بہت دنوں کی بات ہے کہ ایران کے بہت پرانے شہر اصفہان میں ایک لڑکا رہا کرتا تھا۔ اس کا نام تھا امین۔ ایک دن وہ جنگل میں چلا جا رہا تھا کہ راستے میں اسے ایک لمبا چوڑا دیو مل گیا۔ امین سوچنے لگا کہ اب کیا کروں! بات دراصل یہ تھی کہ دیو بڑے خطرناک ہوا کرتے تھے۔ وہ انسانوں کو اپنا غلام بنا لیتے اور اکثر کھا بھی جاتے تھے۔ امین کی جیب میں صرف نمک کا ایک ڈلا اور ایک انڈا تھا۔ اس کے سوا کچھ نہ تھا اور کوئی ہتھیار تو تھا ہی نہیں۔
کہتے ہیں کہ بچاؤ کی بہترین ترکیب یہ ہے کہ پہلے خود حملہ کر بیٹھے۔ چناں چہ امین بڑھ کر دیو کے قریب پہنچا اور بولا: "جناب دیو صاحب!آئیے ذرا طاقت آزمائی کر لی جائے۔” یہ سن کر دیو ذرا دیر کے لیے حیران رہ گیا۔، کیوں کہ انسان اس سے اس قسم کی باتیں کبھی نہیں کرتے تھے اور دیکھتے ہی ڈر جاتے تھے وہ بولا: "تم بہت زیادہ طاقت ور تو دکھائی نہیں دیتے مجھ سے بھلا کیا طاقت آزماؤ گے۔”
امین نے کہا: "میں بہ ظاہر طاقت ور نہیں ، لیکن کیا آپ نے یہ نہیں سنا کہ ظاہری حالت سے اکثر دھوکا بھی ہو سکتا ہے۔ لیجیے میں اپنی طاقت کا ثبوت پیش کرتا ہوں۔ "یہ کہہ کر اس نے ایک پتھر اٹھا لیا اور بولا: "اب میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کو دبا کر پانی نکالیں۔”
دیو نے پتھر لے لیا اور کوشش کی، پھر بولا: "نہیں، یہ ناممکن ہے۔”
اس پر امین نے کہا: "جی نہیں جناب! یہ تو بالکل آسان کام ہے۔”
جس وقت دیو پتھر کو اپنی مٹھی میں دبا رہا تھا، اس وقت امین نے ایک انڈا اپنی مٹھی میں رکھ لیا تھا۔ اب اس نے پتھر کو اسی مٹھی میں لے لیا اور خوب زور سے دبایا۔ انڈا پھوٹ گیا۔ اور دیو نے دیکھا کہ امین کی مٹھی میں سے کوئی رقیق چیز نکل رہی ہے۔ دیو نے یہ بھی دیکھا کہ امین کوئی زیادہ زور نہیں لگا رہا ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت روشنی کم تھی، اس لیے دیو کو ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
اس کے بعد امین نے ایک دوسرا پتھر اٹھا لیا اور بولا: "اس میں نمک ہے، ذرا اس کو اپنی انگلیوں سے چورا چورا کر دیجیئے۔”
دیو نے پتھر کو دیکھا اور بولا کہ یہ کام اس سے نہ ہو سکے گا۔
امین نے کہا: "لائیے، مجھ کو دیجیے۔” اس نے پتھر کو اس مٹھی میں رکھ لیا، جس میں اس نے نمک کا ڈلا پہلے سے چھپا رکھا تھا اور پھر نمک کو چورا چورا کر کے دیو کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔
دیو بولا: "اچھا، اب تم آج رات میرے گھر پر مہمان رہو۔
امین راضی ہو گیا، کیوں کہ اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ دیو کو بےوقوف بنانے میں کام یاب ہو جائے گا۔
جب یہ دونوں دیو کے بڑے سے غار میں پہنچ گئے تو دیو نے امین کو ایک بہت بڑی مشک دی، جو کم از کم چھے بیلوں کی کھال سے بنائی گئی ہو گی اور بولا: "جاؤ، اس میں پانی بھر لاؤ، میں اتنے میں کھانا پکانے کے لیے آگ جلاتا ہوں۔” یہ کہہ کر وہ لکڑیاں اکٹھی کرنے چلا گیا۔
امین سوچنے لگا کہ پانی کے لیے کیا کرے، اتنے میں اسے ایک ترکیب سوجھ گئی۔ مشک تو اتنی بھاری تھی کہ وہ اسے چند گز بھی نہیں گھسیٹ سکا، لہذا اس کو تو چھوڑ دیا اور ندی سے ایک نہر کھودنے لگا۔ تھوڑی دیر میں دیو واپس آ گیا اور چلایا: "اتنی دیر کیوں لگا رہے ہو؟ کیا تم ایک چھوٹی سی مشک بھی نہیں اٹھا سکتے؟”
امین بولا: "نہیں جناب! بات دراصل یہ ہے کہ آپ چوں کہ میری اتنی خاطر کر رہے ہیں، لہذا میں نے طے کیا ہے کہ ایک نہر کھود ڈالوں تاکہ آپ کو ہر وقت پانی ملتا رہے۔ یہ دیکھیے، میں نے کام شروع کر دیا ہے۔ بلاوجہ طاقت کا مظاہرہ کرنا بےکار سی بات ہے۔”
دیو کو بڑے زور کی بھوک لگی ہوئی تھی۔ وہ بولا: "اچھا تم پانی کو چھوڑو۔ میں لے آتا ہوں۔”
یہ کہہ کر اس نے مشک کو اس طرح اٹھا لیا جیسے وہ کسی پرندے کا پر ہو اور اسے دریا سے بھر لایا، پھر بولا: "تم اپنی نہر کل کھود لینا۔”
اس کے بعد دیو نے خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔ غار کے اندھیرے کونے میں امین بھی جھوٹ موٹ کھاتا رہا۔ پھر دیو نے امین کو سونے کے لیے ایک جگہ بتا دی۔ امین نے دیو کی آنکھوں سے شرارت ٹپکتی دیکھ لی، لہذا اس نے اس جگہ پر ایک بڑا سا تکیہ رکھ دیا، جہاں پر اسے سونا تھا اور خود ایک کونے میں چھپ گیا۔
صبح ہونے سے ذرا دیر پہلے دیو جاگ گیا اور اس نے ایک موٹے سے ڈنڈے کو اٹھا کر اس جگہ پر دے مارا، جہاں امین کا بستر تھا۔ امین کے کراہنے کی آواز بھی سنائی نہ دی۔ دیو مسکرانے لگا اور سمجھا کہ امین کا بھرتا بن گیا ہو گا۔ پھر بھی احتیاطاً اس نے امین کے بستر پر سات بار ڈنڈا مارا اور اپنے بستر پر آ کر لیٹ گیا۔ جوں ہی دیو بستر پر لیٹا، امین اپنے بستر پر چپکے سے واپس آ گیا اور چلایا: ” ارے دیو صاحب! یہ کون سا کیڑا تھا جو اپنے پر پھڑپھڑا رہا تھا۔ میں نے سات بار اس کے پروں کی آواز سنی۔ حالانکہ ایسی چیزیں انسانوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ پھر بھی سوتے ہوئے آدمی کی نیند ضرور خراب ہو جاتی ہے۔”
یہ سن کر دیو اس قدر خوف زدہ ہو گیا کہ وہ گھبرا کر وہاں سے بھاگ گیا اور اپنے غار کو امین کے رحم و کرم پر چھوڑ گیا۔ امین کو غار میں ایک بندوق مل گئی، جو غالباً کسی آدمی کو مار کر دیو لے آیا ہو گا، چناں چہ بندوق لے کر آدمی باہر نکلا۔ ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ کیا دیکھتا ہے دیو واپس چلا آ رہا ہے۔ دیو کے ہاتھ میں ایک بڑا سا ڈنڈا تھا اور اس کے ساتھ ایک لومڑی بھی تھی۔
امین سمجھ گیا کہ چالاک لومڑی نے دیو کو وہ ساری باتیں بتا دی ہوں گی، جن کی وجہ سے وہ بےوقوف بن گیا، لہذا امین نے بندوق اٹھا کر گولی چلا دی۔ گولی لومڑی کے سر کو پھاڑتی ہوئی نکل گئی۔
پھر امین بولا: ” یہ ہے نافرمانی کی سزا۔”
پھر دیو کو مخاطب کر کے کہا: ” یہ جھوٹی لومڑی مجھ سے وعدہ کر گئی تھی کہ سات دیووں کو میرے پاس لے آئے گی، تاکہ میں ان کو زنجیروں سے جکڑ کر شہر اصفہان لے جاؤں، مگر یہ لومڑی صرف تم کو لے کر آ گئی۔ تم تو پہلے ہی میرے غلام ہو چکے ہو۔”
یہ سنتے ہی دیو بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے ڈنڈے کے سہارے پتھروں اور ڈھلوانوں پر کودتا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
احمقانہ ہنسی دھوکا نہ دیتی۔ پہلے رحمت بھی یونہی ہنستا تھا۔ جراکل بھی یوں بے وقوفوں کی طرح ہنسنا چھوڑ دے تو بہترین لڑکا نکلے گا۔ ہاں سچ اگر وہ نہ ہوتا تو شاید میرے کان غصہ ور بوڑھے چوکیدار کے ہاتھ میں نظر آتے۔
اصل میں ہوا یہ کہ جب ریل گاڑی اسٹیشن پر پہنچی تو میں اس خوش فہمی میں تھا کہ پلیٹ فارم پر لوگوں کا بڑا مجمع ہو گا، سب بڑے احترام سے میرا استقبال کریں گے۔ مجھے افسوس تھا تو بس یہی کہ اس وقت رحمت اور میرے دوست میرا یہ استقبال دیکھنے کو وہاں نہیں ہوں گے۔ لیکن جب میں گاڑی سے نیچے اُترا، اِدھر اُدھر نظر ڈالی تو دُور دُور تک کوئی دکھائی نہ دیا۔ ایک سوکھے مارے بھورے کتّے کے علاوہ جو بیکاری میں کوڑے کرکٹ کے ٹین میں منہ ڈالے کچھ سونگھ رہا تھا۔
غضب کی گرمی پڑ رہی تھی۔ مانو زمین آسمان بھٹی میں جھلس رہے ہوں۔ میں کتّے کو دھتکار کر پانی کے نل کے پاس آیا، قمیض اتار کر نلکا کھولا اور پانی کے نیچے جھکا۔ پانی اگرچہ خاصا گرم تھا تب بھی کچھ جان میں جان آئی۔
ابھی میں قمیض پہن رہا تھا کہ اتنے میں چوکیدار آتا دکھائی دیا۔ چلتے چلتے وہ رنگ برنگی لپٹی ہوئی جھنڈیاں کینوس کے ایک تھیلے میں ٹھونستا جا رہا تھا۔ پھر بوڑھے کی نظر میرے اُوپر سے یوں گزر گئی گویا میرا وہاں کوئی وجود ہی نہ ہو۔ وہ جمائی لیتا ہوا اپنی کوٹھری میں داخل ہو گیا۔ وہاں سے ایک پنجرہ لیے باہر نکلا جس پر ململ کا کپڑا ڈھکا ہوا تھا۔ پنجرے کو دروازے کے ہُک پر لٹکا کر چوکیدار کوٹھری میں واپس لَوٹ گیا۔ پنجرے کے اندر کوئی پرندہ پھُدک رہا تھا اور کپڑے پر چونچ مار رہا تھا۔ میں پرندہ دیکھنے کو بے قرار ہو گیا۔ میں نے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر گردن تان کر دیکھنا چاہا، مگر کپڑے نے کچھ دیکھنے نہ دیا۔۔۔ پر میں تو تجسس کے مارے مرا جا رہا تھا۔
میں نے احتیاطاً کوٹھری کے کھلے دروازے میں سے اندر جھانک کر دیکھا۔ چوکیدار تختوں کو جوڑ کر بنائے ہوئے بنچ پر لیٹا اونگھ رہا تھا۔ باہر لکڑی کے بکسوں کا ڈھیر لگا تھا، میں وہاں سے دو بکس کھینچ کر پنجرے کے پاس لایا اور انھیں اُوپر تلے رکھ کر ان پر چڑھ گیا۔ میں کپڑا ہٹا کر پنجرے میں جھانک کر دیکھنا چاہتا تھا کہ بکس ہلنے لگے اور میرے پیروں تلے سے پھسل گئے۔ میں نے ہاتھ پھیلا کر پنجرہ پکڑ لیا۔ کوئی چیز پنجرے کے اندر سے پھدک کر باہر نکلی، پر پھڑپھڑائے، مجھے بجلی کے پنکھے کی تیز ہوا کا سا احساس ہوا اور میں دھڑام سے نیچے گر پڑا۔ ظاہر ہے شور سنتے ہی بوڑھا باہر نکل آیا اور پھر میرا کان اس کے ہاتھ میں تھا۔
اگرچہ اس نے میرا کان زور سے نہیں کھینچا تھا مگر میں ڈر گیا اور عین اسی وقت فرشتہ رحمت، میری جان بچانے والا لڑکا جراکل نمودار ہوا۔ یہ حضرت ایک عنابی مائل بھورے گدھے پر سوار تھے۔
"ارے، ارے۔۔۔ دادا اوئی آغا، کیا کیا اس لڑکے نے جو بچارے کی یوں خاطر تواضع ہو رہی ہے؟” اس نے بڑے مزے میں چوکیدار کو مخاطب کیا۔ اس کی آنکھوں کی جگہ صرف دو لکیریں دکھائی دے رہی تھیں۔
"یہ لڑکا۔۔۔ یہ بچارا!” چوکیدار نے ایک منٹ کو میرے کان چھوڑ کر انگلی سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، "ہاں، اس لڑکے کی ایسی ہی خاطر تواضع ہونی چاہیے جو یہاں نہیں چاہیے وہاں اپنی ناک گھساتا ہو!۔۔۔ اور میاں، تم بھی سن لو کان کھول کر، بہتر یہی ہو گا کہ تم بھی جگہ بے جگہ اپنی ناک نہ گھساؤ۔”
میں نے اپنا جلتا ہوا کان سہلایا اور سر پر پیر رکھ کر بھاگا وہاں سے۔
اسٹیشن سے گاؤں تک آدھے راستے پر پہنچ کر ہی میں نے بھاگنا بند کیا۔ "خیر کوئی بات نہیں۔” میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ "اگر میں نانا سے کہوں تو وہ اس چوکیدار کو ایک نہیں جتنے چاہو، جیسے چاہو، پرندے پکڑ کر دے سکتے ہیں۔ ” یہ سوچ کر مجھے کچھ اطمینان ہوا۔۔۔ اور گھر پہنچ کر نانی کو دیکھتے ہی یہ واقعہ میرے ذہن سے رفو چکر ہو گیا۔
اب جراکل نے پھر سے اس کی یاد دلا دی اور میرے دل میں کھلبلی سی مچ گئی۔ "کہیں میں نے کسی قیمتی بٹیر کو تو پنجرے سے نہیں اڑا دیا؟ تب تو کوئی پرندہ اس کی جگہ نہیں لے سکے گا!”
"آؤ! گدھے پو سواری کریں۔” جراکل نے مشورہ دیا’ پھر مجھے دیکھ کر بولا۔ "ارے پریشان کیوں ہوتے ہو’ وہ تو مجھے یقین ہے، اڑ کر کب کا واپس آ گیا ہو گا۔”
"وہ کون؟”
"کیا مطلب کون؟ عقاب۔۔ اور کون!”
"اوہو! تو کیا پنجرے میں عقاب تھا؟”
"ہاں اور کیا۔ ویسے سچ پوچھو تو وہ عقاب نہیں۔ عین مین ہوائی جہاز ہے! ارے گاؤں بھر میں اور کسی کے پاس ایسا عقاب نہیں ہے۔”
"اچھا بتاؤ! جراکل، کیا تم نے خود دیکھا ہے؟ وہ واقعی واپس آ گیا ہے؟”
"دیکھا تو نہیں ہے مگر وہ جائے گا کہاں؟” جراکل نے حیرت سے جواب دیا۔ "وہ تو پالتو عقاب ہے۔ وہ بلاشبہ اپنے پنجرے میں واپس آ جائے گا۔ اگر تمھیں میری بات کا یقین نہیں ہے تو چلو چل کر دیکھ لو۔”
"نانی جانے کی اجازت نہیں دیں گی۔”
"کیوں؟”
"وہ کہتی ہیں کہ دھوپ میں گھومنا اچھا نہیں ہے۔”
"اچھا ٹھہرو۔” یہ کہہ کر جراکل باورچی خانے کی طرف غائب ہو گیا۔ پھر آن کی آن میں واپس آیا۔
"چلو!” اس نے خوش ہو کر کہا۔” اجازت مل گئی۔”
میں نے اپنا ہیٹ اٹھا لیا۔
"اچھا دیکھو صرف سائے میں کھیلنا۔ ٹھیک ہے، جراکل؟” نانی نے پیچھے سے آواز لگائی۔
"ہاں! ظاہر ہے۔” جراکل نے پیچھے مڑے بغیر ہی جواب دیا۔ "ہم کوئی پاگل ہیں جو دھوپ میں کھیلیں!”
پھر ہم سڑک پر نکل آئے۔ سورج درختوں کے پیچھے چھپ گیا تھا۔ بے رنگ، بے جان پتے ٹہنیوں سے لٹک رہے تھے۔ دریا کے کنارے چند گائیں چر رہی تھیں۔ ایک ٹرک تیزی سے پل سے گزر کر بائیں طرف مڑ گیا۔
"یہ نیا ٹرک ہے۔” جراکل نے اطلاع دی۔ "کچھ ہی دن ہوئے ہمارے پنچائتی فارم میں آیا ہے۔ اگر گاڑی ادھر سے گزرتی تو ذرا چڈھی ہی مانگ لیتے۔ خیر جناب’ کوئی بات نہیں۔ تم ذرا انتظار کرو’ میں ابھی لے کر آیا اپنی گاڑی۔” ایک منٹ بعد وہ اپنی "گاڑی” اپنا عنابی مائل بھورا گدھا لے آیا۔
"لو ذرا پکڑنا۔” اس نے مجھے لگام تھماتے ہوئے کہا۔ پھر جھک کر اپنی پتلون گھٹنوں گھٹنوں تک چڑھائی اور بولا۔ "چلو چلتے ہیں۔” یہ کہہ کر ذرا سا پیچھے ہٹا’ دوڑتا ہوا آیا’ ایک چھلانگ لگائی اور پھرتی سے گدھے کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھا۔ پھر میں بڑی مشکل سے گدھے پر سوار ہوا اور گرتے گرتے بچا کیونکہ میں ابھی اچھی طرح بیٹھا بھی نہیں تھا کہ گدھے صاحب تیزی سے دریا کی طرف بھاگنے لگے۔
"دیکھا” دوسرے گئیر میں جا رہا ہے!” جراکل خوشی سے چلایا۔ "اجی’ گدھا نہیں’ ہیلے کوپٹر ہے’ ہیلے کوپٹر! اور کوئی معمولی نہیں’ بڑا عالم و فاضل ہے! دادا وائی آغا کے گھر تک پہنچتے ہی رک جاتا ہے’ فوراً اپنے کھروں سے بریک لگاتا ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ وہاں اسے اکثر کھانے پینے کو کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔”
"دادا وائی آغا؟۔۔ تمھارا مطلب ہے۔۔۔ ۔؟”
"ہاں یار’ وہی جو تمھارا کان جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے۔ ان کی ایک بیٹی ہے۔ پر جانتے ہو’ بڑی چڑچڑی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہر وقت اس کو مچھر کاٹتے رہتے ہوں۔” وہ ہنسا اور کچھ اجنبی سی آوازیں آلاپنے لگا:
میں چٹانوں کے درمیان گھوما کیا اور برف میں میری قلفی جمی لیکن مشکل کے ہر ہر گھنٹے میں اے روشنی’ اے روشنی!
جراکل گاتے گاتے ٹانگیں ہلاتا جا رہا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح فلم میں خواجہ نصر الدین ہلاتے ہیں۔ پھر وہ گانا بند کر کے قہقہے مارنے لگا۔
"تم کیوں ہنس رہے ہو؟” میں نے اس کی آستین پکڑ کر کھینچی۔
"ڈرو نہیں’ تم پر نہیں ہنس رہا ہوں۔ یونہی یاد آ گیا۔ صبح جب میں اسٹیشن جا رہا تھا تو کیا دیکھتا ہوں، دادا وائی آغا کی بیٹی جمیلہ دریا کے کنارے بیٹھی ہوئی کپڑے دھو رہی ہے۔ میں گدھے سے اتر کر دبے پاؤں اس کے پیچھے گیا اور اس زور کی چیخ ماری کہ وہ اچھل پڑی اور دھڑام سے پانی میں گر پڑی!”
یہ کہہ کر جراکل پھر ہنسنے لگا اور گدھا جیسے اشارہ پا کر اور بھی تیز تیز چلنے لگا۔
کچھ دیر بعد جراکل نے مجھے اپنے دو کبوتروں کے بدلے میں یہ گدھا حاصل کرنے کا قصہ سنایا’ اور بتایا کہ اب وہ بدھو لڑکا روز اس کے گھر کے چکر لگاتا ہے’ اپنا گدھا واپس لوٹانے کے لیے منت سماجت کرتا ہے۔ لیکن میں نے اس سے کہہ دیا کہ ایک بار زبان دے کر کیسے پھر جا سکتا ہے۔
پھر ذرا دیر بعد کہنے لگا کہ وہ اونچے سے اونچے درخت سے دریا میں چھلانگ لگا سکتا ہے اور گھپ اندھیرے میں بھی بتا سکتا ہے کہ بہترین پکا ہوا تربوز کونسا ہے۔
"سچ! اگر چاہو تو میں تم کو بھی یہ گر سکھا سکتا ہوں۔” یہ کہہ کر وہ پھر قہقہے مارنے لگا۔
عین اسی وقت ہماری”گاڑی” یعنی ہمارے گدھے نے اچانک بریک لگایا۔
"میں نے کہا نہیں تھا کہ یہ بڑا عالم فاضل گدھا ہے۔” یہ کہہ کر جراکل زور سے پکارا: "جمیلہ! ارے او’ جمیلہ!”
"کیوں’ کیا بات ہے؟” جنگلے کے پیچھے سے غصے میں بھری آواز آئی۔
"جاؤ’ کچھ چارا لاؤ۔ میرا گدھا بھٹے نوش فرمانا چاہتا ہے۔”
"میں کیا نوکر ہوں تمھاری؟ ٹھیرو ذرا’ ابھی الاپار کو چھوڑتی ہوں باہر’ وہ تمھاری اور تمھارے گدھے کی ٹانگیں کچی نہ چبا ڈالے تو بات نہیں!”
"دیکھ لیا؟” جراکل نے میری طرف مڑ کے کہا۔ "بہت بدتمیز لڑکی ہے۔ غصے کا بھوت سوار ہو گیا تو اپنے خونخوار کتے کو چھوڑنے سے باز نہیں رہے گی!”
پھر جراکل نہ جانے کیا سوچ کر درخت پر چڑھنے لگا۔ "تم یہیں ٹھہرو!” اس نے کہا۔
میں حیران تھا کہ آخر وہ کرنا کیا چاہتا ہے’ معاملہ کیا ہے؟ یہ اسی وقت میرے پلے پڑا جب اس نے وہ رسی کھول ڈالی جو احاطے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک درخت سے بندھی ہوئی تھی۔
"چلو اب چلتے ہیں!” جراکل للکارا اور اس نے سیٹی بجائی۔
رسی پر لٹکے ہوئے سارے کپڑے پھڑپھڑا کر جنگلے کے پیچھے غائب ہو گئے۔ احاطے سے لڑکی کے رونے کی آواز سنائی دی۔
"تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس بیچاری نے اتنی محنت سے کپڑے دھوئے اور تم نے۔۔۔ ۔؟”
میں گدھے سے اتر کر جراکل کی طرف بڑھا۔
"تو کیا ہوا؟ اگر وہ میرے بیچارے گدھے کو کچھ کھانے کو دے دیتی تو مر تو نہ جاتی!”
"یہ اس کا اپنا معاملہ ہے۔ چاہے دے’ چاہے نہ دے!”
"اچھا’ تو مطلب ہے’ جناب میرے خلاف ہیں کیوں؟ اور۔ ۔۔۔ میں بھی کتنا احمق ہوں’ تمھاری خاطر اتنا کچھ کیا۔”
"میری خاطر؟”
"ہاں اور کیا نہیں! عقاب کو کس نے پنجرے سے اڑایا تھا؟ تم نے۔۔ کون نانی کے گھر بیٹھا بور ہو رہا تھا؟ تم۔۔۔ ۔ اور کس نے تم پر ترس کھایا’ کون تمھاری مدد کو آیا؟ میں!” اس نے پیشانی پر ہتھیلی مار کر دہرایا۔ "ہاں میں’ جراکل!” میں ابھی کوئی جواب نہیں دے پایا تھا کہ جنگلے کا دروازہ چرچرایا اور جمیلہ کا سر باہر نکلا۔
"عقاب گھر واپس آ گیا ہے’ وہ دیکھو پنجرے میں بیٹھا ہے۔”
جراکل کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"کیا میں نے نہیں کہا تھا؟” وہ بولا۔ "چلو مراد’ اندر چل کر دیکھیں۔ جمیلہ تمہارا الاپار تو بندھا ہوا ہے نا؟”
"ہاں اندر آجاؤ’ ڈرو نہیں۔” جمیلہ نے اتنا کہہ کر اسے اندر آنے دیا’ لیکن جب میں نے اس کے پیچھے اندر جانا چاہا تو دروازہ ٹھیک میری ناک کے سامنے بند ہو گیا۔ میں حیرت سے دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔یہ بھی خوب رہا! جمیلہ کو تنگ کیا جراکل نے، اور سزا دے رہی ہے وہ مجھے!
"آں ہاں، پکڑے گئے جناب!” احاطے سے لڑکی کی آواز آئی اور اب اس کی آواز میں جیت کی خوشی جھلک رہی تھی۔ میں یہ جاننے کو بے قرار تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟ میں نے درز میں سے جھانک کر دیکھا۔
جراکل دروازے سے کچھ ہی دور کھڑا تھا اور ایک بہت بڑا کتا اس کی ٹانگوں کے قریب نیم دراز تھا۔ جراکل کے ذرا سے ہلتے ہی وہ بھیانک آواز میں بھونکنے لگتا۔
بھاگنے کی ترکیبیں مت سوچو۔۔۔ ۔ ۔ ایسا کاٹے گا کہ نانی یاد آ جائے گی۔” جمیلہ نے دھمکی دی۔
"مذاق چھوڑو، ہٹاؤ اس چیز کو یہاں سے، میں جا رہا ہوں۔”
"میں مذاق نہیں کر رہی ہوں۔ یہ لو پکڑو!” جمیلہ نے تھیلا اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
"سب کپڑے اٹھا اٹھا کر تھیلے میں جمع کرو۔”
"واہ، واہ! کیا کہنا، جواب نہیں آپ کا!” جراکل نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے جواب دیا۔
"اٹھانا چاہتی ہو تو خود اٹھا لو۔”
"نہیں اٹھاؤ گے تم؟ الا پار!”
کتے نے پہلے مالکن کی طرف دیکھا، پھر جراکل پر نظر ڈالی،اٹھ کر بیٹھ گیا اور خوفناک آواز میں غرایا۔
"کیوں، نہیں اٹھاؤ گے کپڑے؟”
جراکل غصے سے تھیلا اس کے ہاتھ سے چھین کر ایک طرف کو ہو گیا۔کتا اپنی جگہ سے ہلا نہیں مگر جراکل کی ہر ہر حرکت پر اس کی نظریں تھیں۔
"لو سنبھالو اپنے کپڑے، بڑی مالکن بنی ہو!”یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھا۔
"کدھر چلے؟” جمیلہ نے پوچھا۔
"تمہیں کیا مطلب؟ تم نے کپڑے سمیٹنے کو کہا تھا، سو میں نے سمیٹ دیئے اور اب میں آزادی سے جا سکتا ہوں۔”
"ابھی نہیں جا سکتے۔”جمیلہ نے اس کے ہاتھ میں صابن کا ایک ٹکڑا تھماتے ہوئے کہا۔
"جاؤ، دریا پر جا کر سب کپڑے نئے سرے سے دھو کر لاؤ۔”
"پاگل ہو گئی ہو کیا؟” جراکل چلایا۔ "تم کیا چاہتی ہو کہ میں تمھیں جان سے مار ڈالوں؟”
"کوشش تو کر کے دیکھو، الاپار تمھاری بوٹی بوٹی نوچ ڈالے گا۔” اپنا نام سن کر کتا پھر غرایا۔ جراکل نے ڈر کر صابن ہاتھ میں لے لیا۔
"اچھا ٹھیک ہے، چلو۔” وہ بڑبڑایا۔
"نہیں! تم خود جاؤ۔ میں آج ایک بار دھلائی کر چکی ہوں، اب تم کوشش کرو۔ گھنٹہ بھر دھلائی کرنے کے بعد شاید جناب کی عقل شریف میں آ جائے کہ دھلائی کرنا آسان کام نہیں ہے!”
جراکل کا چہرہ چمک اٹھا۔ اس نے شاید یہ سوچا کہ اگر جمیلہ ساتھ نہیں جا رہی ہے تو کتا بھی نہیں جائے گا۔ اگر کتا نہیں گیا تو تھیلا کہیں جھاڑیوں میں پھینک کر وہ چلتا بنے گا۔ لیکن کتے نے جیسے اس کا خیال بھانپ لیا۔ کیونکہ سب سے پہلے وہی دروازے سے باہر نکلا۔
"مگر اس مخلوق چیز کو یہیں رکھو! وہاں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔” جراکل نے۔۔۔ ۔ بے پروائی کے انداز میں تجویز پیش کی۔
"جی نہیں! یہ مخلوق تمھارے ساتھ ضرور جائے گی۔” جمیلہ نے ہنس کر جواب دیا۔ "الاپار! اس کے ساتھ جاؤ اور اچھی طرح نظر رکھنا اس پر۔ سنا تم نے! الاپار؟”
الاپار نے تھیلے کے سرے کو دانتوں میں پکڑا اور دریا کی طرف کھینچنے لگا۔ جراکل نے تعجب سے کتے کی طرف دیکھا اور جلدی سے تھیلا اٹھا لیا۔
کس قدر حیرت انگیز کتا ہے! بالکل سرحد پر پہرہ دینے والے کتے کی طرح! ایسا کتا تو کسی جاسوس کو بھی سونگھ سکتا ہے، پکڑ سکتا ہے۔ کتنا عقل مند ہے؟ اور سچ پوچھیے تو یہاں جدھر دیکھو، سب ہی جانور تربیت یافتہ ہیں۔۔۔ ۔ کیا عقاب، کیا گدھا اور کیا کتا؟ سبھی سدھے ہوئے ہیں!
"اچھا تو یہی سہی، جانے کو میں چلا جاتا ہوں۔” جراکل بولا۔ "لیکن واپس آکر تمھاری ٹھکائی نہ کی تو میرا نام جراکل نہیں۔” اس نے دھمکی دی اور میری طرف مڑ کر کہا۔ "چلو مراد۔”
"مراد بھی نہیں جائے گا۔”
"تمھیں مراد سے کیا مطلب؟” جراکل آپے سے باہر ہو کر چلایا۔ "اس کا تو کوئی قصور نہیں!”
"مجھے معلوم ہے، اس کا کوئی قصور نہیں ہے، مگر میں اس سے درخواست کرنا چاہتی ہوں کہ وہ رسی درخت سے باندھ دے اور ہاں! یہ بھی کہ وہ عنابی مائل بھورا جانور بھی اس کے اصل مالک تک پہنچا آئے۔ مگر تم جاؤ! تمھاری یہاں کوئی ضرورت نہیں ہے۔”
جراکل اداسی سے دریا کی طرف چل پڑا۔ اس کے پیچھے پیچھے بڑے رعب داب سے کتا قدم اٹھا رہا تھا۔ جراکل کو غالباً اپنی ننگی پنڈلیوں پر اس کا سانس بھی محسوس ہو رہا ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت اس کی حالت کسی طرح بھی قابل رشک نہیں تھی۔
جمیلہ کی درخواست پر میں نے سب کام کر دیے۔ یہاں تک کہ اس بھورے عنابی گدھے کو بھی اس کے مالک کے پاس چھوڑ آیا۔ پر جراکل ابھی تک نہیں لوٹا تھا۔ میں واپس آیا تو جمیلہ دروازے کے پاس کھڑی تھی۔
"بڑے زور و شور سے دھلائی ہو رہی ہے۔” اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ "میں جا کر دیکھ آئی ہوں۔ اتنے سلیقے سے دھو رہا ہے کہ لڑکیوں کو بھی رشک آ جائے۔”
"وہ کوئی ایسا برا لڑکا تو نہیں ہے۔” میں نے سوچا۔
"تم عقاب دیکھنا چاہتے ہو؟” یہ کہہ کر اس نے مجھے دیکھا اور بے اختیار ہنس پڑی۔ "ارے ڈرو نہیں’ الاپار تو اس وقت دریا پر ہے اور یوں بھی میرے خیال میں تم کوئی آفت کا پرکالا بھی نہیں ہو۔”
جراکل آدھے گھنٹے بعد واپس لوٹا۔ اس کے ساتھ الاپار بڑے مزے سے چلا آ رہا تھا۔
"جراکل دور سے ہی چلایا۔ "منٹ بھر کو آرام کا سانس نہیں لینے دیا۔ برابر میری پیٹھ پر اپنی ناک سے کچوکے دیتا رہا۔”
جمیلہ کے پاس پہنچ کر اس نے تھیلا زمین پر پٹخ دیا، "لو سنبھالو اپنے کپڑے،چڑیل۔”
"جلدی نہ کرو، ذرا دیکھ تو لوں۔ اچھی طرح دھوئے ہیں کہ نہیں۔ آہاں دیکھو! اس قمیض کو بالکل نہیں نچوڑا۔ تم نے شاید اسے آخر میں دھویا ہو گا اور بڑی جلدی میں ہو گے۔ ارے حضرت! جانتے نہیں ہو جلدی کا کام شیطان کا۔ لو! اسے اچھی طرح نچوڑو۔”
جراکل نے بلا چوں و چرا قمیض لے لی اور اسے نچوڑا۔
"الاپار’ اب تم اپنی جگہ پر جاؤ۔” جمیلہ نے کتے کو آواز دی۔
جراکل نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہاتھ پونچھے اور مڑ کر دروازے کی طرف بڑھا۔ "میں سچ مچ اس کی ٹھکائی کرتا۔” اس نے باہر نکل کر کہا۔ "مگر ترس آ گیا۔ یونہی بچاری دکھیا رہتی ہے۔ کچھ دن پہلے اس کی ماں مر گئی ہے۔۔۔ سب کچھ خود کرنا پڑتا ہے اسے۔۔۔۔۔ دھلائی بھی اور کھانا پکانا بھی۔”
"سچ کہتے ہو! بیچاری کے لیے شاید کافی مشکل ہو گا۔”
"ہاں اور کیا؟” جراکل نے یہ کہہ کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ جمیلہ دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ مختصر سی، دبلی پتلی لڑکی اور اس کی آنکھوں میں بڑی اداسی اور تھکن تھی۔
"جراکل۔ ۔۔۔” اس نے دھیرے سے آواز دی۔ "تم نے مجھے مار ڈالنے کی قسم کھائی تھی اور میں جانتی ہوں کہ جب کہا ہے تو تم یقیناً ایسا کرو گے بھی تو بہتر یہ ہو گا کہ تم ابھی مار ڈالو مجھے۔”
جراکل نے مڑ کر ہاتھ سے اشارہ کیا: "خیر، چھوڑو اب۔۔۔”
"تو پھر تمہیں اب کس نام سے پکارا جائے؟” جمیلہ نے خوش ہو کر سوال کیا۔
"جراکل اور کس نام سے!” جراکل نے بڑے فخر سے جواب دیا اور مسکرانے لگا۔ "جراکل نام کیا برا ہے؟ جر۔ ۔۔۔ جانتی ہو’ اس کے معنی ہیں۔۔۔ دوست!”
ہاں واقعی! کیا برا نام ہے میرے نئے دوست کا؟
٭٭٭
ٹائپنگ : مقدس
پروف ریڈنگ: ذو القرنین، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید