنجیدگی سے باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے اور سوالوں کو پیش کرتے ہوئے کتنی لذت حاصل کر رہی ہے۔ رتنا کی باتوں سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جنسی اور نفسیاتی مزاج اور رجحان کے اختلاف کا معاملہ ہے۔ (پریم چند نے اسے نفسیاتی تعصب کہا ہے) رتنا اپنے شوہر سے بہت کچھ لینا چاہتی ہے اور دینا کچھ بھی نہیں چاہتی۔ صرف اپنی نسائیت کے بوتے پر! ’’اپنے انداز کے بل‘‘ پر سمجھتی ہے کہ اپنے شوہر کی دلچسپی کا مرکز بن جائے گی، پریم چند نے ’’کوڑیاں دے کر جواہر پارے لینا چاہتی ہے‘‘ کہہ کر اسی بات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ نفسیات میں اپنی ’خود غرضی‘ کا مطالعہ کم دلچسپ نہیں ہے۔ پریم چند نے رتنا کی نفسیات اور خصوصاً اس کے منفی ردِ عمل کا عمدہ جائزہ لیا ہے۔ اس عورت کے ہیجانات اور اس کی کیفیات کو خارجی علامتوں کے ذریعہ پیش کیا ہے۔ رتنا کی جذباتی زندگی کی تکمیل رُک گئی ہے۔ ازدواجی مشکلات اور نفسیاتی مد و جزر کو اس طرح پیش کرتی ہے:

’’ہم نے گھڑے کو خوب ٹھونک بجا کر اپنا اطمینان کر لیا تھا۔ ظرف میں کہیں شگاف یا دراز تو نہیں ؟ آواز اس کی سچی تھی۔ ٹھوس، دھات کی آواز کی طرح مترنم لیکن ظرف میں پانی پڑتے ہی نہ جانے کدھر سے بال نکل آئے اور سارا پانی بہہ گیا اور اب گھڑا پھوٹی تقدیر کی طرح خشک پڑا ہوا ہے۔‘‘

اور:

’’اگر ان کی طبیعت مجھ سے سیر ہو گئی تو میری طبیعت بھی ان سے کچھ کم سیر نہیں ہوئی۔ کیوں دل کی یہ حالت ہے کہ کہہ نہیں سکتی لیکن اب میں ان کے ساتھ ایک دن بھی رہنا نہیں چاہتی۔ وہ ہنستے ہیں تو مجھے ان کی ہنسی میں چھچھورے پن کی بو آتی ہے۔ باتیں کرتے ہیں تو ان میں بناوٹ کا رنگ جھلکتا ہے۔ اچکن اور پائجامہ پہنتے ہیں تو میراثیوں جیسے لگتے ہیں۔ کوٹ پتلون پہنتے ہیں تو جیسے کرنٹ ہو، ان کے ساتھ جتنی دیر رہتی ہوں دل پر بہت جبر کر کے رہتی ہوں۔ ‘‘

رتنا نے اپنے شوہر کے جو ’کارٹون‘ پیش کیے ہیں ان سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ذہن میں کس نوعیت کی کشمکش ہے۔ ہیجانات کیا کچھ کہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ مسٹر جھلّا کو شادی سے قبل بھی جانتی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان کر قریب آئے تھے لیکن اب جبکہ نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں تو رتنا کی شخصیت یا کردار کا ایک دوسرا رخ سامنے آ گیا ہے۔ شوہر کی شخصیت اس کے احساسات پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ شادی کو ایک بڑا خطرہ تصور کرتے ہوئے اپنی پسندیدہ علامت کے چہرے اور کردار کو بگاڑ رہی ہے۔ اس عورت کے نفسیاتی دباؤ اور جنسی خوف کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

پدما اپنی بہن کی باتوں سے متاثر ہوتی ہے۔ معاملے کے ہر پہلو پر غور کرتی ہے۔ یہ دونوں عورتیں بیسویں صدی کی روشنی میں پروان چڑھی ہیں۔ نئے خیالات سے متاثر ہیں لہٰذا اپنی بیوہ ماں کی شوہر پرستی کا بھی مذاق اڑاتی ہیں۔ ان کے والد امر ناتھ کول کے انتقال کو بیس سال ہو چکے ہیں لیکن دونوں کی اماں اب تک ان کی پرستش کرتی ہیں۔ امر ناتھ شوقین، آزاد مشرب اور رنگین مزاج شخص تھے اس لیے بدمزگیاں پیدا ہوتی تھیں۔ رتنا اور پدما دونوں اپنی اماں کا مذاق اڑاتے ہوئے انھیں سادہ لوح، بے زبان اور فرسودہ خیال سمجھ کر رحم کھاتی ہیں۔ ان میں سے کسی کو ایسا نفس پرور، بے وفا اور سرد مہر شوہر ملتا تو اسے ٹھوکر مار دیتیں اور اس کی پھر صورت نہ دیکھتیں۔ ’’اگر تم کج روی کر سکتے ہو توہم بھی تم سے کم نہیں ہیں۔ ‘‘ باپ کو وحشی، بے درد اور نا شناس تصور کرتی ہیں۔ اس پس منظر میں خصوصاً پدما کے ذہنی اور جذباتی نشوونما کو دیکھنا چاہیے اس لیے کہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔ ’فرائیڈ ازم‘ کا مطالعہ کر چکی ہے اور نفسی خواہشات کی تکمیل کو ہی حیات کا مقصد سمجھتی ہے۔

پریم چند نے پدما کے کردار کو پیش کرتے ہوئے نفسیاتی بوالعجبیوں کو بھی نمایاں کیا ہے۔ ایک جانب اپنے والد کی حرکتوں کو دیکھ کر انھیں وحشی اور بے درد سمجھتی ہے اور پھر اپنی بہن کی برباد زندگی سے متاثر ہو کر یہ سمجھتی ہے کہ شادی ایک خطرہ ہے لیکن دوسری جانب وہ خود مسٹر جھلّا کو قریب کر کے خود کو اس کی ذات میں جذب کر دیتی ہے۔ رتنا شوہر سے علاحدہ ہو جاتی ہے۔ پدما عدالت میں اپنی بہن کی وکالت کرتی ہے اور اس کی ڈگری ہوتی ہے۔

پدما آزادانہ طور پر اپنی شخصیت کی تشکیل کرنا چاہتی ہے۔ جذباتی زندگی کی تکمیل مکمل آزادی کے بغیر ممکن نظر نہیں آتی۔ ماں اور بہن سے علاحدہ ہو کر اسے آزادی ملتی ہے وہ اسے عزیز ہے ’’بڑی آزادی سے اپنی پرسنالٹی کی تکمیل کر رہی تھی۔‘‘

نفسیاتی نقطۂ نگاہ سے یہ تنہائی اپنے وجود کی تلا ش ہے۔ ایسے وجود کی تلاش کہ جس میں درد، وفا اور گہرائی ہو ’’جس پروہ تکیہ کر سکے‘‘ یہ تلاش فطری اور نفسیاتی ہے۔ حیاتی تسلسل (Vital Continuity)کی واحد جبلت جو دو جبلتوں یعنی تحفظِ ذات اور اشاعتِ ذات پر مشتمل ہے، یہاں نمایاں ہے۔ اپنی تنہائی میں مسٹر جھلّا کو شریک کرنا چاہتی ہے۔ یہی اس افسانے کی روح ہے۔ اسے ’’عقلی الجھاؤ‘‘ (Intelligence Complex)کا ’’آتش مانیا‘‘ (Phromania) ضرور ہے۔ عقلی الجھاؤ کی صورت بھی ہے اور معکوسی مالخولیا کا رنگ بھی نمایاں ہے یعنی ایک ناخوشگوار واقعے کو شعور سے الگ کرنے کی کوشش اور ماحول اور واقعات کی وجہ سے خارجی امتناع کے دباؤ سے گریز لیکن جس طرح ’’آتش مانیا‘‘ (Pyromania)کا مریض آگ کو دیکھتے ہی اس کے قریب بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے اور غیر شعوری طور پر اس کے ہاتھ پاؤں آگ کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں کم و بیش اسی طرح پدما بھی بے قرار نظر آتی ہے۔ مسٹر جھلّا کی ذات سے دلچسپی لیتی ہے اور اچانک اپنی آزادی کو قربان کر دینا چاہتی ہے۔ جانتی ہے مسٹر جھلّا مزاج کے بھی جھلّے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر برانگیختہ ہو جاتے ہیں پھر بھی انھیں قریب لے آتی ہے۔ جھلّا کے جبرا ور پدما کے صبر کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ پدما کے لاشعور کا تقاضا پورا ہو رہا ہے۔ خارجیت کا جادو ٹوٹ چکا ہے۔ ناخوش گواریوں کو شعور سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ رتنا جب تنبیہ بھرا خط لکھتی ہے تو پدما شوخی سے کہتی ہے: ’’میں تو لکھ دوں گی، میں ان سے شادی کر رہی ہوں اور کبھی طلاق نہ دوں گی!‘‘ دو برس گز ر جاتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ بپھری ہوئی پدما کی جذباتی اور جنسی خواہشات کی تکمیل ہو چکی ہو گی لیکن معاملہ برعکس ہے۔ وہ آگ کے قریب جاتے ہی جھلس جاتی ہے۔ پریم چند نے اس کی تصویر اس طرح پیش کی ہے:

’’چہرہ زرد، رخسار بے رنگ، آنکھوں میں تکان، جسم میں ڈھیلا پن، فکر مغموم، اس پر ایک ہیبت سی طاری رہتی، متوحش خواب دیکھتی، آئینہ میں اپنی صورت دیکھتی اور آہ کھینچ کر رہ جاتی، ساری دنیا کے رنگ و روغن اور بہترین مقویات فطرت کے اس تغیر کے سامنے ہیچ تھے۔ آنکھوں کے گرد حلقے، غذا کی اشتہا غائب۔۔۔‘‘

پدماکی جذباتی اور نفسی خواہشات کی تکمیل نہ ہوئی۔ پریم چند کہتے ہیں :

’’۔۔۔غذا کی اشتہا غائب مگر اسی تناسب سے پیار کی بھوک تیز، اب وہ ناز برداری چاہتی تھی۔ کون اسے پان کس طرح پھیرے۔ اسے سینے سے لگائے رکھے کبھی علاحدہ نہ کرے۔‘‘

اس طرح پدما کا کردار اردو فکشن میں ایک ناقابل فراموش کردار بن جاتا ہے۔ پریم چند اس زندہ لاش کی تمناؤں کو پیش کر کے جذباتی اور جنسی زندگی کی وسعت کو نمایاں کرتے ہیں۔ ابھی تک پیاسی ہو یا نہ ہو پیاس کا احساس رکھنا چاہتی ہے۔ چاہتی ہے کہ اس کے سوکھے ہوئے ہونٹ پر مسٹر جھلّا کی نظر رہے۔ مسٹر جھلّا کو اب اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس سے دور دور رہتے ہیں۔ پدما ان کی ہمدردی چاہتی ہے۔ زندگی میں کشیدگی اور بدمزگی نہیں چاہتی۔ عقلی الجھاؤ کی گرہیں کھل گئی ہیں۔ شعور میں ایک نئی کشمکش شروع ہو گئی ہے۔ آگ ٹھنڈی نہ ہو یہی اس کی آرزو ہے۔ رتنا کا بت سامنے ہے۔ اس کے سامنے رقص کرتے کرتے تھک کر گرنا نہیں چاہتی۔ رتنا کیا کہے گی؟ سمجھے گی اس کے گھنگھرو ٹوٹ گئے۔ اس کے پاؤں تھک گئے۔ موسیقی کا آہنگ ختم ہو گیا۔شعور اور لاشعور دونوں میں ایک ہلچل سی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اور مسٹر جھلّا اس کی آنکھوں کے سامنے سے روپے لے کر غائب ہو جاتے ہیں تو قوتِ خواہش اور دباؤ کی کشمکش ظاہر ہوتی ہے۔ دبے ہوئے احساسات سامنے آتے ہیں اور پدما مالخولیا ہسٹریا کی مریضہ کی طرح حرکتیں کرتی ہے:

’’پدما اسی طیش سے جھلّا کر کمرے میں گئی اور اس کی قد آدم تصویر جو ایک ہزار میں بنوائی تھی اٹھا کر اتنے زور سے پٹکا کہ شیشہ چور چور ہو گیا۔ پھر اس تصویر کو دونوں ہاتھوں سے پھاڑا اور اسے پیروں سے خوب کچلا اور دیا سلائی لگا دی اور پھر جھلّا کر کپڑے، کتابیں، صندوق، جوتے، سگریٹ کیس اور صدہا سامان جو وہاں رکھے ہوئے تھے سب کو ایک جگہ جمع کر کے اس پر مٹی کا تیل چھڑکا اور آگ لگا دی اور بلند آواز میں بولی ’’شہدا، بدمعاش، خرام خور، خر دماغ، خر نفس۔۔۔‘‘ (زادِ راہ، ص۱۵۹)

لاشعوری مخالف ارادے (Counter-Will)کی ایک تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ اسے اپنے وجود سے نفرت کا اظہار بھی کہا جا سکتا ہے۔ جھلّا کی علامت کو توڑ کر جو ذہنی سکون حاصل کرنا چاہتی ہے وہ بھی حاصل نہیں ہوتا اس لیے کہ جھلّا اسی وقت آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ اسے آزما رہے تھے۔ پدما نے جھلّا کے لیے روپے پیسے کی کبھی پروا نہیں کی لیکن اس وقت اس نے اپنے ابلتی ہوئی نفسیاتی، جنسی اور جذباتی کیفیتوں کے لیے ایسی خارجی شے کو ذریعہ اور سہارا بنا لیا۔ دبا ہوا مواد جس شدت سے ابل پڑتا ہے اس کا احساس شعور کو ابھی اچھی طرح نہیں ہوتا۔ پریم چند نے آخر میں پدما کو ایک خاموش مجسمے کی صورت کھڑا کر دیا ہے۔ جھلّا کی تقریر سے پدما کا المیہ اور متاثر ہوتا ہے۔ پدما یقیناً وہ نہیں ہے جو جھلّا بتاتے ہیں۔ جھلا کی واپسی کے متعلق بھی پدما کچھ نہیں سوچتی اس لیے کہ اگر مسٹر جھلا نے اس کی جانب دیکھا تو وہ مکمل پتھر بن جائیں گے اور پدما کو جذباتی زندگی کی تکمیل کے لیے انسان چاہیے، پتھر نہیں !

’’سہاگ کا جنازہ‘‘ اور ’’دیوی‘‘ کی عورتیں اُرمیلا اور آشا دونوں نرگسی عورتیں ہیں۔ ’’جنت کی دیوی‘‘ کی لیلا بھی کئی مہینوں بعد آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اب تک غفلت برتی ہے۔ اپنی شخصیت سے پیار کرتی ہے اور پھر اس کردار میں اُٹھان پیدا ہوتی ہے۔

’’دو سکھیاں ‘‘ کی چندا کو جب اپنے حسن کا احساس ہوتا ہے تو وہ غیر شعوری طور پر مختلف انداز سے اپنی شخصیت کو ابھارنے کی کوشش کرتی ہے۔ سسرال آ کر مجبوراً اپنے تمام رنگین آئینوں کو چھپا دیتی ہے لیکن اس کے باوجود اپنی ذات سے محبت کرتی ہے۔ اپنی سہیلی کو لکھتی ہے:

’’مگر حسن کیا کروں، کیا خبر تھی کہ ایک دن اس حسن کی بدولت میں قصوروار ٹھہرائی جاؤں گی۔ بہن، میں سچ کہتی ہوں کہ جب سے یہاں آئی ہوں ایک طرح پر سنگار کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ میلی کچیلی ہی بیٹھی رہتی ہوں۔ صرف اس خوف سے کہ کہیں کوئی میرے پڑھنے لکھنے پر ناک بھوں نہ سکیڑے۔ کتابوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتی۔‘‘

چندا کی بے قرار جبلت کو ابھی تسکین نہیں ہوئی۔ آگے چل کر پھر اپنی شخصیت اور اپنے حسن سے دلچسپی لینے لگتی ہے:

’’نندیں اگر میرے حسن کو دیکھ کر جلتی ہیں تو یہ فطری ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ یہ سزا مجھے اس طرف سے بھی مل رہی ہے جس طرف سے اس کا قطعی امکان نہ ہونا چاہیے تھا۔ میرے آنند بابو بھی اس کو سزا دے رہے ہیں۔ ‘‘

اپنے شوہر کے احساسِ کمتری کو بھی اسی روشنی میں دیکھتی ہے:

’’جتنی دیر میرے پاس رہتے ہیں ان کے دل میں یہ شک ہوتا رہتا ہے کہ مجھے ان کا رہنا اچھا نہیں لگتا۔۔۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی حسین عورت کو بد صورت مرد سے محبت ہو ہی نہیں سکتی۔۔۔ کیا کہوں، یہ حسن میری جان کا عذاب ہو گیا ہے۔‘‘

پریم چند ’’سماجی قدروں ‘‘ اور ’’تضادات‘‘ اور ’’مقاصد‘‘ کے پیش نظر کرداروں کی تخلیق کرتے ہیں لیکن اسے کیا کیجیے کہ خلق کیے ہوئے کردار اکثر آگے بڑھ کر اپنی ذات اور شخصیت کا مظاہرہ کر کے نفسیات کے کئی پہلوؤں کو اجاگر کر دیتے ہیں اور ان کی انفرادیت کی پہچان ایسے ہی پہلوؤں اور جہتوں سے زیادہ ہونے لگتی ہے۔ اس کہانی کی دوسری عورت پدما بھی اپنی نفسیاتی کیفیتوں سے پہچانی جاتی ہے۔ اپنی ذات کو شوہر کی دلچسپی کا مرکز بنانا چاہتی ہے۔شوہر کی ذات سے دلچسپی نہیں لیتی اور اس کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی۔ چاہتی ہے اس کے ہر عمل پر شوہر کی نظر رہے۔ ’خود پسندی‘ کو نمایاں کرتی رہتی ہے۔ شوہر کی توجہ مبذول کرانے کے لیے ایسی حرکتیں کرتی ہے کہ تعجب ہوتا ہے۔ مثلاً بھون سے محبت کا ڈراما اسٹیج کرتی ہے اور شوہر کو غلط فہمی میں مبتلا کر کے یہ چاہتی ہے کہ شوہر اسے برا بھلا کہے۔اس سے لڑے اور وہ اتنا خاموش اور سنجیدہ ہے کہ بظاہر کوئی دلچسپی نہیں لیتا، اپنی ذات کو توجہ کا مرکز بنانے کے لیے کبھی رسوئیے کو نکال دیتی ہے اور کبھی کمرے کا بلب توڑ دیتی ہے۔ اس کی بے چین ذات کا تقاضا یہ بھی ہے کہ شوہر سے دوچار چبھتی ہوئی باتیں بھی کہہ دے۔ اسی کشمکش، سیمابیت اور نرگسیت میں اس کا کردار توجہ کا مرکز بنتا ہے۔

پریم چند نے عورتوں کی کردار نگاری میں ذہن کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ شعور اور لاشعور کی کشمکش، مختلف خواہشات کا انوکھا اظہار اور قوتِ نفسی، نرگسیت، جبری اعصابی خلل، ہیجانات کا اُبال اور ان کے لیے خارجی علامتوں کی تلاش، ہیرو پسندی، دوسری عورتوں کی زندگی کو نمونہ بنانے کی تمنا، نفسیاتی دباؤ، محبت، نفرت اور حسد کا اظہار، ذات کو توجہ کا مرکز بنانے کی خواہش، نرگسی چھیڑ، فکری اور عقلی الجھاؤ، احساس کمتری، واہمے اور خواب، جنسی جبلت کی دلفریبی، نفسیاتی تعصب، فریبِ نظر(Hallucination)، تحفظِ ذات، اشاعتِ ذات(Self-Propagation)، احساسِ شکست اور شکست کے بعد پہلی حالت میں لوٹنے کی آرزو، مراجعت(Regression)محبوب علامتوں سے نفرت کے بعد اسے بگاڑ کر پیش کرنے کا عمل عورتوں کے کرداروں میں یہ سب ہیں۔ بعض افسانوں میں عورتیں ’’خواب‘‘ بھی دیکھتی ہیں۔ ’بازیافت‘ کی عورت کے واہمے، فنتاسی اور فریبِ تخیل کو دیکھ چکے ہیں۔ نا آسودہ خواہشوں کی تکمیل بیٹھے بیٹھے کس طرح کرتی ہے اور کس طرح دبی ہوئی خواہشوں کو ڈرامائی انداز میں پیش کرتی ہے۔ ’’خوابِ پریشاں ‘‘ (پریم بتیسی، حصہ دوم، ص۱۳۷) کی منورما کے خواب کو دور خیالی یا ’’ٹیلی پیتھی‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ امر ناتھ اس کے شوہر ہیں جو اسے تنہا چھوڑ کر بندیل کھنڈ جاتے ہیں اور منورما انتظار کرتی ہے، خواب دیکھتی ہے، اس کے چاروں خوابوں کا رشتہ اس کہانی کے المیے سے ہے۔ خواب لاشعوری خوف کو پیش کرتے ہیں۔ بنیادی خوف مختلف علامتوں میں ظاہر ہوا ہے۔ پہلا خواب مختصر Condensed) ہے۔ امر ناتھ کو بار بار روتے دیکھنا ممکن ہے انتصال(Projection)کی کوئی صورت ہو۔ اپنے آنسوؤں کو ان کی آنکھوں میں دیکھتی ہے۔ دوسرے، تیسرے اور چوتھے خوابوں میں بڑھتی ہوئی ذہنی اور جذباتی الجھنیں ملتی ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے اس کی الجھنوں میں کتنا اضافہ ہوتا گیا ہے۔ تین خوابوں میں دور سے ہولناک مناظر دیکھتی ہے۔ لیکن آخری خواب میں اپنے شوہر سے قریب ہے اور گھوڑے سے اترنے کو کہتی ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ ذہنی طور پر قریب آتی ہے۔ منورما کی شخصیت اور اس کی ذہنی کیفیات کو پریم چند نے ان خوابوں کے ذریعہ پیش کر دیا ہے۔

پریم چند نے پہلی بار نفسیاتی کرداروں کی تخلیق کرتے ہوئے شعور کے بہاؤ کو نمایاں کیا ہے۔ شعور کے بہاؤ یا چشمۂ شعور کی تکنیک تواسی صدی میں مرتب ہوئی ہے۔ براہِ راست داخلی خود کلامی اور بالواسطہ خود کلامی کسی حد تک ماورائی تفصیل اور سولیلوک(Soliloquy)کو چار مختلف تکنیک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پریم چند کے فن میں اس تکنیک کی جھلکیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ ظاہر ہے انھیں اس تکنیک کی خبر نہیں تھی لیکن ذہن کے مطالعے اور شعور اور لاشعور کی کشمکش میں یہ تکنیک اجاگر ہو گئی ہے۔ موضوع تو خود اپنی تکنیک منتخب کر لیتا ہے۔ داخلی اقرار و اعتراف (Innermost Confessions)دبی ہوئی نفسی قوت، گزرتے ہوئے لمحات، داخلی کردار نگاری اور خود کلامی، نامکمل تجربے، داخلی جاگرتی یا آگاہی، نفسی تاثرات، وجدان کی تصویر کشی یا ہیجان کی ایکس رے(X-Ray)کسی حد تک آزاد تلازمہ، علامتیں، شعور کا بہاؤ اور زمان و مکان کی قدریں، یہ تمام باتیں موجود ہیں۔ نرگسیت کا ذکر کرتے ہوئے ’’بازیافت‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ عورت آرام کرسی پر لیٹی ہوئی ایک انگریزی کتاب پڑھ رہی ہے لیکن شعور کے بہاؤ سے اس کا ذہن اس انگریزی کتاب سے دور ہٹ جاتا ہے۔ ولیم جیمس نے کہا ہے کہ تجربہ کبھی محدود نہیں ہوتا اور نہ کبھی اس کی تکمیل ہوتی ہے۔ برگساں نے یقین دلایا ہے کہ شعور ایک جھرنے کی طرح بہتا ہے۔ تیز، بہت تیز اور ذہنی زندگی کے زمان و مکاں کی قدریں قطعی مختلف ہیں۔ لہٰذا نفسی زندگی کے بہاؤ اور سیلان (Flux)پر غور کرنا چاہیے۔ ان باتوں کی روشنی میں ’بازیافت‘ کی اس عورت کے شعور کے بہاؤ کو دیکھئے:

مجھے خیال آیا کہیں بابو جی (شوہر) کا بخار مہلک ثابت ہوا تو؟

لیکن اس خیال سے مجھے ذرا بھی دہشت نہ ہوئی، میں اس ملالِ تخیل کا مزہ اٹھانے لگی۔‘‘

’’مسز داس، مسز نائیڈو، مسز سریواستو، مس کھرے، مسز شرغہ، مس گھوش ضرور تعزیت کرنے آئیں گی۔‘‘

’’انھیں دیکھتے ہی میں آنکھوں میں آنسو بھرے اٹھوں گی اور کہوں گی ’’بہنو میں لٹ گئی۔ اب میری زندگی اندھیری رات ہے یا ہولناک جنگل یا شمع مزار لیکن میری حالت پر غم کا اظہار مت کرو، مجھ پر جو کچھ گزرے گی میں اس انسانِ کامل کی نجات کے خیال سے بخوشی سہہ لوں گی۔‘‘

اسے ما بعدالطبیعاتی منصوبہ بندی کہیے یا کچھ اور لیکن یہاں کم و بیش وہ تمام باتیں مل جائیں گی کہ جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ ذہنی زندگی کے زمان و مکاں کی کیفیتیں کتنی مختلف ہیں۔ دبی ہوئی نفسی قوت کا اظہار کس طرح ہوا ہے۔ گزرتے ہوئے لمحات سے لاشعور نے کیسے خاکے مرتب کیے ہیں۔ یہ خود کلامی اردو فکشن میں اپنی مثال آپ ہے۔ آزاد تلازمہ نے جن علامتوں کا سہارا لیا ہے وہ بھی توجہ طلب ہیں۔ شعور کے بہاؤ سے خارجی قدروں کو کتنی شدید چوٹ پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ داخلی اعتراف سے نامکمل تجربوں کا اظہار کس طرح ہوا ہے۔نفسی تاثرات ’ایکس رے‘ کے پلیٹ پر کیسے نقوش لے کر منجمد ہو رہے خیال کی بنیاد پہلے سے مضبوط ہے اس لیے وہ تخیل سے لذت لیتی ہے۔ نفسی قوت ڈرامائی طور پر ایک پردے کے بعد دوسرا پردہ اٹھاتی ہے۔ ’’اندھیری رات‘‘، ’’ہولناک جنگل‘‘ اور ’’شمع مزار‘‘ کی علامتیں بھی غور طلب ہیں۔ دراصل اپنے شوہر کی موت کے بعد ایک اندھیری رات اور ایک ہولناک جنگل سے باہر نکل آئے گی۔ شمع مزار بن کر نہیں رہے گی۔ ’’لیکن میری حالت پر غم کا اظہار مت کرو‘‘ اس لیے کہ یہ غم بنیادی طور پر لا شعور کا انبساط ہے۔ شوہر کو ’انسانِ کامل‘ کہنے والی یہ عورت ممکن ہے اس کی زندگی کی تکمیل کی ممنون و مشکور ہو، شوہر اس طرح اپنی زندگی مکمل کر کے اسے آزاد چھوڑ جائے! نفسی تاثرات، آزاد تلازمہ، تخیل کی لذت اور مابعد الطبیعاتی منصوبہ بندی کی باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ وہ ایک طولانی ماتمی تقریر کا مسودہ بھی دل میں تیار کرتی، اس کی ماتمی لباس کا فیصلہ کرتی ہے جسے پہن کر اسے شوہر کے جنازے میں شریک ہو گی۔ نفسی تصورات(Psychic Images)کا یہ سلسلہ کتنا حیرت انگیز ہے۔

’’طلوعِ محبت‘‘ کی بنٹی (آخری تحفہ) ’’سکونِ قلب‘‘ کی گوپا(دودھ کی قیمت) ’’اکسیر‘‘ کی بوٹی (دودھ کی قیمت) اور ’’بوڑھی کاکی‘‘ کی بوڑھی عورت (پریم بتیسی حصہ دوم) یہ سب بھی نفسیاتی جہتوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ ’بنٹی‘ کے کردار میں پریم چند نے عورت کے جذبات کے کئی روپ دکھائے ہیں۔ نفسیاتی عمل اور ردِ عمل کا جائزہ ملتا ہے۔ بنٹی کا باغیانہ احتجاج بھی فطری ہے اور بھوندو کی گرفتاری کے بعد اس کی تبدیلی بھی۔خارجی نقش و نگار پر مرنے والی عورت اپنے جذبے کے گداز کوسب کچھ سمجھنے لگتی ہے اور اس طرح شوہر کی تصویر کا خاکہ پھر ابھرتا ہے۔ پریم چند کی نظر اس کے فطری اور نفسیاتی خدوخال پر ہے۔ ’’سکونِ قلب‘‘ کی گوپا میں شدتِ درد کی ایک حیرت انگیز تصویر ابھرتی ہے۔ اس کی بیٹی کا انتقال ہوتا ہے اور اس کے چہرے پرسکون کی ایک جھلک ہے۔ کہتی ہے:

’’جنازے کے ساتھ بہت سے آدمی ہوں گے۔ میرے جی میں بھی آیا کہ چل کر سنّی کا آخری دیدار کر لوں۔ لیکن میں نے سوچا کہ جب سنّی نہ رہی تو اس کی لاش میں کیا رکھا ہے، نہ گئی۔‘‘

پریم چند نے سنّی کی مصیبتوں اور اس کی اذیت ناک زندگی کو گوپا کے ذہن میں ایک پس منظر کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کے بعد یہ حادثہ ہوتا ہے۔ اس نفسیاتی ردِ عمل پر غور کیجیے کہ اس عورت کے ذہن کو اس پس منظر میں کس قسم کا نفسیاتی سکون ہوا ہے۔ گوپا کے ایک ایک لفظ پر غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ اس کے جذبات کیسے ہیں۔ ان کا یہ نفسیاتی ردِ عمل بظاہر ایسا ہے اندر کتنی بے چینی اور کتنا درد ہے! ’اکسیر‘ کی بوٹی بیوہ ہے، اس کے تین بچے ہیں۔ بڑا لڑکا موہن سولہ سال کا ہے۔ مینا اور سوہن چھوٹے ہیں۔ بیوہ ہو جانے کے بعد مزاج میں تلخی آ گئی ہے۔ جب خانہ داری کی پریشانیوں سے جی بہت جلتا ہے تو اپنے مرے ہوئے شوہر کو صلواتیں سناتی ہے ’’جب اتنی جلدی جانا تھا تو شادی نہ جانے کس لیے کی تھی، گھر میں پھوٹی بھنگ نہ تھی چلے تھے شادی کرنے!‘‘

بوٹی کردار بھی نفسیاتی ہے۔ جب موہن ایک روز یہ کہتا ہے کہ شوق سنگار کی بھی ایک عمر ہوتی ہے تو بوٹی کے جسم میں آگ سی لگ جاتی ہے۔ اسے بڑھیا کہہ دینا اس کے تقویٰ و طہارت کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ سوچتی ہے اس کی ناقدری، انہی لڑکوں کے پیچھے اس نے اپنی ساری جوانی خاک میں ملا دی۔ شوہر کو گزرے آج پانچ سال ہوئے تب اس کی چڑھتی جوانی تھی۔ یہ تین چینٹے پوت اس کے گلے منڈھ دیے ہیں۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے۔ چاہے تو آج بھی ہونٹ سرخ کیے پاؤں میں مہندی رچائے، الوٹ بچھوے پہنے مٹکتی پھرتی‘‘ وہ نہیں چاہتی کہ موہن روپا سے شادی کرے، تلملاہٹ کا اندازہ کیجیے:

’’اگر روپا میرے گھر میں آئی تو جھاڑو مار کر نکال دوں گی۔ یہ سب اس کی ماں کی مایا ہے۔ وہی کٹنی میرے لڑکے کو مجھ سے چھینے لیتی ہے۔ رانڈ سے اتنا بھی نہیں دیکھا جاتا۔ چاہتی ہے کہ اسے سوت بنا کر میری چھاتی پر مونگ دلے۔‘‘

موہن اور روپا دونوں بوٹی کے مزاج سے واقف ہیں۔ لہٰذا اس پر نفسیاتی شعاعیں ڈالتے ہیں۔ موہن اپنے بھائی اور بہن کو پیسے اور مٹھائی دیتا ہے۔ ماں کے لیے پاندان لاتا ہے۔ کہتا ہے: ’’جس کے دو دو جوان بیٹے ہوں کیا وہ اتنا شوق بھی نہ کرے۔‘‘ روپا کہتی ہے ’’تم بوڑھی کس طرح ہو گئیں اماں، مردوں کو اشارہ مل جائے تو بھوتروں کی طرح منڈلانے لگیں، میرے دادا تو تمہارے دروازے پر دھرنا دینے لگیں۔ ‘‘ اس گھر میں بوٹی کے لیے ایک انتہائی دلفریب فضا قائم ہوتی ہے۔اس کے سخت خزاں رسیدہ دل میں کہیں سے ہریالی نکل آتی ہے۔ جیسے اس کے چہرے کی جھریاں چکنی ہو گئیں۔ پان کے ایک بیڑے کے عرق سے اس کی بیوگی کی کرختگی ملائم ہو گئی۔ ایک پرانے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتی ہے۔مزاج میں فرق آ جاتا ہے۔ گاؤں کی ایک عورت دھنیا کو پانی بھرنے کے لیے رسّی دیتی ہے۔ یہ وہی بوٹی ہے جواس سے کہتی تھی ’’میری رسّی گاؤں بھر کے لیے نہیں ہے، رسّی ٹوٹ گئی ہے تو بنوا کیوں نہیں لیتی۔‘‘ اسے روپا اچھی لگنے لگتی ہے اور جب موہن بازار سے دودھ بیچ کر آتا ہے تو بوٹی اس سے کہتی ہے : ’’کچھ روپے پیسے کی فکر کر بھائی، میں روپا کی ماں سے روپا کے لیے تیری بات چیت پکّی کر رہی ہوں !‘‘

’’فریب‘‘ کی جگنو، ’’لعنت‘‘ کی مسز شاپور ’’شکست کی فتح‘‘ کی لجیاوتی، ’’سوت‘‘ کی گومتی اور گوداوری، ’’کسم‘‘ کی کسم، ’’قاتل‘‘ کی ماں، ’’دو سکھیاں ‘‘ کی چندا، ’’ماں ‘‘ کی کرونا، ’’الزام‘‘ کی دیوی، ’’موسی‘‘ کی سورج کماری بھی اپنی نفسیات کے نہاں خانوں سے باہر جھانکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ عورت کی فطرت اور نفسیات کے مختلف پہلو اِن کرداروں کے ذریعہ نمایاں ہوئے ہیں۔

پریم چند نے عورتوں کے جلال و جمال کو طرح طرح سے پیش کیا ہے۔ مختلف عورتوں کے چہروں اور جسمانی اوصاف کے ذریعہ کرداروں کی ذہنی کیفیات و عوامل کو نمایاں کیا ہے۔ ایک نوجوان مرد کے فریبِ نظر نے ایک عورت کو اس طرح دیکھا ہے:

’’پھول میں بھی حسن ہے۔ شعلہ میں بھی حسن ہے۔ پھول میں طراوت اور تازگی ہے۔ شعلہ میں سوز اور تپش، پھول پر بھونرا اڑ اُڑ کر اس کا رس پیتا ہے۔ شعلہ پر پروانہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ چہرے کے سامنے اس وقت زرنگار مسند پر جو نازنین شان سے بیٹھی ہوئی تھی وہ فی الواقع حسن کا شعلہ تھی۔ اس کی مخمور آنکھوں سے جاں سوز حرارت کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ پھول کی پنکھڑیاں بکھر سکتی ہیں ؟ شعلہ کو بکھیرنا ممکن نہیں۔ اس کے ایک ایک عضو کی تعریف کرنا شعلہ کو کاٹنا ہے۔اس کا حسن سرتاپا ایک شعلہ تھا۔ وہی دمک، وہی سرخی، کوئی مصور سطوت حسن کی اس سے بہتر تصویر خیال میں نہیں لا سکتا۔‘‘ (شعلۂ حسن)

’’گھاس والی‘‘ میں ملیا کے حسن کی تعریف کرتے ہیں :

’’گیہواں رنگ تھا۔ غنچہ سا منہ، بیضاوی چہرہ، تھوڑی کھچی ہوئی۔ رخساروں پر دلآویز سرخی، بڑی بڑی نکیلی پلکیں، آنکھوں میں ایک عجیب التجا، ایک دلفریب معصومیت، ساتھ ہی ایک عجیب کشش!‘‘

’’فریب‘‘ کی مس خورشید کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’گلابی گورا رنگ، نازک اندام، نرگسی آنکھیں، نئے فیشن کے کٹے ہوئے بال، ایک ایک عضو سانچے میں ڈھلا ہوا!‘‘

’’وفا کی دیوی‘‘ کی تلیا کے حسن کا مختصر جائزہ لیتے ہیں :

’’تلیا کسی زمانے میں حسین تھی۔ کافر ادا تھی۔ قاتل تھی اور اپنے کشتگان ناز کی درد بھری داستانیں جب وہ چشم پرنم کھولتی تو شاید کشتوں کی روحیں عالم زیریں یا عالم بالا میں وجد کرتی ہوں گی۔‘‘

’’طلوعِ محبت‘‘ کی بنتی جب دلہن کی طرح سنور جاتی ہے تو پریم چند کہتے ہیں :

’’گلابی رنگ کی ساڑی پہن کر اور پھولوں کا ہار گلے میں ڈال کر اس نے آئینہ میں اپنی صورت دیکھی تو اس کے آبنوسی رنگ پر سرخی دوڑ گئی۔ اپنے آپ کو دیکھ کر شرما گئی۔ افلاس کی آگ میں نسائیت بھی جل کر خاک سیاہ ہو جاتی ہے۔ نسائیت کی حیا کا ذکر ہی کیا ہے۔ میلے کچیلے کپڑے پہن کر شرمانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی چنوں میں خوشبو لگا کر کھائے۔‘‘

’’علاحدگی‘‘ کی ملیا تیسرے دن میلے سے آتی ہے تو پریم چند بتاتے ہیں :

’’وہ اس خارزار میں گل صد برگ تھی۔ گیہواں رنگ تھا، غنچہ دہن، بیضاوی چہرہ، ٹھڈی کھنچی ہوئی، رخساروں پر دلآویز سرخی، بڑی بڑی نکیلی پلکیں، آنکھوں میں ایک عجیب التجا، ایک دلکش معصومیت۔۔۔صبح کے وقت ملیا کنویں پرسے پانی کا گھڑا لے کر چلتی تو اس کا گندمی رنگ طلوع کی سنہری کرنوں سے کندن ہو جاتا۔‘‘

’’گھاس والی‘‘ کی ملیا اور ’’علاحدگی‘‘ کی ملیا کی تعریف ایک جیسی ہے۔

کچھ عورتیں بدصورت ہیں اور بدصورتی میں بھی کردار کا حسن ہے۔ کچھ اپنی عمر کی ایک منزل پر اپنا حسن و جمال کھو دیتی ہیں۔ کچھ ایسی ہیں جو حالات کے اثرات اور ماحول کی وجہ سے اپنا حسن و شباب سب کچھ کھو چکی ہیں۔ ایسی عورتوں میں ’’دیوی‘‘ کی آشا بھی ہے۔ جس کی شادی بپن بابو سے ہوتی ہے۔ بپن اسے دیکھ کر اپنا سر پیٹ لیتے ہیں۔ نفرت، غصہ اور مایوسی ان کے دل کو کچل دیتی ہے۔ اس لیے کہ وہ حسن و نزاکت کی دیوی نہ تھی جس کی برسوں سے پرستش کر رہے تھے، وہ:

’’ایک چوڑے منہ، چپٹی ناک اور پھولے ہوئے رخساروں والی مکروہ صورت عورت تھی۔ جس پر صنفِ نازک کا کسی طرح بھی اطلاق نہ ہو سکتا تھا۔‘‘

لیکن یہ عورت دیوی ہے۔ شوہر کی محبت حاصل کرنے کے لیے بے چین ہے۔ اچھے اچھے کپڑے پہنتی ہے۔ طرح طرح سے بال سنوارتی ہے۔گھنٹوں آئینے کے سامنے سنگار کرتی ہے۔ لیکن بپن بابو کو یہ ستر غمزے معلوم ہوتے ہیں۔ جب بپن بیمار ہوتے ہیں تو وہ اپنی بیماری بھول کر تیمار داری کرتی ہے اور بپن بابو پر فالج کے اثر کے بعد ان کے چہرے کو پسند کرتی ہے۔

’’حقیقت‘‘ کی پورنما شوہر کے انتقال کے بعد آتی ہے تو بالکل بدلی ہوئی نظر آتی ہے:

’’سفید ساڑی کے گھونگھٹ سے آدھا منہ چھپا ہوا تھا مگر کمر جھک گئی تھی۔ باہیں سوت سی پتلی، پشت پاکی رگیں ابھری ہوئی، آنکھوں سے آنسو جاری اور رخسار زرد، جیسے کفن میں لپٹی ہوئی لاش کھڑی ہوئی ہو۔‘‘

’’مس پدما‘‘ اپنی جوانی کھو کر سب کچھ کھو چکی ہے:

’’چہرہ زرد، رخسار بے رنگ، آنکھوں میں تکان، جسم میں ڈھیلا پن، فکر، مغموم اس پر ایک ہیبت طاری رہتی۔۔۔ آنکھوں کے گرد حلقے۔‘‘

عمر کی رفتار کے ساتھ پریم چند عورتوں کے جذبات اور احساسات کی تبدیلی کو بھی دیکھتے ہیں۔ بنیادی جبلتوں کے اظہار کے فرق پر ان کی گہری نظر رہتی ہے۔ بعض بوڑھی عورتوں کے کردار کی خباثت کو شکل و صورت سے بھی بتاتے ہیں، مثلاً ’’فریب‘‘ کی جگنو:

’’وہ ناخواندہ غریب بوڑھی عورت تھی۔ مسکین صورت لیکن جیسے کسی ہوشیار پروف ریڈر کی نگاہ غلطیوں ہی پر جاتی ہے۔ اس کی آنکھیں بھی باطن کے داغوں پر جا پڑتی تھیں۔ اس کا پست قد، نحیف جسم، سفید بال اور پر شکن چہرہ۔۔۔‘‘

ان کے علاوہ مختلف عورتوں کے اندازِ گفتگو کو ان کی شخصیت و کردار کے مطابق پیش کیا ہے۔ آوازوں کے آہنگ کے تئیں بھی پریم چند بیدار نظر آتے ہیں۔

٭٭٭

Pages: 1 2 3 4 5 6 7 8