FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

کلام عیش ؔدہلوی

 

عیشؔ دہلوی

 

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

 

 

 

 

جس دل میں تری زلف کا سودا نہیں ہوتا

وہ دل نہیں ہوتا نہیں ہوتا نہیں ہوتا

 

عاشق جسے کہتے ہیں وہ پیدا نہیں ہوتا

اور ہوئے بھی بالفرض تو مجھ سا نہیں ہوتا

 

جو کشتۂ تیغ نگہ یار ہیں ان پر

کچھ کارگر اعجاز مسیحا نہیں ہوتا

 

مانا کہ ستم کرتے ہیں معشوق مگر آپ

جو مجھ پہ روا رکھتے ہیں ایسا نہیں ہوتا

 

جو مست ہے ساقی نگہ مست کا وہ تو

منت کش جام و مے و مینا نہیں ہوتا

 

کہتا ہے کوئی شعلۂ جوالہ کوئی برق

اس دل پہ گماں لوگوں کو کیا کیا نہیں ہوتا

 

زاہد ہو دوچار نگہ مست تو دیکھیں

آلودہ بہ مے کیونکہ مصلیٰ نہیں ہوتا

 

ہاں کچھ تو بیان ہوس دل میں ہے لذت

جو لب سے جدا حرف تمنا نہیں ہوتا

 

تسکین دل سوختۂ شمع کی خاطر

کس شب پر پروانہ سے پنکھا نہیں ہوتا

 

دل عشق نے اتنا بھی نہ چھوڑا کہ جو کہویں

تقسیم جز لا یتجزا نہیں ہوتا

 

دے بیٹھے ہو دل عیشؔ تم ان لوگوں کو جن کی

بیداد کا واں بھی کوئی شنوا نہیں ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شور اب عالم میں ہے اس شعبدہ پرداز کا

چرخ بھی اک شعبدہ ہے جس سراپا ناز کا

 

سادہ روی قہر تھی اور اس پہ اب آیا ہے خط

دیکھیے انجام کیا ہوتا ہے اس آغاز کا

 

تیر ہووے جس کی مژگاں اور ہو ابرو کماں

دل نہ ہو قربان کیوں کر ایسے تیر انداز کا

 

اس کے شاہین نگہ کو طائر دل کے لیے

پنجۂ مژگاں نہیں گویا ہے چنگل باز کا

 

عیشؔ مجھ کو بے پر و بالی پر پرواز ہے

میں نہیں محتاج کچھ بال و پر پرواز کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عاشقوں کو اے فلک دیوے گا تو آزار کیا

دشمن جاں ان کا تھوڑا ہے دل بیمار کیا

 

رشک آوے کیوں نہ مجھ کو دیکھنا اس کی طرف

ٹکٹکی باندھے ہوئے ہے روزن دیوار کیا

 

آہ نے تو خیمۂ گردوں کو پھونکا دیکھیں اب

رنگ لاتے ہیں ہمارے دیدۂ خوں بار کیا

 

مرغ دل کے واسطے اے ہم صفیرو کم ہے کیوں

کچھ قضا کے تیر سے تیر نگاہ یار کیا

 

چل کے مے خانے ہی میں اب دل کو بہلاؤ ذرا

عیشؔ یاں بیٹھے ہوئے کرتے ہو تم بیگار کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جو ہوتا آہ تری آہ بے اثر میں اثر

تو کچھ تو ہوتا دل شوخ فتنہ گر میں اثر

 

بس اک نگاہ میں معشوق چھین لیں ہیں دل

خدا نے ان کی دیا ہے عجب نظر میں اثر

 

نہ چھوڑی غم نے مرے اک جگر میں خون کی بوند

کہاں سے اشک کا ہو کہیے چشم تر میں اثر

 

ہو اس کے ساتھ یہ بے التفاتی گل کیوں

جو عندلیب کے ہو نالۂ سحر میں اثر

 

کسی کا قول ہے سچ سنگ کو کرے ہے موم

رکھا ہے خاص خدا نے یہ سیم و زر میں اثر

 

جو آہ نے فلک پیر کو ہلا ڈالا

تو آپ ہی کہیے کہ ہے گا یہ کس اثر میں اثر

 

جو دیکھ لے تو جہنم کی پھیرے بندھ جائے

ہے میری آہ کے وہ ایک اک شرر میں اثر

 

بگاڑیں چرخ سے ہم عیشؔ کس بھروسے پر

نہ آہ میں ہے نہ سوز دل و جگر میں اثر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نہ چھوڑی غم نے مرے اک جگر میں خون کی بوند

کہاں سے اشک کا ہو کہیے چشم تر میں اثر

 

ہو اس کے ساتھ یہ بے التفاتی گل کیوں

جو عندلیب کے ہو نالۂ سحر میں اثر

 

کسی کا قول ہے سچ سنگ کو کرے ہے موم

رکھا ہے خاص خدا نے یہ سیم و زر میں اثر

 

جو آہ نے فلک پیر کو ہلا ڈالا

تو آپ ہی کہیے کہ ہے گا یہ کس اثر میں اثر

 

جو دیکھ لے تو جہنم کی پھیرے بندھ جائے

ہے میری آہ کے وہ ایک اک شرر میں اثر

 

بگاڑیں چرخ سے ہم عیشؔ کس بھروسے پر

نہ آہ میں ہے نہ سوز دل و جگر میں اثر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کچھ کم نہیں ہیں شمع سے دل کی لگن میں ہم

فانوس میں وہ جلتی ہے یاں پیرہن میں ہم

 

ہیں تفتہ جاں مفارقت گل بدن میں ہم

ایسا نہ ہو کہ آگ لگا دیں چمن میں ہم

 

گم ہوں گے بوئے زلف شکن در شکن میں ہم

قبضہ کریں گے چین کو لے کر ختن میں ہم

 

گر یہ ہی چھیڑ دست جنوں کی رہی تو بس

مر کر بھی سینہ چاک کریں گے کفن میں ہم

 

محو خیال زلف بتاں عمر بھر رہے

مشہور کیوں نہ ہوں کہو دیوانہ پن میں ہم

 

ہوں گے عزیز خلق کی نظروں میں دیکھنا

گر کر بھی اپنے یار کے چاہ ذقن میں ہم

 

چھکے ہی چھوٹ جائیں گے غیروں کے دیکھنا

آ نکلے ہاں کبھی جو تری انجمن میں ہم

 

اے عندلیب دعوی بیہودہ پر کہیں

ایک آدھ گل کا منہ نہ مسل دیں چمن میں ہم

 

عاشق ہوئے ہیں پردہ نشیں پر بس اس لیے

رکھتے ہیں سوز عشق نہاں جان و تن میں ہم

 

ظالم کی سچ مثل ہے کہ رسی دراز ہے

مصداق اس کا پاتے ہیں چرخ کہن میں ہم

 

عنقا کا عیشؔ نام تو ہے گو نشاں نہیں یاں وہ بھی کھو چکے ہیں تلاش دہن میں ہم                                   ٭٭٭

 

 

 

 

دوست جب دل سا آشنا ہی نہیں

اب ہمیں غیر کا گلہ ہی نہیں

 

جس کا دل درد آشنا ہی نہیں

اس کے جینے کا کچھ مزا ہی نہیں

 

ایک دم ہم سے وہ جدا ہی نہیں

گر جدا ہو تو وہ خدا ہی نہیں

 

آشنائی پہ اس کی مت جانا

لے کے دل پھر وہ آشنا ہی نہیں

 

خاک چھانی جہان کی لیکن

دل گم گشتہ کا پتا ہی نہیں

 

لاکھ معشوق ہیں جہاں میں مگر

آہ وہ ناز وہ ادا ہی نہیں

 

سعی بے فائدہ ہے چارہ گرو

مرض عشق کی دوا ہی نہیں

 

درد دل ان سے ہم کہا ہی کیے

پر انہوں نے کبھی سنا ہی نہیں

 

سر پھراتا ہے کیوں عبث ناصح

میرا کہنے میں دل رہا ہی نہیں

 

اب وہ آئے تو آئیں کیا حاصل

طاقت عرض مدعا ہی نہیں

 

میں تو کیا گوش چرخ نے بھی عیشؔ

ایسا بیداد گر سنا ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میرا شکوہ تری محفل میں عدو کرتے ہیں

اس پہ بھی صبر ہم اے عربدہ جو کرتے ہیں

 

مشق بیداد و ستم کرتے ہیں گر وہ تو یہاں

ہم بھی بیداد و ستم سہنے کی خو کرتے ہیں

 

جاں ہوئی ہے نگہ نام پہ ان کی عاشق

چاک دل تار نظر سے جو رفو کرتے ہیں

 

بے ثباتی چمن دہر کی ہے جن پہ کھلی

ہوس رنگ نہ وہ خواہش بو کرتے ہیں

 

آج شمشیر بکف نکلے ہیں وہ دیکھیے تر

آب شمشیر سے کس کس کے گلو کرتے ہیں

 

ہے رچی جن کے دماغوں میں تری زلف کی بو

عنبر و مشک کی کب بو کو وہ بو کرتے ہیں

 

مشک و عنبر کا انہیں نام بھی لینا ہے ننگ

یار کی زلف معنبر کو جو بو کرتے ہیں

 

چاک کرتے ہیں گریباں کو وحشت میں کبھی

چاک دل میں کبھو ناخن کو فرو کرتے ہیں

 

دیکھ سودا زدۂ الفت خوباں اے عیشؔ

وادی عشق میں کیا کیا تگ و پو کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

پھرا کسی کا الٰہی کسی سے یار نہ ہو

کوئی جہان میں برگشتہ روزگار نہ ہو

 

ہم اس کی چشم سیہ مست کے ہیں مستانے

یہ وہ نشے ہیں کہ جس کا کبھی اتار نہ ہو

 

جہان میں کوئی کہتا نہیں خدا لگتی

وہ کیا کرے جسے دل پر بھی اختیار نہ ہو

 

نہ پھاڑے دامن صحرا کو کیوں کہ دست جنوں

رہا جب اپنے گریباں میں ایک تار نہ ہو

 

نہ کھیل جان پر اپنی تو اے دل ناداں

خدا کو یاد کر اتنا تو بے قرار نہ ہو

 

نہ بھول زہد پہ لذت سے بخشش حق کی

وہ بے نصیب ہے جب تک گناہ گار نہ ہو

 

تمہارے سر کی قسم کھا کے درد دل کا کہوں

جو میرے لکھنے کا یوں تم کو اعتبار نہ ہو

 

جناب شیخ جی صاحب میں ایک عرض کروں

اگر مزاج مقدس پہ ناگوار نہ ہو

 

جناب رندوں سے ملتے تو ہیں پہ ڈر ہے مجھے

کہ دشمنوں کا کسی دن وہاں اچار نہ ہو

 

بہت ہے خیمۂ گردوں کے پھونکنے کو تو عیشؔ

اس آہ تفتہ جگر میں اثر ہزار نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

باتیں نہ کس نے ہم کو کہیں تیرے واسطے

اور ہم نے بھی نہ کس کی سہیں تیرے واسطے

 

حیران در بہ در پڑے پھرتے ہیں رات دن

خورشید و ماہ زہرہ جبیں تیرے واسطے

 

سیماب و برق و شعلۂ جوالہ اور یہ دل

بیتاب ان میں کون نہیں تیرے واسطے

 

ہم نے تری تلاش میں اے برق وش کیا

یاں ایک آسمان و زمیں تیرے واسطے

 

شب سوز غم سے شمع صفت بے قراریاں

کیا کیا نہ میرے دل کو رہیں تیرے واسطے

 

تو زیب بزم غیر رہا اور میں یہاں

بھٹکا پھرا کہیں کا کہیں تیرے واسطے

 

یہ نالے وہ ہیں یاد رہے تو نہ گر ملا

پہنچیں گے تابہ عرش بریں تیرے واسطے

 

کچھ اور اختلاف کا باعث نہیں فقط

عالم میں ہے چناں و چنیں تیرے واسطے

 

فضل خدا سے یاد رہے عیشؔ نعمتیں

موجود ہوں گی دیکھ یہیں تیرے واسطے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھول اللہ نے بنائے ہیں مہکنے کے لیے

اور بلبل کو بنایا ہے چہکنے کے لیے

 

آتش غم سے بنایا ہے مرے سینے میں

دل کو انگارے کی مانند دہکنے کے لیے

 

بچے کمبخت وہ دل کیونکہ بھلا جس دل کے

مستعد ہو نگۂ شوخ اچکنے کے لیے

 

رند کہتے ہیں کہ خالق نے کیا ہے پیدا

رات دن ناصح بیہودہ کو بکنے کے لیے

 

رحم اے چشم بنایا ہے کہیں کیا دل کو

قطرۂ اشک ہو مژگاں سے ٹپکنے کے لیے

 

شیخ کو رندوں سے کہہ دو کہ نظر میں رکھیں

کیونکہ اب ڈھونڈے ہے قابو وہ کھسکنے کے لیے

 

عیشؔ بتلا تو بنا ہے دل حیراں تیرا

مثل آئینہ یہ کس شکل کے تکنے کے لیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تو ہی انصاف سے کہہ جس کا خفا یار رہے

اپنے جینے سے نہ کس طرح وہ بے زار رہے

 

زخم دل چھیلے کبھی اور کبھی زخم جگر

ناخن دست جنوں کب مرے بیکار رہے

 

ان جفاؤں کا مزہ تم کو چکھا دیویں گے

ہاں اگر زندہ ہم اے چرخ جفاکار رہے

 

مے کدے میں ہے بڑی یہ ہی مغاں کی پیری

کہ بس اس چشم سیہ مست سے ہشیار رہے

 

جلتے بھنتے رہے ہم بزم بتاں میں لیکن

شمع ساں اس پہ بھی سر دینے کو تیار رہے

 

یوں تو کیا خواب میں بھی یار کا ملنا معلوم

اپنے گر آہ یہی طالع بیدار رہے

 

ایک جا سینے میں ان دونوں کا رہنا ہے محال

یا یہ دل ہی رہے یا آہ شرر بار رہے

 

اس سے دل خاک ہو امید حصول مطلب

جس سے اک بوسے پہ سو طرح کی تکرار رہے

 

لے کے پیکاں سے ترے تیر بتا تو قاتل

خون میں ڈوبے نہیں کب تا لب سوفار رہے

 

جنس دل آتش الفت میں جلے جو چاہے

پر کسی طرح تری گرمی بازار رہے

 

بازی عشق میں چپکے رہو کیا خاک کہیں

ایک دل رکھتے تھے پاس اپنے سو بار رہے

 

ایسا دم ناک میں آیا ہے کہ ہم راضی ہیں

عیشؔ گر سینے میں اس دل کے عوض خار رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جرأت اے دل مے و مینا ہے وہ خود کام بھی ہے

بزم اغیار سے خالی بھی ہے اور شام بھی ہے

 

زلف کے نیچے خط سبز تو دیکھا ہی نہ تھا

اے لو ایک اور نیا دام تہ دام بھی ہے

 

چارہ گر جانے دے تکلیف مداوا ہے عبث

مرض عشق سے ہوتا کہیں آرام بھی ہے

 

ہو گیا آج شب ہجر میں یہ قول غلط

تھا جو مشہور کہ آغاز کو انجام بھی ہے

 

کام جاناں میرا لب یار کے بوسے سے سوا

خوگر چاشنی لذت دشنام بھی ہے

 

شیخ جی آپ ہی انصاف سے فرمائیں بھلا

اور عالم میں کوئی ایسا بھی بدنام بھی ہے

 

زلف و رخ دیر و حرم شام و سحر عیشؔ ان میں

ظلمت کفر بھی ہے جلوۂ اسلام بھی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کسی کی نیک ہو یا بد جہاں میں خو نہیں چھپتی

چھپائے لاکھ خوشبو یا کوئی بدبو نہیں چھپتی

 

زباں پر جب تلک آتی نہیں البتہ چھپتی ہے

زباں پر جب کہ آئی بات اے گل رو نہیں چھپتی

 

یہاں تو تجھ کو سو پردے لگے ہیں اہل تقویٰ سے

بھلا رندوں سے کیوں اے دختر رز تو نہیں چھپتی

 

سلیقہ کیا کرے اس میں کوئی بیتابی جاں کو

چھپاؤ سو طرح جب دل ہو بے قابو نہیں چھپتی

 

حجاب اس میں کہاں ہے بے حجابی جس کی عادت ہو

چھپا کر لاکھ پیوے گر کوئی دارو نہیں چھپتی

 

رخ روشن کو تم کیوں چھوڑ کر زلفیں چھپاتے ہو

چمک رخ کی چھپائے سے تہ گیسو نہیں چھپتی

 

یہ ریش و جبہ و دستار زاہد کی بناوٹ ہے

طبیعت بے تکلف جس کی ہو یکسو نہیں چھپتی

 

کلام اپنا عبث تو اہل دانش سے چھپاتا ہے

جہاں میں عیشؔ طرز شاعر خوش گو نہیں چھپتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کیا ہوئے عاشق اس شکر لب کے

طعنے سہنے پڑے ہمیں سب کے

 

بھولنا مت بتوں کی یاری پر

ہیں یہ بد کیش اپنے مطلب کے

 

قیس و فرہاد چل بسے افسوس

تھے وہ کمبخت اپنے مشرب کے

 

شیخیاں شیخ جی کی دیں گے دکھا

مل گئے وہ اگر کہیں اب کے

 

یاد رکھنا کبھی نہ بچئے گا

مل گئے آپ وقت گر شب کے

 

اس میں خوش ہوویں آپ یا ناخوش

یار تو ہیں سنا اسی ڈھب کے

 

یار بن عیشؔ مے کشی توبہ

ہے یہ اپنے خلاف مذہب کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں برا ہی سہی بھلا نہ سہی

پر تری کون سی جفا نہ سہی

 

درد دل ہم تو ان سے کہہ گزرے

گر انہوں نے نہیں سنا نہ سہی

 

شب غم میں بلا سے شغل تو ہے

نالۂ دل مرا رسا نہ سہی

 

دل بھی اپنا نہیں رہا نہ رہے

یہ بھی اے چرخ فتنہ زا نہ سہی

 

دیکھ تو لیں گے وہ اگر آئے

طاقت عرض مدعا نہ سہی

 

کچھ تو عاشق سے چھیڑ چھاڑ رہی

کج ادائی سہی ادا نہ سہی

 

کیوں برا مانتے ہو شکوہ مرا

چلو بے جا سہی بجا نہ سہی

 

عقدۂ دل ہمارا یا قسمت

نہ کھلا تجھ سے اے صبا نہ سہی

 

واعظو بندۂ خدا تو ہے عیشؔ

ہم نے مانا وہ پارسا نہ سہی

٭٭٭

ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل