FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

یادِ حرم

(سفرنامۂ حج و عمرہ و زیارتِ مدینہ)

 

 

               محمد حماد کریمی ندوی

hammadkarimi93@gmail.com

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

مقدمہ

 

حج اسلام کے ارکان میں سے پانچواں رکن ہے، توحید ورسالت کے عقیدہ کی گواہی کے بعد، دن و رات میں پانچ اوقات کی نماز کے ذریعہ بندہ کا اپنے معبود سے رابطہ ہوتا ہے، پھر زکوٰۃ ایک ایسی مالی عبادت ہے، جس کے ذریعہ اللہ کی خاطر جہاں نفس کا تزکیہ ہوتا ہے، مال پاک کیا جاتا ہے، بخل سے آزادی حاصل کی جاتی ہے، وہیں حقوق العباد کا بھی ایک اہم مظہر ہے، جس کے لئے اللہ کے بندوں کی مدد کا ایک ایسا نظام عطا فرمایا گیا ہے، جس سے معاشرہ میں ہمواری اور جذبات ہمدردی کے ساتھ اخلاقی قدریں زندہ ہوتی ہیں، روزہ تو سرتاسر اللہ کی بندگی کا ایک ایسا رازدارانہ عمل ہے، جس کو اللہ ہی جانتا ہے اور جس کی جزا وہی بطور خاص دے گا۔

ان سب ارکان میں حج ایک تاریخ ساز، اور انسان کی زندگی میں ایک بڑا انقلابی کردار ادا کرنے والی جانی اور مالی عبادت ہے، جس کی ہر ادا عاشقانہ، اور فدائیانہ ہے، جس کا راست تعلق اللہ کی تجلیات کے گھر سے ہے، جس کا دائرہ کار سرزمینِ حرم ہے، جس کے اعمال دنیا کی ایک عظیم اور یادگار تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں، منیٰ، عرفات، مزدلفہ، ہر ہر مقام جس کا یادوں سے بسا ہوا، شعائر الہٰی کا مظہر، اور انوار و تجلیات کا مرکز ہے، اس کو عمر میں صرف ایک مرتبہ فرض کیا گیا ہے، نماز سال میں کم از کم ایک ہزار سات سو ستر بار، اور روزہ و زکوٰۃ سال میں ایک بار، لیکن حج کی اہمیت، عظمت، وسعت، اور اثر انگیزی کا یہ مظہر ہے کہ عمر میں ایک بار ہی فرض ہے، پھر جو چاہے بار بار اس عمل کو دہرائے، لیکن دیگر فرائض کی ادائیگی کے بعد ہی پھر اس نفلی عمل کی گنجائش ہو گی۔

حج کے سفر پر جب پہلی مرتبہ بندۂ مومن نکلتا ہے، تو اس کی نفسیاتی، جذباتی، اور وجدانی کیفیت عجیب ہوتی ہے، ایک خواب اور ایک تخیل و تصور کی دنیا کے سفر کے بعد جب مشاہدات کا مرحلہ آتا ہے، تو اس کا کیف صرف ’’شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘‘ کا ہی نہیں ہوتا، یہ تو ہر نئی چیز کا حال ہوتا ہے، بلکہ اس سفر میں تو میقات کے مرحلہ سے ہی اسے ایک ایسے تجربہ سے گذارا جاتا ہے جو زندگی کا نیا تجربہ ہوتا ہے، پھر سرزمین حرم میں داخلہ کا شعور، پھر مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین کے چپہ چپہ کی رفعت اور تقدس کا احساس، اور آخر قبلۂ دین و ایمان، قبلۂ نماز و حج، قبلۂ دل و نگاہ، قبلۂ روح و قلب، آسمانی بیتِ معمور کا زمینی جلوۂ صد رنگ، جب اپنے جلال و جمال، اپنی دیدہ زیبی و رعنائی، اور دلکشی و دلربائی کے ساتھ نظر آتا ہے، تو سر کی آنکھیں، دل کی نگاہوں سے چار ہو کر، اللہ، رب، معبود، مسجود کی بارگاہ جلال و جبروت، میں ایسی گم ہو جاتی ہیں کہ پڑھے ہوئے اوراق گویا گم ہو جاتے ہیں، اور مشاہدات کی حیرانیاں فزوں تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔

لمحات کی یہ کیفیت شعائر اللہ کے دیگر مظاہر کے ساتھ درجہ بدرجہ ہوتی ہے، پھر سکینت، محبت، اور جاذبیت کا ماحول وجود میں آتا چلا جاتا ہے۔

عزیزم مولوی محمد حماد کریمی ندوی، دار العلوم ندوۃ العلماء کے فارغ التحصیل، اور اس کے ایک فرزندِ ارجمند ہیں، انہیں توفیقِ الٰہی سے دارالعلوم سے فراغت کے سال حج و عمرہ کی دولت نصیب ہوئی، انہوں نے اپنی زندگی کے اس تاریخی سفر کی روداد تیار کی، حج کا یہی روزنامچہ ہے جس کو وہ قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں، حج کے سفرنامے بہت سے ہیں، اور ہر سفرنامہ اپنی الگ چاشنی رکھتا ہے، حج کی یہ یادیں حاجی کو تو عزیز ہوتی ہی ہیں، ہر صاحب ایمان کو بھی ان میں اپنے ذوق کی کوئی چیز مل جاتی ہے، اور حرمین شریفین کا تذکرہ تو سرتا پا نور علی نور ہے، اللہ ان کے حج و عمرہ و زیارت کو خوب قبولیت سے نوازے، اور اس روداد کو بھی یادگار بنائے، آمین۔

(مولانا) سید سلمان حسینی ندوی

۱۷/محرم الحرام/۱۴۳۵؁ھ

 

 

 

 

پیش لفظ

 

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

والحمد للّٰہ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین، وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، اما بعد!

 

حج ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم ترین عبادت ہے، جس سے قلب و نگاہ دونوں شادکام ہوتے ہیں، اس سفرمیں ایک مؤمن ذوقِ ایمانی اور لذتِ روحانی کی ان کیفیات کا ادراک کرتا ہے، جو اس کے ایمان کی حرارت کو تیز اور شوقِ دیدار کو مہمیز کرتی ہیں، ا متِ محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلامکا کون ایسا فرد ہو گا، جس کو وہاں جانے اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کا اشتیاق نہ ہو۔ اور جن خوش نصیبوں کو یہ دولت بیش بہا حاصل ہے، وہ مدتِ عمر وہاں کے نظاروں کو اپنی نگاہوں میں بسائے ہوئے اور مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کی یادوں کو سینہ میں لگائے ہوئے رہتے ہیں، اور درِ دولت پر حاضری کی تمنا ان کے دلوں میں رہ رہ کر چٹکیاں لیتی رہتی ہیں۔

سفر حج کے احوال و کیفیات کو قلمبند کرنا بھی اسی بیت جانے والے لمحات کو عمرِ دوام عطا کرنے کا ایک ذریعہ ہے، جس سے کاتب اور قاری دونوں کے اندر ایمان کی انگیٹھی کو گرم رکھنے کے لئے ایندھن فراہم ہوتا رہتا ہے، عزیز گرامی مولوی محمد حماد کریمی سلمہ کو اللہ تعالی نے نوجوانی ہی میں حج بیت اللہ کی دولت عطا فرمائی، اور انھوں نے اپنے سفر حج کے احساسات و کیفیات کو عمدہ طریقہ سے مرتب کیا ہے، عزیز موصوف ابھی تعلیمی مرحلہ طے کر رہے ہیں، ان کی یہ کاوش ان کے روشن مستقبل کا پتہ دیتی ہے، دعا ہے کہ اللہ اس کو قبولیت سے نوازے، اور مصنف کو علم و عمل میں مزید ترقی سے نوازے۔

۲۲؍ محرم الحرام ۱۴۳۵ھ                     ( مولانا)خالد سیف اللہ رحمانی

۲۷؍ نومبر ۲۰۱۳ء                                  ( المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد)

 

 

 

 

دعائیہ کلمات

 

خالقِ لوح و قلم و عرش و فرش، حاکمِ جن و بشر و فلک و ملک، مالکِ بحر و بر وشمس و قمر اور قادرِ مطلق و معبودِ برحق کے پسندیدہ و چنیدہ دینِ اسلام کا آغاز کلمۂ طیبہ لا الٰہ الّا اللّٰہ، محمد رسول اللّٰہ کے اقرار(اللہ ورسول پر ایمان) سے ہوتا ہے، نماز سے ایمان نکھرتا اور باطل بکھرتا ہے، اور ربِ کائنات سے راز و نیاز کا طریقہ و قرینہ اور ڈھنگ وسلیقہ عطا ہوتا ہے، اسی لئے نماز کو حدیث میں مؤمن کی معراج کہا گیا ہے، زکوٰۃجودوسخا کے جذبہ کو ابھارتی ہے اور کمزور و بے زور پر ترس کھانے کے شوق کو نکھارتی ہے، روزہ شکر و صبر کی انمول دولت سے مالامال و نہال کرتا ہے اور خدا کی پاکیزہ مخلوق فرشتوں کی صفات سے باکمال وبا جمال بناتا ہے، جبکہ حج جیسی عظیم الشان عبادت و اطاعت اور کعبۂ مقدسہ کے دیدار و مدینہ منورہ کی زیارت سے ایمان تازہ و بے اندازہ زیادہ ہو کر مکمل ہو جاتا ہے، اسی لئے حج کو اسلام کا تکمیلی رکن کہا جاتا ہے، جس کی تائید مقامِ عرفہ میں نازل ہونے والی اس آیت کریمہ سے ہوتی ہے:{الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً}[المائدہ:۳] آج میں نے تمہاری خاطر تمہارا دین مکمل کر دیا ہے، اور اپنے انعامات (اپنا واضح قانون دے کر) تم پر تمام کر دیئے ہیں، اور اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا ہے، (پسند تو ازل سے تھا، اس کا آج آخری اظہار و اعلان کیا جا رہا ہے)۔ (ترجمہ،از:حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی دامت برکاتہم)

خدائے پاک کا شکر ہی شکر ہے کہ اس نے محض اپنی عنایت و نوازش اور بے پناہ لطف و کرم کی بارش کے صدقے میرے بیٹے (عزیز، سراپا لذیذ، اللہ بنائے ان کو ہر دلعزیز، علم و عمل اور خلوص و قلم کے میدان میں یہ پیش کرتے رہیں قیمتی سے قیمتی چیز، اور سدا دعا دیتا رہے ان کو یہ ناچیز)محمد حماد اشرف کریمی ندوی کو ۱۴۳۱؁ھ مطابق ۲۰۱۱؁ء میں نہایت ہی کم عمری و صغر سنی میں حج جیسی عظیم عبادت کی سعادت ہوئی نصیب، اللہ اللہ، سبحان اللہ، ایک بندۂ غریب، ہوا مالکِ کون و مکاں کے گھر کے قریب، اور درود وسلام اس نبیٔ رحمت و سراپا خیر و برکت کے دربارِ عالی وقار و باعثِ صد افتخار میں پیش کیا، جو ہے سب کا حبیبﷺ۔

اس قابلِ صد شکر و مجد اور باعثِ صد عز و شرف موقع پر راقم آثم کا رُواں رُواں خدا کے حضور سجدہ ریز ہے، اور اس کا ذہن و دماغ اور جسم و قلب اس کی حمد و ثنا سے لبریز ہے، پھر قادرِ مطلق کا کرم بالائے کرم اور احسانِ جدید و انعامِ مزید یہ ہے کہ اس نے عزیزِ موصوف کو شہر نور وسرور(مکہ پاک) اور دیار حضور پر نورﷺ ( مدینہ پاک) کے پاکیزہ و ایمان افزا حالات اور ان مقدس مقامات کے ضیا بار، مشکبار وسدابہار واقعات کے لکھنے کی توفیق عطا فرمائی، عزیزِ موصوف کا یہ سفرنامہ ان کی ابتدائی علمی کوشش و قلمی کاوش ہونے کے باوجود نہایت ہی سادہ وسلیس اور دلکش و دلنشیں ہے، اس کتاب میں انہوں نے نہایت ہی والہانہ، عاشقانہ اور مخلصانہ انداز سے حج و عمرہ کے سفر کی منظر کشی کی ہے، مقاماتِ مقدسہ و متبرکہ میں بیتے ہوئے واقعات و حالات کو اتنے روح پرور، ایمان آفریں اور حیات بخش انداز میں پیش کیا ہے کہ کتاب پڑھتے ہی فوراً حج کو جانے، کعبۂ پاک کی زیارت کرنے اور روضۂ پاک پر حاضری کی سعادت حاصل کرنے کے لئے آدمی بے تاب ہو جائے اور اپنا سب کچھ قربان کر کے فریضۂ حج کی ادائیگی کو اپنے لئے سرمایۂ حیات اور ذریعۂ نجات سمجھنے لگے، حقیقت یہ ہے کہ حج کا سفر رحمتوں، برکتوں اور سعادتوں کا زینہ ہے، انعاماتِ الٰہی اور عنایاتِ ربانی کا خزینہ ہے، اور ایمان و یقین کی تحصیل و تکمیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

لیجئے کتاب کا ایک اقتباس پڑھئے، پھر اللہ کے نام اور اس کی خاص مدد سے آگے بڑھئے، کعبۂ پاک کی زیارت کیجئے، اور صفا مروہ پر چڑھئے:

’’ احقر جب درجۂ ہفتم عربی میں زیر تعلیم تھا تو اکثر و بیشتر ہر دعا میں دو چیزیں اللہ سے مانگا کرتا تھا، ایک تو یہ کہ اللہ جلد سے جلد حفظِ قرآن کی دولت سے سرفراز فرمائے، دوسرے یہ کہ جلد از جلد بیت اللہ کی زیارت اور حج کی سعادت نصیب فرمائے، اللہ کا لاکھ لاکھ شکرواحسان ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے تین سال کی مختصر مدت میں ان دونوں دعاؤں کو بغیر کسی ظاہری اسباب کے محض اپنے فضل سے قبولیت سے نوازا۔ ‘‘(ص:۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )

اب میں کباب میں ہڈی اور پھول میں کانٹے نہیں بننا چاہتا، آپ خود عزیز موصوف کی حج کی کہانی خود انہیں کی زبانی پڑھئے، یقیناً آپ کو مسرت آمیز تعجب یا تعجب خیز مسرت ہو گی کہ قادرِ مطلق نے کس قدر جلد ان دو بیش قیمت دولت سے ان کو نہال فرمایا، سچ اور حق کہا ہے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مایۂ ناز خلیفہ حضرت اقدس شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مریدِ خاص وسراپا اخلاص حضرت مولانا حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے:

دل سے جو آہ نکالی جائے گی

کیا سمجھتے ہو یوں ہی خالی جائے گی

لہٰذا ہماری بھی ہو یہ چاہ، ہمارے دل سے بھی نکلے ایسی آہ، کہ فرشتے مکہ و مدینہ میں بھی ہمیں کہیں واہ، اور شیطان ہو جائے تباہ۔

کتاب ہو آپ کے ہاتھ میں، سفرِ مکہ و مدینہ میں آپ کے ساتھ میں، دن گزرے مکہ میں اور مدینہ حاضر ہوں آپ رات میں، اور لبیک ہو آپ کی زبان پر باتوں بات میں۔

مصنف پر ہو اللہ کی خوب نوازش، لگاتار وموسلادھار اس کے لطف و کرم کی بارش، مقبولِ خاص و عام ہو ان کی یہ نگارش، ہمیشہ جاری رہے ان کی علمی کوشش اور قلمی کاوش، خوب خوب وجود میں آئیں ان سے مرکز علم و دانش، قارئین ان کی دینی و دعوتی اور علمی و قلمی کامیابی کے لئے بہت بہت دیں دعائیں، یہی ہے میری گزارش۔

ہر گام پہ اللہ رکھے شادکام، قدم قدم پر مسرت، روش روش پہ ملے اس کا پیار، مصنف کی زندگی ہو سدا بہار، عشقِ نبوی و عظمتِ مصطفوی سے اس کا دل ہمیشہ ہو سرشار، دینِ الٰہی و قانونِ خداوندی پر وہ رہے سو جان سے نثار، اور بنے اس شعر کا مصداق:

پھولوں کی طرح کھلے سدا شادماں رہے

یہ میری دعا ہے خدا تجھ پے مہربان رہے

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین، والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین۔

( مولانا)محمد شرف عالم کریمی قاسمی

بانی و ناظم عمومی

جامعہ ربانیہ اشفاقیہ، انکھولی بیلپکونہ، مظفر پور، بہار

 

 

 

تمہید

 

بسم اللّٰہ، والحمد للّٰہ، والصلوٰۃ والسلام علی رسول اللّٰہ، ومن والاہ، اما بعد:

تمام حمد وستائش اس خدائے وحدہٗ لاشریک کے لئے ہے، جس نے عبادات کو اپنے تقرب کا ذریعہ بنایا، پھر حج کو جانی ومالی عبادات کا مجموعہ بنا کر شعائر اسلام میں اہم مقام عطا فرمایا، اور درود وسلام ہو اس نبیٔ امّی پر جس نے اپنے اقوال کے ذریعے عبادات کی ترغیب دی، اور اعمال کے ذریعے ان کا صحیح طریقہ بتایا، اور حج مبرور کو گناہوں کا کفارہ قرار دیا، نیز سلامتی ہو اللہ کے ان تمام بندوں پر جن کو حرمین کی حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، یا ان کے دل میں وہاں کی زیارت اور عبادت کی تمنا پیدا ہوئی، اور ان پر بھی جنہوں نے حج کے پاکیزہ حالات اور خوش گوار واقعات کو قلمبند فرما کر میرے اندر بھی اس تعلق سے کچھ لکھنے کا ولولہ پیدا کیا، اسی کی برکت سے میری بھی سفر حج سے متعلق کچھ یادیں رسالہ کی شکل میں آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

اس موقعہ پر میں سب سے پہلے خدائے وحدہٗ لا شریک کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اسی نے مجھ ناچیز کوسفر حج کی سعادت سے سرفراز فرمایا، پھراس کی یادوں کو اوراق کی زینت بنانے کی توفیق عطا فرمائی، للّٰہ الحمد والشکر۔

مجھے اس وقت آج سے دس بارہ سال پہلے کا وہ زمانہ یاد آ رہا ہے جب میں نے مختلف ممالک کے بارے میں پڑھا تھا، وہاں کی تاریخی و جغرافیائی صورتِ حال سے واقف ہوا تھا، اور وہاں کے باشندوں کے رہن سہن اور طور طریقوں سے آگاہ ہوا تھا۔

واقعہ یہ ہے کہ جب میں درجۂ اول عربی میں زیر تعلیم تھا تو والد ماجد کے ایک قریبی تعلق رکھنے والے نے پاکستان سے کئی کتابیں ارسال کیں تھیں، جن میں عالم اسلام کی ممتاز ومایۂ ناز شخصیت حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے دو سفرنامے ’’جہانِ دیدہ‘‘ اور ’’دنیا مرے آگے‘‘ بھی تھے، کتابوں کی الٹ پھیر میں ان کتابوں پر بھی نظر پڑی، لے کر پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی چلا گیا اور کئی بار پڑھا، اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں بھی سفر میں ان کے ساتھ ہوں۔

خیر انہیں معصومانہ خیالات و تصورات میں دن گزرتے رہے، یہاں تک کہ جب میں ہندستان کی عالمی شہرت یافتہ دینی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے درجۂ فضیلت دوم میں زیر تعلیم تھا تو اللہ نے محض اپنے فضل سے اس مبارک سفر کی توفیق عطا فرمائی، اور بہت سے تصورات حقائق میں تبدیل ہونے لگے۔

بچپن سے سفرناموں کے مطالعہ کے ذوق کی وجہ سے دورانِ سفر پیش آنے والے حالات اور اہم واقعات کو قلمبند کر لیا کرتا تھا، اس سفر میں بھی یہ ارادہ تھا، اس ارادے کو مزید تقویت اس وقت حاصل ہوئی جب سفر سے قبل والد ماجد نے حکم دیا کہ سفر کے تمام حالات اور روز مرہ پیش آنے والے اہم واقعات کو عربی میں لکھوں، حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں نے روزنامچہ کی شکل میں سفر کے حالات لکھنا شروع کئے، سفر سے واپسی کے بعد اس کو مرتب کیا تو(A4 سائز) کے ستر سے زائد صفحات پر یہ سفرنامہ مکمل ہوا، اس کے بعد ایک سال تک اس سلسلہ میں کچھ پیش رفت نہ ہوسکی، پھر والد ماجد نے حکم دیا کہ کسی استاذ سے اس کی تصحیح ضرور کرالو، تو میں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاذ جناب مولانا فرمان صاحب ندوی سے تصحیح کی درخواست کی، مولانا نے اپنا قیمتی وقت صرف کر کے اس کی تصحیح فرمائی، نیز مولانا عبدالعلیم خطیب ندوی استاذجامعہ اسلامیہ بھٹکل نے بھی نظر ثانی فرمائی، اور مشورہ دیا کہ اس کو پہلے اردو میں شائع کرنا بہتر ہو گا۔

ایک مرتبہ گھر پر عربی سفرنامہ کا تذکرہ ہوا تو والدہ صاحبہ مد ظلہا ا ور عزیزہ ہمشیرہ سلمہا نے کہا کہ عربی کے ساتھ اردو میں بھی لکھتے تو ہم کو بھی فائدہ ہوتا، اسی وقت یہ داعیہ پیدا ہوا کہ جب تک عربی سفرنامہ کی تصحیح و ترتیب کا کام جاری ہے اس کو اردو میں منتقل کر دوں، اللہ کا نام لے کر کام شروع کیا، اس دوران جتنا کام ہو جاتا میرے دو عزیز رفیق مولوی مسیب محتشم بھٹکلی ندوی اور مولوی نوید جبلین بھٹکلی ندوی اس کی کمپوزنگ کا کام انجام دیتے جاتے، ان دونوں کی مسلسل محنت اور خدا کی نصرت سے عربی سفرنامہ سے قبل اردو ترجمہ کا کام مکمل ہو گیا، فجزاہم اللّٰہ احسن الجزاء۔

اس سلسلے میں والد ماجد جناب مولا نا شرف عالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم کا میں نہایت ہی شکر گزار ہوں کہ انہیں کے حکم سے یہ سفرنامہ عربی میں لکھنے کی توفیق ہوئی، پھر جب اس کو اردو میں منتقل کیا گیا تو پورے سفرنامہ پر نظر ثانی بھی فرمائی، اور اشاعت کے مراحل کو ہموار کر کے قیمتی دعائیہ کلمات سے بھی نوازا۔

اس کے علاوہ میرے استاذِ محترم جناب مولانا شکیل صاحب ندوی( مہتمم مدرسہ رحمانیہ و قاضی جماعت المسلمین منکی)بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ مولانا نے ابتدا ہی سے ہر قدم پر میری ہمت افزائی فرمائی، اور اس موقعہ پر بھی اپنے ایک عزیز کے ذریعہ جزوی مالی تعاون فرمایا، ساتھ ہی ساتھ میں اپنے مشفق استاذ جناب مولانا جمیل صاحب قاضی منکوی اور ان کے برادران جناب مولانا فہد صاحب اور جناب عبد الرقیب صاحب کا بھی شکر وسپاس گزار ہوں کہ ان حضرات نے علم دوستی و دین پسندی کی بنا پر مالی تعاون فرما کر اشاعت کے مراحل کو تکمیل تک پہنچایا۔

نیز میں اپنے استاذ جناب مولانا فیاض صاحب ندوی (استاذ مدرسہ رحمانیہ منکی) اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاذ جناب مولانا منور سلطان صاحب ندوی کا بھی مشکور و ممنون ہوں کہ ان حضرات نے بھی نظر ثانی فرمائی۔ فجزاھم اللّٰہ خیرا۔

ساتھ ہی ساتھ میں اپنے رفقاء مولوی شاہد الاسلام ندوی، مولوی طلحہ نعمت ندوی اور مولوی عبد اللہ دامدا ابو کا بھی شکر گزار ہوں کہ ان حضرات کی نظروں سے بھی پروف گزرے۔

اب اخیر میں ہندستان کی ممتاز شخصیات:(۱)استاذ گرامی جناب مولاناسلمان صاحب حسینی ندوی دامت برکاتہم اور (۲)میرے مخلص جناب مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مد ظلہ العالی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان حضرات نے ذرہ نوازی فرماتے ہوئے کثرتِ مشاغل کے کے باوجود مقدمہ و پیش لفظ کے طور پر چند کلماتِ با برکات لکھ کر میری حوصلہ افزائی فرمائی۔

اللہ ان تمام حضرات کو جزائے خیر سے نوازے، ان کے تمام کاموں میں برکت عطا فرمائے، دنیا و عاقبت محمود فرمائے، اس کام میں ان کے تعاون کو قبول فرمائے، اور اس رسالہ کو قبولیت سے نوازے۔ آمین، و الحمد للّٰہ رب العالمین۔

محمد حماد کریمی

دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

 

 

 

اردو میں سفرنامہ

 

 

لفظ سفرنامہ

 

عربی زبان سے ماخوذ لفظ’’سفر ‘‘ کے ساتھ فارسی لفظ ’’نامہ ‘‘ لگانے سے مرکب ’’سفرنامہ‘‘ بنا۔ ’’سفر ‘‘کوچ کرنے اور اپنے مقام سے کسی اور جگہ جانے کو کہتے ہیں اور ’’نامہ‘‘ خط کو کہا جاتا ہے، جس کے معنی ہیں روزنامچہ، ڈائری یا بیاض کے، جس میں بالعموم سفر کے مشاہدات و حالات تاریخ وار درج کئے جاتے ہیں۔

 

سفر کی اہمیت

 

انسان کی زندگی میں جیسے ایک ایسی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں وہ مستقل طور پر قیام کر سکے، جو اس کے لئے وجہ سکون و قرار ہوتی ہے، وہیں قدرت نے اس کے ساتھ مختلف ایسی ضروریات بھی رکھی ہیں کہ اسے گاہے گاہے اپنی قیام گاہ کو چھوڑنا اور دوسرے مقامات کا سفر کرنا پڑتا ہے، اسی لئے قرآن و حدیث میں سفرکے احکام خاص طور سے ذکر کئے گئے ہیں، اور فقہ کی کتابوں میں بھی مسافر سے متعلق خصوصی احکام کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

سفر کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں ’’سیروا فی الارض ‘‘کا حکم دے کر سفر کی ترغیب دی گئی ہے، نیز احادیث میں بھی بہت سے مقاصد مثلاً جہاد اور علم وغیرہ کے لئے سفر کرنے کی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، اسی لئے انبیاء نے بھی اسفار کئے، صحابہ نے بھی، محدثین و فقہاء اور مبلغین و صوفیاء نے بھی، ان میں سے بہت سے اہل علم وہ ہیں، جنہوں نے اپنے واقعات سفر کو خود بیان کیا ہے، یا انہیں نقل کیا گیا ہے، خود قرآن مجید میں حضرت موسیؑ اور حضرت خضرؑ کا سفرنامہ موجود ہے، کسی قدر اختصارکے ساتھ حضرت ابراھیمؑ اور حضرت موسیؑ کے اسفار کا بھی ذکر آیا ہے، حدیث میں ہجرت یعنی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک کے آپﷺ کے سفر کی تفصیلات اس خوبصورتی سے بیان کی گئی ہیں کہ وہ واقعہ نگاری کا ایک شاہکار ہیں، خود رسول اللہﷺ نے اپنے آسمانی سفر یعنی واقعۂ معراج کو تفصیل کے ساتھ نہایت خوبصورت اور دلچسپ پیرایہ میں بیان فرمایا ہے، جو یقیناً ایک ادبی شہ پارہ کی حیثیت رکھتا ہے، (متاعِ سفر،ص:۱۲،۱۳۔)ا گرچہ بعض احادیث میں سفر کو سقر قرار دیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی سفر چاہے کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو، تکلیف بہرحال ہوتی ہے۔

 

سفرنامہ کا مفہوم

 

سفرنامہ کا مفہوم یہ ہے کہ دورانِ سفر مسافر جن حالات سے دوچار ہوتا ہے اور جو کوائف اس کو پیش آتے ہیں انھیں وہ صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتا ہے، دوسروں کو اپنے حالات سے باخبر کرتا ہے، کبھی اپنے حالاتِ سفر کو جمع کرتا ہے اور اس کو شائع کر دیتا ہے۔

اندازہ ہے کہ جس وقت انسان پتھروں اور غاروں میں رہا کرتا تھا، یقیناً وہ اپنی ضروریات کے لئے باہر نکلتا ہو گا، جانوروں کا شکار کرتا ہو گا، جانوروں سے اس کی کبھی کبھار جنگ وغیرہ بھی ہوتی ہو گی، کبھی وہ غالب اور کبھی مغلوب رہا ہو گا، جب وہ غالب ہوتا ہو گا تو اپنے ہم جنسوں کے پاس پہنچ کر یقیناً وہ حالات و کوائف سناتا ہو گا، اسی طرح کبھی وہ تکلیف دہ حالات سے دوچار ہوتا ہو گا تو وہ بھی ضرور اپنے ہم جنسوں سے بیان کرتا ہو گا، تو یہی درحقیقت سفرنامے کے آغاز کے دھندلے نقوش کہے جا سکتے ہیں۔

سفر ہی کے ذریعہ نئی نئی معلومات انسان کو حاصل ہوتی ہیں، سفر میں نئے ممالک، نئے جغرافیے، نامانوس ماحول کے ذریعہ انسان کی فکری صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے، سفر معاش اور تجارت کو فروغ دینے کا بھی بہترین ذریعہ ہے، سفر انسان کو وسیع النظر، وسیع القلب اور جسمانی طور پر متحرک اور بیدار رکھتا ہے، سفر تجربے کی وسعت کا بہترین ذریعہ ہے کہ آدمی سفر کے ذریعہ بہت سے اہم تجربات حاصل کرتا ہے، اس کے ذریعہ علماء، دانشوروں اور فنکاروں وغیرہ سے ملاقات اور کسب فیض کر سکتا ہے، اس لحاظ سے سفر ہر طرح سے مفید ہے۔

 

مقصدِ سفر

 

جہاں تک سفر کے مقاصد کی بات ہے تو مختلف افراد کے اعتبار سے مختلف ہوسکتے ہیں، ملازمت، تجارت، دوست و احباب سے ملاقات، مذہبی مقامات کی زیارت کے علاوہ دوسرے مختلف مقاصد بھی ہوسکتے ہیں۔

اردو میں سفرنامے اکثر مقامات مقدسہ کی زیارت کے ملتے ہیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ مقاصد سفر میں ایک اہم مقصد مقاماتِ مقدسہ کی زیارت ہوا کرتا ہے، اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ حج و زیارت کی دیرینہ آرزو ہر مومن کے دل میں ہوتی ہے، اس کے علاوہ حج اسلامی زندگی کا رکنِ اعظم ہے، اس طرح کے ا سفار کافی طویل انتظار کے بعد نصیب ہوتے ہیں، سفر کے آغاز میں اگرچہ اس کی اہمیت انفرادی ہوتی ہے، تاہم واپسی پر وہ اجتماعی اہمیت والا ہو جاتا ہے، ہر طرف سے سوالات اٹھتے ہیں، کیا دیکھے ؟کیا لائے ؟کیا حالات تھے ؟چنانچہ ان سفرناموں میں ان جیسے سوالات کے جوابات ملتے ہیں، اردو میں صرف حج کے سفرناموں کی تعداد دو سو سے زیادہ شمار کی گئی ہے، اس سلسلہ میں ماضی قریب کے علماء میں مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا عبد الماجد دریابادی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہم اللہ کے سفرنامے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

حج کے سفرناموں کے بعد اردو میں زیادہ تعداد میں یورپ اور ایران کے سفرنامے ملتے ہیں، ان سفرناموں کے مقاصد میں علمی و ادبی تحقیقات شامل رہی ہیں۔

بعض اردو سفرنامے ہندوستان کو آزادی دلانے کی خاطر کئے گئے سفر پر مشتمل ہیں۔

بعض سیاح اپنے ذوق کی تسکین کے لئے اہم مقامات کا سفر کرتے ہیں، اور وہاں کی قیمتی معلومات کو اپنے سفرناموں میں پیش کرتے ہیں۔

بعض اسفار دوسرے ممالک کے سماجی، مذہبی، سیاسی، علمی و ادبی حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے ہوئے ہیں، بعض اسفار جشن میں شرکت کے لئے بھی ہوئے ہیں جن کے سفرنامے لکھے گئے، نیز مزارات کی زیارت، عظیم شخصیتوں سے ملاقات اور غم مٹانے کیلئے بھی سفر ہوئے ہیں۔

 

سفرنامہ لکھنے کے اسباب

 

سفرنامہ لکھنے کا رجحان نہ صرف اردو بلکہ دنیا کی ہر زبان میں پایا جاتا ہے، اسی سے معلومات کی فراہمی ہوئی، اس کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، یہ رجحان تاریخی رجحان کی ایک کڑی ہے جو قدیم زمانہ سے چلی آ رہی ہے۔

دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں سفرنامے لکھے اور شائع کئے جاتے رہے ہیں، اسی طرح اردو میں ابتدا سے اب تک سینکڑوں سفرنامے لکھے اور شائع کئے گئے، اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

دنیا چونکہ دوسروں کی سرگزشت سننے میں لطف محسوس کرتی ہے اس لئے جب سیاح سفر سے واپس آتے ہیں تو لوگ نہ صرف ان کے حالاتِ سفر کو دلچسپی سے سننے ہیں بلکہ اس کو کتابی صورت دینے کا اصرار کرنے لگتے ہیں، حالانکہ ان سیاحوں کا مقصد سفر سے سفرنامہ لکھنا نہیں ہوتا۔

بعض دفعہ سیاح دورانِ سفر پیش آنے والے واقعات و حالات کو اپنی یادداشت کے لئے جمع کر لیتے ہیں لیکن بعد ازاں دوست و احباب کے اصرار پر اسے شائع بھی کر دیتے ہیں، چند سیاحوں نے دورانِ سفر ہی خطوط کے ذریعہ اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات، اپنے متعلقین یا دوست احباب کو لکھ بھیجا، ان حضرات نے ان حالات کی دلچسپی اور مقبولیت کے پیش نظر اخباروں میں شائع کروا دیا، بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ جب سیاح کو اس کی اطلاع ہوئی تو ابتداء ً تو وہ ناراض ہوئے لیکن جب اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا تو خود انھوں نے بعد نظر ثانی شائع کیا۔

بعض سیاحوں نے اپنے احوالِ سفر خود اخبارات میں شائع کروائے پھر مطالبات کی بناء پر اس کو باضابطہ کتابی شکل دے دی، بعض ایسے بھی سیاح ہوتے ہیں جو ابتداء ً تو سفرنامہ شائع نہیں کرتے اور نہ حالاتِ سفر جمع کرتے ہیں لیکن اس طرح کی تصانیف کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں بھی خیال آتا ہے کہ ہم بھی اگر احوالِ سفر جمع کریں تو بہتر ہو گا، چنانچہ وہ جمع کر کے شائع کرتے ہیں۔

بعض سفرنامہ نگار چاہتے ہیں کہ دورانِ سفر جو حالات انھیں پیش آئے وہ خود انھیں بھی یاد رہیں اور دوسروں کو بھی اس سے واقف کروائیں۔

نیز جن سیاحوں کو سیروسیاحت کا بہت شوق ہوتا ہے وہ دنیا کے مختلف مقامات کا سفر کر کے اپنے تجر بات، مشاہدات، تاثرات و احساسات کو دوسروں کی دلچسپیوں اور ان کی معلومات میں اضافہ کی خاطر شائع کرتے ہیں۔

یہ چند اسباب ہیں جن کی بناء پر عام طور پر سفرنامے لکھے جاتے ہیں۔

 

سفرنامے کی ابتدا

 

تحقیقی طور پر یہ بات پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچی کہ پہلا باضابطہ سفرنامہ کب اور کہاں لکھا گیا اور یہ کس نے تحریر کیا ؟

یوروپین محققین یونانی سیاح ہیرو ڈوٹس (Hero Dotus) کو پہلا سفرنامہ نگار مانتے ہیں، تاہم اس کے سفرنامے کے بارے میں زیادہ معلومات ہم تک نہیں پہنچیں۔

دنیا کا سب سے پہلا دریافت شدہ باقاعدہ سفرنامہ یونانی سیاح میگس تھینز کا تحریر کردہ’’ INDICA‘‘(سفرنامہ ہند )ہے، جو ہندوستان کے سفر کے حالات پر مشتمل ہے۔ اس یونانی سیاح نے 300ق م ہندوستان کا سفر کیا تھا، ا س زمانہ میں ہندوستان کا حاکم چندر گپت موریہ تھا، اس کا دارالحکومت ’’پاٹلی پتر‘‘ موجودہ’’ پٹنہ‘‘ تھا، محققین کا اتفاق ہے کہ اس کا یہ ’’سفرنامہ ‘‘انتہائی معلوماتی اور کارآمد سفرنامہ ہے، نیز یہ ایک تاریخی ماخذ بھی مانا گیا ہے۔

 

اردو میں سفر نامے کا آغاز و ارتقا

 

جہاں تک اردو سفرنامہ کی روایت اور اس کے آغاز و ارتقا کی بات ہے تواب تک کی تحقیق کے مطابق اردو کا سب سے پہلا باقاعدہ سفرنامہ یوسف خان کمبل پوش کا ’’تاریخ یوسفی ‘‘معروف بہ ’’عجائبات فرنگ ‘‘ہے، یوسف خان کمبل پوش اصلا ً حیدر آباد کے متوطن تھے، لیکن لکھنو آ کر مقیم ہو گئے تھے اور نواب نصیرالدین کے دربار سے وابستہ ہو گئے تھے، نواب نصیر الدین کی اجازت سے انھوں نے ۱۸۳۷؁ء میں انگلستان کا سفر کیا اور روئیداد سفر کو جمع کر کے کتابی شکل دی، یہ سفرنامہ اردو کا پہلا سفر نامہ ہونے کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی صفائی، بے ساختگی اور حقیقت نگاری کی وجہ سے ایک اہم ادبی شہ پارہ بھی ہے۔

اردو کے ابتدائی سفرناموں میں ’’سیاحت نامہ ‘‘مصنفہ نواب کریم خاں، ’’تاریخ انگلستان ‘‘معروف بہ ’’سفرنامہ لندن ‘‘از: مولوی مسیح الدین علوی، ’’مسافرانِ لندن ‘‘از: سر سید خان، ’’سفرنامۂیورپ ‘‘از:مرزا نثار علی بیگ،  ’’سیر حامدی ‘‘از: نواب رام پور محمد علی خان، ’’سفرنامۂ روم و مصر و شام ‘‘از: علامہ شبلیؒ، ’’وسط ایشیاء کی سیر ‘‘ و ’’سیرِ ایران ‘‘از:حسین آزاد، ’’تواریخ عجیب ‘‘معروف بہ ’’کالا پانی ‘‘از:مولوی محمد جعفر تھانیسریؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

ان چند مشہور سفرناموں کے علاوہ اور بھی سفرنامے بیسویں صدی کے آغاز سے قبل ہی لکھے جاچکے تھے، خلاصہ یہ کہ انیسویں صدی کے اختتام تک اردو سفرنامے نے کامیاب سفر طے کر لیا تھا اور خوب ترقی کر لی تھی، اس طرح اردو سفرنامے کی روایت کافی مضبوط ہوئی۔

 

بیسویں صدی میں اردو سفرنامے

 

انیسویں صدی کی انتہا اور بیسویں صدی کی ابتدا اردو کے غیرافسانوی ادب کی ترقی کے دور مانے گئے ہیں، چنانچہ بیسویں صدی کی ابتداء میں بہترین سفرناموں کی شکل میں بھی غیر افسانوی ادب میں بیش بہا اضافہ ہوا، کئی اہم اور اچھے سفرنامے تحریر کئے گئے۔

بیسویں صدی کے ابتدائی دور کے سفرناموں میں ’’سیاحت سلطانی ‘‘از :نواب سلطان جہاں بیگم والیۂ ریاست بھوپال ’’سفرنامہ یورپ و امریکہ ‘‘اور ’’سیاحت نامہ ‘‘از: نواب لیاقت جنگ بہادر ’’کابل میں سات سال ‘‘از :مولانا عبیداللہ سندھیؒ ’’جاپان کا تعلیمی نظم و نسق ‘‘از: سرراس مسعود، ’’ڈھائی ہفتے پاکستان میں ‘‘از: مولانا عبدالماجد دریابادیؒ وغیرہ، یہ تمام وہ سفرنامے ہیں جو بیسویں صدی کی بالکل ابتداء میں تحریر کئے گئے، اسی دور میں بعض ایسے سفرنامے بھی لکھے گئے ہیں جو اردو نثری و غیر افسانوی ادب میں قیمتی اضافہ ہیں، مثلاً مہاراجہ کشن پرشاد، شیخ عبدالقادر، خواجہ غلام الثقلین، منشی محبوب عالم، خواجہ حسن نظامی ؒ، علامہ سید سلیمان ندویؒ، نشاط النساء بیگم اور قاضی عبدالغفار کے سفرنامے اپنے اپنے طرز میں مفید ہیں۔

یہ چند وہ سفرنامے ہیں جو بیسویں صدی کے آغاز سے تقریباً پانچ چھ دہائیوں پر محیط ہیں۔

 

سفرنامہ کا فن

 

سفرنامہ دراصل ایک با شعور سیاح کے ان تجربات، مشاہدات اور وارداتِ قلبی کا نچوڑ ہوتا ہے جو اس نے دوران سفر محسوس کئے ہوں اور اسے سفر کے دوران یا اختتام سفر کے بعد رقم کیا ہو، ڈاکٹر احمدی لاری تحریر کرتے ہیں :

’’سفرنامہ لکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ سیاح کا مشاہدہ تیز ہو اور تخیل بھی قوی ہو یعنی وہ صاحب بصارت بھی ہو اور صاحب بصیرت بھی، ان صلاحیتوں کے بغیر سفرنامہ لکھنا ممکن نہیں ہے ‘‘۔

ایک سفرنامہ کے کامیاب ہونے کے لئے سیاح میں چند خوبیوں و صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے :

۱۔ اول یہ کہ سفرنامہ غیرجانبدار اور غیر متعصب ہو، کیونکہ اگر وہ جانبداری کا لحاظ رکھے تو صحیح نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے گا، نیز تعصب کی عینک سے اسے ہر چیز میں خرابی ہی نظر آئے گی۔

۲۔ سفرنامہ نگار کے اندر ایک محقق کی سی جستجو ہونی بھی ضروری ہے، کسی بھی علاقے کے حالات کے تذکرے میں جب تک پوری تحقیق نہ ہو کوئی فیصلہ کن رائے ہرگز نہ دے اور بلا جستجو اپنے رہبروں کا اعتبار نہ کرے۔

۳۔ نیز سفرنامہ نگار کی ذمہ داری ہے کہ کلیات سے نتائج کا استخراج کرے نہ کہ جزئیات سے کلیات کو قائم کرے، بعض دفعہ یہ غلطی ہو جاتی ہے کہ صرف چند لوگوں کے ذاتی طور طریقوں، اخلاق و عادات کا مشاہدہ کر کے پوری قوم کے متعلق رائے قائم کر دی جاتی ہے۔

۴۔ سفرنامہ نگار کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ اس کیفیت کو بھی سفرنامے میں سمودے جس سے وہ گزرتا ہے، بہ الفاظ دیگر سفرنامہ صرف تاریخی واقعات اور جغرافیہ کے اعداد و شمار سے پُر نہ ہو جائے، بلکہ چھا سفرنامہ وہ کہلاتا ہے جس میں جغرافیائی کیفیت و تاریخی واقعات کے ساتھ فطری مناظر کے اسرار کی کیفیت بھی مکمل طور پر سامنے آتی ہو۔

۵۔ ایک اچھے سفرنامے کی خوبی یہ بھی ہونی چاہئے کہ اس کے مطالعے سے قاری بھی سیاح کے ساتھ سفر میں شامل ہو جائے، پڑھنے والے کو محسوس ہو کہ وہ صرف پڑھ نہیں رہا ہے بلکہ وہ بھی سفرکر رہا ہے، اور تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔

۶۔ ایک اچھے سفرنامے کے لئے عمدہ اسلوب اور تاثرات و مشاہدات کاسلیقہ مند اظہار بھی ضروری ہے۔

۷۔ سفرنامہ نگار کو بنیادی طور پر ایک اچھا سیاح بھی ہونا ضروری ہے، کیونکہ ایک مسافر اپنا ایک مقصد لے کر سفر کرتا ہے، اس کی نگاہ صرف اپنے مقصد پر ہوتی ہے جبکہ ایک سیاح مقصد پر نظر رکھنے کے بجائے گرد و پیش پر نظر رکھتا ہے۔

 

سفرنامے کا اسلوب

 

سفرنامے کے لئے کوئی اسلوب مقرر نہیں کیا گیا، سفرنامہ نگار اپنے مزاج، تجربات اور تخلیقی صلاحیت کے مطابق سفرنامے کا اسلوب متعین کرتا ہے، گویا سفرنامہ نگار آزاد ہے، جس طرح چاہے اسے تحریر کرے۔ لیکن لازماً خیال رکھے کہ سفرنامہ سفرنامہ رہے، داستان یا ناول یا افسانہ نہ بن جائے، سفرنامے میں یقیناً پُر اسراریت اور دلچسپی کا سامان ہوتا ہے، لیکن غیر ضروری رنگین بیانی سفر نامہ کو مجروح کر دیتی ہے۔

 

سفرنامہ نگاری کے مختلف طریقے

 

سفرنامہ نگاری کے مختلف طریقے اختیار کئے گئے ہیں :

۱۔ دورانِ سفر پیش آنے والے واقعات کو اچھی طرح اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا جائے اور سفرنامہ لکھتے وقت ان واقعات کو قلم بند کیا جائے، اس طریقے میں دقت یہ ہے کہ بہت سے واقعات ذہن سے محو ہو جاتے ہیں، یا کم از کم تاریخی تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔

۲۔ سفرنامے کے لئے ایک طریقہ یہ ہے کہ سیاح دورانِ سفر پیش آنے والے واقعات، تاثرات اور خاص باتوں کو تاریخی ترتیب کے ساتھ کسی ڈائری میں نوٹ کر لیتا ہے پھر اپنے مقام پر پہنچ کر اس ڈائری کی مدد سے سفرنامہ تیار کرتا ہے، یہ ایک بہتر اور اچھا طریقہ ہے۔

۳۔ نیز ایک طریقہ یہ ہے کہ سفرنامہ نگار دورانِ سفر جو دیکھتا یا محسوس کرتا ہے، خطوط کے ذریعہ اپنے عزیز دوست کو لکھ دیتا ہے، پھر انہی خطوط کے ذریعہ سفرنامہ تیار کرتا ہے۔

وہی سفرنامہ کامیاب مانا جاتا ہے جس کے لئے سیاح پہلے سے طے کر لے کہ مجھے اس سفر میں ’’روداد ‘‘ بھی تحریر کرنی ہے، جب وہ اپنے ذہن و دماغ کو اس پر آمادہ تیار کر لیتا ہے تو اس کے سامنے تین مراحل آتے ہیں :

۱۔ انتخاب واقعات کہ کون سے واقعات بیان کئے جائیں اور کسے نظر انداز کر دیا جائے، یہ سفرنامہ نگار کی صلاحیت کی ایک طرح سے جانچ ہے، اس کا بہتر فیصلہ ہی سفرنامے کو دلچسپ بنا دیتا ہے۔

۲۔ واقعات کی پیش کشی کہ کس طرح واقعے کو پیش کیا جائے، پیش کشی جتنی دلچسپ ہو گی سفرنامہ اتنا ہی کامیاب ہو گا۔

۳۔ تیسرا مرحلہ زبان و بیان کا ہے، زبان و بیان، خیال و واقعات سے مناسبت رکھتے ہوں، اسلوب میں تازگی و شگفتگی ہو، اگر سفرنامہ ادب و انشاء سے خالی ہو تو وہ صرف ایک سفری تحریر ہو گی، سفرنامہ شمار نہیں ہو گا، سفرنامے کے لئے مشکل الفاظ، ثقیل جملے، پیچیدہ تراکیب قطعاً زیب نہیں دیتے۔

آثارِ قدیمہ، دریا، پہاڑ، جھرنے، سمندر کے فطری مناظر، سفرنامہ نگار کو ضرور متاثر کرتے ہیں اور اس کا بیان یقیناً قاری کے لئے دلچسپی کا باعث ہوتا ہے، تاہم اس میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی سفرنامہ کی اہمیت کو کم کر دیتی ہے، سفرنامہ نگار کو تو ان تاثرات اور کیفیات کو بیان کرنا چاہئے جو ان مناظر کو دیکھنے سے اس کے اندر پیدا ہوتی ہے۔

ایک اچھا سفرنامہ نگار وہ ہوتا ہے جو قاری کو اپنا ہم سفر بنا لیتا ہے، مگر یہ اوصاف اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتے جب تک کہ سفرنامہ نگار کو بات کہنے کا فن نہ آتا ہو۔

سفرنامہ نگار کے اندر اخلاقی بصیرت ہو تو اس کے طرزِ اظہار میں بھی جاذبیت ہو گی، سفرنامے اعتدال نویسی پر مبنی ہوتے ہیں، حد سے زیادہ اختصار یا غیر ضروری طوالت سے سفرنامے کی اہمیت گھٹ جاتی ہے۔ (۱)

۔۔۔۔۔

(۱)تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ’’متاعِ سفر‘‘از: جناب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم و ’’مولانا مفتی محمد تقی عثمانی بحیثیت سفرنامہ نگار‘‘از:مفتی محمد مجاہد علی قاسمی

 

 

 

 

یادِ حرم

 

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

الحمد للّٰہ علی نعماۂ الکاملۃ، وآلاۂ الشاملۃ، التی لا تحصیٰ ولا تعد، و صلی اللّٰہ تعالی علی خیر خلقہ محمدﷺ الذی کان سبباً لھدایۃ الانسانیۃ ونقلھا من الشقاوۃ الی السعادۃ ومن الجھالۃ الی العلم والنور والھدایۃ، اما بعد:

روئے زمین پر شاید ہی کوئی ایسا مسلمان ہو گا، جو حجاز اور اس کے دومقدس شہروں سے واقف نہ ہو، ایک مسلمان بچے کے پیدا ہونے کے بعد جو الفاظ اس کے کان سے ٹکراتے ہیں، ان میں مکہ و مدینہ اور حج و کعبہ کے الفاظ بھی ہوتے ہیں۔

 

حج سے متعلق مختلف تصورات اور معصوم خیالات

 

یہی حال راقم کا بھی رہا اور بچپن ہی سے یہ الفاظ مانوس و معلوم رہے، لیکن یہ یاد نہیں کہ سب سے پہلے کب ان الفاظ کو سنا، اتنا یاد ہے کہ جب میں سنِ شعور کو پہنچا، تو اس گاؤں منکی( تعلقہ ہوناور ، ضلع کاروار، ریاست کرناٹک) میں جہاں میں نے اپنا بچپن گزارا ہے، دیکھا کرتا تھا کہ حج کے زمانے میں لوگ حج کے لئے رختِ سفر باندھا کرتے تھے، اور وہ منظر نہایت ہی دلفریب اور قابلِ دید ہوتا، جب ایک بہت بڑی ائیرکنڈیشن بس گاؤں کے بیچوں بیچ ہمارے مدرسہ رحمانیہ اور مسجد خالد بن ولید کے قریب آ کر کھڑی ہوتی، اور گاؤں کے بڑے، بوڑھے، بچے، جوان اور عورتیں تک الوداع کہنے کے لئے جمع ہوتے، اور ایک جم غفیر ہوتا، اس بس پر بہت سے لوگ سوار ہوتے، جن میں بعض بیت اللہ کا حج کرنے والے ہوتے، تو بعض ان کو رخصت کرنے کیلئے ممبئی تک جاتے، تو بعض نم دیدہ آنکھوں کے ساتھ گاؤں سے ہی رخصت کرتے۔

اصل خوشی تو ان بچوں کی ہوتی جن کو بس پر چڑھ کر بس کو ایک نظر دیکھنے کا موقع مل جاتا، پھر جب بس کے جانے کا وقت ہو جاتا تو بعض لڑکے جن کے پاس سائیکل ہوتی پہلے سے شاہراہِ عام پر پہنچ جاتے تاکہ جیسے ہی بس آئے، بس پر سوار حاجیوں کو ہاتھ دکھا کر رخصت کریں اور ان کی آخری جھلک دیکھیں، اکثر و بیشتر یہ قافلہ بعد نمازِ عصر روانہ ہوتا، اس دن پورا گاؤں سمٹ سمٹا کر اس جگہ جمع ہو جاتا اور ہر ایک اپنے کام کو چھوڑ دیتا۔

اس سے پہلے گاؤں والوں کی طرف سے حاجیوں کے اعزاز میں ایک جلسہ بھی منعقد کیا جاتا، جس میں علمائے کرام کے خطابات ہوتے، چونکہ اکثر و بیشتر والد ماجد جناب مولانا شرف عالم صاحب قاسمی حفظہ اللہ دامد فیوضہ بھی خطاب کیلئے مدعو ہوتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے، راقم بھی ان جلسوں میں شرکت کرتا، حاجیوں سے مصافحہ کرتا، دعا کی درخواست کرتا اور تمنا کرتا کہ کاش یہ موقع مجھے بھی نصیب ہوتا!!

یہ تو کچھ تھے بچپن کے حالات، دن گذرتے رہے، سال بیتتے رہے، یہاں تک کہ وہ دن بھی آیا، جب والد ماجد نے حج کا ارادہ کیا، اس وقت میں درجۂ اول عربی میں زیر تعلیم تھا، اور والد ماجد اس وقت مدرسہ رحمانیہ کے استاذونائب مہتمم تھے، اسی بنا پر مدرسہ کے ذمہ داروں نے ایک جلسہ بھی والد ماجد کے اعزاز میں منعقد کیا تھا، وہ بھی ایک یادگار دن تھا، اور ایک طرح سے میرے ارادۂ حج کے لئے باعث تشویق بھی، جس نے میرے شوق میں اضافہ کیا، اور ہر مسلمان کی طر ح میرے دل میں بھی مکہ، مدینہ اور وہاں کے مقامات کی زیارت اور وہاں کی عبادت کا جذبہ پیدا ہوا۔

دل میں ہے میرے ارماں، آرزو ہے سینے میں

اڑ کے میں پہنچ جاؤں، اے خدا! مکے اور مدینے میں

پھر وہ دن بھی آئے جب جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں میری تعلیم کا آغاز ہوا، چونکہ ماشاء اللہ یہاں کے اکثر اساتذہ صاحب حیثیت ہیں، اس لئے ہر سال کوئی نہ کوئی استاذ حج بیت اللہ کی دولت اور بیش بہا نعمت سے سرفراز ہوتا اور جامعہ کی مسجد میں ان اساتذۂکرام کے اعزاز میں لوٹ کر آنے کے بعد ایک جلسہ منعقد کیاجاتا، جس میں وہ اساتذۂ کرام اپنے تاثرات کا اظہار کرتے اور وہاں کے حالات اور آنکھوں دیکھے احوال و مشاہدات کو بڑی رقت ومحبت کے ساتھ بیان کرتے، تو پھر وہ شوق انگڑائی لینے لگتا، لیکن بظاہرنہ اسباب فراہم تھے اور نہ ہی ابھی وقت آیا تھا۔

جب احقر درجۂ ہفتم عربی میں زیر تعلیم تھا تو اکثر وبیشتر ہر دعا میں دو چیزیں اللہ سے مانگا کرتا تھا، ایک تو یہ کہ اللہ جلد سے جلد حفظِ قرآن کی دولت سے سرفراز فرمائے، دوسرے یہ کہ جلد از جلد بیت اللہ کی زیارت اور حج کی سعادت نصیب فرمائے، اللہ کا لاکھ لاکھ شکرواحسان ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے تین سال کی مختصر مدت میں ان دونوں دعاؤں کو بغیر کسی ظاہری اسباب کے محض اپنے فضل سے قبولیت سے نوازا۔

پہلی دعا کی قبولیت کا انتظام کچھ اس طرح ہوا کہ جب میں درجہ ہفتم عربی کے سالانہ امتحانات سے فارغ ہوا تو میرے سامنے چھٹیوں میں کرنے کے کئی کام تھے، جن میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا نہایت ہی دشوار معلوم ہو رہا تھا، تو راقم نے مولانا عبد العلیم خطیب ندوی (استاذ جامعہ اسلامیہ بھٹکل) سے مشورہ کیا، مولانا نے تمام چیزوں میں سے حفظِ قرآن کی طرف اپنا میلان ظاہر کیا، لیکن استخارہ کر کے فیصلہ کرنے کے لئے کہا، بعد استخارہ مجھے بھی اسی کا شرح صدر ہوا، اور راقم نے یکم رمضان ۱۴۳۰؁ھ کو مسجد خالد بن ولید (منکی)میں مولانا مذکر صاحب ندوی (استاذ جامعہ اسلامیہ بھٹکل) کے پاس قرآن سنانا شروع کیا اور ۲۱؍ شوال ۱۴۳۰؁ھ مطابق ۲۰۰۹؁ء حفظِ قرآن کی تکمیل مولوی طہ صاحب کے پاس ہوئی، یہ تھی مختصر روداد، میرے حفظِ قرآن کی۔

حفظِ قرآن کی دولت سے سرفراز ہونے کے بعد درجۂ ہشتم عربی میں جب راقم نے حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی کتاب ’’الطریق الی المدینۃ ‘‘ (کاروانِ مدینہ ) کا مطالعہ کیا، تواس کتاب اور خاص طور پر مکہ و مدینہ کے تذکرہ نے میرے شوق میں اضافہ کیا۔

انہی دنوں والد ماجد کے بار بار ان دیارِ مقدسہ کے اسفار ہونے لگے، ان اسفار کے دوران جب بھی والد ماجد خانۂ کعبہ کے قریب ہوتے یا مسجد نبوی میں روضہ کے پاس ہوتے تو مجھ سے فون پر بات کرتے اور دعائیں دیتے اور دعا کرنے کیلئے کہتے اور فرماتے کہ آج اللہ نے تمہاری آواز ان مقامات تک پہنچائی ہے، وہ دن بھی جلد آئے، جب تم خود یہاں آؤ، اور ان دیارِ مقدسہ کی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو، پھر وہاں کے حالات، طواف کا ازدحام، لوگوں کی عبادات کا تذکرہ بڑے درد بھرے انداز میں کرتے۔

 

سفر سے پہلے کی کاروائیاں

 

یہ تمام چیزیں ایک طرف میرے شوق میں اضافہ کر رہی تھیں، تو دوسری طرف یہ فکر دامنگیر تھی کہ اللہ نے ایک دعا تو قبول فرمائی، دوسری دعا کی قبولیت کا کیا انتظام ہو گا؟ اور کب وہ دعا قبول ہو گی؟ یا پھر وہ تمنا حسرت بن کر دل میں دبی رہ جائے گی، انہی خیالات میں دن گذرتے رہے، یہاں تک کہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں راقم کا تعلیمی مرحلہ اختتام پذیر ہوا، جس کے بعد احقر نے ہندستان کی مشہور عالمی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے شعبہ تخصص فی التفسیر میں داخلہ لیا، عید ا لاضحی کی چھٹیوں کے بعد جب والد ماجد حج سے فراغت کے بعد ہندوستان تشریف لائے تو اپنے والدین ( میرے دادا و دادی) کو جنھوں نے اب تک حج نہیں کیا تھا،   اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے تیار کیا، ان کی رضا مندی کے بعد والد ماجد نے مجھے بھی خوش خبری دی کہ تمہیں بھی انشاء اللہ اس سفر میں ان کے ساتھ رہنا ہے، یہ مرحلہ ایک طرف خوشی کا تھا تو دوسری طرف غم بھی سوار تھا، خوشی اس بات کی کہ اللہ نے دوسری دعا کی قبولیت کے آثار ظاہر فرما دئیے ہیں، لیکن غم اس بات کا کہ تمام ضروری سرکاری کاغذات سے راقم تہی دست۔

 

سفر کی تیاریاں

 

جب یہ بات راقم کی والدہ اور چچی کو معلوم ہوئی تو انھوں نے بھی سفر حج کا ارادہ کر لیا، اس طرح ہم تماموں کے کاغذات کی تیاری ایک ساتھ شروع کی گئی، اور بحمد للہ سفر کی تمام کاروائیاں رفتہ رفتہ مکمل ہوتی رہیں، اس سلسلہ میں گاؤں کے ماسٹر ارشاد صاحب، حاجی نثار صاحب اور میرے پھوپھا جناب مولانا مشیر الحق صاحب(بانی و مہتمم ادارہ ترتیل القرآن مظفرپور، بہار) اور میرے رفیق جناب مولوی سفیان ندوی بھٹکلی کا خصوصی تعاون رہا، اللہ ان تمام حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

رمضان کے بعد یہ اطلاع ملی کہ شوال کے آخری ایام یعنی ۲۸ یا۲۹ دسمبر کو ہم لوگوں کا جانا طے ہوسکتا ہے، تو میں نے سوچا کہ یہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کا دوسرا تعلیمی سال ہے، سفر حج بھی قریب ہے، لہٰذا جلد جا کر چھٹی وغیرہ کی کاروائی مکمل کی جائے اور وہاں جا کر حج کی بھی تیاری کی جائے، اور اس کے متعلق کتابوں کا مطالعہ کیا جائے، ابھی اس سلسلہ میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک ضروری کام سے بھٹکل کے محلہ (کارگیدے)کی مسجد معاذ بن جبل جانا ہوا، وہاں دار العلوم ندوۃ العلماء کے استاذ مولانا فیصل صاحب ندوی سے ملاقات ہوئی، تمام صورت حال مولانا کے سامنے رکھی، تو مولانا نے کہا کہ ندوہ میں تدریسی خدمات انجام دینے والے اساتذہ مولانا عبد السلام صاحب ندوی اور مولانا ابو بکر صدیق صاحب ندوی اور وہ خود بھی ۸ ستمبر ۲۰۱۱ء کو لکھنؤ کا سفر کرنے والے ہیں، تم بھی ساتھ چل دینا، لہٰذا میں نے بھی رخت سفر باندھ لیا اور ندوہ کے ان اساتذہ کے ساتھ بھٹکل سے لکھنؤ تک کا سفر ایک علمی سفر بن گیا، اور ہم ۱۰ ستمبر ۲۰۱۱ء؁ بوقت ساڑھے گیارہ بجے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے احاطہ میں داخل ہوئے، چونکہ داخلے جاری تھے اور درسیات کی تعلیم شروع نہیں ہوئی تھی، اس لئے میں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے فضیلت کے مقالے کی تیاری شروع کی اور ساتھ ہی ساتھ حج سے متعلق بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا۔

یہاں آنے کے بعد اطلاع ملی کہ ہمارے جانے کی تاریخ مؤخر ہو گئی ہے، اور ہماری پرواز ۱۴ ذی قعدہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق۱۳ اکتوبر ۲۰۱۱ء بروز جمعرات طے ہو گئی ہے، اب مجھے تقریباً ایک مہینے کا وقت مل گیا، جو میں نے فضیلت کے مقالے کی تیاری اور حج سے متعلق کتابوں کے مطالعہ میں گذارا، چونکہ آخری وقت تک جانے کی تاریخ متعین نہ تھی، کاروائیاں جاری تھیں، اس لئے میں نے اس سلسلے میں بجز چند لوگوں کے کسی کو بتانے سے گریز کیا، لیکن جوں جوں وقت قریب آتا گیا خبر پھیلتی گئی، یہاں تک کہ بعض رفقاء شکایت بھی کرنے لگے کہ اس سلسلے میں ان کو نہیں بتایا، جب دس پندرہ دن رہ گئے تو مناسب معلوم ہوا کہ تمام اساتذہ سے فرداً فرداً ملاقات کر کے ان سے دعا کی درخواست کی جائے۔

سب سے پہلے راقم نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاذِ حدیث جناب مولانا زکریا صاحب سے ملاقات کی، مولانا نے دعا دیتے ہوئے فرمایا:یہ اللہ ہی کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں نوجوانی میں اپنے گھر کی زیارت اور حج کے لئے قبول فرمایا، لہٰذا خوب خوب دعا و عبادت کرنا۔

پھر دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم اور مجلہ البعث الاسلامی کے مدیر حضرت مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی دامت برکاتہم (وائس چانسلر، انٹیگرل یونیورسٹی، لکھنؤ)سے ملاقات کی، تو مولانا نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: ا سال اللّٰہ ان یجعل حجک حجاًمبروراً، وسعیک سعیاً مشکوراً، وذنبک ذنبا ً مغفوراً، و یؤفقک ان تؤدی سائر الارکانِ والمناسکِ با لسکونِ والوقارِ والطمانینۃ، پھر فرمایا: استودع اللّٰہ دینک و امانتک وخواتیم عملک۔

پھر ندوۃ العلماء کے ناظم، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی دامت برکاتہم سے ملاقات ہوئی اور سفر حج کے بارے میں بتایا، تو مولانا نے مصافحہ و معانقہ فرمایا، پھر یہ دعا دی، یعطیک اللّٰہ الحج المبرور والسعی المشکور والذنب المغفور و السفر المیسور۔

وہیں پر دارالعلوم ندوۃ العلماء کے معتمدِ تعلیمات جناب مولاناسید واضح رشید صاحب دامت برکاتہم اور کلیۃ اللغۃ کے عمید مولانا نذر الحفیظ صاحب دامت برکاتہم سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

ان کے علاوہ مولانا شمس الحق صاحب(مدیر مجلہ تعمیر حیات)، مولانا عبد العزیز صاحب(نائب مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ)، مولانا خالد غازیپوری صاحب (استاذِ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ)، مولانا عمیس صاحب ندوی(استاذِ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ)وغیرہ حضرات سے بھی ملاقات ہوئی۔

پھر ہندستان کے مایہ ناز فقیہ جناب مولانا برہان الدین صاحب سے بعد نماز جمعہ ملاقات کی، مولانا نے چند سوالات کے بعد مشورہ دیا کہ حج کے فضائل ومسائل سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کرو، ان کے اس مشورہ سے مجھے حج سے متعلق کتابوں کے مطالعہ کے سلسلے میں مزید تقویت حاصل ہوئی اس دوران جن کتابوں کا مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا ان میں بعض مندرجہ ذیل ہیں :

(۱) دلیل الحاج و المعتمر (۲)اذکار المناسک( ۳) الحج و العمرۃ فی الفقہ الاسلامی (۴) احکام النساء فی الحج و العمرۃ(۵) المنھاج للمعتمر و الحاج (۶)تبصیر الناسک باحکام المناسک (۷) حج و مقامات حج(۸) اپنے گھر سے بیت اللہ تک (۹) سفرحجاز(۱۰)فضائل حج، یہ تمام کتابیں مولانا فیصل صاحب ندوی کے پاس دستیاب ہوئیں۔

جب مکمل ایک ہفتہ رہ گیا اور چھٹی کی کار وائی وغیرہ بھی بحمد اللہ بآسانی مکمل ہو گئی تو ارادہ ہوا کہ ۷؍ ذی قعدہ ۱۴۳۲؁ھ بروز جمعرات گھر کے لئے روانہ ہو جاؤں تاکہ سفرکی تیاری وغیرہ مکمل ہوسکے، لیکن اچانک یہ اطلاع ملی کہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے چار     مؤقر اساتذۂ کرام و ذمہ داران کل بروز جمعہ تشریف لانے والے ہیں، لہٰذا ان کی ملاقات کے لئے سفر مؤخر کر دیا، یہ حضرات جمعہ کی صبح ندوۃ العلماء تشریف لائے، جن کے نام یہ ہیں : ۱۔ جناب مولانا عبد الباری صاحب ندوی (مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل) ۲۔ جناب مولانا الیاس صاحب ندوی (بانی و جنرل سکریٹری مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی) ۳۔ جناب مولانا صادق صاحب ندوی (رکن مجلس شوری جامعہ اسلامیہ، بھٹکل)۴۔ جناب مولانا فاروق صاحب ندوی (سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ، بھٹکل)

ان حضرات سے ملاقات کے بعد راقم ۸؍ ذی قعدہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۷؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء بوقت شام ۶بجے ندوہ کے احاطہ سے نکل کر جانب اسٹیشن روانہ ہوا، ساتھ میں برادرم محمد ابراہیم خان بھی تھے، ٹرین کا وقت ۸ بجے تھا، چونکہ ٹکٹ اسی دن صبح بنایا گیا تھا، اس لئے سیٹ ملنے کی کوئی امید نہ تھی، لیکن اس سفر کے پہلے مرحلے ہی میں اللہ کی مدد کا ظہور اس طرح ہوا کہ اسی دن صبح ٹکٹ بنانے کے باوجود ریزرویشن میں ٹکٹ کنفرم ہو گیا جو کہ مشکل تھا، اور بآسانی یہ سفر تمام ہوا، چونکہ والدہ محترمہ ننھیال میں تھیں اس لئے پہلے ننھیال ہی جانا ہوا، پھر وہاں سے والدہ محترمہ کو لے کر دادیہال پہنچا، جہاں حاجیوں کے اعزاز میں جلسوں کا انعقاد کیا گیا تھا، پہلا جلسہ گاؤں کی جامع مسجد میں بعد نماز مغرب ہوا، جس میں علماء کے خطابات ہوئے، جناب مولانا انوار اللہ فلک قاسمی (سابق استاذ مدرسہ اسلامیہ، شکر پور، بھروارہ، دربھنگہ، و بانی مدرسہ سبیل الشریعہ، آواپور، سیتامڑھی)کا بیان نہایت ہی مؤثر و مفید رہا، اور انھوں نے حج کے ارکان ومناسک کو تفصیل سے سمجھا یا۔

دوسرے دن جامعہ ربانیہ کی نو تعمیر شدہ مسجد میں جلسہ کا اہتمام کیا گیا تھا، اس جلسہ میں جناب مولانا عمران صاحب قاسمی (قاضی شریعت و شیخ الحدیث جامعہ قاسمیہ دار العلوم، بالاساتھ، سیتامڑھی)اور گرامی قدر جناب مولانا عزیر اختر قاسمی (استاذ دارالعلوم، بالاساتھ و معتمد تعلیمات جامعہ ربانیہ) کے معلومات افزا خطابات ہوئے، والد ماجد نے بذریعہ فون مجھے حکم دیا کہ کچھ باتیں لکھ کر پیش کروں، تعمیلِ حکم کی خاطر لکھ تو لیا، لیکن جلسہ میں پہنچنے میں کچھ تاخیر ہو گئی جس کی وجہ سے وہاں پیش نہ کر سکا، لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً ان کو یہاں بیان کر دیا جائے، ہوسکتا ہے کوئی نفع کی بات ہو۔

 

کچھ اہم باتیں

 

بعد حمد و ثنا راقم نے جلسہ گاہ میں بیٹھے لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا، پھر ہر ایک کی جو ذمہ داریاں ہیں ان کو مختصراً بیان کیا۔

(۱)پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کو اللہ نے حج بیت اللہ کی دولت سے سرفراز فرمایا، ان کی تین ذمہ داریاں ہیں۔  ۱)فریضۂ حج بیت اللہ کی ادائیگی کے بعد ان کی زندگی میں جو تبدیلیاں آئی ہیں ان کو باقی رکھنے کی کوشش کریں۔  ۲)اس سفر سے جو تجربات حاصل ہوئے ہیں ان سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں، اور ان کو بھی حج کی ترغیب دیں۔ ۳) اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ان کو مزید توفیق عطا فرمائے۔

(۲)دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کو اللہ تبارک و تعالی نے امسال قبولیت سے نوازا ہے۔ ان پر بھی تین ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔  ۱) اس نعمتِ عظمی پر اللہ کا شکر ادا کریں۔  ۲)اللہ سے دعا و توبہ و استغفار کریں کہ خدا نخواستہ ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے اور وہ محروم قرار پائیں۔  ۳)سفر سے قبل حج کے فضائل و مسائل کے بارے میں مکمل جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کریں اور گناہوں سے توبہ و استغفار کر کے سفر شروع کریں۔

(۳)تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو حج کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن ابھی ان کو موقع نہیں ملا ہے۔ تو جلد از جلد حج کی دولت پانے کیلئے وہ لوگ بھی تین کام کریں۔ ۱)خوب خوب دعا کا اہتمام کریں۔ ۲)خوب خوب رسول پاکﷺ پر درودوسلام بھیجیں۔ ۳)ظاہری اسباب و ذرائع (پاسپورٹ، پیسہ )کا وغیرہ کا انتظام شروع کر دیں۔ انشاء اللہ پیسے پورے جمع نہیں ہوں گے کہ غیب سے حج کا انتظام ہو جائے گا۔

جلسہ کے اختتام کے بعد والد ماجد کی طرف سے مدرسہ میں اساتذہ و طلبہ اور آئے ہوئے مہمانوں کیلئے کھانے کا انتظام تھا، جس کے بعد راقم گھر کے لئے روانہ ہوا، چونکہ دوسرے دن ہمیں حج ہاؤس کیلئے روانہ ہونا تھا اس لئے گھر پر ملاقات کرنے والوں کا ازدحام تھا اور یہ ملاقات کا سلسلہ آدھی رات تک جاری رہا، اور اس کے بعد ہی ہم لوگوں کو سونے کا موقع مل سکا۔

 

سفر کا آغاز

 

آج ۱۲؍ ذی قعدہ ۱۴۳۲؁ ھ مطابق ۱۱ ؍ اکتوبر ۲۰۱۱؁ ء بروز منگل ہے، صبح ہی سے گھر میں ہل چل ہے، ایک ہی گھر کے پانچ افراد بیک وقت حج بیت اللہ کیلئے روانہ ہو رہے ہیں، یہ بھی اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے، نیز والد محترم کی تحریک پر گاؤں کے پانچ افراد:۱)جناب مولانا مرشد صاحب قاسمی ۲)ان کے والد ماجد محترم جناب صبیر الحق صاحب ۳)جناب عبد الشکور صاحب ۴)جناب عجیب الحق صاحب ۵)اور ان کی اہلیہ محترمہ رحمت النساء صاحبہ بھی حرمین شریفین کی زیارت اور حج جیسی عظیم عبادت وسعادت کے لئے ہمراہ تھے، نمازِ فجر کے بعد ہی سے گھر کے سامنے لوگوں کا جم غفیر ہے، جن میں گاؤں کے لوگ بھی ہیں اور علماء بھی، جامعہ ربانیہ کے اساتذہ بھی ہیں اور طلباء بھی، غرض ایک عجیب منظر ہے، ملاقات و گفتگو، دعا و سلام کے بعد جناب مولانا قمر الزماں صاحب(بانی مدرسہ اسلامیہ، شکر پور، بھروارہ، )کی رقت آمیز دعاؤں کی سوغات لے کر تقریباً سات بجے گھر سے روانہ ہوئے، آدھے گھنٹے کے بعد ہم ننھیال پہنچے، وہاں میرے نانا جناب عبد المعید صاحب، ماموں اور و دیگر رشتہ دار ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے، ان سے ملاقات کے بعد پھر سفر شروع ہوا اور راقم کی پھوپھی محترمہ خالدہ پروین صاحبہ(زوجہ مولانا مشیر الحق صاحب قاسمی) کے گھر(مظفر پور) پہنچے۔

وہاں ناشتہ سے فراغت کے بعد دوبارہ ہمارا سفر شروع ہوا اور تقریباً ایک بجے کے قریب ہم لوگ حج ہاؤس (پٹنہ)پہنچے، گھر سے حج ہاؤس کے سفر کے دوران ہم سب لوگ ماضی کا تذکرہ کرنے لگے، اور میرے بچپن کے متعلق باتیں ہونے لگیں، دادی نے کہا کہ میں اس کو (راقم کو)کھلایا اور بہلایا کرتی تھی، پھوپھی نے کہا کہ میں اس کو فجر کی نماز سے قبل جب قرآن یاد کرتی تو اس کو گود لیا کرتی، اسی لئے اس نے دو مہینہ سے بھی کم وقت میں حفظ قرآن مکمل کر لیا، پھوپھا قمر عالم نے کہا کہ میں مرڈیشور(بھٹکل) کے مدرسہ تنویر الاسلام کے مطبخ میں جب کھانا پکایا کرتا تھا تو اس کو ساتھ رکھتا تھا، اور وہ ذرا نہ روتا وغیرہ وغیرہ۔

غرض کہ ہم لوگ انہیں چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حج ہاؤس پہنچ گئے، نماز و کھانے سے فراغت کے بعد ہم لوگوں نے آرام کیا، بعد نماز مغرب حج ہاؤس کے احاطہ میں دوسرے دن جانے والے حجاج کے اعزاز میں جلسہ کا انعقاد کیا گیا تھا، یہ وہاں کا روزانہ کا معمول تھا کہ دوسرے دن جانے والے حجاج کے اعزاز میں ایک دن قبل عموماً بعد نمازِ مغرب جلسہ کا انعقاد کیا جاتا، جس میں علمائے کرام کے خطابات ہوتے، نیز ہر ہوائی جہاز کے جملہ حاجیوں میں ایک یا دو سربراہ متعین کئے جاتے، آج کے جلسہ میں مولانا انیس الرحمن صاحب قاسمی (ناظم امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ) نے بھی تقریر کی اور نہایت ہی آسان انداز میں عمرہ کے طریقہ کی وضاحت کی، جلسہ کے اختتام کے بعد میں نے ان سے ملاقات کی، مولانا نے محبت بھرے انداز میں گفتگو کی، تعارف کے بعد مجھے اپنے ساتھ حج ہاؤس کے دفتر لے گئے، وہاں بہت سے بڑے بڑے لوگ موجود تھے لیکن راقم کو اپنے قریب بٹھایا اور بڑی محبت و شفقت کا معاملہ فرمایا۔

 

پٹنہ حج ہاؤس میں

 

آج ۱۳؍ ذی قعدہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۱۲ ؍ اکتوبر ۲۰۱۱؁ء بروز بدھ ہے، باقی ماندہ کارروائی کی تکمیل کے بعد نماز ظہر سے رات تک کا وقت خالی تھا، مناسب معلوم ہوا کہ شہر پٹنہ(عظیم آباد ) کے تاریخی و یادگار مقامات کی سیر کی جائے، لہٰذا راقم اپنے پھوپھا مولانا مشیر الحق صاحب قاسمی کے ساتھ سب سے پہلے امارتِ شریعہ کی جانب روانہ ہوا، وہاں پہنچتے پہنچتے کافی وقت ہو گیا، ارادہ تو یہ تھا کہ وہاں سے خدا بخش لائبریری کی بھی سیر کی جائے، لیکن وقت کی کمی اور مسافت کی دوری کی بنا پر ممکن نہ ہوسکا اور ہم حج ہاؤس واپس ہو گئے۔

 

سفرحج اور سفر آخرت میں مشابہت

 

آج ۱۴؍ ذی قعدہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۱۳ ؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء بروز جمعرات ہے، ذہن مضطرب و بے چین ہے، دل مارے خوشی کے مچل رہا ہے، حاجیوں کے چہرے پر خوشی کے آثار صاف نظر آرہے ہیں، فجر کی نماز کے بعد ہی سے سب احرام کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں، کیوں کہ آج سفر کا دن ہے، سب سفید لباس میں خود کو ملبوس کر رہے ہیں، ایک عجیب سا سماں ہے، کوئی سامان باندھ رہا ہے، کوئی رشتہ داروں سے ملاقات کر رہا ہے، کوئی احرام پہن رہا ہے، غرض کہ ہر حاجی اپنے کام میں مگن ہے، حج کا یہ سفر ہو بہو آخرت کے سفر کی منظر کشی کر رہا ہے، آج تو آدمی خود سفید کپڑے میں ملبوس ہو رہا ہے لیکن آخرت کے سفر میں اتنا بھی نہیں کر سکتا، سفید کپڑے بھی دوسرے پہناتے ہیں، پھر کچھ تو گھر سے ہی دعا و مغفرت کے ساتھ روانہ کر دیتے ہیں، تو کچھ جنازہ کی نماز بھی پڑھ لیتے ہیں، اور جن کو زیادہ تعلق ہوتا ہے وہ قبرستان تک پہنچا دیتے ہیں، اور جو نہایت ہی قریب کے ہوتے ہیں وہ قبر میں اتار دیتے ہیں، لیکن اس کے آگے اس آدمی کے علاوہ اور کوئی نہیں جاتا، اسی طرح سفر حج میں کچھ نے تو گھر سے رخصت کیا، کچھ نے تو حج ہاؤس تک آنے کی زحمت گوارا کی، اور کچھ ائیر پورٹ تک پہنچ گئے لیکن اس کے بعد وہی گئے جن کا ٹکٹ تھا، جن کو جانا تھا اور کوئی نہ گئے نہ جا سکتے، یہی سوچتے سوچتے ہم بھی تیار ہو گئے، اور سات بجے کے قریب ائیر پورٹ کے لئے بذریعۂ بس روانہ ہوئے، حج ہاؤس سے لے کر بس کے دروازے تک رخصت کرنے والوں کا ایک بڑا مجمع تھا، کوئی مصافحہ کر رہا تھا، کوئی معانقہ، کوئی دعا کی درخواست کر رہا تھا،   تو کوئی حضورﷺ پر درود بھیجنے کی، اور کوئی ان دعاؤں کے ساتھ الوداع کہہ رہا تھا، ۱)استودع اللّٰہ دینک وامانتک وخواتیم عملک، ۲)اللّٰہم اطو لہ البعد، وھوّن علیہ السفر یہاں تک کہ ہم بس پر سوار ہوئے، اور دس منٹ بعد ہم لوگ ائیر پورٹ پہنچ گئے، کسٹم وا میگریشن سے فراغت کے بعد ہر ایک کو اکیس سو سعودی ریال دئے گئے، جو وہاں مدتِ اقامت میں کام آسکیں، اس کے بعد ہلکا ناشتہ ہوا، پھر ہم لوگ ائیر پورٹ کے اندر داخل ہوئے، اور بذریعہ بس ہوائی جہاز کے دروازہ پر تقریباً دس بجے پہنچ گئے، یہ پہلا موقعہ تھا جب راقم نے ہوائی جہاز دیکھا اور سفر بھی کیا، اس سے قبل کئی مرتبہ ائیر پورٹ پر دیکھنے کی کوشش کی، لیکن کامیابی نہ ہوسکی، کہ اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

 

ہوائی جہاز کا سفر     

 

اللہ کا نام لے کر ہوائی جہاز پر سوار ہوئے، دعائیں پڑھیں، پڑھائیں اور ہوائی جہاز نے اڑان بھری، پٹنہ سے ہمیں دہلی جانا تھا، یہ سفر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا تھا، (اس دوران راقم نے سفر نامہ لکھنا شروع کیا جو آپ کے سامنے ہے)۔

 

دہلی ائیر پورٹ پر

 

تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ہم لوگ دہلی ائیر پورٹ پہنچے، جہاں ہمیں ایک کشادہ لاؤنج میں بٹھایا گیا، جہاں سے ر ن وے کا منظر سامنے تھا، موسم ہلکا سا کہر آلود تھا، لیکن ہلکی سی دھوپ بھی تھی، اندر ائیر کنڈیشن ہونے کی وجہ سے ہلکی سی ٹھنڈی بھی محسوس ہو رہی تھی، اسی دوران کھانا پیش کیا گیا، گرم گرم کھانے کے ساتھ رن وے کے دلکش منظر نے سفر کو نہایت ہی خوشگوار بنا دیا، دہلی سے پانچ بجے ہوائی جہاز کا وقت تھا، اس دوران چار پانچ گھنٹے تھے، ظہر و عصر کی نماز سے فراغت کے بعد ان لوگوں نے جنھوں نے اب تک احرام نہ باندھا تھا احرام باندھا، وہاں دہلی مرکز کی طرف سے ایک بزرگ آئے ہوئے تھے، جنھوں نے عصر کی نماز کے بعد کچھ مفید باتیں بتائیں، اور مجھ سے ملاقات و تعارف کے بعد فرمایا کہ اگر موقع ملے تو ہوئی جہاز پر لوگوں کو عمرہ کے احکام وغیرہ بتا کر نیت کروا دینا، اس سے لوگوں کو آسانی ہو گی، پھر انھوں نے مجھے دو کتابیں ہدیہ میں دیں جو دوران سفر بہت ہی مفید ثابت ہوئیں۔

 

دہلی سے جدہ کا سفر

 

نمازِ عصر سے فراغت کے تھوڑی دیر بعد اگلی پرواز کا اعلان ہو گیا اور ہم لوگ ہوائی جہاز پر سوار ہونے لگے، پٹنہ سے دہلی کی پرواز چونکہ انڈین ائیر لائنز کی تھی اسلئے ان میں ائیر ہوسٹس(جہاز پر کام کرنے والا عورتوں کا عملہ ) بھی تھیں، جو کہ ایسی پروازوں کیلئے مناسب تو نہ تھا، لیکن جمہوری ملک ہونے کی بنا پر کچھ رخصت بھی اگر مان لی جائے تو الگ بات ہے، لیکن تعجب تو اس وقت ہوا جب دہلی سے جدہ کی جہاز کا بھی یہی حال تھا، یہ الگ بات ہے کہ طیارہ خود سعودی عرب کا نہ تھا، بلکہ کسی اور ملک کا تھا، لیکن پھر بھی اتنا تو خیال رکھا جانا ضروری ہے، بہرحال ہم طیارہ پر سوار ہوئے اور جہاز نے اڑان بھر دی۔

جیسے ہی پرواز شروع ہو گئی ہم لوگوں کے لئے کھانا پیش کیا گیا، جہاز پر کام کرنے والوں میں ایک شخص ہندوستانی نژاد تھا، جو پونے کا شہری تھا، اس نے ہم لوگوں کے ساتھ بہت ہی اچھا برتاؤ کیا، چونکہ حاجیوں کے طیارہ میں مسافروں کی سیٹ متعین نہیں ہوتی، جس کو جہاں جگہ ملتی ہے بیٹھ جاتا ہے، جس کی بنا پر کمزور و ضعیف لوگوں کو دقت و پریشانی بھی ہوتی ہے، ہمیں بھی اس موقعہ پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن شخصِ مذکور کی مددسے بآسانی وہ پریشانی ٹل گئی، اور ہم تماموں کو قریب قریب جگہ مل گئی، کھانے سے فراغت کے بعد لوگوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ نیت ابھی کی جائے یا میقات پہنچ کر؟ نیز مغرب و عشاء کی نماز ابھی پڑھ لی جائے یا کیا کیا جائے وغیرہ وغیرہ، تو راقم نے جہاز پر متعین اسی ملازم سے اس سلسلہ میں بات کی کہ بذریعہ مائکروفون لوگوں سے کچھ باتیں کہنے کا موقعہ دیا جائے، تو اس نے کہا کہ ہر سفر میں اس کا موقعہ دیا جاتا ہے، لیکن صرف ایک مرتبہ جب جہاز میقات کے قریب ہو، اگر ابھی کہنا ہو تو پھر اسوقت موقعہ نہ ملے گا، چونکہ تمام افراد کا ارادہ حج تمتع کا تھا اس لئے راقم نے موقعہ کو غنیمت جان کر اسی وقت عمرہ کے احکام وغیرہ بتا کر تماموں کو تلبیہ پڑھوا کراس طرح نیت کروا دی:

اللّٰھم انی ارید العمرۃ فیسّرھا لی، وتقبلھا منی۔

ترجمہ:(اے اللہ! میں عمرہ کا ارادہ رکھتا ہوں، پس تو اسے میرے لئے آسان کر دے اور اس کو مجھ سے قبول فرما۔ )

جب ان چیزوں سے فراغت ہوئی تو وہ شخص(جس کا نام مجھے یاد نہ رہا)میرے پاس آیا اور مبارکباد دے کر کہنے لگا : کہ پانچ سال سے میں اس ملازمت میں ہوں، ہر سال کئی مرتبہ حج کے موسم میں حاجیوں کے جہاز کے ساتھ جانا ہوتا ہے، لیکن جب بھی کوئی یہ باتیں کہتا ہے وہ کوئی معمر شخص ہوتا ہے، لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے جب ایک نوعمر نے یہ باتیں بتائی ہوں، میں نے اس پراللّٰہم لک الحمد ولک الشکر کہا اور دل کی گہرائیوں سے اللہ کا شکر ادا کیا کہ بغیر فضل خداوندی کوئی چیز ممکن نہیں، دوران گفتگو اس نے سوال کیا کہ ’’اگر ہم مکہ و مدینہ جانا چاہیں تو ہمیں کیا کرنا پڑے گا؟‘‘(وہ غیر مسلم تھا)اس وقت میرے دل میں ایک انوکھا جواب آیا جو میں نے کسی سے سنا تھا کہ ہر ملک میں داخلہ کے لئے کچھ شرائط و آداب اور قوانین ہوتے ہیں جن کی رعایت ضروری ہوتی ہے، اس کے بغیر کسی جگہ جانا یا وہاں رہنا دشوار و ناگزیر ہے، ٹھیک اسی طرح حرمین شریفین میں داخلہ کیلئے جملہ شرائط کے ساتھ ایک اضافی شرط اسلام قبول کرنا ہے، اس شرط کی تکمیل کے بغیر داخلہ ممنوع ہے، آپ بھی اسلام قبول کر لیں اور بغیر روک ٹوک کے زیارت سے آنکھوں کو ٹھنڈی کریں، وہ مسکرایا اور اپنے کام کیلئے چلا گیا، اللہ کرے کہ وہ مشرف باسلام ہو جائے۔

جہاز پوری تیزی کے ساتھ منزل کی طرف گامزن تھا، اکثر لوگ سو چکے تھے، میں نے حج ہاؤس کے بعد سے اب تک کا سفر نامہ مکمل کیا، تھوڑی دیر بعد وہ شخص دوبارہ واپس آیا اور اس نے مجھ سے جہاز کے اگلے حصہ میں لے جا کر وہاں کے تمام کل پرزے اور ترتیب دکھائی، نیز پائلٹ کی جگہ وغیرہ دکھائی جو میرے لئے ایک نئی چیز تھی۔

جو ہوا ہوا کرم سے تیرے

جو ہو گا تیرے ہی کرم سے ہو گا

کچھ دیر بعد اعلان کیا گیا کہ ہوائی جہاز اب جدہ کی فضاؤں میں اڑان بھر رہا ہے، لہذا جو لوگ کھڑکیوں کے پاس تشریف فرما ہیں، وہ نیچے جدہ شہر کا خوشنما چمکتا اور جھلملاتا ہوا نظارہ کر سکتے ہیں، میں بھی اتفاق سے کھڑکی کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا اور نیچے جدہ شہر ایسا لگ رہا تھاجیسا کہ روشنی کے بلبوں میں ڈوبا ہوا ہو، ابھی لوگ اس منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ہوائی جہاز نیچے اترنے لگا اور ہندوستانی وقت کے مطابق دس بجے ہم لوگ جدہ پہنچے۔

’’جدہ ابتداء ً ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جس میں اور اس کے اطراف میں اسلام سے قبل قبیلۂ قضاء آباد تھے، اس کے جنوب میں کچھ فاصلے پر الشعبیہ نامی ایک ساحلی بستی تھی، جو اس علاقہ کی اصل بندرگاہ تھی، لیکن کچھ آرام دہ اور عمدہ بندرگاہ نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عثمانؓ کے عہد میں لوگوں نے ان سے اس کی مشکلات اور دشواریوں کا ذکر کیا، اس وقت سے اس کے بجائے جدہ کا انتخاب ہوا، روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے جدہ تشریف لا کر اس کے سمندر میں غسل فرمایا اور اس کا افتتاح کیا، اس علاقہ کے بندرگاہ بن جانے کے بعد جدہ کی ترقی شروع ہوئی۔ ‘‘

۔۔۔۔۔

(۱)حج و مقامات حج، ص:۴۹۔۵۰

۔۔۔۔۔

’’جدہ کا جائے وقوع اس کے طبعی بندرگاہ بننے کے لئے سازگار نہیں تھا، لیکن مکہ مکرمہ سے قرب کے سبب وہ بڑی بندرگاہ بنا، یہاں سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں شہروں کی طرف عمدہ سڑکیں جاتی ہیں، جدہ کے مشرقی سمت سے مکہ مکرمہ کے لئے راستہ گیا ہے‘‘۔ (۱)

۔۔۔۔۔

(۱)حج و مقامات حج، ص:۵۶

۔۔۔۔۔۔

 

منزل مقصود کی طرف

 

امیگریشن اور کسٹم وغیرہ کی کارروائی سے فارغ ہونے تک تین چار گھنٹے لگ گئے، اس کے بعد ہم لوگ بذریعہ بس مکہ مکرمہ کیلئے روانہ ہوئے، باوجود اس کے کہ دن لمبا ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ بھی تھی اور پورے دن سونے کا موقعہ بھی نہ ملا تھا، نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، کیونکہ ہم اس شہر کی جانب رواں دواں تھے جہاں جانے کیلئے دل مضطرب رہتے ہیں، آنکھیں ترستی ہیں، لیکن بہت کم لوگوں کو یہ موقعہ حاصل ہوتا ہے، ہم ان خوش نصیبوں میں تھے جن کو پروردگار عالم نے محض اپنے لطف و کرم، فضل و انعام کی بناء پر اس شہرِ مقدس میں واقع اپنے گھر کی زیارت کا موقع نصیب فرمایا۔ ورنہ :

کہاں ہم اور کہاں یہ نکہت گل

نسیم صبح یہ تیری مہربانی ہے

اور سچ کہا ہے دل و جگر کے شاعر جگر مرادآبادی نے:

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کی بات نہیں

فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں

راقم بس کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا، موسم نہایت ہی خوش گوار تھا، خنک ہوائیں چل رہی تھیں، آسمان صاف تھا، ستارے جھلملا رہے تھے چاند اپنی روشنی بکھیر رہا تھا، اور میں اس روشنی کی مدد سے ان نقوش و آثار کی تلاش میں تھا، جو انبیاء و مرسلین، اولیاء و صالحین نے اس راہ سے گذرتے ہوئے چھوڑے تھے، لیکن گردش ایام نے ان علاقوں کے بڑے حصے کو کیا سے کیا بنا کر رکھ دیا تھا، اب بھی ایک بڑا علاقہ پہلے کی طرح سیاہ پہاڑوں اور سنگلاخ زمینوں پر مشتمل تھا، لیکن کہیں کہیں سبزہ زار بھی تھا، تو کہیں عمارتوں کا ایک سلسلہ دراز۔

 

حدودِ حرم میں داخلہ

 

میری یہ کوشش تھی کہ ہر لگے ہوئے بورڈ کو پڑھوں اور سفر کی منازل کا اندازہ لگاؤں، اسی دوران حدودِ حرم کے آغاز کا بورڈ نظر آیا، ’’مکہ مکرمہ کے چاروں طرف کچھ حدود مقرر ہیں، جو جبرئیلؑ نے اللہ کی طرف سے حضرت ابراہیمؑ کو بتائی تھیں اور انہوں نے اس جگہ نشان لگا دئے تھے، اس کے بعد رسول اللہﷺ نے ان علامات کو بنوایا تھا، بعد مین انہیں کی کچھ تجدید ہوتی رہی، اب بھی ان جگہوں پر نشانات بنے ہوئے ہیں، ان کے اندر کی زمین میں کسی جانور کو مارنا، وہاں کے درخت، گھاس اور لکڑی کا کاٹنا حرام ہے۔ میں حرم و حدود حرم اور باشندگانِ حرم کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ بس (الجمعیۃالخیریۃ لھدیۃ الحجاج والمعتمرین)کے احاطہ میں داخل ہوئی، یہ اہل خیر حضرات کا ایک ادارہ ہے، جس کے مراکز و دفاتر مکہ و مدینہ کے مختلف علاقوں میں ہیں، جہاں سے حاجیوں میں پانی اور کھانے کی چیزیں تقسیم کی جاتی ہیں، یہاں تمام حاجیوں میں ماء زمزم اور اور کچھ ہلکی پھلکی کھانے کی چیزیں، اور جوس وغیرہ تقسیم کئے گئے، اس سفر میں یہ پہلا موقعہ تھا جب ہم لوگوں کو ماء زمزم پینے کا موقع ملا۔

پھر بس آگے بڑھی اور معلم کے دفتر کے پاس پہنچی، معلم کو عربی میں مطوف کہتے ہیں، ہمارے معلم کا نام فھد عبداللہ مؤذن ہے، وہ بس پر سوار ہوئے، ہم تماموں کو سلام کیا، وہ ایک وجیہ اور ادھیڑ عمر کے خوبصورت شخص ہیں۔ پھر تمام حاجیوں کو معلم کا کارڈ دیا گیا، معلم کا اصل کام تو یہ ہوتا ہے کہ تمام حاجیوں کی نگرانی کرے، ہر موقع پر ان کی خدمت کرے اور تمام ارکان و واجبات کی ادائیگی میں ان کی مدد کرے، لیکن ایک طرف تو حاجیوں کی روز بروز بڑھتی تعداد، پھر معلّموں کی قلت یا ان کی بے توجہی کی وجہ سے ایک ایک معلم کے تحت پانچ پانچ ہزار حاجی ہوتے ہیں، جس کی بناء پر نگرانی تو دور کی بات پورے سفر میں معلم کا چہرہ بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوتا، پورے کام اس کے ماتحت لوگ کرتے ہیں، اور حاجیوں کو بہت زیادہ مشقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ حجاج کرام جو بوڑھے ہوں یا کمزور ہوں ان کی کیا حالت ہوتی ہو گی ؟

سفر جاری رہا، رات گذرتی رہی، ہم مکہ و اطراف کی گلیوں میں گھومتے رہے کہ اچانک ایک بلند و بالا گھنٹہ گھر نما عالیشان عمارت کا اوپری حصہ نظر آیا، پہلے مرحلہ میں ایسا لگا کہ مسجد حرام کا کوئی منارہ ہے جو دعوت نظارہ دے رہا ہے اور قریب بلا رہا ہے، لیکن جب اس پر لکھی ہوئی عبارت ’’وقف الملک عبد العزیز للحرمین الشریفین ‘‘نظر سے گذری تو کچھ اندازہ ہوا کہ یہ منارہ نہیں کوئی دوسری چیز ہے، اسی دوران فجر کی اذان ہونے لگی اور اس منارہ کا اوپری حصہ چمکنے لگا اور اذان کے ختم ہونے تک چمکتا رہا، یہ پہلی اذان تھی جو مکہ میں داخلہ کے بعد ہم نے مسجد حرام کے مناروں سے سنی، چونکہ ہم مکہ کے اندر داخل ہو چکے تھے اس لئے امید تھی کہ فجر کی نماز مسجد حرام میں پڑھنے کا موقع ملے گا، لیکن افسوس بس کے پہنچنے تک اتنی تاخیر ہوئی کہ روشنی پھیل گئی اور تقریباً ساڑھے پانچ بجے ہم لوگ اپنے کمروں میں داخل ہوئے، چونکہ ہم لوگوں نے مغرب و عشاء کی جمع تاخیر کی نیت کی تھی، لیکن پڑھنے کا موقعہ نہ ملا اور فجر کی نماز بھی قضا ہو گئی اس طرح سفر کے آغاز ہی میں تین نمازیں قضا ہو گئیں، جسکا بہت ہی افسوس ہوا، اللہ کے حضور توبہ و استغفار کی، لیکن شاید اللہ کو یہی منظور تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلی نماز مسجد حرام میں جو ہم نے ادا کی وہ جمعہ کی نماز تھی، بہر حال نہا دھو کر فارغ ہوئے، معلم کی طرف سے دئے گئے کھانے سے فراغت ہوئی، خدا کا فضل رہا کہ ہم پانچ لوگوں کو ایک ہی کمرہ ملا، جو ائیر کنڈیشن تھا، بیت الخلاء بھی اٹیچ تھا، مغرب و عشاء اور فجر کی نماز پڑھی۔

 

مکہ تاریخ کے دریچے سے

 

نماز سے فراغت کے بعد مصلے ہی پر بیٹھا تھا کہ سوچ و فکر کا ایک سلسلہ چل پڑا اور راقم اس زمانہ میں پہنچ گیا، جب یہی علاقہ بنجر و ویران تھا، اونچے اونچے پہاڑوں، ویران صحراؤں کے علاوہ کچھ نہ تھا، آبادی کا نام و نشان نہ تھا، نہ کوئی آدمی نہ آدم زاد، البتہ کبھی کبھی کوئی تجارتی قافلہ یہاں سے گذرتا تھا، پھر ایک آد می اپنی بیوی اور اکلوتے فرزند کو لے کر اللہ کے حکم سے یہاں آتا ہے اور چھوڑ کر چلا جاتا ہے، کچھ دیر بعد بچہ کو پیاس لگتی ہے، بچہ کی پیاس دیکھ کر ماں تڑپ اٹھتی ہے اور دو پہاڑوں کے درمیان چکر لگانے لگتی ہے، سات چکر لگانے کے بعد اچانک بچے کی طرف دیکھتی ہے تو حیران رہ جاتی ہے کہ بچہ کے پیاس کی شدت سے ایڑی رگڑنے کی وجہ سے اس جگہ پر ایک چشمہ پھوٹ پڑا ہے، وہ جلدی سے واپس آتی ہے اور اس چشمہ کو مٹی سے گھیرتی ہے، پھر وہ پانی بچہ کو بھی پلاتی ہے اور خود بھی پیتی ہے، ماں کا پانی کے تلاش کیلئے چکر لگانا اور بچہ کا پیاس کی شدت سے ایڑی رگڑنا، یہ دونوں ادا خدا کو پسند آتی ہے اور قیامت تک کیلئے یادگار بن جاتی ہے، جن میں پہلی صفا و مروہ کے نام سے معروف ہے اور بچہ کی ادا آب زمزم کے ذریعہ جانی جاتی ہے۔

اسی دوران کچھ تجارتی قافلے پانی دیکھ کر وہاں رک جاتے ہیں اور اجازت لے کر وہیں آباد ہو جاتے ہیں، جب بچہ چلنے پھرنے لگتا ہے، تو وہ شخص واپس آتا ہے، بچہ کو چلتا پھرتا دیکھ کر بچہ کی محبت باپ کے دل میں رچ بس جاتی ہے، تو بذریعہ خواب خدا کا حکم ہوتا ہے کہ اس بچہ کو اللہ کیلئے قربان کر دو، باپ و بیٹا دونوں حکم الٰہی کیلئے کمر بستہ ہو جاتے ہیں، راستہ میں شیطان ورغلاتا ہے بہکاتا ہے، لیکن باپ کنکر لیکر اس کو مارتا ہے اور یہ ادا ہمیشہ ہمیش کیلئے رائج ہو جاتی ہے جو جمرات کے نام سے جانی جاتی ہے۔

پھر دونوں آگے بڑھتے ہیں، باپ چھری بیٹے کی گردن پر رکھتا ہے، زمین و آسمان حیران و پریشان ہیں کہ اب کیا ہو گا ؟ کیا باپ اپنے اکلوتے و لاڈلے بیٹے کو قربان کر دے گا؟ کہ اچانک غیب سے ندا آتی ہے، اے خلیل !تم امتحان میں کامیاب ہو گئے (یا ابراھیم قد صدقت الرؤیا) اب قربانی کی کوئی ضرورت نہیں، اصل تو امتحان مقصود تھا جو ہو گیا، باپ و بیٹے کی یہ قربانی تاریخ کا جزء بن جاتی ہے اور دینِ اسلام کے احکام میں سے ایک حکم، کہ ہر صاحب ا ستطاعت پر عید الاضحی کے موقعہ پر قربانی واجب یا سنت قرار دی جاتی ہے۔

پھر کچھ دنوں بعد باپ بیٹے کو حکم ہوتا ہے کہ خدا کی عبادت کے لئے ایک گھر تعمیر کریں، دونوں باپ بیٹے حکم الٰہی کی تعمیل کرتے ہیں اور خدا کے لئے ایک گھر تعمیر کرتے ہیں، اور مقبولیت کی دعا کرتے ہیں، (ربنا تقبّل منا )پھر حکم ہوتا ہے(واذّن فی الناس بالحج)کہ خدا کے گھر کی طرف لوگوں کو بلاؤ، اسی دن سے یہ جگہ بابرکت و مقدس بن جاتی ہے، اور وہ خانۂ خدا تمام انسانیت کا محور و مرکز بن جاتا ہے، اور مسلمانوں کا قبلہ و کعبہ قرار پاتا ہے۔

زمانہ گزرتا رہا، اس جگہ کی آبادی بڑھتی رہی، ایک زمانہ تک یہاں کے باشندگان توحید و وحدانیت کے اصولوں پر قائم رہے، پھر رفتہ رفتہ برائیاں ان میں سرایت کرنے لگیں، ہر طرح کے گناہوں میں وہ مبتلا ہونے لگے، تمدنی دنیا سے ان کا رابطہ منقطع ہو گیا اور وہ اپنے ہی میں محدود ہو کر رہ گئے، یہاں تک کہ اس آدمی کی دعا کی برکت سے جس نے اس جگہ کو آباد کیا تھا۔ ان میں ایک ایسا آدمی پیدا ہوا جو ان کے اعلیٰ قبیلہ میں سے تھا، اس نے دس سال تک وہاں کے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا، لیکن بجز چند کے اکثر لوگوں نے دشمنی اختیار کی، بالآخر اس کو اس شہر سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا، لیکن آٹھ سال بعد وہی شخص اس شہر میں فاتحانہ داخل ہوا، اور اس کے بعد سے اسلامی طریقہ پر حج کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک قائم و دائم ہے۔

’’مکہ سلطنت سعودی عرب کی مغربی سمت سرزمین حجاز کی ایک وادی کے دامن میں واقع ہے، جس کے چاروں طرف پہاڑ ہیں، اللہ تعالی نے اس پاکیزہ شہر کو اپنے گھر کے لئے منتخب فرمایا، نبی آخر الزماں سرورِعالمﷺ کی پیدائش اور آپﷺ کی بعثت کا شرفِ عظیم بھی اس شہر کو حاصل ہے، اللہ جل جلالہ نے اپنے بندوں پر اس شہر کی زیارت اور ادائیگی ٔمناسک کے لئے سفر کو فرض قرار دیا ہے، چنانچہ دور دراز سے اہل ایمان عشق و وارفتگی، خشوع و تذلل اور عاجزی وانکساری کی سراپا تصویر بن کر، خوش لباسی اور پوشاکیِ زینت سے مبرّا، کھلے سر، کشاں کشاں اس ارضِ پاک کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔

اس کو ایسی حرمت و امنیت سے سرفراز فرمایا گیا ہے کہ جو بھی اس حرم پاک میں داخل ہو جائے تو وہ محفوظ و مامون ہو جائے، کوئی سراپا معاصی اس در کا رخ کرے تو وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے جیسے نومولود معصوم بچہ، روئے زمین پر اس شہر کے علاوہ کوئی جگہ ایسی نہیں جس کا سفر اسلام میں فرض ہو، اسی شہر میں موجود بیت اللہ کے طواف کا حکم دیا گیا، جس کی نظیر کرہ ارضی پر نہیں، حجر اسود اور رکن یمانی کو فخر ہے کہ ہمارے آقاﷺ نے ان کا بوسہ لیا اور استلام کیا، جو کہ امت کے لئے نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ مندوب ومسنون ہے۔

یہی وہ با عظمت شہر ہے، جس کی حرمت کی قسم رب ذوالجلال نے دو مرتبہ کھائی ہے، جس کا ذکر سورۂ بلد اور سورۂ تین میں ہے، اسی کی مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ گنا ہے، اسی بابرکت شہر میں وہ قبلہ ہے جس کی جانب رخ کرنا تمام نمازوں میں ضروری ہے، اور قضائے حاجت کے وقت اس کی طرف رخ کرنا یا پشت کرنا جائز نہیں ہے، اس شہر کو یہ امتیازی شان بھی حاصل ہے کہ کسی برے کام کے محض ارادے پر بھی اللہ کی جانب سے سزا کی وعید ہے، یہاں گناہ کی نحوست اور اس پر عقاب بھی زیادہ ہوتا ہے، یہ ایسا پرکشش شہر ہے جو دلوں کو مقناطیس کی طرح کھینچتا ہے، یہ ایسا شیریں چشمہ ہے جس سے سیرابی ہوتی ہے مگر دل نہیں بھرتا، جتنا اس کی زیارت کی جائے اتنا اس کا شوق بڑھتا جاتا ہے۔

اس بابرکت شہر میں ایسے مقامات ہیں جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، گناہ مٹتے ہیں، خطائیں معاف ہوتی ہیں، مشکلات حل ہوتی ہیں، اس شہر امن کی یہ امتیازی خصوصیت بھی ہے کہ یہاں پر ہتھیاروں سے مسلح ہونا جائز نہیں، نیز اس میں کفار مشرکین کا داخلہ بھی ممنوع ہے، قیامت کے قریب جب فتنوں کا ظہور ہو گا تو اس شہر کی حفاظت فرشتے کریں گے، اور یہاں دجال داخل نہیں ہوسکے گا‘‘۔ (تاریخ مکہ مکرمہ،ص:۷،۸)

سوچ و فکر کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ والدہ نے کہا کہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے کب جانا ہے؟ تو راقم مصلی سے اٹھا، پہلے تو ارادہ تھا کہ سب ساتھ ہی جائیں، لیکن چونکہ سب پہلی بار آئے تھے، دادا کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی، ان کے لئے وھیل چیئر لینی تھی، اس لئے تنہا خدا کا شکر ادا کرتا ہوا لبیک پڑھتا ہوا جانبِ مسجد حرام روانہ ہوا، تاکہ راستہ وغیرہ دیکھ لوں۔

 

ہماری رہائش گاہ

 

ہم لوگوں کا کمرہ مسفلہ کے علاقہ میں ابراھیم خلیل روڈ کے پاس ہے، نیچے ’’بقالۃ الحرمین‘‘ ہے اور دحلۃ الرشد کی بلند و بالا عمارت وہیں قریب ہی ہے جسمیں ملیشیاء کے حجاج کرام قیام پذیر ہیں، ہماری عمارت کا نام (دارالجدید(ح) خلف بلڈنگ نمبر ۶۳۷)ہے، عمارت کے سامنے ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے۔

 

مسجدِ حرام کے سائے میں

 

جب ابراہیم خلیل روڈ پر پہنچا تو دیکھا کہ لوگ عمرہ کر کے واپس آرہے ہیں، جب کچھ آگے بڑھا تو وہ منارہ نظر آیا جس کو ہم نے مسجد حرام کا منارہ سمجھا تھا، جب کہ وہ مسجد حرام سے متصل ایک بلند و بالا عمارت کا منارہ تھا جو پورا کا پورا حرمین شریفین کے لئے وقف تھا، خوشی و مسرت، بے بسی و کم مائیگی کے باوجود جرات و جسارت کے ملے جلے جذبے کے ساتھ مسجد حرام کے باہری حصہ میں داخل ہوا تو سامنے باب فہد تھا۔

’’مسجد حرام نہایت ہی عالی شان عمارت ہے، جس کے وسط میں خانۂ کعبہ واقع ہے، خانۂ کعبہ کی شمالی دیوار سے کچھ فاصلہ پر ایک نصف دائرہ کی ہلالی شکل کی دیوار ہے،     ا س کے اندر کا حصہ حطیم کہلاتا ہے، اسی کے اندر خانۂ کعبہ کی چھت کی نالی کھلتی ہے، جو میزاب کہلاتی ہے، حطیم اور خانۂ کعبہ کے اردگرد ایک وسیع گول صحن ہے اس کو مطاف کہتے ہیں، اسی میں طواف کیا جاتا ہے، مطاف ہی کے حصہ میں زیر زمین زمزم کا کنواں ہے، جس کے کے لئے پہلے مطاف ہی سے راستہ تھا لیکن پھر تنگی کی بنا پر اس کو زیر زمین کر دیا گیا، مطاف ہی کے حصہ میں مقام ابراہیم ہے، یہ وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ کی تعمیر کی تھی، باب کعبہ کے قریب کے مشرقی کونے پر حجر اسود لگا ہوا ہے، حجر اسود سے باب کعبہ تک کی دیوار کو ملتزم کہتے ہیں۔

آنحضرتﷺ کے زمانے میں مسجد کی حد صرف اتنی تھی، جو اس وقت نصف مطاف کی ہے، اور حرم کے احاطہ کی دیوار بھی نہ تھی، بلکہ چاروں طرف مکانات تھے، سیدنا حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے اور آپ نے دیکھا کہ طواف کرنے والوں کو بڑی تنگی ہوتی ہے، تو آپ نے آس پاس کے مکانات خرید کر منہدم کرا دیئے اور ان کی زمین کو مسجد حرام میں شامل فرما دیا، یہ پہلا اضافہ ہے جو ۱۷؁ھ میں بغرض توسیع مسجد حرام کیا گیا، نیز آپ نے حدبندی کے لئے ایک چہار دیواری بنوا دی۔

آپ کے بعد حضرت عثمانؓ نے اطراف کے مزید مکانات کو خریدا اور ان کی زمین کو داخل مسجد فرما کر چاروں طرف دالان بنوا دیا کہ دھوپ اور بارش میں سایہ نصیب ہو۔

۶۴ھ؁ میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے چار طرف کے مکانات خرید کر مشرقی و جنوبی دونوں سمت مسجد حرام کو بہت وسیع کر دیا۔ ۷۵ھ؁ میں جب عبد الملک بن مروان حج کے لئے آئے تو دیواروں کو بلند کر دیا، مہدی عباسی کے زمانہ میں مسجد حرام کی دو بار توسیع ہوئی۔

۹۷۹؁ھ میں مسجد حرام کا مشرقی دالا اتنا جھک گیا کہ گرنے کے قریب ہو گیا، اس وقت خلافت ترکیہ کا مشہور بادشاہ سلطان سلیم متوجہ ہوا، اور ازسر نو تعمیر کا حکم دیا، اور لکڑی کی جگہ پتھر کام لایا، ۹۸۴؁ھ میں یہ تعمیر مکمل ہوئی، ۱۳۷۰؁ھ تک صرف یہی تعمیر قائم تھی، ادھر چند سال سے سعودی حکمرانوں کے حکم پر مسلسل توسیع کا کام جاری ہے، جس کے نتیجہ میں سعی اور صفا مروہ دونوں حرم کے اندر آ گئے، اور کئی لاکھ لوگوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہو گئی‘‘۔ (حج و مقامات حج، ص:۶۸)

کتابوں میں پڑھ رکھا تھا کہ مسجد نبوی میں باب السلام سے داخل ہونا افضل ہے، لیکن مسجد حرام پہنچ کر اشتباہ ہو گیا کہ یہ حکم صرف مسجد نبوی کا ہے، یا مسجد حرام کا بھی؟ اور مسجد حرام میں بھی باب السلام تلاش کرنے لگا، اس وقت ایک پاکستانی عالم سے ملاقات ہوئی، انہوں نے رہنمائی کی اور کہا کہ عمرہ کی نیت سے آنے والے کیلئے باب العمرۃ سے آنا افضل ہے، اس وقت راقم کو ملا علی قاریؒ سے متعلق ایک مشہور واقعہ یاد آیا کہ ملا علی قاری ؒ نے سفرِ حج کیا، یہ سفر ان کا حج کے متعلق مسائل پر لکھی تصنیف کے بعد ہوا، ان کی یہ کتاب بہت مقبول ہوئی، لیکن جب وہ خود ارکان حج کی ادائیگی کر رہے تھے تو ان سے کوئی غلطی ہو گئی، تو ایک آدمی نے انہی سے کہا کہ حج کرنے چلے آئے، پہلے ملا علی قاری کی کتاب ہی پڑھ لئے ہوتے، بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی چاہے کتنا بھی مطالعہ کر لے، پھر بھی پہلی مرتبہ ارکان حج کی ادائیگی کے وقت بہتر ہے کہ کوئی رہبر ساتھ ہو، ورنہ بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 

کعبہ پر پہلی نظر

 

خیر نظریں جھکا کر بسم اللّٰہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ، اللّٰہم افتح لی ابواب رحمتک پڑھ کر مسجد حرام کے اندر داخل ہوا، اور جب مطاف کے قریب پہنچا تو خانۂ کعبہ نظروں کے سامنے تھا، اور یہ دعا زبان پر جاری تھی:

اللّٰھم زد بیتک ھذا تشریفاً وتعظیماً وتکریماً ومھابۃ،  وزد من شرّفہ وکرّمہ ممن حجّہ او اعتمرہ تشریفاً وتکریماً وبرّاً، اللّٰھم انت السلام ومنک السلام وحینا ربنا بالسلام۔

ترجمہ:(اے اللہ! اپنے اس پاک اور مبارک گھر کو اور زیادہ عظمت اور برکت دے، ا ور حج و عمرہ کے لئے آنے والے تیرے بندوں میں سے جو تیرے اس گھر کی پوری پوری تعظیم کریں تو ان کے درجے بلند کر اور یہاں کی خاص برکتیں اور رحمتیں ان کو نصیب فرما، اے کعبہ کے رب! دنیا و آخرت کی سب تکلیفوں اور بری حالتوں سے مجھے اپنی پناہ میں رکھ۔ )

’’کعبہ اللہ تعالی کی عبادت کی غرض سے بنائے جانے والے عبادت خانوں میں سب سے پہلے تعمیر کیا گیا۔ قرآن میں ہے:{إِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَہُدًی لِّلْعَالَمِیْن}(سورۂ آل عمران:۹۶)

’’بے شک سب سے پہلا گھر جو اللہ کی عبادت کی غرض سے انسانوں کے لئے بنایا گیا وہ مکہ مکرمہ میں ہے، اور برکت والا اور سارے جہانوں کے لئے باعث ہدایت ہے‘‘۔

کعبہ معظمہ مسجد حرام کے تقریباً درمیان میں واقع ہے، اس کی شکل ایک بڑے کمرے کی سی ہے، عمارت اونچی اور مربع ہے۔ عمارت کعبہ کے چاروں کونوں کے نام و سمتیں حسب ذیل ہیں :

۱۔ رکن حجر اسود ۲۔ رکن عراقی ۳۔ رکن شامی ۴۔ رکن یمانی

رکن حجر اسود وہ گوشہ ہے جس میں حجر اسود نام کا پتھر لگا ہوا ہے، اسی رخ پر حجر اسود کے قریب باب کعبہ اور دونوں کے درمیان ملتزم شریف ہے، بیت اللہ کا یہ رخ ایسا ہے کہ اس پر کئی چیزیں جمع ہو گئی ہیں اور ہندوستان پاکستان اور مشرقی ایشیاء کے ممالک کے لئے یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ یہ رخ ان کی طرف پڑتا ہے‘‘۔ (حج و مقامات حج، ص:۶۹)

یہ سن رکھا تھا کہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے وقت جو دعا مانگی جاتی ہے وہ ضرور قبول ہوتی ہے، اس سلسلہ میں بہت سے واقعات بھی منقول ہیں کہ کسی نے مستجاب الدعوات ہونے کی دعا مانگی اور قبول ہوئی، امام ذہبیؒ نے قوت حافظہ کی دعا مانگی اور قبول ہوئی، میں نے بھی سوچ رکھا تھا کہ کیا کیا دعا مانگنا ہے، لیکن کعبہ پر نظر پڑتے ہی یہ بھول گیا کہ کیا مانگنا ہے، اور یہ بھی یاد نہ رہا کہ ا س وقت کیا الفاظ زبان سے نکلے اور بارگاہ خداوندی میں کیا مانگا، اتنا یاد رہا کہ کچھ مانگا ہے، جو دعائیں راقم نے سوچیں تھیں اور والد ماجد نے بتائی تھیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :

اللّٰہم اجعلنی مستجاب الدعوات۔ اللّٰہم انی اسئلک خیر ما سالک منہ انبیائک والمرسلون و عبادک الصالحون واولیاؤک المتقون۔ اللّٰہم اھدنا ثم ارزقنا شھادۃ فی سبیلک واجعل موتنا ببلد رسولک۔ ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب الناروادخلنا الجنۃ مع الابراریا عزیز یا غفاریا رحیم یا بارّ)۔

 

عمرہ کی ادائیگی

 

دعا سے فراغت کے بعد طواف شروع کیا، صبح کا وقت تھا، بھیڑ بھی کم تھی، بآسانی پون گھنٹے میں طواف مکمل ہو گیا، دورانِ طواف اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ دعا مانگی جائے لیکن ترتیب ہر ایک کی مختلف ہے، میں نے جو ترتیب اختیار کی وہ یہ تھی، بسم اللّٰہ اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد کہہ کر استلام کیا، پھر پہلے دو چکروں میں خدا تعالی کی تعریف بیان کی، تیسرے اور چوتھے میں حضور اکرمﷺ پر درود و سلام بھیجا، پانچویں اور چھٹے میں خوب خوب دعائیں مانگی، توبہ واستغفار کیا، اور ساتویں میں خاموش رہ کر اللہ کی نعمتوں اور اس کے انعامات پر غور کیا، طواف سے فراغت کے بعد مقام ابراہیم کے پاس جا کر طواف کی دو رکعت نماز ادا کی، پہلی رکعت میں قل یایھا الکفرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللّٰہ احد پڑھی، پھر جی بھر کر آب زمزم پیا، اور یہ دعا مانگی اللّٰہم انا نسالک علما نافعا ورزقا حلالاواسعاوشفاء من کل داء پھر سعی شروع کی، اور آدھے گھنٹے میں سعی سے فراغت کے بعد کمرے واپس ہوا۔

وہاں سب لوگ نہا دھو کر تیار بیٹھے تھے، تقریباً دس بجے دوبارہ راقم مع اپنے اہل خانہ مسجد حرام کی طرف روانہ ہوا، اب دھوپ کی تمازت بڑھ چکی تھی، گرمی شدت اختیار کر چکی تھی، دادا کی طبیعت بھی کمزور تھی ان کے لئے تقریباً تین سوریال میں ایک وہیل چیئر خرید کر اس پر ان کو سوار کرایا گیا، دھوپ کی شدت اور گرمی نے حضرت بلالؓ اور حضرت خبیبؓ کے واقعات کو ذہن میں تازہ کر دیا، کہ کس طرح انھوں نے اس زمانہ میں مصائب و تکلیفیں جھیل کر دین و ایمان کی حفاظت کی، انہی کی محنتوں اور کوششوں کا ثمرہ و نتیجہ ہے کہ آج اس روئے زمین پر اللہ کے نام لینے والے زندہ ہیں، ورنہ اگر باطل کا بس چلتا تو حق کب کا مٹ چکا ہوتا، بالآخر ہم مسجد حرام پہنچے، چونکہ آج جمعہ کا دن تھا، اس لئے مسجد حرام کا اندرونی حصہ ایک حد تک بھر چکا تھا، نماز کا وقت بھی قریب تھا اس لئے طواف کو نماز کے بعد کیلئے مؤخر کر دیا اور دعا کر کے سب ایک کنارہ بیٹھ گئے، تقریباً تین بجے طواف و سعی سے فراغت ہوئی، حلق کیا، غسل وغیرہ سے فراغت کے بعد کچھ دیر آرام کیا، اس لئے کہ دو دن سے سونے کا موقع نہ ملا تھا، کچھ دیر بعد والد ماجد کا فون آیا، سفر کے آغاز سے اب تک کی روداد سنائی، بہت خوش ہوئے اور خوب دعائیں دیں۔

 

بلد امین میں ہمارا معمول

 

آج بروز سنیچر ۱۶؍ اکتوبر۲۰۱۱؁ء مطابق ۱۵؍ ذیقعدہ ۱۴۳۲؁ھ ہے، آج ہمارا مکہ کے قیام کا دوسرا دن ہے، ناشتہ سے فراغت کے بعد ہم لوگ مسجد حرام کیلئے روانہ ہوئے، طواف کیا، نمازیں پڑھیں، اور تلاوت وغیرہ سے فارغ ہو کر بعد نماز ظہر کھانے کیلئے واپس ہوئے، راستہ میں ایک کیرالہ والوں کا ہوٹل نظر آیا، وہیں آج کا کھانا ہم لوگوں نے کھایا، کل ۳۷ ریال پانچ آدمیوں کے کھانے پر خرچ ہوئے، اس کے بعد چار دن تک مکہ مکرمہ میں ہم لوگوں کا قیام رہا، روزانہ یہی معمول رہا اور اکثر نمازیں مسجد حرام میں ادا کرنے کی کوشش کی گئی، زیادہ سے زیادہ طواف کیا گیا، خوب خوب قرآن کی تلاوت اور ذکر و استغفار کی سعادت نصیب ہوئی، مکہ کے قیام کے دوسرے دن ہی بتایا گیا کہ چار پانچ دن بعد مدینہ کا سفر ہو گا۔

 

 

 

دیارِ حبیب کی طرف

 

آج ۱۹؍ ذی قعدہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء بروز منگل ہے، گزشتہ رات بتا دیا گیا تھا کہ اگلے دن صبح بعد نماز فجر علی الفور مدینہ کے لئے روانگی ہو گی، لہٰذا ہم سب لوگ معمول سے کچھ پہلے بیدار ہوئے، نماز فجر سے پہلے تیاری مکمل کر لی گئی، چونکہ بتایا گیا تھا کہ بعد نماز فجر علی الفور سفر ہو گا اس لئے آج مسجد حرام بھی نہ جا سکے اور قریب ہی کی ایک مسجد بنام مسجد رافعی میں نماز فجر ادا کی، لیکن بس کا انتظار کرتے کرتے سات بج گئے اور سات بجے کے بعد ہم لوگ بس پر سوار ہوئے۔

دوران سفر جن علاقوں سے یا ان کے آس پاس سے گزر ہوا وہ مندرجہ ذیل ہیں : جحفہ، رابغ صغیر، وادی الحصارۃ، جرناقہ، سویرقہ، مھد، اکحل، وادی الفرع، منطقۃ الیتیمۃ، الضمیریۃ، النقیعۃ، اللثامۃ، ابیار الماشی، العشیرۃ، تبوک، ینبع، القصیم، الریاض، وغیرہ بہت سے علاقے، ان میں سے بعض جانے پہچانے تھے تو کچھ نئے۔

مکہ سے مدینہ کا فاصلہ تقریباً ساڑھے چار سو، یا پانچ سو کلو میٹر ہے۔ آٹھ بجے کے قریب اصل سفر شروع ہوا، دونوں طرف اب بھی سنگلاخ پہاڑیاں ہیں، اکثر و بیشتر علاقے اب بھی بنجر و بے آب و گیا ہیں، کہیں کہیں آباد بستیاں اور نخلستان بھی ہیں، جدہ سے مکہ آنے کے دوران کئی جگہوں پر پانی وغیرہ تقسیم کئے گئے تھے، اس سفر میں بھی یہ گمان تھا کہ دورانِ سفر مل جائے گا، اس لئے ساتھ کچھ لینے کا اہتمام نہیں کیا گیا، لیکن جب دن چڑھا، سورج نے اپنا کمال دکھایا، اور دھوپ کی تمازت بڑھی، تو پیاس کی شدت کا احساس ہوا، لیکن پانی ندارد، بس میں ایک ٹنکی تھی، اس سے پانی نکال کر پینا چاہا تو وہ بھی گرم ہو چکا تھا، اچانک ذہن آج سے چودہ سو سال پہلے سفر کرنے والے ان قافلوں کی طرف گیا، دورِ حاضر کی تمام ترقیات وسہولیات کے باوجود اس علاقہ کی یہ حالت ہے تو اس زمانہ میں سفر کتنا دشوار رہا ہو گا، خاص طور سے اللہ کے رسول کا سفرِ ہجرت، جس میں صرف تین آدمی کا قافلہ، ہر لمحہ خوف، لیکن اللہ پر بھروسہ تھا کہ سب کچھ برداشت کیا اور اسی کے نتیجہ میں وہ عالمی انقلاب آیا، اس جیسا انقلاب نہ ماضی میں آیا، نہ مستقبل میں اس کی امید کی جا سکتی ہے، بہرکیف کچھ دیر بعد بس ایک منزل پر رکی۔ وہاں ہوٹل وغیرہ تھا جہاں سے خرید کر پانی پیا گیا، اس طرح پیاس کو مٹایا گیا، اسوقت پانی کی نعمت اور اس کی قدر معلوم ہوئی، ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔

تھوڑی دیر بعد دوبارہ سفر شروع ہوا، اس سفر کا منظر بھی کچھ عجیب تھا، بس پر کیسٹ کے ذریعہ مدینہ اور اس کے فضائل پر کسی عالم کا بیان ہو رہا تھا، کچھ لوگ موبائل سے نعتیں وغیرہ سن رہے تھے، تو کچھ درود و دعا میں مشغول تھے، لیکن اب بھی منزل دو سو کلو میٹر سے زیادہ دور تھی۔

ہم نے ظہر کی نماز مقامِ اکحل کی ایک مسجد میں ادا کی، نماز سے فراغت کے بعد جب مسجد سے باہر آیا تو ہماری بس کا ڈرائیور باہر کھڑا تھا، اس سے ملاقات ہوئی، اس نے اپنا نام عبدالستار بتایا اور یہ کہ وہ مصر کا رہنے والا ہے، اسی کی زبانی یہ بھی معلوم ہوا کہ زمانہ حج میں سعودی حکومت دو تین مہینوں کیلئے مصر و شام سے ڈرائیوروں کو لاتی ہے، یہ لوگ حج کے زمانہ میں ڈرائیونگ کرتے ہیں، اور بقیہ ایام میں اپنے ذاتی کاروبار وغیرہ کرتے ہیں، اسی پر ہماری گفتگو ختم ہو گئی۔ اور دوبارہ ہم جانب مدینہ روانہ ہوئے، یہاں تک کہ ہم’’ الجمعیۃ الخیریۃ لھدیۃ الحاج والمعتمر‘‘ کے دفتر پہنچے، جہاں پانی اور کچھ ہلکی پھلکی کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کی گئیں، پھر ہر ایک کو ’’المؤسسۃ الاھلیۃ للادلاء‘‘ جو کہ ایک پرائیویٹ بس کمپنی ہے اس کا کارڈ دیا گیا، اس درمیان ہم یہ دعائیں پڑھتے رہے:

۱) ربّ ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مخرج صدق، واجعلنی من لدنک سلطانا نصیرا

۲) ربّ انزلنی منزلا مبارکا وانت خیر المنزلین

تقریباً تین بجے دوپہر ہم اپنی رہائش گاہ پہنچے، جس کا نام ’الراعی ان الرابع‘ ہے، یہ عمارت مسجد نبوی کے قبلہ کی جانب مسجد بلال کے پیچھے ہے، ہمارا کمرہ اس عمارت کی چوتھی منزل پر ہے، کمرہ میں داخل ہوئے سامان ترتیب سے رکھا، حوائج ضروریہ سے فراغت کے بعد راقم مسجد نبوی کی طرف روانہ ہوا، تھوڑی دور چلنے کے بعد ایک منارہ نظر آیا، اسی طرف چل دیا، تو دیکھا کہ ایک چھوٹی سی مسجد ہے، جس کے چاروں طرف دوکانیں ہیں، اس مسجد میں داخل ہو گیا، یہ مسجد بلال تھی، چونکہ عصر کی نماز ہو چکی تھی، لہٰذا راقم نے اسی مسجد میں عصر کی نماز ادا کی، نماز سے فراغت کے بعد اسی جگہ بیٹھا تھا کہ سامنے چھوٹے چھوٹے کچھ بچے ایک استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کئے ہوئے خوش الحانی کے ساتھ قرآن پڑھ رہے تھے اور سنا رہے تھے، اس منظر نے زمانہ نبیﷺ کی یاد تازہ کر دی کہ کبھی اسی علاقہ میں قرآن کے حلقے لگا کرتے تھے، اور چھوٹے بڑے سب بغیر کسی قید کے قرآن سیکھتے اور سکھاتے تھے۔

 

شہر مدینہ ایک نظر میں      

 

یہ وہی مدینہ ہے جو کبھی مکہ سے شام جانے والے قافلوں کی ایک منزل ہوا کرتا تھا، آج پوری دنیا کے مسلمانوں کی منزل بنا ہوا ہے، اس شہر کے شمالی جانب جبل احد ہے اور جنوب میں جبل عیر ہے، پہاڑوں کے درمیان ایک کشادہ ڈھلوان نما میدان ہے، جس میں وادیوں، چشموں اور کنوؤں کی بھرمار ہے، اس علاقہ کو کھجور اور انگور اور دوسرے پھلوں کے باغات گھیرے ہوئے ہیں، اسی میدان میں مدینہ نامی شہر آباد ہے، موجودہ زمانہ میں یہ شہر سعودی حکومت کے مغربی علاقہ کے بیچ میں واقع ہے، ’’یہ شہر مدینۃ الرسول یعنی رسول اللہﷺ کا شہر کہلاتا ہے، کیونکہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے آپﷺ نے اسی کو اپنا وطن بنایا، اور وہیں آپ کی قبر مبارک اور آپ کی بنائی مسجد ہے، اس کے علاوہ مدینہ منورہ کو حضورﷺ نے اللہ کے حکم سے حرم قرار دیا ہے، یہ شہر بھی دنیا کے تین مقدس شہروں میں شمار کیا گیا ہے‘‘، (حج و مقامات حج، ص:۱۴۶) سطح سمندر سے اس کی بلندی ۶۲۵ میٹر ہے، قرآن و حدیث میں اس شہر کے چھ نام وارد ہوئے ہیں، یثرب، مدینہ، طابہ، طیبہ، الدار، الایمان، اس کے علاوہ مؤرخین نے سو سے زائد نام اس شہر کے بیان کئے ہیں۔

 

مسجد نبوی تاریخ کے مختلف ادوار میں

 

’’مسجد نبوی مدینہ منورہ کی سب سے متبرک اور عظیم الشان تاریخی یادگار، اور اسلام میں دوسرے درجہ کی مسجد ہے، حضورﷺ نے اس مسجد میں ایک نماز کی فضیلت ایک ہزار نمازوں کے مساوی بتائی ہے، فرمایا کہ ’’صلوٰۃ فی مسجدی ھذا خیر من الف صلوٰۃ فیما سواہ المسجد الحرام‘‘(مسلم)یہ درمیان شہر میں واقع ہے، اس مسجد کی اولین تعمیر ہجرت کے پہلے سال نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام کے ساتھ مل کر اپنے دست مبارک سے کی، اس کے لیے وہی جگہ معین فرمائی جس جگہ ہجرت کے موقع پر آپﷺ کی اونٹنی بیٹھی تھی۔

ہجرت کے ساتویں سال نبی کریمﷺ نے اس مسجد میں کچھ اضافہ فرما کر مربع شکل میں کر دیا، اس کے بعد ۱۷ھ؁ میں حضرت عمرؓ نے اس کی مرمت فرمائی، اور کچھ اضافہ بھی فرمایا، اس وقت تک مسجد کے ستون کھجور کے تنوں کے اور چھت کھجور کے پتوں کی بنائی گئی تھی، ۲۹ھ؁ میں حضرت عثمانؓ نے اس کی ازسرنو تعمیر کروائی اور اس کی دیواریں اور کھمبے پتھر اور چونے کے بنوائے، اور مسجد میں مزید اضافہ کروایا، اس کے بعد خلیفہ اور بادشاہ اپنے اپنے دور میں اضافے اور مرمت کرتے رہے، ۱۲۶۵؁ھ میں سلطان عبدالمجید ثانی نے نئی تعمیر کرائی، پھر ۱۳۵۳؁ھ کے بعد سعودی دور حکومت میں مختلف زمانوں میں اس کی تجدید ہوتی رہی جو ہنوز جاری ہے‘‘۔ (حج و مقامات حج، ص:۱۵۳)

چونکہ میں مسجد نبوی جانے کے ارادہ سے نکلا تھا، لیکن وقت ہو چکا تھا اس لئے مسجد بلال میں عصر کی نماز ادا کی تھی، نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلا اور ایک آدمی سے مسجد نبوی کاراستہ پوچھا تو اس نے مسجد بلال کے سامنے کے ایک راستہ کی طرف اشارہ کیا، جیسے ہی میں کچھ آگے بڑھا تو دو بلند منارے نظر آئے جیسے کہ مسجد نبوی کی تصویروں میں دیکھے تھے، اور یہ منارے جو کبھی تصویروں میں دعوت نظارہ دے رہے تھے، آج آنکھوں کے سامنے تھے۔

رفتہ رفتہ آگے بڑھا، یہاں تک کہ ایک پختہ سڑک پر پہنچا، اس کو عبور کرنے کے بعد مسجد نبوی کے باہری صحن پر پہنچا، جہاں بہت سے لوگ کھڑے اور بیٹھے ہوئے تھے، چاہا کہ مسجد کے اندرونی صحن میں داخل ہو جاؤں، لیکن کچھ دیر دروازہ پر کھڑا رہا اور اپنی قسمت پر رشک کرتا اور خدا کا شکر ادا کرتا رہا، پھرسوچا کہ اس عظیم الشان جگہ بغیر کسی اہتمام کے جانا بے ادبی ہو گی، لہٰذا بغیر داخل ہوئے کمرہ واپس آ گیا، کپڑے بدلے، غسل کیا، عطر لگایا، پھر مع اہل خانہ مسجد نبوی کی طرف روانہ ہوا، جب ہم مسجد نبوی کے باہر ی صحن کو عبور کر کے اندرونی صحن میں دروازہ پر پہنچے تو مغرب کی اذان شروع ہو گئی، یہ مسجد نبوی کی پہلی اذان تھی جو مدینہ آنے کے بعد ہم نے سنی تھی، اس اذان نے اذان بلال کی یاد تازہ کر دی، چونکہ اذان ہو چکی تھی، راقم نے اپنے دادا کے ساتھ مردوں کے حصوں میں نماز با جماعت ادا کی، اور عورتیں اپنی مخصوص جگہوں میں اندر چلی گئیں، نماز مغرب سے فراغت کے بعد اسی جگہ سنن و نوافل ادا کی، پھر دو رکعت شکرانہ ادا کی، اور اللہ سے دعا کی کہ اللہ اس سفر کو ہمارے لئے مبارک بنائے اور بار بار یہاں آنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

گنبدِ خضراء کی آغوش میں

 

اس وقت ہم لوگ باب بقیع کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور لوگ باب بقیع سے قبر مبارک کی زیارت اور صلوٰۃ و سلام سے فراغت کے بعد باہر نکل رہے ہیں، کچھ دیر تلاوت کلام پاک کے بعد میں نے اب تک کا سفر نامہ مکمل کیا، اسی دوران عشاء کی اذان ہو گئی، ہم نے اسی جگہ نماز عشاء ادا کی اور کمرے واپس ہوئے، چونکہ پورا دن سفر میں گذرا تھا، اس لئے بستر پر لیٹتے ہی نیند کی آغوش میں پہنچ گئے۔

آج۲۰؍ ذی قعدہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۱۱؁ء بروز منگل ہے، اتفاق کی بات کہ ہمارا سفر حج جمعرات کو شروع ہوا، مسجد حرام میں پہلی با جماعت نماز جمعہ کی پڑھی، اور مدینہ کا سفر پیر کو ہوا، یہ سب اللہ کی طرف سے انعام ہے، اس وقت میں اپنے دادا کے ساتھ باب قبا اور باب سلام کے درمیان بیٹھا ہوا سفرنامہ لکھ رہا ہوں، صبح کے چھ بج رہے ہیں، لوگ روضۂ مبارک کی زیارت کے لئے باب سلام کے پاس جمع ہیں، اور اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، آج مدینہ میں دوسرا دن ہے، تین نمازیں مسجد نبوی میں ادا کی جاچکی ہیں، لیکن اب تک روضۂ پاک کی زیارت کا موقعہ نصیب نہیں ہوا ہے، لیکن آج زیارت کا پختہ ارادہ ہے، لکھنا بند کیا اور دادا کو لے کر باب سلام تک پہنچا، لیکن ازدحام کی بنا پر لوٹنا پڑا۔

 

روضۃ الجنۃ میں

 

تھوڑی دیر بعد بھیڑ کچھ کم ہوئی تو جلدی سے اندر داخل ہوا، پہلے تو ارادہ یہ تھا کہ درود پڑھ کر واپس ہو جائیں گے، اس لئے کہ بھیڑ اب بھی تھی اور دادا ساتھ تھے، اور روضہ کا حصہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا، لوگ یہاں جگہ پانے کیلئے فجر کی نماز سے پہلے ہی آ جاتے ہیں، لہٰذا وہاں جگہ ملنے کی ذرا برابر امید نہ تھی لیکن اللہ کا کرم کہ ہم لوگ قبر مبارک کی دیوار سے لگ کر چل رہے تھے، تاکہ لوگوں کے دھکے سے محفوظ رہیں، کہ ایک حیدرآبادی شخص سے ملاقات ہوئی، اس نے روضۃ الجنۃ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ روضۃ الجنۃ ہے، پھر کہا کہ دادا کو لے کر جاؤ، اور پولیس سے بات کرو شاید کہ وہ اندر جانے کی اجازت دے۔ (جب روضۃالجنۃ کا حصہ بھر جاتا ہے تو پھر کسی کو اندر جانے نہیں دیاجاتا جب تک وہ لوگ نکل نہ جائیں۔ تاکہ کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے)مجھے تو ہمت نہ ہوئی تو وہ شخص خود گیا اور پولیس سے بات کی، تو ایک پولیس نے اجازت دے دی تو دوسرے نے اس سے کہا کہ تم نے ان کو کیوں اجازت دے دی؟ تب تک ہم اندر داخل ہو گئے، اس طرح بغیر کسی مشقت کے ہمیں اندر داخل ہونے کا موقعہ ملا، جب کہ اور لوگوں کو اس میں داخل ہونے کیلئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، اور بعض لوگ صبح سے شام تک کوشش کرتے ہیں پھر بھی موقعہ نہیں پاتے۔

’’یہ مسجد نبوی کا نہایت بابرکت اور پر عظمت قطعہ ہے، حضور اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’مابین بیتی و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ‘‘ ترجمہ:(میرے مکان اور منبر کے درمیان کا حصہ جنت کا ایک باغ ہے)اس قطعہ میں اسطوانۂ عائشہ، اسطوانۂ حنانہ، اسطوانۂ ابی لبابہ وغیرہ اہم جگہیں ہیں، اسی میں محراب ہے، جہاں حضور اکرمﷺ کھڑے ہو کر امامت فرماتے تھے، ان تمام جگہوں اور خاص طور پر اسطوانۂ عائشہ کے پاس نفل ادا کرنا بابرکت کام ہے ‘‘۔ (حج و مقامات حج، ص: ۱۵۶)

ہم داخل تو ہو گئے، لیکن وہاں بیٹھنے یا نماز پڑھنے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی، تھوڑی دیر ہم لوگ ایک کنارہ کھڑے رہے، کچھ دیر بعد پولیس والوں نے پہلے سے آئے ہوئے لوگوں کو نکالنا شروع کیا تو ہمیں تھوڑی سی جگہ مل گئی، ابھی چاشت کی نماز کیلئے وقت باقی تھا، لیکن ہم نے اس ڈر سے کہ کہیں پولیس ہم سے بھی نکل جانے کیلئے کہے اور ہم اس قیمتی وقت سے محروم ہو جائیں، دو رکعت نماز پڑھ لی، تھوڑی دیر بعد چاشت کا بھی وقت ہو گیا تو دو رکعت چاشت کی بھی ادا کی، پھر ہم لوگ مرقد نبیﷺ کے پاس آئے، صلوٰۃ و سلام کا تحفہ نبی اور اصحاب نبی کی خدمت میں پیش کیا۔

’’ حجرۂ نبوی شریف جس میں حضورﷺ اور آپ کے دو معزز رفیقوں سیدنا حضرت ابوبکرؓ اور سیدناحضرت عمرؓ کی قبریں ہیں، اس کے اوپر ایک سبز گنبد بنا ہوا ہے جو پوری مسجد نبوی کے اوپر سب سے ممتاز ہے، اس کے ارد گرد سیسے کی دیواریں گلا دی گئی ہیں، حجرہ مبارک جس میں قبر مبارک ہے، اصل میں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کا مکان تھا، اور اسی میں حضورﷺ نے وفات پائی، اس حجرہ کو آپ کی آرام گاہ کے طور پر اس لئے اختیار کیا گیا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ انبیاء جن جگہوں پر وفات پاتے ہیں وہیں ان کی تدفین عمل میں آتی ہے۔ یہاں سے فراغت کے بعد ہم باب بقیع سے جنت البقیع کی طرف نکل گئے‘‘۔ (حج و مقامات حج، ص:۱۵۷)

 

بقیع کی حاضری

 

وہاں پہنچے تو دیکھا کہ لوگ دروازہ کے پاس کھڑے دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں، اسی دوران ایک شخص سے معلوم ہوا کہ جنت البقیع کا دروازہ صرف نماز فجر اور عصر کے بعد کھولا جاتا ہے، یہ ایک وسیع و عریض قبرستان ہے، مدینہ میں جس کا بھی انتقال ہوتا ہے اس کو یہیں دفن کیا جاتا ہے، اور اس کی نماز جنازہ مسجد نبوی میں فرض نماز کے بعد اداکی جاتی ہے، یہاں بے شمار صحابہ اور ہر دور کے بہت سے صلحاء اور اولیاء مدفون ہیں، پہلے بہت سی قبروں پر اشارے تھے، لیکن سعودی حکومت نے سب کو ختم کر دیا، اب سب قبریں یکساں ہیں، کچھ دیر بعد دروازہ کھلا، ہم بھی وہاں داخل ہوئے، اندر قبرستان میں مختلف جگہوں پر حکومت کے نمائندے پولیس و علماء کی شکل میں کھڑے لوگوں کو بدعات و خرافات سے روک رہے تھے، کوئی عربی میں بات کر رہا تھا، تو کوئی اردو میں سمجھا رہا تھا، غرض مختلف انداز سے نہی عن المنکر کیا جا رہا تھا، اس کے باوجود بہت سے سوڈان اور نائیجیریا وغیرہ کے لوگ وہاں کے کھمبوں اور ستونوں کو چھو رہے تھے اور بوسہ دے رہے تھے، جنت البقیع کے صدر دروازہ کے دائیں طرف بہت سے شیعہ کھڑے تھے، ان میں سے بہت سوں کے پاس ایک کاغذ تھا جس پر ان کے کہنے کے مطابق ان کے ائمہ کی قبروں کے اشارے تھے، نیز ان میں سے بہت سوں کے پاس ایک چھوٹی، ضخیم کتاب تھی، جس کو وہ قبروں کے پاس کھڑے ہو کر پڑھتے اور روتے تھے۔

ہم لوگ اہل قبور کیلئے دعا وغیرہ سے فراغت کے بعد (تقریباً دس بجے) کمرہ واپس ہوئے، کچھ آرام کیا، پھر کھانے وغیرہ سے فراغت کے بعد ظہر کی نماز کیلئے روانہ ہوئے، نماز ظہر سے فراغت کے بعد تقریباً تین بجے جب مسجد نبوی کے اندرونی حصہ میں تھا تو دیکھا کہ مسجد کے آخری حصہ سے لے کر مرقد مبارک تک ایک لمبا پردہ لگایا گیا ہے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ انتظام عورتوں کیلئے روضۃ الجنۃ میں نماز وغیرہ پڑھنے کیلئے کیا گیا ہے، یہ انتظام مختلف نمازوں مثلاً بعد نماز ظہر و عشاء کیا جاتا ہے، ایک آدمی نے یہ بھی بتایا کہ اب چونکہ عصر کا وقت قریب ہے لہٰذا یہ پردہ ہٹا دیا جائے گا اور مردوں کے لئے کھول دیا جائے گا۔

مسجد کے اگلے حصہ میں واقع باب رحمت سے داخل ہوا تو وہاں ایک جگہ لکھا تھا خوخۃ ابی بکر، یہ باب ابو بکر صدیقؓ کے پاس ہے، وہاں سے نکلا اور باب سلام سے داخل ہوا، صبح کے مقابلہ میں اس وقت لوگ بہت کم تھے، پورے اطمینان و سکون کے ساتھ نبی کریمﷺ کی خدمت مبارکہ میں صلوٰۃ و سلام پیش کیا، خود اپنی طرف سے بھی اور ہر اس شخص کی طرف سے جس نے مجھ سے درخواست کی تھی، پھر باب بقیع سے نکل کر سامنے استنجاء خانہ گیا، استنجاء وغیرہ سے فراغت کے بعد واپس آ رہا تھا تو پارکنگ کا بورڈ نظر آیا، یہ سب زیر زمین ہے، اس طرف گیا تو ایک وسیع و عریض جگہ تھی، جہاں پارکنگ بھی تھی، اور بس اسٹینڈ بھی، وہیں پر تھوڑی جگہ ائمہ مسجد نبوی کی گاڑیوں کے لئے بھی تھی۔

 

مسجد نبوی کے ایک درس میں شرکت

 

دوبارہ باب مکہ سے مسجد میں داخل ہو، اسی دوران عصر کی اذان ہو گئی، عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد متحرک سیڑھی کے ذریعہ مسجد کی اوپری منزل پر گیا، اوپر لاؤڈ اسپیکر میں ہلکی ہلکی کسی کے درس کی آواز سنی، اوپر تلاش کیا، پھر نیچے آ کر ایک پولیس والے سے پوچھا تو اس نے ایک طرف اشارہ کیا، وہاں ایک عالم حدیث کی مشہور کتاب’’ مشکوٰۃ المصابیح‘‘ ہاتھ میں لئے حج و ارکان حج کے متعلق درس دے رہے تھے، دوران درس انھوں نے ایک دلچسپ نکتہ یہ بتایا کہ یوم نحر یعنی دس ذی الحجہ کو حضورﷺ کے ارکان حج کی ترتیب کچھ یوں تھی:پہلے رمی، پھر نحر، پھر حلق، پھر طواف، ان چاروں کو ایک لفظ میں جمع کیا جائے تو ’’رنحط‘‘ بنتا ہے، دوران درس مغرب کی اذان ہو گئی، ارادہ تھا کہ درس دینے والے سے ملاقات کروں، لیکن نماز کا وقت ہو گیا اور وہ کہیں چلے گئے، اس لئے ملاقات نہ ہوسکی۔

 

مکتبۃ المسجد النبوی کا مختصر جائزہ

 

اسی جگہ مغرب کی نماز ادا کی، نماز مغرب اور سنن و نوافل کی ادائیگی کے بعد دوبارہ مسجد کی اوپری منزل پر گیا اور مسجد کا ایک ایک حصہ دیکھا، مسجد کے اوپر کے حصہ میں ایک چھوٹی سی لائبریری مکتبۃ المسجد النبویﷺ کے نام سے ہے، راقم کی اچانک اس پر نظر پڑی، ایک گونہ خوشی و مسرت کا احساس ہوا، اور اس میں اندر داخل ہوا، وہاں کے منظر نے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے دار المطالعہ اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے دار المطالعوں کی یاد تازہ کر دی، لیکن آج اس دار المطالعہ سے کچھ استفادہ نہ کر سکا، اس لئے کہ داخل ہوتے ہی عشاء کی اذان ہو گئی، جس کی بناء پر جلدی سے وہاں سے نکلنا پڑا۔

وہاں سے نکل کر عشاء سے پہلے کی سنت پڑھ کر اوپر ہی بیٹھا تھا کہ ایک ننھیالی رشتہ دار نے فون کیا، بعد نماز عشاء باب سلام کے پاس ملنا طے ہوا، ان کا نام حامد بن مولانا علی رضا صاحب قاسمی(راجہ ڈی، مظفر پور، بہار) ہے، وہ مدینہ منورہ کے مشہور ادارہ جامعہ اسلامیہ کے الیکٹرانک شعبہ میں ملازمت کرتے ہیں، نماز عشاء کے بعد باب سلام کے پاس ان سے ملاقات ہوئی، ان جگہوں پر قریب رہنے کے باوجود ملنا دشوار ہوتا ہے، لیکن کچھ دیر بعد ملاقات ہو گئی، وہیں اپنے گاؤں کے ایک اور شخص بھائی عمران بن جناب ماسٹر ابوالکلام صاحب (بیلپکونہ، مظفر پور، بہار) سے بھی ملاقات ہوئی، جومسجد نبوی کے الیکٹرانک شعبہ میں ملازمت کرتے ہیں، ان لوگوں سے ملاقات کے بعد سب کمرے آئے، ملاقات بات اور کھانے سے فراغت کے بعد میٹھی نیند کے مزے لئے، یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں جس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

 

مقاماتِ مقدسہ کی زیارت

 

آج ۲۱؍ ذیقعدہ ؍ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۱۹ ؍ اکتوبر ۲۰۱۱؁ء بروز بدھ ہے، آج راقم نماز فجر کے بعد جب کمرہ واپس لوٹا تو دیکھا کہ ہماری بلڈنگ کے قریب تین چار بسیں کھڑی ہیں، پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ بسیں مقامات مقدسہ کی زیارت کراتی ہیں، راقم بھی ایک بس پرسوارہو گیا، اس بس میں ہر ایک سے دس ریال لئے جاتے ہیں، بس کا ڈرائیور ایک مصری تھا اور ساتھ میں ایک پاکستانی تھا جو مقامات مقدسہ کا اردو زبان میں تعارف کرارہا تھا، اس سفر میں ہم نے جن مقامات مقدسہ کی زیارت کی وہ مندرجہ ذیل ہیں :

۱)جنت البقیع :’’جنت البقیع (بقیع شریف) اس کا نام بقیع الغرقد بھی ہے، غرقد ایک پودے کو کہتے ہیں جو یہاں بکثرت ہوتا تھا، یہی مدینہ منورہ کا قبرستان ہے، اس کی زیارت مستحب ہے، رسول اللہﷺ اس کی زیارت کیا کرتے تھے۔

۲) مسجدِ غمامہ:مسجدغمامہ اس کو مسجد مصلی (عیدگاہ) بھی کہتے ہیں، یہ مسجد نبوی کے جنوب مغرب میں اور باب السلام سے نصف کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، حضورﷺ نے اس میدان میں مختلف مقامات پر نماز عید ادا فرمائی تھی اور آخری سالوں میں اس جگہ کو عیدگاہ کے طور پر مخصوص کر لیا تھا۔

۳)مسجدِ ابوبکر: یہ مسجد بھی ان جگہوں میں شمار ہوتی ہے، جہاں رسول اکرمﷺ نے نمازِ عید ادا فرمائی، عیدگاہ میں جو تین مسجدیں ہیں ان میں یہ دوسری ہے، جو مسجدغمامہ کے شمال مغرب میں چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اسے مسجد ابوبکر صدیق اس لئے کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی خلافت کے دوران یہاں نمازِ عید ادا کی تھی۔

۴)مسجدِ عمر:یہ امیر المؤمنین سیدنا عمرؓ بن الخطاب کے نام سے منسوب ہے، جو مسجد نبوی کے جنوب مغرب میں واقع ہے، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ حضور اکرمﷺ نے یہاں بھی عید کی نماز ادا کی تھی۔

۵)مسجدِ ذو النورین : یہ مسجد مسجدِ نبوی کے جنوب میں واقع ہے، اس کو شیخ صدقہ حسن خاشقجی نے پندرہویں صدی کی پہلی دہائی میں تعمیر کروایا تھا۔

۶)مسجدِ علی :یہ مسجد بھی ان مقامات میں سے ہے جہاں رسول اکرمﷺ نے نمازِ عید ادا فرمائی، یہ مسجد ابوبکر کے شمال میں ہے، اس کو مسجد علی اس لئے کہتے ہیں کہ یہاں حضرت علیؓ نے عید کی نماز پڑھائی تھی۔

۷) مسجدِ بلال:یہ مسجدشارعِ قربان کے شروع میں باب السلام سے ۶۱ کلومیٹر پر واقع ہے، اس کی عمارت سہ منزل ہے، نیچے تہ خانہ اور اس کے اوپر والی منزل مارکیٹ پر مشتمل ہے، جسے سوقِ بلال کہتے ہیں، تیسری منزل مسجد ہے، جس پر خوبصورت گنبد اور حسین مینار ہے، پندرہویں صدی کی پہلی دہائی میں یہ مسجد و عمارت شیخ محمد حسین ابوالعلاء نے تعمیر کر کے محکمۂ اوقاف ومساجد کی تحویل میں دے دیا۔

۸)سلمان فارسی کا باغ:اس کے بارے میں مکمل تحقیق نہیں ہوسکی۔

۹)مسجدِ جمعہ:نبی اکرمﷺ نے ہجرت کے بعد قبا سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے اس جگہ پہلا جمعہ ادا کیا تھا، اسے مسجد بنی سالم، مسجد وادی، مسجد عاتکہ، مسجد قبیب وغیرہ بھی کہا جاتا ہے، اس جگہ پر صحابہؓ   نے مسجد تعمیر کی، پھر بعد کے زمانے میں اس کی تجدید وتوسیع ہوتی رہی۔

۱۰)مسجدِ قبا: یہ مسجد تاریخِ اسلام میں بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس لئے کہ یہ پہلی مسجد ہے جسے نبی اکرمﷺ کے دستِ مبارک سے تعمیر ہونے کا شرف حاصل ہوا، جب آپﷺ ہجرت فرما کر تشریف لائے تو اسی جگہ پر آزاد فضا میں نماز ادا کی، قرآن مجید میں اس کا تذکر ہ ہے، اور اسے{ اول مسجد اسس علی التقویٰ} قرار دیا گیا ہے، کہ تقوی کی بناء پر یہ پہلی مسجد قائم ہوئی، اس میں دو رکعت نماز کو عمرہ کا درجہ عطا ہوا، یہ مدینہ منورہ کے جنوب مغرب میں واقع ہے، اس کا نام مسجدِ قبا اس لئے ہے کہ یہ بستی قبا میں واقع ہے، انصار میں سے بنو عمرو بن عوف یہیں آباد تھے، یہ کلثوم بن ہدم کی مملوکہ جگہ پر تعمیر کی گئی، سہل بن حنیفؓ کا بیان ہے کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ( جو شخص گھر سے وضو کر کے مسجد قبا آئے اور دو رکعت نماز ادا کرے، اسے عمرہ جتنا ثواب ملے گا۔ )

قدیم دور سے یہ مسجد مسلمانوں اور حکام کی توجہات کا مرکز رہی، اور مختلف ادوار میں اس کی تعمیر وتوسیع اور مرمت ہوتی رہی، یہاں ہم نے دو رکعت نماز بھی ادا کی۔

۱۱) بئر خاتم:اسی قبا میں مسجد سے متصل مغربی جانب وہ کنواں ہے، جہاں حضور اکرمﷺ نے چند صحابہ کو جنت کی بشارت دی تھی، اور اسی میں حضرت عثمانؓ کے عہد میں حضورﷺ کی وہ انگوٹھی گر گئی تھی، جس سے آپ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین مہر لگایا کرتے تھے، اس کنویں کا نام بئر اریس بھی ہے، اس کا پانی کھاری تھا، کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے اس میں اپنا لعاب دہن شامل فرمایا جب سے اس کا پانی میٹھا ہو گیا، کہا جاتا ہے کہ یہ کنواں بعد میں خشک ہو گیا۔

۱۲) بستانِ عالیہ:یہاں ہم نے کھجور کے باغات اور مختلف قسم کی کھجوریں دیکھیں۔

۱۳)جبلِ احد: اس کے پورے علاقے کو اب احد کہا جاتا ہے، یہ دور سے دیکھنے میں کئی پہاڑوں کا مجموعہ معلوم ہوتا ہے، اس پہاڑ سے متعلق حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ( یہ پہاڑ جس کو مجھ سے محبت ہے اور مجھے اس سے محبت ہے ) اور (یہ جنت کے دروازہ میں سے ایک دروازہ ہے) اسی کے قریب ایک میدان ہے، جہاں احد کا معرکہ پیش آیا تھا، اس میں غزوۂ احد میں شہید ہونے والوں کا ایک چھوٹا سا قبرستان ہے، جس میں احد میں شہید ۷۰ صحابہ مدفون ہیں، حضورﷺ وہاں تشریف لے جاتے تھے اور ان شہداء کوسلام و دعا سے نوازتے تھے، شہدائے احد اور جبل احد کی زیارت جمعرات کے روز فجر کی نماز کے بعد سویرے مستحب ہے۔

۱۴)جبلِ رماۃ : یہ جبل احد سے پہلے ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے، جس پر غزوۂ احد کے موقع پر حضورﷺ نے تیر اندازوں کو کھڑا کیا تھا تاکہ وہ کفار کی نقل و حرکت کو دیکھتے رہیں، یہ وہی پہاڑ ی ہے جس کے پیچھے سے آ کر حضرت خالد بن ولیدؓ نے جنگِ احد میں حملہ کیا تھا، اس پہاڑی کا ایک حصہ کاٹ دیا گیا ہے، اسی جگہ ایک مدرسہ حضرت حمزہؓ کے نام سے ۱۳۷۲؁ھ میں ابتدائی درجات کے طلباء کے لئے حکومت کی طرف سے قائم کیا گیا ہے۔

۱۵)مسجدِ قبلتین: اسے مسجدِ قبلتین اس لئے کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ یہاں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا فرما رہے تھے کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل ہوا، اس کو مسجد بنی سلمہ بھی کہا جاتا ہے، یہاں بھی ہم نے دو رکعت نماز ادا کی۔

۱۶)وہ جگہ جہاں خندق کھودی گئی تھی۔

۱۷)مساجدِ سبعہ: ان کو مساجد فتح بھی کہا جاتا ہے، یہ وہ جگہیں ہیں جہاں حضور اکرمﷺ نے غزوۂ خندق کے موقع پر نمازیں پڑھی تھیں، گرچہ وہاں چھ مسجدیں ہیں، البتہ مساجد سبعہ سات مسجدیں کے نام سے مشہور ہے، انہی کے قریب ذرا فاصلے پر مسجد بنی حرام اور مسجد رایہ ہے، شاید انہیں میں سے کسی ایک کو شمار کر کے مساجد سبعہ کہہ دیا گیا ہو‘‘۔ (مدینہ منورہ کی تاریخی مساجد۔)

ان مقامات مقدسہ کی زیارت کے بعد واپسی ہوئی، جب کمرے پہنچے تو نماز ظہر کے لئے آدھا گھنٹہ باقی رہ گیا تھا، وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر جانب مسجد نبوی روانہ ہوا، نماز کے بعد کمرے واپس ہوا، اور کچھ دیر آرام کیا، پھر اپنے دادا کے ساتھ نماز عصر کے بعد مسجد نبوی روانہ ہوا، راستہ میں بھائی حامد کا فون آیا، انھوں نے کہا کہ میں مسجد نبوی آ رہا ہوں، ہم انشاء اللہ باب سلام کے پاس ملیں گے، نماز عصر سے فراغت کے بعد راقم صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کے لئے چلا گیا، جب واپس آیا تو بھائی حامد باب سلام کے پاس کھڑے انتظار کر رہے تھے، پھر راقم اور بھائی حامد مسجد نبوی کے باہر دوکانوں کی طرف گئے تاکہ کچھ کھائیں پئیں، وہیں پر اچانک میرے محترم استاذ، جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے مدرس، جناب مولانا عبد العلیم صاحب سے ملاقات ہوئی، نماز مغرب و عشاء سے فراغت کے بعد کمرے واپس ہوئے۔

جب کمرے پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہمارے گاؤں سے آئے ہوئے ایک شخص جناب عبد الشکور صاحب جو پہلے سے بیمار تھے ان کی حالت نازک ہے، فوراً ہندوستانی دوا خانہ کے نمبر پر فون لگایا گیا، کچھ دیر بعد ایمبولینس کی گاڑی آئی، لیکن دوا خانہ پہنچنے کے بعد ڈاکٹروں کی سستی اور ان کی بے توجہی دیکھ کر بہت افسوس ہوا، جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے موجودہ ڈاکٹروں سے زائد کام لیا جاتا ہے، جب مریض کو ڈاکٹر دیکھ رہا تھا تو مریض نے پانی طلب کیا، ڈاکٹر کی میز پر پانی کی بوتل رکھی ہوئی تھی، لیکن ڈاکٹر نے پانی نہیں دیا اور کہا کہ وہ میرا پانی ہے، بالآخر باہر سے لا کر دینا پڑا، ہندوستانی دوا خانہ کی اس حالت زار پر بہت افسوس ہوا، اللہ سمجھ عطا فرمائے۔

دوا خانہ سے واپسی کے وقت میں نے ایمبولینس کے ڈرائیور سے جو کیرالہ کا تھا پوچھا کہ آج کل یہاں پٹرول کی کیا قیمت ہے؟ تو اس نے کہا کہ بیالیس ھللہ جو تقریباً چھ روپئے یا اس سے کم ہی ہوتی ہے میں ایک لیٹر مل جاتا ہے، یہ بات ہمارے جامعہ اسلامیہ کے کسی استاذ نے پہلے بھی بتا ئی تھی، اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک ریال(چودہ پندرہ روپئے) میں سوادو لیٹر پٹرول مل جاتا ہے، جبکہ اگر فلٹر کیا ہوا پانی خریدنا ہو تو ایک ریال میں آدھا لیٹر ہی ملتا ہے، تقریباً ہم لوگ ایک بجے کمرے واپس ہوئے، تھکاوٹ زیادہ تھی اس لئے جلد ہی نیند نے ہمیں اپنی آغوش میں لے لیا۔

آج ۲۲؍ ذی قعدہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۲۰؍ اکتوبر۲۰۱۱ء بروز جمعرات ہے، معمول کے مطابق سب لوگ صبح جلد ہی بیدار ہوئے، نماز فجر مسجد نبوی میں ادا کی، نماز فجر کی ادائیگی کے بعد اہل خانہ مقامات مقدسہ کی زیارت کیلئے چلے گئے، اور میں بستر پر دراز ہو گیا، پھر تو آنکھ نماز ظہر سے کچھ قبل ہی کھلی، اس وقت تک اہل خانہ زیارت سے واپس آ گئے، نماز ظہر کے بعد میں قرآن کی تلاوت کر رہا تھا کہ اچانک پیچھے دیکھا تو ایک شخص قرآن زمین پر رکھ کر پاؤں پھیلائے تلاوت کر رہا تھا، ان علاقوں میں قرآن کی اس طرح بے حرمتی دیکھ کر بہت رنج ہوا، تلاوت چھوڑ کر اس شخص کے پاس گیا اور اس کو سمجھایا، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے بات مان لی، پھر میں نے مدینہ کے ایک باشندہ کو دیکھا کہ وہ ہر اس شخص کے پاس جاتا جو زمین پر قرآن رکھ کر پڑھ رہا ہو اور اس کو قرآن دان دیتا، یہ طریقہ مجھے بہت اچھا لگا، تلاوت سے فراغت کے بعد اسی جگہ بیٹھا تھا کہ وہ شخص جسے راقم نے سمجھایا تھا پاس آیا اور عمرہ کے مسائل و طریقہ دریافت کیا، چونکہ میں عمرہ کر چکا تھا اس لئے پوری وضاحت کے ساتھ اس کو سمجھایا، پھر اس نے حج کے مسائل اور اس کا طریقہ دریافت کیا، چونکہ ابھی حج نہ کیا تھا اس لئے پوری وضاحت کے ساتھ نہ بتا سکا، اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز کو سیکھنے کے بعد اس کی عملی مشق بھی ضروری ہے۔

 

مکتبۃ المسجد النبوی سے استفادہ

 

پھر میں مسجد کی اوپری منزل پرگیا، تاکہ دار المطالعہ سے کچھ استفادہ کیا جا سکے، جب اندر داخل ہواتوسب سے پہلے جس کتاب پر نظر پڑی وہ مشہور ہندوستانی عالم و محدث علامہ انور شاہ کشمیری ؒکی صحیح بخاری کی شرح فیض الباری تھی، پھر میں نے مکمل دار المطالعہ کا ایک جائزہ لیا، پھر بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ سے متعلق مصور ایک کتاب نظر آئی اس کو پڑھنا شروع کیا، اسی دوران عصر کی اذان ہو گئی، نماز عصر کے بعد مسجد کے اندرونی حصہ کا چکر کاٹ رہا تھا کہ ایک جگہ مکتبۃ المخطوطات   لکھا ہوا نظر آیا، والد ماجد نے اس کے بارے میں بتایا تھا، جا کر دروازہ کھٹکھٹایا، ایک نوجوان عرب نے دروازہ کھولا، کھلنے کے اوقات دریافت کرنے پر اس نے جواب دیا کہ کئی دنوں سے یہ بند کر دیا گیا، لہٰذا استفادہ ممکن نہیں، استفادہ سے محرومی پر بڑا افسوس ہوا، اب میں نے مسجد سے باہر جانے کا ارادہ کیا، لیکن جس جگہ چپل رکھی تھی وہاں نہ تھی، شروع میں تو بہت افسوس ہوا، لیکن جب امام مالک ؒ کا واقعہ یاد آیا کہ وہ مدینہ کی گلیوں میں ننگے پیر چلا کرتے تھے، تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ اسی بہانے اللہ کے ایک نیک بندے کے طریقہ کی اتباع کا موقعہ مل گیا، اس وقت دوبارہ مسجد واپس آ گیا، اور نماز عشاء سے فراغت کے بعد گھر لوٹا، راستہ میں ایک عرب نے بلا کر ایک تھیلی دی جس میں تر کھجوریں بھری ہوئی تھی، گھر لا کر سب کے ساتھ کھایا تو قرآن و حدیث میں پڑھے تر کھجوروں کے واقعات ذہن میں تازہ ہو گئے۔

آج ۲۳؍ ذی قعدہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء بروز جمعہ ہے، صبح سویرے معمول سے کچھ پہلے بیدار ہوئے، نہا دھوکر فارغ ہوئے، پھر مسجد نبوی کیلئے روانہ ہوئے، راستہ میں تھے کہ تہجد کی اذان ہو گئی، نماز تہجد و فجر سے فراغت کے بعد اسی جگہ بیٹھا تھا کہ لوگوں کو دیکھا کہ جنازہ اٹھائے جنت البقیع کی طرف لئے جا رہے ہیں، آج پانچ جنازے تھے، راقم بھی ان کے ساتھ ہولیا، قبرستان میں دعا کے بعد دوبارہ مسجد نبوی لوٹا چاشت کی نماز ادا کی، سورہ یٰسین و کہف کی تلاوت کے بعد باب مکہ کے پاس مسجد کے اندرونی حصہ میں سوگیا، تھوڑی دیر بعد بھائی حامد کا فون آیا، انھوں نے کہا کہ میں آدھے گھنٹے میں تمھارے کمرے پہنچنے والا ہوں، لہٰذا میں بھی کمرہ چلا گیا، بھائی عمران بھی تشریف لائے تھے، ان سے موبائل لے کر دارالعلوم ندوۃ العلماء کے رفقاء سے بات کی، تھوڑی دیر بعد بھائی حامد بھی تشریف لے آئے، وہ اپنے ساتھ بہت سی کھانے پینے کی چیزیں خود اپنے ہاتھوں سے پکا کر لائے تھے، ہم لوگوں نے کھایا پیا اور اللہ کا شکر ادا کیا، پھر نماز جمعہ کیلئے روانہ ہوئے۔

 

ایک حادثہ

 

نماز جمعہ سے فراغت کے بعد راقم نے کچھ دیر قرآن کی تلاوت کی، پھر باب رحمت کے پاس گیا تاکہ روضۃ الجنۃ میں داخل ہوسکوں، لیکن موقعہ نہ مل سکا، لہذا واپس آ گیا، وہاں ایک کھمبے پر مسجد النبیﷺ لکھا ہوا تھا، یہ اشارہ تھا اس بات کی طرف کہ زمانہ نبوت میں مسجد کا حصہ یہاں تک تھا، پھر ہر زمانہ میں بقدر ضرورت اس کی توسیع ہوتی رہی، پھر راقم کچھ آگے بڑھا تو قریب ہی ایک اونچی جگہ نظر آئی جو لوگوں سے بھری ہوئی تھی، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اسی جگہ پر صفہ تھا جسکو آج بھی ذرا اونچا رکھا گیا ہے اور وہاں ہر وقت لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے، اسی جگہ راقم نے نماز مغرب ادا کی، نماز پڑھ کر نکل رہا تھا کہ بھائی حامد کا فون آیا، ان سے ملاقات ہوئی، پھر ہم لوگ مسجد کے احاطہ سے باہر آ گئے تاکہ کچھ کھائیں پئیں، لیکن قریب کی سب دکانوں پر بہت زیادہ بھیڑ تھی، بالآخر کچھ دور جانا پڑا یہاں تک کہ ایک ہوٹل پر پہنچے وہاں سے شامی کباب اور کچھ روٹیاں لے کر کھائیں اور اللہ کا شکر ادا کیا، لوٹنے تک عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا، لہذا ہم نے مسجد کے دائیں جانب والے صحن میں نماز ادا کی، راقم نے اپنے دادا کو مسجد کے بائیں جانب والے صحن میں چھوڑا تھا، نماز کے بعد جب وہاں پہنچے تو دادا وہاں موجود نہ تھے، بہت تشویش ہوئی انا للّٰہ و انا الیہ راجعون والدہ کو فون لگایا کہ دادا کمرہ تو نہیں چلے گئے، لیکن وہاں بھی نہ تھے، پھر بھائی حامد نے حج کمیٹی( انڈیا )کے کارکن بھائی عنایت اللہ سے بات چیت کر کے تفصیلات سے آگاہ کرایا، ابھی ہم سب ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ راقم نے اپنی چچی کو فون کیا تو انھوں نے بتایا کہ دادا ابھی ابھی پولیس کی رہنمائی میں کمرے پہنچے ہیں، تب جا کر ہم لوگوں نے اطمینان کی سانس لی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

 

ولی عہد سلطان بن عبد العزیز کا انتقال

 

آج ۲۴؍ ذی قعدہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۱۱؁ء بروز سنیچر ہے، بعد نماز فجر تھوڑی دیر آرام کر کے ارادہ ہوا کہ قرآن حکیم کی نشر و اشاعت کے سرکاری ادارہ مجمع ملک فھد جا کر دیکھا جائے، کمرے سے باہر نکلا راستہ سے نا واقف تھا، ایک پولیس سے راستہ پوچھا تو اس نے ایک سڑک کی طرف اشارہ کیا، اسی جانب گیا، وہاں ایک ٹیکسی والے سے ملاقات کر کے وہاں جانے کی بات کی، تو اس نے پندرہ ریال مانگے جو اگرچہ زیادہ تھے، لیکن چونکہ وہاں جانا تھا اس لئے بات طے ہو گئی، دوران سفر ایک پہاڑی محل نما عمارت نظر آئی، ڈرائیور نے بتایا کہ موجودہ سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کا شاہی محل ہے، وہ جب مدینہ آتے ہیں تو یہیں قیام کرتے ہیں، جیسے ہی مجمع ملک فھد کے دروازہ پر پہنچا تو اتفاق کہ اسی وقت یا کچھ پہلے ولی عہد سلطان بن عبدالعزیز کے انتقال کی وجہ سے بند کر دیا گیا، اور اندر گئے ہوئے لوگ واپس آرہے تھے، حسرت و افسوس کے ساتھ واپس آنا پڑا، کمرہ واپس آ کر دادا کو لے کر مسجد نبوی گیا، نماز عشاء سے فراغت کے بعد جب ہم واپس آرہے تھے تو بھائی عمران کا فون آیا، انھوں نے کہا کہ میں آدھے گھنٹے میں کھانا وغیرہ لے کر آپ کے کمرے پہونچ رہا ہوں، وہ کچھ دیر بعد اپنے ہاتھ سے پکایا ہوا کھانا لے کر آئے، سبھوں نے مزے لے کر کھایا، دوسرے دن بھائی عمران کی چھٹی تھی، لہٰذا ہم نے مقامات مقدسہ کی زیارت کا پروگرام بنایا۔

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ و دیگر مقامات کی سیر

 

آج ۲۵؍ ذی قعدہ ؍ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۲۳؍ اکتوبر ؍ ۲۰۱۱؁ء بروز اتوار ہے، نماز فجر سے فراغت کے بعد بھائی عمران اور بھائی مرشد سے ملاقات ہوئی، سات بجے مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کے لئے جانا طے ہوا، لیکن ڈرائیو کی تاخیر کی وجہ سے آٹھ بجے کے بعد ہی جا سکے، سب سے پہلے ہم لوگ مدینہ منورہ کی مشہور یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ گئے، وہاں کے مختصر جائزہ کے بعد کھجوروں کی منڈی گئے، اور وہاں سے کھجوریں خریدیں، پھر مکتبۂ عبیکان گئے، وہاں سے صحیح بخاری کا ایک نسخہ اور دیگر کتابیں خریدیں، اس مکتبہ کے بارے میں راقم نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاذ مولانا عبدالعزیز صاحب سے سن رکھا تھا، پھر وہاں سے دیگر مقامات کی زیارت کرتے ہوئے نماز ظہر سے کچھ قبل واپس ہوئے، نماز عشاء سے فراغت کے بعد بھائی نجیٔ اللہ بن رحمت اللہ مرڈیشور(بھٹکل) کا فون آیا، انہوں نے بتایا کہ وہ کل صبح سویرے مدینہ پہنچنے والے ہیں، وہ ریاض میں رہتے ہیں، والد ماجد کے خاص شاگرد اور خصوصی تعلق رکھنے والوں میں ہیں۔

احباب و متعلقین سے ملاقات

 

آج۲۶؍ ذی قعدہ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۲۴؍ اکتوبر۲۰۱۱ء بروز پیر ہے، نماز فجر سے واپس لوٹ رہا تھا کہ بھائی نجیٔ اللہ کا فون آیا، انھوں نے کہا کہ وہ مسجد نبوی پہنچ چکے ہیں، پھر ہماری ملاقات ہوئی، ایک لمبے عرصہ کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تھی، ان کی اہلیہ و والدہ بھی آج ہندستان سے آنے والی تھیں، ہم لوگ اپنے کمرہ آئے، وہاں ان کا سامان وغیرہ رکھا، پھر مسجد نبوی لوٹ آئے، ظہر تک ہم لوگ ساتھ رہے، نماز ظہر کے بعد ر اقم طیبہ مارکیٹ چلا گیا، جو مسجد نبوی کے سامنے والے حصہ میں ہے، وہاں سے راقم نے عبا ء اور عطر وغیرہ خریدے، جب اس کی تیسری منزل سے واپس آ رہا تھا تو منکی(ہوناور ، کاروار) کے ایک شخص جناب نثار صاحب سے ملاقات ہوئی، یہ میرے ہم درس نوفل احمد کے والد ہیں،  ان کے علاوہ اور بھی منکی کے لوگوں سے ملاقات ہوئی، ان لوگوں سے ملاقات کے بعد میں دوبارہ مسجد نبوی آیا، اور نماز عشاء سے فراغت کے بعد کمرے لوٹا۔

 

چچا حافظ صدر عالم صاحب کی مدینہ آمد

 

آج ۲۷؍ ذی قعدہ ؍ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۲۵؍ اکتوبر؍ ۲۰۱۱؁ء بروز منگل ہے، نماز فجر سے فراغت کے بعد راقم مع اہل خانہ کھجوروں کی منڈی گیا، ہر ایک نے بقدر ضرورت کھجوریں خریدیں، آج مدینہ کے قیام کا آخری دن تھا، لہٰذا مسجد نبوی روانہ ہوئے، مقدور بھر نماز و عبادت اور تلاوت و اذکار کئے، آج ہی کے دن راقم کے چچا مسقط (عمان) سے اپنے قافلہ کے ساتھ بعد نماز فجر پہنچنے والے تھے، لیکن کسی وجہ سے تاخیر ہو گئی، عشاء کی نماز کے کچھ دیر بعد ان کا فون آیا کہ وہ ابھی ابھی مدینہ پہنچے ہیں، انھوں نے اپنی عمارت کا پتہ بتایا اور کہا کہ اگر آسکتے ہوں تو آ جائیں، ان علاقوں میں جہاں عمارتیں ہی عمارتیں ہوں وہاں کسی عمارت کو تلاش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، جس کی ہمت نہ ہوئی، اسی دوران بھائی نجیٔ اللہ اپنی اہلیہ اور والدہ کے ساتھ تشریف لائے، جب ہم ان کو رخصت کرنے کے لئے نیچے آئے تو سامنے کچھ فاصلہ پر ایک بس کھڑی نظر آئی، ایک موہوم سا خیال آیا کہ شاید یہی وہ بس ہو جس پر چچا مع اپنے قافلہ کے آئے ہوں، قریب جا کر دیکھا تو واقعتاً چچا عمارت کے استقبالیہ والے حصہ میں کھڑے تھے، ملاقات کی، پھر چچا ہمارے کمرے تشریف لائے، وہ عمان سے وہاں کا مشہور حلوہ لے کر آئے تھے، ہم نے کھایا پیا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سوگئے۔

 

مدینہ سے جدائی

 

آج ۲۸؍ ذی قعدہ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۲۶؍ اکتوبر۲۰۱۱ء بروز بدھ ہے، آج مدینہ سے مکہ واپسی کا دن ہے، دل رنجیدہ، آنکھیں نم دیدہ ہیں، لیکن جدائی اور الوداع کہنے پر مجبور ہیں، نماز فجر مسجد نبوی میں ادا کی، دعائیں مانگیں، سامان وغیرہ بس پر رکھا، تقریباً نو بجے سفر شروع ہوا، کچھ دیر بعد ذو الحلیفہ پہنچے۔

یہ مدینہ منورہ سے جنوب کی طرف آنے والے یا جنوب کی طرف سے مدینہ منورہ جانے والے تمام قافلوں کے لئے مدینہ منورہ سے ذرا پہلے ایک منزل ہوتی ہے، اب اس کا نام ابیار علی ہے، مدینہ منورہ سے حج کرنے والوں کی یہ میقات ہے، ہم لوگوں نے احرام کے کپڑے کمرے ہی میں پہن لئے تھے، وہاں پہنچ کر دو رکعت نماز پڑھ کر عمرہ کی نیت کر لی، اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے بے پایاں فضل و کرم سے اپنے لاڈلے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کی اتباع نصیب فرمائی، کہ حضورﷺ بھی اسی مبارک ومقدس مقام سے حج و عمرہ کا احرام ملبوس فرماتے تھے، یہاں سے چل کر ہم لوگ تقریباً عشاء کے وقت مکہ اپنے کمرے پہنچے، پھر عمرہ کے لئے روانہ ہوئے۔ (حج و مقامات حج، ص:۱۴۴)

جب مسجدِ حرام پہنچے تو وہاں کا منظر ہی عجیب تھا، رات کا ایک حصہ گذر چکا تھا پھر بھی مطاف پورا بھرا ہوا تھا، مدینہ جانے سے پہلے اور وہاں سے واپسی کے بعد کا منظر بالکل مختلف تھا، ہر طرف انسانوں کا سمندر تھا، مختلف جماعتیں آ رہی تھیں، عمرہ کر رہی تھیں پھر دوسری جماعتیں آ جاتیں، غرض ایک نہ تھمنے والا سلسلہ تھا، دادا بھی ساتھ تھے، ان کو وھیل چیئر پر لے گیا تھا، لیکن مطاف کے نچلے حصہ میں بھیڑ کے زیادہ رہنے کی وجہ سے وھیل چیئر لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی، دادا نے بھی چل کر طواف کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، لہٰذا وھیل چیئر، چپل اور کتاب ایک ساتھ کر کے ایک کنارہ لگا دی اور   ایک پولیس والے کو کہہ دیا، لیکن افسوس طواف سے فراغت کے بعد جب واپس آئے تو ان میں سے ایک چیز بھی نہ تھی انا للّٰہ و انا الیہ راجعون، تھکے ماندے طواف و سعی سے فراغت کے بعد واپس آئے، حلق کیا، غسل کیا، اور بستر پر دراز ہو گئے۔

 

 

 

حرمِ مکہ

 

والد ماجد کی مسقط (عمان)سے مکہ آمد

 

آج ۲۹؍ ذی قعدہ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۲۷؍ اکتوبر۲۰۱۱ء بروز جمعرات ہے، آج راقم کے والد ماجد جناب مولانا شرف عالم صاحب قاسمی دامت برکاتھم مسقط (عمان )سے مع اپنے قافلہ کے مکہ پہنچنے والے ہیں، والد ماجد پچھلے پانچ، چھ سالوں سے وہیں مقیم ہیں، وہاں سے حج و عمرہ کیلئے آنے والے قافلوں کیلئے بطور معلم و رہبر خد مت انجام دیتے ہیں، وہ بروز منگل مسقط سے بذریعہ بس نکلے تھے اور آج صبح سویرے ان کو مکہ پہنچنا تھا لیکن تاخیر ہوئی، اور عشاء کی نماز کے بعد جب کہ ہم مسجد حرام میں نماز پڑھ کر کمرہ جا چکے تھے، اس وقت والد ماجد کا فون آیا، کہ ہم لوگ ابھی ابھی مکہ اپنی رہائش گاہ پر پہنچے ہیں، ہماری رہائش گاہ عزیزیہ کے علاقہ کے ایک محلہ ملاوی میں ہے، مسقط سے آئے ہوئے اکثر و بیشتر حجاج کا قیام اسی علاقہ میں ہوتا ہے، پھر مجھ سے کہا کہ تقریباً ۱۲ بجے(رات) مسجد حرام آ جانا، وہاں پہنچ کر فون کیا تو والد ماجد سعی کر رہے تھے، آدھے گھنٹہ کے بعد مسجد حرام کے پہلے دروازہ باب عبدالعزیز کے قریب ملاقات ہوئی، یہ پہلا موقعہ تھا جب میں نے والد ماجد کو بحالت احرام دیکھا تھا، پھر ہم لوگ ہمارے کمرے آ گئے، سبھوں سے ملاقات کے بعد والد ماجد مسجد حرام چلے گئے اور ہم لوگ سو گئے۔

 

والد ماجد کی رہائش گاہ پر    

 

آج ۱؍ ذی الحجہ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۲۸؍ اکتوبر۲۰۱۱ء بروز جمعہ ہے، صبح سویرے بیدار ہو کر مسجد حرام گیا، بعد نماز فجر والد ماجد سے ملاقات ہوئی، ان کے ساتھ ان کے قافلہ کے بہت سے لوگ تھے، ہم سب والد ماجد کے کمرہ محلہ ملاوی کیلئے نکلے، تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہاں پہنچے، راقم اسی گاڑی سے والد ماجد کے لائے ہوئے سامان کو اپنے ساتھ لئے روانہ ہوا، کمرہ پہنچ کر سامان کھولا تو اسمیں دس کلو جلیبی، فرائی مچھلی، بہت سارے خشک میوے، چاکلیٹ، اور راقم کیلئے بہت ساری کتابیں تھیں، جن میں لاتحزن، لاتغضب، لاتیاس، نھایۃ العالم وغیرہ قابل ذکر ہیں، تھوڑی دیر بعد والد ماجد بھی تشریف لائے، جلیبی کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا کہ میں صرف دو کلو خریدنے گیا تھا لیکن دوکاندار نے زبردستی اتنا ڈال دیا، اور کہا کہ اپنے رشتہ داروں اور دوسرے حاجیوں کو کھلائیں، اس سفر میں ہر چیز میں عجیب و غریب برکت و کثرت نظر آئی، کھانے پینے کی چیزوں سے پوا کمرہ بھرا رہتا، پھر جو بھی آتا ڈھیر ساری چیزیں ساتھ لاتا، یہ سب اللہ کا انعام و اکرام تھا، جس پر اللہ کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے۔

 

مکہ میں دوسرا جمعہ

 

ناشتہ و غسل وغیرہ سے فراغت کے بعد نماز جمعہ کیلئے روانہ ہوئے، پہنچنے میں کچھ تاخیرہو گئی، لوگ راستہ پر صفیں بنائے بیٹھے تھے، گرمی بھی شدید تھی، باہر بیٹھنا ممکن نہ تھا، مسجد حرام کے سامنے والی مشہور عمارت شرکۃ مکۃ التجاریۃ کی چوتھی منزل پر ایک نماز گاہ ہے، مشورہ ہوا کہ اگر وہاں جگہ ہو تو وہیں چل کر نماز پڑھی جائے، وہاں نماز کیلئے کشادہ جگہ ہے، اور امام حرم ہی کی اقتداء میں نماز ہوتی ہے، راقم نے جا کر دیکھا تو وہاں کافی جگہ تھی، جب واپس آ رہا تھا تو والد ماجد کے کچھ قریبی جاننے والوں (ولی الرحمن عرف چینا اور وسیم پیغمبر پوری وغیرہ) سے ملاقات ہوئی، ان کو ساتھ لے کر والد ماجد کے پاس آیا، پھر سب لوگ اس عمارت کے اندر چلے گئے، اور وہیں نماز ادا کی، نماز کے بعد میں دادا کے ساتھ کمرہ آ گیا، اور والد ماجد کھانے وغیرہ کی چیزیں لانے چلے گئے، اور آج کل وہاں کی بہت مشہور ڈش( بروسٹ ) لے کر آئے، کھانے سے فراغت کے بعد سب اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔

آج ۲؍ ذی الحجہ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۲۹؍ اکتوبر۲۰۱۱ء بروز سنیچر ہے، بعد نماز فجر والد ماجد کمرے آئے، آج دادی محترمہ شہیدہ خاتون کو کچھ زیورات وغیرہ خریدنے تھے، لہٰذا ہم لوگ زیورات کی مارکٹ گئے، آج کل ایک گرام سونے کی قیمت ۲۱۰ ریال ہے، جو تقریباً ستائیس یا اٹھائیس سو روپئے ہندستانی ہوتے ہیں، زیورات کی خریداری کے بعد مارکٹ بن داؤد گئے تاکہ کچھ برتن اور کھانے پکانے کی چیزیں خریدی جائے، اب تک ہم لوگ ہوٹل کا کھانا کھایا کرتے تھے، آج سے ارادہ کیا گیا کہ پکانے کا انتظام کیا جائے، چونکہ گیس اور چولھے کا انتظام حج کمیٹی آف انڈیا کی طرف سے تھا، لہٰذا سامان لا کر رہائش گاہ واپس ہوئے، والدہ نے پکایا، اور بہت دنوں بعد گھریلو کھانا میسر آیا، سبھوں نے جی بھر کر خوش ہو کر کھایا اور اپنے پروردگار کا شکر ادا کیا۔

 

مکہ کے کچھ اہم مقامات سے واقفیت

 

آج ۳؍ ذی الحجہ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۳۰ ؍ اکتوبر۲۰۱۱ ء بروز اتوار ہے، نماز فجر سے فراغت کے بعد والد ماجد راقم کو لے کر اس جگہ گئے جہاں سے لوگ گھر لے جانے کیلئے بڑے بڑے کین وغیرہ میں پانی بھرتے ہیں، بہت سے مالدار و دولت مند جنھوں نے کبھی اپنے گھر اپنے لئے پانی نہ لایا ہو وہ بھی یہاں خود سے پانی بھرتے ہیں، پھر کندھوں پر لاد کر لے جاتے ہیں، پھر وہاں سے ہم لوگ اسی کے قریب ۱۳۷۰ ؁ء میں قائم کردہ مکتبہ مکہ مکرمہ کے پاس گئے، آج کل یہ بند تھا، اور حکومت کے شعبۂ امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے نمائندے کھڑے کتابیں تقسیم کر رہے تھے، اور بدعات سے روک رہے تھے، کہا جاتا ہے اور وہاں لکھا ہوا بھی ہے کہ یہ جگہ ہمارے نبی و آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی جائے ولادت ہے، جہاں پر عباسی خلیفہ ہارون رشید کی والدہ’’ خیزران‘‘ نے ایک مسجد تعمیر کرا دی تھی، جس کو بعد میں منہدم کر کے شیخ عباس قطان نے ۱۳۷۰؁ھ مطابق ۱۹۵۰؁ء میں ایک لائبریری تعمیر کرادی تھی، جو اب مسجدِ حرام کے مشرقی صحن سے متصل لبِ سڑک ہے، اسی پر مکتبۃ مکۃ المکرمۃ کا بورڈ لگا ہوا ہے،   اسی کے سامنے استنجاء خانے وغیرہ بنے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس جگہ پر ابو جہل و ابو لہب کے گھر تھے، اگر یہ حقیقت ہو تو ایک طور پر جائے عبرت و نصیحت ہے، کہ دنیا میں بھی نیکیوں اور برائیوں کا کتنا اثر ہوتا ہے، پھر آخرت میں جو ہو گا وہ الگ، وہیں پر سامنے ایک سرنگ ہے، اور سرنگ کے بعد ایک کھائی ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ شعب ابی طالب ہے جہاں تین سال تک حضورﷺ و صحابہ اور کچھ لوگوں کو بغیر دانہ پانی محاصرہ میں رکھ کر بائیکاٹ کیا گیا تھا، یہ سب چیزیں دیکھنے کے بعد میں کمرے واپس آ گیا اور دیر تک جاں نثارانِ اسلام اور یارانِ خیر الانام کے لئے ترقی درجات کی دعا کرتا رہا۔

 

نمازِ استسقاء کی ادائیگی

 

آج ۴ ؍ ذی الحجہ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۳۱؍ اکتوبر ۲۰۱۱ ء بروز پیر ہے، آج رات میں نے والد ماجد کی رہائش گاہ پر قیام کیا تھا، صبح سویرے بیدار ہوئے اور مسجد حرام پہنچے، ارادہ تھا کہ آج بعد نماز فجر مقامات مقدسہ کی زیارت کی جائے، لیکن نماز فجر کے بعد امامِ حرم نے اعلان کیا کہ سات بجے نماز استسقاء ہو گی، ہو سکتا ہے کہ مکہ کے باہری علاقوں میں پانی کی کمی محسوس کی گئی ہو، ہم لوگوں کو تو الحمدللہ پانی کی کچھ دشواری نہیں ہوئی تھی، اس اعلان کے بعد زیارت کا ارادہ منسوخ کرنا پڑا، تقریباً سات بجے نماز استسقاء شروع ہوئی، دو رکعت میں سے پہلی رکعت میں سات تکبیرات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات کہی گئی، اور پہلی رکعت میں سورۂ اعلی اور دوسری رکعت میں سورہ غاشیۃ پڑھی گئی، پھر نماز کے بعد ایک بلیغ خطبہ دیا، اس طرح اللہ تعالی نے ہم کو مسجد حرام میں نماز استسقاء پڑھنے کی بھی توفیق وسعادت نصیب فر مائی۔

آج ۵؍ ذی الحجہ۱۴۳۲؁ھ مطابق یکم نومبر۲۰۱۱ ء بروز منگل ہے، گزشتہ رات ہم لوگ اپنے کمرے میں رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ والد ماجد کے قافلہ کے ایک آدمی نے فون پر درخواست کی کہ رہائش گاہ پر آ کر کچھ مناسک حج وغیرہ کے بارے میں بتائیں، والد ماجد نے ان لوگوں کو دس بجے کا وقت دیا، پھر ہم لوگ وہاں جانے کیلئے روانہ ہوئے، بڑی دیر بعد گاڑی ملی، آدھ پون گھنٹے کی تاخیر سے تقریباً گیارہ بجے وہاں پہونچے، چونکہ حج کا زمانہ قریب تھا اس لئے ہر جگہ ٹریفک کا ہجوم تھا جس کی وجہ سے پہنچنے میں تا خیر ہو گئی، لیکن کچھ لوگ اب بھی چھت پر انتظار کر رہے تھے، یہ مختلف ممالک ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، وغیرہ کے لوگ تھے جو کسب معاش کے سلسلہ میں عمان مقیم تھے، ان میں ڈاکٹر بھی تھے انجینئر بھی، اور دیگر پیشہ کے لوگ بھی، لیکن سب والد ماجد کی عزت کرتے تھے، یہ سب علم دین اور اخلاق کریمانہ کی بدولت تھا، چونکہ وہ مختلف علاقہ کے لوگ تھے تو ہر ایک کا والد ماجد سے مخاطب ہونے کا انداز بھی جدا گانہ تھا، کوئی معلم کہتا، کوئی مطوع، کوئی عالم تو کوئی مولانا، غرض کہ ہر ایک اکرام و احترام کرتا تھا، پھر جب والد ماجد نے کہا کہ آج میں بہت تھک گیا ہوں تو ایک نے کہا کہ آپ حکم دیں تو ہم آپ کو کندھوں پر اٹھا کر لائیں۔

پھر تھوڑی دیر مجلس ہوئی، پہلے والد ماجد نے وقوف عرفہ کی حکمتوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے جس چیز کا بھی حکم دیا ہے اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں جن میں بعض ظاہر ہوتی ہیں، لیکن بعض مخفی ہیں جن کو ہر ایک نہیں سمجھ سکتا، پھر اللہ کی تخلیق و قدرت میں مخفی حکمت کی ایک لطیف مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک آدمی تھا، اس کا بہت بڑا باغ تھا، جس میں مختلف قسم کے درخت تھے، اور مختلف قسم کے پھل اس باغ میں پھلتے تھے، اس باغ میں آم کا درخت بھی تھا اور تربوز کی کھیتی بھی، ایک دن وہ باغ میں ٹہل رہا تھا، آم کے پھل کو دیکھ کر اچانک اس کے ذہن میں یہ سوال آیا کہ اللہ کا بھی معاملہ عجیب ہے کہ آم کے تناور درخت میں اتنے چھوٹے چھوٹے پھل لگائے، اور تربوز کی پتلی پتلی بیلوں میں اتنے بڑے بڑے پھل، کاش کہ تربوز جتنے بڑے پھل آم کے پیڑ پر بھی لگتے، وہ یہ سوچ کر اوپر دیکھنے کیلئے سر اٹھا ہی رہا تھا کہ اوپر سے ایک آم سیدھے اس کی ناک پر گرا، ناک پھول گئی، اسی لمحہ اسے اللہ کی حکمت سمجھ میں آ گئی، پھر اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے آم کے درخت پر چھوٹے چھوٹے ہی پھل لگائے، تربوز جیسے بڑے بڑے پھل نہیں لگائے، ورنہ آم گرنے سے ناک پھول گئی ہے، بڑے پھل ہوتے تو جان کے لالے پڑ جاتے، یہ واقعہ سن کر سب ہنسنے لگے، اس کے بعد والد ماجد نے مجھے بھی کچھ بیان کرنے کا حکم دیا، میں نے بھی عرفہ اور وقوف عرفہ کے متعلق حدیث ’’الحج عرفۃ ‘‘کی روشنی میں چند باتیں عرض کیں، پھر سب لوگ سونے کیلئے چلے گئے۔

 

مکہ کی زیارت گاہیں

 

صبح چار بجے بیدار ہو کر پہاڑ کے راستہ مسجد حرام روانہ ہوئے، مسجد حرام سے والد ماجد کی رہائش گاہ تک پہنچنے کے دو راستے ہیں، ۱۔ سرنگ کا راستہ جس پر ’’واذکر ربک اذا نسیت ‘‘لکھا ہے۔ ۲۔ پہاڑ کا راستہ، جس میں ایک اونچے پہاڑ پر چڑھنا پڑتا ہے، ہم لوگ آتے وقت سرنگ کے راستہ سے آتے اور مسجدحرام جاتے وقت پہاڑ کے راستے جاتے، نماز فجر کے بعد ہم لوگ مکتبہ مکہ مکرمہ کے پاس جمع ہوئے، وہیں کھڑے تھے کہ مسجد حرام کے اندر سے جنازے باہر لائے جانے لگے، مسجد نبوی کی طرح مسجد حرام میں بھی اکثر و بیشتر ہر نماز کے بعد نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے، پھر مکہ میں جنت المعلی اور دیگر قبرستانوں میں دفن کیا جاتا ہے، جب والد ماجد کے قافلہ کے بہت سے لوگ جمع ہو گئے تو دو گاڑی کرائے پر لی گئی تاکہ مقامات مقدسہ کی زیارت کی جائے، پہلی گاڑی میں بیس افراد تھے وہ لوگ روانہ ہو گئے، دو سری گاڑی میں بارہ افراد تھے، ہم لوگ بھی اسی گاڑی پر سوار ہو گئے۔

 

جبلِ ثور کے دامن میں

 

سب سے پہلے ہم لوگ جبل ثور کے پاس گئے، وہاں پہنچ کر گاڑی سے اترے، پہاڑ کے اوپر ی حصہ میں لوگ جاتے ہوئے نظر آرہے تھے، اسی میں مشہور غار غارِ ثور ہے، غارِ ثور تک پہنچنے کیلئے تین گھنٹے لگتے ہیں، پھر بھی لوگ محبت و شوق سے چڑھتے ہیں، چونکہ ہم لوگوں کے پاس وقت کی قلت تھی اس لئے چڑھنے کا ارادہ بھی نہ کر سکے، والد ماجد نے رفقاء کے سامنے غارِ ثور کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا :یہی وہ غار ہے جہاں حضرت محمدﷺ اپنے دوست حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ کفار مکہ سے بچنے کیلئے چھپے تھے، پہلے حضرت ابوبکرؓ غار میں جا کر غار صاف کرتے ہیں، جتنے سوراخ تھے سب کو بند کرتے ہیں، لیکن ایک باقی رہ جاتا ہے، جب حضور اکرمﷺ ان کے زانو پر سر رکھ کر سوجاتے ہیں تو حضرت ابوبکراس سوراخ پر اپنے پاؤں کا انگوٹھا رکھ دیتے ہیں، کچھ دیر بعد سانپ ڈس لیتا ہے، تکلیف سے تڑپ اٹھتے ہیں لیکن اپنا انگوٹھا نہیں ہٹاتے ہیں کہ حضورﷺ بیدار نہ ہو جائیں، لیکن درد کی شدت کی وجہ سے آنسو نبی کے رخسار پر گرتے ہیں، نبی بیدار ہو جاتے ہیں، حال دریافت کرتے ہیں، پھر لعاب دہن اس جگہ پر لگاتے ہیں تب جا کر آرام ہوتا ہے، کچھ دیر بعد دشمن ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہونچتے ہیں، حضرت ابوبکرؓ گھبرا کر کہتے ہیں کہ یا رسول اللہﷺ اگر ان لوگوں نے نیچے دیکھ لیا تو ہمیں پالیں گے، نبی کریمﷺ نے اس موقع پر جو تسلی دی قرآن نے اس پس منظر کو کچھ اس طرح بیان فرمایا :{   ثانی اثنین اذ ھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لاتحزن ان اللّٰہ معنا۔ فانزل اللّٰہ سکینتہ}۔ تین رات تک وہ وہاں رہے، پھر جانب مدینہ روانہ ہوئے۔

ابھی والد ماجد یہ سب بیان کر ہی رہے تھے کہ ڈرائیور نے آ کر جلدی دکھائی، لہٰذا پھر روانہ ہوئے اور منیٰ و عرفات کے پاس سے ہوتے ہوئے جبل نور کے پاس پہنچے۔

 

غارِ حراء میں

 

گاڑی سے اتر کر کچھ لوگوں نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا، کچھ دور جانے کے بعد سب کی ہمتیں پست ہو گئیں، صرف تین آدمی بچ گئے، ہم کچھ دیر چڑھتے پھر کچھ آرام کرتے، جب آدھا راستہ طے ہو گیا، تو ہمارے ساتھ ایک نوجوان تھا، وہ جلدی پہنچنے کیلئے دوڑنے لگا، ہم لوگوں نے اسے منع کیا لیکن وہ نہ مانا، کچھ دیر بعد جب ہم اور اوپر پہنچے تو وہ نوجوان بھی ہمت ہار کر بیٹھا ہوا تھا، اب ہم صرف دو آدمی بچ گئے، اچانک ذہن میں یہ خیال آیا کہ سیڑھیاں گنی جائیں، لیکن آدھا راستہ طے ہو چکا تھا لہٰذا واپسی پر چھوڑ دیا، ہم لوگوں نے آٹھ بجے چڑھنا شروع کیا تھا، نو بجے ہم لوگ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے، وہاں ایک آدمی اونٹ لے کر کھڑا تھا، لوگ اس اونٹ پر بیٹھ کر فوٹو کھنچواتے، جس کے وہ دس ریال یعنی ہندوستانی ۱۴۰روپئے لیتا، غار پہاڑ کی دوسری طرف کچھ نیچے کو ہے، پھر وہاں سے پچاس سیڑھیاں اترنے کے بعد ایک تنگ جگہ دو چٹانوں کے درمیان کی آئی اس میں سے گذر کر جب آگے پہنچے تو بہت بھیڑ تھی لہٰذا ایک چٹان پر چڑھ گئے، اوپر چڑھ کے دیکھا تو نیچے ہی غار حرا تھا، اور لوگ اس میں داخل ہونے کیلئے دھکا مکی کر رہے تھے، چٹان پر بیٹھ کر ہم نے کچھ کھایا پیا، پھر والد ماجد کو جو نیچے ہی تھے فون لگایا، انھوں نے خوب دعائیں دیں۔

تھوڑی دیر بعد چٹان سے اترا اور غار کے اندر گیا، وہاں ایک چھوٹی سی جگہ تھی، جس میں ایک آدمی نماز پڑھ سکتا ہے، غار کا رخ کعبہ کی طرف ہے اور کعبہ والے حصہ میں ایک چھوٹا سا سوراخ ہے جہاں سے مسجد حرام کے منارے نظر آتے ہیں، راقم نے وہاں رک کر تھوڑی دیر دعائیں کیں اور تصورات کی دنیا میں چودہ سو سال پہلے کا منظر سامنے آ گیا، یہی وہ غار ہے جہاں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ورسالت سے سرفراز کیا گیا اور سورۂ علق کی یہ ابتدائی چند آیتیں عطا کی گئیں، { اقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (۱) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (۲) اقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ (۳) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (۴) عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ (۵)} جن کے ذریعے وحی کے نزول کا آغاز ہوا، اور ۲۳ سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا، وحی کا یہ مجموعہ قرآن کریم کہلایا، جو تا قیامت تمام انسانوں کے لئے سامانِ ہدایت قرار پایا۔

وہاں سے نکل کر سیڑھیاں گنتے ہوئے نیچے اترنے لگا، سیڑھیوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی، نیچے اترا تو والد ماجد مع اپنے قافلہ انتظار میں تھے، یہاں سے گاڑی سے ہم لوگ تقریباً گیارہ بجے مسجد حرام روانہ ہوئے۔

آج ۶ ؍ ذی الحجہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۲؍ نومبر ۲۰۱۱؁ء بروز بدھ ہے، نماز اور رات کے کھانے سے فارغ ہو کر راقم اپنی والدہ محترمہ ثریا عشرت صاحبہ کے ساتھ والد ماجد کی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہوا، پہلے مسجد حرام آئے پھر وہاں سے آگے بڑھے تو راستہ بھٹک کر مسجد جن اور جنت المعلیٰ تک پہنچ گئے۔

’’ مسجدِ جن: اس کو مسجد جن اس لئے کہتے ہیں کہ اس جگہ پر جنات کی ایک بڑی جماعت نے رسول اللہﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا، اس موقع پر آپﷺ کے ہمراہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی تھے، اس کا دوسرا نام مسجد حرس ہے۔

جنت المعلیٰ: یہ مقبرہ مکہ مکرمہ کے تاریخی مقامات میں سے ایک ہے، جو مسجد حرام کی مشرقی جانب ایک پہاڑی کی گھاٹی میں واقع ہے، ایک حدیث میں مذکور ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’یہ قبرستان کیا ہی اچھا ہے‘‘اسی قبرستان میں ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کی قبر مبارک ہے‘‘۔(حج و مقامات حج، ص:۱۱۰۱)

اسی راستے سے واپس آئے تو وہاں وہ سرنگ جہاں سے ہم لوگ والد ماجد کی رہائش گاہ جاتے تھے، جس پر واذکر ربک اذا نسیت لکھا تھا نظر آئی، تو پھر ہم لوگ وہاں سے گئے اور تقریباً گیارہ بجے وہاں پہنچے۔

 

ایام حج کا آغاز

 

آج ۷؍ ذی الحجہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۳نومبر ۲۰۱۱ء بروز جمعرات ہے، معلم کی طرف سے یہ خبر آئی تھی کہ آج رات بعد نماز عشاء منیٰ کے لئے روانگی ہو گی۔

 

منیٰ روانگی

 

عشاء کی نماز کے بعد ہم لوگ تیار ہو گئے، لیکن بس گیارہ بجے کے بعد آئی، بڑی مشکل سے بس پر سوار ہوئے، اور آدھی رات بعد منیٰ اپنے خیموں میں پہونچے، ہمارا خیمہ جمرات سے ڈیڑھ کلو میٹر کی دوری پر شارع سوق العرب پر واقع ہے، وہاں پہنچ کر سبھوں نے آرام کیا۔

’’منی مکہ سے کچھ فاصلے پر ایک جگہ ہے، مسجد حرام سے اس کا فاصلہ سڑک کے راستے سے سات کلومیٹر اور پیدل سرنگ سے ۴کلومیٹر ہے، یہ مشعر ہے اور حدود حرم کے اندر ہے، یہیں پر حضرت ابراہیمؑ نے شیطان کو کنکریاں ماریں تھیں، جب وہ آپ کے راستے میں رکاوٹ بنا تھا، اسی مقام پر حضرت اسماعیلؑ کے بدلہ میں جنت سے آیا ہوا دنبہ ذبح کیا گیا، حجۃ الوداع کے موقع پر آپﷺ نے بھی سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے انہی تین مقامات پر کنکریاں ماریں اور جانور ذبح فرمائے، اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے تمام حجاج کرام جمرات کو کنکریاں مارتے ہیں، اور قربانی کرنے والے قربانی کرتے ہیں، یہیں پر مسجد خیف ہے جس میں بہت سے انبیاء کرام اور خود حضور اکرمﷺ نے نمازیں ادا کی، اسی منیٰ کے ایک پہاڑ کے دامن میں حضرات انصار نے حضورﷺ کے دست مبارک پر بیعت عقبہ اولی اور ثانیہ کی، جس کے نتیجہ میں مدینہ میں اسلام پھیلا‘‘۔ (حج و مقامات حج، ص:۱۱۲)

 

میدانِ عرفات میں

 

آج ۸؍ ذی الحجہ؍ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۴؍ نومبر ۲۰۱۱؁ء بروز جمعہ ہے، اصل آج کے دن ہمیں منی آنا تھا، لیکن معلم حضرات آسانی کے لئے رات ہی میں منی لے آتے ہیں، منی میں چونکہ نمازیں مسجد خیف میں پڑھنی چاہئے، ڈھونڈتے ڈھونڈتے مسجد خیف پہنچا تو پوری مسجد بھر چکی تھی، لہٰذا واپس آ گیا، اور پھر تمام نمازیں خیمے ہی میں ادا کیں، آج بعد نماز عشاء ہم لوگوں کو عرفات جانا تھا، لیکن بس کے انتظار میں رات کے ایک بج گئے، اور ہم لوگ خیمہ کے باہر بے یار ومددگاربس کا انتظار کرتے رہے، ایک بجے بس آئی سب لوگ تو سوار ہو گئے لیکن چچی اسی وقت خیمہ کے اندر گئیں، تو وہ وہیں رہ گئیں، اسی دوران بس وہاں سے روانہ ہو گئی، اور ہم لوگ تقریباً چار بجے عرفات اپنے خیمہ پر پہنچے، تھوڑی دیر بعد چچی بھی آ گئیں، اور سبھوں نے نماز تہجد و فجر ادا کی۔

’’میدان عرفات مکہ مکرمہ سے تقریباً اکیس کلومیٹر کے دور طائف کے راستہ پر ایک بڑا وسیع میدان ہے، جو تین اطراف سے پہاڑیوں سے گھرا ہے، درمیان میں جبل الرحمۃ ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺ نے قیام فرمایا تھا، اور خطبہ ارشاد فرمایا تھا، کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم و حضرت حوا عرفات میں ملے تھے، اسی لئے اس کا نام عرفہ پڑا اور یہ جگہ عرفات کہلائی، نویں ذی الحجہ کو زوال کے وقت سے حجاج یہاں جمع ہوتے ہیں جس کے بغیر حج ادا نہیں ہوتا، میدان عرفات کی مسجد کو مسجد نمرہ کہتے ہیں ‘‘۔ (حج و مقامات حج، ص:۱۱۳)

آج ۹؍ ذی الحجہ ؍ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۵؍ نومبر ؍ ۲۰۱۱ ؁ء بروز سنیچر ہے، آج ہی کا وہ دن ہے جس کے لئے یہ پورا سفر ہوا، یہ پورے انتظامات ہوئے، جس کو ’’وقوفِ عرفہ‘‘ کہا جاتا ہے، یہ حج کا رکنِ اعظم ہے، چنانچہ ارشادِ نبوی و قولِ محمدی ہے:’’الحج عرفۃ‘‘ (اصل حج عرفہ کا قیام ہے)چونکہ مسجد نمرہ ہمارے خیمہ سے بہت دور ہے اس لئے ہم لوگوں نے خیمہ ہی میں نماز با جماعت ادا کی، راقم نے نماز پڑھائی، پھر نماز کے بعد لوگوں کے سامنے وقوف عرفہ کے فضائل و اعمال کے بارے میں کچھ باتیں بیان کیں، کچھ دیر قرآن کی تلاوت کے بعد چاشت کا وقت ہو گیا، چاشت کی نماز پڑھنے کے بعد معلم کی طرف سے دیئے گئے ناشتہ سے فارغ ہوئے، پھر ظہر تک ہم لوگوں نے اپنے آپ کو نماز و ذکرا ور تلاوت میں مشغول رکھا، جبل رحمت اور مسجد نمرہ دونوں ہمارے خیمہ سے بہت دور ہیں، لیکن ہمارا خیمہ اونچائی پر ہے، جہاں سے جبل رحمت اور مسجد نمرہ دونوں نظر آرہے ہیں، ہر طرف جہاں دیکھو سفید لباس میں ملبوس انسانوں کا سیلاب ہے، ہر کوئی اپنے آپ میں مگن، نہ کوئی تفریق نہ کوئی امتیاز، سب کے کپڑے ایک رنگ کے، سب کے کپڑوں کا انداز ایک جیسا، سب کے کام ایک جیسے، سب کی زبان پر لبیک کا ترانہ، البتہ اگر فرق ہو گا تو دلوں کے معاملہ میں جس کو اللہ ہی جانتا ہے، ظہر و عصر بھی خیمہ ہی میں ادا کی گئی، بعد نماز عصر خیمہ سے باہر جا کر دعائیں وغیرہ مانگی، چونکہ وہاں سے غروب کے بعد نکلنا مستحب ہے اس لئے غروب تک دعائیں مانگتا رہا، یہاں بسیں آ کر لگیں اور لوگ بس پر سوار ہو گئے بلکہ بس کے اوپر بھی۔

 

ایک عجیب و غریب حادثہ

 

جب میں خیمہ واپس آیا تو سب لوگ جا چکے تھے صرف ہم لوگ رہ گئے تھے، جب خیمہ سے باہر نکل کر آئے تو بہت دیر تک بس کا انتظار کرتے رہے، لیکن بس نہ آئی، تو روڈ پر آئے تو روڈ پر بسیں دوڑ رہی تھیں لیکن ہماری بس ندارد، بہت دور چلنے کے بعد بہت دیر بعد تین چار بسیں آئیں اور لوگ سینکڑوں تھے، راقم نے اپنی چچی اور دادی کو بس پر سوار کر کے دادا کو سوار کر ہی رہا تھا کہ بس بھر گئی اور چل پڑی، اسی دوران والدہ بھی ایک دوسری بس پر چڑھ گئیں، اب راقم اپنے دادا کے ساتھ ایک دوسری بس پر چڑھا لیکن کسی کام کی وجہ سے مجھے بس سے اترنا پڑا، اسی دوران وہ بس بھی چل پڑی، اس طرح گھر کے تمام افراد الگ الگ ہو گئے، لیکن پھر بھی اطمینان تھا، کہ سب کے پاس موبائیل ہے، ملاقات ہو جائے گی، یہ سوچ کر جب کمر بند میں ہاتھ ڈالا کہ سب کو فون کر کے اطمینان دلائیں تو اس وقت ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، بدن کانپنے لگا، ہاتھ لرزنے لگا کہ فون بھی غائب!!!!! کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے، ہمارے معلم کی تمام بسیں بھی چلی گئیں، تھوڑی دیر وہیں کھڑا رہا، ہمارے گروپ کے کچھ اور لوگ بھی باقی رہ گئے تھے، بالآخر کسی دوسرے گروپ کی ایک بس آئی، سب اس پر سوار ہو گئے، لیکن راقم کو سیٹ نہ مل سکی، راستہ بھر کھڑا رہنا پڑا، ایسا لگ رہا تھا کہ مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں، بس کا سفر دراز ہی ہوتا جا رہا تھا، منزل قریب آنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے، زبان پر ذکر و دعا تھی اور دل و دماغ میں اہل خانہ کی فکر، بالآخر ڈرائیور نے ایک جگہ بس روک دی، چونکہ دو گروپ کے لوگ اس پر سورا تھے اس لئے ڈرائیور نے آگے جانے سے انکار کر دیا، میں بس سے اتر گیا، باہر ہلکی سی ٹھنڈی بھی تھی، دوپہر سے کچھ کھایا بھی نہ تھا، بھوک بھی تھکاوٹ بھی، اہل خانہ کی جدائی کا غم بھی، غرض یہ کہ بے بسی اور کم مائیگی کی آخری مثال بنا ہوا تھا، سوائے دو سفید چادروں اور ایک کمر بند کے کچھ ساتھ نہ تھا، پھر بھی اپنے متعلق تو اطمینان تھا، اگر غم تھا تو بیچاری والدہ کا جو اکیلی تھی، بیچارے بوڑھے دادا کا جو اکیلے دوسری بس پر تھے، بیچاری دادی اور چچی کا یہ دونوں اگرچہ ایک ساتھ تھیں لیکن پھر بھی تو صنفِ نازک تھیں۔

 

مزدلفہ میں

 

بس سے اتر کرسب سے پہلے ٹھنڈا پانی پیا، چہرہ دھویا، وضو کیا، اللہ سے دعا مانگی، پھر بغیر کسی اندازہ کے ایک جانب روانہ ہوا، وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے، ان سے وقت پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ دس بج رہے ہیں، ایک پینے کی بوتل میں رمی جمرات کے لئے کنکریاں لیں، اسی وقت ایک گاڑی پر کھانا تقسیم کیا جا رہا تھا، راقم نے بھی ایک کھانے کی تھیلی لے لی اور ایک جگہ کھانے بیٹھ گیا، کھانا تو بہت مزیدار تھا، لیکن ایک لقمہ بھی کھایا نہ جا سکا، رکھنے کیلئے بھی کوئی جگہ نہ تھی، لہٰذا ایک دوسرے شخص کودے دیا، اس کے بعد ایک جگہ کچھ کارٹون جمع کر کے لیٹ گیا، کچھ دیر بعد بیدار ہوا، یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کیا وقت ہو رہا ہے، البتہ پہلے کے مقابلہ میں چہل پہل بہت کم تھی، اٹھ کر ایک جانب روانہ ہوا تو وہاں ایک سڑک’’ شارع سوق العرب ‘‘کا بورڈ نظر آیا، یہی وہ سڑک تھی جس پر ہمارا خیمہ تھا، وہیں ایک بورڈ پر منیٰ و مزدلفہ کی سرحد کا اشارہ تھا، اور رمی جمرات کا بھی، بس والے کا یہ احسان رہا کہ اس نے ہمیں منیٰ کے بارڈر پر لا کر چھوڑا تھا، اب بدن میں کچھ جان آئی، سمت کا کچھ اندازہ ہوا۔

’’مزدلفہ منیٰ اور عرفات کے درمیان ایک وادی ہے، اس کو مشعر حرام بھی کہتے ہیں، یہاں بھی ایک مسجد ہے، حجاج مغرب و عشاء کی نماز یہیں پڑھتے ہیں اور صبح ہونے سے پہلے یہاں سے منیٰ کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں، منیٰ میں جمرات کو مارنے کے لئے کنکریاں یہیں سے لی جاتی ہیں ‘‘۔(حج و مقامات حج، ص:۱۱۳)

 

رمیِ جمرات

 

نمازِ فجر کے بعد رمی جمرات سے فارغ ہو کر خدا خدا کر کے خیمہ کے دروازہ کے پاس پہنچا، تو ایک اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا وہ یہ کہ وہاں کے چوکیداروں نے اندر داخل ہونے کے لئے کارڈ دکھانے کے لئے کہا، جب کہ یہ تمام چیزیں دادا کے پاس چھوٹ گئی تھیں، جو ایک چھوٹی سی بیگ میں تھیں، جس میں تمام کاغذات بھی تھے، اور آج سے پہلے تک کا لکھا ہوا سفرنامہ بھی، اور واپسی کا ٹکٹ بھی، اہل خانہ کی جدائی کے غم میں اس طرف دھیان ہی نہیں گیا، لیکن اب اس کے متعلق بھی تشویش ہونے لگی، خطرہ تھا کہ کہیں اس کے ساتھ کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے، بہت دیر کھڑا رہنے کے بعد ایک ان میں جاننے والا تھا اس نے دیکھ کر اندر جانے کی اجازت دی۔

اچانک ذہن میں یہ خیال آیا کہ دیکھیں ہمارے سامان میں کسی کا نمبر ہو تو ان کے ذریعہ والد ماجد سے بات کر کے تفصیلات بتائی جائیں، بہت دیر بعد والد ماجد کے بیگ کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی پرچی ملی، جس پر تین چار لوگوں کے نمبرات تھے، اتفاق کہ والد ماجد نے اپنے خیمہ سے بیگ لا کر ہمارے خیمہ میں رکھ دیا تھا، پھر ایک شخص نے اپنا موبائل دیا تاکہ فون کروں، لیکن جن کے نمبرات پرچی پر تھے ان میں سے کسی کے پاس والد ماجد یا چچا کے مکہ کے نمبرات نہ تھے، البتہ مکہ میں رہ رہے ہمارے ایک قریبی رشتہ دار ولی الرحمن (چینا) کا نمبر مل گیا، ان سے بات ہوئی تو انھوں نے تسلی دی، اور خوشخبری بھی کہ دادا بھائی مرشد کے ساتھ منیٰ میں مسجد خیف کے پاس ہیں، کچھ غم ہلکا ہوا۔ کچھ دیر بعد والدہ بھی تھکی ہاری واپس پہنچ گئی، ان کے پاس ایک موبائل تھا، وہ لے کر والد ماجد سے بات کی، پہلے تو والد ماجد نے خوب ڈانٹ پلائی، پھر بتایا کہ چچی اور دادی، چچا کے ساتھ رمی جمرات کرنے گئی ہیں، اس طرح یہ اطمینان ہو گیا کہ ہر ایک بسلامت ہے۔

پھر والد ماجد کے حکم پر والدہ کے ہمراہ مکہ روانہ ہوا، منیٰ کے حدود سے بہت دور نکلنے کے بعد سواری ملی، رکتے رکتے کافی دیر بعد مسجد حرام پہنچے، ارادہ تھا کہ آج ہی طواف افاضہ سے فارغ ہولیا جائے، لیکن کثرت اژدحام دیکھ کر ہمت نہ ہوئی، مسجد حرام کی تینوں منزلیں طواف کرنے والوں سے بھری ہوئی تھی، ایک سیل رواں تھا جو بہا جا رہا تھا، ہم لوگ والد ماجد کے قافلہ کی بس پر سوار ہو کر والد ماجد کی رہائش گاہ آئے، پھر وہاں سے والد ماجد کے خیمہ میں آئے جو مزدلفہ کے علاقہ میں تھا، خیمہ نمبر ۶۵ تھا، ہم نے رات وہیں قیام کیا۔

صبح اسی جگہ مرڈیشور کے چند لوگوں سے ملاقات ہوئی جو خلیج میں رہتے ہیں، اور وہیں سے وہ لوگ حج کے لئے آئے تھے، چونکہ وہ لوگ غیر سرکاری طور پر اپنی سواریوں کے ذریعہ آتے ہیں، اس لئے ان کے خیمہ وغیرہ نہیں ہوتے، وہ خیمہ وغیرہ اپنے ساتھ لاتے ہیں، اور جہاں جگہ مل جائے وہیں قیام کرتے ہیں، مختلف جگہوں پر خیموں کا یہ منظر عرب کے اس دور کی یاد دلاتا ہے جب پورا کا پورا عرب ہی بجز چند علاقوں کے خانہ بدوش تھا، وہیں معلوم ہوا کہ ندوہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے میرے استاذِ محترم جناب مولانا عبداللہ حسنی ندویؒ صاحب اور ان کے برادرِ عزیز جناب مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی بھی حج کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں اور وہیں قیام رکھتے ہیں، تو ارادہ ہوا کہ ملاقات کر لی جائے، لیکن پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ مسجد حرام جا چکے ہیں۔

 

طواف زیارت سے فراغت

 

وہاں سے ہم لوگ اپنے خیمہ پر آئے، اور تمام اہلِ خانہ مسجد حرام روانہ ہوئے، چونکہ ہمارے ساتھ کئی عمر دراز لوگ بھی تھے، اصل مسئلہ ان کے طواف کا تھا، لہٰذا ان تماموں کے لئے وھیل چئیر کا انتظام کیا گیا، پھر ہم تماموں نے مسجد کی سب سے اوپری منزل سے طواف کیا، جس میں کافی وقت لگ گیا، نماز عصر کے بعد ہم لوگ طواف وسعی سے فارغ ہو کر اپنی رہائش گاہ پہنچے، پھر وہاں سے منیٰ کے لئے روانہ ہوئے تاکہ آج کی رمی کی جائے، راقم رمی کرتے کرتے کچھ آگے بڑھ گیا کہ اچانک والد ماجد کا فون آیا کہ جلدی واپس آؤ، ایک تو لوگوں کی بھیڑ پھر رمی کا شور، سمجھ میں نہیں آیا کہ کہاں بلا رہے ہیں، جس کی وجہ سے پہنچنے میں کچھ تاخیر ہو گئی، جب وہاں پہنچا تو والدہ سے ملاقات ہوئی، والدہ سے پوچھا:تو والدہ نے بتایا کہ پاکستان کے کوئی بڑے عالم یہیں موجود ہیں، انھیں سے ملاقات کے لئے جلدی آنے کیلئے کہا، راقم سوچنے لگا کہ وہ عالم کون ہوں گے، کہ اچانک جمرۂ وسطیٰ کے پاس لوگوں کی ایک بڑی جماعت نظر آئی جو ایک جانب کھڑے ہوئے تھے، ایک آدمی دعا کر رہا تھا اور سب آمین کہہ رہے تھے، دعاسے فراغت کے بعد والد ماجد نے کہا کہ یہ جماعت جناب مولانا ذوالفقار نقشبندی صاحب کی ہے، ان سے ملاقات کی اور دعا کی درخواست کی، ان کے ساتھ مولانا محمود مدنی (جنرل سکریٹری، جمعیت علمائے ہند)بھی تھے۔

 

منیٰ واپسی

 

وہاں سے ہم لوگ خیمہ روانہ ہوئے، وہاں کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد پھر والد ماجد کے خیمے چلے گئے، گاڑی نے ہمیں مسجد حرام سے لا کر جس جگہ چھوڑا تھا وہاں سے منیٰ تقریباً دو کلومیٹر تھا، پھر منیٰ سے ہمارا خیمہ ڈیڑھ کلومیٹر، پھر ہمارے خیمہ سے والد ماجد کا خیمہ دو کلومیٹر، یہ تمام مسافتیں پیدل ہی طے کی گئیں، وہ بھی رات کے وقت جبکہ صبح سے شام تک چلتے ہی رہے تھے، اس دن دس کلومیٹر سے زیادہ چلے ہوں گے، راقم کا تو کوئی مسئلہ نہیں، تعجب تو والد ماجد پر تھا کہ بیماری کے بعد سے عام دنوں میں کچھ دور چلیں تو تھک جاتے ہیں، لیکن یہ موقعہ ایسا تھا کہ چلے جا رہے ہیں، تھک بھی رہے ہیں، لیکن جتنا تھک رہے ہیں اتنی ہی طبیعت ہشاش و بشاش ہوتی جا رہی ہے، یہ تو اپنے اہل خانہ کا حال تھا، ورنہ کئی ایسے بھی لوگ دیکھے جو تکلیفیں سہ کر رو رہے ہیں لیکن پھر بھی بڑھے جا رہے ہیں، سب اپنے میں مگن ہیں، سب کو ایک ہی دھن ہے، وہ یہ کہ اللہ راضی ہو جائے، قبولیت سے نوازے، مغفرت فرمائے، اور محبوب بنا لے، والد ماجد کے خیمہ پہونچنے تک آدھی رات ہو گئی، باہر ہی بستر بچھا کر کھلے آسمان کے نیچے سوگئے۔

آج بروز پیر ۱۱؍ ذی الحجہ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۷؍ نومبر ۲۰۱۱ء ہے، نماز فجر وغیرہ سے فراغت کے بعد بھوک کا احساس ہوا، وہیں پر لوگ ہانڈیوں میں رکھ کر بریانی بیچ رہے تھے، وہیں سے خرید کر ہم لوگوں نے کھایا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

آج ۱۲؍ ذی الحجہ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۸؍ نومبر۲۰۱۱ء بروز منگل ہے، آج کا پورا دن عبادات میں گزرا، بارہ بجے کے قریب رمی جمرات کے لئے گئے، جیسے ہی جمرات کی نو تعمیر شدہ تعمیر کے حدود میں داخل ہوئے، مسجد خیف سے نمازِ ظہر سے فارغ ہونے والے نمازیوں کا ایک جم غفیر آیا اور ہم بیچ میں پھنس کر رہ گئے، والدہ بھی ساتھ تھیں، بھیڑ اتنی کہ نہ ہاتھ اٹھا سکتے تھے، نہ ادھر ادھر ہل سکتے تھے، بس بھیڑ کے رحم و کرم پر تھے، دھکے کھاتے کھاتے جمرۂ اولی کے اتنا قریب پہنچ گئے، کہ کنکریاں ہم پر برسنے لگیں، بالآخر کسی طرح بہت دیر بعد بھیڑ سے نکل کر ایک طرف ہو گئے، پھر اکیلے جا کر اپنی طرف سے اور والدہ کی طرف سے بھی رمی کی، چونکہ آج منی کا آخری دن تھا اس لئے لوگ واپس جانے لگے تھے، چونکہ ہمارے ساتھ دادا دادی بھی تھے اور کچھ سامان بھی تھا، اس لئے معلم کی بس کا انتظار کیا، اس طرح ہم لوگ سکون و عافیت کے ساتھ دیر رات گھر پہنچ گئے، وہاں والد ماجد و چچا وغیرہ سب جمع تھے۔

 

چچا کی مسقط واپسی

 

آج ۱۳ ؍ ذی الحجہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۹نومبر ۲۰۰۱۱؁ء بروز بدھ ہے، آج بھی معمول کے مطابق صبح سویرے بیدار ہوئے، والدہ ماجدہ نے مزیدار اور لذیذ گھریلو کھانا پکایا، سب نے کھایا، شکر خدا ادا کیا، آج میرے چچا مسقظ چلے گئے۔

 

والد ماجد کا مدینہ کا سفر

 

آج ۱۴؍ ذی الحجہ مطابق ۱۰؍ نومبر ۲۰۰۱۱؁ء بروز جمعرات ہے، بعد نماز عصر مع والدین جانب مسجد حرام روانہ ہوا، والد ماجد نے طوف وداع کیا، ہم لوگوں نے نفل طواف کی نیت کی، آج ہم لوگوں نے مسجد حرام کی دوسری منزل سے طواف کیا، اکثر و بیشتر ہم لوگ مطاف میں طواف کرتے تھے، لیکن حج کا طواف سب سے اوپری منزل سے اور آج دوسری منزل سے طواف کیا گیا، اس طرح مسجد حرام کی ہر منزل سے طواف کرنے کا موقع ملا، اور مسجدِ حرام و مطاف کے مختلف روح پرور اور کیف آفرین مناظر سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں، دوران طواف میرے ماموں جناب مولانا اشرف مبین صاحب قاسمی کا فون آیا، وہ آج مدینہ جانے والے تھے، بعد نماز مغرب ان سے ملاقات ہوئی۔

والد ماجد بھی آج مدینہ جانے والے تھے، بعد نماز عشاء والد ماجد اپنے قافلے کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئے، والد ماجد نے مجھے ۲۱۰ ریال عمانی دئیے تاکہ لیپ ٹاپ خریدوں، پھر وہاں سے ہم لوگ ا پنی رہائش گاہ واپس ہوئے، اور تقریباً دس بجے کمرے پہونچے۔

یہاں تک راقم نے سفرنامہ روزانہ کے اعتبار سے لکھا، اس کے بعد راقم نے صرف اہم واقعات کو لکھنے پر اکتفا کیا۔

 

جدہ میں ایک دن

 

آج ۱۷؍ ذی الحجہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۱۳؍ نومبر ۲۰۰۱۱؁ء بروز اتوار ہے، والد ماجد نے عمان سے فون کر کے کہا کہ بھائی نجیٔ اللہ کے ساتھ جدہ جا کر لیپ ٹاپ خرید لو، ان سے فون پر بات ہوئی، تو انھوں نے کہا: نوبجے مسجد حرام آ جانا، وہیں سے روانہ ہوں گے، ناشتہ وغیرہ سے فراغت کے بعدمسجدِ حرام کی جانب روانہ ہوا، باب عبد العزیز کے پاس ان سے ملاقات ہوئی وہ اپنی والدہ و اہلیہ کے ساتھ میرا انتظار کر رہے تھے، والد ماجد نے لیپ ٹاپ خریدنے کے لئے عمانی ریال دئیے تھے، لہٰذا پہلے ہم لوگ صرّاف کے پاس گئے، جس کی دکان مسجد حرام کے سامنے کی مشہور عمارت شرکۃ مکۃ التجاریۃ میں واقع تھی، راقم وہیں کھڑا تھا، ایک پاکستانی آیا اس نے ۵۰۰ ہزار پاکستانی روپیہ دئیے جس کے بدلے اس کو ۲۰۰ سعودی ریال ملے، پھر تیونس کا ایک آدمی ۱۰۰ریال تیونسی لایا تو اس کو ۵۰۰ سعودی ریال ملے، ہر ملک کی کرنسی کے درمیان اتنا تفاوت دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔

ہم لوگ ۱۲۰ ریال میں ایک کار کرایہ پر لے کر جدہ کے لئے روانہ ہوے، دوران سفر جدہ کی بندرگاہ اور رابطہ عالم اسلامی وغیرہ سے گذر ہوا، ظہر کی نماز سے کچھ قبل ہم لوگ جدہ میں مقیم مرڈیشور کے والد ماجد سے تعلق رکھنے والے جناب علیکو آثار بن جناب علیکو ابو محمد صاحب (مرڈیشور، بھٹکل) کی دوکان پر پہونچے، وہ میرے والد کے شاگرد بھی تھے، نماز ظہر کے بعد انھیں کے گھر کھانا ہوا، نماز کے بعد کچھ دیر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، گفتگو کا موضوع طائف کا موسم اور مدینہ کی وادیِ بیضاء تھی، وہاں موجود سب لوگ والد ماجد کی علمی صلاحیت اور تقریری مہارت کی تعریف کر رہے تھے۔

بعد نماز عصر ہم لوگ ملک عبد العزیز روڈ پر واقع مؤسسۃ نور الدین التجاریۃ گئے، وہاں سے ہم نے ۲۵۰۰ریال میں ایک لیپ ٹاپ خریدا، ہندستانی اعتبار سے اس کی قیمت ۳۵۰۰۰ ہزار ہوتی ہے۔

بعد نماز مغرب ہم لوگ آج کل عرب ممالک میں مشہور کمپنی بروسٹ’’ البیک‘‘ کی ایک دوکان پر گئے اور ’’البیک‘‘ کے چار پیک خریدے، دو وہیں تناول کئے گئے اور دو لے کر اپنے میزبان کے گھر آئے، انھیں کے گھر رات کا کھانا ہوا، پہلے تو انھوں نے قیام پر اصرار کیا، لیکن ہم نے مناسب نہ سمجھا، پھر انھوں نے خود اپنی گاڑی سے ہمیں مکہ لا کر چھوڑا، بارہ بجے کے قریب ہم لوگ اپنے کمرے پہنچے۔

ایک دن نماز فجر کے لئے مسجد حرام جا رہا تھا، تو اچانک مولانا ذوالفقار نقشبندی صاحب نظر آئے، وہ مسجد آرہے تھے، راقم نے ملاقات کی اور دعا کی درخواست کی۔

 

ایک دلچسپ و ایمان افروز منظر

 

ایک دن بعد نماز چاشت مسجد حرام کے اندرونی حصہ سے نکل رہا تھا تو ایک عجیب و غریب منظر دیکھنے کو ملا، جس کو دیکھ کر تعجب بھی ہوا اور خوشی بھی، وہاں بہت سی مشہور تعمیراتی کمپنیاں ہیں، جس میں ایک کمپنی بن لادن ہے، اس کمپنی نے مسجد حرام کے پاس جبل عمر کا ٹھیکہ لیا ہے، اس کے مزدور مکہ کے باہری علاقہ میں رہتے ہیں، صبح سویرے بذریعہ بس وہ لوگ مکہ آ کر کام کرتے ہیں، اسی وقت انہیں مزدوروں کی ایک جماعت آئی، پہلے انھوں نے دروازہ کے سامنے آ کر کعبہ کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے، بعضوں نے نماز بھی پڑھی،  پھر اپنی بوتلوں میں زمزم بھرا، پھر خود پیا، اور اپنے کام پر روانہ ہو گئے، ان کو دیکھ کر رشک بھی ہوا، کہ کتنے خوش قسمت ہیں یہ لوگ، وہ تمام ایک ہی لباس میں ملبوس تھے، ان میں اکثر ہندوستان وپاکستان اور بنگلہ دیش ہی کے ہوتے ہیں۔

 

رات میں مطاف کا منظر

 

ایک دن رات میں کھانے سے فراغت کے بعد مسجد حرام گیا، دن میں کسی وقت مطاف خالی رہنا تو دور کی بات بھیڑ کم بھی نہ ہوتی تھی، لہٰذا سوچا کہ آج رات مطاف ہی میں گذاری جائے، شاید کہ رات میں کچھ بھیڑ کم ہو، لیکن ایک لمحہ بھی کچھ کمی نظر نہ آئی، طواف ہی وہ عبادت ہے جو پوری دنیا میں صرف اسی جگہ ادا کی جا سکتی ہے، اس وقت وہ واقعہ یاد آیا کہ ایک آدمی نے قسم کھائی کہ وہ ایسی عبادت کرے گا جو اس وقت دنیا میں میرے علاوہ کوئی نہ کر رہا ہو، ورنہ میری بیوی کو طلاق ہو گی، پھر سوچا تو پریشان ہو گیا کہ وہ کون سی عبادت ہوسکتی ہے، علماء کے سامنے مسئلہ پیش کیا گیا، علماء بھی پریشان ہو گئے، آخر کار ایک جید عالم نے اس کا حل اس طور پر نکالا کہ مطاف خالی کر دیا جائے، اور وہ طواف کرے اس طرح اس کی قسم پوری ہو جائے گی۔

 

مسجدِ عائشہ سے عمرہ

 

واپسی سے دو روز قبل اپنی والدہ محترمہ ثریا عشرت صاحبہ، دادی محترمہ شہیدہ خاتون صاحبہ، اور چچی مسرت صاحبہ کے ہمراہ مسجدِ عائشہ(تنعیم) سے عمرہ کے لئے روانہ ہوا، بعد نماز فجر ہم لوگ بذریعہ کار تین تین ریال دے کر سوار ہوئے، مسجد عائشہ پہنچے، عمرہ کی نیت کی، پھر مسجد حرام آئے، طواف وسعی کی، اس طرح یہ عمرہ مکمل ہوا۔

نوٹ:حج کے ایام میں اور دیگر ایام میں بھی مسجد عائشہ تنعیم سے عمرہ کرنا مختلف فیہ ہے، بہتر ہے کہ مسجد عائشہ سے کثرت سے عمرہ کے بجائے زیادہ سے زیادہ طواف کیا جائے۔

 

واپسی کا سفر

 

آج ۲۹ذی الحجہ ۱۴۳۲؁ھ مطابق ۲۵ نومبر ۲۰۱۱؁ء بروز جمعہ ہے، آج واپسی کا دن ہے، صبح سویرے بیدار ہوئے، تیاری وغیرہ مکمل کی، سامان وغیرہ تو پہلے ہی بھیجا جا چکا تھا، نماز فجر کے بعد طواف وداع سے فارغ ہوئے، جمعہ کی نماز قریب کی ایک مسجد میں ادا کی، اتفاق کہ مکہ پہنچنے کا دن بھی جمعہ تھا، اور واپسی کا دن بھی جمعہ کا، مکہ کی پہلی نماز بھی جمعہ کی اور واپسی کی آخری نماز بھی، بعد نماز جمعہ بس پر سوار ہوئے، دل و دماغ کشمکش کا شکار اور الجھنوں میں گرفتار تھے، ایک طرف حرم کی جدائی کا غم تھا تو دوسری طرف گھر واپسی کی خوشی، ایک طرف حرم کی عبادات، کعبہ کے طواف، وغیرہ کے چھوٹنے کا غم تو دوسری طرف اہلِ تعلق و رشتہ داروں سے ملنے کا اشتیاق، غرض اسی کشمکش اور سوچ بچار میں ہم چار بجے جدہ ایرپورٹ پہنچے۔

اسی کشمکش میں گذری میری زندگی کی راتیں

کبھی سوز ساز رومی، کبھی پیچ تاب رازی

کسٹم و امیگریشن وغیرہ سے فراغت کے بعد ہوائی جہاز پر سوار ہوئے، تقریباً ۶ بجے صبح ہم لوگ دہلی ایرپورٹ پہنچے، ٹھنڈی بڑھ چکی تھی، باہر شدید کہرا پڑ رہا تھا، گرم گرم چائے رکھی ہوئی تھی، چائے سے لطف اندوز ہوئے، پھر ناشتہ سے فراغت کے بعد تقریباً دس بجے پٹنہ کے لئے روانہ ہوئے، اور دوپہر دو بجے پٹنہ ایرپوٹ پہنچے، وہاں پر ہر ایک کو دس دس لیٹر کا ماء زمزم کا کین دیا گیا۔

بہت سے رشتہ دار اور گاؤں والے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے، سب سے ملاقات ہوئی، پھر گھر کے لئے روانہ ہوئے، آدھی رات کے بعد گھر پہنچے، پہلے جامعہ ربانیہ گئے، وہاں دو رکعت نماز شکر ادا کی، اور بہت ساری دعاؤں کے ساتھ جامعہ ربانیہ کی تعمیر و ترقی اور مقبولیت و محبوبیت کی دعا کی۔

 

آخری بات

 

دو دن بعد لکھنؤ آ گیا، اور چار محرم ۱۴۳۳؁ھ مطابق ۳۰نومبر ۲۰۰۱۱؁ء بروز بدھ ظہر کی نماز سے کچھ قبل ندوہ کے احاطہ میں داخل ہوا، اس طرح بحمد اللہ یہ سفر بآسانی تمام ہوا، ہمارا مکمل قیام حرمین میں چالیس دن رہا، اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے سفر کو قبول فرمائے، کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور بار بار حج و عمرہ، اور اپنے گھر کی زیارت نصیب فرمائے، آمین، یا رب العالمین۔

 

 

 

 

 

حج و عمرہ کا مختصر طریقہ

 

احرام کا طریقہ

 

مستحب ہے کہ احرام باندھنے سے پہلے حجامت بنوا لیں، ناخن تراش لیں، بغل وغیرہ کی صفائی کر لیں اور خوب اچھی طرح غسل کریں، ورنہ وضو کر لیں۔

اب مرد ایک سفید چادر باندھیں دوسری اوڑھیں، اور جوتے اتار کر ہوائی چپل پہنیں، پھر سر ڈھک کر خشوع و خضوع کے ساتھ دو رکعت نفل ادا کریں۔

اصل احرام اس وقت شروع ہو گا جب احرام کی دو رکعتیں پڑھ کے حج یا عمرہ کی نیت کے ساتھ تلبیہ پڑھیں گے، اور اسی وقت سے احرام کی پابندیاں لگیں گی۔

احرام والی نماز میں اوڑھنے والی چادرسرسے اوڑھے رکھیں اور جیسے ہی سلام پھیریں تو چادر کو سرسے اتار لیں۔

ہوائی جہاز سے جانے کی صورت میں ہوائی جہاز میں احرام کی نیت کرنا زیادہ مناسب ہے، لہٰذا نیت و تلبیہ کے سوا باقی کام گھر یا ائیر پورٹ پر کریں اور جب ہوائی جہاز فضا میں بلند ہو جائے اس وقت اس طرح نیت کریں :

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْعُمْرَۃَ فَیَسِّرْھَا لِیْ، وَتَقَبَّلْھَا مِنِّیْ۔

ترجمہ:(اے اللہ! میں عمرہ کا ارادہ رکھتا ہوں، پس تو اسے میرے لئے آسان کر دے اور اس کو مجھ سے قبول فرما۔ )

اور اگر حج افراد کی نیت کرنی ہے، تو ’’العمرۃ‘‘ کے بجائے ’’الحج‘‘ کا لفظ استعمال کیجیے، اور اگر قران کی نیت کرنا ہے تو ’’العمرۃ والحج‘‘ دونوں کے الفاظ استعمال کیجیے اور اس کے بعد ہی بلند آواز سے اس طرح تلبیہ کہیے:

لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لاَشَرِیْکَ لَکَ۔

ترجمہ:(میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک سب تعریفیں تیرے لیے اور ساری نعمتیں تیری دی ہوئی ہیں، اور بادشاہت تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔ )

اس کے بعد پست آواز سے درود شریف اور یہ دعا پڑھے:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ غَضَبِکَ وَالنَّارِ۔

ترجمہ:(اے اللہ! میں تجھ سے تیری خوشنودی اور جنت مانگتا ہوں، اور پناہ مانگتا ہوں تیری ناراضی اور جہنم کی آگ سے۔ )

احرام میں داخل ہونے کے بعد جب تک عمرہ یا حج سے فراغت نہ ہو جائے اس وقت تک سلا کپڑا نہیں پہن سکتے، سر اور چہرہ نہیں ڈھک سکتے، ایسا جوتا نہیں پہن سکتے جس سے پاؤں کے پشت کی ابھری ہوئی ہڈی ڈھک جائے، حجامت نہیں بنوا سکتے، بلکہ جسم کے کسی حصہ کا ایک بال بھی نہیں توڑ سکتے، ناخن نہیں تراش سکتے، کسی قسم کی خوشبو نہیں لگا سکتے، بیوی سے ہم بستر نہیں ہوسکتے، اور کوئی ایسی بات بھی نہیں کر سکتے جو اس کی خواہش کو ابھارنے والی ہے، اور جس سے نفس کو لذت ملتی ہو، کسی جانور کا شکار نہیں کر سکتے، بلکہ اپنے جسم یا کپڑے پر چلتی ہوئی جوں بھی نہیں مارسکتے۔

اس دوران اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، صبح و شام اور نمازوں کے بعد، نیز لوگوں کی ملاقات کے وقت کثرت سے بآواز بلند تلبیہ پڑھیں۔

یہ ذہن میں رہے کہ احرام ہی کے ذریعہ حج و عمرہ کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے، اور اس بات کا خیال رکھیں کہ حدود حرم میں داخل ہونے سے پہلے پہلے احرام باندھ لیں، ورنہ دم واجب ہوتا ہے۔

 

مکہ میں داخلہ کے آداب

 

احرام باندھنے کے بعد جب حدود حرم پر پہنچیں تو ادب و احترام اور شوق و محبت کی ملی جلی ایک کیفیت دل میں ہونی چاہئے، اور زبان سے یہ کہنا چاہئے:

اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰذَا اَمْنُکَ وَحَرَمُکَ، اَلَّذِیْ مَنْ دَخَلَہُ کَانَ آمِنًا، فَحَرِّمْ لَحْمِیْ وَدَمِیْ وَعَظْمِیْ وَبِشْرِیْ عَلیَ النَّارِ، اَللّٰھُمَّ آمِنِّیْ عَذَابَکَ یَوْمَ تُبْعِثُ عِبَادَکَ۔

ترجمہ:(اے اللہ! یہ تیرا حرم ہے اور تیرے امن کی جگہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا اس کو امن ملا، تو میرے گوشت پوست اور سارے جسم پر دوزخ کی آگ حرام کر دے، اور قیامت کے عذاب سے مجھے امن نصیب فرما۔ )

پھر جب مکہ مکرمہ کی عمارتیں نظر آنے لگیں، تو حاجی کو اس مقدس جگہ اپنے احرام کو مستحضر کرنا چاہئے اور تواضع کے ساتھ لبیک پڑھنا چاہئے، اور آسانی کے ساتھ جو دعا کر سکے کرنا چاہئے، اور یاد رہے تو کہنا چاہئے:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ لِیْ بِھَا قَرَاراً،   وَارْزُقْنِیْ فِیْھَا رِزْقاً حَلاَلاً۔

ترجمہ:(اے اللہ! تو مجھے اس میں سکون کے ساتھ ٹھیرنا نصیب فرما، اور مجھے اس میں حلال روزی عطا فرما۔ )

 

زیارت کعبہ کے شرعی آداب

 

مکہ پہنچنے کے بعد جہاں تک ہوسکے جلد سے جلد بیت اللہ شریف کی زیارت اور عمرہ کا طواف کرنے کے لئے مسجد حرام جائیں، (اگر وضو نہ ہو تو وضو کر لیں، کیونکہ طواف کے لئے وضو ضروری ہے، )اگر اللہ کے کسی ایسے بندہ کا ساتھ نصیب ہو جو حج و عمرہ کے مسائل سے اچھی طرح واقف ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔

جب مسجد حرام میں داخل ہونے لگیں تو پورے ادب کے ساتھ بسم اللہ پڑھ کے پہلے داہنا پاؤں دروازے کے اندر رکھیں اور درود شریف کے ساتھ وہی دعا پڑھیں جو ہر مسجد میں داخل ہوتے وقت پڑھی جاتی ہے :

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ۔

ترجمہ:(اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ )

پھر اعتکاف کی نیت کریں، اور بغیر کسی کو تکلیف دیئے آگے بڑھیں۔

اندر پہنچ کر بیت اللہ شریف پر جب نظر پرے تو ہٹ کر ایک طرف کھڑے ہوں اور تین مرتبہ اللّٰہ اکبر اور تین مرتبہ لا الٰہ الّا اللّٰہ کہہ کر درود شریف پڑھے اور یہ دعا مانگے:

اَللّٰھُمَّ زِدْ بَیْتَکَ ھٰذَا تَشْرِیْفاً وَتَعْظِیْماً وَتَکْرِیْماً وَمَھَابَۃً،  وَزِدْ مِنْ شَرَفِہِ وَکَرَمِہِ مِمَّنْ حَجَّہُ اَوِ اعْتَمَرَہُ تَشْرِیْفاً وَتَکْرِیْماً وَبِرّاً، اَللّٰھُمَّ اَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ وَحَیِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلاَمِ۔

ترجمہ:(اے اللہ! اپنے اس پاک اور مبارک گھر کو اور زیادہ عظمت اور برکت دے، ا ور حج و عمرہ کے لئے آنے والے تیرے بندوں میں سے جو تیرے اس گھر کی پوری پوری تعظیم کریں تو ان کے درجے بلند کر اور یہاں کی خاص برکتیں اور رحمتیں ان کو نصیب فرما، اے کعبہ کے رب! دنیا و آخرت کی سب تکلیفوں اور بری حالتوں سے مجھے اپنی پناہ میں رکھ۔ )

اس کے علاوہ اور بھی جو چاہیں دعائیں مانگیں، یہ دعا کی مقبولیت کے خاص موقعوں میں سے ہے۔

یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ اس موقع پراور پورے حج و عمرہ میں کسی موقع پر عربی میں دعا مانگنا بہتر ہے ضروری نہیں، جو لوگ عربی نہ جانتے ہوں ان کے لئے آسان یہ ہے کہ بعض چھوٹی چھوٹی دعائیں جو حضورﷺ سے ثابت ہیں، وہ معنی مطلب کے ساتھ یاد کر لیں اور ان ہی کو پڑھا کریں، ان کے علاوہ جو دعا مانگنی ہو اپنی زبان میں مانگیں۔

جب مسجدِ حرام سے باہر نکلنا ہو تو پہلے بایاں پاؤں باہر نکالیں اور درود کے بعد یہ دعا پڑھیں :

اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ فَضْلِکَ۔

ترجمہ:(اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے لئے اپنے فضل و کرم کے دروازے کھول دے۔ )

 

طواف کا طریقہ

 

مسجد حرام میں داخل ہونے اور کعبہ کی زیارت سے مشرف ہونے کے بعد سب سے پہلا جو کام کرنا ہے وہ طواف ہے، احرام باندھنے کے بعد سے ا ب تک تلبیہ کی کثرت کا حکم تھا، طواف شروع کرنے کے بعد تلبیہ کا وہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔

طواف کا طریقہ یہ ہے کہ جب طواف کرنے کا ارادہ ہو تو حجر اسود کے سامنے اس طرح کھڑے ہوں کہ اپنا داہنا مونڈھا حجر اسودکے بائیں کنارے کی سیدھ میں ہو، اور پورا حجر اسودآپ کے داہنی جانب ہو، یہاں کھڑے ہو کر اس طرح طواف کی نیت کریں :

’’اے اللہ! میں تیرے حکم کے مطابق تیرے اس پاک گھر کا طواف کرنا چاہتا ہوں، تو صحیح طریقہ سے اس کو ادا کرا دے، اور قبول کر لے‘‘۔

اس کے بعد حجر اسود کے بالکل سیدھ میں آ جائیں اور نماز کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کے یہ کہیں ’’بسم اللّٰہ،   اللّٰہ اکبر‘‘ پھر اگر موقع ہو تو آگے بڑھ کر ادب سے حجر اسود کو چومیں، اور اگر طواف کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے حجر اسود کو چومنے کا موقع نہ ہو تو صرف اتنا کریں کہ اپنا داہنا ہاتھ اس کو لگا کر ہاتھ چوم لیں، اور اگر یہ بھی مشکل ہو تو اتنا ہی کافی ہے کہ حجر اسود کے مقابلہ میں جہاں کھڑے ہوں وہیں سے اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں حجر اسود کی جانب کر کے اپنی ہتھیلیوں ہی کو چوم لیں، اس کو استلام کہتے ہیں۔ مذکورہ صورتوں میں سے جو صورت بھی ہوسکے کر کے طواف شروع کریں۔

ایک طواف میں خانۂ کعبہ کے سات چکر لگائے جاتے ہیں، اور طواف کرنے والا حجر اسود کے سامنے سے چل کر جب پھر حجر اسود کے سامنے پہنچتا ہے تو ایک چکر پورا ہوتا ہے، اس طرح سات چکر جب پورے ہو جائیں تو ایک طواف ہوتا ہے۔

ہر چکر میں جب حجر اسود کے سامنے سے گزرنا ہو تو استلام کریں، جیسا کہ اوپر بتایا گیا۔

طواف کے سلسلہ میں ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جس طواف کے بعد سعی ہو اس طواف کو ’’رمل‘ ‘کہا جاتا ہے، ’’رمل‘ ‘ کہتے ہیں طواف کے پہلے تین چکروں میں سینہ تان کے اور شانے ہلاتے ہوئے ذرا تیز چلا جائے، اور قدم قریب قریب ڈالے جائیں، اور اس وقت احرام کی اوپر والی چادر اس طرح اوڑھی جائے کہ اس کا داہنا حصہ داہنے ہاتھ کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لیا جائے، عربی میں اس کو’’اضطباع‘‘ کہتے ہیں۔ (یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہے۔ )

طواف کے سات چکر پورے ہونے کے بعد جب حجر اسود کے سامنے پہنچے تو پھر استلام کریں، اس کے بعد طواف مکمل ہو گیا۔

طواف سے فارغ ہو کر دو رکعت نماز مقام ابراہیم کے پیچھے یا حطیم میں یا مسجدحرام میں جہاں بھی جگہ مل جائے پڑھیں، پہلی رکعت میں ’’قُلْ یٰاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ‘‘ اور دوسری رکعت میں ’’قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد‘‘ پڑھیں، اور سلام کے بعد خاص اہتمام سے دعائیں مانگیں۔

نماز پڑھنے کے بعد ملتزم پر جا کر دعا کریں، کعبہ کے دروازے سے لے کر حجر اسود تک دیوار کعبہ کا جو حصہ ہے اسی کو ملتزم کہتے ہیں، روایات میں ہے کہ حضورﷺ اور صحابہ کرام اس سے چمٹ کر دعائیں کیا کرتے تھے، دعا کی قبولیت کی یہ خاص جگہ اور خاص موقع ہے۔

یہاں دعا سے فارغ ہو کر خوب سیر ہو کر تین سانس میں زمزم کا پانی پئیں، شروع میں بسم اللہ اور آخر میں الحمدللہ کہیں اور دعا مانگیں۔ یہ دعا اس موقع پر مسنون ہے:

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْاَلُکَ عِلْماً نَافِعاً وَرِزْقاً حَلاَلاً وَاسِعاً وَشِفَاءً مِنْ کُلِّ دَاءٍ۔

ترجمہ:(اے اللہ! میں آپ سے نفع دینے والا علم، کشادہ روزی اور ہر بیماری سے شفا مانگتا ہوں۔ )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دو دعائیں طواف میں پڑھنا ثابت ہیں :

۱۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔

ترجمہ:(اے اللہ! میں تجھ سے گناہوں کی معافی اور دنیا و آخرت کی عافیت مانگتا ہوں۔ )

۲۔ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔

ترجمہ:(اے پروردگار! ہم کو دنیا میں بھی اچھی حالت نصیب فرما، اور آخرت میں بھی، اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا۔ )

دوسری دعا کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔

اس کے علاوہ یہ دعائیں بھی پڑھ سکتے ہیں :

۱۔ اَللّٰھُمَّ غَشِّنِیْ بِرَحْمَتِکَ وَجَنِّبْنِیْ عَذَابَکَ۔

ترجمہ:(اے اللہ! مجھے اپنی رحمت سے ڈھانک لے اور اپنے عذاب سے بچا دے۔ )

۲۔ یَا حَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔

ترجمہ:(اے ہمیشہ زندہ رہنے والے اور سب کے تھامنے والے! بس تیری رحمت سے میں مدد چاہتا ہوں۔ )

۳۔ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن۔

ترجمہ:(اے اللہ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، میں ظالموں اور خطا واروں میں ہوں۔ )

۴۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ۔

ترجمہ:(پروردگار! بخش دے اور رحم فرما، تو سب سے اچھا رحم فرمانے والا ہے۔ )

۵۔ اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لَنَا اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَسَھِّلْ لَنَا اَبْوَابَ رِزْقِکَ۔

ترجمہ:(اے اللہ! ہمارے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور رزق کی راہیں ہمارے لئے آسان کر دے۔ )

اگر طواف میں صرف سبحان اللّٰہ، و الحمدللّٰہ، ولا الٰہ الّا اللّٰہ، واللّٰہ اکبر یا درود یا صرف یا اللّٰہ یا اللّٰہ ہی پڑھتے رہیں جب بھی طواف ہو جائے گا۔

 

سعی کا طریقہ

 

عمرہ ہو یا حج سعی بھی اس کے فرائض میں ہے، اور وہ بھی طواف کی طرح ایک عبادت ہے، البتہ نفل سعی نہیں ہوتی صرف حج یا عمرہ کے لئے ہوتی ہے، سعی کے بھی سات چکر ہوتے ہیں، ان میں چار فرض بقیہ سنت، سعی کرنے کے لئے صفا پہاڑی کی جگہ پر جانا چاہئے، اس کے لئے باب الصفا سے نکلنا ہو گا، یہ حجر اسود کے بالکل سامنے رخ پر ہے، جب صفا کے قریب پہنچے تو ایسی جگہ کھڑے ہو کر جہاں سے کعبہ نظر آئے، تین بار بلند آواز سے اللّٰہ اکبر اور تین بار لا الہ الا اللّٰہ کہہ کر یہ پڑھے:

اَبْدَاُ بِمَا بَدَاَ اللّٰہُ بِہٖ، اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ

پھر یہ دعا مانگے:

لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَشَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ، وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْرٌ، لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ، اَنْجَزَ وَعْدَہُ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ، وَھَزَمَ الاَحْزَابَ وَحْدَہُ۔

پھر پست آواز سے حمد و ثنا اور درود کے بعد اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دعا کریں، بہتر ہے کہ اس طرح تین مرتبہ کریں۔

اس کے بعد اتر کر مروہ کی طرف دعا اور ذکر کرتے ہوئے سنجیدگی سے چلیں، کچھ دور کے بعد میلین اخضرین یعنی دو سبز ستون یا سبز بتی نظر آئیں گے، وہاں سے تیزی کے ساتھ چلیں، پھر جب دوبارہ سبز بتی نظر آئے تو وہاں پہنچ کر دوڑنا بند کر کے حسب معمول رفتار سے چلیں، اس دوران دعائیں مانگتے رہیں، اس دوران یہ دعا پڑھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے:

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ الاَعَزُّ الاَکْرَم۔ ترجمہ:(اے میرے رب! مغفرت اور رحم فرما، بے شک تو بڑی برتری اور عزت والا ہے۔ )

مروہ پہنچ کر قبلہ رو ہو کر دعا کریں، ایک چکر ہوا، پھر صفا پر آئے تو دوسرا پھیرا، اسی طرح سات پھیرے کیجئے، جب سات پھیرے ہو جائیں تو سعی مکمل ہو گئی۔

 

عمرہ کا طریقہ

 

عمرہ چھوٹا حج کہلاتا ہے، اور اس کی بڑی فضیلت ہے، بلکہ رمضان میں عمرہ کے متعلق تو حدیث میں ہے’’ عمرۃ فی رمضان تعدل حجۃ‘‘ ترجمہ:رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے۔ (بخاری ومسلم)

رمضان کے علاوہ اور دنوں میں بھی عمرہ کی بڑی فضیلت ہے۔ ایک حدیث میں ہے ’’العمرۃ الی العمرۃ کفارۃ لما بینھما‘‘ ترجمہ:ایک عمرہ دوسرے عمرہ کے درمیانی حصہ کے (گناہوں )کا کفارہ ہے۔ (متفق علیہ)

خود حضور اکرمﷺ نے بعد از ہجرت چار عمرے فرمائے۔

اسی اہمیت کی وجہ سے علماء نے عمر بھر میں ایک مرتبہ عمرہ سنت مؤکدہ قرار دیا ہے، عمرہ کو حج اصغر بھی کہا جاتا ہے۔

عمرہ چار چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے:

(۱)حدود حرم سے یا اس سے پہلے نیت کر کے احرام باندھنا۔ نیت یہ ہے :

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْعُمْرَۃَ فَیَسِّرْھَا لِیْ وَتَقَبَّلْھَا مِنِّیْ۔

(یا اللہ میں عمرہ کی نیت کرتا ہوں، اس کو میرے لئے آسان فرما اور قبول فرما۔ )

نیت کے بعد بلند آواز سے تین مرتبہ تلبیہ پڑھے۔

(۲)رمل اور اضطباع کے ساتھ طواف کرنا۔   (۳)سعی کرنا۔   (۴)سر کے بال منڈوانا یا چھوٹے کرنا۔

جب یہ چاروں کام ہو جائیں تو عمرہ مکمل ہو جاتا ہے۔

 

حج کا طریقہ

 

۸؍ ذی الحجہ کو حج کا حرام باندھیں، اور حج کی نیت کر کے تلبیہ کہ کثرت کریں، پھر منی کے لئے روانہ ہو جائیں، ۸؍ ذی الحجہ کی ظہر سے ۹؍ ذی الحجہ کی فجر تک پانچ نمازیں وہاں پڑھنا سنت ہے، آج کل معلم حضرات آسانی کے لئے ۸؍ ذی الحجہ کو رات ہی میں منیٰ لے جاتے ہیں۔

۹؍ ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد عرفات کے لئے روانہ ہونا ہے، اب تو معلم حضرات رات ہی میں عرفات لے جاتے ہیں، بہرحال عرفات پہنچ کر زوال سے پہلے جی چاہے تو آرام کر لیں اور کھانے وغیرہ کی ضروریات سے فارغ ہو جائیں، زوال ہوتے ہی وضو کر لیں، غسل کرنا مستحب ہے۔

آج کے دن عرفات میں ظہر کے بالکل شروع وقت میں مسجد نمرہ میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ادا کی جاتی ہے۔

عرفات میں زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک کا وقت نہایت ہی اہم اور بڑا قیمتی ہے، نماز کے بعد کوشش کیجئے کہ ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو، شام تک پورا وقت دعا واستغفار میں اور اللہ کے سامنے رونے اور گڑگڑانے میں صرف کیجئے، افضل ہے کہ جبل رحمت کے پاس جا کر دھوپ میں قبلہ رو ہو کر دعا کرے، جبل رحمت عرفات میں وہ جگہ ہے جہاں رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع میں وقوف فرمایا تھا، اگر وہاں نہ جا سکے تو خیمہ ہی میں دعا واستغفار کر لیں۔

اس وقت پڑھنے کی بہت سی دعائیں کتابوں میں مذکور ہیں، یاد ہو تو بہت بہتر، ورنہ کم از کم اس کلمہ کی وہاں خاص طور پر کثرت کی جائے:

لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَشَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْرٌ۔

ترجمہ:(اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ واحد ہے، یکتا ہے، اس کا کوئی شریک وساجھی نہیں، ہر چیز پر وہ قدرت رکھتا ہے۔ )

حضورﷺ نے فرمایا کہ عرفات کے دن میری اور مجھ سے پہلے نبیوں کی خاص پکار یہی کلمہ ہے، اس کے علاوہ بہتر ہ ے کہ سو بار سورہ اخلاص اور سو بار درود بھی پڑھ لیں۔

آفتاب غروب ہونے تک عرفات میں رہیں، غروب کے بعد بغیر مغرب کی نماز پڑھے مزدلفہ روانہ ہو جائیں، وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء ملا کر عشاء ہی کے وقت میں پڑھیں، یہ رات یہیں مزدلفہ میں گذاری جائے گی، اس رات میں خوب دل سے اللہ کا ذکر کیا جائے، اور دعائیں مانگی جائیں، یہ بڑی بابرکت رات ہے، اس میں بڑی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، فجر کی نماز اول وقت میں پڑھ کرسورج نکلنے تک ذکر و دعا میں مشغول رہیں، جب سورج نکلنے کا وقت قریب آ جائے تو یہاں سے منیٰ کے لئے روانہ ہو جائیں، روانہ ہونے سے قبل اچھا ہے کہ مزدلفہ ہی سے جمرات میں مارنے کے لئے کنکریاں لے لی جائیں۔

یہاں پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ کریں کہ جمرۂ عقبہ جس کو عوام بڑا شیطان کہتے ہیں، سات کنکریاں ماریں، اس کے بعد قربانی کر کے بال منڈوائیں یا کتروائیں، اب آپ احرام سے باہر ہو گئے۔

جمرۂ عقبہ کو پہلی کنکری مارنے کے ساتھ لبیک کہنا موقوف ہو جائے گا، اس کے بعد لبیک نہ کہیں، کنکری مارتے وقت یہ دعا پڑھیں :

بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ، رَغْماً لِلشَّیْطَانِ وَرِضیً لِلرَّحْمٰنِ، اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ حَجّاً مَبْرُوْراً وَذَنْباً مَغْفُوْراً وَسَعْیاً مَشْکُوْراً۔

یہ یاد نہ رہے تو کوئی بھی ذکر کر لیں۔

دسویں تاریخ کو اگر بآسانی ممکن ہو تو منیٰ سے ایسے وقت چلے کہ طواف زیارت اور سعی سے فارغ ہو کر مسجد حرام میں با جماعت نماز ظہر پڑھے تو بہتر ہے، لیکن آج کل دیر ہو جاتی ہے اس لئے جب موقع ملے اسی وقت طواف زیارت کے لئے مکہ آنا چاہئے، مگر مکہ سے لوٹ کر منیٰ ہی میں رات گذارنا چاہئے۔

اس طواف سعی کا بھی وہی طریقہ ہے، البتہ اس میں اضطباع و رمل نہ ہو گا اور نہ ہی سعی کے بعد سرمنڈوانا یا بال کتروانا ہے۔

دسویں تاریخ کی کنکری مارنے کا وقت صبح صادق تک ہے، البتہ مسنون وقت سورج نکلنے سے زوال تک ہے۔

گیارہویں اور بارہویں کو ظہر کی نماز کے بعد تینوں جمرات پر سات سات کنکریاں مارنا ہے، اس کا وقت زوال سے شروع ہوتا ہے۔

اگر تیرہویں کو رکنا نہ ہو تو بارہویں کو غروب سے پہلے منیٰ سے نکل جانا چاہئے۔

مکہ لوٹنے پر حج کے اعمال پورے ہو گئے، اب صرف ایک طواف وداع باقی رہ گیا، جو وطن واپسی کے وقت کرنا ہے۔

 

زیارت مدینہ کے شرعی آداب

 

رسول اللہﷺ کے دربار کی حاضری بڑی سعادت کی بات ہے، حضور ﷺ کا ارشاد ہے:’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کی شفاعت مجھ پر واجب ہو گئی‘‘ اور فرمایا: ’’جس نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے میرے ساتھ مغایرت برتی‘‘۔

مدینہ طیبہ کی حاضری کے سلسلہ میں اگر چند باتوں کا آپ خیال رکھیں توانشاء اللہ وہاں کی پوری برکتیں اور رحمتیں حاصل ہوں گی۔

۱)راستہ ہی سے درود شریف کی کثرت کریں، اور رسول اللہﷺ کی یاد دل میں تازہ کریں۔

۲)جب شہر کے قریب پہنچیں اور آبادی نظر آنے لگے تو درود سلام پڑھیں اور اللہ سے دعا کریں، اور یہ دعا پڑھیں :

’’اے اللہ! اپنے جس کرم سے تونے مجھے یہاں پہنچایا ہے اسی کرم سے مجھے یہاں کے آداب اور حقوق ادا کرنے کی توفیق دے، اور یہاں کی برکتیں اور رحمتیں مجھے نصیب فرما‘‘۔

۳)پھر جب شہر میں داخل ہونے لگے تو یہ دعا پڑھے:

بِسْمِ اللّٰہِ مَاشَآءَ اللّٰہُ لاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ، رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَارْزُقْنِیْ مِنْ زِیَارَۃِ رَسُوْلِکَ مَارَزَقْتَ اَوْلِیَاءَ اَھْلِ طَاعَتِکَ وَاَنْقِذْنِیْ مِنَ النَّارِ وَاغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ یَاخَیْرَ مَسْئُوْلٍ۔

احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ذو الحلیفہ ہی سے غسل کر کے داخلۂ مدینہ کے لئے تیار ہو جائیں، ورنہ شہر میں داخل ہونے سے پہلے اگر ہوسکے تو غسل کر لیں، ورنہ شہر میں داخل ہو کر غسل کر لے، اگر غسل نہ کر سکے تو وضو کر لے، پھر پاک وصاف کپڑے پہنیں اور خوشبو لگا کر بلا تاخیر مسجد حاضر ہو جائیں۔

افضل یہ ہے کہ زائر پہلے باب السلام یا باب جبرئیل سے داخل ہو، داخلے کے وقت اپنا داہنا پیر مسجد میں رکھے، اور مسجد میں داخل ہونے کی دعا پڑھے، اس کے بعد روضۃ الجنۃ میں تواضع ومسکنت کے ساتھ آئے اور تحیۃ المسجد کی دو رکعت ادا کرے، سلام کے بعد اللہ تعالیٰ کا اس نعمت عظمیٰ پر شکر ادا کریں کہ:

اے اللہ! جس طرح تو نے محض اپنے کرم سے یہاں حاضری نصیب فرمائی، اسی طرح اپنی رضا اور آخرت مین جنت نصب فرما، اور رسولﷺ کو میرا شفیع بنا اور میرے بارے میں آپ کی شفاعت قبول فرما‘‘۔

اس کے بعد حضورﷺ کے مواجہ میں تشریف لائیں، اور اس طرح سلام عرض کریں :

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا خَیْرَ خَلْقِ اللّٰہِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا خَیْرَۃِ اللّٰہِ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا شَفِیْعَ الْمُذْنِبِیْنَ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَاخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ وَعَلیٰ آلِکَ وَاَصْحَابِکَ اَجْمَعِیْنَ۔

اتنا بھی کافی ہے، البتہ یہ بھی اضافہ کر سکتے ہیں :

یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلَہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَشَرِیْکَ لَہُ وَاَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ، قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الاُمَّۃَ، فَجَزَاکَ اللّٰہُ عَنْھَا وَعَنَّا خَیْراً، وَجَزَاکَ اللّٰہُ الْفَضِیْلَۃَ وَالدَّرَجَۃَ الرَّفِیْعَۃَ، وَابْعَثْہُ اللّٰھُمَّ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ الَّذِیْ وَعَدتَّہُ، اِنَّکَ لاَتُخْلِفُ الْمِیْعَادَ، وَاَنْزِلْہُ الْمَنْزِلَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ، اِنَّکَ سُبْحَانَکَ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔

اس کے بعد آپﷺ کے وسیلہ سے دعا کرے اور ان الفاظ میں شفاعت کرے:

یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَسْاَلُکَ الشَّفَاعَۃَ وَاَتَضَرَّعُ اِلَی اللّٰہِ اَنْ اَمُوْتَ مُسْلِماً عَلیٰ مِلَّتِکَ وَسُنَّتِکَ۔

اگرکسی کو یہ الفاظ پورے یاد نہ ہوں تو کم سے کم ’’اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ کہے، اگر کسی نے سلام عرض کرنے کے لئے کہا ہو تو اس کا سلام بھی اپنے سلام کے بعد اس طرح عرض کریں :

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مِنْ فُلاَنِ بْنِ فُلاَنٍ یَسْتَشْفِعُ بِکَ اِلٰی رَبِّکَ۔

اور بہت سے لوگوں نے کہا ہو، اور نام یاد نہ ہو تو اس طرح کہے:

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مِنْ جَمِیْعِ مَنْ اَوْصَانِیْ بِالسَّلاَمِ عَلَیْکَ۔

اس کے بعد تقریباً ایک ہاتھ داہنی جانب ہٹ کر حضرت ابوبکرؓ کے چہرۂ مبارک کے سامنے کھڑے ہو کر اس طرح سلام پڑھیں :

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا خَلِیْفَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ۔ یہ بھی اضافہ کر سکتے ہیں : وَثَانِیْہِ فِی الْغَارِ وَرَفِیْقِہِ فِی الاَسْفَارِ وَاَمِیْنِہِ عَلَی الاَسْرَارِ اَبَابَکْرِنِ الصِّدِّیْقِ جَزَاکَ اللّٰہُ عَنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ خَیْراً۔

پھر ایک طرف داہنے ہٹ کر حضرت عمرؓ کے چہرہ کے مقابل ہو کر یہ الفاظ پڑھیں : اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عُمَرَ الْفَارُوْقَ۔ یہ بھی اضافہ کر سکتے ہیں اَلَّذِیْ اَعَزَّ اللّٰہُ بِہِ الاِسْلاَمَ اِمَامَ الْمُسْلِمِیْنَ مَرْضِیّاً حَیّاً وَمَیْتًا، جَزَاکَ اللّٰہُ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ خَیْراً۔

مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق ایک ہزار نماز سے زیادہ ہے۔

امام احمد نے حضرت انسؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’جو شخص میری مسجد میں چالیس نمازیں ادا کرے اور کوئی نماز فوت نہ ہو تو اس کے لئے دوزخ سے برأت لکھی جائے گی اور عذاب و نفاق سے برأت لکھی جائے گی‘‘۔

لہٰذا پنجگانہ نماز جماعت سے مسجد نبوی میں پہلی صف میں مع تکبیر اولیٰ پڑھنے کی کوشش کریں، یہاں سے فراغت کے بعد بہتر ہے کہ بقیع کی بھی زیارت کر لے، بقیع کی زیارت مستحب ہے، رسول اللہﷺ اس کی زیارت کیا کرتے تھے، اور جب وہاں تشریف لے جاتے تو یہ دعا فرماتے تھے:

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ، اَنْتُمُ السَّابِقُوْنَ وَاِنَّا اِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لاَحِقُوْنَ، سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ، اَللّٰھُمَّ لاَتَحْرِمْنَا اَجْرَھُمْ وَلاَتَفْتِنَّا بَعْدَھُمْ، وَاغْفِرْلَنَا وَلَھُمْ، اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاَھْلِ الْبَقِیْعِ وَارْحَمْ۔

منقول ہے کہ اس میں دس ہزار صحابہ کرام مدفون ہیں۔

تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: ۱۔ آسان حج، از :حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ، ۲۔ حج و مقاماتِ حج، از: حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی، ۳۔ حج کا طریقہ:جناب مولانا مفتی عبد الروؤف سکھروی۔ اور دیگر حج و عمرہ سے متعلق کتابیں

 

 

 

حمد

 

کچھ غلامانِ ہندی ہیں آئے ہوئے

چوٹ کھائے ہوئے، دل دکھائے ہوئے

خونِ دل میں سراپا نہائے ہوئے

زخم سینوں پر اپنے سجائے ہوئے

سنگ پر سنگ ہنس ہنس کے کھائے ہوئے

غم کے بادل ابھی تک ہیں چھائے ہوئے

ایک مدت ہوئی گیت گائے ہوئے

ایک زمانہ ہوا مسکرائے ہوئے

ہیں کھڑے چشم پُر نم جھکائے ہوئے

ہاتھ اپنی طلب کے اٹھائے ہوئے

ان کی آنکھوں میں آنسو کی سوغات ہے

روز جور و جفا سے ملاقات ہے

بس یہی ہے خطا، ایک یہی بات ہے

کہہ نہ پائے کبھی دن کو ہم رات ہے

خوش اگر ہم سے پھر بھی تیری ذات ہے

شعلہ ہو، سنگ ہو، خار ہو، مات ہے

غم نہیں ہے، اگر غم کی برسات ہے

کہ یہ اہل جنوں کی مدارات ہے

تجھ پہ قربان ہم، تجھ پہ لاکھوں سلام

ہے یہی امتِ ہند کا ایک پیام

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید