FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

کچھ کمپیوٹنگ کے مضامین

 

علمدار حسین

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

برقی کتاب۔ ای بک

ebookمصر کے فرعونوں کے ہاتھوں دنیا ہزاروں سالوں سے لکھنا جانتی ہے جنہوں نے ہیروگلیفک ابجد ایجاد کیے، تب سے انسان لکھتا اور پڑھتا آ رہا ہے۔ پرانے زمانوں میں تحریر مخطوطوں کی شکل میں ہوتی تھی پھر تھوڑی ترقی ہوئی اور ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں شائع کی جانے لگیں ۔ پھر پندرہویں صدی میں جرمنی کے یوہن گٹنبرگ نے پرنٹنگ مشین ایجاد کی اور کتابوں کی اشاعت کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ پندرہویں صدی سے لے کر اب تک کتابوں کی اشاعت کے میدان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی کیونکہ اشاعت کا بنیادی طریقہ آج بھی وہی ہے جو پندرہویں صدی سے چلا آ رہا ہے تاہم گزشتہ کچھ سالوں میں ای بُک یا برقی کتاب کے منظرِ عام پر آنے سے صورتِ حال میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے۔

برقی کتاب کیا ہے؟

برقی کتاب دراصل کتاب سے مشابہ متن کو بیان کرنے کی ایک اصطلاح ہے مگر برقی شکل میں جسے برقی اسکرین پر دیکھا جاسکتا ہے یعنی برقی کتاب لکھی ہوئی تحریر کی برقی شکل ہے۔

برقی کتاب کا تصور

برقی کتاب کا تصور اس وقت منظرِ عام پر آیا جب 1971ء میں مائیکل ہارٹ نے گٹنبرگ منصوبہ شروع کیا جس میں پبلک ڈومین کی تمام کتابوں کو برقی شکل میں انٹرنیٹ پر شائع کیا گیا تاکہ لوگ مختلف زمانوں کی کتابیں انٹرنیٹ کے ذریعے مفت حاصل کر سکیں ، سب سے پہلا مصنف جس نے برقی کتاب شائع کی وہ سٹیفن کنگ تھا جس نے سال 2000 میں اپنی کتاب رائیڈنگ دی بولیٹ (Riding the Bullet) برقی شکل میں شائع کی اور کتاب کی اشاعت کے صرف چوبیس گھنٹوں میں چار سو لوگوں نے ڈھائی ڈالر میں کتاب خرید کر برقی شکل میں حاصل کی۔

انٹرنیٹ اور برقی کتابیں

دوسرے کسی سیکٹر کے مقابلے میں کتابوں کی تصنیف، نشر و اشاعت میں انٹرنیٹ نے قطعی مختلف اور اہم کردار ادا کیا جو فائدے اور نقصان میں مقابلہ بازی سے کہیں آگے بڑھ کر بقاء کی جنگ کی صورت اختیار کر گیا جس میں اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپس، ای بْک ریڈرز جیسے کینڈل، سونی، ریڈر اور نوک وغیرہ نے کتابوں کی فروخت کی شرح کو تاریخ میں پہلی بار چھپی ہوئی کتابوں سے کہیں زیادہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور برقی کتاب اور انٹرنیٹ کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔

گزشتہ سال مئی کے مہینے میں برقی کتابوں کا بزنس کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ ایمازان (Amazon) نے بتایا کہ وہ چھپی ہوئی کتابوں کے مقابلے میں برقی کتابیں زیادہ فروخت کر رہی ہے حالانکہ برقی کتابوں کی فروخت میں اسے محض چار سال ہی ہوئے ہیں جس سے لوگوں کے رجحانات میں ایک بنیادی تبدیلی کا پتہ چلتا ہے کہ لوگ برقی کتابیں پسند کر رہے ہیں ۔

گزشتہ سال اپریل میں کمپنی کا کہنا تھا کہ وہ ہر 105 برقی کتابوں کے مقابلے میں 100 چھپی ہوئی کتابیں فروخت کر رہی ہے جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں 242 برقی کتابوں کے مقابلے میں صرف 100 کاغذی کتابیں فروخت کر رہی ہے، یہ کاغذی کتابیں وہ کتابیں ہیں جن کے برقی نسخے دستیاب نہیں ہیں ، اس موازنے میں مفت برقی کتابیں شامل نہیں ہیں جنہیں اگر شامل کر لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ برقی کتابیں کاغذی کتابوں کے مقابلے میں مقبولیت میں کہیں آگے جاچکی ہیں ۔ ایمازان کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں اس کی برقی کتابوں کی فروخت تین گنا بڑھ چکی ہے۔

ایمازان نے 1995ء میں کاغذی کتابوں کی فروخت کے ایک اسٹور کے طور پر اپنے کام کا آغاز کیا تھا مگر بعد میں اس نے ڈی وی ڈیز سے لے کر بچوں کے کپڑوں تک ہر چیز فروخت کرنی شروع کر دی! ایمازان کی طرف سے کینڈل کے اجراء کے بعد جو برقی کتابوں کا ایک ریڈر ہے، ایمازان کی برقی کتابوں کی فروخت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور صرف چھ ماہ میں برقی کتابوں کی فروخت کاغذی کتابوں سے بڑھ گئی تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ فروخت ہونے والی ہر برقی کتاب کاغذی کتابیں فروخت کرنے والے اسٹوروں کے لیے ایک طرح کا نقصان ہے، کیونکہ بعض برقی کتابوں کی قیمت ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔

جنگ کس طرف بڑھ رہی ہے؟

سارے معاملے کا انحصار اس امر پر ہے کہ برقی کتابیں کیا کیا خوبیاں پیش کر سکتی ہیں اور ان کے عیب اور کمزوریاں کیا ہیں ، کیونکہ کاغذی کتاب کی ایک طویل تاریخ ہے اور قاری کا اس کے ساتھ ایک طویل تجربہ ہے چنانچہ یہ اَمر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ کاغذی کتاب کے ساتھ قاری کی کس قدر الفت ہوتی ہے اور انہیں حاصل کرنے اور پڑھنے کی خواہش کا شاید کوئی متبادل نہیں ۔

دوسری طرف معرفت کے حوالے سے برقی کتاب کی ٹیکنالوجی میں بہت ساری بہتریاں دیکھنے کو ملی ہیں ، برقی کتابوں کے ریڈر استعمال میں نہ صرف آسان ہیں بلکہ ان کے ذریعے درکار معلومات بھی تیزی سے حاصل کی جاسکتی ہیں اور اس باب میں آئے دن کسی نہ کسی نئی چیز کا اضافہ ہوتا رہتا ہے جس سے برقی کتاب پڑھنے کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے اور جن کا مقابلہ کرنا شاید کاغذی کتاب کے بس کی بات نہیں ہے۔

برقی کتابوں کی خوبیاں

اٹھانے میں آسانی: اپنے کسی طویل سفر میں وقت گزاری کے لیے شاید آپ کئی کتابیں پڑھنا چاہیں جیسے کوئی جاسوسی ناول، کوئی ادبی رسالہ یا کوئی رومانوی افسانہ وغیرہ لیکن اتنی ساری کتابوں کو سفر میں اپنے ساتھ لے جانا کسی بوجھ سے کم نہیں ، اس کے مقابلے میں برقی ریڈر ایک بھرپور لائبریری کی طرح ہے جس میں آپ کی پسند کی سیکڑوں کتابیں موجود ہیں جن میں سے آپ جو چاہیں اور جب چاہیں پڑھ سکتے ہیں ، ان ریڈرز کے ذریعے آپ صرف ایک کلک پر کوئی بھی نئی کتاب خرید کر اس کا مطالعہ فی الفور شروع کر سکتے ہیں ۔

سہولت: پرانی نسل کے ای بک ریڈرز کے مقابلے میں نئے ریڈرز جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ہیں ۔ اب بہت سارے ریڈر وائرلیس سہولتوں سے لیس ہیں جس کے ذریعے مقامی اخبار، بلاگ اور عالمی میگزین بغیر کسی قسم کی ادائیگی کے مفت پڑھے جاسکتے ہیں ، کسی جگہ پر وائی فائی کی سہولت کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کوئی بھی کتاب پڑھ سکتے ہیں ۔ ان ریڈرز کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ یہ وزن میں انتہائی ہلکے ہوتے ہیں جبکہ ان میں ہزاروں کتابیں سما سکتی ہیں جبکہ کاغذی کتاب میں ایسی کوئی خوبی یا سہولت نہیں ہوتی، اُلٹا یہ بھاری بھرکم ہوتی ہیں اور کافی جگہ گھیرتی ہیں مزید برآں انہیں منظم کرنے اور گرد و غبار سے صاف کرنے میں بھی اضافی محنت کرنا پڑتی ہے۔

متعدد آپشنز: برقی کتابوں کے بْک اسٹور آپ کو ہزاروں آپشنز دیتے ہیں ، انٹرنیٹ کے ذریعے لاکھوں کتابیں ڈاؤن لوڈ کے لیے دستیاب ہیں ۔ بہت سارے ڈیجیٹل بْک سٹور مفت ڈاؤن لوڈ بھی فراہم کرتے ہیں تاکہ آپ کو صحیح کتاب کے انتخاب میں آسانی ہو، یہ کسی لائبریری میں گھومنے اور ورق گردانی کرنے جیسا ہے، اگر آپ کو کتاب پسند نہ آئے تو یہ ضروری نہیں کہ آپ اسے خریدیں ، بعض ریڈر آپ کو دوستوں اور خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ کتاب شیئر کرنے کی صلاحیت بھی دیتے ہیں ۔

مختلف استعمال: برقی کتابوں کے ریڈرز ایسی کئی خوبیوں سے بھرپور ہوتے ہیں جو مطالعے کو پہلے سے زیادہ آسان بناتے ہیں ، جیسے لکھی ہوئی تحریر کو پڑھنا یعنی اسے آواز میں تبدیل کر دینا۔ اس طرح آپ بذاتِ خود کتاب پڑھنے کی بجائے صرف سننے پر اکتفاء کر سکتے ہیں ، یہ خوبی نابینا افراد کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ دیگر خوبیوں میں صفحات اور تحریر کو بڑا کرنا شامل ہے یہ خوبی نظر کے کمزور افراد اور ایسی جگہوں کے لیے انتہائی کارآمد ہے جہاں روشنی کم ہو، اس کے علاوہ ان ریڈرز کے ذریعے کسی ریفرینس یا معلومہ تک پہنچنے میں اور تلاش کرنے میں صرف چند کلک کی ضرورت ہوتی ہے۔

ماحول دوست: یہ امر واضح ہے کہ برقی کتابیں ماحول دوست ہوتی ہیں ، ان کتابوں نے بلا شبہ ہزاروں درختوں کو چھپائی کے کاغذ میں تبدیل ہونے سے بچایا ہے، کاغذی کتاب پر چھپائی کے دوران بہت سارے وسائل صرف ہوتے ہیں ، جن میں بجلی، پرنٹنگ مشینوں کو چلانے کے لیے ایندھن وغیرہ، اس کے علاوہ کتابوں کی وہ ضخیم تعداد جو فروخت نہ ہونے کے سبب ضائع کرنی پڑ جاتی ہیں تاکہ انہیں اسٹور کرنے کے خرچ سے بچا جاسکے!

کم قیمت: مہنگی کاغذی کتابوں کے مقابلے میں برقی کتابیں سستی ہوتی ہیں اور ان پر شپمنٹ کا بھی کوئی خرچ نہیں آتا کیونکہ انہیں خریدتے ہی یہ چند سیکنڈز میں دستیاب ہو جاتی ہیں جبکہ کاغذی کتاب کی شپمنٹ سے وصولی تک فاصلے کے اعتبار اسے کافی وقت صرف ہوتا ہے۔ مفت کتابوں کے شیدائی کوئی بھی مفت کتاب انٹرنیٹ سے منسلک کسی بھی کمپیوٹر کے ذریعے پڑھ سکتے ہیں جس کے لیے فقط ایک براؤزر کی ضرورت ہوتی ہے۔

 

برقی کتابوں کے عیب

میدانِ جنگ کے اْس طرف کاغذی کتابیں چھاپنے والے پبلشر برقی کتابوں کے عیب نمایاں کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ بعض پبلشر برقی شکل میں اپنی کتابیں شائع کرنے سے قطعی طور پر انکاری ہیں ، مزید برآں ہر شخص اسکرین پر پڑھنے سے راحت محسوس نہیں کرتا، بعض لوگوں کو سر درد شروع ہو جاتا ہے، بعض لوگ گھنٹوں اسکرین پر نظریں جمائے رکھنے کی وجہ سے آنکھوں میں درد کی شکایت کرتے ہیں ۔

برقی پائیریسی: پائیریسی کے قوانین کی وجہ سے نشر و اشاعت اور ملکیت کے حقوق پر خوف کے کالے بادل منڈلا رہے ہیں کیونکہ برقی کتابوں کو کاپی، تقسیم اور شیئر کرنا کاغذی کتابوں کے مقابلے میں انتہائی آسان ہے۔ رپورٹس کے مطابق مارکیٹ میں دستیاب ساٹھ فیصد کتابیں پائیریٹڈ یعنی چوری کی کتابیں ہیں جس کا مطلب ہے کہ برقی کتابوں کی دنیا کو عالمی قوانین اور برقی کاروائیوں کی عالمی پیمانے پر ضرورت ہے تاکہ کاغذی کتابوں کی طرح ان کی فروخت کو منظم کیا جاسکے، ورنہ پائیریسی کمپیوٹر سافٹ ویئر، فلموں اور موسیقی کی طرح ان پر بھی چھا جائے گی۔ پائیریسی کی وجہ سے موسیقی اور فلم انڈسٹری کو شدید نقصانات کا سامنا ہے، تاہم کچھ ایسی ٹیکنالوجیز ہیں جن کے ذریعے اس صورتحال کے آگے بند باندھا جاسکتا ہے جیسے کتاب کے کاپی کے عمل پر حد لگانا۔

ای بک ریڈرز اور لیپ ٹاپس کی قیمتوں میں اضافہ: رائج ہو جانے کے باوجود ان کی قیمتیں ابھی تک زیاہ ہیں تاہم یہ مسئلہ لیپ ٹاپس اور ای بْکس ریڈرز کے درمیان مقابلہ کی وجہ سے مستقبل میں ختم ہو جائے گا، اور ویسے بھی برقی کتابوں کو ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر اور اسمارٹ فونز میں با آسانی پڑھا جاسکتا ہے۔

کاغذی کتاب کی عادت: قارئین کی ایک بہت بڑی تعداد خاص کر بزرگ حضرات روایتی کاغذی کتاب سے چمٹے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ برقی کتاب کے استعمال سے وہ فطرت سے ہٹ جائیں گے اور کتاب اور قاری کا روایتی جذباتی تعلق ختم ہو جائے گا، یقیناً کاغذی روایتی کتاب اپنی طویل تاریخ کے سبب معاشروں میں اپنی گہری جڑیں رکھتی ہے۔

میدانِ جنگ سے کچھ حقائق

کچھ حقائق میدانِ جنگ میں اپنا آپ منوا رہی ہیں جن کا خلاصہ کچھ یوں کیا جاسکتا ہے:

اگرچہ برقی کتاب کا مفہوم ستر کی دہائی سے ہی جانا پہچانا ہے جب الینیوا یونیورسٹی میں گیٹنبرگ منصوبہ شروع ہوا، تاہم برقی کتاب جیسا کہ اب ہم اسے جانتے ہیں موبائل ڈیوائسس کی آمد کے بعد ہی رائج ہوسکا جیسے کینڈل جسے ایمازان نے 2007ء میں متعارف کرایا اور اس سے برقی کتابوں کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو گیا اور نشر و اشاعت کی دنیا میں بنیادی تبدیلی دیکھنے کو ملی اگرچہ یہ اب بھی پوری طرح روایتی کاغذی کتاب کی جگہ لینے میں کامیاب نہیں ہوسکا، برقی کتابوں کی مقبولیت اور پھیلاؤ میں انٹرنیٹ نے اہم کردار ادا کیا۔

کسی کتاب کو خرید کر اس کا فوری طور پر مطالعے کے لیے دستیاب ہو جانا ایک ایسی خوبی تھی جس کا مقابلہ روایتی بک اسٹور نہیں کر پائے جب تک کہ وہ برقی ٹیکنالوجی کو نہیں اپناتے۔ برقی کتابوں کے رواج کی وجہ سے اب بہت سارے روایتی کتابوں کے اسٹور اپنی ویب سائٹس پر کتابوں کے برقی نسخے رکھتے ہیں جس کا اثر ان کے کام کرنے کے طریقۂ کار پر پڑا۔ مثال کے طور پر بیرنز اینڈ نوبل کمپنی ایک ملین سے زائد برقی کتابیں فراہم کرتی ہے جن کا مطالعہ کمپنی کے ہی نوک  (Nook) نامی ریڈر پر کیا جاسکتا ہے جسے اس نے ایمازان کے کینڈل کا مقابلہ کرنے کے لیے متعارف کرایا تھا۔

روایتی کتابوں کے پبلشروں نے شدید مالی نقصانات اُٹھانے کے بعد ہی برقی ٹیکنالوجی کو اپنایا، مثال کے طور پر 2010 کے اواخر میں بیرنز اینڈ نوبل کے خسارے کی رقم 63 ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور کمپنی ڈیفالٹر ہونے کے نہج پر تھی کیونکہ برقی کتابوں کی فروخت میں وہ ایمازان کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھی تاہم کمپنی نے یو ٹرن لیتے ہوئے فوری طور پر برقی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی اور فناء سے بچ گئی۔

مطالعے پر انٹرنیٹ کے اثرات

خوبیوں اور خامیوں کے ضمن میں بعض ماہرین کہ کہنا ہے کہ لوگ اب پہلے سے کم پڑھتے ہیں جو درست ہے مگر صرف تحریر کی مخصوص صورتوں میں ، حقیقت یہ ہے کہ لوگ انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس، سوشل نیٹ ورکس، بلاگ، فورم، خبروں کی سائٹس، ای میلز اور چیٹ کی صورت میں شاید پہلے سے بھی کہیں زیادہ مطالعہ کر رہے ہیں ۔ اب مطالعہ صرف چھپے ہوئے افسانوں ، درسی کتابوں ، رسالوں ، اخبارات، کالموں اور کہانیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اب مطالعہ ایک اور میڈیم پر منتقل ہو گیا ہے جسے انٹرنیٹ کہتے ہیں جہاں یہ ساری مطبوعات برقی شکل میں دستیاب ہیں ۔

٭٭٭        ط

(یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ مارچ 2013  میں شائع ہوئی)


ریڈ ہیٹ بمقابلہ اوبنٹو لینکس

ریڈ ہیٹ ایک ایسی کمپنی سمجھی جاتی ہے جس نے لینکس سے بہترین طریقے سے استفادہ حاصل کیا ہے۔ اس کمپنی کی بنیاد 1995ء میں رکھی گئی تھی۔ ریڈ ہیٹ ڈسٹری بیوشن از حد مقبول اور شہرت رکھنے والی ڈسٹری بیوشن ہے۔ جو چیز اسے ممتاز بناتی ہے وہ ایسے سافٹ ویئر ہیں جو کمپنی خود تیار کرتی ہے۔ جب بھی کوئی نیا سافٹ ویئر جاری کیا جاتا ہے تو کمپنی اس کا بی ٹا ورژن عوام الناس کی ٹیسٹنگ کے لیے جاری کرتی ہے اور صارف اس قابل ہوتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی تنقید کمپنی کو ارسال کر سکیں ۔ اس طرح صارفین کی تنقید سے استفادہ کرتے ہوئے مطلوبہ سافٹ ویئر میں بہتریاں لائی جاتی ہیں ۔ دنیا کے بیشتر بڑے سرورز ریڈ ہیٹ پر کام کرتے ہیں اور مختلف مقاصد کے لیے اس کا استعمال بہت وسیع ہے۔ صارفین کمپنی کی ویب سائٹ سے اپڈیٹس بھی حاصل کر سکتے ہیں جو ضخیم معلومات اور مفت سافٹ ویئر سے بھرپور ہے۔ کمپنی سرٹیفیکیشن بھی کراتی ہے جسے RHCE یعنی ریڈ ہیٹ سرٹیفائیڈ انجینئر کہا جاتا ہے۔ آئی ٹی کی دنیا میں ریڈ ہیٹ کی سرٹیفیکیشن کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

وسیع استعمال اور کمیونٹی کی طرف سے بھرپور سپورٹ کے باوجود اس میں ملٹی میڈیا کی سپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اس کے مفت ورژن کی فراہمی بھی کمپنی نے ختم کر دی ہے، 31 مارچ 2003ء کو ریڈ ہیٹ 9 کی ریلیز پر کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ اس ورژن کے بعد کمپنی کوئی بھی مفت ورژن  جاری نہیں کرے گی اور عام صارفین کے لیے اس کی ڈیولپمنٹ ختم کر کے صرف سرورز اور اداروں کے لیے اپنی توجہ مرکوز رکھے گی، تاہم کمیونٹی کی طرف سے بھرپور احتجاج کے بعد کمپنی نے الگ سے فیڈورا لینکس کے اجراء کا اعلان کیا تھا جو مفت دستیاب ہو گی۔

فیڈورا لینکس ریڈ ہیٹ کا ایک آزاد منصوبہ ہے جس کا مقصد ریڈ ہیٹ کے سابقہ تجربات کی بنیاد پر کمیونٹی کے لیے ایک پختہ اور جدید آپریٹنگ سسٹم فراہم کرنا اور اوپن سورس کمیونٹی کو سپورٹ کرنا ہے۔ فیڈورا کے لیے کمپنی نے ریڈ ہیٹ کے کئی منصوبے آزاد کر دیئے جن میں ریڈ ہیٹ کے کئی خصوصی سافٹ ویئر شامل ہیں ۔ فیڈورا مکمل طور پر ایک آزاد آپریٹنگ سسٹم ہے اور اس میں ترقی کے امکانات ریڈ ہیٹ کے سابقہ ورژنز سے کہیں زیادہ ہیں اور چونکہ اس میں مختلف سافٹ ویئر کے تازہ ترین ورژن شامل کیے جاتے ہیں لہٰذا اس کا شمار جدید ترین آپریٹنگ سسٹمز میں ہوتا ہے۔ اب چونکہ ریڈ ہیٹ کی خصوصی توجہ کا مرکز سرورز ہیں لہٰذا ریڈ ہیٹ پہلے سے تیار شدہ بائنری پیکجز فراہم کرنے کی بجائے صرف مصدر یعنی سورس کوڈ فراہم کرنے پر اکتفاء کرتا ہے۔ ریڈ ہیٹ کے سورس کوڈ پر مبنی انٹرپرائز سطح کی کئی مفت ڈسٹری بیوشنز دستیاب ہیں جن میں سب سے زیادہ شہرت سینٹ او ایس CentOS کو حاصل ہے جو آج ویب سرورز کی دنیا پر راج کر رہی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ ڈیسک ٹاپ کی حد تک اوبنٹو لینکس کو فیڈورا لینکس کی نسبت زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ اگرچہ اوبنٹو کے سرورز کی دنیا میں قدم رکھے بھی ایک عرصہ ہو چکا ہے۔ دونوں کا ان دونوں شعبوں میں تکنیکی موازنہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا یعنی ڈیسک ٹاپ اور سرورز کے میدان میں ۔ تاہم موازنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کا مقصد لینکس کی کسی ڈسٹرو کی قدر گھٹانا یا تضحیک کرنا نہیں ہے، اس کے برعکس تمام لینکس ڈسٹری بیوشنز کا مقصد لینکس کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا اور رائج کرنا ہے، مقصد صرف تکنیکی موازنہ اور کچھ حقائق کو سامنے لانا ہے۔

Linux-logoاگر ڈیسک ٹاپ کمپیوٹنگ کی بات کی جائے تو اس دنیا میں فیڈورا اور اوبنٹو میں شاید کوئی بھی غالب اور مغلوب نہیں ہے۔ ہر نئے ورژن میں اوبنٹو ایسی خوبیاں سامنے لاتا ہے جو فیڈورا میں نہیں ہوتیں ، اور فیڈورا ایسی خوبیاں لاتا ہے جو اوبنٹو میں نہیں ہوتیں ۔ آغاز میں فیڈورا لینکس ہر 8 ماہ بعد جاری کی جاتی تھی، لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے مقابلے کی فضاء کو بڑھانے کے لیے یہ اوبنٹو کے ساتھ ساتھ ہر 6 ماہ بعد جاری کی جانے لگی ہے۔

یہاں موازنہ تقریباً مشکل ہے کیونکہ اس کا انحصار صارف کی پسند اور نا پسند پر ہے۔ اگر ماہرین کی بات کی جائے تو زیادہ تر لینکس گروز کو کسی خاص ڈیسک ٹاپ سے کوئی اتنی دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ وہ زیادہ تر کمانڈ لائن پر ہی کام کر رہے ہوتے ہیں اور اسی پر ہی ان کا زیادہ تر وقت گزرتا ہے اور وہ بعض چند بنیادی پروگراموں پر ہی انحصار کرتے ہیں جیسے فائر فاکس، ٹرمنل وغیرہ، لہٰذا تکنیکی طور پر ڈیسک ٹاپ کی دنیا میں دونوں کا موازنہ مشکل ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ضمن میں اوبنٹو کے شائقین زیادہ ہیں جس کی ایک بڑی وجہ مارکیٹنگ سمجھی جاتی ہے اور یقیناً ریڈ ہیٹ کو اس ضمن میں ان سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔

 FedoraLinux ریڈ ہیٹ اور اوبنٹو سرورز کی دنیا میں

بات اگر سرورز کے شعبے کی جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ریڈ ہیٹ نے دنیا کے بڑے بڑے اداروں کو اہم اور کامیاب کمرشل حل پیش کئے۔ ریڈ ہیٹ وہ پہلی کمپنی تھی جس نے لینکس کی کمرشل سپورٹ ویب براؤزر کے ذریعے فراہم کی! آپ ریڈ ہیٹ نیٹ ورک کے ذریعے اپنا پورا سرور انٹرنیٹ کے ذریعے ایک انتہائی آسان ویب پیج کے ذریعے سے کنٹرول کر سکتے ہیں ، آپ نظام پر نظر رکھ سکتے ہیں ، صارف بنا سکتے ہیں اور تازہ ترین سیکورٹی اپڈیٹس کی انسٹالیشن کر سکتے ہیں ، اگر آپ کے پاس ایسے سرور کثیر تعداد میں ہیں اور آپ مزید آسانی چاہتے ہوئے انٹرنیٹ کے ذریعے ریڈ ہیٹ کے نیٹ ورک (RHN) کی بجائے اپنے نیٹ ورک سے ان کا انتظام کرنا چاہتے ہیں تو ریڈ ہیٹ آپ کے لیے ریڈ ہیٹ نیٹ ورک سٹیلائٹ پیش کرتا ہے!

ریڈ ہیٹ وہ پہلی کمپنی تھی جس نے لینکس کے لیے کلاؤڈ کمپیوٹنگ Cloud Computing صرف ایک کلک پر فراہم کی۔ ریڈ ہیٹ کے اینٹر پرائز ورچوئلائزیشن کے ذریعے آپ اپنا پہلا کلاؤڈ کمپیوٹر بنا سکتے ہیں !

سرور کے حوالے سے ریڈ ہیٹ لینکس کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ڈسٹرو میں دیگر کے برعکس استعمال ہونے والی ٹیکنالوجیز کتنی تیزی سے ترقی کرتی ہیں ۔ ریڈ ہیٹ جدید ترین ٹیکنالوجی کو پیش کرنے میں ہمیشہ سب سے آگے ہوتا ہے جس کی وجہ سے اوپن سورس کی دنیا پر نہ صرف ایک اچھا اثر پڑتا ہے بلکہ اس کے پھیلاؤ میں بھی مدد ملتی ہے، خاص طور سے سرور کے شعبے میں ۔ ذیل میں اس حوالے سے کچھ مثالیں پیش کی جا رہی ہیں :

1… ایس ای لینکس SELinux لینکس کی ایک حفاظتی تہہ ہے جسے امریکی وزارتِ دفاع نے تیار کیا تھا۔ لینکس پر اس کا اطلاق سب سے پہلے ریڈ ہیٹ نے فیڈورا 2 سے کیا تھا جو 2004ء میں جاری کی گئی تھی۔

2… شبیہ سازی یا virtualization، اس ٹیکنالوجی اور ریڈ ہیٹ لینکس میں اس کے استعمال پر ایک الگ مضمون درکار ہو گا، تاہم اتنا کہنا ہی کافی ہو گا کہ ریڈ ہیٹ لینکس نے شبیہ سازی کی ایک اسرائیلی کمپنی کو خرید کر اس کی ٹیکنالوجی کو آزاد کیا اور اسے لینکس کے کرنل میں شامل کرایا اور اس طرح یہ ٹیکنالوجی تمام لینکس ڈسٹری بیوشنز کو دستیاب ہو گئی۔ جس میں ظاہر ہے کہ اوبنٹو بھی شامل ہے اس طرح لینکس کی تمام ڈسٹری بیوشنز virtualization کو چلانے کے قابل ہو گئیں ۔

3… سب کے لیے اعلیٰ اور آزاد حل پیش کرنا، ریڈ ہیٹ کا نہج رہا ہے کہ اس نے اپنی اکثر (اگر سب نہیں ) اعلی ٹیکنالوجیز کو ہمیشہ آزاد رکھا تاکہ سب اس سے فائدہ اٹھا سکیں جیسے ورچوئل مشینوں کے انتظام کا oVirt پروجیکٹ چاہے وہ Xen ہو KVM ہو یا VirtualBox سب کے لیے!

4… ریڈ ہیٹ’’ ایک لیپ ٹاپ فی بچہ‘‘ منصوبے کا بانی ہے جس کے تحت غریب بچوں کے لیے سستا ترین لیپ ٹاپ فراہم کیا جاتا ہے۔

در حقیقت سرور کے میدان میں ریڈ ہیٹ لینکس پر گفتگو کافی طول پکڑ سکتی ہے، دوسری طرف اوبنٹو لینکس نے سرور کے میدان میں ایسا کیا کارنامہ انجام دیا ہے جو اس کا موازنہ ریڈ ہیٹ سے کیا جائے؟ یہ حقیقت ہے کہ اوبنٹو یا اگر زیادہ وضاحت سے بات کی جائے تو کینونکل (Canonical )نے آزاد مصدر کو جو کچھ دیا ہے اس کا موازنہ ریڈ ہیٹ سے قطعی نہیں کیا جاسکتا، ذیل میں کچھ مثالیں پیش ہیں :

1… ‘‘ گنوم Gnome ’’ ڈیسک ٹاپ کے مجموعی کوڈ میں ریڈ ہیٹ کا حصہ 16% ہے جبکہ اوبنٹو کا صرف 1%!

2… ریڈ ہیٹ وہ سب سے بڑی کمپنی ہے جو لینکس کرنل میں اپنا حصہ ڈالتی ہے، کرنل کے مجموعی کوڈ میں ریڈ ہیٹ کا حصہ 12.3%  ہے جبکہ اوبنٹو کا اتنا کم ہے کہ مذکور ہی نہیں ہے!

3… سرور کی مارکیٹ میں لینکس کی ترقی کے لیے اوبنٹو نے کوئی قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کیا، جبکہ ریڈ ہیٹ کا Clustering اور Virtualzation کے میدان میں کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔

4… اوبنٹو کے بارے میں یہ افسوس ناک بات نوٹ کی جاتی ہے کہ اوپن سورس میں اس کی معاونت صرف اس کے غرض کی حد تک ہے، یعنی اگر کوئی مسئلہ ہو جائے یا کرنل میں کسی بہتری کی بات کی جائے اور اوبنٹو کو اس معاملے سے غرض نہ ہو تو وہ کوئی توجہ نہیں دیتے!

Red-hat-logo5… تکنیکی طور اوبنٹو کے سرورز میں یادداشت کے بھر جانے out_of_memory یا بغیر کسی وجہ کے سرور کے بند ہو جانے کی شکایات عام ہیں ، خیال رہے کہ اوبنٹو کے سروروں میں یادداشت کے بھر جانے کا مطلب Kernel Panicہوتا ہے! ’’کرنل پے نک ‘‘کا ونڈوز میں متبادل ’’ بلیو اسکرین آف ڈیتھ ہے‘‘

6… کمرشل سپورٹ میں ریڈ ہیٹ جو کچھ پہلے سے کر رہا ہے اوبنٹو نے اسے محض ’’ کاپی – پیسٹ‘‘ کیا ہے!

اوبنٹو نے 2005 ء میں اپنا سرور ایڈیشن جاری کیا تھا مگر ایک طویل عرصے تک وہ ریڈ ہیٹ کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہا تاہم 2008ء میں اوبنٹو کو اس وقت ایک بہت بڑی کامیابی ملی جب وکی پیڈیا نے اعلان کیا کہ وہ اپنے 400 کے قریب سرورز اوبنٹو پر منتقل کر رہا ہے … اس سے پہلے وکی پیڈیا کے سرور فیڈورا اور ریڈ ہیٹ پر چلتے تھے۔ وکی پیڈیا ایک مصروف ترین ویب سائٹ سمجھی جاتی ہے اور ایک ماہ میں اس کے کوئی 10 ارب صفحات دیکھے جاتے ہیں یعنی کوئی پچاس ہزار درخواست فی منٹ…!!

وکی پیڈیا کا یہ اقدام کینونکل اور اوبنٹو کے صارفین دونوں کے لیے خوش آئند ثابت ہوا جس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ سرورز کے میدان میں اوبنٹو مزید بہتر ہو گا۔

٭٭٭

(یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ مارچ 2013 میں شائع ہوئی)

 

جیل بریک کیا ہے؟

بہت سی ڈیوائسس جیسے ایپل آئی فون وغیرہ ڈیجیٹل رائٹس منیجمنٹ (DRM) سافٹ ویئر کے ساتھ آتی ہیں ۔ اس سافٹ ویئر کا مقصد ڈیوائس کی سیکیوریٹی میں اضافہ یا پھر صارف کو کمپنی کی جانب سے غیر تصدیق شدہ سافٹ ویئر انسٹال کرنے سے روکنا ہے۔ جیل بریکنگ یا ڈیوائسس ہیکنگ دراصل ڈیوائس کے ہارڈو یئر یا سافٹ ویئر میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس کے آپریٹنگ سسٹم کا روٹ ایکسس (Root Access) حاصل کرنے کا نام ہے۔ لینکس اور یونکس سے واقف قارئین ضرور جانتے ہونگے کہ روٹ ایکسس حاصل ہو جانے کے بعد آپریٹنگ سسٹم کو ہر طرح سے اپنا تابع کیا جاسکتا ہے۔ ڈیوائس کا روٹ ایکسس حاصل ہونے کے بعد اس پر DRM کی لگائی ہوئی پابندیوں کو ختم کر دیا جاتا ہے اور غیر قانونی یا غیر تصدیق شدہ سافٹ ویئر بھی ایسی ڈیوائسس پر آسانی سے انسٹال کئے جاسکتے ہیں ۔ ساتھ ہی ڈیوائس کے آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کر کے اسے اپنی منشاء کے مطابق چلایا جاسکتا ہے۔

لفظ جیل بریک (Jailbreak) آئی فون کے ہیکرز نے متعارف کروایا تھا۔ اس لئے جب بھی کہیں جیل بریک کا ذکر آتا ہے، پہلا خیال ایپل آئی فون کا ہی ذہن میں آتا ہے جسے ایپل آئی ٹیون کی جیل سے آزاد کروانا ہی جیل بریکنگ ہے۔ جولائی 2007 ء میں جب پہلی بار آئی فون متعارف کروایا گیا تھا، اس کے چند روز بعد ہی اسے جیل بریک کرنے کے لئے سافٹ ویئر بھی جاری کر دیا گیا تھا۔ اس لئے آپ کہہ سکتے ہیں کہ جیل بریکنگ اور آئی فون کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن جیل بریکنگ صرف آئی فونز تک محدود نہیں بلکہ آئی پیڈز ، آئی پوڈ ٹچ اور ایپل ٹی وی کو بھی جیل بریک کیا جاتا ہے۔

کچھ لوگ ایپل iOS کے علاوہ دوسرے پلیٹ فارمز جیسے انڈروئڈ پر چلنے والی ڈیوائسس کی ہیکنگ کو بھی جیل بریکنگ کہتے ہیں ۔ لیکن ایسے ڈیوائسس کے لئے درست لفظ ’’ روٹنگ ‘‘(rooting) ہے۔ اگرچہ نام اور طریقہ ضرور مختلف ہے لیکن مقصد دونوں کا ایک ہی ہے یعنی ڈیوائس کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا۔

جیل بریکنگ کے سافٹ ویئر ونڈوز اور میک اوایس ایکس دونوں کیلئے عام دستیاب ہیں جنھیں انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت iOS 5.0.1 جو کہ آئی فون 4 S اور آئی پیڈ 2 میں انسٹال ہوتا ہے کہ لئے Absinthe نامی سافٹ ویئر جیل بریکنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ iOS 5.0.1 کے علاوہ آپریٹنگ سسٹم والے ڈیوائسس کے لئے دوسرے سافٹ ویئر استعمال کئے جاتے ہیں ۔

جیل بریک کی گئی ڈیوائسس پر ایپلی کیشنز انسٹال کرنے کے لئے Cydia استعمال کیا جاتا ہے جو ایک بذات خود ایک App Store ہے۔ جیل بریک کرنے والے سافٹ ویئر صارف کی آسانی کے لئے Cydia بھی انسٹال کر دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی من پسند ایپلی کیشنز با آسانی ڈاؤن لوڈ اور انسٹال کرسکیں ۔

جیل بریک کرنے کی ایک وجہ ایپل کی جانب سے اپنے اسٹور پر ایپلی کیشن شائع کرنے کے حوالے سے سخت سینسر شپ ہے۔ اس سینسر شپ کی وجہ سے کئی ایپلی کیشنز یا تو ایپ اسٹور پر شائع ہی نہیں ہوتیں یا پھر ڈیویلپر لائسنس کی کسی شق کی خلاف ورزی پر ایپ اسٹور سے ہٹا دی جاتی ہیں ۔ ایسی ایپلی کیشنز جو ایپل سے منظور شدہ نہ ہوں ، کو انسٹال اور استعمال کرنے کے لئے صارف کو لازماً ڈیوائس کو جیل بریک کرنا پڑتا ہے۔

JailBreak02

امریکہ اور یورپ میں موبائل آپریٹر اپنے صارفین کو آئی فون جیسے مہنگے فون کم قیمت پر یا ماہانہ معمولی فیس پر استعمال کرنے کے لئے فراہم کرتے ہیں ۔ یہ فون Network Locked ہوتے ہیں اور صرف مخصوص نیٹ ورک پر ہی قابل استعمال ہوتے ہیں ۔ ایسے فونز کو جیل بریکنگ کے ذریعے نیٹ ورک کی قید سے بھی آزاد کیا جاسکتا ہے۔

کسی ڈیوائس کو ہیک کرنے کے جہاں بہت سے فائدے ہیں ، وہیں اس کے کئی نقصانات بھی ہیں ۔ چونکہ DRM کا مقصد ڈیوائس کی سکیوریٹی بھی ہوتا ہے، اس لئے ہیک ہونے کے بعد اس ڈیوائس کے Infected ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں ۔ ساتھ ہی ڈیوائسس میں ڈیٹا کا استعمال بڑھ جاتا ہے جو فون بل میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ چونکہ ایپلی کیشن ایپل کے Approval Processسے ہو کر نہیں گزرتی اس لئے فون میں موجود ڈیٹا کی سیکیوریٹی کے خدشات بھی رہتے ہیں ۔

بظاہر تو جیل بریکنگ غیر قانونی محسوس ہوتی ہے لیکن آپ کو یہ بات جان کر حیرت ہو گی کہ امریکی قوانین کے حساب سے جیل بریکنگ ایک قانونی عمل ہے اور ایپل یا کوئی دوسری کمپنی کسی صارف کی جانب سے ڈیوائس کو جیل بریک کرنے پر قانونی کاروائی کا نشانہ نہیں بنا سکتی۔ 2010ء میں الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے جیل بریکنگ کے حق میں دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے اسمارٹ فون کی جیل بریکنگ کو Digital Millennium Copyright Act میں قانونی عمل کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔ ایپل اور چند دوسری کمپنیاں جیل بریکنگ کے سخت خلاف ہیں اور قانون بنانے والے اداروں کے ساتھ اکثر اس معاملے پر گتھم گتھا رہتی ہیں ۔ فی الحال ان کا بس صرف ڈیوائس کی وارنٹی پر چلتا ہے اس لئے ایسی ڈیوائسس جو جیل بریک کی گئی ہوں ، خراب ہونے کے بعد کمپنی کی جانب سے وارنٹی کیلئے قبول نہیں کی جاتیں ۔

٭٭٭

(یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ اگست 2012 میں شائع ہوئی)



انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کیسے کمائیں

یہ سوال اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی انٹرنیٹ سے پیسے کمانا ممکن ہے؟ یا پھر یہ ایک فراڈ ہے؟اس سوال کا جواب اس بات منحصر ہے کہ آپ انٹرنیٹ سے پیسے کمانا کیسے چاہتے ہیں ۔ اگر تو آپ یہ چاہتے ہیں کہ بغیر محنت کے چند گھنٹوں میں آپ سینکڑوں ڈالر کما لیں گے تو یقیناً ایسا ممکن نہیں ہے۔

انٹرنیٹ پر براؤزنگ کرتے ہوئے، فیس بک پر، ٹوئٹر پر، حتیٰ کہ اخبارات میں بھی آپ کو ایسے اشتہارات نظر آتے ہوں گے کہ گھر بیٹھے چند گھنٹے کام کریں اور ہزاروں روپے کمائیں ۔ پاکستان کے خراب معاشی حالات میں ایسے اشتہارات انتہائی خوش کن محسوس ہوتے ہیں اور لوگ ان کے جھانسے میں بہت آسانی سے آ جاتے ہیں ۔

یہ مضمون ہم نے ایسے ہی تمام سوالات جو انٹرنیٹ سے کمائی کے حوالے سے آپ کے ذہن میں ہوسکتے ہیں ، کے مدلل جوابات دینے کے لئے تحریر کیا ہے ۔

انٹرنیٹ سے کمائی ایک فراڈ ہے یا گر؟

انٹرنیٹ سے بغیر محنت پیسے کمانا ناممکن ہے۔ کوئی ویب سائٹ یا کوئی شخص آپ کو مفت میں پیسے نہیں دے گی۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کسی لنک پر دن میں فلاں تعداد میں کلک کرنے سے آپ اتنے پیسے کما لیں گے یا فلاں ویب سائٹ کا لنک شیئر کرنے سے آپ کو پیسے ملیں گے، تو وہ آپ سے جھوٹ بول رہا ہے۔ اس کام کا مقصد کسی ویب سائٹ یا پراڈکٹ کی مشہوری تو ہوسکتا ہے، لیکن کمائی نہیں ۔ ساتھ ہی اخبار میں نظر آنے والے ان انسٹی ٹیوٹس کے اشتہارات جن میں گھر بیٹھے کمائی کے گر سکھانے کے کورس کرائے جاتے ہیں ، دراصل فراڈ ہی ہیں ۔ ان جعلی اداروں میں آپ صرف کورس فیس کے نام پر صرف اپنا پیسہ ضائع کرتے ہیں ، جب کہ حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ فائدہ صرف ان ادارے کے چلانے والوں کو ہوتا ہے جو با آسانی اچھی خاصی رقم بٹور لیتے ہیں ۔

ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ان اداروں میں سب سے زیادہ فراڈ ’’گوگل ایڈ سینس‘‘ کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت گوگل ایڈ سینس لاکھوں لوگوں کی کمائی کا ذریعہ ہے۔ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو کوئی فراڈ نہیں کر رہے اور نہ ہی کوئی غیر قانونی کام۔ بلکہ اپنی محنت اور کوشش سے ایڈ سینس سے پیسے کما رہے ہیں ۔ لیکن ہمارے یہاں چلنے والے جعلی ادارے گوگل ایڈ سینس کو آسان کمائی کا ذریعہ بتا کر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں ۔ ان اداروں کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ یہ آپ کو پہلے پہل تو کنفرم ایڈ سینس اکاؤنٹ فروخت کر کے پیسے وصول کرتے ہیں ۔ اگرچہ آپ خود رجسٹریشن کروا کر ایک کنفرم اکاؤنٹ حاصل کرسکتے ہیں ۔ لیکن یہاں بھی لوگوں کی سستی آڑے آ جاتی ہے اور وہ جلدی کے چکر میں انہی لوگوں سے کنفرم اکاؤنٹ خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ پھر ویب سائٹ بنانے کا طریقہ سکھا کر اس کی فیس وصول کی جاتی ہے اور اگر کوئی یہ نہ سیکھنا چاہے، تو اسے ویب سائٹ بنا کر دینے کے پیسے لیئے جاتے ہیں ۔ یہ ویب سائٹس اکثر فری ہوسٹنگ سروس دینے والی ویب سائٹس پر ہوسٹ کی جاتی ہیں ۔ کچھ انسٹی ٹیوٹ ہوسٹنگ اور ڈومین بھی فروخت کرتے ہیں اور معصوم لوگوں سے مزید پیسے اینٹھتے ہیں ۔ اس طرح صارف کو کافی پیسے خرچ کرنے کے بعد ایک ایڈ سینس اکاؤنٹ اور ویب سائٹ ملتی ہے جس پر لگے ایڈ سینس اشتہارات پر اسے دن رات کلک کرنا ہوتا ہے اور یار دوستوں سے بھی کلک کروانے پڑتے ہیں ۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چند دنوں یا ہفتوں بعد گوگل کی جانب سے صارف کا گوگل ایڈ سینس اکاؤنٹ بلاک کر دیا جاتا ہے کیونکہ خود اپنی ویب سائٹ پر لگے اشتہارات پر کلک کرنا یا کروانا نا قابل قبول ہے۔ اپنی ذات کو دھوکا دینا بہت آسان ہے لیکن گوگل کو نہیں ۔ گوگل ایڈ سینس کی کامیابی کا راز ہی اس کا فراڈ پکڑنے کا نظام ہے جو بہت بڑی آسانی سے خود کیئے جانے والے کلک شناخت کر لیتا ہے۔ ایک با ر بلاک کیا جانے والا اکاؤنٹ شاید ہی کبھی دو بار فعال کیا جاتا ہے۔ اس طرح صارف کے لئے گوگل ایڈ سینس شجر ممنوعہ بن جاتا ہے اور انٹرنیٹ سے کمائی کا یہ باب ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتا ہے۔

 

انٹرنیٹ سے کمائی ممکن ہے

بالکل، انٹرنیٹ سے پیسے کمانا یا انٹرنیٹ پر نوکری یا کاروبار کرنا ایک حقیقت ہے اور یہ نہ صرف آپ کے لئے ایک با عزت کمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے بلکہ عام نوکری یا کاروبار سے کئی گناہ زیادہ کما  کر بھی دے سکتا ہے۔انٹرنیٹ نے دنیا کو آپ کے کمپیوٹر میں سمیٹ دیا ہے جس کا فائدہ اٹھانا آپ کے اپنے ذہن پر منحصر ہے۔ انٹرنیٹ سے کروڑوں لوگوں کا کاروبار وابستہ ہے اور وہ اس سے براہ راست یا بالواسطہ کما رہے ہیں ۔ لیکن یاد رہے کہ ہر کام کی طرح یہ بھی محنت طلب ہے اور آپ کی بھرپور توجہ چاہتا ہے۔ ہم یہاں امکانات لکھ رہے ہیں جو آپ کو انٹرنیٹ سے کمانے میں مدد کریں گے لیکن یہ فیصلہ آپ نے اپنی ذات کا سامنے رکھ کر خود کرنا ہے کہ آپ کو کون سا کام کرنا چاہئے۔

ایڈ سینس سے پیسے کمائیں

آپ نے اکثر نوٹس کیا ہو گا کہ جب آپ کوئی لفظ لکھ کر گوگل پر تلاش کرتے ہیں تو یہ اس لفظ سے متعلق اشتہارات بھی اسکرین کے دائیں جانب اور نتائج سے اوپر دکھاتا ہے۔ یہ اشتہارات دکھانے کے لئے ان ویب سائٹ کے مالکان، گوگل کے پروگرام AdWords کے ذریعے گوگل کو پیسے دیتے ہیں ۔ گوگل اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ان ویب سائٹ مالکان کے اشتہارات اپنے سرچ رزلٹس کے صفحات پر دکھا کر کماتا ہے۔گوگل اس کمائی میں صرف اکیلا حصے دار نہیں ۔ آپ بھی گوگل ایڈ سینس کے ذریعے یہ اشتہارات اپنی ویب سائٹ پر دکھا کر اپنا حصہ وصول کرسکتے ہیں ۔

گوگل نے یہ پروگرام 18جون 2003ء کو شروع کیا تھا اور گوگل ایڈسینس بلا شبہ انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کا اس وقت سب سے زیادہ کارآمد طریقہ ہے۔ اگر ایڈ سینس کا صحیح طرح سے استعمال کیا جائے تو یہ آپ کی مستقل آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے لیکن شرط ایمانداری کی ہے کیونکہ گوگل اس وقت تک تنگ نہیں کرتا جب تک اسے تنگ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

ایڈ سینس کے کام کرنے کا طریقہ بھی سادہ ہے۔ آپ کو ایک ویب سائٹ بنانی ہے اور اسے قابل قبول طریقوں جیسے سرچ انجن آپٹمائزیشن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ صارفین تک پہنچانا ہے تاکہ وہ آپ کی ویب سائٹ کا دورہ کریں اور گوگل ایڈ سینس کے دکھائے ہوئے اشتہارات پر کلک کریں ۔ ہم تمام مراحل یہاں مرحلہ وار تحریر کر رہے ہیں ۔

٭ … گوگل ایڈ سینس پر رجسٹریشن کروانے سے پہلے آپ کو اپنی ایک ویب سائٹ تیار کرنی ہے۔ یہ ویب سائٹ کسی بھی دلچسپ موضوع کے حوالے سے ہوسکتی ہے۔ ویب سائٹ کی زبان بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ انگلش یا یورپ میں بولی جانے والی زبانوں کے علاوہ زبانوں میں بنائی گئی ویب سائٹس گوگل ایڈ سینس سے کچھ خاص نہیں کما پاتیں ۔ اس لئے ویب سائٹ کی زبان کا فیصلہ بھی سوچ سمجھ کر کریں ۔ ویب سائٹ جاذب نظر اور کارآمد ہونی چاہئے تاکہ صارف اس ویب سائٹ پر زیادہ سے زیادہ آئیں ۔ یاد رہے کہ کسی دوسری ویب سائٹ سے مواد چوری کر کے آپ گوگل کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ اس لئے ویب سائٹ پر موجود مواد اصل اور انوکھا ہونا چاہئے۔

اگر آپ کے لئے خود ویب سائٹ بنانا ممکن نہیں لیکن ایک اچھی ویب سائٹ کا خاکہ آپ کے ذہن میں ہے تو آپ پاکستان میں موجود سینکڑوں ویب سائٹس بنانے والے چھوٹے بڑے سافٹ ویئر ہاؤسز یا پھر کسی اچھے ڈیزائنر /ڈیویلپر سے ویب سائٹ بنوا سکتے ہیں ۔ اس میں آپ کو یقیناً پیسے خرچ کرنے ہوں گے لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ شاید ہی کوئی ایسا کاروبار ہو جس میں ابتدائی سرمایہ کاری نہ کرنی پڑتی ہو۔

آج کل صرف ویب سائٹس ہی نہیں بلکہ بلاگز (Blogs) بھی گوگل ایڈ سینس کے لئے بڑی تعداد میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اگر آپ اچھا لکھ سکتے ہیں اور کسی خاص موضوع پر ویب سائٹ بنانے کے جھنجھٹ سے بھی چھٹکارا چاہتے ہیں تو پھر بلاگ ہی بنا لیں ۔ یہ بلاگ wordpress.com پر بھی ہوسکتا ہے یا پھر Blogger.com پر بھی۔ نیز، اپنی ہوسٹنگ خرید کر بھی ورڈ پریس وغیرہ انسٹال کر کے بلاگ بنایا جاسکتا ہے۔

بلاگنگ کیا ہے اور مفت بلاگ کیسے بنائیں

ویب سائٹ کی تکمیل کے بعد کچھ عرصہ اس کی تشہیر بھی ضروری ہے تاکہ وزیٹرز کی تعداد بڑھائی جاسکے۔ آپ یہ کام فیس بک یا ٹوئٹر کی مدد سے کر سکتے ہیں ۔ جہاں موجود آپ کے دوست اور Followers ویب سائٹ کی ٹریفک بڑھانے میں بہت معاون ثابت ہوں گے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ویب سائٹ بنانے کے کم از کم چھ ماہ تک آپ کو گوگل ایڈ سینس پر رجسٹریشن کے لئے درخواست جمع نہیں کروانی چاہیے۔ گوگل کا پاکستانی ویب ماسٹرز کی درخواست کو رد کر دینا معمول کی بات ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ رد ہونے سے بچنے کے لئے ویب سائٹ کو پہلے اچھی طرح تیار کر لیں ۔

٭…دوسرے مرحلے میں آپ نے گوگل ایڈ سینس پر رجسٹریشن کروانی ہے۔ رجسٹریشن کے دوران پوچھی گئی معلومات کی درست فراہمی ہی آپ کے مفاد میں ہے۔ رجسٹریشن پوری ہونے کے بعد آپ کا اکاؤنٹ فوراً فعال نہیں کر دیا جاتا بلکہ آپ کی درخواست جانچ پڑتال کے لئے متعلقہ فرد یا پھر کمپیوٹر پروگرام کو بھیج دی جاتی ہے جو اس بات کا تجزیہ کرتا ہے کہ آیا آپ کی ویب سائٹ گوگل ایڈ سینس کے اشتہارات چلانے کے لائق ہے کہ نہیں ۔ اگر آپ کی ویب سائٹ مکمل ہے اور ایڈ سینس کے قواعد کے مطابق ہے تو پھر آپ کی درخواست ضرور قبول کر لی جائے گی۔ اگر درخواست ناقابل قبول ہو تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ۔ آپ اپنی ویب سائٹ کو مزید بہتر بنائیں اور دوبارہ درخواست دے دیں ۔

٭…درخواست کی قبولی کے بعد آپ ایڈ سینس کے اشتہارات کا کوڈ حاصل کرسکتے ہیں ۔ اپنی مرضی و منشا اور ویب سائٹ کی ضرورت کے مطابق اشتہارات کا سائز منتخب کریں اور ویب سائٹ پر ایسی جگہ لگائیں جہاں یہ ویب سائٹ پر آنے والوں کی نظروں کے سامنے بھی رہیں اور ویب سائٹ کا حلیہ بھی خراب نہ کریں ۔ عموماً اشتہارات دائیں طرف یا پھر ویب سائٹ کے بینر کے قریب لگائیں جاتے ہیں ۔

٭… آپ کا کام یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ اب آپ کو اپنی ویب سائٹ اپ ڈیٹ رکھنی ہے تاکہ وزیٹرز کی تعداد کم نہ ہونے پائے۔ جتنا ٹریفک آپ کی ویب سائٹ پر آئے گا، آپ کی آمدنی میں اضافے کے امکانات بھی اسی تناسب سے زیادہ ہوں گے۔ اگر جیب اجازت دے تو گوگل ایڈ ورڈ کے ذریعے خود بھی اپنی ویب سائٹ کا اشتہار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔

یہ بات یاد رکھیں کہ ویب سائٹ بنا کر اسے گوگل ایڈ سینس سے قابل قدر کمائی کا ذریعہ بننے میں ضرور وقت لگتا ہے۔ یہ چند ماہ بھی ہوسکتے ہیں اور چند سال بھی۔ تمام تر انحصار آپ کی اپنی محنت اور لگن پر ہے۔ چند دنوں میں پیسوں کا ڈھیر نہیں لگ سکتا۔ نیز، یہ امید رکھنا کہ ہزاروں ڈالر ماہانہ آمدن شروع ہو جائے گی، بھی غیر معقول ہے۔ ایسے ویب سائٹ مالکان ضرور موجود ہیں ، جو حقیقتاً ہزاروں ڈالر ماہانہ ایڈ سینس سے کما لیتے ہیں لیکن ان کی ویب سائٹس پر ٹریفک بھی لاکھوں کی تعداد میں ہوتا ہے۔ اگر آپ گوگل ایڈ سینس سے اپنی ویب سائٹ کے روز مرہ اخراجات نکال کر چند سو ڈالر کما لیتے ہیں تو یہ بہترین ہے۔

٭… گوگل ایڈ سینس سے کمائے گئے پیسے $100یا اس سے زائد ہو جانے پر منگوائے جاسکتے ہیں ۔ سو ڈالر سے کم پیسے گوگل نہیں بھیجتا۔

یہ تو ذکر تھا گوگل ایڈ سینس کا، اب ہم آپ کو انٹرنیٹ سے کمائی کو ایک اور طریقہ بتاتے ہیں اور یہ طریقہ ہے فری لانسنگ (Freelancing)۔

فری لانسنگ

اگر آپ ویب ڈیویلپر ہیں ، کوئی پروگرامنگ لینگویج جانتے ہیں ، کسی اہم سافٹ ویئر پر مکمل عبور رکھتے ہیں ، انگلش اچھی بول سکتے ہیں ، ٹائپنگ بہت تیزی سے کرسکتے ہیں ، ٹربل شوٹنگ کرسکتے ہیں ، اکاوئنٹنگ اچھی جانتے ہیں ، مضامین یا پریس ریلیز لکھ سکتے ہیں الغرض کسی بھی کام میں مہارت رکھتے ہیں تو آپ ’’ فری لانسنگ‘‘ کرسکتے ہیں ۔

امریکی اور یورپی کمپنیاں یا فرد وہاں کے مقامی افراد کو کسی کام یا پروجیکٹ کے لئے نوکری پر رکھیں تو انہیں اس کی تنخواہ کے علاوہ کئی اخراجات برداشت کرنے ہوتے ہیں ۔ کئی کمپنیاں تو ایسی بھی ہیں جن کے آفس برائے نام ہی ہوتے ہیں اور وہ کوئی فرد نوکری پر رکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں ۔ ایسے میں وہ کمپنیاں یا افراد سستے ممالک جیسے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، چین اور فلپائن میں موجود آن لائن کام کرنے والے افراد کو وہ کام ’’آؤٹ سورس(Outsource)‘‘ کر دیتے ہیں جو یہ کام دور بیٹھے ہی بہت احسن طریقے سے کر دیتے ہیں ۔ اس طرح کام دینے والے کو بھی بچت ہوتی ہے اور کام کرنے والے کو بھی اپنے کام کا مقامی مارکیٹ کے مقابلے میں اچھا معاوضہ مل جاتا ہے۔

انٹرنیٹ اور کمپیوٹر میں ہونے والے ترقی اور تبدیلیوں نے آؤٹ سورسنگ کو ایک انڈسٹری کی شکل دے دی ہے اوراس وقت آؤٹ سورسنگ اور فری لانسنگ اربوں ڈالر کی  انڈسٹری بن چکا ہے۔ بھارت اور فلپائن کی سافٹ ویئر انڈسٹری میں کمائے جانے والے زر مبادلہ کا ایک بڑا حصہ آؤٹ سورس کئے گئے کاموں سے آتا ہے۔

آئی بی ایم ہو یا انٹل، ڈیل ہو یا جنرل الیکٹرک، سب ہی اپنے اخراجات کم کرنے کے لئے مستقل ملازم رکھنے کے بجائے آؤٹ سورسنگ کو ترجیح دیتے ہیں ۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ سینکڑوں مشہور امریکی اور یورپی کمپنیوں کے کسٹمر سپورٹ سینٹر یا کال سینٹر بھارت، فلپائن ، پاکستان یا بنگلہ دیش میں موجود ہیں جو فی کال چند ڈالر یا معاہدے کے مطابق معاوضہ وصول کرتے ہیں اور ان کمپنیوں کے لئے لاکھوں ڈالر سالانہ بچاتے ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے بیشتر سافٹ ویئرہاؤس  آؤٹ سورس کئے گئے کام ہی کرتے ہیں ۔

آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ آپ کیسے سافٹ ویئر ہاؤس یا کال سینٹر کھولیں گے۔ لیکن جناب فری لانسنگ کرنے کے لئے آپ کو صرف ایک کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور صلاحیت کی ضرورت ہے۔ نیز، جیسا کہ ہم نے پہلے کہا، آپ تقریباً ہر کام انٹرنیٹ پر کرسکتے ہیں لیکن زیادہ تر آؤٹ سورس کئے گئے کام کمپیوٹر سے متعلق ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ان لوگوں کے لئے آن لائن کام تلاش کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہے جو ویب ڈیویلپمنٹ ، گرافک ڈیزائننگ یا کمپیوٹر پروگرامنگ پر مہارت رکھتے ہیں ۔

ہم یہاں چند ویب سائٹس کا ذکر کریں گے جہاں آؤٹ سورس کئے گئے پروجیکٹ حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔

وی ورکر۔ رینٹ اے کوڈر http://www.vworker.com
(نوٹ: اس ویب کو اب فری لانسر نے خرید لیا ہے)

وی ورکر (vWorker) آؤٹ سورس پراجیکٹس کی سب سے پرانی اور مشہور مارکیٹ ویب سائٹ ہے۔ اس سے پہلے اس ویب سائٹ کا نام RentACoder تھا جسے پچھلے سال تبدیل کر کے وی ورکر( ورچوئل ورکر) کر دیا گیا۔ اس ویب سائٹ پر رجسٹریشن مفت ہے جب کہ پروجیکٹ حاصل کرنے کے لئے Bidلگانے پر بھی کوئی فیس نہیں ہے۔ اس ویب سائٹ کے کام کرنے کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ Employerیعنی وہ شخص جسے کچھ کام کروانا ہے، اپنے پروجیکٹ کی تفصیل وی ورکر پر جمع کرواتا ہے۔ آپ بطور ورچوئل ورکر اس پروجیکٹ پر بولی لگاتے ہیں کہ اتنے ڈالر میں آپ یہ کام کر دیں گے۔ آپ کی لگائی ہوئی بولی صرف آپ اور پروجیکٹ کا مالک ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ اگر آپ کی لگائی ہوئی بولی مالک قبول کر لیتا ہے تو مالک بولی کی مالیت کے مطابق پیسے ویب سائٹ کے پاس جمع (Escrow) کروا دیتا ہے۔ اب آپ پروجیکٹ کی تفصیل کے مطابق کام شروع کرتے ہیں اور اسے دی ہوئی ڈیڈ لائن کے اندر پورا کرتے ہیں ۔ پروجیکٹ پورا ہونے کے بعد مالک اسے چیک کرتا ہے اور سب کام درست ہونے کی صورت میں آپ کے جمع کروائے ہوئے کام کو قبول کر لیتا ہے۔ کام کے قبول ہونے کے بعد وی ورکر آپ کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع کر دیتاہے جسے بعد میں مختلف طریقوں جیسے ویسٹرن یونین وغیرہ سے منگوا سکتے ہیں ۔ شروع شروع میں آپ کو یہاں پروجیکٹ حاصل کرنے میں کافی تگ و دو کرنی پڑے گی کیوں کہ پہلے ہی لاکھوں لوگ یہاں کام کر رہے ہیں ۔ ان لاکھوں لوگوں میں سے آپ کی بولی کیوں منتخب کی جائے، یہ آپ نے خود ثابت کرنا ہے۔

یہاں آپ کو ہر طرح کے کام جیسے ٹائپنگ، لوگو ڈیزائننگ، پروگرامنگ، ویب سائٹ ڈیویلپمنٹ، ٹربل شوٹنگ مل جائیں گے۔ بہتر ہو گا کہ آپ ایک یا دو مخصوص طرز کے کاموں کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور انہی پروجیکٹس پر بولی لگائیں جنہیں آپ کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں ۔ ایسے پروجیکٹس جنھیں آپ پورا نہ کر پائیں نہ صرف یہ کہ آپ کی ریٹنگ برباد کرتے ہیں بلکہ بہت زیادہ خراب ریٹنگ کی صورت میں آپ کا اکاؤنٹ بھی ختم کر دیا جاتا ہے جسے دوبارہ بنانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس لئے زیادہ آمدنی کی کوشش میں آپ کہیں اپنے اکاؤنٹ سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔

اس ویب سائٹ کے حوالے سے بہت سی دوسری تفصیلات طوالت سے بچنے کے لئے  ہم یہاں بیان نہیں کر رہے۔ اس لئے اس ویب سائٹ پر موجود مختلف رہنماء مضامین پڑھیں اور سمجھ کر عمل کریں ۔ شروع میں آپ کو کافی مشکلات درپیش آئیں گی مگر آپ کی ہمت اور لگن آپ کو یہاں ایک کامیاب اور منافع بخش کاروبار کا مالک بنا دے گی۔

او ڈیسک http://www.odesk.com

یہ ویب سائٹ 2003ء میں بنائی گئی تھی اور ہماری ذاتی تجربے کے مطابق یہ پاکستانی سافٹ ویئر ہاؤسز کی پسندیدہ ترین ویب سائٹس میں سے ایک ہے۔ اکثر سافٹ ویئر  ہاؤس آؤٹ سورس کئے گئے کام یہیں سے حاصل کرتے ہیں ۔ Alexaکے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائٹس میں اس کا شمار 60واں ہے۔

وی ورکر اگرچہ فری لانسسنگ کے معاملے میں بانی کا درجہ رکھتی ہے لیکن اس پر پروجیکٹس کی مالیت او ڈیسک کے مقابلے میں خاصی کم ہوتی ہے۔ ایک ہزار ڈالر سے زائد مالیت کے پروجیکٹس وی ورکر پر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ، اس کے مقابلے میں یہ او ڈیسک پر بہت عام ہیں ۔ ساتھ ہی او ڈیسک پر ملنے والی اکثر پروجیکٹس لمبے عرصے کیلئے ہوتے ہیں ۔ اس لئے ایک بڑا پروجیکٹ اگلے کئی ماہ یا سال تک آپ کیلئے مستقل آمدنی کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ او ڈیسک کی کامیابی کا راز اس کو ماڈرن ٹیکنالوجی، ڈیزائن اور تکنیک کو مد نظر رکھتے ہوئے تعمیر کرنا ہے۔ ہر روز سینکڑوں نئے پروجیکٹس او ڈیسک پر پیش کئے جاتے ہیں جنہیں انجام دینے کے لئے وی ورکر کی طرح آپ اپنی بولی لگاتے ہیں ۔ لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ مفت اکاؤنٹ کی صورت میں ایک ہفتے میں صرف بیس ہی پروجیکٹس پر بولی لگا سکتے ہیں ۔ مزید پروجیکٹس پر بولی لگانے کیلئے یا تو آپ اگلے ہفتے کا انتظار کرتے ہیں یا پھر آپ کو فیس ادا کر کے اپنا اکاؤنٹ اپ گریڈ کرنا ہوتا ہے۔

وی ورکر کی طرح او ڈیسک پر بھی پروجیکٹس دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ اول وہ پروجیکٹس جن کے لئے آپ کو پہلے سے طے شدہ رقم (جو آپ نے بولی کی صورت میں لگائی تھی) ادا کی جاتی ہے جبکہ دوسرے پروجیکٹس وہ ہوتے ہیں جن کے لئے آپ فی گھنٹہ کے حساب سے پیسے وصول کرتے ہیں ۔ اس طرح آپ جتنا کام کرتے ہیں ، اسی کے مطابق آپ کو پیسے ملتے ہیں ۔

یہاں بھی وی ورکر کی طرح لاکھوں کی تعداد میں لوگ پروجیکٹس حاصل کرنے کے لئے ہر وقت موجود رہتے ہیں ۔ اس لئے یہاں بھی اپنا کیریئر شروع کرنے کے لئے آپ کو کافی محنت کرنی ہو گی۔ شروع میں کوشش کریں کہ کم سے کم مالیت میں کام کرنے کی پیش کش کریں ۔ اپنے Proposalمیں یہ باور کروائیں کہ کم قیمت ہونے کے باوجود آپ یہ کام بہترین انداز میں کرسکتے ہیں ۔ ایک بار جب آپ کی پروفائل اور ریٹنگ بہتر ہو جائے، پھر آپ اپنی مرضی کے مطابق پیسے وصول کریں ۔ اچھی ریٹنگ اور پروفائل رکھنے والے افراد یا کمپنیاں او ڈیسک پر کام تلاش نہیں کرتیں ، بلکہ کام کروانے والے خود انہیں ڈھونڈ کر کام کرنے کی درخواست کرتے ہیں ۔

ای لانس http://www.elance.com

ای لانس بھی او ڈیسک کی طرح مشہور و معروف ویب سائٹ ہے۔ پاکستان میں دیکھی جانے والی سب سے زیادہ ویب سائٹس میں اس کا شمار 118واں ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی فری لانسر کس قدر سنجیدگی کے ساتھ یہاں کام کرنے میں مصروف ہیں ۔صرف پاکستانی ہی نہیں ، بنگلہ دیشی، بھارتی اور چھوٹی معیشتوں کے حامل کئی ممالک کے فری لانسر آپ کو یہاں اپنا روزگار کماتے نظر آئیں گے۔ کام کے اعتبار سے یہ ویب سائٹ بھی دوسروں مختلف نہیں ۔ اس ویب سائٹ پر بھی دیگر کی طرح آپ پروجیکٹس حاصل کرنے کے لئے اپنے پروپوزل جمع کرواتے ہیں اور بولیاں لگاتے ہیں ۔ ای لانس بھی کافی پرانی ویب سائٹ ہے جس کے کام کرنے کا طریقہ کار بھی باقی ویب سائٹس جیسا ہی ہے۔ پروجیکٹس پر کام کروانے والے یہاں Clientsکہلاتے ہیں جبکہ کام کرنے والے Contractors۔ ای لانس پر زیادہ تر کام پروگرامنگ اور ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے ملتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ای لانس پر کام کرنے والے 39فی صد کنٹریکٹر کی کمائی کا واحد ذریعہ ای لانس ہی ہے۔ یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ فری لانسنگ کس قدر قابل اعتماد کام ہے اور کس قدر منافع بخش بھی۔

ای لانس پر رجسٹریشن مفت ہے تاہم کچھ پابندیوں کے ساتھ۔ مکمل سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے لئے آپ کو ماہانہ فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ لیکن کام شروع کرنے کے لئے مفت اکاؤنٹ ہی کافی ہے۔

گرو ڈاٹ کام http://www.guru.com

یہ ویب سائٹ 1998ء سے آن لائن ہے تاہم پہلے اس کا نام eMoonlighter.com  تھا۔ 1999ء میں اسے باقاعدہ Guruکا نام دیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ اب تک اس ویب سائٹ پر کروڑوں ڈالرز کا کاروبار ہوچکا ہے۔ باقی فری لانسنگ ویب سائٹس کی طرح یہاں بھی پروجیکٹس کروانے والے لوگوں کی بھرمار ہے اور اسی طرح پروجیکٹ حاصل کرنے کے لئے ہزاروں پروگرامر، ڈیزائنر اور ڈیویلپر تیار بیٹھے ہیں ۔ گرو کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ویب سائٹ فری لانسنگ کی فیلڈ میں نئے آنے والوں کے لئے بہترین نہیں ہے۔ اس ویب سائٹ کا صحیح معنوں میں فائدہ اسی وقت اٹھایا جاسکتا ہے جب کہ آپ ایک باقاعدہ سافٹ ویئر ہاؤس کی طرح کام کر رہے ہیں اور کئی پروگرامر اور ڈیویلپر آپ کے پاس موجود ہوں ۔ اس کی فیس بھی قدرے زیادہ ہی ہے۔ شروع میں ہم یہی کہیں گے کہ گرو کے بجائے دوسری ویب سائٹس پر توجہ دیں اور اسے اس وقت تک کے لئے چھوڑ دیں جب تک کہ آپ فری لانسنگ کی الف ب سے اچھی طرح واقف نہیں ہو جاتے۔

فری لانسر http://www.freelancer.com

یہ ویب سائٹ اگرچہ بہت پرانی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود آج کل فری لانسرز کی پسندیدہ ویب سائٹس میں شمار ہوتی ہے۔ یہ دراصل کئی دوسری فری لانسسنگ ویب سائٹس کا مربع ہے۔ GetAFreelancer.com، EUFreelance.com، LimeExchange، Scriptlance وغیرہ چند ویب سائٹس ہیں جنہیں جمع کر کے فری لانسرڈاٹ کام بنائی گئی ہے۔ اسکرپٹ لانس سے ان کا معاہدہ حال ہی میں انجام پایا ہے۔ اس ویب سائٹ کے بارے شکایت کی جاتی ہے کہ یہ فری لانسرز کے اکاؤنٹ بلا وجہ بند کر دیتی ہے اور انہیں اپنے پیسے بھی نکالنے کی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن ویب سائٹ پر جس طرح فری لانسرز کام کر رہے ہیں اور یہ ویب سائٹ ترقی کر رہی ہے، وہ اس بات کی نفی کرتی ہے۔ یہاں کام کرنا نسبتاً آسان ہے جبکہ انٹرفیس بھی آسانی سے سمجھ میں آ جانے والا ہے۔ رجسٹریشن کا عمل بھی مفت ہے۔

اختتامیہ

تو قارئین آپ نے دیکھا کہ انٹرنیٹ سے پیسے کمانا بالکل ایک حقیقت ہے۔ اصل بات درست راستے پر چلنے کی ہے۔ فراڈ یا دھوکہ دہی کہ ذریعے شاید کوئی چند دن تو انٹرنیٹ پر پیسے بنا لے گا لیکن یہ عمل عارضی ہی ثابت ہوتا ہے۔ اصل زندگی میں جس طرح آپ کاروبار کرتے ہیں ، انٹرنیٹ پر کاروبار کرنا اس سے کچھ خاص مختلف نہیں ہے۔ آپ کی ایمانداری اور محنت آپ کو انٹرنیٹ پر اُس سے کہیں زیادہ کما کر دے سکتی ہے جتنا آپ عام زندگی میں کما سکتے ہیں ۔ نیز، بات صرف پیسے کمانے تک محدود نہیں ، غیر ملکیوں کے ساتھ کام کرنے سے آپ کو ایک نیا تجربہ حاصل ہو گا جو کہ اصل زندگی میں آپ کے بے حد کام آئے گا۔

بولی کس طرح لگائی جائے؟

بولی (Bid)لگانے کے لئے وہی عام طریقہ کار ہے، آپ پروجیکٹ کو تلاش کرنے کے بعد اس کو سمجھیں اور جب آپ کو لگے کہ آپ پروجیکٹ کے لئے موزوں ہیں تو اس پر اپنی بولی 01لگائیں ۔ اگر خریدار کو آپ کی آفر پسند آگئی تو وہ آپ کو اپنے پروجیکٹ کے لئے چن لے گا۔ کسی بھی فری لانسنگ ویب سائٹ پر بولی لگاتے وقت چند باتوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ پروگرامنگ کا ایک اصول ہے کہ ’’ تفصیلات پر زیادہ سے زیادہ دھیان دیں ‘‘۔ یہ اصول بولی لگانے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ آپ پروجیکٹ کی تفصیل غور سے پڑھیں اور اس بات کا اطمینان کر لیں کہ آپ خریدار کے بتائے ہوئے کام کو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور آپ پروجیکٹ کو بروقت پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں ۔ کسی پروجیکٹ پر بولی لگانے اور اس کے قبول کئے جانے کے بعد اگر آپ اس پروجیکٹ کو نہ کر پائیں تو نتیجہ نہ صرف مالی نقصان بلکہ ریٹنگ میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ بعض ویب سائٹس آپ کو یہ سہولت دیتی ہیں کہ بولی لگانے سے پہلے اگر کام سے متعلق آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو خریدار سے پوچھ سکتے ہیں ۔ اگر پروجیکٹ کی تفصیل میں کوئی بات مبہم ہو تو کلائنٹ سے اس بارے میں ضرور سوال کریں بصورت دیگر پروجیکٹ کی تکمیل کے دوران کلائنٹ کی اس بارے میں وضاحت سارے پروجیکٹ کا ستیاناس کرسکتی ہے۔

اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ آپ نے خریدار کے بجٹ کو مد نظر رکھا ہے۔ اس کے بجٹ سے زیادہ پیسوں کا مطالبہ آپ کی بولی کی اہمیت کم کر سکتا ہے یا پھر سب سے کم بولی آپ کے پروجیکٹ جیتنے کے امکانات میں اضافہ نہیں کرتی۔ اتنا ہی پیسے مانگیں جتنے جائز ہیں ۔

بولی لگاتے ہوئے خریدار کی دی گئی تفصیلات کے مطابق بات کریں ۔ یعنی جو وہ کام کروانا چاہتا ہے اس سے متعلق ایسا لکھیں کہ ُاسے لگے کہ آپ نے واقعی اس کی دی گئی تفصیلات کو02 بغور پڑھا ہے۔دی ہوئی تفصیل میں اگر کسی کمپنی یا ویب سائٹ کا ذکر ہے تو اس کا نام اپنی بولی میں دہرائیں تاکہ کلائنٹ کو یقین ہو جائے کہ آپ نے تفصیلات بغور پڑھی ہیں ۔ نیز اگر آپ پہلے بھی کسی ایسے پروجیکٹ پر کام کرچکے ہیں تو اس کا حوالہ یا تفصیل ضرور دیں ۔ یہ بات آپ کے پروجیکٹ جیتنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

بولی لگاتے ہوئے ہمیشہ ادب و آداب کا خیال رکھیں ۔ ایسے الفاظ کا چناؤ کریں جن کے معنی واضح ہوں ۔نہ تو اتنی زیادہ تفصیلات لکھیں کہ خریدار کے لیے پڑھنا محال ہو جائے اور نہ اس قدر مختصر لکھیں کہ خریدار کو لگے کہ آپ کام کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں ۔

اگر خریدار آپ کا انٹرویو کرنا چاہے تو اسے بروقت جواب دینے کی کوشش کریں ۔ اس سے لگے گا کہ آپ نہ صرف پروجیکٹ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ اسے بروقت پورا کرنے میں سنجیدہ بھی ہیں ۔ خندہ پیشانی سے خریدار کے تمام سوالات کے جواب دے کر اسے مطمئن کرنے کی کوشش کریں ۔

یاد رکھیں کہ پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد خریدار آپ کی کارکردگی کی بنیاد پر ریٹنگ اور آپ کے متعلق اپنا تبصرہ کرے گا۔ اگر آپ نے پروجیکٹ کو خوش اسلوبی سے مکمل کیا ہو گا تو وہ متاثر ہو کر اچھا تبصرہ کرے گا جس سے آپ کی پروفائل بہتر ہو گی۔ اگلی دفعہ جب کوئی خریدار کام دینے سے پہلے آپ کی پروفائل دیکھے گا تو یقیناً دوسرے خریداروں کے اچھے تبصرے اور ریٹنگز سے آپ کو کام ملنے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں ۔ جیسے جیسے پروجیکٹس مکمل کر کے آپ کی پروفائل بہتر ہوتی جائے گی آپ کو پروجیکٹس بھی زیادہ ملنا شروع ہو 03جائیں گے۔ حتیٰ کہ خریدار خود آپ کو تلاش کر کے کام کی آفر کریں گے۔

ہر ویب سائٹ پر پروجیکٹ حاصل کرنے کے لیے مددگار تحریریں بھی موجود ہوتی ہیں جن سے آپ مدد حاصل کر سکتے ہیں ۔

انگریزی ضروری ہے مگر انگریز بننا نہیں

انٹرنیٹ بھی دیگر ٹیکنالوجیز کی طرح مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے حضرات کی ایجاد ہے اور ہم پاکستانی بھی دوسری اقوام کی طرح، اس سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے اپنی انگریزی کو بہتر سے بہتر کرنے کی طرف توجہ دیتے ہیں ۔

مگر اس دنیا میں کچھ غیرت مند اقوام انگریزی بولنے اور استعمال کرنے کو قومی سطح پر معیوب سمجھتے ہیں ، جیسی فرانسیسی، جرمن، بعض عرب وغیرہ۔ ہماری قوم کے المیہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کالج کے بعد اگر تو آپ کسی انجینئرنگ یا میڈیکل یا کسی اور پروفیشنل ڈگری کروانے والی یونی ورسٹی میں چلے گئے تو بس یہ آپ کا اردو سے آخری واسطہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اردو بس ایک بولی بن کر رہ جاتی ہے۔

انٹرنیٹ پر کام حاصل کرنے کے لئے ہماری انگریزی کم از کم درجہ میں اتنی اچھی ہونی چاہئے کہ ہم کام کے دوران ہونے والی بات چیت کر بھی سکیں اور سمجھ بھی سکیں ۔ اس کے لئے آپ کو cnn.com یا bbc.com وغیرہ کی ویب سائٹ دن میں کم از کم ایک دفعہ اپنے، انگریزی الفاظ کے ذخیرہ کو مزید بڑھانے کے لئے ضرور ملاحظہ کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ اپنے پیشے سے متعلق لوگوں کے بلاگ بھی پڑھیں ۔

انگریزی گرامر: میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مروجہ انگریزی تعلیم کا طریقہ کار، ہمیں انگریزی زبان کی ابجد سے بالکل ناواقف رکھتا ہے۔ بذات خود میں نے پرائمری ہی سے انگریزی اسکول میں تعلیم حاصل کی، مگر یونیورسٹی میں پہنچنے کے باوجود میری اس زبان پر دسترس ناکافی تھی، حتیٰ کہ میں نے TOEFL کی تیاری کے سلسلے میں ایک کتاب کا مطالعہ کیا اور اس میں گرامر کو سمجھانے کا جو طریقہ بیان کیا گیا تھا اس سے مجھے کافی معاونت ملی۔

انگریزی الفاظ کا ذخیرہ: جیسا کہ بیان کیا جا چکا کہ آپ انگریزی ویب سائٹ کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے رہیں ، اس کے ساتھ ساتھ ایسے فورمز بھی تلاش کریں جہاں پر آپ کو انگریزی گرامر سے متعلق سوالات کے جوابات مل سکیں ۔ اس کے علاوہ آپ GRE کی تیاری سے متعلق کتاب Word Smart بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ اس میں انگریزی زبان کے ان الفاظ کا ذخیرہ ہے، جس کے ساتھ آپ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ جیسے  اخبارات و رسائل باآسانی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں ۔

بات چیت کی صلاحیت

اپنا مدعا بیان کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ ہمارے پاس الفاظ کا وسیع ذخیرہ موجود ہو، بلکہ الفاظ تو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہتے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ آپ جس سے بات کر رہے ہوں ، آپ کے الفاظ اس کے گرد و پیش اور ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں ۔ مثلاً اگر آپ سے کوئی امریکی کلائنٹ کام کے پورا کرنے کا سوال کر رہا ہے، اور آپ کو یقین ہے کہ آپ وہ کام 3 دن میں کر لیں گے تو یہاں زیادہ مناسب یہ جملہ ہو گا:

 I believe I will complete the task in 3 days.

یہاں لفظ believe پر غور کریں ۔ اور اگر آپ کا غالب گمان یہ ہے کہ آپ کو کام کرنے میں کم از کم 3 یا زیادہ دن لگ سکتے ہیں ، مگر آپ غیر یقینی کا شکار ہوں ، تو مبہم جواب دینے کے لئے آپ کہیں گے:

I guess I will complete the task within 3 days.

اب یہ بات جب آپ کا انگریز کلائنٹ سنے گا یا پڑھے گا تو آپ کے ان الفاظ کے ہیر پھیر سے وہ کام کے مکمل ہونے کے بارے میں آپ کی کیفیت کا اندازہ لگا لے گا۔ الفاظ کا موضوع استعمال نہ صرف آپ کے مدعا کو کم از کم الفاظ میں بیان کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، بلکہ آپ جس سے ہم کلام ہیں اس کو بھی اس بات کا احساس دلاتا ہے کی آپ کی زبان اس کے لئے اجنبی نہیں اور آپ اس کی کہی یا لکھی ہوئی بات کو سمجھنے اور اپنی بات اسے سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ بعض کلائنٹ تو پروجیکٹ کی تفصیل میں ہی یہ واضح لکھ دیتے ہیں کہ انہیں ایسا کام کرنے والا درکار ہے جو انگلش پر مہارت رکھتا ہو۔

تکنیکی اصطلاحات

میں ایک دفعہ کراچی کی فشری گیا، وہاں میرے دوست کی لانچ مچھلیاں پکڑ کر واپس آئی تو میرے دوست نے اپنے ملاح سے سوال کیا ’’کیسا رہا؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’لاڈا ہو گیا‘‘، میرے دوست نے استفسار پر بتایا کہ لاڈا کا مطلب آج خاطر خواہ مچھلیاں نہیں ملی۔ اب یہ لفظ فشری میں بہت عام ہے، مگر باہر کی دنیا اس سے ناواقف ہے۔

اسی طرح ہر پیشے، علاقے، ثقافت میں اپنے الفاظ رائج ہوتے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ ہم اپنے پیشے میں رائج اصطلاحات سے واقف ہوں ۔آپ اگر تکنیکی اصطلاحات سے واقفیت رکھتے ہیں تو اپنی بولی میں ان کا استعمال بھی کریں تاکہ کلائنٹ پر واضح ہوسکے کہ آپ اس کی لکھی تفصیلات کو سمجھ رہے ہیں ۔

کس سے سیکھیں ؟

بذاتِ خود میں نے، کسی سے انگریزی پیسے دے کر ٹیوشن کے طور پر نہیں سیکھی- میرا خیال یہ ہے کہ ناواقف زبان سیکھنے کے لئے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ ہمیں گلی، محلوں میں کھلے انگریزی تعلیم کے اداروں سے کم از کم کوالٹی کے ساتھ تو نہیں مل سکتی۔ اس لئے ایسے ادارے جہاں اپ غیر ملکیوں سے بات چیت کرسکیں ، آپ کی انگریزی بول چال میں بہتر بنانے میں بے حد مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔

ڈھیٹ بن جائیں

انگریزی آپ کی مادری زبان نہیں ۔ اس پر عبور حاصل کرنے میں نہ صرف وقت درکار ہے بلکہ کڑی محنت بھی۔ اگر آپ کو انگریزی بولنے، لکھنے یا پڑھنے میں کوئی شرم، جھجک یا رکاوٹ ہے، تو اس کو پس انداز کر کے اس کو بہتر کرنے میں اپنا وقت صرف کریں ۔ انشاء اللہ، آپ کو جلد اس پر دسترس ہو جائے گی۔

فری لانس کام حاصل کرنے کے لیے آپ کو ابتدا میں انتہائی صبر سے کام لینا پڑے گا۔ چونکہ آپ کی پروفائل پر کوئی ریٹنگ یا تجربہ نہیں ہو گا اس لیے خریدار آپ کو ترجیح نہیں دے گا۔ ظاہر ہے بعض اوقات خریدار کو اپنی کئی اہم معلومات آپ کو دینی پڑتی ہے تو وہ ویب سائٹ پر آنے والے کسی نئے بندے پر کیسے اعتبار کر لے؟ آغاز میں آپ کی bids کھوٹے سکے کی طرح واپس آنے لگیں گی لیکن اگر آپ مایوس ہونے بنا مزید نئے آنے والے پروجیکٹس پر بولی لگاتے رہے تو ایک دن ضرور کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔

 

پیسے پاکستان منگوانے کے طریقے:

فری لانس کام مکمل کر لینے کے بعد آپ کے اکاؤنٹ میں رقم جمع ہو جائے تو اگلا مرحلہ ہوتا ہے اسے حاصل کرنے کا۔ انٹرنیٹ پر کام ڈھونڈنا اتنا مشکل نہیں جتنا بچت کے ساتھ پیسے پاکستان منگوانا دشوار ہے۔ اگر آپ فری لانس کام کو باقاعدہ شروع کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو تقریباً رقوم کی ترسیل کے تمام ذرائع، ان کی فیس اور پیسے منگوانے کے بچت والے طریقوں کی مکمل پڑتال کرنی ہو گی۔ تقریباً تمام فری لانسنگ ویب سائٹس آپ کی کمائی ہوئی رقم چند دن تک اپنے پاس سکیوریٹی وجوہات کی وجہ سے ضرور روک کے رکھتی ہیں ۔ تاہم اس کے بعد جب آپ کی رقم آپ تک پہنچنے کے لئے تیار ہو جائے تو پھر آپ اسے کئی طریقوں سے حاصل کرسکتے ہیں ۔ ہم آپ کو وہ تمام اہم طریقے اور ذرائع بتائیں گے جو کہ کسی بھی ویب سائٹ سے پیسے حاصل کرنے کے لئے استعمال کئے جاسکتے ہیں ۔

ویسٹرن یونین

ویسٹرن یونین چونکہ دنیا کے تمام ممالک میں کام کرتا ہے اور اس کی شاخیں یا فرنچائز پاکستان بھر میں پھیلی ہوئی ہیں ، اس لئے بظاہر یہ ایک قابل اعتماد ذریعہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر اکثر کلائنٹس اس کو نظر انداز کرتے ہیں ، کیونکہ اس طریقہ میں ان کا وقت اور پیسہ صرف ہوتا ہے۔ تاہم اگر دیگر کوئی ذریعہ دستیاب نہ ہو تو پھر ویسٹرن یونین سے رقم منگوانے میں کوئی قباحت نہیں ۔

عام طور پر اس طریقہ کار کے ذریعے آپ کو اوپن مارکیٹ کرنسی ایکسچینج ریٹ سے 2 یا 3 روپے کم کا ریٹ ملتا ہے۔ مگر فائدہ یہ ہے کے آپ کو رقم منٹوں میں وصول ہو جاتی ہے۔ آپ اگر چاہیں توجیسے ہی کسی نے آپ کو ویسٹرن یونین کے ذریعہ رقم بھیجی، آپ اس کو فوراً  ٹریک کر سکتے ہیں ۔ ویسٹرن یونین بڑی رقم جیسے ایک ہزار ڈالر زسے زائد کی رقم وصول کرنے کے لئے تو بہترین ہے مگر چھوٹی رقم کے ترسیل اس سے نہ کی جائے تو بہتر ہے۔ اس کی وجہ ویسٹرن یونین کی فیس ہے جو کہ چند سو ڈالر کے لئے پچاس ڈالر تک ہوسکتی ہے۔

ویسٹرن یونین ایک مفید سروس ہے، مگر آپ کو اپنی سہولت کے ساتھ ساتھ کلائنٹ کی آسانی کا خیال بھی رکھنا ہو گا۔ اور اسے طریقہ پر اتفاق کرنا ہو گا، جس سے آپ دونوں کو نقصان نہ ہو۔

ویسٹرین یونین سے بھیجے گئے پیسے وصول کرنے کے لئے اپنا اصل شناختی کارڈ اور اس کی کاپی لیجانا نہ بھولئے۔ رقم صرف وہی وصول کرسکتا ہے جس کے نام رقم ارسال کی گئی ہو۔ اگر بھیجنے والے نے وصول کرنے والے کا نام غلط درج کیا ہو تو رقم کی وصول میں شدید مشکل پیش آسکتی ہے۔

وائر ٹرانسفر(Wire Transfer)

اس طریقہ کار میں رقم براہ راست آپ کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کر دی جاتی ہے۔ آپ کو وائر ٹرانسفر کے لئے اپنے کلائنٹ یا فری لانسنگ ویب سائٹس کو اپنے بینک اکاؤنٹ کا نمبر اور بینک کا Swiftکوڈ مہیا کرنا ہو گا۔ ہر بینک کا Swiftکوڈ مختلف ہوتا ہے اور یہ ضروری ہے کہ آپ درست Swiftکوڈ فراہم کریں بصورت دیگر رقم آپ کے بینک اکاؤنٹ تک نہیں پہنچ پائے گی۔ پاکستان میں موجود تمام بینک وائر ٹرانسفر کے لئے انٹرمیڈیٹ بینک کا استعمال کرتے ہیں ۔یہ انٹر میڈیٹ بینک آپ کے بینک اور رقم بھیجنے والے کے بینک کے درمیان وسیلے کا کام کرتا ہے۔ اس کام کی یہ بینک فیس بھی وصول کرتا ہے جو رقم کم ہونے کی صورت میں یا تو ہوتی ہی نہیں یا پھر بہت کم ہوتی ہے۔ تاہم بعض صورتوں میں یہ فیس کافی زیادہ جیسے پچاس ڈالر یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔

وائر ٹرانسفر میں دو سے پانچ دن تک لگ سکتے ہیں لیکن آپ کو رقم بینک کے مقرر کردہ فارن کرنسی ایکسچینج ریٹ جو کہ اوپن مارکیٹ ریٹ سے کم لیکن ویسٹرن یونین کے ایکسچینج ریٹ سے کافی زیادہ ہوتے ہیں ، کے حساب سے رقم ملتی ہے۔

پے اونیئر ماسٹر ڈیبٹ کارڈ

یہ پاکستانیوں کیلئے اپنی انٹرنیٹ سے کمائی ہوئی رقم حاصل کرنے کا ایک سہل طریقہ کار ہے۔ اس کے ذریعے آپ Payoneer کارڈ پر رقم منگوا کر پاکستان میں موجود کسی بھی اے ٹی ایم جو کہ ماسٹر کارڈ قبول کرتا ہو، سے رقم نکال سکتے ہیں ۔ یاد رہے کہ پاکستان میں تمام بینکس کے اے ٹی ایم ماسٹر کارڈ قبول نہیں کرتے۔ تاہم اسٹینڈرڈ چارٹرڈ، سٹی بینک اور ایم سی بی بینک کے اے ٹی ایم پر پے اونیئر کارڈ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پے اونیئر ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے رقم نکلوانے پر آپ کو مارکیٹ ریٹ سے ڈالر کا ریٹ چار سے پانچ روپے کم ملے گا۔ تاہم چونکہ پے اونیئر کی فیس بے حد کم ہے اس لئے اتنا فرق قابل قبول ہوتا ہے۔

پے پال

یہ سہولت پاکستان میں میسر نہیں ہے، مگر اگر آپ کا کوئی قابل اعتماد شخص امریکہ یا کینیڈا میں رہتا ہے تو آپ اس کے Paypal کے اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کروا سکتے ہیں ۔ مگر یاد رکھیں ، اگر آپ کسی یورپی ملک جیسے برطانیہ میں موجود شخص کا Paypal اکاؤنٹ استعمال کرتے ہیں ، تو آپ کو نقصان ہو گا۔ کیونکہ آپ کو رقم ڈالر سے پاکستانی روپے کے بجائے، ڈالر سے پاؤنڈ یا یورو اور پھر پاکستانی روپے میں تبدیل ہو کر ملے گی اور اس میں آپ کو نقصان ہو گا۔

 

کیا پے او نیئر، پے پال کا نعم البدل ہے؟

اگر آپ کے زیادہ تر کلائنٹس امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں تو یقیناً آپ کو ان سے پیسے منگوانے میں ، دشواری کا سامنا ہوتا ہو گا۔ خاص طور پر امریکی Paypal کو ترجیح دیتے ہیں ، کیونکہ یہ زیادہ استعمال ہونے والا اور ان کے لئے سہل ہے۔ پے پال کی اپنی خوبیاں ہیں ۔ اس کا پے اونیئر سے مقابلہ تو نہیں کیا جاسکتا ہے مگر پاکستان میں پے اونیئر کو پے پال کے نعم البدل کی صورت میں دیکھا جاتا ہے۔

ویسے تو آپ ویسٹرن یونین یا منی گرام بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔ مگر اکثر امریکی چاہتے ہیں کہ رقم ادا کرنے جیسے کام کے لئے ان کو 30 یا 40 منٹ صرف نہ کرنے پڑیں ۔ کیونکہ اگر وہ ویسٹرن یونین کو کال کریں یا اس کے کسی دفتر جائیں تو مختلف مراحل سے گزر کر، کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم ادا کرنے میں ان کو تقریباً 30 منٹ صرف کرنے پڑتے ہیں ۔اس لئے چھوٹی رقم جیسے چند سو ڈالر وغیرہ کے لئے کلائنٹ اتنی تکلیف برداشت کرنے پر مشکل سے ہی راضی ہوتا ہے۔ نیز ویسٹرن یونین کی زیادہ فیس کی وجہ سے بھی کلائنٹس اس کے استعمال سے اجتناب کرتے ہیں ۔

پے او نیئر کارڈ کی خاص بات یہ ہے کہ آپ نا صرف اس پر فری لانس ویب سائٹ پر کمائی رقم منگوا سکتے ہیں بلکہ کسی کلائنٹ سے براہ راست رقم بھی حاصل کرسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس کارڈ کو آن لائن خریداری وغیرہ کے لیے بھی جہاں چاہیں استعمال کر سکتے ہیں ۔نیز اسے POSپر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ POSپر استعمال بالکل مفت ہے۔ لہٰذا اگر آپ کوئی چیز خریدنا چاہیں تو اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے کے بجائے اپنے ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی کریں ۔

فری لانس ویب سائٹس سے پیسے منگوانے کے مختلف طریقے ہیں ۔ مثلاً وی ورکر (سابقہ نام رینٹ اے کوڈر) ویب سائٹ ایک مخصوص تاریخ کو ادائیگی کرتی ہے۔ یعنی اس مقررہ تاریخ کو آپ کے مقرر کردہ طریقے کے تحت آپ کو رقم ارسال کر دی جاتی ہے جبکہ اوڈیسک جیسی ویب سائٹس پر پیسے کلیئر ہوتے ہی آپ انھیں جب چاہیں اپنے کارڈ میں منتقل کر سکتے ہیں ۔ اگر آپ پیسے اپنے پے او نیئر کارڈ میں منتقل کر رہے ہیں تو یہاں آپ کو دو آپشن ملیں گے۔ اگر آپ ریگولر لوڈ کریں گے تو اس کے لیے پے او نیئر آپ سے دو ڈالر تک کی رقم وصول کرے گا اور پیسے آپ کے کارڈ میں لوڈ ہونے میں تین سے پانچ دن لیں گے۔ جبکہ اگر آپ نے فوری لوڈ کا آپشن منتخب کیا تو پے اونیئر ایک یا دو ڈالر کی اضافی رقم سے فوراً ہی پیسے کارڈ میں منتقل کر دے گا اور آپ فوراً رقم اے ٹی ایم سے نکالنے کے قابل ہوں گے۔

پے او نیئر ڈیبٹ کارڈ کیسے حاصل کریں ؟

Payoneer.com پے پال کے مقابلے میں ایک نئی سروس ہے۔ اس سروس سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے آپ کو مندرجہ ذیل کم از کم ایک فری لانسنگ ویب سائٹ پر رجسٹر ہونا اور وہاں سے کم از کم ایک ٹرانزیکشن کرنا لازمی ہے۔ تاکہ آپ کسی بھی امریکی کلائنٹ سے رقم اپنے Payoneer کارڈ میں منتقل کرواسکیں ۔

www.Elance.com

www.FreeLancer.com

www.oDesk.com

www.Guru.com

www.iStockPhoto.com

بچت کے ساتھ استعمال

Payoneer.com سے پاکستان پیسے منگوانے کے فی الحال دو طریقے ہیں :

1۔ پاکستان میں موجود ماسٹر کارڈ قبول کرنے والی اے ٹی ایم

اس طریقہ کار کے ذریعے آپ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ25ہزار یا بعض اے ٹی ایم (جیسے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ) سے تیس ہزار روپے تک نکال سکتے ہیں ۔ رقم ناکافی ہونے کی صورت میں تقریباً ایک ڈالر جرمانہ کیا جاتا ہے جبکہ ہر بار اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے پر 2.25ڈالر فیس بھی چارج کی جاتی ہے۔ لہٰذا آپ کی کوشش ہونی چاہئے کہ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ جتنی رقم ممکن ہو، نکال لیں ۔ کم رقم نکالنے اور زیادہ ٹرانزیکشنز کرنے میں آپ کا نقصان ہے۔ یاد رہے کہ اکاؤنٹ میں موجود رقم معلوم کرنے (بیلنس انکوائری) کی بھی فیس ہے جو تقریباً ایک ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ویسٹرن یونین وغیرہ کے مقابلے میں کہیں سستا ہے۔ اگر آپ باصلاحیت ہیں اور فری لانس کو اپنا روزگار بنانا چاہتے ہیں تو پے او نیئر ڈیبٹ کارڈ حاصل کرنا آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

2۔  skrill.com

skrill.com جو پہلے منی بکر کے نام سے جانی جاتی تھی، کے ذریعے آپ پے اونیئر ڈیبٹ کارڈ میں موجود رقم قدرے فائدے کے ساتھ نکلوا سکتے ہیں ۔ آپ کو اسکر ل پر اپنا اکاؤنٹ بنا کر اسے ویری فائی کرانا ہو گا۔ جس کے بعد آپ اس میں پے اونیئر ڈیبٹ کارڈ رجسٹر کروالیں اور پے اونیئر کی رقم اسکر ل اکاؤنٹ میں اپ لوڈ کروالیں ۔ اس میں تقریباً کُل منتقل کی گئی رقم کا تین فیصد بطور فیس کاٹ لی جاتی ہے۔ بعد میں آپ اسکر ل سے پیسے اپنے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروالیں ۔ یاد رہے کہ آپ کو اپنا بینک بھی اسکر ل اکاؤنٹ میں رجسٹر کروانا ہوتا ہے جس کے لئے آپ کو SWIFTکوڈ کی ضرورت پڑے گی۔اس سارے عمل میں اگرچہ وقت بہت زیادہ لگتا ہے مگر بچت بھی خوب ہوتی ہے۔ خاص طور پر تب جب آپ ایک بڑی رقم منتقل کر رہے ہوں ۔

ویسٹرن یونین یا منی گرام؟

ویسٹرن یونین اور منی گرام تقریباً ایک جیسی سروسز ہیں ۔ فرق صرف ان کی برانچوں کی تعداد اور فیس کا ہے۔ کلائنٹ دونوں سروسز کی ویب سائٹس کو استعمال کرتے ہوئے گھر بیٹھ کر بھی رقم ادا کرسکتا ہے۔

اگر رقم کی منتقلی کی فیس کلائنٹ ادا کرنے پر راضی ہو تو آپ اسے منی گرام کے استعمال کا مشورہ دیں ۔ کیونکہ منی گرام کی فیس ویسٹرن یونین کے مقابلے میں قدرے کم ہے۔ تاہم آپ فیصلہ کلائنٹ پر بھی چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ خود دونوں کی فیسوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کر لے۔ منی گرام سے بھیجی گئی رقم آپ بینک الفلاح کی کسی بھی برانچ سے حاصل کرسکتے ہیں ۔  ان کے ہاں رقم حاصل کرنے کا بڑا ہی اچھا انتظام موجود ہے۔

چاہے آپ Western Union سے رقم حاصل کرنے جا رہے ہوں یا MoneyGram سے، اپنا اصل شناختی کارڈ اور اس کی کاپی لے جانا نہ بھولئے۔ اس کے علاوہ آپ کو پیمنٹ کی تفصیلات کے حوالے سے جو ای میل موصول ہوئی ہے بہتر ہے کہ اس کا پرنٹ بھی ساتھ لے جائیں یا کم از کم MTCN یعنی منی ٹرانسفر کنٹرول کوڈ لے جانا مت بھولیں ۔

٭  ٭٭

(یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ اگست 2012 میں شائع ہوئی)

(یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ اکتوبر 2012 میں شائع ہوئی)


ٹوئٹر کی کمائی کے راز

گزشتہ شمارے میں ہم نے فیس بک کے ذرائع آمدن پر روشنی ڈالی تھی کہ کس طرح وہ صارفین کے مفت کانٹینٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اشتہارات دکھاتا ہے اور سالانہ ایک ارب ڈالر منافع کماتا ہے، اس بار ہم ٹوئٹر کے ذرائع آمدن پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے اور دیکھیں گے کہ ایک تجارتی منصوبے کے طور پر ٹوئٹر کن کن طریقوں اور ذرائع سے آمدنی حاصل کرتا ہے۔

ٹوئٹر 2006 میں منظرِ عام پر آیا، اگلے چار سالوں تک اس کا زور “مائیکرو بلاگنگ” کے ایک پلیٹ فارم کے طور پر اپنی شناخت پختہ کرنے اور مختلف پلیٹ فارمز پر ایپلی کیشنز بنانے کے عمل کو آسان بنانے پر رہا جیسے موبائل فونز، اور ویب براؤزرز کے پلگ انز وغیرہ، اس سارے عرصے میں صارفین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی گئی لہٰذا ویب سائٹ کے آؤٹیج outage کے مسائل سامنے آنے لگے چنانچہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ویب سائٹ کے بنیادی ڈھانچے پر توجہ دی جانے لگی۔

2010 تک جب صحافی جیک ڈورسی (Jack Dorsey)جو کمپنی کے بانیوں میں سے ایک اور چیئرمین تھا، سے سوال کرتے تھے کہ کمپنی منافع کیسے حاصل کرے گی تو اس کے پاس کوئی شافی جواب نہیں ہوتا تھا، کبھی کبھی اس کا جواب یہ ہوتا تھا کہ جیسے آپ یہ پوچھ رہے ہوں کہ گوگل اپنا منافع کیسے حاصل کرے گا، یقیناً کوئی دن آئے گا جب یہ منافع حاصل کرے گا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ٹوئٹر کی انتظامیہ کے پاس اس ضمن میں کوئی واضح پلان نہیں تھا، تاہم جیک ڈورسی نے یہ یقین دلایا تھا کہ ٹوئٹر کبھی اشتہارات نشر نہیں کرے گا یعنی اشتہاری بینر۔

جب ٹوئٹر نے ایک اچھوتے انداز کی مائکرو بلاگنگ کے طور پر جو اس وقت تک رائج نہیں تھی خود کو منوا لیا تو اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ پہلے ہی سال ٹوئٹر میں 5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی، پھر 22 ملین ڈالر، اس کے بعد 35 ملین ڈالر جبکہ 2010 میں ٹوئٹر 200 ملین ڈالر سرمایہ کاری کی مد میں حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور یوں کمپنی کی کْل قیمت 3.7 ارب ڈالر تک جا پہنچی جو شیئر بازار میں اپنے 35 ہزار شیئرز بیچنے کا نتیجہ تھا، 2011 میں کمپنی کی کْل قیمت 7.8 ارب ڈالر تھی، اسی سال سعودی شہزادے الولید بن طلال نے ٹوئٹر میں 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔

اگرچہ کمپنی کے پاس ذرائع آمدن کے حوالے سے کوئی واضح پلان نہیں تھا تاہم ابتدائی آمدن اسے 2009 میں حاصل ہوئی جب اس نے گوگل اور مائکروسافٹ کو اپنے تلاش کے نتائج فراہم کرنے کے معاہدے کیے اور یوں گوگل سے 15 ملین ڈالر جبکہ مائکروسافٹ سے 10 ملین ڈالر وصول کیے، اس سال کے آخر میں ٹوئٹر نے 4 ملین ڈالر منافع کمایا جبکہ صارفین کی تعداد 25 ملین تک جا پہنچی تھی۔

2011 میں ٹوئٹر نے 139.5 ملین ڈالر اشتہارات کی مد میں حاصل کیے اور توقع ہے کہ اس سال کے آخر تک 260 ملین ڈالر تک چا پہنچے گا، توقع ہے کہ اگلے سال اشتہارات کی مد میں حاصل ہونے والی رقوم 1.45 ارب ڈالر تک جا پہنچیں گی جن میں 111 ملین ڈالر منافع ہو گا جبکہ صارفین کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر جائے گی۔

اشتہارات

1- پرموٹڈ ٹویٹ (promoted tweet)

اشتہارات کی پہلی قسم جن سے ٹوئٹر آمدنی جنریٹ کرتا ہے، مثال کے طور پر جب آپ لفظ پیانو piano تلاش کرتے ہیں یا آئی فون کے ہیش ٹیگ #iphone کو تلاش کرتے ہیں تو نتائج میں اشتہاری ٹویٹ سب سے اوپر ہوتی ہے جسے اورنج رنگ کے تیر سے الگ کیا گیا ہوتا ہے، یہ ٹویٹس صارف کی ٹائم لائن کے اوپر یا تھوڑا سا نیچے بھی نظر آسکتی ہیں جب صارف لاگ ان یا اپنی ٹائم لائن کو اپڈیٹ کرتا ہے۔ کسی صارف کی ٹائم لائن پر ایسی اشتہاری ٹویٹس کے ظاہر ہونے کے لیے لازم ہے کہ ……..

2- پرموٹڈ رجحان promoted trend

جب کوئی بین الاقوامی کمپنی کسی اہم اور عالمی چیز کی تشہیر کرنا چاہے تو اسے ہر صارف کی پروفائل میں صرف پرموٹڈ ٹویٹس ہی کافی نہیں ہوتیں لہذا وہ پورا ایک پرموٹڈ ٹرینڈ یعنی رجحان خرید لیتی ہے تاکہ ویب سائٹ کے تمام صارفین کی توجہ کسی نئے عالمی واقعے پر کرائی جاسکے اور اس کے بارے میں ٹویٹس کی جاسکیں ، رجحانات کو کسی مخصوص برانڈ کی تشہیر یا کسی عالمی پیمانے کی تقریب جیسے کسی نئی پراڈکٹ کا اجراء یا مخصوص کانفرنس کی طرف توجہ دلانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

رجحانات کی فہرست ویب سائٹ کی دائیں طرف کی فہرست میں ظاہر ہو رہی ہوتی ہے اور اس میں صارفین کی حالیہ گفتگو کے نمایاں ہیش ٹیگ شامل ہوتے ہیں جن پر کلک کرنے سے……..

3- پرموٹڈ کھاتے promoted account

تمام صارفین کو ایک فہرست دکھائی جاتی ہے جس میں کچھ دیگر صارفین کو فالو کرنے کی تجویز دی جاتی ہے، اس فہرست کا انحصار آپ کی دلچسپیوں ، دوست یعنی فالوورز، کی ورڈز وغیرہ پر ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی کمپنی اپنے نئے اکاؤنٹ کی تشہیر کچھ مخصوص دلچسپیوں کی بنیاد پر کرنا چاہے تو؟ ایسا ہوتا ہے، اور ایسی کمپنی کا اکاؤنٹ who to follow کی فہرست میں اورنج رنگ کی علامت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔

فرض کرتے ہیں کہ صارفین کا ایک گروہ جن میں آپ بھی شامل ہیں تعلیم سے متعلقہ اکاؤنٹس کو فالو کرتے ہیں جیسے یونیورسٹیاں ، اساتذہ، اشاعتی و تحقیقی ادارے اور دیگر تعلیمی ویب سائٹس، اگر آپ اس زمرے کے کچھ اکاؤنٹس کو فالو کر رہے ہیں مگر……..

4- خصوصی پروفائل

اوپر کے تین چینل ٹوئٹر کی آمدنی کے بنیادی اوزار ہیں جن سے ٹوئٹر اپنی آمدنی حاصل کرتا ہے، تاہم دو ایسے ذرائع اور بھی ہیں جنہیں کمالیات میں شمار کیا جاسکتا ہے جو بڑے بڑے برانڈز کے لیے مخصوص ہیں ، مثال کے طور پر کوئی کمپنی اپنے اکاؤنٹ کی پروفائل میں بنیادی تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے جس کی عام صارفین کو اجازت نہیں ، اس صورت میں ٹوئٹر کمپنی کو ہیڈر میں کمپنی کا لوگو 835×90 پکسل کے سائز میں لگانے کی اجازت دیتا ہے۔

اس کے علاوہ کسی ٹویٹ کو ٹائم لائن میں ہمیشہ سب سے اوپر ظاہر کرنے کی خوبی بھی فراہم کی جاسکتی ہے اب چاہے ٹویٹ کتنی بھی پرانی کیوں نہ ہو وہ ہمیشہ ٹائم لائن میں سب سے اوپر چسپاں رہے گی، اس اضافی خوبی کے بڑے فوائد ہیں ۔ مثال کے طور پر……..

5- ہیش ٹیگ کا صفحہ

ٹوئٹر پر عام طور سے اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لوگ کسی مخصوص موضوع پر کیا گفت و شنید کر رہے ہیں تو آپ اس موضوع سے متعلق کسی ہیش ٹیگ کا مشاہدہ کرتے ہیں ، آپ اس ہیش ٹیگ کو تلاش کرتے ہیں اور اس موضوع پر گفتگو کرنے والے تمام دیگر صارفین کی گفتگو اسی ایک صفحہ پر حاصل کر لیتے ہیں ۔

لیکن اگر کوئی خود کو دوسروں سے ممتاز کرنا چاہے تو؟ بات کرتے ہیں مشہور……..

6- شماریات

اپنی اشتہاری مہم لانچ کرنے کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اس کی شماریات پر بھی نظر رکھیں تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ کیا آپ نے اس سے اپنے مقاصد حاصل بھی کیے ہیں یا نہیں ؟ یہاں شماریات کا تعلق صرف ٹوئٹر سے ہے نا کہ آپ کی ویب سائٹ سے، اشتہاری مہمیں شروع کرنے والوں کے لیے ٹوئٹر شماریات کی سہولت فراہم کرتا ہے چاہے وہ ٹویٹس ہوں ، ٹرینڈ ہوں یا کھاتے۔

شماریات آپ کو تمام سرگرمیوں کی رپورٹ دیتے ہیں کہ آپ کی ٹویٹ کتنی دفعہ ظاہر ہوئی اور اس کے نتیجے میں کتنے لوگوں نے آپ کو فالو کیا، ٹویٹ کتنی دفعہ ری ٹویٹ ہوئی، اس میں موجود ربط پر کتنی دفعہ کلک کیا گیا، آپ کے اکاؤنٹ کا کتنی دفعہ مشاہدہ کیا گیا اور کتنے لوگوں نے آپ کو اَن فالو کیا وغیرہ، اس میں ٹائم لائن کی سرگرمیاں بھی شامل ہوتی ہیں اور……..

٭٭٭

(مکمل مضمون پڑھنے کے لیے کمپیوٹنگ اکتوبر 2012 کا شمارہ ملاحظہ کیجیے)


فیس بک کیسے کماتا ہے؟

اشتہارات کے کام کرنے کا طریقہ

کمپنی کے آفیشل اعداد و شمار کے مطابق فیس بک کی 85 فیصد آمدنی اشتہارات سے آتی ہے، خاص طور سے وہ اشتہار جو صفحات اور صارفین کی پروفائلز کے دائیں یا بائیں جانب نظر آتے ہیں ۔ در حقیقت فیس بک سالانہ ایک ارب ڈالر منافع کمانے کے لیے آپ کا مفت فراہم کردہ Contents استعمال کرتا ہے، ویب سائٹ کا ذہین نظام صارفین کی ارسال کردہ پوسٹس کے مواد کا تجزیہ کر کے ایسی معلومات حاصل کرتا ہے جنہیں اشتہارات کی غرض سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

جب آپ لائک کے بٹن پر کلک کرتے ہیں ، اپنا اسٹیٹس لکھتے ہیں ،  یا کوئی ویڈیو دیکھتے یا آڈیو سنتے ہیں ، یا کسی صفحے پر جا کر اس کے مواد کا مطالعہ کرتے ہیں اور لائک کے بٹن پر کلک کیے بغیر آگے بڑھ جاتے ہیں الغرض کہ آپ کی کوئی بھی چھوٹی اور معمولی سی حرکت کو آپ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس معلومات سے استفادہ حاصل کر کے آپ کو بطور گاہک ’’متوقع خریدار یا صارف‘‘ کے اشتہارات دکھانے یا نہ دکھانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ اشتہار دینے والی کمپنی یا فرد نے متوقع صارف کی جو شرائط دے رکھی ہیں ، آپ ان سے مطابقت نہ رکھتے ہو۔

اس طرح کی ساری معلومات تمام صارفین سے حاصل کی جاتی ہیں ، چاہے وہ کسی بھی پلیٹ فارم سے فیس بک استعمال کر رہے ہوں ، جیسے عام کمپیوٹر، موبائل، ٹیبلیٹ، اور پھر اس کی بنیاد پر ہر صارف کا ایک سوشل گراف بنایا جاتا ہے۔

یہ سوشل گراف کیا ہے؟ یہ ایک طرح کا نیٹ ورک ہے جس کا محور آپ ہیں ، اس میں وہ تمام تفصیلات موجود ہیں جو آپ نے Contentکے طور پر فیس بک میں داخل کی ہیں ، جب آپ کے پاس 955 ملین سوشل گراف ہوں تو نظام ان کے درمیان مماثلتوں کو تلاش کرتا ہے اور ایسی عمومی معلومات کشید کرتا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر اشتہاری مہم چلائی جاتی ہیں یا ان معلومات کو فروخت کر دیا جاتا ہے جو عام طور پر اشتہاری ایجنسیاں ہوتی ہیں تاکہ وہ مشتہرین کے لیے ان معلومات سے استفادہ کرتے ہوئے اشتہاری مہم چلا سکیں ۔

فرض کرتے ہیں کہ آپ کو ایکشن فلموں سے دلچسپی ہے، آپ نے کچھ اہم فلموں کے صفحات پر جاکر انہیں لائیک کیا، کچھ اداکاروں کو لائیک کیا، ان کی تصاویر شیئر کیں ، ان فلموں کے ویڈیو کلپس دیکھے اور اپنے اسٹیٹس میں کسی مخصوص فلم کے بارے میں رائے زنی کی، آپ کے کچھ دوست بھی ہیں جن کی بعینہ یہی دلچسپیاں ہیں ، ایک بار آپ نے اپنے اسٹیٹس میں لکھا کہ آپ نے اپنے فلاں دوست کے ساتھ (جو کہ فیس بک کا صارف ہے) فلاں فلم دیکھی، اس کے ساتھ ساتھ آپ کو گاڑیوں میں بھی دلچسپی ہے خاص طور سے اسپورٹس کار، چنانچہ آپ نے کچھ کاروں کے صفحات پر انہیں لائیک کیا اور کچھ گاڑیوں کے تازہ ترین ماڈلوں کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں حتیٰ کہ آپ نے کچھ دوسری ویب سائٹس پر بھی کاروں کے حوالے سے کچھ مضامین پڑھے اور ان مضامین کو اور کچھ کاروں کی تصاویر کو فیس بک پر شیئر کیا۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سارے ان پْٹ ڈیٹا کا کیا مطلب ہے؟ یہ ایک سونے کی کان ہے جو آپ فیس بک کو مفت میں فراہم کرتے ہیں ۔

فیس بک آپ کی ان ساری معلومات کو بلکہ ایسی دلچسپیوں کے حامل دیگر لاکھوں لوگوں کی معلومات کو جمع کر کے ان کا تجزیہ کرتا ہے اور آپ کو ٹارگیٹڈ اشتہارات targeted advertisement دکھاتا ہے، جیسے کاروں کے کسی میگزین کا اشتہار، یہ کسی نئی ایکشن فلم کا اشتہار جو جلد ہی سینما میں لگنے والی ہو، یہ اشتہارات صرف ان لوگوں کو نظر آتے ہیں جنہوں نے ان چیزوں پر ذرا سی بھی دلچسپی دکھائی ہوتی ہے، جبکہ دیگر لوگوں کو یہ اشتہارات نظر نہیں آتے جن کی اشتہار پسند کرنے کے امکانات نہ ہو۔

ٹارگیٹڈ اشتہارات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کمپنیاں اپنی رقم صرف ان لوگوں کو اشتہارات دِکھانے پر خرچ کرتی ہیں جنہوں نے بقلم خود لائیک کے بٹنوں پر کلک کر کر کے اور تصاویر شیئر کر کر کے انجانے میں یہ اعلان کر دیا ہوتا ہے کہ وہ ان چیزوں میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔یہ ٹی وی یا کیبل پر دکھائے گئے اشتہارات سے زیادہ بہتر نتائج دیتے ہیں کیونکہ ٹی وی، اخبار یا ریڈیو وغیرہ پر صرف مخصوص افراد کے لئے اشتہار چلانا ممکن نہیں ۔ ان پر چلنے والا اشتہار سب دیکھتے ہیں ۔فیس بک کی ٹارگیٹڈ اشتہارات کی اس مثال کو آپ ایسی کئی مشابہ صورتحالوں پر لاگو کر سکتے ہیں ، مثال کے طور پر اگر آپ کے شہر میں کسی نئے اسپتال کا افتتاح ہوا ہے اور وہ اسپتال اپنی ولادت کی خدمات کو مشتہر کرنا چاہتا ہے تو وہ فیس بک پر ایک اشتہاری مہم چلائے گا اور متوقع صارفین کے دقیق تر معیارات کا تعین کرے گا، مثلاً مشتہر چاہتا ہے کہ اس کا اشتہار صرف شادی شدہ، پڑھی لکھی اور زیادہ آمدنی رکھنے والی اور اسی شہر میں رہنے والی حاملہ خواتین کو دکھایا جائے۔

اب سوال یہ ہے کہ فیس بک پر موجود لاکھوں خواتین میں سے فیس بک کو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ ان معیارات پر کون سی خواتین پوری اترتی ہیں ؟ جواب ہے وہ مواد جو وہ فیس بک کو سونے کی طشتری میں رکھ کر خود پیش کرتی ہیں ، جب آب اپنی پروفائل میں اپنے رہنے کی جگہ، شادی کی تاریخ، تعلیمی قابلیت، کام کی نوعیت اور دیگر معلومات شامل کرتے ہیں تو یہ ساری معلومات ہدف کا مظہر ہوتی ہیں ۔

آمدنی کے بنیادی ذرائع

2008ء میں اس طرح کے اشتہارات اور اس سے متعلقہ معلومات کی فروخت کمپنی کے کْل منافع کے ذرائع کا 98% فیصد تھا، مگر جیسا کہ اکثر سرمایہ کار کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’کبھی بھی سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہئے‘‘، فیس بک کے لئے آمدنی کے صرف ایک ذریعے پر انحصار خطرناک ثابت ہوسکتا تھا، چنانچہ….

1- فی کلک ادائیگی کے اشتہارات (PPC)

یہ بعینہ گوگل کے ایڈ ورڈز کا آئیڈیا ہے، اس طرح فیس بک مشتہرین اور ناشرین کو یکجا کرنے کا ایک پلیٹ فارم بن گیا اور ہر اشتہار پر فی کلک کے حساب سے اپنی آمدنی کھری کرنے لگا….

2-اسپانسر کے اشتہارات

اس طریقے کو صرف بڑی کمپنیاں اپناتی ہیں اور صرف اپنے صفحے تک ہی لاگو کرتی ہیں مثلاً جرمنی کی ایک گاڑیاں بنانے والی کمپنی کم آمدنی والے افراد کے لیے مناسب قیمت پر ایک کار پیش کرنے والی ہے جو ایندھن کم خرچ کرے گی اور اس میں گنجائش زیادہ ہو گی وغیرہ۔کمپنی یہ اسپانسر اشتہار اپنے صفحے پر اس طرح دے گی کہ ….

3- گفٹ شاپ

انتہائی سادہ سا آئیڈیا ہے اور انفرادی طور پر اتنا مہنگا بھی نہیں تاہم اس سے ضخیم رقوم پیدا کی جاسکتی ہے اگر صارفین کی بہت بڑی تعداد اس پر عمل کرے، مثال کے طور پر آپ اپنے دوست، بیوی، بچوں کو کام پر یا کسی موقع پر ایک (تصوراتی) تحفہ ارسال کرتے ہیں – جبکہ امریکا میں اصلی تحفوں کا آپشن بھی موجود ہے ۔ مگر

4- تصوراتی رقم یا فیس بک کا پیسہ

فیس بک پر گیمز کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس حوالے سے بھی کمائی کا ایک طریقہ نکال لیا گیا ہے۔ فارم ویلا نامی مشہور گیم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے کھیلنے والوں کی تعداد امریکہ میں موجود اصل کسانوں کی تعداد سے تجاوز کر چکی ہے۔ جبکہ فارم ویلا جیسے سینکڑوں گیم فیس پر ہر روز لاکھوں لوگ کھیلتے ہیں ۔ اس لئے کمائی کا ایک ہدف ویڈیو گیم کے شائقین ہیں جو گیمز میں بہت ہی اعلی مرحلوں تک پہنچ جاتے ہیں ۔ ایسے Appsموجود ہیں جو ان مراحل تک پہنچنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں یا……..

٭٭٭

(مکمل تحریر پڑھنے کے لیے کمپیوٹنگ شمارہ ستمبر 2012 ملاحظہ کیجیے)


 

اپنے لیپ ٹاپ کو ٹپ ٹاپ حالت میں کیسے رکھیں ؟

آج کل لیپ ٹاپ کا زمانہ ہے۔ قریباً 90 فیصد کالج کے طلباء کے پاس لیپ ٹاپ موجود ہے۔ اس کے علاوہ گھر اور دفاتر میں بھی لیپ ٹاپ کا استعمال بالکل عام ہو چکا ہے۔ لیپ ٹاپ ، پی سی کے مقابلے میں بیس فیصد کم بجلی استعمال کرتا تو ہر کوئی لیپ ٹاپ کیوں نہ لے۔ جب ہم پی سی کئی گنا مہنگا لیپ ٹاپ خریدتے ہیں تو ہمیں اس کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔ آئیے آپ کو چند مفید ٹپس دیتے ہیں ، جن کی مدد سے آپ اپنے لیپ ٹاپ کو بہترین حالت میں رکھ سکتے ہیں ۔

ہمیشہ ہموار اور سخت سطح پر رکھیں

لیپ ٹاپ کی خرابی کی اہم وجہ اسے سخت اور برابر یا ہموار سطح پر نہ رکھنا ہے۔ زیادہ تر ہم لیپ ٹاپ کو ٹانگوں پر، تکیے یا بیڈ پر رکھ کر استعمال کرتے ہیں ۔ غیر ہموار سطح پر لیپ ٹاپ رکھنے کی وجہ سے اس میں سے نکلنے والی گرم ہوا کا بہاؤ بند ہو جاتا ہے اور لیپ ٹاپ گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے لیپ ٹاپ کو ہمیشہ ہموار اور سخت سطح پر رکھیں تاکہ ہوا کا یہ بہاؤ متاثر نہ ہو۔ لیپ ٹاپ کو ٹانگوں پر رکھ کر استعمال کرنا انسانی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ لیپ ٹاپ رکھنے کا اسٹینڈ استعمال کیا جائے۔

مکمل آف کر کے بیگ میں رکھیں

لیپ ٹاپ کو شٹ ڈاؤن کرتے ہی فوراً ڈھکن بند کر کے بیگ میں مت ڈالیں ۔ ہارڈ ڈسک کو مکمل آف ہونے میں چند سیکنڈز درکار ہوتے ہیں اس لیے مکمل طور پر آف ہونے کے بعد ہی لیپ ٹاپ کو بیک پیک میں ڈالیں ۔

چارجنگ ہمیشہ لگی نہ رکھیں

ہر وقت چارج پر لگا کر لیپ ٹاپ استعمال کرنا اس کی بیٹری کو خراب کر دیتا ہے۔ جب بیٹری مکمل چارج ہو جائے تو اسے مکمل استعمال بھی کریں ۔ لیپ ٹاپ کی بیٹری کو بہترین حالت میں رکھنے کے لیے ہر پندرہ بیس دن کے بعد اسے مکمل طور پر استعمال کریں ۔ حتیٰ کہ بیٹری بالکل ختم ہو جائے اور لیپ ٹاپ آف ہو جائے۔ اس کے بعد لیپ ٹاپ کو چار سے پانچ گھنٹے تک استعمال مت کریں ۔ اس وقفے کے بعد لیپ ٹاپ کو ایک دفعہ مکمل چارج کریں ۔ چارجنگ ختم اور چارج کرنے کے دوران آپ لیپ ٹاپ کو استعمال کر سکتے ہیں ۔ یہ عمل جاری رکھنے سے لیپ ٹاپ کی بیٹری بہتری حالت میں رہتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ لیپ ٹاپ کو یا دیگر ڈیوائسز کو ہمیشہ چارج پر لگا رہنے سے بجلی کا بے انتہا زیاں ہوتا ہے۔ کیونکہ ڈیوائس کو مکمل چارج ہونے کے بعد مزید انرجی نہیں چاہیے ہوتی، جبکہ پلگ لگا ہونے کی وجہ سے مزید آنے والی چارجنگ صرف اور صرف ضائع ہو رہی ہوتی ہے۔

لیپ ٹاپ کی صفائی کریں

کچھ عرصے کے بعد لیپ ٹاپ کی صفائی بھی ضروری ہے۔ ہم جب اسے استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو اس میں دھول اور مٹی جا رہی ہوتی ہے۔ یہ دھول مٹی کی بورڈ کے نیچے جمع ہو کر کی بورڈ اور لیپ ٹاپ کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔ اس لیے اسے تیز ہوا یا کاٹن سے جتنا ہو سکے صاف کرتے رہیں ۔

شٹ ڈاؤن ضرور کریں

لیپ ٹاپ کا زیادہ استعمال کرنے والے اکثر اسے شٹ ڈاؤن نہیں کرتے بلکہ اسے ہمیشہ آن ہی رہنے دیتے ہیں ۔ اگر آپ اپنے لیپ ٹاپ کی کارکردگی کو بہتر رکھنا چاہتے ہیں تو جب یہ استعمال میں نہ ہو، اسے شٹ ڈاؤن کر دیں ۔

چوروں کے لیے تیار رہیں

اگر آپ لیپ ٹاپ کو سفر میں ساتھ رکھتے ہیں تو اس بات کے لیے تیار رہیں کہ یہ چوری بھی ہو سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیشہ اپنے لیپ ٹاپ کی حفاظت کریں ۔ اس کے بعد اگر کوئی انتہائی اہم ڈاکیومنٹ رکھنا ہے تو اسے اِنکرپٹ کر کے رکھیں ، تاکہ خدانخواستہ کسی حادثے کی صورت میں کسی دوسرے کے ہاتھ نہ لگ سکے۔ ایک اہم چیز لاگ اِن پاس ورڈ بھی ہے۔ ہمیشہ ونڈوز پر پاس ورڈ لگا کر رکھیں ، تاکہ غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رہے۔ یہ بات یقیناً آپ کو دلچسپ لگے گی کہ لیپ ٹاپس اتنی زیادہ تعداد میں موجود ہیں کہ دنیا میں ہر 53 سیکنڈز میں ایک لیپ ٹاپ چوری ہو رہا ہے۔

 

بیک اپ

لیپ ٹاپ پر موجود اپنے ڈیٹا کا ہمیشہ بیک اپ بنا کر رکھتے رہیں ۔ زیادہ تر لوگ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے، لیکن یہ چیز بہت اہم ہے۔ آج کل ایکسٹرنل ڈرائیوز بہت سستی ہو چکی ہیں ۔ بلکہ اب بڑی اسٹوریج کی حامل یو ایس بی فلیش ڈرائیوز سستے داموں دستیاب ہیں ۔ ایک یو ایس بی لے کر اپنا اہم ڈیٹا اس پر بیک اپ ضرور کرتے رہیں ۔

٭٭٭

(مکمل تفصیلی و با تصویر آرٹیکل کمپیوٹنگ شمارہ مارچ 2013 میں ملاحظہ کریں )

 

اے ایم ڈی (مائیکرو پروسیسرز بنانے والی ایک کمپنی)

AMDاے ایم ڈی دراصل ایڈوانس مائیکرو ڈیوائسس کا مخفف ہے اور یہ امریکی کمپنی، کمپیوٹر کے مائیکروپروسیسرز بنانے کے حوالے سے شہر ت رکھتی ہے۔ اس وقت اے ایم ڈی دنیا کی دوسری بڑی x86 پروسیسر بنانے والی کمپنی ہے۔ ساتھ ہی یہ non-volatile فلیش میموری بنانے والی سب سے بڑی کمپنی بھی ہے۔ دنیا کی 20 سب سے بڑی سیمی کنڈکٹر فروخت کرنے والی کمپنیوں میں اے ایم ڈی 3.9 بلین کے revenue کے ساتھ پندرہویں نمبر پر ہے۔

اس کمپنی کی بنیاد 1969ء میں فیئر چائلڈ سیمی کنڈکٹر سے علیحدہ ہونے والے چند دوستوں جن میں جیری سینڈیرس بھی شامل تھے، نے رکھی۔ اس کے موجودہ چیف ایگزیکٹیو آفیسر ’’ڈاکٹر ہیکٹر روئز‘‘ اور چیف آپریٹنگ آفیسر اور صدر ’’ڈِرک میئر‘‘ ہیں ۔

اے ایم ڈی نے اپنے آغاز کے ساتھ ہی لوجک چپس تیار کرنا شروع کر دی تھیں مگر میموری چپس کی تیاری 1975ء میں شروع کی گئی۔ اسی سال اے ایم ڈی نے ریورس انجینئرنگ کے ذریعے انٹل 8080 مائیکرو پروسیسر کی نقل بھی تیار کر لی۔ اس کے بعد اے ایم ڈی نے گرافکس اور آڈیو چپس کی تیاری میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی مگر اس میدان میں اے ایم ڈی کو کامیابی نہ مل سکی۔ اس ناکامی کے بعد اے ایم ڈی نے اپنی توجہ کامرکز intel Completable پروسیسر ز اور فلیش میموری چپس کو بنا لیا۔اس طرح اے ایم ڈی براہِ راست انٹل کا حریف بن گیا جو اس دور کی طرح آج بھی دنیا کی سب سے بڑی مائیکرو پروسیسر بنانے والی کمپنی ہے۔

فروری 1982ء میں اے ایم ڈی اور انٹل کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت 8086 اور 8080 مائیکرو پروسیسرز جو انٹل کے تیار کردہ تھے، اے ایم ڈی بھی تیار اور فروخت کرسکتا تھا۔ اس معاہدے کی وجہ آئی بی ایم تھا۔ آئی بی ایم 8080 پروسیسر کو اپنے پرسنل کمپیوٹرز میں استعمال کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اس وقت جو پالیسی یہ اپنائے ہوئے تھا اس کے تحت آئی بی ایم کو مائیکرو پروسیسرز کی فراہمی کے لئے کم از کم دو ماخذ (Source) درکار تھے۔

اے ایم ڈی نے انٹل سے معاہدے کے بعد 286 مائیکرو پروسیسر بھی تیار کئے مگر 1986 ء میں انٹل نے یہ معاہدہ توڑ دیا اور 386 پروسیسر کی تیکنیکی معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ اے ایم ڈی نے انٹل کے اس عمل کو عدالت میں چیلنج کر دیا اور ایک طویل قانونی جنگ کے بعد 1991ء میں سپریم کورٹ آف کیلیفورنیا نے اے ایم ڈی کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ اس فیصلے کے مطابق انٹل کو پابند کیا گیا کہ وہ اے ایم ڈی کو 1ارب ڈالر کی خطیر رقم بطور جرمانہ ادا کرے۔ ساتھ ہی اے ایم ڈی پر بھی کچھ پابندیاں لگائی گئیں ۔ جن میں سب سے اہم انٹل کے پروسیسرز کی Clean-Room ڈیزائن کرنا تھی۔ کلین روم ڈیزائن بھی دراصل ریورس انجینئرنگ ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس میں ایک ٹیم ’’کوڈ‘‘ کے کام کرنے کا طریقہ کار بیان کرتی ہے جبکہ دوسری ٹیم اس بیان کردہ طریقہ کار کے تحت اپنا کوڈ خود تیار کرتی ہے جو بالکل اصل کوڈ کی طرح کام کرتا ہے۔

1991ء میں اے ایم ڈی نے Am386 پروسیسر ریلیز کیا جو انٹل 80386 پروسیسر کا کلون تھا۔ یہ پروسیسر انتہائی کامیاب ثابت ہوا اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں اس کے دس لاکھ یونٹ فروخت ہو گئے۔ اس کامیابی کے بعد 1993ء میں اے ایم ڈی نے Am486 جاری کیا ۔ یہ بھی انٹل 486 کا کلون تھا اور Am386 کی طرح بہت کامیاب رہا۔ ان کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ ان کی انٹل کے پروسیسرز کے مقابلے میں کم قیمت تھی۔یہی وجہ تھی کہ تقریباً تمام اہم OEM کمپیوٹر بنانے والی کمپنیوں نے انٹل کے مقابلے میں اے ایم ڈی کے پروسیسرز کے استعمال کو ترجیح دی۔

انٹل کے پروسیسرز کی نقل تیار کرنے کا سلسلہ اے ایم ڈی کے لئے باعثِ شرمندگی بنا جارہا تھا اور اس کی وجہ سے انٹل کو ایک بڑے نقصان کا سامنا تھا۔ اے ایم ڈی ، انٹل کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہا مگر نقالی کی وجہ سے وہ انٹل سے ٹیکنالوجی کے مقابلے میں پیچھے ہی تھا۔

سپریم کورٹ آف کیلیفورنیا نے 1994 ء میں اے ایم ڈی سے انٹل کے 386 کوڈ کو استعمال کرنے کے حقوق سلب کر لئے۔ تاہم بعد میں انٹل اور اے ایم ڈی نے آپس میں ایک معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدے کی بیشتر تفصیلات آج تک خفیہ ہیں ۔ لیکن اس معاہدے نے اے ایم ڈی کو انٹل کے 286، 386 اور 486 کوڈ کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ اسی معاہدے کے تحت دونوں کمپنیاں ایک دوسرے کی تکنیکی کامیابیوں کو بالکل مفت استعمال کرسکتی تھیں ۔

اے ایم ڈی نے مکمل طور پر اپنا تیار کردہ پہلا پروسیسر K5 ، 1995ء میں ریلیز کیا تھا۔ اس پروسیسر کا نامK5 رکھنا بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ K5 میں K دراصل Kryptonite کا مخفف ہے۔ سپر مین پر لکھی گئی کہانیوں کے مطابق کریپٹونائٹ وہ واحد مادہ ہے جو سپر مین کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اے ایم ڈی کی سپر مین سے مراد انٹل تھی اور K5 انٹل کی برتری کو ختم کرنے کی ایک کوشش تھی۔

اے ایم ڈی کا یہ پروسیسر 1993ء میں ریلیز کئے گئے انٹل پنٹیئم پروسیسر کا براہِ راست حریف تھا۔ تاہم K5 کا آرکیٹیکچر ’’پنٹیئم پرو‘‘ جیسا تھا ۔ K5 میں کئی مسائل موجود تھے جن میں سب سے بڑا کلک اسپیڈ کا تھا جو اسکرین پر کچھ دکھائی دیتی تھی اور PR ریٹنگ میں کچھ بتائی جاتی تھی۔ K5 درحقیقت ایک بری طرح ڈیزائن کیا گیا پروسیسر تھا جس کی ڈائی کا سائز بہت بڑا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ K5 ایک ناکام پروسیسر ثابت ہوا۔

1996ء میں اے ایم ڈی نے NexGen نامی کمپنی خرید لی۔ یہ کمپنی پروسیسرز کی تیاری کے حوالے شہرت رکھتی تھی۔ NexGen کا اے ایم ڈی میں شامل ہو جانا اے ایم ڈی کے لئے بہت اہم ثابت ہوا۔ کیونکہ اس طرح اے ایم ڈی کو NexGen کے تیار کردہ Nx سیریز پروسیسرز استعمال کرنے کے حقوق بھی حاصل ہو گئے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ NexGen کے بانی انٹل کے پرانے ملازمین تھے۔

اے ایم ڈی نے NexGen کی ڈیزائن ٹیم کو ایک الگ عمارت فراہم کی اور انہیں Nx686 پروسیسر کو دوبارہ ڈیزائن کرنے کو کہا۔ اس کا نتیجہ 1997ء میں K6 پروسیسر کی صورت میں نکلا۔ K6پروسیسر میں بہت سی تبدیلیاں کی گئیں ۔ اس میں MMX اور فلوٹنگ پوائنٹ یونٹ شامل کر دیا گیا۔ ساتھ ہی اس پروسیسر کو  Socket-7 میں نصب ہونے کے قابل بنا دیا گیا۔ اس وقت بیشتر مدر بورڈز میں ساکٹ 7 ہی استعمال کی جا رہی تھی اور انٹل کے پینٹیئم پروسیسر بھی اسی ساکٹ میں نصب ہوتے تھے۔ کچھ عرصے بعد اے ایم ڈی نے K6 کو بہتر بناتے ہوئے K6-2 متعارف کروایا۔ K6-2 میں پہلی بار 3DNow! ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ مزید براں یہ پروسیسر نئی پروسیسر ساکٹ ’’سپر ساکٹ 7‘‘ میں نصب ہوتا تھا جس کی وجہ سے اس کی فرنٹ سائیڈ بس اسپیڈ 66 میگا ہرٹز سے بڑھ کر 100 میگا ہرٹز ہو گئی۔

K6 سیریز کا آخری پروسیسر K6-III جو 450 میگا ہرٹز کلاک اسپیڈ کا حامل تھا، یہ جنوری 1999 ء میں جاری کیا گیا۔ یہ پروسیسر انٹل کے اہم ترین پروسیسرز کے لئے ایک دھچکا ثابت ہوا۔ اس میں 256 کلو بائٹس کی L2 کیشے کور پر ہی نصب کر دی گئی تھی۔

K6 سیریز کے تمام پروسیسرز انٹل کے پروسیسرز کے مقابلے میں ہمیشہ کم تر ثابت ہوئے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اے ایم ڈی کی پروسیسر فیبری کیشن میں محدود صلاحیت تھی۔ ساتھ ہی انٹل اسٹینڈرڈز سے انحراف کی وجہ سے بھی اے ایم ڈی کی پروسیسر مارکیٹ میں بڑی جگہ نہ بنا سکے۔ لیکن K6 بہر حال ایک معروف سیریز ثابت ہوئی۔ اس کی وجہ شاید اس کی انٹل کے مقابلے میں کم قیمت تھی۔ انٹل نے بعد میں اے ایم ڈی کے سستے پروسیسرز کا جواب ’’سیلیورن‘‘ پروسیسرز کی صورت میں دیا جو انٹل کے دیگر پروسیسرز سے سستے تھے۔ مگر سیلیورن پروسیسرز انٹل کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکے اور اے ایم ڈی آج بھی سستے پروسیسرز کے معاملے میں سب سے آگے ہے۔

جلد ہی اے ایم ڈی کے بانی جیری سینڈریس نے محسوس کر لیا کہ اے ایم ڈی کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ اسٹریٹجی تبدیل کی جائے۔ اس لئے انہوں نے مشہور ’’ورچوئل گوریلا‘‘ اسٹریٹجی تیار کی۔ جس کے مطابق اسٹریٹیجک انڈسٹری پارٹنرز کو استعمال کرتے ہوئے اے ایم ڈی کو انٹل کے مقابلے پر لا کھڑا کیا جائے۔

اس اسٹریٹجی پر عمل درآمد کا بہترین نتیجہ Athlon/K7 کی صورت میں نکلا۔ اسے اگست 1999ء میں متعارف کروایا گیا۔ اس پروسیسر کا ڈیزائن بنانے والی ٹیم کے سربراہ ڈِرک میئر تھے جو Dec Alpha پروجیکٹ میں مرکزی انجینئر تھے۔ ایتھالون میں طاقتور فلوٹنگ پوائنٹ یونٹ استعمال کیا گیا۔ اپنے ابتدائی ڈیزائنوں میں ایتھالون کی کلاک اسپیڈ بے حد کم اور اس میں کئی تیکنیکی مسائل موجود تھے۔ لیکن جب یہ مارکیٹ میں متعارف کروایا گیا تو پوری مائیکروپروسیسرڈیزائن انڈسٹری میں حیرت کی لہر دوڑ گئی۔ کیونکہ اس کی کلاک اسپیڈ حیرت انگیز حد تک زیادہ یعنی 650 میگا ہرٹز تھی۔

ایتھالون کی ریلیز کے بعد انٹل میں ہلچل مچ گئی اور انہوں نے تیزی سے اپنے پروسیسرز کو بہتر بنانے کا کام شروع کر دیا۔ اس سے پہلے کے انٹل کوئی بڑی کامیابی حاصل کرتا، اے ایم ڈی نے مارچ 2000 ء میں دو نئے ایتھالون پروسیسرز جن کی کلاک اسپیڈ 900 میگا ہرٹز اور 1 گیگا ہرٹز تھی، متعارف کروا کر دنیا کو ایک بار پھر حیرت میں ڈال دیا۔ پہلی بار دنیا کو احساس ہوا کہ اے ایم ڈی پروسیسر فیبری کیشن میں انٹل کے مدِ مقابل آ کھڑا ہوا ہے۔

انٹل نے بھی کچھ دنوں بعد ایک گیگا ہرٹز پروسیسر جاری کیا مگر بڑی تعداد میں مارکیٹ میں پہنچانے کے لئے اسے کئی ماہ لگ گئے۔ اس کے مقابلے میں اے ایم ڈی بہت پہلے ایتھالون دنیا بھر میں پھیلا چکا تھا۔

بعد میں اے ایم ڈی نے ایتھالون کور پر مشتمل Duron پروسیسر بھی متعارف کروائے جو ایتھالون کے مقابلے میں کافی سستے تھے۔ اے ایم ڈی کی ٹیکنیکل اور مارکیٹنگ کامیابیوں نے مارکیٹ میں اے ایم ڈی کا شیئر بڑھا کر 23 فی صد کر دیا۔

ایتھالون کی چکا چوند کو اس وقت گرہن لگا جب انٹل نے پنٹیئم فور پروسیسر متعارف کروایا۔ اے ایم ڈی نے انٹل کے مقابلے میں ایتھالون ایکس پی جاری کیا مگر اس میں کوئی خاص تبدیلی سوائے بہتر کلاک اسپیڈ کے ، دیکھنے میں نہیں آئی۔ لیکن انٹل نے بعد میں پنٹیئم فور نارتھ وُڈ پروسیسر متعارف کروایا جس نے ایتھالون ایکس پی کو مقابلے سے بالکل باہر کر دیا۔

K8 یا AMD64 جو K7 آرکیٹیکچر میں بنیادی تبدیلیوں کے بعد بنایا گیا ہے، یہ پہلا 64 بِٹ پروسیسر تھا۔ اس پروسیسرز کے لئے تمام تر اسٹینڈرڈز اے ایم ڈی نے خود تیار کئے تھے اور ان اسٹینڈرڈز کو مائیکروسافٹ سمیت لینکس اور سن مائیکروسسٹمز نے بھی قبول کیا۔ اسے اے ایم ڈی کی سب سے بڑی کامیابی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اب انٹل کے لئے ضروری ہوچکا تھا کہ وہ 64 بِٹ پروسیسرز کی تیاری کے لئے اے ایم ڈی سے معاہدہ کرے۔

اے ایم ڈی نے K8 کا سرور ورژن آپٹرون بھی متعارف کروایا۔ یہ ورژن انٹل کے اٹانیئم آرکیٹیکچر کے مقابلے پر متعارف کروایا گیا تھا مگر اٹانیئم پروسیسرز کی ناکامی کے بعد آپٹرون براہِ راست انٹل زیون پروسیسرز کے مدِمقابل آگیا۔

21 اپریل 2005ء میں اے ایم ڈی نے دنیا کا پہلا x86 سرور پروسیسر جو دُہرے کورز پر مشتمل تھا، ریلیز کیا۔ بعد میں 31 مئی کو ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کے لئے پہلا دُہرے کورز والا پروسیسر Athlon 64 X2 متعارف کروایا گیا۔ انٹل کے دُہرے کور والے پروسیسرز میں پروسیسر کے ایک پیکج میں دو مختلف چپس پر کورز موجود ہوتی ہیں ، جبکہ اے ایم ڈی کے دُہرے کور والے پروسیسر میں ایک ہی چِپ پر دونوں کورز موجود ہوتی ہیں ۔ انٹل کے ڈیزائن میں اگرچہ بہت سے خوبیاں موجود ہیں مگر دونوں کورز کے درمیان کمیونی کیشن بہرحال اے ایم ڈی پروسیسرز کے کورز کے مقابلے میں سست ہے۔

18مئی 2006ء کو Dell نے اعلان کیا کہ وہ 2006 کے آخر تک آپٹرون پروسیسرز پر مشتمل سرورز متعارف کروائے گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ڈیل اور انٹل کا طویل تعلق بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ اے ایم ڈی کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس وقت پرفارمنس کے لحاظ سے اے ایم ڈی کے پروسیسرز پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہیں ۔ سرور سسٹمز میں ان کی کارکردگی انٹل سے بھی بہتر بتائی جاتی ہے۔

٭٭٭

(یہ تحریر ماہنامہ کمپیوٹنگ شمارہ اپریل 2007 میں شائع ہوئی تھی)

 

لینکس کیا ہے؟ الف تا ی مکمل تفصیل

ہیکر Hacker Linux-logoکون ہے؟

ہیکر کے لفظی معنی ہیں بہت سمجھدار۔ یہ اصطلاح گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں رائج ہوئی۔ یہ اصل میں MIT کے ایک گروپ کا نام تھا جنہیں ’’ما بعد البنیادیات‘‘ پڑھایا جاتا تھا۔ یہ اُس کا لقب ہوتا جو کسی مسئلے کا حل دریافت کر لے، یا کسی مسئلے کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے اس سے آگاہ کر دے تاکہ نقصانات سے بچا جاسکے، لیکن ابلاغ عامہ نے اس لفظ کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسے معلومات کے مجرموں (جو مختلف طریقوں سے شہرت حاصل کرنے یا منافع حاصل کرنے کے لئے معلومات کی چوری کرتے ہیں اور کوئی بھی مفید یا نئی چیز دریافت نہیں کرتے) پر لاگو کر دیا اور انہیں ہیکر کہنے لگے، کچھ لوگوں کو بے چارے اصل ہیکروں کی یہ توہین پسند نہیں آئی اور انہوں نے ان تخریب کاروں کے لئے کریکر cracker کی اصطلاح وضع کر دی جو ابھی تک دونوں فریقین میں تفریق کے لئے مستعمل ہے، چنانچہ ہیکر اصل میں وہ نہیں جنہیں ہم ہیکر سمجھتے ہیں ، بلکہ وہ اصل میں کریکر ہیں ۔

لیکن افسوس کہ ہمارا میڈیا (بلکہ ہمارے نصاب کے کرتا دھرتا بھی) اس سب سے بالکل انجان بیٹھے ہیں ۔

 

یونکس Unix سسٹم کیا ہے؟

N

مثبت معنوں میں اسے اکثر ہیکر دوست (Hackers Friendly) سسٹم کہا جاتا ہے، لیکن رسمی طور پر کوئی بھی نظام (آپریٹنگ سسٹم) جو POSIX کے معیارات پر پورا اترے وہ یونکس کہلائے گا۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ کوئی ایک نظام نہیں ہے، یہ معیارات اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ بنایا گیا کوئی بھی پروگرام POSIX کے معیارات پر پورا اترنے والے ہر سسٹم پر کام کرے گا، ان سسٹمز کی باقاعدہ شروعات ستر کی دہائیوں میں ہوئی جب بیل لیبس (اس کا بل گیٹس سے کوئی تعلق نہیں !)کے کِن تھامسن اور رچی نے 1973ء میں پہلا یونکس آپریٹنگ سسٹم بنایا۔ یہ پہلا یونکس آپریٹنگ سسٹم بعد میں AT&T کو فروخت کر دیا گیا۔ یہ اس قدر مقبول ہوا کہ اس کے لئے سپورٹ فراہم کرنا ایک مشکل امر بن گیا۔ چنانچہ AT&T نے اس کا مصدر (سورس کوڈ) یونیورسٹیوں ، تحقیقی  مراکز اور غیر تجارتی مقاصد کے لئے فراہم کر دیا۔ چنانچہ مصدر کے ہوتے ہوئے سپورٹ فراہم کرنے کی کوئی ضرورت نہ رہی (صرف V سسٹم کے لئے اور وہ بھی غیر آزاد لائسنس کے تحت یعنی یہ اب بھی AT&T ہی کی ملکیت ہے اور کسی کو بھی اس میں بغیر اجازت کے تبدیلی کرنے کی اجازت نہیں )۔

یہ سسٹم C لینگویج میں لکھا گیا تاکہ اس کی ہر قسم کے کمپیوٹرز پر چلنے کی ضمانت دی جاسکے اور یہ ہارڈویئر سے بالکل الگ رہتے ہوئے کام کرسکے۔ یہ خصوصیات اس کے پانچویں ورژن میں تھیں جسے سسٹم وی بھی کہا جاتا ہے۔ بعد میں اس سے ملتے جلتے سسٹم کئی مختلف کمپنیوں نے نکالے، لیکن اس سے سب سے زیادہ مشابہ سسٹم BSD ہے یعنی برکلے سافٹ ویئر ڈسٹری بیوشن ۔اس کے بعد POSIX کے معیارات وضع کئے گئے جس کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے تاکہ ایک ایسا متفقہ معیار وضع کیا جاسکے جس کے اندر رہتے ہوئے تمام کمپنیاں اس پر کام کر سکیں ۔ یونکس کے مختلف ورژن مختلف کمپنیوں نے مختلف ناموں سے جاری کئے ہیں جیسےAIX، HP/UX، SunOS، Solaris، SCO Unix وغیرہ۔

مگر یہ سسٹم بہت مہنگے تھے۔ چنانچہ ان کا استعمال تحقیقی مراکز، جامعات اور عسکری اداروں تک ہی محدود رہا، اگرچہ اب یہ سسٹم کافی پرانے ہو گئے ہیں مگر یہ شروع ہی سے بہت ساری خصوصیات کے حامل رہے ہیں ۔ ان سسٹمز پر اس وقت بھی ایک سے زائد یوزر کام کرسکتے تھے اور یہ بذریعہ نیٹ ورک بھی ایک دوسرے سے منسلک تھے (انٹرنیٹ پروٹوکول کی دریافت سے بھی پہلے ) اور بہت زیادہ محفوظ بھی تھے۔ ان کے مقابلے میں سستے سسٹم بھی دستیاب تھے جو یونکس کی اصل خصوصیات سے بالکل عاری تھے۔ یہ سسٹم گھریلو استعمال کے لئے بازاروں میں عام دستیاب تھے مگر یہ  POSIX کے معیارات پر پورا نہیں اترتے تھے اور اصل یونکس کے مقابلے میں ان کی حیثیت ایک ’’کیلکولیٹر‘‘ سے زیادہ نہیں تھی۔

گِنو (GNU) سسٹم کیا ہے؟

GNUجی ہاں … اسے گِنو ہی پڑھا جاتا ہے جو کہ ایک جانور کا نام ہے اور جو اس کا لوگو بھی ہے اور یہ مخفف ہے GNU is not Unix کا۔ یعنی گِنو یونکس نہیں ہے۔ چنانچہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ GNU نہ صرف یونکس کا متبادل ہے (زیادہ صحیح معنوں میں یونکس کے ٹولز) بلکہ یونکس (بہت طاقتور مشینوں کو چلانے والا نظام جسے صرف ملک ہی خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں اور جس کا استعمال Non Disclosure Agreement سے مشروط ہے)کے فلسفے کا بھی۔ گِنو کے بانی MIT کے پروفیسر رچرڈ سٹالمین ہیں جو مذکورہ انسٹی ٹیوٹ میں مصنوعی ذہانت کے پروفیسر ہیں ۔ اس آزاد مصدر نظام کو بنانے کا خیال انہیں 80 کی دہائی میں آیا جو ایک ٹیکسٹ ایڈیٹر EMACS سے شروع ہوا، پھر انہوں نے FSF آرگنائزیشن بنانے کے لئے فراغت حاصل کی اور پوری دنیا سے ہزاروں پروگرامرز نے یہ نظام بنانے کے لئے ان کی آواز پر لبیک کہا۔ مگر یہ پروجیکٹ آپریٹنگ سسٹم کا کرنل (kernel) بنانے کے لئے نہیں تھا بلکہ صرف سسٹم کے ٹولز جیسے ٹیکسٹ ایڈیٹر بنانے کے لئے تھا۔

لینکس Linux سسٹم کیا ہے؟

یہ اصل میں یونکس سے Compatible نظام کا کرنل ہے، جو نہ ہی یونکس کے پانچویں ورژن یعنی سسٹم وی سے بنایا گیا ہے اور نہ ہی اسے بنانے میں BSD سے استفادہ کیا گیا ہے۔ بلکہ اسے بالکل صفر سے لکھا گیا ہے۔ یہ نظام نہ صرف مفت ہے بلکہ آزاد مصدر بھی ہے یعنی آپ اس میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں کرنے اور اسے اپنے حساب سے ترقی دینے اور بنانے میں بالکل آزاد ہیں اور وہ بھی بغیر کسی کی اجازت لئے۔

اس نظام کو فِن لینڈ کے لینس ٹوروالڈز نے 1991ء میں اس وقت شروع کیا جب وہ HELSINKI یونیورسٹی میں ایک طالبعلم تھے۔ ان کی تمنا تھی کہ ان کے پاس بھی اپنے گھر کے کمپیوٹر میں یونکس سسٹم ہو۔ چنانچہ انہوں نے یونکس کے ابتدائی مراحل کو پڑھ کر ایک ایسا مکمل آپریٹنگ سسٹم صفر سے لکھنا شروع کیا جو نہ صرف عام آپریٹنگ سسٹمز پر فوقیت رکھتا ہو بلکہ یونکس کے دوسرے سسٹمز پر بھی۔ انہوں نے ایک بنیادی ورژن تیار کر ہی لیا جس کے بعد انہوں نے تمام فائلیں انٹرنیٹ پر رکھ کر لینکس کرنل پروجیکٹ شروع کیا۔ سب سے پہلا کرنل 1994ء میں جاری کیا گیا اور آج دنیا بھر سے ایک ہزار سے زائد پروگرامرز ان کے اس پروجیکٹ میں شامل ہو کر صرف کرنل پر کام کر رہے ہیں ۔

اس سسٹم کا نام یعنی Linux کو دو الفاظ کے ابتدائی حروف کو جوڑ کر بنایا گیا ہے۔ پہلا لفظ LINUSہے جو اس سسٹم کے بانی کا نام ہے۔ اس لفظ میں سے تین ابتدائی حروف یعنی LIN منتخب کئے گئے ہیں ۔ دوسرا لفظ Unix کا مخفف یعنی UX لیا گیا۔ اس طرح لفظ LINUX تشکیل پاتا ہے۔

لینکس ایک طرح سے اوپن سورس تحریک کی ناک ہے جس پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ لینکس POSIX کے تمام معیارات پر پورا اترتا ہے۔ لیکن یہ کبھی بھی اس کے لئے لائسنس کی فیس ادا نہیں کرے گا کیونکہ گِنو کا فلسفہ UNIX کی نقل نہیں بلکہ اس کا متبادل پیش کرنا ہے۔ گِنو فلسفہ یہ ہے کہ اچھا پیش کیا جائے چاہے وہ یونکس ہو یا نہ ہو۔

 

آزادسافٹ ویئر کیا ہیں ؟

یہ فکری ملکیت کی حفاظت کا ایک طریقہ کار ہے جو معلومات کو چھپانے پر یقین نہیں رکھتا بلکہ اسے نشر کرنے اور پھیلانے پر زور دیتا ہے۔ یہ آئیڈیا فری سافٹ ویئر فاؤنڈیشن کے بانی پروفیسر رچرڈ کا ہے۔ چنانچہ آزاد سافٹ ویئر کا مطلب ہے کہ کوئی بھی ان سافٹ ویئر کا مصدر یعنی سورس کوڈ حاصل کرسکتاہے، بلا روک ٹوک اس کی کاپیاں بنا سکتا ہے، اسے مفت تقسیم کرسکتا ہے بلکہ فروخت بھی کرسکتا ہے۔

کیا صرف لینکس ہی ایک آزاد مصدر نظام ہے؟

نہیں ، بہت سارے نظام ہیں ، مثال کے طور پر:

FreeBSD    NetBSD        OpenBSD

اور ان کے علاوہ بھی لیکن لینکس ان میں سب سے زیادہ شہرت رکھتا ہے، سب سے زیادہ ہارڈویئر کو سپورٹ کرتا ہے اور سب سے زیادہ کمیونٹی سپورٹ رکھتا ہے۔

یہ ونڈوز کی طرح آسان ہے یا ڈاس کی طرح مشکل؟

یہ ایک لچکدار سسٹم ہے۔ یہ مشکل ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ اگر آپ KDE استعمال کریں تو یہ خوبصورتی میں ونڈوز کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ آپ تمام مینیو شفاف کرسکتے ہیں اور تمام بٹن بہت خوبصورت انداز میں سیٹ کرسکتے ہیں ۔ اگر آپ اسے کسی بہت ہی پرانے کمپیوٹر پر چلانا چاہتے ہیں جسے آپ پھینکنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے تھے تو یہ اس پر بھی ممکن ہے۔ حقیقت میں جب ہم آپریٹنگ سسٹم کی بات کرتے ہیں ، تو اصل میں ہم اس پروگرام کی بات کر رہے ہوتے ہیں جو دوسرے ایپلی کیشن پروگرامز اور مادی مشینوں (ہارڈویئر) کے بیچ میں ایک تہہ کی طرح ہوتا ہے اور ان دونوں کی ایک دوسرے تک رسائی آسان بناتا ہے، یا بعض اوقات (سیکورٹی کے حوالے سے) روکتا بھی ہے۔ رہی بات انسانی عنصر سے نمٹنے کی تو یہ آپریٹنگ سسٹم کا کام نہیں ہے بلکہ ایپلی کیشن پروگرامز کا کام ہے۔ لیکن اس مکسنگ کی وجہ یہ ہے کہ تجارتی آپریٹنگ سسٹم شروع سے ہی ایسے پروگراموں اور انٹرفیس کے ساتھ آتے ہیں جنہیں دیکھ کر صارف یہ سمجھتا ہے کہ یہی آپریٹنگ سسٹم ہے۔ چنانچہ وہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا لینکس کے بھی گرافیکل انٹرفیس اور پروگرام استعمال میں آسان ہیں ؟ جواب یقیناً ہاں میں ہے۔ لینکس کے ہزاروں بلکہ لاکھوں ایپلی کیشن پروگرامز اور گرافیکل انٹرفیس ہیں ۔

کیا مجھے ہر پروگرام الگ سے حاصل کرنا ہو گا؟

نہیں ، یہاں ڈسٹری بیوشن کا کام شروع ہوتا ہے۔ لینکس کی ڈسٹری بیوشنز مختلف کمپنیاں تیار کرتی ہیں جیسے ریڈ ہیٹ، مینڈریوا، ڈیبین وغیرہ۔ یہ ڈسٹری بیوشنز سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان میں لینکس کے ساتھ ساتھ اس پر کام کرنے والے ہزاروں سافٹ ویئر (2000 سے 8000سافٹ ویئر پیکج) بھی مفت دستیاب ہوتے ہیں ۔

اس کی خوبیاں کیا ہیں ؟

اس کی خوبیاں مندرجہ ذیل ہیں :

٭… مضبوط، محفوظ، تیز رفتار اور موثوق۔

٭…بنیاد سے ہی اسے نیٹ ورک نظام پر چلنے کے قابل بنایا گیا ہے۔

٭…انتہائی کم خرچ۔

٭…مفت / آزاد مصدر اور GPL کے تحت انسانیت کی ملکیت۔

٭…خود کو بنانے کی استطاعت (Self-Contained)

٭… گزشتہ ورژن اور ہارڈ ویئر سے compitablity

٭…ونڈوز کے برعکس well-documented

٭…دنیا کے تمام معروف معیارات پر پورا اترتا ہے جیسے POSIX، ANSI، ISO۔

٭…Unicode کے معیارات پر پورا اترنے کی وجہ سے عالمی ہے اور دنیا کی بیشتر زبانیں سپورٹ کرتا ہے۔

٭…وائرس اور ٹروجنز جاسوسوں سے بالکل خالی۔

٭…حقیقی 32 بِٹ (یا اس سے اعلی) سسٹم۔

٭…لاکھوں مفت سافٹ ویئر آپ کے انتظار میں ۔

٭…گھریلو کمپیوٹر پر آپ کو UNIX کا ماحول دیتا ہے۔

٭…بڑی اور تاریخی کمپنیوں کی طرف سے سپورٹ شدہ ہے جیسے IBM اور HP۔

 

کیا ونڈوز 32 بِٹ کا سسٹم نہیں ہے؟

نہیں ، وہ صرف ایسا نظر آتا ہے۔ اگر آپ کسی سلو پرنٹر سے پرنٹ کر رہے ہوں ، کسی پرانی سی ڈی سے کوئی دستاویز پڑھ رہے ہوں ، کوئی بڑی فائل کاپی کر رہے ہوں ، یا 500 میگابائٹ فائل ایکسٹریکٹ کر رہے ہوں تو اس کے نتیجے میں سارا سسٹم Slow ہو کر ہینگ ہو جائے گا اور کینسل کا بٹن کام کرنا چھوڑ دے گا جب تک کہ مطلوبہ عمل مکمل نہ ہو۔ اس کی وجہ ونڈوز کا BIOS کے نظام پر انحصار کرنا ہے جو کئی دہائیوں پہلے بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ونڈوز دو مراحل سے گزر کر اسٹارٹ ہوتی ہے۔پہلا مرحلہ 16 بِٹ میں autoexec.bat کی عمل کاری ہے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں ونڈوز 32 بٹ پر منتقل ہوتی ہے۔

ونڈوز کے ہوتے ہوئے مجھے لینکس کی کیا ضرورت؟

٭… ونڈوز کا کم محفوظ ہونا۔ اس میں جاسوس ایپلی کیشنز اور سیکورٹی ہولز کی بھرمار ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ونڈوز پر کام کرنے والے 70% کمپیوٹرز وائرس اور ٹروجنز کا شکار رہتے ہیں ۔

٭… فکری ملکیت کے حقوق اور EULA۔

٭… کسی خاص معیار کا پابند نہیں ہے۔ اگر کسی کمپنی پر انہیں غصہ آجائے تو اس کے سافٹ ویئر ونڈوز پر چلنا بند ہو جاتے ہیں جیساکہ AOL کے ساتھ ایکس پی کی ریلیز کے وقت ہوا۔

٭… ضروری نہیں کہ پرانے سافٹ ویئر نئے سسٹم پر چلیں جیسا کہ ونڈوز 98 کے اکثر سافٹ ویئر ایکس پی پر نہیں چلتے۔

٭… سسٹم کا بار بار بلا وجہ منجمد ہونا اور بار ایرر ریٹرن کرنا۔

٭… ہمیشہ آپ کو مزید سافٹ ویئر خریدنے پر اکسایا جاتا ہے۔

٭… سپورٹ طلب کرنے پر یا کسی قسم کی شکایت کرنے پر آپ کو کہا جاتا ہے کہ نئی پراڈکٹ خرید لیں … یہ وائرس ہوسکتا ہے … دوبارہ ڈاون لوڈ کریں … حتیٰ کہ آپ پر بے وقوف ہونے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ آپ نے سسٹم صحیح طریقے سے بند نہیں کیا یا آپ کو مزید میموری کی ضرورت ہے۔

٭… مفت سافٹ ویئر کی قلت (عموماً تجرباتی سافٹ ویئر) اور علمی پروجیکٹس کی قلت۔

٭… بڑے اور طویل پروجیکٹس کے لئے نا موزوں ۔

٭… حکومتی سطح کے خفیہ پروجیکٹس کے لئے انتہائی ناموزوں ، کیونکہ آپ کو اس بات کا قطعی یقین نہیں ہوسکتا کہ یہ مطلوبہ کام کر رہا ہے کیونکہ اس کا سورس کوڈ دستیاب نہیں اور اگر کسی اور لائسنس کے تحت دستیاب ہوبھی جائے تو آپ اسے نہ تو نشر کرسکتے ہیں اور نہ ہی ماہرین کو جانچ کے لئے دے سکتے ہیں ۔

٭… ایک خفیہ دستاویز میں مائیکروسافٹ نے خود اعتراف کیا ہے کہ لینکس اس کے ونڈوز آپریٹنگ سسٹم سے بہتر ہے، یہ دستاویز halloween کے نام سے مشہور ہے ۔

فکری ملکیت کے حقوق کی کسے فکر ہے!! اور EULA کیا ہے…؟

وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے بیشتر ممالک عالمی آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط کر کے اس میں شامل ہوتے جارہے ہیں جو فکری ملکیت کے حقوق کی سختی سے پابندی کرواتا ہے اور چوری شْدہ سافٹ ویئر کی نا جائز فروخت کو روکنے کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ چنانچہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب چوری شدہ سافٹ ویئر کی سستے داموں فروخت ممکن نہیں رہے گی اور اگر آپ ان سافٹ ویئر کے ساتھ پکڑے جاتے ہیں تو آپ کا کوئی بھی بہانہ EULA کی وجہ سے نا قابلِ قبول ہو گا:

…یہ سسٹم کے ساتھ آیا تھا۔

…میں نے کچھ کاپی نہیں کیا۔

… میرے دوست کے پاس لائسنس شدہ کاپی ہے اور میں نے مستعار لی ہے۔

… دکاندار نے کہا تھا کہ یہ اصلی ہے۔

غرض کہ کوئی بھی بہانہ قابلِ قبول نہیں ہو گا اور آپ کو مجوزہ جرمانہ اور سزا مل کر رہے گی۔ اب بات کرتے ہیں کہ EULA کیا ہے۔ یہ سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی اور صارف کے درمیان ایک ’’زبردستی‘‘ کا ایگریمنٹ یا معاہدہ ہے جسے اکثر لوگ بغیر پڑھے قبول کر کے ونڈوز اور اسے کے تمام سافٹ ویئر انسٹال کرتے ہیں ۔ اس کے مطابق کمپنی آپ کوسافٹ ویئر نہیں بیچتی بلکہ آپ کو پیسوں کے بدلے میں اسے صرف استعمال کرنے کا محدود حق دیتی ہے۔ اس کے چند شرائط یہ ہیں :

٭… سافٹ ویئر کو استعمال کرتے ہی آپ پیسے واپس لینے کے حق سے محروم ہو جاتے ہیں چاہے سافٹ ویئر آپ کے معیار پر پورا اُترے یا نہیں جبکہ ایگریمنٹ آپ کوسافٹ ویئر نصب کرنے پر دکھایا جاتا ہے۔

٭… سافٹ ویئر کا استعمال صرف استعمال کی حد تک ہی محدود ہے، آپ اسے analysis یا عکسی انجینئرنگ کے لئے استعمال نہیں کرسکتے (یہ شِق یورپی یونین کے قوانین کے بر خلاف ہے)۔

٭… اگر آپ سے اس کا سیریل یا کوڈ گْم ہو جاتا ہے تو بیشتر مواقع پر آپ کو اسے دوبارہ خریدنا ہو گا۔

٭… ایک بڑی رقم ادا کر کے خریدنے کے باوجود کسی قسم کی ذمہ داری نہیں لی جاتی ہے اور نقصان کی کوئی ضمانت نہیں ۔

٭… اگر ونڈوز میں کوئی مسئلہ ہو جائے تو مائیکروسافٹ کو ہی یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرے … لائسنس چھین کر آپ کے پیسے واپس کر دے یا سابقہ سی ڈیز کو اسی مسئلہ پر مشتمل دوسری سی ڈیز سے بدل دے۔

٭… اگر آپ کو ایگریمنٹ منظور ہے تو آپ رجسٹرڈ صارف کہلائیں گے ورنہ ’’کریکر‘‘۔

٭… غیر قانونی استعمال پر آپ کو نہ صرف لائسنس کی فیس ادا کرنی ہو گی بلکہ کمپنی اور ملک کا نام بدنام کرنے کا ہرجانہ بھی ادا کرنا ہو گا ۔

میرا نہیں خیال کہ وہ اتنی شدت سے اس پر عمل درآمد کرواتے ہوں گے!

اس کی وجہ عالمی آزاد تجارت کے معاہدے میں ’’چھوٹ‘‘ کی مدت ہے، یا ایک سازش تاکہ یہ مہنگے آپریٹنگ سسٹم ہمارے تعلیمی نصاب، اداروں اور یونیورسٹیوں میں گھر کر جائیں اور جب واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہے گا تو پھر وہ اپنی ’’ضربِ کاری‘‘ لگائیں گے۔ نوٹ کریں کہ چھوٹی سی کسی دکان سے لے کر یونیورسٹیوں تک سب ہی جگہ ونڈوز استعمال ہوتی ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ چند روپوں میں سافٹ ویئر کی فروخت جاری رہے گی تو یہ خیال دل سے نکال دیں ۔

لینکس کا لائسنس کیا ہے؟

لینکس کا لائسنس GPL کہلاتا ہے یعنی جنرل پبلک لائسنس جس کے تحت آپ کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔ آپ کو کسی قسم کی کوئی فیس ادا نہیں کرنی ہوتی۔ آپ سا فٹ ویئر میں ہر قسم کی تبدیلی کرنے، کاپی کرنے، حتیٰ کہ فروخت کرنے تک میں آزاد ہیں ۔ سافٹ ویئر کو عکسی انجینئرنگ کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ اس لائسنس کے تمام سافٹ ویئر کا مصدر یعنی سورس کوڈ دستیاب ہوتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ چونکہ تجارتی کمپنیوں کے سافٹ ویئر کے سورس کوڈ دستیاب نہیں ہوتے اس لئے وہ یہ پروپیگنڈا کرتی ہیں کہ چونکہ سورس کوڈ دستیاب نہیں اس لئے تخریب کار (کریکر) ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ کریکر نہیں جانتے کہ ان کا سافٹ ویئر کیسے کام کرتا ہے۔ حقیقتِ حال اس سے بالکل برعکس ہے۔ انٹرنیٹ پر تجارتی سافٹ ویئر کے Cracks عام ملتے ہیں جو اس بات کو غلط ثابت کرتے ہیں اور تجارتی سافٹ ویئر کی کمزوری ظاہر کرتے ہیں ۔ اوپن سورس سافٹ ویئر میں اگر ایسی کوئی خرابی پائی بھی جاتی ہے تو وہ نہ صرف جلدی دریافت ہو جاتی ہے بلکہ دور بھی کر دی جاتی ہے۔

یونکس کے ایک ماہر رے مونڈ ایریک کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک طویل سوال و جواب پر مشتمل مقالہ (FAQ) لکھا تھا جس میں انہوں نے صارف کی ضرورت اور بجٹ کے مطابق تجارتی سسٹم خریدنے کے بارے میں ہدایات لکھی تھیں اور وہ کون سی خصوصیات ہیں جن کا جانناسافٹ ویئر کی خرید سے پہلے صارف کے لئے لازمی ہے، لیکن لینکس کے معرض وجود میں آنے کے بعد وہ کہتے ہیں :

Times change, industries evolve, and I can now replace that FAQ with just three words: ‘Go get Linux!’

کیا لینکس قابلِ بھروسہ ہے؟

جی ہاں ، لینکس پر حساس ترین کام سر انجام دینے کے لئے بھروسہ کیا جاسکتا ہے، لینکس کی بعض ڈسٹری بیوشنز کو امریکی وزارتِ دفاع DoD کی سند حاصل ہے۔ عملی تجربات بتاتے ہیں کہ کسی غلطی کی دریافت کے بعد اس کی تصحیح کرنا (اور مفت پیچ فراہم کرنا) لینکس میں صرف 5 منٹ سے 3 دن کا وقت درکار ہوتا ہے، مثال کے طور پر بعض CPU میں FDEV_BUG کے مسئلہ کو صرف تین دن میں حل کر لیا گیا (حل یہ تھا کہ لینکس کا کرنل وہ حسابات بھی کرسکے جس میں پراسیسر غلطی کر جاتا ہے) جبکہ دوسرے آپریٹنگ سسٹم استعمال کرنے والوں کو ایک سال انتظار کرنا پڑا تب کہیں جا کر انٹل نے صرف مسئلے کا ہی اعتراف کیا…!!

 

کیا یہ آپریٹنگ سسٹم پھیلے گا؟

دنیا کی بہت ساری بڑی کمپنیاں اس سسٹم کو استعمال کرتی ہیں ، مثال کے طور پر IBM اس کو باقاعدہ سپورٹ کرتی ہے حالانکہ لینکس اس کے سسٹم AIX کا حریف ہے۔ اسی طرح Intel بھی GNU C Compiler کو سپورٹ کرتی ہے۔ Oracle نے بھی اپنی ایک لینکس ڈسٹری بیوشن بنائی ہے اور سن مائیکرو سسٹمز نے بھی اپنی ٹیکنالوجی ’’جاوا‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے لینکس پر مبنی ایک آپریٹنگ سسٹم بنایا ہے اور اب وہ لینکس کے لئے 3D انٹرفیس بنانے پر کام کر رہے ہیں ۔ اسی طرح دنیا کی بڑی بڑی اور مشہور ویب سائٹس کے سرورز بھی لینکس پر چل رہے ہیں جیسے google وغیرہ۔ جبکہ آزاد مصدر اپاچی سرور امیزون اور یاہو جیسی عظیم ویب سائٹس پر مستعمل ہے۔

بہت سے ممالک بھی اپنے حساس کام سرانجام دینے کے لئے لینکس استعمال کرتے ہیں ۔اس کی مثال امریکہ کے قومی سلامتی کے ادارے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی دی جاسکتی ہے جو سیکورٹی کے حوالے سے اپنی ایک الگ لینکس ڈسٹری بیوشن پر کام کر رہے ہیں جو Selinuxکہلاتی ہے۔ اسی طرح بہت سارے ممالک بھی اپنے سرکاری اداروں میں لینکس کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں جیسے کوریا، اسپین، جرمنی وغیرہ۔ یورپ میں تو لینکس ایک وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے، یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ فری سافٹ ویئر فاؤنڈیشن کو یونیسکو کی حمایت حاصل ہے۔

گھر اور دفتر میں اس سے کس طرح استفادہ کیا جاسکتا ہے؟

لینکس کی تقریباً ہر ڈسٹری بیوشن کے ساتھ 2000 سے 8000سافٹ ویئر مفت فراہم کیے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ لاکھوں سافٹ ویئر انٹرنیٹ پر آپ کے منتظر ہیں ، ویڈیو پلیئر، بھانت بھانت کے ٹیکسٹ ایڈیٹرز اور ویب براؤزرز سے لے کر نیٹ ورک اور پروگرامنگ کے ٹولز، اعلیٰ تعلیمی سافٹ ویئر اور تھری ڈی گرافکس ڈیزائننگ سافٹ ویئر تک ہر چیز دستیاب ہے۔ غرض کہ آپ ہر وہ سافٹ ویئر کھول سکتے ہیں جس کے بارے میں آپ نے سن رکھا ہے اور وہ بھی جن کا آپ کو نام تک نہیں معلوم …!

غریبوں کا آپریٹنگ سسٹم

UNIX اور اس سے مشتق یا ملتے جلتے دوسرے سسٹمز سرور یا بطور مرکزی نظام کے کام کرنے کے یقیناً اہل ہیں مگر یہ بہت زیادہ مہنگی مشینوں پر کام کرتے ہیں (یونکس سسٹم کی اپنی قیمت اس کے علاوہ ہے) جبکہ لینکس کو کسی بھی مشین پر چلایا جاسکتا ہے، اس مقصد کے لئے SMP ٹیکنالوجی سب سے بہترین حل ہے جس میں ایک ہی مشین پر کئی پراسیسر لگائے جاتے ہیں جس سے مشین کی رفتار نہ صرف دیو ہیکل Mainframe جیسی ہو جاتی ہے بلکہ بہت سستی بھی پڑتی ہے (جبکہ سسٹم بھی مفت ہے) یا کلسٹر نیٹ ورک ٹیکنالوجی جس میں کئی مشینوں کو ایک ساتھ جوڑا جاتا ہے جو ایک ہی دیو ہیکل مشین جیسا برتاؤ کرتے ہیں ۔ اس طرح غریب ممالک اعلیٰ سے اعلیٰ ٹیکنالوجی بچوں کے کھلونوں کے دام حاصل کرسکتے ہیں ۔

غریب ممالک جو پہلے ہی اپنے معاشی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہوتے ہیں ، یونکس اور اس کے قابل کمپیوٹر خریدنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ صرف اوپن سورس تحریک ہی ایسے غریب ممالک کا آخری سہارا ہے۔

کیا یہ بات قابلِ افسوس نہیں کہ ایڈز سے متاثرہ بہت سے غریب افریقی ممالک ایڈز کی ادویات بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مہنگے داموں یہ ادویات یورپی ممالک سے خریدنے پر مجبور ہیں ۔ اس کی وجہ صرف اتنی سی ہے کہ یہ ادویات کاپی رائٹ ہیں اور ان کو بنانے کے حقوق چند کمپنیوں کے پاس ہیں ۔ اگر یہ ادویات ’’اوپن سورس‘‘ہوتیں تو شاید ایڈز کا پھیلاؤ اتنا نہ ہوتا جتنا آج ہے۔

٭٭٭

(ماہنامہ کمپیوٹنگ شمارہ اپریل 2007 سے اقتباس)

بلاگنگ کیا ہے اور مفت بلاگ کیسے بنائیں

 new-blogger-vs-wordpressبلاگنگ کا تاریخی پس منظر

بلاگ انگریزی کے دو لفظوں web and log سے مل کر بنا ہے جو ایسی ویب سائٹس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں معلومات کو تاریخ وار رکھا جاتا ہے۔

ویب لاگ (weblog) کا لفظ جان بارگر (Jorn Barger) نے پہلی دفعہ 1997ء میں استعمال کیا تھا جو robotwisdom.com نامی ویب لاگ سائٹ چلا رہے ہیں ۔ اس کے بعد لفظ بلاگ کو پیٹر مرہولز(Peter Merholz) نے مزاحیہ انداز میں لفظ ’’ویب لاگ‘‘ کو توڑ کر we blog کے طور پر استعمال کیا اور یہیں سے پھر لفظ ’’بلاگ‘‘ مشہور ہو گیا۔

Xanga نامی سائٹ، جو بلاگنگ میں ایک بڑا نام ہے، پر 1998 ء تک صرف 100 بلاگ تھے مگر 2005ء تک 20 ملین سے تجاوز کر چکے تھے۔ اس کے بعد لاتعداد دوسرے بلاگ ہوسٹنگ ٹولز میدان میں آئے اور بلاگنگ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اوپن ڈائری بلاگنگ نے سب سے پہلے صارفین کو کسی بھی بلاگ پر تبصرہ کرنے کی سہولت فراہم کی جو بہت کامیاب رہی۔

لائیو جرنل ایک اور مفت اور مشہور بلاگنگ سروس ہے جو پرائیوٹ جرنل ، بلاگ ، ڈسکشن فورمز اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ بنانے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ 1999ء سے اب تک ایک کروڑ چالیس لاکھ سے زائد بلاگز اور کمیونٹیز بن چکی ہیں ۔ لائیو جرنل پر آپ کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ آپ اپنے موبائل فون سے بھی بلاگ پوسٹ کر سکتے ہیں ۔

ایک دو سال پہلے تک بلاگز صرف تحاریر پر مشتمل ہوتے تھے، مگر اب بلاگنگ صرف تحریروں تک محدود نہیں رہی بلکہ فوٹو بلا گ ، اسکیچ بلاگ، ویڈیو بلاگ ، میوزک بلاگ، آڈیو (پوڈ کاسٹ) کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہوچکا ہے اور یہ سب اب انٹرنیٹ کا ایک بڑا حصہ بن چکے ہیں ۔

بلاگنگ کیوں ؟

بلاگنگ بلاشبہ اس وقت انٹرنیٹ کی اہم ترین سرگرمی شمار کی جاتی ہے۔ لاکھوں لوگ اپنے بلاگز لکھتے یا دوسروں کے بلاگ پڑھتے ہیں اور یہ ایک جنون کی طرح انٹرنیٹ پر پھیلاتا ہی چلا جا رہا ہے۔ سینکڑوں بلاگنگ ٹولز کی بدولت یہ کام از حد آسان ہو چکا ہے۔ مزید براں ، مختلف ڈیوائسس کے استعمال سے بلاگنگ کو بھی بڑے پیمانے پر فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر بلاگنگ کی ہی کیوں جاتی ہے؟

اس سے پہلے آئیے دیکھتے ہیں کہ بلاگز کے بارے میں مختلف آراء کیا ہیں ۔

’’گوگل بلاگر‘‘ جو اس وقت شاید بلاگنگ کا سب سے بڑا مرکز ہے کہ مطابق ’’ بلاگ آپ کی ذاتی ڈائری ہے، آپ کے دن بھر کی مصروفیت کی ڈائری، ایک جگہ جہاں آپ رابطے پیدا کرتے ہیں ، ایک ماخذ جہاں سے اہم ترین خبریں نکلتی ہیں ، روابط کا ذخیرہ اور آپ کے ذاتی خیالات ۔‘‘

یہ انسانی فطر ت ہے کہ وہ اپنی دریافت، ایجاد اور خیالات دوسروں بتانا چاہتا ہے۔ وہ اپنی سوچ سے دوسرے کو سوچتے دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وہ جستجو ہے جو لوگوں کو بلاگز لکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ کیوں کہ بلاگ ہی وہ جگہ ہے جہاں وہ اپنے خیالات، اپنی دریافتیں ، اپنے منصوبے کھُل کر بیان کرسکتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں انہیں بلاگ کی صورت میں ایک دنیا مل جاتی ہے جہاں وہ حکومت کرتے ہیں ۔

بہت سی کمپنیاں اپنے ملازمین کو بلاگز لکھنے کی ترغیب دیتی ہیں ۔ مائیکروسافٹ کے سیکڑوں ملازمین باقاعدگی سے بلاگ لکھتے ہیں ۔ یہی حال دیگر اہم کمپنیوں کا ہے جن کے ملازمین اپنے بلاگز میں اپنے اہم تجربات اور مشاہدات بیان کر کے اپنے قارئین کی رہنمائی کرتے ہیں ۔

بلاگز کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ سیاست کا ایک اہم اوزار بن چکے ہیں ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ترقی یافتہ اقوام کی بہت سی سیاسی شخصیتیں اپنے بلاگز لکھتی ہیں ۔ بلاگز کی سیاسی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں بھی ایک مشہور بلاگنگ سروس ـ ’’بلاگر‘‘ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اسی طرح دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی یہ صورتِ حال دیکھنے میں آتی رہتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ عہدیداران ہوں یا کسی یونی ورسٹی کے محققین، فلمی ستارے ہوں یا ذرائع ابلاغ سے منسلک لوگ، بلاگز سب کی ضرورت بن چکے ہیں ۔

بلاگز اتنے مشہور ہو چکے ہیں کہ اب یہ پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بھی بن چکے ہیں ۔ شاید ہی کوئی ایسا مشہور بلاگ ہو جسے آپ اشتہارات سے پاک دیکھیں ۔ لوگوں میں دوسروں کے بلاگ پڑھنے کا رجحان، اپنے بلاگ لکھنے سے بھی زیادہ ہے۔ اس لئے بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پوری ویب سائٹ کے مقابلے میں اسی سائٹ پر موجود کسی مخصوص بلاگ کے ملاحظہ کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس لئے ایسے بلاگز پر اشتہارات لگا کر ان کی شہرت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ جبکہ گوگل ایڈسنس کے اشتہارات تو آپ کو تقریباً ہر چھوٹے بڑے بلاگ پر نظر آتے ہی رہتے ہیں ۔

بلاگ کیسے بنائے جاتے ہیں ؟

بلاگ دو طرح سے بنائے جاسکتے ہیں ۔ اول یا تو آپ کسی بلاگ ہوسٹنگ فراہم کرنے والے ویب سائٹ پر رجسٹریشن کروا کر اپنا بلاگ لکھیں ۔ جبکہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ اپنا ڈومین نیم اور ویب ہوسٹنگ خریدیں اور پھر کسی بلاگنگ ٹول کو ویب سائٹ پر انسٹال کر کے اپنا بلاگ بنا لیں ۔

مشہور بلاگ ہوسٹنگ پرووائیڈرز میں سب سے آگے گوگل کا بلاگر (Blogger) یا بلاگ سپاٹ (Blogspot) نظر آتا ہے۔ یہ بات بھی یقیناً دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ گوگل نے بلاگز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر بلاگر کو خرید لیا تھا۔ بلاگر بہت مقبول سروس ہے۔ یہ بلاگز کے لئے بہت سے مفت ٹیمپلیٹس فراہم کرتی ہے جنھیں اپنی ضرورت کے حساب سے تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ بھی بلاگر پر اپنا مفت بلاگ بنانا چاہتے ہیں تو بلاگر کی ویب سائٹ وزٹ کریں :

www.blogger.com

مووایبل ٹائپ (Movable Type)

موو ایبل ٹائپ بھی ایک مشہور بلاگنگ سروس ہے۔ شروع میں مووایبل ٹائپ کی سروس مفت تھی لیکن بعد میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد اس کی فیس مقرر دی گئی۔ موو ایبل دو طرح کی بلاگنگ کا انتخاب دیتی ہے۔ اول آپ اپنا بلاگ موو ایبل ٹائپ کی سائٹ پر بنا لیں ، دوم ان کا سافٹ ویئر لے کر اپنی سائٹ پر نصب کر دیں ۔ شروع میں مووایبل ٹائپ کی سروس مفت تھی لیکن بعد میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد اس کی فیس مقرر کر دی گئی۔ تاہم حال ہی میں انہوں نے اپنا سافٹ ویئر آزاد مصدر کر دیا ہے۔ اب آپ مفت میں مووایبل ٹائپ ڈاؤن لوڈ کر کے اپنی سائٹ پر نصب کر سکتے ہیں ۔ تاہم مووایبل ٹائپ کی سائٹ پر بلاگ بنانے کی صورت میں آپ کو فیس ادا کرنی ہو گی۔ مووایبل ٹائپ 2002ء تک سب سے مشہور بلاگنگ سروس تھی لیکن فیس مقرر کرنے کے بعد یہ میدان ورڈپریس نے مار لیا۔ بی بی سی اُردو بلاگز اسی سروس پر مشتمل ہیں

http://www.movabletype.org

ورڈپریس (WordPress)

ورڈ پریس ایک اور بہت مشہور سروس ہے اور بلاشبہ اس وقت بلاگنگ کی دنیا میں مقبول ترین بلاگنگ سروسز میں شمار کی جاتی ہے۔  اپنے بے شمار دلکش تھیمز اور پلگ اِنز کی مدد سے آپ اپنی سائٹ کو بلاگ سے لے کر کسی خبروں کی ویب سائٹ یا پھر کوئی اور شکل دے سکتے ہیں ۔ مووایبل ٹائپ کی طرح ورڈپریس بھی دو طرح کی بلاگنگ کا انتخاب دیتی ہے۔ ورڈپریس کی سب سے بڑی خوبی اس کی لچکدار ساخت ہے۔

ورڈپریس کو دنیا کی ہر تحریری زبان میں باآسانی ڈھالا جا سکتا ہے۔ آزاد مصدر ہونے کے سبب اس کے مسائل کے لیے مناسب سپورٹ بالکل مفت ورڈپریس کی سائٹ پر دستیاب ہے، جہاں دنیا بھر سے ورڈپریس کے صارفین باہمی تعاون سے منٹوں میں آپ کے مسائل حل کر دیتے ہیں ۔

ورڈ پریس کا بلاگنگ ٹول جو پی ایچ پی میں بنایا گیا ہے، ایک آزاد مصدر پروگرام ہے، جسے باآسانی کسی بھی ویب سائٹ پر انسٹال کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ اپنی ویب سائٹ بلاگ بنانا چاہتے ہیں تو ورڈ پریس ہی آپ کا اولین انتخاب ہونا چاہئے۔ پی ایچ پی میں بنائے جانے کی وجہ سے یہ ونڈوز اور لینکس دونوں طرح کی ہوسٹنگ پر چلایا جاسکتاہے۔

http://wordpress.com

 اُردو بلاگنگ

بلاگنگ کی اس تیز رفتار ترقی نے اُردو کو بھی متاثر کیا، دیر سے سہی مگر اُردو کمیونٹی نے اس بات کا ادراک کیا کہ بلاگنگ کی دنیا میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سال 2005ء میں اُردو بلاگرز سامنے آنا شروع ہوئے اور پھر انہی اُردو بلاگرز کی بدولت انٹرنیٹ پر تحریری اُردو کی مکمل ویب سائٹس منظرِ عام پر آئیں ۔ آج اردو بلاگرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

٭٭٭

(ماہنامہ کمپیوٹنگ نومبر 2007 کے شمارے سے اقتباس)

ایپل

Apple+Incایپل اِن کارپوریشن جو کہ پہلے ایپل کمپیوٹر اِن کارپوریشن کہلاتی تھی، ایک امریکی بین الاقوامی کمپنی ہے۔اس کا ہیڈ کوارٹر Cupertinoکیلی فورنیا میں ہے۔ ایپل کی مصنوعات میں کنزیومر الیکٹرانکس، کمپیوٹر کے سافٹ وئیر اور پرسنل کمپیوٹر کی ڈیزائننگ، تیاری اور فروخت شامل ہیں ۔ اپیل کی بہترین مصنوعات میں میک کمپیوٹرز، آئی پوڈ میوزک پلیئرز، آئی فون اسمارٹ فونز اور آئی پیڈ ٹیبلٹ کمپیوٹر شامل ہیں ۔ ایپل کے شہرت یافتہ سافٹ وئیرز میں OS X اور iOS آپریٹنگ سسٹم، آئی ٹیون میڈیا براؤزر، سفاری ویب براؤزر، آئی لائف (iLife) اور آئی ورک (iWork) جیسے تخلیق کاری اور پروڈکشن  کے پروگرام شامل ہیں ۔

ایپل کی بنیاد یکم اپریل 1976ء کو رکھی گئی اور اسے ایپل کمپیوٹر اِن کارپوریشن کے نام سے3جنوری 1977ء کور رجسٹرڈ کرایا گیا۔ کمپنی کے نام میں سے لفظ ’’کمپیوٹر‘‘ کو 9جنوری 2007ء کو حذف کیا گیا۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی تھی کہ اب ایپل اِن کارپوریشن نے اپنی توجہ کا مرکز کمپیوٹر سے زیادہ دوسری کنزیومر الیکٹرونکس کو بنا لیا ہے۔ اس لیے آئی فون کو متعارف کرانے کے بعد کمپنی نے اپنا نام بھی تبدیل کر لیا ۔ایپل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں آمدن کے لحاظ سے سام سنگ الیکٹرونکس کے بعد دنیا کی دوسری بڑی کمپنی ہے۔ موبائل فون بنانے کے حوالے سے سام سنگ اور نوکیا کے بعد ایپل دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ فورچون میگزین (Fortune Magazine) کے مطابق 2008ء سے2012ء تک ایپل دنیا کی Most Admired کمپنی رہی ہے۔گزشتہ سال ایک ایسا موقع بھی آیا جب ایپل کے پاس امریکی حکومت سے زیادہ کیش موجود تھا۔ تاہم ایپل پر بہت سے حوالوں جیسا کہ کنٹریکٹر لیبر پریکٹس ، کام کرنے کے ماحول اور بزنس پریکٹس کے حوالے سے تنقید بھی کی جاتی ہے۔

نومبر 2012ء تک ایپل کے 14 ممالک میں 394 ریٹیل اسٹور تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آن لائن ایپل اسٹور اور آئی ٹیون اسٹور بھی ایپل چلا رہا ہے۔ جنوری 2013ء میں مارکیٹ کیپیٹلائزیشن کے اعتبار سے ایپل دنیا کی دوسری بڑی کمپنی تھی جس کی مالیت تقریباً 414 ارب امریکی ڈالرز تھی۔ 29ستمبر 2012ء کو ایپل کمپنی کے دنیا بھر میں 72,800 مستقل کُل وقتی اور 3,300 عارضی کُل وقتی ملازمین کام کر رہے تھے۔ 2012ء میں ایپل کی آمدن 156ارب امریکی ڈالر رہی۔

ایپل کی تاریخ

٭ 1976تا1980: بنیاد اور اِن کارپوریشن

ایپل کی وہ پہلی پروڈکٹ جو بنا کر بیچی گئی، ایک سرکٹ بورڈ تھا جس میں کی بورڈ، کیسنگ اور مانیٹر وغیرہ کچھ نہیں تھے۔ اس کے مالک نے اس میں کی بورڈ اور لکڑی کے کیس کا اضافہ کیا۔

ایپل کی بنیاد یکم اپریل 1976ء کو اسٹیو جابز، اسٹیو ووزنیاک (Steve Wozniak) اور رونالڈ وائن نے رکھی۔ شروع میں ایپل صرف  Apple I کے نام سے پرسنل کمپیوٹر کٹ بنا کر فروخت کرتی تھی۔ یہ کٹ اسٹیو ووزنیاک ہاتھ سے خود بناتا تھا۔ پہلی بار یہ کٹ عوام میں ہوم بریو کمپیوٹر کلب میں متعارف کرائی گئیں ۔ Apple I بطور مدر بورڈ کے فروخت کیا گیا جس میں بنیادی سی پی یو، ریم اور ٹیکسٹ کو دکھانے کے لیے ویڈیو چپ بھی ہوتی تھی۔ Apple I جولائی 1976ء میں فروخت کے لیے پیش کیا گیا۔ اس کی قیمت اُس وقت 666.66 امریکی ڈالرز تھی جو آج کے حساب سے 2,723 ڈالرز بنتی ہے۔ ایپل کو 3جنوری 1977ء کو رجسٹرڈ کرایا گیا۔ رجسٹرڈ کراتے وقت رونالڈ وائن کمپنی میں شامل نہیں تھا۔ اُس نے اپنا حصہ 800 ڈالر میں اسٹیو اور ووزنیاک کو فروخت کر دیا تھا۔ اس کو رجسٹرڈ کراتے وقت مائک مارکولا (Mike Markkula) نے، جو ایک بہت بڑے کاروباری ادارے کے مالک تھے، ایپل کو فنی معاونت اور تقریباً ڈھائی لاکھ ڈالر سرمایہ فراہم کیا۔

16اپریل 1977ء کو ویسٹ کوسٹ کمپیوٹر فیئر میں Apple II کو متعارف کرایا گیا۔ یہ اپنے حریفوں TRS-80 اورCommodore PET سے اپنی خصوصیات جیسا کہ سیل بیسڈ کلر گرافکس اور اوپن آرکیٹکچر کی وجہ سے کافی مختلف تھا۔اس کے پہلے ماڈلز میں عام کیسٹ ٹیپ کو اسٹوریج کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جسے بعد میں 5 1/4 انچ کی فلاپی ڈسک ڈرائیو نے تبدیل کیا۔ Apple II کو ڈیسک ٹاپ پلیٹ فارم کے لیے ایک انتہائی کامیاب پروگرام  VisiCalc  کو چلانے کے لیے منتخب کیا گیا۔ VisiCalc ایک اسپریڈ شیٹ پروگرام تھا جس نے  Apple II کو کاروباری مارکیٹ میں داخل کیا اور گھریلو صارفین بھی اس کی وجہ سے اس قابل ہوئے کہ اپنے کمپیوٹر کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں ۔ ایپل کے ساتھ جب تک VisiCalc ایپلی کیشن آتی رہی یہ Commodore اور Tandy کے بعد تیسرے نمبر پر رہا۔ 1970ء کی دہائی کے آخر میں ایپل کے پاس اسٹاف میں کمپیوٹر ڈیزائنر اور پروڈکشن لائن سب کچھ تھا۔ مئی 1980ء میں ایپل نے مائیکروسافٹ اور آئی بی ایم سے بزنس اور کارپوریٹ کمپیوٹنگ میں مقابلہ کرنے کے لیے Apple III کو متعارف کرایا مگر اس کی یہ کوشش کچھ زیادہ کامیاب نہ رہی۔ دسمبر1979ء میں ایپل کے مالکان اور بہت سے ملازمین نے Xerox کیPARC فیکٹری کا دورہ کیا۔ اُن کا مقصد Xerox Alto کو دیکھنا تھا۔ Xerox نے ایپل کے انجینئرز کو تین دن کے لیے اپنی فیکٹری کا دورہ کرنے کی اجازت اس شرط پر دی کہ وہ ایپل کے ایک لاکھ شیئرز دس ڈالر فی شیئر کے حساب سے آئی پی او سے پہلے خرید سکے گا۔ جابز اس وجہ سے فوراً رضامند ہو گیا کہ مستقبل کے تمام کمپیوٹر گرافکس یوزر انٹر فیس استعمال کر یں گے اورApple Lisa کے لیے گرافیکل یوزر انٹرفیس کی تیاری کا کام شروع ہو گیا۔ 12دسمبر 1980ء کو ایپل پبلک لمیٹڈ ہو گیا۔ اس کے شیئر کی قیمت 22ڈالر فی شیئر تھی۔ آئی پی او (Initial Public Offering) کی وجہ سے اس کے پاس زبردست سرمایہ جمع ہو گیا۔ اس سے پہلے فورڈ موٹر کمپنی ہی وہ کمپنی تھی جس میں اس قدر سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ اسی طرح ان اقدام سے تقریباً 300 لوگ ایک دم لکھ پتی ہو گئے جو ماضی میں یک دم کبھی نہ ہوا تھا۔

Steve-Jobsاسٹیو جابز 24 فروری 1955ء کیلی فورنیا میں عبدالفتاح جندلی اور جوعین کارول کے یہاں پیدا ہوا۔ دونوں چونکہ شادی شدہ نہیں تھے اس لئے انہیں اپنا بچہ ایڈاپشن کے لئے پیش کرنا پڑا۔ بقول عبدالفتاح کہ جوعین کے گھر والے ان کے اس رشتے سے خوش نہیں تھے لہٰذا انہیں یہ قدم اٹھانا پڑا۔ اسٹیوجابز کو ایک غریب خاندان پال جابز اور کارلا جابز نے گود لے لیا۔ جابز کی ماں کارلا جابز نے اسے اسکول جانے سے پہلے پڑھنا سکھا دیا تھا لیکن وہ کبھی بھی پڑھائی میں اچھا نہیں تھا۔ اس کے ماں باپ نے اس کی حقیقی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے اچھے کالج میں پڑھائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے Reed کالج میں داخل کرایا گیا جس کا خرچہ کارلا اور ان کے شوہر پال جابز بمشکل تمام پورا کر پاتے تھے۔

اسٹیو جابز کا بچپن اور زیادہ تر جوانی کا عرصہ محرومیوں اور ذہنی دباؤ کا شکار رہا۔ اسے عدم توجہی کی وجہ سے کالج سے بھی نکال دیا گیا اور وہ دربدر کے دھکے کھانے پر مجبور ہو گیا۔ اس نے کئی معمولی نوکریاں کیں ۔ حتیٰ کہ وہ ہندؤں کے ایک مندر سے مفت کھانا بھی کھاتا رہا۔ 1971ء میں اسٹیو جابز کے دوست Bill Fernandez نے اسے اپنے دوست Wozniak سے متعارف کروایا جس نے 1976ء میں تن تنہا Apple 1 کمپیوٹر تیار کر لیا تھا۔ یہی اسٹیو جابز کی ترقی کا آغاز تھا۔ اس کے بعد اسٹیو جابز نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا اور وہ وقت بھی آگیا جب کوک کی خالی بوتلیں جمع کر کے گزارا کرنے والا امریکہ کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہو گیا۔

اکتوبر 2003ء میں تشخیص ہوئی کہ اسے کینسر ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس نے ایپل میں اپنے رو زمرہ کے کاموں سے ہاتھ نہیں کھینچا اور بلآخر 5اکتوبر 2011ء کو اپنے گھر میں اس جہاں فانی سے کوچ کرگیا۔ اسٹیو کی پوری زندگی محنت اور مشقت سے بھری پڑی ہے۔ اس نے دنیا کو سکھایا کہ چھوٹے آدمی کو بڑے کام کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

٭ 1981تا1985 :  Lisa اورMacintosh

ایپل کی تشہیر فلم ’’1984‘‘ جو جارج اورول کے ناول ’’نائینٹین ایٹی فور‘‘ سے ماخوذ تھی، کے ذریعے ایپل نے میکینٹوش کمپیوٹر متعارف کراویا۔ اسٹیو جابز نے ایپل لیزا پر 1978ء میں کام کرنا شروع کیا مگر 1982ء میں لیزا پر کام کرنے والی ٹیم سے جھگڑے کے بعد اسے ٹیم سے الگ کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے جیف راسکن کے کم قیمت کے کمپیوٹر پروجیکٹ ’’میکینٹوش‘‘ پر کام شروع کر دیا۔ پھر تو جیسے لیزا پروجیکٹ ٹیم اور میکینٹوش پروجیکٹ ٹیم کے درمیان ریس ہی شروع ہو گئی کہ کون سی ٹیم اپنا کمپیوٹر بنا کر مارکیٹ میں پہلے لے کر آتی ہے۔

لیزا ٹیم یہ ریس جیت گئی اور 1983ء میں لیزا کو عوام میں فروخت کے لیے پیش کر دیا گیا۔ یہ پہلا پرسنل کمپیوٹر تھا جو گرافیکل یوزر انٹرفیس کے ساتھ تھا۔ کاروباری طور پر لیزا فلاپ ثابت ہوا کیونکہ ایک تو اس کی قیمت بہت زیادہ تھی دوسرا اس میں چلنے والے سافٹ وئیر کافی محدود تھے۔

اس کے ایک سال بعد یعنی 1984ء میں میکینٹوش کو ریلیز کیا گیا۔ اس کی ریلیز کا اعلان پندرہ لاکھ ڈالر کی مالیت سے تیار کی گئی کمرشل ’’1984‘‘ سے کیا گیا، جسے Ridley Scott نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس اشتہار کو22جنوری 1984ء کو Super Bowl XVIII کے تھرڈ کوارٹر میں دکھا یا گیا۔ اس کمرشل نے ایپل کی کامیابی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ میکینٹوش شروع میں تو بہت زیادہ فروخت ہوا مگر اس کے بعد اس کی فروخت میں کافی کمی واقع ہوئی جس کی وجوہات بھی وہی تھیں جس کی وجہ سے لیزا فلاپ ہوا، یعنی زیادہ قیمت اور مخصوص سافٹ وئیر۔

کچھ ہی عرصے بعد جبLaserWriter جو کہ ایک پوسٹ اسکرپٹ لیزر پرنٹر تھا اور بہت کم قیمت بھی، متعارف کروایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی PageMaker نامی مشہور زمانہ سافٹ ویئر بھی مارکیٹ میں پیش کر دیا گیا۔ اس سے پہلے میکینٹوش تو تھا ہی جس میں اس وقت کے حساب سے کافی اچھی گرافکس سپورٹ تھی لہٰذا ان تینوں مصنوعات نے مل کر ڈیسک ٹاپ پبلشنگ کی بنیاد رکھی اور اس مارکیٹ پر راج کرنے لگیں ۔آج سے چند سال پہلے تک ایپل کی شہرت ڈیسک ٹاپ پبلشنگ کے حوالے سے ہی تھی۔ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی باری تو کئی دہائیوں بعد آئی ہے۔

1985ء میں اسٹیو جابز اور کمپنی کے سی ای او جان سکولے(John Sculley)، جسے دو سال پہلے ہی کمپنی میں ملازم رکھا گیا تھا، کے درمیان اختیارات کا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے سی ای او کو ہدایات دیں کہ وہ اسٹیو جابز کو قابو میں رکھے۔ اسٹیو جابز نے سکولے کی ہدایات پر کان دھرنے کے بجائے اسے ہی ایپل سے فارغ کرنے کی کوشش کی۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سکولے نے بورڈ میٹنگ بلائی۔ اس میٹنگ میں بورڈ آف ڈائریکٹرز نے سی ای او کی طرف داری کی اور جابز کو اس کے انتظامی عہدے سے فارغ کر دیا۔ اس کے بعد اسٹیو جابز بدظن ہو گیا اور ایپل سے مستعفی ہوکر ایک نئی کمپنی NeXT Inc کی بنیاد رکھی۔

٭ 1986تا1997:  زوال

1989ء میں ایپل نے میکینٹوش پورٹیبل لانچ کیا۔ اسے اس طرح ڈیزائن کیا گیا تھا کہ وہ کام تو ڈیسک ٹاپ میکینٹوش جیسا کرتا تھا مگر اس کا وزن صرف 7.5کلو گرام تھا اور اس کی بیٹری ٹائمنگ 12 گھنٹے تھی۔ میکینٹوش پورٹیبل کے بعد 1991ء میں ایپل نے پاور بُک (PowerBook) متعارف کرایا۔ اسی سال ایپل نے System 7 متعارف کرایا جس سے آپریٹنگ سسٹم میں بہت بڑی تبدیلی آئی۔ سسٹم سیون سے انٹرفیس بھی رنگین ہو گیا اور نیٹ ورکنگ کی نئی سہولیات بھی آپریٹنگ سسٹم میں شامل ہو گئیں ۔

پاور بک اور دوسری مصنوعات کی کامیابی سے ایپل کو بہت فائدہ ہوا۔ ایپل نئی نئی مصنوعات بناتا رہا اور نفع کماتا رہا۔ ایک میگزین میک ایڈکٹ (MacAddict) نے 1989ء سے 1991ء تک کے عرصے کو میکینٹوش کا پہلا سنہرا دور کہا ہے۔

میکینٹوش کی کامیابی کے بعد ایپل نے کمپیوٹر کی دوسری سیریز بھی متعارف کرائی جن میں Centris، Quadra اور Performa شامل ہیں جو کہ بہت سے سافٹ وئیر اور کنفگریشن کے ساتھ دستیاب تھے۔ مقابلے بازی سے بچنے کے لیے یہ کمپیوٹر بہت سے ریٹیل آؤٹ لٹ جیسے Sears،  Price Club اور Wal-Mart پر فروخت کے لیے پیش کیے گئے۔اس طرح ایک ساتھ بہت سے ماڈل پیش کرنے پر ایپل کو یہ نقصان ہوا کہ صارفین ان بہت سے ماڈلز میں فرق کو صحیح طور پر نہ جان سکے۔

اس وقت کے دوران ایپل نے بہت سی ناکام مصنوعات جیسے ڈیجیٹل کیمرہ، پورٹیبل سی ڈی آڈیو پلیئر، اسپیکرز، ویڈیو کنسولز اور ٹی وی اپلائنسز پر تجربات کئے۔ ان تمام مصنوعات پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی گئی مگر اس کے باوجود ایپل کے اسٹاک کی قیمتیں مسلسل گرتی ہی رہیں ۔

ایپل نے جب دیکھا کہ Apple II سیریز کے کمپیوٹر بنانا کافی مہنگا پڑ رہا تو ایپل نے میکینٹوش کو ایک اضافی سلاٹ کے ساتھ ریلیز کیا جس کی مدد سے Apple II کے صارفین میکینٹوش پر منتقل ہو سکتے تھے۔ 1993ء میں ایپل نے Apple II کی فروخت بند کر دی۔

مائیکروسافٹ مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ جگہ بنانے کے لیے کام کر رہا تھا۔ مائیکروسافٹ اپنے آپریٹنگ سسٹم ونڈوز کے ذریعے سستے پرسنل کمپیوٹر کے لیے سافٹ وئیر فراہم کرتا رہا جبکہ ایپل کی توجہ مہنگی مصنوعات اور بہت زیادہ منافع پر مرکوز رہی۔ اپنی مصنوعات کو عام عوام کی پہنچ میں لانے اور اپنے منافع کی قربانی دینے کے بجائے ایپل نے مائیکروسافٹ پر مقدمہ کر دیا جس میں اس بات کو بنیاد بنایا گیا کہ مائیکروسافٹ اپنے آپریٹنگ سسٹم ونڈوز کے لیے جو گرافیکل یوزر انٹرفیس استعمال کر رہا ہے وہ ایپل کے ’’ایپل لیزا‘‘ جیسا ہے۔یہ مقدمہ اپنا فیصلہ ہونے تک سالوں عدالت میں چلتا رہا۔ اس عرصے میں ایپل کی بہت سی مصنوعات فلاپ ہوئیں ، اس کی ساکھ کو بھی بُری طرح نقصان پہنچا اور اس کے سی ای او سکولے کو ہٹا کر مائیکل اسپینڈلر(Michael Spindler) کو کمپنی کا نیا سی ای او بنا دیا گیا۔

نیوٹن، ایپل کی وہ پہلی پروڈکٹ تھی جس سے وہ پرسنل ڈیجیٹل اسسٹنٹ (PDAs) کی مارکیٹ میں بلکہ اس صنعت میں داخل ہوا۔ نیوٹن نے آنے والے وقت میں Palm Pilot اور ایپل کے ہی iPhoneاورiPad کے لیے راہ ہموار کی۔1990ء کی دہائی کے شروع میں ایپل میکینٹوش کے متبادل یعنی A/UX کی تیاری کر رہا تھا مگر اس کے ساتھ ہی میک کے لیے آن لائن پورٹل کا تجربہ بھی شروع کر دیا جسے eWorld کا نام دیا گیا۔ اسے امریکہ آن لائن کے تعاون سے بنایا گیا جو دوسری آن لائن سروسز جیسے کمپوسرو (CompuServe)کا متبادل تھا۔ میکینٹوش پلیٹ فارم بذات خود بہت پرانا ہو چکا تھا۔ اس پر بہت سے کام ایک ساتھ نہیں انجام دئیے جاسکتے تھے اس کے علاوہ اس میں اہم سافٹ وئیر براہ راست ہارڈ وئیر میں پروگرام کیے جاتے تھے۔ سب سے بڑھ کر ایپل کوSun Microsystems کے  OS/2 اورUNIX سے بھی مقابلے کا سامنا تھا۔ اس لیے میکینٹوش کو نئے پلیٹ فارم سے تبدیل کرنے ضرورت تھی یا اس میں ہی وہ تبدیلیاں ضروری تھی جس سے یہ مزید تیز رفتار ہارڈوئیر پر بھی چل سکے۔

1994ء میں ایپل نے آئی بی ایم اور موٹرولا کے ساتھ الحاق کر لیا۔ اس الحاق کا مقصد نیا پلیٹ فارم (پاور پی سی) بنانا تھا جس میں ہارڈوئیر تو آئی بی ایم اور موٹرولا کا استعمال ہو مگر سافٹ وئیر ایپل کے۔ ان کمپنیوں کو امید تھی کہ وہ اپنے ہارڈویئر اور سافٹ ویئر سے پرسنل کمپیوٹر اور خاص طور پر مائیکروسافٹ کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔

اسی سال ایپل نے پاور میکینٹوش متعارف کرایا۔ یہ ایپل کے کمپیوٹروں میں سے پہلا کمپیوٹر تھا جو موٹرولا کے پاور پی سی کا پروسیسر استعمال کرتا تھا۔1996ء میں گِل ایمیلیو (Gil Amelio) نے کمپنی کے نئے سی ای او کی حیثیت سے اپنا کام سنبھالا۔ اُس نے کمپنی میں بہت سی تبدیلیاں کی ، جن میں بڑی تعداد میں کارکنوں کو فارغ کرنا بھی تھا۔ کمپنی نے اپنے سسٹم میک او ایس کو بہتر بنانے کے لیے بہت سی کوششیں کی ، اس کے لیے کمپنی میں کئی پراجیکٹ شروع کیے گئے۔ سی ای او گِل نے اس کے بعد اسٹیو جابز کی کمپنی NeXT اور اس کے آپریٹنگ سسٹم NeXTSTEP کو خریدنے کا فیصلہ کیا۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ اسٹیو جابز کو بطور ایڈوائزر کمپنی میں واپس لے آیا۔ 9جولائی 1997ء کو کمپنی کے بورڈ آف ڈائر یکٹر نے سی ای او Gil Amelio کو اس کی تین سالہ کارکردگی، جس میں کم ترین اسٹاک پرائس اور قابو سے باہر معاشی نقصانات تھے، دیکھنے کے بعد برطرف کر دیا۔ اس کے بعد اسٹیو جابز کو کمپنی کا عارضی سی ای او بنا دیا گیا جس نے آتے ہیں کمپنی کی مصنوعات کا از سر نو جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلیاں شروع کیں ۔ 1997ء کے میک ورلڈ ایکسپو میں اسٹیو جابز نے اعلان کیا کہ وہ مائیکرو سافٹ کے ساتھ مل کر میکینٹوش کے لیے مائیکروسافٹ آفس کا نیا ورژن بنائیں گے۔ اس کے علاوہ مائیکرو سافٹ ایپل میں 150ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی مگر اسے انتظامی امور میں ووٹ کا حق نہ ہو گا۔

10نومبر 1997ء ایپل نے آن لائن اسٹور متعارف کرایا اور کمپنی نے بلڈ ٹو آرڈر (build-to-order) کی حکمت عملی اپنائی۔

٭ 1998تا2005 : ایک بار پھر عروج

15اگست 1998ء کو ایپل نے iMac متعارف کرایا۔ آئی میک کی ڈیزائننگ ٹیم کے سربراہ جوناتھن آئیو (Jonathan Ive) تھے جنہوں نے بعد میں آئی پوڈ اور آئی فون بھی ڈیزائن کیا۔ آئی میک جدید ٹیکنالوجی اور منفرد ڈیزائن سے مزین تھااس لیے اپنی ریلیز کے پہلے پانچ ماہ میں اس کے آٹھ لاکھ یونٹ فروخت ہوئے۔اس عرصے میں ایپل نے بہت سی کمپنیوں کو خریدا۔ ایپل نے مائیکرو میڈیا کے فائنل کٹ سافٹ وئیر کو بھی خرید لیا، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اب ایپل ڈیجیٹل ویڈیو ایڈیٹنگ کی مارکیٹ میں بھی داخل ہو گیا ہے۔

اس کے بعد کے سالوں میں ایپل نے صارفین کے لیے iMovie اور ماہرین کے لیے Final Cut Pro ریلیز کیا۔ فائنل کٹ پرو ویڈیو ایڈیٹنگ کے لیے ایک بہت اچھا سافٹ وئیر تھا جس کے 2007ء میں رجسٹرڈ صارفین کی تعداد آٹھ لاکھ تھی۔

2002ء میں ایپل نے Nothing Real نامی کمپنی کو اپنی ایڈوانسڈ دیجیٹل کمپوزیٹنگ ایپلی کیشن Shake کے لیے خرید لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی میوزک پروڈکٹیویٹی ایپلی کیشن Logic کے لیے Emagic کو خرید لیا جس نے GarageBand ایپلی کیشن کی بنیاد رکھی۔اسی سال iPhoto کی ریلیز کے ساتھ ہی iLife سویٹ مکمل ہو گیا۔

Mac OS X کی بنیادNeXT کے OPENSTEP اورBSD Unix پر ہے جسے 24مارچ 2001ء کو بہت سالوں کی ڈویلپمنٹ کے بعد ریلیز کیا گیا۔ صارفین اور ماہرین کی ضروریات کے مطابق Mac OS X کو استعمال میں آسان، مستحکم اور محفوظ بنایا گیا ہے۔Mac OS 9 کے صارفین کے لیے بھی Mac OS X میں یہ سہولت ہے کہ وہ کلاسک انٹر فیس میں اپنی ایپلی کیشن میں کام کر سکیں ۔

19مئی 2001ء کو ایپل نے اپنے پہلے آفیشل ریٹیل اسٹور ز ورجینیا اور کیلی فورنیا میں کھولے۔ 9 جولائی کو ایپل نے سپروس ٹیکنالوجیز (Spruce Technologies)، جو کہ ڈی وی ڈی آتھرنگ (ایسی ڈی وی ڈی ویڈیو بنانے کا عمل جو ڈی وی ڈی پلیئر پر چلائی جاسکے)کمپنی ہے ، کو خریدا۔ اسی سال 23 اکتوبر کو ایپل نے آئی پوڈ پورٹیبل ڈیجیٹل آڈیو پلیئر کا اعلان کیا اور اس کی فروخت 10نومبر 2001ء سے شروع کی۔ ایپل کی یہ پروڈکٹ حیرت انگیز طور پر توقعات سے بڑھ کر کامیاب ہوئی۔ چھے سالوں میں اس کے دس کروڑ یونٹ فروخت ہوئے۔ 2003ء میں ایپل نے آئی ٹیون اسٹور کو متعارف کرایا جہاں پر آئی پوڈ میں 0.99 ڈالر کے عوض ایک گانا ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سروس جلد ہی آن لائن میوزک کی انڈسڑی میں چھا گئی۔ 19جون 2008ء تک اس سروس سے پانچ ارب سے زائد گانے ڈاؤن لوڈ کیے گئے یعنی پانچ ارب ڈالر کی کمائی!

٭ 2005تا2007 : انٹل کی جانب منتقلی

بک پرو ایپل کا پہلا لیپ ٹاپ تھا جس میں انٹل کا مائیکرو پروسیسر لگا ہوا تھا۔ اس لیپ ٹاپ کا اعلان ایپل نے جنوری 2006ء میں کیا۔ 6جون 2005ء کو ورلڈوائیڈ ڈویلپرز کانفرنس میں اسٹیو جابز نے اعلان کیا کہ ایپل 2006ء سے انٹل بیسڈ میک کمپیوٹر بنائے گا۔اس سے اس تاثر کی بھی نفی ہوئی کہ ایپل گنگا میں ہمیشہ اُلٹا ہی بہتا ہے!

10جنوری 2006ء کو نئے میک بک پرو اور آئی میک ایپل کے پہلے کمپیوٹر بن گئے جن میں انٹل کا دوہرے کور والا پروسیسر استعمال ہوا۔ 7اگست 2006 ء کو ایپل نے میک کی تمام پروڈکٹ لائن میں انٹل چِپ استعمال کرنی شروع کر دی۔ اس تبدیلی کے بعد ایپل کے بہت سے پرانے برانڈ کی جگہ اُن نئے برانڈز نے لے لی جن میں انٹل چپ استعمال ہوئی تھی۔ پاور میک کی جگہ میک پرو آ گیا، آئی بک کی جگہ میک بک نے لے لی اور پاور بک کی جگہ میک بک پرو آ گیا۔

ایپل نے Boot Camp نامی سافٹ ویئر متعارف کرایا جس کی مدد سے صارفین اپنے انٹل میک پر Mac OS X سسٹم کے ساتھ ساتھ ونڈو ایکس پی یا وِستا بھی ا نسٹال کر سکتے ہیں ۔

اس عرصے میں ایپل کی کامیابی اس کے اسٹاک کی قیمتوں سے ہی ظاہر ہوتی ہے۔ 2003ء اور 2006 ء کے درمیان ایپل کے اسٹاک کی قیمتوں میں دس گُنا سے زیادہ اضافہ ہوا ۔ شیئر کی قیمت چھے ڈالر فی شیئر سے بڑھ کر اسی ڈالر فی شیئر تک پہنچی ۔ جنوری 2006ء میں ایپل مالی لحاظ سے ڈیل (Dell)سے سبقت لے گیا۔ نو سال پہلے ڈیل (Dell) کے سی ای او مائیکل ڈیل (Michael Dell) نے کہا تھا کہ اگر وہ ایپل کمپنی کو چلا رہے ہوتے تو وہ کب کا اسے بند کر کے شیئر ہولڈرز کا پیسہ انہیں واپس کر چکے ہوتے۔

اگرچہ ایپل کا کاروبار بہت بڑھا تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے حریفوں سے جو مائیکروسافٹ ونڈوز استعمال کر رہے تھے، بہت پیچھے تھے ۔ امریکہ کی ڈیسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ مارکیٹ میں اس کا حصہ اب بھی صرف 8فیصد تھا۔

٭ 2007تا2011:شاندار کامیابی کا دور

ایپل نے آئی فون، آئی پوڈ ٹچ اور آئی پیڈ کی مصنوعات سے بہت بڑی کامیابیاں حاصل کیں ۔ اپنی مصنوعات سے ایپل نے موبائل فونز، پورٹیبل میوزک پلیئرز اور پرسنل کمپیوٹرز میں بہت زیادہ جدت پیدا کر دی۔ ٹچ اسکرین ایپل کے استعمال کرنے سے پہلے ہی ایجاد ہو چکی تھی اور موبائلز میں بھی استعمال ہوتی تھی لیکن ایپل وہ پہلی کمپنی تھی جس نے ایسا یوزر انٹرفیس اپنایا جس میں پہلے سے پروگرام کی ہوئی حرکات موجود تھیں ، جیسے فنگر کو کیسے سوئپ کرنے سے کیا ہو گا وغیرہ۔ اس طرح ایپل نے ٹچ اسکرین کو عوامی سطح پر مقبول کر دیا۔ 9جنوری 2007ء کو اسٹیوجابز نے میک ورلڈ ایکسپو میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اب سے ایپل کمپیوٹر اِن کارپوریشن کا نام ایپل اِن کارپوریشن ہو گا کیونکہ اب صرف کمپیوٹر ہی کمپنی کا محور نہیں ہو گا۔ اس کے بعد کمپنی نے زیادہ توجہ موبائل الیکٹرونکس ڈیوائسس پر دی۔ اس ایونٹ میں آئی فون اور ایپل ٹی وی کے بھی اعلانات ہوئے تھے۔ اس کے بعد کے دنوں میں ایپل کے اسٹاک کی قیمت 97.80 ڈالر فی شیئر تک پہنچ گئی جو کہ اب تک کی تاریخ کی بلند ترین قیمت تھی۔ اس کے بعد مئی میں یہ قیمت 100ڈالر سے بھی بڑھ گئی۔

6فروری 2007ء کو ایپل کی ویب سائٹ پر اسٹیو جابز نے ایک آرٹیکل پوسٹ کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر ریکاڈنگ کمپنیاں چاہیں تو ایپل آئی ٹیون اسٹور پر میوزک ڈیجیٹل رائٹس منیجمٹ (DRM) کے بغیر فروخت کر سکتا ہے۔ اس طرح یہ میوزک کسی دوسری کمپنی کے پلیئر پر بھی چلایا جاسکے گا۔

2اپریل 2007ء کو ایپل اور ای ایم آئی نے مشترکہ طور پرآئی ٹیون اسٹور پر ای ایم آئی کی کیٹلاگ پر ڈی آر ایم ٹیکنالوجی کے خاتمے کا اعلان کیا جس پر حتمی طور پر مئی 2007ء کو عمل ہوا۔ دوسری ریکارڈنگ کمپنیوں نے بھی اس کے بعد ای ایم آئی کی پیروی کی۔

اسی سال جولائی میں ایپل نے آئی فون اور آئی پوڈ ٹچ کے لیے تھرڈ پارٹی ایپلی کیشنز کی فروخت کے لیے App Store لانچ کیا۔ایک ماہ کے دوران ہی اس اسٹور نے تقریباً چھے کروڑ ایپلی کیشنز فروخت کیں اور روزانہ تقریباً ایک ملین ڈالر اوسط کے حساب سے کمائی کی۔ اسٹیوجابز کو بھی پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ یہ ایپلی کیشن اسٹور ایپل کے لیے بلین ڈالر پروجیکٹ ہو گا۔ اس کے تین ماہ بعد ہی اعلان کیا گیا کہ آئی فون کی مقبولیت کی وجہ سے ایپل دنیا میں موبائل فون بنانے والی تیسری بڑی کمپنی بن گئی ہے۔ 16دسمبر 2008ء کو ایپل نے اعلان کیا کہ 2009ء میں ہونے والے میک ورلڈ ایکسپو میں ایپل آخری بار شرکت کر رہا ہے۔ اس سے پہلے ایپل اس ایکسپو میں بیس سال سے شرکت کر رہا تھا۔ ایپل نے یہ بھی اعلان کیا کہ اسٹیو جابز کی جگہ Phil Schiller تقریر کرے گا۔ اس کے تقریباً ٹھیک ایک ماہ بعد 14 جنوری 2009ء کو ایپل کمپنی کے ایک انٹرنل میمو میں اعلان کیا گیا کہ اسٹیو جابز جون 2009 تک چھے ماہ کی رخصت لے رہا ہے تاکہ اپنی صحت پر بہتر طور پر توجہ دے سکے۔ اسٹیوجابز کے رخصت پر جانے کے بعد 2009 کی پہلی سہ ماہی میں ایپل کی آمدن8.16 ارب ڈالر رہی جبکہ خالص منافع1.21 ارب ڈالر رہا۔

27جنوری 2010 ء کو بہت سالوں سے اڑتی افواہوں کے بعد بلآخر ایپل نے بڑی اسکرین ٹیبلٹ یعنی آئی پیڈکو متعارف کرا دیا۔ آئی پیڈ وہی ٹچ بیسڈ آپریٹنگ سسٹم استعمال کرتا ہے جو کہ آئی فون میں استعمال ہوتا ہے۔ آئی فون کی بہت سی ایپلی کیشنز آئی پیڈ کے لیے بھی کار آمد تھیں ۔ اس لیے لانچ کے وقت آئی پیڈ کے لیے بہت سی ایپلی کیشنز بھی ایپل کے ایپلی کیشن اسٹور پر موجود تھیں ۔ اسی سال 3اپریل 2010ء کو آئی پیڈ امریکا میں لانچ ہوا اور اسی دن اس کے تین لاکھ یونٹ فروخت ہو گئے۔ اس ہفتے کے اختتام تک یہ تعداد پانچ لاکھ ہو گئی۔ اسی سال مئی میں ایپل کی مارکیٹ ویلیو1989ء  کے بعد مائیکروسافٹ سے بڑھ گئی۔

اس کے بعد ایپل نے چوتھی نسل کا آئی فون متعارف کرایا جس میں ویڈیو کالنگ، ملٹی ٹاسکنگ اور نیا اسٹین لیس اسٹیل ڈیزائن شامل کیا گیا۔ اسٹین لیس اسٹیل بطور انٹینا کام کرتا ہے۔ آئی فون 4کے کچھ صارفین نے یہ شکایت بھی کی کہ اس انٹینا کی وجہ سے کچھ جگہوں پر فون کے رکھنے سے سگنل کم ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح کی شکایتیں جب بہت زیادہ ہو گئیں اور یہ بات میڈیا میں بھی بہت زیادہ پھیلی تو ایپل نے ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں صارفین کو مفت ربڑ کا ایک کیس فراہم کیا گیا کہ اگر کوئی سگنل کم ہونے کا مسئلہ ہے تو کیس کی وجہ سے ختم ہو جائے گا۔ اسی سال ایپل نے اپنے آئی پوڈ پر بھی توجہ دی۔ ملٹی ٹچ آئی پوڈ نینو (Nano)، فیس ٹائم کے ساتھ آئی پوڈ ٹچ اور آئی پوڈ شفل متعارف کرائے گئے۔

اکتوبر 2010ء میں ایپل کے اسٹاک کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر یعنی 300 ڈالر تک پہنچ گئی۔ اس کے علاوہ 20اکتوبر 2010ء کو ایپل نے میک بک ائیر لیپ ٹاپ، آئی لائف سوٹ ایپلی کیشن کو اپ ڈیٹ کیا۔ Mac OS X Lion کو بھی سامنے لایا گیا جو کہ Mac OS Xمیں تازہ ترین اضافہ تھا۔ 6 جنوری 2011ء کو ایپل نے اپنے پہلےiOS App اسٹور کی طرح Mac App اسٹور قائم کیا جو کہ ڈیجیٹل سافٹ وئیر ڈسٹری بیوشن پلیٹ فارم ہے۔ ایپل پر ایک ڈاکیومنٹری فلم بھی بنی ہے جس کا نام Something Ventured ہے جو کہ 2011میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔

 

٭ 2011تاحال: اسٹیو جابز کے بعد

اسٹیو جابز نے 17جنوری 2011ء کو ایک دفعہ پھر غیر معینہ وقت کے لیے بیماری کے باعث چھٹیاں لے لیں ۔ چھٹیوں کے دوران بھی اسٹیو جابز کمپنی کے لیے وقت نکال ہی لیتا تھا۔ مستقبل کی حکمت عملی اور مصنوعات کے بارے میں اکثر اپنے مشورے بھی دیتا رہتا تھا۔ جون 2011ء میں اسٹیو جابز نے آئی کلاؤڈ (iCloud) کا افتتاح کیا۔ آئی کلاؤڈ ایک آن لائن اسٹوریج سروس ہے جس میں میوزک، فوٹوز، فائل اور سافٹ وئیر موبائل میں محفوظ ہوتے ہیں اور خود بخود آن لائن بھی محفوظ (Sync) ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح کی ایک کوشش ایپل نے پہلے بھی MobileMe کے نام سے کی تھی مگر آئی کلاؤڈ نے اسے بدل دیا۔ آئی کلاؤڈ وہ آخری پروڈکٹ تھی جسے اسٹیو جابز نے لانچ کیا۔

ایپل نے اپنی کارکردگی سے وہ مقام حاصل کر لیا کہ اب ایپل اپنے سپلائرز سے بھی اپنی شرائط پر کام کرتا تھا۔ جولائی 2011ء میں امریکا میں امریکی حکومت کے قرضے بلند ترین سطح پر تھے۔ اس بحران میں ایپل معاشی طور پر امریکی حکومت سے زیادہ مستحکم تھا۔ 24 اگست 2011 ء کو اسٹیو جابز نے کمپنی کے سی ای او کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ٹم کک اس کی جگہ سی ای او بنا اور اسٹیو کمپنی کا چیئر مین بن گیا۔ اس سے پہلے ایپل میں چیئر مین نہیں ہوتا تھا بلکہ ایک ساتھ دو ڈائریکٹر کمپنی کے فیصلوں کو دیکھتے تھے۔ اس وقت کمپنی کے یہ دو ڈائریکٹر اینڈریا جنگ (Andrea Jung) اور آرتھر ڈی لیوینسن (Arthur D. Levinson) تھے۔ دونوں انہی عہدوں پر کام کرتے رہے جب تک کہ آرتھر نومبر میں بورڈ کا چیئر مین نہ بن گیا۔

4اکتوبر 2011ء ایپل نے آئی فون 4 ایس کے اجراء کا اعلان کیا۔ جس میں بہت سی خصوصیات شامل کی گئی تھیں ۔ 1080p ویڈیو کیمرہ ریکارڈنگ، Dual Core A5 چِپ جو کہ گرافکس دکھانے میں A4 سے سات گنا بہتر تھی، آئی کلاؤڈ اور بہترین سافٹ وئیر اس کے علاوہ اور بہت سی خصوصیات آئی فون 4ایس میں شامل کی گئیں ۔ اس سے اگلے دن یعنی 5 اکتوبر 2011ء کو ایپل نے اعلان کیا کہ اسٹیو جابز وفات پا چکا ہے۔ اسٹیوجابز کے ساتھ ہی ایپل اِن کارپوریشن کے اہم دور کا بھی خاتمہ ہوا۔ آئی فون 4ایس کو باضابطہ طور پر14 اکتوبر 2011ء کو لانچ کیا گیا۔

19جنوری 2012ء کو ایپل کی فل شلر نے آئی او ایس کے لئے iBooks Textbooks اور میک او ایس ایکس کے لئے iBook Author ریلیز کیا۔ اسٹیو جابز کے بعد یہ ایپل کی جانب سے پہلا اہم اعلان تھا۔ اسٹیو جابز نے اپنے سوانحہ عمری میں لکھا تھا کہ وہ نصابی کتب اور تعلیم کو اسر نو ترتیب دینا چاہتے ہیں ۔

اس کے دو ماہ بعد ہی ایپل نے iPad3کا اجراء کیا جو ریٹینا ڈسپلے سے مزین تھا۔ پے درپے کامیاب مصنوعات کا نتیجہ ایپل کی اسٹاک ویلیو میں زبردست اضافے کی صورت میں نکلا۔ 20 اگست 2012ء کو ایپل کی اسٹاک ویلیو 624 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی جو دنیا کے کئی درجن ممالک بشمول پاکستان، کے جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔

24 اگست کو امریکی جیوری نے سام سنگ اور ایپل کے مقدمے میں فیصلہ ایپل کے حق میں دیا اور سام سنگ کو اسے 1.06ارب ڈالر بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ سام سنگ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔

12 ستمبر 2012ء کو iPhone 5 جبکہ 23 اکتوبر 2012ء کو iPad Mini کو ریلیز کیا گیا۔ یہ دنوں مصنوعات بھی گزشتہ ورژنز کی طرح بے حد کامیاب ثابت ہوئیں ۔

تنازعے

ایپل کی پوری تاریخ تنازعوں اور مقدمے بازی سے بھری ہوئی ہے۔ ایپل نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے کئی بار ایسے مقدمے بھی کئے جو اس کی جگ ہنسائی کا باعث بنے۔ تازہ ترین تنازعوں میں اس کی سام سنگ الیکٹرانکس کے ساتھ چلنے والی قانونی جنگ ہے۔ ایپل کو سام سنگ کی مصنوعات کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ سام سنگ گلیکسی ایس تھری کی شکل میں دنیا کو ایپل آئی فون کا متبادل دستیاب ہے جو آئی فون سے کم قیمت بھی ہے اور معیار میں اس کے ہم پلہ بھی۔ سام سنگ الیکٹرانکس اس وقت موبائل فون بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایپل آئی فون بنانے کے درکار کئی پرزے سام سنگ ہی ایپل کو تیار کر کے دیتا ہے۔

ایپل اور سام سنگ کا تنازعہ اب انتہائی شدت اختیار کر چکا ہے۔ آئے روز دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف نت نئے الزامات لگائے جاتے رہتے ہیں اور دونوں ہی نے ہر اہم ملک کی عدالتوں میں ایک دوسرے کے خلاف مقدمے دائر کر رکھے ہیں ۔

مائیکروسافٹ کے ساتھ بھی ایپل کی ایک عرصے تک چپقلش جاری رہی۔یہ چپقلش شاید مزید جاری رہتی اگر ایپل نے اپنی توجہ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی جانب مرکوز نہ کر لی ہوتی۔

ایچ ٹی سی کے ساتھ بھی ایپل کی مقدمے بازی جاری رہی۔ حال ہی میں دونوں نے ایک معاہدے کے تحت ایک دوسرے کے خلاف دنیا بھر میں دائر کئے گئے مقدمے واپس لے لئے۔ لیکن اس معاہدے کے تحت کہا جارہا ہے کہ ایپل کو ہر سال 280 ملین ڈالر کی آمدنی ہو گی۔

دنیا بھر میں ایپل کا تشخص ایک مفاد پرست اور منافع خور کمپنی کے طور پر مشہور ہے۔ کمپنی کی مصنوعات اپنی جائز قیمت سے بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہیں ۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کمپنی کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتی ہے۔ کمپنی کی اپنے ملازمین کے حوالے سے پالیسی بھی انتہائی سخت ہے۔ کمپنی کے ہر پروجیکٹ میں ایک DRIہوتا ہے جو کسی بھی پروجیکٹ کی کامیابی، ناکامی یا خامیوں کا براہ راست ذمے دار ہوتا ہے۔ کسی پروجیکٹ کی ناکامی یا اس میں خرابیوں کا نتیجہ اکثر DRI کی نوکری سے فراغت کی صورت میں نکلتا ہے۔

کمپنی ایک عرصے تک ہارڈویئر مارکیٹ میں رائج معیارات سے ہٹ کر اپنی مرضی چلاتی رہی ہے۔ انٹل پروسیسرز سے دوری اس کی ایک مثال ہے۔ تاہم اب اس نے یہ روش ختم کر دی ہے۔

٭٭(کمپیوٹنگ شمارہ مارچ 2013 میں شائع تحریر)

٭٭٭

ماخذ:

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید