FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

آسان قواعد اردو

 

 

محمد سلطان ذوق الندوی

مدیر جامعۃ دار المعارف الاسلامیۃ چاٹگام، بنگلہ دیش

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل


کنڈل فائل

 

 

 

 

اردو زبان کی تاریخ

 

اُردو زبان دوسری زبانوں کی بہ نسبت عمر میں چھوٹی ہے، لیکن بہت ہی معروف و مقبول ہے، بارھویں صدی عیسوی میں پیدا ہوئی اور تیرھویں صدی میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی، ترکی زبان میں "اُردو” لشکر کو کہتے ہیں، بعضوں نے فوجی کیمپ کے معنیٰ بتائے ہیں، شاؔہ جہان کے زمانے میں دہلی کے ایک بازار کو "اُردوئے معلّیٰ” کا خطاب دیا گیا تھا، اُردو اصل میں لشکری بولی تھی۔

جب آریہ قوم ہندوستان آئی تو اس زمانے میں آریہ ہندوؤں کی زبان "سنسکرت” تھی، اور رفتہ رفتہ سنْسْکرت بگڑ کر کچھ کی کچھ ہو گئی، اس غلط سلط بولی کا نام "پراکِرْت” رکھا گیا، ڈیڑھ ہزار سال تک لوگ پراکرت بولتے رہے، اس کے بعد ایک راجہ نے سنسکرت کو پھر زندہ کیا، کیونکہ سنسکرت کو دیوتاؤں کی زبان سمجھا جاتا تھا، لیکن درباری لوگ ہی سنسکرت بولنے لگے اور عوام پراکرت ہی بولتے رہے، آخر بدلتے بدلتے پراکرت "بِرُج بھاشا” میں تبدیل ہو گئی۔

اسی اثناء میں مسلمان ہندوستان میں قدم جمانے لگے، پہلے پٹھانوں اور پھر مغلوں کی حکومت قائم ہوئی، ان لوگوں کی زبان فارسی تھی، جس میں بہت سے عربی اور ترکی الفاظ ملے ہوئے تھے، چونکہ مغلوں کے لشکروں میں ہندو و مسلمان سب ہی نوکر تھے، اسلئے یہ زبان چھاؤنیوں میں (فوجی کیمیوں میں ) پھیل گئی، اس طرح اس بولی کا نام اردو پڑ گیا۔

٭٭٭

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

بحثِ اسم

 

تعریف اسم: اسم وہ کلمہ ہے جو بغیر ملائے دوسرے لفظ کے اپنے معنیٰ سمجھائے اور اس کی ہیئت سے کوئی زمانہ مفہوم نہ ہو۔

 

تقسیم اسم: اسم کی تین قسمیں ہیں:

(1) جامد، (2) مصدر، (3) مشتق۔

 

اسلئے کہ اسم تین حال سے خالی نہیں، یا تو اس سے کوئی لفظ بنا ہو، یا خود کسی اور لفظ سے بنا ہو، یا نہ اس سے کوئی لفظ بنا، اور نہ خود کسی اور لفظ سے بنا ہے، پس اول کو مصدر اور دوسرے کو مشتق اور تیسرے کو جامد کہتے ہیں۔

 

جامد کا بیان

 

تعریف جامد: جامد وہ اسم ہے جس سے کوئی لفظ مشتق نہ ہو، اور وہ خود بھی کسی لفظ سے مشتق نہ ہو، جیسے میز، کرسی، قلم، کاغذ وغیرہ۔

 

تقسیم جامد: جامد کی دو قسمیں ہیں:

(1) نکرہ، (2) معرفہ۔

 

(1) نکرہ:وہ اسم ہے کہ غیر معین شخص یا چیز پر دلالت کرے، اور کسی جنس کے تمام افراد پر دلالت کرے، جیسے مرد، بکری، درخت وغیرہ۔

(2)معرفہ: وہ اسم ہے کہ کسی معین شخص یا چیز پر دلالت کرے اور کسے جنس کے ایک فرد پر بولا جاوے۔ جیسے: عبد اللہ (ایک شخص کا نام)، اور دہلی (ایک شیر کا نام)

 

تقسیم معرفہ

معرفہ کی چھ قسمیں ہیں:

1۔ علم

2۔ ضمیر

3۔ اسم اشارہ

4۔ اسم موصول

5۔ ان چاروں کی طرف مضاف

6۔ منادیٰ

 

1۔ (معرفہ کی پہلی قسم) علم

وہ ہے کہ کسی خاص شخص یا چیز کا نام ہو جیسے خالدؔ (ایک آدنی کا نام)، گنگاؔ (ایک ندی کا نام)

2، (معرفہ کی دوسری قسم) ضمیر:

وہ ہے کہ بجائے اسم متکلم یا مخاطب یا غائب کے مستعمل ہو۔

ضمائر کل چھ ہیں:

1۔ ضمیر فاعلی: جیسے میں آیا

2۔ ضمیر مفعولی: جیسے تجھ کو دیا

3۔ ضمیر اضافی: جیسے اس کا قلم

4۔ ضمیر مجروری: جیسے اس پر

3۔ (معرفہ کی تیسری قسم) اسم اشارہ:

وہ ہے جس سے کسی چیز کی طرف اشارہ کیا جاوے اور جس کی طرف اشارہ کیا جائے، اس کو مشارٌ الیہ کہتے ہیں۔

اردو میں اشارہ کے دو ہی لفظ ہیں

1۔ یہ : قریب کے لیے

اور

2۔ وہ: بعید کے لیے

واحد و جمع، مذکر و مؤنث، جاندار و بے جان سب کے لیے یکساں بولتے ہیں، جیسے یہ مرد، یہ عورت، یہ یہ درخت، یہ لوگ، وہ آدمی وہ عورتیں وغیرہ

جمع قریب کیلئے "یے” اور بعید کیلئے "وے” کا استعمال آجکل متروک ہے، البتہ بعض حالت میں یؔہ اور وؔہ، اِؔس، اُؔس، اور اِؔن اُؔن سے بدل جاتے ہیں۔

 

فائدہ: ضمیر غائب اور اشارۂ بعید لفظاً یکساں ہیں مگر معنیٰ میں فرق ہے، کیونکہ ضمیر میں اشارۂ ذہنی ہے کہ ایسے اسم کی طرف اشارہ ہوتا ہے جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اور اسم اشارہ میں اشارۂ حسّی ہے کہ کسی شے موجود کی طرف انگلی وغیرہ سے اشارہ کیا جاتا ہے۔

 

4۔ (معرفہ کی چوتھی قسم) اسم موصول:

وہ لفظ ہے جو اپنے ما بعد سے مل کر جملہ کا جزو بنتا ہے، خواہ مبتدا ہو یا خبر، یا فاعل یا مفعول، اور جس سے مل کر جملہ کا جزو بن سکتا ہے اس کو صلؔہ کہتے ہیں، صلہ کوئی جملۂ خبریہ ہوتا ہے۔

اسم موصول کیلئے جؔو اور جوؔنسا دو لفظ ہیں، جیسے جو شخص میرے پاس آیا عالم ہے، جونسا طالب علم کامیاب ہو گا قابل انعام ہو گا، پہلی مثال میں "جؔو” اسم موصول ہے اور "شخص میرے پاس آیا” صلہ ہے، موصول صلہ سے مل کر مبتدا اور”عالم ہے”خبر ہے۔

فائدہ:”لفظ جؔو بعض حالت میں جؔس اور جؔن یا جنؔہوں سے بدل جاتا ہے ، اس کی تفصیل آگے نقشہ میں معلوم ہو گی۔

 

5۔ (معرفہ کی پانچویں قسم) مضاف: جس نکرہ کو عَلَم یا ضمیر یا اسم اشارہ یا اسم موصول کی طرف اضافت کیا جائے، اس میں ایک قسم کی خصوصیت آ جاتی ہے، اسلئے وہ بھی معرفہ بن جاتا ہے، اسی نکرہ کو مضاف اور جس کی طرف اضافت کیا جائے اس کو مضاف الیہ کہتے ہیں، مثلاً احمد کا لڑکا، تیرا بھائی، اس کا باپ، جس کا گھر۔

پس لڑؔکا، بھاؔئی، باؔپ، گھؔر یہ سب نکرۂ مضاف ہیں، اور احؔمد، تؔو، وؔہ، جؔو مضاف الیہ ہیں۔”احؔمد” علم ہے، تؔو ضمیر ہے، وؔہ اسم اشارہ اور جؔو اسم موصول ہے۔

 

6۔ (معرفہ کی چھٹی قسم) منادیٰ: جس اسم کو حرف ندا کے ساتھ پکارا جائے اس کو منادیٰ کہتے ہیں، خواہ وہ اسم معرفہ ہو یا نکرہ، حرف ندا آنے کے بعد نکرہ میں بھی تخصیص آ جاتی ہے، کیونکہ نداء یعنی بُلانا بھی ایک قسم کا اشارہ ہے، منادئ معرفہ جیسے اَی زید، منادئ نکرہ جیسے اے لڑکے، او جانے والے۔

نداء کے کیلئے اُردو میں "اے” استعمال کرتے ہیں، اور کبھی ہندی حرفِ نِدا اؔو اور اَرؔے بھی لاتے ہیں، لیکن ارؔے حقارت کیلئے ہے جیسے ارے ظالم، ارے موچی۔

 

ضمائر وغیرہ میں تبدیلی کا بیان

 

بعض ضمیر اسم اشارہ اور اسم موصول کے بعد چند حرفوں کے آنے سے ان میں تبدیلی ہوتی ہے، ان حرفوں کو حروفِ معانی کہتے ہیں اور حروف ربط بھی کہتے ہیں۔ حروف معانی یا حروفِ ربط نو ہیں: (1)نؔے، (2) کؔو، (3) کؔا، (4) کؔے، (5) کؔی، (6)میؔں، (7)سؔے، (8) پؔر، (9) تؔک۔ اصل میں نؔے علامت فاعلی اور کؔو علامت مفعولی اور کؔا، کؔے، کؔی علامت اضافی اور میؔں علامت ظرفی اور سؔے، پؔر، تؔک علامت مجروری ہیں۔

حروف ربط کی وجہ سے ضمائر وغیرہ ہیں حسب ذیل تبدیلی ہوتی ہے

 

 

اصل لفظ

ضمائر

حروف ربط کے ساتھ

نے، کو، کا، کے، کی، میں، سے، پر، تک

میں میں نے، مجھ کو، مجھے، میرا، میرے، میری، مجھ میں، مجھ سے، مجھ پر، مجھ تک
ہم ہم نے، ہم کو، ہمیں، ہمارا، ہمارے، ہماری، ہم میں، ہم سے، …
تو تو نے، تجھ کو، تجھے، تیرا، تیرے، تیری، تجھ میں تجھ سے، …
تم تم نے، تم کو، تمہیں، تمہارا، تمہارے، تمہاری، تم میں تم سے، …
وہ اس نے، اس کو، اسے، اس کا، اس کے، اس کی، اس میں، اس سے، …
وہ انہوں نے ان کو، انہوں کو، ان کا، ان کے، ان کی، ان میں، انہوں میں ان سے، …

انہوں سے، …

 

اصل لفظ

اسمائے اشارہ

حروف ربط کے ساتھ

نے، کو، کا، کے، کی، میں، سے، پر، تک

یہ اِس نے، اِس کو، اِس کا، …اِس میں، اِس سے، …
یہ انہوں نے، اِن کو، اِنہیں، اِن کا، …اِن میں، اِن سے، …
وہ اُس نے، اُس کو، اُسے، اُس کا، …اُس میں، اُس سے، …
وہ انہوں نے، اُن کو، اُنہیں، اُن کا، …اُن میں، اُن سے، …

 

اصل لفظ

اسمائے موصولہ

حروف ربط کے ساتھ

نے، کو، کا، کے، کی، میں، سے، پر، تک

جو جس نے، جس کو، جسے، جس کا، …جس میں، جس سے، …
جو جنہوں نے، جن کو، جنہوں کو، جن کا، …جن میں، جن سے، …

 

فائدہ: آجکل ضمیر و اسم اشارہ کے واحد، جمع دونوں میں "وہ” مستعمل ہوتا ہے،”یے” اور "وے” کا استعمال ترک کر دیا گیا ہے، اور تعظیم کیلئے وؔہ کی جگہ آپؔ بولتے ہیں۔

 

فائدہ: جب ایک ہی اسم کی دو ضمیریں، یا ایک مرجع کے دو اسم اشارہ کسی جملہ میں اس طور پر واقع ہوں کہ اوّل فاعل دوسرا مضاف الیہ ہو، تو مضاف الیہ کی ضمیر یا اسمِ اشارہ کو "اپنا، اپنے” وغیرہ سے بدل دیتے ہیں، جیسے:

 

جو لفظ اصل میں تھا جو لفظ بدل کر بنا
   
میں نے میؔری کتاب پڑھی میں نے اپنؔی کتاب پڑھی
تو نے تیرؔا قلم لیا تو نے اپؔنا قلم لیا
وہ اُؔس کا کام کرتا ہے وہ اپؔنا کام کرتا ہے
یہ لوگ اِؔن کے گھر گئے یہ لوگ اپؔنے گھر گئے

 

اسی طرح جب پہلی جگہ اسم اور دُوسری جگہ اس کی ضمیر واقع ہو، جیسے زید اس کا کپڑا لے گیا، اس کو یوں کہا جائے گا: زید اپنا کپڑا لے گیا۔

 

مصدر کا بیان

 

تعریف مصدر: مصدر وہ ہے جس سے فعل اور اسم مشتق بنایا جائے۔

اُردو میں علامت مصدر "نا” ہے ، یعنی مصدر کے آخر میں لفظ "نا” آتا ہے، جیسے آنا، جانا، لکھنا، کرنا وغیرہ۔

 

تقسیم مصدر

مصدر کی دو قسمیں: (1) لازم، (2) و متعدی۔

 

(1) لازم: وہ ہے جو صرف فاعل پر تمام ہو جائے، جیسے اُٹھنا، بیٹھنا، سونا، رونا، ہونا، آنا، جانا، وغیرہ۔

 

(2) متعدی: وہ ہے جو فاعل پر تمام نہ ہو، بلکہ مفعول کو چاہتا ہو، جیسے کھانا، پینا، لکھنا، پڑھنا، کرنا وغیرہ۔

پھر مصدر متعدی کی دوقسمیں ہیں: (1) معروف، (2) و مجہول۔

1) معروف: وہ ہے جس کا فاعل معلوم ہو۔

(2) مجہول: وہ ہے جس کا فاعل معلوم نہ ہو۔

جاننا چاہئے کہ مصدر معروف سے صیغۂ واحد غائب ماضی مطلق کے آخر لفظ "جانا” بڑھانے سے مصدر مجہول بن جاتا ہے، جیسے کھایا جانا، پیا جانا وغیرہ۔

 

حاصل مصدر کا بیان

 

معنئ مصدر کی کیفیت کو جس لفظ سے بتایا جائے اس کو حاصلِ مصدر کہتے ہیں، جیسے ماؔرنا مصدر ہے اس کا حاصل مصدر "مار” ہے، مارنے سے دوسرے پر ماؔر پڑتی ہے، یہی مار معنئ مصدر کی کیفیت ہے۔

حاصلِ مصدر کی مختلف علامتیں ہیں، مثلاً:

وٹؔ: جیسے بناوٹ، لگاوٹ، سجاوٹ

ہؔٹ: جیسے مسکراہٹ، گھبراہٹ

رؔ:جیسے رفتار، گفتار، کردار

سؔ:جیسے مٹھاس، کٹھاس، پیاس

شؔ:جیسے خواہش، سُفارش، تپش

پؔن: جیسے لڑکپن، بچپن، بھولاپن

نؔ:جیسے اُلجھن، دھڑکن، جَلَن

یؔ:جیسے سردی، گرمی، نرمی

گؔی: جیسے تازگی، افسردگی، آسودگی

 

اور اکثر اُردو یا فارسی مصدر کے آخر سے علامتِ مصدر کو دور کرنے سے حاصل مصدر ہو جاتا ہے، جیسے لُوٹ، مار، دوڑ، دید، خرید، فروخت، چمک، دمک، مہک وغیرہ۔ ان کے علاوہ دباؤ، چال، آمد و رفت، جستجو، گفتگو وغیرہ بھی حاصل مصدر ہیں۔

فائدہ: مصادر عربی کو اردو والے حاصلِ مصدر شمار کرتے ہیں، جیسے ضرب، اکرام، انعام وغیرہ۔ اسلئے ان کے آخر اردو کا ایک مصدر اور ملا کر مصدر مرکب بنا لیتے ہیں، جیسے ضرب کھانا، اکرام کرنا، انعام دینا وغیرہ۔

 

مشتق کا بیان

 

تعریف مشتق: اسم مشتق وہ ہے جو مصدرسے اسطرح بنایا جاوے کہ مصدر کا مادّہ (اصلی حروف کیساتھ یا بدل ہو کر) با قیر ہے اور معنیٰ بھی قائم رہیں، جیسے "کرنا” سے کرنے والا، کیا ہوا۔

تقسیم مشتق: اسم مشتق کی سات قسمیں ہیں: (1) اسم فاعل، (2) اسم مفعول، (3) صفت مشبّہ، (4) اسم تفصیل، (5) اسم آلہ، (6) اسم ظرف، (7) اسم حالیہ۔

 

1.اسم فاعل: وہ ہے جو اس ذات کو بتلائے جس سے فعل صادر ہو، یا اسمیں قائم ہو۔ مصدر کے الف کو یائے مجہول سے بدل کر آخر میں "والا” بڑھانے سے اسم فاعل بنتا ہے، جیسے کرنے والا، جاننے والا،۔ کبھی اسم کے آخر "ی” زیادہ کرنے سے اسم فاعل بن جاتا ہے، جیسے بھِکاری، لالچی۔

عربی، فارسی کے اسم فاعل بھی اُردو میں بہت مستعمل ہیں، اسم فاعل عربی، جیسے کَاتِبٌ، عَالِمٌ، مُسَافِرٌ وغیرہ۔ فارسی اسم فاعل کی دو قسمیں ہیں: (1) اصؔلی، جیسے آئندہ، بخشندہ وغیرہ، (2) ترؔکیبی، جیسے شمشیرزن، زرگر، خردمند، پرہیزگار، رنجور، خوفناک، غمگین، مہربان وغیرہ۔

 

2.اسم مفعول: وہ ہے جو اس ذات کو بتلاوے جس پر فعل واقع ہو، ماضی مطلق کے آخر لفظ "ہوا” زیادہ کرنے سے اسم مفعول بن جاتا ہے، جیسے مارا ہوا، کھایا ہوا۔

فارسی و عربی کے اسم مفعول بھی اُردو میں مستعمل ہوتے ہیں، جیسے دیدہ، دانستہ، خوابیدہ، مَقْتُوْلٌ، مَلْبُوْسٌ، مُکَرَّمٌ، مُحْتَرَمٌ وغیرہ۔

 

3.صفت مشبّہ: وہ ہے جس میں معنئ وصفی بطور ثبوت واستحکام کے قائم ہو، اس کی دو قسمیں ہیں: (1) مفؔرد، جیسے بھلا، بُرا، چالاک، نڈر وغیرہ۔ (2) مرؔکب، جیسے ہنس مُکھ، کام چور وغیرہ۔

 

4.اسم تفصیل: وہ ہے جس کے موصوف میں اوروں پر فضیلت و زیادت پائی جائے، جیسے بہت اچھا، بہت بڑا۔ فارسی و عربی کے اسم تفضیل کے صیغے بھی اُردو میں مستعمل ہیں، جیسے بہتر، بدتر، أَعْلَىٰ، أَفْضَلٌ وغیرہ۔

 

5.اسم آلہ: وہ ہے جس میں اوزار یا ہتھیار کے معنیٰ پائے جائیں، جیسے کترنی (کاٹنے چانٹنے کا آلہ) اور کھریدنی ( کھرچنے کا آلہ)، اور فارسی اسم آلہ جیسے بادکش (ہوا کھینچنے کا آلہ)، قلم تراش (قلم بنانے کا آلہ)، اور عربی اسم آلہ جیسے مِسْوَاکٌ، مِفْتَاحٌ وغیرہ بھی اُردو میں مستعمل ہیں۔

 

6.اسم ظرف: وہ ہے جس میں جگہ یا وقت کے معنیٰ ہوں، جیسے گھر، بازار، ظہر، عصر، قلمدان، مسجد، مدرسہ وغیرہ۔ ظرف میں فارسی و عربی کے صیغہ ہائے ظرف بہت مستعمل ہیں، اور پاس، آگے، پیچھے، اُوپر، نیچے وغیرہ شِبہ ظرف ہیں۔

 

7.اسم حالیہ: وہ ہے جو فاعل یا مفعول کی ہیئت کو بیان کرے، جیسے زید ہنستا جاتا تھا، میں نے خالد کو سوتے دیکھا۔ اکثر ماضی شرطی (تمنائی) کا صیغہ اسم حالیہ ہوتا ہے، اور کبھی ماضی شرطی کے آخر لفظ "ہوا” زیادہ کر دیتے ہیں، جیسے ہنستا ہوا، مسکراتا ہوا۔

 

واحد، جمع کا بیان

 

باعتبار گنتی کے اسم کی دو قسمیں ہیں: (1) واحد، (2)جمع ۔

 

1.واحد: وہ ہے جو ایک پر دلالت کرے۔

2.جمع: وہ ہے جو ایک سے زیادہ پر دلالت کرے۔ تثنیہ بھی جمع کے اندر داخل ہے، اور اس کے قواعد جمع کے قواعد کیطرح ہیں۔

 

واحد سے جمع بنانے کے قواعد

(1) جس واحد مذکر کے آخر میں "الف” یا "ہ” ہو تو جمع میں یاؔئے مجہول سے بدل جائے گا، جیسے ایک لڑکا: بہت لڑکے، ایک بچہ: بہت بچے۔ مگر راجا، داتا وغیرہ سنسکرت لفظ، اور دادا، چچا وغیرہ رشتہ داروں کے نام، اور دانا، پینا وغیرہ فارسی اسم فاعل سماعی میں بدلتے نہیں، جیسے دو راجا، تین چچا، بہت دانا۔

2.جس واحد مذکر کے آخر "الف” یا "ہ” نہ ہو اس کا واحد اور جمع یکساں آتا ہے، بشرطیکہ اس کے بعد حرف ربط نہ آئے، جیسے ایک مرد آیا، بہت سے مرد آئے، حرف ربط آئے تو "واؤ نون” سے جمع آئے گی، جیسے مردوں نے، دلوں میں۔

3.جس واحد مؤنث کے آخر "ی” ہو جمع میں "الف نون” بڑھا دیتے ہیں، جیسے لڑکی: لڑکیاں، روٹی: روٹیاں۔

4.جس واحد مؤنث کے آخر "الف” ہو، ءیں (ئیں) بڑھا کر جمع بناتے، جیسے دعا: دُعائیں، بَلا: بلائیں۔

5.جس واحد مؤنث کے آخر "الف” یا "ی” نہ ہو، جمع میں "ی، ن” بڑھا دیتے ہیں، جیسے عورتیں، کتابیں۔ البتہ حرف ربط کے آنے سے "ی، ن” کی جگہ "و، ن” سے جمع آئے گی، جیسے عورتوں کو، کتابوں پر۔

 

فائدہ: جس واحد مذکر کے آخر الف "یا” "ہ” ہو حرف ربط کے آنے سے وہ "الف” یا "ہ” بھی "ے” (یائے مجہول) سے بدل جاتا ہے، جیسے لڑکا:”لڑکے نے، پردہ:”پردے میں، مگر اکثر لکھنے میں "ہ” لکھتے ہیں، اور پڑھنے میں "ے” مجہول پڑھتے ہیں۔

لیکن سنسکرت لفظ راجا، داتا وغیرہ اور رشتہ داروں کے نام چچا، نانا وغیرہ اور لقب و عہدہ کے الفاظ آقا، مرزا وغیرہ اور شہر و دریا کے نام بخارا، برما، گنگا وغیرہ مستثنیٰ ہیں۔ مکہ، مدینہ، کلکتہ اور دوسرے ہندوستانی شہروں کے نام میں بدلتے ہیں۔

 

علاماتِ اضافت کا بیان

 

اگر ایک اسم کو دوسرے اسم کی طرف اضافت کیا جائے تو اول کو مضاف اور دوسرے کو مضاف الیہ کہتے ہیں۔

1.اُردو میں مضاف الیہ پہلے اور مضاف پیچھے آتا ہے، جیسے اللہ کا گھر، گؔھر مضاف ہے، اؔللہ مضاف الیہ اور کا علامتِ اضافت ہے۔

  1. علاماتِ اضافت تین ہیں، کؔا، کؔے، کؔی۔ مضاف واحد مذکر ہو تو اس کے قبل "کا” اور جمع مذکر ہو تو اس کے قبل "کؔے” اور مؤنث ہو تو اس کے قبل "کؔی” لاتے ہیں، جیسے زید کا بیٹا، زید کے بیٹے، زید کی بیٹی، زید کی بیٹیاں۔

3.اگر مضاف الیہ ضمیر ہو تو بعض حالتوں میں علاماتِ اضافت رؔا، رؔے، رؔی، اور نؔا، نؔے، نؔی، ہو جاتی ہیں، جیسے میرا لڑکا، میرے لڑکے، میری لڑکی، اپنا لڑکا، اپنے لڑکے، اپنی لڑکی۔

4.اُردو لفظ فارسی یا عربی لفظ کا مضاف یا مضاف الیہ نہیں ہوتا ہے، پس آبِ بارش، روٹئ جَو کہنا صحیح نہیں، بارش کا پانی، جَو کی روٹی کہا جائے گا۔

 

علاماتِ فاعل کا بیان

 

اُردو میں "نے” علامتِ فاعل ہے، لیکن ہر فاعل کے بعد یہ علامت نہیں آتی۔

1.صرف فعل متعدی کے ماضی مطلق، قریب، بعید اور شکی میں فاعل کے بعد "نے” آتا ہے، جیسے زید نے کہا، لوگوں نے کہا ہے، تو نے کہا تھا، تم نے کہا ہو گا، مگر لانا، بولنا، بھولنا، شرمانا یہ چار مصادر مستثنیٰ ہیں، جیسے میں لایا، وہ بولا، تم بھولے، ہم شرمائے۔

  1. ماضی متعدی کے استمراری و تمنائی میں "نے” نہیں آتا، جیسے میں پڑھتا تھا، کاش وہ سنتا۔

3.فعل لازم کے کسی ماضی کے ساتھ "نے” نہیں آتا، جیسے احمد آیا، لوگ سوگئے ہیں، عَلَىٰ ہَذَا الْقِیَاسِ.

4.مضارع، حال، مستقبل اور امر و نہی میں خواہ متعدی ہوں یا لازم "نے” بالکل نہیں آتا، جیسے وہ جاوے، وہ کھاوے، تو سوتا ہے، لوگ کہتے ہیں، عَلَىٰ ہَذَا الْقِیَاسِ.

 

علاماتِ مفعول کا بیان

 

اُردو میں "کو” علامتِ مفعول ہے، لیکن ہر مفعول کے ساتھ "کو” نہیں آتا۔

.مفعول ذی عقلِ معرفہ کے بعد "کوؔ” آتا ہے جیسے میں نے خالد کو مارا۔

  1. ذی عقل نکرہ کے ساتھ "کوؔ” لانا اور نہ لانا دونوں صحیح ہیں، مگر تخصیص کی صورت میں لانا ضروری ہے، جیسے میں نے ایک آدمی کو دیکھا۔

3.مفعول بے جان یا غیر ذی عقل کے ساتھ "کوؔ” نہیں آتا ہے، جیسے میں نے کتاب پڑھی، میں نے بکری ذبح کی، مگر تاکید و تخصیص کے وقت لاتے ہیں، جیسے میں نے بکری کو ذبح کر دیا۔

4.جب دو مفعول ہوں جاندار اور بے جان، تو جاندار کے ساتھ "کو” آتا ہے، جیسے میں نے خالد کو کپڑا دیا۔

5.افعال قلوب میں مفعول اول کے ساتھ "کو” آتا ہے، جیسے میں نے زید کو عالم خیال کیا۔

6.کبھی مفعول لہ کے ساتھ بھی "کو” آتا ہے، جیسے میں نے اسے ادب دینے کو مارا۔

 

تذکیر و تانیث

مصدر کی تذکیر و تانیث

مصدر سے پہلے کوئی اسم مل کر آئے تو اس کی تذکیر و تانیث اور واحد و جمع کے اعتبار سے مصدر کو بدلنا اور نہ بدلنا دونوں جائز ہیں ، دہؔلی والے بدلتے ہیں۔ جیسے پانی پینا ہے، دعا لینی ہے، خطوط لکھنے ہیں، کتابیں دیکھنی ہیں، اور لکھؔنؤ والے نہیں بدلتے ہیں، جیسے پانی پینا ہے، روٹی کھانا ہے، خطوط لکھنا ہیں، کتابیں خریدنا ہیں۔

 

صفت کی تذکیر و تانیث

صفت وہ ہے جو کسی چیز کا حال بیان کرے، جیسے اچھا، بُرا، سادہ، کالا، عمدہ، ردِّی، نرم، سخت، تازہ، باسی وغیرہ۔

جس صفت کے آخر "الف” یا "ہ” ہو وہ تذکیر و تانیث اور واحد و جمع میں موصوف کے مطابق ہو گی، جیسے اچھا کام، بری خصلت، سادہ کرتہ، سادی ٹوپی وغیرہ، مگر عُمدہ چاول، عمدہ روٹی، اور آجکل تازہ میں بھی کم بدلتے ہیں، جیسے تازہ گوشت، تازہ مچھلی۔

 

افعال کی تذکیر و تانیث

  1. جب علامتِ فاعل "نے” اور علامت مفعول "کو” دونوں مذکور ہوں، تو فعل ہر حال میں واحد مذکر ہو گا، جیسے زینب نے زید کو مارا، زید نے زینب کو مارا، لوگوں نے اس لڑکی کو مارا، عورتوں نے اس لڑکے کو مارا۔
  2. مفعول جملہ ہونے سے بھی فعل واحد مذکر ہوتا ہے، جیسے طبیبوں نے کہا کہ روٹی کھایا کرو۔

3.اگر فاعل کی علامت نہ ہو، تو فعل تذکیر و تانیث میں فاعل کے مطابق ہو گا، یعنی فاعل مذکر ہو تو مذکر اور فاعل مؤنث ہو تو مؤنث، اسی طرح واحد و جمع میں بھی، جیسے مرد آیا، لوگ آئے، عورت آئی، عورتیں آئیں۔

4.اگر فاعل کی علامت "نے” ہو اور مفعول کی علامت "کو” نہ ہو، تو فعل مفعول کے مطابق ہو گا، جیسے احمد نے روٹی کھائی، روٹیاں کھائیں، میری بہن نے خط لکھا، خطوط لکھے۔

5.اگر دو یا زیادہ اسم، فاعل یا مفعول ہوں، تو فعل سے جو قریب ہو اس کا لحاظ کیا جائے گا، جیسے خالد اور ہندہ، ہندہ اور خالد آیا، کرتہ اور لنگی خریدی، لنگی اور کرتہ خریدا۔

6.افعال ناقصہ میں اسم ناقص کے اعتبار سے فعل لایا جائے گا، خبر کا لحاظ نہیں کیا جائے گا، جیسے مِٹّی پتھر بن گئی۔

 

اسموں کی تذکیر و تانیث

باعتبار جنس کے اسم کی دو قسمیں ہیں: (1) مذکر، (2) و مؤنث۔ پھر ہر ایک کی دو دو قسمیں ہیں: (1) حقیقی، (2) غیر حقیقی۔

 

1.مذکر و مؤنث حقیقی: وہ نر جاندار ہے جس کے مقابل مادَہ جاندار ہو، ایسی مادہ جاندار کو مؤنث حقیقی کہتے ہیں جیسے مرد، عورت، مرغ، مرغی وغیرہ۔

 

2.مذکر و مؤنث غیر حقیقی: ایسے بے جان اسم ہیں جن کو اہل زبان مذکر یا مؤنث بولتے ہیں، پھر غیر حقیقی دو قسم کے ہیں: (1) قیاسی: جس کے لئے کوئی قاعدہ مقرر ہو، (2) سماعی: جس کے لئے کوئی قاعدہ مقرر نہ ہو۔

 

مذکر غیر حقیقی کی پہچان

  1. کل اسمائے الٰہی اور فرشتوں کے نام مذکر ہیں، جیسے اللہ، خدا، جبرئیل۔

2.مہینوں اور دنوں کے نام مذکر ہیں، جیسے محّرم، جنوری، سنیچر، دو شنبہ وغیرہ۔ مگر جمعرات مؤنث ہے۔

  1. کسی قوم یا جماعت کیلئے جو نام یا لقب مخصوص ہو مذکر ہے، جیسے مسلمان، ہندو، عیسائی، شیعہ، سُنّی وغیرہ۔
  2. ملکوں اور شہروں کے نام مذکر ہیں، بشرطیکہ ان کے آخر "ی” نہ ہو، جیسے آسیا، افریقہ، عرب، ہندوستان، کلکتہ، ڈھاکہ وغیرہ۔ اور جن کے آخر "ی” ہو وہ مؤنث ہیں، جیسے دہلی، راولپنڈی وغیرہ۔

5.جو الفاظ معشوق کیلئے مستعمل ہوتے ہیں مذکر ہیں، اگرچہ جس پر بولا جائے وہ کوئی مؤنث ہو، جیسے دِلبَر، دِلرُبا، پریرو، گلبدن وغیرہ۔

  1. تمام ستاروں کے نام مذکر ہیں، جیسے زُحل، مِرّیخ، وغیرہ۔ مگر زُہرہ و ناہید مؤنث ہیں، اور مشتری مختلف فیہ ہے۔

7.جن اسموں کے آخر "الف” یا "ہ” ہو اکثر مذکر ہیں، بشرطیکہ اور کسی قاعدہ سے ان کا مؤنث ہونا ثابت نہ ہو، جیسے دریا، صحراء، شوربا، پتہ، پیشہ، پرچہ وغیرہ۔ مگر کربلا، کیمیا، آسیا (چکی)، انگیا (عورتوں کی چولی)، توبہ، دفعہ، مرتبہ (بمعنیٰ بار)، نگہ، جگہ مؤنث ہیں۔

جن اسموں کے آخر الؔف کے بعد "و” ہو مذکر ہیں، جیسے دباؤ، مچاؤ، لگاؤ وغیرہ۔

9.جن اسموں کے آخر "ت” ماقبل حرف صحیح ساکن ہو، اکثر مذکر ہیں، جیسے بخت، تخت، دست، گوشت، پوست وغیرہ۔

10.جن اسموں کے حرف آخر کے ماقبل الؔف ہو اکثر مذکر ہیں، بشرطیکہ اور کسی قاعدہ سے مؤنث ہونا ثابت نہ ہو، جیسے جہاز، راز، تاج، داغ، باغ، چراغ، بیان، زبان، مکان، میدان، نام، کام وغیرہ۔ مگر زبان، جان، نان، شان، لاش، بنیاد، یاد وغیرہ مؤنث ہیں۔

11.جو کلمات لفظ پؔن، باؔر، داؔن، زاؔر، ساؔر، بنؔد، ستاؔن، ماؔن سے مرکب ہوں مذکر ہیں، جیسے بچپن، بھولاپن، دربار، گھربار، خاندان، چراغدان، گلزار، سبزہ زار، کوہستان، خاکسبار، ازاربند، سینہ بند، گلستاں، نیستان، خانمان(1)، آسمان وغیرہ۔

12.حروف تہجِّی میں بارہ حروف مذکر ہیں: (1) ا، (2) س، (3) ش، (4) ص، (5) ض، (6) ع، (7) غ، (8) ق، (9) ک، (10) ل، (11) م، (12) ن، باقی مؤنث ہیں۔

13.مصادر و اسمائے عربی اکثر مذکر ہیں:

(1) فَعْلٌ کا وزن: جیسے فَضْلٌ، وَصْلٌ، قَتْلٌ، نَفْعٌ وغیرہ۔ مگر بَحْث، شَرْح، شَرْط وغیرہ مؤنث ہیں۔

——————–

 

(1) اسباب خانہ۔

(2) فَعَلٌ کا وزن: جیسے ضَرَرٌ، غَضَبٌ، سَبَقٌ، سَفَرٌ وغیرہ، مگر قَسَمٌ، سَحَرٌ مؤنث ہیں۔

(3) فِعْلٌ کا وزن: جیسے عِلْمٌ، ذِکْرٌ، حِلْمٌ وغیرہ، مگر حِرْصٌ مؤنث ہے اور فِکْرٌ مختلف فیہ۔

(4) فُعْلٌ کا وزن: جیسے نُقْصٌ، زُہْدٌ، حُکْمٌ، ظُلْمٌ وغیرہ۔

(5) إِفْعَالٌ کا وزن: جیسے إِحْسَانٌ، إِنْعَامٌ، إِکْرَامٌ وغیرہ، مگر إِصْلَاحٌ، إِیْذَاءٌ، إِکْرَاہٌ مؤنث ہیں۔

(6) افْتِعَالٌ کا وزن: جیسے اخْتِیَارٌ، اخْتِلَافٌ، اخْتِرَاضٌ، انْتِظَامٌ وغیرہ۔ مگر احْتِیَاجٌ، احْتِیَاطٌ، اطِّلَاعٌ، مؤنث ہیں، اور اس باب کے وہ مصادر جن کے آخر الف ہے جیسے ابْتِدَاءٌ، انْتِہَاءٌ وغیرہ بھی مؤنث ہیں۔

(7) انْفِعَالٌ کا وزن: انْقِلَابٌ، انْفِصَالٌ وغیرہ۔

(8) اسْتِفْعِالٌ کا وزن: جیسے اسْتِحْقَاقٌ، اسْتِدْلَالٌ وغیرہ۔

(9) تَفَاعُلٌ کا وزن: جیسے تَجَاوُزٌ، تَعَارُفٌ وغیرہ۔

(10) تَفَعُّلٌ کا وزن: جیسے تَأَمُّلٌ، تَبَدُّلٌ، تَعَجُّبٌ وغیرہ، مگر تَوَجُّہٌ، تَوَقُّعٌ، تَمَنَّا، تَرَقَّىٰ، تَجَلَّىٰ مؤنث ہیں۔

11) مُفَاعَلَةٌ کا وزن: جیسے مُقَابَلَةٌ، مَنَاظَرَةٌ وغیرہ، مگر لمبی "ت” لکھی جائے تو مؤنث ہے، جیسے مُمَانَعَتٌ، مُفَارَقَتٌ، مُلَاقَاتٌ وغیرہ۔

 

مؤنثِ غیر حقیقی کی پہچان

1.کتابوں کے نام مؤنث ہیں، مگر شاذ نادر مذکر، جیسے قرآؔن، فرقؔان، اور کرؔیما کو بھی بعض نے مذکر لکھا ہے۔

2.نمازوں کے نام مؤنث ہیں، جیسے فجر، ظہر، عصر وغیرہ، مگر فرض مذکر ہے۔

3.سارے اوقات کے نام مؤنث ہیں، جیسے صبح، شام وغیرہ۔

4.کُل زبانوں کے نام مؤنث ہیں، جیسے عربی، فارسی، سنسکرت وغیرہ، مگر اُردو مختلف فیہ، اکثر مؤنث بولتے ہیں۔

5.ندیوں اور دریاؤں کے نام مؤنث ہیں، جیسے گنگا، جمنا، کرنافلی وغیرہ اور شاذ مذکر ہیں۔

6.آوازوں کے نام مؤنث ہیں، جیسے کو کو (قُمری کی آواز)، قُلقُل (صراحی وغیرہ سے پانی نکلنے کی آواز)، چھَم چھَم (مِینھ برسنے کی آواز)۔

7.اکثر حاصلِ مصدر فارسی و ہندی کے مؤنث ہیں، جیسے بناوٹ، سجاوٹ، مٹھاس، کَٹھاس، بخشش، خواہش، چیخ، پکار، چلن، دھَڑکن، چمک، دمک وغیرہ۔ مگر جو "الف، ؤ” پر ختم ہو مذکر ہے، جیسے لَگاؤ، دَباؤ وغیرہ۔

  1. جن اسموں کے آخر "ی” معروف یا "ے” مجہول ہو مؤنث ہیں، جیسے کرسی، لکڑی، روٹی وغیرہ، اور مَے، قَے، چائے، رائے وغیرہ۔ مگر پانی، موتی، جی، گھی، دَہی، دادی مذکر ہیں۔ اسی طرح مذکر حقیقی جس کے آخر یائے معروف ہو، یا یائے نسبتی فاعلی وغیرہ ہو، اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں، جیسے ہاتھی، مالی، درزی، پاکستانی، قاضی، داعی وغیرہ۔
  2. جن اسموں کے آخر "ت”مصدری یا اسمی آئے مؤنث ہیں جیسے رحمت، برکت، عادت، نصیحت، وغیرہ مگر شربت، لغت، حضرت، خلعت مذکر ہیں۔
  3. جو سہ حرفی اسم الؔف پر ختم ہو مؤنث ہے، جیسے حیا، دوا، دعا، جزا، سزا وغیرہ۔ مگر عصا، زِنا مذکر ہیں (اور خدا مذکر تاویلی)۔
  4. جن اسموں کے حرف آخر سے پہلے "ی” معروف ہو، اکثر مؤنث ہیں، جیسے دلیل، سبیل، لکیر، نظیر وغیرہ، اور دِین، تیر، یقین وغیرہ مذکر ہیں۔
  5. جو اسم لفظ "گاہ” یا "ہ” ما قبل الف ساکن پر ختم ہو مؤنث ہے، جیسے آہ، راہ، پناہ، تنخواہ وغیرہ اور درگاہ، درس گاہ، آرامگاہ وغیرہ، مگر بیاہ، ماہ، گناہ مذکر ہیں۔
  6. جس مرکب کلمہ کا جزء ثانی مؤنث ہے اکثر مؤنث ہوتا ہے، جیسے آب و ہوا، قلم دوات وغیرہ، اور کبھی جزء اول کے لحاظ سے مؤنث ہوتا ہے، جیسے آبرو، روک ٹوک وغیرہ۔
  7. جو فارسی کلمہ دو صیغۂ ماضی یا امر، یا ماضی و امر، یا جامد و امر وغیرہ سے مرکب ہو اکثر مؤنث ہوتا ہے، جیسے آمد و رفت (دو ماضی)، دار و گیر (دو امر)، زد و کوب (ماضی و امر)، تَگ و دَو (جامد و امر)۔
  8. عربی مصدر تفعیل کا وزن اکثر مؤنث ہے، جیسے تَصْوِیْرٌ، تَفْسِیْرٌ، تَکْبِیْرٌ، تَفْصِیْلٌ وغیرہ۔ مگر تعویذ مذکر ہے اور تمکین مختلف فیہ۔
  9. حروف تہجّی میں اکیس حروف مؤنث ہیں: (1) ب، (2) پ، (3) ت، (4) ٹ، (5) ث، (6) ج، (7) چ، (8) خ، (9) د، (10) ڈ، (11) ذ، (12) ر، (13) ڑ، (14) ز، (15) ژ، (16) ط، (17) ظ، (18) ف، (19) و، (20) ہ، (21) ی۔

 

علاماتِ تانیث کا بیان

1.جس مذکر جاندار کے آخر "الف” ہو، اس کو "ی” معروف یا "ی، الف” سے بدل کر مؤنث کر لیتے ہیں، جیسے لڑکا: لڑکی، بوڑھا: بوڑھیا۔ اور کبھی الف کو "نون” سے بدلتے ہیں، جیسے دولھا: دولھن۔

2.جس مذکر جاندار کے آخر "ی” معروف ہو، حالت تانیث میں اس "ی” کو "ن” سے بدلتے ہیں، جیسے مالی: مالَن، دھوبی: دھوبَن۔

3.بعض اسموں کے مؤنث خلاف قیاس آتے ہیں، جیسے رائے و راجہ کا مؤنث رانی، استاذ کا مؤنث استانی، بھائی کا مؤنث بھابی وغیرہ۔

4.حروف ذیل بھی تانیث کے علامت ہیں:

نؔ جیسے دولھا: دولھن

ایؔن جیسے پنڈت: پنڈتاین

نؔی جیسے لُہار: لہارنی

انؔی جیسے مہتر: مہترانی

 

حُروفِ ربط کی وجہ سے اسموں کے آخر میں تبدیلی:

جس طرح ضمائر کے بعد حروف ربط کی وجہ سے تبدیلی کا ہونا معلوم ہو چکا، اسی طرح مصدر، اسم فاعل، مفعول، صفتِ مشبہ کے آخر کا "الف” بھی "ے” مجہول سے بدل جاتا ہے۔”اور جس اسم کے آخر "الف” یا "ہ” ہو، اس میں بھی ایسی تبدیلی ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ اِسمِ سالِم (غیر متبدل) کے حکم میں نہ ہو۔

تبدیلی کی صورت نقشۂ ذیل میں دیکھو:

اسم کی قسمیں اصلی حالت پر حروف ربط کے ساتھ
مصدر لکھنا لکھنے میں، لکھنے سے، لکھنے کا، لکھنے پر وغیرہ
اسمِ فاعل لکھنے والا لکھنے والے نے، ··· کا، ···سے، ···پر
اسمِ مفعول لکھا ہوا لکھے ہوئے کو، ··· نے، ··· کا، ··· سے، ··· پر
صفت اچھا (آدمی) اچھے (آدمی) نے، ··· کا، ··· سے، ··· پر
اسم جامد کلیجہ، پردہ کلیجے تک، پردے تک

 

اسم سالم و غیر سالم کا بیان

باعتبار تبدیل و عدم تبدیل کے اسم کی دو قسمیں ہیں (1) سالم، (2) و غیر سالم

 

1 . اسمِ سالم یا غیر متبدّل: وہ ہے جس کے آخر "الف”یا "ہ” اصلی نہ ہو، ایسے اسم کے لفظ واحد میں حروف ربط کے آنے سے تبدیلی نہیں ہوتی، جیسے مرد نے، عورت کو، کتاب میں وغیرہ۔

 

  1. اور اسمِ غیر سالم یا متبدّل: وہ ہے جس کے آخر "الف” یا "ہ” اصلی ہو، اس کے صیغۂ واحد میں حروف ربط اور حرف ندا کی وجہ سے "الف” کو "ے” مجہول سے بدلتے ہیں، جیسے گھوڑا: گھوڑے پر، لڑکا: لڑکے نے، اے لڑکے! وغیرہ۔

البتّہ عَلَم کے آخر کا "الف” جیسے خدا، اور وہ "ہ” جو مؤنث جاندار کی علامت ہے، جیسے ملکہ، مخدومہ تبدیل نہیں ہوتی۔

اسی طرح رشتہ داروں کے نام، جیسے دادا، چچا، اور القاب و خطاب کے الفاظ جیسے مُلّا، مرزا وغیرہ، اور خالص سنسکرت الفاظ جیسے راجا، پوجا وغیرہ، اور آخر میں الف والے عربی کلمات جیسے حَیا، صحَرا، کیمیا وغیرہ، اور فارسی و ہندی صیغہ ہائے صفت جیسے دانا، بینا، داتا وغیرہ مستثنیٰ ہیں۔

ہاں ایسے مصادر عربی جو اُردو سے گھُل مِل گئے ہیں ان میں بدلتے ہیں، جیسے تقاضا: تقاضے سے۔ اور جس کلمہ کے آخر "ہ” سے قبل حرفِ مفتوح نہ ہو وہ بھی تبدیل کے قاعدہ میں داخل نہیں جیسے کوہ، راہ وغیرہ۔

***

 

بحثِ فعل

 

تعریف و تقسیم: فعل وہ ہے جو بغیر ہ ملائے دوسرے لفظ کے اپنے معنیٰ سمجھائے، اور اس کی ہیئت سے کوئی زمانہ بھی مفہوم ہو۔

مصدر سے چھ قسم کے فعل نکلتے ہیں: (1) ماضی، (2) مضارع، (3) حال، (4) مستقبل، (5) امر، (6) نہی۔

جس قسم کا مصدر ہوتا ہے اسی قسم کا فعل نکلتا ہے، یعنی مصدر لازم سے فعل لازم، اور مصدر متعدی سے فعل متعدی، اور مجہول کے صیغے بھی مصدر متعدی سے بَن سکتے ہیں، اور شاذ مصدر لازم سے بنتا ہے جیسے بیٹھا نہیں گیا، رہا نہیں جاتا ہے۔

  1. فعل ماضی: وہ ہے جو گزرے ہوئے زمانہ میں کسی کام کا ہونا یا کرنا سمجھائے۔ فعلِ ماضی چھ طرح کا ہوتا ہے: (1) ماضی مطلق، (2) ماضی قریب، (3) ماضی بعید، (4) ماضی شکی، (5) ماضی استمراری، (6) ماضی تمنّائی یا شَرطی۔
  2. ماضی مطلق: وہ ہے جو گذشتہ زمانہ پر بدون نزدیکی و دوری کی قید کے دلالت کرے، جیسے زید آیا۔
  3. ماضی قریب: وہ ہے جو گذشتہ زمانۂ قریب پر دلالت کرے، جیسے زید آیا ہے۔
  4. ناضی بعید: وہ ہے جو گذشتہ زمانۂ بعید پر دلالت کرے، جیسے زید آیا تھا، اور کبھی ماضی قریب کیلئے بھی بعید کا صیغہ لایا جاتا ہے، جیسے زید ابھی یہاں آیا تھا۔
  5. ماضی شکی: وہ ہے کہ زمانۂ گذشتہ میں اس کے ہونے یا کرنے ہیں شک ظاہر کرے، جیسے زید آیا ہو گا۔
  6. ماضی استمراری: وہ ہے کہ زمانۂ گذشتہ میں اس کا ہونا یا کرنا تکرار کے ساتھ سمجھائے، جیسے زید آتا تھا۔
  7. ماضی تمنائی یا شرطی: وہ ہے کہ زمانۂ گذشتہ میں وہ فعل واقع نہیں ہوا، لیکن ہونے کی حسرت اور آرزو ظاہر کرے، جیسے کاش زید آ جاتا۔
  8. فعل مضارع: وہ ہے جس میں وقوع فعل کا احتمال زمانۂ حال و استقبال دونوں میں ہو، کبھی حال سمجھائے اور کبھی مستقبل، جیسے زید آئے، کھائے۔
  9. فعل حال: وہ ہے جس کا ہونا یا کرنا زمانۂ موجود میں سمجھا جائے، جیسے زید آتا ہے۔
  10. فعل مستقبل: وہ ہے جس کا ہونا یا کرنا زمانۂ آئندہ میں سمجھا جائے، جیسے زید آئے گا۔
  11. امر: وہ فعل ہے جس میں کسی کام کے ہونے یا کرنے کا حکم کیا جائے جیسے تم آؤ۔

6 . نہی: وہ فعل ہے جس ہیں کسی کام کے ہونے یا کرنے کی ممانعت سمجھی جائے، جیسے مت آؤ۔

جاننا چاہیئے، کہ ہر فعل میں مذکر کے چھ صیغے اور مؤنث کے چھ صیغے ، کل بارہ صیغے آتے ہیں، البتہ مضارع اور امر و نہی میں مذکر و مؤنث یکساں ہیں۔

 

مصدر سے فعل نکالنے کا طریقہ

 

  • اردو میں علامت مصدر "نا” دور کرنے سے امر واحد حاضر کا صیغہ بنتا ہے، جیسے لکھنا سے لکھ۔
  • امر سے پہلے "مت” زیادہ کرنے سے نہی کا صیغہ بنتا ہے، جیسے مت لکھ۔
  • امر واحد حاضر کے "الف” زیادہ کرنے سے ماضی مطلق بن جاتا ہے، جیسے لکھ سے لکھا، البتہ جس امر حاضر کے آخر "الف” یا "واو” ہو، اس میں "یا” بڑھا کر ماضی مطلق بنا لیتے ہیں، جیسے کھا سے کھایا اور سو سے سویا۔
  • ماضی مطلق کے آخر لفظ "ہے” زیادہ کرنے سے ماضی قریب بن جاتا ہے، جیسے کھایا ہے۔
  • ماضی مطلق کے آخر لفظ "تھا” بڑھانے سے ماضی بعید بن جاتا ہے جیسے لکھا تھا۔
  • ماضی مطلق کے آخر لفظ "ہو گا” بڑھانے سے ماضی شکی بن جاتا ہے، جیسے لکھا ہو گا۔
  • امر واحد حاضر کے آخر لفظ "تا” بڑھانے سے ماضی شرطی بن جاتا ہے، جیسے لکھتا
  • ماضی شرطی کے آخر لفظ "تھا” بڑھانے سے ماضی استمراری بن جاتا ہے، جیسے لکھتا تھا۔
  • ماضی شرطی کے آخر لفظ "ہے” زیادہ کرنے سے فعل حال بنتا ہے، جیسے لکھتا ہے۔
  • امر واحد حاضر کے آخر "ے” مجہول بڑھانے سے فعل مضارع حاصل ہوتا ہے، جیسے لکھے۔ جس امر کے آخر حرف علت ہو، اس میں "ے” سے قبل ایک "واؤ” زیادہ کرتے ہیں، جیسے کھاوے، سووے، پیوے، لیکن آجکل "واؤ” متروک ہے، اس کی بجائے، جیسے کھائے، سوئے، پیے، بولتے ہیں۔
  • فعل مضارع کے آخر لفظ "گا” زیادہ کرنے سے فعل مستقبل بنتا ہے، جیسے لکھے گا، کھائے گا۔

ذیل میں فعل لازم اور متعدی کی چند گردانیں لکھی جاتی ہیں، اس سے فعل کے واحد یا جمع لانے اور مذکر و مؤنث لانے کا ضابطہ معلوم ہو جائے گا۔

 

فعل لازم

 

ماضی مطلق کی گردان:

 

مذکر مؤنث
وہ آیا وہ آئے وہ آئی وہ آئیں
تو آیا تم آئے تو آئی تم آئیں
میں آیا ہم آئے میں آئی ہم آئیں

 

ماضی قریب کی گردان:

 

مذکر مؤنث
وہ آیا ہے وہ آئے ہیں وہ آئی ہے وہ آئی ہیں
تو آیا ہے تم آئے ہو تو آئی ہے تم آئی ہو
میں آیا ہوں ہم آئے ہیں میں آئی ہوں ہم آئی ہیں

 

ماضی بعید کی گردان:

 

مذکر    مؤنث

وہ آیا تھا وہ آئے تھے      وہ آئی تھی وہ آئی تھیں

تو آیا تھا تم آئے تھے       تو آئی تھی تم آئی تھیں

میں آیا تھا ہم آئے تھے     میں آئی تھی ہم آئی تھیں

 

ماضی شکی کی گردان:

 

مذکر مؤنث
وہ آیا ہو گا وہ آئے ہوں گے وہ آئی ہو گی وہ آئی ہوں گی
تو آیا ہو گا تم آئے ہو گے تو آئی ہو گی تم آئی ہوں گی
میں آیا ہوں گا ہم آئے ہوں گے میں آئی ہوں گی ہم آئی ہوں گی

 

ماضی استمراری کی کردان:

 

مذکر مؤنث
لڑکا آتا تھا لڑکے آتے تھے لڑکی آتی تھی لڑکیاں آتی تھیں

 

ماضی تمنائی کی کردان:

 

مذکر مؤنث
لڑکا آتا لڑکے آتے لڑکی آتی لڑکیاں آتیں

 

ضمائر کے ساتھ تمام صیغوں کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔

 

فعل متعدی

 

فعل متعدی میں فاعل مذکر ہو یا مؤنث فعل یکساں آتے ہیں۔

 

ماضی مطلق:

 

مفعول واحد مذکر کے ساتھ مفعول جمع مذکر کے ساتھ
اس نے کپڑا پہنا انہوں نے کپڑا پہنا
اس نے کپڑے پہنے انہوں نے کپڑے پہنے
تو نے کپڑا پہنا تم نے کپڑا پہنا
تو نے کپڑے پہنے تم نے کپڑے پہنے
میں نے کپڑا پہنا ہم نے کپڑا پہنا
میں نے کپڑے پہنے ہم نے کپڑے پہنے

 

مفعول واحد مؤنث کے ساتھ مفعول جمع مؤنث کے ساتھ
اس نے روٹی کھائی انہوں نے روٹی کھائی
اس نے روٹیاں کھائیں انہوں نے روٹیاں کھائیں
تو نے … …تم نے …
…تو نے … …تم نے … …
میں نے … …ہم نے …
…میں نے … …ہم نے … …

 

ماضی قریب:

 

مفعول واحد مذکر مفعول جمع مذکر
اس نے کپڑا پہنا ہے انہوں نے کپڑا پہنا ہے
اس نے کپڑے پہنے ہیں انہوں نے کپڑے پہنے ہیں
تو نے … …تم نے …
…تو نے … …تم نے
میں نے … …ہم نے …
…میں نے … …ہم نے

 

مفعول واحد مؤنث    مفعول جمع مؤنث

 

اس نے روٹی کھائی ہے  انہوں نے روٹی کھائی ہے
اس نے روٹیاں کھائی ہیں انہوں نے روٹیاں کھائی ہیں
تو نے … …تم نے …
…تو نے … …تم نے
میں نے … …ہم نے …
…میں نے … …ہم نے

 

ماضی بعید:

 

مفعول واحد مذکر مفعول جمع مذکر
اس نے کپڑا خریدا تھا انہوں نے کپڑے خریدے تھے
اس نے روٹی کھائی تھی انہوں نے روٹیاں کھائی تھیں
تو نے … تم نے …
…تو نے … …تم نے
میں نے … …ہم نے
…میں نے … …ہم نے

 

ماضی شکی:

 

مفعول واحد مؤنث مفعول جمع مؤنث
اس نے کپڑا خریدا ہو گا انہوں نے کپڑے خریدے ہوں گے
اس نے روٹی کھائی ہو گی انہوں نے روٹیاں کھائی ہوں گی
تو نے … …تم نے …
..تو نے … تم نے …
میں نے … …ہم نے …
…میں نے … …ہم نے

 

استمراری و تمنائی کے صیغے فعل لازم کے صیغوں کی طرح ہیں۔ ما بقی گردانیں لکھنے کی اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں ہے، میری کتاب "رہبر اردو” میں تفصیل کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔

 

جملہ کی ہیئت ترکیبی

 

اُردو میں جملہ فعلیہ کے پہلے فاعل اورسب سے پیچھے فعل لایا جاتا ہے، اور فاعل کے بعد مفعول و متعلقات کو لاتے ہیں، جیسے قاضی نے چور کو بازار میں سزا دی۔

اور جملہ اسمیہ میں سب سے پہلے مبتدا، پھر متعلقات، اور بالکل اخیر میں خبر لاتے ہیں، جیسے یہ باورچی کھانا پکانے میں ماہر ہے۔

***

 

بحثِ حرف

 

حرف: وہ ہے جس کے معنیٰ مستقل نہ ہوں، یعنی بغیر ملائے دوسرے لفظ کے اپنے معنیٰ نہ سمجھا سکے، اور اس میں کوئی زمانہ نہ سمجھا جائے، جیسے میں، سے، تک، پر، کو، وغیرہ۔ کہ جب تک ان کے ساتھ کوئی اسم یا فعل نہ ملا جائے ان کے معنیٰ سمجھ میں نہیں آتے، جیسے ڈھاکہ سے کلکتہ تک چلا، اِس ترکیب کے بعد "سے” کے معنیٰ ابتدا اور تک کے معنیٰ انتہا کے حاصل ہوتے ہیں ، یعنی چلنے کا فعل ڈھاکہ سے شروع ہو کر کلکتہ میں ختم ہوا۔

سے: حرفِ "سے” ابتدا کے معنیٰ دیتا ہے، اور "تک” یا "تلک” انتہا کے معنیٰ دیتے ہیں۔ اور حرف "سے” کبھی بیانِ ما قبل کیلئے اور کبھی بعض کے معنیٰ ہیں، اور کبھی سبب کے معنیٰ میں اور کبھی مدد کے معنیٰ میں آتا ہے، اور کبھی علامت مفعول کی جگہ مستعمل ہوتا ہے، جیسے میں نے تم سے کہا، یعنی تم کو۔

میں: ظرفیت کی علامت ہے، بیچ کے معنیٰ دیتا ہے، خواہ مذکور ہو، جیسے وہ گھر میں بیٹھا، یا پوشیدہ ہو، جیسے وہ مدرسہ گیا، اور کبھی بیانیہ ہوتا ہے، جیسے احمد تم سے کس بات میں کم ہے؟ علم میں، ہنر میں، تقریر میں، تحریر میں؟

پر: یہ حرف بلندی کے معنیٰ دیتا ہے، جیسے زید چھت پر کھڑا ہے ، اور کبھی ظرفیت کیلئے آتا ہے، جیسے زید گھر پر ہے یعنی گھر میں ،اور کبھی "مگر” کی جگہ استعمال ہوتا ہے، جیسے میں نے اس کو بہت سمجھایا، پَر اس نے خیال نہ کیا۔

کو: یہ مفعول کی علامت ہے ، ضمائر، اسمائے اشارہ اور اسمائے موصولہ اور استفہام میں اس کی جگہ "ے” مجہول بھی استعمال ہوتی ہے، جیسے اُسے، جِسے، کِسے۔ علامتِ مفعول لفظ "کے تئیں” کا استعمال آجکل متروک ہے، حرف "کو” کبھی ظرفیت کے معنیٰ دیتا ہے، جیسے زید گھرکو گیا یعنی گھر میں گیا، اور کبھی عوض کے معنیٰ دیتا ہے، جیسے یہ قلم کتنے کو دو گے یعنی کس قیمت کے عوض، اور کبھی سبب کیلئے آتا ہے، جیسے وہ علم سیکھنے کو ہندوستان گیا۔

ساتھ: یہ حرف اتفاق اور ہمراہی کے معنیٰ دیتا ہے، جیسے احمد خالد کے ساتھ آیا، "سمیت” اس معنیٰ میں تقریباً متروک ہے۔

کا، کے، کی: یہ اضافت کی علامتیں ہیں اور ہمیشہ مضاف الیہ کے بعد آتی ہیں، جیسے زید کا گھر، گھر کے دروازے، چراغ کی روشنی۔ علامت اضافت کا مفصل بیان گرز چکا ہے۔

 

حروف عطف

 

و، اور: یہ دونوں حرف عطف ہیں، کلموں کے درمیان واقع ہوتے ہیں، "و” عربی و فارسی الفاظ کے درمیان لاتے ہیں، جیسے مرد و عورت، قلم و دوات، "اور” سے عطف کرنا بھی صحیح ہے، جیسے مرد اور عورت۔

اُردو و ہندی کلمات کے درمیان "اور” لایا جاتا ہے، جیسے روٹی اور گوشت، روٹی و گوشت کہنا صحیح نہیں۔اسی طرح دو جملوں کے درمیان "اور” لاتے ہیں، جیسے احمد آیا اور خالد چلا گیا، احمد آیا و خالد چلا گیا نہیں کہیں گے۔

 

حروف نفی

نفی اسم: نؔا، بؔے، غؔیر، نؔ، اَؔن: یہ حروف اسموں کی نفی کیلئے آتے ہیں، جیسے نادان، ناواقف، بیہوش، بیوقوف، غیر ذمہ دار، نڈر، اَن پڑھ۔

 

نفی فعل: نؔہ، نؔہیں، مؔت: حرف "نہ” اور "نہیں” ہر فعل کی نفی کیلئے آتے ہیں، جیسے زید نہ آیا، خالد نے سبق یاد نہیں کیا، اور "مت” امر پر داخل ہو کر اس کو فعل نہی کر دیتا ہے، جیسے مت جاؤ

 

حرف بیان

کہ: یہ حرف ما قبل کے بیان کیلئے آتا ہے، جیسے استاد نے کہا کہ سبق یاد کرو۔

 

حرف تشبیہ

سا: حرف تشبیہ ہے، ایک چیز کو دوسری چیز کے مانند بتانے کیلئے آتا ہے، جیسے زید شیر سا ہے، یہ عورت شیر سی ہے ، اور کبھی مقدار ظاہر کرنے کیلئے آتا ہے، جیسے چھوٹا سا، بڑا سا۔

 

حرف استثناء

مگر، سوائے: یہ حروف استثناء ہیں، استثناء بمعنیٰ نکالنے کے ہیں، ماقبل کے حکم سے کسی اسم وغیرہ کو نکالنے کیلئے آتے ہیں، جیسے سب آدمی آ گئے سوائے زید کے، سب طلبہ چلے گئے مگر عثمان۔ بجؔز اور الّؔا بھی گاہ بگاہ اُردو میں استثناء کیلئے آتے ہیں۔

 

حرف حصر

ہی: لفظ ہؔی حصر اور خصوصیت کیلئے آتا ہے، جیسے زید ہی آیا، تم ہی نے کہا تھا۔

 

حرف استدراک

لیکن: یہ حرف استدراک ہے جو کلام سابق سے پیدا ہونے والے شک اور وہم کو دفع کرتا ہے، جیسے زید گھر گیا لیکن کل تک آ جائے گا، کبھی استثنا کا فائدہ دیتا ہے، جیسے سب آ گئے لیکن خالد نہیں آیا۔

 

حروف تردید

یا، خواہ، چاہے: یہ حروف تردید کیلئے آتے ہیں، یعنی دو لفظوں یا دو جملوں کے درمیان یا شروع میں آ کر یہ سمجھاتے ہیں کہ دونوں سے ایک مراد ہے، جیسے زید یا خالد آیا، خواہ آگے آئے خواہ پیچھے آئے، چاہے جاؤ چاہے مت جاؤ۔

 

حروف تاکید

حرف تاکید وہ ہے جو کلام میں زور پیدا کرے، مطؔلقاً، اصؔلاً، ہرگؔز، کبؔھی، بھوؔل کر نفی کی تاکید کیلئے آتے ہیں۔ اور ضرؔور، ضرؔور بالضرور، سرؔاسر اثبات کی تاکید کیلئے، جیسے میں ضرور جاؤں گا، یہ سراسر جھوٹ ہے، ہرگز ایسا نہ کرو۔

 

حروف شرط

اگؔر، جؔب، جبؔتک، چوؔنکہ، ہرؔچند، گؔو، جوؔں ہی، جبؔ ہی، جیسے اگر نیکی کرو تو جنت ملے گی، جزا پر تؔو، سؔو، تؔب، اسؔلئے وغیرہ آتے ہیں۔

 

حروف ندا

ندا کیلئے اردو میں اؔے، اؔو، ارؔے مستعمل ہیں، مگر ارؔے حقارت کیلئے ہے، جیسے ارے چور!

 

حرف ایجاب

ہاؔں، اچھاؔ جی، ٹھؔیک ہے وغیرہ ایجاب و اقرار کیلئے آتے ہیں، جیسے کوئی کہے کہ تم ڈھاکہ گئے تھے؟ جواب میں تم کہو کہ ہاں۔ اور نہؔیں، بالکؔل نہیں، کبؔھی نہیں، ہرگؔز نہیں، تھوؔڑا ہی، خاؔک وغیرہ انکار کیلئے بولتے ہیں۔

 

حروف نُدبہ و تأسُّف

افسوس یا تکلیف یا گھبراہٹ ظاہر کرنے کیلئے کلمات ذیل بولتے ہیں: آؔہ، ہاؔئے، افسوؔس، صؔد افسوس، حیؔف، درؔیغ جیسے ہائے یہ کیا ہو گا۔

 

حرف علّت

جو علت و سبب ظاہر کرنے کیلئے لاتے ہیں، مثلاً کؔہ، تاؔکہ، کؔیونکہ، کؔیوں، اسلؔئے، لہٰؔذا وغیرہ۔

 

حروف تحسین

جو تعریف یا مبارکباد دینے کے موقع پر بولتے ہیں، مثلاً: شاباش، آفریں، خوب، کیا خوب، واہ، واہ وا، سبحان اللہ، ما شاء اللہ، بارک اللہ۔

 

فائدہ: لغات تذکیر و تانیث کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت پڑے تو میری کتاب "رہبر اُردو” کے آخر میں جو رسالۂ تذکیر و تانیث شامل ہے اس کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

***

اس مختصر رسالہ کی ترتیب کو یہاں پر ختم کیا گیا، اللہ تعالیٰ اس کو مفید بنائے

فقط مؤلّف

15 صفر 1499ھ

٭٭٭

ماخذ: علم دین ڈاٹ کام (مکتبہ جبریل)

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل


کنڈل فائل