فہرست مضامین
- آنچل میں سمندر
- حمد
- نعت رسول مقبولﷺ
- اگر ہم نہ لکھیں
- سرخ ربن
- کئی بار لکھنا اتنا درد کیوں دیتا ہے ؟
- دن کے سفید چہرے پر
- ادھوری نظمیں
- کیپسول میں بند نظمیں
- نمکین ساحلوں سے
- ہمجولی
- سرگوشی
- سولہ دسمبر
- قابیل کے وارث
- A Day Out
- کِیِلے لمحے
- فاتح اور مفتوح
- عکاسی
- An Ode To The Wax Statues
- گم شدہ مسافتیں
- میں کہ ایک قاری
- کی بورڈ ایکٹیوسٹ
- کارڈ
- ایدھی
- بتاؤ تمہیں کیوں مارا گیا؟
- اے بنات النعش
- Earth Day
- فاتح
- عورتوں کے عالمی دن پر
- اضطراب
- بوڑھے بچے
- بستی اور جنگل
- پہیلی
- آؤ اک خوابیدہ کہانی لکھیں
- دھند کے پار
- اداسی
- آنچل میں سمندر
- ساحلوں کے نشان
- بیٹی کے نام
- ماں کے نام
- ایک ہجر
- فافیر
- جوگن
- زرد چہرہ لڑکی
- سفر
- دھند
- ایندھن
- شاہکار نمونے
- پیاس
- مہمل
- عورت
- حسن لازوال
- اوورسیز
- میڈیا
آنچل میں سمندر
سبین علی
کی نثری نظمیں
حمد
اے میرے رب
مجھے ایسی حمد کا سلیقہ دے
جو میرے دل پر پڑی بھاری سلیں ہٹا دے
کہ صرف تیرے ہاتھ ہیں
جو بارش کی اولیں بوندوں سے زیادہ نرم
ہر مرہم سے سوا
ہر تصور سے ماورا
شفا بخشنے والے ہیں
اے میرے مالک
تیرے سوا بھلا اور کون ہے
جو دلوں پر پڑے بھاری قفل ہٹا کر
رنج و الم دور کرے
مجھے ایسی حمد کا سلیقہ دے
جو ذہن دریچوں میں لو جلائے
جس کے سنگ
پار کر سکوں میں تیرگی کے بحر
دھند میں لپٹے منظر
مجھے ایسی حمد کا سلیقہ دے
جو تیری ڈور کا سرا
ہاتھ سے چھوٹنے نہ دے
تھام لے تیرہ شبوں میں
مجھے ایسی حمد کا سلیقہ دے
جو سینے پر مرہم بنے
آنکھ کی ٹھنڈک
تشنہ روح کو سیراب کرے
مجھے ایسی حمد کا سلیقہ دے
جو ان تمام نعمتوں کا
شکر کر سکے ادا
جن سے نوازا
میرے مالک تو نے
مجھے ایسی حمد کا سلیقہ دے
جس دن زمین و آسماں
مٹھی پر لپیٹ لیے جائیں گے
وہ تیری رحمت کا
آسرا بنے
٭٭٭
نعت رسول مقبولﷺ
میرے آقا
جب میں سوچتی ہوں
یہ ساری دنیاوی محبتیں
میزان کے سامنے
دست و گریباں ہوں گی
نفس کے بخل سے کون بچ پایا ہے ؟
تو آپ کی ذات گرامی
میری آنکھوں کے سامنے
رحمتوں کے جلو میں مسکراتی
آن ٹھہرتی ہے
جب میں سوچتی ہوں
یہ مال و زر بیٹے اولادیں
ہریالی کھیتیاں
حسین چہرے
سرخ چمچماتی گاڑیاں
فقط زینت زندگانی ہیں
فوزاً عظیما کے بھید کھلے نہیں مجھ پر
اور میرے حرف تشنہ
میری سطریں خستہ
آقا!
بات کہنے کا سلیقہ نہیں
میری بحر وزن اور عروض
فقط یہ آنسو
آپ کے در پر
عقیدت میں ڈوبے بہتے ہوئے
جہاں ہر بار نڈر ہو کر چلی آتی ہوں
اور آپ
اپنے دامان رحمت میں
سمیٹ لیتے ہیں ہر بار
گناہوں کی گٹھریاں دیکھے بنا
حریص علیکم بالمومنین روف الرحیم
٭٭٭
اگر ہم نہ لکھیں
لفظ بچپن میں
میرے ساتھ کھیلتے اٹکھیلیاں کرتے رہے
کتابوں پر ٹوٹتے جڑتے پگھلتے
اپنے سب بھید مجھ پر
آشکار کرتے رہے
میں نے لفظوں سے محبت کی
انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر
مجھے معنی و مفہوم کی سلطنتیں دکھائیں
میں نے لفظ کی تکریم کی
لفظوں نے مجھے اپنا وجود بخشا
لفظوں کی موت پر
نوحے پڑھے تھے میں نے
لفظ دم توڑتے بھی مجھ سے روٹھ نہ سکے
میرے خالق نے
لفظوں میں چھپے فیض سے آگاہ کیا مجھے
میں نے انہیں نفرت و تعصب کی نالیوں میں
بہنے نہیں دیا
پھر ایک دن
لفظ تخلیق کرنے والے نے
جس نے لفظ کا ہی علم دے کر
مسجود ملائک بنایا تھا
اپنی عطا سے
مجھے نواز دیا
لکھنے کے ہنر سے
اگر میں نہ لکھوں تو کیونکر نہ لکھوں
(پیغام آفاقی کے ایک سوال’ اگر ہم نہ لکھیں‘ کے جواب میں)
٭٭٭
سرخ ربن
ہم محبتوں کو سوشل سٹیٹس کے ترازو میں تولتے ہیں
اور ڈسٹ بن میں پھینک دیتے ہیں
تحائف کھولتے ہی
برانڈ نیم چیک کیے جاتے ہیں
سرخ ربن کے طول جتنی منافقت
بالشت پر لپیٹی جاتی ہے
خلوص پیکینگ کے ساتھ
کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے
ڈبے کے اندر
صرف ٹیگ زندہ بچتا ہے
میرے ہم جنس اپنی عمر بھر کی
جمع پونجی لگا کر مکاتبت کرتے
اور غلامی کا پروانہ خرید لیتے ہیں
تاکہ جسم جاں سے دال دلیے کا
سلسلہ چلتا رہے
لفظوں کی جنگیں
میٹھے ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہیں
جہاں چمکتا سچ
کالے سیاہ الفاظ سے شکست خوردہ ہو کر
مذمتی پٹیوں کا سنگھار کیے
ممی بنا عجائب گھر کی زینت ٹھہرتا ہے
ہمارے خواب مہاجر پرندوں کی مانند
طویل اڑانیں بھرتے تھک جاتے ہیں
اور لکڑی کی پرانی دہلیز پر
منتظر آنکھوں میں دم توڑ دیتے ہیں
٭٭٭
کئی بار لکھنا اتنا درد کیوں دیتا ہے ؟
حرف کیوں جڑتے ہیں
لفظ کیوں بنتے ہیں
اور اس بننے بگڑنے میں
ہمارے وجود کے سنگریزے
ریزہ ریزہ ہو کر
کیوں شامل ہو جاتے ہیں
کیا شہرت کا سرمستی اس درد کا مداوا کرتی ہے ؟
یا کسی کردار کے ہونٹوں پر آئی مسکان
لبوں پہ دم توڑتی دعا
مصنف کی ہمرکاب بنتی ہے
حرف سے لفظ
لفظ سے سطر
پھر کہانی کا سفر
ندی کے بہاؤ کی مانند
کئی تخریب کاریاں اپنے جلو میں سمیٹے
بہتا چلا جاتا ہے
آخر ہم لکھتے کیوں ہیں؟
جب کہ یہ جانتے ہیں
لکھنا درد دیتا ہے
٭٭٭
دن کے سفید چہرے پر
دن کے سفید چہرے پر
ایک کہانی لکھنے کے لیے
جب میں نے ظلمت شب سے
روشنائی مانگی
تو ہر رنگ مجھ پر
قہقہہ لگا کر ہنسا
میں نے اپنی انگلیاں تراش کر
قلم بنائے
ہر ورق
اپنے رگ و ریشے سے سینچا سجایا
پھر اک دن
افلاک کی مجلس میں پہنچی
زہرہ پر اقبال رومی اور ٹالسٹائی
نطشے اور گوئٹے کے ساتھ
محو گفتگو ملے
میں حیران ہوئی
مریخ کی بجائے یہ سب
زہرہ پر موجود ہیں
یہ دیکھ کر شہر زاد کھلکھلا کر ہنسی
پھر میرا بازو پکڑ کر زمین کی سیر کو واپس لائی
جہاں مائی تاجاں کپاس کے پھولوں سے
اپنا کفن کات رہی تھی
اور کئی قیوم گدھ راج بنے
سیمیں بدن کی گھات میں
روحانیت کی پرتیں تلاش کر رہے تھے
نسیم صبح کی کترنیں لیروں لیر
کوڑے کے ڈھیر پر پڑی تھیں
یہ دیکھ کر میں نے پوچھا
اے شہر زاد
کیا دکھلانے لائی ہو
وہ مسکائی اور کہا
سر پر لٹکتی تلوار
شاہکار کہانیاں لکھواتی ہے
یا نشتر جیسے
چبھتے احساسات
ان کہانیوں کو جنم دیتے ہیں
میں نے ہنس کر اسے الوداع کہا
اور ایک کہانی لکھنے بیٹھ گئی
٭٭٭
ادھوری نظمیں
(سپیشل بچے )
کمزور ذہن چوڑے ماتھے والے
اور ہر خط پیشانی میں کندہ
اک کرب مسلسل
چھوٹی آنکھیں کمزور نظر دھندلے مناظر
اور وہ دیکھ لیتے ہیں
مکمل انسانوں کا ادھورا پن
سانس لیتے ہیں آڑی ترچھی لکیروں
آبی رنگوں میں
اور چل پڑتے ہیں ہوا کی خانہ بدوش موجوں کے سنگ
سر دھنتے ہیں موسیقی کی لَے پر
اور ہر سر سے محروم زندگی گزار دیتے ہیں
ہمدردی ترحم یا دھتکار
خوف و رنج کی کٹھن وادیوں سے گزرتے
وہ قیام کرتے ہیں بالآخر سرد اکلاپے میں
بس ایک کروموسومز ادھر سے اُدھر ہوا
اور ہر ورق زیست
سوالیہ نشان بن جاتا ہے
جو روز ابھرتا روز مدھم پڑتا
کئی رنگ بدلتا ہے
اپنے ادھورے پن کی دان بصیرت میں
یہ جانچ لیتے ہیں
حسین چہروں کی بد صورتیاں
اجلے تن کے میلے لبادے
مگر ٹوٹے پھوٹے لفظ بھی انکے
چپ کی چادر تانے رہتے ہیں
وہ خدا کی لکھی
ادھوری نظمیں ہیں
جن کے معنی کی کھوج میں
کوئی نہیں پڑتا
اور وہ اپنے سب احساس لیے
سمندر میں تیرتے
شیشے کی بوتل میں بند
پیغام جیسے رہ جاتے ہیں
جنہیں کبھی ساحلوں کا نشان نہیں ملتا
٭٭٭
کیپسول میں بند نظمیں
تلمیحات استعاروں سے سجے اوراق خستہ
دیمک کے پیٹ کا رزق ہوئے
تو بوسیدہ رنگ
سورج مکھی کے مرجھائے پھولوں میں
زندگی کی رمق تلاش کرنے نکل پڑے
قطرہ قلزم میں دفن رازِ حیات
عمیق کھائیوں میں تیرگی سے لڑنے لگا
تو زخم خوردہ سچ
مصلحت کے مرہم لگائے
انکوبیٹر میں کراہتا رہ گیا
یہ نظمیں
بیٹ ہوون کی سمنفی نہیں
نہ ہی پبلو نیروڈا کی محبت کی نظمیں
یہاں لعل و جواہر کے بنجارے
خانہ بدوش ہواؤں کے سنگ
تنکوں کے ہمرکاب
سفر میں ہیں
آؤ علامت کے کیپسول میں ملفوف
وہ نظمیں لکھیں
کہ جن کی تاثیر
رگِ جاں میں اتر جائے
٭٭٭
نمکین ساحلوں سے
شام کے وقت طویل پرواز کے بعد
تھکے ہارے مہاجر پرندوں کے
اجنبی جھیلوں پر پہلے پڑاؤ کی مانند
ویران راہگزر پر اگے تنہا شجر کے ساتھ
صحرا کی زرد ریت پر
برف کی اجلی چادر کی مانند
اگر اداس لمحوں کا کوئی چہرہ ہوتا
تو اس کے خدوخال اس ہنسی کے جیسے ہوتے
جو اپنا پیارا دوست چار دن بکھیرے
پھر دور چلا جائے
خالی کمروں میں ہنسی کی بازگشت
حیران دیواروں پر ٹنگی نظر آئے
جیسے جھٹپٹے کے وقت سمندر کی جھاگ اڑاتی سرکش موجیں
ٹھہر جائیں
سورج کو اپنے ساحلوں سے الوداع کہیں
اجنبی جزیروں پر
طلوع ہونے کے لیے
اور زرد روشنی میں ریت کے موٹے ذروں پر
پانیوں میں جمے نمک کی تہہ چمکنے لگے
دن بھر ننھی مچھلیوں کے غول میں
اٹکھیلیاں کرتی سفید جھاگ
پاؤں تلے بچھی نرم ریت میں
گم ہونے لگے
٭٭٭
ہمجولی
شہر کے ہنگاموں میں
سائرن بجاتی گاڑیوں کے بیچ
وہ چپکے سے آتی ہے
جیسے ایک دم سے پورے شہر کی
بجلی منقطع ہو جائے
ٹریفک تھم جائے
جیسے جھٹپٹے کا وقت ہو
اور سمندر کی موجیں رک کر
غرق ہوتا سورج دیکھنے لگیں
وہ جنگل کی سرسراتی ہواؤں کے درمیان
گھنی سبز شاخوں کے بیچ
برسنے لگتی ہے
سینکڑوں آدمیوں کے ہجوم میں
لاؤڈ اسپیکر پر تقریریں سنتے
کانوں پر ڈھکن سے لگ جاتے ہیں
ہر طرف گہرا سکوت پھیل جاتا ہے
کئی بار کانفرنس میٹینگ میں شرکت کرتے
چپکے سے اس کے نقش پا
دشت دل کی ریت پر
اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں
جسم پاس ہوتے ہیں
مگر روحیں ماورائی تخیل کے سفر پر
جا نکلتی ہیں
سوتے میں اچانک اپنے ہی بستر پر
طویل سفر کی تکان
آن لیتی ہے
سرد ہوتے وجود کو
کمبل کی مانند اوڑھ لیتی ہے
یہ اداسی
کبھی بھی کہیں بھی
بچھڑی ہمجولی کی مانند
چپکے سے آ کر گلے لگ جاتی ہے
٭٭٭
سرگوشی
کھڑکی کے باہر پیڑوں پہ
گھاس کی نازک پتیوں میں
سفید کہرا جم گیا ہے
سنو فلیکس شیشے سے جھانکتے
آتش دان سے سرگوشیاں کر رہے ہیں
سیامی بلی تیور دیکھ کے اس کے
گود سے اتر کر
کارنس پر جا بیٹھی ہے
سرد ہوا کے بازوؤں نے
دروازے سارے بھیڑ دیے ہیں
فانوس کی لو بھی مدھم ہے
خنکی میں ڈوبی کچھ نظمیں غزلیں
گرمی سوز سے دہکتے فسانے
ریکارڈ پرانے گیتوں کے
اور کافی کا بڑا سا مگ
سب یاد کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں
٭٭٭
سولہ دسمبر
تیز دھار بلیڈوں سے
پوپی کے نرم پھولوں پر
چرکے لگاتے سیہ بخت ہاتھوں نے
گلوں کا قتل عام کیا تھا
طاقت و اختیار کی ہوس کو
مقدس صحیفوں میں
ملفوف کر دینے سے
لہو کی دلیل مل نہیں جاتی
آسماں فتح کرنے کی چاہت میں
زمین کی کوکھ اجاڑنے والو
مارفین کی طلب میں
سوز لالہ کا خون کرنے والو
اک لمحے کو سوچو تو سہی
زمین پر سبزے کی جگہ
سیاہ رنج اگانے کی
کیا دلیل لاؤ گے ؟
٭٭٭
قابیل کے وارث
قابیل کی نسل کے وارث
ازل سے فطرت کے سیاہ کار
مگر وہ ٹھہرے
اس دھرتی کے ناخدا
تو راندہ درگاہ آشفتہ سر
وہ ہاتھ میں سنگ و خشت
کوڑے لے کر آئیں گے
ان کے ہمرکاب ہجوم خاموش کھڑا دیکھے گا
مسکتے سرخ کپڑوں تلے تیری برہنگی
کوئی ناخداؤں کو طعن کرے گا
کوئی تجھے
کوئی چار حرف ہمدردی کے بولے گا
مگر پھر بھی گریزاں آنکھوں سے
تیرے خطوط و قوسین
تکنے سے باز کیسے آئے گا؟
بنو قابیل کا ہجوم
٭٭٭
A Day Out
چل آ میری ہمزاد
اک نئے سفر پر نکلیں
کسی اجنبی سیارے پر
جہاں کوئی اپنا ہو نہ بیگانہ
اک ایسے عالم تحیر میں
جہاں درد ہو نہ نشاط
بحری روؤں میں
مچھلیوں سے شرط بد کر تیریں
پرندوں سے اونچا اڑ کر دیکھیں
غنچوں کے ساتھ چٹکیں
گھاس کا منہ چڑائیں
تتلیوں جیسے رنگ سارے
اپنے چہرے پر پہنیں
ٹہنیوں پر عارضی سے گھر بنائیں
چنگیا گڑیا کی کہانیاں سنیں
چائے کے بھاپ اڑاتے مگ سے
درختوں کے چھتر پر
کاسنی میز پوش سجائیں
چھوٹے چھوٹے سیارچوں پہ سوار
جب لوٹیں اپنے گھروں کی جانب
تو بدن میں کوئی تکان ہو نہ دل میں کوئی رنج
٭٭٭
کِیِلے لمحے
پرانے گھر کی درزوں سے
شرارتی لمحے
اٹھکیلیاں کرتے نکلے
گرد کی تہوں سے آ کر کسی نے
چپکے سے ہاتھ دھرا تھا
آنکھوں پر
پیڑ کی سوکھی شاخوں نے
جھک کر جو سوگوشی کی
تو آنکھیں جھپکیں
کتنے روٹھے سے تھے
سب در و دیوار
یہ جانے بنا
کتنی عمریں کِیلی گئیں تھیں
ان دیواروں کے کونوں میں
٭٭٭
فاتح اور مفتوح
دنیا حسین چہروں
خوبصورت آزاد پرندوں
اور پھولوں کو برباد کر دیتی ہے
محبت کو تعصبات اور نفرت کے
ڈنک نیلو نیل کر دیتے ہیں
خوبصورتیاں شاخ نازک سے توڑ کر مسل دی جاتی ہیں
فطرت دشوار گزار راستوں اور کانٹوں سے
ان کی حفاظت کرنے کی سعی کرتی ہے
مگر فتح کر لینے کی ہوس
مفتوحہ لوگوں اور وادیوں کو
اجاڑ دیتی ہے
اور باقی رہتے ہیں
بگل نعرے غلغلہ ہاؤ ہو
جیت کا جشن
مفتوحہ وادیوں میں
خوف تو ہوتا ہے
مگر محبت نہیں رہتی
اور فاتح ایک دن حسرت و یاس میں
خالی ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں
٭٭٭
عکاسی
میں وہ فوٹو گرافر ہوں
جو کیمرے سے عکاسی نہیں کرتی
کتنے منظر
جو اکثر
کھلی آنکھوں نظر نہیں آتے
میرے ڈارک روم میں پڑے رہتے ہیں
جہاں کسی بھی طول ماسکہ
عدسے کی رسائی نہیں
مگر تصویریں حرف حرف بوندوں کی مانند
ڈالیوں پر
اترتی چلی آتی ہیں
ظلمت شب کی روشنائی
پورٹریٹ پر گرتی ہے
درد سیال بنا رگوں میں دوڑتا
پتھر کو اپنی تپش سے
ستاروں میں ڈھالتا
لانگ ایکسپوژر کے
لینڈ اسکیپ پر پھیلا دیتا ہے
خزاں کے اُودے پیلے سرخ پتے
قرطاس بنتے ہیں
اور ان پتوں پہ
وہ انمول منظر اتار دیتی ہوں
جو پاؤں کے نیچے چرمراتے ہیں
تو احتجاج نہیں کرتے
ان کی مدھم آواز بہت سے کانوں کو
سنائی ہی نہیں دیتی
لیکن رنگوں میں ڈھل جاتی ہے
ہوا میری ہمجولی ہے
وہ ان خانہ بدوش تصویروں کو
گوں گی آوازوں سمیت
اڑا کر دور لے جاتی ہے
ان انوکھی بستیوں میں
جہاں لفظ منظر، رنگ خوشبو بنتے ہیں
اور تصویر ذہن کے پردہ اسکرین پر ابھرتی چلی جاتی ہے
٭٭٭
An Ode To The Wax Statues
بلند قامت پر شکوہ و پر وقار
راہداریوں گیلریوں میں سجے
اخباروں جریدوں کی زینت بنے
بلند ترین منصب پر فائز
لیڈرو حکمرانوں
کوٹ پر کوئی شکن نہ آئے
قبائے فضیلت سر کے رومال
جمے رہیں
قیمتی گھڑیاں جوتے ٹائی سنوارتے
دیکھتے ہو
کہاں اسلحے کی رسد بڑھانے کو
جنگوں کی طلب ہے
کہاں استعماری ادارے
قرض خواہ قوموں کے منتظر ہیں
کہاں خاک و خون کا کھیل کھیلنا ہے
کہاں منشیات کو
محفوظ راہداری دینی ہے
کتنی عورتوں کی اسمگلنگ
تسکین جاں کا ساماں مہیا کرے گی
تھکے ماندے جوانوں کو
کہاں عارضی جنگ بندی کا خط
کھینچے گا یو این او
کہاں بچے آگ کا ایندھن بنیں گے
بارودی سرنگوں سے پھٹیں گے
یہ سب دیکھ چکے تو
اک پل کو اپنے اندر بھی جھانک لینا
آیا مجسمہ ساز نے
موم کے دل بھی بنائے تھے کہیں
یا کھوکھلے آدمی ہو تم
٭٭٭
گم شدہ مسافتیں
رت بدلتی ہے
نیم خنک اداسی میں لپٹے
دریچے وا ہو جاتے ہیں
جیسے میرے پاس ایستادہ تمہارا عکس
اور جنگلی پھولوں کی مہک
آپس میں گڈ مڈ ہونے لگیں
رنگ بدلتی خزاں میں
میری حسرتوں کے خشک پتے
تمہاری آنکھوں کی جھیلوں میں گرتے
دھیرے دھیرے بہتے
بہت دور چلے جاتے ہیں
شاید کبھی کنارہ ملے
نظروں کے لمس کی حدت
جنگل کا رنگ چنار کرتی ہے
چرمراتے پتوں پہ
دل باندھ کے پیروں میں
کشاں کشاں چلتی آنکھیں
دو انتہاؤں پہ بچھڑ کر
حیرت سے تکتی رہتی ہیں
درختوں کے لامبے سایوں کو
خشک ٹہنیوں کے بوجھ تلے
متروک راہگزر کو
گم شدہ مسافتیں آواز دیتی
پیچھا کرتی ہیں
اگلی سرائے کے مسافروں کا ٭٭٭
میں کہ ایک قاری
میں کہ ایک قاری
پڑھ لیتی ہوں سطروں میں چھپی
ساری باتیں لفظوں کے بھید
سن لیتی ہوں
دبی دبی سرگوشیاں
کھلکھلاتی مسکراہٹیں
قہقہوں میں دبی سسکیاں
آنسو آہیں
ٹوٹے بٹن میلے سلیپر
اونچی ایڑی پہنے درد
اجلے تن من کے روگ
اور سونگھ لیتی ہوں
حرفوں کے بیچ برستی پھوار
پہلی بارش سے اٹھتی
محبت کی مہک
عشق کی سیلی لکڑی سے سلگتا دھواں
قیمتی پوشاک سے اٹھتی بساند
انہیں صفحات پر
مجھے افکار کے اونچے مینار بھی دکھائی دیتے ہیں
ریت سریے سے بنے نظریے
تعصب کے بوسیدہ آدرش
سرحدوں کی دیواریں
سلفر ڈائی آکسائیڈ سے آلودہ
زرد پروپیگنڈے
کلورین سے نکھارے گئے بلیٹن
ان میناروں ان دیواروں کے پیچھے
اجلے چہرے سرخ گلاب
گارے میں لتھڑے پاؤں بھی سطروں میں چھپے
ڈھونڈ لیتی ہوں
پھر آنکھیں بند کر کے
اپنے تخلیل کا ریموٹ کنٹرول
مناظر بدلنے کو دباتی ہوں
تو بھری جھیل کا کنارہ
اس میں گرتے پتے
ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کوئی ہم سفر
محبت کی حکایت
دائمی جدائی کے نوحے
کنول کے پتوں پر لکھے مل جاتے ہیں
میری سماعتیں پھر ہمکنار ہوتی ہیں
شاہوں کے قصیدوں سے
اور دیکھتی ہوں
سوٹ بوٹ پہنے جیبوں میں ہاتھ ڈالے لٹکتی توند سنبھالے
مومی مجسموں کو
تو مجھے طیاروں کی گھن گرج سنائی دیتی ہے
حرف جب لہو رو دیتے ہیں
زمین کی کوکھ باردوی بلاتکار سے حاملہ ہوتی ہے
تو اجتماعی قبروں کو گود میں سمو لیتی ہے
دھرتی کی آہیں سنتی ہوں
لفظ سسکیاں بھرتے ہیں
اور میری پوریں
حرفوں کے بریل پر پھرتی
تھپکیاں دیتیں
خود بھی رو دیتی ہیں
٭٭٭
کی بورڈ ایکٹیوسٹ
جنگوں خون آشامیوں کی گرد
چہروں پر اوڑھے
حیراں لب بستہ بچو
ساحل پر سیپ کی مانند
اوندھے منہ بکھرے موتی جیسے بچو
بے لباس سڑکوں پر بھاگتے
دہشت زدہ سوکھے بچو
خدا کو اس دنیا کی شکایت لگانے والے
روتے بلکتے، جاں سے گزرتے بچو
تار تار پیراہن جسم دریدہ روح راکھ بدن
عظیم انسانی تہذیب کے
ملبے تلے دبے مظلوم بچو
طیاروں کی گھن گرج سن کر سہمتے
گولہ باری سے پیٹ بھرتے بچو
کچرے سے چن کر کھاتے بے خانماں سیارو
پیٹ کا دوزخ بھرنے کو
گھاس ابالتے بچو
ہم نے تمہارے لیے
کتنی ہی اداس نظمیں لکھیں
نوحے گائے
مرثیے پڑھے
اور تم پھر بھی ساکت بیٹھے ہو
دنیا کو شاکی نظر سے تکتے ہو
بتاؤ بھلا
کی بورڈ ایکٹیوسٹ
اور کیا کر سکتا تھا!!!
٭٭٭
کارڈ
شناخت کیا ہے ؟
انگلیوں کی پوریں
جو ہر بشر الگ الگ لیے پیدا ہوا
یا دستور زمانہ کے بنائے وہ سانچے
جن میں ہمیں پگھلی دھات کی مانند ڈالا گیا
شناخت ہے کیا
وہ نمبر جو خطہ ارضی کے ٹھیکیداروں نے
نیلے سرخ سبز کاغذوں پر کھود کر
ہمیں الاٹ کیے تھے
وہ نام جو ہم سے پوچھے بنا رکھے گئے
یا ہماری وہ عمر رواں
جو اور لوگ جی گئے
سرخ و سپید بھورے کالے
پیلے زرد مدقوق چہرے
جن میں سے کوئی افضل تو کوئی کمتر ٹھہرایا گیا
یا وہ دل جو نکال کر دکھائے نہیں جا سکتے
مگر وہ روح کہ جس کا کوئی رنگ کوئی ذات کوئی قبیلہ نہیں
کبھی پہچانی نہیں جاتی
اور نیلے پیلے سبز سرخ کارڈ کی قدر ہی فقط
انسانی لہو کی قیمت کا
تعین کرتی ہے
٭٭٭
ایدھی
اک بے بصیرت ہجوم کو
نابیناؤں کی قوم کو
تاریک راہوں میں شمعیں جلانے والا
اپنی دو آنکھیں
دان کر کے
گویا یہ پیغام دے گیا
اب میری آنکھوں سے دیکھتے رہنا
گر کچرے میں پڑا
کوئی انسان ملے
لا وارث لاشے
بے گھر مائیں
سڑکوں پر خوار ہوتے بچے
روٹی کے عوض لہو بیچتے آدمی
بیمار بوڑھے
لاچار بے گھر
تو انہیں تھام لینا
بے حسی خود غرضی
دولت طاقت
ہوس اقتدار کی اندھیر نگری میں
کبھی میری آنکھوں سے بھی
دیکھ لینا
٭٭٭
بتاؤ تمہیں کیوں مارا گیا؟
بس ایک صدی اور
ان ناقص العقل پچھل پیریوں کو
مارتے رہو
بس اتنا یاد رہے
کوئی بچ نہ پائے
ٹکڑوں میں کاٹو کسی کو
پہلے دایاں پاؤں پھر دایاں ہاتھ
ماں کے رحم میں
کسی جلا کر راکھ کرو
کسی کو زندہ مٹی میں دبا کر
ناقص وجود ناپید ہو جائے جب
پھر اگلی صدی میں
فقط "مرد” بچیں گے
اے خلیفۃ الارض
اپنے کلون اور روکسی ٹینا سلینیا کے سیلکون روبوٹس سنبھال لینا
طاقت بزنس تجارت کی بنا پر
طویل تھکا دینے والی عالمی جنگوں میں
کوئی ماتم کرنے والی ہو گی
نہ کوئی امن کے گیت گانے والی
یہ دنیا کتنی سنور جائے گی نا
وَاذَا الْمَوْؤُدَہُ سُئِلَتْ
بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ
٭٭٭
اے بنات النعش
سمندر کا رنگ پیلا پڑ گیا ہے
اور تیرے لفظ بھی کہیں
دور خلاؤں میں کھو گئے ہیں
رات گہری اور ستارے چھپ چکے ہیں
سب اپنی اپنی ذات کے چپو چلاتے
نامعلوم سمتوں کی جانب رواں ہیں
ماہتاب کو جانے کس پل طلوع ہونا ہے
زخم تو نہیں بھرتے
مگر کھرنڈ آ ہی جاتے ہیں
وقت اپنے داؤ کھیل رہا ہے
چوسر کی بازی میں مات کسے ہو گی
کوئی نہیں جانتا
بس اپنے حصے کی چکی پیستے
اڑان بھرنے کے لیے
پرندوں کے جوف میں بسیرا کر لو
اس دھند کے پار
کہیں نہ کہیں تو راہ ہو گی
کبھی تو قطبی تارہ چمکے گا
کہیں تو نئے ساحلوں کا
نشاں ملے گا
٭٭٭
Earth Day
یہ آج کا انساں
زمیں پہ رب کا نائب
کہ جس کی دسترس میں ہے آسماں سارا
سمندر کا سینہ
زمیں کی کوکھ اور
ذرے ذرے میں مدفون ہر خزانہ
اس دھرتی پر بسنے والے
سب چرند پرند اور حیوان ٹھہرے جس کی رعیت
اپنے دھرتی کے کنبے سے
ایسا بھیانک سلوک روا رکھنے پر
کیا خود سے نظر ملا سکے کا
اپنی حاکمیت کا کوئی جواز
دے سکے گا ؟
٭٭٭
فاتح
دھول مٹی بارود کی مہک
بے گور و کفن لاشوں کی بساند میں
پتھروں کے ملبے تلے
اجڑے باغوں میں
خون آشام شکاری
اپنی فتح کے جھنڈے
گاڑیں گے
جہاں نہ کوئی ان پر پھول برسانے والا ہو گا
اور نہ کوئی دست دعا
اٹھے گا
٭٭٭
عورتوں کے عالمی دن پر
اس نے بڑی روشن راہوں پر
آنکھوں میں پہاڑوں جیسا عزم لیے
آگے بڑھنے کی سعی کی
تو دیو قامت افکار
تہذیب و تمدن کے لمبے چوغے پہنے
علم و ہنر کے سارے ستون
راستوں پہ قابض ملے
سرسراتی سرزنش
ریت رواج کے لامبے سائے
صبح صادق کے بیچ حائل ہوئے
فلک کی وسعتوں کو
جب دقیق فلسفوں پہ پلے
باز و کبوتر بانٹ چکے
تو پانیوں کی راہوں میں
تعصبات کے مگرمچھ
گھات لگا کر بیٹھ گئے
مگر پھر بھی وہ عالی ہمت
ہر راہگزر پہ
بڑھتی جائے
٭٭٭
اضطراب
اے میرے مولا
یہ کیسا اضطراب ہے
تو نے میرے ہاتھ میں قلم کا ہنر دیا
اور آج دل
انگلیوں کی پوروں میں
پوری شدت سے دھڑک رہا ہے
اضطراب سے رگیں چٹخ رہی ہیں
بے چینی پلکوں کنارے آن ٹھہری ہے
سانس تیری گرفت دیکھ کر
مشام جاں میں اٹک رہی ہے
اے جبار و قہار
تیرے بندے سمندر ڈکار کر
العطش العطش پکار رہے ہیں
پوری زمین نگل کر بھی ہانپتے لرزتے
جائع جائع چلا رہے ہیں
تیری پھونکی روح کا چولا اتار کر
بدن کی مسافتوں میں گم ہیں
زر مبادلہ انسانیت ہیں قفل زدہ
دولت اور بھوک ساتھ ساتھ
سڑکوں پر رقصاں ہیں
اور تیری دراز رسی کے دوسرے سرے پر
تیری ہی مخلوق کا اک ہجوم ہے کہ کشاں کشاں چلا آتا ہے
تیرے نام پر تیل سونے اور نشے کی جنگیں لڑنے
ماؤں کے رحم میں خنجر گھونپ کر
عورت اسلحے مخدرات کے تاجر
اپنی ذرے جتنی طاقت پر نازاں ہیں
اجڑی کوکھ
مردہ چھاتیوں میں سرلاتے دودھ
کچرے میں پڑے تیرے شہ پارے
مجھے ہولائے دیتے ہیں
تو نے قلم تھما دیا ہاتھ میں
اور اب تخلیق کا کرب ہے کہ
انگلیوں کی پوروں میں
بڑی شدت سے دھڑکتا
اجلے ورق پر اترنے کا خواہاں ہے
کیا لکھوں
کہ انسان خسارے میں ہے
تیری نشانیاں قرض پر دے کر
ان کا سود کھا رہا ہے
بوڑھے بچوں کا کاغذی سکہ رائج الوقت
دکانوں پر سجا
بہیمۃ کا گوشت
لہو بوندوں سے کشید عطر
سلومی کا رقص
مگر بازار حصص کے جگمگاتے پردے پر
یہ خسارا نظر نہیں آتا
٭٭٭
بوڑھے بچے
ان جنگوں اور خون آشامیوں نے
دھرتی کے سینے پر ایسے کاری وار کیے ہیں
کہ زمیں کی کوکھ سے اب سبزے کی جگہ
رنج پھوٹنے لگے ہیں
ننھے بچے ڈال ڈال جھولنے کی بجائے
آگ و خوں کا کھیل دیکھتے
بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں
ان کے نازک اجلے وجود قرنوں کا بوجھ ڈھوتے
جھک گئے ہیں
صبح کا سورج جب شب گزیدہ کندھوں کے بار ہلکے کرنے
طلوع ہوتا ہے
تو ان سنہرے بالوں میں امتداد زمانہ کی گرد
محرومیوں کے تنکے اٹے ہوتے ہیں
روپہلی کرنیں ان الجھنوں کو دیکھ کر
زرد اداسی میں لپٹی واپس لوٹ جاتی ہیں
شام تک یہ منظر دیکھتا سورج
آسماں کی آنکھ سے لہو روتا
دھند کے سمندر کی اوٹ میں جا چھپتا ہے
جب صبح دم شبنم
پتیوں پر مرہم رکھنے آتی ہے
ان کے نازک آبلوں بھرے پاؤں دیکھ کر
عرق انفعال بنی دم بخود رہ جاتی ہے
سمندر کی موجیں انہیں پناہ دینے سے عاجز
موتی سمجھ کر ساحل پر اگل دیتی ہیں
ان کی کرچی کرچی محرومیاں امن پرندے کے ساتھ
شیشے کی دیواروں میں چنی گئی ہیں
آخر کب تک یہ زمیں زادے
جنگوں نفرتوں اور صعوبتوں کی فصل کاٹتے رہیں گے
اگلی سپر پاور کون ہو گی؟
کس کے سر پر تاج سجے گا
کس کا سکہ رائج الوقت
دستور زمانہ ٹھہرے گا؟
بادشاہ گر اور شاہ تو اکثر بچا لیے جاتے ہیں
اور سپاہی جنگ ہارے یا جیتے
زخم تو وہی اٹھاتا ہے
مگر یہ ننھے بچے
یہ جنگ کا ایندھن
ان حادثات نے بوڑھے کر دیے ہیں
ان کا بچپن کونسا سکہ رائج الوقت لوٹائے گا؟ ٭٭٭
بستی اور جنگل
وہ جنگل پناہ گاہ ہے
خوابوں کی امیدوں کی
اور اس شیفون دوپٹہ جسم کی
جس میں ٹڈیوں جیسے مردوں نے
جانے کتنے چھید کیے تھے
ان جنگلوں میں مدتوں سے
امن کے خواب دفن کیے جاتے رہے
کہ کاش صدائے بازگشت کی مانند لوٹ آئیں
کسی بھٹکے جنگلی بیج کی مانند
روئیدگی کے ساتھ یہ بھی شاید نمو پا لیں
مگر ان درختوں سے باہر
کنکریٹ کے جنگلوں میں
پتھر دل پتنگے
آگ و خون کی دھن پر
نفرتوں کا رقص کرتے ہیں
تیرے جسم کے چھید تو
اس جنگل کی سیلی مٹی بھر دے گی
جہاں تیری میت کو دیس نکالا دیا گیا تھا
بندوں نے خدا بن کر تیرا احتساب کیا تھا
نیکی بدی کے صحیفے کراماً کاتبین سے چھینے تھے
یوم جزا کا میزان
صنفی جبر کے بھاری باٹوں نے جھکا دیا تھا
مگر تیری روح کے زخم
جنگل کی مٹی بھی نہ بھر پائے گی
جو پتھر بستی کے پارساؤں نے
تیری روح کو سنگسار کرتے ڈالے تھے
دیکھنا ابھی اور چھید ہونا باقی ہیں
اخبار ٹی وی کی خبروں میں
پھر اس کے بعد جب کوئی
بڑا قلم کار تیری کہانی لکھنے بیٹھے گا
اک اک پیراہن پھر سے ادھیڑے گا
حقیقت نگاری کے نام پر
حظ کشید کرنے کو
(تہمینہ کے نام جسے جنگل میں دفن کیا گیا)
٭٭٭
پہیلی
کیا وہ ایک پہیلی ہے ؟
جو بھوجی نہیں جاتی
غلام گردشوں کی مانند
بے شمار محور اپنے گرد سجائے
یا کوئی ہشت پہلوی عمارت
جس کی ہر دیوار پر منفرد رنگ ابھرتا ہے
اسے کم فہم گردانا گیا
وہ عقل والوں پر ہنس دیتی ہے
اسے فتنہ پرداز سمجھا گیا
وہ پر فتن دور کی واحد اماں بنی
اسے اظہار سے عاری بنایا گیا
مگر اس کے سینے میں ہزار ہا داستانیں رقم ہیں
اس چہرے کی جھریوں میں زندگی کے مدو جزر
وقت کے سمندر میں ہچکولے کھاتے
افق کے پار بادبان سجانے کی تیاریوں میں ہیں
٭٭٭
آؤ اک خوابیدہ کہانی لکھیں
آؤ اک خوابیدہ کہانی لکھیں
ان سرزمینوں کی
جو ریت کے ژولیدہ لہریوں کے سنگ
بنتے بگڑتے راستوں میں
کئی چہروں کو وقت کی گرد میں دفنا دیتی رہیں
بانس کے ان گھنے جنگلوں کی
جہاں پریاں کھوکھلے تنوں میں مقید
دوسرے سیارچوں پر واپسی کی منتظر رہیں
ان گہری سرنگوں کی
جہاں شعور و ادراک کی مشعلیں حد نگاہ تک روشن رہیں
مگر راہرو بھٹکتے رہے
پانیوں میں ملے سراب ریگ کی
جہاں ساحلوں کی تلاش میں سفینے غرقاب ہوئے
نیلگوں چاندنی میں رواں دواں کاروانوں کی
حدی خوانوں کی
ان کارواں سالاروں کی
جو پس کارواں بھٹکا دیے گئے
برف سے بنے ان مجسموں کی
جو دن کا اجالا دیکھنے کی چاہت میں گرفتار ہوئے
جہاں وقت کا طلوع ہوتا سورج انہیں پگھلا کر
ندی کے ساتھ بہا دے گا
ان ننھی رنگین مچھلیوں کی
جو سفینوں کے ساتھ شرط بد کر تیرتی
بحری رو میں بھٹکتی دوسرے سمندر میں جا پہنچیں
ان جزیروں کی جہاں نیلا آسمان گم تھا
جہاں سمندر کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا
ان کھیت کھلیانوں کی
جہاں ہریالی کی جگہ
جگمگاتے سائین بورڈ نصب کر دیے گئے
ان برفیلی مغرور چوٹیوں کی
جنہیں سر کرنے کی چاہ میں
برفانی چیتوں جیسے چست
کئی کوہ پیما لقمہ اجل بنے
وہ سب سرزمینیں جو ہم نے خواب میں دیکھیں
خوابوں کی بھینٹ اور تعبیروں کی
اک خوابیدہ کہانی لکھیں
٭٭٭
دھند کے پار
صبح نے پہنا کیوں
دھند کا پیرہن
چھپے ہے کس سے
ہے تو سہی کوئی
اس دھند کے پار
کوئی اکیلا اداس سورج
یا سر پٹکتی روشنی کی کرن
ناؤ میں بیٹھا کوئی مسافر
جنگل کے بیچ کوئی رستہ
ہے تو سہی
ہے تو سہی
جنگل کی گل پاشی
یہ اطوار شجر
ذہن کے دریچوں سے
مہکتا رستہ
بے سبب نہیں
٭٭٭
اداسی
اداسی نے ایک دن
دل کے گہرے خانوں پر جمی
گرد ایسے جھاڑی
کہ پہلے تو خوب گھٹن بڑھی
اور پھر ہلکی بارش جیسی پھوار نے
دل و دماغ کے دریچوں کو دھو ڈالا
پرانے منظر صاف نظر آنے لگے
اور کسک ہاتھ پکڑ کر
میری روح کے ساتھ
لا شعور کی سیر کو نکلی
لوٹی تو یہ دیکھا
بہت کچھ دھل چکا تھا
٭٭٭
آنچل میں سمندر
سوکھے پیلے پتوں کو
ہوا کی آغوش میں دیا تھا
جو راکھ بچی تھی
بادل کے سپرد کی
مہکتے سفید پھول
سورج کی روپہلی کرنوں کی نظر کیے تھے
یخ بستہ ہواؤں کا
مہمانوں کی طرح خیر مقدم کیا تھا
صحرا کی ریت پر چمکتے چھلاووں کو
سرابوں میں دھکیل دیا تھا
پھر
انہی روپہلی کرنوں نے
اک دن دھند کا رستہ
روک دیا تھا
بادل گھن گھن گرجے تھے
چنبیلی کو مہکا دیا تھا
پھر
میں نے اپنے آنچل میں
سمندر کو سمیٹ لیا تھا
٭٭٭
ساحلوں کے نشان
اگر سمندر کا رنگ پیلا پر جائے
اور تمہارے لفظ
لہروں کے بیچ گم ہو جائیں
اور تمہاری باتیں
ان گمشدہ ساحلوں کی مانند ہوں
جو کہیں خلا میں کھو گئے تھے
تو تم ایک پرندہ بننا
اور نئے سمندر کی جانب سفر پر نکلنا
دیکھنا وہاں کتنے نیلے آسمان
اپنا عکس پانی کو دان کرتے ہوں گے
پھر تمہیں اس نیلے پانی کی سطح پر تیرتے
کئی ساحلوں کے نشان ملیں گے
٭٭٭
بیٹی کے نام
تو جھومر دھرتی ماتھے کا
تو باد صبا کا سندیسہ
تجھ سے سبق سیکھے ہریالی نے
اور بادلوں نے نوازنے کا سلیقہ مستعار لیا
مانند گلاب تیری خوشبو
تحفہ خدواندی کا پیغام
تیرا وجود اتنا با برکت
کہ طوفانوں میں بھی سفینوں کو سلامت رکھے
ہر گھیرا توڑ کر ظلمت کا
تیری محبت کی چاشنی
تیری آنکھوں کی چمک
تاریک راہوں کو جگنو کرے
تیرے وجود کا رواں رواں دست دعا
ہر روئیں میں بسے لاکھوں حرف تمنا
تیری ہر تمنا خیر و وفا
تو رحمان کے وصف سے متصف
مامتا سے آشنا
٭٭٭
ماں کے نام
ماں بے شک میں اداس بہت ہوتی ہوں
تیرے بعد
مگر اس اداسی میں بھی
تیرا عطا کردہ جذبہ میری ہمت بندھاتا ہے
تھک کر چور ہوتی ہوں جب
تو جہد مسلسل کی تصویر تیری زندگی
امید کی ڈوری میرے ہاتھ میں تھما جاتی ہے
جہاں کہیں دنیا داری کے جھمیلے
گرد بار بننے لگیں
تو ’اٹھ سوانی تے گت مدھانی‘ کی صدا
مجھے پست ہونے نہیں دیتی
اور تیری یہ سوانی بیٹی
تیرے جیسی ماں بننے کی لگن میں جاگ اٹھتی ہے
کہ اس کی روح کو تیری ’جاگ‘ لگی ہے
اس سوانی کے ہاتھ میں اب قلم بھی ہے ماں
مگرحسرت
اس کی کوئی تحریر اب تو کیسے پڑھے گی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’اٹھ سوانی تے گت مدھانی‘ حیدر ملتانی کی کافی کا ایک بول
٭٭٭
ایک ہجر
آپ تو بہت خوش ہیں وہاں
خوش رہیں
میں بھی خوش ہوں اس بات پر
اگر مگر کی گنجائش نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تب تو آپ فون پر ہیلو سن کر
ہار بات کا بھید پا لیتی تھیں
اب کس سے کہوں؟
کس سے کروں ساری باتیں؟
آپ کے ساتھ رخصت ہوئے
کئی پل
صدیاں بن کر
میری طبیب اور دوا
دانشور اور چارہ گر
رہنما و رہبر
میری سکھی
سچی سہیلی
میری پیاری امی جی
آپ کے ساتھ
یہ سب بھی رخصت ہوا
خوش رہیں
پھولوں کے بیچ
کتنا شوق تھا
آپ کو پھول سینچنے کا
اللہ آپ کو اونچے باغوں میں بسائے
حسبی ربی جل اللہ
کی گونج
جو آپ نے میری روح میں سموئی تھی
خدا اسے باقی رکھے
مگر کیا
آپ کی بیٹی
کیا آپ کے جیسی
ماں بن پائے گی؟
٭٭٭
فافیر
اپنے من میں
تہہ در تہہ
ورق لپیٹے
جن پر پہلے پہل
مقدس صحیفے لکھے گئے تھے
انھیں صحیفوں نے
لکھنے کا پہلا درس دیا تھا
اپنی ننھی شاخوں سے
کتنے قلم تراشے تھے
زمین کی
آغوش سے
پانی کی جگہ
روشنائی جذب کرنے لگی تھی
تب اک دن ماں نے
مجھ سے کہا تھا
لکھتی جاؤ
لکھتی جاؤ
یہ ورق کبھی ختم نہیں ہوتے
اور پھر
من کے کورے کاغذ پر
پہلی تحریر یوں ثبت کی
گویا فافیر کا شجر
تہہ در تہہ
ہزار ہا صحیفے لپیٹے ہوئے
کئی مدھم ہوتے ہوئے نقوش
کہیں جلی حروف میں لکھی
عبارتیں
اپنے پتوں پر لکھ کر
ہوا کے آنچل میں سمو دے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فافیر ایک پودا ہے جس کے تنے سے قدیم زمانوں سے کاغذ نکالا جاتا ہے۔
Papyrus Plant
٭٭٭
جوگن
ریت کے بگولے صحرا میں
تیرے قدموں سے لپٹے
ابھی تک محو رقصاں ہیں
ہوا بھیرویں گاتی
پیڑ کو یوں چھو کر گزرتی ہے
جیسے تمہاری مسکان کا راز
اسے بتانے آئی ہو
بستی کے جانور سارے
دم بخود سے کھڑے ہیں
ناگنیں کالا پہنے
بل کھاتی اتراتی ہیں
اے کم سن لڑکی
ادراک ذات پر نازاں
اجلی ہنسی کو سجائے
اپنے ہی من کی تال پر
محو رقص رہ
قبل اس کے عشق کے تیر تجھے
گھائل کر دیں
تیرا واسطہ ’پیلو‘ چگتے
خار زار محبت سے پڑ جائے
قبل اس کے تیرے خدوخال
نئے سانچے میں ڈھال دے دنیا
تیری مٹی اکارت جائے
قبل اس کے تیرے ہم رقص مور
راجستھان سے اڈاری بھریں
تھر کے قحط سے مر جائیں
قبل اس کے
تتلی کے رنگ چھین لے کوئی
پرکاٹ دے کوئی فاختاؤں کے
قبل اس کے
دشت میں لہریے دھول دھول ہو جائیں
بگولے ریت کے چھلاوؤں میں
ڈھل جائیں
چاک کی مخالف سمت میں گرداں
تو محو رقص رہ
اپنی ہی ذات کی دھن پر
اپنے من کی تال پر
اندیشہ فردا سے بے پروا
٭٭٭
زرد چہرہ لڑکی
( ریپ کا شکار ہونے والی مظلوم لڑکیوں کے نام)
اس کی آنکھوں کے ستارے
راہ کی تلاش میں بجھ گئے
روپہلی کرنوں جیسے بال
بے رحم ہواؤں کی بھینٹ چڑھے
اور شاعروں کی غزل جیسے جسم نے
درد کی ردا اوڑھ لی
زبان بندی کا دستور صدیوں سے رائج تھا
نسل در نسل
اس کی پاسداری کا سارا بوجھ
ناتواں پلکوں پہ سجائے
حیراں ہے
گم گشتہ ہے
اک زرد چہرہ لڑکی
اٹھو لڑکی
جہان اتنا بوجھ سہنے کی ہمت ہے
اک بار خود کو مجتمع کر کے تو دیکھو
٭٭٭
سفر
میں تھک جاتی ہوں
الجھے ریشم کو سلجھاتے
نا معلوم سمت میں چلتے چلتے
اک دائرے میں گھومتے رہتے
وہ دائرہ جو کبھی افق سے بھی وسیع تر ہو جاتا ہے
تو کبھی اتنا تنگ
کہ دم گھٹتے گھٹتے
میری رگوں کو بھی بھینچ دیتا ہے
مجھے جاگنا ہے سوتے سوتے
مگر نیند ہے کہ نوک مژگاں پہ
مانند شبنم صبح دم
اترتی چلی آتی ہے
میں مدتوں سے محو سفر ہوں کیا؟
وقت میری طنابیں کھینچتا چلا جا رہا ہے
آ رہی ہے صدائے دما دم
اور میں کئی ڈوریوں میں جکڑی
اس صدا پر لبیک کہتی
کھنچتی چلی جا رہی ہوں
نامعلوم راہگزر ہر
انجان منزلوں کی تلاش میں
اے آغوش شب ابھی مجھے آواز نہ دے
مجھے سوتے میں بھی جاگنا ہے
اگرچہ میں تھک جاتی ہوں
پھر بھی مجھے جاگنا ہے
٭٭٭
دھند
ڈھانپ لینے والی
کا فسوں کتنا اثر انگیز ہے
کہ اس کی خوبصورتی کا فریب
روشنی کو قید کیے
حد نظر پر روک لگائے
رگوں میں دوڑتے لہو کو
منجمد کرتے
مدتوں سے
خوبصورتی میں الجھ کر رہ گیا ہے
٭٭٭
ایندھن
اپنی کھڑکی کھول کے دیکھا
دیکھا سڑک کے پار
دھند کے ہلکے دھندلکوں میں
کہیں ناؤ کے اندر کہیں دریا پار
بیچ صحرا تپتی دھوپ
جنگل بستی برف کے روپ
بھوک اور دولت ایک ساتھ
محو رقصاں سڑکوں پر
کچرے سے چن کر کھاتے لوگ
کیمپوں میں خوار ہوتے بچپن
جنگ کا ایندھن
دولت کی پوجا کرنے والے
ہوس کے پیچھے ہوئے خوار
قناعت کے دو لقموں سے مٹنے والی بھوک
زمین کو نگل کر بھی
بھوکی رہتی ہے
جھوٹی عزت جھوٹی ذلت
فریب کے پنجے گرا رہے ہیں
یقین کے مینار
سچے لوگ سادہ لوح
ننھے منے پھول سے بچے
وقت کی بھٹی کا ایندھن
بنتے جائیں
ہنستے ہنستے
رو دیتی ہوں
عسرت میں بھی من کے موجی
زمین کا سونا
فلک کے ہاتھ
خاک میں ریزہ ریزہ ہیں
میں نے کھڑکی کھول کے دیکھا
( جنگ سے متاثرہ شامی بچوں کی تصویر دیکھ کر )
٭٭٭
شاہکار نمونے
اُس مصور کا
ہر نمونہ شاہکار تھا
ہر رنگ
قوس قزح سے بڑھ کر تھا
کتنے ہاتھ تھے ایسے
جن میں آ کر لوہا بھی پگھل جاتا تھا
کتنی آنکھیں تھیں ایسی سندر
حوروں جیسی
دریاؤں کے رخ موڑنے والے
طوفانوں سے لڑنے والے
پتھروں کو بھی ڈھالنے والے
لکھنے والے پڑھنے والے
مسیحا تھے کچھ
اور تھے کچھ راہبر
چٹانوں کے بیٹے
دشت کی رونق
گھر کی زینت چہکتی چڑیاں
جگ مگ کرتے چاند اور تارے
چاند تاروں سے بڑھ کر
کتنے شہ پارے جلا ڈالے ہیں
بس اک تخت کی ہوس نے ؟
٭٭٭
پیاس
سات سمندر سے قیمتی
تیرے آنسو
اور تو
تشنہ لب
خالی کاسہ
بنی ہاشم کے ساقی مدتوں سے گم ہیں
اور زم زم اب کے
سپر مارکیٹوں میں بک رہا ہے
چرواہوں نے فلک بوس
عمارتیں بنا ڈالی ہیں
لہو کی کتنی بوندوں سے
ایک قطرہ تیل کشید ہوتا ہے ؟
اور
سات سمندر سے قیمتی تیرے آنسو
میری بیٹی
اٹھ اور ہاجرہ بن جا
کہ ہم تو بس رسماً
سات چکر لگاتے ہیں
٭٭٭
مہمل
شکستہ و شکست خوردہ
نامکمل ادھورے
دھوئیں کی مانند ہوا میں تحلیل ہوتے
ڈرے سہمے
کونوں کھدروں میں چھپے بے شمار لفظ
مفہوم ادا کرنے کی
سعی لاحاصل کرتے
کلمہ بننے کے شرف سے محروم
محض مہمل ہی رہ جاتے ہیں
انہیں کوئی تو اذنِ بازیابی دے
٭٭٭
عورت
میں دلربا و دل نشین
میں گل رنگ و گل سبو
میں کلیوں کا پیرہن
میں بوئے گل بے مثال
میں نازنین و مہ جبیں
میں رنگ دھنک و ماہ رو
میں محبوبہ و سراپا ناز ہوں
میں جنی تو کیا معتبر
زمیں کی گود
رنگ سے بھری
میں باپ کی لاڈلی
میں مہندی کی مہک ہوں
میں عید کی کھنک بنی
میں نور ہوں دید کا
آنگنوں کی چہک بنی
میں عاجزی کا ناز ہوں
میں شکستگی
میں ریختگی
میں تصویر کائنات
میں تصور حیات
میں خانزادہ ہوں بہن بنی
ونی ہوئی
سولی چڑھی
بھائیوں کی خیر
مانگ رہی
صدیوں کے بھوج تلے دبی
روایتوں میں دفن ہوئی
میں گھر کا چراغ ہوں
میں رفیق بے مثال ہوں
عیب پوش و پردہ نشین
دلربا ہمنشیں
میں حوصلہ و ولولہ
بنی ہمت آفریں
وقار کا ہوں پیراہن
عسرت کی ساتھی بنی
میں رحمان کی صفت سے متصف
میں تخلیق کے کرب سے آشنا
میں دشت ریگ میں آبلہ پا
چھاؤں کی مثال ہوں
اپنے لہو سے سیراب کر
گل ناز کھلاؤں
جا بجا
جوئے شیر سے بلند تر
ہوں معتبر رہی معتبر
ہاں میں سراپا ناز ہوں
یہ میری عاجزی کی معراج ہے
٭٭٭
حسن لازوال
بنجارن جیسی سندرتا لے کر
پھر سے بچپن کو لوٹی ہے تو
تیرے من کی چاندنی نے
تیرے چہرے پر
ساگر کی لہروں کا جال بنا ہے
تیرے جھل مل نینوں میں
برسوں سے ہزاروں دیپ جلے ہیں
تیرے بوڑھے نرم ہاتھوں کا لمس
اطلس ریشم سے بڑھ کر
تیرے بالوں کی چاندی نے
سورج سے چمک چرائی
صحرا کے بیچوں بیچ لگی
عود کی لکڑی
جتنی پرانی ہو جاتی ہے
اتنی زیادہ
مدھر خوشبو مہکاتی ہے
تیرے دل کے اوراق میں
صدیوں کی
الف لیلوی داستانیں رقم ہیں
اے عہد رفتہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے نقدی عمر
بستی جنگل بادل خوشبو میں سرگرداں
گل رنگ شکستہ
مہکتی ہوا
کیا بکھیرنے چلی ہے تو
دیکھ اس بنجارن کو
کیوں ہے اس بات سے بے خبر
یہ بستی بنجاروں کی بستی ہے
کوئی پل ٹھہرنا
پھر کوچ کرنا
دستور حیات ٹھہرا
اک پل ٹھہر
اور دیکھ
عود کی پرانی لکڑی کو
حسن لازوال کو
٭٭٭
اوورسیز
فلک بوس عمارتوں کی پیشانیوں پر
زمین دوز رستوں، پلوں
سڑکوں پہ بچھے تال کور میں
چیونٹیوں کی مانند رینگتے
لاکھوں انسانوں کا لہو پسینا چمکتا ہے
اپنوں بیگانوں کے دو طرفہ استحصال کا شکار
چکی کے بھاری پاٹوں تلے پستے وجود
وقت تو مٹھی مٹھی ان پر
ضرورتوں کا ‘گالا’ ڈالتا ہی چلا آ رہا ہے
اور ہمارے اہل ہنر دست و بازو
نسلوں کی تقدیر سنوار سکنے والے
دوسرے درجے کے شہری بنے
زر مبادلہ کے ساتھ
اپنے نصیب بھی
زر کے پجاری حکمرانوں کے پاس
رہن رکھ آتے ہیں
لمبی ہوک پر ترنجن میں
ماہیے گانے والیوں کی بیٹیاں
جنس کے بازار میں
قومیتوں کے برانڈ نیم سجائے بک رہی ہیں
آبی پرندے جھیلیں دریا کھیت کھلیان
متاع حیات کے ساتھ
ریل کے پیچھے بھاگتے مسافر کی
پلیٹ فارم پر دھری جمع پونجی کی مانند
وہیں چھوٹ جاتے ہیں
اور مسافر سفر در سفر
اجنبی زمینوں پر
جڑیں گاڑنے کی کوشش میں
ہلکان ہوتے رہتے ہیں
اپنوں اور پرائیوں کے لیے
چھوٹی بڑی آسائشیں خریدتے
خود کو بھی بھول جاتے ہیں
یہ معاشی ہجرتوں کا دستور جو ٹھہرا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گالا۔ چکی میں مٹھی بھر کر جو اناج پیسنے کے لیے ڈالا جاتا ہے
٭٭٭
میڈیا
جھوٹ کی تشہیر سے
نظر کے فریب سے
سراب بنتے چلے جاتے ہیں !
مانگے کے افکار کی دکانوں میں
طرفہ تماشا لگانے والوں کی بھیڑ
آنکھ کی سیاہی کو
روشنی نہیں بخشتی !
آئینہ دل دھندلا ہو
تو دِکھا نہیں کرتا !
ریت کے سمندر میں
لہروں کی بغاوت ہو
تو پاؤں جما نہیں کرتے !
دلدلی زمینوں پر
خواہ کتنی بارشیں برسیں
چارہ گری نہیں ہوتی
سراب نگل جاتے ہیں !!
٭٭٭
تشکر: شاعرہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید