یُوکلپٹس
راجندر سنگھ بیدی
بہت ہی مرا مرا سا دن تھا جب کہ نومبر کی وہ ٹھٹھری ہوئی رات پیدا ہو رہی تھی۔ لمحے دھڑادھڑ ایک دوسرے پر ڈھیر ہو رہے تھے اور مٹی کا وہ ٹیلہ بن رہے تھے جس میں سے یوکلپٹس کا پیڑ پھوٹ کر نکلتا تھا۔
کُندن ایک اعصاب زدہ ٹیلیفون کے جواب میں گھر لوٹی تھی۔ ایک ہاتھ میں اس نے سائیکل کا ہینڈل تھام رکھا تھا اور دوسرے سے کتابیں، جو خام چمڑے کے فیتے میں کیریر پہ ڈھیلی ہو رہی تھیں۔ یہ کتابیں کُندن نے اسی شام فادر ولیم اسکول کی لائبریری سے نکلوائی تھیں، جہاں وہ وائس پر نسپل تھی۔ قاعدے سے کندن کو گولی کی طرح سے بنگلے میں داخل ہونا چاہیے تھا، مگر پھاٹک کے اندر آتے ہی وہ ہمیشہ کی طرح سرجُو کے پاس رُک گئی۔
—— سرجُو یوکلپٹس کے پیڑ کا نام تھا۔
یہ پیڑ کُندن نے تین سوا تین برس پہلے لگایا تھا، جب وہ نئی نئی وس کوسن یونیورسٹی سے ٹیچنگ کا ڈپلوما کر کے آئی تھی۔ جب یہاں کیتھولک چپلن فادر فشر رہا کرتا تھا اور جس نے بنگلہ کا آدھا حصّہ کماری کُندن کو دے رکھا تھا۔ پھر برس ایک کے بعد وہ مشن کا کام پورا کر کے امریکا چلا گیا اور کُندن نے تنہائی سے گھبرا کر اپنی بوڑھی ماں کو بُلا لیا۔ سائیکل کو جنگلے کے سہارے رکھ کر کُندن سُرجُو کے پاس آ کر رُکی اور اوپر کی طرف دیکھنے لگی، جہاں پتے اب تک اندھیرے کا رنگ لے چکے تھے۔ البتہ نیچے کی سفید، ملائم اور برچی چھال ابھی تک دکھائی دے رہی تھی۔ وہ پیار سے اس پر ہاتھ پھیرنے ہی والی تھی کہ دوسری طرف برآمدے میں اسے اپنی جیلی فش ماں کا ہیولا سا نظر آیا۔ اُسی دم جھُک کر کُندن نے پیڑ کے نیچے سے تازہ گرے ہوئے پتے اُٹھا لیے اور ہاتھ میں مسل کر انھیں سونگھنے اور لانبے لانبے سانس لینے لگی۔ جیسے اُسے زکام ہوا اور یوکلپٹس کی بُو تنفس اور اس کے رگوں ریشوں کو ایک طرح کا سکون دے رہی ہو۔ پھر ماں کی طرف منھ کرتے ہوئے کُندن تھوڑا کھسیائی۔’’میں تو سرجُو کو بڑھتے دیکھ بھی سکتی ہوں، ماں۔‘‘
اور اس نے پیڑ کی طرف اشارہ کیا۔
ماں کے چہرے میں سے پسینے کے باریک باریک قطرے رس رہے تھے، جیسے کورے گھڑے میں پانی ڈالنے سے وہ رسنے لگتا ہے۔ ڈوپٹے سے ماں اپنا چہرہ پونچھتے ہوئے بولی۔’’پودے دن کو نہیں، رات کو بڑھتے ہیں، کُندنا۔‘‘
’’کیوں ۔ رات کو کیوں؟‘‘
’’اُتپتی کے سب کام پرماتما اندھیرے میں کرتے ہیں۔‘‘
اور پھر ماں چپ رہ گئی۔ کُندن کو ماں سے کسی اور بات کی توقع بھی نہ تھی۔ وہ جانتی تھی ایک پیڑ کے ساتھ اپنی بیٹی کی بیمار سی محبت کو دیکھ کر ماں اکثر پریشان ہو اُٹھتی ہے۔ سائیکل کو جنگلے پر سے اُٹھا کر کندن برآمدے میں پہنچی ہی تھی کہ ماں نے کہنا شروع کیا۔’’پھر کیا نہ وہی خلجگن لکھّی نے۔‘‘
لکھّی کندن کی کرسچین نوکرانی تھی۔ کُندن نے وہیں رُکتے ہوئے کہا ’’کیا مطلب؟‘‘ اور پھر، جیسے اپنے آپ سمجھ گئی… شروع ہو گیا؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’کب سے؟‘‘
’’جب سے پڑوس کے مالی سے تمھیں ٹیلی فون کرایا۔‘‘
اور ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے ماں نیچے فرش ہی پر بیٹھ گئی، حالاں کہ پاس ہی برآمدے میں ملاقاتیوں کے لیے رکھی ہوئی آدھے درجن بید کی کرسیاں پڑی تھیں۔یہ حرکت عورتیں اس وقت کرتی ہیں جب کوئی مرنے والا ہو، یا مرچکا ہو۔
ادھر لکھّی اپنے کوارٹر میں کراہ رہی تھی۔ اُدھر ماں گالیاں بکے جا رہی تھی۔ اس کی آخری گالی تھی —— ’’چھنار‘‘ جبھی لکھّی کی چیخ سنائی دی تو ماں اور کُندن دونوں مُنھ اُٹھا کر اندھیرے میں دیکھنے لگیں، جیسے لکھّی سامنے تڑپتی ہوئی نظر آ رہی ہو۔ شاید …زہ کے درد میں مبتلا عورت کہیں بھی ہو، دوسری سب عورتوں کو دکھائی دینے لگتی ہے۔
کُندن نے ایک دم گھبرا کر ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ماں۔‘‘
’’سُن رہی ہوں‘‘ ماں نے اپنے بوڑھے، چرّخ چُوں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر مشکل سے اُٹھتے ہوئے کہا، اور گرتے گرتے بچی۔ ’’مجھے بھی کان دیے ہیں پرماتما نے‘‘ وہ بولی اور سچ مچ ہی اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے دونوں ہاتھ کانوں کی طرف اُٹھا دیے۔
کیا جذبہ تھا کہ دوسری چیخ کے ساتھ ہی ماں بھی چلاّ اُٹھی۔ ’’مرتی ہے تو مر جائے… کیوں نہیں دن کے وقت بتاتی رانڈ؟… پارسال بھی ایسے ہی کیا تھا۔‘‘
ماں بولے بغیر بھی نہ رہ سکتی تھی— ’کیسے خونو خون، ہو گئے تھے میرے ہاتھ پیر اور کپڑے جو نوچندی میں بنوائے تھے، تم نے پیسے بھیجے تھے… میں اس کے باپ کی دائی ہوں؟‘‘ پھر ماں کے پیر کوارٹر کی طرف اُٹھ گئے، پھر وہ لوٹ بھی آئے۔
چیخ جو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد سنائی دے رہی تھی، مسلسل ہو گئی۔ کُندن کے پیٹ میں بھی جیسے کوئی آزار پیدا ہو گیا اور طنابیں سی کھنچنے لگیں۔ سامنے ہاتھ رکھتے ہوئے وہ بولی۔’’تو سمجھتی کیوں نہیں ماں؟—— وہ غریب ہے۔ پیسے والے سو دارُو کرسکتے ہیں——‘‘
اور کُندن آپ ہی کوارٹر کی طرف چل دی، جب ماں نے لپک کر اسے بازو سے تھام لیا اور دھمکی آمیز لہجے میں بولی— ’’کُندنا!‘‘ اور پھر کوارٹر کی طرف جاتے ہوئے کہنے لگی۔’’یہ کام تیرے ایسی کچی کنواری کا ہے؟‘‘
ماں لکھّی کے پاس جانا بھی چاہتی تھی اور اپنی اہمیت کو جتانا بھی۔ جاتے ہوئے وہ مُنھ میں کچھ بکے جا رہی تھی۔ صرف ایک یہ لفظ کُندن کے کان میں پڑا۔ ’’چھنار…‘‘
کہیں سے کوئی چمگادڑ اُڑا اور ڈرائنگ روم کے اندر پیرا بولا کی شکلیں پیدا کرتا ہوا سامنے پہاڑیوں کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں سے باہر اُڑ گیا، جس میں ایک روز پہلے کی بارش کی وجہ سے بھنبٹ قطار در قطار اندر آ رہے تھے اور سو واٹ کے بجلی کے ہنڈے سے ٹکرا کر زمین پر ڈھیر ہو رہے تھے۔ جب وہ گرتے تو پتہ بھی نہ چلتا۔ صرف دیکھنے سے یوں لگتا جیسے زمین اوپر کی طرف اُٹھ رہی ہے… اور لمحوں کا ایک ٹیلہ بن رہا ہے۔
کُندن کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی اور انتظار کرنے لگی۔ روشنی میں تو اُونچ نیچ سب نظر آتا ہے، مگر اندھیرا ایک عجیب قسم کی یکسانیت پیدا کرتا ہے۔ صرف اس کے عادی ہو جانے پر مصیبتوں کے ہلکے خاکے اور گہرے خاکے دکھائی دیتے ہیں، جو اس یکسانیت میں اور بھی تاکید کا عالم پیدا کر دیتے ہیں اور آدمی گھبرا کر کھڑکی چھوڑ دیتا ہے اور ایک بے پناہ حبس سے بچنے کے لیے کسی کا بھی گریبان پھاڑ دیتا ہے۔
کُندن واپس آ کر صوفے میں بیٹھی تو یوں معلوم ہوا جیسے صوفے کے بازو اوپر اُٹھے اور ایک حسین لڑکی کو آغوش میں لے لیا… کُندن انتظار کرنے لگی۔
پہلے تو انتظار ٹِک ٹِک کرتا رہا، پھر وہاں کے کیتھولک مشن کے گرجے میں لگے ہوئے گھڑیال کی طرح بجنے لگا۔ چیخیں تھم چکی تھیں۔ شاید ماں کے پہنچ جانے سے لکھّی کا حوصلہ ہو گیا تھا، یا شاید بچّہ پیدا ہو گیا تھا… نہیں، بچہ اس دُنیا میں آتا تو ضرور روتا…
… شاں ماں کو گرم پانی کی ضرورت پڑے… کُندن لکھّی کی کھولی تک جا پہنچی۔ لیکن سوائے ماں کے بڑبڑانے کے اور کوئی آواز نہ سنائی دی۔ وہ ضرور گالیاں تھیں جنھوں نے اس سانحے کے پیش نظر بے شکل سا صوت اختیار کر لیا تھا۔ بیچ میں کُندن کو کَھٹ کَھٹ کی آواز سنائی دی، جیسے کوئی لکڑی کو چیرنے کے بجائے زمین پر مار مار کر توڑ رہا ہو۔ پھر لکھّی کے ہُونگنے کی آواز، جیسے اس نے افیون کھائی ہو اور اصل کی تائید اور نقل کی تردید کرنے کا جتن کر رہی ہو۔ کُندن نے اپنے بدن میں سے کوئی بجلی جھٹکی اور بنگلے کی طرف مُڑ آئی۔ راستے میں سرجُو کی طرف دیکھا تو اُسے ایک بچّہ دکھائی دیا ،جس سے ڈر کر وہ بھاگتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئی۔
تھوڑے حواس بجا ہوئے تو کُندن تپائی پر پڑی ہوئی کتابیں اُلٹنے پلٹنے لگی۔ ان پر کھڑکی میں سے آنے والے بے شمار لمحے بکھرے پڑے تھے، جن کے پَر جھُلسے ہوئے تھے اور بدن مردہ۔ کُندن نے اُوپر کی کتاب کو صاف کیا جس کا عنوان تھا —— ’’مرد، عورتوں کے بغیر—‘‘… اس نے کتاب کھولی، پہلی چند سطریں پڑھیں اور پھر بند کرتے ہوئے سوچنے لگی— ’’عورتیں، مردوں کے بغیر!‘‘
فادر ولیم اسکول کی وائس پرنسپل کماری کُندن ایم – اے، ٹی ڈپ کے بنگلے میں تین عورتیں تھیں اور تینوں ہی مردوں کے بغیر۔ پہلی ماںسُبھاشنی، جو اَب چھیاسٹھ سال کی ہو چکی تھی اور بے شمار لمحے اس پر ڈھیر ہو کر تہیں جما چکے تھے۔ اس کا نام آج کل کی لڑکیوں کا سا تھا لیکن اب تک اس نام کی سب لڑکیاں بوڑھی ہو چکی تھی۔ نئے نام پُرانے ہو چکے تھے اور نئی طرز کے وضع نہ ہوئے تھے اور لوگ مجبور ہو کر پُرانے ناموں پر لوٹ آئے تھے، جیسے — کُندن … جو نام کبھی بوڑھا تھا مگر اب جوان ہو چکا تھا۔ پچیس چھبیس برس کا،اور خوبصورت اور دمکتا ہوا۔ سُبھاشنی بدھوا تھی اور کُندن یتیم۔ اس نے تو باپ کا مُنھ بھی نہ دیکھا تھا اور زندگی بھراس کے لیے تڑپتی رہی تھی۔ ابھی وہ پیٹ ہی میں تھی کہ ماں کے بیان کے مطابق، کُندنی کا باپ چل بسا تھا۔ اس صدی کے شروع میں جو پلیگ پھیلی تھی اس نے موت میں سچ اور جھوٹ کو برابر کر دیا تھا۔ عجیب سی یکسانیت پیدا کر دی تھی۔ اس لیے جب مشن میں فادر مائیکل آسمانی باپ کے بارے میں باتیں کرتا تو کُندن ہمیشہ سوچنے لگتی،وہ تو مر چکا ہے، کسی زمینی پلیگ میں اور جب اسے کہا جاتا آسمانی باپ لافانی ہے، وہ کسی پلیگ میں نہیں مر سکتا ، تو وہ اسے ڈھونڈنے کے سلسلے میں قریب کے کسی بھی مرد پر عاشق ہو جاتی، چاہے وہ کیتھولک چیپلن ہی کیوں نہ ہو، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کیتھولک پجاری کبھی شادی نہیں کرسکتے۔
کئی بار کُندن نے چچا، تاؤ اور ددھیال، کے بارے میں پوچھا، لیکن ماں نے ہمیشہ دریچے سے باہر دیکھتے ہوئے کہہ دیا۔ سب مر کھپ گئے دوسری پلیگ میں… تیسری پلیگ کب آنے والی تھی؟ اور پھر ایکا ایکی متجسس نگاہیں کندن پر پھینکتی ہوئی ماں پوچھنے لگتی۔’’تو کیوں پوچھتی ہے؟‘‘
’’ایسے ہی‘‘ کُندن جواب دیتی اور پھر کہہ اُٹھتی۔ ’’ماں! آج ٹیچر نے مجھے یہ ریشمی رومال دیا تھا، مجھ سے بہت پیار کرتا ہے۔‘‘
سُبھاشنی نے اپنا رنڈاپا، اپنے چچیرے بھائی امولک رام کے ہاں کاٹ دیا تھا، جو امرتسر میں لاہول اور تبّت سے آئے ہوئے کُٹّھ کا بیوپار کرتا تھا—— کُٹّھ جو مرتے ہوئے آدمی میں بھی ایک بار تو زندگی کی لہر دوڑا دیتی ہے۔ وہ مرتا ضرور ہے لیکن اس سے پہلے وصیت کر جاتا ہے۔ سُبھاشنی نے کندن کے ساتھ ساتھ اپنی بھتیجیاں اور بھتیجے کھلائے تھے اور اس کے عوض روکھے سوکھے ٹکڑے پائے تھے۔ اسی لیے کُندن کی لوریاں اس کے لیے بھجن ہو گئی تھیں—— روکھا سوکھا رام کا ٹکڑا، سیٹھا کیا اور سلونا کیا… وہ بھابی کے پھٹے پُرانے پہنتی تھی، تو اکثر باہر نہ نکل سکتی تھی، کیوں کہ اس کا جسم جُوں کا تُوں بھرا ہوا تھا ،حالاں کہ بھابی کا خرچ کی وجہ سے چاند کی طرح سے گھٹتا بڑھتا رہتا تھا۔ بھابی کے کپڑوں میں پھنس پھنسا کر سُبھاشنی برہنہ معلوم ہوتی تھی۔ وہ ہمیشہ ایک جرم کے احساس اور اذیت پسندی کے جذبے میں نیچے ٹھنڈے فرش پر سوتی تھی اور ایک رہبانیت سی اس کے جذبات پر چھائی رہتی،جس میں اُداسی بھری ایک تسلّی تھی۔ اسے اس حدت کا احساس ہی نہ تھا جو مرد کے ساتھ والی چارپائی پر سونے سے عورت کے بدن میں اپنے آپ پیدا ہوتی رہتی ہے۔ پھر سوتے میں کبھی تکیہ اور لحاف وغیرہ ہوتے تھے اور کبھی نہ ہوتے تھے۔ سوائے سردی کے موسم میں ان کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پھر، سبھاشنی سوتی ہی کہاں تھی؟ جاگتی بھی کہاں تھی؟ وہ تو خواب اور بیداری کے اعراف میں روتی ہنستی رہتی اور بھجن اس کا سہارا ہوتے۔
جب نینن سے نیند گنوائی، تکیہ لیف بچھونا کیا
آخر—سمجھ بوجھ کچھ سوچ پیارے، پیار کیا تو رونا کیا؟
بھابی کی گالیوں کو سُبھاشنی نے ’’گھی کی نالیں، سمجھا اور مار پیٹ، دھکوں کو پھولوں کی چھڑیاں، اور یوں کُندن کو پڑھایا۔ باقی وہ وظیفوں اور سرکاری گرانٹوں سے آگے بڑھتی بڑھتی امریکا تک جا پہنچی۔ وہ خوب صورت تو تھی ہی، اس پر تعلیم نے اس کے حُسن کو اور بھی صیقل کر دیا تھا۔ آنکھیں بڑی بڑی تھیں جن میں بیسیوں شک تھے اور وسوسے۔ ایک عجیب سے ارتقا میں اس کی آنکھیں کانوں تک کھنچ آئی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا سامنے جاتی ہے تو پیچھے بھی دکھائی دیتا ہو گا۔ یا وہ ایسے ہی دیکھتی رہتی تھی جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ باپ نہ ہونے سے لڑکیوں کو کیسی کیسی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے… اس کے باوجود بارہ تیرہ برس ہی کی عمر میں کندن کو ایک ایسے مرد کے سلسلے میں تجربہ ہوا تھا جس کے بارے میں وہ کبھی سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ شاید وہ مر جاتی مگر کُٹّھ نے اس کی زندگی بچا لی، تاکہ وہ بڑی ہو کر یوکلپٹس کا پیڑ بو سکے۔ یہ سب ایک طرح سے اچھا ہی ہوا، ورنہ کُندن پڑھائی ہی کو شادی نہ سمجھتی۔
تیسری عورت لکھّی تھی ۔ کرسچین۔ وہ تیس ایک برس کی تھی اور محنتی ہونے کی وجہ سے تندرست۔ اس کا اصل نام لکھشمی رام داس تھا اور اس کے شوہر کا نام سِدّھُو۔ مگر کمیٹی اور گرجے کے رجسڑوں میں رام داس کچھ یُوں چڑھا کہ پھر نہ مٹا اور لکھّی آج تک نہ بتا سکتی تھی کہ رام داس اس کے باپ کا نام تھا، یا کسی پہلے شوہر کا۔ کبھی وہ اسے شوہر کا نام بتاتی اور کبھی باپ کا۔ اور پھر ایک ابتری کے عالم میں— ’’میرے باپ کا بھی وہی نام تھا جو میرے مرد کا۔‘‘
لکھّی کا یہ تیسرا مرد— سِدّھُو ، وہاں سے اکاون باون میل دُور کسی کولئری میں کام کرتا تھا۔ وہ سال میں صرف ایک دو بار آتا۔ جب اس کے کپڑے کویلے اور اس کی دھول سے اَٹے ہوتے اور چہرے پر سیاہیاں کھِنڈی ہوتیں۔ کچھ تو کویلے کی اور کچھ ایسے جرائم کی جن کا وہ بے اختیار مرتکب ہوتا،ان باتوں کے کارن وہ آپ ہی اپنا ہمزاد معلوم ہوتا تھا۔ وہ آتا تو نہایت ہی بد صورت دکھائی دیتا اور جب نہ آتا تو اس سے بھی زیادہ بد صورت…
سِدّھُو کا بھُوت بنگلے میں دکھائی پڑتے ہی ماں سبھاشنی اور کُندن پنجے جھاڑ کر لکھّی کے پیچھے پڑ جاتیں۔
’’کیوں تو ہر بار اس کے ساتھ راس رچا بیٹھتی ہے؟‘‘
’’جب وہ تیری ذمہ داری لیتا ہے، نہ تیرے بچّوں کی، اپنے…؟‘‘
’’سب مرد ایک ہی رسّی سے پھانسی دیے جانے کے قابل ہیں۔‘‘
مرد!… لکھّی پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھنے لگتی۔ کبھی سب غلط اور کبھی سب ٹھیک معلوم ہونے لگتا… ہاں، ہاں، ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں۔ سب مرد اس قابل ہیں کہ… میں ایک اور کر لوں گی، مگر نہیں… وہ بھی تو — پھر وہ ایکا ایکی خفا ہو اُٹھتی اور اپنا ہاتھ جوگی کی طرف لے جاتی۔ اس کے بعد سِدّھُو کا ہمزاد اس کی طرف آتا، نم آنکھیں لیے، ہاتھ جوڑے اور لکھّی کا ہاتھ جولی کی طرف جانے لگتا۔ پھر وہ دیکھتی۔ جب تک سِدّھُو کا ہاتھ لکھّی کے بدن پر پڑتا اور لکھّی کی گرفت ڈھیلی ہو جاتی ،آنکھیں چڑھنے، بند ہونے لگتیں اور وہ بے دم سی ہو کر گر جاتی ہے۔ اسے جب ہی پتہ چلتا جب اس کے پیٹ میں کیڑا رینگنے لگتا——
کرسچین ہونے کے ناطے لکھّی میں صبر تھا اور شکر بھی۔ لیکن کُندن نہ کرسچین تھی نہ مسلمان اور نہ ہندو۔ وہ ایک تعلیم یافتہ لڑکی تھی۔ وہ سوچتی تھی— کیا بکواس ہے، بچّہ ہمیشہ عورت کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ ایک دن تو آئے گا جب چاند، زحل اور مشتری تک پہنچنے والے عورت کی سوچ بچار کے، افلاک پر پہنچیں گے اور مرد کے ہاں بھی بچہ ہونے کا سامان کریں گے۔ آخر سارا سلسلہ تقلّب ہی کا ہے نا… مگر ایسے میں تو داڑھی اُگ آئے گی…!
ماں گرتے پڑتے چلی آئی۔ اس کے کالے بھُورے بال بھیگے ہونے پر بھی بکھرے ہوئے تھے۔ کچھ مُنھ پر ، کچھ جھکے جھکے شانوں پر۔ اس نے کس قدر جلدی میں اپنے ہاتھ پَیر خُون سے صاف کیے تھے، اس پر بھی بانات کی قمیص پر ایک چھچھڑا لگا ہوا تھا، جس کے بارے میں وہ نہ جانتی تھی۔ وہ گالیاں دے رہی تھی، تیز تیز اور بے ربط، اس کی آخری گالی تھی — ’’ایک اور لڑکی چلی آئی…‘‘
کُندن چونک کر اُٹھی۔ بچہ پیدا کر دینے کے بعد سنبھالنے کا کام کُندن کا تھا۔ جب وہ لکھّی کے کوارٹر کی طرف لپکی تو ماں کہہ رہی تھی۔ ’’ایک لائسن(لائیسنس) لے لو، کُندنا!… ابکے وہ حرامی آیا، تو میں اُسے گولی ماردوں گی۔‘‘
اور ماں سُبھاشنی اپنے تخیل میں لاش دیکھ رہی تھی اور رو بھی رہی تھی، جیسے ہر عورت اپنے بیٹے کی سرزنش کے بعد خود رونے بیٹھ جاتی ہے…
سُرجُو لہراتا رہا۔ ہر صبح و شام اسکول جانے سے پہلے اور لوٹنے کے بعد کُندن اُس کے پاس رُکتی اور اس کی نرم سی چھال پر ہاتھ پھیرتی، پیار کرتی… اور ماں سُبھاشنی دیکھتی، پُکارتی۔ ’’کُندنا! اب آ بھی جا۔‘‘
سُرجُو اب بیس پچیس فٹ لمبا ہو گیا تھا۔ کہیں سولہ سترہ فٹ اُونچا جا کر تو اس کے تنے پھوٹتے تھے اور پتے پھلیوں اور تموّوں کی طرح عموداً لٹکے رہتے ، جس کے کارن دوپہر کے سمے جب سائے کی ضرورت ہوتی، تو سُرجُو بیکار ثابت ہوتا۔ البتہ پہلے اور پچھلے پہر جب چھاؤں یوں ہی بدن میں کپکپی پیدا کرتی، تب یہ بھی لانبے اور گھنیرے سائے پیدا کرنے لگتا اور لکھّی کی تینوں چاروں بیٹیاں ریل ریل کھیلتی ہوئی، ایک دوسرے کا فراک تھامے، نیچے سے ننگی پیڑ کے نیچے چلی آتیں۔ اس کی آخری بیٹی ریوڑی بھی ——اپنا گول مٹول اور چتّی دار چہرہ لیے، جو پیڑ کے نیچے سے ریت کے لمحے اکٹھے کرنے لگتی۔
کُندن نے ماں کے کہنے پر بندوق کا لائسنس تو نہ لیا تھا، البتہ ایک اور بندوبست کیا تھا جو بندوق سے بھی مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ بندوق تو رات کے وقت بے کار بھی ثابت ہو سکتی ہے، لیکن وہ ہتھیار کبھی خالی نہیں جاتا۔ اس نے چاکلیٹ کے رنگ کا ایک کتّا رکھ لیا تھا جس کا منھ خوفناک تھا اور جبڑے کالے، جن میں سے ایک فٹ کی زبان ہمیشہ باہر لٹکی رہتی تھی۔ جیگُوار بہت مُوڈی کتّا تھا۔ سِدّھو کو بنگلے میں آنے دینا تو کُجا، کندن کو بھی اندر آنے کے لیے اس سے اجازت لینا پڑتی تھی۔
بچیوں سے جیگُوار البتہ مانوس ہو چکا تھا، کیوں کہ وہ چوبیس گھنٹے بنگلے میں رہتی تھیں۔
ایک دن لکھّی کو اُبکائیاں آنے لگیں اور بہت اِدھر اُدھر کی کرنے کے باوجود ماں کو پتہ چل گیا، اس کے پیٹ میں بچّہ ہے۔ وہ کیسے ہوا؟ لکھّی اس کا تسلّی بخش جواب نہ دے سکتی تھی۔ اس نے بڑی سے بڑی قسمیں کھائیں کہ وہ اپنے مرد کے پاس نہیں گئی ۔ ماں سُبھاشنی اور کُندن جانتی تھیں کہ ریوڑی کے بعد سِدّھُو بنگلے میں نہیں آیا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا تھا کہ لکھّی نے چوری چھُپے کوئی اور مرد کر لیا ، مگر لکھّی انکار کرتی تھی۔ وہ یہ بات بھی ’’سچ‘‘ کہتی تھی کہ اس نے کسی مرد کا مُنھ بھی نہیں دیکھا۔
نہیں دیکھا تو پھر یہ سب کیسے ہوا؟
بنگلے میں کہرام مچ گیا۔ لکھّی ایک طرف بیٹھی ہوئی تھی اور ماں بیٹی آپس میں لڑنے لگیں۔ ماں اس کتیا کو باہر پھینکوا دینا چاہتی تھی، مگر کندن اِس بات کی اجازت نہ دیتی تھی۔ اِتنے ڈھیر سارے بچے لے کر وہ کہاں جائے؟ ماں نے اپنے بھائی امولک رام کے ہاں چلے جانے کی دھمکی دی۔ کُندن نے بہت سمجھایا، پیروں پڑی، لیکن جب ماں باپ کی ہمسائی ہونے کو تیار نہ ہوئی تو کُندن نے صاف کہہ دیا——اچھّا ماں تم جاؤ تو جاؤ، میں لکھّی کو نہ نکالوں گی——‘‘
اس پر ماں خوب دھاڑیں مار کر روئی۔ یہ بیٹی میری… ماں کا جانا سہ سکتی ہے، لیکن لکھّی کا نہیں۔ لکھّی اس کی کیا ہوتی ہے؟ جبھی ماں کو بھابی کے ظلم یاد آئے اور اس نے بیٹی کے پیروں پر سر رکھ دیا اور سفید بالوں کا واسطہ دے کر معافی مانگ لی۔
لیکن پھر لکھّی سے وہی پوچھ گچھ شروع — ’’سچ بتا، کہاں سے لائی ہے؟‘‘
’’کہیں سے نہیں‘‘ لکھّی کہتی ’’اگر میں نے پاپ کیا ہو تو خداوند یسوع میری چاروں بیٹیوں کو لے جائیں۔‘‘
’’بیٹیوں کا کیا ہے؟‘‘ ماں کہتی۔ ’’وہ تو ہر عورت چاہتی ہے۔‘‘
کُندن ایک جھٹکے کے ساتھ بات کاٹ دیتی۔ ’’ماں——‘‘
ماں کُندن کی طرف دیکھتی…
’’میں بھی تیری بیٹی ہوں…‘‘ کندن آنکھوں میں شکایتیں، حکایتیں لیے ہوئے ماں سے کہتی ’’تو چاہتی ہے، پرماتما مجھے لے جائیں؟‘‘
ماں سُبھاشنی کُندن کے مُنھ پر ہاتھ رکھ دیتی، تاکہ وہ اس سے زیادہ اُشبھ اور اوگت والی بات نہ کہہ سکے اور پھر اپنی بیٹی سے لپٹ جاتی، کہتی ہوئی ’’کندنی‘‘ اور پھر’’ تو میری بات نہیں سمجھتی، میں بھی تو کسی کی بیٹی ہوں۔ میں بھی سوچتی ہوں میں کیوں اس سنسار میں چلی آئی؟ کیوں نہ پیدا ہوتے ہی مر گئی؟‘‘
اس بات کے مہینے ڈیڑھ کے بعد صبح کاذب کے قریب جیگُوار بہت غرّایا، بہت بھونکا لیکن وہ لوہے کی ایک موٹی سی زنجیر سے بندھا ہوا تھا۔ برآمدے کے جس ستُون کے ساتھ اسے باندھا گیا تھا، اپنی جگہ سے ہل گیا مگر زنجیر نہ ٹوٹی۔ اس کے یوں بے تحاشا بھونکنے سے ماں اور کندن نے لیمپ ہاتھ میں لے کر ایک دو بار باہر جھانکا بھی، مگر کچھ نہ دکھائی دینے پر خاموش ہو گئیں۔ صرف ماں نے اتنا کہا۔
’’یہ جیگُوار کو آج — — ہوا کیا ہے؟‘‘
’’جانے… بہت ہی بھونکا ہے۔‘‘
’’اُدھر ہی بھونکتا ہے، جس طرف سُرجُو ہے۔‘‘
کُندن نے بھی ایک بار اُدھر دیکھ لیا، حالاں کہ اندھی سی روشنی میں سُرجُو کی سفید چھال بھی سیاہ دکھائی دے رہی تھی۔ کندن بولی ’’ہاں، مامی! جانوروں کو وہ سب دکھائی دیتا ہے جو ہم انسان نہیں دیکھ سکتے۔‘‘
اور کندن نے پٹے سے گھسیٹتے ہوئے جیگُوار کو اندر ڈرائنگ روم میں باندھ کر دروازہ بند کر دیا۔ ہاں، اب سِدّھو آ بھی جاتا تو کیا بگڑتا؟
لیکن پو پھٹے جب منھ میں بُرش لیے، کاندھے پر تولیہ رکھے، نائٹ گون میں ملبوس کُندن باتھ روم سے بغلی کمرے میں داخل ہونے لگی تو اسے اپنی نگاہوں کے سامنے یوکلپٹس کے نیچے کوئی سفید سی چیز دکھائی دی۔ وہ پہلے ٹھٹھکی اور پھر سنبھلتی ہوئی اس کی طرف بڑھی۔ معلوم ہوتا تھا کوئی بیٹھا ہوا ہے اور دُعا پڑھ رہا ہے۔ جبھی ایک سفید فرغل پورے قد میں سامنے کھڑا ہو گیا۔ کسی آدمی کا چہرہ دھُندلا سا دکھائی دے رہا تھا…
’’کون ہے؟‘‘ کندن نے فرغل سے چند ہاتھ پر رُکتے ہوئے پُوچھا۔
فرغل نے کوئی جواب نہ دیا۔ صرف پچھم سے آنے والی ہوا سے وہ تھوڑا سا ہلا۔ کندن ایک قدم اور آگے بڑھی اور اپنی نظروں کے کیمرے کا پورا ڈایافرام کھولتے ہوئے ایک دم چلاّئی—— ’’باب!‘‘
پھر وہ برش ، تولیہ وغیرہ پھینکتے ہوئے دونوں بازو پورے پھیلا کر باب کی طرف لپکی۔ باب جامد و ساکت کھڑا تھا۔ کُندن اس سے لپٹ گئی…’’باب… باب…‘‘
باب کے ہاتھ فرغل میں تھے۔ وہ ساکت تھا۔ اس نے کہا بھی تو اتنا "Keep Away”
کُندن بھونچکی رہ کر تھوڑا پیچھے ہٹ گئی اور نگاہوں میں معمے لیے بابی فشر کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی۔ دن صاف ہونے لگا تھا اور صبح مشرق کے پرتو میں اس کی آنکھوں کے نمناک کونے دکھائی دے رہے تھے اور چہرے پر گناہوں کے احساس، جو بہت سی غیر فانی چیزوں کی طرح سے کبھی نہیں مرتے۔
کندن نے پوچھ ہی لیا۔ ’’امریکا سے کب آئے؟‘‘
’’رات‘‘ بابی فشر نے وہیں سے جواب دیا۔’’پین ایم سے… پھر مائیکل کی کار میں۔‘‘
کُندن ایکا ایکی بھڑک اُٹھی۔ غصّے اور رقت میں ڈوبی آواز سے بولی ’’کیوں؟‘‘ کیوں آئے تم؟ کیا ضرورت تھی؟… چلے جاؤ یہاں سے۔‘‘
بابی فشر جوں کا توں کھڑا رہا۔
کُندن نے ہانپتے ہوئے پیچھے کی طرف آواز دی—— ’’جیگُوار…‘‘
جیگُوار کندن کے پکارنے سے پہلے ہی بھونک رہا تھا۔ اسے کوئی بُو آ گئی تھی، اور وہ زنجیر تُڑا تُڑا کر باہر آنے، اس اجنبی کو کچا چبا جانے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ کُندن اسے کھول کر فادر فشر پر چھوڑ دینے کے لیے لپکی، لیکن پھر لوٹ آئی اور سامنے دکھائی دینے والی برف کی سِل پر یورش شروع کر دی۔ وہ سِلیں توڑ رہی تھی اور چلاّ رہی تھی ’’باب، باب، بولو، کچھ تو بولو…‘‘
کندن کا جسم ساتھ لگتے ہی فادر فشر کی پاکیزگی کے ہمالے اور اس کے وطن کے اینڈیز پگھلنے پسیجنے لگے۔ چند لمحے پہلے سردی میں ٹھٹھرنے والے دو جسموں پر کوئی لحاف سے چلے آئے، جنھیں اُتار، ایک طرف پھینک کر باب بولا ’’پرے ہٹ جاؤ … تم عورتیں سمجھتی ہو، مردوں کے عصمت ہی نہیں ہوتی؟‘‘
کُندن نے تھوڑا پیچھے ہٹ کر بابی کی روح میں جھانکا اور کانپتی ہوئی منت اور آہ و زاری پر اُتر آئی——
’’میں نے عورت ہو کر تمھیں معاف کر دیا، باب… اور تم…‘‘
’’میرے اور تمھارے درمیان—— میں عورت ہوں‘‘
بابی اپنا آپ چھڑا کر، سینے پر کراس پیدا کرتا ہوا چل دیا اور کندن پھاٹک تک اس کے پیچھے بھاگتی، پکارتی گئی—— ’’باب…باب…‘‘
اور جب باب نہ پلٹا تو کندن وہیں کھڑی ہو گئی اور اسے جاتے دیکھتی رہی۔ پھر اُسے خیال آیا۔ شاید…
اور اس نے ایک بار پھر بلند آواز میں پکارا— فا…د…ر…‘‘ اور اس کی آواز بے شمار گھاٹیوں اور ان کی سیاہ تہوں میں گرتی، جذب ہوتی ہوئی دکھائی دی۔
ماں نے باب فشر کو نہ دیکھا تھا—— ’’بیٹا! تم کس سے باتیں کر رہی تھیں؟‘‘ اس نے پوچھا؟
کُندن نے اپنی آنکھوں سے مایوسیاں پونچھ ڈالنے کی بیکار کوشش کی اور نیچے دیکھتی ہوئی بولی— ’’اپنے آپ سے‘‘
لکھّی پر اب تک سوالوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔ ’’سچ بتا، کون تھا؟‘‘… یہ اپجس کی گانٹھ کہاں سے لائی؟‘‘
’’تم تو یہ مت پوچھو، ماں۔‘‘
ماں ایکا ایکی ڈر گئی۔ اس نے بیٹی کے چہرے پر دیکھا اور کچھ مطلب ڈھونڈنے کی کوشش کی۔
کُندن نے بالقصد چہرے پر ایک معصومیت لاتے ہوئے کہا ’’ہم عورتیں ہیں… ہمیں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں ماں۔ کیا یہ کافی نہیں کہ وہ بچہ ہے…؟‘‘
’’اگر پھر لڑکی ہو گئی تو ؟‘‘
’’لڑکی کیا انسان نہیں ہوتی؟‘‘
’’ہوتی ہے، مگر…‘‘
اور پھر سب باتیں ان چند سوالوں میں گم ہو گئیں جو عورت سے ازل سے پوچھے جا رہے ہیں اور ابد تک پوچھے جائیں گے۔ جن کا وہ کبھی جواب دے گی اور کبھی نہ دے سکے گی اور دے گی بھی تو اس پر ہزاروں دباؤ ہوں گے… سماجی، اخلاقی… اور بچے کو کچھ پتہ نہ ہو گا اور ماں ڈری، سہمی رہے گی۔
گرجے میں لکھّی نے ’’کنفیشن‘‘ کیا تو ایک اور ہی صورت پیدا ہو گئی جس نے فادر مائیکل ، فادر روبیلو، سسٹر سپیرئیراینجلا کو بھگدڑ میں ڈال دیا۔ بابی فشر ابھی تک یہیں تھا اور دم سادھے ہوئے باتیں سُن رہا تھا۔ لکھّی نے کہا —— ’’وہ خواب میں آیا تھا۔‘‘
اس پر معاملہ اور ابتر ہو گیا۔ ’’کون؟‘‘ سسٹر اینجلا نے پوچھا۔
کُندن بھی وہیں تھی۔ اس نے لکھّی کی مدد کرنے کی کوشش کی ’’سِدّھُو؟‘‘ اس نے کہا مگر لکھّی نے نفی میں سر ہلا دیا۔ سب اور بھی حیران ہو کر جواب کے منتظر ہو گئے۔ لکھّی نے اُچٹتی ہوئی نظر سے سب کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں جھُکاتی ہوئی بولی— ’’رام داس۔‘‘
کمیٹی اور گرجے کے رجسٹروں میں رام داس ہی کا نام تھا…
لکھّی قسمیں لے رہی تھی جن پر کوئی یقین کرے تو مرے، نہ کرے تو بھی مرے۔
عشائے ربّانی کی یہ شرکت ختم ہوئی۔ حیران و پریشان کُندن نے سسٹر اینجلا کو ایک طرف لے جاتے ہوئے کہا۔ ’’خواب میں آیا تھا… کیا یہ ہو سکتا ہے سسٹر؟‘‘ سسٹر اینجلا نے خود بوکھلاہٹ کے عالم میں ایک مُہمل سا جواب دیا ’’کیوں نہیں؟—— اگر سچ کہتی ہے، لکھشمی رام داس!‘‘
فرداً فرداً فادر روبیلو اور فادر مائیکل نے بھی کچھ ایسے ہی جواب دیے۔ گرجے سے باہر سلیٹ سے بنے ہوئے راستے پر کندن نے فادر فشر کو پکڑ لیا اور پوچھا’’کیا یہ ہو سکتا ہے؟‘‘
فادر فشر نے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر کُندن سے کہا ’’نہیں۔ ‘‘
کُندن چونک گئی اور بولی ’’فادر… تم ایک کیتھولک پادری ہو کر اس بات کو نہیں مانتے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں نہیں؟‘‘
’’اس لیے کہ خدا کے بیٹے اور انسان کے بیٹے میں فرق ہے… میرا خیال ہے، کہیں رات کے وقت سِدّھُو چپکے سے چلا آیا ہو گا۔‘‘
کُندن کو ماں کا فقرہ یاد آیا۔ ’’اُتپتی کے سب کام پرماتما اندھیرے میں کرتے ہیں۔‘‘ مگر فادر فشر کو آخر حد تک پہنچانے کے لیے کندن بولی’’سِدّھُو یا رام داس؟‘‘
’’سِدّھُو۔‘‘
’’رام داس کیوں نہیں؟‘‘
’’رام داس کوئی حقیقت نہیں رکھتا… اس کا کوئی وجود نہیں۔ وہ تو صرف نام ہے رجسٹر میں۔‘‘
’’ہاں مگر‘‘ کندن نے ضِد کی ’’آیا بھی تو لکھّی کو پتہ نہ چلا ہو گا؟‘‘
’’تم تو جانتی ہو‘‘ فادر فشر نے کندن کی نگاہوں کو ٹالتے ہوئے کہا… ’’پھر خواب کتنا گہرا ہو جاتا ہے…‘‘
کُندن جذبات سے معمور ہو گئی— ’’باب‘‘ اس نے کہا۔ ’’تم ایسا سمجھتے ہو، تو کیوں نہیں یہ مشن چھوڑ دیتے؟ کیوں نہیں شادی——‘‘
باب فشر نے کندن کو وہیں روک دیا۔ صرف اتنا کہہ کر —— ’’نہیں۔‘‘
’’تم کیوں نہیں سمجھنے کی کوشش کرتے، باب؟ اس دُنیا کے سب دھندے کرتے ہوئے آدمی پادری سے بھی بڑا ہو سکتا ہے، یسوع ——‘‘
باب نے پھر ٹوک دیا۔ ’’تم نہیں سمجھ سکتیں…‘‘
اور فادر فشر ایک ایک قدم سے دو دو سلیٹیں پھاندتا ہوا واپس گرجے میں چلا گیا۔ پھر مَیری کے حضور میں دعائیں کرنے، رات کو اپنے مجرّد بستر پر سونے اور روز آدھی رات کے وقت اُٹھ کر شیو بنانے اور پھر سو جانے۔ اس کے کچھ دن بعد فادر فشر ہمیشہ کے لیے میڈیسن، دس کوسن چلا گیا۔
اب کے زچگی کے سلسلے میں لکھّی کو بہت کڑی ہدایات تھیں، بلکہ کُندن نے ایک سستی مگر چُست چالاک سی دایا طے کر رکھی تھی۔ شہر پانچ میل دور تھا اور وہاں کے اسپتال کی بیڈز بعض وقت ارجنٹ کیس کے لیے بھی خالی نہ ہوتی تھیں۔ میٹرنٹی کا خرچ برداشت کرنے کی لکھّی میں ہمّت نہ تھی۔ کُندنی مدد کرسکتی تھی ،مگر ایک حد تک۔
مگر لکھّی زچگی کے سلسلے میں کوئی بھی مصارف برداشت کرنے کو تیارنہ تھی۔ماں سُبھاشنی نے سیخ پا ہو کر کہا—مر جائے گی، کمینی۔‘‘
’’ٹھیک ہے‘‘ لکھّی نے گھڑا سا سر ہلا دیا۔ ’’چھُٹی ہو جائے گی۔‘‘
’’یہ چھوکریوں کی لام کون سنبھالے گا؟‘‘
’’خدا، جس نے پیدا کیا۔‘‘
’’اُنھیں پیدا کرنے میں تیرا کوئی ہاتھ نہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
اور ناک ناک تک بھرے ہونے کے باوجود، شرارت سے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے لکھّی مسکرا دی۔ اس کا مطلب تھا یہ خدا ہی ہے، جو عین وقت پر عقل پھرا دیتا ہے، کسی اپنے ہی کھیل کے لالچ میں۔
اور تو سب ٹھیک تھا لیکن چتّی دار چہرے والی ریوڑی ابھی بہت چھوٹی تھی اور کندن کو اس کی طرف دیکھ دیکھ کر رحم آتا تھا۔ وہ اب تک مکمل طور پر ماں کو اپنا سمجھے ہوئے تھی۔ ماں ہی اس کا اوڑھنا بچھونا تھی اور ماں ہی اس کی روٹی۔ اسے کیا معلوم چند ہی دن کے بعد لکھّی اسے نہ پوچھے گی۔ اس لیے نہیں کہ وہ پوچھنا نہ چاہے گی، بلکہ دوسرے بچّے کے سلسلے میں اُلجھی ہونے کے کارن اسے وقت ہی نہ ہو گا اور اگر کہیں لڑکا پیدا ہو گیا، تو … نہیں، اس بنگلے کا قانون ٹوٹ جائے گا، یہ لکھّی جانتی تھی اور سُبھاشنی اور کندن بھی۔
دایا دن میں دو ایک چکر کاٹ جاتی تھی تاکہ لکھّی کے چہرے پر شکن بھی دکھائی دے تو ماں کو خبر کر دے۔ اس کے ساتھ طے ہی یہ تھا کہ وقت نبھا گئی تو لکھّی کی تنخواہ سے دس روپئے کاٹ کر اسے دیے جائیں گے اور میم صاحب، کُندن بیس روپئے اپنی جیب سے دے گی اور ساتھ دھوتی بلاؤز یا فراک کا کپڑا۔ گیدرڈاسکرٹ…
ایک دن دوپہر کے قریب دایا آئی تو لکھّی ہنس ہنس کر اس کے ساتھ باتیں کرنے لگی۔ دایا کو خود بہت اچنبھا ہوا۔ اس نے تو کوئی ایسی بات نہ کی تھی جس پر کوئی ہنس سکے۔ اس کے تھوڑی دیر بعد لکھّی پھر کھلکھلا کر ہنس دی۔ دایا اس کا مُنھ دیکھنے لگی اور ڈر گئی۔ اس کے پڑوس میں ایسے ہی ایک کنٹری عورت بیٹھے بیٹھے پاگل ہو گئی تھی مگر وہ ہنسنے کے سوا اور کوئی بات ہی نہ کرسکتی تھی، لیکن لکھّی— بات بھی کرتی تھی اور ہنستی بھی تھی۔ دایا لکھّی کی ہنسی سے مایوس ہو گئی اور سوچتی ہوئی چلی گئی۔ ابھی ہفتہ بھر کوئی خطرہ ہی نہیں۔
دایا کے جاتے ہی لکھّی رونے لگی۔ وہ اتنا ہی روئی تڑپی ، جتنا وہ ہنسی تھی۔ وہ ایک ایسے جری پن سے جو عورت ہی کا حصّہ ہے، اپنے درد کو دباتی رہی، حتی کہ شام کے سات بج گئے۔
کُندن اسکول سے لوٹ کر ایک کتاب پڑھ رہی تھی اور کھانے کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ ماں دال بینتی ہوئی رسوئی کی طرف سے کوئی ضروری بات کہنے کے لیے آئی کہ ایک دلدوز چیخ سنائی دی۔
’’یہ ——؟‘‘ ماں نے کہا۔
’’لکھّی کی آواز…‘‘ کندن بولی۔ اور پھر یہ دونوں اندھیرے میں لکھّی کے گھر کی طرف دیکھنے لگیں۔
’’ہائے سرب ناخوش‘‘ ماں نے ما تھا اور چھاتی پیٹتے ہوئے کہا ’’دایہ تو کہہ گئی ہے، ہفتے بھر کوئی خطرہ نہیں…‘‘ اس کے بعد اور ہو ہائے سنائی دینے لگیں۔ ماں سُبھاشنی کی بے نقط گالیوں کا تانتا بندھنے لگا۔ بیچ میں جیگوار کے بے تحاشا بھونکنے کی آواز شامل ہو گئی۔
لیکن ماں سُبھاشنی پھسکڑا مارے بیٹھی تھی اور اس بات کے انتظار میں تھی کب یہ آواز ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ کُندنا زندہ تو اس کُتیا کو گھر سے جانے نہ دے گی، البتہ مُردہ نہ رکھ سکے گی۔ اس نے کُندن کو بھی روک لیا— ’’اگر تو جائے تو میرا مرا منھ دیکھے۔‘‘
کُندن رُک گئی، لیکن اس کا انگ انگ پھڑک رہا تھا اور چیخیں سُن کر اس کے قدم دروازے کی طرف اُٹھے اور پھر ماں کے ڈر سے رُک گئے۔ اس نے ملتجیانہ نظروں سے ماں کی طرف دیکھا، جو پتھر بنی بیٹھی تھی۔ اندر سے وہ کیوں اور کس بات کے خوف سے کانپ رہی تھی؟ اس کا کُندن کو بھی اندازہ نہ تھا۔ شاید وہ بھی سل بنی بیٹھی رہتی لیکن ایکا ایکی کھلے دروازے میں سے ریوڑی چلی آئی— روتی ہوئی، متوحش اور مادر زاد ننگی…
کُندن سے نہ رہا گیا۔ وہ بولی۔ ’’میں جاؤں گی…‘‘
’’کندنا‘‘ ماں نے آواز دی۔ ’’میں کچھ کھا لوں گی۔‘‘
اس پر بھی کُندن نہ رُکی اور کوارٹروں کی طرف لپک گئی۔ ماں کو وہ دن یاد آیا، جب میں نے اپنے بھائی امولک رام کے ہاں چلے جانے کی دھمکی دی تھی اور کندن اسے ہمیشہ کے لیے بھیج دینے کے لیے تیار ہو گئی تھی۔ آج اسے ماں کے مر جانے کی بھی پروا نہ تھی۔ یہ کیا رشتہ تھا کُندن کا اور لکھّی کا؟ سُبھاشنی اُٹھی اور اپنی ’’کچی کنواری‘‘ بیٹی کو اس کریہہ منظر سے بچانے کے لیے ریوڑی کو دھکا دے کر باہر نکل گئی۔
دو گھنٹے ماں بیٹی کُشتی کرتی رہیں تب کہیں نو ساڑھے نو بجے ولادت ہوئی۔ ’’حرامی‘‘ بچہ پیدا ہو گیا، لیکن مرا ہوا۔ وہ لڑکا تھا—!
پیدائش کے فوراً بعد، لڑکے اور لڑکی تو کیا، زندگی اور موت سے بھی بے خبر لکھّی ایک میٹھی نیند سو گئی۔ ایسی نیند جو اس جانکاہی کے بعد ہی آتی ہے اور جس کا احساس مرد کو کبھی نہیں ہوتا۔ کُندن کو یاد آیا— لکھّی نے ایک بار دُعا مانگی تھی… ’’خدایا! ایک بار، صرف ایک بار میں لڑکا پیدا کرکے دیکھ لوں، چاہے وہ مرا ہوا ہو۔‘‘
رات کے اندھیرے میں حقیقت کی راہیں ٹٹولتی، گرتی پڑتی ہوئی کُندن مشن میں پہنچی، جہاں مقدّس مریم اور اس کے اور بھی مقدّس بچے کا آئیکون تھا، جس کے سامنے وہ دو زانو ہو گئی۔ وہ جو ایک کرشچن سے بہت بڑی تھی، دائیں بائیں طرف دو بڑی سی موم بتیاں کانپنے لگیں، جن سے آئیکون متحرک ہو گیا اور مقدّس ماں، بچّے کو گود میں لیے کندن پہ مُسکرانے اور اس سے باتیں کرنے لگی۔ جبھی فادر مائیکل آیا اور کُندن کو مسیح کو بھیڑوں میں شامل ہوتے دیکھ کر مسکرا دیا ،لیکن جبھی اس کے ہونٹ بھنچ گئے اور اس نے بچّے کا فاتحہ پڑھنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ کرشچن ہوئے بغیر مر گیا تھا، شراب اور پانی کے ساتھ اس کا بپتسمہ نہ ہو سکا تھا…
صبح کندن کو ایک اور ہی مسئلہ درپیش تھا۔ بچّہ کرشچن تھا اور نہ مُسلمان… نہ ہندو … کون اسے اپنے قبرستان میں دفنانے دے گا۔ شمشان میں جلانے دے گا۔ ہر کوئی یہی پوچھے گا—— اس کے باپ کا نام کیا ہے؟
ماں نے بنگلے کے ایک کونے میں گڑھا کھود لیا، بچّے کو دفنانے کے لیے۔ لکھّی گھسٹتی ہوئی چلی آئی۔ اس کے ہاتھ میں لکڑی کا ایک کھوکھا تھا جس میں مشنریوں کے لیے شراب آئی تھی اور جسے انھوں نے بپتسمے وغیرہ کے لیے استعمال کیا تھا۔ وہی کھوکھا بچّے کا تابوت بنا۔ کھوکھے میں بچّے کو ڈالنے سے پہلے لکھّی نے ماں سے کہا— ’’ماں!— ایک بار، صرف ایک بار مجھے میرا بیٹا دے دے…‘‘
ماں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے بچّے کو لکھّی کے بڑھے ہوئے ہاتھوں میں دے دیا۔ لکھّی نے بچّے کو گود میں لے لیا۔ اس کی طرف دیکھا اور ایکا ایکی جھُک کر اس کے لڑکے پن کو چُوم لیا۔ اور پھر اسے ماں کو لوٹاتے ہوئے بولی—— ’’لے ماں۔‘‘
تابوت کو گڑھے میں اُتار کر اس پر مٹی ڈالی گئی تو وہ بھی لمحوں کا ایک ڈھیر، ایک ٹیلہ بن گیا۔ کندن… کندن کہاں تھی؟ تھوڑی ہی دیر میں وہ نیچے سے آتی ہوئی دکھائی دی۔ اس کے ہاتھ میں سُرجُو کا ایک بُوٹا تھا جسے وہ کہیں سے کھود لائی تھی۔
’’یہ اس پر لگا دو، ماں‘‘ وہ بولی۔
ماں نے دیکھا اور اس کے ہاتھ سے کھُرپی گر گئی۔ اُس نے ایک تیز سی نظر سے سُرجُو— یوکلپٹس کے پیڑ کی طرف دیکھا اور پھر ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں میں، ایک جست کے ساتھ اپنی بیٹی سے لپٹ گئی۔ ماں بیٹی دونوں ایک مشترک غم میں رو رہی تھیں۔
سب باتوں سے فارغ ہو کر بنگلے کے برآمدے میں بیٹھتے ہوئے ماں نے کُندن سے کہا’’بیٹا! جو ہوا سو ہوا، اب تو شادی کر لے۔‘‘
کُندن ماں کی آنکھوں میں دھنستے ہوئے بولی۔’’جب——تم نے کیوں نہ کی، ماں؟‘‘
’’تم جو تھیں —— میرا سب کچھ‘‘ ماں نے جواب دیا اور نظریں بچا لیں۔
کُندن نے ماں کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور بولی ’’ادھر میری طرف دیکھو، ماتی! میں شادی کروں گی!‘‘
٭٭٭
ماخذ:
http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید