فہرست مضامین
آنکھ
عبد الرزاق واحدی
پہلی بات
پچھلی چند دہائیوں میں اردو ادب کا چولا بالکل بدل گیا ہے۔ نئے افسانہ نگار اور شاعروں نے ہمارے ادبی خزانے میں بیش بہا اضافے کئے ہیں اور مزید نئے افسانہ نگار، شاعر ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ان نئے افسانہ نگاروں میں عبدالرزاق کا نام بالکل نیا ہے ۔ان کی تحریروں کے بارے میں کچھ کہنا غیر ضروری سا معلوم ہوتا ہے۔ اہلِ نظر پر خود ہی عیاں ہو جائے گا کہ افسانہ نگار نے کام کی بات کہاں کہاں کہی ہے اور اِس کا زاویہ نظر کتنا اور کیسا ہے۔ وہ کس حد تک انسانی فطرت کو پرکھ کر اپنے خیالات کو کس خوش سلیقگی کے ساتھ قاری تک پہنچانے میں کامیاب ہوا ہے۔ محض خوشہ چینی کی گئی ہے یا ذاتی اپج کی پرچھائیاں بھی نظر آتی ہیں۔ اسلوب تحریر بے کیف، خشک اور الجھا ہوا ہے۔ یا قابلِ برداشت…. ان سوالوں کے جواب خود بخود ملتے جائیں گے۔ سچ پوچھئے تو اِس کتاب کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ نہ یہ جواہرات کا صندوقچہ ہے اور نہ خرافات کا پوٹ!
یہ مختصر کہانیاں سماج میں چاروں اَور پھیلے ہوئے آکاش بیل کی کہانیاں ہیں۔ باطنی اور خارجی مشاہدات پر مبنی یہ کہانیاں مجھے ایسے معاشرے میں لے گئیں جہاں لوگوں کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹتا جا رہا ہے۔ایک اچھے افسانہ نگار کی نگاہ سب سے انوکھی اور نرالی ہوتی ہے اور وہ انسانی فطرت اور انسانی روّیوں کی جہتوں کو تلاش کرنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ انہیں تلاش کرنے کے لئے ایک عمر درکار ہے۔افسانہ نگار نے زندگی کی پُراَسرار باتیں مختلف طریقوں سے سُنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اُسے کہانی کہنے پر پوری دسترس حاصل ہے۔
عطا ءالرحمٰن
ابتدائیہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو آنکھیں دیکھنے کے لیے دی ہیں اور ایک آنکھ تحت الشعور میں عطا کی ہے جو ہمیں نظر تو نہیں آتی لیکن ہم شعوری طور پر اُس کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں۔ اُس آنکھ کا ذہن میں آتے ہی انسانی شعور میں روشنی کی شفاف لہریں رقص کرنے لگتی ہیں۔ انسان اُس آنکھ کو لاشعور سے تشبیہ دیتا ہے یعنی اکثر انسان کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کا نتیجہ ایسے ہوگا…. ویسے ہوگا….اس طرح ہوگا…. کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان لاشعور میں مستقبل دیکھنے کی کوشش اپنے تئیں کرتا ہے۔ وہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے اس کے مطلق تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہماری وہ آنکھ اچھائی اور بُرائی میں فرق کرسکے تو ہمارے قلب و ذہن اور ہمارے وجود کو روشن کرسکتی ہے اور اگر ہماری آنکھ اچھائی اور بُرائی میں تمیز نہ کرسکے تو ہمارے قلب و ذہن کے ساتھ ساتھ ہمارا پورا جسم بھی تاریک ہو جاتا ہے۔
میں نے اپنے شعور کی آنکھ سے زندگی کو پرکھ کر دیکھا ہے۔ مستقبل کو دیکھا ہے کس طرح دیکھا ہے، میں کہاں بُرائی ، اچھائی کو محسوس کیا ہے۔ اور ان کا حل شعور کی آنکھ سے کیا نکالا ہے۔ ان سب کا تجزیہ میں نے اپنے افسانوں میں کیا ہے۔ یہ افسانے زندگی کی اچھائی اور بُرائی کا ذکر ہی نہیں بلکہ یہ افسانے لکھنے کا میرا مقصد یہ تھا کہ انسانیت کے ساتھ بھلائی کی جائے۔ جس طرح تاریکی میں روشنی کی ایک چھوٹی سی کرن دُور تک پھیل کر اندھیرے کو کم کر دیتی ہے بالکل اسی طرح اگر کسی کے ساتھ بھلائی کی جائے تو اِس بھلائی کی کرنیں دُور تک پھیل کر بُرائی کو ختم کر دیتی ہیں۔
بھلائی روشنی کے ایک چھوٹے سے ذرّے کی مانند ہے جسے خلوص اور محبت سے جلایا جائے تو اس کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی لیکن اگر ذہن میں خود غرضی کا عنصر شامل ہو جائے تو بھلائی کا چراغ گُل ہو جاتا ہے۔ میرے افسانے پڑھ کر اس کا بات اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ میں کس حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا ہوں اس کا فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ اگر ان افسانوں میں ایک نکتہ بھی ایسا نکل آئے جو علم و ادب کے نکتہ شناسوں کی رائے میں کسی قابل ہو تو میں شاد ہو جاؤں گا کہ واقعی اپنی زندگی میں کوئی اچھا کام کر گیا۔
میں ہرگز ہرگز دعویٰ نہیں کرتا کہ میں نے بہتر لکھا ہے لیکن یہ ضرور کہوں گا یہ جو کچھ لکھ کر آپ کے سامنے لایا ہوں اس میں کچھ ہے ضرور جو آپ کو پڑھنے پر مجبور کرے گا اور آپ پڑھے بغیر کتاب چھوڑ نہیں سکیں گے۔ میں اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں اسکا فیصلہ آپ نے کرنا ہے اور اپنی رائے سے آگاہ مجھے ایک خط یا ای میل لکھ کر ضرور کیجئے گا۔
آپ کی محبتوں کا طالب
عبدالرزاق واحدی
razafsana@yahoo.com
abdulrazzaqwahidi@gmail.com
http://www.facebook.com/abdul.razzaqwahidi
حرامی
اکتوبر کی ایک خوشگوار صبح تھی۔ سورج ابھی نہیں نکلا تھا، شہر سے دور اس قصبے کی چوڑی چوڑی اور سانپ کی طرح بل کھاتی گلیاں خالی خالی اور ویران ویران سی لگ رہی تھیں۔ بس اکا دکا لوگ ہی آ جا رہے تھے۔ ایسے میں بستی میں صبح سویرے درختوں پر چڑیوں کی چہچہاہٹ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ اتنی صبح صرف وہی لوگ گھروں سے باہر نکلتے تھے جنہیں دور شہر ملازمت کے لیے جانا ہوتا تھا اور انہیں بروقت ڈیوٹی پر حاضر ہونے کے لیے صبح سویرے نکلنا پڑتا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان بھی ہر روز نظر آتا تھا وہ بھرے بھرے جسم کا خوبصورت نوجوان تھا۔ اس نے اپنی سائیکل کے پیچھے ایک بڑا سا چھابہ باندھا ہوتا تھا جس سے گمان ہوتا کہ یہ شخص شہر کی فروٹ منڈی سے کوئی پھل وغیرہ خرید کر شہر میں گھوم پھر کر بیچتا ہے، بہرکیف جو کچھ بھی تھا توجہ طلب بات یہ تھی کہ اس کے ساتھ ایک چھ، سات سالہ صحت مند بچہ سکول کے یونیفارم میں ملبوس بھی ہوتا تھا جسے دیکھ کر اس نوجوان کے چہرے پر مسکراہٹ کھل جاتی تھی اور وہ بہت مسرور دکھائی دیتا تھا اور بچہ بھی باپ کی سائیکل پر بیٹھا بہت خوش دکھائی دیتا تھا۔ بستی میں کوئی سکول نہ تھا اور نہ ہی اس بستی کے باسی تعلیم حاصل کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ پوری بستی میں صرف وہی ایک شخص تھا جو اپنے معصوم اور ننھے مُنّے سے بچے کو اتنی صبح سویرے دور شہر میں سکول چھوڑنے کے لیے لے جاتا تھا اور وہ بچہ بھی بڑی خوشی سے سکول پڑھنے کے لیے جاتا تھا اس کو کبھی بھی روتے ہوئے سکول جاتے نہیں دیکھا گیا تھا۔
اُس بستی میں ہر روز ایک میلے کچیلے اور جگہ جگہ سے پھٹے پُرانے کپڑوں میں ملبوس، پاؤں سے ننگا بوڑھا گلی کی نکڑ پر کھڑا رہتا، وہ بچے اور اس کے باپ کو آتا دیکھ کر لاشعوری طور پر خوش ہوتا۔ بچے کی معصومیت اور باپ کی شفقت دیکھ کر اس کے اندر زندگی کی لہر دوڑ جاتی جس سے اسے نئی توانائی محسوس ہوتی جو سارا دن اس کو زندہ رہنے پر مجبور کرتی تھی۔ بچے کی معصومیت دیکھ کر اس کا جھریوں بھرا چہرہ خوشی سے دمکنے لگتا اور وہ گلی کی نکڑ پر اس وقت تک کھڑا رہتا جب تک وہ بچہ اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتا پھر وہ اپنے کھردرے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتا جو اضطراری طور پر خوشی سے اس کی آنکھوں سے بہہ نکلتے تھے اور وہ خود ہی مسکرا دیتا اور پھر اپنے گھر کی راہ لیتا۔ نجانے کیوں آج اسے اپنا بچپن بڑی شدت سے یاد آ رہا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا ذہن ماضی میں گم ہو گیا۔
بوڑھے کا بچپن بھوک، پیاس اور گالی گلوچ سننے میں گزر گیا تھا۔ گاؤں میں تو اس کی حیثیت کتوں سے بھی نچلے درجے کی تھی۔ اِس کو کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملا تھا جو اسے انسان سمجھتا۔ اسے نہیں معلوم کہ اس کو کس ماں نے جنم دیا اور اس کا باپ کون تھا۔ بس جب سے ہوش سنبھالا تب سے اپنے آپ کو گاؤں کے چوہدری کی حویلی میں گائے بھینسوں کی رکھوالی پر مامور پایا یہاں اسے صرف ڈانٹ ڈپٹ ہی ملتی تھی اور دن بھر کی سخت مشقت کے بعد اس کا پیٹ پھر بھی خوراک سے خالی رہتا تھا۔ اس کی راتیں سردی سے ٹھٹھرتی اور دن مار کٹائی سے بھرپور ہوتا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ ماں کی آغوش کی نرمی اور باپ کی شفقت کتنی راحت افزا ہوتی ہے۔ گاؤں کا ہر فرد اسے ’’حرامی‘‘ کہہ کر پکارتا تھا اور بات بے بات تھپڑ، لاتوں اور گھونسوں سے اس کی خاطر تواضع ہوا کرتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو یہ طعنے بھی دیے جاتے تھے کہ تمہاری ماں اپنا گناہ چھپانے کے لیے تم کو بھینسوں کے باڑے میں چھوڑ گئی تھی، وہ تو چوہدری کی خدا ترسی کہ اس نے تم جیسے حرامی بچے کو اپنی حویلی میں جگہ دی۔
وہ گاؤں والوں کی بلا لوث خدمت کے ساتھ ساتھ سب ستم برداشت کر سکتا تھا لیکن اپنی ماں کے متعلق بدزبانی، فحش گوئی سننا نہیں چاہتا تھا لیکن جب وہ لوگوں سے اپنی ماں کے متعلق فحش گوئی سنتا تو آگ بگولا ہو جاتا لیکن اس کا غصہ خود اس کے لیے نقصان دہ ہوتا اور لوگ اس کی خوب خاطر کرتے تھے۔
اس کے اندر اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ گاؤں والوں کو اپنی ماں کے متعلق فحش کلامی سے روک سکے اور نہ ہی اس کے اندر اتنی صلاحیت تھی کہ وہ گاؤں والوں کو بتاتا کہ ماں جیسی عظیم ہستی کیسے اپنے ایک گھنٹے کے بچے کو یوں بے سہارا چھوڑ سکتی ہے۔ ماں سنگدل ہو ہی نہیں سکتی اگر وہ سنگدل ہوتی تو اس کے پاؤں کے نیچے خدا کبھی بھی جنت کا مقام نہ رکھتا۔ اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ اس کی ماں کوئی بدکار عورت نہیں تھی بلکہ کوئی ظالم شخص ماں سے بچہ چھین کر یہاں چھوڑ گیا ہو گا اور ان لوگوں نے خواہ مخواہ کہانی بنا دی ہے۔
وہ ماں جس کو اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا بس محسوس کیا تھا کہ ماں جیسی سچی محبت کرنے والی شخصیت بھی ہوتی ہے جو اپنی جان پر کھیل کر اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے۔ ماں یوں ہی اپنی اولاد کو بے سہارا کبھی نہیں چھوڑتی۔ ایسی ماں کا تصور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے ذہن میں برقرار رکھنے کے لیے اس نے گاؤں سے بھاگ جانے کا ارادہ کر لیا تھا اور ایک دن چپکے سے وہ گاؤں سے دور کہیں دور چلا گیا کیونکہ وہ اس مقدس ماں کے تصور کو زندہ رکھنا چاہتا تھا جو گاؤں والے اس کے ذہن سے مٹا دینے کے درپے تھے۔
گاؤں والوں سے چھپتا چھپاتا وہ کسی نہ کسی طریقے سے شہر پہنچ گیا لیکن یہاں سَر چھپانے کے لیے اس کے پاس کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور وہ یونہی شہر کی سڑکیں ناپنے لگا کہ کہیں کوئی بہتر ٹھکانہ میسر آ سکے۔ آخر اس کی نظر ایک زیر تعمیر مکان پر جا کر رک گئی اور اس کے دل میں خیال اُبھرا کہ کیوں نہ اِس مکان میں رات بسر کی جائے اور وہ فوراً مکان کے کسی کونے کھدرے میں جا کر ایسے ہی بھوکا پیاسا لیٹ گیا اور بہت جلد اس پر نیند غالب آ گئی۔
صبح جب مزدور کام پر آئے تو انہوں نے ٹھیکیدار کی توجہ مکان میں موجود اس نوجوان کی طرف کروائی جو گہری نیند سویا ہوا تھا۔ ٹھیکیدار نے آتے ہی اس کو زور دار ٹھوکر لگائی اور وہ گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے اردگرد بہت سے لوگوں کو موجود پا کر وہ پہلے سے بھی زیادہ گھبرا گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔
’’بابو جی میں بے گناہ ہوں، میں یہاں پر چوری کرنے کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ میں تو صرف رات بسر کرنے کے لیے رک گیا تھا، آپ لوگ میری تلاشی لے لیجئے … میں نے کوئی چوری نہیں کی، میں چور نہیں ہوں، بابو جی۔ آپ مجھے معاف کر دیں …‘‘
ٹھیکیدار نے اس کو گھورا اور پھر یکدم بولا:
’’کام کیا کرتے ہو؟‘‘
’’بابو جی میں کل شام ہی گاؤں سے شہر آیا ہوں۔ ‘‘ اس نے گھبراتے ہوئے جواب دیا۔
ٹھیکیدار نے اس کی گھبراہٹ دور کرنے کے لیے تمام مزدوروں کو اپنا اپنا کام کرنے کا حکم دیا اور وہ تمام وہاں سے منتشر ہو گئے اور پھر بڑی محبت کے ساتھ ٹھیکیدار اس سے مخاطب ہوا۔
’’نام کیا ہے، تمہارا؟‘‘
’’حرامی۔ ‘‘
’’یہ کیا نام ہوا؟ تمہارا اصل نام کیا ہے ؟‘‘ ٹھیکیدار نے حیرت سے پوچھا۔
’’باؤ جی مجھے گاؤں میں لوگ اسی نام سے پکارتے ہیں۔ ‘‘
’’اور تمہارے والدین تم کو کس نام سے پکارتے ہیں۔ ‘‘
’’وہ جی— وہ جی—‘‘
’’ کیا وہ زندہ ہیں ؟‘‘
’’پتہ نہیں باؤ جی۔ ‘‘
’’کیا مطلب …پتہ نہیں۔ ‘‘
’’باؤ جی، گاؤں والے کہتے ہیں کہ تمہاری ماں اپنا گناہ چھپانے کے لیے تم کو بھینسوں کے باڑے میں چھوڑ گئی تھی۔ ‘‘
’’تو پھر تم کو کس نے پالا ہے۔ ‘‘
’’اللہ نے اور کس نے۔ ‘‘
’’میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کوئی انسانی وسیلہ بھی تو ہوتا ہے۔ ‘‘
’’مجھے کچھ نہیں معلوم بس جب سے بولنا، سمجھنا شروع کیا ہے خود کو باڑے میں پایا ہے۔ اس کے علاوہ اور مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میری ابتدائی زندگی کے دن کیسے بسر ہوئے۔ ‘‘
’’تو پھر تم نے وہ گاؤں کیوں چھوڑ دیا جس نے تم کو سہارا دیا اور تم پل کر جوان ہوئے۔ ‘‘
اس نے حقارت سے سر کو جنبش دی اور بولا : ’’بابو جی وہاں پر میرا رہنا دوبھر ہو گیا تھا ہر کوئی مجھے گالی دینا اور بات بے بات مارنا پیٹنا فخر سمجھتا تھا۔ میں سارا دن چوہدری اور گاؤں والوں کے لیے محنت مشقت کرتا اور وہ لوگ مجھے پیٹ بھر کر کھانا بھی نہ دیتے تھے۔ میری زندگی وہاں پر کتوں سے بھی بُری گزر رہی تھی اس لیے وہاں سے بھاگ جانا ہی بہتر تھا۔
ٹھیکیدار اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا اسی لیے تو اُس نے فوراً اِس کو کھانا کھلا کر مزدوری پر لگا دیا۔ یہاں اسے محنت گاؤں کی نسبت کم کرنی پڑتی تھی اور کھانا بھی پیٹ بھر کر کھاتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ یہاں اسے ماں کی گالی بھی کوئی نہیں دیتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ یہاں بہت خوش تھا اور اپنا کام بڑی جانفشانی اور محنت سے کرتا۔ وہ کم عمر ہونے کے باوجود کام جواں مزدور کے برابر کرتا تھا۔ اس نے ٹھیکیدار سے کبھی بھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ مجھے بھی دوسرے مزدوروں کے برابر معاوضہ دیا جائے بلکہ وہ کم معاوضہ لے کر بھی بڑا مطمئن تھا۔ ان سب خصوصیات کے علاوہ وہ ایمان دار بھی بہت تھا۔
ٹھیکیدار کو بھی ایسے ہی ایمان دار، محنتی اور کم معاوضہ لینے والے گھریلو ملازم کی اشد ضرورت تھی، اسی لیے اس نے بڑی ہوشیاری سے اس کو اپنے گھر ملازمت کرنے پر راضی کر لیا۔ ٹھیکیدار کے لیے یہ یقین دلانا کوئی مشکل نہ تھا کہ مکان کی تکمیل کے بعد اس کے پاس روزگار اور رہنے کے لیے ٹھکانہ نہیں بچے گا اور اس کو پھر دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں گی۔ اس لیے بہتر ہے کہ مستقل نوکری اور ٹھکانے کے لیے گھریلو ملازمت اختیار کر لی جائے تاکہ زندگی کے دن سکون سے بسر ہو سکیں۔ اسے بھی تو ایک مضبوط سہارے اور ٹھکانے کی ضرورت تھی جہاں رہ کر وہ با عزت طریقے سے دو وقت کی روٹی سکون سے کھا سکتا یہی وجہ تھی کہ وہ ملازمت کے لیے راضی ہو گیا۔
اس کے لیے کوئی بھی نوکری سخت نہ تھی کیونکہ اس نے تو ساری زندگی سخت سے سخت کام کر کے گزاری تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس کے لیے یہ حیرت کی بات نہ تھی کہ وہ گھر کے کام کر پائے گا یا نہیں۔ اسے تو پیٹ بھر کر کھانا، حق حلال کی محنت سے چاہیے تھا۔ مزدوری سے اس کو کوئی غرض نہ تھی کہ وہ کس قسم کی ہو۔ کیونکہ وہ محنت سے گھبرانے والا نہ تھا۔
ٹھیکیدار اس کو اپنے گھر لے کر چلا آیا اور آتے ہی اس نے اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر کہا:
’’بیگم دیکھو میں تمہارے لیے روبوٹ لے کر آیا ہوں بس اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم اس کو کتنی جلدی ٹرینڈ کرتی ہو۔ میں تمہیں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ تمہارے اعتماد پر پورا اترے گا۔ ‘‘
ٹھیکیدار کی بیوی دُبلی پتلی اور درمیانے قد کی خوبصورت عورت تھی، ان دونوں کا صرف ایک ہی بیٹا تھا جس کی عمر تقریباً دو اڑھائی سال کے لگ بھگ تھی۔
ٹھیکیدار کی بیوی نے پہلے تو اس کو سَر سے پاؤں تک دیکھا پھر ناک چڑھاتے ہوئے سر ہلا کر بولی:
’’تمہیں کوئی کام وام بھی آتا ہے یا نہیں، جیسے کھانا پکانا، برتن دھونا، کپڑے استری کرنا، گھر بھر کی جھاڑ پونچھ کرنا وغیرہ وغیرہ‘‘۔
’’نہیں جی‘‘ حرامی نے حیران ہو کر کہا۔ اس کا تو خیال تھا کہ ٹھیکے دار کے گھر صرف سودا سلف لانے کا کام ہو گا یہاں تو ہر کام کرنا پڑے گا لیکن اسے تو مستقل ٹھکانہ اور روزگار چاہیے تھا اسی لیے تو اس نے ہامی بھر لی۔
’’بی بی جی میں آہستہ آہستہ سب کام سیکھ لوں گا۔ میں محنت سے گھبرانے والا ہرگز نہیں ہوں۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے میں سب کچھ سکھا دوں گی۔ ابھی تم گھر کے فرش اچھی طرح دھو لو— پھر تم باغیچے میں جا کر پودوں کو پانی لگاؤ— ہاں پودوں کو خراب نہ کر دینا بڑی احتیاط کے ساتھ کیاریوں میں پانی لگانا۔ ‘‘
دو ماہ کی قلیل مدت میں اس نے گھر کا سارا کام سیکھ لیا۔ اسے اس گھر میں پیٹ بھر کر کھانا ملتا تھا اس لیے اسے یہ فکر نہیں تھی کہ اس کو ماہوار رقم جو ملتی ہے وہ اس کی محنت سے زیادہ ہے یا کم اس بات سے قطع نظر وہ دل لگا کر گھر کے کام کیا کرتا تھا اس نے تو کئی دفعہ ٹھیکیدار کی بیوی کو ٹھیکیدار کے ساتھ یہ باتیں کرتے ہوئے سنا تھا کہ یہ لڑکا جب سے ہمارے گھر میں آیا ہے میں تو جنت میں آ بیٹھی ہوں یہ لڑکا کپڑے استری کر کے ہینگروں میں لٹکاتا ہے، کچن کا سارا کام بہت اچھی طرح کرتا ہے، مجھے اِس نے کبھی کوئی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ اس کے کام کرنے سے مجھے بہت روحانی، جسمانی سکھ نصیب ہوا ہے۔
سال گزرتے گئے وہ جوانی سے نوجوانی اور پھر نوجوانی سے بڑھاپے تک کا سفر طے کر گیا لیکن شادی نہ کر سکا یا یوں کہیے کہ اس کی خواہش اور جذبات کو زبردستی ٹھنڈا کیا گیا وہ تو اپنا سب کچھ ٹھیکیدار ہی کو سمجھتا تھا اسی لیے اس نے کئی دفعہ دبے لفظوں، ٹھیکیدار سے اپنی شادی کے متعلق کہا بھی کہ اب میری شادی کر دینی چاہیے لیکن ٹھیکیدار سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی اس کے جذبات کو ایسی باتیں کر کے ٹھنڈا کر دیتا:
’’بچے تم دنیا کے خوش قسمت انسان ہو کہ ابھی تک شادی نہیں کی۔ میری طرف دیکھو اس دن کو یاد کر کے پچھتاتا ہوں جب میں دولہا بنا تب سے مصیبتیں ہی گلے پڑ گئیں۔ شادی میں کیا رکھا ہے یہ تو ایک قید خانہ ہے اور انسان قید ہو کر رہ جاتا ہے۔ اپنی مرضی سے کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ تم خوش قسمت ہو کہ اپنی مرضی سے سانس تو لیتے ہو۔ یاد رکھو شادی کبھی نہ کرنا ورنہ تمہارا حال مجھ سے بھی ابتر ہو گا اور تم شادی ہال کے باہر جا کر بیٹھ جاؤ گے اور ہر شادی کرنے والے شخص کو نصیحت کرتے رہو گے جیسے میں تم کو کر رہا ہوں کہ کبھی شادی کے بندھن میں نہ بندھنا، اس میں فائدہ کوئی نہیں نقصان ہی نقصان ہے۔ اس لیے تمہارے حق میں یہی بہتر ہے کہ کبھی شادی نہ کرنا اور ایسے ہی زندگی گزار دینا پھر دیکھنا تمہاری زندگی کتنی شاندار گزرتی ہے۔ میری طرف دیکھو، ہر وقت پریشانیوں میں گھرا رہتا ہوں۔ زندگی عذاب بن کے رہ گئی ہے اور جب میں تمہاری طرف دیکھتا ہوں کہ تم خوش و خرم ہو تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے اور دل سے دعائیں نکلتی ہے کہ اے اللہ یہ میرے جیسی غلطی نہ کرے۔ ‘‘
ٹھیکیدار اسی طرح کی باتیں وقتاً فوقتاً کر کے اس کو شادی سے ڈرا کر اس کی خواہش کو وقتی طور پر دبا دیتا تھا کیونکہ ٹھیکیدار سمجھتا تھا کہ اگر اس نے شادی کر لی تو اس کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی، پھر یہ یا تو زیادہ تنخواہ کا مطالبہ کرے گا یا پھر نوکری چھوڑ کر چلا جائے گا اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا کہ اتنا محنتی اور سستا ملازم ہاتھ سے نکل جائے، اسی لیے تو وہ اس کے سامنے شادی کے نقصانات گنواتا رہتا تھا تاکہ اس کے دماغ سے شادی کا بھوت اتر جائے اور وہ بھی ٹھیکیدار کی باتیں سن کر خوش ہو جاتا اور سمجھتا کہ ہو سکتا ہے یہی میرے حق میں بہتر ہو چنانچہ وہ شادی کو ڈراؤنا خواب سمجھ کر بھول گیا اور اپنا کام مکمل تن دہی اور جانفشانی سے کرتا رہتا، وہ اکیلا چار بندوں کا کام کرتا، دن بھر کی مشقت کے بعد اس کا جسم درد سے چور چور ہو جاتا۔ اسی طرح زندگی کے دن گزرتے گئیں اور وہ بوڑھا ہو گیا۔
حرامی کو ٹھیکیدار کے گھر آئے ساٹھ برس بیت چکے تھے۔ اب وہ عمر کے اس حصے میں تھا جہاں کام کرنا بوڑھے کے لیے محال ہو جاتا ہے اور وہ خود آرام کا طالب ہوتا ہے لیکن یہاں تو صورتِ حال ہی مختلف تھی۔ ٹھیکیدار اور اس کی بیوی مدت ہوئی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ ٹھیکیدار کا اکلوتا بیٹا اب دادا بن چکا تھا اور یہ بوڑھا گھر بھر میں کھانستا پھرتا تھا اور اب اس سے کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پا رہا تھا۔ صحت ایسی کہ اس سے ذرہ سی سردی بھی برداشت نہیں ہوتی تھی، ہلکی سی ٹھنڈی ہوا چلنے کی وجہ سے وہ بہت جلد بیمار پڑ جاتا تھا۔
ایک دن وہ چائے کا ٹرے اٹھائے ڈرائنگ روم میں پہنچا تو اسے زور دار چھینک آئی۔ اس نے چھینک روکنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا اور چھینک کے تمام لوازمات تیزی سے ٹرے پر پھیل گئے اور وہ شرمندگی سے اپنا منہ اپنے شانے میں چھپا کر واپس مڑ گیا۔ جب وہ دروازے سے باہر نکلا تو ٹھیکیدار کی بہو کی باتوں نے اس کے قدم وہی پر ہی روک دیے، وہ کہہ رہی تھی۔
’’سلیم اب یہ بوڑھا ہمارے کسی کام کا نہیں رہا یہ بہت بوڑھا ہو گیا ہے اس کو کچھ رقم دے کر یہاں سے چلتا کرو، چھوٹے چھوٹے بچوں والا گھر ہے اس کی روز روز کی کھانسی سے کیا بچوں کو بیمار کروانا ہے۔ بس اب اسے جانے دو۔ ‘‘
’’لیکن بیگم یہ جائے گا کہاں، اس کا تو دنیا میں کوئی بھی نہیں، ابو نے ہی اس کو پالا ہے۔ ‘‘ میاں نے بیوی کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
’’مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں کہ یہ کہاں جائے گا بس اس کو یہاں سے ضرور جانا ہو گا ورنہ میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔ میں نے اپنے معصوم بچوں کو اس سے بیمار نہیں کروانا۔
یہ باتیں اس کے تن بدن میں سرایت کر گئیں۔ ان باتوں کی کاٹ نے اس کے جسم کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا جس کی وجہ سے اسے اپنے وجود میں کمزوری محسوس ہوئی اور وہ فوراً اپنے کوارٹر کی طرف چلا گیا۔
جنوری کا مہینہ تھا سردی اپنے پورے زوروں پر تھی اور وہ رضائی اوڑھے سو گیا۔ رات کے پچھلے پہر سرد ہوائیں چلنی شروع ہو گئیں جو اس کے کوارٹر کے دروازے کی درز سے اندر آتیں اور اس کے وجود کو جھنجوڑ کر رکھ دیتیں۔ اس سردی میں اوپر اوڑھی ہوئی رضائی اور نیچے لیا ہوا کمبل ناکافی ہوا جا رہا تھا جس کی وجہ سے وہ رات بھر سکڑتا رہا۔
جب وہ صبح اٹھا تو زور زور سے چھینکیں مار رہا تھا اور ناک اور آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ بدن کا جوڑ جوڑ ٹوٹ رہا تھا اور گلا تھا کہ زوروں سے دُکھ رہا تھا۔ اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کے حلق میں کوئی بڑی سی شے پھنس گئی ہو جو وہ نہ نگل سکتا تھا اور نہ اُگل سکتا تھا۔ آج اس کی طبیعت ایسی نہ تھی کہ کوئی کام کر سکتا اسی لیے وہ رضائی اوڑھے چپ چاپ سویا رہا۔ وہ تو بھلا ہو خانساماں کا جو خود ہی چائے دینے اس کے کوارٹر میں چلا آیا تھا۔
خانساماں کی نظر حرامی پر پڑی جو بے سُدھ چارپائی پر گرا پڑا تھا اس نے اٹھا کر اسے چائے پلائی اور ڈسپرین کی گولیاں دیں — بخار کی شدت اور گولیوں کے اثر سے اس پر غنودگی سی طاری ہونے لگی اور وہ آہستہ آہستہ گہری نیند میں ڈوبتا چلا گیا۔
خانساماں نے اپنے کوارٹر سے مزید دو کمبل لیں اور اس کے اوپر ڈال دیے تھے تاکہ اس کا بوڑھا وجود شدید سردی کا مقابلہ کر سکے۔ لیکن اس کا بخار کچھ اور تیز ہو گیا جس کی وجہ سے اس کے بدن پر کپکپی طاری ہو گئی اور بدن بُری طرح ٹوٹنے لگا۔ اس کی پیشانی گرم اور پاؤں برف کی طرح ٹھنڈے ہوئے جا رہے تھے۔ اس کی یہ کیفیت خانساماں سے دیکھی نہ جاتی تھی وہ دوڑ کر اپنے مالک کے پاس پہنچا۔ لیکن مالک کسی اہم میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے گھر پر صرف مالکن تھی۔ اس لیے خانساماں نے تمام صورتِ حال مالکن سے گوش گزار کر دی اور انہوں نے بڑی ناگواری سے کہا :
’’خانساماں جاؤ اس کو کسی ہسپتال میں لے جاؤ اور ہاں وہاں سے اس کو واپس گھر مت لانا۔ اسے کسی نہ کسی جگہ پہنچا دینا، یہ لو پیسے، جب اس کو ہوش آئے تو یہ پیسے اس کو دے دینا اور ہماری طرف سے کہنا نوکری پر آنے کی کوئی ضرورت نہیں اب گھر بیٹھ کر اللہ اللہ کرے۔ ‘‘
خانساماں کی محبت، توجہ اور اللہ کی رضا سے وہ کچھ ہی دنوں میں ٹھیک ہو گیا لیکن خانساماں کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اسے یہ بتاتا کہ مالکوں نے اس کو اپنے گھر سے چلے جانے کا حکم صادر کر دیا ہوا ہے لیکن مجبوراً اس کو بتانا ہی پڑا تھا۔
یہ لمحات حرامی کے لیے بڑے اذیت ناک تھے اور وہ گرتے گرتے بچا لیکن پھر بھی اپنی ہمت جمع کرتے ہوئے اور اپنی پریشانی کو ظاہر نہ کرتے ہوئے بولا :
’’اللہ کی زمین بہت بڑی ہے کہیں نہ کہیں تو ٹھکانہ مل ہی جائے گا۔ ‘‘
خانساماں اس کی مجبوریوں اور محرومیوں کو خوب سمجھ سکتا تھا کیونکہ وہ بھی ایک غریب ملازم تھا، اسے پتہ تھا کہ یہ بڑے لوگ اپنے بوڑھے ہو جانے والے ملازموں کو ایسے ہی ذلیل و خوار کر کے نوکری سے نکال دیتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ ذرہ بھر خیال نہیں آتا کہ اس شخص نے عمر بھر ہماری خدمت کی ہے، چلو تھوڑا بہت بڑھاپے کے سہارے کے لیے ہی کچھ بندوبست کر دیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ان کے ذہن میں ہوتا ہے کہ ہم ان کی خدمات کا معاوضہ ہر ماہ دیتے رہے تھے۔ لیکن غریب خانساماں کے اندر خوف خدا موجود تھا اور اسے معلوم تھا کہ ایک نہ ایک دن اس کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہونا ہے یہی وجہ تھی کہ وہ بوڑھے حرامی کو بے سہارا چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اسی لیے تو اس نے مالکن والے روپے اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا :
’’آپ میرے گاؤں چلے جائیں، وہاں پر میری بیوی یعنی آپ کی بہو، آپ کی بہت خدمت کرے گی۔ یہ لوگ تو خدمت کا صلہ ایسے ہی دیا کرتے ہیں۔ ‘‘
حرامی نے اپنا مختصر سا سامان باندھا اور ٹھیکیدار کی بہو کو سلام کرنے کے لیے گیا تو اُس نے بڑے غصے سے خانساماں سے کہا :
’’تم نے اس کو بتایا نہیں کہ اب یہ یہاں مزید ملازمت نہیں کر سکتا اور اسی لیے ہم نے اس کو نوکری سے جواب دے دیا ہے، اس کو باہر نکال کر دروازہ بند کر دینا۔ ‘‘
یہ فقرات اس کے لیے اذیت سے کم نہ تھے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ زمین میں دھنستا جا رہا ہے وہ گھر جس کو وہ اپنا گھر سمجھتا تھا وہاں سے اسے ایسے ذلیل و خوار کر کے نکالا جائے گا یہ تو اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا اور یہ سب کچھ وہ عورت کرے گی جس کو وہ اپنی بہو سمجھتا تھا۔
خانساماں نے اپنے گاؤں جانے والی بس میں اس کو سوار کر دیا اور وہ بس میں بیٹھا سارے راستے یہ سوچتا رہا کہ وہ کہاں جائے کیا اسے خانساماں کے گھر جانا چاہیے یا نہیں، وہ ابھی کوئی فیصلہ بھی نہ کر پایا تھا کہ بس کا گزر ایک ایسے گاؤں سے ہوا جہاں پر کسی بزرگ کا مزار تھا اور وہاں پر میلا لگا ہوا تھا۔ بچے بوڑھے میلے میں خوش دکھائی دے رہے تھے، نا جانے کیوں اس کا دل مچلا اور وہ اسی جگہ اتر گیا اور پھر وہیں کا ہو کر رہ گیا اس مزار پر اسے دو وقت کی روٹی بڑی آسانی اور بغیر کسی محنت سے مل جایا کرتی ہے۔ یہ اس کے لیے بڑی بات تھی۔
اسے اس قصبے میں آئے دو سال گزر چکے تھے اور ان دو سالوں میں کسی نے بھی بوڑھے کو ہنستے مسکراتے نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ ابھری تھی لیکن جب اس نے اس بچے کو دیکھا تو اسے ایسا لگا کہ اس کے مردہ جسم میں نئی روح پھوٹ پڑی ہو۔ قصبے میں بچے تو بہت سے تھے لیکن اس ایک بچے میں کوئی نہ کوئی خاص بات ضرور تھی جو اس کو اس بچے کی طرف کھینچ لاتی تھی۔ صبح سے شام تک وہی صبح والا ہنستا مسکراتا، کھلکھلاتا، شرارتیں کرتا بچہ اس کی نظروں میں گھومتا رہتا تھا اور وہ اسے دیکھنے کے لیے بڑی بے قراری کے ساتھ صبح کا انتظار کیا کرتا تھا اس نے کبھی بھی یہ کوشش نہ کی کہ وہ اس بچے کے خیال کو اپنے ذہن سے نکال باہر کرے بلکہ وہ خود ہی اس کو اپنے ذہن میں سوار رکھنا چاہتا تھا کیونکہ یہ اس کے ذہنی، روحانی سکون کا ذریعہ بنتا جا رہا تھا جس دن بچہ عموماً چھٹی کے دن سکول نہ جاتا تو اس کا سارا دن بڑا بے رونق اور اداس گزرتا تھا۔ وہ کئی بار اس بچے کے تصور میں اس قدر کھو جاتا اور سوچتا اگر میری بھی شادی ہو چکی ہوتی تو آج میرے پوتے پوتیاں اس کی عمر کی ہوتیں اور میں بھی ان کو سکول لے کر جایا کرتا، ان کے ساتھ کھیلا کرتا۔ لیکن وہ یہ خیال ذہن میں لانا ہی نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس نے شادی خود اپنی نادانی کی وجہ سے نہیں کی تھی۔ اب پرانی باتیں یاد کر کے پچھتانے سے کیا فائدہ لیکن پھر بھی بعض اوقات اُسے خیال آتا کہ مجھے ٹھیکیدار کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے تھا جو ہر وقت مجھے ایک ہی بات بتاتا کہ تو بہت اچھا ہے کہ اب تک شادی کے چکروں میں نہیں پڑا اور پڑنا بھی نہ، اس سے زندگی عذاب بن جاتی ہے اور میں بھی ایسا نادان تھا کہ اس کی باتوں میں آ گیا اور شادی کا خیال دل سے نکال دیا۔ پھر اسے خیال آتا میں شادی کرتا بھی کس سے، کوئی مجھ گناہ کی پوٹلی سے اپنی بیٹی بیاہتا؟ اور اس کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ نکلیں۔
ہر روز کی طرح وہ آج بھی صبح سویرے گلی کی نکڑ پر بچے کو دیکھنے کے لیے کھڑا تھا اور بچہ اپنے باپ کے ساتھ سائیکل پر بیٹھا ہنستا مسکراتا چلا آ رہا تھا آج پھر اس نے حسبِ عادت سلام کیا، بجائے اِس کے کہ وہ مسکرا کر سلام کا جواب دیتا، اس کا باپ بڑی تیزی کے ساتھ سائیکل چلاتا ہوا آگے نکل گیا، شاید اسے آج بہت جلدی تھی اپنے کام پر جانے کی۔ نہ جانے کیوں اس نے دل بھر کر بچے کی طرف دیکھنے کیوں نہ دیا۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک ٹرک جو بہت تیزی سے چلا آ رہا تھا سائیکل کے ساتھ ٹکڑا گیا اور وہ بچہ اور اس کے باپ کو زخمی حالت میں چھوڑ کر بڑی بے نیازی کے ساتھ آگے چلا گیا اور یہ بوڑھا بڑی بے بسی اور لاچاری سے یہ سارا منظر دیکھتا رہا پھر وہ اپنی تمام ہمت جمع کرتے ہوئے بڑی تیزی سے دوڑا، وہ شاید اس سے پہلے کبھی اتنی تیزی سے نہیں دوڑا تھا۔ اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اور بہت سے لوگ وہاں پر جمع ہونا شروع ہو گئیں تھے اور وہ ان دونوں کو اٹھا کر ہسپتال لے گئیں اور وہ بوجھل قدموں سے مزار کے احاطے کی طرف چلا آیا۔
آج سارا دن اس غریب بوڑھے خرامی کو عجیب و غریب خیالات نے جگڑے رکھا تھا اسے ہر دم یہی فکر دامن گیر تھی کہ کہیں اس بچے کو کچھ ہو نہ جائے۔ آج اس نے اللہ سے اتنی دعائیں مانگیں تھیں کہ اس سے پہلے کبھی بھی اللہ سے اتنی دعاؤں کے لیے ہاتھ نہ اٹھایا تھا۔
شام کو پوری بستی میں ان باپ بیٹے کی وفات کی خبر گردش کرتی کرتی اس تک بھی پہنچ گئی اور اسے ایسا لگا جیسے آسمان ٹوٹ کر اس پر گر پڑا ہے اور وہ آسمان کے بوجھ کی وجہ سے زمین میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ آج وہ ایسے اداس و پریشان تھا جیسے اس کا اپنا بیٹا یا پوتا مر گیا ہو۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھاگ کر اس کے گھر پہنچ جائے اور اس کے سرہانے بیٹھ کر زار و قطار روئے لیکن اس کی آنکھوں کی روشنائی اس کا ساتھ نہ دے رہی تھی کہ وہ چل کر اس اندھیرے میں اس کے گھر تک پہنچ سکے مجبوراً وہ وہیں بیٹھا رہ گیا۔
اس واقعے کو جوں جوں دن گزر رہے تھے اس کی طبیعت میں بھی دن بدن کمزوری اور باؤلا پن پیدا ہو رہا تھا اب تو وہ آپ ہی آپ مسکرائے جاتا تھا۔ اس کے ذہن میں وہی معصوم بچہ سوار رہتا تھا جس کو سوچ کر وہ خوش ہوا کرتا تھا۔ اب اس کے پاس خوش ہونے کے لیے کچھ بھی نہ تھا وہ اسی بچے کو اپنی کل کائنات تصور کر چکا تھا وہ ذہن میں ہی اس کی شادی ہوتی ہوئی دیکھتا تھا اور وہ تمام خوشیاں جو اسے نہ ملی تھی وہ اس کے لیے سوچا کرتا تھا لیکن اب اس کی دنیا فضا ہو چکی تھی۔
ایک سہانی سی صبح تھی ابھی پرندے درختوں پر ہی چہچہا رہے تھے اور لوگ اپنے اپنے روزگار کو جانے کے لیے اپنے گھروں سے نہیں نکلے تھے کہ اچانک اس کے سامنے وہی بچہ کھڑا تھا اور وہ اپنی بانہیں پھیلائے کہہ رہا تھا:
’’بابا میں یہاں ہوں، آپ مجھ سے پیار نہیں کریں گے۔ ‘‘ وہ اٹھا اور دور کر بچے کی طرف بھاگا، قبل اس کے کہ وہ وہاں تک پہنچتا، بچہ وہاں سے غائب ہو چکا تھا، اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے بچہ قبرستان میں زندہ موجود ہے اور لوگ اسے مردہ جان کر وہاں چھوڑ آئے ہیں۔ اب وہ مجھے مدد کے لیے بلا رہا ہے۔ اسی لیے تو وہ اپنی کھولی سے اٹھا اور قبرستان کی طرف چل نکلا۔
مکمل سکوت کا عالم تھا، فضا میں گیلی مٹی اور سڑے پودوں کی بدبو رچی ہوئی تھی۔ درختوں کے تنوں اور جھاڑیوں پر حشرات رینگ رہے تھے۔ وہ چلتا گیا— چلتا گیا— گھنے درختوں اور خاردار جھاڑیوں میں سے ہوتا ہوا وہ بالآخر کھانستا کھانستا اور سردی سے ٹھٹرتا ہوا قبرستان تک پہنچ ہی گیا۔
قبرستان میں ہر طرف اسے قبریں ہی قبریں نظر آ رہی تھیں لیکن منّا کہیں نظر نہ آ رہا تھا جس کی آواز پر وہ لبیک کہتا ہوا اتنی دور سے چل کر آیا تھا کہ دفعتاً اس کے کانوں نے آواز سنی:
’’میں یہاں ہوں بابا، مجھے ڈھونڈ لو۔ ‘‘ آواز سنتے ہی اس کے لبوں کو جنبش ہوئی اور وہ خوشی سے چلا اٹھا، خوشی سے دمکتے چہرے سے اس نے اپنے چاروں طرف نگاہ دوڑائی، کہیں کچھ دکھائی نہ دیا۔ ہر طرف وہی قبریں ہی قبریں تھیں۔
’’اِدھر— اُدھر—‘‘ دوسری بار پھر ایسی ہی آواز آئی لیکن نظر کوئی نہیں آیا یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا وہ ہر آواز پر دیوانہ وار اِدھر اُدھر گھومتا لیکن منّا اسے کہیں دکھائی نہ دیتا لیکن اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ منّا ضرور یہیں کہیں موجود ہے جو مجھ سے دل لگی کر رہا ہے، آخر میں اس کو ڈھونڈ ہی لوں گا۔
جب وہ بہت زیادہ تھک گیا تو مایوس اور نا امید ہو کر ایک پکی قبر جس کے ساتھ کچی قبر تھی جو گڑھا بن چکی تھی، وہاں پر بیٹھ کر خود کلامی کرنے لگا :
’’بیٹا تو ہی نہیں تو میرا کون ہے ؟ کون مجھے کندھوں پر اٹھا کر یہاں تک لائے گا، کس کے سہارے، کس امید پر میں زندہ رہوں گا۔ ‘‘ ایک دم اس کا سر چکرایا اور آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، اس نے اپنے بوڑھے وجود کو سنبھالنے کی بہت کوشش تو کی لیکن ناکام رہا بالآخر وہ چکرا کر ساتھ والی کچی قبر جو گڑھا بن چکی تھی اس میں گر گیا۔
اس روز کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہ آیا کسی نے بوڑھے کی گمشدگی کا کوئی نوٹس نہ لیا کہ مزار کے احاطے میں کوئی بابا بھی ہوا کرتا ہے اور اسے تقدیر خود ہی وہاں لے گئی جہاں پر اس کو کسی کے کندھوں کے سہارے آنا تھا۔
٭٭٭
تقدیر
شہر کے معروف چوک میں جلوس کے شرکاء نے ٹائروں کو جگہ جگہ آگ لگا کر سڑک بلاک کر رکھی تھی، جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا۔ جلوس اپنے پورے عروج پر تھا ہر آنکھ اشک بار تھی ہر کسی کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا :
’’سلیم جان کو پھانسی دو، سلیم جان کو پھانسی دو، سلیم جان کو جلد گرفتار کرو۔ ‘‘
جلوس کے شرکاء اس قدر جذباتی پن کا مظاہرہ کر رہے تھے جس سے خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں لوگ حد سے زیادہ مشتعل ہو کر گاڑیوں پر پتھراؤں کرنا شروع نہ کر دیں۔ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے انتظامیہ نے بروقت جلوس کے قائدین کے ساتھ کامیاب مذاکرات کر کے ان کو یقین دلایا کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں سلیم جان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد جلوس منتشر ہو گیا۔
شہر میں سیاسی پارٹیوں کے جلوس تو نکلتے ہی رہتے ہیں مگر یہ جلوس کل کے واقعے کی وجہ سے رونما ہوا تھا۔ واقعہ بھی ایسا جس نے ہر شخص کو رلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ جلوس ان بے کس، مجبور اور حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کا جلوس تھا جو سارا سارا دن محنت مزدوری کرنے کے باوجود غریب ہی رہتے ہیں۔ یہ لوگ بچیوں کی شادیاں کرنے کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر کمیٹیاں ڈالتے ہیں پھر ان کے نکلنے کی دعائیں مانگتے ہیں، جب کمیٹی نکلتی ہے تو اس وقت تک دوسری بیٹیاں جوان ہو چکی ہوتی ہیں۔ یہ لوگ غریبی میں بھی قرضہ اٹھا کر اور اپنی استطاعت سے بڑھ کر بچی کو جہیز دیتے ہے لیکن پھر بھی بعض غریب کی بچیوں کے نصیب میں سسرال کا سکھ نہیں لکھا ہوتا۔
شکیلہ کی شادی کو دو سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود اس کی ساس نے اسے کبھی بھی دل سے قبول نہ کیا تھا اور وہ کوئی موقع ذلیل کرنے کا ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھی۔ وہ اسے شوہر کی نظروں سے گرانے کے لیے طرح طرح کی تدابیر پر عمل پیرا رہتی تھی۔ شکیلہ کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ جہیز کم لائی تھی اور اسی وجہ سے وہ ساس کی آنکھوں میں کھٹکتی تھی۔ اس پر ذرہ ذرہ سی بات پر طعنے، طنز کی جاتی۔ اب تو اس کی ساس نے اسے مارنا پیٹنا بھی شروع کر دیا تھا، وہ کیوں نہ ایسا کرتی اسے اپنے بیٹے کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ سلیم جان کے گھر میں پہلا قدم رکھتے ہی ماں نے جو پٹی پڑھا دی وہ اسی پر قائم رہتے ہوئے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنی بیوی کو بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کر دیتا۔ شوہر کی زیادتیوں سے تنگ آ کر اگر وہ والدین کے گھر بیٹھ جاتی تو سلیم جان اس کے والدین کے پاس معافیاں مانگنے پہنچ جاتا اور وہ شکیلہ کو حالات کا مقابلہ صبر شکر کے ساتھ کرنے اور تقدیر کے اچھے دنوں کے انتظار کا کہہ کر واپس شوہر کے گھر بھیج دیتے۔ شکیلہ دو سال سے تقدیر کے اچھے دنوں کے انتظار میں شوہر کے ظلم و ستم سہہ رہی تھی۔ لیکن تقدیر کے اچھے دن تو نہ آئے البتہ برے دن ضرور آتے رہے۔ دن بدن بڑھتے ہوئے لڑائی جھگڑوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اس کی کوئی تدبیر بھی بار آور نہیں ہو رہی تھی بلکہ حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے تھے۔ جب بندے کی تقدیر اس سے روٹھ جائے تو کوئی بھی تدبیر بار آور نہیں ہوتی۔ شکیلہ کی تقدیر بھی اس سے روٹھ گئی تھی یا پھر دنیا بنانے والے نے شکیلہ کی تقدیر میں صرف دُکھ لکھے تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ نے اس کی ساس اور شوہر کو عقل نصیب نہ کی ہو، بہرحال جو کچھ بھی تھا نقصان تو شکیلہ کو ہی تھا۔
شوہر کی مار اور جہیز کم لانے کے طعنے سُن سُن کر شکیلہ ذہنی مریضہ بنتی جا رہی تھی۔ گھر میں آئے روز چھوٹی چھوٹی باتوں پر ساس بہو کے درمیان جھگڑے ہوتے اور اس کا سبب بھی شکیلہ کو ٹھہرایا جاتا۔
ایک دن سلیم جان خرابی صحت کی وجہ سے آفس سے جلدی چھٹی لے کر گھر واپس آیا تو گھر کا ماحول حسبِ معمول افسردہ تھا۔ کھانے پینے کی اشیاء اور جوٹھے برتن بکھرے پڑے تھے اور ان پر مکھیوں نے قبضہ جمایا ہوا تھا۔ سلیم جان کے گھر میں داخل ہوتے ہی مکھیوں کا جتھا پھُوں پھُوں کرتا غصے سے یوں منتشر ہوا جیسے سڑک کنارے ریڑھیاں لگانے والے کارپوریشن کے عملے کو دیکھ کر تتربتر ہو جاتے ہیں اور ان کے واپس جانے کے بعد دوبارہ اپنے اپنے اڈوں پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی سلیم جان کے آگے جاتے ہی مکھیاں دوبارہ پھُوں پھُوں کرتی اپنی اپنی مصروفیات میں مگن ہو گئیں۔
سلیم جان خرابی صحت کی وجہ سے گھر کے بدلے ماحول کو نظرانداز کرتا ہوا آرام کرنے کی غرض سے جلد اپنے کمرے میں داخل ہونا چاہتا تھا کہ ساتھ والے کمرے میں اس کی والدہ کے رونے کی آواز سنائی دی جو شکیلہ کو گالیاں نکالتی اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتی :
’’بدبخت اپنی سگی ماں کو بھی ایسے بے دردی سے مارتی پیٹتی رہی ہو گی جس طرح یہ مجھے مارتی ہے۔ ‘‘
یہ الفاظ سنتے ہی سلیم جان کے تن بدن میں آگ لگ گئی حالانکہ شکیلہ نے کبھی بھی اپنی ساس پر ہاتھ نہ اٹھایا تھا اور نہ آج ایسا کیا تھا۔ وہ کیسے ہاتھ اٹھا سکتی تھی نہ اسے شوہر کا تحفظ نہ اپنے والدین کا تحفظ حاصل تھا۔ بہرکیف واقعہ کوئی اتنا سنگین نہ تھا جتنا نظر آ رہا تھا بس بات توں طراہ سے شروع ہو کر گالی گلوچ تک پہنچ کر ختم ہو گئی تھی۔
شکیلہ کو نہیں معلوم کہ وہ سسرال میں اپنا جائز مقام کیوں حاصل نہ کر سکی حالانکہ خدمت کرنے میں وہ پیش پیش رہتی تھی پھر بھی ساس کی آنکھوں میں کھٹکتی رہتی اور وہ اسے ذلیل کرنے کے موقع کی تلاش میں رہتی۔ آج بھی اس کی ساس نے اسے شوہر کی نظروں سے گرانے اور اشتعال دلانے کے لیے جھوٹی تہمت لگائی تھی اور اس کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا تھا۔
سلیم جان کے کانوں میں ماں کی بات کا پہنچنا تھا کہ وہ غصے سے سرخ ہو گیا اور بے دردی سے اپنی بیوی کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ غصے میں اس قدر جذباتی ہو گیا تھا کہ اس نے یہ پوچھنے اور تصدیق کرنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ واقعی شکیلہ نے اپنی ساس پر ہاتھ اٹھایا بھی ہے کہ نہیں۔ بس اپنی ماں کی بات کو حقیقت مانتے ہوئے اس نے اپنی بیوی کو بے دردی سے مارنا پیٹنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں جو کوئی شے آتی وہ بیوی کو دے مارتا۔ آخرکار غریب کی مظلوم، بے کس، بے بس بیٹی پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔
شکیلہ کی موت پر جلوس نکالنے والوں کا غم و غصہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا پڑ رہا تھا اور یہ غصہ بالکل ٹھنڈا اس لیے پڑ گیا کہ سلیم جان عدالت میں یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ شکیلہ کی موت اتفاقی حادثہ تھا۔ قتل کی سازش نہیں اور لوگ اس کی موت کو اتفاقی حادثہ مان کر کب کا بھول گئے تھے حالانکہ اس کے مرنے پر جتنا زبردست جلوس نکلا تھا اور اس میں غم و غصے کا اظہار جس انداز سے لوگوں نے کیا تھا اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ پولیس سلیم جان کو جلد از جلد گرفتار کر کے ٹھیک رُخ تفتیش کرے گی جس کے نتیجے میں اس پر الزام ثابت ہو جائے گا لیکن یہ صرف قیاس ہی رہا نہ تو وہ جلد گرفتار ہوا نہ ہی اسے پھانسی ہوئی بلکہ وہ شکیلہ کی موت کو اتفاقی حادثہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا۔
٭٭٭
فیصلہ
غلام حسین نے بڑی ہمت باندھ کر بہت دنوں کے بعد آج تانگہ باہر نکالا تھا اور وہ گاؤں کے اونچے نیچے راستوں سے ہچکولے کھاتا ہوا تانگہ بڑی سڑک پر لے آیا۔ لیکن یہاں اسے دور دور تک کہیں کسی سواری کا کوئی آثار دکھائی نہ دیا اور نہ ہی کچھ دیر بعد کوئی سواری ملنے کا امکان تھا، جس کی وجہ تھی شدید بارش۔ بارش جو دو دن سے مسلسل ہو رہی تھی اور اس نے معمولاتِ زندگی کو متاثر کر کے رکھ دیا تھا اور لوگ گھروں میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔
اب بارش بہت ہلکی ہو چکی تھی، اس میں وہ شدت نہ تھی جو پہلے تھی چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کیوں نہ تانگہ شہر کی طرف موڑ لیا جائے کیونکہ بارش کی وجہ سے شہر دریا کا نظارہ پیش کر رہا ہو گا۔ کھڑے پانی کی وجہ سے رکشہ، ٹیکسی اور ویگن تو چل نہیں رہی ہو گی اور سواریوں کا بے پناہ رش ہو گا اور میری اچھی خاصی دھیاڑی لگ جائے گی۔ کیونکہ بارش میں آمدورفت کا بہترین ذریعہ تانگہ ہی تو ہوتا ہے۔ اس سوچ کے آتے ہی اس نے اپنے تانگے کا رخ شہر کی طرف موڑ دیا۔ تھوڑا ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد تانگہ ایک نشیبی راستے سے گزرا جہاں پر بارش کا پانی کھڑا تھا اور اس پانی میں بچے نہا رہے تھے۔ ان بچوں کی شرارتیں دیکھ کر اس کا دھیان اپنے اکلوتے بیٹے ببلو کی طرف چلا گیا۔
ببلو کو زندگی کی بہاریں دیکھے ابھی سات سال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ اس پر شدید بیماری حملہ آور ہو گئی تھی وہ پچھلے ایک سال سے مسلسل بیمار تھا اور اب پچھلے تین ماہ سے اس کی بیماری میں شدت آ گئی تھی۔
اس نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر گاؤں کے بڑے حکیم سے اس کا علاج کروایا تھا۔ حکیم کے علاج کے علاوہ اسے جہاں سے بھی خبر ملتی کہ فلاں گاؤں میں پیر صاحب ہے، ان کے دم، تعویذ سے مریض ٹھیک ہو جاتے ہیں تو وہ وہاں چلا جاتا، وہاں بچے کو دم کرواتا اور تعویذ لیتا اس طرح وہ کئی پیروں کے پاس گیا ہر کوئی اسے ایک ہی بات بتاتا کہ تمہارے بچے پر کسی نے جادو کیا ہوا ہے، جب تک وہ جادو زائل نہیں ہو جاتا تمہارا بیٹا ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ جادو کا اثر زائل کروانے کے لیے اس نے اپنی تمام جمع پونجی تعویذ گنڈوں کی نذر کر دی تھی لیکن اس کے دُکھ کا مداوا پھر بھی نہ ہوا اور ببلو کی حالت دن بدن خراب ہوتی چلی گئی اور وہ سوکھ کر کانٹا بنتا جا رہا تھا۔ اس کی کمزوری کا یہ عالم تھا کہ اس کے جسم کی ہڈیاں گننی جا سکتی تھیں۔ کمزوری کی وجہ سے اس کے اندر اتنی طاقت بھی نہ رہی تھی کہ وہ کچھ بول سکے۔ جب وہ تندرست تھا تو گھر میں اس کی چھوٹی موٹی شرارتوں سے بہت رونق رہتی تھی لیکن اب بیماری کے دوران گھر کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ جیسے گھر کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ گھر میں ہر وقت سناٹا چھایا رہتا تھا صرف ببلو کے سانس لینے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ گھر کے درو دیوار سے ایسی وحشت اور خاموشی ٹپک رہی تھی جیسے یہ گھر اپنے مکینوں سے خالی ہو چکا ہو۔ ایک ہنستا مسکراتا گھر خاموشی کا گہوارہ بن گیا تھا۔
اس کے پاس جو جمع پونجی اور بیوی کے زیورات تھے وہ سب پیروں کو نذرانے، چِلّوں، صدقات وغیرہ پر خرچ ہو گئے تھے۔ خالی جیب کے ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے بیٹے کی زندگی کے متعلق نا امید نہ ہوا تھا۔ اسے اللہ کی رحمت پر مکمل یقین تھا اسی لیے تو وہ ان پیروں، فقیروں کے چکر سے نکلنا چاہتا تھا۔ اب اسے یقین ہو چکا تھا کہ اگر ببلو کو ان پیروں، فقیروں کے تعویذوں اور دم کیے ہوئے پانی سے ٹھیک ہونا ہوتا تو وہ کب کا ٹھیک ہو گیا ہوتا۔ اس کا علاج شہر کے کسی بڑے ڈاکٹر سے کروانا چاہیے۔
ڈاکٹر نے اسے مہنگی دواؤں والا نسخہ دے دیا۔ دوا لانے کے لیے اس کی جیب میں مطلوبہ رقم نہ تھی اور نہ ہی اسے کہیں سے مزید قرض مل سکتا تھا۔ ان حالات میں اس نے فیصلہ کیا کہ آج رات دیر تک تانگہ چلا کر دوا کے لیے رقم اکٹھی کی جائے اس مقصد کے لیے اس نے تانگہ باہر نکالا تھا اور بڑی سڑک کی طرف جانے سے پہلے اس نے ایک نظر اپنے جگر کے ٹکڑے کی طرف ڈالی جو اپنے والدین کی پریشانی سے بے خبر گہری نیند سو رہا تھا۔
اب بارش قدرے تھم چکی تھی بس ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ پرندے درختوں کی ٹہنیوں اور آشیانوں میں بارش سے بھیگے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ رزق کی تلاش میں سرکردہ تھے۔
لیکن سواریاں اسے دور دور تک نظر نہ آ رہی تھیں اسے تو معقول رقم کی ضرورت تھی اور یہ رقم اچھے پھیروں سے حاصل ہو سکتی تھی۔ لیکن بارش نے اس کے تمام ارادوں کو چکنا چور کر دیا تھا۔ ان حالات میں بھی امید کی ایک کرن ابھی روشن تھی اسے یقین تھا کہ سواریاں اسے ضرور بس اڈے سے مل جائیں گی۔ اسی لیے تو اس نے اپنے ٹانگے کا رخ بس اڈے کی طرف موڑ دیا تھا۔ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ بارش کی وجہ سے بس اڈہ بھی تو تالاب بنا ہو گا اور پانی کی وجہ سے بسوں والے سواریاں نامعلوم کہاں اتارتے ہوں گے، اڈہ خالی ہونے کی بنا پر ہو سکتا ہے کہ مجھے کوئی سواری نہ ملے اور مایوس لوٹنا پڑے پھر بھی وہ امید ہی کے سہارے بس اڈے کی طرف روا دوا تھا۔ جب انسان مایوس، نا امید، رنجیدہ ہوتا ہے تو اس کے لیے امید ہی قیمتی سہارا ہوتی ہے اور اس سہارے کے بل پر وہ حالات کا مقابلہ کرتا ہے اور یہی امید ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوتی ہے۔ جب امید ٹوٹ جاتی ہے تو سہارے بھی ٹوٹ جاتے ہیں اور انسان کا زندہ رہنا دوبھر ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں انسان خود کو زندہ رکھنے کے لیے جو امیدیں باندھتا ہے وہ بہت کارآمد اور مفید ثابت ہوتی ہیں بشرطیکہ انسان مایوس اور خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہوا ہو اور وہ بھی خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہوا تھا۔ اسی لیے تو اسے سواریاں ملنے کا پورا یقین تھا۔
آج اس نے بہت دنوں کے بعد ہمت کر کے تانگہ رات گئے تک چلانے کا ارادہ کیا تھا وہ بھی اس وقت جب وہ بالکل کنگال ہو چکا تھا۔ مسلسل پریشانی کی وجہ سے وہ گزشتہ ایک ماہ سے فارغ بیٹھا ہوا تھا کیونکہ تانگہ سڑک پر لے جانے کو اس کا دل ہی نہیں مانتا تھا کہ نہ جانے میری غیر موجودگی میں کیا ہو جائے گا۔ آج وہ مجبوری کی حالت میں سڑک پر تو آ گیا تھا لیکن بارش کی وجہ سے ابھی تک اُسے سواری نہ ملی تھی۔
بس اڈہ آنے میں ابھی تھوڑا ہی راستہ باقی تھا کہ اسے بغلی سڑک پر ایک بوڑھی عورت دکھائی دی جو تیز تیز چلتے ہوئے ہاتھوں کے اشاروں سے تانگہ روکنے کا اشارہ کر رہی تھی۔ اس نے بوڑھیاں کو دیکھ کرتا نگہ روک دیا۔ چند ثانیہ بعد بوڑھیاں اس کے ٹانگے کے پاس آ کر روکی تو اس کی سانس پھولی ہوئی تھی اور چہرے سے پریشانی عیاں تھی اس کے پاس کپڑے کا بنا ہوا تھیلا تھا۔ اس نے تھیلے کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑ کر چھاتی کے ساتھ لگایا ہوا تھا۔ تھیلے کی غیر ضروری حفاظت سے معلوم ہوتا تھا کہ اس میں کوئی قیمتی اشیاء ہیں۔ بوڑھیا نے آتے ہی اس نے کہا :
’’بیٹا سنٹرل ہسپتال جانا ہے۔ ‘‘
’’سنٹرل ہسپتال تو بہت دور ہے اور راستے میں جگہ جگہ پانی بھی کھڑا ہے۔ ‘‘
بیٹا اتنا زیادہ دور نہیں کہ تانگہ پہنچ ہی نہ سکے۔ مجھے اس وقت رکشہ، ٹیکسی پانی کی وجہ سے نہیں مل سکتا۔ بیٹا خدا کے واسطے مجھے ہسپتال پہنچا دو، بہت ضروری جانا ہے۔ میں تمہیں معقول کرایہ دوں گی۔
اسے معقول رقم ہی کی تو ضرورت تھی اس لیے اس نے ہسپتال جانے کا ارادہ کر لیا۔ ابھی وہ تھوڑی ہی دور چلا تھا کہ اس کے دل میں خیال آیا کہ کرایہ راستے میں ہی طے کر لیا جائے۔ اسی ارادے سے اس نے کہا :
اماں جی کرایہ تین سو روپے لوں گا اس سے کم ہرگز نہیں۔
بوڑھیاں جو پہلے ہی بہت پریشان دکھائی دے رہی تھی اور اس کی پریشانی کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ بوڑھیاں جلد از جلد منزل پر پہنچنا چاہتی ہے اور اسی بات کو بھانپ کر اس نے زیادہ کرائے کا مطالبہ کیا تھا۔
بوڑھیاں نے پریشانی کے عالم میں کہا : ’’بس مجھے جلدی سے ہسپتال پہنچا دو اور کرایہ تم کو میں ابھی ادا کر دیتی ہوں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے تھیلے سے بٹوہ نکالا اور تین سو روپے گن کر اسے دے دیے اور بٹوہ دوبارہ اپنے تھیلے میں رکھ دیا۔
روپے بہت سے لوگوں کا ایمان بھی خراب کر دیتے ہیں جب اس نے بہت سے نوٹ ایک ساتھ دیکھے تو اس کی نیت میں فتور آ گیا۔ اس نے سوچا بچے کے علاج کے لیے جیب میں پیسے نہیں، قرض دینے والا کوئی نہیں بلکہ کئی لوگوں کا قرض چڑھ چکا ہے۔ تانگہ چلا کر میں کتنی رقم کما سکتا ہوں، اتنی رقم تو میں پورے ماہ بھی نہیں کما سکتا جتنی رقم بوڑھیاں نے پرس میں رکھی ہے اور مجھے اس رقم کی ضرورت بھی ہے۔
اس کے دل میں شیطان وسوسہ ڈالتا کہ اس تھیلے کو چھین کر بھاگ جانا چاہیے تاکہ میں اپنے بیٹے کا علاج کروا سکوں جو زندگی کی بازی ہار رہا ہے۔ اگر میں نے یہ موقع گنوا دیا تو پھر دوبارہ کبھی ایسا موقع نہ ملے گا اور نہ میں بچے کا علاج کروا سکوں گا۔ کبھی اس کے ذہن میں خیال آتا اگر میں پکڑا گیا تو میں سیدھا جیل جاؤں گا اور گاؤں میں پھر کبھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا۔ ساری عزت خاک میں مل جائے گی۔ ببلو تو زندگی کی بازی ہار ہی جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ اس کی والدہ کی زندگی بھی اجیرن ہو جائے گی اور بدنامی کا یہ داغ ساری زندگی میرا پیچھا نہ چھوڑے گا۔
وہ اس وقت ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھا کہ میں کیا کروں، اسی اثنا میں تانگہ کا گزر ایک ایسے سنسان راستے سے ہوا جہاں بارش کا پانی بہت کھڑا تھا، ایسا سنہری موقع پا کر اس کے اندر کا شیطان جاگ اٹھا اور اس نے واردات کرنے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اس نے تانگہ بیچ سڑک کھڑا کر دیا اور بوڑھیاں سے کہنے لگا :
’’اماں جی تانگہ گھڑے میں پھنس گیا ہے۔ ذرہ نیچے اتریں، میں پہیہ کو دھکا دے کر آگے کر لو پھر آپ چڑھ جانا۔ اگر آپ بیٹھی رہی تو گھوڑی گر جائے گی جس کی وجہ سے آپ کو چوٹ لگ جائے گی۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ آپ ذرہ نیچے اتر جائیں۔ ‘‘
بوڑھیاں کے نیچے اترتے ہی اس نے دونوں ہاتھوں کا مکا بنا کر زور سے بوڑھیاں کے سر پر مارا جس کی وجہ سے بوڑھیاں پانی میں گر گئی اور وہ تھیلا لے کر بھاگ گیا۔ اسی بھاگ دوڑ میں اس نے شہر میں کہیں سے ڈاکٹر کی لکھی ہوئی دوائی خریدی اور واپس گاؤں کی طرف لوٹ آیا۔
گاؤں کے کچے راستے پر تانگہ بہت آہستہ ہو گیا تھا۔ اس نے تانگہ پر ہی بیٹھے ہوئے تھیلے کے اندر سے بٹوہ نکالا اور اس میں موجود نوٹوں کو گننے لگا۔ اس میں صرف آٹھ سو روپے تھے اور اس کے علاوہ تھیلے میں ایک خون کی بوتل، ایکسرے اور کچھ میڈیسن بھی تھیں۔ اس نے روپے جیب میں ڈالے اور تھیلے میں موجود تمام چیزوں کو کہیں پھینک کر گھر کی طرف چل دیا۔
اس نے گھر کا دروازہ کھولا، اندر داخل ہوا تو گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سناٹا تو پہلے بھی ہوتا تھا لیکن آج اس سناٹے نے اس کے رونگٹے کھڑے کر دیے تھے وہ آگے بڑھا۔ کمرے کا دروازہ کھولا تو اس کی نظر سب سے پہلے اپنے بیٹے پر پڑی جس کی سانس رک چکی تھی اور ساتھ ہی بچے کی ماں سکتے کے عالم میں پڑی تھی۔
اس کے ہاتھ میں نوٹ تھے اور ذہن میں بوڑھیاں کا خیال، وہ کبھی نوٹوں کو دیکھتا اور کبھی اپنے بچے کی طرف جو بے جان پڑا تھا۔
٭٭٭
دلی سکون
کتاب بینی میں وہ اس قدر مگن تھا کہ اسے احساس ہی نہ ہوا کہ رات کتنی بیت گئی ہے۔ اس کا احساس اسے تب ہوا جب اچانک چھت پر کسی کے چلنے کی آواز سنائی دی وہ جو مطالعہ میں اس قدر مگن تھا فوراً آواز کی طرف متوجہ ہو گیا اور اس نے کچھ ثانیاً ایسے ہی بیٹھے بیٹھے چھت سے آنے والی آہٹ کا بغور جائزہ لینے کے لیے اپنی ساری توجہ اس آہٹ کی طرف لگا لی پھر وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ چھت پر کوئی شخص ہے جو چوری کی نیت سے آیا ہے اور ساتھ ہی اس کے دل میں خیال ابھرا کہ کیوں نہ اوپر جا کر اس کو دبوچ لیا جائے، قبل اس کے کہ وہ نیچے آئے لیکن پھر اسے اپنا فیصلہ ترک کرنا پڑا وہ اس لیے کہ جب وہ پڑھنے کے لیے بیٹھا تھا تو اس وقت دھند بہت زیادہ تھی اور اب جبکہ رات بہت گہری ہو گئی ہے جس کی وجہ سے دھند اور بھی زیادہ گہری ہو گئی ہو گی۔ اگر میں اس شدید دھند میں اوپر گیا اور وہ چور دھند اور میرے بڑھاپے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے نقصان پہنچا کر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو جائے۔ لہٰذا مجھے ایسا رسک نہیں لینا چاہیے جس سے مجھے نقصان پہنچنے کا خطرہ درپیش ہو۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنا پہلا فیصلہ ترک کرتے ہوئے دوسرا فیصلہ کیا کہ سیڑھیوں کی اوڑھ چھپ کر بیٹھ جانا چاہیے جب وہ شخص نیچے آئے تو اسے اسلحہ کے زور پر دبوچ لینا چاہیے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد اس نے اپنی پستول نکالی اور سیڑھیوں کی اوڑھ چھپ کر بیٹھ گیا اور چور کا انتظار کرنے لگا۔
دس پندرہ منٹ انتظار کے بعد جب کوئی شخص نیچے نہ آیا اور نہ ہی اب چھت پر کسی کے چلنے کی آواز سنائی دے رہی تھی تو اس نے اپنے آپ سے کہا شاید وہ آواز میرا وہم تھا یا پھر بلی کے چلنے کی آواز تھی اور ساتھ ہی اس نے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کو فوراً جھٹک کر یہ فیصلہ کیا کہ کیوں نہ چھت پر جا کر دیکھا جائے۔ ایسا کرنے سے کم از کم میرا دل تو مطمئن ہو جائے گا لہٰذا اس نے ٹارچ پکڑی اور چھت پر چلا گیا۔ اوپر جاتے ہی اس نے نہ صرف اپنے مکان کی چھت کا جائزہ لیا بلکہ ہمسایوں کی چھتوں پر بھی نظر دوڑائیں لیکن کوئی شخص دکھائی نہ دیا لہٰذا وہ اس آہٹ کو اپنا وہم سمجھ کر سونے کے لیے نیچے چلا آیا۔
دوسری رات حسبِ دستور پھر وہ اپنے مطالعہ میں مگن تھا کہ اسے پھر وہی آہٹ سنائی دی جو اسے گزشتہ رات سنائی دی تھی یکدم اس کی توجہ کتاب سے ہٹ گئی اور اس آہٹ کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اس بار بھی وہ اس آواز کا تجزیہ اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے کرتا رہا۔ ابھی وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ پایا تھا کہ اسے چھت پر کسی کے چلنے کی آواز آنی فوراً بند ہو گئی۔ اب کہ اسے یہ پختہ یقین ہو گیا کہ چھت پر کوئی شخص چوری کی نیت سے آتا ہے اور نیچے کمرے کی روشنی جلتی ہوئی دیکھ کر واپس چلا جاتا ہے۔ آج رات تو وہ اوپر بھی نہیں گیا کیونکہ اسے یقین تھا کہ جو کوئی بھی تھا وہ اب چلا گیا ہو گا اس لیے اوپر جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اب مجھے کل کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہیے تاکہ میں اس پر قابو پا سکوں اور وہ یہ سوچتے سوچتے سو گیا۔
تیسری رات تو اس نے اپنے آپ کے ساتھ یہ پختہ عہد کیا ہوا تھا کہ آج ضرور چور کے ساتھ دو دو ہاتھ کروں گا اور اسے رنگے ہاتھوں پکڑوں گا۔ اسی مقصد کے لیے اس نے اپنی پستول سرہانے کے نیچے رکھی اور کمرے کی لائٹ آف کر کے اپنے بستر میں لیٹ گیا اور چور کا انتظار کرنے لگا کہ جب وہ نیچے آئے گا تو میں اس کو فوراً دبوچ لوں گا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد اسے چھت سے وہی چلنے کی آواز سنائی دی اور وہ فوراً چوکنا ہو گیا لیکن چلنے والا پھر نیچے نہ آیا۔ اب اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسوں نے جنم لینا شروع کر دیا کہ کیا اس شخص کا ارادہ مجھے قتل کرنے کا تو نہیں لیکن پھر اسے خیال آتا نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہو سکتی میری تو کسی کے ساتھ دشمنی بھی تو نہیں۔ بھلا مجھے کون قتل کرے گا پھر وہ اپنے دل کو یہ تسلی دیتا کہ وہ ضرور چور ہے اور وہ بھی نا تجربہ کار وہ کسی انجانے خوف کی وجہ سے بھاگ جاتا ہے۔
ملک اللہ یار کو اس بستی میں رہتے ہوئے پچاس برس گزر چکے تھے اس نے اسی بستی کے اسی مکان میں جنم لیا تھا اور یہاں پر ہی پلّا بڑھا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے پچاس برس اسی مکان میں گزارے تھے۔ اس نے آج تک اس بستی میں چوری کا واقعہ رونما ہوتے نہ دیکھا تھا۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ بستی میں رہنے والے لوگ بھی مدتوں سے یہیں رہ رہے تھے اگر ان میں سے کوئی شخص بُری عادات کا مالک بھی ہوتا تو اس کی ان حرکات سے محلہ محفوظ رہتا کیونکہ وہ شخص اپنی تمام خباثتیں بستی سے باہر ہی چھوڑ آتا کیونکہ باپ دادا کی عزت اور محلے داری کا احساس ضرور ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ بستی میں بھی ایسا کوئی نہ تھا کہ جس پر شک کیا جا سکے کہ وہ چوری جیسی خبیث حرکت کرتا ہے یا کر سکتا ہے۔
ملک اللہ یار کا شمار بستی کے معزز افراد میں ہوتا تھا۔ بستی میں جب کبھی چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑے یا کوئی گھریلو قسم کے واقعات جن سے لڑائی جھگڑا ہو جانا یا ہونے کا اندیشہ ہوتا تو ان کے تصفیہ اور فیصلے کے لیے ملک اللہ یار کی خدمات حاصل کی جاتی اور ان کا کیا ہوا فیصلہ سب کو قبول ہوتا تھا، اس طرح وہ پوری بستی میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان سب باتوں کے باوجود ملک اللہ یار کو جو فکر دامنِ گیر تھی وہ یہ تھی کہ وہ کاروبار کے لحاظ سے زرگر تھا اور اس کی دُکان گھر کے اس حصے میں تھی جس کا دروازہ گلی میں نکلتا تھا اور رہائشی کمرہ پچھلی طرف تھا۔ مکان میں صرف دو کمرے تھے ایک میں دکان بنا دی گئی تھی اور دوسرے میں رہائش اختیار کر رکھی تھی۔ دونوں کمروں کے درمیان صحن تھا جہاں کتا باندھا جاتا تھا۔ ملک اللہ یار کی بیوی کو مَرے دو سال بیت چکے تھے اور ان کی کوئی اولاد بھی نہ تھی جس کی وجہ سے وہ اس مکان میں اکیلا ہی رہائش پذیر تھا اور اِس کے ساتھ اِس کا کتا تھا جس سے اِس کو بہت محبت تھی۔ جو آہٹ ملک اللہ یار کو سنائی دیتی وہ کتے کو سنائی نہ دیتی تھی کیونکہ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ کتا رہائشی کمرے سے دور تھا جس کی وجہ سے اسے آہٹ سنائی نہ دیتی تھی اس کے علاوہ اسے چھت پر کھڑا شخص بھی نظر نہیں آ سکتا تھا کیونکہ کمرے کی وضع قطع کچھ اس طرح کی تھی کہ کمرے کی چھت پر اگر کوئی شخص کھڑا ہوتا تو وہ صحن میں بیٹھے ہوئے شخص کو دکھائی نہ دیتا تھا کیونکہ چھت کی سیڑھیاں جہاں سے شروع ہوتی تھی وہاں پر ایک چھوٹی سی جگہ بنائی ہوئی تھی جہاں پر کتے کے کھانے کا سامان یعنی باسی روٹی کے ٹکڑے رکھے جاتے تھے جو حسبِ ضرورت نکال کر پانی میں بھگو کر کتے کا کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ اس کھڈے کی وجہ سے چھت اور صحن کے درمیان پردہ حائل ہو گیا تھا اس کے علاوہ چھت کی سیڑھیاں کمرے کے اندر سے نکلتی تھی۔
گھر کی بناوٹ غیر واضح ہونے کی بنا پر بھی ملک اللہ یار کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات جنم لے رہے تھے کہ کہیں چور کی نیت مجھے قتل کر کے دُکان کو لوٹنا تو نہیں اور شاید اس کے لیے چھت محفوظ ترین راستہ ہو جس سے اس کا راز افشاں بھی نہ ہو اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جائے۔
اب جبکہ چھت سے کسی قسم کی آواز نہیں آ رہی تھی لیکن ملک اللہ یار کو انجانے خوف اور وسوسوں نے گھیر رکھا تھا جس کی وجہ سے اس کی نیند اڑ چکی تھی۔ ان سب باتوں کے باوجود اس نے اپنے پر طاری خوف پر قابو پایا، ہاتھ میں پستول پکڑی اور چھت پر چلا گیا۔
جنوری کی دھُند میں لپٹی ہوئی رات تھی۔ دھُند اس قدر زیادہ تھی کہ دھند کے سوا کچھ اور دکھائی نہ دے رہا تھا۔ اس نے ٹارچ کی مدد سے چھت کا جائزہ بڑی باریک بینی سے لیا لیکن آنے والے شخص کا کوئی نشان نہ پا سکا اور نہ ہی اس کی سمجھ میں یہ بات آ رہی تھی کہ وہ شخص کدھر سے آتا ہے اور کیوں آتا ہے ؟ وہ پریشانی میں اس قدر گھیرا ہوا تھا کہ اسے سردی کی شدت کا ذرہ برابر بھی احساس نہ ہو پا رہا تھا اور پریشانی کے عالم میں اس نے چھت پر ٹہلنا شروع کر دیا۔ اس کے ذہن میں صرف ایک ہی خیال سوار تھا کہ وہ کون شخص ہے جو چھت پر آتا ہے اور کیوں آتا ہے ؟ اس کا مقصد کیا ہے ؟ حالانکہ اَروس پڑوس میں بھی کوئی ایسا شخص نہیں جس پر شک کیا جا سکے وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ ساتھ والے گھر سے عورت کی آواز سنائی دی جو اپنے بچوں کو کہہ رہی تھی :
’’بچوں اٹھو کھانا تیار ہو گیا ہے، کھا کر سو جانا اور ساتھ ہی اِس نے اپنی بیٹی سے مخاطب ہو کر کہا، بیٹی آج تم روٹی کے ٹکڑے بہت کم لے کر آئی ہو۔ ‘‘ رات کے سناٹے میں اس عورت کی آواز بڑی واضح سنائی دے رہی تھی۔
’’امی وہ آج ملک صاحب کے گھر کی لائٹ بند تھی جس کی وجہ سے کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا اور دھند کی وجہ سے بھی اندھیرا بہت زیادہ تھا، بس اندھیرے ہی کی وجہ سے جتنے روٹی کے ٹکڑے ہاتھ لگے، اٹھا کر لے آئی۔ ‘‘ بیٹی نے معصومیت سے ماں کو بتایا۔
آج اسے معلوم ہوا کہ چھت پر کون آتا ہے اور کیوں آتا ہے۔ آج کی رات اس کے لیے روزِ محشر سے کم نہیں تھی۔ کیونکہ بچی کے جواب نے اس کی روح کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل چکی ہو اور اس کی روح جسم کی قید سے آزاد ہو چکی ہو۔ خوف کی وجہ سے اس پر کپکپی سی طاری ہو گئی اور شدید سردی میں بھی اسے پسینہ کا احساس ہونے لگا تھا، اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کے بدن پر آگ سی جل رہی ہو اور وہ اسی کشمکش کی حالت میں نیچے اتر آیا۔
آج کی رات اس کے لیے بہت بھاری تھی۔ اس کے بچپن کا دوست حق نواز جو دُکھ سکھ میں اس کا ساتھی تھا، اُس کے مرنے کے بعد اُس کے بیوی بچے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے وہ جو باسی روٹی کے ٹکڑے کتے کے کھانے کے لیے خریدے گئے تھے، انسان کھا کر اپنا پیٹ بھر رہے تھے، وہ بھی چوری کے ساتھ۔ یہ قیامت اس کے عزیز دوست کے بیوی بچوں پر ٹوٹ رہی تھی اور وہ ان کے پڑوس میں ہوتے ہوئے بھی بے خبر تھا۔
اسے اپنے آپ سے ایک گھن سی محسوس ہو رہی تھی کہ اس نے اپنے بچپن کے دوست کے مرنے کے بعد کبھی بھی اس کی بیوہ اور یتیم بچوں کی خبر گیری تک نہ کی تھی اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کی کہ کبھی انہوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے کہ نہیں اور اب ان کا کوئی ذریعہ آمدنی ہے کہ نہیں۔
اُف میرے اللہ! میرے ہمسائے میں نیم بھوکے سوتے ہیں اور وہ بھی میرے بھائیوں جیسے دوست کے بیوی بچے اور میں نے ان کی خبر گیری صرف اس وجہ سے نہ لی کہ لوگ کیا کہیں گے کہ دوست کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ کے ساتھ— اف میرے خدایا میں معاشرے کے ان لوگوں سے ڈر گیا جو صرف بیوہ کو فطرانہ اور زکوٰۃ دے کر یوں سمجھتے ہیں کہ جیسے ہم نے ان کی سال بھر کی ضروریات پوری کر دی ہیں اور اب ہم اپنے فرض سے بہرہ ور ہو گئے ہیں۔ ان کے ذہن میں ایک یہ بات بھی ہوتی ہے کہ جیسے ہم نے دیا ہے اسی طرح اور بھی بہت سے لوگوں نے دیا ہو گا۔ ان کے ذہن میں یہ بات ہرگز نہیں آتی کہ شاید کسی نے بھی نہ دیا ہو، اگر دیا بھی ہے تو کیا ان کی ضروریات کے مطابق بھی ہے کہ نہیں، کیا وہ پیٹ بھر کر سوتے ہیں کہ نہیں۔ اگر معاشرے کے ہر فرد کی سوچ ایسی ہو جائے تو کوئی بھوکا نہ سوئے۔ کوئی بھوک سے تنگ آ کر کسی کا گلہ نہ کاٹے اور اس طرح معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی اور فلاحی معاشرہ بن جائے۔
خود کو اور معاشرے کی خود ساختہ روایات کو کوستے کوستے پتہ نہیں کب نیند اس پر غالب آ گئی اور وہ گہری نیند سو گیا۔
صبح وہ اٹھتے ہی حق نواز کے گھر کی طرف چل پڑا۔
اس نے کل رات ہی یہ پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ وہ کسی نہ کسی بہانے سے ایک لاکھ پچاس ہزار روپے کی رقم دے کر ان کی مدد کرے گا لیکن اس کے ذہن میں گزشتہ رات کوئی ترکیب نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس طرح یہ خطیر رقم ان کو دے لیکن آج جب وہ گھر سے نکلا تو تمام الجھنے خودبخود سلجھتی چلی گئیں جن کو وہ کافی دیر سے سلجھانے کی جستجو میں تھا لیکن سلجھ نہیں رہی تھیں۔
دروازہ پر دستک دی۔ دروازہ کھلتے ہی حق نواز کا بیٹا نمودار ہوا۔
’’السلام و علیکم ! انکل‘‘ لڑکے نے باہر آتے ہوئے بڑی محبت کے ساتھ سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام! اور ساتھ ہی اس نے لڑکے کے سر پر محبت بھرا ہاتھ پھیرا اور کہا :
’’بیٹا جی کیا حال ہے، ٹھیک تو ہو اور ہاں بیٹا تمہارے والد کی امانت میرے پاس موجود ہے جو میں تمہاری والدہ کو دینا چاہتا ہوں۔ جلدی سے اپنی والدہ سے بات کروا دو۔ ‘‘ لڑکا ماں کو بلوانے اندر چلا جاتا ہے۔
چند ثانیہ بعد تھوڑا سا دروازہ کھلتا ہے اور اندر سے نسوانی آواز آتی ہے :
’’سلام بھائی! آج کیسے راستہ بھول کر اِدھر آ گئے۔ ‘‘
بہن میں حق نواز کی امانت تمہیں دینے آیا ہوں۔ ملک اللہ یار نے باہر کھڑے کھڑے جواب دیا۔
’’بھائی صاحب اندر چلے آئیں یہ آپ کی بہن کا گھر ہے۔ ‘‘ دروازے کی اوڑھ سے حق نواز کی بیوہ نے کہا۔
ملک اللہ یار گھر کے اندر داخل ہو گیا اور کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا : ’’بھابی بچے کیسے ہیں ؟ اسکول وغیرہ جاتے ہیں یا نہیں۔ ‘‘
’’بھائی صاحب دین محمد نے ساتویں جماعت سے اسکول چھوڑ دیا تھا اب یہ گلی گلی جا کر بچوں کی اشیاء بیچتا ہے مثلاً گرمیوں میں کلفیاں اور سردیوں میں دال سیویاں، خدا کا شکر ہے تھوڑا بہت بیچ کر گھر کا خرچ چلا لیتا ہے اور بڑی بیٹی نے آٹھ جماعتیں پاس کر لی ہے اس کے لیے اتنی ہی بہت ہے۔ سب سے چھوٹی بیٹی تو ابھی تین سال کی ہے۔ ‘‘ پردے کی اوڑھ سے حق نواز کی بیوہ کہہ رہی تھی۔
’’بہن میں اس لیے حاضر ہوا تھا کہ حق نواز کی کچھ رقم میرے پاس آئی ہے جو آپ کو دینے آیا ہوں۔ ‘‘ اللہ یار نے جھکی ہوئی نظروں سے یہ بات کی۔
’’لیکن بھائی صاحب آپ کو اور پورے محلے کو معلوم ہے کہ حق نواز مفلسی کی حالت میں وفات پا گیا تھا وہ تو بہت سے لوگوں کا مقروض تھا تو پھر یہ رقم کیسے اور کہاں سے آ گئی۔ ‘‘
’’بہن بات در اصل یہ ہے کہ آج سے تین سال پہلے میں نے اور حق نواز نے مل کر ایک شخص کے پاس کمیٹی ڈالی تھی اور وہ شخص بہت سے لوگوں کا پیسہ مار کر بھاگ گیا تھا۔ اس فراڈیے کو پولیس نے اب گرفتار کر لیا ہے۔ جس کی وجہ سے ڈوبی ہوئی رقم واپس مل گئی ہے۔ حق نواز کے ایک لاکھ پچاس ہزار روپے بنتے تھے جو میں لے آیا ہوں۔ اگر آپ کو میری کسی بات پر اعتبار نہ ہو تو میں تھانے سے اس شخص کی گرفتاری کا ثبوت بھی پیش کر سکتا ہوں۔ ‘‘
’’بھائی صاحب میں آپ کی ذات اور نیت پر شک نہیں کر رہی مجھے آپ پر مکمل اعتبار اور بھروسہ ہے۔ میں نے صرف اس وجہ سے بات کی تھی کہ حق نواز نے بڑی مفلسی میں موت کو گلے لگایا اور اس نے کبھی مجھے اس رقم کے متعلق نہیں بتایا۔ ‘‘ بیوہ حق نواز نے حسبِ سابق پردے کی اوڑھ سے کہا۔
’’بہن مجھے سب معلوم ہے، حق نواز کو مجھ سے زیادہ اور کون جانتا ہے، میں اس کے بہت نزدیک تھا۔ یہ کمیٹی اس نے آپ سے چوری چوری ڈالی تھی لیکن اس کی بیماری سے کچھ ہی ماہ پہلے فراڈ ہو گیا جس کی وجہ سے وہ آپ کو بتا نہ سکا۔ بتانے کا کوئی فائدہ بھی تو نہ تھا کیونکہ رقم تو ڈوب ہی گئی تھی، جس کے ملنے کی کوئی امید باقی نہ بچی تھی ان حالات میں اگر وہ آپ کو ساری صورتِ حال بتا دیتا تو الٹا آپ نے بھی پریشان ہونا تھا۔ شاید اس بناء پر اس نے آپ کو کچھ نہیں بتایا۔ ‘‘
’’بہن یہ لو آپ کی امانت اگر تمہیں اس رقم کے بارے میں مزید کسی قسم کی تفتیش کی ضرورت درپیش ہو تو میں حاضر ہوں، میں ہر قسم کا ثبوت فراہم کر سکتا ہوں یہ کہ رقم کی مالیت ایک لاکھ پچاس ہزار روپے ہیں اور یہ رقم حق نواز کی ملکیت ہے۔ ‘‘ یہ الفاظ کہتے ہوئے ملک اللہ یار نے رقم کا پیکٹ بیوہ حق نواز کی طرف بڑھا دیا۔
’’بھائی صاحب ایسی تو کوئی بات نہیں کہ تفتیش کی جائے اس دنیا میں ہر کوئی کسی نہ کسی کو لوٹنے میں لگا ہوا ہے۔ آپ ایمان داری سے اپنا فرض سمجھ کر ہم لوگوں کو یہ رقم دینے آئے ہے تو آپ کی بہت بہت مہربانی حالانکہ یہ رقم میرے علم میں نہ تھی۔ یہ آپ کا بڑا پن ہے کہ آپ حق دار کو حق لوٹانے آ گئے ہیں اس کا اجر اللہ آپ کو ضرور دے گا۔ ‘‘ حق نواز کی بیوہ نے دوپٹہ کے پلو سے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
’’بہن حق نواز کے ساتھ میں نے بچپن سے جوانی اکٹھی گزاری ہم دونوں نے دُکھ سُکھ کے دن دیکھے ہیں وہ میرا دوست ہی نہیں بھائی تھا اور بھائی ہی کے ناطے میں تم سے ایک بات کہتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ تم میری بات کو نہیں ٹالو گی اور میری بات کا مان رکھو گی۔ ‘‘
’’بھائی صاحب آپ بات کریں، آپ کی یہ بہن آپ کا ہر حکم بجا لائے گی بشرطیکہ وہ میرے بس میں ہوا تو۔ ‘‘
’’بہن میں بات یہ کرنا چاہتا ہوں کہ بس اڈے کے پاس کارپوریشن کی زمین ہے جہاں پر لوگوں نے کھوکھے لگا رکھے ہیں جو بہت اچھی روزی کما لیتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ دین محمد کو وہاں پر کھوکھا لگوا دوں۔ میری کارپوریشن کے اہلکاروں کے ساتھ واقفیت بھی ہے جس کی وجہ سے جگہ کا حصول ممکن ہے یہ وہاں پر کاروبار کر کے بہتر روزگار کما سکے گا اور پہلی بار جو مال دُکان میں ڈالا جائے گا وہ میری طرف سے ہو گا یعنی دین محمد کے چچا کی طرف سے، آپ کے بھائی کی طرف سے، اس سے مجھے بہت زیادہ خوشی محسوس ہو گی اور مجھے اُمید ہے کہ یہ بہت جلد اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہو جائے گا اور اس سے مجھے روحانی اور دلی سکون محسوس ہو گا کہ میں اپنے دوست کے خاندان کے کچھ تو کام آیا۔
’’بھائی جیسی آپ کی خوشی مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ‘‘
حالانکہ ملک اللہ یار کی کارپوریشن میں کوئی واقفیت نہ تھی اس نے رقم خرچ کر کے کھوکھا خریدا اور اس میں مال ڈال کر دین محمد کو دے دیا اور اس نے یہ کانوں کان خبر نہ ہونے دی کہ یہ کھوکھا اس نے خرید کر دیا ہے اور ایک لاکھ پچاس ہزار روپے جو کمیٹی کا کہہ کر دیے تھے وہ بھی اپنی جیب سے دیے تھے کیونکہ اس کے پاس اور کوئی راستہ بھی تو نہ تھا اگر اس کے پاس کوئی متبادل راستہ ہوتا تو وہ اس راستے سے اس سفید پوش خاندان کی ضرور مدد کرتا اور جھوٹ کا سہارا ہرگز ہرگز نہ لیتا ان سب باتوں سے قطع نظر آج اسے اس جھوٹ سے جتنا دلی اور روحانی سکون میسر آیا وہ اس کا تصور نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس کی زندگی اس جیسے سکون سے ابھی تک عاری تھی۔
٭٭٭
ماں
یہ میرا پہلا افسانہ ہے، جو تقریباً 1998 سے لکھنا شروع کیا اور نومبر 1999 تک مکمل ہوا۔
ریحانہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ نسرین کو کیا ہو جاتا ہے جب اس کی پندرہ ماہ کی بیٹی اس کو ماں کہہ کر پکارتی ہے حالانکہ اسے خوش ہونا چاہیے تھا کہ وہ اس مقام پر پہنچ گئی ہے جس کے پیروں تلے جنت ہے۔ اس کے باوجود ماں کا لفظ سنتی تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے۔ اس کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا جاتا، جسم اس کا ایسے سن ہو جاتا جیسے روح اور جسم کا رشتہ ٹوٹ چکا ہو۔ وہ خود پر قابو پانے کی بہت کوشش کرتی لیکن ہر بار ناکام رہتی۔ جس کی وجہ سے وہ کچھ گھبرائی گھبرائی سی لگتی تھی۔
نسرین کے ہنستے مسکراتے چہرے پر کچھ دنوں سے اُداسی اور پریشانی عیاں تھی اور وہ کسی انجانے خوف سے گھبرائی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ گھر کے کام کاج میں اس کی بے خیالی اور عدم دلچسپی دیکھی جا سکتی تھی۔ کل ہی کی بات ہے اس نے ہنڈیاں میں بے خیالی میں دو مرتبہ نمک ڈال دیا تھا، ہر وقت پریشان پریشان دکھائی دیتی۔ اکثر وہ چپ چاپ بیٹھی دیوار پر لگی تصویر کو ٹُکر ٹُکر ایسے ہی دیکھتی رہتی جیسے یہ تصویر اس کی کسی عزیزہ کی ہو بلکہ یہ تصویر وہ خود بازار سے خرید کر لائی تھی کیونکہ اس میں ممتا کے جذبات کی عکاسی ہوتی تھی۔
ریحانہ اور نسرین کے درمیان کوئی خون کا رشتہ تو نہ تھا پھر بھی دونوں ایک دوسری کو دل و جان سے چاہتی تھیں۔ اِن دونوں میں ایسی محبت تھی جیسی شاید دو سگی بہنوں میں بھی نہ ہو۔ دونوں نے دل کی بات کبھی ایک دوسری سے چھپائی بھی تو نہ تھی لیکن اب نسرین کو دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا تھا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔
کبھی تو ریحانہ کے دل میں خیال پیدا ہوتا کہ کیا اس کو یکایک مجھ سے نفرت تو نہیں ہو گئی جو یہ اب مجھ کو باجی کہہ کر بھی نہیں پکارتی، اس سے جو کام کرنے کو کہا جاتا، ہاں ہوں کر کے وہ کام سرانجام دے دیتی ہے لیکن اپنی زبان سے باجی کا لفظ ادا نہیں کرتی۔ کیوں وہ ایسا کرتی ہے ؟ مجھ سے ایسی کون سی خطا ہو گئی کہ وہ روٹھ گئی۔ مجھے اس سے پوچھنا چاہیے کہ تم کو کیا ہو گیا ہے، کیوں تم اس طرح رہ کر میرا دل جلاتی ہو، پہلے تو ایسی نہ تھی پھر اب کیا ہو گیا ہے۔ وہ اپنے آپ کے ساتھ فیصلہ کر کے اٹھنا چاہتی تھی کہ یکایک اس کے ضمیر نے سمجھایا کہ تم کو اِس طرح اُس سے کچھ نہیں پوچھنا چاہیے کیونکہ تم جو دھندہ کرتی ہو، وہ قابلِ فخر تو نہیں، وہ تم کو غصہ میں کوئی ایسا ویسا طعنہ نہ دے دے جس کی وجہ سے تمہاری دل آزاری ہو۔ اُس کے ضمیر کی آواز حالات کے مطابق تھی لہٰذا اُس نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا۔ اور اپنی بے بسی پر دل ہی دل میں کُڑھتی رہی، اور خیال خیال میں کہتی: ’’میں ایسی تو نہ تھی اور نہ میں ایسا بننا چاہتی تھی، بس بن گئی، لیکن اب مجھے اس دلدل سے نکلنا ہو گا۔ ‘‘ یہ باتیں سوچتے سوچتے اس کا ذہن ماضی میں کھو گیا۔
ریحانہ نے غربت کی آغوش میں آنکھ کھولی، اس کا باپ چوہدری کا ملازم تھا وہ سارا سارا دن چوہدری کی زمینوں پر کام کیا کرتا تھا اس کے باوجود اس کو معاوضہ اتنا نہیں ملتا تھا کہ وہ اپنے کنبہ کا بوجھ اٹھا سکے، مجبوراً اس کے بیوی، بچوں کو بھی حویلی میں جا کر کام کرنا پڑتا تھا۔
ریحانہ کو نہیں معلوم کہ اس نے بچپن میں کبھی اپنی ہم جولیوں کے ساتھ کوئی کھیل کھیلا ہو، جب سے ہوش سنبھالا، خود کو کام کاج میں مصروف پایا۔ ذرہ بڑی ہوئی تو اپنی ماں کے ساتھ چوہدری کی حویلی میں گھریلو کام کاج کرنے کے لیے چلی جایا تھی۔
ابھی اس کی عمر اتنی زیادہ نہ تھی کہ اس پر جوانی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو گئے تھے۔ بڑی بڑی نیلی آنکھیں، کھلتا ہوا رنگ، سیاہ کالے گھنے لمبے بال، دبلا پتلا جسم، درمیانہ قد دیکھنے میں گڑیا سی لگتی تھی۔ اس کی بھولی بھالی صورت پر سب فدا تھے اور چوہدری تو اس پر نظر بَد رکھتا تھا وہ اس کی ماں کو بہانے سے کسی دوسرے کمرے میں بھیج دیتا اور اسے پکڑ کر عجیب طریقے سے مسلنا شروع کر دیتا۔ یہ سب کچھ اسے اچھا تو نہ لگتا تھا لیکن اس کے متعلق اس نے اپنی ماں کو کبھی نہ بتایا۔ وہ اس لیے کہ چوہدری اس کو اپنا چھوڑا ہوا جوٹھا کھانا اور تھوڑی رقم دے دیا کرتا تھا اور وہ خوش ہو جایا کرتی تھی۔ عمر بھی تو اس کی اتنی زیادہ نہ تھی کہ وہ چوہدری کی شیطانیت کو سمجھ سکتی۔
ریحانہ کی زندگی میں ڈرامائی موڑ اس وقت پیش آیا جب اس کی عمر تیرہ برس تھی۔ اس کی ماں کو شدید بیماری نے آ لیا اور وہ چارپائی پر پڑ گئی، ان حالات میں اس کو اکیلے حویلی کا تمام کام کرنا پڑتا تھا۔ ایک دن جب وہ کمرے کی صفائی ستھرائی کے لیے چوہدری کے کمرے میں گئی تو وہ اُس وقت اپنے کمرے میں شراب پی رہا تھا۔ زیادہ شراب پی لینے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں اور وہ اپنی سرخ سرخ آنکھیں پھاڑے عجیب طرح سے اس کو گھور رہا تھا۔ جس کی وجہ سے ریحانہ کو خوف آنا شروع ہو گیا۔ اس کے جسم میں کپکپاہٹ سی پیدا ہو گئی، اور مارے خوف سے اس نے اپنا جھاڑ پونچ والا کپڑا وہیں چھوڑا اور کمرے سے جلد نکلنے کے لیے مڑی تو چوہدری نے آواز دے کر روک لیا۔
’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘
’’کپڑے دھونے کے لیے ‘‘ اس نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔
وہ غنودگی کے عالم میں بولا : ’’کیا بات ہے گھبرائی ہوئی لگ رہی ہو۔ ‘‘
’’کچھ نہیں — کچھ نہیں — وہ امی کی طبیعت زیادہ خراب ہے شاید اس لیے، ویسے تو کوئی بات نہیں۔ ‘‘ وہ سہمی ہوئی جواب دے رہی تھی۔
چوہدری بڑی تیزی سے کرسی سے اُٹھ کر اس کے قریب آ گیا اور فوراً اُس نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھ دیے اور اسے قریب کرتے ہوئے چھوٹا سا بوسہ لے لیا۔ وہ ایسے ہی کسی انجانے خوف کی وجہ سے چپ کھڑی رہی، وہ اور قریب آ گیا۔
چوہدری لڑکھڑاتے ہوئے اس نے مخاطب ہوا : ’’تم مجھ سے اتنا کیوں گھبراتی ہو؟ کیا میں تمہیں اچھا نہیں لگتا، میں تمہیں اچھے اچھے کھانے اور چیزیں دیتا ہوں پھر بھی تم مجھ سے دور بھاگتی ہو آخر کیوں —‘‘ یہ کہتے ہی اس نے ریحانہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں دبا لیے اور پھر جھٹکے کے ساتھ اُس نے ریحانہ کو پلنگ پر گرا دیا۔
ریحانہ کو نہیں معلوم کہ چوہدری اس کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے — اور اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے —
وہ لُٹ چکی تھی—
لُٹی پٹی ریحانہ درد ناک اذیت اور نفرت کا ملا جلا احساس لیے اپنے گھر پہنچ گئی اور جاتے ہی اس نے اپنی ماں کو ساری صورت حال بتا دی۔ ماں نے اسے اپنی چھاتی سے لگا کر رونا شروع کر دیا وہ رو رہی تھی اور ساتھ ساتھ چوہدری کو بد دعائیں بھی دیے جا رہی تھی چند لمحے بعد وہ ریحانہ کو اپنی چھاتی سے جدا کر کے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی :
’’دیکھو بیٹی یہ سب کچھ کسی اور کے سامنے ہرگز ہرگز نہیں کہنا ورنہ ہم لوگ گاؤں میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ‘‘ وہ سمجھتی تھی کہ ماں کن خدشات کی بناء پر روک رہی ہے۔
ریحانہ کی ماں نے ایک ہفتہ میں ہی اس کی چٹ منگنی اور پٹ شادی کروا دی اور وہ اپنے پیا گھر سُدھا گئی۔
ریحانہ کی بدقسمتی کہ اس کو شوہر بھی نکھٹو ملا، کام کاج تو وہ کوئی کرتا نہ تھا اور نہ ہی اسے گھر بار کی کوئی فکر تھی۔ جس کی وجہ سے لڑائی جھگڑا روز کا معمول بن گیا تھا۔ اس کا شوہر جو پہلے بھی نشہ کرتا تھا اب اور زیادہ نشہ کرنا شروع ہو گیا تھا۔
شوہر کی توجہ سے محروم، سسرالیوں سے تنگ ریحانہ کی اسی اثناء میں گاؤں کے کسی اور مرد کے ساتھ آشنائی ہو گئی۔ وہ اس کی محبت میں بُری طرح پھنس گئی۔ وہ شخص ریحانہ کو سہانے خواب دیکھا کر بھگا کر شہر لانے میں کامیاب ہو گیا۔
اس شخص نے ریحانہ کی معصومیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو قحبہ خانے میں فروخت کر دیا۔ وہ ذلت کی زندگی گزارنا نہیں چاہتی تھی اسی لیے تو وہ وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
وہ قحبہ خانے سے اپنی جان خطرے میں ڈال کر کسی نہ کسی طریقے سے بھاگنے میں کامیاب تو ہو گئی لیکن اتنے بڑے شہر میں کہاں جاتی یہاں تو اس کو جاننے والا بھی تو کوئی نہ تھا۔ واپس وہ جا نہیں سکتی تھی کیونکہ واپسی کے تمام دروازے وہ خود بند کر کے آئی تھی۔ وہ صبح سے شام تک ریلوے اسٹیشن پر ہی رہی اس دوران سوچتی رہی کہ اس کو واپس گاؤں جانا چاہیے کہ نہیں، کیا وہ واپس جا کر حالات کا مقابلہ کر سکے گی جو خود اس کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ وہ فیصلہ نہ کر پا رہی تھی جس کی وجہ سے اس کی پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ اس کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے ایک معمر عورت اس کے پاس آئی اور کہنے لگی:
’’بیٹی تم جوان ہو، خوبصورت ہو، میں کافی دیر سے دیکھ رہی ہوں کہ تم بہت پریشان ہو، اگر روپے پیسے کا کوئی مسئلہ ہے تو میں ابھی کے ابھی پورا کر دیتی ہوں … بیٹا یہ دنیا بہت خراب ہے۔ بہت سے غلط لوگ تم کو یوں اکیلا دیکھ کر تمہاری مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں لہٰذا میری مانوں، مجھ سے رقم لو اور اپنے شہر کی ٹکٹ خرید کر یہاں سے جلدی نکلو، ہاں اگر کوئی اور مسئلہ ہے تو بھی مجھے بتاؤ میں اگر تمہارا مسئلہ حل نہ کر سکی تو تجھے ٹھیک راستہ ضرور بتا دوں گی۔ ‘‘
ریحانہ نے اِس کو اپنا ہمدرد جان کر اپنی بپتا سنائی۔ وہ معمر عورت اس کی بچتا سن کر افسردہ ہو گئی۔ اس نے ریحانہ کو یقین دلایا کہ وہ اس کو شہر میں رہائش اور نوکری دلوا دے گی۔ وہ اس کے جھانسے میں آ کر اس کے ساتھ چل پڑی۔
ریحانہ کو اس عورت کے گھر پہنچ کر احساس ہو گیا تھا کہ وہ ایک بار پھر غلط جگہ پہنچ گئی ہے یہاں سے فرار ہونے کے منصوبے بنانا بھی بے معنی تھا کیونکہ نائکہ کے تنخواہ دار غنڈے ہر وقت اس پر کڑی نگاہ رکھتے تھے۔ ان کی موجودگی میں یہاں سے بھاگنا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔ ویسے بھی وہ بھاگ کر جاتی کہاں ؟ گاؤں کے راستے تو وہ خود بند کر کے آئی تھی اور باہر کی دنیا پھر اس کو ایسی ہی جگہ پہنچا دیتی اس لیے اس نے یہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ریحانہ ماضی کے جھروکوں سے باہر نکلی تو اُس نے نسرین کے متعلق اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے تمام خدشات اور وسوسوں کو جھٹک دیا۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا وہ مجھ سے نفرت نہیں کرتی۔ اگر اس نے نفرت کرنی ہوتی تو میرے ساتھ رہتی ہی کیوں۔ میں نے تو اسے اپنے متعلق سچ سچ بتا دیا تھا، اور وہ میری اس صاف گوئی پر خوش تھی، اس نے مجھ سے کہا تھا :
’’باجی آپ مجھ بے سہارا اور بے آسرا لڑکی کو گھر لے ہی آئی ہے تو میری عزت و ناموس کی بھی حفاظت کرنا۔ ‘‘
میں نے اس کی حفاظت کی وہ خوب جانتی تھی۔ وہ مجھ سے اکثر کہا کرتی تھی :
’’باجی آپ نے جو میرے ساتھ نیک سلوک کیا ہے وہ شاید میرے رشتے دار بھی نہ کر سکتے تھے۔ ‘‘
اِن سب باتوں کے باوجود میں نسرین کے رویے میں تبدیلی کیوں کر محسوس کر رہی ہوں اس کی روکھی طبیعت مجھے کیا بتانا چاہتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ میرا وہم تو نہیں یا پھر مجھ سے کوئی ایسی خطا ہو گئی ہے جو اسے بُری لگی ہو۔ نسرین میرے گھر میں تقریباً اڑھائی سال سے رہ رہی ہے اس دوران میں نے کبھی بھی اس کی ایسی حالت نہیں دیکھی جو اب دیکھ رہی ہوں۔ یکایک اس کی آنکھوں میں ان بیتے دنوں کی یاد در آئی جب نسرین اسے پہلی بار ملی تھی۔
ریحانہ کو وہ دن آج بھی یاد تھا، مارچ کی خوشگوار صبح تھی، سردی کا زور ختم ہو چکا تھا۔ موسم بہار نے ہر سو اپنی بہاریں بکھیری ہوئی تھیں، فضا میں پھولوں کی مہک رچی ہوئی تھی، اور پھولوں پر پڑی شبنم کتنی خوبصورت لگ رہی تھیں۔ چاروں طرف پھیلے ہرے بھرے درختوں کے پتوں کی ہلکی ہلکی سرسراہٹ کانوں میں موسیقی کی طرح بج رہی تھی گویا موسم کی اس خوشگواریت نے ماحول کو کتنا خوبصورت بنا دیا تھا وہ اس حسین موسم کے نظاروں میں کھو گئی تھی اور یوں ہی کافی دیر وہاں ٹہلتی رہی یکایک اس کی نظر جھاڑیوں کے جھنڈ پر پڑی وہاں تین لڑکے ایک خوبرو لڑکی کی عزت خراب کرنے کے در پے تھے اور وہ لڑکی اپنا دامن بچا کر وہاں سے بھاگنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ وہ کوشش کے باوجود ان لڑکوں کے سامنے بے بس تھی۔ سنسان جگہ ہونے کی وجہ سے اس کی مدد کی اپیل ہواؤں سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ریحانہ بروقت وہاں پہنچ گئی اور وہ لڑکوں کو بھگانے میں کامیاب ہو گئی ورنہ اس کے ساتھ کیا ہو جاتا۔
ریحانہ کو اس لڑکی کے چہرے پر تشویش کے آثار نمایاں نظر آ رہے تھے جس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ یہ ضرور گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی ہے۔ ریحانہ خود تو دلدل میں پھنس چکی تھی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ لڑکی بھی مجھ جیسی بن جائے اسی لیے تو وہ اس کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اس لڑکی کے ماضی کو نہیں کھرچا تھا اور نہ اس کا ذہن اس بات کو تسلیم کرتا تھا جو یہ کہہ رہی تھی کہ میرے والدین کے مرنے کے بعد اس دنیا میں میرا کوئی نہیں، اور میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہوں۔ یہ سب نہ مانتے ہوئے بھی اس نے لڑکی کو اپنے گھر رہنے کی اجازت دے دی یہ سب کچھ اس نے اس کی بہتری کے لیے کیا تھا۔
نسرین نے ریحانہ کے گھر قیام پذیر ہو کر اس کا وہ خلا پر کر دیا تھا جو اپنوں کے بچھڑ جانے سے پیدا ہوا تھا۔ دونوں کو ہی ایک دوسرے کے سہارے کی اشد ضرورت تھی، اسی ضرورت نے ان دونوں کے دلوں میں بہت جلد ایک دوسری کے لیے محبت پیدا کر دی تھی اور وہ ایک دوسری کو اپنا راز دار سمجھنے لگ گئیں، یکایک ان دونوں کے درمیان کون سی شک کی دیوار کھڑی ہو گئی تھی؟
ریحانہ نسرین کے بدلے رویے کی وجہ سے شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھی، وہ اس الجھن سے نکلنا چاہتی تھی اسی لیے تو اس نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ آج ہر حالت میں نسرین سے پوچھو گی کہ تمہارا مسئلہ کیا ہے وہ کون سا روگ ہے جس نے تم کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے وہ اپنے دکھ مجھے نہیں بتائے گی تو پھر کس کو بتائے گی؟ اتنی بڑی دنیا میں ہم دونوں کا دکھ بانٹنے والا کوئی بھی تو نہیں ہم دونوں ہی ایک دوسری کا مضبوط سہارا ہے۔
وہ خود سے فیصلہ کر کے اٹھی اور سیدھی اس کے کمرے میں جا گھسی اس نے دیکھا کہ نسرین اپنی بیٹی کو دودھ پلا رہی تھی۔
’’نس… رین۔ ‘‘
نسرین غیر متوقع آواز سُن کر گھبرا گئی، اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجھ چکی تھی وہ ریحانہ کو اپنے کمرے میں موجود پا کر دیوانہ وار اس کی طرف لپکی اور گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہو گئی۔
’’نسرین، میری پیاری بہن نسرین، مجھے بتاؤ تمہیں کیا غم ہے۔ ‘‘
ریحانہ نے اس کا سر اپنی چھاتی کے ساتھ لگا لیا اور اس کے چہرے پر محبت بھرا ہاتھ پھیرتی اور ہلکے ہلکے بوسے لیتی، اس محبت بھرے برتاؤ کی بدولت وہ اپنے آنسوؤں پر ضبط کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن اس کے ہونٹ ابھی تک کانپ رہے تھے۔
نسرین اگر تم مجھے واقع بہن سمجھتی ہو اور مجھ سے اچھائی کی امید بھی رکھتی ہو تو وہ بات اپنی زبان پر لے آؤ جس کا بوجھ تم اٹھا نہیں سکتی اور اس نے تم کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ ‘‘
میری گڑیا جو سچ ہے وہ اپنی زبان پر لے آؤ یقین جانو میں تم کو مایوس نہیں کروں گی، کیا تم مجھ سے بدگمان تو نہیں ہو گئی کیونکہ میں ایک طوائف ہوں۔
نہ معلوم اس بات میں کیا کشش تھی کہ وہ فوراً خود پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی وہ ریحانہ کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولی :
’’نہیں نہیں باجی ایسی کوئی بات نہیں اور آپ بھی کبھی ایسا سوچنا مت، مجھے تکلیف ہو گی۔ ‘‘ اس نے نسرین کی زبان سے کتنے دنوں کے بعد باجی کا لفظ سنا تھا۔
نسرین کی زبان سے باجی کا لفظ سننے کو اس کے کان ترس گئے تھے اب جب اس نے باجی کہا تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی :
’’تو پھر میری رانی کیا بات ہے تم مجھ کو اور خود کو اذیت میں کیوں مبتلا کر رہی ہو جو سچ ہے بتاتی کیوں نہیں، بتاؤ ورنہ میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔
’’باجی میں —‘‘ وہ جو کہنا چاہتی تھی کہہ نہ پا رہی تھی۔
ہاں — ہاں — بولو میری جان، جو کہنا چاہتی ہو کہہ دو اس سے تمہارے من کا بوجھ ہلکا ہو گا۔
نسرین بھی تو اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی وہ یہ بوجھ اٹھا نہیں سکتی تھی وہ کہنے لگی:
’’باجی میں شرمندہ ہوں خود سے، آپ سے، اور اپنی ماں سے، مجھے شرمندگی کا احساس دلانے والی یہ معصوم بچی ہے۔ ‘‘ وہ شرمندگی کے بوجھ تلے دبی بتا رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
اس کی بگڑی حالت دیکھ کر ریحانہ کا کلیجہ پھٹا جا رہا تھا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ لڑکی کہنا کیا چاہتی ہے اس نے جلدی سے اپنے دوپٹے کے پلو سے اس کے بہتے آنسو پونجھے اور اس کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئی بولی :
’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ تم کیا کہہ رہی ہو اور تم کیوں شرمندہ ہو، کس بات کی شرمندگی ہے تمہیں، مجھے تفصیل سے بتاؤ ورنہ میں مر جاؤں گی۔ ‘‘
’’باجی میں آپ سے اس لیے شرمندہ ہوں کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا کہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں، والدین کے مرنے کے بعد دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہوں اور میں اپنی ماں سے اس لیے شرمندہ ہوں کہ میں نے اس کی عزت خاک میں ملا دی ان سب باتوں کا احساس مجھے تب ہوا جب مجھے اس معصوم بچی نے پہلی بار ’’ماں ‘‘ کہا۔ اس کے منہ سے نکلا ہوا ماں کا لفظ مجھ سے بار بار سوال کرتا تم نے اپنی ماں کی عزت خاک میں ملائی اور اس کی موت کا سبب بنی یہ بچی تو وہ بھی نہیں کر سکتی جو تو نے کیا کیونکہ اس کو عزت ملی کب اسے تو باپ کا نام بھی نہ ملا، ماں اس کو ایسی ملی جو معاشرے میں اپنا مقام کھو بیٹھی ہے۔ ‘‘
’’رک جاؤ نسرین، رک جاؤ، مجھ سے اور سنا نہ جائے گا۔ ‘‘
ریحانہ کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پورے جسم پر چیونٹیاں رینگ رہی ہو اور اس کا خون خشک ہو رہا ہو، اس نے بہت مشکل سے خود پر قابو پاتے ہوئے اپنی بات کو جاری رکھا۔
’’تم کیا سمجھتی ہو کہ میں اندھی ہوں، کچھ دیکھ نہیں سکتی یا پھر عقل سے پیدل ہوں کچھ سوچ نہیں سکتی۔ میں سب جانتی ہوں لیکن میں خاموش رہی، انجان بنی رہی صرف اور صرف تمہاری بہتری اور بھلائی کے لیے، میں نہیں چاہتی تھی کہ تم بھی وہاں بیٹھ جاتی، جہاں میں بیٹھی ہوں۔ نسرین وہ جگہ بہت بری ہے اور ہم جیسی گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کا ٹھکانہ بھی وہیں ہے۔ ہم جیسی لڑکیاں اپنوں سے بغاوت اور غیروں پر بھروسہ کر کے جب گھر سے نکلتی ہے تو وہ حسین خواب جو دیکھے ہوتے ہیں ان کی تعبیر بڑی بھیانک نکلتی ہے جس پر تکیہ کر کے ہم اتنا بڑا فیصلہ لیتی ہیں وہ ہم کو کسی گہری کھائی میں گرا دیتا ہے۔ میں تم کو کسی گہری کھائی میں گرتا دیکھ نہیں سکتی تھی اور اسی لیے انجان بنی رہی۔ رہا اس بچی کی ولدیت کا مسئلہ تو تم مجھے ایک بار صرف ایک بار اس شخص کا نام و پتہ بتا دوں جس نے تمہاری گود میں یہ بچہ ڈالا میں اس کو تمہارے قدموں میں گرا دوں گی۔
ریحانہ نے بہت کوشش کی کہ خود پر قابو رکھے لیکن پھر بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ گئے جن کو وہ کافی دیر سے ضبط کیے بیٹھی تھی۔
میں وہی کچھ تو بتانا چاہتی ہوں جو سچ ہے۔ وہ سچ جس پر ہمیشہ پردہ پوشی کرتی رہی وہ سچ مجھے اندر سے ملامت کرتا لیکن میں پھر بھی اسے دبائی رکھتی جب اس بچی نے پہلی بار ماں کہا تو میرے ضمیر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
باجی میں اندر سے کرچی کرچی ہو گئی تھی اور ان ہی کرچیوں کو سمیٹنے کی جستجو میں تھی۔ میرا مقصد آپ کو دکھ دینا تو نہ تھا اور نہ میں ایسا کر سکتی تھی۔ میں تو اپنے گناہوں پر نادم تھی جو مجھ سے سرزد ہوئے، پہلے اپنی ماں کا دل دکھایا پھر ماں جیسی بہن کو اندھیرے میں رکھا۔ میں مجرم ہوں اپنے ضمیر کی، اس معصوم بچی کی—
وہ رک گئی جیسے کچھ کہنے کی اجازت مانگ رہی ہو۔
نسرین پھر اس بات کو اگل دو جو تم ہضم نہیں کر سکتی میں۔ سنو گی تمہارا ماضی۔
’’باجی میں —‘‘ ہاں ہاں بولو اور اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کر دو۔
نسرین نے ہاں کے انداز میں اپنا سر ہلایا اور کہنا شروع ہو گئی۔
’’ماں کی اکیلی اولاد ہونے کی وجہ سے بہت لاڈلی تھی۔ ایک سال کی تھی کہ باپ داغ مفارقت دے گیا۔ ماں نے مجھے بہت لاڈ پیار دیا، اس نے مجھے ماں اور باپ بن کر پالا وہ ماں ہی کی محبت تھی کہ اس نے مجھے باپ کے خلا کو کبھی محسوس نہ ہونے دیا۔
ماں نے مجھے ایسے سکول میں داخل کروایا جو ہماری حیثیت سے بڑھ کر تھا۔ وہ میرے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے سارا سارا دن لوگوں کے گھروں میں کام کرتی اور رات دیر تک بیٹھی سلائی پر آئے کپڑے سیا کرتی تھی وہ یہ سب محنت مجھے اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے ہی تو کرتی تھی اس کا صرف ایک ہی ارمان تھا کہ میری بیٹی ڈاکٹر بنے لیکن میں نے اپنی ماں کے ارمانوں کو پورا کرنے کی کوشش ہی نہ کی جس کی وجہ ’’محمود ‘‘تھی۔
محمود میرا کلاس فیلو تھا۔ اس سے میری پہلی ملاقات دسویں جماعت میں ہوئی جب یہ کراچی سے مائگریشن کروا کر ہمارے سکول داخل ہوا تھا۔
محمود کا تعلق امیر ترین گھرانے سے تھا اور میں رہی گھریلو ملازمہ کی بیٹی، اس معاشرتی اونچ نیچ کی پرواہ کیے بغیر ہم دونوں میں محبت کا الاؤ جل اٹھا جس کی بازگشت پورے سکول میں سنی جا سکتی تھی۔ ٹیچروں نے مجھے سمجھانے کی کوشش بھی کی لیکن جب میں نہ مانی تو مجھے سکول سے خارج کرنے کی دھمکی بھی دی، اس کے باوجود ہم دونوں کی محبت میں ذرہ برابر کمی نہ ہوئی بلکہ وہ اور چمک اٹھی۔
سکول انتظامیہ محمود کے والد کے اثر و رسوخ کے باعث اسے تو سکول سے نکال نہ سکے البتہ انہوں نے مجھے سکول سے فارغ ضرور کر دیا۔ جس کی وجہ سے ساری کہانی میری والدہ کو معلوم ہو گئی اور اس نے میرا گھر سے نکلنا ہی بند کر دیا۔
محمود کی ایک گھریلو ملازمہ جس کی بہن کا گھر ہمارے پڑوس میں واقع تھا وہ اس کے توسط سے خطوط مجھے بھیجتا رہا لیکن یہ سلسلہ کچھ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ میرے کچھ خطوط ماں نے پکڑ لیے۔ ماں نے اس عورت اور اس کی بہن کو محلے بھر میں ذلیل کیا جس کی وجہ سے میں محلے بھر کی زبان پر آ گئی۔ اس کے باوجود مجھ پر رتی برابر بھی اثر نہ ہوا، میں محمود سے ملنے سے باز نہ آئی۔
ماں نے میری منگنی اَن پڑھ اور ہم جیسے غریب سے کر دی۔ منگنی کے پندرہ دن بعد میری شادی تھی۔
ماں نے میرے اِن سپنوں کو ریزہ ریزہ کر دیا جو میں نے دل میں بسا رکھے تھے۔ میں غریبی میں زندہ نہیں رہنا چاہتی تھی میں نے تو گاڑی اور بنگلے کے خواب دیکھے تھے لیکن ماں مجھے اندھے کنویں میں دھکیلنا چاہتی تھی۔ میں اپنے خوابوں کی تعمیر چاہتی تھی اسی لیے تو میں نے اپنی ماں کی اجازت کے بغیر محمود کے ساتھ کوٹ میرج کر لی۔
باجی وہ بزدل تھا اور میں دولت کی لالچی۔ شادی کے صرف ایک ہفتہ بعد ہی اس نے مجھے صرف اس وجہ سے طلاق دے دی کہ وہ باپ کی جائیداد سے عاق ہونا نہیں چاہتا تھا۔
ماں تو میری اسی وقت مر گئی تھی جب میں نے گھر کی دہلیز سے قدم باہر نکالا وہ محلے والوں کے طعنے اور اپنی بدنامی برداشت کر ہی نہیں سکتی تھی۔
میں اپنی حماقت کی بھینٹ چڑھ گئی نہ مجھے ماں ملی نہ گھر ملا۔
میں شرمندہ ہوں ماں کی روح، اس بچی اور خود سے، کیا جواب دوں گی ماں کی روح کو اور اس بچی کو جب یہ مجھ سے سوال کرے گی۔
ریحانہ اُٹھی اور نسرین کی بچی کو گلے لگا کر چومنے لگی۔
٭٭٭
ایسا بھی ہوتا ہے
یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب میں بی ایس سی میں فرسٹ آیا تو والد صاحب نے میرے فرسٹ آنے کی خوشی میں مجھے گاڑی تحفتاً دی تھی۔ میں گاڑی ملنے کی خوشی سے سرشار تھا لہٰذا میں گاڑی لے کر شہر کی سڑکیں ماپنے کے لیے نکل پڑا۔ شہر بھر کی مختلف سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے کرتے میں نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا کہ معاً مجھے اپنی گاڑی روکنا پڑی کیونکہ سڑک لوگوں کے ہجوم کی بدولت قدرے بند ہو چکی تھی۔ میں نے گاڑی میں ہی بیٹھے بیٹھے مجمع بھر میں نگاہ دوڑائی تو میری نظر ایک مفلوک الحال شخص پر پڑی جس کو لوگوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا اور ایک قدرے صحت مند بھاری بھرکم شخص جس کے چہرے پر غصے اور بے رحمی کے آثار نمایاں تھے وہ بڑی بے دردی کے ساتھ مفلوک الحال شخص کو ٹانگوں اور گھونسوں سے مار پیٹ رہا تھا۔ مجمعے میں کھڑے افراد بھاری بھرکم شخص کو روک نہیں رہے تھے بلکہ اسے مزید اشتعال دلا رہے تھے۔ لوگوں کی معاونت شاملِ حال ہونے کی بنا پر وہ شخص مزید اشتعال میں آ چکا تھا اور اس کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا مجھ سے یہ سب کچھ دیکھا نہیں جا رہا تھا اور میں خدائی فوج دار بن کر اس مجمعے کو چیرتا ہوا وہاں پہنچ گیا اور مظلوم شخص کو وحشی انسان سے بچایا۔ شدید ذدوکوب کی وجہ سے مفلوک الحال شخص کا نہ صرف چہرہ لہولہان ہو چکا تھا بلکہ آنکھیں بھی سوج چکی تھیں۔ وہ درد سے کراہ رہا تھا اور میں شدید نفرت سے بھاری بھرکم شخص کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا:
’’تمہیں شرم آنی چاہیے کہ تم اپنے سے کمزور شخص کو بے دردی کے ساتھ پیٹ رہے ہو۔ ‘‘
’’باؤ جی یہ—‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن میں نے اسے روک دیا اور مجمعے کو مفلوک الحال شخص کے زخم دکھا کر کہنے لگا:
’’تم لوگوں کے اندر خوفِ خدا نام کی کوئی چیز نہیں کہ یوں خاموشی کے ساتھ مظلوم پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہو۔ ‘‘
میں نے اس وقت نہ صرف اعلیٰ قسم کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا بلکہ میرے پاس قیمتی گاڑی بھی موجود تھی شاید اِس کی وجہ سے لوگ مجھ سے مغلوب ہو چکے تھے اور میری بات کا اثر لے رہے تھے۔ دفعتاً وہی بھاری بھرکم شخص بول پڑا:
’’بابو جی یہ جیب کترا ہے ؟‘‘ اس کی یہ بات سن کر میں ذرا سا کھسیانا ہو گیا لیکن فوراً اپنی عفت مٹانے کی خاطر میں زخمی کی طرف متوجہ ہوا:
’’تم نے اس کی جیب کاٹی تھی۔ ‘‘
’’نہیں بابو جی میں نے اس کی جیب نہیں کاٹی بس یہاں پر سستانے کے لیے بیٹھا تھا کہ اس نے مجھے مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ ‘‘ اس کی بات سن کر میں پھر بھاری بھرکم شخص کی طرف متوجہ ہوا اور اسے کہنے لگا:
’’کیا تم نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا جب یہ تمہاری جیب کاٹ رہا تھا۔ ‘‘ میری بات سن کر بھاری بھرکم شخص خوف زدہ ہو گیا اور وہ کوئی جواب نہ دے پایا لہٰذا میں پھر اس سے کہنے لگا:
’’تم میری بات کا جواب کیوں نہیں دے رہے ہو، کیا تم پولیس اسٹیشن جا کر جواب دو گے۔ ‘‘ یہ بات سن کر وہ اور زیادہ خوف زدہ ہو گیا اور کہنے لگا:
’’بابو جی میں جب بس اسٹاپ میں اس کے پاس بنچ پر بیٹھا تو مجھے ایسے لگا جیسے اس نے میری جیب میں ہاتھ ڈالا ہے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور یہ اپنا ہاتھ چھڑوا کر بھاگنے لگا تو میں نے اس پر تھپڑوں کی بھرمار کر دی اور ساتھ ہی یہاں پر ہجوم میں بھی اضافہ ہو گیا۔ تمام لوگ مجھے شاباش دینے لگے کہ جیب کترے کو خوب مارو تاکہ یہ پھر کبھی کسی کی جیب نہ کاٹ سکے لہٰذا میں نے بھی اسے دل کھول کر مارا۔ ‘‘
اس وقت مجمعے میں سب سے زیادہ معزز شخص میں تھا اور لوگ میرا فیصلہ سننے کے لیے بے تاب تھے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کو میرا سنایا ہوا فیصلہ من و عن قبول ہو گا۔ مجمعے کی ایسی حالت دیکھ کر میرے دل میں لیڈری چمکانے کا جذبہ بھڑک اٹھا تھا اسی جذبے سے مغلوب ہو کر میں اس بھاری بھرکم شخص پر برس پڑا اور اسے کھڑی کھڑی سنانے لگ گیا:
’’تم انسان نہیں درندے ہو، تم نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم اور بھولے بھالے شخص پر نہ صرف گھناؤنا الزام لگایا ہے بلکہ تم نے وحشی درندے کی خصلت اپنا کر درندگی سے بھی بڑھ کر بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی آنکھوں، ناک اور ہونٹوں پر اس قدر ضربات لگائی ہیں کہ یہ نڈھال ہو چکا ہے۔ اگر میں اس وقت نہ آتا تو یقیناً اس کی موت تمہاری بربریت کی بنا پر واقع ہو چکی ہوتی۔ ‘‘ اتنے سخت الفاظ سننے کی بنا پر اسے کوئی جواب سوج نہیں رہا تھا کہ وہ میری بات کا کیا جواب دے اس لیے وہ گھبرایا ہوا کھڑا تھا لہٰذا اس کی گھبراہٹ دیکھ کر میرے دل میں مظلوم کے لیے ہمدردی کا جذبہ اور زیادہ موجزن ہو گیا اور میں اس بھاری بھرکم شخص کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اسے اس زخمی کے سامنے لا کر کہنے لگا:
’’دیکھ اس کا چہرہ تمہاری درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، میں تمہیں جیل پہنچا کر ہی دم لوں گا۔ ‘‘ میری اب تک کی کارکردگی سے پورا مجمع جو سستی تفریح حاصل کرنے کی خاطر جمع ہو چکا تھا وہ پوری طرح محظوظ ہو رہا تھا اور میری انسانی ہمدردی کی تعریفیں کرنے لگا تھا حالانکہ میں معاملے کی گہرائی سے جائزہ لیے بغیر بنا سوچے سمجھے بھاری بھرکم شخص کو ہی اس معاملے کا ذمہ دار قرار دے چکا تھا اور مار کھانے والے شخص کے متعلق میرے دل میں ہمدردی کے جذبات ابھر چکے تھے اور جب میں نے مجمعے کی طرفداری اپنی طرف دیکھی تو میرے جذبات کو اور زیادہ تقویت ملتی چلی گئی لہٰذا میں مجمعے کی اور زیادہ داد تسکین سمیٹنے کی خاطر اس زخمی مظلوم سے پوچھنے لگا کہ تو اس درندہ صفت انسان کے ہاتھ کیسے لگ گیا تو اس شخص نے ہاتھ جوڑ کر اپنے دائیں بائیں اکٹھے ہو جانے والے مجمعے کو دیکھا۔ اس وقت اس کے ہاتھ اور ہونٹ کانپ رہے تھے میں نے اسے حوصلہ دیا تو وہ کہنے لگا:
’’بابو جی میں سچ کہتا ہوں میں جیب کترا نہیں ہوں۔ ‘‘
’’وہ تو مجھے بھی نظر آ رہا ہے۔ ‘‘ میں نے حالات کی نزاکت جانچے بغیر اس کی بے گناہی کا سرٹیفکیٹ جاری کر چکا تھا اس لیے اپنے فیصلے کو اور زیادہ تقویت پہچانے کی خاطر کہنے لگا:
’’مجھے اصل بات بتاؤ جس کی بنا پر تم اس حالت تک پہنچے ہو۔ ‘‘
’’بابو جی میں بے روزگار ہوں مجھے چار دن ہو گئے ہیں شہر میں روزگار ڈھونڈتے ہوئے لیکن روزگار نہیں ملا۔ میں روز کی طرح آج بھی سارا دن روزگار تلاش کرتا رہا لیکن ناکام رہا لہٰذا میں اس بس اسٹاپ کے سائبان کے بنچ پر رات بسر کرنے کے لیے لیٹا تو یہ شخص میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور بہانے بہانے سے میری جیبیں ٹٹولنے لگا۔ میرے احتجاج کرنے پر اس نے مجھے مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ ‘‘ یہ بات سن کر بھاری بھرکم شخص احتجاجاً کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن میں نے اسے پولیس کی دھمکی دے کر نہ صرف خاموش کروا دیا بلکہ اسے سختی سے حکم دیا کہ اگر تم اپنی خیریت چاہتے ہو تو فوراً یہاں سے چلے جاؤ ورنہ میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں گا۔ میں پہلے ہی بغیر کچھ جانے سمجھے کہ جھوٹا کون ہے اور سچا کون ہے۔ زخمی کو ہی سچا سمجھ چکا تھا لہٰذا اب اس مظلوم کی مدد کرنے کی خاطر میں نے اپنی جیب سے ہزار روپے کا نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔ میرے اس ایثار اور انسانی ہمدردی کی بنا پر لوگ بہت حیران ہوئے اور میری طرف دیکھنے لگے۔ پھر ایک تماشائی نے مظلوم کی طرف بڑھ کر کہا:
’’بھائی صاحب یہ ایک سو روپے میری طرف سے رکھ لو کھانا کھا لینا۔ ‘‘ پھر یکے بعد دیگرے چند اور لوگوں نے بھی اسی طرح اس مظلوم کی نہ صرف مالی مدد کی بلکہ اس بھاری بھرکم شخص کو بھی برا بھلا کہا جس نے ناحق ایک شخص پر ظلم ڈھایا تھا یوں گویا ہجوم کی سوچ یکسر تبدیل ہو چکی تھی جو پہلے جیب کترے کو مار پڑتی دیکھ رہے تھے اب اسے مظلوم سمجھ کر اپنی استطاعت کے مطابق مالی مدد دے رہے تھے یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا تھا۔ آج مجھے اپنے اس عظیم کارنامے پر فخر محسوس ہو رہا تھا کہ میں نے زندگی میں کوئی نمایاں کام سرانجام دیا ہے یہ سب کچھ میری قیمتی گاڑی اور ظاہری امیرانہ مناسبت سے ہوا تھا یا پھر میری ذہانت کی وجہ سے بہرکیف جو کچھ بھی تھا لیکن تھا تو بڑا بروقت فیصلہ جس نے ظلم کو روک لیا تھا لہٰذا جب میں فخر سے یہ عظیم کام کر کے اپنی گاڑی کی طرف جانے لگا تو زخمی شخص نے اتنی بری طرح کراہنا شروع کر دیا اور پورے مجمعے کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا میں پھر اس کی طرف گیا اور اس سے اچانک اٹھنے والی درد کے اسباب پوچھنے لگا لیکن اسے درد ہی اتنی شدید ہو رہی تھی کہ وہ مجھے صرف اتنا ہی بتا سکا کہ میری ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے۔ اس کی چیخیں اتنی دردناک تھیں کہ ہر شخص کی ہمدردی اس کی طرف اور بڑھ گئی تھی، اس لیے لوگ مجھے کہنے لگے :
’’بابو جی آپ کے پاس گاڑی ہے، آپ ہی اسے ہسپتال لے جائیں، لہٰذا میں نے فوراً ثواب کا کام سمجھتے ہوئے اسے اپنی نئی قیمتی گاڑی میں بٹھایا اور تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے ہسپتال کی طرف چل پڑا تاکہ زخمی کو بروقت ہسپتال پہنچا سکوں کیونکہ وہ بیچارہ پیچھے لیٹا ہوا درد سے بری طرح کراہ رہا تھا۔ مریض کو جلد از جلد ہسپتال پہچانے کی خاطر میں نے جس سڑک کا انتخاب کیا تھا وہ سڑک چھوٹی ہونے کی بنا پر کم استعمال میں رہتی تھی اور یہاں ٹریفک دوسری سڑکوں کی نسبت کم تھی اس لیے میں نے اس سڑک کا انتخاب کیا تھا۔ گاڑی سنسان سڑک سے گزر رہی تھی کہ اچانک میری گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹا زخمی شخص اٹھا اور اس نے پستول میری کن پٹی پر لگا کر مجھے حکم دینے لگا۔
’’بابو تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے فوراً نکال دو ورنہ— اس نے پستول کا دباؤ کن پٹی پر بڑھا کر یہ حکم دیا تھا۔ لہٰذا مجھے اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ میری جیب میں جو کچھ بھی تھا میں نے فوراً اس کے حوالے کر دیا تاکہ وہ میری جان بخشی کر دے۔ لیکن وہ مجھے تمام رقم سے محروم کر کے دوبارہ حکم دینے لگا۔ بابو فوراً گاڑی سے باہر نکل جاؤ۔ میں اس کی منت سماجت کرنے لگا کہ یہ گاڑی میری نہیں ہے بلکہ میں کسی دوست سے مانگ کر لایا ہوں کیونکہ مجھے بہت ضروری کام ہے۔ لیکن اس کی غصیلی شکل اور سخت دھمکیوں کے سبب مجھے گاڑی سے نیچے اترنا پڑا اور وہ فوراً گاڑی لے کر فرار ہو گیا اور میں اپنی جاتی ہوئی گاڑی کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا رہا۔
٭٭٭
مونا
مجھے شعبہ تدریس سے وابستہ بیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اس دوران میں نے بہت سے بچوں کو علم کے نور سے منور کیا ہے۔ ان بیس سالوں میں میرے بہت سے شاگرد ہوئے ہیں اب اگر ان میں سے کوئی میرے سامنے بھی آئے تو میں اس کے نام اور شکل سے بھی واقف نہیں ہو گا لیکن چند ایک طالب علم ایسے بھی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی یاد نہیں مٹتی وہ ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ شاید وہ یاد رہنے کے قابل ہوتے ہیں، ایسے ہی شاگردوں میں سے میری ایک ہونہار شاگرد مونا بھی تھی جس کی موت کا سن کر مجھے شدید صدمہ ہوا ہے اور میرے ہاتھ آج زندگی میں پہلی بار اپنی ذاتی ڈائری لکھنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
یہ آج سے بیس برس پہلے کا واقعہ ہے جب میں بی اے کرنے کے بعد نہ صرف اپنے گھر پر بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا بلکہ کچھ طالب علموں کو ان کے گھر جا کر بھی پڑھایا کرتا تھا۔ ایک روز بادل کھل کر برسے تھے اور بارش رکنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ اس وقت میں اپنے شاگرد کو پڑھانے اس کے گھر گیا ہوا تھا چنانچہ میں بارش رکنے کا خیال کر کے اپنے اسی شاگرد کے ہاں رک گیا اور کافی دیر بارش رکنے کا انتظار کرتا رہا لیکن بارش تھمنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ مجھے بارش رکنے کا انتظار کرتے کرتے رات کے دس بج چکے تھے چنانچہ میں نے مجبوراً بارش میں ہی اپنے گھر کی راہ لی۔ بارش میں تو میں گھر کے لیے نکل آیا تھا لیکن بارش کا پانی سڑکوں پر جمع ہونے کے سبب مجھے کوئی سواری نہیں مل سکی تھی چنانچہ میں پیدل ہی گھر کی راہ پر چل پڑا تھا۔ پیدل گھر آنے کے لیے مجھے شارٹ کٹ راستوں کا انتخاب کرنا پڑا تھا تاکہ میں کم سے کم راستوں سے ہوتا ہوا اپنے گھر پہنچ سکوں، انہی شارٹ کٹ راستوں میں سے میرا گزر قبرستان سے بھی ہونا تھا جب میں قبرستان کے نزدیک پہنچا تو اس وقت بارش کا زور کافی حد تک ٹوٹ چکا تھا لیکن بارش برس ضرور رہی تھی اور جب میں قبرستان کے اندر داخل ہوا تو میرے کانوں نے لڑکی کی آواز سنی وہ کسی کے ساتھ باتیں کر رہی تھی چنانچہ میں ٹھٹھک گیا کہ اتنی رات گئے اور اس طوفانی بارش میں نہ جانے کون لڑکی کو لے کر قبرستان میں آ گیا ہے۔ دوسرا میرے ذہن میں یہ بھی خیال ابھر رہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اس لڑکی کو کوئی بہلا پھسلا کر بری نیت سے قبرستان میں لے آیا ہو کیونکہ پچھلے ہفتے ہی اس قبرستان میں ایک نوعمر لڑکی کی لاش ملی تھی جس کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ اس واقعہ کی بنا پر میں سمجھ رہا تھا کہ ہو سکتا ہے اس لڑکی کو بھی ویسی ہی نیت سے نہ لایا گیا ہو۔ چنانچہ میں محتاط انداز سے قبرستان کے چاروں طرف دیکھنے لگا کہ کہیں کوئی مشکوک شخص نظر تو نہیں آ رہا اور ساتھ ساتھ میں آنے والی آواز کی سمت بھی دیکھتا کیونکہ قبرستان میں اندھیرا تھا جس کی وجہ سے مجھے آواز کی ٹھیک سمت کی طرف دیکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ چنانچہ میں ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچا تھا کہ مجھے لڑکی کا ہویلا دکھائی دیا وہ بارش کی وجہ سے بھیگ چکی تھی اور جلد جلد قدم اٹھاتی ہوئی قبرستان کی حدود سے باہر نکل رہی تھی۔ میں نے لڑکی کا پیچھا کرنا مناسب نہ سمجھا ہاں البتہ میں قبرستان میں ہی اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں سے وہ مجھے دکھائی دی تھی۔ میں اس شخص کو پکڑنا چاہتا تھا جس کے ساتھ وہ ملاقات کرنے کے لیے اتنی رات گئے یہاں آئی تھی لیکن بسار کوشش کے باوجود میری کوشش رائیگاں گئی اور مجھے کہیں بھی کوئی شخص نظر نہ آیا ہاں البتہ جس قبر کے پاس بیٹھ کر وہ کسی کے ساتھ باتیں کر رہی تھی وہاں پر صرف ایک ہی شخص کے قدموں کے نشان تھے جو اسی لڑکی کے معلوم ہو رہے تھے۔ قبرستان میں مَیں کسی دوسرے شخص کو ڈھونڈنے میں ناکام رہا تھا اور مایوس ہو کر قبرستان سے باہر نکل آیا کہ اچانک میری نظر اسی لڑکی پر پڑ گئی جو شاید قبرستان کے سامنے والی گلی میں پانی کھڑا ہونے کے سبب دوسری گلی سے ہوتی ہوئی بڑی سڑک کی طرف چلی جا رہی تھی چنانچہ اُس لڑکی پر نظر پڑتے ہی میں نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ سیدھا اس کے پیچھے چل پڑا اور میرا خیال بالکل ٹھیک تھا کہ وہ لڑکی پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے دوسری گلی سے ہو کر آئی تھی۔ میں دو دو فٹ کھڑے پانی سے گزر کر تیز تیز ڈگ بھرتا ہوا لڑکی کے پاس پہنچنے ہی والا تھا کہ اچانک کسی نے میرا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ راستہ روکنے والے کا وجود میری آنکھوں سے اوجھل تھا۔ میں اس کی کوشش کو محسوس تو کر سکتا تھا لیکن اس کا وجود دیکھ نہیں پاتا تھا پہلے تو میں اس کو اپنا وہم تصور کرتا رہا اور مسلسل آگے بڑھنے کی کوشش کرتا رہا کہ اچانک نہ نظر آنے والے وجود نے مجھ پر گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش کر دی۔ اس کے گھونسوں اور تھپڑوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ جو سایہ ہے یقیناً کسی مرد کا سایہ ہے۔ میں سائے کی مار سے نڈھال ہو کر سائے کی منت سماجت کرنے لگا۔ میری آہ و زاری سُن کر اَروس پڑوس کے لوگ اکٹھے ہو گئے جس کی وجہ سے شاید اس سائے نے مجھے مارنا پیٹنا چھوڑ دیا تھا چنانچہ لوگوں کے پوچھنے پر میں نے ان کو بتایا کہ پھسلن کی وجہ سے گر گیا تھا۔ میرے اندر اٹھنے کی ہمت نہیں رہی تھی جس کی وجہ سے میرے اندر سے آہ و زاری نکل پڑی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے مجھے پانی پلا کر اس قابل کر دیا کہ میں اپنی منزل تک پہنچ سکوں۔ اتنی مار کھانے کے بعد میں مزید اس لڑکی کا پیچھا نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی اب اس کی خواہش تھی کیونکہ مجھے یہ یقین ہو چکا تھا کہ وہ لڑکی کسی مرد سے ملنے کے لیے نہیں بلکہ کسی روح سے ملنے کے لیے گئی تھی یا پھر وہ لڑکی روح ہی تھی جو کچھ بھی تھا میں اس کو اپنا وہم جان کر ڈرا ڈرا گھر کی طرف چل پڑا۔ گھر کے سارے راستے چلتے ہوئے مجھے یہ خیال ستاتا رہا کہ کہیں پھر وہ روح دوبارہ مجھ پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ اپنے اندر کے ڈر کو دور کرنے کے لیے میں نے درود شریف کا ورد شروع کر دیا تھا جس کی وجہ سے میرے اندر کا خوف قدرے کم ہو گیا تھا لیکن ختم نہیں ہوا تھا اور گھر جا کر میں سیدھا کچھ کھائے پیئے بغیر اپنے بستر پر دراز ہو گیا۔
اس واقعے کو گزرے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ مجھے نامور اکیڈمی میں ایوننگ ٹائم میں پڑھانے کی ملازمت مل گئی۔ اکیڈمی میں جا کر مجھے معلوم ہوا کہ وہی لڑکی جس کو میں نے قبرستان میں دیکھا تھا اور جس کا پیچھا کرتے ہوئے مجھے کسی سائے نے خوب مارا پیٹا تھا وہ میری کلاس میں زیرِ تعلیم ہے۔ پہلے تو میں اس سے بات کرنے سے ہچکچاتا تھا کہ نہ جانے پھر وہی روح ناراض ہو کر اسی کلاس روم میں مجھے مارنے پیٹنے ہی نہ لگ جائے۔ لیکن رفتہ رفتہ میں نے اپنے خوف پر قابو پایا اور اس سے قبرستان والے واقعے کے مطلق جاننے پر آمادہ ہو گیا۔ پہلے پہل تو وہ لڑکی مجھ سے اس موضوع پر بات کرنے سے کترا رہی تھی لیکن جب میں نے اس کو اعتماد میں لے کر اپنی کہانی اور روح کا تذکرہ کیا تو وہ یہ اقرار کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ وہ میں ہی تھی جو اس رات قبرستان میں گئی تھی لیکن میں کسی غلط مقصد اور ارادے کے ساتھ نہیں گئی تھی بلکہ اپنے باپ کی روح سے ملاقات کرنے کے لیے گئی تھی۔
جب اس نے روح کا تذکرہ کیا تو میرے اندر اشتیاق ابھرا کہ میں اس سے پوری کہانی سنوں لیکن وہ اپنی کہانی کسی بھی صورت میں سنانا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے اس کے اعتماد میں مزید اضافہ کیا اور اسے یقین دلایا کہ اگر تم سمجھتی ہو کہ میں تمہارے کسی کام آ سکتا ہوں تو مجھے ضرور بتا دوں۔ میں اگر تمہارے کسی کام نہ آ سکا تو تجھے اپنی چھوٹی بہن سمجھتے ہوئے اچھا مشورہ ضرور دے دوں گا۔ اگر تم مجھ پر اعتبار اور اعتماد کرتی ہو تو مجھے ضرور ضرور اس واقعے کے متعلق بتا دو اور تمہاری کہی ہوئی بات میرے سینے میں رہے گی۔ لہٰذا وہ مجھ پر اعتبار کرتے ہوئے مجھے اپنی کہانی سنانے لگی۔
اس نے مجھے بتایا کہ میرے باپ کو میری ماں اور دادا نے مل کر مارا ہے۔ اس الزام کا اس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا لیکن پھر بھی اسے پختہ یقین تھا کہ اس کا باپ اپنی بیوی اور اپنے سگے باپ کی سازش کے نتیجے میں مارا گیا ہے۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ تم کس بنا پر اتنی بڑی بات کہہ سکتی ہو تو اس نے بتایا ایک روز میں اپنے باپ کی قبر پر گئی تو وہاں پر میرے باپ کی روح مجھ سے باتیں کرنے لگ پڑی پھر میں ہر جمعرات کی شام قبرستان پر چلی جاتی اور گھنٹوں اپنے باپ کی روح کے ساتھ باتیں کیا کرتی۔ میرے باپ کی روح نے ہی مجھے بتایا تھا کہ میں اپنی بیوی اور باپ کی سازش کا شکار ہوا ہوں کیونکہ میں نے ان دونوں کو نازیبا حرکات کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور انہوں نے مجھے پکڑ کر میرا گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور عنقریب تجھے بھی مارنے والے ہیں۔
میں نے اس کے الزام کی تصدیق بھرپور انداز سے لیکن خفیہ طریقے سے کی لیکن مجھے ایسی کوئی شہادت نہیں ملی تھی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ مونا کی ماں اور اس کے دادا کے درمیان کوئی ناجائز تعلقات استوار ہے اور نہ ہی مونا کے پاس کوئی ایسی ٹھوس شہادت موجود تھی جس سے اس کے شک کو تقویت ملتی ہو۔ جب کوئی ثبوت ہی موجود نہیں تھا تو میرا استاد کی حیثیت سے یہ فرض بنتا تھا کہ میں اس کو سمجھاؤ کہ خواہ مخواہ اپنی ماں اور دادا پر شک کرنا مناسب نہیں ہے چنانچہ میں نے اس کو یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کی کہ تم کو قبر پر کوئی شیطانی سایہ ملتا ہے جو تمہیں بہکاتا ہے لہٰذا تم کو اس سے بچنا چاہیے اور آئندہ سے قبرستان کا رُخ نہیں کرنا چاہیے، ویسے بھی اتنی رات کو تو کوئی مرد بھی قبرستان میں فاتحہ خوانی کے لیے نہیں جاتا۔ سو تم کو قبرستان میں جانے سے اجتناب کرنا چاہیے اور اس شیطانی سائے کی ہر بات کو درست تسلیم نہیں کرنا چاہیے لہٰذا تم کو ڈاکٹروں کی رائے کو سچ مان لینا چاہیے کہ تمہارا باپ واقعی اچانک ہارٹ اٹیک کی بنا پر انتقال فرما چکا ہے۔ میں نے اپنی بات عقل کی بنیاد پر سمجھانے کی کوشش کی جس کی بنا پر اسے میری بات کی سمجھ آ گئی اور آئندہ سے اس نے قبرستان میں چوری چھپے جانے سے اجتناب کر لیا۔
اِسی سال مجھے سرکاری سکول میں ملازمت مل گئی اور میں دوسرے شہر ملازمت کے لیے چلا گیا۔ پھر ملازمت میں ہی دن، مہینے، سال گزرتے رہے اب جب میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ رہا ہوں تو میری ترقی ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر کر کے محکمے نے مجھے میرے ہی آبائی شہر کے سکول میں ہیڈ ماسٹر بنا پر بھیج دیا۔
ایک روز میں سکول سے واپسی پر گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک راستے میں مجھے ایک عورت مل گئی اس نے مجھے نہایت ادب سے سلام کرنے کے بعد کہا کہ سر میں آپ کی پرانی شاگرد ہوں اور آپ کو سلام کرنے کے لیے رک گئی تھی۔ علیک سلیگ کے بعد معلوم ہوا کہ وہ میرے اکیڈمی والے زمانے کی طالب علم ہے جہاں میں سرکاری ملازمت ملنے سے پہلے پڑھایا کرتا تھا یہاں پر میں بمشکل ایک سال ہی پڑھا پایا تھا کہ مجھے سرکاری ملازمت مل گئی تھی۔ اسی اکیڈمی میں میری مونا بھی شاگرد تھی جس کو میں نے قبرستان میں پہلی بار دیکھا تھا لہٰذا میرے ذہن میں خیال ابھرا کہ ہو نہ ہو یہ مونا کو بھی اچھی طرح سے جانتی ہو، اس لیے میں اس سے مونا کے متعلق پوچھنے لگا تو اس نے سرد آہ بھر کہا:
’’سر وہ تو میٹرک کا امتحان دے رہی تھی کہ اس کا انتقال ہو گیا۔ ‘‘
میں ششدر رہ گیا اور فوراً اس نے پوچھنے لگا:
’’کیسے ؟‘‘
’’سر میں کیا بتاؤں آپ کو بتاتے ہوئے بھی شرم محسوس ہو رہی ہے۔ ‘‘
’’بیٹا اصل بات بتاؤ استاد کا رتبہ باپ کے برابر ہوتا ہے۔ ‘‘
’’سر اخبارات کے ذریعے میرے علم میں یہ بات آئی تھی کہ اس کی ماں کے کسی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے جس کی بنا پر اس نے اپنے سسر اور بیٹی کو اپنے آشنا کے ساتھ مل کر قتل کر دیا اور اپنے سسر کی تمام جائداد سمیٹ کر ملک سے فرار ہو گئی۔ ‘‘
وہ عورت مونا کے متعلق یہ باتیں بتا کر چلی گئی لیکن مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر گئی کہ کیا میں نے مونا کو اپنے باپ کی قبر پر جانے سے روک کر غلطی کی تھی کیونکہ وہ اس کو پل پل کی خبریں پہنچا دیا کرتا تھا۔
٭٭٭
دہشت گرد
رات کا آخری پہر ہو چکا تھا لیکن وہ ابھی تک جاگ رہا تھا حالانکہ اس جیسے کئی لوگ فٹ پاتھ پر گہری نیند سوئے ہوئے تھے اور ابھی کچھ دیر بعد خوابِ غفلت سے بیدار ہونے والے تھے لیکن اس نے اپنی ساری رات بے قراری میں گزار دی تھی۔ آج اسے اپنی ماں کی یاد شدّت سے ستّا رہی تھی جو شہر سے دُور افتادہ گاؤں میں رہتی تھی اور بیٹے کی واپسی کی راہ دیکھتی رہتی تھی کیونکہ اس کا بیٹا اپنی ماں کی خوشیوں کی خاطر شہر مزدوری کے لیے گیا ہوا تھا لیکن اسے شہر میں دو ہفتے مسلسل دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود مزدوری کہیں نہ مل سکی تھی جس کی وجہ سے وہ زندگی سے مایوس ہو کر خودکشی کا ارادہ کر بیٹھا تھا لیکن پھر ماں کا خیال آنے کی بدولت وہ اپنے ارادے سے منحرف ہو گیا۔ اس کی ماں نے بیوہ ہونے کے باوجود اپنے اپاہج بیٹے کی پرورش اور علاج معالجے کے لیے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی کیونکہ وہ بچپن میں سخت بیمار ہو گیا تھا اور چلنے پھرنے سے معذور تھا تو اس کی ماں نے مالی استطاعت نہ ہونے کے باوجود اس کا علاج سخت محنت مزدوری سے پیسہ کما کر کروایا تھا۔ اب جبکہ یہ ماں کی محبت اور توجہ کی بدولت اتنا تندرست ہو گیا کہ محنت مزدوری کر سکے تو وہ اپنی ماں کا سہارا بننے کی خاطر شہر مزدوری کرنے کے لیے چلا آیا تھا لیکن شہری لوگ اس کے کمزور جسم اور ٹانگ کی لنگراہٹ کی بنا پر مزدوری کے لیے نہیں لے کر جاتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک کمزور جسامت والا شخص بھاری کام نہیں کر سکتا تھا۔ مزدوری نہ ملنے کے سبب وہ سخت پریشان تھا کیونکہ نوبت فاقوں تک پہنچ چکی تھی چنانچہ اس نے مجبوراً بھیک مانگنا شروع کر دی تھی۔ وہ بھیک مانگنے کے فن سے نا آشنا تھا جس کی وجہ سے اسے بھیک نہایت قلیل ملتی تھی جس سے اس کی بمشکل اپنی گزر بسر ہو سکتی تھی لیکن وہ اپنی ماں کا سہارا بننے کی خاطر شہر آیا تھا اور یہاں بھیک مانگ کر بھی وہ اپنی ماں کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ ایسے مالی حالات میں وہ ماں کے بڑھاپے کا سہارا نہیں بن سکتا تھا، اسی لیے تو وہ پریشان تھا۔ پریشانی میں ہی اس کی ساری رات بسر ہو گئی تھی۔
صبحِ کاذب کا اُجالا کافی پھیل چکا تھا مگر سڑک کے کنارے جلنے والی ٹیوب لائٹس ابھی تک روشن تھیں۔ اس قدر اجالے میں وہ فٹ پاتھ پر لیٹا اپنی نظریں آسمان پر ٹکائے اپنی ہی سوچ میں مگن تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک بوڑھے پر پڑی جس کا چہرہ اور سر بہت بڑا تھا۔ سر کے بال چھوٹے چھوٹے لیکن سفید تر تھے۔ اوپر والے ہونٹ اور ناک کے درمیان خاصی چوڑی جگہ موجود تھی جس پر دونوں کانوں کی لوؤں تک سفید گھنی مونچھیں اُگی ہوئی تھیں اور انہیں سلیقے کے ساتھ تراش کر کمان کی شکل دی ہوئی تھی۔ وہ جسمانی طور پر طویل قامت، چوڑے چکلے پہلوان کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ بوڑھا ہونے کے باوجود بڑی پھرتی کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں سامان کے بھرے ہوئے تھیلے پکڑے ہوئے تھا، جس میں پھل اور صبح کے ناشتے کے لیے چیزیں تھیں اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا چنانچہ اس بوڑھے پر نظر پڑتے ہی اس کی بھوک اچانک چمک پڑی تھی اور وہ ندیدوں کی طرح اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں خیال ابھرا اگر میں اس بوڑھے پر اچانک حملہ آور ہو کر یہ اشیاء چھین لوں تو یہ بوڑھا بوکھلا جائے گا اور میں آسانی سے اس کا سامان لے کر نو دو گیارہ ہو جاؤں گا اور یہ بوڑھا ہونے کے سبب زیادہ سے زیادہ شور ڈال سکتا ہے لیکن میرا تعاقب نہیں کر سکتا لہٰذا وہ قسمت آزمائی کے لیے بوڑھے کے تعاقب میں چل نکلا۔ کچھ دور تعاقب کرنے کے بعد بوڑھے کا گزر نسبتاً سنسان گلی میں ہوا اور اس نے موقع غنیمت جانا کیونکہ یہاں پر بوڑھے کا واویلا سننے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ لہٰذا اس نے اِدھر اُدھر کا جائزہ لے کر اپنے اندر ہمت پیدا کی کیونکہ وہ زندگی میں پہلی بار رہزنی کی واردات کرنے لگا تھا حالانکہ وہ اندر سے بالکل سہما ہوا تھا لیکن پھر بھی اس نے اپنی بھوک مٹانے کی خاطر اپنے اندر ہمت پیدا کی اور بوڑھے پر ٹوٹ پڑا اور اس کے دونوں ہاتھوں سے تھیلے چھین کر بھاگ کھڑا ہوا۔ لیکن اِس کے سارے منصوبے درّے کے درّے رہ گئے کیونکہ اِس نے بوڑھے سے شاپر تو چھین لیں تھے لیکن زیادہ دور بھاگ نہ سکا اور بوڑھے نے اپنے آہنی ہاتھوں سے اس کو فوراً قابو میں کر لیا تھا۔
وہ اپنی رہزنی کی واردات پر شرم محسوس کر رہا تھا اور پریشان تھا جس کی وجہ سے اس کی قوت شل ہو گئی تھی اور اس کا چہرہ شرم سے تمتما اُٹھا تھا۔ اچانک اِس کی ٹھوڑی پر آہنی ہاتھ کا دباؤ پڑا اور جھٹکے کے ساتھ اِس کا چہرہ اوپر اٹھا دیا گیا لیکن اِس نے آنکھیں جھکا دیں۔ خوف کے باعث خون کی ایک تیز و تند سرد سی لہر اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ اس کی ٹانگیں من من بھر کی ہو کر لرز رہی تھیں وہ کانپتا لرزتا ہوا بت بنا کھڑا تھا۔ لیکن بوڑھا اس کے اندر جھانک رہا تھا قبل اس کے کہ بوڑھا اس کی اِس جسارت کے صلّے میں ایک دو تھپڑ رسید کرتا وہ اس سے کہنے لگا:
’’کب سے یہ کام کر رہے ہو؟‘‘
’’صاحب جی میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں چور نہیں ہوں۔ ‘‘
’’تو پھر تم میرا امتحان لے رہے تھے کہ اس عمر میں بھی میرے وجود میں طاقت ہے کہ نہیں ؟‘‘
’’صاحب جی میں بھوکا ہوں اور اپنی بھوک مٹانے کے لیے میں نے یہ حرکت کی ہے۔ صاحب میں وعدہ کرتا ہوں کہ بھوکا مر جاؤں گا لیکن اب آئندہ سے ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ ‘‘ اس کا گلا رندھ گیا اور سسکیاں دبانے کے لیے اس نے اپنا چہرہ کہنی کے خم میں چھپا لیا۔
بوڑھے نے اسے تھپڑ مارا ’’جھوٹ بولتے ہو کہ اب میں بھوکا مر جاؤں گا لیکن چوری نہیں کروں گا۔ ‘‘ بوڑھے نے بلند آواز سے کہا تھا جس کی بنا پر اس کے بدن میں سرد لہر آ گئی تھی۔
’’اپنی بھوک مٹانے کی خاطر کسی کے منہ کا نوالہ چھیننا کیا انسان کو زیب دیتا ہے ؟ بتاؤ مجھے۔ ‘‘ بوڑھے نے پھر کرخت دار آواز سے کہا تھا۔
چند لمحے وہ اپنے گلے میں آئی آنسوؤں کی جلن سنبھالتا رہا پھر بولا:
’’صاحب جی آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ اپنی بھوک مٹانے کی خاطر دوسرے انسان کے منہ کا نوالہ چھیننا نہیں چاہیے لیکن صاحب جی جب انسان کے پاس ہارنے کے لیے کوئی چیز ہی باقی نہ رہے تو وہ پھر اپنی جان خطرے میں ڈال کر زندگی کی بازی کھیلتا ہے۔ سو میں نے بھی زندگی میں پہلی بار خطرہ مول لے کر ایک بازی کھیلی تھی، جس مِیں مَیں ناکام رہا ہوں اور اب آپ کے رحم کا طلب گار ہوں۔ ‘‘
’’بہت اچھے، تم نے بہت اچھی بات کہی ہے اور میرا دل جیت لیا ہے کیونکہ میں خود یہ بات مانتا ہوں بلکہ تسلیم کرتا ہوں کہ جب انسان خطرے میں ہو اس کی عزّت اور جان داؤ پر لگی ہو تو وہ بڑے سے بڑا خطرہ بھی مول لے لیتا ہے اور اپنا تن، من، دھن، ذہانت، بہادری سب کچھ صرف کر کے صرف کامیابی کے لیے داؤ کھیلتا ہے۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ تم واقعی بہادر انسان ہو اور دنیا کی سختیوں کا مقابلہ کر سکتے ہو اور میں تم جیسے بہادر اور ذہین شخص کو بھوکا مرنے نہیں دوں گا۔ چلو میرے ساتھ، میں تم کو نہ صرف کھانا کھلاتا ہوں بلکہ ترقی کی نئی راہ بھی دکھاتا ہوں۔ اگر تم نے اپنی قوّت، طاقت، ذہانت کو زائل نہ کیا اور ڈرے نہ تو پھر دیکھنا تم ایک دن اس ملک کے امیر ترین شخص ہو گے۔ ‘‘
وہ احساسِ تشکر سے بھیگ گیا اور اس کے ہونٹوں پر بھنچی بھنچی مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔ اس نے اقرار میں سر ہلا دیا تو اس بوڑھے نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا:
’’چلو میرے ساتھ کامیابی کے راستے کی طرف۔ ‘‘
وہ فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور چاولوں کے ڈھیر پر دال انڈیل کر اپنی میلی کچیلی انگلیوں سے مسل مسل کر لقمے بنا کر کھانے لگا پھر چاول ختم کرنے کے بعد وہ دال چاول سے لتھڑی ہوئی انگلیوں کو منہ میں دبا کر چوس چوس کر صاف کرنے لگا تو بوڑھے کو اچانک ابکائی آئی لیکن اسے ضبط سے کام لینا پڑا کیونکہ وہ اس پر اپنی کراہت ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ چاولوں سے پیٹ بھرنے کے بعد وہ بوڑھے کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا تو بوڑھا کہنے لگا:
’’تم کچھ دیر کے لیے لیٹ جاؤ کیونکہ پُرسکون نیند سے انسان کے اندر نئی توانائی پیدا ہوتی ہے جس سے بہت سکون ملتا ہے لہٰذا تم کچھ دیر کے لیے نیند کے مزے لوٹ لو پھر میں تمہیں تمہارا کام سمجھا دوں گا۔
آج وہ ایک مدّت کے بعد مکمل اور فطری نیند سے محظوظ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ خود کو ترو تازہ محسوس کر رہا تھا کہ اچانک بوڑھا جو اس کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا اس کے سامنے آ کھڑا ہوا اور اس کی طرف سگریٹ کا پیکٹ بڑھا کر اسے سگریٹ کی آفر کرنے لگا۔ اس نے ایک سگریٹ لے لی۔ بوڑھے نے اپنی اور اس کی سگریٹ کو شعلہ دکھایا اور وہ دونوں سگریٹ کے لمبے لمبے کش لینے لگیں پھر جب دھوئیں سے دوبارہ ان کا چہرہ واضح ہوا تو بوڑھا کہنے لگا:
’’ہاں تو تمہیں عزت، دولت، شہرت چاہیے۔ ‘‘
’’صاحب جی مجھے عزت، شہرت اور دولت کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ انسانوں کے درمیان حسد، جلن اور رقابت پیدا کر دیتی ہے۔ مجھے تو بس اتنا چاہیے جس میں مَیں اور میری ماں آسانی سے دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ ‘‘
بوڑھے نے سگریٹ ایش ٹرے میں رگڑ کر الماری سے ایک لاکھ روپے کے نوٹ اس کے سامنے بڑھا کر کہا:
’’اس سے تمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی۔ ‘‘
اتنے سارے نوٹ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک نمودار ہو گئی وہ یوں پلکیں جھپکانے لگا جیسے گہرے پانی سے نکل کر آیا ہو۔ پھر تیوریوں پر بل ڈال کر اس نے سگریٹ دیکھی اور میز پر رکھی ہوئی پلاسٹک ایش ٹرے میں گل جھاڑ کر دوبارہ ایک زور دار کش لیا۔ اس کے گال اندر دھنس گئے پھر اس نے دھواں اگلتے ہوئے کہا:
’’صاحب مجھے کرنا کیا ہو گا؟‘‘
بوڑھے نے اپنا چشمہ ناک پر رکھتے ہوئے کہا :
’’تم کو ایک بریف کیس دیا جائے گا جو تم نے میری بتائی ہوئی جگہ پر رکھ کر واپس آ جانا ہے۔ ‘‘
’’صاحب جس بریف کیس کو میں نے مطلوبہ جگہ پر رکھنا ہے اس میں کیا ہو گا؟‘‘
’’تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ تمہیں صرف ایک بریف کیس رکھنے کی قیمت ایک لاکھ روپے مل جایا کرے گی۔ اس کے علاوہ تمہیں کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘ یہ سُن کر اس کے دماغ میں مختلف سوچیں آڑھی ترچھی اُڑتی پھرنے لگیں اور وہ انہی سوچوں میں اُلجھ کر رہ گیا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں اس کام کی خامی بھر لوں یا انکار کر دوں کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ بریف کیس میں آتش گیر مادے کے سوا اور کچھ ہو نہیں سکتا۔ لہٰذا وہ اپنی پریشانی بوڑھے کے گوش گزار کرنے کی خاطر کہنے لگا:
’’صاحب آپ نے خود مثال دی تھی کہ اپنی بھوک مٹانے کی خاطر کسی کے منہ کا نوالہ چھیننا انسان کو زیب نہیں دیتا ہے۔ لہٰذا آپ نے جو کام بتایا ہے وہ بھی تو ایسا ہی کام ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر کسی دوسرے کی جان لے لی جائے۔ ‘‘
بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’تم واقعی ذہین انسان ہو اور میں ذہین لوگوں کی قدر کرتا ہوں لیکن تم ذرہ اپنے سابقہ حالات کا موازنہ کرو جس میں تم کو بھوک کے سوا کچھ نہیں ملا تو پھر آئندہ کے لیے نتیجہ اخذ کرو لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ اس معاشرے میں اپنے منہ کا نوالہ چھین کر لیا جاتا ہے۔ ‘‘
’’صاحب میں ایسا کام نہیں کر سکتا۔ ‘‘
’’تو پھر کیا کروں گے بھوکے مر جاؤں گے۔ میری جان، اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے اپنا حق چھیننا پڑتا ہے کیونکہ یہاں مانگنے سے کوئی کچھ نہیں دیتا، اسی لیے اپنا حق چھیننا پڑتا ہے۔ سو تمہیں بھی ایک موقع ملا ہے اپنا حق حاصل کرنے کا، سو تم اپنا حق حاصل کرو۔ اس چکر میں مت پڑو کہ تمہاری وجہ سے کتنا نقصان ہو گا بلکہ اپنا فائدہ دیکھو۔ ‘‘
’’صاحب اِس میں تو میری جان بھی جا سکتی ہے۔ ‘‘
’’ہرگز نہیں، اس دھماکہ خیز مواد کا ریموٹ کنٹرول تمہارے ہاتھ میں ہو گا جب تم بریف کیس مناسب جگہ پر رکھ کر کافی دُور چلے جاؤ گے تو تم اس ریموٹ کنٹرول کو دَبا دینا اور دھماکہ ہو جائے گا۔ ‘‘
’’لیکن صاحب…‘‘
’’لیکن ویکن اس دنیا میں نہیں چلتی یہاں تو بس ذاتی مفاد چلتا ہے۔ تم بھی ہوش سے کام لو، سکون اور اطمینان کے ساتھ میری تجویز پر غور و فکر کرو اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ ورنہ تم دربدر کی ٹھوکریں کھا کھا کر ایسے ہی بھوکے مر جاؤں گے۔ تم اپنی بھلائی کی خاطر ضد کو چھوڑ دو کیونکہ ضد سے انسان کو نقصان ہوتا ہے لہٰذا تم ضد سے باہر نکل کر سوچو اور اپنے حق میں بہتر فیصلہ کرو۔ ‘‘
’’صاحب یہ تو شرم کی بات ہے کہ انسان اپنے فائدے کی خاطر کسی دوسرے شخص کی جان لے۔ ‘‘
’’اس میں کوئی شرم کی بات نہیں یہ تو ایک کام ہے، جس کا معاوضہ تمہیں ملے گا، جو تمہارا حق ہو گا۔ اگر یہ کام تم نے نہ کیا تو کوئی دوسرا شخص کر دے گا، کام تو بہرحال ہونا ہے۔ میں تو تمہاری مفلسی دُور کرنے کی خاطر تمہیں یہ کام کرنے کی دعوت دے رہا ہوں اور تم بھی اپنی بھلائی کے لیے بہتر فیصلہ کروں۔ ویسے میں یہ بات جان چکا ہوں کہ تم شریف انسان ہو اور میرے نزدیک شریف انسان احمق ہوتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت بدنامی سے ڈرتا رہتا ہے اور اسی لیے ترقی نہیں کر سکتا۔ دیکھو جس طرح تم نے کسی شرم اور بدنامی کے خوف کے بغیر راہ زنی کی واردات کی ہے اسی طرح یہ بھی کر گزروں کیونکہ یہ اس سے آسان کام ہے اور معاوضہ تمہاری توقع سے بھی زیادہ ہے۔ ‘‘
اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ایک سرد آہ بھری اور اپنے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے آنکھوں کو اس طرح مسلنے لگا جیسے دن میں تیرنے والے آنسو خشک کرنا چاہ رہا ہو۔ اس کی آنکھوں کے سامنے دائرے سے ناچ رہے تھے، اندھیرا چھا رہا تھا، لیکن وہ اپنے اوپر حاوی خوف پر آہستہ آہستہ قابو پا رہا تھا۔ یوں وہ کچھ دیر کی سوچ بچار کے بعد کھڑا ہو گیا اور پھر محتاط انداز میں اِدھر اُدھر کا جائزہ لیتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگا:
’’صاحب وہ سب کچھ کروں گا جس سے رقم ہاتھ آتی ہو۔ ‘‘
’’شاباش شاباش میرے بچے ! تم نے واقعی دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس سے تم کسی کا حق چھینو گے نہیں بلکہ اپنا حق حاصل کروں گے اور ترقی کی منازل طے کرو گے۔ ‘‘
سورج ابھی ابھی غروب ہوا تھا لیکن اوپر آسمان پر اور نیچے زمین پر حد نگاہ تک روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ سڑک ٹریفک سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور بس اسٹاپ پر بھی لوگوں کا بے پناہ ہجوم تھا ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ علاقے کے تمام کے تمام باشندے گھروں کو چھوڑ کر یہاں پر آ کھڑے ہو گئے ہیں اور وہ بھی اس ہجوم میں کھڑا ہو گیا اور مناسب جگہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ اچانک اُس کے ہاتھ میں پکڑے بریف کیس میں موجود آتشی مواد زور دار دھماکے کے ساتھ پھٹا اور اس کے ساتھ ساتھ کئی اور لوگوں کے پرخچے اڑ چکے تھے۔
٭٭٭
فلالین
بھولا آج کل اپنے بناؤ سنگھار پر کافی توجہ دے رہا تھا۔ وہ ہر روز نیا دھُلا ہوا سوٹ زیب تن کرتا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بال سنوارنے لگتا۔ بالوں میں کنگھی کر کے پھر آئینے کے سامنے ٹکا رہتا اور کافی دیر اپنے آپ کا جائزہ لیتا رہتا اور سوچتا ’’میں اب کیسا لگ رہا ہوں۔ ‘‘ اسے ہر روز اپنی شیو بڑھی ہوئی محسوس ہوتی حالانکہ پہلے وہ ہفتہ بھر میں صرف ایک بار شیو بنواتا تھا اور اب روزانہ شیو بنوا کر پھیری لگانے جانے لگا تھا۔ ویسے بھی آج کل وہ ایسے خوش دکھائی دیتا تھا جیسے اسے کوئی بہت بڑا دفینہ مل گیا ہو۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑا خود کو تنگ پاجامے اور ململ کے کرتے میں بہت حسین دکھائی دے رہا تھا، اس کے باوجود آج اسے اپنی آنکھیں کچھ بے رونق سی لگ رہی تھیں۔ اسی لیے تو اس نے آج پہلی بار سرمہ کو اپنی آنکھوں میں جگہ بخشی تھی۔ پھر وہ اپنا بریف کیس سنبھال کر پھیری لگانے کے لیے چل پڑا۔
’’نگینہ، او نگینہ دیکھ تمہارا رنگیلا— رنگ رنگیلا چلا آ رہا ہے۔ ‘‘
’’ارے ہٹ میرا کیوں ہونے لگا —‘‘
او نگینہ دیکھ تو سہی آج کل تو یہ ویسے بھی کپڑے بڑے اُجلے پہن کر آتا تھا اور آج تو اس نے اپنے حسن کو چار چاند لگانے کے لیے سرمہ بھی لگایا ہوا ہے۔ نگینہ وہ دیکھو گول چشمے کے پیچھے موٹی موٹی آنکھیں سرمے میں بھیگی ہوئی کیا حسین و جمیل لگ رہی ہیں۔ یہ تمام بناؤ سنگھار صرف تمہیں دکھانے کے لیے کرتا ہے۔ ‘‘
نگینہ نے غصہ سے اس کے ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے کہا : ’’چھوڑ دفع کرو، کارٹون کہیں کا۔ ‘‘ تمام سہیلیاں ہنستے ہنستے اپنے اپنے گھروں میں چھپ گئیں۔
بھولے نے گلی کا موڑ مڑتے ہی فلالین فلالین کی آوازیں کسنا شروع کر دیں اور نگینہ کے دروازے کے سامنے کھڑا ہو کر یوں فلالین فلالین پکارنے لگا جیسے کسی کو بلا رہا ہو۔ لمحہ بہ لمحہ اس کی بے قراری میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور وہ زور زور سے فلالین، فلالین کی آوازیں لگائے جا رہا تھا۔ بالآخر اس کے صبر کا امتحان ختم ہوا۔ سامنے مکان کے دروازے پر پڑی چق ذرا سا سرکی اور ایک پَری چہرہ، دبلی پتلی خوبصورت لڑکی نمودار ہوئی۔ لڑکی کو دیکھتے ہی اس کی جان میں جان آ گئی اور وہ فوراً وہیں زمین پر ایسے بیٹھ گیا جیسے اسے کسی نے آواز دے کر کہا ہو کہ پھیری والے ذرا رُک جاؤ اور وہ رُک گیا ہو۔
نگینہ شرم سے سکڑتی ہوئی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور اس کے بریف کیس میں موجود اشیاء کو بڑے اشتیاق سے دیکھنے لگی۔
بھولے کی سانس پھولی ہوئی تھی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ نگینہ سے کیا بات کرے۔ ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ خود بول پڑی : ’’بھولے یہ چوڑیاں کتنے کی ہیں ؟‘‘اور ساتھ ہی اس نے اپنی کلائی آگے کر دی۔ بھولے نے اس کی کلائی اپنے ہاتھ میں تھام لی۔ اسے نگینہ کی کلائی بہت گرم محسوس ہوئی۔ اس نے اِس خوبصورت کلائی کو ہولے سے مسلا اور چوڑیاں چڑھاتے ہوئے بولا:
’’نگینہ تمہارے ہاتھ بہت گرم ہیں۔ ‘‘
’’نہیں تو، یہ تو محبت کی گرمی ہے !‘‘ اور وہ مسکرانے لگی۔
بھولے کے لیے یہ لمحات خوش کن تھے اور اس کی آواز میں اچانک لرزش پیدا ہو گئی تھی، ٹانگیں کپکپانے لگیں۔ آج اس نے وہ بات اس کے منہ سے خود ہی سُن لی تھی جو وہ خود کہہ نہ پا رہا تھا اور حیلے بہانوں سے اپنی محبت کا اظہار کرتا چلا آ رہا تھا۔
’’نگینہ کہیں تم مجھ سے محبت کرنا چھوڑ تو نہیں دو گی۔ ‘‘
’’کبھی نہیں !‘‘
’’سچ؟‘‘اس نے بھی اقرار میں سر ہلا دیا۔
’’میں تمہارے بغیر مر جاؤں گا۔ ‘‘
ابھی وہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا کہ محلے بھر کی لڑکیاں آناً فاناً اس کے گرد اکٹھی ہو گئیں اور اس سے اشیاء کے بھاؤ تاؤ کرنا شروع ہو گئیں۔ آج وہ اتنا خوش تھا کہ وہ جو قیمت بتاتی تھیں وہ اسی قیمت پر اشیاء ان کے حوالے کر دیتا تھا۔ اس نے منٹوں میں اپنا سارا سودا سلف اسی محلے میں فروخت کر دیا تھا۔ لیکن آمدنی کوئی بھی نہ ہوئی تھی اس لیے گھر جا کر باپ کا سامنا کرنے سے کترا رہا تھا۔
روز کی طرح آج بھی بھولا دوسرے دروازے سے گھر کے اندر داخل ہو جانا چاہتا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا باپ اس سے حساب کتاب مانگے۔ حساب دینے کے لیے اس کے پاس کچھ بھی تو نہ تھا، یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا بلکہ اس نے تو یہ روز کا دستور بنا لیا تھا اور وہ روز باپ کی نظروں سے صرف اپنی بہنوں کی وجہ سے بچتا رہتا تھا کیونکہ اس کی بہنیں نہیں چاہتی تھیں کہ اس کو اپنے باپ کے سامنے کسی قسم کی شرمندگی ہو۔ لیکن آج اس کی قسمت ہی خراب تھی، جب وہ دروازے کے اندر داخل ہوا تو اس کے باپ نے اس کو بازوؤں سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا اندر لے گیا اور اپنے سامنے بٹھا کر کہنے لگا :
’’ہاں بھئی بتا، پچھلے پندرہ دنوں میں، تو نے کیا کمائی کی ہے ؟‘‘
بھولے نے مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر لا کر باپ کی طرف دیکھا۔ انہوں نے ماں کی گالی دے کر تھپڑ مارنے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ بھولے نے بڑی تیزی سے اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں کی گرفت میں لے لیا۔ باپ کو بیٹے کی اس معصومیت پر بہت ترس آیا اور اس نے اپنا ہاتھ نیچے کر لیا۔
بھولا چند ثانیہ یوں ہی گم سم بیٹھا رہا جب اسے تشدد کا خطرہ ٹلتا ہوا محسوس ہوا تو اس نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنے چہرے کو ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کر کے سر اٹھایا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح باپ کے غصے کو رفو کرے، کیا بہانہ بنائے۔ وہ تمام بہانے جو وہ بنا سکتا تھا ان کو پچھلے چھ ماہ سے آزماتا چلا آ رہا تھا، اب تو اس کے پاس کوئی نیا بہانہ بھی نہ بچا تھا۔ اس لیے وہ پُرانا اور کارآمد نسخہ آزمانا چاہتا تھا۔ ’’ابا! صرف آج معافی دے دو۔ اب کے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کسی کو سودا ادھار کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں نہیں دوں گا اور جن کو پہلے ادھار دے چکا ہوں، ان سے زبردستی اپنی رقم واپس لوں گا۔ ابا میری بات پر اعتبار کرو، میں اب ٹھیک سے کام کیا کروں گا اور کما کر لایا کروں گا بس آج معافی دے دیں۔ ‘‘ اس نے ہاتھ جوڑ کر یہ الفاظ کہے اور باپ کے قدموں میں گر گیا۔ بھولا یونہی معافیاں مانگتا آ رہا تھا اور اس کا باپ یونہی معافیاں دیتا چلا جا رہا تھا کیونکہ اس کے پاس اور کوئی چارہ کار بھی تو نہ تھا۔
بھولا شروع سے ہی تو بھولا نہ تھا۔ جب وہ پیدا ہوا تھا تو اس کے باپ نے اس کے پیدا ہونے کی خوشی میں منوں مٹھائی محلے بھر میں بانٹی تھی اور وہ اپنے بیٹے کے متعلق سوچا کرتا تھا کہ یہ بڑا ہو کر بہت بڑا وکیل بنے گا اور پھر ترقی کر کے جج کی کرسی پر بیٹھے گا وہ خود تو وکیل بن نہ سکا تھا لیکن اپنے بیٹے کو ضرور وکیل بنانا چاہتا تھا۔ وکالت سے اس کو اتنا لگاؤ تھا کہ اس نے اپنے بیٹے کا نام بھی عبد الوکیل رکھ دیا تھا اور وہ اسے عبد الوکیل کہنے کی بجائے وکیل صاحب کہہ کر پکارا کرتا تھا۔
وکیل ابھی پانچ سال کا تھا کہ اس کے گھر ڈاکہ پڑ گیا اور ڈاکو سب کچھ لوٹ کر لے جانا چاہتے تھے۔ وکیل کی ماں یوں اپنے گھر کو لٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی اور وہ اپنی پوری طاقت سے چلّا چلّا کر لوگوں کو مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ اس کی چیخ و پکار نے پورے محلے کو بیدار کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے ڈاکوؤں کو اپنا کام ادھورا چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا وہ یونہی ذلیل و خوار ہو کر بھاگنا نہیں چاہتے تھے چنانچہ غصے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انہوں نے بیک وقت فائر کھول دیا اور فائرنگ کرتے ہوئے بھاگ نکلے۔ وکیل کی ماں موقع پر ہی دم توڑ گئی۔ عبد الوکیل کا ننھا منّا ذہن یوں اپنی ماں کے قتل کا صدمہ برداشت نہ کر سکا اور اس پر سکتہ طاری ہو گیا۔ چند دنوں کے بعد وہ سکتے کی حالت سے تو باہر آ گیا لیکن ذہنی طور پر مفلوج ہو گیا، اس پر پاگل پن کے دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ اس کے باپ نے اس کا علاج کروانے کی بہت کوشش کی لیکن کوئی بھی ڈاکٹر اس کا علاج نہ کر سکا۔
وہ یونہی گلیوں میں آوارہ گردی کرتا رہتا تھا، بچے اس کو تنگ کرنے کی غرض سے بھولے کی آوازیں کستے تو وہ آگ بگولہ ہو جاتا اور اینٹ پکڑ کر ان کے پیچھے دوڑ پڑتا۔ لڑکے اس کو چکمہ دے کر کہیں چھپ جاتے تو وہ گالیاں دیتا ہوا واپس گھر لوٹ آتا تھا۔ لیکن زیادہ شرارتی بچے اس کو بھولا بھولا کہہ کر وہاں سے بھاگتے نہیں بلکہ اس کو مزید اشتعال دلانے کے لیے اس کے سامنے کھڑے رہتے تو وہ اینٹ پکڑ کر ان کو دے مارتا۔ اکثر اوقات تو نشانہ چوک جاتا تھا لیکن بعض اوقات کسی بچے کو اینٹ لگ جاتی تو گلی میں کہرام مچ جاتا۔ لوگ شکوے شکایت لے کر بھولے کے گھر پہنچ جاتے اور اس کے باپ سے مطالبہ کرتے : ’’اِس پاگل کو پاگل خانے پہنچا دو، ورنہ ایک نہ ایک دن یہ ضرور کسی کو مار ڈالے گا۔ ‘‘ اس کا باپ آئے روز کی شکایتوں سے تنگ آ چکا تھا۔ ایک روز اس نے بھولے کو غصے میں مارنا پیٹنا شروع کر دیا اور بھولا ایسے ہی غصے میں گھر سے باہر نکل گیا۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا بلکہ اکثر اس کا باپ جب اس کو مارتا پیٹتا تو وہ گھر سے نکل کر یوں ہی گلیوں میں چکر لگاتا رہتا اور رات کو واپس گھر لوٹ آتا تھا۔ لیکن وہ آج گھر سے باہر نکلا تو واپس نہ لوٹا۔ در اصل محلے ہی کے چند لڑکے اس کو شہر کی سیر کروانے کے بہانے ورغلا کر اپنے ساتھ لے گئے اور انہوں نے اس کو گھر سے دور کسی آبادی میں جا کر چھوڑ دیا تاکہ وہ اپنے گھر واپس نہ پہنچ سکے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کو تو اپنی آبادی اور والد کا نام تک نہیں آتا۔ جس کی وجہ سے اس کا واپس آنا ناممکن تھا لہٰذا اِس کی غیر موجودگی میں محلہ اس کے شر سے محفوظ رہے گا، لیکن اس کا باپ اپنے علاقے کی گلیوں اور بازاروں میں اس کو ڈھونڈتا رہا تھا۔
بھولے کو گم ہوئے چھ ماہ گزر گئے تھے اور اس کے باپ نے اس کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی لیکن اس کا سراغ کہیں بھی نہ ملا تھا اب وہ دیوانوں کی طرح شہر بھر میں ہر مزار پر جاتا اور اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے دعائیں مانگتا تھا۔ اسی طرح وہ ایک روز حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر جا پہنچا تو اچانک لنگر خانے میں اس کی نظر بھولے پر پڑ گئی جو میلے کچیلے، بوسیدہ کپڑے پہنے لنگر سے کھانا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اِس کے باپ کے مطابق یہ اولیاء اللہ ہی کی دُعاؤں کا اثر تھا کہ جب بھولا گم ہوا تھا تو وہ ذہنی طور پر بالکل پسماندہ تھا لیکن جب واپس آیا تو اس کی ذہنی حالت دن بدن بہتر ہوتی چلی گئی۔ چند ہی ماہ میں خلاف توقع اس کی صحت بحال ہو چکی تھی اور وہ اچھائی اور برائی کو خوب سمجھنے لگا تھا۔
ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ اگر اس کو خوش اور مصروف رکھا جائے تو اس کی ذہنی حالت مزید بہتر ہو سکتی ہے۔ اس کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش اس کی بہنیں کرتی تھیں لیکن مصروف رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ اس کو کسی کام دھندے پر لگا دیا جاتا۔ اس لیے اس کے باپ نے چند ہزار روپے خرچ کر کے اس کو خواتین کے استعمال کی اشیاء خرید کر دیں اور اسے پھیری لگا دی تاکہ وہ مصروف رہ سکے۔
بھولا اپنے باپ کی اُمیدوں پر پورا اترتے ہوئے بڑی سنجیدگی کے ساتھ پھیری لگانے جاتا تھا۔ وہ گلی گلی جا کر اشیاء بیچنے کی غرض سے آواز لگاتا، فلالین— فلالین— نہ جانے وہ کس چیز کا نام لیتا تھا لیکن اس کی ادائیگی ٹھیک سے نہیں کر پاتا تھا اور وہ بگڑ کر فلالین بن جاتا۔ لیکن جب وہ فلالین کی ادائیگی کرتا تو بڑا معصوم اور بھولا بھالا محسوس ہوتا اور اسی فلالین ہی کی وجہ سے وہ بہت کم عرصے میں علاقے بھر میں فلالین کے نام سے مشہور ہو گیا۔ وہ اپنی توتلی زبان اور بھولی بھالی صورت اور اس پر مستزاد پرانے اسٹائل کے کپڑوں میں بہت بھلا لگتا تھا۔ وہ ہر روز اپنے پسندیدہ لباس سفید رنگ کا تنگ پاجامہ اور ململ کا کرتہ اور چہرے پر گول گول چشموں والی عینک لگا کر اپنا بریف کیس پکڑے فلالین فلالین کی صدائیں لگاتا ہوا گلیوں میں گھوم پھر کر سودا بیچتا تھا۔ خواتین اس کو روک کر اس کی لائی ہوئی اشیاء بڑے اشتیاق سے دیکھتی تھیں۔ یوں بھولے سے فلالین اس کی پہچان بن گیا۔
اسے پھیری پر جاتے ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت گیا تھا لیکن گزشتہ چار ماہ سے وہ مسلسل گھاٹے میں جا رہا تھا۔ اس کے باپ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیوں مسلسل گھاٹے میں جا رہا ہے۔ اس مسلسل گھاٹے نے اس کے باپ کو پریشان کر کے رکھ دیا تھا وہ پریشان اس لیے نہیں تھا کہ بھولا کچھ کما کر نہیں لا رہا بلکہ اس کی پریشانی یہ تھی کہ وہ کہیں پھر سے پہلے والی ذہنی کیفیت کی طرف واپس تو نہیں لوٹ رہا جس کی وجہ سے وہ اشیاء اونے پونے دام بیچ آتا ہے۔ وہ یہ سوچ کر پریشان ہو جاتا پھر خود کو تسلی دینے کے لیے کہتا، ہو سکتا ہے کہ وہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہو کہ لوگ اس سے اشیاء ادھار لے لیتے ہیں۔
بھولے کی ناکامی کی اصل وجہ نگینہ تھی جس نے اسے بدھو بنایا ہوا تھا اور اس نے بھی اس کی تصویر اپنے ذہن میں نقش کر رکھی تھی۔ وہ ہر پَل اسی کے متعلق سوچتا رہتا تھا اور رات بھر اُس کے ہاتھوں کا لمس تصور میں لیے اُسی کے خیال میں گزار دیتا۔
فجر کی اذان سنتے ہی اس کی نظریں سورج طلوع ہونے پر لگی رہتیں کہ کب سورج طلوع ہو اور میں اس محلے میں پہنچ جاؤں جہاں میرا انتظار ہو رہا ہے اور وہ بھی تو فلالین کی آواز سنتے ہی فوراً اپنی سہیلیوں کے ہمراہ دوڑی آتی اور شرماتی ہوئی اس کے پاس بیٹھ جاتی تھی۔ جب تمام سہیلیاں اکٹھی ہو کر بھولے سے بھاؤ تاؤ کرتیں تو اکثر بھولے کا گول چشمہ لڑھک کر ناک کی پھننگ پر آ ٹپکتا اور نگینہ اپنی انگلی سے اِس کی عینک اوپر کر دیتی۔ یوں تو اسے نگینہ کی ہر آدھ اچھی لگتی تھی لیکن اس طرح عینک اوپر کرنے سے اس کے اندر ایک سرسراہٹ سی دوڑ جاتی۔ یہ سرسراہٹ اس کو جسمانی سکھ عطا کرتی تھی اسی لیے تو وہ بعض اوقات خود ہی جھٹکے کے ساتھ عینک کو نیچے کر دیا کرتا تھا تاکہ نگینہ پھر اِس کی عینک کو ایسے ہی اوپر کرے۔
بھولا سمجھتا تھا کہ میں اس طرح ان لڑکیوں کو سستی اشیاء دے کر خود گھاٹے میں رہتا ہوں جس کی وجہ سے میرے باپ کو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ وہ اپنے باپ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا اور ٹھیک طریقے سے کام کرنا چاہتا تھا، اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ نگینہ کے متعلق اپنے باپ کو سچ سچ بتا دے تاکہ اس کا باپ نگینہ کے گھر جا کر اس کا ہاتھ مانگے۔ لیکن وہ اپنے باپ سے بات کرنے سے پہلے نگینہ سے بات کرنا چاہتا تھا چنانچہ وہ آج یہ تہیہ کر کے گھر سے نکلا تھا کہ وہ نگینہ سے ضرور پوچھے گا کہ میں کب اپنے باپ کو تمہارے گھر تمہارا رشتہ مانگنے کے لیے بھیجوں۔
بھولا روز کی طرح فلالین فلالین کی آوازیں لگاتا لگاتا اس گلی میں پہنچ گیا اور لڑکیاں اس کی آواز سن کر دوڑی چلی آئی تھیں۔ آج وہ تمام لڑکیاں اس کو زہر لگ رہی تھیں اور اس کا دل چاہ رہا تھا کہ یہ تمام جلد از جلد یہاں سے چلی جائیں اور میں نگینہ سے بات کر سکوں۔ لیکن اس کو بات کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا کیونکہ نگینہ کی ماں نے اسے آواز دے کر واپس بلا لیا تھا اور وہ ایسے ہی منہ سکیڑ کر بیٹھ گیا۔ لڑکیاں اس کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہی تھیں اور اسے ان کی باتیں کاٹنے کی طرح چبھ رہی تھیں۔ وہ ان لڑکیوں کی کسی بھی بات کا جواب دینے کے موڈ میں نہ تھا، اسی لیے اِس نے فوراً اپنا بریف کیس اٹھایا اپنے کپڑے جھاڑتا ہوا وہاں سے چلا آیا۔
بھولے کو گھر جاتے ہی معلوم ہوا کہ اس کے باپ کا بلڈ پریشر بہت زیادہ لو ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اس کو ہسپتال لے جانا پڑ گیا تھا۔ باپ کی بیماری کی وجہ سے وہ تین دن پھیری نہ لگا سکا۔ چوتھے دن جب وہ تیمار داری سے فارغ ہوا تو فوراً اپنا بریف کیس سنبھال کر پھیری کے لیے چل نکلا تھا۔ روز کی طرح آج بھی وہ فلالین فلالین کہتا ہوا اسی گلی میں داخل ہو گیا۔
آج نگینہ کا گھر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ پہلے تو وہ یوں ہی دیکھتا رہا اور ساتھ ساتھ سوچتا رہا کہ کس کی شادی ہے۔ بالاخر محلے کی لڑکیوں نے اس کو بتایا آج تمہاری نگینہ کی شادی ہے۔ اسے ان کی باتوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ واقعی آج نگینہ کی شادی ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ لڑکیاں روز کی طرح آج بھی اس سے مذاق کر رہی ہیں۔ ابھی وہ سکتہ کی حالت میں سوچ ہی رہا تھا کہ نگینہ کے گھر کا دروازہ کھلا اور وہ نمودار ہوئی۔ اس نے خوبصورت کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے اور وہ اس کی طرف دیکھے بغیر سہیلیوں کے ہمراہ چل دی اور وہ آنکھیں ملتا، جھپکتا حیران و پریشان یونہی خاموش نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
وہ بوجھل قدموں سے آہستہ آہستہ گلی سے باہر نکل آیا۔ اس سے چلا نہ جا رہا تھا اور وہ گلی کے موڑ پر گنڈیریوں والے کے پاس بیٹھ گیا۔ وہاں پر بیٹھے ہوئے اسے زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ نگینہ کے بھائی کے ساتھ اس کا آمنا سامنا ہو گیا اور وہ اپنی بہن کی شادی کی باتیں بتاتا ہوا اس کو گلی میں لے آیا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چلا آیا تھا لیکن وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اگر اس نے شادی کسی اور کے ساتھ ہی کرنی تھی تو میرے ساتھ مذاق کرنے کا کیا مطلب تھا؟ ابھی وہ یہ کڑیاں ملا ہی رہا تھا کہ اس کی نظر نگینہ پر پڑی جو میک اپ کروا کر واپس اپنے گھر کی طرف چلی آ رہی تھی۔ اس کی پیشانی پر سجے سونے کے چھوٹے سے جھومر پر جب روشنی پڑتی تو وہ جھلمل جھلمل کرتا بڑا حسین دِکھتا تھا اور اس کا چہرہ کھل جاتا اور سوچتا اسے میری دلہن ہونا چاہئے تھا۔ اس سے یہ سب کچھ دیکھا نہیں جا رہا تھا اور وہ چپکے سے اٹھا اور گلی سے نکل کر سیدھا کالے خان کے ہوٹل میں چلا گیا لیکن اس سے وہاں بھی نہیں بیٹھا گیا۔ چائے کا کپ ادھورا چھوڑ کر وہاں سے اٹھا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ گلی اور بازار میں کافی رونق تھی لیکن اسے ہر شے اجنبی، روکھی روکھی اور بے مقصد لگ رہی تھی۔ گھر پہنچ کر اس نے کسی سے بھی بات تک نہ کی اور بغیر کچھ کھائے پئے ایسے ہی سو گیا۔ بہنوں نے بھی اس کا کوئی نوٹس نہ لیا انہوں نے سوچا کہ شاید باپ کے ڈر سے آج جلدی سو گیا۔ رات بھر وہ سو نہ سکا تھا اسی وجہ سے وہ صبح گھر سے نکل آیا تھا اور یونہی گلیوں میں مارا مارا پھرتا رہا۔
چند دنوں بعد جب اس کی ذہنی حالت سنبھل گئی تو وہ پھر پھیری پر چلا گیا۔ وہ اس گلی میں جانا تو نہیں چاہتا تھا لیکن اس کے اندر ایک خلش تھی کہ وہ یہ جانے کہ کیا نگینہ کی شادی اس کی مرضی سے ہوئی ہے یا پھر والدین نے زبردستی اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کر دی ہے۔ یہی خلش اس کو گلی میں لے گئی تھی اور وہ گلی میں داخل ہوتے ہی حسبِ معمول فلالین فلالین کی آوازیں لگاتا اسی جگہ پر آ کر کھڑا ہو گیا جہاں وہ روز کھڑا ہوا کرتا تھا۔ حسبِ معمول آج پھر اس کی آواز سن کر دروازے پر پڑی چق اٹھی اور نگینہ مسکراتی ہوئی اس کے پاس چلی آئی۔
اگرچہ اس کی شادی کو ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا لیکن وہ اب بھی بنی سنوری نئی نویلی دلہن ہی لگ رہی تھی۔ اس پر نظر پڑتے ہی اس کی جان میں جان آ گئی اور وہ خوشی سے کھل اٹھا۔ اسے یقین ہو رہا تھا کہ اس کو صرف میرے ساتھ ہی محبت تھی، شادی تو اس کی مرضی کے خلاف ہوئی ہے اور وہ والدین کی عزت رکھنے کے لیے اپنے دولھے کے ہمراہ چلی گئی۔ نگینہ جب دروازے سے باہر نکلی تھی تو اس کے پیچھے پیچھے ایک لمبا تڑنگا خوبصورت سا نوجوان بھی چلا آیا تھا اس نے اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی تھی کیونکہ اس کی توجہ کا محور نگینہ تھی جو مسکراتی مسکراتی چلی آ رہی تھی اور آتے ہی پٹاخ سے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور وہ اسے ابھی تک دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھے جا رہا تھا اسے خود پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا بلکہ اسے تو یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔ لڑکیوں کے زور سے کھلکھلانے سے وہ اپنے خواب سے بیدار ہوا تو اس نے اپنے چاروں طرف محلے بھر کی لڑکیوں کو موجود پایا جو روز کی طرح اس کے محلے میں آنے پر اکٹھی ہو جایا کرتی تھی وہ اپنے خیالوں میں اس قدر مگن تھا کہ اسے ذرہ بھر ان کی موجودگی کا احساس نہ ہوا تھا۔ یکدم نگینہ کی آواز نے اس کو جھنجوڑ کر رکھ دیا :
’’فلالین اِن سے ملو یہ میرے شوہر ہیں۔ ‘‘
بھولا یہ الفاظ سنتے ہی ہکا بکا رہ گیا اور ٹکر ٹکر اِس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’یہ وہی بھولا ہے — بھولا بھالا، جس کی میں تم کو باتیں بتایا کرتی تھی۔ اس کی وجہ سے ایک تو ہمیں اشیاء بازار کی نسبت بہت سستی مل جایا کرتی تھیں اور ساتھ ساتھ یہ ہماری تفریح کا بھی ایک ذریعہ تھا۔ یہ بھولا سمجھتا تھا کہ یہ لڑکیاں اس سے محبت کرتی ہیں اور ہم لڑکیاں اس کو بیوقوف بناتیں۔ خیر ہم نے کیا بنانا تھا یہ تو بنا بنایا بیوقوف تھا۔ دس روپے والی چیز ایک روپے میں دے جاتا تھا صرف لڑکیوں کے ناز نخرے دیکھ کر۔ ‘‘ اس کی باتیں سن کر لڑکیاں زور سے کھلکھلانے لگیں اور نگینہ کا شوہر کچھ کہے سنے بغیر وہاں سے چلا گیا۔
بھولا خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا تھا۔
نگینہ نے منہ بسور کر کہا : ’’فلالین اب یہ چوڑیاں تم مجھے کتنے کی دو گے، اب جبکہ میری شادی ہو چکی ہے۔ ‘‘ اور وہ مارے شرم کے پانی پانی ہو گیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس قدر بے عزتی کے بعد وہ خود کے ساتھ کیا سلوک کرے۔
نگینہ کی مسلسل ناگوار توہین آمیز باتیں اس کی سہیلیوں کو بھی ناگوار گزری تھیں اور وہ اسے لعنت ملامت کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ شغل اپنی جگہ لیکن انسان کی تذلیل نہیں کرنی چاہیے۔ تم اب تذلیل پر اترتی جا رہی ہو حالانکہ تم جانتی ہو کہ یہ سب کچھ تمہاری محبت میں کرتا تھا ورنہ اسے کیا ضرورت تھی اونے پونے دام اشیاء فروخت کرنے کی۔ ہم مانتی ہیں کہ ہم اور تم اس کے ساتھ شغل کرتی تھیں لیکن اب اس کے سامنے ایسی باتیں کرنا گویا اسے ذلیل کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن نگینہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا اور وہ نفرت اور حقارت سے اپنا پاؤں زور سے زمین پر پٹخ کر اپنے گھر کی طرف چل دی اس کے بعد تمام لڑکیاں بھی ایک ایک کر کے کچھ خریدے بغیر وہاں سے منتشر ہو گئیں۔
لڑکیوں کے وہاں سے چلے جانے کے بعد وہ بھی خاموشی کے ساتھ گلی سے باہر نکل گیا حالانکہ جب وہ اپنا سودا سلف بیچ کر اٹھتا تھا تو فلالین فلالین کی صدائیں لگا کر گلی سے باہر نکلتا تھا لیکن آج وہ خاموش تھا۔ اس دن کے بعد پھر کبھی بھی فلالین کو گلی میں کسی نے بھی نہ دیکھا تھا کچھ لڑکیوں کا خیال تھا کہ فلالین صدمے سے مر گیا تھا۔
٭٭٭
بند گلی
بیس سال کے لمبے عرصے کے بعد فاروق نے دوبارہ اس سَرزمین پر قدم رکھا تھا۔ ان بیس سالوں میں شہر بہت وسعت اختیار کر گیا تھا اور اس میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ وہ ان تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے سیدھا ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے سامنے والے پارک میں چلا گیا۔ یہ پارک اس کی بہت سی پُرانی یادوں کا گہوارہ تھا یہی وجہ تھی کہ وہ سفر کی تھکاوٹ اور گرمی کی شدت کی پرواہ کیے بغیر یہاں آ گیا تھا۔ جب وہ پہلی بار لاہور آیا تھا تو اسی پارک میں اس نے اپنی پہلی رات بسر کی تھی لیکن جب اس کے لیے لاہور کے درو دیوار تنگ ہو گئے تو یہی پارک اس کا سہارا بنا۔ وہ اس شہر کی ہر یاد بھول سکتا تھا لیکن اس پارک کو نہیں بھول سکتا تھا۔ اسی لیے تو وہ اپنے دوسرے سفر کا آغاز بھی یہیں سے کر رہا تھا۔
پارک میں پہنچ کر وہ وہیں چوکڑی مار کر بیٹھ گیا۔ اپنے ہاتھ میں پکڑے رو مال سے اس نے اپنے چہرے اور گردن سے پسینہ پونچھ کر اپنے بیگ سے منرل واٹر کی بوتل نکال کر پانی پینا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ وہ شہر کی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے اپنے چاروں طرف یوں نگاہ دوڑا رہا تھا جیسے وہ لاہور میں پہلی بار آیا ہو۔ دفعتاً پچیس تیس سالہ نوجوان جو کلف لگے سفید شلوار سوٹ میں ملبوس تھا اس نے پاؤں میں پشاوری چپل پہن رکھی تھی، گویا شکل و صورت سے کھاتے پیتے گھرانے کا فرد معلوم ہوتا تھا، سامنے آ کھڑا ہوا اور اس نے بڑے عاجزانہ انداز میں کہا ’’السلام و علیکم ‘‘!
’’وعلیکم السلام ! محترم میں نے آپ کو پہچانا نہیں آپ کون ہے ؟‘‘ فاروق نے حیرانگی سے اس شخص سے پوچھا۔
وہ شخص بڑی معصوم سی شکل بنا کر اپنی بپتا سنانے لگ پڑا۔
’’بھائی جان میں بہاولپور سے یہاں نوکری کے لیے انٹرویو دینے آیا تھا یہاں پر میری جیب کٹ گئی، اب میرے پاس واپسی کا کرایہ نہیں، آپ مجھے بہاولپور کا کرایہ دے دیں۔ بھائی جان میں کوئی بھکاری نہیں ہوں، مجھے سوال کرتے ہوئے خود شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔ بھائی جان میں تین گھنٹے سے یہاں پریشان گھوم رہا ہوں، لیکن کسی سے سوال کرنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی بس آپ کو مخلص اور مہربان جان کر آپ کے پاس چلا آیا کہ شاید آپ میری مدد کر دیں۔ بھائی جان آپ کو میری باتوں کا اعتبار نہیں تو آپ سیکیورٹی کے طور پر میری اسناد اور قومی شناختی کارڈ اپنے پاس رکھ لیں۔ میں آپ کے پیسے واپس جا کے منی آرڈر کے ذریعے لوٹا دوں گا اور اپنی اسناد اور شناختی کارڈ واپس منگوا لوں گا۔ ہم زمیندار لوگ ہے، کوئی بھکاری نہیں۔ بھائی جان مجھے خود بہت شرم آ رہی ہے، اس طرح سوال کرتے ہوئے لیکن کیا کروں واپس بھی تو جانا ہے، صبح کا بھوکا ہوں۔ ‘‘ وہ روتے ہوئے اپنی تعلیمی اسناد اور قومی شناختی کارڈ فاروق کے سامنے رکھ کر بڑی مسکین سی شکل بنا کر بیٹھ گیا۔
اس شخص نے اپنی فریاد کچھ اس طرح سے سنائی کہ فاروق کا دل پسیج گیا اور وہ اس کی باتوں کو سچ مان گیا اسی لیے اس نے اس شخص کا شناختی کارڈ اور اسناد اپنے پاس رکھنا مناسب نہ جانا اور اُس کا شناختی کارڈ اور اسناد واپس لوٹاتے ہوئے اپنا دوسرا ہاتھ اپنی پتلون کی پچھلی جیب میں ڈال کر بٹوہ باہر نکال لیا، ابھی وہ بٹوے سے پیسے نکال ہی رہا تھا کہ وہ شخص بجلی کی سی تیزی سے اس پر جھپٹ پڑا اور بٹوا چھین کر رفوچکر ہو گیا۔
فاروق اس کے پیچھے بھاگا لیکن چند قدم اٹھانے کے بعد اس کے پاؤں میں اچانک موچ آ گئی اور وہ وہیں بیٹھ گیا۔ اگر اس کے پاؤں میں اس وقت موچ نہ آتی تو وہ ضرور اس شخص کو پکڑ لیتا اور اس کو اتنا مارتا کہ اس کا حلیہ بگڑ جاتا لیکن اب کیا کیا جا سکتا تھا وہ شخص تو لوگوں کے ہجوم میں گم ہو چکا تھا۔
فاروق نے سوچا کہ میں ٹیکسی میں بیٹھ کر ماڈل ٹاؤن اپنے کزن کے ہاں چلا جاؤں، ٹیکسی کا کرایہ خود ہی اس کا کزن واجد ادا کر دے گا۔ اس سوچ کے آتے ہی اس کی نظریں ٹیکسی کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھومنے لگیں۔ دفعتاً اس کی نظر مسجد کے بڑے دروازے سے کچھ ہی آگے لگی گنے کی مشین پر جا کر رک گئی۔ وہاں ایک چھوٹے سے قد والا شخص میلی بنیان، گھٹنوں سے اونچی شلوار پہنے بڑی مستعدی سے گنے کی مشین سے گنوں کا رس نکالتا اور ٹھنڈے ٹھنڈے رس کے گلاس گاہکوں کو دے رہا تھا۔
اِس شخص پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ جلدی سے جا کر اس شخص کو مشین میں اس طرح بیل دے جیسے یہ گنے کو بیلتا ہے۔ اس طرح اس کا سارا خون نچڑ جائے گا اور میرے تن بدن میں ٹھنڈ پڑ جائے گی۔ یہ وہی شخص تھا جس کی مکاری اور چال بازی کی وجہ سے وہ شہر چھوڑ کر بھاگا تھا۔
یہ فاروق کا کالج فیلو حسیب تھا۔ ان دونوں میں کبھی اس قدر گہری دوستی ہوا کرتی تھی کہ کالج کے دوسرے طالب علم ان کی دوستی کی تعریف ایسے کرتے کہ یہ دونوں دو جسم اور ایک جان ہے۔ پھر یکایک ان دونوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ ان دونوں میں پھوٹ پڑنے کی اصل وجہ کالج یونین کی صدارت تھی۔ صدارت حاصل کرنے کے لیے وہ دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے تھے۔
فاروق زمیندار گھرانے کا چشم و چراغ تھا، آرام و آرائش اس کے گھر کی لونڈی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ دنیا کی جو چیز اُسے پسند آتی دولت کے بل بوتے پر خریدنا چاہتا تھا۔ جب اسے یونین کی لیڈری کا شوق چڑھا تو اس نے روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہا دیا لیکن کامیاب پھر بھی نہ ہو سکا۔ اس کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ حسیب تھا جو گزشتہ دو سال سے یونین کا بلامقابلہ صدر چلا آ رہا تھا۔ لیکن اب فاروق ہر قیمت پر صدارت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اس نے حسیب کے مقابلے میں اپنا ایک گروہ بھی بنا لیا تھا۔
حسیب بھی تو اتنی آسانی سے اپنی چوہدراہٹ جاتے دیکھ نہیں سکتا تھا اور اس نے اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے کے لیے ہر وہ ہربہ استعمال کیا جو وہ بڑی آسانی سے استعمال کر سکتا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں وہ فاروق کے گروہ کو دھمکیوں اور بدمعاشی سے توڑنے میں کامیاب ہو گیا اور فاروق کا کام تمام کرنے کے لیے اس نے شہر کے تمام غنڈے اس کے پیچھے لگا دیں جو بھوکے کتے کی طرح اس کی تلاش میں تھے۔ فاروق کا تو خیال تھا کہ وہ اپنی دولت کے بَل بوتے پر حسیب کو منظر سے ہٹا کر خود صدر بن جائے گا لیکن یہ تو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ حسیب اس طرح غنڈے اس کے پیچھے لگا دے گا۔ وہ غنڈوں کو بھی خرید سکتا تھا لیکن وقت نے اسے اتنی مہلت ہی نہ دی تھی کہ وہ اپنے بچاؤ کے لیے جد و جہد کرتا کیونکہ اس نے خود اپنی نادانی کی وجہ سے اپنی سگی خالہ کو بھی اپنا دشمن بنا لیا تھا۔ چنانچہ اس کے حق میں یہی بہتر تھا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے کیونکہ وہ اکیلا دو محاذوں پر لڑ نہیں سکتا تھا۔ حالات کی نزاکت کو سمجھ کر وہ اپنا ملک چھوڑ کر امریکہ چلا گیا۔
بیس سال کے بعد وہ یہاں گھرے مردے اکھاڑنے نہیں آیا تھا بلکہ وہ تو یہاں اپنا کاروبار شروع کرنے کے سلسلے میں آیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے دماغ نے یہ سوچنا بھی گوارا نہ کیا کہ یہ شخص اتنا غریب کیسے ہو گیا وہ تو اس کی طرف دیکھنا بھی گناہ سمجھتا تھا اسی لیے تو وہ اس پر دو حرف بھیج کر دوسری طرف ہو گیا جہاں اسے ٹیکسی مل گئی اور وہ ماڈل ٹاؤن کی طرف روانہ ہو گیا۔
ٹیکسی اپنی راہوں پر رواں دواں تھی اور وہ خاموش بیٹھا کسی گہری سوچ میں گھرا ہوا تھا۔ لیکن اس کی پر شوق آنکھیں گرد و پیش کو پہچاننے کی جستجو میں تھیں۔ اردگرد کا ماحول اس نے ان گنت بار دیکھا ہوا تھا لیکن اب بیس سال کے بعد اس میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ سڑک کے دونوں جانب خوبصورت اور خوشنما عمارتیں وجود میں آ چکی تھیں۔ وہ اس بدلے ہوئے ماحول کو پُرتجسس نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
بیس سال دیارِ غیر میں رہنے کے باوجود بھی وہ وہاں پر اجنبیوں کی سی زندگی بسر کر رہا تھا، اجنبیت کا احساس اس کے وجود کو ریزہ ریزہ کر دیتا تھا اور اس کا وجود اپنی مٹی کی خوشبو کے لیے تڑپ اٹھتا۔ آخر مٹی کی کشش اس کو وطن واپس لے آئی۔ اپنے وطن میں وہ اسی شہر سے اپنے نئے دور کا آغاز کرنا چاہتا تھا جہاں کے درو دیوار خود اسی کی کم عقلی کی وجہ سے تنگ ہو گئے تھے۔ یہ شہر اس کا آبائی شہر نہ ہونے کے باوجود بھی اپنا سا تھا، یہاں اس نے بہت کچھ کھویا اور پایا تھا۔ اس شہر کی یاد اسے ہر دم تڑپاتی تھی۔ یہ اس شہر کی محبت ہی تو تھی کہ جب وہ امریکہ سے واپس اپنے گاؤں پہنچا تو اس کا وہاں پر دل نہ لگا تو اس نے یہ پختہ ارادہ کر لیا کہ اسی شہر کو اپنا مستقل آشیانہ بناؤں گا جس کو میں کبھی نہ بھول پایا ہوں۔ چنانچہ اس شہر میں اپنا مستقل آشیانہ بنانے کا ارادہ لے کر اپنے کزن کے پاس آیا تھا۔
’’لیجئے بابو جی ماڈل ٹاؤن اے بلاک آ گیا۔ اب بتائیں آگے کہاں جانا ہے۔ ‘‘ ٹیکسی ڈرائیور کی آواز نے اس کی سوچوں کو متزلزل کر دیا اور وہ چونک سا گیا۔
اپنے حواس پر قابو پا کر وہ دوبارہ ٹیکسی ڈرائیور سے مخاطب ہوا :
’’بھائی اسلامیہ ہائی سکول کے ساتھ والی گلی میں 45نمبر گھر پہنچا دو۔ ‘‘
’’لیجیے بابو جی 45 نمبر کوٹھی آ گئی۔ ‘‘
وہ ٹیکسی سے نیچے اتر کر ٹیکسی ڈرائیور کی طرف متوجہ ہوا :
’’بھائی جان آپ ذرا رکیے میں اندر سے کرایہ بھجواتا ہوں۔ ‘‘
فاروق دروازے پر پہنچ کر رک گیا اس نے کال بیل دبانے کے لیے دو بار ہاتھ بڑھایا اور دونوں بار جھجک کر ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی کہ بیس سال کے طویل عرصے کے بعد آیا ہوں اور ہاتھ خالی۔ کیسے ان سے ٹیکسی کے کرائے کا کہوں گا۔ میرا چچا زاد بھائی اور اس کی بیوی کیا سوچے گی، میں کیسے ان کا سامنا کروں گا، وہ یہی سوچتے سوچتے چند لمحے بے حس و حرکت کھڑا رہا اور ٹھہری ہوئی نظروں سے یوں ہی دروازے کو گھورتا رہا پھر اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور زور سے سانس لے کر اپنے اندر ہمت پیدا کرتے ہوئے اس نے کال بیل دبا ہی دی۔
’’کون‘‘ اندر سے نسوانی آواز ابھری۔
’’میں فاروق ہوں واجد کا تایا زاد امریکہ سے آیا ہوں۔ ‘‘
’’فاروق بھائی‘‘ نسوانی آواز نے حیرت سے کہا۔
چند ثانیے بعد دروازہ کھلا اور ایک خاتون نمودار ہوئی اور تجسس سے فاروق کو گھورتے ہوئے بولی :
’’بھائی جان میں آپ کی بھابھی ہوں، آپ اندر آئیں، باہر کیوں کھڑے ہے۔ ‘‘
’’ہاں — میں ٹیکسی سے سامان اور کرایہ ادا کر کے آتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ابھی مڑنا ہی چاہتا تھا کہ اس کی بھابھی نے روک لیا اور کہنے لگی :
’’بھائی جان آپ اندر آئیں، ملازم خود ہی کرایہ ادا کر کے سامان اٹھا لائے گا‘‘ یہ الفاظ سنتے ہی فاروق کے دل کی دھڑکن قدرے تھمی اور اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس کو شرمندگی سے بچا لیا ہے۔
فاروق چائے کا گھونٹ لے کر بھابھی سے مخاطب ہوا:
’’بھابھی یہ واجد کب لوٹتا ہے۔ ‘‘
’’بس آتے ہی ہوں گے وہ تو آپ کے آنے کی خوشی میں آج آفس بھی نہیں گئے۔ بس آپ کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے باہر کو گئے تھے۔ ‘‘ یہ الفاظ کہے ہی تھے کہ اوپر سے واجد نمودار ہو گیا۔
دونوں کے چہرے کی رنگت جذباتی کشاکشی کے باعث آہستہ آہستہ بدل رہی تھی اور دونوں کے ہونٹ خوشی سے کانپ رہے تھے اور آنکھوں میں خوشی کے آنسو امنڈ پڑے تھے وہ چند لمحے یونہی ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر یکایک وہ دونوں تیزی سے ایک دوسرے کی طرف بڑھتے ہوئے بغل گیر ہو گئے۔
اس رات ان دونوں کے درمیان دیر تک باتوں کا دور چلتا رہا، وہ ڈھیر ساری باتیں وہ جو بیس سال تک ایک دوسرے سے نہ کر سکے تھے وہ کر ڈالی بہت سی پرانی یادوں کو روشن کیا، عزیز، رشتے داروں اور یار دوستوں کی باتیں کی گئیں، باتوں میں ہی کافی رات بیت گئی۔
دوسرے دن واجد اپنی ضروری میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے آفس چلا گیا تو فاروق گھر سے گھومنے پھرنے کے لیے نکل پڑا وہ اس شہر کو گھوم پھر کر دیکھنا چاہتا تھا جس کو وہ کبھی نہ بھولا تھا ابھی وہ گلی کی نکڑ پر ہی پہنچا تھا تو اسے تذبذب نے گھیر لیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ سامنے خوبصورت اور قیمتی بنگلے سے جو عورت گاڑی میں بیٹھ کر باہر گئی ہے وہ اس کی پرانی محلے دار بلو تھی۔ اس عورت پر نظر پڑتے ہی اس کے ذہن میں وہ تلخ یادیں اُبھر پڑیں جس کو وہ اپنے ماضی کے مزار میں کب کا دفنا چکا تھا، وہ ان کو یاد کرنا بھی نہ چاہتا تھا لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی وہ یادیں ابھر کر اس کے سامنے آ کھڑی ہوئیں۔
مسجد کے باہر لوگوں کا جم غفیر تھا تا حد نگاہ لوگوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ اس مجمعے میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جن کو اصل واقعے کا علم تک نہ تھا مگر وہ چہ میگوئیاں سن کر اکٹھے ہو گئے تھے اور واقعے کی اصل روح کو جاننے کے لیے ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔ جن لوگوں کو اصل واقعے کی تھوڑی بہت سُدھ بُدھ تھی وہ اس واقعے کو یوں بیان کر رہے تھے جیسے واقعہ خود ان کے سامنے رونما ہوا ہے۔ محلے کی عورتوں نے تو اس واقع کو پوری بستی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلایا ہوا تھا جس کسی کے کان میں اس واقع کی ذرہ سی آہٹ پہنچتی وہ فٹافٹ وقوعہ کی طرف بھاگتا خصوصاً عورتیں جھوک در جھوک ٹولیوں کی شکل میں مسجد کے پاس اکٹھی ہو رہی تھیں۔ مائیں بچوں کو چھاتیوں سے لگائے بھاگم بھاگ اتنی جلدی سے گھر سے نکلی تھیں کہ ان کو اتنی ہوش نہ رہی تھی کہ وہ پاؤں میں جو سلیپر پہن رہی ہے وہ دونوں ایک ہی سیٹ کے ہے کہ نہیں۔ غرض آج کتنے لوگ آس بھری نگاہوں سے مولوی صاحب کے چہرے کو دیکھ رہے تھے اور مولوی صاحب لوگوں کو صبح کے واقعے کی مکمل تفصیلات سنا رہے تھے۔
’’آج صبح جب میں فجر کی اذان پڑھنے کے لیے مسجد میں آیا تو میری نگاہ مسجد کے مین دروازے کی سیڑھیوں پر پڑی وہاں پر دو کتے کپڑے میں لپٹی کسی چیز کو نوچنے کی جستجو میں تھے وہ اس کو نوچنے کے لیے آگے بڑھتے پھر یکدم پیچھے ہٹ جاتے۔ میں یہ منظر دیکھ کر ٹھٹک سا گیا پھر ہمت باندھ کر آگے بڑھا تو دیکھا کپڑے میں چند گھنٹوں کا بچہ لپٹا ہوا ہے، اس کا جسم خون آلود تھا۔ اس کی خون آلود گردن پر ہاتھوں کے نشانات واضح تھے جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ کسی نے پہلے اس کا گلا گھونٹ کر مارنے کی کوشش کی لیکن پھر شاید اس کا دل نہ مانا ہو اور وہ اپنا گناہ چھپانے کے لیے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو یہاں پھینک گیا۔
بچہ جب اپنے ہاتھ پاؤں ہلاتا تھا تو کتے ڈر کر پیچھے ہٹ جاتے تھے، نہ جانے کتنی دیر تقدیر اس طرح بچے کو ان کتوں سے بچاتی رہی۔ میں نے آگے بڑھ کر بچے کو کتوں سے بچایا اور اسے اپنے گھر لے گیا۔ میری بیوی نے اس کو نہلا دھلا کر کپڑے پہنا دیے ہے۔ اب آپ لوگ بتائیں ہمیں اس نازک موقع پر کیا کرنا چاہیے ؟ کیا یہ معاملہ پولیس کے سپرد کر دینا چاہیے یا پھر اس کا کوئی اور حل نکالنا چاہیے۔ مولوی صاحب نے ساری صورت حال سنا کر معاملہ محلے والوں کے سپرد کر دیا تھا۔
محلے والوں کے جمگھٹے میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا تھا کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ فوراً پولیس کو اطلاع کر دینی چاہیے تاکہ وہ لوگ بے نقاب ہو جائیں جنہوں نے محلے کی عزت خاک میں ملائی ہے ایسے سنگدل اور بے غیرت لوگوں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچنا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی اور ایسا واقع رونما نہ ہو سکے۔ لیکن اسی مجمعے میں موجود کچھ سمجھ دار بزرگوں کا خیال تھا کہ اس طرح اصل مجرم تو شاید پکڑے نہ جائیں البتہ بہت سے شرفا کو پولیس تنگ ضرور کرے گی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کسی اور محلے میں یہ واقع رونما ہوا ہو اور وہ لوگ اس کو یہاں پھینک گئے ہوں تاکہ پولیس ان کو ڈھونڈ نہ سکے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ کوئی شخص جو اس بچی کو اپنانا چاہے وہ اس بچی کو اپنے ساتھ لے جائے یہی اس بچی کے مستقبل کے لیے بہتر ہو گا اور محلے کی عزت کے لیے بھی مناسب رہے گا۔ سب لوگ اس تجویز کے حق میں ہو گئے تو بہت سے لوگوں نے فوراً اس بچی کو گود لینے کی خامی بھر لی تھی۔
آخرکار مولوی صاحب نے محلے کے معزز لوگوں کے مشورے سے یہ بچی اسی محلے کی ایک بیوہ عورت کے سپرد کر دی تھی، اس عورت کی اپنی تو کوئی اولاد نہ تھی اور وہ اس دنیا میں اکیلی تھی۔ شاید اسی لیے محلے داروں نے اس کی اپیل منظور کرتے ہوئے یہ بچی اس کے سپرد کر دی تھی تاکہ اس کا اکلاپا دور ہو سکے۔ بچی کی تحویل کے بعد لوگ وہاں سے منتشر ہونا شروع ہو گئے تھے۔
اسی مجمعے میں وہ شخص بھی شامل تھا جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا تھا یعنی بچی کا حقیقی باپ بھی شامل تھا۔ جب مجمع منتشر ہونا شروع ہوا تو وہ اکیلا گلی کی آخری نکڑ کے نزدیک غلاظت کے ڈھیر کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور بکھرتے ہوئے لوگوں کو عجیب نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس نے غلاظت کے اس ڈھیر پر کھڑے کھڑے سوچا :
’’کہ کیا میں ایسے خوابوں کی تعبیر کے لیے شہر آیا تھا ہرگز نہیں مجھے تو شہلا کی سچی محبت شہر لے آئی تھی اور میں شہلا کی محبت کی چنگاریاں دل میں دبائے شہر تعلیم حاصل کرنے کا بہانہ بنا کر چلا آیا تھا۔ ماں جیسی محبت کرنے والی خالہ کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی، میں خالہ کے اس احسان کو بھول نہیں سکتا تھا جب مجھے ہاسٹل میں داخلہ نہیں مل رہا تھا اور یہاں رہنے کا کوئی خاطر خواہ انتظام بھی نہیں ہو رہا تھا جس کی وجہ سے مجھے سخت پریشانی لاحق تھی۔ اِن مشکل حالات میں خالہ ہی تھی جس نے مجھے اپنے گھر رہنے کا گویا حکم صادر کر دیا تھا میں بھی تو یہی چاہتا تھا۔ ‘‘
خالہ کے گھر قیام پذیر ہو کر اس کی دلی تمنا بھر آئی تھی اور وہ عشق میں اس قدر اندھا ہو گیا کہ نہ جانے اس سے کتنی بار نادانی ہو گی اور وہ اپنے نفس پر کبھی بھی کنٹرول نہ کر سکا تھا۔ اس کا احساس اسے تب ہوا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ شہلا نے بھی تو اسے بروقت نہ بتایا تھا وہ بتاتی بھی کیسے وہ خود تو مہینہ مہینہ بھر گھر نہ لوٹتا ہر وقت یونین کی لیڈر شپ حاصل کرنے کے چکر میں لگا رہتا۔
وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو یوں بے یارو مددگار نہ چھوڑتا اگر حسیب نے اس کے پیچھے غنڈے نہ لگائے ہوتے وہ ضرور شہلا سے شادی کر لیتا لیکن اب کچھ بھی تو نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حالانکہ اس نے خالہ سے مہلت بھی مانگی تھی لیکن انہوں رات کی تاریکی میں ایک گھنٹے کا بچہ اس کی گود میں تھما دیا اور حکم دیا :
’’اگر تو فوراً شہلا سے شادی نہیں کر سکتا تو اس بچی کو یہاں سے لے کر چلے جاؤ اگر شہلا کے بھائیوں کو معلوم ہو گیا تو وہ تمہارا خون کر دیں گے۔ ‘‘ ان مشکل حالات میں وہ کہاں جاتا اس کے تو چاروں طرف موت منڈلا رہی تھی، ایک طرف حسیب کے بھیجے ہوئے غنڈے اور دوسری طرف شہلا کے بھائیوں کا ڈر۔
اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ اس معصوم بچی کو یہیں کہیں خدا کے سہارے چھوڑ دے تاکہ کوئی نہ کوئی اس کو اپنا لے، جب حالات اس کے حق میں بہتر ہو جائیں گے تو وہ کسی نہ کسی بہانے سے اپنی بچی کو واپس لے لیں گا۔ یہ سوچ کر اُس نے بچی کو مسجد کی سیڑھیوں پر رکھ دیا تھا لیکن جب بچی محفوظ ہاتھوں میں چلی گئی تو اس کی جان کو سکون ملا اور اس کے دل میں خیال پیدا ہوا :
’’جب حالات میرے حق میں بہتر ہو جائیں گے تو میں شہلا سے شادی رچا کر اپنی بچی اس عورت سے واپس لے لوں گا۔ میں ہرگز ہرگز اپنی بچی کو اس جیسی عورت کے پاس نہیں رہنے دوں گا کیونکہ یہ عورت جو دھندہ کرتی ہے وہ قابل عزت نہیں، میں اپنی بیٹی پر اس کا سایہ زیادہ عرصے نہیں پڑنے دوں گا اور جلد از جلد اپنی بیٹی کو اس سے واپس لوں گا۔ ‘‘
لیکن حالات اس کی سوچوں سے برعکس نکلے یا اس نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ ہی نہ کیا، بہرکیف اسے اپنی جان بچانے کے لیے ملک چھوڑ کر امریکہ جانا پڑا تھا۔ امریکہ پہنچ کر وہ وہاں کے ماحول میں اس طرح رچ بس گیا کہ اسے شہلا اور اپنی بچی کا ذرہ برابر احساس نہ رہا کہ وہ کس حالت میں ہوں گے وہ ان کو ایسے بھول گیا جیسے وہ کبھی ان کو جانتا تک نہ ہو۔ لیکن اب جب بیس سال کے لمبے عرصے کے بعد اس عورت پر نظر پڑی جس نے اس کی بے سہارا بچی کو گود لیا تھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے، اس کو ایک عجیب سی افسردگی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا دل ڈوب رہا ہو۔ ایسی حالت میں اس نے آگے جانے کا ارادہ ترک کیا اور سست قدموں سے واپس گھر کی طرف لوٹ پڑا۔
اس کے بدن پر لرزہ طاری تھا جس کی وجہ سے قدم آگے اٹھانے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی، کیونکہ خوف نے اس کے اعصاب پر بُرا اثر ڈالا تھا اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہا اور اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا گھر تک پہنچ ہی گیا۔
دن کی روشنی آہستہ آہستہ ماند پڑ رہی تھی اور اس کی جگہ رات کی تاریکی قبضہ جما رہی تھی۔ غرض دن بھر کی سخت گرمی کے بعد موسم خاصا خوشگوار ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود اس کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی اور اس کے ذہن میں ایک ہی سوال منڈلا رہا تھا کہ یہ عورت اتنی امیر کیسے ہو گئی کیا اس نے میری بیٹی کو بھی— یہ سوچتے ہی اس کے جسم میں کپکپاہٹ ہونے لگتی اور وہ شرمندگی سے پانی پانی ہو جاتا۔ اتنے میں واجد آفس سے لوٹ آیا۔
فاروق نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنی ذہنی کشاکشی کو واجد سے چھپائے رکھے وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔ اس کی پریشانی بھی بجا تھی کیونکہ وہ اس عورت کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ اس عورت کا نام بلو تھا، اس کی شہرت خصوصاً محلے کے نوجوانوں میں اچھی نہ تھی۔ اس نے محلے میں جسم فروشی کا کاروبار محدود پیمانے پر شروع کیا ہوا تھا جس کا علم محلے کے چند نوجوانوں کے سوا کسی اور کو نہ تھا۔ وہ کبھی بھی اس جیسی عورت کے پاس اپنی بیٹی کو جانے نہ دیتا لیکن حالات اس کے کنٹرول میں نہیں رہے تھے اور وہ حالات کے سامنے بے بس ہو چکا تھا۔
آج رات بھی گزشتہ رات کی طرح خوب رت جگا ہوا اور وہ باتوں ہی باتوں میں جس مہارت کے ساتھ گفتگو کا رخ اس عورت کی طرف موڑنے میں کامیاب ہوا تھا اتنی ہی مہارت سے وہ واجد سے اس عورت کے متعلق وہ سب کچھ پوچھنے میں کامیاب ہو گیا جس نے اس کو پریشان کر رکھا تھا۔
واجد بتا رہا تھا کہ مجھے اس علاقے میں آئے آٹھ برس بیت چکے ہیں میں اس عورت کو انہی آٹھ برسوں سے جانتا ہوں۔ ویسے ان عورتوں کے متعلق مجھے بہت سے لوگ قصے کہانیاں سناتے تھے لیکن مجھے ان کی باتوں پر یقین نہیں آتا تھا لیکن پھر مجھے رفتہ رفتہ ان سب باتوں پر یقین آنے لگا جن پر پہلے نہیں آتا تھا۔ بس تمہیں بتانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ عورت اور اس کی بیٹی اتنی خبیث ہے کہ ان دونوں کے متعلق ذکر کرنا بھی فضول ہے۔ اس لیے کچھ اور بات کی جائے۔
اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں، ہونٹوں پر لرزہ طاری ہو گیا جس کی وجہ سے اس کے اعصاب خستہ اور کشیدہ ہو رہے تھے پھر بھی وہ خود کو سنبھال کر بات کرنے لگا۔
’’واجد مجھے وہ سب کچھ بتا دو جو تم اس کے متعلق جانتے ہو، میں سننا چاہتا ہوں۔ ‘‘
واجد اٹھ کھڑا ہوا الجھن اور تذبذب میں گھرا ہوا۔ لیکن تم کیوں اس کے متعلق جاننا چاہتے ہو، کیا تم اس کو پہلے سے جانتے ہو— وہ مزید کچھ کہنا چاہتا تھا معاً رک گیا کیونکہ وہ ایک الجھن سی محسوس کر رہا تھا لیکن پھر نہ جانے کیوں وہ اس کے سامنے بیٹھ کر بڑے پیار سے وہ سب کچھ سنانے لگ پڑا جو وہ جانتا تھا۔
فاروق مجھے نہیں معلوم ان عورتوں کا ماضی کیسا رہا ہے ہاں البتہ مجھے ان کے حال کے متعلق بہت کچھ معلوم ہے وہ بھی اس طرح کہ میں خود بھی ان عورتوں کی مکاری کا شکار رہ چکا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تم ان سے محفوظ رہو گے۔
فاروق بھائی میری پہلی ملاقات اس عورت کے ساتھ اس وقت ہوئی جب میں اپنا آبائی گھر چھوڑ کر ماڈل ٹاؤن میں آباد ہوا تھا۔ محلے داری ہونے کی بناء پر میرے ان کے ساتھ تعلقات بہت گہرے ہو گئے یا یوں کہہ لیجیے ان عورتوں نے مجھے مالدار اسامی سمجھتے ہوئے میرے ساتھ زبردستی تعلقات استوار کر لیے بہرحال بات جو بھی تھی۔ میرا ان کے گھر بہت زیادہ آنا جانا ہو گیا اسی اثناء میں اس کی بیٹی روبی نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ میں اس سے عمر میں کافی بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ دو بچوں کا باپ بھی ہوں۔ اس نے میرے گرد ایسا محبت کا جال پھلایا کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں پھنستا ہی چلا گیا۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ اس وقت میری عقل ماند پڑ گئی تھی اور میں بہت جلد اس کی محبت کو حقیقت جان کر اس کے جال میں بری طرح پھنستا چلا گیا۔ رفتہ رفتہ میں اس کی محبت میں اس قدر اندھا ہو گیا تھا کہ بلا کچھ سوچے سمجھے اپنی حق حلال کی کمائی ان پر اندھا دھند لٹانے لگا اور ان کی خواہشات تھی کہ بڑھتی ہی چلی جاتی تھیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ آخرکار میری موجودہ نوکری طویل غیر حاضری اور عدم دلچسپی کی بناء پر خطرے میں پڑ گئی اور میں بہت سے لوگوں کا بھی مقروض ہو گیا۔ میں نے کئی بار اس عورت سے کہا بھی کہ اب وہ اپنی بیٹی کی شادی میرے ساتھ کر دے لیکن وہ حیلے بہانے بناتی رہتی تھی کبھی بھی اس نے شادی کی حامی نہ بھری کیونکہ وہ عورت مکار تھی اور میں کم عقل، وہ تو صرف مجھے لوٹنا چاہتی تھی اور میں بڑا بھولا بنا لٹتا جا رہا تھا اور مجھ پر قرض کا بوجھ رفتہ رفتہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا، آخرکار میرے پاس ان کو دینے کے لیے کچھ بھی نہ رہا تو ان عورتوں نے مجھ سے پیچھا چھڑوانے کے لیے مجھ پر آبرو ریزی کا جھوٹا مقدمہ ڈلوانے کی کوشش کی، میں تو پائی پائی کا محتاج ہو چکا تھا اور مزید کسی مصیبت میں پھنسنا نہیں چاہتا تھا اس لیے میں نے ان عورتوں سے معافی مانگ کر اور ان کو یہ یقین دہانی کروا کر پیچھے ہٹ گیا کہ میں اب ان سے کسی قسم کا کوئی تعلق واسطہ نہ رکھوں گا۔ جب میں ان سے مکمل طور پر کنارہ کش ہو گیا اور مجھ پر عشق کا بھوت اتر گیا تو پھر مجھے ان کی حقیقت کا پتہ چلا کہ ان عورتوں کا کاروبار ہی یہی ہے کہ وہ مجھ جیسے لوگوں کو پھنسا کر ان کو ٹکا ٹوکری کر دیتی ہیں۔ انہوں نے تو مجھے بھی کہیں کا نہیں چھوڑا تھا، وہ تو میرے اللہ کی کرم نوازی کہ میں دوبارہ سنبھل گیا اور اپنا وہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا جو میں اپنی حماقت کی وجہ سے کھو بیٹھا تھا۔
فاروق میں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا کہ ان عورتوں نے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ اپنے تعلقات بہت سے سیاست دانوں اور راؤسا کے ساتھ استوار کر لیے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی بیٹی روبی ملک کی مشہور ماڈلز بن گئی اور اس کے اس کینڈل اور ان کے قتل اور اغواء کی دھمکیاں جیسی خبریں اخبارات میں چھپتی رہیں لیکن میں نے کبھی بھی ان خبروں اور ان عورتوں پر توجہ نہیں دی کیونکہ میں جانتا تھا ان مکار عورتوں کو، کیونکہ میں خود ان کے ہاتھوں لٹ چکا تھا۔
واجد کی باتیں سن کر وہ سٹ پٹا گیا تھا اور یوں ہی ساکت و صامت بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ دفعتاً واجد کو ایسے محسوس ہوا جیسے یہ میری باتوں پر توجہ نہیں دے رہا اور وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
’’فاروق ٹھیک تو ہو‘‘۔
’’ہاں … میں بالکل ٹھیک ہوں، اور سُن رہا ہوں تمہاری باتیں ‘‘ اس سے پہلے کہ واجد اپنی بات کو مزید آگے بڑھتا دفعتاً گلی شدید ترین فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھی اور وہ اپنا موضوع وہیں پر ہی ختم کر کے اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے چلے گئیں کیونکہ ان کے خیال میں باہر جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔
بے یقینی اور بے سروسامانی اس کے دل و دماغ پر طاری تھی کہ میں اب کیا کروں، ’’کیا مجھے اپنی بیٹی سے ملاقات کرنی چاہیے یا نہیں ‘‘ ابھی وہ کوئی فیصلہ کر ہی نہ پایا تھا کہ نیند نے اس کو اپنی آغوش میں لے لیا۔
صبح کے اخبار نے ان دونوں کو ششدر کر کے رکھ دیا کیونکہ اخبار کی مین سرخی ہی یہی تھی مشہور ماڈلز روبی اور اس کی والدہ کو رات کسی نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ ‘‘
یہ خبر پڑھتے ہی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پورے وجود پر چیونٹیاں سی رینگ رہی ہو اور اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بے حد اکیلا ہو گیا ہو۔ پورا شہر اسے ویران نظر آ رہا تھا۔ زندگی بالکل بے معنی اور بے مقصد محسوس ہو رہی تھی۔ کبھی تو اسے یوں محسوس ہوتا جیسے زندہ رہ کر وہ کوئی جرم کر رہا ہے۔ پہلی بار اس پر یہ حقیقت عیاں ہوئی تھی کہ اس نے اپنے وطن سے بھاگ کر اپنی جان تو بچا لی تھی لیکن دو زندگیوں کو زندہ درگور کر دیا تھا اور اس کے ساتھ اپنی اس خالہ کو بھی دُکھ پہنچایا تھا جس کی محبت کا سایہ اس کے لیے مضبوط سہارا اور پناہ گاہ تھی جس میں وہ دنیا کے ہر دُکھ سے محفوظ ہو جاتا تھا۔
دُکھ اور مایوسی کا المناک اندھیرا کچھ دن اس پر مسلط رہا پھر رفتہ رفتہ وہ سنبھل گیا۔
٭٭٭
باپ
حارث چند ماہ سے دیکھ رہا تھا کہ اس کا جواں سال بیٹا کچھ زیادہ ہی فضول خرچ ہوتا جا رہا ہے حالانکہ اس کے ایسے کوئی مشاغل بھی نہ تھے اور نہ ہی اس کے ایسے یار دوست تھے جن کے ساتھ وقت گزار کر وہ فضولیات کرتا۔ وہ تو بچپن سے ہی ایسا رہا ہے جیسے اس پر یہ محاورہ بالکل فٹ بیٹھتا ہو ’’ملا کی دوڑ مسجد تک‘‘ یعنی وہ صبح سکول کے لیے نکلتا اور پھر سکول سے چھٹی ہونے پر سیدھا گھر لوٹ آتا اور کھانا کھا کر اکیڈمی پڑھنے کے لیے چلا جاتا بس دن بھر میں اس کی یہی مصروفیات تھیں۔ اکیڈمی سے واپسی کے بعد اس کی اور کوئی مصروفیات بھی تو نہ ہوتی تھیں پھر یکایک اسے کیا ہو گیا۔ بس جب سے اس نے کالج میں داخلہ لیا ہے اسی دن سے ہی اس کے تیور بدلتے جا رہے ہیں اور وہ یکسر اپنے بچپن کے معمولات کو بھول کر کسی انجانی بھول بھلیوں میں پھنستا چلا جا رہا ہے کہیں یہ کوئی نشہ وغیرہ تو کرنے نہیں لگ گیا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا جس کی وجہ سے وہ سخت پریشان تھا حالانکہ حارث کے پاس روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ وہ تو دل و جان سے اپنی تمام جائداد اپنی اولاد پر خرچ کرنا چاہتا تھا لیکن اس طرح نہیں جس طرح اس کا پیسہ اس کا اپنا خونِ جگر برباد کر رہا تھا۔ آخرکار وہ حقیقت اس پر عیاں ہو گئی جس نے اس کی راتوں کی نیند خراب کی ہوئی تھی وہ اس طرح کہ وہ ایک دن محلے کی مسجد سے نماز سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف چلا آ رہا تھا کہ اس کا سامنا محلے ہی کے ایک بزرگ کے ساتھ ہو گیا اور وہ باتوں ہی باتوں میں کہنے لگا:
’’حارث صاحب ہم دونوں تقریباً بیس سال سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں لیکن آپ نے ہم کو بتایا تک نہیں اور چپکے سے بیٹے کی منگنی کر دی۔ ‘‘
’’نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں یقیناً آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی۔ ‘‘
ہرگز نہیں پورا محلہ جانتا ہے کہ اس کی منگنی ملکوں کے ہاں ہو چکی ہے۔ میں نے اکثر اسے ان کے گھر آتے جاتے اور اپنی منگیتر کو کالج چھوڑنے، جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ ‘‘
اس نے بڑی ہوشیاری سے وہ سب کچھ اشاروں ہی اشاروں میں بتا دیا جو ایک محلے دار ہونے کے ناطے اس کا فرض بنتا تھا۔ ان باتوں نے حارث کے ذہن میں طوفان برپا کر دیا تھا کیونکہ وہ خود ان لوگوں کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ گویا اس وقت وہ ایسے ذہنی خلفشار میں مبتلا تھا جیسے اپنے آپ کو کسی بڑے امتحان کے لیے تیار کرنے کے لیے آزما رہا ہو۔ اس کے ذہن میں جو فوری خیال ابھرا وہ یہ تھا کہ ان غلط قسم کے لوگوں کو پیسے کا لالچ دے کر محلے سے بھگا دوں، اس طرح یہ میرے بیٹے کا پیچھا چھوڑ دے گی، لیکن وہ اپنی ہی تجویز کو دوسرے ہی لمحے رد کر دیتا کہ اس طرح اس کا اپنا بیٹا بجائے راہ راست پر آنے کے الٹ بگڑ ہی نہ جائے۔ ڈور کا دوسرا سرا اس کے ہاتھ نہیں آ رہا تھا جس کی وجہ سے پریشان تھا لیکن مایوس نہیں تھا اور اس پریشانی کے عالم میں وہ بوجھل ذہن اور تھکے قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا تھا۔ ذہنی تھکاوٹ درد بن کر اس کے انگ انگ میں دھڑک رہی تھی۔ گھر کے اندر داخل ہوا ہی تھا کہ عین اسی وقت لوڈشیڈنگ ہو گئی جس کی وجہ سے آناً فاناً اندھیرا چھا گیا۔ ڈیوڑھی عبور کرتے ہوئے جب وہ اپنے کمرے میں داخل ہونے لگا تو اس کی پشت کے ساتھ کوئی شخص ٹکرایا وہ تیزی سے پیچھے مڑا تاکہ معلوم کر سکے کہ وہ کس کے ساتھ اندھیرا میں ٹکڑا گیا ہے۔ اس نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کا بیٹا کھڑا تھا اس نے ہاتھ میں مضبوطی سے بھرا ہوا لفافہ تھام رکھا تھا۔ یوں بیٹے کے ہاتھ میں بھرا ہوا لفافہ دیکھ کر تجسس نے اس کے پاؤں جکڑ لیے اور وہ حیرانی سے اس کی طرف پٹر پٹر دیکھنے لگا، اسی لمحے دوبارہ لائٹ آن ہو گئی اور وہ بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے کمرے میں لے آیا۔ کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظر سامنے الماری پر پڑی جس کا دروازہ نیم وا تھا، جس نے اس کے تجسس میں مزید اضافہ کیا اور اس نے لپک کر اپنے بیٹے کے ہاتھ میں پکڑا لفافہ چھینا اور اسے کھول کر دیکھنے لگا۔ اس میں زیورات تھے جو وہ چوری کر کے لے جا رہا تھا۔ زیورات پر نظر پڑتے ہی اس کو طیش آ گیا اور اس کا سارا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے سورج سوا نیزے پر آ کر اپنی تمام حرارت اسی پر ہی برسا رہا ہو اور اس کی شدید گرم روشنی کی وجہ سے اس کی آنکھیں چبھنے لگیں ہو۔ لیکن اس کے باوجود اس نے اپنی ظاہری حالت پر کسی نہ کسی طرح کنٹرول کیا اور بیٹے کو سامنے بٹھا کر اس سے گویا ہوا۔
’’بیٹا یہ گھر اور اس میں پڑی ہوئی ہر چیز کے مالک تم ہی ہو اور پھر اس طرح اپنے ہی گھر میں چوروں کی طرح کچھ لے کر جانا اور وہ بھی اس لیے کہ—‘‘
’’ابو میں تو اپنی کتابیں ڈھونڈنے کے لیے آیا تھا اور اس لفافے کو اندھیرے میں اپنی کتاب سمجھ کر اٹھا لایا۔ میں چوری کی نیت سے تو نہیں آیا تھا اور پھر میں نے یہ کس کو دینے ہیں۔ ‘‘ وہ اپنی شرمندگی پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
’’بیٹا چھوڑو جو ہوا سو ہوا میں سب کچھ جانتا ہوں، باپ ہونے کے ناطے میں تم کو سمجھاتا ہوں کہ تم جس راستے پر چل نکلے ہو وہ راستہ کامیابی کی طرف نہیں بلکہ بربادی کی طرف جاتا ہے اور انسان کو کسی گہری گھائی میں گرا دیتا ہے۔ اس لیے تمہارے پاس اب بھی وقت ہے کہ تم سنبھل جاؤ۔ ‘‘
’’ابو وہ میں — میں تو—‘‘
’’بیٹا چھوڑو صفائیاں پیش نہ کرو۔ ‘‘
’’میں سب جانتا ہوں کہ تمہارا ملکوں کے گھر کیوں اتنا آنا جانا لگا رہتا ہے اور آج کل تم کس چکر میں ہو۔ بیٹا تمہارے حق میں یہی بہتر ہے کہ تم ناممکنات سے گریز کرو اور مزید ایسے کاموں میں ہاتھ نہ ڈالوں کیونکہ ایسے کاموں کی انتہا خطرناک ہوتی ہے اور آخر میں جو زخم کاری آتی ہے اس کا گھاؤ بھرنے اور مندمل ہونے کے لیے نہ جانے کب تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انسان جوں جوں اس کام میں آگے بڑھتا جاتا ہے پریشانیاں توں توں اس کے نزدیک تر ہوتی جاتی ہے اس کا اندازہ اسے تب ہوتا ہے جب پانی سر سے بھی اوپر گزر چکا ہوتا ہے اور انسان کو سنبھلنے کا موقع بھی میسر نہیں آتا۔ اس لیے وقت سے پہلے میری باتوں پر دھیان دو ورنہ گیا وقت دوبارہ ہاتھ نہیں آتا، بعد میں صرف افسوس ہی رہ جاتا ہے۔ ‘‘
حارث یہ سب کچھ سمجھانے کے بعد جواب طلب نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھنے لگا اور وہ سر جھکائے پریشانی اور بوکھلاہٹ کے باوجود بڑی ہوشیاری سے اپنے باپ کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ یہ سب کچھ اتفاق تھا۔ لیکن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنے باپ کو اپنی دلیلوں سے مطمئن نہ کر سکا تھا آخر حارث کو نہ جانے کیا محسوس ہونے لگا اور اس کے ذہن میں خیال ابھرنے لگا کہ اگر میں آج اس کو راہ راست پر نہ لایا تو پھر کبھی بھی نہ لا سکوں گا۔ حارث جو ایک لحظے کے لیے خاموش ہو گیا تھا اب پھر بولنے لگا:
’’بیٹا چھوڑو وہ زیورات والی بات اور اپنی صفائیاں بیان کرنا اور میری کہانی غور سے سنو۔ پھر اس کے بعد اپنے مستقبل کے لیے سوچنا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ کہانی تم کو کوئی بہتر فیصلہ کرنے میں معاون ثابت ہو گی اور تم یہ کہانی اپنے شفیق باپ اور اچھے دوست کی زبانی سننا، ہو سکتا ہے کہ اس میں تمہارے لیے کوئی فلاح کا پہلو نکل آئے جو تمہیں بہتر راستہ تلاش کرنے میں معاون ثابت ہو۔ ‘‘ اور پھر وہ اپنی کہانی اپنی زبانی سنانے لگ پڑا۔
بیٹا یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے پاس اتنے اثاثے اور اتنا بنک بیلنس نہ تھا اس وقت میں صرف ایک معمولی کسان کا بیٹا تھا جب میں نے بی اے فرسٹ ڈویژن پاس کیا تھا تو اس وقت گاؤں بھر میں اور کوئی اتنا زیادہ پڑھا لکھا نہ تھا۔ میں اکیلا ہی بی اے پاس تھا جس کی وجہ سے گاؤں بھر میں ’’باؤ‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا تھا۔ گاؤں کا ہر فرد مجھ سے عزت و تعظیم سے ملتا اور گاؤں والوں کے ساتھ جب کبھی میں کسی محفل میں بیٹھتا تو وہ مجھے بڑی عزت کے ساتھ علیحدہ چارپائی پر بٹھا دیتے اور خود مجھ سے علیحدہ ذرہ نیچے بیٹھ جاتے۔ گاؤں والوں کی بے جا عزت و تعزیم نے مجھے خود سر بنا دیا تھا جس کی وجہ سے مجھے اپنے گاؤں والے جاہل، گنوار نظر آنے لگے جن کے ساتھ میں کھیل کود کر جوان ہوا تھا اب ان کے ساتھ ملنے سے بھی کترانے لگا تھا اور میرے ذہن میں یہ خیالات ابھرتے کہ مجھے شہر جا کر کوئی بہتر روزگار تلاش کرنا چاہیے یہاں پر کیا رکھا ہے صرف باپ دادا کی پندرہ ایکڑ اراضی بس۔ میں نے تعلیم کھیتی باڑی کے لیے حاصل نہیں کی تھی کہ بی اے فرسٹ ڈویژن کرنے کے باوجود بھی وہی کھیتی باڑی کروں یہ کام تو اَن پڑھ لوگوں کا ہے اور مجھ جیسے پڑھے لکھے لوگ تو شہر جا کر آفیسری کرتے ہیں۔ سو مجھے شہر جا کر آفیسری کرنی چاہیے اور یہ فضول اور عام سا کام یہاں کے ان پڑھ لوگوں کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ آخر انہوں نے بھی تو روزی کمانی ہے۔
یہی وہ خیالات تھے جس کی بنا پر میں نے اپنے باپ کو اس بات پر راضی کر لیا کہ میں شہر جا کر بہت جلد اچھی سی ملازمت ڈھونڈ لوں گا۔ اس طرح میرا مستقبل بھی روشن ہو جائے گا اور خاندانی پیشہ زراعت پر بھی کوئی حرج نہیں آئے گا کیونکہ میں دور بیٹھ کر بھی زمینوں کے مطلق بے خبر نہیں رہوں گا۔
اپنے خیالات سے اپنے والدین کو قائل کرنا کتنا آسان ہوتا ہے اور دنیا کو قائل کرنا کتنا مشکل۔ اس بات کا اندازہ مجھے شہر آ کر ہی ہوا۔ جب میں شہر آیا تھا تو اس وقت میری جیب نوٹوں سے اور ذہن سہانے مستقبل کے مناظر سے لبریز تھا اور یہ مستقبل کے سہانے خواب یوں دنوں میں چکنا چور ہوتے رہے اور جیب دن بدن ہلکی سے بھی ہلکی ہوتی چلی گئی۔ اس کے باوجود میرے اندر امید کی ہلکی سی کرن روشن تھی اور مجھے یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن مجھے ضرور نوکری مل جائے گی، یہی یقین مجھے مزید یہاں قیام پر مجبور کر رہا تھا لیکن جیب اس کی اجازت نہ دیتی تھی بالآخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مزید شہر میں ٹھہرنے کے لیے اپنے اخراجات کم سے کم کر لیے جائیں اس کے لیے میں نے سب سے پہلے اپنی رہائش ہوٹل سے ختم کر کے کسی سستی جگہ پر منتقل کرنی تھی۔
مجھے شدت سے سستی رہائش کی ضرورت تھی اور وہ مجھے اندرون شہر میں واقع کسی حویلی میں مل بھی گئی۔ وہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ یہ حویلی پچھلی صدی کے اوائل کا حسین طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔ ایک سادہ سی عمارت جس کی بیرونی دیواریں چھوٹی اینٹ اور چونے کے ملاپ کا اپنے وقتوں کا حسین شاہکار تھا جو اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اب تو اس کے پاس کھڑا ہونے سے بھی ڈر لگتا تھا کہ کہیں ہاتھ لگانے سے گِر ہی نہ جائے لیکن میرے اِن خدشات سے قطع نظر بچے بڑی شان کے ساتھ اسی دیوار پر بیٹھے کھیل کود میں نظر آ رہے تھے۔ حویلی کی اندرونی دیواروں کی بھی حالت زار قابل رحم تھی وہ مسلسل بارشوں کی وجہ سے کائی زدہ ہو چکی تھیں اور چونے کا پلستر جا بجا ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ گویا حویلی کے مالک نے اس کی مرمت کروانے کی زحمت مدتوں سے نہیں کی تھی شاید اس لیے کہ اس کے مالک نے سوچا ہو کہ اپنے وقتوں کی جدید اور منفرد عمارت کو یونہی چھوڑ دیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے نمونہ اور سربلندی کا سبب بنے، بہرحال بات جو بھی تھی مجھے تو سستی رہائش چاہیے تھی جو مجھے مل گئی تھی اب اس پر تبصرہ کرنا فضول اور بے معنی تھا اسی لیے میں حویلی کی ظاہری حالت کو نظرانداز کرتے ہوئے حویلی کے اندر داخل ہو گیا۔
حویلی کا کھلا دالان جو اپنے وقتوں میں حویلی کی شان بڑھاتا تھا اب یہاں جا بجا عورتوں نے چولہے سجا رکھے تھے گویا حویلی کے مکینوں کے لیے یہ دالان اجتماعی باورچی خانے کا کام سرانجام دیتا تھا۔ میں دالان سے ہوتا ہوا تنگ سی ڈیوڑھی میں داخل ہو گیا، دائیں ہاتھ کشادہ سیڑھیاں تھیں جو اندھیرے میں ڈھکی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے سیڑھیوں کا آخری سرا نظروں سے اوجھل تھا۔ ڈیوڑھی کے دونوں جانب کمروں کے دروازے تھے ہر کمرے میں ایک فیملی مقیم تھی لیکن میرا کمرہ اوپر والی منزل پر واقع تھا اسی لیے میں بادل نخواستہ اندھیری سیڑھیوں سے ہو کر اوپر چلا گیا۔ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہو چکی تھی کہ یہ حویلی باہر سے ہی قابلِ رحم نہیں بلکہ اس کی اندرونی حالت بھی کافی خطرناک حد تک قابلِ رحم ہے۔
جب میں اپنے کمرے میں پہنچا تو مغرب کا وقت ہو چکا تھا اور تاریکی تیزی سے پھیل رہی تھی۔ میں نے بجلی کے بلب کا بٹن دبا کر کمرے میں روشنی کی تو مجھے اطمینان سا ہوا کہ کمرے کی چھت اور دیواریں اتنی جلدی زمین بوس ہونے والی نہیں لہٰذا یہاں کچھ عرصہ رہا جا سکتا ہے۔ شہر بھر میں اس سے اچھی اور سستی رہائش کہیں اور مل بھی تو نہیں سکتی تھی۔ اس لیے اسی پر اکتفا کرنا وقت کی ضرورت تھی۔ کمرے میں صرف ایک کھڑکی تھی جو گلی کی جانب کھلنے کے بجائے ساتھ والے کمرے کی طرف کھلتی تھی اور اس کے ساتھ ایک دروازہ بھی تھا جو اٹیج باتھ روم کا دروازہ تھا جس کو ساتھ کے کمرے والے بھی استعمال کرتے تھے۔ اس کمرے کے دو اور دروازے تھے، ایک دروازہ چھجے کی جانب کھلتا تھا جہاں سے گلی کا نظارہ کیا جا سکتا تھا اور دوسرا دروازہ کمرے میں آنے جانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہ کمرہ کچھ اس طرح کا تھا کہ یہاں دوسرے کمرے کے مکینوں کی آوازیں صاف سنائی دیتی تھیں۔ کمرہ صاف ستھرا ہونے کے باوجود مجھے غلاظت کی گھن کا احساس ہو رہا تھا۔ لیکن میں نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہ دی کہ شاید یہ میرا وہم ہو جو رفتہ رفتہ خود ہی دور ہو جائے گا۔
میں بہت تھک چکا تھا سو وہیں میں نے زمین پر ہی چادر بچھائی اور سو گیا۔ ابھی میں نیم بیدار ہی تھا کہ ساتھ والے کمرے سے لڑائی جھگڑے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں جس کی وجہ سے مجھے شدید بے چینی سی ہونے لگی اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں جلدی سے دروازہ کھول کر ان دونوں کا گلا دبا دوں۔ لیکن میں ایسا کر نہیں سکتا تھا بس اپنے حال پر افسوس ہی کر سکتا تھا سو میں کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ سونے کی بھی کوشش جاری رکھتا تھا اور ساتھ والے کمرے سے آوازیں کبھی آہستہ اور کبھی بلند ہوتی رہتیں، کچھ دیر یونہی ان کی لڑائی جھگڑا سنتا رہا تھا پھر کھڑکی کی درز سے جا کر آنکھ لگا کر سارا منظر خود دیکھنے لگا۔
مرد نے عورت کو دبوچ رکھا تھا اور وہ خود کو بچانے کی کشمکش میں تڑپتی، چلاتی تھی— نہیں — نہیں — میں تم کو یہ رقم نہیں دوں گی— ہرگز ہرگز نہیں دوں گی— مرد اس کے نزدیک آ کر اس کو زور سے تھپڑ رسید کرتا اور اس کے ہاتھوں میں پکڑے پیسے چھیننے کی کوشش کرتا لیکن عورت نے اپنی مٹھی مضبوطی سے بند کی ہوئی تھی۔ مرد لاکھ کوشش کے باوجود اس کی مٹھی سے پیسے چھیننے میں ناکام رہا تھا یہ سلسلہ کچھ دیر جاری رہا اور مرد جو شکل سے نشئی معلوم ہو رہا تھا۔ وہ تھک ہار کر کھانستا کھانستا کمرے سے باہر نکل گیا اور عورت روتے روتے چارپائی پر جا کر لیٹ گئی اور چند لمحے بعد اس کی سسکیوں کی آواز آنا بھی بند ہو گئی جس کی وجہ سے کمرے میں بالکل سناٹا چھا گیا اور میں بھی اپنے بستر پر سونے کے لیے چلا آیا۔ میں بستر پر لیٹ تو گیا لیکن نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ میں سوچنے لگا کہ میں یہاں کیسے رہ پاؤں گا لیکن یہاں رہنا میری مجبوری تھی، سو میں سوچتے سوچتے سو گیا۔ میں صبح سویرے نیند سے بیدار ہوا تو میرے جسم کا انگ انگ درد سے ٹوٹ رہا تھا۔ سر میں شدید درد تھا سوچا کہ تازہ دم ہونے کے لیے حویلی کے سامنے والے کھوکھے سے ایک کپ چائے پی لی جائے لیکن میرے اعصاب اس بات کی اجازت نہ دیتے تھے کیونکہ میرا جسم مزید آرام کی خواہش میں ڈھیلا پڑا جا رہا تھا۔ ایسی کیفیت مجھ پر طاری تھی کہ میں نے ایکسر اپنے سرہانے کے پاس سے چائے کی بینی بینی خوشبو محسوس کی، جس نے میرے وجود میں سراسیمگی سی پیدا کر دی۔ گرم گرم چائے کو یوں اپنے پاس موجود پا کر میں حیرانگی کے عالم میں اُٹھ کھڑا ہوا اور گومگو کے عالم میں کمرے کے چاروں طرف دیکھنے لگا کہ یہ چائے کا کپ کون دے گیا ہے ؟ حالانکہ کمرے کا بیرونی دروازہ بھی بند تھا۔ میں کھڑکی کی درز سے آنکھیں لگا کر دوسرے کمرے میں دیکھنے لگا جہاں گزشتہ رات لڑائی جھگڑے کی آوازیں آ رہی تھیں لیکن وہاں بھی کوئی نہیں تھا پھر میں غسل خانے کی طرف لپکا تو وہاں بھی کوئی موجود نہ تھا۔ طبیعت کی تھکاوٹ مجھے کسی بھی قسم کی باتیں سوچنے پر مجبور نہیں کرتی تھیں بلکہ وہ تو یہ چاہتی تھیں کہ اس پیالی کو دیکھو دینے والے کو نہیں لہٰذا میں نے چائے حلق میں انڈیل لی۔ چائے نے میرے تھکے ماندے وجود میں گویا نئی روح پھونک دی تھی اور میں تازہ دم ہو کر چھجے پر آ کر گلی میں تکنے لگا۔ گلی میں تو کوئی خاص بات نہ تھی جو مجھ کو وہاں پر ٹھہرنے پر مجبور کرتی ہاں البتہ سامنے والے مکان کی کھڑکیوں کے شیڈ پر جنگلی کبوتر غول در غول بیٹھے غٹرگو غٹرگو کر رہے تھے اس وقت ان کی غٹرگو غٹرگو مجھ کو بہت بھلی لگ رہی تھی میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں ان کبوتروں کو دانہ ڈالوں لیکن دانہ لانے کے لیے مجھے بازار جانا پڑتا تھا اور بازار جانے کے لیے میرے پاس وقت نہیں تھا۔ اگر مجھے آج انٹرویو کے لیے نہ جانا ہوتا تو میں ضرور ان کے لیے دانہ لے آتا۔ بہرکیف اضطراب کی حالت میں کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی اور کہنے لگا:
’’اُف نو بج گئے ہے اور میں ابھی تک تیار نہیں ہوا ہوں۔ ٹھیک دس بجے تو میں نے انٹرویو کے لیے پہنچنا ہے۔ ‘‘ اور میں فوراً غسل خانے کی طرف لپک گیا۔
غسل خانے کا دروازہ کھولتے ہی میں ٹھٹک کر کھڑے کا کھڑا رہ گیا در اصل غسل خانے میں درمیانے قد کی خوبصورت عورت پانی کے حمام کے پاس بیٹھی برتن دھو رہی تھی۔ وہ اپنے کام میں اس قدر انہماک سے مگن تھی کہ اسے اندر آنے والے شخص کی موجودگی کا احساس تک نہ ہوا تھا حالانکہ میں غسل خانے کے پائیدان پر آ کر کھڑا ہو گیا تھا اور بے جھجک بول پڑا:
’’کیا چائے تم نے بھیجی تھی۔ ‘‘
عورت نے غیر متوقع آواز سنی تو وہ کھڑی ہو کر اپنے وجود کے ساتھ الجھے کپڑے درست کرتے ہوئے مجھے دیکھ کر مسکرائی اور یہ کہتی ہوئی دوسرے دروازے سے باہر نکل گئی کہ ’’چائے میں خود ہی لے کر گئی تھی۔ ‘‘ در اصل اس وقت میرا دل بھی یہی چاہ رہا تھا کہ میں اس خاتون کو دیکھو جس کے شوہر نے اس کو نظرانداز کر رکھا ہے۔ لیکن مجھے یہاں آئے ابھی ایک رات ہی تو ہوئی تھی اس لیے میں کسی قسم کی پریشانی میں پڑنا نہیں چاہتا تھا اور دوسرا میں نے انٹرویو کے لیے بھی تو جانا تھا اس لیے میں جلدی جلدی نہا کر تیار ہوا اور اپنے مستقبل کی تلاش میں نکل پڑا۔
ہر روز مجھ کو چائے کی بینی بینی خوشبو نیند سے بیدار کرتی، ہر روز ہی مجھے اتنی جلدی اور ضروری باہر جانا ہوتا تھا کہ میرے پاس اتنا وقت ہی نہ رہتا کہ میں اس عورت سے یہ پوچھ سکوں کہ وہ کیوں کر مجھ پر اتنی مہربان ہے اور رات کو میں اتنی لیٹ آتا کہ اس وقت حویلی کے تمام مقیم اور وہ عورت بھی سو چکی ہوتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ مجھے ساتھ والے کمرے میں ہونے والی روزمرہ کی گفتگو سننے کا موقع بھی نہ مل سکتا تھا۔ لیکن کافی دنوں کی خاموشی کے بعد مجھے ایک بار پھر ویسی ہی لڑائی مار کٹائی سننے اور دیکھنے کا موقع میسر آ ہی گیا کیونکہ میں اس دن کافی جلدی گھر واپس لوٹ آیا تھا۔ مجھے یہاں آئے پندرہ دن ہو چکے تھے ان پندرہ دنوں میں بھی میری علیک سلیک نشئی اور اس کی بیوی سے نہیں ہوئی تھی۔ نشئی سے ملنے کا اشتیاق میرے اندر نہ تھا ہاں البتہ میں اس کی بیوی سے گفتگو کرنا چاہتا تھا اور اسی مقصد کے لیے میں نے دوسرے دن اپنی تمام مصروفیات کو ترک کیا اور گھر پر رہنے کو ترجیح دی۔ اس دن میری دلی مراد بھی بھر آئی۔
میں صبح سویرے نیند سے بیدار تو ہو چکا تھا لیکن یوں ہی اپنے بستر پر لیٹا رہا تھا کہ وہ کب چائے لے کر اندر آتی ہے۔ آخر وہ روز کی طرح ٹھیک آٹھ بجے چائے کا کپ اٹھائے غسل خانے کے راستے میرے کمرے میں داخل ہوئی اور چائے میرے سرہانے رکھ کر مڑنے لگی تو میں نے لپک کر اس کا بازو پکڑ لیا اور اس زور سے اسے اپنی طرف کھینچا کہ وہ میری چھاتی کے ساتھ آ لگی پھر میں نے اس کو اپنے بازوؤں میں بھینچ لیا اور وہ جلدی سے رسمی انداز میں شرماتی ہوئی مجھ سے علیحدہ ہوتی ہوئی مسکرا کر کہنے لگی:
’’کوئی دیکھ نہ لے ‘‘ اور بھاگ کر واپس اسی راستے سے چلی گئی۔
وہ درمیانے قد، چھریرے بدن والی حسین و جمیل لڑکی تھی، اس کی جھیل جیسی آنکھیں، کھڑی ناک، کشادہ پیشانی اور گھنے، کالے، لمبے بال اس کے کولہوں کو چھوتے بڑے حسین مناظر پیش کرتے تھے۔ اگرچہ وہ عام سے کپڑے پہنتی تھی لیکن ان کپڑوں میں بھی اس کی سج دھج اور شکل و صورت میں بلا کی کشش محسوس ہوتی تھی جبھی تو اس نے مجھے اپنا دیوانہ بنا لیا تھا اور جب اس حسین کا یوں غیرمتوقع طور پر لمس محسوس کیا تو میرے اندر خوشی اور مسرت کے لمحات برقی رو کی طرح دوڑ گئے تھے۔ آج مجھے پھر ضروری انٹرویو کے لیے جانا تھا لیکن میں اپنی تمام تر مصروفیات ترک چکا تھا کیونکہ آج میں نے ایک بھرپور ملاقات کرنی تھی۔ مجھے اپنے انٹرویو پر نہ جانے کا قطع افسوس تک نہ تھا بلکہ میں ملاقات کا منتظر تھا۔ صبح کے واقع سے میرے اندر غیر فطری جھجک تو دور ہو چکی تھی اب صرف ایک دوسرے کے درمیان فاصلہ دور کرنا باقی تھا۔
میرا نفس مجھ کو بار بار اکساتا اور میں گاہے بگاہے غسل خانے میں جاتا جہاں وہ بھی بہانے بہانے سے غسل خانے میں آتی کبھی وہ ایک آدھ برتن پکڑے آتی اور اسے فٹافٹ دھو کر میری طرف محبت بھری نظروں سے دیکھتی اور مسکرا کر وہاں سے چلی جاتی کیونکہ آج اس کا شوہر گھر پر ہی موجود تھا اس لیے ملاقات کا موقع میسر نہیں آ رہا تھا اور میں ملاقات کے لیے بے قرار ہوئے جا رہا تھا میں بار بار کھڑکی کی درز سے اس نشئی کو دیکھتا جو بڑی شان اور بے فکری سے اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اور میں اس کو مسلسل بد دعائیں دیے جا رہا تھا کہ یہ کب دفع ہوتا ہے لیکن آج اس نے بھی قسم کھائی ہوئی تھی کہ جانا کہیں نہیں یہاں پر ہی بسیرہ کرنا ہے۔ بالآخر میں اس پر لعنت ملامت کرتا ہوا گھر سے باہر چلا گیا کیونکہ مجھے سخت بھوک لگ رہی تھی۔ جب میں واپس گھر لوٹا تو سہ پہر ڈھل رہی تھی اور شام کے سائے بتدریج بڑھ رہے تھے۔ میں نے کھڑکی کی درز سے آنکھ لگا کر دوسرے کمرے میں جھانکا تو کمرے میں عورت کو اکیلے موجود پایا وہ اس وقت کپڑے پہن رہی تھی۔ اللہ جانے شیطان نے اس وقت کیا منتر میرے کان میں پھونک دیا کہ میں جلدی سے غسل خانے کے راستے اس کے کمرے میں داخل ہو گیا اور مخمور سی مردانہ آواز میں کہا۔
’’کہیں باہر جا رہی ہو۔ ‘‘
اس نے قمیض پہنتے پہنتے پیچھے نگاہ دوڑائی اور نظریں چار ہوتے ہی وہ کمرے کے بیرونی دروازے کو قفل لگانے کے لیے لپکی اس کی برہنہ پشت دیکھ کر میرے ذہن میں کوندا سا لپکا اور مجھے ایسا لگا جیسے وہ میرے ڈوبتے دل کا عکس ہو اور وہ یونہی نیم برہنہ میرے پاس کھڑی ہو گئی اور پریشانی کے عالم میں کہنے لگی۔
’’حارث تم کو یہاں اس طرح ہرگز نہیں آنا چاہیے تھا۔ صبح سے ہی میرا شوہر گھر پر ہے، ابھی تھوڑی دیر پہلے یہاں سے نکلا ہے وہ یہیں کہیں ہو گا تم جلدی سے چلے جاؤ کہیں وہ آ نہ جائے ورنہ میری خیر نہیں وہ تو پہلے ہی مجھ پر شک کرتا ہے خدا کے لیے تم یہاں سے چلے جاؤ۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے چلا جاتا ہوں پہلے تم مجھے یہ بتاؤ میرے نام کا تمہیں کیسے پتہ چل گیا۔ ‘‘
’’دیکھو حارث دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ تم مجھے پہلی نظر میں ہی شریف انسان نظر آئے تھے اور تمہارا نام مجھے کالو سے معلوم ہوا تھا وہ کالو جو حویلی کے تمام کرائے داروں سے ماہانہ کرایہ وصول کرتا ہے۔ وہ میرا بھائی بنا ہوا ہے۔ اسی نے ہی تمہارا نام بتایا تھا اور کہا تھا کہ یہ میرا بہت اچھا دوست ہے۔ ‘‘ یہ باتیں اس نے شرماتے شرماتے بتائیں اور باقی ماندہ کپڑے پہننے لگی تو میں نے بڑھ کر اس کو کلائی سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ اس کے نرم و نازک و نفیس ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مسلنے لگا اسی لمحے اس کی آواز میں جوش و خروش جو پہلے تھا اس میں عجیب سی تبدیلی آنے لگی جیسے وہ اپنے محبوب سے اقرار محبت کر رہی ہو اور اسے چاہ رہی ہو دفعتاً اس کے لہجے میں پھر وہی بے روکھی سی چھانے لگی اور وہ اپنا دامن چھوڑا کر مجھ سے ذرہ دور ہٹ کر بیٹھ گئی اور دوپٹے کے پلو سے اپنا چہرہ چھپا کر مجھ سے کہنے لگی:
’’حارث میری بات غور سے سنو میں ایسی ویسی عورت نہیں ہوں۔ میں آپ کی عزت دل و جان سے کرتی ہوں، میں ہی کیا ساری حویلی والے آپ کی شرافت کے گن گاتے ہیں۔ اس طرح اور اس حالت میں میرے کمرے میں آنا آپ کو زیب نہیں دیتا۔ میں آپ کی بے عزتی نہیں کرنا چاہتی اور خود اخلاق سے گری ہوئی حرکت نہیں کرنا چاہتی اس لیے بہتر ہے کہ بات یہیں پر ہی ختم ہو جائے ورنہ آگے چل کر بدنامی اور رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں رکھا۔ میں اپنے بچوں کو بے آسرا کرنا نہیں چاہتی، میں پہلے ہی بڑی دکھی ہوں۔ ‘‘ وہ یہ کہتے ہوئے زار و قطار رونے لگی۔
میں نے اس کو اپنے سینے سے لگا لیا اور اس کی پشت پر ہلکے ہلکے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا:
’’میں جانتا ہوں کہ تم ایسی ویسی عورت نہیں ہو اور میں بھی کوئی تم سے کھیل نہیں کر رہا بلکہ میں تم کو دل و جاں سے چاہنے لگا ہوں اور میں تمہارے لیے جان کی بازی لگا دوں گا لیکن تمہاری عزت پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا اور میں تم کو اس ظالم کے چنگل سے رہائی دلواؤں گا چاہے اس کے لیے مجھے اپنا سب کچھ قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔ میری بات کا اعتبار کروں اور اپنے پر حاوی تمام خدشات کو پاؤں تلے روند ڈالو۔ ‘‘
وہ میرے شدتِ جذبات سے کچھ سنبھل سی گئی اور پھر محبت خواہانہ انداز میں کہنے لگی:
’’اب تم جاؤ میں نے ابھی روٹی ہانڈی بھی پکانی ہے ورنہ وہ آ کر مجھے خوامخواہ مارنے لگ پڑے گا۔ ‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں مگر تم مجھے یہ بتاؤں وہ تم سے اتنی نفرت کیوں کرتا ہے اور اتنی بے دردی سے مارتا کیوں ہے اور تم اس کا ظلم کیوں سہے جا رہی ہو۔ ‘‘
’’وہ مجھ سے نہیں بلکہ میں اُس سے نفرت بلکہ بھرپور نفرت کرتی ہوں۔ ‘‘
’’وہ کیوں ؟‘‘
’’میرا شوہر میرے شدتِ جذبات کو ٹھیس پہنچا کر بازاری عورتوں میں جا کر سکون محسوس کرتا ہے۔ اس کی جو اب مالی حالت ہے پہلے ایسی نہ تھی بلکہ یہ کبھی امیر آدمی ہوا کرتا تھا بس اپنی ساری جمع پونجی وہ ان بازاری عورتوں کی نظر کر بیٹھا اور انہوں نے جب یہ دیکھا کہ اب یہ کنگال ہو چکا ہے تو انہوں نے اس کو دھکے دے کر اپنے کوٹھے سے نکال باہر کیا۔ شدتِ غم سے یہ نشہ کرنے لگا یوں رفتہ رفتہ یہ نشے میں دھت ہوتا چلا گیا۔ اب اس کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ گھر کا خرچ چلانے کے لیے اس کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہوتا سو اس گھر کا بوجھ بھی میرے والدین نے اپنے سر اٹھا رکھا ہے وہ مجھے جو تھوڑی بہت رقم گھر کے خرچ کے لیے دیتے ہیں تو یہ مجھے مار پیٹ کر وہ رقم لے جاتا ہے۔ صرف اپنے نشے کے لیے اور میں مشرقی بیوی ہونے کے ناطے اس کے پلّو سے بندھی ہوئی ہوں۔ میں نے بھی بہت سے خواب دیکھے تھے اپنے گھر کے، ایک گھر جو حقیقت میں گھر جیسا ہی ہو جس میں ہم دونوں اپنے بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہ سکتے۔ یہ میری تمنا کوئی نرالی تو نہ تھی کہ پوری ہی نہ ہوتی بس میری قسمت خراب تھی کہ مجھے شوہر ایسا ملا جو دوسری عورتوں کا رسیا تھا۔ اس نے کبھی بھی میرے جذبات کی قدر نہیں کی۔ کاش ایسا ہو سکتا کہ وہ مجھ میں کشش محسوس کرتا اور میرے اندر کی بے چینی سے مجھے نجات دلا سکتا لیکن میرے شوہر کو تو اپنے معاشقے کے سوا کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہ ملتی تھی۔ پھر وہ رفتہ رفتہ نشے کی آماجگاہ میں چلا گیا۔ میں نے اپنے دل کا حال کبھی بھی کسی پر ظاہر نہیں کیا کیونکہ میں جانتی تھی کہ ان حالات سے فرار حاصل کرنا ممکن نہیں۔ میں نے اپنے اندر کی خلش سے نجات حاصل کرنے کے لیے اللہ سے کیسی کیسی دُعائیں نہیں مانگیں۔ نجانے کیوں یہ سب کچھ میں تم کو بتا رہی ہوں ؟ تم کیا میرے متعلق رائے قائم کر رہے ہوں گے ؟‘‘
اس وقت میرے دل و دماغ میں طوفان برپا تھا کیونکہ میری زندگی میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ ایک غیر معمولی حسین، جوان عورت یوں میری بانہوں میں لپٹی محبت کی بھیک مانگ رہی تھی اور میں اس کی اپنائیت کے جذبے میں اندھا ہوا جا رہا تھا میں کبھی اس کے بالوں کے ساتھ کھیلتا اور کبھی جسم کے دوسرے حصوں کے ساتھ پھر اچانک اس کا مسکراتا ہوا چہرہ میرے سینے سے ابھر کر نمودار ہوا اس وقت یہ کتنا سوہنا اور پیارا محسوس ہو رہا تھا اور اس کے چہرے پر ایسی نرمی اور معصومیت ٹپک رہی تھی جسے میں اپنے ہونٹوں سے جذب کیے بغیر نہ رہ سکا۔ ابھی ہونٹ پوری طرح سیر بھی نہ ہو پائے تھے کہ دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی اور میں بھاگ کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔
اس واقعہ کے بعد میرے اندر بے سکونی کی سی کیفیت طاری ہو گئی میں ہر وقت اس کے انتظار میں بے قرار رہتا اور اس کا خیال ہر وقت میرے ذہن اور قلب کو پراگندہ رکھتا تھا، ہر وقت میرا یہی من چاہتا کہ میں اس کے پاس چلا جاؤں۔ اپنی اس کیفیت سے میں آشنا تھا لیکن اس کو دور کرنا یا اس سے راہ نجات حاصل کرنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔ میں یونہی بیٹھے بیٹھے اسی کے تصور میں کھو جاتا تھا جیسے وہ میرے آس پاس ہی ہو۔
بس بیٹا یہاں سے ہی میری بربادی کا دور شروع ہو گیا— میں اپنی مہینہ بھر کی تنخواہ اس کے ناز نخرے کی نذر کر دیتا تھا اور اس کی فرمائشیں تھیں کہ دن بدن بڑھتی ہی جاتی تھیں کیونکہ میں اس کے بچھائے ہوئے عشق کے جال میں بُری طرح پھنس چکا تھا جس کی وجہ سے مجھے احساس ہی نہ ہوتا تھا کہ میں اس کی مکاری اور چال بازی کو سمجھ سکوں۔ میرا دماغ اس قدر کند ہو چکا تھا کہ یہ تک نہ سوچا اور نہ محسوس کر سکا کہ پہلے تو اس کا شوہر سارا سارا دن گھر پر ہی رہتا تھا لیکن اب یہ گھر میں موجود ہی نہیں ہوتا جب بھی دیکھو وہ گھر پر اکیلی ہوتی ہے۔ جب بھی اس کے پاس جاؤ اس کے پاس پیسے بٹورنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ ضرور ہوتا۔ بچوں کی فیسوں اور مکان کے کرائے کی ذمہ داری تو میں نے پہلے ہی اٹھا رکھی تھی اور اوپر سے اس کے گھر کا تمام خرچ بھی میں ہی برداشت کر رہا تھا اور وہ بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے مجھے دو سال تک مسلسل لوٹتی رہی اور میں بڑی معصومیت سے لٹتا رہا۔ دو سال کے بعد میری نوکری میری عدم توجہ اور لاپرواہی کی بنا پر جاتی رہی۔ اس نوکری کو چھوٹے دو ماہ گزر گئے لیکن مجھے کہیں بھی دوسری نوکری نہ مل سکی ان دو ماہ کے قلیل عرصے میں مَیں بہت زیادہ مقروض ہو گیا۔ اِن دنوں میری مالی حالت اس قدر پتلی ہو گئی تھی کہ مجھے مالک مکان نے عدم ادائیگی کرائے کی بنا پر کمرہ خالی کرنے کا کہہ دیا تھا۔ اس وقت نہ ہی تو کوئی مزید قرض دیتا تھا اور نہ ہی والدین کے اتنے مالی اسباب تھے کہ وہ میرے اخراجات پورا کرنے کے لیے پیسے بھیج دیتے بہرکیف میں اپنی بے بسی کی وجہ سے اکثر یونہی سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہتا تھا کہ شاید تقدیر پھر سے مجھ پر مہربان ہو جائے اور مجھے کہیں نوکری مل جائے۔
بیٹا اس حویلی میں مَیں اپنا آخری دن شاید کبھی نہ بھولوں گا۔ وہ بہار کا خوشگوار دن تھا۔ آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے یوں لگتا تھا کہ بادل ابھی بَرسے سو بَرسے فی الحال ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی جس کی وجہ سے موسم کی رنگینی میں اور زیادہ اضافہ ہو چکا تھا۔ موسم کی اس رنگینی نے میرے اندر نہ جانے کیا گدگدی کی تو میں پھُڑ سے اس کے کمرے کے اندر جانے کے لیے غسل خانے کا دروازہ کھولا تو وہ وہیں نہانے کی خاطر برہنہ بیٹھی ہوئی تھی۔ میں اس کے پاس بیٹھ کر اپنا دایاں بازو اس کے پہلو سے گزار کر اسے اپنے پہلو سے لگا لیا۔ اس کے بدن میں ہونے والی ہلکی ہلکی کپکپی کو محسوس کیا تو مجھے ایسا لگا جیسے میرے وجود میں کوئی بہت بڑا الاؤ آناً فاناً بھڑک اٹھا ہو وہ میری اس جسمانی کیفیت سے ذرہ سا کسمسائی اور پھر پُرسکون سی اپنے بستر میں جا دبکی۔ میں بھی اس کے ساتھ بستر میں گھس گیا۔ کمرے میں اندھیرا تھا اور ہم دونوں ایک دوسرے سے متصل ہو کر اس طرح لپٹے ہوئے تھے جیسے سردیوں میں بلی کے بچے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوتے ہیں پھر ہلکا سا اس کے منہ سے نکلا ’’بچاؤ‘‘ تو اس کے بعد پوری حویلی میں اس صدا کا کورس گونجے لگا۔
لمحہ بھر میں بہت سارے لوگ میرے اردگرد آ کر کھڑے ہو گئے اور وہ اپنے شوہر کے کندھے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی اور روتی روتی بین کر رہی تھی ’’میں لٹی گئی‘‘ اور عورتوں کے استفسار پر وہ بتا رہی تھی کہ میں کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی اور یہ اچانک غسل خانے کے راستے کمرے میں داخل ہوا اور آتے ہی اس نے بھوکی نظروں سے میری طرف دیکھا تو اس کے منہ سے نکلا ’’آہا‘‘ اور تھوڑا سا مسکرا دیا۔ مجھے اس کی نیت میں فتور نظر آیا تو میں کمرے سے باہر نکلنے لگی تو اس نے مجھ کو مضبوطی سے دبوچ لیا اور میری عزت تار تار کر ڈالی۔ اس کا شوہر اور کالو مل کر لوگوں میں مزید اشتعال پیدا کرنے کے لیے طرح طرح کے قصے کہانیاں گھڑ رہے تھے اور وہ عورت ان کی حمایت میں سرہلائی جاتی تھی۔
بیٹا میں یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایسا ناگہانی حادثہ میرے ساتھ یوں پیش آئے گا جو مجھ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گا۔ ہم دونوں ہی تو برابر کے گناہ گار تھے پھر اکیلے ساری بدنامی میرے حصے میں کیونکر اور کس طرح آ گئی تھی۔ برہنہ جسم، آلودہ چادر اور کئی گواہوں کی موجودگی مَیں مَیں اپنے پر لگے الزام سے بچ بھی تو نہ سکتا تھا جو میرے گناہگار اور مجرم ہونے کی واضح دلیل تھی۔
لوگ جو بھرپور اشتعال میں تھے مجھ کو مارنا پیٹنا چاہتے تھے لیکن کالو کی چالاکی اور منصوبہ بندی ایسی تھی کہ اس نے مجھے اس کے کُہر سے بچا لیا کیونکہ وہ لوگوں کو کہہ رہا تھا کہ اس کو مارنے پیٹنے سے کہیں ثبوت ہی ضائع نہ ہو جائے۔ چنانچہ مجھے بمعہ ثبوت پولیس حراست میں دے دیا گیا۔
وہ کرب اور قیامت کا دن تھا جو مجھ پر گزر گیا میں کسی کو بتا بھی تو نہ سکتا تھا کہ یہ جرم ہم دونوں کی رضامندی سے سرزد ہوا ہے۔ اس واقعہ میں اپنی تو بدنامی ہوئی سو ہوئی اوپر سے والدین کی بدنامی کا سوچ کر میرے ذہن میں طرح طرح کے وہم جنم لے رہے تھے لیکن بین بین میرا دل یہ گواہی دے رہا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا وہ عدالت میں میرے خلاف کبھی گواہی نہیں دے گی کیونکہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے یہ سب کچھ تو اس نے لوگوں کے ڈر سے کیا ہے کیونکہ اگر وہ اس وقت ایسا نہ کرتی تو لوگ ہم دونوں کو اسی وقت سنگسار کر دیتے ہم دونوں کو کالو نے پھنسوایا ہے۔ کالو کے سوا پوری حویلی میں کسی کو بھی اس داستانِ عشق کی کانوں کان خبر تک نہ تھی پھر یکایک کیسے خبر لگ گئی۔ ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ عورت کالو کے ہمراہ حوالات میں مجھ سے ملنے کے لیے آ گئی۔ میرے اندر جو خوف کی لہر پیدا ہو چکی تھی وہ اس کو دیکھ کر ختم ہو گئی اور اس نے میرے پاس آتے ہی مجھ کو زور دار تھپڑ مارا اور کہنے لگی:
’’اگر تو جیل سے بچنا چاہتا ہے تو کالو سے سودے بازی کر لو ورنہ میں پرچہ کٹوا دوں گی اور یاد رکھو عدالت میں تمہیں مجرم ثابت کرنے کے لیے میرے پاس تمام ثبوت اور گواہ موجود ہے تم ان کو عدالت میں جھٹلا نہیں سکتے۔ تمہارے لیے یہی بہتر رہے گا کہ تم کالو کے ساتھ سمجھوتہ کر لو اور کچھ دے دلا کر فارغ ہو جاؤ ویسے بھی مجھے کنگلے لوگ اچھے نہیں لگتے۔ ‘‘
اس کے یہ الفاظ مجھ پر نشتر کی طرح چھب رہے تھے اور میں معاملے کی نزاکت کو بھی سمجھ گیا تھا کہ اس عورت نے اپنے شوہر اور کالو کی مدد سے مجھے پہلے اپنے جال میں پھانسا اور پھر مجھے عبرت کا نشان بنا دیا۔ سزا سے بچنے کے لیے ضروری تھا کہ کالو کے ساتھ سودے بازی کی جائے سو میں اس تجویز پر راضی ہو گیا۔ کالو نے معاملہ رفع دفع کرنے کی قیمت تین لاکھ روپے مقر ر کی اور ضامن تھانے دار کو مقر ر کیا۔ رقم کی ادائیگی کے لیے مجھے صرف ایک ہفتے کی مہلت فراہم کی گئی۔ ان دنوں میں تو پہلے ہی بہت سے لوگوں کا مقروض تھا اور اوپر سے نوکری بھی کوئی نہ تھی۔ بالآخر مشکل کی اس گھڑی میں میرے والد نے اپنے باپ دادا کی چھوڑی ہوئی زرخیز زمین اونے پونے دام بیچ کر رقم کا بندوبست کیا اور اس طرح مجھے اس مصیبت ناگہانی سے نجات مل سکی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ عورت کالو اور اپنے شوہر سے مل کر پہلے بھی کئی وارداتیں کر چکی ہے۔ لیکن ’’اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئی کھیت‘‘ جس وقت آنکھیں کھلی تو اس وقت سب کچھ لٹ چکا تھا۔ بہرکیف میں نے اس واقع کو زندگی کا روگ نہیں بنایا بلکہ عبرت حاصل کی اور دن رات محنت مشقت کی جس کا صلہ اللہ نے مجھے دیا جو تمہارے سامنے ہے۔
بیٹا جی اپنی زندگی کے تجربات تم کو بتانے کا یہ مقصد نہیں کہ تم اس سے چسکا حاصل کرو بلکہ میرا مقصد یہ تھا کہ تم بھی اس سے عبرت حاصل کرو اور خود اس جیسی کسی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔ اب میں اس سارے واقعہ کا بار بار اپنے ذہن میں اعادہ کرتا ہوں تو میرے بدن میں ایک ناقابلِ بیان جھرجھری سی پیدا ہونے لگتی ہے۔
در اصل بات یہ ہے کہ ایسی عورتیں مردوں کو پھانسنے کے لیے ان کے گرد ہمدردی کا ایسا جال بُن دیتی ہے کہ مرد خودبخود اس میں پھنستا جاتا ہے اگر تو ایسی عورتیں شادی شدہ ہوں تو وہ اپنے شوہروں کو نشئی ظاہر کرتی اور بتاتی ہے کہ وہ مجھ پر ظلم ستم کرتا ہے، گھر کا خرچ بھی نہیں دیتا، جو کماتا ہے سب اپنے نشے میں اڑا دیتا ہے۔ اس کے باوجود کاروبار زندگی بغیر کسی ذریعہ معاش کے ہوتے ہوئے بھی بڑا بہتر چل رہا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان سے پوچھ لیتا ہے کہ یہ کاروبار زندگی کیسے چل رہا ہے تو ان کے پاس یہ جواب ہوتا ہے کہ یہ سب میرے میکے والے کر رہے ہیں وہی گھر کا خرچہ دیتے ہیں۔ وہ شخص جو اِن کے جال میں پھنس رہا ہوتا ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ جو رشتے دار اس کو گھر کا خرچ چلانے کے لیے رقم دے سکتے ہیں وہ اس کو اس نشئی سے نجات کیوں نہیں دلا سکتے، کیوں اس کو پال رہے ہے۔ بس انسان تباہی کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے وہ کچھ سوچتا ہی نہیں کہ وہ عورت جو اپنے شوہر کی وفادار نہیں بھلا کسی غیر مرد کی کیسے وفادار ہو سکتی ہے اور وہ شخص اپنی آنکھوں پر ناسمجھی کی پٹی خود اپنے ہاتھوں باندھ کر پہاڑ کی چوٹی سے گرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور ایسی عورتیں اس کو بڑی ہوشیاری سے لوٹتی رہتی ہیں اور وہ لٹتا ہی جاتا ہے۔ جب کنگال ہو جاتا ہے تو اسے کسی نہ کسی بہانے سے بھگا دیتی ہے اور کسی نئے شکار کی تلاش میں لگ جاتی ہیں۔
بیٹا میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اکثر علاقوں میں ایسی فاحشہ عورتوں نے کرائے کے مکان لے کر اپنی رہائش رکھی ہوئی ہے یہاں رہ کر یہ شکار کو پھانستی ہیں اور اسے لوٹ کر رفوچکر ہو جاتی ہیں کیونکہ یہ لوگ شریفوں کی بستیوں میں قیام پذیر ہوتے ہیں، بظاہر ان کا طرز رہائش بھی شریفانہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے مطلق کچھ شریف لوگ جان بھی جاتے ہیں کہ یہ لوگ ٹھیک نہیں لیکن وہ اپنی شرافت کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں کیونکہ بدقماش لوگ ان کی سرپرستی کر رہے ہوتے ہیں اور ان سے مفت فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے شریف لوگ ان کی دشمنی مول نہیں لینا چاہتے اور خاموش رہتے ہیں۔
بیٹا میں نے جو یہ سب کچھ تم کو بتایا ہے اِن باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنا اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ میری ان باتوں کو سُنی اَن سُنی کر کے نظرانداز کر دی جائیں بلکہ ان پر غور و فکر کرنا پھر تجزیہ کرنا کہ کیا محلے والوں کا نظریہ مَلکوں کے مطلق ٹھیک ہے یا نہیں۔ میری باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچنا، سمجھنا اور پرکھنا پھر فیصلہ کرنا۔ اگر تم نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ لوگ شریف ہے اور وہ لڑکی بھی تم سے سچی محبت کرتی ہے تو یقین جانو میں تمہاری وہاں پر شادی کرا دوں گا۔ میں کسی بھی قسم کی خرابی اُن میں نہیں نکالوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اور غور و فکر کے ہمراہ کیے ہوئے فیصلے اگر غلط بھی ہو جائیں تو انسان کے لیے اتنے پچھتاوے کا سبب نہیں بنتے جتنے بغیر سوچے سمجھے فیصلے بنتے ہیں اور میں تمہارے فیصلے کا منتظر رہوں گا۔
کچھ دنوں بعد حارث نے اپنے بیٹے میں کچھ تبدیلیاں محسوس ہونے لگیں وہ محسوس کرنے لگا کہ کوئی شے یا شخص اس کے کام میں مانع ہے جس کی وجہ سے وہ کچھ اَدھورا اَدھورا اور تھکا تھکا سا نظر آتا ہے۔ اپنے باپ کا سامنا کرنے سے بھی کتراتا ہے لیکن بتاتا کچھ نہیں کہ اسے اچانک کیا ہو گیا ہے۔ ایک لحظے کے لیے حارث نے کچھ سوچا پھر خود ہی اس کے کمرے میں چلا گیا۔
’’بیٹا جی تو میں کب تمہارا رشتہ لینے مَلکوں کے گھر جاؤں۔ دیکھو اب میں بوڑھا ہوتا جا رہا ہوں اس لیے میں تمہاری شادی زیادہ لیٹ نہیں کر سکتا میں اپنے پوتے پوتیوں کو اپنی گود میں کھیلا نا چاہتا ہوں۔ میری یہ خواہش تم پوری کروں گے۔ ‘‘ حارث نے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی فوراً یہ مطالبہ پیش کر دیا تھا۔ وہ جو گم سم بیٹھا تھا یوں اپنے باپ کو اچانک کمرے کے اندر پا کر اور اوپر سے شادی کا مطالبہ سُن کر ذرا چوک سا گیا پھر وہ اپنے باپ کے پاس بیٹھتے ہوئے کہنے لگا:
’’ابو مَلکوں وغیرہ کو چھوڑو جہاں آپ چاہتے ہے وہاں پر میری شادی کر دیں۔ ‘‘ اَس نے افسردہ سی شکل بنا کر باپ کو جواب دیا۔
’’لیکن بیٹا تمہاری پسند۔ ‘‘
’’چھوڑیے ابو ’’پسند‘‘ کو بس یوں سمجھئے کہ بیٹا بچ گیا باپ کی کہانی دوہرانے سے۔ ‘‘
’’بیٹا میں تفصیل سے سننا چاہوں گا اور مجھے یقین ہے کہ تم مجھ سے کچھ نہیں چھپاؤں گے۔ ‘‘
ابو در اصل بات یہ ہے کہ جب آپ نے مجھے لمبی چوڑی نصیحت کی تو میرے ذہن میں کچھ کچھ ان لوگوں کے مطلق شک پیدا ہونے لگا تھا۔ اس لیے میں رحیلہ پر کڑی نگاہ رکھنے لگا۔ میں اس کے آفس اس کے کردار کے مطلق انکوائری کرنے کے لیے گیا تو مجھے وہاں سے معلوم ہوا کہ وہ اپنے باس کے ساتھ شادی کرنے والی ہے۔ اس دن وہ آفس سے چھٹی پر تھی اس لیے وہ گھر پر ہی موجود تھی اور میں اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے اس کے گھر چلا گیا۔ میں رحیلہ کے گھر پہلی بار بلا اطلاع گیا تھا لیکن جب میں اچانک اس کے کمرے میں داخل ہونے کے لیے دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ اندر سے رحیلہ اور اس کی بہن کو چند اوباش لوگوں کے ساتھ ناقابل اعتراض حالت میں پایا۔ پھر میں کسی سے کچھ کہے سنے بغیر ویسے ہی دبے پاؤں واپس لوٹ آیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس وقت اشتعال میں آنا خود کو کسی مصیبت میں گرفتار کرنے سے کم نہ تھا۔ مالی نقصان جو ہوا سو ہوا عزت کے معاملے میں مَیں اِن جیسی عورتوں کے لیے خود کو اشتعال میں آ کر نقصان نہیں پہچانا چاہتا تھا۔
’’تو پھر تم کھوئے کھوئے کیوں رہتے ہو؟‘‘
’’ابو میں تو اس سے سچی محبت کرتا تھا لیکن وہ مجھے بدھو بنا رہی تھی اور میں اس کی محبت میں دیوانہ ہوئے جا رہا تھا۔ اس کی مکاری کو پہچان ہی نہ سکا۔ ان سب باتوں کا وقتی طور پر دکھ تو ہوتا ہے لیکن میں نے روگ نہیں بنایا اس کو، آہستہ آہستہ یہ واقعہ بھول جاؤں گا۔ ‘‘
حارث نے بیٹے کا سر اپنے کندھے سے لگا لیا اور اس کے سر پر مشفقانہ محبت سے بھرا ہاتھ پھیرنے لگا۔ چند لمحوں کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کی گرفت میں اپنے بیٹے کا چہرہ لیا اور ماتھے کو چومتے ہوئے کہنے لگا :
’’میرے بیٹے دنیا میں زندہ رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اپنی غلطیوں پر پشیمان ضرور ہو اور اس سے آئندہ کے لیے سبق سیکھے ان غلطیوں کو یونہی دل پر نہ لگا لے۔ ایسا کرنے سے خود اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ ‘‘
’’لیکن ابو میں اس سے سچے دل سے محبت کرتا تھا لیکن وہ—‘‘
’’او چھوڑو بیٹا ان فضول لوگوں کے ذکر کو اور خود کو سنبھالوں، رہی بات محبت کی تو وہ تم میری بہو کے ساتھ کرنا۔ سچی محبت۔ ‘‘
ایک حادثہ ہو کر گزر گیا اور حالات زندگی ایک بار پھر اپنے معمول پر آ گئے۔ گھر بھر میں خاموشی اور بے سکونی کا دور دورہ ختم ہو گیا ہر طرف وہی پہلے والی رونقیں لوٹ آئی تھیں۔
٭٭٭
شکست خوردہ
خیر دین گرمیوں کی چلملاتی دھوپ میں پاؤں سے ننگا اور جسم پر میل سے اَٹے پڑے اور چیتھڑے بنے کپڑے پہنے دنیا و مافیا سے بے نیاز ہو کر صرف اپنے نشے کی خاطر رقم حاصل کرنے کے لیے شہر کے معروف چوک میں ٹریفک سگنل کی سرخ بتی کے روشن ہونے کی وجہ سے ہر رکنے والی گاڑی کے پاس جا کر صدا لگاتا۔
’’اللہ واسطے میری مدد کروں، میں دو دن سے بھوکا ہوں، مجھے صرف ایک روٹی کے لیے پیسے دے دو۔ ‘‘
اکثر لوگ تو اس کی صدا کو نظرانداز کر کے آگے نکل جاتے لیکن چند ایک ایسے لوگ بھی تھے جو اس کو کچھ نہ کچھ رقم دے دیتے تھے۔
خیر دین صبح سے ہی یہ پختہ عزم و ارادہ کر کے چوک میں پہنچا تھا کہ میں اس وقت تک یہاں سے نہ ہٹوں گا جب تک میرے پاس اتنی رقم اکٹھی نہیں ہو جاتی جس سے میں اپنا سابقہ ادھار چکا کر نئی ’’خوراک‘‘ حاصل کرنے کے قابل نہ ہو جاؤں۔ وہ بھیک مانگ کر روٹی تو حاصل کر سکتا تھا لیکن ’’خوراک‘‘ اسے رقم کی ادائیگی کے بغیر ملنی ناممکن تھی۔ کیونکہ بیوپاری نے اسے ’’خوراک‘‘ دینے کے لیے یہ شرط لگا رکھی تھی کہ پہلے پرانا ادھار چکاؤ پھر نقد رقم ادا کر کے نئی ’’خوراک‘‘ لے جاؤ اسی لیے وہ صبح سے بھیک مانگ مانگ کر رقم اکٹھی کر رہا تھا۔ آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا دنیا کا حقیر ترین کام ہے۔ کیونکہ اس نے زندگی میں پہلی بار بھیک کے لیے کسی کے آگے ہاتھ بڑھایا تھا اس لیے اسے اپنی حالت پر غصہ آ رہا تھا لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ نشہ اس کی رگ رگ میں سرایت کر چکا تھا اور اب نشہ ہی اس کی زندگی بن چکا تھا، وہ چاہتے ہوئے بھی اس سے کنارہ کشی اختیار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ نشہ چھوڑنے کے لیے علاج کی ضرورت تھی اور علاج کے لیے اس کے پاس رقم نہیں تھی۔ اس لیے وہ مزید نشے میں دھت رہنے پر مجبور تھا تاکہ زندگی کا ساتھ برقرار رہے۔ وہ اپنے کام میں اس قدر مگن تھا کہ اسے گرمی کی شدت کا احساس تک نہ ہو رہا تھا کہ آناً فاناً ایک قیمتی گاڑی ٹریفک سگنل پر آ کر رکی تو چوک سے گزرنے والے لوگ اس گاڑی کی طرف لپکے۔ جس کی وجہ سے چوک میں غیر متوقع طور ہجوم ہو گیا۔ ہجوم کی وجہ سے خیر دین کی ساری توجہ اس گاڑی کی طرف مبذول ہو گئی وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ اس گاڑی کی ڈرائیونگ فلک شیر کر رہا ہے وہ فلک شیر سے بے انتہا نفرت کرتا تھا کیونکہ یہی وہ شخص تھا جس نے دھوکے سے اس کو نشے کی لت میں زبردستی گرفتار کیا تھا اور جب وہ مکمل طور پر نشئی بن گیا تو اسے دھکے دے کر اپنے گھر سے باہر نکال دیا۔ وہ اسے قہر آلود نظروں سے دیکھ رہا تھا جبکہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر موجود خوبرو عورت گاڑی کا شیشہ ہٹائے بغیر اندر سے ہی اپنی گاڑی کے گرد جمع ہونے والے لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے بائے بائے کر رہی تھی کہ اتنے میں سگنل آن ہو گیا اور وہ گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھ گئی جس کی وجہ سے خیر دین اس کو پہچان نہ سکا لہٰذا اُس نے ایک نوجوان سے پوچھا:
’’بیٹا یہ عورت کون تھی؟‘‘
نوجوان نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھ کر کہا : ’’بابا یہ ملک کی مشہور و معروف فلمی اداکارہ لالی ہے، حال ہی میں اپنے چہرے کی پلاسٹک سرجری کروا کر واپس لوٹی ہے۔ کسی کمبخت نے اس کے چہرے پر تیزاب انڈیل دیا تھا۔ ‘‘
یہ جواب سن کر وہ اس قدر افسردہ اور پریشان ہوا کہ اس کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہنے لگے۔ اس وقت وہ اپنے جسم میں اتنی زیادہ کمزوری محسوس کر رہا تھا کہ اس سے اپنا ہاتھ آنسو پونچھنے کے لیے بھی نہیں اٹھایا جا رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اپنی میل سے بھری گندی آستین سے اپنے چہرے پر بہنے والے آنسو پونچھے تو اس کی آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا اور وہ مجبوراً وہیں گرین بیلٹ میں ایستادہ درخت کے سائے تلے بیٹھ کر کچھ دیر کے لیے سستانے لگا پھر اچانک اس کے ذہن میں اپنے مرحوم باپ کی آخری وصیت در آئی جو اس نے مرتے وقت اس سے کہی تھی:
’’بیٹا میں تمہارے واسطے بہت سا بنک بیلنس اور جائیداد چھوڑے جا رہا ہوں، تم اس سرمائے کو کامیابی کی پہلی سیڑھی سمجھ کر خوب محنت سے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل کرنا۔ میرے مرنے کے بعد تم غلط سوسائٹی اختیار نہ کر لینا کیونکہ پیسہ اور طوائف کبھی کسی کا نہیں بنتا۔ پیسہ اس وقت تک اپنا ہوتا ہے جب تک یہ اپنی جیب میں ہوتا ہے اسی طرح طوائف اس وقت تک اپنی ہوتی ہے جب تک انسان کی جیب میں پیسہ ہوتا ہے جب جیب رقم کے بوجھ سے ہلکی ہو جاتی ہے تو طوائف ذلیل و خوار کر کے اپنے کوٹھے سے نکال باہر کرتی ہے۔ سو بیٹا تم کبھی بھی طوائف کے چکر میں نہ پڑنا اور میرے چھوڑے ہوئے سرمائے کو خوب سوچ سمجھ کر استعمال کرنا اگر سمجھو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہو گا۔ ‘‘
خیر دین کے والد کا مذہب سے بہت زیادہ لگاؤ تھا حالانکہ اس نے کوئی باقاعدہ مذہبی اور دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن پھر بھی مذہب سے لگاؤ اور عقیدت کی وجہ سے وہ علماء حضرات کی تقاریر بڑے ذوق و شوق سے سنتا تھا جس کی بدولت اسے بہت سے اسلامی واقعات اور احادیث ازبر ہو چکی تھیں۔ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو قرآن مجید حفظ کروانا چاہتا تھا کیونکہ اس نے مولوی صاحب سے یہ سن رکھا تھا کہ روز قیامت حافظ قرآن کے باپ کے گناہ اس کے حافظ بیٹے کی بدولت بخش دیئے جائیں گے۔ وہ خود تو اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے عبادت کرتا نہیں تھا بس اپنے بیٹے کو حافظ قرآن بنا کر اپنی عاقبت سنوارنا چاہتا تھا، اس لیے جب اس کا بیٹا بولنے کے قابل ہوا تو وہ اس کو مدرسے پڑھنے کے لیے چھوڑ آیا۔ حالانکہ یہ عمر بچے کے کھیلنے کودنے کی تھی لیکن وہ اپنے باپ کی خواہش کی بھینٹ چڑھ چکا تھا جس کی وجہ سے اس کا دل پڑھائی میں نہ لگتا تھا اور ہر روز سبق یاد نہ ہونے کے سبب اسے مولوی صاحب سے سخت سزا ملتی تھی۔ مولوی صاحب کی مار پیٹ کی وجہ سے وہ کئی کئی دن مدرسے پڑھنے کے لیے نہیں جاتا تھا حالانکہ وہ گھر سے تو پڑھنے کے لیے ہی نکلتا تھا لیکن مدرسے جانے کی بجائے آوارہ گردی کرتا رہتا تھا اور جب اس کے باپ کو اس کی حرکات کا علم ہوا تو اس نے اس پر تھپڑوں اور گھونسوں کی بارش کر دی جس کے سبب وہ گھر سے بھاگ گیا۔
خیر دین باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کا باپ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا مولوی کی مار کے خوف سے ہمیشہ کے لیے گھر چھوڑ کر چلا جائے چنانچہ اس نے اپنے بیٹے کو مدرسے سے اٹھا کر اسے ایسے ہی اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا اور وہ آوارہ دوستوں کی صحبت میں رہ کر جوان ہو گیا تھا۔
جب وہ والدین کے مرنے کے بعد تمام جائداد کا اکیلا وارث بن گیا تو اس کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہو گیا کیونکہ اب وہ اس جائداد کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتا تھا۔ صاحبِ اختیار اور شاہ خرچ ہونے کی بنا پر اس کے میل ملاپ اور اثرو رسوخ میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور آہستہ آہستہ اعلیٰ حکام سے بھی اس کے تعلقات پروان چڑھنے لگیں تو اس نے اپنے قدم سمگلنگ میں بھی جمانے شروع کر دیں تھے۔ سمگلنگ سے اس نے خوب کمایا اور دوسرے الفاظ میں اس نے غریبوں کے خون پسینے کی کمائی کو دونوں ہاتھوں سے دل کھول کر لوٹا۔ وہ اس لوٹ مار میں اپنے اُن سرکاری دوستوں کو برابر حصہ دیتا تھا جو اس کے جرائم پر پردہ پوشی کرتے تھے لیکن خود پس پردہ رہتے تھے۔
خیر دین چِٹا اَن پڑھ تھا لیکن مقدر اس کے اتنے تھے کہ دولت اس کے گھر کی لونڈی بن چکی تھی۔ شاہ خرچ ہونے کی وجہ سے اس کے گرد خوشامدی دوستوں کا ہجوم ہر وقت رہتا تھا اُن کی خوشامدیں سُن سُن کر وہ خودسر سا ہو گیا تھا۔ انہی دوستوں کو خوش کرنے کی خاطر پہلے پہل تو اس نے ’’بوتل‘‘ کی طرف صرف ہاتھ بڑھایا تھا پھر تھوڑے ہی عرصے میں پکا شرابی بن گیا اور شراب کا نشہ دوبالا کرنے کی خاطر وہ ہر روز ہیرا منڈی کے مختلف کوٹھوں پر جایا کرتا تھا لیکن کوئی طوائف اس کے دل میں اثر نہ کر سکی آخرکار وہ ایک طوائف پر فدا ہو گیا وہ لچکیلی سی نازنین تھی، جب مسکراتی تو اس کے گالوں میں گڑھے پڑتے تھے جس کی وجہ سے اس کے گال گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند گہرے سرخ ہو جاتیں، اس کا چہرہ بھی تو تاب ناک و گل نار تھا اور اوپر سے اس کی حسین آنکھوں میں ایسی دل نوازی تھی کہ وہ خودبخود اس کی طرف کھینچا چلا آیا اور اس پر مر مٹا تھا۔ طوائف کے حسن سے متاثر ہو کر وہ ہر شام اس کے کوٹھے پر اپنے ڈیرے جمانے لگا اور طوائف کے عشق میں دیوانہ ہو کر اس پر اپنی دولت بے دریغ نچھاور کرنے لگا جب طوائف سَج دھج کر مجرے کے لیے آتی تو وہ اس پر سراپا نظر ڈالتا تو اس کے پتلے پتلے یاقوتی ہونٹ، دلکش تیکھے نقش، چھریا بدن اور رخساروں پر گلاب کی پنکھڑیوں کا سا حسین سفید اور سرخ رنگت کا ہلکا سا امتزاج اس کو بہت حسین لگتا تھا اسی لیے تو وہ اس پر فریفتہ ہو چکا تھا۔ وہ حسن کی دیوی اپنے جسم کے مختلف زاویے بناتے ہوئے تماش بینوں کو بہلانے کے لیے گنگناتی، اٹھلاتی تو اس وقت خیر دین پر گہری مسرت، سچی سرخوشی اور انبساط کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور وہ عجیب شوق بھری نظروں سے اس حسین و جمیل حسینہ کو دیکھتا رہتا تھا اور اس پر نوٹ نچھاور کرتا رہتا تھا۔
رفتہ رفتہ طوائف اِس کے دل و دماغ پر اس قدر حاوی ہو گئی کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر مستقل طور پر طوائف کے کوٹھے پر آ بیٹھا اور اس کی ماں کی آؤ بھگت کرنے لگا کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دے لیکن طوائف کی ماں اس کی شادی اتنی جلدی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اس نے طوائف اس کو پیسہ کمانے کے لیے بنایا تھا اور وہ اتنی جلدی اس سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتی تھی لیکن خیر دین ہر قیمت اسے اپنی بیوی بنانے کے در پر تھا اور طوائف کی ماں اس کے دلی جذبات سے آشنا تھی۔ اب وہ سمجھ چکی تھی کہ میں نے جس مقصد کے لیے اپنی بیٹی کو اس کے پیچھے لگایا ہوا تھا وہ مقصد اب پورا ہونے کا وقت آ پہنچا ہے لہٰذا اس نے خیر دین کے دلی جذبات کو اور زیادہ بھڑکانے کے واسطے اپنی بیٹی کو سکھا دیا کہ وہ اس کی طرف دار بن کر ایسا رویہ اپنائے کہ میں بھی اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہوں اور ساتھ ساتھ اس کے اندر اٹھنے والے طوفان کو اپنی مسرت آمیز قربتوں میں تبدیل کر کے اس کے درد دل پر اور زیادہ دستک دے کر اس کے جذبات کو مزید بھڑکائے لیکن اس کے جذبے کو تشنہ رکھے تاکہ وہ بربادی کے جال میں کھنچا چلا جائے۔ لہٰذا جب دونوں ماں بیٹی کو یہ یقین ہو گیا کہ یہ اب مکمل طور پر ہمارے جال میں پھنس چکا ہے تو طوائف کی ماں نے یہ شرط رکھ دی کہ پہلے میری بیٹی فلموں میں کام کرے گی اور جب وہ مشہور اداکارہ بن جائے گی تو میں اس کی شادی تمہارے ساتھ کر دوں گی۔ لہٰذا اسے مشہور اداکارہ بنانے کی خاطر اس نے اپنا بہت سا سرمایہ فلم انڈسٹری میں لگا دیا اور وہ اس کے لگائے ہوئے سرمائے اور پبلسٹی کی بدولت مشہور اداکارہ بن گئی۔
طوائف کا حُسن اس پر شبِ خون مار چکا تھا جس کی وجہ سے وہ اس کی محبت میں اس قدر دیوانہ ہو گیا تھا کہ اسے اپنی تباہی کا احساس تک نہ ہو رہا تھا کہ میرے وسائل تیزی سے خشک ہو رہے ہیں اور میں طوائف کو سمجھنے میں غلطی کر رہا ہوں اور نہ ہی وہ یہ حقیقت جان سکا کہ طوائف اپنے حسن کی بدولت اپنی مظلومی کو اجاگر کر کے ایک حکمت عملی کے تحت مردوں کے لیے اپنی شخصیت کو پُر کشش اور جاذب توجہ بنا لیتی ہے اور مالی فائدہ اٹھاتی رہتی ہے۔ حالانکہ طوائف کی فطرت میں مکاری اور دغا بازی پوشیدہ ہوتی ہے لیکن پھر بھی مرد اس کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے اور وہ خود بھی اس کی طرف نہ صرف کھینچا چلا جاتا تھا بلکہ وہ تو اس پر اس قدر فدا ہو چکا تھا کہ اسے اپنی تباہی کا احساس تک نہ ہو رہا تھا اور طوائف اس کی اسی کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اس کی مالی حالت پتلی کرتی جا رہی تھی اور جب اس کی مالی حالت خاصی پتلی ہو گئی تو اس نے چال بازی سے اس کی باقی ماندہ تمام جائداد اپنے نام لکھوا لی اور اس کے اسمگلنگ کے ٹھکانوں کا راز پولیس تک پہنچا کر اسے گرفتار کروا دیا۔
خیر دین طوائف کی بے وفائی پر دھکی اور ناراض تھا اور وہ اس سے بدلہ لینا چاہتا تھا لیکن لے نہ سکا کیونکہ اسے نہ صرف طوائف نے ڈسا تھا بلکہ اس کے ساتھ خوشامدی دوستوں نے بھی دغا کیا تھا وہ مشکل کی اس گھڑی میں تتربتر ہو گئے تھے حالانکہ جب اس کے پاس پیسہ اور اثرو رسوخ تھا تو وہ اس کے گرد منڈلاتے رہتے تھے جس کی وجہ سے اس کے گرد ہر وقت ان خوشامدی دوستوں کا تانتا بندھا رہتا تھا جب وہ کنگال ہو کر مشکل میں پھنسا تو سب انجان بن کر اِدھر اُدھر ہو گئے جس کی وجہ سے سب کچھ بدل چکا تھا اور وہ تن تنہا مقدموں میں بُری طرح پھنس چکا تھا اور اس کی وہ باقی ماندہ جائداد اور بنک ڈیپازٹ جو طوائف کی نظروں سے بچ چکے تھے وہ حکومت نے ضبط کر لیں تو وہ بالکل مفلس ہو گیا۔ اب تو وہ اپنے مقدموں کی پیروی بھی نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی وہ طوائف کا کچھ بگاڑ سکتا تھا جس نے اسے لوٹ کر کنگال کر کے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔
خیر دین دس سال قید با مشقت کاٹ کر جب باہر آیا تو دنیا ہی بدل چکی تھی کل کی دو ٹکے کی طوائف ملک کی ممتاز اداکارہ و ہدایت کارہ بن کر اس کی جائداد کے بل بوتے پر درہ در فلمیں بنا رہی تھی وہ جس کی جائداد کے بل بوتے پر اس مقام پر پہنچی تھی وہ دس سال قید با مشقت کاٹ کر بھی اسے ابھی غربت کی قید کاٹنی تھی۔ اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا کہ میں اسے ایسے ہی زندہ چھوڑ دوں وہ اس سے انتقام بھی لینا چاہتا تھا اور اسے زندہ بھی دیکھنا چاہتا تھا تاکہ وہ زندگی بھر روز جئے اور روز مرے، وہ جانتا تھا کہ قتل میں انتقام کا وہ مزہ کہاں جو دشمن کو سسک سسک کر مارنے میں ہے۔ اسی لیے اس نے انتقام کی خلش کو ختم کرنے کے لیے ارادہ کیا کہ میں اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دوں گا نہ اس کا حسن ہو گا اور نہ یہ پھر کبھی کسی دوسرے شخص کی زندگی میں زہر گھول سکے گی۔ میں اس بے وفا کی وجہ سے غربت کی دلدل میں پھنس چکا ہوں لہٰذا یہ میرے انتقام کی وجہ سے خود دنیا سے اپنا چہرہ چھپاتی پھرے گی۔
خیر دین نے اپنا کام اتنی مہارت سے سرانجام دیا کہ کسی کو کانوں کان خبر تک ہونے نہ دی۔ وہ اپنی کامیابی پر سرشار تھا۔ اُس کی کامیابی کا اعتراف خود ملک کے تمام اخبارات شہ سرخیاں لگا کر کر رہے تھے :
’’ملک کی ممتاز اداکارہ لالی پر آؤٹ ڈور شوٹنگ کے دوران کسی نامعلوم شخص نے تیزاب پھینک دیا اور خود موقع سے فرار ہو گیا۔ ‘‘ اخبارات میں چھپی ایسی خبریں جب وہ لوگوں سے سنتا تو خوشی سے سرشار ہو جاتا تھا۔ ایک دن اچانک اس کا سامنا اپنے پُرانے دوست فلک شیر کے ساتھ ہو گیا وہ فلک شیر کی فطرت سے آگاہ تھا کہ یہ صرف دولت کا پجاری ہے اور دولت کی خاطر سگے رشتوں کے تقدس کو بھی پامال کر سکتا ہے۔ دولت کے لیے ہی تو اس نے اپنے جگری یار کو مشکل میں اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن اب خیر دین کے لیے اس سے بھی زیادہ مشکل گھڑی آ پہنچی تھی نہ رہنے کو ٹھکانہ اور نہ روزگار اور اوپر سے پولیس کا ڈر، اِن سنگین حالات میں اسے صرف فلک شیر ہی ایسا شخص نظر آ رہا تھا جو اس وقت اس کی مدد کر سکتا تھا لہٰذا وہ اس سے مل کر اس سے مدد کی اپیل کرنا چاہتا تھا کہ فلک شیر خود بول پڑا:
’’خیر دین میں شرمندہ ہوں کہ میں نے مشکل کے وقت تمہارا ساتھ نہ دیا جس کا دُکھ اور افسوس ہے حالانکہ تمہارے احسانات مجھ پر بہت زیادہ تھے لیکن پھر بھی میں تمہارے کسی کام نہ آ سکا جس کا مجھے افسوس ساری زندگی رہے گا۔ اس وقت حالات ہی ایسے ہو گئے تھے کہ میں چاہتے ہوئے بھی تمہارا ساتھ نہیں نبھا سکتا تھا۔ اگر میں اس وقت تمہاری ذرہ سی بھی مدد کرتا تو پولیس نے مجھے بھی گرفتار کر لینا تھا سو میں پولیس کے ڈر سے پیچھے ہٹ گیا تھا لیکن اب مجھے کسی بھی قسم کا کوئی ڈر خوف نہیں ہے لہٰذا اگر تم چاہو تو میرا گھر تمہارے لیے اسی طرح حاضر ہے جس طرح تمہارا گھر میرا اپنا گھر ہوا کرتا تھا۔ خیر دین میرے مطلق کسی قسم کا کوئی شکوہ شکایت اگر تمہارے ذہن میں ہے تو اسے بھول کر مجھے سچے دل کے ساتھ معاف کر دو، اور اپنا ذہن میرے مطلق بالکل صاف کر لو کیونکہ میں اس وقت مجبور تھا میری مجبوری کو سمجھتے ہوئے مجھے معاف کر دو۔ ‘‘ وہ ہاتھ باندھ کر نظریں جھکائے خیر دین کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ خیر دین اس کے دونوں معافی کے لیے جڑے ہوئے ہاتھوں کو اپنے گالوں کے ساتھ لگا کر کہنے لگا:
’’فلک شیر معافی کس بات کی مانگ رہے ہو، میں سمجھتا ہوں کہ اس طوائف نے میرے خلاف حالات کا تانہ بانہ کچھ اس طرح بن دیا تھا کہ کوئی میری مدد بھی نہ کر سکتا تھا ورنہ تم جیسے وفادار دوست میرا ساتھ کبھی نہ چھوڑتے اس لیے اب مجھے تم سے کسی بھی قسم کا کوئی شکوہ شکایت نہیں جو تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے۔ ‘‘ وہ دونوں گلے ملے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
فلک شیر کے مل جانے کی وجہ سے خیر دین بہت خوش تھا کیونکہ وہ محفوظ ٹھکانے پر پہنچ چکا تھا یہاں ایک تو پولیس سے محفوظ ہو گیا تھا اور دوسرا وہ فکر معاش سے بھی آزاد تھا۔ کیونکہ فلک شیر نے فی الحال کسی بھی ذریعہ معاش میں پڑنے کے لیے سختی سے منع کیا ہوا تھا۔ وہ فلک شیر کی پناہ کو محفوظ تصور کر رہا تھا لیکن اصل میں فلک شیر کی پناہ اس کے لیے موت کی کوٹھڑی تھی کیونکہ فلک شیر کسی خفیہ مشن کے تحت طاقت کے انجکشن لگانے کے بہانے اسے ہیروئن سے بھرے ہوئے انجکشن لگاتا رہتا تھا جس کی وجہ سے وہ بُری طرح ہیروئن کا عادی مریض بن گیا تو اسے گھر سے باہر نکال دیا اور وہ نشے کی بیماری ساتھ لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گیا۔
آج اسی کم ذات کے لگائے ہوئے نشے کو پورا کرنے کی خاطر وہ بھیک مانگنے پر مجبور تھا اور جب اس نے فلک شیر کو لالی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے دیکھا تو وہ سب سمجھ گیا تھا کہ سارا کھیل میری زندگی تباہ کرنے کی خاطر لالی نے کھیلا ہے حالانکہ میں اس کو تباہ کرنا چاہتا تھا لیکن وہ اس بار بھی مجھے تباہ کر گئی وہ اپنی ہی سوچوں میں غرق تھا کہ اچانک کوئی راہ گیر اس کے ساتھ ٹکرایا جس کی وجہ سے اس کا ذہن ماضی سے ہٹ گیا تو اس نے اپنے اطراف نظر دوڑائی تو اسے احساس ہوا کہ مجھے یہاں بیٹھے بیٹھے کافی وقت گزر چکا ہے کیونکہ اب دن ڈھل چکا تھا جس کی وجہ سے گرمی کی شدت میں بھی خاصی کمی واقع ہو چکی تھی۔ سڑکوں پر آمدورفت بھی دوپہر کی نسبت کافی بڑھ چکی تھیں۔ چوک کے اطراف پر فٹ پاتھوں پر ہاکروں اور ریڑھی بانوں نے قبضہ جما لیا تھا۔ کہیں کہیں تو پھلوں کے خوانچے سج چکے تھے تو کہیں کہیں پک اپ گاڑیوں میں جانوروں کے مجسمیں سجائے قوت شباب کی ادویات بیچنے والے مجمع لگائے بیٹھے تھے، ابھی گنڈیریوں اور کٹے ہوئے پھل بیچنے والے اپنی ریڑھیاں لگانے کی خاطر فٹ پاتھ کے نزدیک پانی کا چھڑکاؤ کر رہے تھے تاکہ تیز رفتار ٹریفک کی وجہ سے گرد نہ اڑے اور گرمی کی حدت میں بھی کمی واقع ہو۔ لہٰذا اس نے بھی سوچا ماضی میں جو ہوا سو ہوا اب مجھے زندگی کی ڈور پکڑے رکھنے کے لیے نشے کے لیے کچھ اور رقم اکٹھی کر لینی چاہیے۔ وہ بھیک مانگنے کی خاطر ابھی اٹھ ہی رہا تھا کہ اچانک اس کے پاس ایک تیز رفتار گاڑی نے بریک لگائی اور ٹائروں کی چراہٹ کی آواز سے وہ چونک سا گیا تھا کہ اگلے ہی لمحے گاڑی میں موجود فلک شیر پر اس کی نظر پڑی تو اسے حیرت کا ایک شدید جھٹکا سا لگا وہ فلک شیر کو نظرانداز کر کے آگے بڑھنا چاہتا تھا کہ فلک شیر نے اپنا بازو بڑھا کر اس کا گریبان پکڑ کر غصے اور نفرت سے کھینچ کر اسے اپنے سامنے کر لیا جس کی وجہ سے خیر دین کی آنکھوں میں تشویش کی جھلک نمایاں ہو گئی اور اس کا ذہن اس الجھی ہوئی ڈور کا سرا تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ فلک شیر اتنا قہر آلود کیوں ہے۔
فلک شیر گاڑی کی پشت سے ٹیک لگائے سگریٹ کے ہلکے ہلکے کش لگاتے ہوئے خیر دین کا گریبان پکڑے ہوئے اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
’’اوئے حرام زادے تو نے لالی بی بی سے بھیک کیوں نہیں مانگی حالانکہ وہ صرف تم کو بھیک دینے اور تمہارا انجام دیکھنے کے لیے اِدھر آئی تھی لیکن ہجوم ہونے کے سبب وہ تمہیں کچھ دے نہ سکی اور نہ ہی تم کو ٹھیک طرح سے دیکھ سکی جس کا انہیں افسوس ہے اور مجھے غصہ اس لیے ہے کہ تو فقیر ہوتے ہوئے بھی اس عظیم ہستی سے بھیک مانگنے کے لیے اس کی گاڑی تک نہیں آیا حالانکہ تم کو آنا چاہیے تھا کیونکہ تو فقیر ہے اور تیرا کام مانگنا ہے لیکن تو دور کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اگر تو اس وقت لالی بی بی سے بھیک مانگ لیتا تو انہوں نے تمہاری حالت دیکھ کر خوشی سے تمہیں کچھ نہ کچھ تو دے ہی دینا تھا اور ساتھ ساتھ مجھے بھی بہت سا انعام دینا تھا، پر تو نے بھیک نہ مانگ کر اپنے ساتھ میرا بھی نقصان کیا فقیر کہیں کے۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے جھٹکے کے ساتھ خیر دین کا گریبان چھوڑا تو وہ زمین پر گر گیا تو فلک شیر اس کی طرف ہیروئن سے بھرا ہوا سگریٹ بڑھا کر دوبارہ کہنے لگا:
’’اوئے فقیر یہ لالی بی بی نے تمہارے لیے تحفہ بھیجا ہے کیونکہ وہ تم کو زندہ دیکھنا چاہتی ہے تاکہ تم اسی طرح اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن گزارتے رہو۔ ‘‘
خیر دین نے کل سے نشہ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے اس کا جسم نشہ نہ ملنے کے سبب درد سے دکھ رہا تھا اس حالت میں وہ اس بھرے ہوئے سگریٹ سے منہ پھیرنا گھاٹے کا سودا تصور کر رہا تھا لہٰذا اس نے دونوں ہاتھوں کی اوک بنا کر سگریٹ لینے کے لیے فلک شیر کے آگے بڑھا دی اور سر جھکا کر کہنے لگا:
’’صاحب جی اب غلطی نہیں ہوا کرے گی۔ ‘‘
٭٭٭
نشہ
’’یہ مشکل ترین کیس ہے لیکن میں اس کیس کو حل کر کے ہی دم لوں گی‘‘ یہ بات لیڈی پولیس انسپکٹر نے بڑے پختہ عزم کے ساتھ اپنے سامنے بیٹھی ہوئیں طوائفوں پر نگاہ دوڑاتے ہوئے کہی تھی کیونکہ طوائفوں نے اپنی ایک ساتھی طوائف کی گمشدگی کی رپٹ میں لکھوایا تھا کہ ہمارے گروہ کی پندرہ سالہ رکن آخری رات جب ڈاکٹر آصف کے ہاں گئی تو پھر واپس لوٹ کر نہیں آئی حالانکہ پہلے تو انہوں نے کبھی رپٹ درج نہیں کروائی تھی کیونکہ طوائفوں کی گمشدگی کے چند ایک واقعے پہلے بھی وقفے وقفے سے رونما ہو چکے تھے لیکن اب وہ اَن دیکھی قوت سے مغلوب ہو کر رپٹ درج کروا کر پولیس کی جرح سے کنی کترا رہی تھیں کیونکہ پولیس اس نکتہ پر زیادہ توجہ دے رہی تھی کہ طوائفیں ڈاکٹر آصف کو قاتل سمجھتے ہوئے بھی کیوں اس کے گھر شب بستری کے لیے چلی جاتی ہیں لیکن کوئی بھی طوائف پولیس کے لیے تسلی بخش جواز پیش نہ کر سکی تھی جس کی وجہ سے کیس پیچیدہ ہو چکا تھا کیونکہ پولیس کے پاس ڈاکٹر کو گرفتار کر کے شامل تفتیش کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آ رہا تھا لیکن پھر بھی پولیس انسپکٹر کو یقین تھا کہ میں اس معمے کا حل تلاش کر لوں گی۔
تقریباً شام سات بجے پولیس انسپکٹر تلاشی کے وارنٹ ساتھ لیے ڈاکٹر آصف کے گھر پہنچ گئی۔ جب ڈاکٹر آصف نے تلاشی کا جواز پوچھا تو وہ اس کی تسلی کرنے کی خاطر کہنے لگی:
’’ڈاکٹر صاحب چند طوائفوں نے رپٹ درج کروائی ہے کہ ہماری ایک ساتھی کل شام تمہارے گھر شب بستری کے لیے آئی لیکن واپس لوٹ کر نہیں آئی، اسی طرح کے واقعات سال بھر میں ایک دو بار اور بھی ہو چکے ہیں اور اس کا بھی شک تمہی پر آیا ہے۔ ‘‘
’’انسپکٹر! میں بغیر جواز کے ان کو کیسے قتل کر سکتا ہوں حالانکہ میرے اور ان کے درمیان کسی قسم کی عداوت بھی نہیں ہے۔ ‘‘
’’ڈاکٹر! ہو سکتا ہے کہ وہ قتل وقتی اشتعال کی بنا پر ہو گئے ہوں۔ ‘‘
’’نہیں نہیں انسپکٹر! سب کچھ جھوٹ ہے اور تم خواہ مخواہ مجھ پر شک کر رہی ہو حالانکہ وہ سب خود چل کر میرے پاس آتی ہیں میں کبھی بھی ان کو لینے کے لیے نہیں گیا انسپکٹر! وہ خود مجھے خطیر رقم دے کر میرے ساتھ رات بسر کرنے کا اصرار کرتی ہیں اور میں بھی رقم وصول کیے بغیر ان کے ساتھ ہم بستری کے لیے تیار نہیں ہوتا ہوں جو مجھے زیادہ رقم ادا کر دیتی ہے میں اس کے ساتھ رات بسر کرتا ہوں اور رات بارہ بجے فارغ کر دیتا ہوں تاکہ وہ کسی دوسری جگہ جا کر اپنی رقم پوری کر سکے ایسا ہر روز ہوتا ہے۔ حسبِ روایت میں نے اس لڑکی کو بھی رات بارہ بجے فارغ کر دیا تھا۔ طوائفیں مجھ سے فارغ ہو کر کہاں جاتی ہیں مجھے کچھ علم نہیں حالانکہ وہ ان کے کاروبار ہی کا وقت ہوتا ہے اس لیے وہ کسی اور گاہک کے پاس بھی جاتی ہوں گی اور جاتی بھی ہیں، میں نے کبھی بھی ان کو بارہ بجے کے بعد ٹھہرنے پر مجبور نہیں کیا، اگر تم کو میری بات پر یقین نہ آئے تو تم ان طوائفوں سے پوچھ لو کہ میں نے ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے کہ نہیں۔ ‘‘
’’ڈاکٹر آصف وہ کیا وجوہات ہے جس کی بنا پر طوائف رقم ادا کر کے تمہارے ساتھ ہم بستری پر اصرار کرتی ہے۔ ‘‘
’’کیونکہ وہ مجھے مکمل مرد، تسلیم کرتی ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر نے بڑے فخر کے ساتھ کہا تھا۔
لیڈی پولیس انسپکٹر کو گھر کی تلاشی باریک بینی کے ساتھ لینے کے باوجود کچھ برآمد نہ ہو سکا تھا لیکن پھر بھی اسے ڈاکٹر کی پُراَسرار جنسی کشش کی وجہ سے شک ضرور تھا کہ اس کیس میں ڈاکٹر کا کہیں نہ کہیں ہاتھ ضرور ہے لہٰذا وہ ثبوت کی تلاش میں دوسری رات عین اس وقت ڈاکٹر کے گھر پہنچ گئی جب طوائف اس کے پاس موجود ہوتی تھی۔
اچانک چھاپے کے سبب انسپکٹر کو وہ شراب مل گئی جس کی رسیا طوائفیں تھیں حالانکہ پہلی تلاشی کے دوران شراب کہیں سے بھی برآمد نہیں ہوئی تھی اور اب جبکہ اسے یہ مخصوص شراب مل گئی تو اس کا شک پختہ ہو گیا کہ واقعی اس کیس میں ڈاکٹر کا ہاتھ ضرور ہے چنانچہ اس نے بڑے فخر کے ساتھ بوتل کا ڈھکن اٹھایا تو اس میں سے ایسی مہک نکلی جو دل میں اتر گئی وہ اس مسحورکن خوشبو سے متاثر ہو کر کہنے لگی:
’’ڈاکٹر میں نے کبھی شراب نہیں پی لیکن شراب کے رنگ و بو سے آشنا ہوں کیونکہ میں نے کئی شراب کے کیس پکڑے ہیں لیکن ایسی مسحور کن خوشبو والی شراب میں نے اپنی پوری سروس میں نہیں پکڑی۔ ویسے ڈاکٹر تم یہ شراب کہاں سے خریدتے ہو۔ ‘‘
ڈاکٹر آصف انسپکٹر کا غیر متوقع سوال سن کر مسکرا کر کہنے لگا :
’’انسپکٹر میں شراب نہیں پیتا اور نہ ہی یہ شراب ہے۔ ‘‘
’’ڈاکٹر یہ شراب ہی ہے، کیا میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ ‘‘ انسپکٹر طوائف کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔
’’میڈم میں تو اسے شراب ہی تصور کرتی ہوں کیونکہ اس سے پینے سے جو سرور اور مزہ حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسری شراب میں مل ہی نہیں سکتا۔ ہم نے اس قسم کی شراب بازار سے خریدنے کی کوشش کی تھی لیکن کہیں سے بھی اس کا حصول ممکن نہ ہو سکا جس کی وجہ سے ہم مایوس ہو گئیں اور اس کا مزہ ڈاکٹر سے آ کر لینے لگیں۔ ‘‘
’’تم صرف شراب کی خاطر رقم خرچ کر کے ڈاکٹر کے پاس آتی ہو۔ ‘‘
’’کسی حد تک یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہم شراب کے لیے ہی آتی ہے۔ ‘‘
’’انسپکٹر! تم بھی ان کی طرح اس کو شراب ہی سمجھ رہی ہو حالانکہ یہ شراب نہیں ہے، میں نے ان کو بھی کئی بار سمجھایا ہے کہ یہ شراب نہیں ہے بلکہ میں نے تو ان کو یہ آفر بھی کی تھی کہ اگر تم صرف اس شربت کی خاطر میرے پاس آتی ہو تو یہ مجھ سے قیمتاً خرید لیا کرو اور میرے ساتھ رات بسر کرنے کی خاطر لڑا جھکڑا نہ کرو اور ان لوگوں نے یہ شربت مجھ سے خریدی بھی تھی لیکن پھر خود ہی پیچھے ہٹ گئیں۔ ‘‘
انسپکٹر ڈاکٹر کی بات سن کر طوائف کی طرف حقیقت جاننے کے لیے جواب طلب نگاہوں سے دیکھنے لگی تو طوائف بول پڑی :
’’انسپکٹر صاحبہ ڈاکٹر ٹھیک کہتا ہے، ہم نے اس سے یہ شراب خریدی ضرور تھی۔ ‘‘
’’تو پھر تم لوگوں نے دوبارہ اسے کیوں نہ خریدا۔ ‘‘
’’انسپکٹر صاحبہ اس شراب کے پینے سے ہی عورت کے اندر مرد کی خواہش شدت اختیار کر جاتی ہے اور وہ خواہش ڈاکٹر کے سوا کوئی دوسرا مرد پوری نہیں کر سکتا تھا۔ ’’دھندہ‘‘ کرنے کے باوجود ہماری خواہش تشنہ رہتی تھی جسے پورا کرنے کے لیے ہمیں مجبوراً ڈاکٹر کے پاس ہی آنا پڑتا تھا اور ڈاکٹر ہماری مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ہم سے دوگنی رقم وصول کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے ہم نے یہ شراب خریدنی ہی چھوڑ دی۔ ‘‘
’’ڈاکٹر یہ شراب کہاں سے خریدتے ہو بتاؤ ورنہ میں تم کو اسی وقت شراب رکھنے کے جرم میں گرفتار کر سکتی ہوں۔ ‘‘
’’بے شک مجھے گرفتار کر لو لیکن تم اس کو شراب ثابت نہیں کر سکتی اور نہ ہی دنیا کی کوئی لیبارٹری اسے شراب ثابت کر سکتی ہے۔ لہٰذا انسپکٹر تم میری بات کا یقین جانو کہ یہ شراب نہیں ہے بلکہ یہ تو عام سا میٹھا شربت ہے۔ ‘‘
’’تو یہ غلط کہہ رہی ہے کہ اس کے پینے سے جنسی کشش بیدار ہوتی ہے۔ ‘‘
’’ہاں یہ غلط کہہ رہی ہے کیونکہ یہ شربت پینے سے کسی کے اندر جنسی کشش پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے پینے سے نشہ طاری ہوتا ہے تم پی کر دیکھ سکتی ہے۔ ‘‘
’’اس میں کچھ ہے ضرور ورنہ کوئی طوائف اس طرح تمہارے پیچھے دوڑی نہ آتی۔ بہرکیف میں لیبارٹری ٹیسٹ سے تمام حقیقت جان جاؤں گی۔ ‘‘
’’شوق سے لیبارٹری ٹیسٹ کراؤ مجھے کوئی ڈر خوف نہیں کیونکہ یہ شراب ہے ہی نہیں، رہا ان طوائفوں کا سوال تو میں پھر یہی کہوں گا کہ یہ میری مردانگی کی وجہ سے میرے پاس دوڑی آتی ہے۔ ‘‘
’’ڈاکٹر! تم یہ بھول رہے ہو کہ یہ طوائفیں ہیں ان کا کام ہی مردوں کو رجھانا ہوتا ہے اس لیے ان کا واسطہ دن میں کئی بار نا مردوں سے نہیں بلکہ مردوں سے پڑتا ہے لیکن یہ پھر بھی تمہارے پاس اس طرح کیوں آتی ہے کوئی بات ہے ضرور جو تم مجھ سے چھپا رہے ہو۔ ‘‘
’’مجھے تو خود سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیوں میرے پاس دوڑی چلی آتی ہیں اور ساتھ ساتھ مجھ پر الزام تراشی بھی کرتی ہیں حالانکہ ان کی ساتھی عورتیں نہ جانے کیسے لاپتہ ہو جاتی ہیں اور یہ الزام مجھ پر لگا دیتی ہیں۔ ‘‘
’’یہ سب کچھ تو لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد معلوم ہو جائے گا فی الحال میں یہ شراب ساتھ لے کر جا رہی ہو۔ ‘‘
’’یہ شراب نہیں ہے۔ ‘‘
’’یہی ثابت کرنے کے لیے تو لے کر جا رہی ہوں۔ ‘‘
’’انسپکٹر! تم اپنا اور میرا وقت برباد کر رہی ہو۔ یہ شراب نہیں ہے بلکہ یہ میٹھا شربت ہے اور اسے میں عادتاً پیتا ہوں اگر میں اس کو نہ پیوں تو مجھے رات بھر نیند نہیں آتی اگر تم اس کو ساتھ لے کر چلی گئی تو میری نیند خراب ہو جائے گی لہٰذا تم آدھی بوتل لے جاؤ اور آدھی میرے لیے رہنے دوں۔ ‘‘
’’تو ڈاکٹر تم تسلیم کرتے ہو کہ اس میں نشہ ہے۔ ‘‘
’’ہرگز نہیں۔ ‘‘
’’تو تم اس کو عادتاً یا مجبوراً کیوں پیتے ہو، اگر اس میں نشہ نہ ہوتا تو تم ہر روز اس کا استعمال کرتے ہی کیوں ؟‘‘
’’انسپکٹر! ایسے ہی شک میں نہ پڑتی جاؤ ٹھیک ہے اگر تمہارا شک لیبارٹری ہی ختم کر سکتی ہے تو لے جاؤ میں رات جاگ کر گزارہ کر لوں گا۔ ‘‘
لیبارٹری تجزیہ نے پولیس انسپکٹر کے خدشات کو غلط قرار دیا تھا کیونکہ یہ شراب نہیں تھی بلکہ مختلف پھلوں کے مجموعے کا رس تھا جو مضر صحت بھی نہ تھا۔ لیبارٹری تجزیے نے یہ تو ثابت کر دیا تھا کہ یہ شراب نہیں بلکہ شربت ہے لیکن انسپکٹر کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ یہ شربت بازار میں دستیاب نہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر کے پاس کہاں سے آتا ہے اسی لیے وہ ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر اس سے پوچھنے لگی:
’’ڈاکٹر صاحب! لیبارٹری تجزیے کے مطابق تمہاری بات بالکل درست ثابت ہو چکی ہے کہ یہ شربت ہے لیکن میں تم سے صرف یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ تم اس کو کہاں سے خریدتے ہو، یہ بات بتا کر میری تسلی کر دو تو پھر تمہاری اس کیس میں شرکت ختم ہو جائے گی۔ ‘‘
’’میں یہ شربت خود تیار کرتا ہوں اسی لیے یہ بازار میں دستیاب نہیں، اس شربت کو بنانے کا فن میرا ایجاد کردہ ہے اور میں یہ شربت صرف اپنے لیے ہی بناتا ہوں۔ ‘‘
’’لیکن کیسے میں تفصیل جاننا چاہتی ہوں۔ ‘‘
ڈاکٹر انسپکٹر سے جان چھڑوانا چاہتا تھا اس لیے اسے شربت بنانے کا نسخہ بتانے پر راضی ہو گیا تھا حالانکہ اس سے پہلے اس نے یہ نسخہ کبھی کسی کو بھی نہیں بتایا تھا۔ لیکن اب حالات ہی ایسے ہو گئے تھے کہ جس کی بنا پر اسے مجبوراً اپنا ایجاد کردہ نسخہ افشا کرنا پڑ رہا تھا حالانکہ عام حالات میں وہ کبھی بھی اس کو افشا نہ کرتا لیکن اب وہ مجبوراً بتا رہا تھا:
’’انسپکٹر! میں مختلف پھلوں کو پہلے اچھی طرح صاف کر کے ان کا جوس نکالتا ہوں اور پھر اس جوس کو مٹی کے بڑے سے مرتبان میں ڈال کر اسے موٹے کپڑے سے اچھی طرح ڈھانپ دیتا ہوں اور پھر اسے انگور کے سیزن کے شروع میں انگور کی بیل کے نیچے جڑوں میں سے صرف ایک نوخیز جڑ اس مرتبان میں ڈال کر اسے مٹی میں دبا دیتا ہوں۔ جب اس کو ایسے ہی پڑے پڑے انگور کا سیزن گزر جاتا ہے تو میں اس کو نکال لیتا ہوں کیونکہ اب یہ عظیم شاہکار میں تحلیل ہو چکا ہوتا ہے۔ ‘‘
’’اس طرح تو جوس خراب ہو جائے گا۔ ‘‘
’’ہرگز نہیں ! اگر مہارت سے نوخیز جڑ کو اس مرتبان میں ڈالا گیا ہو تو پھر یہ کبھی بھی خراب نہیں ہو گا اور اگر جڑ درست طریقے سے مرتبان میں نہ پڑی ہو تو پھر اس میں کیڑے پڑ جائیں گے لہٰذا مزے دار شربت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جڑ ٹھیک طریقے سے مرتبان میں ڈالی جائے۔ مہارت ہونے کے باوجود مجھ سے ایک دو بار غلطی سے شربت خراب بھی ہوا تھا اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ نئے بنانے والے کو کافی محنت درکار ہو گی۔ ‘‘
’’بات ذہن تسلیم نہیں کرتا کہ اس طرح بھی کوئی شربت تیار ہو سکتا ہے۔ سنا ہے ایسے تو دیسی شراب تیار ہوتی ہے۔ ‘‘
’’اس شربت کو بنانے کے لیے جس نوخیز جڑ کی ضرورت ہوتی ہے وہ صرف انگور کے سیزن میں ہی مل سکتی ہے لہٰذا جب انگور کا سیزن شروع ہو گا تو میں تمہارے سامنے شربت تیار کروں گا تاکہ تم اس شربت کی حقیقت کو جان سکوں لہٰذا اب اگر تم چاہو تو اسے نوش فرما سکتی ہو اس میں کوئی نشہ آور چیز نہیں ہے۔ ‘‘
’’لیکن وہ طوائف تو کہتی تھی۔ ‘‘
’’انسپکٹر! اسے پی کر تمہیں خود اندازہ ہو جائے گا ویسے تم نے لیبارٹری ٹیسٹ بھی تو کروایا ہوا ہے۔ ‘‘
انسپکٹر نے زندگی میں پہلی بار اتنا شیری شربت پیا تھا۔ اس شربت کی مٹھاس شیری تو تھی لیکن نشہ آور نہ تھی اور نہ ہی اس کے پینے سے اس کے اندر مرد کی خواہش پیدا ہوئی تھی جو کہ طوائفیں کہتی تھیں حالانکہ اس نے یہ شربت کئی دن متواتر پیا تھا اس لیے تو اسے یہ یقین ہو چکا تھا کہ طوائفیں ڈاکٹر کو پھنسوانے کے لیے ڈرامہ رچا رہی ہے۔
طوائف کی گمشدگی والے واقعے کو بمشکل چھ ماہ کا عرصہ ہی گزرا ہو گا کہ اس جیسا ایک اور واقعہ رونما ہو گیا لیکن اس بار طوائف کی گمشدگی کی خبر اخبارات کے ہاتھ لگ گئی اور اخبارات نے اس خبر کو خوب اچھالا جس کی وجہ سے پولیس ڈیپارٹمنٹ کی بدنامی ہو رہی تھی۔ لہٰذا اس کیس کو درست طور پر نبٹانے کی خاطر انسپکٹر نے اپنی تفتیش کا دائرہ صرف طوائفوں تک ہی پھیلایا ہوا تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ یہ آپس کی رقابت کی بنا پر ایک دوسری کو قتل کر کے لاش کہیں پھینک دیتی ہیں اور خود مظلوم بننے کے لیے واویلا مچا دیتی ہیں۔
ایک شام پولیس انسپکٹر علاقے میں متنازعہ موقع دیکھنے کے لیے گئی تو وہاں سے واپسی پر اس کی سرکاری جیپ خراب ہو گئی چنانچہ اس نے ڈرائیور کو گاڑی ٹھیک کروانے کے لیے بھیج دیا اور خود ڈاکٹر سے ملاقات کی غرض سے اس کے گھر چلی آئی کیونکہ ڈاکٹر کا گھر چند قدموں کے فاصلے پر واقع تھا۔ اب تو اس کے ڈاکٹر کے ساتھ گہرے روابط بھی استوار ہو چکے تھے جس کی وجہ سے وہ اکثر بن بتائے ڈاکٹر کے گھر چلی آتی تھی لیکن آج خلافِ توقع جب اس کی نظر تہہ خانے کے دروازے پر پڑی تو اس کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا کیونکہ اس نے ڈاکٹر کا گھر بڑی اچھی طرح سے دیکھا ہوا تھا لیکن تہہ خانے کے مطلق اسے پہلی بار معلوم ہوا تھا لہٰذا وہ اسے دیکھنے کی خاطر ڈاکٹر سے کہنے لگی:
’’ڈاکٹر صاحب تہہ خانے کا راستہ بڑا خفیہ رکھا ہوا ہے، میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔ ‘‘
ڈاکٹر آصف نے تہہ خانہ خفیہ مقاصد کی تکمیل کی خاطر بنوایا ہوا تھا اس لیے اس نے اس کا دروازہ بھی خفیہ رکھا ہوا تھا لیکن جب انسپکٹر کو تہہ خانے کے متعلق معلوم ہو گیا تو ڈاکٹر کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ اسے نیچے نہ لے جانے کی خاطر حیل و حجت کرنے لگا لیکن پولیس انسپکٹر کی دلیلوں کے آگے اس کی ایک نہ چل رہی تھی چنانچہ وہ شربت پلانے کے بہانے چند لمحوں کے لیے انسپکٹر کے ارادوں کے آگے بند باندھنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ دونوں رسمی بات چیت کے دوران شربت سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اچانک ڈاکٹر نے ایک ایسا سگریٹ سلگایا جس کی عام سگریٹوں والی مہک نہیں تھی بلکہ اس کی مہک تو شربت سے بھی زیادہ مسحور کن تھی چنانچہ یہ مہک بھی انسپکٹر کے لیے حیران کن تھی اس لیے وہ ڈاکٹر سے کہنے لگی:
’’ڈاکٹر تمہارا سگریٹوں کا ٹیسٹ بھی منفرد ہے۔ اس کی خوشبو بھی لاجواب ہے۔ ‘‘ ابھی وہ اپنی تعریف مکمل بھی نہ کر پائی تھی کہ اس کے اندر جنسی بیداری شدت اختیار کر گئی اور وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے جنسی جذبات کو نہ روک سکی اور ڈاکٹر آصف کے ساتھ پر تکلف ہونے اور اسے اپنی طرف مائل کرنے کی خاطر بے حجاب ہو رہی تھی لیکن ڈاکٹر آصف جو یہ جان چکا تھا کہ اس کے اندر اب مرد کی خواہش شدت اختیار کر چکی ہے لہٰذا وہ اس کو اور زیادہ تڑپانے کی خاطر کہنے لگا:
’’انسپکٹر مجھے ضروری میٹنگ پر جانا ہے اس لیے معذرت چاہتا ہوں کہ میں زیادہ دیر تمہارے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا۔‘‘
انسپکٹر کے اندر جنسی خواہش شدت اختیار کر چکی تھی اور وہ ہر حالت میں جنسی تسکین چاہتی تھی لیکن ڈاکٹر جان بوجھ کر کنی کترا رہا تھا لہٰذا اس نے مجبوراً ڈاکٹر کو دھمکی دے دی کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تم پر زیادتی کا الزام لگا دوں گی اور تمہیں پکڑوا دوں گی لہٰذا اسے مجبوراً انسپکٹر کی بات ماننی پڑی تھی۔
اس واقعے کے بعد انسپکٹر جان چکی تھی کہ واقعی شراب اور سگریٹ کا کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور ہے اب اسے طوائفوں کی بات حقیقت معلوم ہو رہی تھی لیکن وہ سب کچھ جانتے سمجھتے ہوئے بھی ڈاکٹر کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کر سکتی تھی کیونکہ وہ نشہ کی وجہ سے ہر روز ڈاکٹر کے پاس آنے کے لیے مجبور تھی جس کی وجہ سے وہ ڈاکٹر کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئی تھی ڈاکٹر جب چاہتا اسے بدنام کر سکتا تھا۔ وہ بدنامی کے خوف اور لذت دہن کی بنا پر بخوشی ڈاکٹر کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے پر رضامند تھی۔
آغاز سرما کی ابر آلود شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ باہر ہلکی ہلکی بوندا باندی کی وجہ سے موسم رومانٹک ماحول اختیار کر چکا تھا اور انسپکٹر تھکے تھکے سے انداز اور مایوسی کے عالم میں اپنے بپھرے ہوئے جذبات پر بند باندھنے کی کوشش کر رہی تھی وہ جوں جوں اپنے اندر پلنے والے جذبات کو دباتی توں توں جذبات اور زیادہ بھڑک اٹھتے تھے۔ لذت گناہ کے احساس نے بالآخر اس کے اندر ذہنی مدہوشی طاری کر دی تھی۔ اس ذہنی مدہوشی کے عالم میں اسے احساس نہ تھا کہ وہ اس وقت سب گھر والوں کی موجودگی میں کہاں جا رہی ہے ؟ تیز تر گاڑی چلاتے ہوئے وہ ڈاکٹر کے گھر پہنچ گئی۔ گھر کا دروازہ خلاف توقع کھلا تھا اس لیے وہ کال بیل دبائے بغیر اندر داخل ہو گئی کہ اچانک اس کی نظر تہہ خانے کے دروازے پر پڑ گئی جو کھلا تھا اور وہاں سے روشنی کی کرنیں بھی باہر آ رہی تھیں جس سے اسے گمان گزراہ کہ ڈاکٹر تہہ خانے میں ہی موجود ہے لہٰذا وہ نیچے اتر گئی۔ اسے تہہ خانے سے کراہت سی محسوس ہو رہی تھی حالانکہ وہاں پر صرف دو ڈرم ہی پڑے ہوئے تھے پھر بھی اسے یہاں کھڑے کھڑے تنفر کا احساس ہو رہا تھا لیکن ڈاکٹر بڑے انہماک کے ساتھ اس کی طرف پشت کئے اپنے کام میں مصروف تھا۔ ڈاکٹر کو اس تنفر زدہ ماحول میں کام کرتے ہوئے دیکھ کر اس کے ذہن میں خدشات منڈلانے لگیں۔ قبل اس کے کہ وہ خدشات کوئی حقیقت پسند فیصلہ کرتے وہ ڈاکٹر کے پاس بیٹھ کر اسے رجھانے لگی لیکن ڈاکٹر خاموشی سے بیٹھا اپنا محلول بنانے میں مصروف رہا۔ اسے توقع تھی کہ ڈاکٹر شربت کے لیے محلول بنا رہا ہے، پھر اپنے ہی خیال کی تصحیح کی خاطر وہ کہنے لگی:
’’ڈاکٹر شربت بنایا جا رہا ہے یا سگریٹ کے لیے تمباکو تیار ہو رہا ہے۔ ‘‘
لیکن ڈاکٹر نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’ڈاکٹر ناراض ہو۔ ‘‘
’’ہاں۔ ‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’تمہیں آج یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ ‘‘
’’کیوں بھئی آج کسی اور کو ٹائم دیا ہوا تھا جناب نے۔ ‘‘
’’تم بھول جاتی ہو کہ تم پولیس انسپکٹر ہو، اگر ہمارے تعلقات کی ذرہ سی پھنک بھی محکمہ پولیس یا پھر تمہارے شوہر کو ہو گئی تو میں مفت میں مارا جاؤں گا۔ ‘‘
’’میں سب جانتی ہوں اس لیے پکے کام کر کے یہاں آتی ہوں، میرا شوہر ہی کیا مجھے تو پولیس بھی ٹریس نہیں کر سکتی کہ میں اس وقت کہاں ہوں لہٰذا تم میری نہیں بلکہ اپنی فکر کیا کرو اور یوں دروازے کھول کر اپنا یہ شاہکار تخلیق نہ کیا کرو، اگر کسی کو شک ہو گیا تو خواہ مخواہ کے لیے اندر ہو جاؤ گے۔ ‘‘
’’کیا مطلب! میں کوئی جرم کر رہا ہوں۔ ‘‘
’’او چھوڑو ڈاکٹر فضول باتوں کو، آؤ بیڈ روم میں جا کر کام کی باتیں کرتے ہیں۔ ‘‘
’’ہاں ہاں چلتے ہے پہلے تم میری نئی تخلیق کا مزہ چکھو یہ گولی میں نے آج ہی بنائی ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ گولی سگریٹ اور شربت سے بھی زیادہ پر لطف ہے۔ ‘‘
’’اچھا یہ بات ہے تو میں اسے شوق سے کھاؤ گی۔ ‘‘
چند ہی لمحوں میں اس پر لطف کی ایسی کہکشاں چھائی کہ اس کی آنکھوں میں غنودگی چھانے لگی اور وہ غنودگی کے عالم میں کہنے لگی:
ڈاکٹر تم کمال کی چیزیں بناتے ہو آخر اس میں کیا ڈالتے ہو کہ انسان جنت کی وادیوں میں گھومنے لگتا ہے اور ساتھ ہی اس پر غنودگی کی کیفیت اور زیادہ ہو گئی اس کی آنکھیں نشے کی وجہ سے بند ہو رہی تھیں اور ٹانگیں ایسی محسوس ہو رہی تھیں کہ گویا اس میں جان ختم ہو گئی ہے۔ اس کی آواز دھیمی پڑ چکی تھی۔
’’جانے من! میں آج تم کو راز کی بات بتاتا ہوں، میں جو شربت بناتا ہوں اسے پینے سے کوئی نشہ نہیں ہوتا لیکن جب میں کیمیکل ملا سگریٹ پیتا ہوں تو اس سگریٹ کا دھواں شربت پینے والی عورت کے اندر جب پہنچتا ہے تو اس کے تن بدن میں جنسی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور وہ بیقرار ہو جاتی ہے۔ ‘‘
’’تم جو شراب اور سگریٹ میں کیمیکل ڈالتے ہو وہ کھلی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ ‘‘
’’نہیں۔ ‘‘
’’تو پھر تم کہاں سے حاصل کرتے ہو۔ ‘‘
انسپکٹر کی حالت بگڑتی جا رہی تھی اور اس کی آنکھوں کے تلے اندھیرا چھا رہا تھا لیکن وہ پھر پوچھتی ہے ’’جان تم کیسے بناتے ہو کیمیکل مجھے بتاؤ گے نہیں۔ ‘‘
’’میں ان ڈرموں کے اندر مختلف تیزاب ڈالتا ہوں پھر اس کے اندر ایک عدد انسان ڈالتا ہوں وہ انسان اس کے اندر ایسے مکس ہو جاتا ہے جیسے دودھ کے اندر چینی مکس ہو جاتی ہے، اس کے بعد ایک ایسا شاہکار بن جاتا ہے جس کو میں پھلوں کے جوس اور تمباکو میں ڈال کر پیتا ہوں اور زندگی کے مزے لوٹتا ہوں۔ ‘‘
ڈاکٹر سے کلیہ سُن کر اس کی زبان میں لگنت پیدا ہو چکی تھی اور وہ گھبرا کر کہتی ہے :
’’تم طوائفوں کو اس طرح مارتے ہو۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ تہہ خانے سے بھاگنے لگتی ہے لیکن نشہ آور گولی جو اس نے اگلی ہوئی تھی اپنا اثر دیکھا چکی تھی جس کی بنا پر وہ وہیں گر پڑی تھی۔
ڈاکٹر اس کے پاس جا کر اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیتا ہے اور اسے کہتا ہے :
’’جانے من تم بہت کچھ جان چکی ہو اس لیے اب تم خود نشہ بننے کے لیے تیار ہو جاؤ ورنہ میں دنیا کے لیے تماشہ بن جاؤں گا۔ ‘‘
وہ اس کا گلہ دبا کر اسے ڈرم میں گرا دیتا ہے۔
٭٭٭
عہد
بوٹا آج غصہ کی حالت میں ایسے ہی گھر سے روزی کی تلاش میں نکل پڑا تھا نہ تو اس نے شیو بنائی تھی اور نہ ہی اس نے کلف لگے کپڑے پہنے تھے بس جن کپڑوں میں وہ سو کر اٹھا تھا انہی کپڑوں میں ویسی ہی حالت میں وہ دھندے کے لیے چل پڑا تھا۔ وہ حسبِ معمول جب دھندے کے لیے گھر سے نکلتا تو گلی کی نکڑ سے پان والے کے کھوکھے سے پان ضرور خریدتا تھا لیکن آج اس نے وہ راستہ ہی اختیار نہ کیا تھا بلکہ وہ دوسرے راستے سے ہوتا ہوا مین بازار میں داخل ہو گیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ پان والے کے کھوکھے پر بیٹھے اس کے یار دوست اس کا مذاق اڑائیں لہٰذا ان سے بچنے کے لیے یہی بہتر تھا کہ راستہ ہی تبدیل کر لیا جائے۔ آج پھر شیداں نے اسے بغیر کچھ کھائے پیئے گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا یہ کوئی پہلی مرتبہ تو ہوا نہ تھا بلکہ اسے اکثر بھوکے پیاسے ہی گھر سے نکلنا پڑتا تھا۔
’’یا الٰہی میں کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں جب سے اس شیداں سے شادی رچائی ہے اس دن سے ہی قسمت کے فیصلے میرے حق میں الٹ جا رہے ہیں جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں وہی الٹ پڑ جاتا ہے حالانکہ پوری محنت اور جانفشانی سے کرتا ہوں۔ اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ اگر سونے کو بھی ہاتھ لگاؤ تو وہ بھی مٹی بن جائے۔ کوئی کام بھی تو اس دن سے ٹھیک طرح سے انجام نہیں پا رہا، اوپر سے گھر کا ماحول تناؤ زدہ اس کمبخت شیداں نے بنا دیا ہے۔ ‘‘
مسائل میں پھنسا ہوا بوٹا انہی سوچوں میں گم شیداں کو کوستا ہوا تیز تیز قدم اٹھاتا سینما ہال کی طرف رواں دواں تھا، اسے یکایک خیال آیا کہ میں تو آج حسبِ معمول تیار ہو کر گھر سے نہیں نکلا اور اس حالت میں تو شکل سے ہی جیب کترا لگ رہا ہوں۔ انسان کی عزت لباس سے ہوتی ہے اگر قیمتی کپڑے کسی بُرے اخلاق والے شخص نے پہن رکھے ہوں تو لوگ اسے مہذب ہی جانتے ہیں۔ اسی طرح اگر اچھے چال چلن والا معمولی سے لباس میں کسی پبلک مقام پر چلا جائے تو لوگ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر میں اسی حالت میں سینما ہال میں داخل ہو گیا تو وہاں پر کسی کی جیب کٹ گئی تو اس کا شک مجھ پر ضرور جائے گا جس کی وجہ سے لینے کے دینے پڑ جائیں گے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ سینما کا رخ نہ کیا جائے۔ ویسے بھی آج اس کا موڈ دھندے کے لیے نہیں تھا اس نے سوچا کیوں نہ آج ہسپتال جا کر شیدے کی تیمار داری کر لی جائے جو ہفتہ پہلے جیب کاٹتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اور لوگوں نے اس کی وہ دھلائی کی کہ اس کو مہینہ بھر کے لیے بے روزگار کر کے رکھ دیا۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ہسپتال کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اسے خیال آیا کہ میں اپنے جگری یار کی تیمار داری کے لیے جا رہا ہوں اگر خالی ہاتھ گیا تو کچھ اچھا نہ لگے گا کیوں نہ کچھ پھل خرید لیا جائے۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہ خالی تھی۔ کل شام ہی تو اس نے جیب میں دو ہزار روپے رکھے تھے وہ بھی اس کی بیوی نے نکال لیے تھے۔ اپنی خالی جیب پا کر اسے شیداں پر بے حد غصہ آیا اور وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر رہ گیا اور خالی ہاتھ ہی دوست کی تیمار داری کے لیے چل پڑا۔
آج اس کا موڈ صبح سے ہی خراب ہو گیا تھا جس کا سبب شیداں تھی۔ جس کی روزبروز بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کو جیب کتری کے علاوہ چھوٹی موٹی چوریاں بھی کرنی پڑتی تھیں جس سے اچھی خاصی رقم جمع ہو جاتی تھیں لیکن شیداں کے لیے یہ رقم پھر بھی ناکافی ہوتی تھی وہ کثیر رقم کو بھی چند ہی دنوں میں ختم کر دیتی اور مزید رقم کا مطالبہ کرتی، جس کی وجہ سے گھر کا ماحول سکون سے عاری تھا۔ زندگی میں نحوست اور بے سکونی کا زہر تو اس وقت ہی گھل گیا تھا جب سے اس نے شیداں سے شادی کی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن، کوئی ایک دن بھی تو ایسا نہیں گزرا تھا جو اس کے لیے سکون کا باعث ہوتا۔ مسلسل بے سکونی کی وجہ سے اب تو اس کا ہر کام الٹ پڑ جاتا تھا اور وہ کئی مرتبہ گرفتار بھی ہوا جس کی وجہ سے اس کا نام تمام پولیس اسٹیشنوں میں درج ہو گیا تھا۔ شہر بھر میں جہاں کہیں بھی کوئی واردات ہوتی اسے تفتیش کے لیے بلا لیا جاتا۔ یہ سب کمبخت شیداں کی فضول خرچیوں کا کیا دھڑا تھا۔ اس کلموہی کے لیے اپنوں کو چھوڑنا پڑا تھا لیکن وہ پھر بھی اپنی نہ بنی وہ خود تو فٹ پاتھ پر پل کر جوان ہوئی تھی۔ اب تو اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ عورت اسے بھی بھیک مانگنے پر مجبور کر دے گی۔ شیداں کی جب سے بوٹے کے ساتھ شادی ہوئی تھی وہ تو اپنی اوقات ہی بھول گئی تھی وہ شیداں جس کا سارا دن سڑکوں پر بھیک مانگ کر گزر جاتا تھا اور وہ دن بھر میں جو رقم بھیک مانگ کر اکٹھی کرتی تھی وہ رقم اس کا نشئی باپ اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے اس سے چھین کر لے جاتا تھا۔ وہی لڑکی شادی کے بعد ایسے بدل گئی جیسے کسی امیر باپ کی بیٹی ہو۔ اس نے تو اپنی محرومیوں کا خوب ازالہ کیا اِس کے بڑھتے ہوئے اخراجات پورے کرنے کے لیے بوٹا ایک معمولی سے جیب کترے سے بڑی بڑی چوریاں کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اس نے سوچا تھا کہ شیداں سے شادی کے بعد کوئی با عزت کام کروں گا لیکن معاملہ اس سے برعکس نکلا۔ اس عورت نے اس کو اس قدر مجبور کر دیا کہ وہ اپنا نیک ارادہ بھول کر مزید اسی دلدل میں پھنستا چلا گیا جس سے وہ نکلنا چاہتا تھا اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار بھی تو نہ تھا۔ آخر بیوی بچوں کے حقوق پورے کرنے کے لیے تک و دو تو کرنا ہی پڑتی ہے سو عزت کی روٹی سے گھر کا خرچ تو چل نہیں سکتا تھا۔
سورج دن بھر اپنی چمک دمک دیکھا کر اب چھپ چکا تھا۔ شام کے سائے آہستہ آہستہ بڑھ رہے تھے۔ فضا میں ہلکی ہلکی خنکی تھی جس سے دل کو سکون ملتا تھا۔ اسے کہیں سے مغرب کی اذان سنائی دے رہی تھی۔ اس کا دل چاہا کیوں نہ آج رحمان و کریم کی بارگاہ میں حاضری دی جائے جو دلوں کے بھید بہتر جانتا ہے لیکن پھر اس پر شیطان حملہ آور ہو گیا اور اس نے اپنا ارادہ تبدیل کر دیا۔ اس کی نیت پختہ نہ تھی اس لیے تو شیطان اس پر اتنی جلدی غالب آ گیا تھا۔
مایوسی اور پریشانی کے ملے جلے اثرات لیے وہ ہسپتال کے مین گیٹ میں داخل ہو گیا دفعتاً وہ ایک بزرگ کے ساتھ ٹکرایا۔ دبلے پتلے جسم کا مالک بوڑھا جس نے معمولی سے کپڑے پہن رکھے تھے بوٹے کے ساتھ ٹکراتے ہی گر پڑا وہ بزرگ کو سہارا دینے کے لیے جھکا تو بلا ارادہ اس کا ہاتھ بزرگ کی جیب میں چلا گیا—
وہ اپنی تیز چھٹی حس سے اندازہ لگانے میں کامیاب ہو گیا کہ رو مال میں بندھے ہوئے کرنسی نوٹ ہی ہیں۔ جس تیز رفتاری کے ساتھ وہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوا تھا اس سے بھی زیادہ برق رفتاری کے ساتھ وہ یہ رقم بزرگ کی جیب سے نکال کر اپنی جیب میں ڈالنے میں کامیاب ہو گیا تھا پھر وہ بزرگ کو سہارا دے کر اُسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دیتا ہے اور بڑے مؤدبانہ انداز میں اُس سے معذرت کرتا ہے اور حال احوال پوچھ کر فوراً وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہاں زیادہ دیر ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں۔
بوٹے نے ہسپتال کی حدود سے نکل کر نیشنل پارک میں پہنچ کر اطمینان کا سانس لیا۔ راستہ بھر اس کا نہ تو کسی نے تعاقب کیا تھا اور نہ ہی کسی کو اس پر کسی قسم کا شک گزرا تھا۔ وہ ہر واردات کے بعد اس پارک میں آ کر بٹوے کی جامہ تلاشی لیا کرتا تھا جو اس نے کسی کی جیب سے اپنا مال سمجھ کر نکالے ہوتے تھے۔ سو وہ آج بھی اس مقصد کی تکمیل کے لیے یہاں آیا تھا۔ آج تو اس کا دل بار بار گواہی دیتا تھا کہ اس رو مال میں کافی بڑی رقم موجود ہے اور وہ اس کو کھولنے کے لیے بے قرار تھا۔
رو مال کی گانٹھیں کھولیں تو اس میں کرنسی نوٹ، شناختی کارڈ اور ایک عدد خط تھا جو پوسٹ کرنے کے لیے جیب میں رکھا گیا تھا۔ اس نے شناختی کارڈ اور خط پر سرسری سی نگاہ ڈالی اور پھر ان چیزوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اس نے نوٹ گننا شروع کر دیں جو ایک لاکھ پچاس ہزار تھے۔ یہ رقم اس کی سوچوں سے بھی زیادہ تھی۔ اس نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ قسمت اس پر اتنی مہربان ہو جائے گی کہ بنا کسی منصوبہ بندی اور جد و جہد سے اسے اتنی بڑی رقم اتنی آسانی کے ساتھ ایسے اس کے ہاتھ آ لگے گی جیسے کوئی پکا ہوا پھل خود ہی جھولی میں گر پڑتا ہے۔
کرنسی نوٹ کے علاوہ باقی تمام اشیاء وہ فوراً پھینک دیا کرتا تھا لیکن بند لفافہ دیکھ کر اس کے دل میں اشتیاق ابھرا کہ اس خط کو پڑھنا چاہیے جس سے تھوڑا وقت بہتر طریقے سے گزر جائے گا۔ اس مقصد کے لیے اس نے خط کھول کر پڑھنا شروع کر دیا—
پیارے بیٹے سکندر خوش رہو آباد رہو!
بیٹا امید کرتا ہوں کہ تم خوش و خرم ہوں گے، میں تمہاری خوشیوں کے لیے دعاگو ہوں۔ بیٹا خط لکھنے میں دیر اس لیے ہو گئی کہ میں پہلے رقم کا انتظام نہ کر سکا سو اب ہو گیا تو میں نے سوچا تم کو خط لکھ کر اطلاع کر دوں۔
بیٹا یہ صحت مند روایت نہیں کہ اپنے جائز، ناجائز مطالبات منوانے کے لیے بیوی کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جائے۔ تم نے میری بیٹی کو اس بناء پر میرے گھر بھیج دیا کہ میں تم کو کاروبار کے لیے ایک لاکھ روپیہ مہیا کر سکوں۔
تم تو جانتے ہو کہ میں ایک ریٹائرڈ شخص ہوں سارا سارا دن گلی گلی گھوم پھر کر بچوں کے کھلونے بیچتا ہوں اس سے جتنی آمدنی ہوتی ہے اس کا تم کو خوب اندازہ ہے کہ گھر کا خرچ کیسے چلتا ہے۔
مجھ جیسے غریب شخص کے لیے ایک لاکھ کی رقم کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے لیکن پھر بھی میں نے تمہارا مطالبہ پورا کر دیا ہے یہ رقم میں نے اپنا ایک گردہ بیچ کر حاصل کی ہے اس کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ کار نہ تھا لہٰذا میں نے اپنا گردہ بیچ دیا کیونکہ بیٹی کا گھر بسانا میرے لیے زیادہ اہم اور ضروری امر تھا نہ کہ گردہ۔
بیٹا خط لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میرے پاس دینے کے لیے پہلے بھی کچھ نہ تھا اور اب بھی کچھ نہیں ہے۔ اب تو میرے جسم میں بھی کوئی ایسی شے نہیں کہ جسے بیچ سکوں۔ لہٰذا اس کے بعد مطالبہ کرنا بے سود ہو گا کیونکہ میرے لیے مزید مطالبات پورے کرنا ممکن نہیں ہے۔
بیٹا تم اپنی رقم اور میری بیٹی کو با عزت طور پر لے جاؤ تاکہ میں سکون سے زندگی کے باقی ماندہ دن بسر کر سکوں۔ اللہ تم دونوں کو ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تم دونوں کی جوڑی ہمیشہ آباد رکھے۔ آمین۔
بیٹا جلدی آنا میرے پاس اتنی بڑی رقم سنبھالی نہ جائے گی کیونکہ چوری چکاری کا ڈر رہتا ہے لہٰذا جلدی سے اپنی رقم لے جاؤ۔
فقط تمہارا باپ
کچی آبادی خیر آباد لاہور
خط پڑھتے ہی اس پر غشی کی کیفیت طاری ہو گئی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے جسم سے روح نکل چکی ہو اور اس کا جسم بے جان پڑا ہو۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے کیونکہ ضمیر کی خلش اسے بار بار ملامت کرتی تھی کہ تم سے بہت بڑی خطا سرزد ہو گئی ہے۔ ’’یہ شخص جس کی تم نے جیب کاٹی ہے اس نے اپنی بیٹی کا گھر بسانے کی خاطر اپنا گردہ بیچ کر رقم حاصل کی، جب یہ شخص اپنی خالی جیب دیکھے گا تو اس پر کیا گزرے گی وہ اپنی خالی جیب پا کر مر جائے گا اس کی موت کا ذمہ دار تم ہوں گے۔ ‘‘
ضمیر کی خلش اسے ماضی میں لے گئی اور اس کے ذہن میں اپنی اس بہن کی تصویر ابھر آئی جس کا انتقال ہارٹ اٹیک سے ہو گیا تھا۔ اس کی موت کا سبب اس کا شوہر تھا جس نے اسے اس بناء پر باپ کے گھر بٹھا دیا تھا کہ وہ اپنے باپ سے موٹر سائیکل کے لیے رقم لے کر آئے۔ رضیہ کا باپ تو گاؤں کے چوہدری کا ایک معمولی سا مزارعہ تھا اس کے پاس سائیکل خریدنے کے لیے بھی پیسے نہ تھے موٹر سائیکل کہاں سے خرید کر دیتا۔ رضیہ کے شوہر نے بد چلنی کی تہمت لگا کر اس کو طلاق دے دی وہ یہ تہمت برداشت نہ کر سکی اور مر گئی۔ اس واقعہ نے بوٹے کے اندر گاؤں چھوڑنے کی تحریک پیدا کی کہ ’’میں شہر جا کر محنت مزدوری کروں گا اور بہت ساری دولت کما کر گاؤں واپس آؤں گا اور اپنے بہن بھائیوں کی محرومیوں کا ازالہ کروں گا۔ ‘‘ وہ اب گاؤں میں رہنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ یہاں رہ کر وہ صرف چوہدری کا مزارعہ ہی بن سکتا تھا اور وہ مزارعہ بننا نہیں چاہتا تھا کیونکہ مزارعہ بننے سے تو با عزت روزی بھی میسر نہیں آتی تھی۔
بوٹا شروع سے ہی تو جیب کترا نہ تھا جب وہ گاؤں سے شہر روزی کمانے کے لیے آیا تو اسے کہیں بھی ملازمت نہ ملی۔ شہر رہ کر اس نے بہت دھکے کھائے، چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کیں اسے دن بھر کی سخت محنت کا معاوضہ اتنا کم ملتا کہ پیٹ بھر کر کھانا کھانا بھی ممکن نہ تھا، وہ تو گاؤں سے حسین مستقبل کے خواب لے کر نکلا تھا لیکن یہاں اسے تاریکی ہی تاریکی نظر آئی وہ ناکام گاؤں واپس جانا نہیں چاہتا تھا لیکن یہاں کامیابی اسے نظر نہیں آ رہی تھی۔ مایوسی میں اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے اسی کشاکشی میں اس کی ملاقات سکندر نامی شخص سے ہو گئی جو علاقے کا دس نمبریہ تھا اس کی صحبت میں بیٹھ کر وہ بھی اسی کے نقشے قدم پر چل نکلا اور اس نے بھی لوگوں کی جیبیں کاٹنا شروع کر دیں، کچھ ہی عرصہ میں وہ اپنے فن میں اتنا مشاق ہو گیا کہ وہ اپنے علاقے کے اپنے جیسے لوگوں کا گروہ بن گیا۔ وہ بری سوچ لے کر گاؤں سے شہر نہیں آیا تھا بلکہ حالات نے اسے بُرا بنا دیا تھا لیکن پھر بھی اس کے اندر کا اچھا انسان ابھی زندہ تھا جو گاؤں سے شہر حق حلال کی روزی کمانے کے لیے آیا تھا لیکن راستے میں ہی بھٹک گیا تھا۔
اس کا ضمیر اسے بار بار ملامت کرتا کہ ’’تو نے بہت سے لوگوں کو ان کی حق حلال کی کمائی سے محروم کیا اور تمہارا یہ نظریہ رہا کہ رقم اُس کی جس کی جیب میں ہو۔ تم نے کبھی کسی پر ترس نہیں کھایا۔ بے شک تم پر بھی کبھی کسی نے ترس نہیں کھایا، اگر کوئی ایک شخص بھی تم پر شفقت کا ہاتھ رکھ دیتا تو تم اس معاشرے کے کارآمد شہری بن سکتے تھے اگر نہیں بن سکے تو اس میں تمہارا اپنا بھی بہت ہاتھ ہے تم حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے درمیانی راستے پر پڑ گئے اور اسی کو اپنی منزل تصور کرنے لگے اور تمہیں کبھی بھی رضیہ یاد نہ آئی جس کی موت کا سبب پیسہ تھا تم نے کبھی نہ سوچا جن لوگوں کی تو جیبیں کاٹتا ہے ان کی جیبوں میں کہیں کسی رضیہ کا مستقبل ہی نہ وابستہ ہو، سو آج تم نے ایک اور رضیہ کا مستقبل تاریک کر دیا۔ تم نے آج اس شخص کی صرف جیب ہی نہیں کاٹی بلکہ ایک خاندان کو تباہ کر دیا، مجبور، بے کس، لاچار کی بددعا تمہاری دنیا و آخرت خراب کر دے گی۔ ‘‘
آج کی رات اس کے لیے بہت کٹھن تھی وہ خوف خدا سے کانپ جاتا تھا اس نے کبھی اللہ کو اتنا یاد نہ کیا تھا جتنا وہ آج کر رہا تھا اور اسی وجہ سے اسے شدید سردی کے باوجود پسینے کا احساس ہو رہا تھا اور جسم میں کپکپی سی پیدا ہو گئی تھی، یہ اس کی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے چھینی ہوئی رقم واپس کرنے کا ارادہ کر لیا ہو وہ کسی بھی صورت میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس رقم کے بارے میں اس کی بیوی کو علم ہو کہ اس کے پاس کثیر رقم موجود ہے اور وہ اس کو واپس کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ اسی لیے تو وہ جلدی سونے کے لیے چلا گیا تھا۔
وہ اس کی بیوی ہی تھی جس کی وجہ سے وہ روزبروز گناہ کی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا تھا۔ کیسے ارمان تھے اس کے کہ اس مظلوم لڑکی جس کا نشئی باپ ظلم و ستم ڈھا کر اس سے بھیک منگواتا پھر وہ تمام رقم اپنے نشے کے لیے لے جاتا تھا۔ اس مظلوم لڑکی کے ساتھ شادی کر کے اور اپنے تمام بُرے کام چھوڑ کر کوئی با عزت کام کروں گا۔ ارادے تو ان دونوں کے نیک تھے لیکن پھر نہ جانے کیوں آناً فاناً اس عورت کو کیا ہو گیا اور اس پر روپے کا خمار طاری ہو گیا جس کی وجہ سے ضروریات زندگی میں روزبروز اضافہ ہوتا چلا گیا اور کچھ اس کی اپنی عقل پر بھی پردہ پڑ گیا تھا اور وہ اسی دلدل میں پھنستا چلا گیا جس سے وہ باہر نکلنا چاہتا تھا۔
خط نے اس کے ضمیر کو جھنجھوڑا تو اس کے اندر کا انسان بیدار ہوا جو یہ عہد کر رہا تھا کہ ’’میں آج سے جیب کتری، چوری چکاری سے سچی توبہ کرتا ہوں۔ ‘‘ اگر انسان اپنے نفس پر قابو پالے تو کوئی دوسرا شخص اسے بگاڑ نہیں سکتا۔
وہ پوری رات لمحہ بھر کے لیے بھی نہ سو سکا تھا۔ صبح کا انتظار جتنا اسے اب ہو رہا تھا اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ پوری رات اس کی کروٹیں بدلتے بدلتے گزر گئی اس وقت اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس کو محلے کی مسجد سے فجر کی اذان سنائی دی۔ اذان سنتے ہی اُس نے رقم کے ساتھ ملنے والے شناختی کارڈ پر درج ایڈریس نوٹ کیا اور گھر سے چل پڑا رقم اس کے اصلی مالک تک پہچانے کے لیے۔
سورج مکمل طور پر نکل آیا تھا۔ دھوپ میں شدت آ گئی تھی۔ محلے میں سناٹا تھا ہر چہرہ غمزدہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے استفسار پر پتہ چلا کہ محلے کی معزز شخصیت حاجی خیر دین اچانک حرکت قلب بند ہونے سے انتقال فرما گئے ہیں۔
بوٹے کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا رہا تھا اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا جسم بے جان ہو چکا ہو۔ اسے خود پر غصہ آ رہا تھا اور وہ ندامت کے بوجھ تلے دبا جا رہا تھا۔ اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا تھا کہ ’’بابا کے قاتل تم ہو کیونکہ اس کے ہارٹ اٹیک کا سبب تم تھے۔ ‘‘
پچھتاوے اور ندامت کے بوجھ تلے وہ اس قدر دبا ہوا تھا کہ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب اس رقم کا کیا کرے، کس کو واپس کرے، جس کو دینے کے لیے آیا تھا وہ تو اس دنیا میں نہیں رہا۔
اس کے ضمیر کی خلش اسی صورت دور ہو سکتی تھی جب وہ بابا کے داماد سکندر کو خط دکھاتا اور رقم واپس کر دیتا تاکہ وہ شخص اپنا مستقبل بہتر طریقے سے اپنی بیوی کے ساتھ گزار سکے۔ اسی لیے تو اس کی نظریں سکندر کو تلاش کرنے لگیں۔
فربہ جسم تھوڑی سی تند نکلی ہوئی جو جسم پر سجی ہوئی تھی، سفید کلف لگا سوٹ پہنے گلے کے تمام بٹن کھلے اور کندھے پر پرنا رکھے ہوئے سکندر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ سکندر کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری یہ مسکراہٹ بابا کے داماد کے لیے نہیں بلکہ اپنے استاد سکندر کے لیے تھی جو یہاں سے نقل مکانی کر کے کراچی آباد ہو گیا تھا کیونکہ یہاں کا ماحول اس کے لیے پُر خطر ہو چکا تھا۔
اچانک اپنے استاد جیب تراش سکندر کو یوں اپنے سامنے دیکھا تو اس کے جذبات بھڑک اٹھے اور وہ اسے گلے لگانے کے لیے اس کی طرف لپکا، بجائے اس کے کہ دونوں میں سے کوئی پہل کرتا سکندر نے آگے بڑھ کر بوٹے کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا کیونکہ حالات کی نزاکت ہی ایسی تھی اور بوٹا بھی سب کچھ سمجھ گیا تھا جب وہ اپنے ڈرامے سے فارغ ہوا تو بوٹا اس سے یہ اگلوانے میں کامیاب رہا کہ اس نے اپنے سسر سے رقم کا مطالبہ کس مقصد کے لیے کیا۔
سکندر جس کے چہرے پر ذرہ برابر بھی اپنے سسر کے انتقال کا ملال نہ تھا وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنے دوست کو بتا رہا تھا :
’’میں نے چھوٹی موٹی چوریوں کے ساتھ ساتھ ایک جوا خانہ بھی چلانا شروع کر دیا ہے اور اس کو مزید بہتر بنانے کے لیے رقم کی ضرورت تھی جس کا مطالبہ میں نے اپنے سسر سے کر دیا اور بیوی کو ڈھال بنا کر لاہور بھیج دیا لیکن سسر صاحب رقم کا انتظام کیے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو گئے، اب میں واپس کراچی جا رہا ہوں بیوی بچوں کو ساتھ لے کر یہاں رہ کر ’’رسم قل‘‘ کا خرچہ کرنا پڑے گا۔
اس کا ضمیر اس بات پر مطمئن ہو گیا تھا کہ وہ یہ رقم بُرائی کے کام کے لیے ہرگز واپس نہیں کرے گا بلکہ اس کو اچھائی اور نیک مقصد کے لیے استعمال کرے گا۔
بوٹا جنرل سٹورز سے کمائی معقول تھی لیکن اس میں برکت تھی جو اسے زندگی میں پہلی بار میسر آئی تھی۔
٭٭٭
اپنوں کی تڑپ
شدید زلزلے نے پوری عمارت زمین بوس کر دی تھی۔ محافظ ملبے کے نیچے دبا درد اور بے بسی سے کراہتا ہوا اختر کو مدد کے لیے پکار رہا تھا، مگر اختر کے چہرے پر ایسی مسرت عیاں تھی جیسے کسی مظلوم کو انصاف مل گیا ہو، وہ بجائے مدد کرنے کے اُس پر پتھروں کی بارش کرنے لگا وہ کیوں نہ ایسا کرتا، آج خدا اس پر مہربان تھا اور یہ زلزلہ اس کی مہربانی تھی ورنہ اس ظالم انسان کو مارنا اس کے بس کی بات تو نہ تھی۔ یہ شخص انسان نہیں بھیڑیا تھا جس نے انسانوں کی کھال پہن رکھی تھی۔ یہ وہی شخص تھا جو بچپن میں اس کو اغوا کر کے یہاں لایا تھا اسے نہیں معلوم اس کیمپ میں بیگار دیتے ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے بس صرف اسے اتنا یاد ہے کہ جب وہ اس بیکار کیمپ میں آیا۔ ایک چھوٹا سا بچہ تھا جس کا نام اختر تھا۔ اسے اختر سے 150 نمبر بننے کا افسوس نہ تھا افسوس صرف اتنا تھا کہ وہ ماسٹر کی مار کے ڈر سے اسکول سے بھاگتا تھا۔ اسکول سے بھاگنے کی عادت اتنی پختہ ہو گئی کہ وہ گھر سے نکلتا تو اسکول کے لیے لیکن باہر آوارہ گردی کرنے کے لیے نکل پڑتا۔ آوارہ گردی کرتے رہنے سے اشرف خان کی نظر اس پر پڑ گئی اِس نے اُس کے بچپنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے بہلا پھسلا کر اس قدر اپنے جال میں پھنسا لیا کہ وہ اب ہر روز اسکول جانے کے بجائے اشرف خان کے گھر پہنچ جاتا، پھر ایک دن خان صاحب نے نہ جانے اسے کیا کھلایا جس کے کھاتے ہی اسے کچھ ہوش نہ رہا تھا جب اسے ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو ایک ویرانے میں پایا۔
یہ اس کی زندگی کے بدترین دور کا آغاز تھا۔ یہاں اس سے دن رات بیگار لیا جاتا اور کھانے کو معمولی سا کھانا وہ بھی پیٹ بھرنے کے لیے بہت کم ہوتا تھا لیکن جب مزدوری کم کی جاتی تو مار خوب پڑتی تھی۔ اس نے کئی بار اس کیمپ سے بھاگنے کی کوشش بھی کی لیکن کبھی قسمت نے اس کا ساتھ نہ دیا ہر بار پکڑا جاتا۔ پکڑے جانے کے بعد اسے اس قدر مار پڑتی کہ وہ لہولہان ہو کر بیہوش ہو جاتا۔ اس کے باوجود اسے امید تھی کہ وہ ایک نہ ایک دن ضرور یہاں سے بھاگ جائے گا اور اپنے گھر واپس پہنچ جائے گا جہاں ماں اس کا انتظار کر رہی ہو گی اور ماں ہی کی محبت تھی جس نے اسے کئی بار اس کو کیمپ سے بھاگنے پر اکسایا اگر اس کے اندر محبت نام کی چیز نہ ہوتی تو وہ ان لوگوں کی مار سے کب کا مر گیا ہوتا۔ ماں کی یاد نے اس کے اندر زندگی کا چراغ روشن کیے رکھا تھا۔
بلا ناغہ اور بغیر کسی وقفے کے مسلسل اٹھارہ گھنٹے سخت کام زبردستی ہر روز لیا جاتا۔ سخت محنت اور ناکافی خوراک کی وجہ سے اس کی صحت دن بدن کمزور ہوتی رہی، اب تو اِس کے جسم کی ہڈیاں آسانی سے گِنی جا سکتی تھیں۔ جسمانی کمزوری کے باوجود اس کے اندر آزادی حاصل کرنے کی شمع روشن تھی ہر لمحہ وہ بھاگنے کے طریقے سوچتا رہتا اور صحت تھی کہ اس کے ارادوں پر پانی پھیر دیتی۔ اپنی گرتی ہوئی صحت کے باوجود وہ یہاں سے بھاگنے کے پختہ ارادے پر قائم تھا۔ اس کے اندر پکڑے جانے کا خوف دم توڑ گیا تھا۔ وہ آزادی چاہتا تھا، چاہے اس کے بدلے اس کی جان ہی چلی جائے۔ ایک بار پھر اس نے آزادی حاصل کرنے کی کوشش تو اپنی طرف سے بھرپور کی تھی لیکن کمزور جسم اس کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن گیا اور وہ پکڑا گیا۔ کیمپ محافظ نے بھاگنے کے جرم میں اسے اتنے بُرے طریقے سے مارا پیٹا کہ وہ بیہوش ہو گیا۔ اس کے جسم سے جگہ جگہ خون رِس رہا تھا۔
زلزلہ اس کے لیے رحمت خداوندی بن کر آیا جس کی وجہ سے اس کے اندر نئی زندگی لوٹ آئی تھی اب تو اسے اُمید کامل ہو گئی تھی کہ وہ ضرور ان لوگوں کی قید سے رہائی حاصل کر کے اپنے والدین تک پہنچ جائے گا، وہ تباہ کن زلزلہ کو رحمت خداوندی جانتے ہوئے زخمی جسم کے باوجود بھاگ نکلا۔ آزادی کی خوشبو نے اس کے اندر نئی روح پھونک دی تھی۔ جذبہ آزادی سے سرشار دشوار گزار پہاڑی راستوں سے اس طرح گزرتا جیسے اس کا جسم مکمل تندرست و توانا ہو۔ تھا تو وہ زخموں سے چور چور لیکن دوبارہ پکڑا جانا نہیں چاہتا تھا، آج تو اس نے یہ پختہ ارادہ کر لیا تھا اگر پکڑا جانے کا ذرہ بھر خطرہ ہوا تو وہ انہی پہاڑوں پر خودکشی کر لے گا، زندہ ان کے ہاتھ نہیں لگوں گا۔ بھاگتے بھاگتے وہ بیگار کیمپ سے بہت دُور نکل چکا تھا اِس کا احساس اُسے تب ہوا جب اُسے سڑک نظر آنے لگی۔ سڑک پر نظر پڑتے ہی اس کے اندر خوشی کی انتہا نہ رہی وہ مارے خوشی چلا اُٹھا۔ خوشی کے مارے اس نے سڑک کے دونوں جانب دیکھا تو اس کی نظر کھڑے ٹرک پر پڑی جو نہ جانے کس وجہ سے روکا کھڑا تھا۔ ٹرک پر نظر پڑتے ہی اس کے اندر بجلی کی سی تیزی پیدا ہو گئی اور وہ تیز تیز زخمی قدموں کو حرکت دیتے ہوئے ٹرک میں سوار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
رات کی تاریکی میں چودہویں کا چاند جلوہ گر تھا۔ چاند کی روشنی نے اپنے چاروں طرف اجالا پھیلایا ہوا تھا جس سے قدرتی مناظر بہت دلکش و حسین لگ رہے تھے۔ ٹرک خوبصورت راستوں سے گزرتا رہا اور وہ ان راستوں کی خوبصورتی سے بے پروا تھا اس کی نظریں ایسی چیز کی تلاش میں تھی جس سے وہ اپنے جسم کو سردی سے بچانے میں کامیاب ہو سکے اسی لیے وہ ٹرک کے کونے کھدروں میں جھانک رہا تھا۔ اس کے جسم پر موجود کپڑے جو پہلے ہی پھٹے پرانے تھے وہ شدید مار پیٹ برداشت نہ کر سکے تھے اور زیادہ پھٹ گئے تھے۔ ان مختصر اور پھٹے پرانے کپڑوں سے سردی کا مقابلہ نہیں ہو سکتا تھا۔ سردی کی وجہ سے تھر تھر کانپ رہا تھا، یکایک اس کی نظر ٹرک میں رکھے ڈرموں کے نیچے بوسیدہ سی چادر پر پڑی اس نے اسے فوراً پکڑ کر اپنے جسم پر لپیٹ لیا جس سے سردی کا احساس قدرے کم ہو گیا۔ اس کا جسم زخموں سے چُور چُور تھا اور جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا جہاں پر خون رس نہ سکا وہاں پر خون جم کر داغ کی شکل اختیار کر چکا تھا، لیکن پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری تھی اور بیگار کیمپ سے بھاگنے میں کامیاب ہو ہی گیا تھا۔ زخموں اور تھکن کی وجہ سے اسے آزاد دنیا کے نظارے کی کوئی پرواہ ہی نہ رہی تھی کہ ٹرک کن خوبصورت راستوں سے گزر رہا ہے اس پر نیند اس قدر حاوی تھی کہ اسے ٹرک کے اندر ہی نیند آ گئی۔
جب وہ نیند سے بیدار ہوا تو اس نے اپنے آپ کو ویران جگہ پر اکیلا پایا یقیناً ٹرک کے کلینر اور ڈرائیور نے مردہ تصور کرتے ہوئے اسے اِس ویرانے میں پھینک گئے ہوں کہ کہیں کیس ہی نہ پڑ جائے۔ لیکن اِس کا ذہن اِن باتوں کے سوچنے کے لیے نہ تھا اسے صرف اتنا اطمینان ضرور تھا کہ وہ اُن ظالم لوگوں کی قید سے بہت دور آ چکا ہے اور یہاں سے اس کی منزل بہت نزدیک ہے۔
زخموں سے اِس کا تن بدن دُکھ رہا تھا جس کی وجہ سے چلنا دوبھر تھا اوپر سے شدید بھوک بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ حملہ زن تھی۔ کیمپ میں رہتے ہوئے اسے دو وقت کی روٹی تو میسر آ جاتی تھی لیکن آزاد دنیا میں روٹی خود ہی نہیں مل جاتی اس کے لیے محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے اور اس کا جسم اس قابل نہیں تھا کہ مزدوری کر سکے ابھی تو اسے فی الحال روٹی چاہیے تھی جس کی جسم کو اشد ضرورت تھی۔ وہ روٹی کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا، راہ چلتے لوگوں سے روٹی کا سوال کرتا، اس کا کیا ہوا سوال بغیر کوئی اثر دکھائے واپس لوٹ آتا اسی اثنا میں اس کی نظر کوڑے کے ڈرم پر پڑی جہاں کتے روٹی کے ٹکڑے کھا رہے تھے۔ روٹی کو دیکھتے ہی اس کی بھوک اور زیادہ چمک اٹھی اور وہ مارے خوشی اِن پر جھپٹ پڑا۔ روٹی کے ان ٹکڑوں کو حاصل کر کے وہ ایسے خوش تھا جیسے راہ چلتے شخص کو کوئی قیمتی شے ہاتھ لگ گئی ہو۔
اپنا گھر! اپنے لوگ! یہ وہ نعمتیں تھیں جس کو اس نے خود ٹھکرایا تھا اور اب ان نعمتوں کے لیے ترس رہا تھا۔ بیگار کیمپ بہت بڑا قید خانہ تھا جس کا ایک کونہ اس کا گھر تھا جہاں پر چند گھنٹے سستانے کے لیے سو جاتا تھا وہ بھی زنجیروں میں جگڑا ہوا۔ وہاں کون تھا اپنا؟ اپنے جیسے ساتھیوں سے بھی بات چیت کرنے کی اجازت نہ تھی کیونکہ پاس ہی محافظ کا کیمپ تھا جہاں پر خون خوار کتے محافظ کے اشارے کے منتظر رہتے تھے کہ آج کس بدقسمت کا جسم ان کی خوراک بنے گا اس کے علاوہ محافظ کے ہاتھ میں پکڑی بندوق اس بات کا واضح اعلان ہوتی کہ اگر کسی نے بھی بات کرنے کی کوشش کی تو بغاوت سمجھتے ہوئے اس کو گولی سے اڑا دیا جائے گا، پھر وہ کتوں کی خوراک بن کر رہ جائے گا۔ اسی ڈراؤنے منظر کی وجہ سے کسی میں ہمت نہ پڑتی کہ وہ کسی دوسرے سے بات چیت کر سکے بس آتے ہی ڈرے ڈرے سو جاتے تھے، سو کر اٹھتے تو کام پر لگ جاتے یہی روزانہ کا معمول بن کر رہ گیا تھا، اس معمول میں کیمپ سے بھاگنے کی کوشش خودکشی کے مترادف تھی۔ وہ تو اس کی قسمت اچھی تھی کہ محافظ نے اس کے بھاگنے کی ناکام کوشش پر گولی مارنے کی بجائے اسے صرف خوب مارا پیٹا تھا جس کی وجہ سے اس کا جسم زخموں سے چور چور ہو گیا تھا۔ گولی نہ مارنے کا فیصلہ محافظ نے اس لیے کیا تھا کہ ابھی اس کے اندر سخت مشقت کرنے کی استعداد موجود تھی وہ تو خدائی رحمت تھی کہ اوپر سے زلزلہ آ گیا اور وہ بھاگنے میں کامیاب ہو گیا ورنہ بھاگ جانا ممکن نہ تھا۔
بستی میں بہت سے مکانات اور ان کے مکینوں کو دیکھ کر ایک دم سے اسے اپنے گھر کی یاد آ گئی تھی۔ اسے یقین تھا کہ پچیس سالہ محرومی اور قید کے بعد اس کی تھکی ماندی روح کو اپنے گھر پہنچتے ہی سکھ مل جائے گا۔ اپنا گھر اور اپنوں میں رہتے ہوئے اس کے سب دکھ درد دنوں میں دور ہو جائیں گئے۔ کیمپ کی کٹھن اور پُر عذاب زندگی نے اس کے ذہن سے بہت سی بچپن کی حسین یادیں مٹا دی تھیں اور اس کی جگہ ڈر خوف نے لے لی تھی لیکن پھر بھی اس نے اپنے والدین کا نام اور شہر کا نام نہ بھولا تھا کیونکہ وہ ان کو بھولنا بھی نہ چاہتا تھا وہ خدا کی رحمت سے مایوس نہ تھا اسے یقین تھا کہ وہ ضرور دوبارہ اپنے گھر، اپنے والدین کے درمیان پہنچ جائے گا۔
سردھڑ کی بازی لگا کر اس نے ظالموں کی قید سے رہائی حاصل کی تھی اس کوشش میں وہ شدید زخمی اور درد سے چُور چُور ہونے کے باوجود اس کے اندر ابھی اتنی ہمت تھی کہ وہ طویل سفر طے کر کے اپنے شہر پہنچ سکتا وہ لوگوں سے یہ جان کر خوش تھا کہ اس کا شہر یہاں سے ریل کے سفر کے ذریعے صرف تین دن کے فاصلے پر ہے۔ طویل قید کے بعد تین دن اس کے لیے کوئی معنی نہ رکھتے تھے۔ وہ تین دن مسلسل ریل کا سفر کر کے اپنے شہر پہنچنا چاہتا تھا۔ اپنا شہر، اپنا گھر اور اپنے لوگوں کا ذہن میں خیال آتے ہی وہ اپنی دردوں کو بھول جاتا کہ صرف تین دن کے فاصلے پر اس کی منزل ہے جس کے لیے اس کو پچیس برس انتظار کرنا پڑا وہ اپنے زخمی قدم اٹھاتا ہوا ریلوے اسٹیشن کی طرف بڑھنے لگا۔
اپنوں سے ملنے کی تڑپ لیے وہ اسٹیشن کی طرف پیدل چل رہا تھا۔ صبح سے دوپہر ہونے کو آئی لیکن اسٹیشن کا راستہ ابھی بہت دور تھا۔ تھکا ماندہ تو پہلے سے ہی تھا اس لیے کچھ دیر سستانے کے لیے رک گیا اسے اسکول دکھائی دیا جہاں پر بچے چھٹی کر کے گھروں کو لوٹ رہے تھے ان بچوں پر نظر پڑنا ہی تھی کہ اسے اپنے بچپن کی بہت سی چھوٹی چھوٹی یادیں جو کب کی بھول چکی تھیں یکدم پھرپھڑا کر اس کے سامنے کھڑی ہو گئیں وہ زمانہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب اس کی ماں اسے اسکول چھوڑنے آتی تھی۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے وہ کتنا لاڈلا ہوا کرتا تھا اس کی ہر خواہش کو پورا کیا جاتا اور یہی حد سے زیادہ لاڈ پیار اس کی تباہی کا سامان بن گیا اور وہ حد سے زیادہ خود سر اور ضدّی ہو گیا تھا۔ اس کی دوستی ایسے لڑکوں کے ساتھ ہو گئی جو اسکول سے بھاگ جایا کرتے تھے اور سڑکوں، ریلوے اسٹیشنوں، پارکوں میں آوارہ گردی کرتے وہ اس کی زندگی کا سب سے بھیانک دن تھا جب وہ اسکول سے بھاگا اور راستے میں اس کی ملاقات پردہ فروش سے ہو گئی جس نے اس کے بچپنے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جَال میں پھنسا کر بیگار کیمپ میں لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔
وہ ان یادوں میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ آنکھیں دیکھنا اور کان سننا بھول گئے۔ چند لمحے کے لیے وہ یہ بھول گیا تھا کہ اس کی منزل ریلوے اسٹیشن ہے، پھر وہ اسٹیشن کی طرف رواں دواں ہو گیا۔ دھیمی چال چلتے چلا جا رہا تھا کہ ایکا ایکی اسے ٹھوکر لگی اور وہ گر گیا۔ گرنے سے اس کے زخم اپنی پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہوئے اب تو اس کے لیے ایک قدم بھی اٹھانا دوبھر تھا وہ درد سے اس قدر کراہ رہا تھا جیسے پانی کے بغیر مچھلی اپنی جان بچانے کے لیے بے سود جد و جہد کرتی ہے۔ وہ ہر آنے جانے والے سے ایک ہی فقرہ کہتا :
’’مجھے درد شدید ہو رہا ہے، خدا کے لیے مجھے ہسپتال پہنچا دو، مر رہا ہوں، مر رہا ہوں ‘‘ اس کی آواز میں ایسا درد اُبھر آتا کہ سننے والے کا نہ چاہتے ہوئے بھی ہاتھ جیب میں چلا جاتا اور اس کو بھیک دے کر اپنا راستہ لیتا۔
سورج کی روشنی دھیرے دھیرے کم ہو رہی تھی، شام ہونے کو آئی تھی، سردی بھی لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی تھی اس کے ساتھ ساتھ اس کی درد میں بھی قدرے اضافہ ہو رہا تھا وہ درد سے کراہ رہا تھا اور ہر راہ چلتے شخص سے مدد کی اپیل کرتا۔ درد کی وجہ سے اس کے منہ سے ایک ہی فقرہ مسلسل نکل رہا تھا ’’مجھے ہسپتال پہنچا دو میں مر رہا ہوں، مجھے ہسپتال پہنچا دو‘‘ اور وہ یہ فقرہ مسلسل کہے جا رہا تھا۔ اسے کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملا تھا جو اس کے درد کو سمجھتا اور اسے گرم کپڑے دیتا اور ہسپتال لے جاتا۔ وہ اپنا مسئلہ کسی کو بھی نہیں سمجھا سکا تھا۔ لوگ اس کو بھی ایک فقیر ہی سمجھتے کیونکہ اس کا حلیہ فقیروں جیسا تھا، اس کے منہ سے مدد کی اپیل ایسے نکلتی جیسے کوئی بہت ہی تجربے کار فقیر نے عوام کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ماحول اور وقت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا ہو۔ اس کی صدا میں ایسا درد تھا جو لوگوں کے دل پر اثر کرتا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو بھیک دے کر اپنی راہ لیتے۔ رات گہری ہونے کے ساتھ ساتھ سردی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا، وہ شدید درد، تھکن اور مسلسل مدد کی اپیل کی وجہ سے بیہوشی ہو گیا تھا۔ اس نے ہر آنے جانے والے کے واسطے ڈالے تھے کہ اسے ہسپتال پہنچا دیا جائے جواب میں اسے صرف چند سکے بھیک ملی تھی اس نے اپنی آزادی بھیک کے چند ٹکڑوں کے لیے نہیں اپنی شناخت اور بقا کے لیے حاصل کی تھی۔ لوگوں کی بھیڑ میں اسے کوئی بھی ایسا شخص نہ ملا تھا جو اس سے ہمدردی کرتا، اس سے اس کا مسئلہ پوچھتا اور اسے ہسپتال پہنچا دیتا یا پھر کم از کم شدید سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے کوئی گرم کپڑا ہی دے دیتا ہر کوئی اپنی ہی فکر میں مگن تھا۔
صبح کا سورج طلوع ہوا لیکن اس کی زندگی کا سورج کب کا سردی اور عدم علاج کی وجہ سے غروب ہو چکا تھا اور وہ اپنے حسین سپنے، اپنوں سے ملنے کے، اپنے ہی دامن میں لیے اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔
٭٭٭
ٹیلی ویژن
علی پور بیس پچیس گھروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ جس میں کوئی مسجد نہیں تھی، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے لوگ نماز روزے کی اہمیت سے نا آشنا تھے حالانکہ ان کے دل میں اللہ کا خوف اور رسول کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ گاؤں کے ہر گھر میں قرآن مجید موجود تھا اور انہوں نے قرآن مجید کو احتراماً خوبصورت اور قیمتی کپڑے کے جزدان میں لپیٹ کر اونچی طاق پر سجا رکھا تھا وہ سمجھے تھے کہ قرآن مجید کا ہر مسلمان کے گھر موجود ہونا ضروری ہوتا ہے اور اس کو ادب و احترام کے ساتھ اونچی طاق پر رکھنا اجر و ثواب اور باعثِ برکت ہوتا ہے۔ گاؤں والوں کو قرآن مجید کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب کسی شخص سے قسم لینی ہوتی یا پھر کسی سے سچ بات اگلوانی ہوتی تھی۔ وہ لوگ قرآن مجید پر قسم کے لیے ہاتھ رکھنے اور رکھوانے سے پہلے بڑے اہتمام کے ساتھ ’’اپنے حساب‘‘ سے وضو کرتے اور پھر اُسی احترام کے ساتھ قسم کے لیے قرآن مجید کو طاق سے اٹھا کر لاتے اور جس احترام کے ساتھ قرآن مجید کو اٹھا کر لاتے تھے اسی ادب و احترام کے ساتھ قسم کی ادائیگی کے بعد دوبارہ وہاں پر سجا کر رکھ دیتے تھے۔ گاؤں بھر میں قرآن مجید کا استعمال اسی حد تک محدود تھا۔ لوگوں کے دلوں میں خوف خدا موجود تھا اور وہ اللہ اور اللہ کے رسول کی باتیں سننا پسند کرتے تھے اسی لیے تو قصبے کی جامع مسجد کے امام صاحب مہینے بھر میں ایک مرتبہ ضرور علی پور گاؤں میں آتے اور لوگوں کو دین حق کی باتیں بتا کر مسجد کے لیے چندہ اور اپنے لیے جزائے خیر لے کر چلے جاتے تھے۔ ویسے تو مولوی صاحب نکاح پڑھوانے اور جنازہ پڑھنے کے لیے گاؤں میں نظر آ ہی جاتے تھے لیکن تبلیغ کے لیے انہوں نے مہینے میں ایک دن مقر ر کیا ہوا تھا۔ لوگ جوق در جوق اس دن چوہدری فضلو کے گھر اکٹھے ہوتے تاکہ مولوی کی باتوں سے فیض یاب ہوا جا سکیں۔ چودھری فضلو مذہب سے بہت گہرا لگاؤ رکھتا تھا حالانکہ اسے خود بھی دین اسلام کے متعلق کوئی خاص معلومات نہ تھی لیکن پھر بھی اس کے دل میں اسلامی احکام سمجھنے کی تڑپ موجود تھی یہی وجہ تھی کہ وہ مولوی صاحب کی تقریر کے لیے خاص اہتمام کرتا تھا اور سب گاؤں والوں سے بڑھ کر مولوی صاحب کی خدمت میں نذرانہ پیش کیا کرتا تھا حالانکہ وہ چھوٹا سا زمیندار تھا لیکن خدا کی راہ میں دینے کے لیے کبھی اس نے بخل سے کام نہیں لیا تھا اور مولوی صاحب بھی اس کی زندہ دلی سے واقف تھے لہٰذا وہ حضورﷺ اور صحابہ اکرامؓ کی سخاوت کے واقعات زیادہ دلنشین انداز سے سنایا کرتے تھے تاکہ چوہدری نہ صرف خود زیادہ سے زیادہ نذرانے دے بلکہ گاؤں والوں کو بھی قائل کر سکے۔
آج ماہ رمضان کا پہلا دن تھا چنانچہ چوہدری نے استقبال رمضان کے سلسلے میں ختمِ قرآنِ پاک کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں ختم شریف کی دُعا پڑھنے سے پہلے مولوی صاحب نے پہلی مرتبہ علی پور کے رہائشیوں کو سختی سے نماز، روزے کی پابندی کروانے کی خاطر آخرت کے عذاب اور عذاب قبر سے ڈرا رہے تھے۔ مولوی صاحب نے اپنی چھوٹی سی تقریر میں عذابِ الٰہی پر ایسی جوشیلی تقریر کی کہ محفل کے تمام حاضرین کی آنکھوں میں آنسو رواں ہو گئے تھے۔
یہ جون کا آخیر تھا اور آسمان پر کہیں بھی بادلوں کی ایک ٹکڑی بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ خشک آسمان کی وجہ سے سورج اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ آگ برس رہا تھا۔ لوگ اپنے گناہوں کی بخشش کے ساتھ ساتھ گرگرا کر خدا کے حضور بارش کی دعائیں مانگ رہے تھیں کیونکہ مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ یہ خشک سالی ہمارے بد اعمال ہی کا نتیجہ ہے کہ بارشیں نہیں ہو رہی ہیں۔
علی پور گاؤں کے تمام افراد اَن پڑھ تھے اور ویسے بھی ان لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات سمائی ہوئی تھی کہ ہم نے پڑھ لکھ کر کرنی تو کھیتی باڑی ہی ہے اور کھیتی باڑی کے لیے تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں۔ اِن کے نزدیک تعلیم غیر ضروری عمل تھا اور وہ غیر ضروری عمل کے لیے وقت اور پیسہ برباد کرنا ناسمجھی سمجھتے تھے۔ اِن لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا اور یہ لوگ تعلیم کی کمی کی بنا پر کھیتی باڑی کے جدید طریقوں سے نا آشنا تھے اور وہ ابھی تک کھیتی باڑی صدیوں پرانے طریقے بروئے کار لا کر سرانجام دیتے تھے جس کی بنا پر ان کی پیداوار کم ہوتی تھی اور کم پیداوار کی بنا پر وہ لوگ مالی طور پر خوشحال نہ تھے جس کی بنا پر ان کے گھروں کی دیواریں کچی اور چھتیں کھپریل کی بنی ہوئی تھیں۔
موسم گرما کا گرم ترین دن، قیامت خیز گرمی برسا کر ختم ہو چکا تھا اور رات ہونے کے باوجود ہوا کے جھونکوں میں حدت کافی حد تک تھی چنانچہ لوگ روز کی طرح آج بھی اپنے گھروں کے کھلے برآمدوں میں چارپائیوں پر لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک آسمان پر کالے بادلوں کی ٹکڑیاں نمودار ہونا شروع ہو گئیں جس کی وجہ سے موسم کی حدت میں کافی حد تک کمی واقع ہو گئی۔ لوگوں کو توقع تھی کہ یہ کالی گھٹا گھر کر برسے گی کہ آناً فاناً کالی گھٹاؤں میں سے ہوا کا بگولہ اُبھرا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے گاؤں کو نیست و نابود کر دیا۔ بہت سے لوگوں نے بگولے کی تندو تیز ہوا کے جھونکوں سے بچنے کے لیے چودھری کے گھر پناہ لے لی تھی کیونکہ پورے گاؤں میں صرف چوہدری کا گھر ہی پکی اینٹوں کا بنا ہوا تھا اور وہ بگولے کی شدت کا مقابلہ بڑی آسانی کے ساتھ کر سکتا تھا۔ لیکن پھر بھی بگولے کی وجہ سے بہت سا قیمتی جانی اور مالی نقصان ہو چکا تھا۔
بگولہ اپنی تباہی و بربادی پھیلا کر چلا گیا تھا۔ لوگوں کو آج سے دو دن بیشتر کی ہوئی مولوی صاحب کی تقریر یاد تھی جس میں انہوں نے عنقریب عذابِ الٰہی کی نوید سنائی تھی چنانچہ ہر کوئی اسے عذاب الٰہی قرار دیتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ خدا نے ہماری سیاہ کاریوں کی وجہ سے ہمارے اوپر اس بگولے کی شکل میں عذاب نازل کیا ہے لہٰذا ہمیں اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے دعائیں مانگنی چاہیں تاکہ اللہ ہماری مشکلیں آسان کر دے۔ گاؤں والوں کی سوچ کے برعکس چوہدری فضلو نے اِس بگولے کا کچھ زیادہ ہی اثر لیا تھا کیونکہ وہ گاؤں کا سربراہ تھا چنانچہ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ عذاب اس کی بد اعمالی کی وجہ سے آیا ہے اور کسی نیک شخص کی دعاؤں کی بدولت زیادہ جانی و مالی نقصان نہیں پہنچا سکا۔ لہٰذا اس نے یہ پختہ عزم کر لیا تھا کہ میں آج جمعتہ المبارک کے بابرکت دن خدا کے حضور گرگرا کر اپنے سابقہ گناہوں کی معافی مانگ کر آئندہ کے لیے توبہ کر لوں گا اور پھر آج سے ہی پانچ وقت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کیا کروں گا۔ وہ دل ہی دل میں یہ پکا عہد کر چکا تھا چنانچہ وہ نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر قصبے کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے چلا گیا تھا۔
جمعے کی تقریر میں مولوی صاحب نے رات کے بگولے کی بنا پر اپنی تقریر کا موضوع ’’عذابِ الٰہی‘‘ رکھا تھا چنانچہ مولوی صاحب اپنی خطیبانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیلی ویژن کو نہ صرف بُرا بھَلا کہہ رہے تھے بلکہ اس تباہی کا ذمہ دار بھی اسی کو ٹھہرا رہے تھے۔ اپنی تقریر میں وہ لوگوں کو اس بات پر قائل کر رہے تھے کہ ہمارے اعمال کی بربادی کا سبب ٹیلی ویژن ہے، جس پر بیہودگی، بے حیائی عام ہے، اس کو دیکھ کر ہمارے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں، جب اعمال ضائع ہو جاتے ہیں تو کوئی دعا قبول نہیں ہوتی اور خدا ہم پر عذاب نازل کرتا ہے تاکہ ہم برائی کو سمجھ کر اس سے کنارہ کشی اختیار کر سکیں۔
نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد چوہدری گھر کے اندر داخل ہوا تو اس کے بچے ٹیلی ویژن پر ڈرامہ دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے تھے جس کی بنا پر گھر میں بہت ہلا گلا برپا تھا۔ چوہدری چونکہ مولوی کی تقریر سے بہت زیادہ متاثر ہو کر یہ بھی عہد کر چکا تھا کہ میں اب ٹیلی ویژن نہیں دیکھوں گا اور نہ ہی اپنے بچوں کو دیکھنے دوں گا لیکن جب ہنگامہ برپا دیکھا تو اشتعال میں آ گیا اور اشتعال میں نزدیک پڑی ہوئی اینٹ پکڑ کر ٹیلی ویژن پر دے ماری اور ٹیلی ویژن توڑ پھوڑ کر سختی کے ساتھ بچوں کو آئندہ کے لیے ان فضولیات سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے ان کو نصیحت کرتا ہے کہ تم آخرت کے عذاب سے ڈرو اور نماز، روزے پر سختی سے عمل پیرا ہو جاؤ۔
بچوں نے اچانک باپ کی سخت طبیعت دیکھی تو وہ گھبرا کر اِدھر اُدھر ہو گئے تاکہ باپ کی مزید ڈانٹ ڈپٹ سے بچ سکیں۔ اِن کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ ان کا باپ کس بات پر خفا ہو کر ٹیلی ویژن توڑ بیٹھا ہے حالانکہ آج سے پہلے تو اس نے کبھی بھی ٹیلی ویژن دیکھنے سے منع نہیں کیا تھا بلکہ وہ تو خود ان کے ساتھ بیٹھ کر بڑے شوق سے ٹیلی ویژن دیکھا کرتا تھا۔ بہرکیف باپ کی اشتعال آمیز طبیعت دیکھ کر وہ دوسرے کمرے میں سہمے بیٹھے تھے اور باپ کا سامنا کرنے سے کترا رہے تھے کہ کہیں وہ اور زیادہ اشتعال میں آ کر مارنے پیٹنے ہی نہ لگ جائے۔
بچوں پر غصہ نکالنے کے باوجود چوہدری کا غصہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا تھا اور وہ اپنی بیوی پر بھی بَرس رہا تھا اور اسے سختی سے کہہ رہا تھا کہ تمہارے خواہ مخواہ کے لاڈ پیار نے ان کو سر پر چڑھا رکھا ہے۔ گاؤں میں قیامت صغریٰ گزر چکی ہے اور یہ بیٹھے مزے سے ٹیلی ویژن ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے گاؤں میں انسان نہیں جانور مرے ہوں اور خبردار آئندہ سے کسی نے ریڈیو پر گانے بھی سنے ہوں ورنہ میں اسے بھی توڑ کر رکھ دوں گا۔
دوسرے دن چوہدری فجر کی اذان سے پہلے ہی اٹھ گیا اور صحن میں سوئے ہوئے اپنے دونوں بیٹوں کو جگایا پھر ان کو مسواک کروا کر نہلا دھلا کر اپنے ساتھ ایک میل دور قصبے کی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے لے گیا۔ نماز پڑھ کر وہ بہت خوش تھا کیونکہ آج اس نے نہ صرف خود فجر کی نماز با جماعت پڑھی تھی بلکہ اپنے بیٹوں کو بھی پڑھائی تھی۔ اس نے نماز کی ادائیگی کے بعد خوشی خوشی اپنے دونوں بیٹوں کو گھر کی طرف روانہ کر دیا اور خود شوگر فیکٹری میں اپنے گزشتہ سال کی فصل کے پیسے لینے کے لیے چلا گیا۔
فیکٹری انتظامیہ رقم کی ادائیگی مزید لیٹ کرنے کی خاطر حیل و حجت سے کام لے رہی تھی جس کی بنا پر بحث و مباحثہ طول پکڑ گیا اور اسے دوپہر فیکٹری میں ہی ہو گئی لیکن پھر بھی اسے رقم کی ادائیگی نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کا چہرہ اترا ہوا تھا اور وہ فیکٹری انتظامیہ کو کوستا ہوا گھر واپس آ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر مولوی صاحب پر پڑ گئی جو کندھے پر بڑا سا ڈبہ رکھے تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ چنانچہ مولوی صاحب کو دیکھ کر اس کے دل میں فوراً ان کا ادب و احترام جاگ اٹھا اور وہ سلام کرنے کی خاطر تیز تیز چلتا ہوا مولوی صاحب کے پاس پہنچ کر سلام کرنے کے بعد عرض کرنے لگا:
’’مولوی صاحب اگر گستاخی نہ ہو تو میں اس ڈبے کو اٹھا کر گھر تک پہنچا دوں۔ ‘‘
’’نہیں نہیں چوہدری! میں اس کو لے جاؤں گا تم تکلیف نہ کرو۔ ‘‘
’’مولوی صاحب تکلیف کیسی، آپ ہمیں نمازیں پڑھاتے ہیں اور دین و دنیا کی اچھی اچھی باتیں سیکھاتے ہیں، آپ کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے۔ اس میں تکلیف کی کوئی بات نہیں لہٰذا آپ یہ مجھے دے دیں، میں اِس کو تمہارے گھر تک پہنچا دوں گا۔ ‘‘
’’چوہدری میں نے کوئی وزنی چیز نہیں اٹھائی ہوئی اس لیے تم تکلف نہ کرو یہ ہلکے سے وزن کا ٹیلی ویژن ہے جسے میں آسانی کے ساتھ گھر تک لے جاؤں گا۔ ‘‘
’’مولوی صاحب ٹیلی ویژن آپ اپنے گھر کے لیے لے کر آ رہے ہے۔ ‘‘ چوہدری نے بڑی حیرانگی سے پوچھا تھا۔
’’چوہدری تُو تو جانتا ہے کہ آج کل ٹیلی ویژن ہر گھر کی ایک بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ اس میں بچوں کی تفریح کے بڑے بڑے اچھے پروگرام آتے ہیں۔ بچے ان کو دیکھنے کے لیے ضد کرتے رہتے تھے لیکن میں ان کی خوشی کی خاطر ٹیلی ویژن نہیں خرید سکتا تھا کیونکہ میرے پاس اتنی رقم نہیں تھی لہٰذا اب میری کمیٹی نکلی تو میں نے فیصلہ کیا کہ اس رقم سے بچوں کی دل لگی کے لیے ٹیلی ویژن ہی خرید لیا جائے سو میں نے بچوں کی خاطر ٹی وی خرید لیا۔ ‘‘
’’لیکن مولوی صاحب آپ تو جمعہ کے خطبے میں ٹیلی ویژن کو بیہودہ چیز کہہ کر اسے عذابِ الٰہی کا وسیلہ قرار دے رہے تھے۔ ‘‘ چوہدری ذرہ سخت لہجے میں مولوی کو اپنی کہی ہوئی بات یاد کروا رہا تھا لیکن مولوی بھی بڑا سمجھ دار تھا اس نے ٹیلی ویژن کے حق میں پہلے ہی دلائل یاد کر رکھے تھے اسی لیے تو وہ ترقی بہ ترقی جواب دینے لگا۔
’’میں نے بالکل کہا تھا لیکن میری بات کا مطلب یہ تھا کہ بذات خود ٹیلی ویژن بُرا نہیں بلکہ اس پر چلنے والے مختلف ممالک کے چینل بُرے ہیں، انہوں نے ہی تو ٹیلی ویژن کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک کا چینل پی ٹی وی بڑے بڑے اچھے مذہبی اور اخلاقی پروگرام دکھاتا ہے اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ‘‘
مولوی کی بات سُن کر اس کے تن بدن میں چنگاریاں پھُوٹ پڑی تھیں۔ آج اُسے مولوی دراز ریش اور سر پر سفید عمامہ پہنے ہوئے شیطان دکھائی دے رہا تھا۔ کیونکہ اس کے اندر اپنی کہی ہوئی بات پر خود عمل کرنے کی صلاحیت موجود نہ تھی۔ یہ تنخواہ دار مولوی صرف اپنی تنخواہ کی خاطر منبر پر بیٹھ کر اسلام اسلام کر سکتا تھا۔ عمل کی صلاحیت اس کے اندر نہ تھی۔ مولوی کی دوغلی شخصیت دیکھ کر اسے خود پر بھی غصہ آ رہا تھا کہ میں نے کیوں مولوی کی تقریر سے متاثر ہو کر اپنے معصوم بچوں کی چھوٹی سی خوشی کو پامال کر دیا تھا۔ وہ غصے سے مولوی کی طرف دیکھ رہا تھا جو تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اپنے گھر کی طرف چلا جا رہا تھا۔
٭٭٭
غلام
بسنت کے غل غپاڑے میں کانوں پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ پوری گراؤنڈ لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، ہر شخص خوشی سے سرشار تھا اور اُن کی نظریں آسمان پر بکھری پتنگوں پر جمی ہوئی تھیں۔ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی پتنگ کاٹتا تو اس وقت پورا میدان شور و غوغا سے گونج اٹھتا تھا۔ شور و غوغا اور غل غپاڑے سے لبریز گراؤنڈ میں کسی فرد کو ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہ تھا لیکن پھر بھی چراغ دین چھوٹے رئیس صاحب کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کیونکہ اسے اسی گراؤنڈ میں چھوٹے رئیس صاحب کو ڈھونڈنے کا عندیہ اُسے ملا تھا۔ اس کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ چھوٹے رئیس صاحب اس گراؤنڈ میں ضرور موجود ہوں گے کیونکہ رئیس صاحب بسنت کے روز دنیا کا ہر کام چھوڑ چھاڑ کر گڈی گراؤنڈ ضرور آتے ہے اور یہی پر بسنت بہار مناتے ہے، اسی لیے چراغ دین بڑے رئیس صاحب کے حکم کی تکمیل کی خاطر ان کو ڈھونڈنے کے لیے یہاں پہنچ گیا تھا۔ یہاں لوگ بسنت منانے کے لیے آئے ہوئے تھے اور وہ یہاں چھوٹے رئیس صاحب کی تلاش کے لیے آیا ہوا تھا اور اپنے فرض کی تکمیل کی خاطر اس نے ساری بسنت نائٹ ایسے ہی گراؤنڈ کے چاروں طرف گھومتے پھرتے گزار دی تھی۔ اس اثناء میں بہت سے گڈے، گڈیاں اور پتنگیں اس کے نزدیک گریں لیکن اس نے ان کو چھوا تک نہیں اور نہ ہی بسنت کی رونقوں سے اپنے دل کو لبھایا تھا کیونکہ وہ بسنت کے لیے نہیں بلکہ چھوٹے رئیس صاحب کی تلاش میں یہاں آیا تھا، اسی لیے یہاں کی رونقیں اس کے کسی کام کی نہیں تھیں، تبھی تو وہ ان پتنگوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا۔ اس نے صرف اپنی پوری توجہ چھوٹے رئیس صاحب کی طرف لگائی ہوئی تھی۔ پوری رات کی تلاش و جستجو کے باوجود وہ چھوٹے رئیس صاحب کو تلاش نہ کر سکا تھا لیکن حکم اسے یہی ملا تھا کہ وہ ہر حال میں رئیس صاحب کو اسی گراؤنڈ میں ہی تلاش کرے اسی لیے اسے یقین تھا کہ وہ اسی گراؤنڈ میں ہی موجود ہے۔ اگر وہ رات کو نہ مل پائے تو صبح ضرور مل جائیں گے۔
چراغ دین نے ساری رات چھوٹے رئیس صاحب کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے صرف کر دی تھی لیکن پھر بھی وہ ابھی تک اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔ اب تو اسے تھکن اور بھوک کا احساس شدت سے ہونے لگا تھا لیکن اس کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی جو تھوڑی بہت رقم مالکوں نے دے کر شہر بھیجا تھا وہ سب راستے میں ہی خرچ ہو گئی تھی، اب تو اس کی جیب اور پیٹ دونوں خالی تھے جس کی بنا پر اسے فکر لاحق ہو گئی کہ اگر چھوٹے رئیس صاحب دن کو بھی نہ مل سکے تو میں ان کا گھر اتنے بڑے شہر میں خالی جیب کی بنا پر کیسے ڈھونڈ پاؤں گا۔
چراغ دین کا تعلق مفلس گھرانے سے تھا۔ اس کے ماں باپ اینٹیں بنانے والے بھٹے پر محنت مزدوری کرتے تھے۔ وہ دن بھر سخت محنت مشقت کرنے کے باوجود بھٹہ مالکان کے مقروض تھے۔ قرض کا سود اتارنے کے لیے انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے چراغ دین کو بچپن سے ہی بھٹہ مالکان کی غلامی میں دیا ہوا تھا یوں چراغ دین نے بچپن سے لے کر جوانی تک غلامی کی زندگی بسر کی تھی لیکن پھر بھی اس کے والدین کا قرض نہیں اترا تھا اور وہ شیطان کی آنت کی طرح دن بدن بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ چراغ دین غلامی کی زندگی کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار رہتا تھا لیکن غلامی کی زنجیریں توڑ کر بھاگنا اس کے لیے ناممکن تھا کیونکہ اس طرح آزادی اس کے والدین کی موت تھی لہٰذا وہ اپنی آزادی کی قیمت میں اپنے والدین کی موت نہیں چاہتا تھا جس کی بنا پر وہ غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھا کہ اچانک اس کی قسمت کے ستارے گردش میں آ گئے ہوا یوں کہ بھٹہ مالک کے چھوٹے بھائی کو ملازم کی ضرورت درپیش ہوئی تو اس نے اپنے بڑے بھائی کی طرف رجوع کیا تو اس نے چراغ دین کو شہر بھیج دیا۔
چراغ دین کا مالک یہ بات جانتا تھا کہ یہ شخص پہلی مرتبہ شہر جا رہا ہے اس لیے اس نے سختی سے چراغ دین کو یہ تلقین کی تھی کہ وہ چھوٹے رئیس صاحب کو ہر حالت میں لاری اڈے کے نزدیک گڈی گراؤنڈ میں جا کر ڈھونڈے کیونکہ وہ اس رات اسی گراؤنڈ میں بسنت منا رہے ہوں گے اور احتیاطاً اس نے اپنے چھوٹے بھائی کے گھر کا ایڈریس بھی لکھ کر دے دیا تھا۔
چراغ دین خوش و خرم گاؤں سے شہر پہنچا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ بھٹہ مالک کا چھوٹا بھائی شہری بابو ہونے کی وجہ سے بڑا شفیق و حلیم ہو گا۔ مجھے اس کے زیر سایہ کام کر کے کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئے گی اور میں شہر جا کر مزید سخت محنت اور دلچسپی سے اپنا کام سرانجام دوں گا اور اس کا دل جیت لوں گا اور جب اس کا دل جیت لوں گا تو پھر اس سے کہوں گا کہ وہ بھٹہ مالک سے سفارش کریں کہ وہ میرے والدین کا قرض معاف کر کے مجھے رہا کر دیں۔ یہی وہ ارمان تھے جس کی تکمیل کی خاطر وہ سچی لگن کے ساتھ چھوٹے رئیس کو ڈھونڈنے میں مگن تھا اور اسے بھوک اور تھکن کا احساس تک نہیں ہو رہا تھا دفعتاً اس کی نظر چھوٹے رئیس پر پڑ گئی جو پتنگ اڑانے میں مگن تھا۔ وہ اس کے پاس پہنچ کر کہنے لگا:
’’ساب جی سلام‘‘!
لیکن چھوٹا رئیس خاموشی سے پیچ لڑانے میں مگن رہا تو چراغ دین چند ثانیہ خاموش رہنے کے بعد پھر بولا:
’’ساب جی آپ رئیس احمد ہے نا؟‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’ساب جی مجھے بڑے رئیس ساب نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ ‘‘
’’کون بڑے رئیس‘‘ رئیس احمد نے بڑی خفگی سے پوچھا تھا۔
’’ساب! بھٹے والے۔ ‘‘
’’اچھا اچھا تمہیں بھائی صاحب نے کام کے لیے بھیجا ہے۔ ‘‘
چراغ دین نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’ہاں ساب جی‘‘۔
’’اچھا تم ڈور کی چرخی پکڑ کر کھڑے ہو جاؤ۔ میں پیچا لڑا کر تم سے کچھ اور پوچھتا ہوں۔ ‘‘
یوں چراغ دین کا پورا دن ڈور کی چرخیاں پکڑنے میں ہی گزر گیا۔ دن بھر کی سخت مصروفیات کی بنا پر وہ پیٹ بھر کر کھانا بھی نہ کھا سکا تھا۔ لیکن اسے شہر آ کر چھوٹے رئیس صاحب کے زیر سایہ کام کرنے کی خوشی ضرور ہو رہی تھی جس کی بنا پر وہ وقتی بھوک اور تھکن کو برداشت کر رہا تھا لیکن برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے جب انسان اس حد کو چھو لیتا ہے تو اس کا جسم بے جان ہو کر گر جاتا ہے سو چراغ دین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ سارا دن ڈور کی چرخیاں پکڑے رہنے اور نعرے لگانے کی وجہ سے اس کا بُرا حال ہو گیا تو اس کی آنکھوں کے آگے دائرے ناچنے لگے، اندھیرا چھانے لگا، تھکن برداشت سے باہر ہو گئی تو وہ چکرا کر گر گیا۔ جب اس کے ہوش کچھ ٹھکانے آئے تو چھوٹا رئیس کہنے لگا:
’’تم بیمار ہو؟‘‘
’’نہیں ساب جی۔ ‘‘
’’تو پھر تمہیں اچانک کیا ہو گیا تھا؟‘‘
’’ساب سفر کی تکان ہے ‘‘ اس نے بے چین آنکھیں جھکا کر جواب دیا۔ لیکن چھوٹا رئیس اس کی تھکن سے نڈھال طبیعت کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کی طرف لسی کا گلاس اور دو قیمے والے نان بڑھا کر کہنے لگا:
’’یہ کھا کر کچھ دیر یہیں پر ہی آرام کر لوں بس رات کو میں تم کو کوٹھی لے چلوں گا پھر تم وہاں پر جا کر خوب آرام کرنا۔ ‘‘
رئیس احمد ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل لاہور میں رہائش پذیر ہونے کے لیے شہر کے پوش علاقے میں اپنی کوٹھی بنوا رہا تھا جس کی وجہ سے اسے ایک کل وقتی محنتی اور اعتباری شخص کی ضرورت تھی اور ایسا شخص اسے صرف اس کا بڑا بھائی ہی فراہم کر سکتا تھا جس کی بنا پر اس نے اپنے بڑے بھائی کو ملازم کی دستیابی کے لیے کہا ہوا تھا۔
کہنے کو تو رئیس احمد نے کوٹھی بنوائی تھی لیکن یہ اصل میں وسیع و عریض محل تھا جس میں دنیا جہان کی ہر آرائش مہیا تھی یہاں جانوروں کے لیے نہ صرف کشادہ باڑے بنوائے گئے تھے بلکہ ان کو گرمی سے بچانے کے لیے پنکھے اور نہانے کے لیے فوارے بھی لگوا کر دیے ہوئے تھے۔ لیکن اس کے برعکس وسیع و عریض کوٹھی کی بغل میں سرونٹ کوارٹرز جہاں کوٹھی کے ملازمین رہائش پذیر تھے وہ کوٹھی کے جانوروں جیسی سہولتوں سے محروم تھے اور وہ ان جانوروں سے کئی گناہ ابتر زندگی بسر کر رہے تھے انہی کوارٹروں کی چھوٹی سی کوٹھری میں چراغ دین کو بھی ٹھہرنے کی جگہ ملی ہوئی تھی وہ جگہ تنگ اور ویران ہونے کی بنا پر اس کا جی گھبراتا تھا لیکن وہ پھر بھی اپنا کام مکمل تن دہی اور جاں فشانی سے سرانجام دے رہا تھا۔
ایک روز چراغ دین کسی پوشیدہ جذبے سے مسحور اور کسی غیر محسوس قوت سے مغلوب ہو کر رئیس احمد کے پاس چلا آیا اور اسے اپنی دو سالہ بے لوث خدمت کا واسطہ دے کر اپنی اور اپنے والدین کی آزادی کا صلہ مانگنے لگا لیکن رئیس احمد اس کی بے لوث خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بجائے اسے کوئی صلہ دیتا بلکہ اسے مزید سہانے خواب دکھانے لگا:
’’تم کوئی فکر نہ کرو چراغ دین! میں شہر میں تمہاری نوکری کا بندوبست بھی کروں گا اور تمہارے والدین کو قرض سے نجات بھی دلواؤں گا بس تم الیکشن تک رک جاؤ اور اسی محنت کے ساتھ میری الیکشن مہم میں دل لگا کر کام کروں تاکہ میں کامیاب ہو جاؤں اور الیکشن کے بعد پھر دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیسا اچھا سلوک کرتا ہوں۔ ‘‘
’’آپ کی بڑی بڑی مہربانی ساب جی‘‘! وہ رئیس کے زبانی دعووں کے احسان تلے دبا جا رہا تھا۔ اسے بار بار احساس ہو رہا تھا کہ اب میری زندگی کے دن پھرنے والے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ بعض لوگ غریبوں کی غریبی کا مذاق اس طرح بھی اڑاتے ہے کہ وہ پہلے غریب کے ہمدرد بن جاتے ہیں اور ان کو مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر ان کی توجہ اور ہمدردیاں اپنی طرف مبذول کروا لیتے ہیں اور غریب سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں میرا سب سے زیادہ خیرخواہ یہی شخص ہے لہٰذا غریب خود کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے اور وہ اس سے اپنا ذاتی مفاد حاصل کرتا رہتا ہے جب اس کا مفاد نکل جاتا ہے تو وہ اس غریب کو ایسے اپنے سے جدا کرتا ہے جیسے دودھ سے بال نکالا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ نہ تو غریب کا دوست ہوتا ہے اور نہ ہی ہمدرد بلکہ اپنا ذاتی مفاد حاصل کر رہا ہوتا ہے لیکن غریب سچے دل کے ساتھ اس کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور آخر میں اسے دھکے ہی ملتے ہیں۔
جنوری کا آخری ہفتہ تھا آسمان پر بادل جمع ہو رہے تھے۔ بادلوں کے آگے آگے ننھے منے دھبوں کی طرح اڑتی ہوئی چیلیں اس امر کا پتہ دیتی تھیں کہ ان بادلوں کا دامن ٹھنڈے پانی کے موتیوں سے اٹا پڑا ہے۔ رفتہ رفتہ سارا آسمان کالے بادلوں سے ڈھک چکا تھا اور بادل مست ہاتھیوں کی طرح مستی میں جھومتے چلے آ رہے تھے۔ صحن میں بارش کی پھوار پڑ رہی تھی لیکن چراغ دین کے دل کے اندر آزادی کی خواہش بھڑک رہی تھی۔ الیکشن جیتنے کے چھ ماہ بعد رئیس احمد پہلی بار گھر لوٹا تھا لہٰذا وہ آج ہر حالت میں اس سے اپنی آزادی کی بھیگ مانگنا چاہتا تھا۔ آزادی کے جذبے سے مغلوب ہو کر وہ رئیس احمد کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو دفعتاً اس نے اپنے شانوں پر کوئی نامعلوم گرفت محسوس کی تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ رئیس احمد تھے۔ یوں اپنے شانوں کو رئیس احمد کے ہاتھوں کی گرفت میں پا کر اس کی قوت شل ہو گئی، جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے، سر سے پاؤں تک ایک پھریری سی اترتی چلی گئی کیونکہ وہ سوچ رہا تھا کہ رئیس نے مجھے چور سمجھ کر پکڑ لیا ہے اور اسی لیے وہ وحشت سے کپکپا رہا تھا۔ رئیس نے اس کو شانوں سے پکڑ کر اس کا منہ اپنی طرف پھیر لیا اور اس سے کہنے لگا:
’’خیر دین میں ابھی تم کو ہی بلانے والا تھا۔ آج میں اپنی کامیابی کی خوشی میں تم کو بہت بڑا تحفہ دوں گا۔ ‘‘
چراغ دین کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا کیونکہ اس کے نزدیک سب سے بڑی خوشی اس کی آزادی تھی لہٰذا وہ خوشی کی خبر سننے کے لیے بے قرار تھا۔
’’خیر دین میں نے آج سے تمہاری خدمات وزیر صاحب کے سپرد کر دی ہے اور مجھے یقین ہے تم اسی طرح بھرپور محنت سے کام کروں گے جس سے نہ صرف ہمارے خاندانی وقار میں اضافہ ہو گا بلکہ میرے سیاسی اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہو گا اور تمہاری حیثیت بھی مزید بڑھ جائے گی کیونکہ وزیر کے در کا کتا بھی وزیر ہی ہوتا ہے۔ ‘‘
یہ الفاظ سنتے ہی خیر دین کے جسم میں خون کی ایک تیز و سرد لہر اٹھی جو اس کی رگ و پے میں سرایت کر گئی جس کی وجہ سے اس کی ٹانگیں مَن مَن بھر کی ہو گئیں۔ سردی کے باعث اس کے دانت بجنے لگے تھے۔ اس کا گلا رندھ گیا اور سسکیاں دبانے کے لیے اس نے اپنا چہرہ کہنی کے خم میں چھپا لیا اور چپکے سے کمرے سے باہر نکل آیا۔
٭٭٭
معاہدہ
جلدی جلدی قدم بڑھاتے ہوئے میں نے سڑک پار کی۔ کار کے پاس آئی، شاپنگ کے بیگز سنبھالتے ہوئے دروازہ کھولا۔ چیزیں رکھیں اور نظر گھڑی پر ڈالی بہت دیر ہو چکی تھی۔ اچانک کسی نے مجھے میرے نام سے آواز دی۔ ’’شازیہ‘‘۔ میں نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو ایک مانوس چہرے کو اپنے سامنے کھڑا پایا۔
’’شازیہ تم سے ایک ضروری کام ہے۔ شام کو سٹی ریسٹورنٹ میں تم سے ملوں گا۔ ‘‘ رازدارانہ انداز میں مجھ سے یہ بات کہہ کر اچھو بھائی پاس کی گلی میں گھس گئے۔
میں سارا دن گھر میں اِسی اُدھیڑ بَن میں رہی کہ اچھو بھائی کو مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے۔ اِسی اُلجھن میں گھر کے کام میں بھی دل نہیں لگا۔ کوئی بھی کام کرتی بار بار اچھو بھائی کا شیطانی چہرہ نظر آتا۔ میں اچھو بھائی کی گزشتہ زندگی اور اس کی ’’ترقی‘‘ کے بارے میں سوچتی رہی۔
اچھو بھائی ایک بد نام دلال تھا۔ اس نے لاہور کے بدنام محلے ہیرا منڈی میں کاروباری زندگی کی ابتدا جرم و گناہ سے کی تھی۔ وہ لوگوں کو ہیروئن کی پُوریاں بیچتا تھا۔ اِس کاروبار سے اس نے بہت کمایا اور پھر مزید دولت سمیٹنے کی خاطر وہ ایک قدم اور آگے بڑھا۔ اِس نے نشہ آور اشیاء کے ساتھ ساتھ گھر سے بھاگی ہوئی، آوارہ اور بد چلن لڑکیوں سے جسم فروشی کا کاروبار شروع کر دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ اس کی ترقی کا آخری زینہ ہے، کیونکہ وہ مستقل مزاجی کے ساتھ اسی دھندے میں جما ہوا تھا اور اس دھندے میں وہ خود کو کافی حد تک منوا چکا تھا۔ دس سالہ بزنس میں اس کا ریکارڈ تھا کہ اسے کبھی بھی پولیس نے ہاتھ نہیں ڈالا۔
سارا دن رہ رہ کر مجھے وہ منحوس دن یاد آ رہا تھا جب میری ملاقات اچھو بھائی سے ہوئی تھی۔ میرا جنم ایک غریب گھرانے میں ہوا تھا، مفلس اور افلاس میں پلی بڑی تھی لیکن غلط راستے پر کبھی بھی نہیں چلی تھی حالانکہ کئی کئی دن بھوکا پیاسا سو کر رات گزاری لیکن قدم کبھی غلط راستے پر نہ پڑیں۔ آخر غربت سے تنگ آ کر ایک دن لاہور آنے کی ٹھان لی، صرف یہ سوچ کر کہ بڑے شہر میں ہو سکتا ہے کوئی اچھی نوکری ہی مل جائے لیکن پندرہ دن لاہور کی شاہراہوں کی خاک چھاننے کے باوجود بھی نوکری نہ ملی۔ تھوڑی بہت رقم جو میں گھر سے لے کر نکلی تھی وہ بھی ختم ہو چکی تھی، اوپر سے ہوٹل کا کرایہ الگ سے پڑ رہا تھا۔ پریشانی کے عالم میں ہوٹل مینجر کی باتوں میں آ کر اچھو بھائی کی کٹ پتلی بن کر رہ گئی وہ میرے منہ مانگے دام لگاتا اور مجھے اس کے آدھے سے بھی کم دیتا تھا۔
پھر قسمت نے یاوری کی اور مجھے نوکری مل گئی تو اچھو بھائی کو چھوڑ کر شرافت کی زندگی بسر کرنے لگی تھی، شریف تو پہلے بھی تھی لیکن مجبوریوں نے مجھے گندگی میں دھکیل دیا تھا لیکن اب شادی شدہ زندگی میں دوبارہ اچھو آ ٹپکا تھا تو دل منہ کو آتا تھا۔
شام کو میں ڈرتے ڈرتے گھر سے نکلی۔ کافی دیر گاڑی اِدھر اُدھر یوں ہی گھوما کر میں ریسٹورنٹ میں پہنچی تاکہ اچھو بھائی سے مل کر اسے سمجھاؤ کہ وہ میرا پیچھا چھوڑ دے، اب میں پولیس انسپکٹر کی بیوی ہوں اور میرے ساتھ دشمنی رکھنا خود اس کے لئے اچھا نہ ہو گا۔ ریسٹورنٹ میں اِدھر اُدھر نظر ڈال کر دیکھا تو آس پاس وہ مجھے کہیں دکھائی نہ دیا۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ اچھا ہوا اس منحوس کے ساتھ مڈھ بھیڑ نہیں ہوئی۔ جیسے ہی میں گھر واپس جانے کے لیے ریسٹورنٹ کے دروازے کی طرف بڑھی، میرے کانوں میں آواز آئی ’’شازیہ … میں یہاں ہوں۔ ‘‘
میرے پاؤں جیسے زمین سے چپک گئے۔ وہ دبے پاؤں میرے قریب آیا۔ میں نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ اردگرد کوئی نہ تھا۔
’’شازیہ‘‘ اس نے ہاتھ کرسی کی طرف بڑھاتے ہوئے دہرایا۔ بغیر کچھ کہتے ہوئے میں کرسی پر جا کر بیٹھ گئی۔ چند لمحے تک میں اس کو دیکھتی رہی۔ اس میں خاصی کشش آ گئی تھی۔ اس کے گھنے بال، گھنی داڑھی سے چہرہ خاصا پُر کشش محسوس ہو رہا تھا لیکن حالات کا تقاضا تھا کہ مجھے یہاں سے فوری جانا چاہیے تھا لیکن اُس نے ایک لمحہ کے لئے رکنے کا کہہ کر مجھے وہیں رکنے پر مجبور کر دیا۔
شام کا وقت تھا۔ ریسٹورنٹ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ بچے ریسٹورنٹ میں لگے جھولوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، غرضیکہ ہر شخص اپنی دھن میں مگن تھا۔
’’تم مجھے کیوں ملنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے اپنا بیگ میز پر رکھتے ہوئے پوچھا اور ساتھ ہی دوسرا سوال کہہ دیا۔
’’تمہیں کتنے پیسے چاہیے، پچھلی باتوں کو بھول جانے کے لیے ؟‘‘
وہ مسکرایا۔
’’ اب میں پُرانے والا اچھو نہیں رہا، میں اِس ریسٹورنٹ کا مالک ہوں۔ میں پندرہ سال سے یہاں ہوں۔ پندرہ برسوں سے گھر ہی نہیں گیا اور نہ ہی اِس عرصے میں اپنے بیوی بچوں سے ملا ہوں۔ میری غیر موجودگی میں میرے اکلوتے بیٹے نے لَو میرج کر لی ہے۔ اَب جبکہ بیٹے کی شادی ہو چکی ہے اور عنقریب میں دادا بننے والا ہوں اِس لیے میرا بیٹا اِسرار کرتا ہے اور اُس کا اِسرار بڑھتا ہی جا رہا ہے کہ میں گھر واپس آؤں اور اپنی بہو سے ملوں اور اُس کے ہونے والی اولاد کو دادا کی شفقت دوں۔ میں پہلے گھر جانے سے ڈرتا تھا لیکن اب میں ضرور جانا چاہتا ہوں۔ ‘‘ اِس کی آنکھوں میں ایک چمک سی جاگ اُٹھی۔
’’اچھا بتاؤ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’شازیہ! تمہیں ایک آفر پیش کرنے آیا ہوں جس سے تمہاری اور میری زندگی بن جائے گی، جس سے ہماری دونوں کی زندگی بھٹکنے سے بچ جائے گی۔ تم اپنی ہو، اس لئے تم کو آفر کر رہا ہوں۔ ‘‘ اُس نے سرگوشی سے کہا۔
میں بھڑک اُٹھی اور اُسے جھڑکنے ہی والی تھی کہ اس نے دانت نکالتے ہوئے بات پوری کی۔ ’’ہم دونوں اپنا ماضی اِس طرح بھول جائیں جیسے ہم نے کبھی ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہ ہو، کیونکہ تم میری ہی بہو ہو اور ہم دونوں کا ماضی ہمارے گھر میں کوئی دوسرا نہیں جانتا!‘‘
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید