FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ٹھنڈی دھوپ

 

(ایک ادھوری کہانی )

 

 

 

                   سلیم سیّد

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

ایبٹ آباد کے نام

 

؎ تیرے ساتھ گئی وہ رونق

اب اس شہر میں رکھا کیا ہے

 

 

 

 

ایک شام ایک صبح

 

امبر اور اظفر UNOکھیل رہے تھے لان میں کچھ چڑیاں گھومتی پھر رہی تھیں نومبر کی شام، کاغان کالونی کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے ایک گھر میں داخل ہوئے۔ راہی صاحب نے کہا تھا میرے Student ہیں۔ انور اور چھوٹی،

ان سے مل لینا جونہی ایبٹ آباد پہنچو۔

ہم برآمدے میں بیٹھے پہاڑ کو دیکھ رہے تھے۔

چوٹی تک ہو کر آیا ہوں۔ اتوار کی شام ایسے ہی گزرتی ہے۔ اگلے اتوار ساتھ چلنا۔

باہر کیوں بیٹھے ہیں۔ انور نے سانس درست کرتے ہوئے کہا۔

یہ ناہید ہے آرٹسٹ اور یہ سلیم۔ راہی صاحب نے ہم سے ملنے کو کہا تھا تو یہ چلے آئے، چھوٹی بولیں۔

گھر چاہیے رہنے کو، اور آرٹ سکول کے لئے بھی۔

کچھ سوچا بھی کیسے ہو گا۔ آرٹ اور یہاں ؟

ایبٹ آباد میں داخل ہوتے ہی میں نے ناہید سے کہا۔ یار کہیں مروا نہ دینا۔ جان نہ پہچان

تو اس نے ہنستے ہوئے کہا پہاڑ ہیں نا، ٹھنڈی دھوپ ہے۔

چنار کا سایہ ہے نا۔ ویسے بھی آجکل تو ایسا لگتا ہے۔ آگ سی لگی ہے درختوں میں۔

بھئی یہ تو شاعرانہ سی بات ہو گئی۔

ہاں ہے تو سہی۔ کوئی اعتراض؟

59۔ کاکول روڈ چلتے ہیں چائے بھی وہاں ہی پئیں گے بڑی اچھی چائے ملتی ہے۔ اور اُن کے ہاں گیس کا ہیٹر بھی جلتا ہے۔ اس وقت تک جب تک مہمان بیٹھے رہیں۔

پنڈی کی ہو ناہید۔ شمیم باجی نے پوچھا۔ اپنوں میں سے ہیں کیا آپ؟ وہ میری طرف دیکھ کر بولیں۔

پہلے غیر تھے اب اپنے ہیں۔

تم پیاری آپا کی بیٹی ہو۔ تو یوں کہو نا۔ جب وہاں تھے تو نذر نیاز میں ملاقات ہوتی تھی۔ کیسی ہیں وہ؟

نواب صاحب انڈیا سے آنے کا قصہ سنا رہے تھے کہ کیسے واپس نہ جا سکے رام پور، وہ تقسیم کے وقت پاکستان والے حصے میں تھے۔ ان کی آواز شہد کی مکھی کی طرح آ رہی تھی بھن بھن۔ انور باقاعدہ سو رہے تھے کرسی پر بیٹھے بیٹھے۔

کہاں ٹھہرے ہیں ؟ڈاکٹر ہادی اور شاداب کے یہاں۔

بچپن کی دوستی ہے ناہید سے۔

شاداب کو درختوں پر چڑھنے کا شوق تھا۔ شاخوں میں کپڑے اڑ جاتے تھے اوپر کے اوپر نیچے کے نیچے۔ چیخ پکار۔ کیا زمانہ تھا۔

بہت عرصے کے بعد ملاقات ہوئی یہاں۔ ہادی کے والد میڈیکل کالج میں پڑھاتے تھے۔ میرا سلام کہنا شاداب کو۔

سامان کب لے کر آ رہے ہو۔ اور اسے کہنا کبھی ملنے آ جایا کرو۔ نومبر کے آخر میں آ جائیں گے ہم۔

اچھے لوگ ملے ہیں بھئی۔ برآمدے میں سردی میں بٹھائے رکھا۔ چائے کا کول روڈ سے پلوائی۔ جب تک گیس والا انڈہ ختم نہیں ہوا۔ اٹھنے کا نام نہیں لیا۔

رہنے کو گھر مل گیا۔ اچھی جگہ ہے۔ سامنے کاکول گاؤں،

ٹھنڈ یانی کے پہاڑ، شروع میں موڑ مڑتے ہی گھوڑا خچر یونٹ۔ یہ جب کا علاقہ ہے پندرہ سال پہلے یہاں مرغابی کا شکار ہوتا تھا اب آس پاس کنج ہیں۔ صبح ایک گلہری نظر آئی تھی آلو بخارے کے درخت پر چڑھ رہی تھی رات کو جگنو جھلمل کر رہے تھے۔

اللہ کا شکر ہے اب یہ تمام چیزیں میری زندگی کا حصہ بن جائیں گی۔ اتنا خوبصورت پیالا کہیں دیکھا ہے کیا؟

پیالا نما شہر درختوں کے جھنڈ کے پیچھے چھوٹا سا گھر بھی ہے۔ بالکل ویسا ہی جیسا بچپن میں ہمارا تھا۔

ابّا کو کالج جاتے دیکھتا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ درختوں کی قطار کے درمیان سے گزرتے کبھی نظر آتے کبھی درخت اُن کو چھپا لیتے میں برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھا اُن کو دیکھتا رہتا تھا حتیٰ کہ سائیکل شیڈ کے کونے پر بالی رام سے ہاتھ ملاتے اور کالج کی مرکزی عمارت میں گم ہو جاتے۔

شام کو میں ضد کرتا کہ میں چلتا ہوں اُسی راستے پر آپ مجھے برآمدے سے دیکھیں ابّا وہاں بیٹھ کر کچھ لکھتے تھے۔ اور مجھے اپنے انداز میں چلتے دیکھ کر مسکراتے رہتے تھے۔

مجھے تغیر زیادہ بھاتا نہیں ہے۔

آج بہت عرصے بعد وہی دعا کی جیسے بچپن میں کیا کرتا تھا یہ سب کچھ ایسا ہی رہے۔ کبھی تبدیل نہ ہو، جی کرتا ہے جو چیز جہاں ہو جیسی ہو ویسی ہی رہے، لیکن یہ کبھی ہُوا ہے کیا؟

گھوڑوں کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔

واک کے لئے نکلے ہیں انسانوں کی طرح۔ کل سے ہم بھی سیر شروع کرتے ہیں ان کے ساتھ ساتھ سامنے والے پہاڑ تک جائیں گے۔

ایسی صبح کبھی کہیں دیکھی ہے پہلے ؟ اس چڑیا کی آواز کتنی پیاری ہے۔ واہ واہ کیسی سریلی ہے سر اور لے دونوں کا خیال رکھتی ہے۔ اور گا رہی ہے۔ جانیں دل کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو اچھا کیا یہاں آ گئے اللہ تیرا شکر ہے بس اب ایسا کرنا یہ آواز کبھی نہ چھیننا مجھ سے یہ خوشبو والی ہوا یونہی چلتی رہے تو مہربانی ہو گی میرے پیارے اور میٹھے اللہ میاں، برفی لڈو،

ناہید کی مسکراتی آواز آئی۔ پاگل

صبح صبح اللہ کے ذمے اتنے کام لگا دیے۔ اور اب اسی خوش فہمی میں رہنا کہ ایسا ہی ہو گا کچھ عرصے کے بعد جب یہ درخت کاٹ کے بیچ دے گا کوئی تو کیا کر لو گے۔ سوائے اس کے کہ بُرے بُرے منہ بناؤ گے۔ کہاں جائے گی تمہاری گلہری، Beethoven کے سُروں والی سرمئی چڑیا۔ یہ خوشبو،

ہمیشہ جاگنے والا جگنو۔ اور ہاں بھول گئے رات درخت پر ایک اُلو بھی بیٹھا تھا پتہ ہے جہاں یہ ہوتا ہے وہاں کبھی نہ کبھی ویرانی ضرور ہو جاتی ہے۔ میں تمہیں ڈرا نہیں رہی۔

جو ہونا ہے وہ بتا رہی ہوں۔ سنا ہے بڑوں سے۔

صبح صبح موڈ خراب کر دیا میں نے کچھ مشکل کام تو نہیں کہے اگر اللہ میاں چاہیں تو اتنی چھوٹی سی خواہش پوری نہیں کر سکتے۔ ہم۔ نے کونسی دنیا مانگ لی ہے۔ ؟

اب تو سارا منظر ہی بدل گیا۔ اتنا اونچا کیوں بول رہے ہو؟

یہ چڑیاں بہت حساس ہوتی ہیں۔ اپنی آواز میں کسی دوسرے کی آواز کو برداشت نہیں کرتیں لیکن پھر آئیں گی یہاں ضرور کل خاموشی سے دیکھنا اور سننا۔ ویسے یہ چڑیاں مجھے پہلے ہی کچھ اُداس اُداس لگی ہیں۔ یہ تو اس لئے کہا تھا کہ زیادہ امید نہ لگاؤ۔ ورنہ اتنی ہی مایوسی ہو گی۔ جب یہ سب کچھ نظر نہیں آئے گا تمہیں۔ ویسے بھی تمہارا دل جلدی سے ٹوٹ بھی جاتا ہے۔

اچھا فی الحال تو مایوسی کی باتیں نہ کرو۔

اور ہاں سن لو اب میں نے کبھی اُبلتے ہوئے شہر میں واپس نہیں جانا۔

painting کے لئے شملہ پہاڑی چلتے ہیں۔ ایزل سیٹ کر دو۔

ذرا یہ منظر بنا لو ناہید۔

خدا کے لئے مصوری میں مشورے نہ دیا کرو رنگوں کا کھیل تمہاری سمجھ میں نہیں آنے والا۔ دھوپ چھاؤں کی لوکن میٹی کو تم کیا جانو۔ ناہید نے ہاتھ کا مربع سا بنا کر فوکس کرتے ہوئے کہا۔ Composition کے بارے میں کچھ علم ہے ؟

میں نے یورپ کی ساری گیلریاں دیکھی ہیں۔ بڑے استادوں کی تصاویر، یہ کیا ہیں اُن کے مقابلے میں۔

Impressions میں کام کرتی ہو تم۔ اور کیا!

جو رائے میں دیتا ہوں وہی راہی صاحب بتاتے ہیں اُس وقت تو بڑے غور سے سنتی ہو۔

اچھا میں نیچے والی چھاڑی پینٹ کرنے لگی ہوں۔ اور زیادہ باتیں نہ بناؤ۔

لو وہ حضرت آ رہے ہیں کل والے۔ کچھ ہاتھ میں ہے۔

من و سلویٰ آ رہا ہے۔

باجی ساگ روٹی لایا ہوں۔ میری امی نے بنا کر بھیجا ہے۔

نیچے والی چھاڑی جو آپ بنا رہی ہیں وہ میرا گھر ہے یہ تصویر جب بن جائے مجھے دے دیں۔ باجی ویسے ایمان سے بتائیں اگر درختوں میں سے میرے گھر کو ہٹا دیں تو کیا خاک سین بچے گا؟

ہاں یہ تو ہے۔

لکڑی کے اوپر جو کبوتر بیٹھے ہیں وہ ضرور دکھانا۔ ویسے بھی یہ بلائیں اپنے سرلے لیتے ہیں۔ دیکھیں ہمارا گھر ڈھلوان پر بنا ہے۔ ارد گرد پہاڑ ہیں بارش جب ہوتی ہے تو مجال ہے۔

ہمارے گھر کو کچھ ہو جائے۔ اور صحن میں پانی آ جائے آس پاس سے پانی گزر جاتا ہے۔

ہے نا عجیب بات ؟

ہاں ہے تو۔

اتنے میں مجمع لگ چکا تھا

منظر کو تصویر سے ملا کر دیکھ رہے ہیں، میں نے کہا اس painting کا نام بلو دا گھر ہونا چاہیے۔

یہ تو ایک Impression سا ہے نزدیک سے کچھ پتہ نہیں چلے گا دور سے جا کر دیکھو۔

تیسs Painting مکمل ہو گئی ہیں۔ ناہید بولی

26 ستمبرکو نمائش ہو گی کام بند۔ ساگ روٹی لاؤ جی۔

ناہید کو ہر جگہ پرستار مل جاتے تھے۔ کوئی ایزل اٹھا لیتا ہے۔ کوئی برش والا بیگ، کوئی کرسی۔ پورا پروٹوکول مل جاتا ہے۔ خوش نصیب ہیں جی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیسے پیارے لوگ

 

یہ گاڑی میں گٹار کس کا پڑا ہے ؟ رفعت باجی نے پوچھا

سلیم صاحب آپ کا ہے۔ میں نے بھی کسی زمانے میں ستار بجانا سیکھا تھا۔

میری بیٹی کو آرٹسٹ بنا دیں۔ افتخار صاحب نے کہا

اچھا” ناہید بولی۔

Major یٰسین آ گئے ناہید بیٹی میرا گھر سامنے والا ہے۔ نسرین کی جوانی کی تصویر بنا دو۔ گلابی کپڑوں کے ساتھ بہت سے زیورات کے ساتھ۔ میں باقاعدہ رونمائی کراؤں گا۔

"جی اچھا”

خٹک صاحب آئے۔ کمشنر ہزارہ۔ گورنر ہاؤس کے لئے خٹک ناچ” بنا دیں اور میری Portraitبھی۔

خوبصورت پوٹریٹ سے بڑھ کر انسانی شخصیت کے چھپے پہلو سامنے آ جاتے ہیں۔ ناہید نے کہا۔

” اچھا رہنے دو” خٹک صاحب بولے

لیکن سر چیف گیسٹ آپ ہی ہوں گے۔

مسز نواز نے کہا۔ سنا ہے مسز زیدی کی سٹوڈنٹ ہو؟ میں ان کی کلاس فیلو ہوں پشاور کے زمانے کی۔ ایک گھنٹے کے لئے  آ جایا کرو الامتیاز میں Painting سکھانے کے لئے۔

” جی اچھا”

آپ لوگوں نے ایبٹ آباد کا انتخاب کیوں کیا معصوم بھائی نے پوچھا معصوم بھائی خوبصورت انسان، اور نیک نیک سے لگے۔

ناہید مجھے اپنی امی کی ہلکی سی جھلک یاد ہے میں بہت چھوٹا تھا جب ان کا انتقال ہوا اگر کچھ ان کے خد و خال بتاؤں تو کیا پوٹریٹ بن سکے گی؟

کوشش کروں گی معصوم بھائی۔

جب کبھی نذر نیاز ہو تو آپ ہی آ جایا کریں۔ سلیم تو ان چیزوں سے دور ہیں۔

ننھا ” فیضان” اپنی امی کی خوشبو کی پوری بوتل انڈیل کر سیڑھیوں پر کھڑا ہے۔ جونہی گاڑی سٹارٹ ہوئی۔ میں بھی ساتھ جاؤں گا ناہید۔ دانش بھائی اور ان کی پیاری سی بیگم فرح، شکیلہ آنٹی۔ فیضان سے دوستی بہت پکی ہو گئی۔ وہ ہمیشہ اسے ناہید کہتا۔ بقول فرح کے یہ تمہارا چھوٹا سا عاشق ہے، بدمعاش۔

انکل وجیہہ آپ تو مغل اعظم والے کمار لگتے ہیں۔ بڑی پہچان ہے تمہاری۔ کمار میرے خالہ زاد تھے۔ اچھا لکھنو والے ہوئے نا؟ اچھی اردو سننے کو ملے گی۔ انکل وجیہہ کی بیٹی ہیں کیا نزہت ؟ نہیں بہو۔ ایسی بہو اللہ سب کو دے۔ ناہید بولی۔

حسن بھائی بیٹے ہیں۔ سب کے پیارے حسن بھائی۔ دو پیارے بچے "ربیکا اور اسد "اپنی ماں کی ذہانت لئے ہوئے۔

جونہی میں نے بڑے غلام علی خان کی ٹھمری لگائی۔ تو انکل وجیہہ نے مجھے کچھ دیر غور سے دیکھا اور جھومتے ہوئے بولے ” یار زندہ رہنے دو گے کہ نہیں ” کیا ارادے ہیں تمہارے ؟

ہم نے استاد فیاض (آفتاب موسیقی) کو پوری رات سنا ہے سامنے بیٹھ کر طبلہ والے نے شرارت کی پونے سولہ ماترے پر جوسم گرایا۔ استاد نے گھُور کر دیکھا اور کہا تیری شامت آ گئی آج۔ اب یہاں رہنا۔ ایک گھنٹے تک گانا گاتے رہے اور سم وہیں پر گراتے رہے۔ یہ تھے استاد فیاض علی خان۔ اس نے طبلہ چھوڑ کر پیر پکڑ لئے۔ چلو شہر کا چکر لگاتے ہیں ذرا ٹھمری لگاؤ

جندڑی لٹی یار سجن کدے موڑ مہارہاں تے آ وطن میں ہوں کرنل علیم (گھوڑوں والی یونٹ) کا سی۔ او۔ ویسے ذاتی طور پر مجھے کتے بھی پسند ہیں۔ سامنے گھر ہے جب فنکشن ہو ضرور

بتائیں۔ تمبو حاضر ہیں پھولوں کے لئے کھاد۔  ورکنگ موجود ہے درختوں کے تنے پر بھی سفیدی ہو جائے گی گملے سج جائیں گے پھولوں سے۔

یہ ان کا خاص سٹائل تھا۔ ناہید کی ہنسی چھوٹ گئی۔

شام کو گاڑی میں شہر کی سیر کو نکلے فوجی علاقے میں کھٹا کھٹ سلیوٹ۔ کیا میں شکل سے اتنا بے وقوف لگتا ہوں جو سلیوٹ ہو رہے ہیں۔

ناہید نے علیم صاحب کو بتایا۔ کچھ سنا سلیم کیا کہہ رہے ہیں۔

ہم تم پر حکومت کر رہے ہیں پچھلے تیس سال سے، احمقوں  کی جنت میں تو تم رہتے ہو۔

باجی مجھے قرآن پڑھا دیں گی بینا آ گئی میں ہر روز آپ کے گھر کے سامنے سے گزرتی ہوں آج آ گئی۔

اچھا کیا۔

میں تصویریں بنانا بھی سیکھوں گی۔

تم تو بنی بنائی تصویر ہو خود۔ ناہید نے کہا

اسٹنٹ مل گئی ” تصویروں والی باجی” کو۔ ابھی بہت چھوٹی ہے۔ کیا نام ہے تمہارا ؟

” جی مینال”

مسرت بولیں آپ دیکھیں تو سہی کیسی painting بناتی ہے۔ اُس نے جو سیدھی لائن لگائی۔

ناہید نے کہا کیا بات ہے کتنی خوبصورت لائن ہے۔ آرٹ سکول کی پہلی سٹوڈنٹ مل گئی آج۔

کچھ دن بعد مینال کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑی تھی اور پوچھا ناہید آنٹی یہ کس آرٹسٹ کی بنائی ہوئی تصویر ہے۔

تم میرا نام روشن کرو گی۔ ناہید نے اسے پیار سے دیکھا۔

جنرل صاحب نے بلایا۔ نیلور  پہاڑی بنا دیں mess کے لئے۔ اور ایکStained Glass بھی۔

سب ٹھیک ٹھاک ہے شہر خوبصورت ہے۔ لیکن آرٹ اور کلچر کی کمی ہے۔ آرٹ لوگوں کی ترجیحی لسٹ پر نہیں اور آرٹ سکول کے ساتھ تو مسجد ہے دیکھنا تمہارے خلاف تقریر ہو گی ڈر کے رہنا۔

صبح صبح خچروں کی لائن میں سے مولانا نکلے اور بولے۔ جناب سنا ہے۔ تصویریں بنانا سکھایا جاتا ہے ؟

جی پھول پتیوں کی۔ خدا نے جو تخلیق کرنا تھا کر دیا۔ مصور صرف اُس کا عکس بناتا ہے۔ میں نے یاد کی ہوئی تقریر شروع کر دی۔ دینیات بھی پڑھاتے ہیں۔

نظریہ پاکستان بھی یاد کراتے ہیں۔ کورس میں ہے جی۔

شاباش خیال رکھنا انسان کی تصویر نہ بنانا۔ جان ڈالنی پڑے گی بت وغیرہ تو نہیں بناتے نا؟

توڑتے ہیں لیکن سونا کبھی نہیں نکلا۔

کیا مطلب؟مطلب کچھ بھی نہیں مولانا۔

کسی نے تبصرہ کیا یہ شہزادہ ساکون تھا بھئی؟

ڈپٹی کمشنر کامران قریشی آئے اور کہنے لگے۔

Painting the Town red, Keep up the good work Naheed.

ارے صدیقی صاحب تو وہی ہیں۔ ’’پاکستان سکول ‘‘سعودی عرب والے۔ ان کی پیاری سی فیملی ساتھ ہے۔ بیگم صدیقی، بیٹا ڈاکٹر نعمان، مسز نعمان، ثمینہ بھابی، طیب کی تو کیا پوچھتے ہیں۔ سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں رول ادا کر سکتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے۔ ڈاکٹر عنایت اور ان کی بیگم، سری نگر والے، کشمیری حسن، نفاست اور شرافت کے بنے بنائے پیکر۔

اتنے پیارے لوگوں کا میلہ لگ گیا۔

باہر سڑک پر مسافر اتر رہے تھے کوئی بولا آرٹ سکول کا سٹاپ آ گیا جی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

پہلی نمائش پہلی ملاقات

 

پہلی نمائش خوب رہی۔ احمد فراز مہمان تھے۔

ناہید، اپنی کتاب ’’پس انداز موسم ‘‘کے لئے یہ سہمے ہوئے پرندوں کی تصویر لے لوں۔

فراز صاحب، زہے نصیب۔

مجھے نہیں پتہ تھا کہ تمہارے استاد تمہیں اتنا Ownکرتے ہیں

مسز زیدی، تسنیم عباس، عباس شاہ جی، سبھی تو آئے۔

اگر راہی صاحب آ جائیں تو ایک استاد کی نظر سے وہ جو بتائیں گے مستند ہو گا۔ PNCAکے کوریڈور میں چلتے چلتے میں نے دیکھا تو سامنے سے ہاجرہ منصور اور راہی صاحب چلے آ رہے ہیں۔ دوسرے روز عین وقت پر پہنچے ایک تنقیدی جائزہ لیا اور کہا آگے بڑھو۔

سر میں آپ کے پاس آ کر سیکھنا چاہتی ہوں۔

شام کو ناہید کو راہی صاحب کے ہاں سے لینے گیا تو دیکھا ناہید سیڑھیوں کے نیچے بیٹھی painting کر رہی ہے پسینے میں شرابور۔ یار یہ تو پاس ہو گئی۔ اِسکا امتحان لے رہا تھا کہ مصوری کا کچھ شوق بھی ہے یا فیشن کے طور پر اپنایا جا رہا ہے۔

اسے جان بوجھ کر یہاں بیٹھنے کو کہا تھا گرمیوں کی اُبلتی ہوئی شام کو مارگلہ پہاڑ کی طرف منہ کر کے راہی صاحب نے کہا۔

ناہید میرا خیال ہے ایبٹ آباد جاؤ اور وہاں جا کر آرٹ کی تعلیم کا سلسلہ شروع کر دو۔

اگلے روز ٹی وی پر راہی صاحب نے کہا۔ آج کے بڑے

” فنکار ” پروگرام میں ملک کی مشہور مصورہ ناہید سلیم ہے۔

اور میرے پاس ان کی painting Original موجود ہے۔ جو میں ان کی نمائش سے عارضی طور پر لے آیا ہوں۔

وہ ایبٹ آباد میں رہتی ہیں۔ وہاں کے ارد گرد جو خوبصورت پہاڑ ہیں۔ سبزہ ہے۔ اُس کی منظر کشی کی گئی ہے۔ یہ پہاڑی پر سے لوگ جا رہے ہیں pine کے درخت ہیں۔ دھوپ چھاؤں کا کھیل خوب کھیلا ہے۔ اور جب میں ان سے ملا تو انھوں نے کہا کہ میں ایک مصورہ ہوں لیکن میرے اندر جو علم ہے اسے میں وہاں کے لوگوں میں بانٹا چاہتی ہوں تو یہ تھی ناہید سلیم آرٹ سکول کی بانی۔ ” آج کے بڑے فنکار” کے سلسلے میں

٭٭٭

 

 

 

 

تصویریں ہی تصویریں

 

مجھے تو ڈر لگ رہا ہے یہاں تصویر کی پہلی نمائش ہے کوئی آتا بھی ہے کہ نہیں۔ یہ تو کرسیاں کم پڑ گئی ہیں مینال نے پھول دیے انھوں نے خوشبو سونگھی۔ اور مجھے چپکے سے کہا یار دو ہزار روپے کی کتاب خریدی ہے۔ تقریر لکھنے کے لئے۔

کوئی بات نہیں جناب۔

صاحب صدر کی کرسی پر تو فیضان بیٹھا ہے۔ کسی نے پوچھا تو بولا ” ناہید’ نے بیٹھایا ہے۔ اور کہا ہے کہ تم یہاں بیٹھو گے۔ سب مسکرارہے تھے۔ خٹک صاحب نے آنکھیں بند کر کے تقریر شروع کر دی۔

Impressionist مصور کی آنکھ دنیا کی سب سے ترقی یافتہ آنکھ ہے جو کیمرے کی آنکھ سے بھی تیز ہے۔ دھوپ چھاؤں کے جو رنگ یہ دیکھ سکتی ہیں کوئی اور نہیں دیکھ سکتا۔ اور یہی خوبی ناہید سلیم کی مصوری میں ہے۔

بچے جو راہی ایوارڈ لینے آئے تھے اونگھنے لگے انور بھی ان کے ساتھ ہی بیٹھے تھے۔

آواز آئی۔ وہ رنگوں سے ماحول، روشنی، سائے کو قابو کرتی ہے۔ نیند کے جھونکے آنے لگے۔

‘ زادِ راہ’ انسانی زندگی کی بے ثباتی کا ایک عبرت انگیز نقش ہے اور” پگڈنڈی ” ایک ازلی اور دائمی سفر کی علامت ہے رابطہ ہے۔ راستہ ہے۔ زندگی کی پیہم رواں دواں سوچ کا۔

لیکن اس سے بھی بڑا کام ” آرٹ سکول کا قیام” ہے تالیاں !

بچے اونگھ سے جاگے۔ انور بولے ابھی نہیں بیٹا راہی صاحب نے بھی تقریر کرنی ہے۔ اس کے بعد چائے بھی ملے گی۔

بچے راہی صاحب کے ( پنکھے ) تو تھے ہی۔

تقریر سے پہلے سب بچوں سے ملاقات کی تھی صدیقی صاحب نے کہا راہی صاحب ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ تشریف لائے۔

بولے ہاں میرا شاگرد ہے ” مشکور ” بہت مشہور ہو گیا ہے۔ لیکن ویسے مصور اچھا ہے۔

صدیقی صاحب کا سر گھوم گیا۔

راہی صاحب نے کہا ذرا مڑ کر دیکھیں پیچھے۔

سب نے گردنیں گھمائیں۔ ٹھنڈیانی کو دیکھیں کتنا بڑا لینڈ سکیپ ہے پہاڑ پر زرد پھولوں کی چادر ہے جب چالیس سال پہلے میں بنگال سے تشریف لایا اس کے بعد کبھی واپس نہیں گیا (لوگ جاگ گئے ) اور کچھ ہنسے بھی۔

کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ناہید؟

نہیں سر ! یہ اردو کا قصور ہے۔

میں نے زین العابدین کا بنگال چھوڑ دیا۔

راہی صاحب کی آنکھوں میں نمی تھی انکھیوں کے کنارے۔ عینک کے شیشے صاف کئے ٹائی درست کی، ہاجرہ آپا کی طرف دیکھا اور تقریر شروع کی۔

ایک ذمہ داری سونپی ہے ناہید کو میں ہر وقت ساتھ ہوں سکول کے۔ میں ہوں نا۔

اچھا بس آخری بات Rahi Award ایک سمبل ہے سورج کے طلوع ہونے کا، کرنوں کے پھیلنے کا۔ سب بچے جاگ گئے۔ اپنے انعام لینے کے لئے اور راہی صاحب کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے۔

٭٭٭

 

 

 

باتیں راہی جی کی

 

ڈھاکہ سے کراچی ” ڈھاکہ سکول آف آرٹ” سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرکار نے مجھے مغربی پاکستان کی سیر کے لئے بھیجا۔ شمالی علاقہ جات میں جب ٹوپی گرانے والے منظر دیکھے۔ تو جی نہیں کیا واپس جانے کو وہاں تو ساری عمر پتلون کے پائنچے اٹھا کر پانی میں سے گزرتے رہے گھر تک جانے کے لئے۔ یہاں پانی کے جھرنوں کو گرتے اور اونچائی سے گزرتے، شور مچاتے ہوئے اپنا راستہ بناتے دیکھا۔

جھرنوں کا پانی پینے کا خاص شوق ہے۔ بغیر دیکھے کہ اس کے ساتھ اور کیا کیا پی رہے ہیں۔ امریکہ میں ڈاکٹر نے کہا۔ ” گال بلیڈر ” میں ریت جمع ہو چکی ہے۔

اب کیا معلوم، ہم تو سمجھتے رہے Healthy water ہے۔ کر دیں آپریشن۔

یہ کیا ہر وقت بنگال بنگال۔ کی رٹ لگا رکھی ہے۔ آتا کیا تھا؟ زبان ہم نے سکھائی، اٹھنا بیٹھنا ہم نے سکھایا۔

جہاں کا مالدہ آم مشہور ہے۔ وہاں کا ہوں۔ یہ بڑا بڑا آم اور خوشبو دار۔

نام تو ٹھیک رکھو اپنے ہاں کے آموں کے مثلاً ” لنگڑا”

” رش گلا” ایسا کہیں نہیں ملتا جیسا بنگال میں ملتا تھا۔ ایک درجن سے کم نہیں کھاتا تھا۔ اُس وقت کامسٹر ڈھاکہ رہا ہوں۔

خوراک بہت تھی ماشا اللہ۔

صرف یہ بات مانتی ہوں۔ تبھی صبح صبح اُٹھ کے باڈی بلڈنگ شروع کر دیتے تھے۔ اور مسلز دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔

مجھے متاثر کرنے کے لئے کرتے تھے کیا؟

ارے نہیں سر کے بل تو اس لئے کھڑا ہوتا کہ خون کی گردش تیز ہو جائے اور خیالات صاف رہیں تمہاری طرف سے۔

اور کیا کیا نہیں کیا۔ "کراچی سکول آف آرٹ” کے لئے میں نے۔ ایک دن سفیدی کر رہے تھے۔ داخلے کے لئے ایک صاحب آئے۔

کہا بیٹھیں۔

وہ بولے پرنسپل سے ملنا ہے۔

بیٹھیں تو سہی۔ منصور راہی تھوڑی دیر میں منہ ہاتھ دھو کر بال جما کر آئے اور کہا فرمائیے جی میں پرنسپل ہوں ملک کا مشہور مصور۔ شادی کے لئے مجھے زین العابدین نے حکم دیا تھا۔ اب استادکی بات کون ٹالے۔ اور "بی” نے جو شرائط رکھی تھیں وہ پوری کیں۔

بیٹا اردو سیکھ لو۔

سیکھ لی۔ ایسی کہ ماشا اللہ اہل زبان شرما جائیں۔

بیٹا”Famer” یعنی "Famous” ہو جاؤ۔

ہو گئے۔ ویسے مجھے بہت چاہتی تھیں۔ ’’بی ‘‘

گاڑی خرید لو۔ فوکسی خرید لی اور چلانا بھی سیکھ لی۔ جو خوشی فوکسی کی تھی وہ شاید کبھی نہ ملی۔ گھر بنا لو۔ بنا لیا۔

آخری پریڈ میں کچھ دیر ہے۔ آج میرے ساتھ شہر کون چلے گا؟ فوکس ویگن پر، کل کی طرح۔

سر گاڑی چلانا آتی ہے۔

نہیں۔ راستے میں سکھیں گے نا۔

چلئے اکبر سبحانی ساتھ ہولیا۔

اب پولیس والے کو جو ٹکر ماری اور پھر اُتر کر جو گفتگو ہوئی۔ ” جرمانہ” سکو گے ” معاف” سکو گے گاڑی بند ہے ” دھکا” سکو گے۔

پولیس والا تقریباً رو پڑا۔

صاحب جاؤ خدا کے لئے نا جانے کونسی بولی بول رہے ہو؟

تمہارا داخلہ اس سڑک پر بند ہے اگر نظر آ گئے تو جیل سے باہر نہ "سکو” گے۔

انور نے نیچے منہ کر کے تیزی سے کام شروع کر دیا سر میں تو مصروف ہوں مشکل ہو جائے گی "اکبر” ہے نا۔

‘سر’ صاف بات ہے نہیں "سکوں "گا۔

اچھا تمہاری مرضی۔ میں نے تو تمہارا بھلا سوچا تھا۔ ویسے میں کل Hill park گاڑی لے گیا تھا پیارے بھائی، ہاجرہ، سبھی ساتھ تھے۔ وہ تو شکر ہے میں نے پیارے بھائی سے پوچھ لیا تھا کہ بریک کونسی ہے ؟ ایک تو سپیڈ بہت تھی اور بریک اتفاق سے لگ ہی گئی۔ جب میں نے دو گاڑیوں کے درمیان گاڑی پارک کی۔

کیا بات ہے کیا Driver ہے ؟ لوگ بولے۔ جو یہ منظر دیکھ رہے تھے۔

کمال ہے۔ ایسی پارکنگ کبھی نہ دیکھی،

کب سے گاڑی چلا رہے ہو ؟

گاڑی چلانا نہیں آتی مجھے۔ بیوقوف

ہاں واقعی یہ تو ہمیں پتہ تک نہیں تھا کہ انھیں گاڑی چلانا نہیں آتی سب بچے غور سے راہی صاحب کی باتیں سن رہے تھے۔

لندن کے حوالے سے ایک طعنہ بذریعہ ہاجرہ آپا ” راہی جی” کے ساتھ جیسے چپک گیا ہے کوئی بھی واقعہ ہو کہیں کا بیان ہو رہا  ہو راہی جی کو یہ ضرور سننا پڑتا ہے اور کمال ہے کہ راہی جی بہت غور سے بات سنتے ہیں۔ جیسے پہلی مرتبہ سن رہے ہوں۔ اور آخر میں ایک لفظ مثلاً ” فضول ” ہے اور بغیر دیکھے کہ اس کا رد عمل کیا ہو گا، پھر اپنی کہانی شروع۔

اچھا بھئی ذرا گپیں نہ لگاؤ مجھے تو لندن کا وہ دن نہیں بھولتا جب نہ تو گھر میں تمہاری بھابھی نے کچھ کھلایا اور آپ تھے کہ چلے جا رہے ہیں عمارتوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں بھئی برگر لے لو” حرام ہے ” پھل ہی لے لو کوئی ” حرام ہے ” پھل بھی کبھی حرام ہوتے ہیں ؟

کیا پتہ۔

گوشت کی دُکان پر لکھا تھا حلال میٹ، وہی لے لیتے۔

صائمہ ہمیشہ اُنھیں مسٹرگڑ بڑ کہتی ہے۔ جہاں کہیں کچھ گڑ بڑ ہو رہی ہو سمجھوابو ہیں کہیں آس پاس۔

اچھا سن تو لو۔

ٹھیک ہے بچوں کی وجہ سے سن رہے ہیں۔ ورنہ تمہارے سندر بن کا حال پتلا ہی ہے۔ نہ بن ہے نہ سندر۔ کہنے لگے وہ درخت کے پیچھے سے ایک سر نظر آ رہا ہے وہاں سر تھا نہ پیر۔

بھئی میں چٹا گانگ Hill track کی بات کر رہا ہوں۔ میں  وہاں Drawing کرنے گیا تھا گرمی کے دنوں میں۔

راہی جی نے ہلکے سے کہا ” فضول” اور قصہ شروع کر دیا

کپڑے کا بیگ لٹکائے، ہاتھ میں بورڈ لئے پہنچ گئے۔ چھٹیوں کے دوران بہت سے سکیچ کرنے تھے۔ جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔

وہاں لوگ صرف پتوں سے جسم ڈھانپے ہوئے تھے۔ زبان تو ان کی آتی نہ تھی۔ اشاروں سے کام چلاتے تھے۔

نام تھا” لاوی”۔

ہلکی سی آواز آئی۔ اشاروں کے تم ماہر ہو۔

وہاں کٹیا میں ہی سو جاتے بھات بھی مل رہا تھا۔

تم نے ضرور چٹا گانگ Hill track جانا تھا رانگا ماٹی چلے جاتے۔

فضول بات۔ رانگا ماٹی میں کیا رکھا تھا سوائے رنگین مٹی کے۔

خیر وہ روزانہ زرد پھولوں کی مالا پہنے آتی اور ہم سکیچ بنانے میں مصروف رہتے۔ کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ وہ زیادہ ہی خیال رکھنے لگی ہے اشاروں اشاروں میں پوچھا کب جاؤ گے ؟ اور اپنی طرف اشارہ کیا مجھے ایسا لگا کہ کہہ رہی ہیں میں بھی ساتھ جاؤں گی سوچا کل یہاں سے بھی بھاگ لو شامت آ گئی۔ آپ کی۔

اور اس کے بعد اگلے دن چپکے سے جانے کے لئے نکلا تو "لاوی” اور اس کا کتا دونوں انتظار میں تھے۔ میں زندگی میں اتنا تیز کبھی نہیں بھاگا، وہ تو خدا کا شکر ہے کہ جلد ہی اُس کتے کی حدود سے باہر نکل گیا۔ تمہیں معلوم ہے کہ کُتا اپنے علاقے سے باہر نہیں جاتا۔

ورنہ پاکستان آج ایک بڑے مصور سے محروم ہوتا۔

راہی صاحب کو اپنی اردو پر بڑا ناز ہے۔ کہ ہاجرہ آپا کی امی کے کہنے پر سیکھی تھی۔

سر آپ اردو میں ایم اے کر سکتے ہیں ؟

ایبٹ آباد میں جب بھی آتے ان کا جی چاہتا کہ میں گاڑی چلاؤں اور وہ آرام سے گیت سنتے رہیں۔ ہاجرہ آپا سے آدھا پان لے کر کھائیں۔ اور موتیے کا ہار پہلے خود سونگھیں اور ہاجرہ آپا کو دیں۔ یہ ایکRitual ہے۔

جب میں بازار جاؤں تو میرے ساتھ سودا لینے جائیں۔ چاہتے ہیں کہ وہ بھی کچھ خرید لیں جب میں نے پیسے دینے چاہے مرغی والے کو تو بولے۔

سلیم ملی بھگت نہ کر لیں ؟

کیسی ملی بھگت راہی بھائی ؟

مطلب آدھے پیسے میں دے دوں۔

چشموں کا پانی پینے کا بہت شوق ہے ان کو۔ میں نے کہیں غلطی سے کہہ دیا کہ مسجد بلال میں چشمے کا پانی آتا ہے کہنے لگے آج سے پانی بھرنے کی ذمہ داری میری ہے۔

مسجد کے مولانا نے کہا سلیم آجکل گھر میں پانی کم آ رہا ہے کیا؟ راہی صاحب صبح پانی بھرنے مسجد آتے ہیں اور مجھے بھی لیکچر دیا کہ چشموں کا پانی صحت کے لئے کتنا مفید ہے۔ میں نے لاکھ کہا کہ پانی سرکاری نل کا ہے۔

مگر بولے سلیم جھوٹ نہیں بول سکتا۔

چنانچہ جب امریکہ میں اُن کا گال بلیڈر کا آپریشن ہوا۔ تو ڈاکٹر نے پوچھا کہ آپ کونسا پانی پیتے رہے ہیں ؟ ریت جمی ہوئی ہے۔

سلیم نے مروا دیا کاغان ناران، سوات جانے کہاں کہاں اس نے مجھے چشموں کا پانی پلایا۔

راہی صاحب ہر وہ بات جس میں پٹائی ہونے کے امکان زیادہ ہوں میرے نام لگا دیتے ہیں۔

نواب صاحب بولے۔ سلیم یہ راہی صاحب کتنے بڑے آدمی ہیں مجھ سے اتنی محبت سے ملتے ہیں اونچی آواز میں کہتے چلے  آ رہے تھے نواب صاحب کیا حال ہے ؟ اور بیساختہ گلے لگ گئے۔

اتنے میں راہی صاحب وہاں آ گئے اونچی آواز میں بول رہے تھے نواب صاحب کا چہرہ دمک رہا تھا۔ دیکھا میں نہ کہتا تھا۔

واقعی۔ میں نے پوچھا کہ راہی صاحب آپ اونچا کیوں بول رہے ہیں ؟ یار تم خود ہی تو کہہ رہے تھے کہ نواب صاحب بہرے ہیں۔ یا اللہ میں نے کیا کچھ کہا تھا ؟ نواب صاحب سرک لئے وہاں سے۔

"سفیر مشرق ” محترمہ ہاجرہ منصور کو مصوری میں "تمغہ حسن کارکردگی” عطا کیا جاتا ہے۔ راہی صاحب کے کان گرم ہو گئے۔ سلیم، بلایا تو تھا کہpride of Performance ملنا ہے۔ یہ کیا بلا ہے۔ ؟

اردو دھوکہ دے گئی نہ آخر، یہ اس کا اردو ترجمہ ہے۔

اچھا میں سمجھا حکومت دھوکہ دے گئی۔ راہی صاحب کی سانس میں سانس آئی۔ ذرا جلدی سے بتا دیا کرو ایسی بات دم ہی نکال دیا تھا۔

ساتھ والے گھر میں محرم کے سلسلے میں مجالس ہوتی تھی کھڑکی سے کان لگا کر سنتے تھے اور تصویر بناتے تھے۔ ایک دن پوچھنے لگے سلیم۔ یہ مسٹر عباس کون ہے آجکل کافی ذکر ہو رہا ہے۔

توبہ ہے راہی۔ ہاجرہ آپا بولیں اچھا بھلا جانتے ہو۔ ارے وہی جو بہت بہادر تھے اور بچوں کے لئے پانی لینے دریا پر گئے تھے۔

راہی صاحب نے اتنی عمدگی سے بولنا شروع کیا۔

بہادر تو "حُر”بھی تھے وہ بیبیاں بھی تھیں جو کربلا میں آئیں

” امام حسین” جیسا بہادر کون ہو گا ؟اپنی مثال آپ تھے 72کے 72۔

سلیم! میں تو بچپن میں کاغذ کا تعزیہ بنایا کرتا تھا اور اس کے بدلے میں ہمیں شربت ملتا پینے کو اور کھانے کو بھات۔

ارے سب جانتے ہیں ہاجرہ آپا کہنے لگی بنتے ہیں بس۔

میں نے سوچا واقعی کہہ تو ٹھیک رہی ہیں۔

میں آدھا شیعہ ہوں یہ کہہ کر راہی صاحب نے زور سے "یا حسینؑ” کہا۔ ۔ اب خوش ہو۔ اتنے میں شمیم باجی کے ہاں سے نیاز آ گئی۔ کہنے لگے دیکھا ہمارے "یا حسینؑ”۔ کہنے سے کتنا فرق پڑا ہے۔ چاول آ گئے لو کھاؤ پیو اور یاد کرو بھوک اورپیاس امام کی۔ ہم تو نیاز کھانے کے لئے شیعہ بھی ہو سکتے ہیں۔ یعنی نیازی شیعہ۔

٭٭٭

 

 

 

 

اچھے ماموں

 

 

انور صاحب کا انداز ایسا ہے کہ دنیا کی کسی چیز کی پر واہ نہیں۔ شانِ بے نیازی کی اس سے بہتر مثال نہیں مل سکتی، یہ پہلا تاثر تھا۔ جوں جوں ملاقات بڑھتی گئی ایسا بالکل نہیں۔ خیال رکھنے والے۔ محبت کرنے والے اس کا اندازہ مجھے تب ہوا کہ اپنا کام کاج چھوڑ۔ ناہید کی بیماری کے سلسلے میں۔ سارا کام سنبھال لیا سکول کا۔ اور فکر بھی رہتی تھی ناہید کی بیماری کی۔

کرن بولی۔ Perfectionist ہیں سر۔ میں سر انور سے کام چیک نہیں کراؤں گی وہ اس Painting میں بھی غلطی نکال دیں اور میری ہمت نہیں کہ اس پر مزید کام کر سکوں۔

مزاح ایسا کہ نیچے سے اوپر تک آگ لگا دے۔ اور زیر لب مسکرانا کوئی ان سے سیکھے۔ ایک روز ہاجرہ آپا سے کہنے لگے سوچ رہا ہوں اب میں بھی تصویروں کی نمائش کر ہی لوں اسلام آباد میں۔

کیا بناؤ گے ؟ ہاجرہ آپا نے پوچھا۔ تصویریں ہیں کچھ پاس؟

ہیں تو نہیں۔ بنا لوں گا۔ Water colour بنانے کا سوچ رہا ہوں آپ کی طرح wash لگا لوں گا۔

ہاجرہ آپا نے غور سے دیکھا۔

کوئی مشکل کام ہے کیا؟لگا لوں گا۔

مذاق ہے wash لگانا۔

جب آپ کام کرتی ہیں چھپ کے دیکھ لوں گا۔

اگلے روز راہی صاحب نے کہا سلیم تمہیں پتہ کہ ہاجرہ کتنی حساس مصورہ ہیں کام کرنے کے دوران اگر کوئی مہمان نہ آئے تو بہتر ہے۔

میں نے کہا جی بہتر۔ لیکن انور صاحب کو کون روکے گا۔

اُسی کو تو روکنا ہے۔ راہی صاحب بولے۔ اسطرح انور صاحب کی تصویری نمائش فی الحال ٹل گئی۔

ایک آرٹسٹ نے جو رائے مانگی اپنی Painting کے بارے میں۔ کیا شاندار رائے دی۔ آسمان Turner کا درخت Constableکا۔ آپ کا کچھ نہیں۔

اچھا انگلشLandscape ہے۔

پہلی دفعہ جب میں نے پہاڑی علاقے میں گاڑی چلائی۔ ٹھنڈیانی سے پہلا تعارف انہی کے ذریعے ہُوا۔ میں نے کہا جو مجھے اتنے اوپر لے آئے ہیں اُسی خاندان کا ایک بندہ واپسی پہ میرے ساتھ ہو گا۔ کسی پہاڑی علاقے میں چلتے جا رہے ہوں کتنی ہی آوازیں دے لیں پلٹ کر نہیں دیکھتے کہ کہیں پتھر کے نہ ہو جائیں۔ وہ” بابائے ٹھنڈیانی” کے خطاب کے بلا شرکتِ غیرے مالک ہیں۔

بیماری کی حالت میں بھی شرارت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ حادثہ بھی ایسا۔ کہ خدا کی پناہ۔ اللہ نے دوسری زندگی دی۔

اب بستر چاہتے ہیں کھڑکی کے پاس۔ CMH میں ایک Major صاحب ہیں۔ جو وہاں سے آسمان کو گھورتے رہتے۔

میں نے کہا سر ہمارے دوست کھڑکی کے پاس آنا چاہتے ہیں اگر آپ مناسب خیال کریں تو۔

آپ اُن کی جگہ آ جائیں ان کا فوجی خون جوش میں آ گیا۔ ہم جہاں ایک دفعہ آ جائیں وہاں سے جاتے نہیں یہ نا ممکن ہے۔

صبح جونہی میں کمرے میں آیا تو انور بولے سلیم رات مجھے ایسا لگا جیسے اس کھڑکی سے موت کا فرشتہ آیا تھا۔ سارے بستر دیکھ کر کھڑکی والا بستر پسند کر لیا یہ سن کر Major صاحب کے کان اور بال کھڑے ہو گئے نشان لگا لیا ہے اُس نے۔

جونہی شام ڈھلی Major صاحب بولے ذرا بات سنیں۔ اگر بستر تبدیل کرنا ہے تو اپنے دوست سے کہو یہاں آ جائیں۔

طبیعت گھبرا رہی ہے آسمان کو دیکھ کر۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باتیں سیرت کی

 

سیرت Nick name رکھنے کی ماہر ہے۔ قدرت نے خاص طور پر یہ صفت عطا کی ہے۔ ناہید اس کی می می ہے۔

انور ” اچھے ماموں ” اور مجھے دیکھا اور تھوڑا سا مسکراتی البتہ تایا ابو سے ” موٹے ماموں "بنا دیا۔ می می بھی موٹے ماموں کہتی ہے۔ میں نے کہہ دیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔

سیرت کا ہر کام نرالا ہے۔ اپنی سالگرہ پر تمام بزرگ لوگ بلائے۔ معصوم انکل ( معصوم بھائی اور روشن باجی اس کے آئیڈیل تھے ) حتی کہ مجھے اکثر کہتی ” ماموں ” معصوم بھائی جیسی گاڑی لے لیں

اپنی امی ( نیرہ) اور می می ناہید کو شام کی Exercise کرواتی۔ دوڑ لگاؤ نا۔ موٹی ہو رہی ہیں آپ لوگ۔ ہر وقت بیٹھی رہتی ہیں۔

سیرت بہت محبت کرنے والی بچی ہے۔ گرمی میں جب میں آم لاتا تھا تو سیرت سب سے پہلے عاشی (گھر کے کام میں مدد کرنے والی) کا حصہ نکال کر اس کے حوالے کر دیتی اور خوش ہوتی۔ کہتی ماموں اب ہم سکون سے آم کھا سکیں گے۔

ماموں ” جوس کی طرح ” پیوں گی۔

سیرت نے اپنے ابا سے ایک بات ورثہ میں لی ہے ہر باتSymbolic کرتی ہے۔ کہ سوچنا پڑتا ہے سمجھنے کے لئے۔ منیر کا خط آتا امی کے نام۔ امی کہتی سلیم اس کا خط پڑھو مجھے خاک سمجھ میں نہیں آتی۔ کیا انٹ شنٹ مارتا رہتا ہے۔

اتوار کا دن۔ کہنے لگی ماموں یہاں پہلوان نہیں ہوتے۔ میں نے کہا نہیں گوجرانوالہ اور گجرات سے بچیں تو یہاں ہوں۔ اچھا کوئی نہ کوئی تو ہوتا ہو گا۔

بہت دنوں بعد پتہ چلا کہ حلوہ پوری کھانے کو دل کر رہا ہے کہ پنجاب میں حلوہ پوری بنانے والے ” پہلوان نما” ہوتے ہیں۔

ہر صبح سیرت کو سکول چھوڑنے جاتا۔ کوئی نہ کوئی گانا لگا ہوتا اور میں عادتاً ایک ہی کیسٹ ہفتوں تک لگائے رکھتا۔ آپ ایک ہی کیسٹ کیوں لگاتے ہیں ماموں۔ تمہیں پسند نہیں کیا؟

اچھے ہیں۔ وہ بولی۔

کونسا گانا پسند ہے ؟

سوچا کہ کہاں غور سے سنتی ہوں گی۔ فوراً بولی یہ والا بہت اچھا ہے۔

مینوں تیرا شباب لے بیٹھا۔ رنگ گورا گلاب لے بیٹھا۔

میں نے گھورا تو بولی خود ہی تو پوچھا ہے ماموں۔ اس کے بعد مجھے کیسٹ بدلنا پڑا۔

٭٭٭

 

 

 

 رونقاں لگ گئیاں

 

 

گرمیوں میں Painting کی فیکٹری لگ گئی” ریاض ڈورا” کینوس بنا رہا ہے۔ آواز آ رہی ہے۔

سا جن وہ دن کون تھے جب تم گڈیا ہم ڈور تھے

راہی صاحب، ہاجرہ آپا، ناہید جُٹ گئے تصویریں بنانے میں پورے سال کی روزی روٹی کا انتظام۔

بینا  11 بج گئے ہیں۔ راہی صاحب کے لئے کیا لائی ہو؟دیکھو بینا۔ نپکن میں لپٹا ہوا حلوہ۔ کہیں دیکھا ہے ؟ پانی ٹائم ہو گیا میرا۔ راہی جی۔ دن میں باقاعدگی سے سات گلاس پانی پیتے ہیں۔

اچھا بینا سنو جب ناہید سکول سے آئے تو تم کہنا ” راہی انکل ” کتنی خوبصورت Distortion کی ہے آپ نے ؟

یہی ہوا۔ بینا  نے کمر پر ہاتھ رکھ کے کہا۔

کیا زبر دستDistortion کی ہے۔

ناہید نے اُسے پیار سے دیکھا۔

ناہید کہتی، ایسے سادہ مہمان تو اللہ سب کو دے۔ دال چاول،

بغیر گھی کے سبزی، اس سے زیادہ سادہ خوراک نہیں ہو سکتی۔

ایسے نیک آرٹسٹ۔ روایتی آرٹسٹوں میں مس فٹ۔ اس دن نتھیا گلی سے ( وہ )آئے تھے جہاں زیب کو ڈھونڈتے ہوئے۔ ان کے گھر پر درخت گر گیا تھا دوسرے اُن کا سٹاک ختم ہو گیا تھا۔ لیکن جہاں زیب کہیں جا کر چھپ گیا۔

سلیم سے کہنے لگے یار بندو بست ہو سکتا ہے۔ ہو جاتا ہے ابھی پانی کا گلاس بھر لایا۔ یہاں تو یہی ہو سکتا ہے جی۔

جہاں زیب ہر مرض کی دوا ہے۔ سب کے لئے۔ ناہید قمیض سے کپڑا میچ کرانے کے لئے دے دیتی ہے۔ کوئی اس سے پشاور کے پائے منگوا رہا ہے۔ کوئی شربت امرود،

چار سدہ کا گڑ لے آنا یار۔ کھڈی کا بنا ہوا کھدر لئے بغیر نہ آنا۔

خربوزے تو وہ خود ہی لے آتا تھا دنیا میں جہاں زیب سے زیادہ خربوزے کی پہچان کسی کو نہیں۔

راہی اسے کنگ جہاں زیب کہتے ہیں۔ واقعی شان بے نیازی بادشاہوں والی۔ تبھی تو نزاکت بھابھی کہتی ہیں۔

کہ پشاور والوں کے ساتھ عید کرتا ہے پھر اگلے روز خود بھی اور ہم کو بھی روزہ رکھواتا ہے اور پھر حکومت کے ساتھ عید کرتا ہے۔ کیا شان ہے۔

نزاکت بھائی جہاں زیب کی شادی کی تصویر دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ حسین لوگ کیسے ہوتے ہیں۔

بھابھی کھری بات کرنے والی، سادگی کا پیکر، ان سے بات کر کے جی خوش ہو جاتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ تم اُردو دان ہمارا کیسے مذاق اُڑاتے ہو۔ جہاں زیب نے گھر آتے ہی ٹی وی Channel تبدیل کر دیا۔

تمہارا ٹن ٹن (ستار) لگا رہتا ہے ہر وقت۔ ہم نے تو کبھی تبدیل نہیں کیا۔

ناہید کی نمائش میں کسی سے میرا تعارف کرایا یہ ہمارا بھائی ہے اس کو بھی کھانے پینے کا شوق ہے روٹی کی عزت کرتا ہے۔

سلیم نے کہا بھابی نزاکت یہ بڑا گھر C&W کے ایس ڈی او کا ہے۔ بولیں ہمیں توC&W نے کچھ نہ دیا۔ وہی پرانی کار۔ دل نہ جلایا کریں۔ بھائی ایسی نوکری کس کام کی۔

لیکن سوچتی ہوں حلال کا نوالہ تو کھلایا جہاں زیب نے۔

اتنی محنت اور مشکلوں سے ایک گھر بنا یا ہے۔

بھا بی جی۔ خدا کا شکر ادا کر یں۔ ایسی ویسی کما ئی وا لے گھر میں

نماز بھی با طل ہو تی ہے۔

جی۔ پھر تو کم ہی گھروں میں نماز ہو تی ہو گی۔

منیر سعودی عرب سے آیا۔ نزاکت بھابھی نے ہاتھ ملایا منیر کو تعجب ہوا کچھ بولا نہیں دوپہر کو منیر نے پھر ہاتھ آگے کیا۔

شام کو سیر کرتی ہوئی نزاکت بھابھی کاکول روڈ آئیں منیر نے پھر ہاتھ آگے بڑھایا۔ بھابھی بولیں منیر دن میں ایک دفعہ ہاتھ ملاتے ہیں ہم لوگ۔

وہ بولا اس لئے ہاتھ آگے کیا ہے کہ آپ لوگ مہمان نواز ہیں برا نہ مان جائیں۔

تو یہ ہیں ہمارے جہاں زیب بھائی اور حکیماں بھابھی (نزاکت)

مسز زیدی75 برس کی ہیں۔ تقریباً چوکڑی بھرنے کے انداز میں چلتی مسز زیدی ہر محفل کی جان۔ پنجاب میں آرٹ سے متعلق ہر شخص ان کا شاگرد۔

ناہید زیدی شادی سے پہلے یہی نام تھا ناہید سلیم کا۔ سٹیلائٹ ٹاؤن گرلز کالج میں یہی تاثر کہ ناہید ان کی بیٹی ہے۔ اور مسز زیدی نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ انکار یا اقرار کبھی نہیں کیا اور یہی حال ناہید کا بھی تھا۔ اسی تعلق کو اتنی محبت اور شفقت سے نبھانے والی جمیلہ زیدی ہر فنکشن پر لاہور سے آتیں۔ اتنے وثوق سے بات کرتی ہیں کہ مزہ آ جائے۔

نانگا پربت کی بات ہو رہی تھی کہ راہی صاحب ابھی ابھی نانگا پربت Base کیمپ تک ہو کے آئے اور راستے کی تکالیف، مشکل کا حال بیان ہو رہا ہے۔

ہم نے تو بڑی آسانی سے نانگا پربت دیکھ لیا راہی ! تم نے اپنی Painting کی طرح اُس کو بھی مشکل بنا دیا ہے۔ ہم تو چار پانچ مرتبہ نانگا پربت دیکھ چکے ہیں اتنا خوبصورت ننگا پہاڑ کہاں ملے گا؟

سب لوگوں کے کان کھڑے ہو گئے۔

راہی صاحب نے پوچھا۔ کیسے دیکھ لیا ؟ فضول بات۔ جمیلہ باجی۔ ارے راہی جہاز پر سے سفر کرتے ہوئے دیکھا ہے صاف نظر آتا ہے۔ اگر سورج نکلا ہو تو۔

سب ہنسنے لگے سوائے راہی صاحب کے اور ہلکے سے بولے ” میں پاگل ہوں نا” اتنا تتنبا ” کر کے وہاں گیا۔

کچھ لفظ ہیں جو راہی صاحب کی ایجاد ہیں۔ تتنبا اُنہی میں سے ایک ہے۔

شملہ پہاڑی پر دوڑ لگ گئی اب چلے جا رہی ہیں ہماری باجی۔

مسرت ناہید کو بھی تقریباً گھسیٹ رہی ہیں۔ دیکھا مقابلہ میں کوئی نہیں آیا۔

باجی آپ کا سانس الٹ رہا ہے آپ اتنی تیزی سے چلی ہیں اکیلی وہ سب تو کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں۔

اچھا نقصان اپنا ہی کیا۔ ورزش سے محروم رہے سب۔

رات کو مسرت سے کہا” ٹانگوں میں درد ہو رہا ہے۔

شاہد سجاد آئے ہوئے ہیں۔ لکڑی کے قد آدم مجسمے بنا رہے ہیں۔ جنھیں دیکھ کر لونڈے لفنگے آدم حوا کا ملاپ عنوان دیتے ہیں۔ کچھ شرفاً ” رحل” کہتے ہیں جسے سن کر شاہد سجاد اپنی ” پونی ٹیل ” درست کرتے ہیں ارے مولانا نے یہاں بھی اپنے مطلب کی شے ڈھونڈ لی۔ اب میں اس طرح کا کام نہیں کروں گا۔ ساری محنت ضائع گئی۔

فاروق لغاری نے پچھلی نمائش میں کہا۔ یہ Primitive Art ہے شاہد کہاں چوکنے والے ہیں۔

Aren’t we living in the same age?

صدر صاحب کی آنکھیں گھوم گئیں۔

عباس شاہ جی ابھی تو یہاں تھے کہاں ہیں ؟ڈھونڈیا پڑ گئی۔

برف پر لوٹیاں لگا رہے ہیں اور نعرہ لگانے کی آواز آ رہی ہے سب بیکار ہے سب بیکار ہے۔

نمونیہ ہو جائے گا۔

مجھے کچھ نہیں ہوتا میں گلگت کا چیتا ہوں۔

شاہ جی جب کبھی آتے ہیں رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔

یار میں تو ٹینٹ لگا دوں  گا یہاں۔ مجھے کوئی نہ روکے، میں قید میں رہتا ہوں مجھے قیدی بنا دیا ہے۔ ان لوگوں نے !!

اپنے گھر کے سامنے Green Area کے سامنے کھڑے اور اپنی ساریPaintings جلانے کا پروگرام بنا رہے ہیں کہ میں پہنچ گیا۔ صبح صبح وقت پر، لے جاؤ سب لے جاؤ، سلیم۔ اور مال غنیمت ہاتھ آ گیا۔

شاہ جی ایک بے چین روح ہیں۔ واقعی مصوروں میں چابی والے شاہ جی مشہور ہیں۔ شاہ جی کہتے ہیں یہ چابی تالے والی ہی ہے۔ یہ دل اور روح کی چابی ہے۔ یہ "وکھری ٹائپ دی مصوری ہے "۔ کیا خوب کہتے ہیں ؟

مسز عباس ہمیشہ الگ سے آتی ہیں کہا یک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ ناہید کہتی ہے ہم تو ان کی ساڑھیاں دیکھتے رہتے۔ کیا شاندار شخصیت

مصوری چھوڑ دی کہ پڑھانے کے بعد استاد مصوری کے قابل نہیں رہتا ذہن آگے نکل جاتا ہے۔ برش ساتھ نہیں دیتا۔ بہت کم استاد ایسے ہیں جو بڑے مصور بھی ہیں۔ تان پھر جا کر راہی صاحب پر ٹوٹتی ہے۔

کچھ پتہ بھی ہے۔ یہ میرے ابا کی دعوت کیوں کرتے ہیں خالد سعید بٹ کا بیٹا بولا اسلئے کہ وہ بڑے آدمی ہیں۔

بینا کے لیے مشکل تھا اسے ہضم کرنا۔

ہمارے راہی انکل ان سے بھی بڑے ہیں۔ اتنے بڑے مصور۔ اور ہاجرہ آپا بھی ان سے کم نہیں۔ ہماری ناہید باجی ان کی شاگرد ہیں۔

اچھا ایک بات بتاؤ کیا تمہارے ابا سامنے بٹھا کر کسی کی تصویر بنا سکتے ہیں۔

” نہیں ”

اچھا تو کون بڑا ہوا؟ بینا نے غرور سے کہا۔

لیکن تمہارے ابو ہیں اچھے آدمی۔ مجھے بہت پیار سے بلایا ہے انھوں نے۔

خالد سعید بٹ پیارے انسان ہیں۔ محبت سے ملتے ہیں یہی ہمارے لئے کافی ہے۔

اپنی کتاب کے سلسلے میں سلیمہ ہاشمی آئیں۔ بڑے آدمی کی بڑی بیٹی ہیں اتنی محبت سے ملیں لگا جیسے برسوں سے جانتی ہیں میں نے اُن کے ابا کے ہاتھ کی لکھی نظم پیش کی تو آنکھیں نم ہو گئیں۔

نجم پیر زادہ بھی واٹر کلر کے لئے آتے لیکن اپنے اٹوٹ انگ ایک دوست کے ساتھ۔ وہ اردو سے اردو میں ترجمہ کرتے ہیں نجم کے لئے۔ نجم پیر زادہ لگتا ہے جیسے اپنے آپ سے کسی انہونی زبان میں کچھ کہہ رہا ہے۔ جب بھی آتے ہیں اچھا لگتا ہے۔ سادہ انسان اپنی تصویروں کی طرح۔

غلام رسول بھی ایک دفعہ خزاں Paint کرنے آ گئے۔ اور خوب اچھے دن گزرے۔

مجھ سے زیادہ سیرت سے دوستی ہو گئی اُن کی شخصیت کا یہ پہلو پہلی دفعہ عیاں ہوا۔ کہ بچوں سے انھیں بہت لگاؤ ہے۔

صبح اٹھ کر جب میں ان کے لئے چائے بناتا تو بولے یار صبح صبح میرے لئے کیوں تکلیف کرتے ہو اب انھیں کیا پتہ کہ مجھے صبح اٹھنے کی بیماری ہے۔

ان کے ساتھ کچھ دن گزرے جاتے ہوئے سیرت کو ایکPainting دے گئے جو ہمیشہ اسے عزیز رہی۔

جب تک حکومت کے زیر عتاب رہے دوستی رہی جبPNCA کے بڑے ہو گئے تو انھوں نے ملنا چھوڑ دیا اب تک معلوم نہیں ہو سکاکیوں ؟

بیگم نسیم رؤف اور رؤف صاحب پشاور سے آئے ہیں بمع اپنی گائے کے۔ جسے شام کو مچھر بھگانے والی دوائی ملی جاتی ہے۔

مصوری کے حوالے سے ناہید کی اچھی دوستی ہے ” چھیما آپاسے ” رؤف صاحب انتہائی نستعلیق انسان ہیں۔ ان کی محبت ہے کہ اپنے سگار میں سے آدھا مجھے پیش کرتے ہیں ورنہ چھیما آپا کہتی ہیں سگار کسی کو نہیں دیتے۔ غالب کے کہنے کو غلط ثابت کیا آم بالکل نہیں کھاتیں۔

جب ہم پشاور جاتے تو ایسی جگہ رہنے کو ملتی کہ 7 تارے ہوٹل کو مات ہو جائے گھر کی جوار، گھر کا دودھ گھر کی سبزی۔

” جان محمد۱ ” جن کی طرح حاضر۔ لطف آ جاتا۔

چھیما آپا ہنستی کم ہیں جب میں نے بہت لطیفے سنائے تو دل رکھنے کو مسکرادیں۔ ناہید نے کہا تمہاری فضول باتیں سن کر کوئی ہنسے نہیں تو اور کیا کرئے۔

میلہ لگتا ہے تو اجڑ بھی جلدی جاتا ہے۔ ایسی ہی بربادی ہمارے میلے کی بھی ہوئی۔ نظر لگ گئی کسی کی۔

جیسے ایک اک کر کے ستاروں کی طرح ٹوٹ گئے۔ کوئی کہاں چلا گیا کوئی کہاں۔ ناہید نے ٹھیک کہا صبح باہر والے درخت پر اُلو کا بولنا۔ جگہ اجڑنے کی پکی نشانی!

٭٭٭

 

 

 

 

 کچھ یادیں

 

اس مسخرے سے کیوں پوچھ رہی ہو؟ جہاں آپ کا جی چاہے اس کی شادی کر دیں۔ اس نے کبھی آپ کی بات نہ مانی ہو تو بتائیں۔ ابا کا یہ خیال بالکل درست تھا۔ اُن کا اندازہ ہمیشہ ٹھیک ہوتا ہے۔

میں نے صرف ایک بات سے اختلاف کیا۔ امی کی خواہش کے برعکس رام چندر جی کی طرح سہرا نہیں باندھا۔ اور یوں ہمارا زندگی کا ایک سنہری باب ختم ہوا اس وقت بالکل یہی سوچ رہا تھا آزادی کے 32 سالہ آج غلامی میں تبدیل ہوئے۔

خالہ چوہدرانی کو ملنے گئے۔ تو بولیں ” سرکار بڑے چنگے نے۔ میں تے سائیں جی دے ہتھ تے بیعت کر لئی اے۔ اے تے درویش نے ”

دنیا جہاں کی کوئی خبر نہیں اپنی دھن میں مگن، کوئی لمبی چوڑی خواہش نہیں۔ صرف چھوٹی چھوٹی بے ضرر چار خواہشوں کا اظہار فرمایا انہوں نے۔

مجھے اچھی انگریزی بولنی آ جائے۔

میرے بال لمبے ہو جائیں۔

کچھ ایسا ہو جائے کہ کم سے کم سٹروک میں تصویر مکمل ہو جایا  کرے یعنی اکنامی آف سٹروک۔ مجھے پتنگ اُڑانی آ جائے۔

پہلی فرمائش کی سلیم یہ چیونگم لے لوں اچھی والی ہے۔ میری ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے اپنی مرضی سے ایک گرم شال لے کر دی آ کر امی کو دے دی۔

نتھیا گلی پہنچ گئے۔ ایک سویا ہوا پہاڑی مقام۔ ، شنگریلاسے

چرچ تک سیر، دنیا جہاں کی باتیں۔ سکیچ بک ساتھ۔

ناہید ذرا سادہ لباس پہن لینا۔ راستے میں ایک دو نئے جوڑے ملے ایسے لگا جیسے ہم تو کافی پرانے ہیں کسی نے مُڑ کر ہماری طرف نہیں دیکھا۔

کتنا اچھا منظر ہے۔ جی کرتا ہے پینٹ کر لوں یہ فقرہ زندگی بھر اس کے ساتھ رہا۔

جب میں پنجابی بولتا تو کچھ پلے نہ پڑتا۔ پکے لکھنو والے۔ امی نے کہا ” نین” آئی تھی پیغام لے کر۔

معلوم ہے ” نین ” کیا ہے ؟

اور کیا آنکھوں کو کہتے ہیں۔

میں ذرا چاول بین لوں۔ ٹی وی کی آواز کس دو۔ میرے

ساتھ” ھرک” کے کیوں چل رہے تھے۔ لکھنؤ والوں سے پہلا تعارف تھا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!!

٭٭٭

 

 

 

 

 ہم تو چلے پردیس

 

امی کبھی کبھار ناراض بھی ہوتیں شاخ نبات پر۔

اللہ تجھے سمجھے۔ سارا دن اوپر والی منزل پر بیٹھی کیا باتیں کرتی رہتی ہو؟ ناہید سے۔ اپنے ساتھ کی لے آئی ہو تم ہی کیا کم تھیں۔

امی ہمیشہ دوسری منزل کے خلاف رہیں۔ کیونکہ وہاں چڑھنا اُن کے بس میں نہیں یہ اُسی کا رد عمل ہو شاید۔

ویسے بہو سے بہت پیار، ایسے پلک جھپکتے تصویر بنا دی اِن کی۔ کسی سے کہہ رہی ہیں اشارہ ابّا کیPortrait کی طرف ہے۔

میری بنائے تو جانوں۔

امی آپ کے لئے کینوس چھوٹا پڑ جائے گا۔ میں نے چپکے سے کہا۔ بے شرم تو اس قابل نہیں ہے لیکن خدا کا شکر ہے تجھے انسان بنا دیا ناہید نے۔ کیوں نہ ہو میری پسند ہے آخر۔

تھوڑی دیر پہلے دیا ہوا بیان امی بھول گئیں۔

ایک تصویر اتروا لو سر پر دوپٹہ لے کر اور ویزا کے لئے درخواست دے دو کیا لکھ دیا فارم میں "جعفری”ہوں۔ اب مل لیا ویزا۔

ناراض نہ ہوں جن کا نام لیا ہے، لکھا ہے،  وہی انتظام کر دیں گے۔

جن لوگوں نے جھوٹ لکھا وہ تو رہ گئے۔ اور ناہید کو فوراً ویزا مل گیا۔ پہنچ گئی سعودی عرب

ایزل منیر لے آیا اٹلی سے ناہید کے لئے۔

جو زندگی بھراس کے دل کے بہت قریب رہا۔ اور جاتے ہوئے جہاں زیب کو دینے کا وعدہ لیا مجھ سے۔

ایزل آج تک نہیں کھولا جہاں زیب نے روتے ہوئے کہا۔ یار ہمت نہیں پڑی۔

Painting شروع۔ 1984 سے 1989 تک۔ سعودی عرب میں عمرے، نمازیں زندگی کی حسین ڈگر۔ لیکن پہلی محبت Painting اور صرف Painting ہی تھی۔

تم لوگوں کے معیار حسن پر ناہید پوری نہیں اترتی

تم کیا جانو خوبصورتی کیا ہوتی ہے۔ ہاجرہ آپا نے کہا

اجنتا کے بُت دیکھے ہیں لمبی گردن، بڑی بڑی آنکھیں

میری Paintings میں جھلک ملے گی ناہید کی۔

کچھ زیادہ نہیں ہو گیا ہاجرہ آپا۔

بالکل بھی نہیں۔

راہی صاحب مسکرا کر بولے ہاجرہ ٹھیک کہہ رہی ہے سلیم۔

ناہید میریPaintings والی لڑکی بھی ہے۔ مضبوط، بہادر اور محنتی۔

ساری عمر انگریزی اور فرانسیسی لٹریچر پڑھانے والے۔ ابا محتاط الفاظ میں کہتے۔ کچھ کچھ فرانسیسی سٹائل لگتا ہے ناہید کا۔ فرنچ لگتی ہے۔

Puppty اپنی دوستوں کو بتاتی ہماری ممانی بڑی پاری ہیں۔ ان کی آنکھیں یوں ہیں وہ اپنی انگلیوں سے اوپرسے نیچے Draw کرتی بجائے لمبائی میں پھیلانے کے۔

یہ اس کا اپنا انداز تھا جس پر وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھی۔

پنا ناہید کی انگلیوں کو اپنے ہاتھ میں لیتی اور کہتی جادو والی انگلیاں اور اپنے ننھے ننھے ہونٹوں سے پیار کرتی۔

اچھا اب آپ یہاں بیٹھیں بالکل نہیں ہلنا جگہ سے آج بہت اچھی تصویر بنائی می می آپ نے۔ میں آپ کے لئے چائے لائی ہوں وہ سب کی محبت تھی اور وہ بھی سب کی دلجوئی کرنے میں پیچھے نہیں رہتی۔

"پنا "نے جو خطاب اسے دیا تھا وہ تو کمال کا تھا۔ ـ”می می ”

٭٭٭

 

 

 

واپسی

 

1989 میں پاکستان واپسی۔ ہر وقت پیسہ پیسہ مجھے تو تم دوکان دار لگنے لگے ہو۔ ایسی جگہ رہیں جہاں کوئی نہ ہو۔ ایبٹ آباد گھوم کر آتے ہیں۔

گھوم کر نہیں مستقل رہنا ہے مجھے۔ لو نمائش کرتے ہیں تمہاری تصاویر کی اسلام آباد میں۔

یا اللہ منصور راہی مل جائیں۔ تمہاری نمائش پر بلاؤں ان کو۔ مسرت ناہید کو ملنے گئے تو PNCA میں دیکھا راہی صاحب آ رہے ہیں سامنے سے زندگی میں دعا ایسے بھی قبول ہو تی ہے کیا؟ اگر ہو سکے تو نمائش میں آ جائیں ناہید کی۔

Drawing بہت اچھی ہے۔ کہاں سے سیکھے ہو؟

Naheed you know how to draw, Now you must know how to create.

میں سیکھنا چاہتی ہوں آپ سے۔

آ جاؤ میرے پاس۔ راہی صاحب کا یہ فقرہ ناہید کی زندگی کا رخ تبدیل کر گیا۔ راہی صاحب کبھی بھی ناہید کو براہ راست کام کے لئے نہیں کہتے۔

سلیم ذرا10-15 تصاویر بنوا لو نمائش کے لئے۔

ناہید کہتی سر میری شامت آ گئی۔ آپ کے نام سے Black Mail کرتے ہیں جہاں جہاں نمائش ہوتی راہی صاحب اپنی اس شاگرد کے کام کو فخر کے ساتھ پیش کرتے ناہید ممنون ہوتی اور بچھ بچھ جاتی۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں جب راہی صاحب اور ہاجرہ آپا آتے ہر دن عید ہوتا۔ آرٹسٹ لوگ آتے جاتے تھے۔ خوشی، محبت کا ایک بہت بڑا دائرہ کھنچ جاتا۔ ہمارے چاروں طرف۔

چہروں پر ایک روشنی سی پھیل جاتی۔

جی کرتا گرمیوں کی چھٹیاں ذرا طویل ہو جائیں بینا  کھانا پکاتی بہت اچھا والا۔ راہی صاحب سے مصوری کی باتیں سنتی اور ہم سب پر رعب جھاڑتی۔

میرے قہقہے فضا میں گھل مل جاتے۔

مارچ میں گلابی Magnolia کا درخت کھلتا تو ناہید کا چہرہ بھی کھل اٹھتا۔ لیکن غم یہی تھا کہ اتنے خوبصورت پھول کیسے کینوس پر منتقل ہوں۔

F.F کے کمانڈر آئے۔

ناہید، یہ Painting میس کے لئے دے دیں۔

ضرور۔ ا تنے خوبصورت درخت کی حفاظت کرنے کا شکریہ

اپنے گھر کے لئے ایک پودا ہمیں بھی دے دیں یہی قیمت ہے تصویر کی۔

جنرل مقبول ڈھونڈ رہے ہیں آپ کو۔ ان کے سیکرٹری نے کہا۔ کہتے ہیں NDCمیں پورٹریٹ لگیں گے تو ناہید کے بنے ہوئے ورنہ نہیں۔

5 قائد اعظم 5 علامہ اقبال بنا کے لے آؤ۔

جی مجھے تو زبانی یاد ہیں لیکن سب سے مشکل وہ ہے جب قائد نے اعلان کیا آزادی کا۔ فکر، غم خوشی سنجیدگی ایسا تاثر مشکل سے کینوس پر منتقل ہوتا ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

گل جی نے کہا ” کمال کر دیا” ناہید نے قائد کی تصویر شاندار بنا ئی ہے۔

جنرل صاحب بولے میری پورٹریٹ بھی بہت خوبصورت بنائی ہے ناہید نے۔ آپ وہ بھی دیکھئے گا۔

حالانکہ میری بیگم کو اعتراض ہے کہ پورٹریٹ بہت زیادہ خوبصورت بنا دی۔

٭٭٭

 

 

 

 

17 مارچ

 

آج کا دن کچھ دھندلا دھندلا سا لگ رہا ہے۔ دھند ہے کیا؟ غبار سا جما ہوا ہے فضا میں۔ یہ سفر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ میں تھوڑی دیرسو جاؤں جب نزدیک پہنچو تو جگا دینا۔ دل بہت برا ہوا۔ آج جب ابی منہ پھیرے کھڑے تھے مجھ سے آنکھ نہیں ملا رہے تھے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کی آنکھوں میں دکھ بھرا ہوا تھا۔ مجھے بتاؤ کہ ایک دوسرے کے لئے پیار محبت اللہ نے دل میں کیوں ڈالا ہے ؟ امتحان ہے بہت بڑا ایک دوسرے کو چاہنے والوں کا۔

اور تم نے یہ کیا چہرہ لٹکا رکھا ہے۔ میں صاف صاف کہہ رہی ہوں مجھے رونی صورت پسند نہیں۔ مجھ سے کوئی اظہار محبت نہ کرے، مجھے نہیں چاہیے ایسی محبت جو گلے کا پھندہ بن جائے۔ دم نکال دے۔ مجھے خوش رہنے دو جو دن باقی ہیں۔ میرے لئے مشکل نہ پیدا کرو۔

مسز زیدی کو بتا دیا تھا کہ ہم آج آ رہے ہیں ؟

وہ تو پاکستان سے باہر گئی ہوئی ہیں۔

کہاں رہیں گے پھر ؟

شوکت خانم ہوٹل میں۔ 5 تارا ہے۔ اس دفعہ لگتا ہے کہیں اور رہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

آج میرے لئے وہیل چئیر لے لینا ذرا فلمی سین بھی کر لیں گے۔

ڈاکٹر صاحب ایک بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی کہ کچھ عرصے پہلے Liver پر لائن نہیں تھی ایک دم یہ کہاں سے آ گئی ؟اور میری فائل مجھ سے چھپا کر رکھی آپ نے کمال کر دیا۔

ڈاکٹر شکیب نے ناہید کو غور سے دیکھا۔ ناہید بی بی ہم اگر مریض سے ہمدردی کرنا شروع کر دیں تو ہماری زندگی بہت مختصر رہ جائے۔ لیکن نہ جانے کیوں دل کرتا ہے۔ آپ سے باتیں کریں۔ مختلف امراض کے ڈاکٹرز میں سے ہم سب سے بد نصیب ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ کسی ایک مریض کی زندگی کے ساتھ ہماری ساکھ بھی ختم ہوتی رہتی ہے۔ لیکن میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ ہمارے ہاتھ میں اگر زندگی ہو تو ہم اپنے مریض کو اتنی زندگی دے دیں جتنا وہ جینا چاہتا ہے۔ مگر یہ اختیار تو صرف اللہ کے پاس ہے۔ جتنی لکھ دی اس سے اِدھر سے اُدھر نہیں ہو سکتی۔ نظام قدرت بگڑ جائے ورنہ۔ آپ کو جتنا عرصہ اس دنیا کا حصہ رہنا ہے۔ آپ رہیں گی۔ جتنی خوشیاں آپ نے باٹنی ہیں باٹتی رہیں۔ کل میں بچوں کے وارڈ کے قریب سے گزرا تھا۔ آپ وہاں موجود تھیں۔ کتنے مزے سے بچے آپ سے تصویر بنانا سیکھ رہے تھے۔ سب آپ کے ارد گرد دائرے میں کھڑے تھے۔ محبت کا ہالہ آپ کے چاروں طرف تھا چہروں پر چمک تھی۔ کیا یہ کم ہے کہ یہاں بھی آپ سے محبت کرنے والے، پیار کرنے والوں کی کمی نہیں۔

ڈاکٹر صاحب، مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ بڑے پیارے بچے ہیں۔ اور کتنی جلدی سیکھ لیتے ہیں۔

سارے ہسپتال میں اپنی فائل اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں۔ زندگی کا پروانہ ہے یا پتہ نہیں کیا؟

میں ایسے ہی مصورہ بنے پھرتی ہوں۔ میں نے زندگی میں ایسا خوبصورت زرد رنگ نہیں دیکھا۔ جو ان کے چہروں پر ہوتا ہے۔

میں نے زرد رنگ کو اپنی بہت سی تصویروں میں استعمال کیا ہے یہ میرا پسندیدہ رنگ ہے۔ زندگی کا رنگ ہے۔ کھلتا ہوا۔ جب سرسوں کی پیلی رُت آتی تھی تو میں ان پھولوں کی، اوراملتاس کے پھولوں کی Painting بناتی تھی۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں یہ زندگی کا رنگ ہے۔

وہ زندگی جو آپ اُن کو دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ موت کا رنگ ہر گز نہیں۔ بس ایک ہی دعا ہے خدا سے میری، بچوں کے لئے دنیا میں ان کا قیام ذرا آسان ہو جائے تو بہتر ہے۔ اللہ میاں آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔ آخری خواہش سمجھ لیں اسے اپنی صحت کی مجھے فکر نہیں ہے۔ میں تو زند گی کی با زی ہار چکی ہوں۔ یہاں جگہ جگہ ایسے منظر آ تے ہیں کہ دل با ہر آ جاتا ہے۔

حتیٰ کہ کسی کو زند گی کی اذیت سے نجات ملنے پر بھی عزیز رو تے بھی نہیں۔ کل دوا ئی لینے گئی۔

چھوٹا سا چاند سا بچہ وئیل چیئر پر بیٹھا تھا۔ اُس کی امی نے ہینڈل سنبھا لا ہوا تھا۔ ایک بات ہی کی گر دان کر رہا تھا۔

امّی گھر چلیں۔ امّی گھر چلیں۔ جی گھبرا رہا ہے۔ امّی کب گھر چلیں گی۔

اب آپ کی مرضی دعا قبول کر یں نہ کر یں۔

آپ سے شکوہ بھی تو نہیں ہو سکتا۔

٭٭٭

 

 

 

18مارچ

 

 

آج سب لوگ یاد آ رہے ہیں۔ ابھی انور بھائی کا فون آیا تھا۔ میں نے کہہ دیا ” انور بھائی میں ٹھیک ہوں بالکل، پوچھ رہے تھے، میں ملنے آنا چاہتا ہوں ؟ میں انشا اللہ ایبٹ آباد آؤں گی جلدی، تو ملاقات ہو گی لیکن آؤنگی وہیل چئیر پر۔ شکیلہ آنٹی کو بھی ملے ہوئے عرصہ ہو گیا ما شا اللہ کتنی اچھی اور خوبصورت شخصیت ہے۔ دانش بھائی کہاں ہیں آجکل؟ فیضان تو بڑا ہو گیا ہو گا فرح کو بلا لیتے اگر لاہور میں ہو۔

فرنچ سفارت خانے میں میری Painting کی نمائش کے دوران جب تمام تصاویر Sale ہو گئیں

سب نے پوچھا یہ کیسے ہوا؟

شکیلہ آنٹی کی وجہ سے۔ وہ میری Painting کے پاس کھڑی تھیں جب بھی کوئی سفیر آتے تو کتنی معصومیت سے کہتیں

Wonderful Painting I like to have one in my drawing room

ایسے پیارے لوگ کہاں ملتے ہیں ؟

تم ڈاکٹر شکیب سے باتیں کرنے گئے تھے۔ کیا انھوں نے بلایا تھا؟ کیا کہہ رہے تھے۔

یہی کہہ رہے تھے کہ آنے والے تین دن بہت اہم ہیں۔

کیا زندگی اور موت میں یہی فاصلہ رہ گیا ہے ؟ کوئی ایسا طریقہ نہیں سلیم کہ زندگی میں سے تھوڑا سا حصہ اور مل جائے ؟ بہت سے کام کرنے ہیں۔ بہت سیPainting بنانی ہیں۔ آرٹ سکول کو آگے بڑھانا ہے۔ اپنا خواب پورا کرنا ہے۔

جی کرتا ہے سب مل کر شنگریلا جائیں جہاں زیب اور بھابھی مل کر۔ وہی گانا گائیں۔

"دھرتی سے دور گورے بادلوں کے پار آ جا”

پیڈل بوٹ میں سیر کرنی ہے۔ ست پارا جھیل جانا ہے۔ تمہارے ساتھ، اس دن تم نہیں جا سکے تھے ہاجرہ آپا اور رابعہ آپا کے ساتھ گپ شپ کے لئے رک گئے تھے۔ اور بعد میں کتنا رنج ہوا تھا تمہیں کہ نہ جا سکے۔

تمہاری غیر موجودگی میں یہ لوگ اور بھی میرا خیال رکھتے تھے۔ راہی سروہاں بیٹھ کر بنگال کے جھرنے، ندی، نالے یاد کرتے رہے۔ اور ہاجرہ آپا کو بھی۔ اتنے اچھے پیارے لوگوں کو چھوڑ کر جانے کو جی نہیں چاہتا۔ ایسی اچھی عید کیا کبھی منائی کسی نے ؟

کچورا جھیل کشتی سے پار کی اور نماز عید کے لئے گئے تھے۔

سب واپس آ کر سب نے عیدی دی، میں سب سے چھوٹی ہوں بڑوں میں سے، لہذا سب سے زیادہ عیدی مجھے ملی بچوں کے تو خیر مزے آ گئے۔

اور پھر آس پاس کے گھروں میں عید ملنے گئے ہاجرہ آپا، رابعہ آپا نزاکت بھابھی، نرگس بھابی، امبر، جویریہ بظاہر زندگی کی سہولتوں سے محروم لوگ کتنے قناعت پسند ہیں اور صاف ستھرے چمکتے گھر، آنکھوں میں عجیب سی پیاری سی روشنی، امید اپنی مٹی پر فخر کر تے ہوئے، نیک ایمان دار، مہمان نواز لوگ، مزہ آ گیا۔ ایسی سیر زندگی میں نصیب نہیں ہو گی، انگور کی بیلوں اور چھوٹے چھوٹے رستوں سے گزرتے بڑی کچورا پہنچے۔ سبز پانی، سفید ریت، تیز دھوپ، ایسے منظر کو نہ تو کیمرہ قید کر سکتا ہے۔ اور مصور تو بہت دور کی بات ہے۔

صرف انسانی دماغ کا ہی کمال ہے۔ لو پہنچ گئی میں وہاں۔

جہاں زیب فلم بنا رہا ہے۔ تم بولے ناہید ذرا نزاکت بھابھی کے نزدیک رہو یہ اُن کی تصویر بہت زیادہ بنا رہا ہے۔

حالانکہ سب سے کم بیچاری وہی ہوتی تھی فلم میں۔ اور اس دن تو سب نے بڑے پوز مارے۔ جہاں زیب نے کہا۔ فلم کی کیسٹ تو ریسٹ ہاؤس میں بھول آیا ہوں۔ اور سب نے مل

کر جہاں زیب کو مکے مارے۔

تم نے کشتی میں بیٹھتے ہی شور مچانا شروع کر دیا اتنے کھلے پانی میں اگر یہ ڈوب گئی تو اِسے کون بچائے گاَ پانی گو بہت ہی پرسکون تھا لیکن صاف ہونے کی وجہ سے گہرائی کا اندازہ تمہیں ہو گیا تھا۔ تم ہو بھی سدا کے ڈرپوک۔ تمہیں یہ فکر لگی ہوئی تھی کہ یہاں پہنچ تو گئے واپس کیسے جائیں گے۔ کیونکہ واپسی پر دریا کے طرف والی سیٹ تمہاری ہو گی۔ اللہ اللہ کر کے کنارہ آیا، راہی صاحب بھاگے بھاگے آئے کشتی کو سنبھالا۔ میں نے اُس دن کے بعد فیصلہ کیا تمہارے ساتھ کشتی میں نہیں بیٹھوں گی۔ لیکن اب جی کر رہا ہے کہ وہی منظر دوہرایا جائے کسی طرح۔ سب لوگوں نے پشتو دھنوں پر ناچ کیا نزاکت بھابھی کی طرف دیکھ دیکھ کر۔ اور تم نے جویریہ کو گود میں لے کر اچھل کود کی جسے تم ڈانس کہتے ہو۔ بچے اپنے کھیل میں لگے رہے ان کے ساتھ لوڈو کوئی نہیں کھیلتا تھا سوائے میرے۔ جویریہ نے صاف صاف کہہ دیا آنٹی اگر ہمیں پتہ ہوتا آپ اتنی بے ایمانی کرتی ہیں تو ہم کبھی آپ کے ساتھ نہ کھیلتے۔

ہاں یاد آیا دوسری مرتبہ بھی تو گئے تھے جب PNCA نے کچھ آرٹسٹ سکر دو بھیجے تھے رابعہ آپا، مسرت ناہید، حمیرا، ناہید علی، مسرت مرزا، جہاں زیب، غلام مصطفیٰ، نجم کاظمی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جہاں زیب، رابعہ آپا، اور میں تو پرانے سفر کو یاد کرتے تو سب ہی ہمارا منہ تکا کرتے۔

یہ سفر بھی کچھ کم خوشگوار نہ تھا۔ مصطفیٰ نے اتنا ہنسایا کہ ہنستے ہنستے جان نکل جائے حمیرا نے پہلے پہلے تو مقابلہ کیا مگر یہ کہہ کر میدان چھوڑ گئی کون کہتا ہے کہ آپ لوگ مصور ہیں، آپ تو بھانڈ ہیں بھانڈ۔ نجم کاظمی جتنا بڑا مصور ہے۔ اُتنا ہی پیارا انسان بھی ہے۔ نجم کاظمی نے اپنے رشتہ داروں سے ملوایا اور وعدہ کیا۔ ناہید باجی اگلے سال آپ کو پیاری سی بچی گود لے کر دوں گا سکر دو سے۔ مسرت کی مدد بھی کی میں نے، انتظام کے سلسلے میں کہ سب خوش رہیں۔

بیچاری نے ایک دفعہ کہا ناہید تم بیمار ہو میں خود کر لوں گی یہ انتظام۔ کون بیمار ہے۔ کس نے کہا میں بیمار ہوں تم لوگوں کے ساتھ آئی ہوں۔ تصویریں بنا رہی ہوں۔ تھکاوٹ کی شکایت کبھی کی ہے ؟Shopping کی ہے تمہارے ساتھ۔ مسرت کا منہ اتر گیا۔

ناہید جی میرا مطلب یہ نہیں تھا۔

Shopping سے کون تھکتا ہے میں نے لقمہ دیا۔

مسرت مرزا میری رُوم میٹ تھیں رات کو ہم گپ شپ کرتے تھے وہ میری زندگی کے بارے میں پوچھتیں۔ ان کو فون کر کے پوچھ لو وہ منت ماننے کا کہہ رہی تھیں، محرم میں۔ مان لی کیا؟

ناہید علی بھی دھواں اُڑاتی رہیں اور مصوری کے میدان کے علاوہ کچھ اور میدانوں میں کامیابی کے گُر بتاتی رہیں۔

سب لوگ میرا بھی مذاق بناتے کہ سلیم کیسے پل پل کی خبر رکھتا ہے تو تم کہاں ہو اور کیا کر رہی ہو؟ تم فون جو اتنے کرتے تھے۔ سب سے ضروری بات، بھول نہ جاؤں کہیں، میرا ایزل جہاں زیب کو دے دینا لینڈ سکیپ بنانے میں آسانی رہے گی اُسے۔ اور تم کیا کرو گی؟

میں نے سیلف ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیا ہے۔

واپسی پر تم نے کیسا اچھا انتظام کیا تھا کھانے کا اور گرم گرم گلابی چائے۔ سب کا جی خوش ہو گیا میں تو خیر پہلے ہی مطمئن تھی کہ سب انتظام ٹھیک ٹھاک ہو گا۔ راہی سر ٹھیک کہتے ہیں سلیم اگر تم عورت ہوتے تو میں تم سے شادی کر لیتا۔

تم تو شرمندہ کر رہی ہو ناہید۔

میں سوچتی ہوں کہ تم کتنا خیال رکھنے والے انسان ہو۔

میں تو سبھی کا خیال رکھتا ہوں یہ میری فطرت ہے۔

جی نہیں چاہتا دنیا چھوڑ کر جانے کو۔ ظاہر ہے تم بھی دنیا کا حصہ ہو اور میری دنیا کا دائرہ بہت محدود ہے۔

اللہ جانے کیا ہونے والا ہے۔ اچھا بتاؤ اگر میں وہیل چئیر پر آ گئی تو میرا ایسا ہی خیال رکھو گے۔ مکمل ڈیوٹی لگ جاتی ہے۔

لگتا ہے ٹانگوں میں جان نہیں۔ پاؤں ورم کر گئے ہیں۔

کیا الٹی سیدھی باتیں کر رہی ہو۔ کوئی اور بات کرو۔

تم ان لمحوں کو یاد کرو، کون روکتا ہے، مگر ایسے مت کہو۔ تم کہیں نہیں جا رہیں۔

مجھے گھر لے چلو۔ مجھے گھر یاد آ رہا ہے۔ کھلی فضا میں جانا ہے مجھے۔ اچھا میں ڈاکٹر سے پوچھ لیتا ہوں۔ مگر وہاں علاج کون کرئے گا؟

تسلیاں دینے کے ماہر ہو تم۔ کبھی بھی نہیں پوچھو گے۔

لیکن ایک بات بتاؤں مجھے درد تکلیف تو بالکل نہیں ہے بس نیند آتی رہتی ہے تو گھر جا کر سو جاؤں گی۔

دو تین دن اور دے دو مجھے۔ میں ڈاکٹر سے اجازت لے لوں گا۔ دو تین دن بہت زیادہ نہیں ہیں ؟ چلو دل تو خوش کر دیتے ہو۔ اگر اجازت دو تو تھوڑی دیر کے لئے کریم آباد گھوم لو، ہنزہ ہو آؤں۔ کتنا خوبصورت شہر ہے۔

مزہ تو تب آیا تھا کہ تم سگریٹ پینے کو ترس گئے تھے وہاں کوئی دکان نہ تھی سگریٹ کی، کہ کریم آغا خان نے اپنے لوگوں کو سگریٹ پینے اور بیچنے سے منع کیا تھا، اُس دن بہت اچھے لگے میں ویسے بھی اُن کو پسند کرتی ہوں۔ خوبصورت انسان ہیں، شہزادہ ہو تو ایسا ہو۔

اور جب ڈانٹ پڑی ایک مقامی شخص سے جو بہت دیر تک تمہاری بات سنتا رہا، اور حیرانی سے تمہاری بات سنتا رہا۔ جب تم پہاڑ کی طرف منہ کر کے مسلسل”راکا پوشی” کو ناگا پربت کہے جا رہے تھے صاحب یہ ناگا پربت نہیں ہے اب تمہیں مذاق سوجھا۔ جب پچھلی دفعہ آئے تھے تو نانگا پربت یہی تھا۔

صاحب یہ۔ راکا پوشی ہے

پتہ نہیں کہاں سے آ جاتے ہیں لوگ، پہاڑ تک کا نام بدل دیا۔ صاحب آپ یہاں سے ہٹ جائیں مجھے غصہ آ رہا ہے اور دکھ بھی ہو رہا ہے۔

اچھا گلمت کہاں ہے ؟

مجھے نہیں پتہ صاحب۔ میں نہیں جانتا۔ شکریہ۔ خدا حافظ

تم نرس سے کل جو باتیں کر رہے تھے وہ میں سن رہی تھی۔

تمہیں پتہ ہے میرے کان کتنے باریک ہیں۔ تم نے جو کچھ کہا تھا بتا دوں۔

وہ کہہ رہی تھی آہستہ آہستہ یہ سب کچھ سن رہی ہیں۔ نیند میں ہیں مگر دماغ جاگ رہا ہے۔

مجھے کچھ نہیں سننا ہے۔ نہ میں نے کچھ کہا ہے۔ اپنے پاس سے پتہ نہیں کیا کیا کہتی رہتی ہو۔ اور سوچتی رہتی ہو۔

اُس نے بڑی بڑی آنکھیں گھوما کر بند کر لیں۔

مطلب یہ کہ میں تمہیں دیکھنا نہیں چاہتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

19 مارچ

 

 

کھڑکی کے اس پار بہت خوبصورت باغ ہے۔ پھولوں کا کوئی رنگ ایسا نہیں جو وہاں نہ ہو۔ پانی کے جھرنے ہیں۔ میں اکیلی نہیں پھر بھی لگتا ہے وہاں کوئی نہیں، مجھے تو ڈر سا لگ رہا ہے۔ تمہیں کہا بھی ہے۔ کہ میرے نزدیک رہا کرو پتہ نہیں کہاں چلے جاتے ہو۔

یہاں تو آس پاس کوئی ایسا باغ نہیں اور ہسپتال میں پھولوں کا لانا منع ہے۔ شاید پھر نیند آ گئی ہے جو سب کچھ دیکھا ہے۔

ایسے مت کہو۔ ڈاکٹر نے کہا ہے تھوڑی سفید خون کی کمی ہے۔ سفید Cell کم ہو گئے ہیں۔

خون سفید ہونے کا ہی سنا تھا سفید خون دیکھ بھی لیا۔

مصورہ ہو کے بھی علم نہیں کہ سفید سرخ مل کر تھوڑا ہلکا سرخ بنتا ہے۔ سفید نہیں ہو جاتا۔ لہذا فکر نہ کرو۔

تمہیں پتہ ہے مجھے نفرت ہے خون لینے سے اور دیکھو میرے ہاتھوں اور بازوؤں پر خون لے لے کر کیسے نشان ڈال دئیے ہیں ان لوگوں نے۔

تمہاری رگ ملنے میں بھی تو وقت لگتا ہے اور یہ تمہاری صحت کے لئے ہے سب کچھ۔ تمہارے پاؤں ورم کر گئے ہیں۔

کس کس کا خون لیا ہے ؟

ظفر کا توA+ نکلا تمہارے والا گروپ۔ میراB+ ہے اور وہ فوجی جوان جو شجاع بھائی نے بھیجا تھا اُس کا بھی B+ ہے۔

تم خون دو گے، سلیم ایسا نہ کرنا۔

فکر مند نہ ہو میرا خون براہ راست تمہیں نہیں ملے گا اس کے بدلے میں دیں گے۔

کون کون بیٹھا ہے۔ نعیم تم کب آئے ؟ لگتا ہے صبح سے سو رہی ہوں۔

ہاں میں ہوں ناہید باجی۔ میں نے سب کو کہہ دیا تھا کہ باجی جب جاگیں گی تو سب سے پہلے مجھے پکاریں گی۔ اور وہی ہوا مجھے یقین تھا۔ نعیم بچوں کی طرح خوش ہو رہا تھا۔

میں شرمندہ ہوں تم لوگ صبح سے آئے ہوئے ہو اور میں ہوں کہ سوئے جا رہی ہوں۔ ارے فرح غزالہ بھی ہیں، مصطفیٰ بھائی آپ نے کیوں زحمت کی ؟غزالہ رو کیوں رو رہی ہو۔ نعیم کھڑکی سے باہر کیوں دیکھ رہے ہو ؟

نماز تو پڑھ لوں۔ مجھے سہارا دے کر اٹھاؤ، ہمت جواب دے گئی ہے۔ اتنے دکھ درد، تکلیف کے بعد بھی تمہارا ایمان مضبوط ہے۔ اور اللہ پر یقین ہے۔

یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ تو بتاؤ۔ خبر دار جو میرے پیارے اللہ میاں کو کچھ کہا۔ مجھے بچپن ہی سے سب سے اچھے اللہ میاں ہی لگتے ہیں۔ مجھے کبھی اُن سے ڈر نہیں لگا۔ اتنا زیادہ اور بے لوث پیار کرنے والا کوئی اور ہو گا کیا؟کیا دن میں کچھ دیر ہم اُس کے حضور جھُک نہیں سکتے۔ گو وہ شکریہ کے طالب نہیں ہیں کچھ نہیں مانگتے تم سے۔ دنیا میں کوئی آپ کا چھوٹا سا کام کر دے آپ سو مرتبہ اُس کا شکریہ ادا کرتے ہو اللہ کے سامنے جھُکتے ہوئے شرم آتی ہے کیا؟ناشکرے ہو تم لوگ۔

سلیم مجھے تم سے ایک بات کہنی ہے۔

یا اللہ خیر !

تم ایک اچھے انسان ہو۔ تم نے زندگی میں میرا خیال بھی رکھا۔ اور کوشش کی کہ مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچے لیکن میری تم سے یہ درخواست ہے کہ تم نماز پڑھا کرو۔ آگے تمہاری مرضی۔

بیماری جسم کی خیرات ہے۔ یہ درد مجھے کبھی کبھی محسوس تک نہیں ہوتا ایک مزہ سا ہے اس تکلیف میں۔ اور سنا ہے کہ دنیا میں اگر جسمانی تکلیف اٹھا لیں تو وہاں سکون اور آرام ہی آرام ملتا ہے۔ دیکھا اللہ کا نام لیا تو کتنی ہمت آ گئی مجھ میں۔ کوئی شکوہ گلہ نہیں اللہ میاں سے، کہ کہوں میں ہی کیوں ؟

دنیا میں اور کتنے لوگ ہیں جو مجھ سے بھی زیادہ مشکل اور درد سے گزر رہے ہیں۔ میرے پاس، میرے ارد گرد محبت کرنے والے کتنے بندے موجود ہیں۔

اماں ہیں، ہر وقت دعا کرنے والی۔ ابی ہیں بے انتہا چاہنے والے۔ دیکھا نہیں اس دن ہسپتال آتے ہوئے کس طرح رخصت کیا تھا مجھے۔ گو آنکھ نہیں ملائی مجھ سے لیکن جب میں نے کہا ابی آپ نے میرے سر پر ہاتھ کیوں نہیں پھیرا۔ تو کیسی بے بسی تھی ان کی آنکھوں میں۔

میں نے کہا تھا میں جلدی آؤں گی۔

ہاں بیٹا ٹھیک ٹھاک ہو کر آنا۔ شجاع بھائی آ گئے۔ کچھ حوصلہ ہو گیا اور تمہیں بھی آرام مل جائے گا۔ کب سے نہیں سوئے تم۔ نیند کہاں اب ان آنکھوں میں اچھا زیادہ فلمی ڈائیلاگ بولنے کی ضرورت نہیں صبح صوفے پر بیٹھے بیٹھے کون سو رہا تھا؟ ناہید نے مسکراتے ہوئے کہا۔ کچھ کھلا تو دو۔ انتہائی بد مزہ کھانا ہوتا ہے۔ مزے کی چیز کھلاؤ جیسے آپریشن سے پہلے کھلایا کرتے تھے ڈاکٹر سے چھپ کے۔ شجاع بھائی بولے میں کھلاتا ہوں اچھا سا ساگودانہ اپنے بچے کو۔ مجھے آٹے کا حلوہ کھانا ہے جیسے آپ بچپن میں کھلایا کرتے تھے۔ پکا کر۔ اچھا کل سہی ویسے یہاں کوئی انتظام نہیں ایسا اور اتنی مشکل فرمائش نہ کرو نا!

تم لوگ گھر کیوں نہیں جاتے۔ بشریٰ اپنے بچے کس کے پاس

چھوڑ کر آئی ہو ؟

میں ٹھیک ہوں بالکل۔ بشریٰ سنی ان سنی کر کے بولی

یونیورسٹی کے دن یاد ہیں ناہید باجی آپ کس طرح ہمارا امتحان کا کام مکمل کرواتی تھیں۔ ساری ساری رات جاگ کر Painting اور Posters بناتی تھیں۔ سارا سال کام جو نہیں کرتے تھے ہم۔

آپ ہمارا آئیڈٖیل تھیں ہر وقت Drawing اورPainting, کتنی محنت کرتی تھیں۔ اور نماز کے لئے پھر بھی وقت نکال لیتی تھیں۔ اور ہمیں بھی تلقین کرتی تھیں نماز کی اور برائیوں سے بچنے کی، دوپٹہ سلیقے سے اوڑھنے کی۔ یاد ہے جب کسی نے کہا تھا کہ ناہید باجی سے میری دوستی کرا دو اور ہم نے آپ سے پوچھے بنا کہا تھا کہ جوتی کا سائز9 نمبر ہے۔

لیکن آپ نے کس اچھے طریقے سے کہا تھا کہ میں یہاں پڑھنے آئی ہوں دوستیاں کرنے نہیں۔

آپ سب کی باجی تھیں۔ آپ کے لائق گروپ کو کبھی مسز احمد سے ڈانٹ نہیں پڑی تھی۔ ہم اکثر سوچتے، کتنی جلدی آپ تصویر مکمل کرتی ہیں۔ یہاں تو برش رگڑ رگڑ کر بُرا حال ہو جاتا ہے۔ اور تصویر پھر بھی ٹھیک نہیں بنتی۔

Drawing کتنی اچھی تھی آپ کی۔ جبکہ مسز احمد دوسری لڑکیوں کی Painting کو ٹھڈے مارتی تھیں۔ محرم کی مجالس کے لئے یا نیاز کے لئے یونیورسٹی کی بس کا انتظام ہوتا۔ آپ چپکے سے کوئی ایسی بات کرتیں کہ ہماری ہنسی رکنے کا نام نہ لیتی۔

اور خود خاموش، ڈانٹ ہمیں پڑتی کیونکہ ” مولانا بھائی جان” یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ ناہید بھی شرارت کر سکتی ہے۔

ہاں یہ تو ہے مزے کی بات سکول میں شرارت میں کرتی تھی اور ڈانٹ میری دوست ناہیدہ کو پڑتی تھی وہ ہمیشہ کہتی میڈم میں نے کچھ نہیں کیا۔ اچھا کچھ اور سناؤ مزے کی بات یونیورسٹی کے زمانے کی۔ اتنی ہنسی آئے کہ پیٹ میں بل پڑ جائے ہنستے ہنستے آنسو نکل آئیں۔ بشریٰ تمہیں رونے کو نہیں کہا ہنسنے کو کہا ہے۔

اچھا ناہید باجی سن لیں میرا بھی جی کر رہا ہے سب کچھ یاد آ رہا ہے۔ کبھی کبھی بڑے گھٹیا مذاق بھی کرتے تھے ہم لوگ۔

Printing والے سر کیا نام تھا ؟ یاد نہیں آ رہا جب کافی کوشش کے باوجود کچھ سکھانہیں رہے تھے ہمیں۔ لیکن سعدیہ کو باقاعدگی سے سکھاتے تھے۔ تو آپ نے کتنے آرام اور غصے سے کہہ دیا تھا۔ سر کیا سعدیہ آپ کی بیٹی ہے ؟

جو آپ اسے سکھا رہے ہیں۔ سر نے کہا تھا” لا حول ولا قوۃ” اور اگلے دن سب کو بتا رہے تھے Etchingکے بارے میں  اچھا بشریٰ مسز احمد کا واقعہ میں خود سناتی ہوں یہ تو تمہیں یاد ہے نا کہ اُن کا کتنا رعب تھا۔ Department کا ایک پتّا بھی ان کی مرضی کے بغیر اپنی جگہ سے نہیں ہلتا تھا۔ مسز احمد کی چھڑی یاد ہے جب رکشہ والے نے زیادہ پیسے مانگ لئے تھے تو کہنے لگیں ذرا اندر آؤ میرے پاس کھُلے نہیں ہیں۔

جونہی وہ برآمدے میں آیا تو چھڑی اس کے گلے میں ڈال کر جو ٹانگ ماری، پہلے تو اُسے سمجھ نہ آئی کہ ہو کیا رہا ہے۔ پھر جو تھپڑ لگایا۔ بے ایمان مسلمان کا بچہ بنتا ہے۔ زیادہ پیسے مانگ رہا ہے۔

لمبی چوڑی انگریز عورت۔ اور اردو بول رہی ہے۔ "اُلو کا پٹھا” تو وہ اتنی تیزی سے بھاگا کہ سامنے لوہے کے گیٹ سے جا ٹکرایا

اچھا ناہید باجی آپ کا سانس پھول رہا ہے دوسرا واقعہ میں سناتی ہوں۔

مسز احمد تھیں بہت خدا ترس اور ہر وقت اللہ کا لاکٹ گلے میں  رہتا تھا اور وقتاً فوقتاً اسے چومتی رہتی تھیں۔

ماڈلز کو کہتی اپنا تو خیال کر لیا کرو اور Heater لگاؤ، سردی کا موسم ہے سارے کپڑے اتار کر تم ماڈلنگ کرتے ہو۔ چلو اتارو کپڑے اور بیٹھ جاؤ۔

جی میڈم جی۔

میری طرف کیا دیکھ رہے ہو جلدی کرو۔

جی میڈم جی

میڈم کا بچہ، چھڑی لہرا کر جو آگے بڑھیں محمد حسین بکری کے بچے کی طرح منمنا کر بولا۔ تھا بھی غریب ہکلا۔

میڈم جی آج۔ کا۔ چھا۔ نہیں پہنامسز احمد کا پارا چڑھ چکا تھا یہ یورپ ہے کیا ؟الو کا پٹھا اور پھر ہنسنا شروع کر دیا بے شرم نہ ہو تو یہ ان کی پیار کی گالی تھی اور کل گدا لے کر آؤ بازار سے۔ ور نہ نہ آنا، بیوقوف کہیں کا۔

کتنے لاؤں ؟

ایک ہی کافی ہے اور جلدی آنا یہ نہ ہو کہ دوپہر کو چلے آ رہے ہو۔

زیادہ لمبا تو نہیں ہو گیا قصہ ناہید باجی۔

بہت مزہ آ رہا ہے سناتی رہو، پرانی یادیں تازہ کر دیں تم نے بشریٰ۔ اچھا میں بھی ایک واقعہ سناؤں گی عاشی کا، جو میری ماڈل تھی۔ آخری تصاویر کی جو میں نے بنائی ہیں بقول راہی سر "لونڈے لفنگوں ” کے لئے۔ پہلے تم سنا لو،

اگلی صبح گیٹ پر شور اٹھا تو دیکھا کہ محمد حسین اور ایک گدھے میں کھینچا تانی ہو رہی ہے سارا Department تماشہ دیکھ رہا ہے میڈم نے منگوایا ہے بڑی مشکل سے لایا ہوں۔

براستہ مال روڈ۔ 20 روپے کی گھاس کھا گیا ہے۔ اتنے میں مسز احمد بھی آ گئیں کیا شور ہو رہا ہے ؟

جی گدھا آ گیا بڑی مشکل سے ملا ہے کرائے پر۔

My God میں نے کب منگوایا تھا۔ کیا منگوایا تھا ؟

"گدا” کہا تھا لانے کو گدھا لے آیا۔

یہاں پہلے ہی کیا کمی ہے ان کی ؟

ناہید سو گئی کیا؟ بشریٰ نے ہاتھ سہلاتے ہوئے پوچھا۔

نہیں جاگ رہی ہوں آج نیند نہیں آ رہی مجھے سونے سے ڈر لگ رہا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر مجھے نیند آ گئی تو شاید میری آنکھ کبھی نہ کھل سکے۔

٭٭٭

 

 

 

 

صبح کا تارا

 

 

سلیم مجھے یہاں سے لے چلو میرا دم گھٹ رہا ہے۔ اگر نہ لے کر گئے تو میں اکیلے ہی چلی جاؤں گی پھر نہ کہنا۔

تمہیں یاد ہے کہ جب سکر دو، گلگت جانے کا پروگرام بن رہا تھا تو تم نے کتنا ڈرایا تھا سڑک خطرناک ہے۔ چلو سوات ہو آتے ہیں۔ تو میں نے کہا تھا کہ میں ضرور جاؤں گی اور پھر کس طرح خوشی خوشی ساتھ ہو لئے تھے اور ایسے منظر پھر کبھی نصیب ہوئے کیا؟

ملنے آئے ہیں تمہیں۔ راہی صاحب، ہاجرہ آپا اور مسرت ناہید ملنے یا الوداع کہنے۔ مجھے الوداع نہیں کہنا کسی کو میں آنکھیں بند کر رہی ہوں فی الحال۔ یہاں موت کی سی خاموشی کیوں ہے۔ مجھے یہاں سے لے چلو، وہیل چیئر لے آؤ۔ مجھے باہر لے چلو، پانی کے پاس، زرد پھولوں کے پاس، ٹھنڈی ہوا میں، مجھے گھر جانا ہے میں گھر جاؤنگی۔ مجھے گھر یاد آ رہا ہے۔

کھڑکی سے ” میرا جانی "کی پہاڑی کو دیکھنا ہے۔

نہ ختم ہونے والی سڑک دیکھنی ہے ننگے پاؤں چلنا ہے مجھے۔ بادلوں کو چھونا ہے مجھے۔ تصویر بناؤں گی ان سب کی میرے رنگ برش ایزل لاؤ۔

اچھا کیا آ گئے۔ ضیاء نہیں آیا۔ جہاں زیب کو بھی بلا لیا ہوتا تو اچھا تھا۔ میں جانے کیا کہہ رہی ہوں نیند میں، مجھے آپ سے سلیم کی شکایت کرنی ہے۔ راہی سر سلیم مجھے کمرے سے باہر نہیں لے کر جا رہا ہے یہ تو آپ کی ہر بات مانتا ہے ہمیشہ آج بھی اسے کہیں نا۔

ہاجرہ آپا آپ ہی کہہ دیں راہی سر نے تو سُنی ان سُنی کر دی۔

میری بچی میں تمہیں لے کر جاؤں گی تھوڑی روشنی ہو جائے۔ روشنی ہونے تک دیر نہ ہو جائے۔ ہاجرہ آپا مجھے صبح کا تارا آخری بار دیکھنے دیں۔

سلیم اپنا ہاتھ ذرا مجھے دو، تمہارے ہاتھ شل اور ٹھنڈے کیوں ہیں۔ میری طرف دیکھو۔ ڈر رہے ہو کیا ؟ نظریں ملاؤ مجھ سے، صبح صبح پھول مل جائیں گے کیا۔ گلاب کے ؟بہت سے منگوا لو۔ اُسی جگہ سے جہاں سے ہمیشہ میرے لئے گلاب اورTulips لیتے ہو۔

مجھے سرخ گلابوں سے ڈھانپ دینا اچھی طرح۔

٭٭٭

 

 

 

خاتمہ

 

 

” احساسِ غم رہے تو اچھا ہے ”

اتنے بڑے ہو گئے۔ روتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ کہتے ہو میں سمجھ دار ہوں۔ کیا خاک سمجھ دار ہو۔ بڑے رویا نہیں کرتے۔ کیوں اپنی ہنسی اُڑواتے ہو ؟

رونے میں کیسی شرم میں تو کہتا ہوں انسان کو جب سمجھ آتی ہے وہ تبھی روتا ہے اور رونے کا مزہ آتا ہے۔ سکون ملتا ہے۔ ویسے بھی آنکھوں کا میل صاف ہو جاتا ہے۔

پہلے میرا بھی یہی خیال تھا کہ رونا صرف بچوں کا حق ہے بھاں بھاں کر کے۔

لیکن یہاں تو اُلٹ ہے۔ میں بچپن میں کبھی نہیں رویا۔ اس وقت واقعی شرم آتی تھی مجھ کو۔ اور آج تو یقین جانو کوئی ایسی بات نہیں تھی۔ ایسے ہی چنار کی دو رویہ قطار میں سے گزرا۔ کوئی پرندہ نظر تک نہیں آیا۔ کہاں گئے ؟کوچ کر گئے کیا؟موسم کیسا بدلا؟پرندے بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ Beethoven کی چڑیا کہاں گئی۔ گلہری بھی نظر نہیں آئی یا اللہ کیا ہو گیا؟ چنار کے پتوں کا رنگ کچھ عجیب کچا سا پیلا ہے۔ رنگوں کو کیا ہوا۔ کوئی تو بتلائے۔ رنگ ایسے ہی بدلتے ہیں بھائی جان۔

بدلتے ہوں گے میں نے کتنی دعائیں مانگی تھیں کچھ نہ بدلے۔

یہ منظر نہ بدلے یہ رستہ گڈ مڈ نہ ہو۔ ٹھنڈی دھوپ کھلی رہے، خوشبو والی ہوا چلتی رہے۔ ایک بھی نہ سنی گئی ہوا کیا ؟ سب کچھ پل جھپکنے سے پہلے اُلٹ پلٹ ہو گیا۔ کیا کہوں نا انصافی ہوئی میرے ساتھ۔ میرا خیال ہے بالکل مناسب لفظ ہے پھر بھی تھوڑی سی امید تھی، پتوں کو ہٹایا، جھانک کر دیکھا، دوسری طرف نیلا آسمان تھا۔ شکر ہے کہ پتوں پر ٹھہرے بارش کے قطرے میرے چہرے پر گرے۔ پھر بے دھیانی میں زمین پر گرے ہوئے زرد پھولوں کو ٹھوکر جو لگی۔ تو جی بھر آیا۔ اب تم یہ نا سمجھنا کہ میں خیالی یا رومانوی دنیا میں گھوم پھر رہا ہوں اور ایسے ہی باتیں کر رہا ہوں اور دنیا سے فرار حاصل کرنے کی کوشش میں ہوں بس یقین کرو کچھ اچھا نہیں لگتا۔

اور اگر سمجھو بھی تو تمہاری مرضی اچھا یوں ہی کر لوں گا آئندہ تمہارے سامنے کبھی نہیں روؤں گا ایسا کبھی نہیں ہو گا اگر تمہاری خوشی ہے تو۔

میری خوشی کیوں ہوتی۔

اچھا ٹھیک، ترس کھا رہی ہو مجھ پر۔ ترس بالکل نہیں آ رہا تم پر میں صرف یہ کہتی ہوں کہ زندگی سے مایوس نہ ہو جاؤ جس بے بسی سے تم روتے ہو۔ خوف آتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔

تم یونیورسٹی کے زمانے میں ” وائلن ” بجایا کرتے تھے۔ تو ” ابا” نے منع کر دیا تھا یہ ساز بجانا چھوڑ دو اداسی سے دوستی ہو جائے گی اداسی کبھی کبھار اچھی لگتی ہے۔ لیکن مایوسی گناہ ہے۔ اس سے امید ختم ہو جاتی ہے۔ احساس غم رہے تو اچھا ہے اور یہ غم تو زندگی کے ساتھ رہے گا ہر صورت اُن کی یادیں ہماری زندگی کا حصہ رہیں گی۔ کیسے پلک جھپکتے میں تصویر بناتی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ابا ایک روز پاس بیٹھے انہیں کام کرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ ابا نے اپنے مخصوص انداز بالوں میں انگلیاں پھرتے ہوئے کہا بھئی کمال کی مصورہ ہے۔ ویسے یہ زیادہ دیر جینے والے انداز نہیں ہیں اور پھر اٹھ کے چلے گئے۔

20 مارچ کی رات، جیسے کسی نے مجھے جھنجھوڑ کر جگایا ہے۔ ناہید کی خوشبو کہیں آس پاس تھی۔ دل دہل سا گیا کہ کس طرح ناہید کو مٹی کے حوالے کریں گے۔ وہ تمام منظر جو پہلے خاموش رہتے تھے اب خوب شور مچاتے ہیں، باتیں کرتے ہیں۔ یہ ناہید بھابھی کے تحفے ہیں۔ یہ پینٹنگ انہوں نے بنا کر دی تھی۔ انگلستان میں اپنے گھر میں مرکزی جگہ پر سجانا اور یہ ضرور بتانا کہ یہ میری بھابی نے بنائی ہے میرے لئے خاص طور پر۔ لیکن عجیب تصویر تھی، مستقبل میں جھانکتی ہوئی۔ دو چہرے ایک دوسرے سے منہّ موڑے ہوئے۔ ایک دودھ میں دھُلا ہوا چہرہ۔ دوسرا موت کی زردی کا اداس رنگ لیے۔ یہ ان کی آخری تصویر تھی۔ دونوں چہرے ان کا پر تو تھے صرف 18سال کا فاصلہ ان کے درمیان تھا۔

کیا انہیں معلوم تھا ؟ کہ وہ لمبے سفر جا رہی ہیں۔ کسی آنے والے کے ہاتھ انھوں نے یہ تصویر مجھے بھیجی تھی۔ اور اس کے پیچھے لکھا "ماضی، حال "کبھی جی کرے اور میں یاد آؤں تو اسے دیکھ لیا کرنا۔ راگ پیلو کے رنگ لیے انھوں نے شاخِ کی کتاب کا سر ورق بنایا۔ کونج کا ڈار سے جدائی کا منظر۔

بیماری، دکھ، غم، صبر کا مارا ہوا جسم فنا ہو جائے شاید، لیکن کوئی نہ کوئی شے اُن کی یاد دلاتی رہے گی۔

تم ٹھیک رو رہے ہو۔ ان چیزوں کو دیکھ کے جو تمہاری زندگی کا حصہ رہ چکی ہیں۔ اور جب ایک جُز الگ ہو گیا تو کیا روئے بھی نہ کوئی ؟

کیسے الگ ہوا کیوں ہوا۔ یہ مجھے خبر نہیں۔ کسی کو بھی نہیں۔

لیکن یاد رکھنا اچھی شے کبھی فنا نہیں ہوتی اس کا احساس ہر وقت ساتھ رہتا ہے۔ اور خدا کا شکر ہے۔ کہ تم میں محسوس کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

میں حوصلہ اس لئے دے رہی تھی کہ خوشی کے جن لمحوں میں تمہیں اُڑتے دیکھا تھا کبھی۔ وہ لمحے کبھی واپس آئیں گے کیا؟

بادلوں کے ساتھ تیرنا نصیب ہو گا کیا؟ برف کے گالے تمہارے چہرے پر گریں گے کبھی؟ مجھے یقین ہے یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔ لیکن ایک بندہ نہیں ہو گا صرف۔ اور یہ میں تمہیں بتا دوں کہ دنیا کو ایک بندے کے جانے سے کچھ فرق نہیں پڑا۔

تمہارے لئے جس شے کی اہمیت ہے وہ شاید دوسروں کے لئے بے کار ہو۔ لہذا اپنا غم دوسروں پر لادنے کی کوشش کبھی نہ کرنا، ورنہ لوگ تمہارے غم سے بور ہو جائیں گے۔ اور تم سے دُور بھاگنا شروع کر دیں گے۔ تم تنہا رہ جاؤ گے۔

اس تنہائی سے بچے رہو تو اچھا ہے۔ لوگ بڑی آسانی سے کہتے ہیں صبر کرو۔ لیکن ہے بالکل درست!

صبر ایک ایسی نعمت خداوندی ہے کہ جس کا جتنا شکر ادا کرو کم ہے ورنہ انسان احسِاس غم سے مر جائے۔

وقت کے ساتھ غم کی شدت میں کمی آ جاتی ہے۔ اور زندگی یونہی چلتی رہتی ہے۔ کچھ عرصے بعد تمہیں لگے گا کہ آنسو فضول ہیں۔

اور تم خود کہو گے بے کار آنسو مجھے نہیں معلوم ان آنسوؤں کا کیا مطلب ہے۔

اُنہیں تم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ وہ صرف ظاہری طور پر غائب ہے۔ لیکن اللہ نے اور بہت چیزیں بھی تخلیق کی ہیں جو ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ اور اُن کے بدلے میں کسی کے روپ میں کہیں نہ کہیں مل جائیں گئیں۔ اُنھیں دیکھ کر تم ناہید بھابھی کو یاد کر سکتے ہو۔ سلیم بھائی

اور شیریں نے جو رونا شروع کیا

میں نے کہا سارا فلسفہ ٹائیں ٹائیں فش۔

٭٭٭

 

 

ناہید

 

1990کے ما رچ میں جب ایبٹ آباد آیا تو غالباً 6ماہ کے بعد اکتوبر کا مہینہ ہو گا کہ میرے پاس ایک ٹیلیفون آیا۔ پتہ یہ چلا کہ کو ئی ناہید سلیم ہیں جو راہی صاحب کی Studentہیں۔ میں بھی راہی صاحب کا سٹوڈ نٹ تھا۔ راہی صاحب نے ان سے کہا کہ وہ ایبٹ آباد میں اگر آ رہی ہیں تو مجھ سے ملاقات کر یں۔ تو یوں ناہید اور سلیم سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔

بس کیا بتائیں ناہید اتنی شگفتہ مزاج اور ملنسار تھی کہ بہت جلد ہم اتنے گھُل مل گئے جیسے بہت پرا نے شناسا ہوں۔ ناہید نے یہاں آ رٹ سکول کی ابتدا کی۔ کیونکہ میں خود بھی Painter تھا لیکن میں نے آٹھ دس سال سے Painting کو بالکل ہا تھ نہیں لگایا تھا۔ اسی بہانے سے میں نے بھی ناہید کے سا تھ دو بارہ کام شروع کیا اور ہم لوگ ایبٹ آباد کے گر دو نواح میں جا تے رہے لینڈ سکیپ کر تے تھے اور پھر ناہید کے آرٹ سکول میں بھی میں نے حصّہ لیا بطورِ استاد پڑھاتا رہا۔ توہم لو گوں کی ملاقاتیں اتنی گہری ہو گئیں اور ایسا ہو گیا جیسے گھر کے فرد ہوں۔ میری Painting دوبارہ شروع ہوئی۔ اس کی ذمہ داری یا Credit وہ میرا خیال ہے ناہید کو جاتا ہے۔ اتنے نزدیک کا تعلق ہو کسی سے اور وہ نہ رہے اچانک۔ تو اس بارے میں بات کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔

لیکن حقیقت ہے کہ میں تو ناہید کو اب بھی اپنے گرد ایبٹ آباد میں محسوس کرتا  ہوں۔ جب بھی میں دوبارہ برش اُٹھا تا ہوں لینڈ سکیپ بنا نے کے لیے یا کچھ Paintکر نے کے لیے بے ساختہ یاد آ جاتی ہے۔ اور یہ یاد اب ہماری زند گی کا حصّہ بن گئی ہے جو ہمیشہ ساتھ رہے گی۔

 

انور حسین جعفری

 

 

 

 

میری می می

 

 

خدا کا شکر ہے کہ آپ اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں میرے سامنے تھیں۔ گزرے ہوئے لمحوں کا ایک خزانہ ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ آپ نے ہمیں زندگی میں کتنی خوشیاں، مسکراہٹیں دیں۔ لیکن ہم لوگ کتنے بے بس تھے۔ جب "نانا ابا” چپکے چپکے کہتے کوئی طریقہ ہے کہ "تمہاری می می ـ”بچ سکے، سب کہتے خدا کی مرضی کیا معلوم کیا ہے۔ 10مارچ کو جب میں نے آپ کے چہرے کو دیکھا، کتنا خوبصورت لمحہ تھا۔ چہرے پر روشنی سی تھی، اطمینان و سکون تھا، ہاں سچ کہہ رہی ہوں، ایک روشنی تھی میرے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو، مجھے پتہ چل گیا تھا کیا ہونے والا ہے۔ اس کے بعد میں نے آپ کی طرف نہیں دیکھا اور اسی لمحے کو اب تک آنکھوں میں بسا رکھا ہے۔ پرانی تصویریں میرے سامنے رکھی ہیں۔ زندگی کے خوشگوار ترین لمحے تو آپ ہی کے ساتھ گزرے ہیں۔ میں 6 ماہ کی تھی جب آپ مجھے ہوا میں اچھالتی تھیں اور میں کھلکھلا کر ہنستی تھی۔

پھر میں نے آپ کا نام اپنی تولتی زبان لے لینا شروع کیا، "می می” ممانی کہنا مشکل تھا ذرا۔ اب سبھی آپ کو اس نام سے پکارنے لگے۔ آپ مجھے پیارے سے "پنا” کہتی تھیں۔ ہائے کتنے اچھے تھے وہ دان۔ اچھا یہ تو بتائیں۔ آپ کو اتنی اچھی کہانیاں کیسے یاد تھیں۔ مجھے تو ایک کہانی بھی نہیں آتی۔

وقت گزرتا گیا۔ Abbottabad نے آپ کو ایسا اپنے جادو میں لیا کہ کبھی کبھار ملاقات ہوتی تھی۔ ہاں ٹی وی پر آپ کو دیکھتے، آرٹ پر بات کرتے ہوئے تو سب کو بتاتے کہ یہ میری "می می ” ہیں بڑی بڑی آنکھوں والی۔ اخبارات میں آپ پر مضمون پڑھتے۔ آپ کی Painting کی نمائش کے بارے میں سنتے، یاد ہے جب چند سال پہلے جب آپ کراچی آئیں تو ہم نے مسلسل دو راتیں باتیں کرنے میں گزار دی تھیں۔ میں امریکہ جا رہی تھی، ماموں ملنے آنے تھے اداس، اداس، چپ، چپ، ہے نا عجیب بات ماموں اور اداسی ؟ سوچا آپ کو خط لکھ دوں۔ یہ خط شاید اتنا اچھا نہ ہو لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کو اچھا لگے کا کیونکہ اسے آپ کی "پنا” نے لکھا ہے۔ یاد رہے لوڈ و کھیلتے ہوئے میں ہمیشہ جیت جاتی تھی۔ آپ کو سانپ، سیڑھی کا کھیل بہت پسند تھا آپ کہتی تھیں یہ زندگی کے کھیل سے قریب تر ہے۔ لیکن آخر 20 مارچ کو آپ نے مجھے ہرا دیا۔ ہم سب کو ہرا دیا۔

رمنا عباس

٭٭٭

 

 

 

ناہید کے ساتھ اور اس کے بغیر

 

وہ ایک ساتھ جو ہمارا تھا

اس ساتھ کی بات بتاؤں کیسے

وہ رشتہ تھا صرف دوستی کا مگر

اس ایک رشتے میں ہزاروں رشتے

بندھے بڑھتے چلے جاتے تھے

ہم ساتھ ہنستے ساتھ روتے تھے

بہنوں سا ساتھ تھا

ماں کا سا پیار تھا

دوستی اور قرب عجیب سا تھا

اس نے اس ایک رشتے میں

مجھے ہزار رشتوں کا تھا پیار دیا

اس کے جانے کے بعد

بہت دنوں تک

میں اداس نہ تھی

میں خاموش بھی نہ تھی

مگر یوں لگتا تھا

ایک سناٹے کی چادر نے

مجھے لپیٹ رکھا

اور میرا اندر

اس کی مٹھاس کے بنا

بہت پھیکا ہے۔

 

نزہت حسن

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید