فہرست مضامین
چلنا ہو تو ۔۔۔۔۔
علیم خان فلکی
سفرنامے
چلنا ہو تو دلّی چلیے
سنا ہے کہ دلّی اب تک سات بار اُجڑی اور سات بار بسی ہے لیکن ہم نے نہ کبھی اجڑنے سے روکا نہ بسنے میں ہاتھ بٹایا اس سے پہلے کہ دلی کا اسکور آگے بڑھے ہم نے دلی دیکھنے کا قصد کیا ۔ کیا پتہ اگلی دلی کو دیکھ کر آج کی دلی بہتر لگے اور اسے نہ دیکھنے کا افسوس رہ جائے ۔ وقت گزر جانے کے بعد ہر چیز اچھی لگنے لگتی ہے۔ نادر شاہ نے دلی کو تاراج کیا لیکن جب انگریزوں نے بھی لوٹا تو نادر شاہ خود بخود اچھا لگنے لگا۔ اسی طرح جس طرح آج واجپائی کے حکومت سنبھالتے ہی لوگوں کی نرسمہا راؤ کے بارے میں رائے بہتر ہو گئی ہے ۔ خیر ہم دلی پہنچ گئے تاکہ دلی والوں کو کوئی شکایت نہ رہے ۔
دنیا کے تمام شہروں کی طرح دلی بھی پرانے شہر اور نئے شہر پر مشتمل ہے۔ پرانی دلی اور نئی دہلی۔
اگر چیکہ دنیا کے ہر پرانے شہر کی طرح دلی بھی ان تمام برکات و خصوصیات کی حامل ہے جو کسی بھی پرانے شہر میں اگر نہ ہوں تو وہ پرانا شہر ہی نہ کہلائے۔ جیسے تنگ و تاریک گلیاں، جھونپڑے ، موریاں اور نالیاں جو راتوں میں open air toilets کا کام دیتی ہیں اور راہگیروں کی ناک کا امتحان لیتی ہیں۔
رکشے بیل گاڑیوں ، سائیکلوں ، اسکوٹروں اور پیدل انسانوں کا ایک سیلاب جس میں ہر فرد سڑک کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر دوسروں کو مخل اندازی کی سزا دیتا ہوا چلتا ہے۔ قدم قدم پر درگاہ ، چلہ یا مندر اور کان پھاڑنے والے لاؤڈ اسپیکر، جگہ جگہ ہوٹل اور مٹھائی گھر جہاں مکھیوں اور مچھروں کی بھرمار میں مکمل بے نیازی کے ساتھ مصروفِ طعام لوگ ۔
بہرحال یہ ہر پرانے شہر کی خصوصیت ہے جو پرانی دلی میں بھی سر تا پا موجود ہے۔ یہی حال ہندوستان کے سارے شہروں کا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت پرانے شہروں میں آباد ہے اس لئے حکومت کی ساری بد انتظامیاں مسلمانوں کی بُرائیوں کے کھاتے میں جمع کر دی جاتی ہیں۔ البتہ جو کمی رہ جاتی ہے اسے مسلمان خود پورا کر دیتے ہیں جیسے مسجدوں اور قبرستانوں کی زمینوں پر قبضے ۔ جامع مسجد اور لال قلعہ ایک دوسرے کے مقابل اس طرح تعمیر کئے گئے تھے کہ لال قلعہ سے نکلتے ہی سامنے مسجد کا صحن نظر آئے ۔ لیکن لال قلعہ پر سرکار نے جھنڈا لہرا دیا اور مسجد کی چہار دیواری پر مسلمانوں نے ۔ اب یہ ایک شاہی مسجد نہیں لگتی بلکہ مصروف ترین بازار میں چندے سے تعمیر کی گئی ایک چھپی ہوئی مسجد لگتی ہے۔ مچھلیوں اور مرغیوں کی بد بو دار دکانیں ، گھوڑوں کا اصطبل اور موٹروں کا کارخانہ اور ہمہ اقسام کی دکانیں مسجد کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
ہم ان دکانداروں کے پھر بھی مشکور تھے کہ جنہوں نے سڑک کے لئے تھوڑی سی جگہ تھوڑی تھی ورنہ ہم ان کا کیا بگاڑ لیتے؟ مسجد کی آخری سیڑھی تک بھی دوکاندار موجود ہیں۔ وہاں تسبیحوں اور جا نمازوں کے ساتھ ساتھ طلسمی چھلوں اور عملیات کی کتب بھی مل جائیں گی۔
جامع مسجد دہلی تمام مغلیہ عمارتوں میں وہ واحد عمارت ہے جس میں داخلہ مفت ہے۔ البتہ ایک بزرگ کیمرے کے دس روپئے بغیر رسید کے وصول کرتے ہوئے ملے۔ مسجد کے صحن کا فرش کئی جگہ سے اکھڑ رہا ہے۔ یہ آخری بار غالباً نواب میر عثمان علی خان نظامِ سابع نے لگوایا تھا۔ یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ نظام ذاتی زندگی میں بہت کنجوس واقع ہوئے تھے۔ ایک بار جب سردیوں میں انہوں نے نئی رضائی منگوائی تو اس کی قیمت پچھلے سال کے مقابلے میں دو روپیے زیادہ تھی۔ انہوں نے مہنگی ہے کہہ کر نوکر کو واپس کرنے کا حکم دیا ۔ اس وقت اتفاق سے جامہ مسجد دہلی کا ایک وفد مسجد کے صحن کی مرمت کے لئے غالباً ایک لاکھ روپئے کی درخواست لے کر آیا ہوا تھا۔ وہ بادشاہ سلامت کی اس کفایت شعاری کو دیکھ کر اس شش و پنج میں مبتلا تھا کہ درخواست پیش کی جائے کہ نہ کی جائے۔ لیکن جب وہ لوگ نظام کے حضور پیش ہوئے تو نظام نے اپنے ذاتی خرچ سے پورے صحن کی تعمیرِ جدید کے لے روپئے ادا کر دیئے ۔
ایک اور مسجد پر قبضہ دیکھ کر افسوس ہوا۔ انڈیا گیٹ سے راشٹراپتی بھون تک کے چاروں طرف کا علاقہ جس کے ایک طرف پارلیمنٹ کی عمارت بھی ہے ۔ دوسری طرف ایک وسیع و خوبصورت میدان ہے۔ ایک طرف چند خوبصورت عمارتوں کے درمیان ایک مسجد بھی ہے جو مغلیہ دور کے بعد کی تعمیر لگتی ہے۔ اس کے تین چوتھائی صحن پر لوگوں نے گھر بنا لئے ہیں۔ نماز کے دوران دیوار کی دوسری طرف سے بچوں کے رونے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ نہ جانے ان مسلمانوں کی ایسی کونسی مجبوری رہی ہو گی کہ ایک طرف اگر کوئی غیر مسلم کسی مسجد کو ڈھا دے تو اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں، سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ دوسری طرف خود ہی مسجد کی مقدس زمین پر قبضہ کر کے اس پر دیواریں کھڑی کرتے ہیں اور اندر بچے پیدا کرتے ہیں۔ ان قبضے کے گھروں کے بیچ ایک کونے میں دبی سہمی ہوئی مسجد پر ہمیں بڑا افسوس ہوا۔ تنگ اور گندے حمام خانے دنیا تمام کی مساجد میں مشترک ہیں۔ سوائے امیر مسلم ممالک کے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ غریب ملکوں کی مسجدیں اور حمام مسافروں اور راہگیروں کے لئے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔
راشٹراپتی بھون کی دونوں جانب وزراء کے دفاتر مغلیہ دور کے شان دار فنِ تعمیر کا نمونہ ہیں ۔ جن کے باب الداخلہ پر قرآنی آیات کندہ ہیں ۔ صدیوں بعد بھی یہ عمارتیں عظیم شاہانہ رعب سے کھڑی ہیں ۔ اس کے مقابلے میں پارلیمنٹ کی جدید عمارت کی دیواریں اب لال پڑنے لگی ہیں اور آثار یہی ہیں کہ آئندہ دس بیس سال میں بمبئی کی مخدوش عمارتوں کی طرح نظر آئیں گی۔ مغلوں کی بیشتر عمارتیں لال یا گیرو کے رنگ کے پتھروں سے بنائی ہوئی ہیں۔ یہی رنگ بی جے پی کو بھی پسند ہے اس کا راز ہماری سمجھ میں نہ آیا۔
اگلا دن جمعہ کا تھا۔ ہماری خواہش تھی کہ جامع مسجد کا خطبہ سنیں۔
اس ممبر کو دیکھ کر مولانا محمد علی جوہر کو چشمِ تصور میں لائیں جو کبھی یہاں کھڑے ہو کر مخاطب کیا کرتے ۔ اسی ممبر سے ایک بار جب انہوں نے ہندو فرقہ پرستوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی مسلسل کردار کشی کے واقعات سے مجبور ہو کر بڑی بے بسی سے کہا تھا کہ کیا آج کوئی بھی ایسا مسلمان نہیں رہا جو ان الزامات کا جواب دے سکے۔ سامعین میں ایک بائیس یا تئیس سالہ اس وقت کا غیر معروف نوجوان ابو الاعلی مودودی بھی تھا ۔ وہ اٹھا اور ” حہاد فی الاسلام ” لکھی۔ جو آج بھی اسلامی فکر پر معرکۃ الارا کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔
واقعہ یوں تھا کہ ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس کے ایک تعصب پسند لیڈر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی گستاخی میں ایک کتاب لکھی جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ۔ ایک تانگہ چلانے والے عبدالکریم کو یہ دیکھا نہ گیا اس نے اسے چھڑی سے قتل کر ڈالا جس پر سارے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف فسادات اور احتجاجات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فرقہ پرستوں نے اخبارات اور ریڈیو کے ذریعہ مسلمانوں پر دہشت گردی، جہاد و قتال پسند، بنیاد پرست ہونے کے الزامات لگائے گئے اور پورے ہندوستان میں فرقہ پرستی کو ہوا دی جانے لگی۔ مسلمانوں کے لئے اُس وقت تک کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا جب انہیں سیاست ، سماج اور میڈیا میں تنہا اور بے بس ہونے کا احساس ہوا ۔ جو آج تک باقی ہے۔ ایسے وقت مولانا محمد علی جوہر کی آواز نے جتنے سوئے دلوں کو جگایا ۔ اس مشعل کو لیکر پھر مولانا مودودی اور علامہ اقبال وغیرہ اٹھے ۔
اس ممبر سے برسہا برس تک عبد اللہ بخاری مخاطب کرتے رہے۔ آج کل ان کے صاحب زادے احمد بخاری صاحب خطبہ دیتے ہیں۔ بہت اچھے مقرر اور خطیب ہیں ۔ نماز کے بعد ایک پُر سوز اور ایمان پرور منظر دیکھنے کا موقع ملا۔ تین حضرات نے جامع مسجد میں قبولِ اسلام کیا جن میں سے ایک میاں بیوی تھے جو کویت میں دونوں ملازم ہیں۔ محترمہ کے والد دہلی کے سابق کمشنر اور بی جے پی کے موجودہ اہم کارکن ہیں۔ شوہر پیشے سے ڈاکٹر تھے ہمیں بھی تھوڑی دیر ان سے گفتگو کی سعادت ملی ۔ معلوم ہوا کہ بوسنیا کے لئے جب کوویت ٹی وی کے ذریعہ لاکھوں دینار کی اعانت وصول کی جا رہی تھی اس واقعہ نے ان کو بہت متاثر کیا ۔ مغرب سے مشرق تک مسلمانوں کا ایک دوسرے کے لئے اس جذبہ کو پہلے انہوں نے اسے عصبی حمیت اور مسلمان قوم پرستی کے جذبہ سے تعبیر کیا۔ یہ بات ہر قوم میں فطری طور پر ہوتی ہے لیکن اتنا نہیں ہوتا کہ لوگ اپنی آمدنیوں سے کچھ نہ کچھ نکالنا نا گزیر سمجھیں اور خوشی کے ساتھ نکالیں۔ انہیں خیال یہ ہوا کہ تاوقتیکہ پیچھے کوئی مضبوط نظریہ نہ ہو کوئی اتحاد اتنا طاقتور نہیں ہوتا ۔
اس نظریہ کی تلاش میں انہوں نے قرآن اور دوسری کتابوں کے ہندی اور انگریزی ترجموں کو پڑھنا شروع کیا ۔ بیوی جس کی تعلیم ایل ایل بی تک تھی وہ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ اسلام ایک ایسا قانونِ حیات رکھتا ہے جو ہر طرح سے مکمل ہے۔ جبکہ ہندو دھرم میں سوائے عبادات اور رسم و رواج کے کسی اور شعبۂ زندگی میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس کو پیش کیا جا سکے۔ اس طرح مسلسل مطالعہ کے ذریعہ ذہن و قلوب حقانیت سے منور ہوتے چلے گئے اور انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ہندوستان جب بھی چٹھی پر جائیں گے اسلام قبول کر لیں گے ۔ میرے اس سوال پر کہ انہوں نے جس وقت اسلام قبول کر لینے کا فیصلہ کیا اسی وقت کویت میں ہی اس سعادت کو کیوں نہ حاصل کر لیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ کویت میں ان کمیونٹی کے کئی افراد نے اسلام قبول کیا ہے جب بھی کوئی قبولِ اسلام کا اعلان کرتا کمیونٹی کے لوگ ان کے اس عمل کو شیخ حضرات کو خوش کرنے کی ترکیب سے تعبیر کرتے ۔ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے قبولِ اسلام کو لوگ خوشامد پسندی یا خود غرضی سے تعبیر کریں اس لئے انہوں نے یہاں آ کر اسلام قبول کیا۔
احمد بخاری صاحب نے ملاقات پر بتایا کہ نئی دہلی میں قبولِ اسلام کے واقعات نئے نہیں ہیں۔ تعلیم یافتہ طبقہ بہت تیزی سے اسلام قبول کر رہا ہے جس میں برہمن بھی ہیں اور دوسری ذات کے لوگ بھی۔ ان نو مسلموں میں کچھ لوگ ان ” پاک نفوس ” پر مشتمل ہوتے ہیں جو دوسری شادی کے خواہشمند ہوتے ہیں لیکن ہندو دھرم انہیں جائز رشتے قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ (بے چاروں کو یہ خبر نہیں کہ اسلام جس چیز کی اجازت دیتا ہے اسی کے مخالف سب سے بڑے مسلمان ہیں۔ کوئی مسلمان دوسری شادی کی ہمت کر کے تو دیکھے پھر پورا معاشرہ اس کا جو حشر کرتا ہے وہ شائد ہندو دھرم والے بھی نہ کریں)۔ ایک کثیر تعداد محبت کی شادیوں کی خاطر بھی اسلام قبول کرتی ہے۔ کچھ لوگ مکہ اور مدینہ کے ویزوں کی خاطر بھی اسلام لاتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہوتی ہے۔
اس کے بعد ہم لال قلعہ کی طرف بڑھے۔ اس کے دروازے پر بھارت کا جھنڈا Made in India کے اسٹامپ کی طرح دور سے نظر آ رہا تھا۔
اس کے دو دروازے عوام کے لئے کھلے ہیں۔ ایک دہلی دروازہ دوسرا لاہوری دروازہ ہے ۔ لاہوری دروازے پر جھنڈا لہرا رہا ہے۔ دروازہ خالی ہے۔ لال قلعہ میں داخلہ کے لئے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ نادر شاہ اور انگریز بغیر داخلہ ٹکٹ کے داخل ہو گئے تھے جس کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا شائد اسی لئے بھارت سرکار نے داخلہ ٹکٹ مقرر کر دیا مغلوں کی نسلیں تو مغلوں سے کوئی وراثت یا وظیفہ نہ پا سکیں ۔ کچھ عرصہ قبل بہادر شاہ ظفر کی نسل کے آخری دعویدار کلکتہ میں حکومت سے کاروائیوں کی تکمیل کے انتظار میں غربت و افلاس اور فاقہ کشی میں انتقال کر گئے۔ بہادر شاہ کی سکّڑ پوتی کی شادی کے لئے ایک مقامی ہندو تنظیم نے انسانیت کی بنیاد پر چندہ جمع کر کے شادی کی۔ البتہ مغلوں کی عمارتوں سے اب تک کئی کروڑ سرکارحاصل کر چکی ہے۔ اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دہلی کے لُٹنے اور پھر بسنے کا اسکور آگے نہیں بڑھے گا۔ نصابی کتب سے مسلمانوں کی تاریخ کے ساتھ ساتھ مغلوں کا تذکرہ تو تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ باقی جو کچھ ہے وہ انہی شاندار عمارتوں کی وجہ سے زندہ ہے کیونکہ یہ منہدم نہیں کی جا سکتیں۔ جن سورماؤں کا تذکرہ بھر دیا گیا ہے وہ بغیر کوئی نشانی چھوڑے نصابی کتابوں کے ذریعہ ذہنوں میں بٹھائے جا رہے ہیں۔ جبکہ کئی تو ان میں ایسے ہیں جن کا وجود بھی ثابت نہیں۔
لال قلعہ آج بھی ایک عظیم زندہ شاہی محل لگتا ہے۔
اسی کے احاطہ میں انگریز,ں نے اپنی فوجی barracks بنائیں جو مخمل میں ٹاٹ کے پیوند کی طرح کھڑی ہیں۔ دیواروں سے ایک بوسیدہ فیکٹری کا گمان ہوتا ہے۔ جبکہ لال قلعہ کے دیوانِ عام ، دیوانِ خاص ، رنگ محل اور شیش محل کی عمارتیں پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑی ہیں۔ البتہ دیواروں کی اداسی یہ صاف کہتی نظر آتی ہے کہ وہ شایانِ شان مکین ہمیں پھر میسر نہ آسکے۔ اور یوں لگتا ہے جیسے ابھی ابھی چھوڑ کر گئے ہیں۔ دیوانِ خاص میں وہ سنگِ مر مر کا تخت موجود ہے جس پر کبھی تخت ِ طاؤس ہوا کرتا تھا۔ اب بچے بیٹھ کر تصویریں کھنچواتے ہیں ۔ ان تمام عمارتوں میں اتنے ہیرے جڑے ہوئے تھے کہ ان کی چمک سے لال قلعہ شام سے ہی بقعۂ نور بن جاتا۔ کبھی کسی قندیل کی ضرورت نہ پڑتی۔ شیش محل جس کی دیواروں پر آئینے اور ہیرے جڑے تھے پتھروں کو جوڑنے والی لکیروں میں چاندی تھی۔ ہیرے نادر شاہ کی نذر ہوئے اور آئینے اور چاندی انگریزوں کے خزانوں میں محفوظ کر دیئے گئے۔ شیش محل کو انگریزوں نے کچن میں تبدیل کرد یا جس کی وجہ سے دیواریں کالی پڑ گئیں ۔ رنگ محل کی اندرونی دیواروں پر یہ شعر دیکھ کر تحت الشعور میں نمرود کی جنت کا واقعہ ذہن میں ضرور تازہ ہوتا ہے :
گر فردوس بر رُوئے ز میں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
یعنی اگر فردوس زمیں پر ہوتی تو یہیں ہوتی، یہیں ہوتی اور یہیں ہوتی۔
نادر شاہ بغیر کسی Inventory کے کئی سو اونٹوں اور گھوڑوں پر ہیرے ، جواہرات و قیمتی سامان لاد کر ایران لے گیا جس کا آج ایران سے حسا ب مانگنا مشکل ہے ۔ لیکن انگریزوں نے خود inventory کا سسٹم دیا جو ان کے حلق کا کانٹا بن گیا۔ تختِ طاؤس سے لُوٹے ہوئے کوہِ نور کے لئے انگلینڈ پر بھارت سرکار کا دعوی پتہ نہیں کتنے برسوں سر چل رہا ہے۔ دیوانِ خاص کی سیدھی جانب اورنگ زیب کی اپنی ذاتی کمائی سے بنائی ہوئی موتی مسجد قلعہ کی تکمیل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ چھوٹی سی خوبصورت سنگِ مر مر سے بنی مسجد پتہ نہیں کتنے برسوں سے بند ہے؟ اس پر زیرِ تعمیر کا بورڈ لگا ہوا ہے۔
اندھیرا ہونے کے ساتھ ہی ایک دلچسپ تاریخی پروگرام sound & light پیش کیا جاتا ہے جس کے لئے علیحدہ ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ اس میں شاہ جہاں آباد یعنی دلی کے آغاز سے لے کر 15 / اگست 1947ء تک مختلف سیاسی ادوار بہت اچھے طریقے سے پیش کیئے جاتے ہیں ۔ ایک گھنٹہ کے اس پروگرام میں سامعین کہیں بور نہیں ہوتے۔ بہت معلوماتی پروگرام ہے البتہ بعض جملے عصبیت سے بھر پور ہیں جو کسی آر یس یس کے اسکرپٹ رائٹر نے لکھے ہیں۔ جیسے :
” اورنگ زیب نے پورے پچاس سال ہندوستان پر حکومت کی ۔ وہ ایک تنگ نظر انسان تھا”۔
اگلے دن ہم تاج محل دیکھنے کے لئے روانہ ہوئے۔
دہلی سے آگرہ کا 215 کلو میٹر کا راستہ آدھے سے زیادہ زیرِ تعمیر ہے۔ ڈرائیور نے بتایا کہ سڑک کو بنتے ہوئے دس سال پورے گزر چکے ہیں۔ دہلی کے بعد ہریانہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اتر پردیش۔ تاج محل دیکھنے کا جو بھی خواہشمند ہو وہ گرمیوں میں ہرگز نہ جائے۔ دہلی سے وحشتناک گرمی کا سلسلہ آگرہ جا کر اور بڑھ جاتا ہے۔ البتہ تاج کو دیکھتے ہی کچھ لمحوں کے لئے آدمی سورج کی گرمی بھول جاتا ہے۔۔ سفید سنگِ مر مر کی یہ عمارت واقعی ہندوستان کا تاج کہلانے کے لائق ہے۔ حقیقت میں ایک سچے عاشق کا اپنی خوبصورت محبوبہ کے لیئے خوابوں کا محل ایسا ہی ہو سکتا ہے جیسے کہ یہ زندہ کھڑا ہے۔
صدیوں بعد بھی نہ اس کی خوبصورتی ماند پڑی ہے اور نہ کوئی پتھر کہیں سے ٹوٹا ہے۔ البتہ ریاست کی فیکٹریوں اور متھرا ریفائنری کے دھوئیں نے بعض بعض جگہ کچھ کالے نشان ڈال دیئے ہیں جو قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوتے ہیں ۔ تاج محل میں داخل ہونے کے لئے بھی ایک عالیشان محل سے گزر کر باب الداخلہ پر پہنچتے ہیں جو بذاتِ خود تاج محل سے کم نہیں۔ تین طرف ایک ہی نمونے کی شاہانہ عمارتیں ہیں۔ چوتھی طرف جمنا ندی۔ درمیان میں تاج محل دلہن کی طرح کھڑا ہے۔ زیادہ تر یہاں نو شادی شدہ جوڑے نظر آتے ہیں۔ اسے دیکھ کر ہر شوہر کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنی بیوی کی یاد میں ایک ایسا ہی تاج محل بنائے لیکن ہر شوہر کی قسمت شاہجہاں جیسی کہاں جس کی بیوی بیوہ ہونے سے پہلے شاہجہاں کو کچھ کرنے کا موقع دے کر چلی گئی۔
آج کے مالدار شوہروں نے بھی بیوی کے مرنے کے ساتھ ہی دوسری شادی کرنی شروع کر دی ہے اس لئے اب تاج محل جیسی عمارتیں بننی ختم ہو گئی ہیں۔
صرف نواب صفدر جنگ نے شاہجہاں کی تقلید کی اور ایک محل دہلی میں تعمیر کیا لیکن بہر حال لال پتھر کا بنا ان کا یہ محل ، تاج محل کی بھونڈی نقل لگتا ہے جس کا داخلہ ٹکٹ ہونے کے باوجود لگتا ہے برسوں سے نہ اندر صفائی ہوئی ہے اور نہ حوض کا پانی بدلا گیا ہے۔
تاج محل میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے سامنے سے فوٹو گرافرس کا لشکر حملہ آور ہوتا ہے۔ پھر گائیڈز کا دائیں بائیں سے۔ یہ لوگ اس قدر گھیرتے ہیں کہ آدمی تاج محل دیکھنا چھوڑ کر ان لوگوں سے جان چھڑانے کے لئے سعی و جہد میں لگ جاتا ہے۔ اور جب باہر نکلتے ہیں تو مختلف اصلی و نقلی مصنوعات بیچنے والے لڑکوں کی گوریلا فوج سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ جن کی چالاک سیلزمین شپ سے بچنے کے لئے خاصی محنت اور سمجھداری کی ضرورت ہے۔
مقبرہ کے اندر داخل ہونے کے بعد جالیوں سے آتی ہوئی جمنا ندی کی طرف سے ٹھنڈی ہوائیں گرمی کے احساس کو بھلا دیتی ہیں۔ ممتاز محل کی قبر بیچوں بیچ ہے۔ اس کے ایک کونے میں شاہ جہاں کی قبر ہے۔ ایک عدد مجاور صاحب یہاں بھی موجود ہیں جو ہندو اور انگریز عورتوں کو لائین میں کھڑا کر کے ایک تھالی میں کچھ گیندے کے پھول ایک ایک عورت کی طرف بڑھاتے ہیں وہ دو تین پھول اٹھا کر ممتاز محل کی قبر پر پھینکتی ہے اور کچھ روپئے تھالی میں رکھ کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ جس کے شکریہ کے طور پر مجاور صاحب ایک عجیب مترنم آواز میں اللہ اکبر پکارتے ہیں ۔ ہم نے مجاور سے دریافت کیا کہ آیا وہ شاہ جہاں کے خلیفہ ہیں؟ انہوں نے غصے سے ہماری طرف دیکھا اور انگلی سے دفع ہو جانے کا اشارہ کر کے دوسری ہندو عورت کی طرف تھالی بڑھائی ۔ قبروں کا کاروبار ہندوستان میں نیا نہیں ہے ۔ لیکن کوئی ہمت کر کے شاہ جہاں اور ممتاز محل کی قبروں کی بھی ایجنسی Agency حاصل کر لے گا ہمیں یہ توقع نہیں تھی۔ ایک گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ شاہجہاں کے خلفاء اور مجاوروں کا انتخاب پولیس کی رضامندی اور حصہ داری پر منحصر ہے۔
پورے سفر میں مسجدوں کی افسوس ناک حالت دیکھنے میں آئی۔ جگہ جگہ جدید طرزِ تعمیر کے گردوارے اور مندر ملتے ہیں ۔ اگر کسی ویرانے میں کوئی پتھر بھی لگا ہو تو دو چار لوگ اطراف تظر آ جاتے ہیں۔ لیکن کئی صدیوں تک مسلمانوں کے زیرِ اثر رہنے والی ان ریاستوں میں دور دور تک مسجد نظر نہیں آتی۔ راستہ میں کچھ مسجدیں ایسی ہیں جنہیں مخدوش قرار دے کر بند کر دیا گیا ہے۔ اس معاملے میں حکومت حق بجانب بھی ہے ۔ جن راستوں سے روزانہ بے شمار مسلمان بھی گزرتے ہوں گے لیکن کبھی کوئی گاڑی روک کر بوقتِ نماز مسجد نہیں جاتا ۔ ان مسجدوں کو کیسے باقی رکھا جا سکتا ہے ؟ البتہ کچھ درگاہیں ملیں جیسے
” حضرت ماموں بھانجہ "
” حضرت گلال شاہ ” وغیرہ ۔
یہاں مجاور اور کچھ زائرین نظر آئے جو پھول چڑھاتے ہیں ڈبّے میں کچھ روپئے ڈال کر مجاور صاحب کے ذریعے مرحوم کی خدمت میں کچھ عرضداشت پیش کرتے ہیں۔ ظہر کا وقت ہو چلا تھا۔ ہم ایک درگاہ میں گھسے کہ شائد مسجد مل جائے اور نماز ادا کر لیں ۔ مسجد تو مل گئی لیکن پتہ چلا کہ حمام سڑک کی دوسری جانب جھاڑیوں کی اوٹ میں ہے۔ گرد آلود مصلےّ پر کبھی کبھار کوئی مسافر یا مجاور اپنی اپنی انفرادی نماز پڑھ لیتے ہیں جماعت وغیرہ نہیں ہوتی۔
تاج محل کے وسیع و عریض صحن میں بھی سیدھی جانب تاج محل کے شایانِ شان ایک مسجد موجود ہے لیکن اس کے اطراف درخت اتنے بڑھا دیئے گئے ہیں کہ مسجد دانستہ طور پر نظروں سے اوجھل کر دی گئی ہے۔ ۔ شاذ و نادر ہی کوئی پتہ پوچھ کر گھوم کر داخل ہوتا ہے۔ یہ نا ممکن تھا کہ مسلمان خود نماز کا ارادہ کر کے مسجد ڈھونڈھے اور مسجد کے دروازے اس کے لئے بند کر دیئے جائیں۔ ہزارہا مسلمان موجود ہو تے ہوئے مسجدیں بند ہوں یہ بے سبب ہرگز نہیں ۔ اذان کی آواز آئے نہ آئے ضمیر سب سے بڑا موذّن ہے۔ اگر وہ نماز کے وقت کے ساتھ ہی اذان نہیں دیتا تو ایسے گونگے بہروں کے لئے حکومت مسجدوں کی حفاظت کیونکر کر سکتی ہے۔ اس لئے ایسی مسجدوں کا متروک و مسدود ہو جانا ایک لازمی نتیجہ ہے۔
اس کے بعد ہم نے قطب مینار دیکھا۔
اگر چیکہ بے شمار تاریخی یادگاریں مسلمان بادشاہوں ہی کی ہیں لیکن قطب مینار آنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان بادشاہوں کی یادگاریں ہیں جو حقیقت میں اسلام پسند تھے۔ علا الدین خلجی ، التمش کے مدرسے علای مینار اور مسجدِ قطب مینار کے ساتھ ہی ہیں۔ مینار اور مسجد و مدرسہ کی دیواروں پر کلمہ طیبہ اور آیاتِ قرآنی بکثرت ہیں۔ داغ دوزی کے نام پر قطب مینار پر سے کئی آیات کوسمنٹ دوز کر دیا گیا ہے ۔ مسجد موجود ہے لیکن لوگ اسے آثارِ قدیمہ سمجھ کر جوتوں سمیت آرام سے گھومتے ہیں۔ جنمیں خود کئی مسلمان شامل ہیں۔ جبکہ اطراف کی بے شمار دوکانیں مسلمانوں کی ہیں۔ اگر دو چار مسلمان بھی وضو کر کے آ جائیں تو نہ صرف مسجد محفوظ ہو جائے بلکہ ہزاروں دیکھنے والوں کے سامنے دین کے ایک اہم رکن کا مظاہرہ ہو۔ ہم نے چند وزیٹرز اور دوکانداروں سے وہاں نماز نہ پڑھنے کی وجہ پوچھی اور یہ محسوس کیا کہ لوگ احساسِ کمتری اور خود مسلط کردہ خوف کا شکار ہیں ۔ بے شمار مسلم اور غیر مسلم وزیٹرز کے سامنے مسجد جانے اور جماعت بنانے سے قدامت پسند کہلانے کا کا خدشہ ہے اس لئے ایسے اعراض کرتے ہیں جیسے کوئی معیوب کام ہو۔ جبکہ خرافات کو انجام دیتے ہوئے بالکل نہیں شرماتے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر اس مدرسہ اور مسجد کے ویران احاطوں میں چند پتھروں پر لال پیلے رنگ کر دیئے جائیں تو پوجا پاٹ کر نے والوں کا ایک جمِ غفیر جمع ہو جائے گا اور کسی نہ کسی بھگوان کی جائے پیدائش معہ شجرہ نسب راتوں رات وجود میں آ جائے گی۔ کم از کم ایک ویرانہ آباد تو ہو جائے گا۔ مسلمان نہیں کریں گے تو کوئی اور تو کرے گا۔
بھول بھلیّاں ، ہمایوں کا مقبرہ بھی تاریخی یادگاریں ہیں جنہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ اپُّو گھر بچوں کی تفریح کے لئے الکٹرک جھولوں ، کشتیوں اور نقلی Dinasaurs پر مشتمل ہے جو کسی نے اگر جدہ ، دوبئی یا یورپ نہ دیکھا ہو تو یہ اس کے لئے بہت دلچسپ ثابت ہو سکتا ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ سارا دلّی بے دین مسلمانوں سے بھرا ہوا ہے ۔ جہاں اسے ہر دور میں بادشاہوں اور حکومتوں کا مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے وہیں دینی لحاظ سے ساری دنیا کا مرکز ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔ تبلیغی جماعت، اہلِ حدیث اور جماعتِ اسلامی کے بھی مراکز یہیں ہیں جہاں سے ساری دنیا میں دین کی دعوت ہر ملک ، ہر زبان اور ہر فرقہ میں پھیل رہی ہے۔ دوسری طرف حضرت نظام الدین اولیا (رحمۃ اللہ علیہ) اور حضرت امیر خسرو (رحمۃ اللہ علیہ) وغیرہ جیسے نامور بزرگوں کی درگاہیں بھی ہیں جہاں ساری دنیا سے لوگ کھنچے آتے ہیں۔ ان مراکز میں گئے بغیر یہ محسوس نہیں ہو گا کہ آپ مسلمانوں کے شہر آ کر گئے ہیں۔
تبلیغی جماعت کے مرکز سے آگے بڑھیئے تو گلی تنگ ہوتی ہوئی درگاہ نظام الدین اولیاء (رحمۃ اللہ علیہ) کے باب الداخلے پر ختم ہوتی ہے۔ پچاس قدم پہلے بائیں جانب غالب اکیڈیمی ملتی ہے جس کے بورڈ کو اگر غور سے نہ پڑھا جائے تو آپ اسے بھی کوئی درگاہ سمجھ کر آگے گزر سکتے ہیں۔ درگاہ میں داخل ہونے سے پہلے سیدھے اور الٹے جانب بے شمار پھولوں اور بتاشوں کی دکان والے اور والیاں آپ کو پکار پکار کر متوجہ کر تی ہیں گویا یہ نذرانہ ہاتھ میں لئے بغیر داخل ہو ں گے تو بے ادبی ہو گی۔
احاطہ میں داخل ہونے سے قبل اگر آپ نے جوتے نہ اتارے تو کوئی نہ کوئی مجاور آپ کو اس طرح اشارہ کریں گے جیسے آپ گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہو چکے ہیں ۔ پہلے حضرت امیر خسرو (رحمۃ اللہ علیہ) کا مزار ہے جو انتہائی تنگ کمرے میں ہے اس کے بعد ایک شاندار گنبد کے نیچے حضرت نظام الدین اولیا (رحمۃ اللہ علیہ) کی مزار ہے۔ دونوں جگہ ایک جیسے مناظر ہیں۔
کچھ لوگ مجاور حضرات کی رہنمائی میں زیارت کرتے ہیں جیسے طواف و سعی میں مطوف حضرات رہنمائی کرتے ہیں۔ عقیدت و معرفت کی معراج یہاں نظر آتی ہے۔ کئی لوگ مزار پر پر مزین مخمل کی چادر کے اندر سر ڈال کر سجدہ ریز مصروفِ تعظیم و طلبِ حاجات میں مصروف رہتے ہیں۔ کئی لوگ پھولوں کی چادر بچھا کر فاتحہ خوانی میں یا کونے میں کھڑے مراقبے میں مصروف ہوتے ہیں ۔ عورتیں قبر کے پاس داخل نہیں ہو سکتیں اس لئے یہ دس قدم کے فاصلے پر ایک جالی والی دیوار کے پیچھے جمع ہوتی ہیں۔ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی زیارت و طلبِ حاجات کے آداب بتانے کے لئے کئی ایک سینئر اور جونئر مجاور حضرات گھومتے ہوئے پائے جاتے ہیں جو نذروں ، منتوں اور فریادوں کو معقول معاوضے پر لکھ کر درگاہ کے حضور پیش کرتے ہیں ۔ نشانی کے طور پر درگاہ کی جالی سے ڈوریاں باندھ دی جاتی ہیں۔ دونوں مزاروں کے درمیان سیدھی جانب ” حجرۂ فِردوسِ بریں ” ہے جہاں سجادہ نشین تشریف رکھتے ہیں ۔ حجرۂ فِردوسِ بریں کی تختی کے نیچے ” کُل عملیات ِ سحر ” "جادو ٹونے وغیرہ کے علاج کا مرکز ” کی بھی تختی نظر آتی ہے۔
پیلا رنگ حضرت نظام الدین (رحمۃ اللہ علیہ) اور ان کے چاہنے والوں سے مخصوص ہے۔
ایک بزرگ مجاور صاحب نے پیلے رنگ کی خصوصیت کے بارے میں بتایا کہ ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ جن بزرگوں نے فرمائی وہ تقریر و وعظ یا کتابی شکل میں نہیں تھی بلکہ لاکھوں ہندوؤں کو انہوں نے بھجن وغیرہ کو حمد و نعت میں بدل کر سنایا اور لوگ جوق در جوق مشرف بہ اسلام ہونے لگے ۔ پیلے رنگ سے وابستہ ایک واقعہ یوں ہے کہ :
ایک مرتبہ کچھ عورتیں بسنتی کی خوشیاں مناتی ہوئی پیلے کپڑوں اور پیلے و زعفرانی ڈوپٹوں کو لہراتے اور گیت گاتے ہوے حضرت امیر خسرو (رحمۃ اللہ علیہ) کے پاس سے گزریں۔ حضرت کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ یہ بسنتی کا تیوہار ہے۔ یہ اتحاد و اتفاق کی نشانی ہے۔ اس لئے آج کا دن عید کے طور پر منایا جاتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ تو ہماری بھی عید ہے کیونکہ اسلام اتحاد و اتفاق کا مذہب ہے۔ انہوں نے بھی ایک پیلی چادر زیب تن فرمائی اور سب کے ساتھ حضرت نظام الدین (رحمۃ اللہ علیہ) کے حضور پہنچے ۔ حضرت نے جب سارا ماجرا سنا تو پسند فرمایا اور اس کے بعد یہی رنگ صدیوں سے ہندو و مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ایک علامت ہے۔
ہر سال بسنت کے موقع پریہ خوشیاں منا کر اس واقع کی تذکیر کی جاتی ہے کہ کس طرح اولیائے کرام نے ہند میں اسلام کی جڑوں کو مضبوط کیا۔ بزرگ نے بتایا کہ یہ تفصیلی واقعہ سجّادہ صاحب نے بسنتی کے روز دور درشن پر بھی پیش کیا ۔ بہر حال اگر یہ حوالہ نہ بھی دیا جاتا تو ہمیں یقین تھا کہ ان رسومات کے پیچھے یقیناً اولیائے کرام کا کوئی نہ کوئی ، اجتہاد رہا ہو گا ورنہ بے سبب تو کوئی رسم شروع نہیں ہو جاتی۔
تیسرا بڑا اسلامی مرکز جماعتِ اسلامی کا مرکز ہے جہاں پہنچنے کے لئے اوکلا کی گندی متوفّن بستیوں سے گزرنا لازمی ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ جامعہ ملیہ اور ڈاکٹر ذاکر حسین کالج کے راستے بھی یہیں سے گزرتے ہیں۔ ان تعلیمی مراکز پر مسلمان طلبا کی چہل پہل دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ اعلی تعلیم اور تخقیق کے کئی شعبے یہاں موجود ہیں۔ علی گڑھ کے بعد مسلمان طلبا کے لئے بشمول ہمدرد یونیورسٹی کے دہلی سب سے بڑا تعلیمی مرکز ہے جہاں سے مستقبل کی کم از کم شمالی ہندوستان کی مسلم قیادت ابھرے گی۔
کناٹ پیلیس دنیا کے بڑے Shopping Centres میں شمار کیا جاتا ہے۔ انگریزوں کا بنایا ہوا یہ خوبصورت بازار ہزاروں دوکانوں پر مشتمل ہے جہاں ملکی اور غیر ملکی تمام چیزیں مل جاتی ہیں بالخصوص وہ کتابیں جو لندن وغیرہ میں چار گنا زیادہ قیمتی ہوتی ہیں یہاں سستی مل جاتی ہیں جو کہ چوری سے چھاپ کر فروخت کی جاتی ہیں۔ کاپی رائٹس کا مسئلہ ہندوستان پاکستان میں نہیں ہے اس لئے مصنف بے چارا تو اپنی کمائی پوری اپنی تخلیق پر لگا دیتا ہے اور صِلے کے تمنا میں مر جاتا ہے لیکن پبلشر ان کی کتابیں بغیر کسی اجازت کے شائع کر کے خوب کماتے ہیں۔ کئی مصنف تو بے چارے ایسے ہوتے ہیں جو عدالتی کاروائی کرنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے اس لئے یہی سوچ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ چلو اسی بہانے ان کی تحریر تو مشہور ہوئی۔ اس سے لگا ہوا پرکرما ریسٹورنٹ جو دلی کی بلند ترین عمارت کی چھت پر ہے یہ ایک Revolving Restaurant ہے جس میں بیٹھ کر آپ نوے منٹ کے ایک چکر میں پوری دہلی کے اہم مقامات کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ کناٹ پیلیس میں دو آباد مسجدیں دیکھ کر خوشی ہوئی جو نو جوان مصلیوں سے ہمہ وقت پُر ہوتی ہیں۔
دلی کو خدا حافظ کہنے سے پیشتر یہ تا انصافی ہو گی اگر ہم چاندنی چوک، چتلی قبر ، بلی ماران اور اس جیسی پرانی دلی کی دوسری گلیوں میں رہنے والوں کو خراجِ تحسین پیش نہ کریں۔
یہاں چونکہ کاریں داخل نہیں ہو سکتیں اس لئے رکشہ والوں کی حکومت ہے۔ جس طرح حیدرآباد میں آٹو والے حضرات کاروں اور لاریوں کو بھی نظر انداز کر کے چلاتے ہیں اسی طرح یہاں رکشہ راں بھی راہگیروں سے مکمل بے نیازی برتتے ہیں ۔ یہاں عزت بچانا اتنا مشکل نہیں جتنا جان بچانا ہے۔
تنگ گلیوں میں دونوں جانب قبر سے بھی کم جگہ پر دوکانیں ، خریداروں کا ہجوم ، سائکل رکشے اور ٹانگوں کا سیلاب دیکھنے کو ملتا ہے۔ صرف انسان ہی نہیں اتنی ہی تعداد میں کُتے، بلیاں اور گائے ہوتے ہیں۔ کتے اور بلی کی ساتھ آپ جیسا چاہے سلوک کر لیں لیکن کسی گائے کے حضور آپ نے کوئی گستاخی کی اور انہیں سڑک کے بیچ سے ہٹانے کی کوشش کی تو آن واحد میں ہندو مسلم فساد پھوٹ سکتا ہے۔
یہاں لوگ چلتے نہیں ہیں بلکہ بھیڑ انہیں چلاتی ہے۔ رکشے بھی کچھ ایسی وضع کے کہ جن پر بیٹھنے سے پیشتر گھڑ سواری کی ٹریننگ حاصل کر لینی چاہیئے ۔ ورنہ یوں لگتا ہے کہ آن میں پھسل کر نیچے آ جائیں گے ۔ ان رکشہ رانوں کی حالت پر جہاں ہمیں رحم آیا وہیں یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی کہ ان پر سواری کرنے والے اکثر حضرات ٹائی سوٹ میں بھی ، چغوں میں بھی ملبوس ہوتے ہیں ۔ تین تین لوگوں کو ایک مریل سا کمزور انسان کھینچتا ہے اور یہ حضرات پوری شانِ بے نیازی سے غریب سے رکشہ کھنچواتے ہیں۔ فقیروں کا جمِ غفیر جگہ جگہ راستہ روکے کھڑا ہوتا ہے۔ ان کی وجہ سے گزرنے والوں کو کتنی رکاوٹ ہوتی ہے وہ بالکل احساس نہیں کرتا۔ کیا کریں تنگ و تاریک ایک ایک دو دو کمروں پر مشتمل مکانوں میں پیدا ہو کر رینگنے جگہ نہ ملی تو سیدھے باہر آ کر سڑک پر دوڑنا سیکھتے ہیں ۔ سڑک کی دونوں جانب موریاں ، سروں کو چھوتے ہوئے بجلی کے تار اور بے شمار گڑھے ۔ ان تمام سے بچتے بچاتے چلتے ہوئے یہ تو محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی روایتی بستی سے گزر رہے ہیں لیکن یہ نہیں لگتا کہ اس شہر میں ہیں جو بین الاقوامی شہر ہے ۔
بہرحال پرانی دلی کے باسیوں کے صبر ، مستقل مزاجی اور قلندرانہ بے نیازی کو ہم سلام کرتے ہیں ۔
٭٭٭
مصر نامہ
ڈاکٹر عابد معز کو ہم نے بقر عید کی مبارکباد دی اور پوچھا عید کیسے گزری۔
انہوں نے کہا "بکروں کے ساتھ”۔
ہم نے کہا : الحمدللہ! ہماری عید انسانوں کے ساتھ گزری، ہم مصر میں تھے۔
انہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا اس سے بہتر لطیفہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے سفر نامہ لکھنے کا حکم دے ڈالا۔
ہم نے کہا کہ سفر نامہ تو امریکہ یا یورپ کا ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارے اکثر ادیب محض سفر نامہ لکھنے کے لئے وہاں کا سفر کرتے ہیں۔ کئی تو پہلے سے ہی لکھ رکھتے ہیں بعد میں کچھ تصویریں لینے سفر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا "میں آپ کو سفر نامہ نہیں "مصر نامہ” لکھنے کہہ رہا ہوں بھلے آپ سنجیدگی سے لکھئے "شگوفہ” کے قارئین کے لئے یہ خود مزاح پیدا کر لے گا۔ "
مصر آ کر ہمیں پتہ چلا کہ ترکی کی طرح مصریوں نے بھی یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو یورپین یونین میں شامل کرلیا ہے کیونکہ یہاں کے کسی ٹوئیلٹ میں ہمیں نہ Tissue paper ملا نہ پانی۔ Tissue paper کا نہ پایا جانا تو خیر ترقی یافتہ ہونے کی نشانی تھی ہی لیکن مصری چونکہ ہندوستانیوں کی طرح ترقی ذرا دیر سے کرتے ہیں لیکن پھر ترقی کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ اس لئے اس جدّت پسندی پر ہمیں حیرت نہ ہوئی۔
شاید اسی لئے یہاں گوروں کا ایک تانتا بندھا رہتا ہے۔ ہم نے سردار جیوں کے بارے میں اتنا کچھ سنا تھا کہ پنجاب دیکھنے کی بڑی خواہش تھی۔ خیر ہم نے ہندوستان کا پنجاب تو نہیں دیکھا لیکن عرب کا پنجاب دیکھ لیا۔ اب یہ پتہ نہیں کہ مصری پہلے سردار جی تھے یا سردار جی پہلے مصری تھے۔
تاریخ سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مصری سردارجیوں سے بڑے ہیں۔ اسی لئے احتراماً یہاں کئی سردار جی آتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں۔ ہم نے کئی ملک دیکھ ڈالے لیکن یہ پہلا ملک ایسا نظر آیا جہاں کوئی کٹّی صاحب یا کویا صاحب نظر نہیں آئے۔ مصر کو ہمارے ملیالی بھائیوں نے آ کر فوری اپنے سالے بہنوئیوں کی فوج کو جمع کرنے کی قابل جگہ کیوں نہیں سمجھایہ مصر کے لئے شرم کی بات ہے۔ اس پر مصری حکومت کو ہندوستان کے خلاف احتجاج کرنا چاہئے۔
آدمی دوسرے ملکوں کی سیر اسی لئے کرتا ہے کہ کچھ دن کے لئے ہی سہی دوستوں سے نجات تو ملتی ہے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ افسر فہیم صاحب پہلے ہی سے وہاں ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے سعودی عرب میں رہتے ہوئے اتنے دوست پال لئے تھے کہ سب سے نجات پانے مصر چلے گئے لیکن تھوڑے دن میں ہی اُنہیں پرانے یاروں کی یاد بے چین کرنے لگی۔ وہ واپس آنے کا ارادہ نہ کر بیٹھیں یہ سوچ کر ہم خود ان کی ڈھارس بندھانے مصر پہنچ گئے۔ وہ اتنے دوست ساز اور دوست نواز انسان ہیں کہ مکڑی کے جالے کیطرح جہاں بھی جاتے ہیں اپنا جالا بن لیتے ہیں۔ اتنے کم عرصے میں انہوں نے مصر میں بھی اتنے دوست بنا لئے ہیں کہ لوگ سفیرِ ہند کا نام کم جانتے ہیں اور افسر فہیم کا زیادہ۔
کئی دوستوں سے تعارف کروایا۔ زیادہ تر غیر حیدرآبادی تھے اس لئے ہر جگہ زبان کو کلف دے کر استری کرنی پڑتی تھی۔ ہَوْ نکّو کیکو سے بچتے ہوئے گفتگو کرنے میں ایسے ہی محسوس ہوتا ہے جیسے پینتالیس انچ کی کمر والا چالیس انچ کی پتلون پہن لے۔
ایک جناب عزیر احمد صاحب ملے ۔ ان کا تعلق بہار سے ہے۔ ریڈیو مصر کی اردو نشریات پر خبریں اور دوسرے موضوعاتی پروگرام پیش کرتے ہیں اس کے ساتھ حضرت ثناء اللہ پانی پتی کی تفسیرِ قرآن پر عربی میں جامعہ ازہر سے ڈاکٹریٹ بھی کر رہے ہیں۔ ایک مولانا جناب منصور احمد صاحب کا تعلق سہارنپور سے ہے اور یہ امام کرمانی کی شرحِ بخاری (الکواکب الدراری) پر جامعہ ازہر ہی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ایک اور مقناطیسی شخصیت جو دینی ،علمی اور سماجی حلقوں میں معروف ہے بلکہ مرکز ہے وہ تھے جناب شعیب اسلام صاحب جن کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ جامعہ ازہر سے انہوں نے ” پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اعتراضات اور ان کے جوابات” پر ڈاکٹریٹ کی ۔ اب اپنی علمی خدمات کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ جو بہت جلد کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں اپنی خدمات تدریس پیش کرنے کے لئے جدہ تشریف لانے والی ہیں۔
ایک ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی جن کا تعلق حیدرآباد ہی سے ہے ۔ ان سے مل کر ہم رات بھر انہی کے بارے میں سوچتے رہے۔ اور بیگم اختر کی گائی ہوئی ایک غزل کے مصرعے کو یاد کرتے رہے۔
"اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا”
محبت میں دل کے ساتھ ساتھ گھر اور زندگی لٹ جانے کے قصّے سنے تو بہت تھے لیکن پہلی بار ڈاکٹر صاحب سے مل کر دیکھ بھی لیا۔ سعودی عرب میں یوں تو بے شمار لوگ دیکھے جن کا دل کسی نہ کسی مصری حسینہ پر آجاتا ہے لیکن کسی زلیخائے مصر کا کسی ہندوستانی پر یوں دل آ جائے کہ دونوں سعودی عرب چھوڑ کر مصر آبسیں یہ کبھی نہیں ہوتا لیکن ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہوا۔
یہاں تک تو خیر ٹھیک تھا لیکن اس کے بعد یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی پہلی بیوی نے کورٹ اورپولیس کی وہ کاروائیاں کر ڈالیں کہ ان کا انڈیا جانا ممکن نہیں رہا۔ ادھر مصری قوانین جو شہریت دینے کے معاملے میں اتنے سخت ہیں کہ سعودی عرب میں بھی شہریت حاصل کرنا شائد ممکن ہو لیکن مصر میں نہیں۔ عمر بھی ایسے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جسمیں وطن چاہے وہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو اس کی مٹی کی خوشبو سانسوں کے لئے آکسیجن اور اپنا گھر اور اپنے لوگ چاہے وہ کتنے برے ہوں، غذا کا کام دیتے ہیں۔ اس محرومی کے نتیجے میں شائد وہ نفسیاتی الجھن کا شکار ہو کر مایوسی اور Depression کا شکار ہو چکے ہیں۔ بقول افتخار عارف کے
"عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
تمام عمر چلے اور گھر نہیں آیا”۔
ڈاکٹر صاحب کے رکھ رکھاؤ ، گفتگو اورمسکراہٹ میں اب بھی حیدرآبادی تہذیب مکمل رچی ہوئی ہے۔ ان کی بے چارگی اور اکیلا پن رات بھر ذہن پر چھائے رہے اور ان کا درد اپنے دل میں محسوس ہوتا رہا۔ ان کے لئے دعا کے علاوہ اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہم جس سے بھی کہتے کہ ہم مصر جا رہے ہیں اس کی آنکھوں میں ایک چمک اور حسرت کے ساتھ ساتھ چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ بھی پھیل جاتی ۔ ہم بھانپ لیتے کہ وہ آگے کیا کہنے جا رہا ہے اس لئے ان کی زبان کھلنے سے پہلے ہی ہم کہہ دیتے کہ
"بھائی ہم اپنی فیملی کے ساتھ جا رہے ہیں”۔
وہ کچھ نہ کہتا لیکن ہم اس کے ردّ عمل میں پوشیدہ یہ خاموش جملہ ضرور پڑھ لیتے کہ
"آپ بے وقوف آدمی ہیں جو اتنا بہترین موقع ضائع کر رہے ہیں”۔
لوگوں کو یہ بھی غلط فہمی ہے کہ ٹی وی پر مصری ڈرامے اور بیلی ڈانس دیکھ کر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایرپورٹ سے ہی ہر حسینہ انہیں بیلی ڈانس کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ مصری عورتیں جتنی بدنام ہمارے تصوّر میں تھیں اس کے بالکل برعکس نکلیں ۔ ایک سے اعلیٰ ایک حسن کا نمونہ اگرچہ نظر آتا ہے۔ برقعوں یا دوپٹّوں کا بھی وجود عام نہیں ہے ۔ عام طور پر لڑکیاں اسکرٹ اور عورتیں میکسی پہنتی ہیں۔ اس کے باوجود کوئی لڑکی یا عورت بغیر اسکارف کے کہیں نظر نہیں آتی۔ نماز کا وقت ہوتے ہی اکثر عورتیں اور مرد ایک کونے میں کوئی کپڑا بچھا کر نماز ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ تفریحی مقامات پر جسطرح ہندوستان میں لڑکیوں کو گھورنا عام ہے اور جسطرح سعودی عرب اور دوسرے مالدار خلیجی ممالک میں ان لڑکیوں کو ٹیلیفون نمبر پاس کرنا عام ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی گھورنے والا یا نمبر پاس کرنے والا نہ ملے تو لڑکیاں خود اپنی حرکتوں سے ایسے اوباشوں کو پیدا کر لیتی ہیں ویسا ہم نے مصر میں نہیں دیکھا۔ مصر چوری اور رشوت خوری میں آگے ہونے کے باوجود لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ یا عصمت دری کے واقعات میں بہت پیچھے ہے۔
اگر مصری عورتوں میں یہ حیا اور خود داری نہ ہوتی تو ہمارے خلیجی دوست کب کے اسے بھی بحرین یا لبنان بنا چکے ہوتے۔ انہیں پتہ ہے کہ بازارِ مصر میں غلام آسانی سے مل جاتے ہیں لیکن لونڈیاں نہیں اس لئے عیاشی کے لئے وہ اِدھر کا رخ کم ہی کرتے ہیں۔
مصری مرد ، عورتوں کا احترام کرتے ہیں۔ اور عورتیں بھی گھر کے باہر کے ہر مرد کا احترام کرتی ہیں۔ جوڑا جہیز کا کوئی وجود نہیں۔ جب تک لڑکا روزگار سے نہ لگے اور رہن سہن کا پورا انتظام نہ کرے اس کی شادی ناممکن ہوتی ہے۔ اس لئے مردوں کی شادی کی اوسط عمر تیس سال ہے۔ اسی لئے بچے دیر سے پیدا ہوتے ہیں اور کم پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں بھی گھروں میں ہندوستان اور پاکستان کی طرح ہر بڑا فیصلہ مرد کرتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے مسئلے عورتیں اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں۔ بڑے فیصلے جیسے اوباما کوافغانستان میں کیا کرنا چاہئے، علماء اور جماعتوں میں کسطرح اتحاد پیدا کرنا چاہئے وغیرہ اور چھوٹے فیصلوں سے ہماری مراد ہے اس ماہ میاں کی تنخواہ کیسے اور کہاں خرچ ہو گی، بیٹے کی شادی پر کتنا جوڑا جہیز وصول کیا جائے گا، دعوتیں کیسی ہوں گی وغیرہ۔ یہاں بھی گھر کے معاملات میں مردوں کا کام مشورے دینا ہے اور عورتوں کا کام فیصلے کرنا ۔
ہندوستانیوں کو یہ بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پاکستانی بھائیوں کی مہربانی کی وجہ سے شائد ہندوستانیوں کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے ہاں حسیناؤں کو عورت بننے میں کئی سال لگتے ہیں لیکن مصری لڑکیاں شادی تک حسینہ بلکہ حسینہ عالم ہوتی ہیں لیکن شادی کے بعد ۔۔۔۔۔ یوں سمجھ لیجیئے کہ شادی تک وہ ہندوستانی فلموں کی ہیروئن لگتی ہیں شادی کے بعد پاکستانی پنجابی یا پشتو فلموں کی ہیروئن بننے میں دیر نہیں لگاتیں۔ میٹھی مصری کا دانہ جا کر گُڑ کا ڈھیلا بن جاتی ہیں ۔ ہندوستانی فلمیں یہاں مقبول ہیں۔ عورتیں ان فلموں کو دیکھ کر یہی سمجھتی ہیں کہ ہندوستانی مرد بڑا وفا دار ہوتا ہے سارا دن صرف محبت کرتا ہے۔ ہم نے یہ غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ ہم کو اپنی بیوی بچوں کے پاس بھی جانا ہوتا ہے۔
بیلی ڈانس واقعی ایک ہوش ربا فن ہی نہیں مشکل ترین فن ہے۔ جسم کا ہر حصّہ الگ الگ اسطرح تِھرکانا جیسے بجلی کا کرنٹ بدن میں دوڑ رہا ہو ایک حیرت انگیز آرٹ ہے۔ شائد رقصِ دو آتشہ اسی کو کہتے ہیں۔ ایک تو خود ڈانس کرنے والی کے بدن سے لگتا ہے شعلے اٹھ رہے ہیں۔ دوسرے اسے دیکھنے والے کے بھی جذبات میں شعلے اٹھنے لگتے ہیں۔
ہم سے کہا گیا تھا کہ لڑکیاں وہاں آ کر کپڑے اتار دیتی ہیں۔ یہ جھوٹ ہے۔ وہاں لڑکیاں کپڑے پہن کر ہی نہیں آتیں !
یہ مزا اس وقت کِرکرا ہو جاتا ہے جب بجائے لڑکیوں کے خود مرد بیلی ڈانس پیش کرنے لگتے ہیں۔ رقص صرف عورت کو بھاتا ہے۔ مرد ڈانس کرتے ہوئے اتنے ہی برے لگتے ہیں جتنے بھارت ناٹیم یا کیبرے کرتے ہوئے لگتے ہیں ۔ مرد توپ پہن کر جب کمر اور سینے تِھرکاتے ہیں تو اوپر سے نیچے تک صرف توپ تھرکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اندر کیا کیا تھرکتا ہے کچھ پتہ نہیں چلتا۔
عورتوں کو نوکری کروانا یہاں معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن وہ عورتیں جو جدید تعلیم سے آراستہ ہو رہی ہیں وہ بچے رکھتے ہوئے بھی پوری بن ٹھن کر ٹخنوں تک اسکرٹ پہنے کہیں کہیں کسی آفس میں نظر آ جاتی ہیں۔ قطع کلامی کی بیماری عام عربوں کی طرح مصر میں بھی عام ہے۔ آپ ایک گھنٹہ گفتگو کیجئے وہ پچاس منٹ بولیں گے۔ باقی دس منٹ سانس کے۔ اگر کوئی آپ کے تیسرے یا زیادہ سے زیادہ چوتھے جملے پر ہی قطع کلامی نہ کر ڈالے وہ عرب نہیں ہو سکتا۔
اور جو پہلے یا دوسرے جملے پر ہی آپ کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع نہ کر دے وہ مصری نہیں ہوسکتا۔
البتہ دوسرے عربوں کے مقابلے میں مصریوں میں حسِّ مزاح زیادہ ہوتی ہے۔ دوسرے عربوں اور مصریوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ دوسرے عرب جو باتیں بغیر سوچے سمجھے کرتے ہیں مصری وہی باتیں سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔
حیدرآبادیوں اور مصریوں میں ایک قدرِ مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہر شخص بغیر کسی مطالعے یا قابلیت کے بیک وقت سیاست، مذہب ، سماجیات یا تاریخ وغیرہ پر بول سکتا ہے۔ ہر مصری انگریزی بولے نہ بولے ایک جملہ ضرور بولتا ہے کہ : Welcome to Egypt, Sank you۔
مصر کی شہرت کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے ہاں لطیفے بولے کم جاتے ہیں اور کئے زیادہ۔ سیاسی لطیفے بولنا جرم ہے کیونکہ ہر عرب ملک کی طرح مصر بھی "ایک محوری” ملک ہے جہاں ایک بار کوئی صدر بن جاتا ہے تو پھر صرف موت کا فرشتہ ہی آ کر اسے ہٹاتا ہے۔ لیکن فرشتے بھی ان پر اتنے مہربان ہوتے ہیں کہ اُس وقت تک انتظار کرواتے ہیں جب تک صدر صاحب کا بیٹا جوان نہ ہو جائے اور جمہوریت کو اپنی جیب میں رکھنے کے قابل نہ ہو جائے۔
امریکہ اور یورپ نے حتیٰ کہ جمہوریت کا جو بھی خود موجّد رہا ہو گا اس نے بھی جمہوریت کی اتنی حفاظت نہیں کی جتنی یہ لوگ کرتے ہیں اس لئے ان کی جمہوریت کے خلاف جو بھی آواز اٹھائے اس کو خود اپنی آواز کبھی سنائی نہیں دیتی ۔ جمعہ کے خطبوں میں کہیں کوئی سیاسی بات نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی ہے تو آئندہ وہ خطیب وہاں نہیں ہوتا۔ ابن انشاء کے ایک جملے کو اگر بدل کر یوں کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ
عرب کوئی نماز نہیں چھوڑتے اور اپنے کسی مخالف کو زندہ نہیں چھوڑتے۔
امریکہ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ایک بار کسی امریکی پر ایک آوارہ کتے نے بھونک دیا۔ فوری پورے شہر کی پولیس کو کتے پکڑنے کے کام پر لگا دیا گیا ۔ کاش مکھیوں اور مچھروں سے تنگ آ کر کوئی امریکن کبھی شکایت کر دے۔ کسی بھی عمارت کے سنگِ بنیاد یا افتتاح کے موقع پر جو کتبہ نسب کیا جاتا ہے وہ بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔
"بہ عہدِ رئیس حسنی مبارک، بہ سرپرستی وزیر فلاں، بہ عنایت ایم پی فلاں، بہ نظرِ کرم ایم ایل اے فلاں فلاں، جناب فلاں کونسلر صاحب نے اس عمارت کا افتتاح فرمایا”۔
جس عمارت پر ایسا کتبہ نسب ہوتا ہے اسے بلدیہ اور ٹیکس جیسے ہر ڈپارٹمنٹ سے امان مل جاتی ہے ورنہ ۔۔۔۔۔۔ ورنہ "بخشش” کا فرشتہ ہی ان کی جان بچا سکتا ہے۔ یہاں بخشش کے معنے وہی ہیں ہو ہمارے ہاں علماء میں نہیں بلکہ عوام میں رائج ہیں۔ یعنی رشوت۔
بخشش کے جتنے نمونے ہندوستان اور پاکستان میں رائج ہیں وہ پورے یہاں بھی رائج ہیں البتہ یہ کہا جا سکتاہے کہ پورے ہندوستان اور پاکستان میں جتنی رشوت لی اور دی جاتی ہے وہ ایک طرف رکھی جائے اور یہاں جتنی لی اور دی جاتی ہے اسے ایک طرف رکھی جائے تو یہ لوگ جیت جائیں گے۔
فرق یہ ہے کہ ہمارے ہاں "چائے پانی کے لئے ” کہہ کر مانگا جاتا ہے اور یہاں اعط پیبسی یعنی Pepsi کے لئے ۔ سنا ہے ایک آدمی جو بخشش نہ دینے کے جرم میں جیل میں بند تھا مرگیا۔ پولیس والے اس کے گھر پہنچے اور کہنے لگے :
"مرنے والا جیل کی مدت پوری کئے بغیر مرا ہے اس لئے باقی مدت اس کے باپ یا بھائی کو جیل میں پوری کرنی لازمی ہے”۔
مرنے والے کے رشتہ دار پولیس والوں کے پاوں پکڑ کر معافی مانگنے لگے اور بالآخر انہیں بخشش دینے پر ہی جان کی بخشش ملی۔
اب اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ ہم کو قاہرہ سے شرم الشیخ کے لئے جہاز بدلنا تھا جو دوسرے ٹرمینل پر تھا۔ اس ٹرمینل پر جانے کے لئے Shuttle bus کا انتظام جو کہ ایرپورٹ کی ذمہ داری تھی اس کے لئے بھی ڈیوٹی آفیسر نے ہم سے سو پاؤنڈ وصول کر لئے ۔
یہاں صحافت کو مکمل آزادی حاصل ہے۔۔۔۔ صحافیوں سے۔ جو بھی رشوت اور بدعنوانیوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اس کو وزیر یا نائب وزیر بنا دیا جاتا ہے۔ کاش ہم مصری ہوتے۔
ایک مصری سے ہم نے پوچھا : آپ اسلامی قوانین کیوں نہیں نافذ کرتے ؟
اس نے کہا خطرہ ہے۔
ہم نے پوچھا کیا امریکہ یا اسرائیل سے؟
اس نے کہا ” نہیں! ہاتھ کٹ جانے سے۔ آدھے مصریوں کے ہاتھ پہنچوں سے اور باقی آدھوں کے کہنیوں سے کٹ جائیں گے”۔
تب ہمیں سمجھ میں آیا ہندوستان اور پاکستان طالبان سے اسقدر گھبراتے کیوں ہیں۔ مصر میں اسلام پسند طبقہ بھی کافی تعداد میں ہے لیکن عوام کو صحیح اسلامی تعلیمات کی طرف راغب کرنے میں ناکام ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شائد اس نکتہ سے ناواقفیت ہو کہ اسلام میں داڑھی ہے لیکن داڑھی میں اسلام نہیں ہے۔ شہروں میں توپ پہننے کا رواج رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہے۔ ایسا ہی رہے تو توپوں کی تعداد ایک دن اتنی ہی رہ جائے گی جتنی شیروانیوں کی تعداد آج حیدرآباد میں ہے۔
یہاں آٹو اور اسکوٹر نہیں ہوتے اس لئے کار ڈرائیوروں پر دوہری نہیں تہری ذمہ داریاں ہیں۔ وہی بے چارے آٹو اور اسکوٹر والوں کی کمی پوری کرتے ہیں اور ایسے کرتے ہیں کہ ہندوستان کے آٹو اور اسکوٹر والے بھی شرمندہ ہو جائیں۔ یہاں بھی وہی ہندوستانی ٹرافک سسٹم ہے یعنی نہ لیفٹ ہینڈ ڈرائیو ہے نہ رائٹ ہینڈ۔ سب درمیان میں چلتے ہیں۔
اگر غلطی سے حکومت درمیان میں فٹ پاتھ بنا دیتی ہے تو لیفٹ والے رائٹ پر اور رائٹ والے لفٹ پر پوری دادا گیری کے ساتھ گاڑی چلاتے ہیں۔ اگر آپ نے انہیں گھور کر دیکھا تو آپ کو اپنا راستہ خاموشی سے طئے کرنے کی تڑی بھی دیتے ہیں۔ اگر مصر میں آپ کے ساتھ اپنی سواری کا انتظام نہ ہو تو ٹیکسی والے آپ کو ویسے ہی لوٹ لیتے ہیں جیسے دلّی یا بمبئی والے باہر والے کو دیکھ کر لوٹتے ہیں۔ ٹیکسیوں کی حالت دیکھ کر ہمیں اپنے ملک کی ٹیکسیاں اور آٹو اچھے لگنے لگے ہیں۔ اس لئے حیدرآباد کا کوئی آٹو اپنے ساتھ لا لینا بہتر ہے۔ لیکن آنے جانے کا کرایہ پہلے سے طئے کر کے لائیں تو بہتر ہے ورنہ وہاں کے آٹو والوں میں بھی مصری خصلتیں پوری پوری موجود ہیں ۔ پہلے تو بڑی خوش اخلاقی سے کہیں گے کہ جو بھی آپ خوشی سے چاہیں دے دیں۔ بعد میں ایک داماد کیطرح آپ کی جان کو آ جائیں گے جو پورا جوڑا جہیز لیئے بغیر نہیں چھوڑتا چاہے آپ کنگال ہو جائیں۔
ایک بار ہمارے ایک ڈاکٹر دوست حیدرآباد تشریف لائے ۔ انہوں نے ایک گھنٹے کے لئے آٹو لیا۔ واپس آ کر پوچھا کتنے پیسے ہوئے؟ آٹو والے نے کہا چار سو روپئے۔ انہیں غصّہ آگیا ۔ انہوں نے کہا ” میں دل کا ڈاکٹر ہوں اور میں نے آج تک ایک گھنٹے میں چار سو نہیں کمائے!”۔
آٹو والے نے جواب دیا "میں بھی پہلے دماغ کا ڈاکٹر تھا صاحب۔ میں نے بھی کبھی اتنے نہیں کمائے”۔
جامعہ ازہر قدیم ترین عظیم یونیورسٹی ہے لیکن عید الاضحی کی تعطیلات کی وجہ سے بند تھی اس لئے ہم وہاں نہ جا سکے۔ ہم اس کی تاریخی خدمات کا اندازہ لگانا چاہتے تھے۔ ہم نے ایک مصری سے جامعہ ازہر کی تاریخ پوچھی۔
اس نے کہا : مئی 2009 ۔
ہم نے پوچھا : وہ کیسے؟
اس نے کہا : اوباما جامعہ ازہر آیا تھا اور وہیں سے اس نے السلام علیکم کہا تھا۔
ہم نے کہا : یہ تو ہمیں بھی معلوم ہے کیونکہ ہمارے ایک بزرگ مجتبیٰ حسین نے ہماری طرف سے وعلیکم السلام بھی کہہ دیا تھا لیکن اوباما کے سلام سے جامعہ ازہر کی شان کا کیا تعلق ہے یہ تاریخ تو نہ ہوئی۔
اس نے کہا : اس سے پہلے کی تاریخ کا ہمیں خود پتہ نہیں۔ اب جتنے بھی سیاح آتے ہیں ہم انہیں اسی مقام پر لے جاتے ہیں جہاں سے اوباما نے خطاب کیا تھا۔ اس سے جامعہ ازہر کی ہی نہیں مصر کی بھی عزت بڑھ جاتی ہے۔
اب انہیں کیسے سمجھائیں کہ ان کی عزت علم کی دولت سے تھی لیکن آج دولت سب سے بڑا علم بن چکی ہے۔ جو اس علم سے محروم ہے اس کا کوئی بھی علم کوڑیوں کے مول بِکتا ہے۔ جس کا جیتا جاگتا ثبوت ہمارے امیر خلیجی ممالک کی یونیورسٹیاں ہیں۔ وہاں ڈاکٹریٹ کے سارے مقالے خریدے جاتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کا اسی سے روزگار چلتا تھا۔ وہ ایک صفحے کے پچاس ریال لے کر یہ کام کر دیتے تھے۔ لیکن ہمارے ملیالی بھائیوں کو اس کی خبر لگ گئی اور انہوں نے دس ریا ل فی صفحہ کر دیا۔ اب ہمارے دوست ایک عرصے سے بےروزگار ہیں۔
میوزیم میں فرعون اور اس کے عہد کی کچھ لاشیں عبرت کے لئے پانچ ہزار سال کے بعد بھی محفوظ ہیں۔ دواؤں کی وجہ سے یہ سکڑ گئی ہیں اور رنگ کالا ہو چکا ہے لیکن جسم پورا سلامت ہے۔ ان کو دیکھنے والوں سے حکومت کو لاکھوں پاؤنڈ کی روزانہ آمدنی ہوتی ہے۔ کاش ان لاشوں کے کاروبار کے ساتھ ساتھ یہ لوگ فرعون کی وہ قرآنی تاریخ بھی پیش کرتے جو دنیا کے لئے ایک بہترین رہنمائی اور دعوت کا سامان ہوتی ۔ اتنے سال گزرنے کے باوجود ان ممیوں یعنی لاشوں کا باقی رہنا اور ڈھانچہ میں تبدیل نہ ہونا قدرت کا ایک کرشمہ ہے۔ سائنسداں اس تحقیق میں لگے ہیں کہ ایسی کونسی کیمسٹری تھی جس نے ان لاشوں کو جوں کا توں باقی رکھا۔ ہمارے نزدیک تو یہ ہے کہ جس انسان نے "انا ربّکم الاعلیٰ” کا اعلان کیا تھا اور اپنی ضد پر اڑا رہا اللہ رب العزّت نے اسے قیامت تک کے لئے محفوظ کر کے نہ صرف لعنت و عبرت کا نشان بنا دیا بلکہ ان تمام انسانوں کے لئے بھی سبق دے دیا جو ذرا سی دولت، عزت یا طاقت ملنے کے ساتھ ہی خدا بن جاتے ہیں۔ جن کے بارے میں قتیل نے سچ کہا تھا کہ
کچھ لوگوں سے جب میری ملاقات نہیں تھی
میں بھی یہ سمجھتا تھا خدا سب سے بڑا ہے
اہرامِ مصر ایک عجیب و غریب شئے ہے۔
یہ دراصل تین قبروں کا مجموعہ ہے۔ ان میں اپنے وقت کے بادشاہ فرعون دفن ہیں۔ پہلا ہرم تقریباً دو ہزار مربع میٹر پر تعمیر کیا گیا ہے۔ دوسرے اور تیسرے فرعون کی قبروں کے لئے شائد ان کے جانشینوں کے پاس بجٹ نہیں تھا یا پہلی قبر بنا کر وہ زیادہ مقروض ہو گئے تھے اور ورلڈ بینک نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا تھا اس لئے ان کی قبریں پہلے ہرم کے مقابلے میں چھوٹی ہیں۔ ہر ہرم کے پہلو میں بھی چھوٹے چھوٹے اہرام ہیں جو شائد ان کی بیویوں کے ہوں گے۔ اہرامِ سے باہر نکلتے ہی ابوالہول Sphinx کا قد آور مجسمہ ہے۔ یہ ایک بیٹھے ہوئے ببر کا مجسمہ ہے جس کا چہرہ ایک خوبصورت مرد کا ہے۔ یہ بھی گنپتی کی طرح کی کسی خرافاتی کہانی کا ایک حصّہ ہے اسلام سے قبل اس کی بھی پوجا ہوتی تھی ۔ اس کی ناک پہلے ہی سے ٹوٹی ہوئی تھی کب اور کیسے ٹوٹی یہ کسی کو نہیں معلوم ۔ اگر یہ عیب نہ ہوتا تو مجسمہ واقعی اتنا خوبصورت تھا کہ بقول مغلِ اعظم کے :
"شہنشاہ اپنا تاج ، سپاہی اپنی تلوار اور انسان اپنا دل نکال کر اس کے قدموں میں رکھ دیتے”۔
اگر اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اسے پوج کر سنگ تراش کے فن کو سلام کرتے تھے تو شائد غلط نہیں کرتے تھے۔
اہرامِ مصر بلاشبہ سات عجوبوں میں سب سے بڑا عبرت ناک مقام ہے۔عبرتناک ہم دنیا و عقبیٰ کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ بلدیہ اور سڑکوں کے لحاظ سے کہہ رہے ہیں۔ مصری حکومت کو فرعون نے کروڑوں پاؤنڈ سالانہ کا وظیفہ مقرر کر رکھا ہے جو گورے آ آ کر اپنے جد امجد کے دیدار کے عوض داخلہ فیس کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ لیکن اتنے اہم مقامات تک پہنچنے کے لئے جو راستے ہیں وہ ابھی تک فرعون ہی کے زمانے کے ہیں جن پر اب بجائے خچّر یا گھوڑے یا اونٹ کے کاریں اور بسیں چلتی ہیں۔ جہاں ٹورزم سے اتنی آمدنی ہے وہاں حکومت کو چاہئے تھا کہ راستے تو صحیح بناتی۔ کوئی تاریخی مقام ایسا نہیں جہاں پہنچنے کم سے کم ایک گھنٹہ کے ٹرافک جام کے بغیر آپ پہنچ سکیں۔
اہرامِ مصر سے فارغ ہو کر ہر شخص دریائے نیل میں کشتی رانی کا خواہشمند ہوتا ہے۔ لیکن پھر وہی مسئلہ یعنی وہاں تک پہنچنے کے لئے آپ کو پرانے شہر کی انہی سڑکوں اور اسی ماحول سے گزرنا ہے جو ہر پرانے شہر کی پسماندہ مسلمان بستیوں میں پائے جاتے ہیں ۔
دریا کے دونوں کنارے گندگی، تعفّن، مکھیوں کا سیلاب، سیاحوں پر ٹوٹ پڑنے والے کشتی راں، خستہ حال بیروزگار مردوں کے جگہ جگہ دو دو چار چار کے گروپ اور میاں جی کچھ کما کر لائیں تو چولھا جلائیں اس انتظار میں بیٹھی لاچار عورتیں اور بچے سڑک کے دونوں جانب کثرت سے نظر آتے ہیں۔ کاش پان کی لذت سے یہ لوگ واقف ہوتے ۔ جگہ جگہ پان کے ڈبّے ہوتے اور کئی ہزار خاندانوں کو روزگار حاصل ہو جاتا۔ ہم کو بھی ہر بار چائے پینے کے بعد پان یا گُٹکے کی طلب اتنی بے چین نہ کرتی۔ اگر کچھ ہندوستانی آ کر یہاں پان کی دوکان کا تجربہ کریں تو ممکن ہے مصر بھی بہت جلد تہذیب یافتہ ہو جائے۔
ملک سے بیروزگاری دور کرنے کے لئے نئے نئے پیشے متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ جتنے بھی مصری ہیں وہ یا تو دکتور (ڈاکٹر) ہیں یا پھر مہندس (انجینیئر) یا پھر رئیس (ڈائرکٹر)۔ اس کے علاوہ مصریوں میں تو ہمیں کوئی اور نہیں ملا۔ دوا خانے کا چپراسی کیوں نہ ہو وہ "یا دکتور” سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ ہر قسم کا ٹکنیکل کام کرنے والا چاہے وہ پنکچر بنانے والا ہی کیوں نہ ہو اگر اسے "یا مہندس” کہہ کر نہ مخاطب کیا جائے تو ناراض ہو جاتا ہے۔ باقی جتنے ہیں چاہے وہ کرانہ دوکان کا مالک کیوں نہ ہو "یا رئیس” کہلاتا ہے۔ باقی اگر کچھ رہتے ہیں تو "یا استاذ” کہلاتے ہیں جن کو ہمارے پرانے شہر میں "وستاد” کہتے ہیں۔
دنیا کے ہر شہر کی طرح قاہرہ بھی نئے اور پرانے شہر پر مشتمل ہے۔ نیا قاہرہ جسے رحاب سٹی کہتے ہیں اتنا خوبصورت اور پلاننگ کے ساتھ بنایا گیا ہے کہ وہاں رہ جانے کو جی چاہتا ہے۔ یہ یورپ کی طرز پر بنایا گیا ہے اور وہاں رہنے والے مصری اپنی طرف سے یورپ میں ہی رہتے ہیں۔
افسر فہیم صاحب نے بھی یہیں ایک اپارٹمنٹ لے رکھا ہے۔ سجایا بھی اتنا آرٹسٹک ہے کہ انہیں نکال کر خود رہ جانے کو جی چاہتا ہے۔
ہماری بیگم صاحبہ ہندوستان کی آبادی، ٹرافک، گندگی اور طرزِ زندگی سے اسقدر بیزار ہیں کہ انہیں جدید قاہرہ بے حد پسند آ گیا اور ہمیں ورغلانے لگیں کہ ہندوستان سے نجات پانے کے لئے قاہرہ ہی سب سے اچھی جگہ ہے یہیں رہائش اختیار کر لی جائے۔ افسر فہیم صاحب بہت خوش ہو گئے اور ہماری بیگم کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ہمیں باڑیں مارنے لگے کہ ایک آدھ ملین پاؤنڈ کا ایک وِلا لے کر یہیں کاروبار کریں۔ ہم نے پوچھا :
"اتنا پیسہ خرچ کر کے نیا گھر لینا اور اس میں اُسی پرانی بیگم کو رکھنا کیا عقلمندی ہے؟”
بیگم صاحبہ کو غصّہ آگیا اور وہ سامان پیک کرنے لگیں۔ ہم نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگیں :
"آپ رہئے جا کر انہی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اور باقی عمر بیگم اختر کی دوسری غزلیں گنگناتے رہئے میں ہندوستان جا رہی ہوں” ۔
ہم نے یہ کہہ کر منایا کہ "جانم ہم تو آپ کے دل میں اپنے ملک سے محبت پیدا کرنے کے لئے ایسا کہہ رہے تھے”۔
بہرحال، افسر فہیم جیسے دوستوں کے ساتھ وقت گزار کر یہی نقصان ہوتا ہے کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ آٹھ دن پلک جھپکتے نکل گئے ۔ مسرت کے لمحوں میں بس ایک ہی خرابی ہے کہ وہ جلد نکل جاتے ہیں ۔ اور یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ ہم واپس جدہ ایرپورٹ پہنچ کر بھی ان یادوں میں اُس وقت تک کھوئے رہے۔ جب تک ایک سعودی ٹیکسی ڈرائیور نے ہم کو "یا رفیق ! تیکسی؟” کہہ کر ہمیں پھر اپنی اوقات یاد نہ دلا دی ۔
٭٭٭
ہم نے بھی چین دیکھا
حکومت ملک میں پچھلے اسّی نوّے سال سے ایک ہی پارٹی کے ذریعہ چل رہی ہے۔ سیاسی نسبندی کا یہ سخت قانون کسی دوسری پارٹی کو پیدا ہونے نہیں دیتا۔ ہر کمپنی اور گورنمنٹ کے پرسونل ڈپارٹمنٹ میں ایک افسر کا تقرر کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ہوتا ہے جو ملازمین اور کمپنی کے نظام میں کمیونسٹ اصولوں کی فرماں روائی پر سخت نظر رکھتا ہے۔ اصول شکنی پر بر طرفی ہوتی ہے لیکن اس میں اگر بغاوت کا عنصر ہو تو وہی سزا ہے جو سعودی عرب میں ہے یعنی پھر بندے کا پتہ نہیں چلتا کہ بیچارہ گیا کدھر؟
رشوت ہندوستان کی طرح ملک کی رگ و پے میں بسی ہوئی ہے۔ طرزِ زندگی اسی مغرب کے سرمایہ دارانہ کلچر پر مبنی ہے جس سے کمیونزم سے جنگ کرتے ہوئے ہزاروں لاکھوں انسانوں کے سر کٹا دیئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ عورت مرد کے شانہ بہ شانہ محنت کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن اس کے لئے مراعات نہ اس کا کوئی تقدس اس سوسائٹی میں نظر آتا ہے۔ برابر محنت کرنے کے باوجود اس کا محنتانہ مرد سے کہیں کم ہے۔ خدا اور آخرت کے چونکہ یہ روزِ اوّل ہی سے منکر ہیں ہی اس لئے کسی بھی طرح کا جرم ہوتا دیکھ کر ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں رہتا۔ چوری جسم فروشی جھوٹ اور دھوکہ عام معمول ہے۔ تاجروں پر آسانی سے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ۔ ہندوستانی تاجروں کی طرح گاہک کو اعتماد میں لینے کے بعد کبھی بھی دھوکہ دے سکتے ہیں۔ جہاں تک انڈسٹری اور ہائی ٹیک کا سوال ہے اس میں دھوکہ دینے کے مواقع کم ہیں شائد اسی لئے ا سمیں انٹرنیشنل ترقی بھی ہو رہی ہے۔
عوام کمیونسٹ نظریات کی قائل ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ا سکول سے ہی یہ پڑھائے جاتے ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ جس طرح تبلیغی جماعت میں دو ایک مخصوص کتابوں سے ہٹ کر کسی اور کتاب کو ہاتھ لگانے نہیں دیا جاتا اسی طرح چین میں بھی کسی اور نظریئے کو پڑھایا نہیں جاتا نہ اس کی تبلیغ کی اجازت ہے۔ کمیونسٹ ورکرس کی اہمیت سرکاری عہدیداروں سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ لیکن کمیونسٹ ورکرز بن جانا ہر ایک کے لئے آسان بھی نہیں ہے۔
ہندوستان کے جیسا معاملہ نہیں ہے کہ جو سب سے زیادہ اوباش ہو وہ سیاست میں داخل ہو جاتا ہے ۔
یہاں Civil Services کے جتنے مسابقتی امتحانات ہوتے ہیں چاہے وہ پبلک سرویس کمیشن کی نوعیت کے کیوں نہ ہوں ان میں اعلیٰ ترین صلاحیت کے حامل افراد کو پہلے کمیونسٹ پارٹی کے لئے لے لیا جاتا ہے۔ یہاں کمیونسٹ پارٹی اتنی منظم اور مضبوط ہے کہ آئندہ پچاس سال تک اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ نکتہ ہماری دینی جماعتوں کے لئے لمحۂ فکر ہے جو اپنے منشور میں پورے ملک میں اقامتِ دین کا عزم رکھتی ہیں۔ ایک ملک کے پورے نظام کو بدل کر ایک نیا نظام لانے کے لئے جن صلاحیتوں کے حامل افراد کو حاصل کرنے کے لئے ان کی ذہانتیں اور صلاحیتیں اصل کسوٹی ہوتی ہیں نہ کہ جی حضوری۔ اور بزدلانہ حکمت بھی جس کو مصلحت اور فراست سمجھا جاتا ہے۔ ہماری دینی جماعتوں کا سانحہ یہ ہے کہ یہ نئی نسل کو جذب کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہیں جو نئی نسل قریب آتی ہے وہ رشتوں بلکہ اخلاقی اور دوسرے مفادات پر مشتمل مصلحتوں کی بنا آتی ہیں۔ تعلیم میں یہ Clerical صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وہ جماعتیں ہیں جو شیعوں کی ا س لئے مخالف ہیں کہ شیعہ نسب کے قائل ہیں لیکن جب خود ان کے اپنی جماعتوں ، سلسلوں یا اداروں کی جانشینی کا سوال آتا ہے یہ سوائے اپنے بیٹے ، داماد یا بھائی بھتیجوں کے کسی اور کو قیادت کے قریب بھی آنے نہیں دیتے ۔
بہرحال کمیونسٹ نظریہ کامیاب ہو کہ نہ ہو کمیونسٹ حکومت اور کمیونسٹ سیاست ضرور کامیاب ہے اور جب تک اس میں افراد کے انتخاب کا یہ طریقہ سختی سے روبہ عمل رہیگا اس کی ساخت کو دھکّہ نہیں لگ سکتا۔
قد چھوٹے دماغ بڑے، رنگ مینڈک کے گوشت کیطرح سفید ، نام چِن ، چان ، ہو مذہب کام کام اور صرف کام۔
عورتوں کی دنیا میں سب سے بڑی آبادی چین میں ہے لیکن مردوں اور عورتوں کی صورتیں اِسقدر یکساں ہوتی ہیں کہ فرق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ہمارے جن مردوں کو اپنی عورت اچھی نہیں لگتی اُسے ایک بار چین ضرور جانا چاہیے پھر خود بخود اپنی عورت اچھی لگنے لگے گی۔
اور ممالک میں ایک سے زیادہ ‘جائز’ شادی کرنا جرم ہے لیکن یہاں صرف شادی ہی نہیں بلکہ ایک سے زیادہ ‘جائز’ بچے پیدا کرنا بھی جرم ہے۔سیاست میں بھی سخت نس بندی نافذ ہے ایک سے زیادہ سیاسی پارٹیاں بھی پیدا نہیں کی جا سکتیں ۔کوئی لیڈر صاحب اگر پارٹی سے ناراض ہو کر کوئی نئی پارٹی بنانے کی کوشش کریں تو اُن کا حشر وہی ہوتا ہے جو ہندوستان میں دہشت پسندی کے الزام میں بے قصور نوجوانوں کا ہوتا ہے۔اِسی لئے کمیونسٹ پارٹی دنیا کی واحد سیاسی پارٹی ہے جو پچھلے ستّر یا اسّی سال سے بِلا مقابلہ جیتتی آ رہی ہے۔ اِس کے مقابلے اگر کوئی کھڑا ہونے کی ہمت کرے تو وہ بِلا مقابلہ ہار سکتا ہے۔ ایک سے زیادہ بچے پیدا نہ کرنے کی پابندی ایک طرح سے اچھی پابندی ہے ماں باپ اولاد سے امیدیں لگا کر ایک دن مایوسی کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی ساری زندگی کی کمائی داماد خریدنے یا بہوؤں کے قبضے میں دے کر بڑھاپے میں بے بس ہوتے ہیں۔
نسبندی مذہب پر بھی سختی سے نافذ ہے۔ دور دور تک نہ ٹرافک کو درہم برہم کرنے والے مندر ہیں نہ چِلّے۔ نہ کہیں ہرا جھنڈا ہے نہ زعفرانی۔ ہر شہر میں دو چار مندر ضرور ہوتے ہیں جن میں دیو ہیکل بھگوان آرام سے بیٹھے رہتے ہیں کبھی سڑکوں پر نہیں آتے اِسلئے یہاں نہ کوئی گنپتی کا جلوس ہے نہ عَلم نہ عُرس کی چادریں۔
البتہ اِن تراشیدہ خداؤں کے دیومالائی قصّے بڑے دلچسپ ہوتے ہیں کسی نے جنگ میں برائی والوں کی فوج پر پورا کرّہْ ارض پھینک مارا تو کوئی چوہے یا ہاتھی کی شکل اختیار کر گیا۔ ہمارے ہاں کی تمام مندروں اور درگاہوں کے اگر تمام قصّے معجزات اور کرامات جمع کئے جائیں تو وہ چین کے صرف ایک خدا کے قصّوں کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ حیرت ہے کہ اِتنے طاقتور اور مافوق الفطرت خدا رکھتے ہوئے بھی چینی قوم نہ کسی خدا کی سالگرہ مناتی ہے نہ منّت کرتی ہے۔ شائد وہاں خدا لوگوں کے دِل میں رہتے ہیں اس لئے نہ بسوں یا ٹیکسیوں میں نظر آتے ہیں نہ آفس یا دُکانوں میں۔
خدا کو دِل میں ہی رہنا چاہیے ورنہ اگر وہ سڑکوں پر آ جائے تو پھر دوسرے خداؤں سے مقابلہ شروع ہو جاتا ہے ہر گروہ کا خدا کبھی لاوڈاسپیکروں کے ذریعے سب کے کان پھاڑنے لگتا ہے تو کبھی لوگوں کو آپس میں لڑا کر خون کی ندیاں بہانے لگتا ہے۔ کبھی وحشتناک داڑھی موچھوں سے اور کبھی گیروے پیشانیوں میں جلوہ افروز ہو کر ڈراتا ہے۔ ہندوستانی اپنے خداؤں کو سڑکوں پر لا کر تیوہاروں میں کروڑوں روپیہ پانی میں بہا دیتے ہیں اور چینی اپنے خداؤں کو دل میں رکھتے ہیں اسلیئے اُن کی محنت کی کمائی اور وقت فیکٹریوں کے قیام پر لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ چین معاشی طور پرآج دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور ملک ہے ۔
معاشی ترقی کا یہ عالم ہے کہ FDI یعنی فارن ڈائرکٹ انوسٹمنٹ 20 ٹرلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور FR یعنی فارن ریزروس امریکہ کے لئے ایک خطرہ بن گئے ہیں اور مستقبل میں WMA یعنی ورلڈ مانیٹری ایجنسی پر چین کی بلا شرکت ِ غیرے اجارہ داری ہونے کا خطرہ ہے جس کو روکنے کے لئے امریکہ ہندوستان کی مدد لے رہا ہے ا ور ہندوستانی ایکسپورٹ کو چین کی جگہ دینے کے لئے کوشاں ہے۔ انڈسٹریل اعتبار سے چین کا سب سے اہم شہر گانزو ہے جہاں حکومت نے فارن انوسٹرس کو خوب مواقع دے رکّھئے ہیں جس کا سب سے زیادہ فائدہ ہندوستانی تاجروں نے اٹھایا ہے کافی تعداد میں ہندوستانی فیکٹریز بنک اور اسکول بڑھ رہے ہیں جگہ جگہ چائے خانے اور کیفیٹریا نظر آئے لیکن کوئی پان کی دُکان نظر نہیں آئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیرالا والوں نے وہاں نیل آرم اسٹرانگ کیطرح اپنا جھنڈا تو گاڑ دیا لیکن کوئی حیدرآبادی وہاں اب تک نہیں پہنچا۔
چونکہ انگریزی زبان کا فقدان ہے ا س لئے ہندوستانی اسکولوں کے لئے یہ ایک بہترین موقع ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر چینی انگلش زبان میں بہتر ہوتے تو آج ہندوستان کو عالمی مارکٹ میں وہ جگہ نہ مل پاتی جو ملی ہے۔ اب رفتہ رفتہ انگریزی مترجمین رکھنے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے لیکن ان مترجمین کی قابلیت دیکھ کر سر پیٹنے جی چاہتا ہے اُن کے ساتھ دو چار روز گزار کر جب ہم آتے ہیں تو دوسروں کو ہماری انگریزی سمجھنے کے لئے مترجم بُلانا پڑتا ہے۔اس لئے ہم اپنی انگریزی کی حفاظت کے لئے کسی کیرالا والے کو انگریزی سے انگریزی میں ترجمے کے لئے بُلا لیتے ہیں کیونکہ چینیوں کو کیرالا والوں کی انگریزی سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ چینی مترجمین سے تنگ آ کر ہم نے سوچا Client سے اس کی شکایت کر دیں لیکن کیا کریں کہ
ارادہ کر لیا ہے ان سے قاصد کی شکایت کا
مگر وہ خط اُسی کو سونپنا ہے کیا کیا جائے
یونس بٹ نے اپنے ایک سفر نامے میں لکھا کہ :
امجد اسلام امجد نے ایک لڑکی سے پوچھا ” کیا آپ انگریزی بولتی ہیں؟ "
لڑکی نے جواب دیا ” یس یس 20 ڈالر ” ( بر گردنِ راوی )
خلیج کی تمام بڑی عمارتوں کو اگر ایک جگہ جمع کیا جائے تو شہر شنگھائی کی ایک سڑک بنتی ہے۔
ایک چیف منسٹر نے کہا تھا کہ وہ بمبئی کو شنگھائی بنا دیں گے شائد انہوں نے کبھی شنگھائی دیکھا نہیں ہے۔ پورے شہر بمبئی میں جتنے پُل ہیں وہ شنگھائی کی صرف ایک سڑک جو پورٹ اور انڈسٹریل ایریا جاتی ہے اُس پر واقع ہیں۔ اگر موصوف کا اشارہ شنگھائی کی رشوت، نقلی مال، چالاک سیلزمین شِپ سے ہے تو اور بات ہے لیکن ہمیں شبہ ہے کہ بمبئی پہلے ہی سے شنگھائی ہے۔
چین کی سڑکیں اور پُل دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ چار چار پُل ایک دوسرے کے اوپر سے گزرتے ہیں۔کیا فائدہ ایسے پُلوں کا کہ اگر بندہ غلطی سے دوسرا پُل چڑھ جائے تو گاڑی روک کر کسی سے پتہ بھی نہ پوچھ سکے۔ سعودی عرب کے امیر زادوں کی ان وسیع سڑکوں پر بڑی کمی محسوس ہوتی ہے۔ عوام کی خوشحالی کا اندازہ تو اسی وقت ہوتا ہے جب نوجوان نسل مہنگی ترین گاڑیاں لے کر سڑکوں پر دندناتی پھرتی ہے۔ لوگ پولیس سے بہت ڈرتے ہیں اِسلئے نہیں کہ قانون سخت ہے اِسلئے کہ قانون کو سخت یا نرم کرنے کا اختیار پولیس والوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جُرمانہ ادا کئے بغیر پولیس سے چُھٹکارا پانا مشکل ہے لیکن ساتھ ساتھ جُرمانہ لگانے کے لئے پولیس والوں کو جو زحمت اُٹھانی پڑتی ہے اُس زحمت کی فیس جُرمانے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اگر آپ یہ نہ ادا کریں تو پھر جُرمانہ اتنا سخت ہوتا ہے کہ گاڑی بیچ کر بھی ادا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ہم نے جب خلیج میں قدم رکھا تو یہ سمجھا کہ امیری صرف خلیجیوں کے حصّے میں آئی ہے۔ لیکن چین کی عمارتیں، کاروبار، ہوٹل اور مختلف کاروبارِ زندگی دیکھے تو احساس ہوا کہ دولتمند ہونا الگ چیز ہے اور امیر ہونا الگ چیز۔
امیر دولت کا صحیح استعمال کرتا ہے اور دولتمند ایک سے دو ، دو سے تین بیویاں کرتا ہے اور اُن کے لئے عمارتیں اور نئی نئی گاڑیاں خریدتا چلا جاتا ہے۔پھر مرد بیگمات کے پیچھے پیچھے مینا بازاروں میں، عورتیں تقاریب میں اور اولادیں عیش میں لکھنؤ کے نوابوں کی تاریخ دوہراتے ہیں۔
چین کی آسمان کو چھونے والی عمارتوں کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے یہ حسرت ہوتی ہے کہ کاش اپنے ملک میں ایک ایسی عمارت اپنی ہو جائے لیکن کام ہم ایسا کرتے ہیں جن سے عمارت بن تو نہیں سکتی جو کچھ جھونپڑی جیسا مکان ہے وہ بِک ضرور سکتا ہے۔ اردو کو زندہ رکھنے کے لئے بلا معاوضہ دن میں تخیّلات میں گُم رہنے اور راتوں کو خون جلا کر ورق کالے کرنے والوں کو اور مِلے گا بھی کیا؟
البتہ ان Main Roads کے پیچھے اگر آپ غلطی سے داخل ہو جائیں تو پھر آپ کو چینی تہذیب کے وہ سارے افلاسی مناظر بھی ملیں گے جو ہر غریب ملک میں مشترک ہیں۔ ایک ہی تنگ و تاریک کمرے میں زندگی گزار دینے والے انسانوں ، رکشہ کھینچتی ہوئی عورتوں، چکلوں پر گھومتی لڑکیوں اور بھیک مانگتے ہوئے بوڑھوں کو دیکھ کر سارے ترقی پسند یاد آ جاتے ہیں جنہوں نے برسوں ہتھیلی میں جنّت دِکھائی خود بھی اور اپنے ساتھ لاکھوں معصوموں کو بھی لے کر سُرخ سویرے کی آس میں اندھیروں میں بھٹکتے رہے۔
بُلاؤ فِدایانِ چیں کو بلاؤ یہ کوچے یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ
ثنا خوانِ اِشتراکیت کو لاؤ جنہیں ناز تھا روس پر وہ کہاں ہیں
چین سیاسی ، فوجی ، اور اقتصادی طور پر جتنا ترقی پذیر ہے اس کا عوام کی خوشحالی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
لوگ بدستور پسماندہ اور مفلس ہیں۔ اگر چیکہ 1989 کے Tinamin Square کے واقعہ کے بعد سیاسی اور اقتصادی طور پر چین مکمل بدل چکا ہے۔ کمیونزم کا کلیدی نعرہ بدل چکا ہے۔ عوام اب ہر چیز کی ملکیت کے حقدار ہو چکے ہیں لیکن نتیجہ وہی ہوا جو سرمایہ دار ممالک کا ہے ۔ امیر ، امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کی روک تھام کے لئے صرف اسلام ہی ایسا دین تھا جو انسانیت کو اس عذاب سے نجات دلا سکتا تھا لیکن چین میں دین کا وجود نہیں اور بد قسمتی سے جن ملکوں میں دین کا سرکاری وجود ہے وہ دین صرف فقہی مسائل اور عبادات پر محیط ہے۔
البتہ وہاں کے اور یہاں کے دین میں ایک قدرِ مشترک یہ ہے کہ اگر حقیقی دین کی آپ نے بات کی تو انجام ایک ہی ہے یعنی جیل۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے ویب سائٹ سے نقل کرنے کی اجازت دی
ماخذ:
http://aleemkhanfalaki.com/category/humor/travelogue/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید