FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

پاکی کے مسائل

               منظور احمد بُڈھوی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

غسل کا بیان

               غسل کا مسنون طریقہ

            غسل کرنے والے کو چاہیے کہ پہلے گٹوں تک دونوں ہاتھ دھوئے پھر استنجے کی جگہ دھوئے۔پھر جہاں بدن پر نجاست لگی ہو پاک کرے۔ پھر وضو کرے اور اگر غسل کی جگہ میں پانی نہ ٹھہر تا ہو فوراً بہہ جاتا ہو یا ٹھہر تا ہو لیکن وہاں کسی چوکی یا پتھر پر غسل کر تا ہو تو وضو کرتے وقت پیر بھی دھو لے اور اگر ایسا نہیں ہے اور ٹھہرے ہوئے پانی میں پیر بھر جائیں گے اور غسل کے بعد دھو نے پڑیں گے تو سارا  وضو کرے مگر پیر نہ دھوئے۔ پھر وضو کے بعد تین مرتبہ اپنے سر پر پانی ڈالے پھر تین مرتبہ داہنے کندھے پر پھر تین مرتبہ با ئیں کندھے پر پانی ڈالے اس طرح کہ سارے بدن پر پانی بہہ جائے۔ پہلی مرتبہ پانی ڈالنے کے بعد جسم کو مل لے تاکہ سارے جسم پر پانی پہنچ جائے۔اگر پہلے پاؤں نہ دھوئے ہوں تو اس جگہ سے ہٹ کر پاک جگہ میں آئے اور پیر دھوئے۔

            تنبیہ  :  مذکور غسل میں بعض چیزیں فرض ہیں اور بعض سنت اور  بعض مستحب ہیں۔

غسل کے فرائض

            غسل میں صرف تین چیزیں فرض ہیں  :

            (١)  اس طرح کلی کرنا کہ سارے منہ میں پانی پہنچ جائے۔

            (٢)  ناک میں پانی ڈالنا جہاں تک ناک نرم ہے۔

            (٣)  سارے بدن پر پانی پہنچانا۔

            مسئلہ  :  جب سارے بدن پر پانی پڑ جائے اور کلی کر لے اور ناک میں پانی ڈالنے کی غرض سے کھڑا ہو گیا یا حوض وغیرہ میں گر پڑا اور سب بدن بھیگ گیا اور کلی بھی کر لی اور ناک میں بھی پانی ڈال لیا تو غسل ہو گیا۔

            مسئلہ  :  اگر بدن میں بال برابر بھی کوئی جگہ سوکھی رہ جائے گی تو غسل نہ ہو گااسی طرح اگر غسل کرتے وقت کلی کرنا بھول گیا یا ناک میں پانی نہیں ڈالا تو بھی غسل نہیں ہوا۔

            مسئلہ  :  اگر غسل کے بعد یاد آئے کہ فلانی جگہ سوکھی رہ گئی تھی تو پھر سے نہانا واجب نہیں بلکہ جہاں سوکھا رہ گیا تھااسی کو دھو لے لیکن فقط ہاتھ پھیر لینا کافی نہیں ہے بلکہ تھوڑا سا پانی لے کر اس جگہ بہانا چاہیے۔ اور اگر کلی کرنا بھول گیا ہو تو اب کر لے۔ اگر ناک میں پانی نہ ڈالا ہو تو اب ڈال لے۔ غرضیکہ جو چیز رہ گئی ہو،اب اس کو کر لے، نئے سرے سے غسل کرنے کی ضرورت نہیں۔

            مسئلہ  :  اگر کسی بیماری کی وجہ سے سر پر پانی ڈالنا نقصان کرے اور سر چھوڑ کر سارا بدن دھو لے تب بھی غسل ہو گیا لیکن جب اچھا ہو جائے تو اب سر دھو ڈالے پھر سے نہانے کی ضرورت نہیں۔

            مسئلہ  :  عورت کو پیشاب کی جگہ آگے کی کھال کے اندر پانی پہنچانا غسل میں فرض ہے اگر پانی نہ پہنچے گا تو غسل نہ ہو گا۔ اگر مرد کا ختنہ نہ ہوا ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر کھال کے کھولنے میں دقت نہ ہو تو کھال کے اندر پانی ڈالنا فرض ہے اور اگر دقت ہو تو فرض نہیں۔

            مسئلہ  :  اگر عورت کے سر کے اوپر کے بال گندھے ہوئے نہ ہوں تو سب بال بھگونا اور ساری جڑوں میں پانی پہنچانا فرض ہے۔ اور اگر سر کے اوپر کے بال تھوڑے تھوڑے کر کے خوب گندھے ہوئے ہوں تو بالوں کا بھگونا معاف ہے البتہ سب جڑوں میں پانی پہنچانا فرض ہے، ایک جڑ بھی سوکھی نہ رہنے پائے۔ اگر بغیر کھولے سب جڑوں میں پانی نہ پہنچ سکے تو کھول ڈالے اور بالوں کو بھی بھگو دے۔

            مسئلہ  :  عورت کو چاہیے کہ نتھ، بالیوں، انگوٹھی ا و رچھلوں کو خوب ہلا لے کہ پانی سوراخوں میں پہنچ جائے اور اگر بالیاں نہ پہنے ہو تو تب بھی قصد کر کے سوراخوں میں پانی ڈال لے۔ایسا نہ ہو کہ پانی نہ پہنچے اور غسل صحیح نہ ہو۔

            مسئلہ  :  اگر ناخن میں آٹا لگ کر سوکھ گیا اوراس کے نیچے پانی نہیں پہنچایا تو غسل نہیں ہوا، جب یاد آئے اور آٹا دیکھے تو آٹا چھڑا کر پانی ڈال لے اور اگر پانی پہنچانے سے پہلے کوئی نماز پڑھ لی ہو تو اس کو لوٹا لے۔

            مسئلہ  :  ہاتھ پیر پھٹ گئے اور اس میں موم،روغن یا اور کو ئی دو ا بھر لی تو اس کے اوپر سے پانی بہا لینا درست ہے۔

            مسئلہ  :  کان اور ناف میں بھی خیال کر کے پانی پہنچانا چاہیے۔پانی نہ پہنچے گا تو غسل نہ ہو گا۔

            مسئلہ  :  اگر نہاتے وقت کلی نہیں کی لیکن خوب منہ بھر کے پانی پی لیا کہ سارے منہ میں پانی پہنچ گیا تو بھی غسل  ہو گیا البتہ اگر اس طرح پانی پئے کہ سارے منہ میں پانی نہ پہنچے تو یہ کافی نہیں ہے کلی کر لینا چاہیے۔

            مسئلہ  :  اگر سر کے بالوں میں یا ہاتھ پیروں میں تیل لگا ہوا ہو کہ بدن پر پانی اچھی طرح ٹھہرتا نہیں ہے بلکہ پڑتے ہی ڈھلک جاتا ہے تو اس کا کوئی حرج نہیں ہے جب سارے بدن اور سارے سر پر پانی ڈال دیا تو غسل ہو گیا۔

            مسئلہ  :  اگر دانتوں کے بیچ میں چھالیہ وغیرہ کا ٹکڑاپھنس گیا تو اس کو خلال سے نکال ڈالے اگر اس کی وجہ سے دانتوں میں پانی نہ پہنچے گا تو غسل نہ ہو گا۔

            مسئلہ  :  ماتھے پر افشاں چنی ہے یا بالوں میں اتنا گوند لگا ہے کہ بال اچھی طرح نہ بھیگیں گے تو گوند خوب چھڑا ڈالے اور افشاں دھو ڈالے اگر گوند کے نیچے پانی نہ پہنچے گا،اوپر ہی اوپر بہ جائے گا تو غسل نہ ہو گا۔

            مسئلہ  :  اگر کسی عورت نے دانتوں پر مسی کی دھڑی جمائی ہے تواس کو چھڑا کر کلی کرے ورنہ غسل نہ ہو گا۔

            مسئلہ  :  کسی کی آنکھیں دکھتی ہیں اس لیے اس کی آنکھوں سے کیچڑ بہت نکلا اور ایسا سوکھ گیا کہ اگر اس کو نہ چھڑائے گا تو ا س کے نیچے آنکھ کے کونے پر پانی نہ پہنچے گا تو اس کا چھڑا ڈالنا واجب ہے۔ اس کو چھڑائے بغیر نہ وضو درست ہے نہ غسل۔

غسل کی سنتیں

            غسل فرض ہو یا غیر فرض اس کے لیے یہ چیزیں سنت ہیں  :

            (١)  غسل کی نیت کرنا۔

            (٢)  ابتداء میں کپڑے اتارنے سے پہلے بسم اللہ کہنا۔

            (٣)  دونو ں ہاتھوں کو گٹوں تک دھونا۔

            (٤)  استنجا کرنا خواہ استنجے کی جگہ نجاست لگی ہو یا نہ لگی ہو۔

            (٥)  جسم پر کسی جگہ نجاست لگی ہو اس کو دھونا۔

            (٦)  وضو کرنا۔

            (٧)  سر اور تمام بدن پر تین بار پانی ڈالنا۔

            (٨)  جس ترتیب سے اوپر کی سنتیں بیان ہوئی ہیں اسی ترتیب سے ادا کرنا۔

            (٩)  جسم کے تمام اعضا ء کو پہلی مرتبہ میں ملنا یعنی ان پر ہاتھ پھیرنا تاکہ سب جگہ پانی اچھی طرح پہنچ جائے کہیں سوکھا نہ رہے۔

            (١٠)  ایسی جگہ پر نہائے جہاں اس کو کوئی نہ دیکھے۔

غسل کے مستحبات

            (١)  تواتر کے ساتھ پانی بہائے یعنی تمام اعضائے بدن کو اس طرح دھوئے کہ جسم اور ہوا کے معتدل ہونے کے زمانے میں ایک حصہ خشک نہ ہونے پائے کہ دوسرا  دھل جائے۔

            (٢)  غسل کے بعد تولیہ وغیرہ موٹے کپڑے سے اپنے بدن کو پونچھ ڈالے لیکن اگر مجبوری نہ ہو تو بہت مبالغہ نہ کرے تاکہ اس کے اعضا پر غسل کا کچھ اثر باقی رہے۔

            (٣)  غسل کے بعد بدن ڈھانپنے میں بہت جلدی کرے یہاں تک کہ اگر وضو کرتے وقت پیر نہ دھوئے ہوں تو غسل کی جگہ سے ہٹ کر پہلے اپنا بدن ڈھکے پھر دونو ں پیر دھوئے۔

            (٤)  اگر انگوٹھی چھلے  ڈھیلے ہوں کہ بغیر ہلائے بھی پانی پہنچ جائے تو ہلانا وا جب نہیں لیکن ہلا لینا مستحب ہے۔

غسل کے مکروہات

            (١)  ننگے ہو کر نہانے میں قبلہ رخ ہونا۔

            (٢)  غسل میں ستر کھلے ہوئے بلا ضرورت بات کرنا۔

            (٣)  پانی کے استعمال میں بے جا زیادتی یا کمی کرنا۔

            (٤)  مسنون طریقے کے خلاف غسل کرنا۔

               فرض غسل

            حدث اکبر سے پاک ہونے کے لیے غسل فرض ہے۔ حدث اکبر کے چار سبب ہیں  :

پہلاسبب

            خردج منی یعنی منی کا اپنی جگہ سے شہوت کے ساتھ جدا ہو کر جسم سے باہر نکلنا خواہ سوتے میں یا جاگتے میں، بے  ہوشی میں یا ہوش میں،جماع سے یا بغیر جماع کے،کسی خیال و تصور سے یا خاص حصے کو حرکت دینے سے یا اور کسی طرح سے۔

            مسئلہ  :  اگر منی اپنی جگہ سے شہوت کے ساتھ جدا ہوئی مگر خاص حصہ (آلہ تناسل) سے باہر نکلتے وقت شہوت نہ تھی تب بھی غسل فرض ہو جائے گا۔ مثلاً اپنی جگہ سے شہوت کے ساتھ جدا ہوئی مگر اس نے خاص حصہ کے سوراخ کو ہاتھ سے بند کر لیا یا روئی وغیرہ رکھ لی تھوڑی دیر کے بعد جب شہوت جاتی رہی تو اس نے خاص حصہ کے سوراخ سے ہاتھ یا روئی ہٹا لی اور منی بغیر شہوت خارج ہو گئی تب بھی غسل فرض ہو جائے گا۔

            مسئلہ  :  اگر کسی کے خاص حصے سے کچھ منی نکلی اور اس نے غسل کر لیا۔ غسل کے بعد شہوت کے بغیر دوبارہ کچھ نکلی تو اس صورت میں پہلا غسل باطل ہو جائے گا دوبارہ پھر غسل فرض ہے بشرطیکہ یہ باقی منی سونے سے پہلے یا پیشاب کرنے سے قبل یاچالیس قدم یا اس سے زیادہ چلنے سے قبل نکلے۔مگر اس باقی منی کے نکلنے سے پہلے اگر نماز پڑھ لی ہو تو وہ نماز صحیح رہے گی اس کا اعادہ لازم نہیں۔

            مسئلہ  :  کسی کے خاص حصے سے پیشاب کے بعد منی نکلی تو اس پر بھی غسل فرض ہو گا بشرطیکہ شہوت کے ساتھ ہو۔

            مسئلہ  :  میاں بیوی دونوں ایک پلنگ پر سو رہے تھے۔ جب اٹھے تو چادر پر منی کا دھبہ دیکھا اور سونے میں خواب کا دیکھنا نہ مرد کو یاد ہے نہ عورت کو تو دونوں نہا لیں۔ احتیاط اسی میں ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ یہ کس کی منی ہے۔

دوسرا سبب

            زندہ با شہوت مرد خواہ بالغ ہو یا نا بالغ ہو اس کے خاص حصہ کے سر یعنی حشفہ کا کسی زندہ عورت کے خاص حصہ میں یا کسی دوسرے زندہ آدمی کے مشترک حصہ(یعنی پاخانہ کی جگہ )میں داخل ہونا خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو یا خنشی ہو اور خواہ منی گرے یا نہ گرے۔اس صورت میں اگر دونوں بالغ ہوں تو دونو ں پر ورنہ جو بھی بالغ ہو اس پرغسل فرض ہو جائے گا۔

            مسئلہ  :  اگر لڑکی کمسن ہو مگر جماع کے قابل ہو یعنی جماع کرنے سے اس کے آگے اور پیچھے کی راہیں ایک ہو جانے کا خوف نہ ہو تو اس کے خاص حصے میں مرد کے خاص حصہ کاسر داخل ہونے سے مرد پرغسل فرض ہو جائے گا اگر وہ مرد بالغ ہے۔

            مسئلہ  :  جس مرد کے خصیے کٹ گئے ہوں اس کے خاص حصہ کا سر اگر کسی کے مشترک حصہ یا عورت کے خاص حصہ میں داخل ہو تب بھی غسل دونوں پر فرض ہو جائے گا اگر دونوں بالغ ہوں ورنہ اس پر جو بالغ ہو۔

            مسئلہ  :  اگر کسی مرد کے خاص حصہ کا سر یعنی حشفہ کٹ گیا ہو تو اس کے باقی حصے سے حشفہ کے برابر مقدار کا اعتبار کیا جائے گا۔اگر بقیہ عضو میں سے بقدر حشفہ داخل ہو گیا تو غسل واجب ہو گا ورنہ نہیں۔

            مسئلہ  :  اگر کوئی مرد اپنے خاص حصہ کو کپڑے وغیرہ سے لپیٹ کر داخل کرے تو اگر جسم کی حرارت محسوس ہو تو غسل فرض ہو جائے گا مگر احتیاط یہ ہے کہ جسم کی حرارت محسوس ہو یا نہ ہو غسل فرض ہو جائے گا۔

            مسئلہ  :  اگر کوئی مرد شہوت کے غلبہ میں اپنے خاص حصہ میں کسی نا بالغ بے شہوت لڑکے یا کسی جانور کے خاص حصہ کو یا کسی لکڑی وغیرہ کو یا اپنی انگلی کو داخل کرے تو اگر عورت کو انزال ہو جائے تواس پر غسل فرض ہو گا اور اگر انزال نہ ہو تب بھی احتیاطا اس پر غسل کرنا فرض ہو گا۔

تیسرا سبب

            حیض سے پاک ہو جانا۔

چوتھا سبب

            نفاس سے پاک ہو جانا۔

               جن صورتوں میں غسل فرض نہیں

            مسئلہ  :  استحاضہ سے غسل فرض نہیں ہوتا۔

            مسئلہ  :  مذی اور ودی کے نکلنے سے غسل فرض نہیں ہوتا۔

            مسئلہ  :  اگر کوئی مرد سو اُٹھنے کے بعد اپنے خاص عضو پر تری دیکھے اور سونے سے پہلے اس کے خاص حصے کو انتشار ہو تواس پر غسل فرض نہ ہو گا اور وہ تری مذی سمجھی جائے گی بشرطیکہ احتلام یاد نہ ہو اور اس تری کے منی ہونے کا غالب گمان نہ ہو۔ اور اگر ران وغیرہ یا کپڑوں پر بھی تری ہو تو غسل واجب ہو گا۔

            مسئلہ  :  اگر کوئی شخص خواب میں اپنی منی گرتی ہوئی دیکھے اور منی گرنے کی لذت بھی اس کو محسوس ہو مگر کپڑوں پر تری یا کوئی اور اثر معلوم نہ ہو تو غسل فرض نہ ہو گا۔

            مسئلہ  :  منی اگر اپنی جگہ سے بغیر شہوت کے جدا ہو تو اگرچہ با ہر نکل آئے غسل فرض نہ ہو گا مثلاً کسی شخص نے کوئی بوجھ اُٹھایا یا وہ اونچی جگہ سے گر پڑا  یا کسی نے اس کو مارا اور اس صدمہ سے اس کی منی بغیر شہوت کے نکل آئی تو غسل فرض نہ ہو گا۔

            مسئلہ  :  اگر کسی مرد کو منی جاری رہنے کا مرض ہو تو اس منی کے نکلنے سے غسل فرض نہ ہو گا۔

            مسئلہ  :اگر کوئی مرد اپنا خاص حصہ کسی مرد یا عورت کی ناف میں داخل کر ے  اور منی نہ نکلے تو اس پر غسل فرض نہ ہو گا۔

            مسئلہ  :  اگر کوئی مرد اپنا خاص حصہ سر حشفہ سے کم مقدار میں داخل کرے تو غسل فرض نہ ہو گا۔

            مسئلہ  :  کوئی ایسی کم سن لڑکی ہو جو جماع کے قابل نہ ہو اور زبردستی کرنے سے اس کی آگے پیچھے کی راہیں ایک ہو جانے کا خوف ہو،اس کے ساتھ اگر کسی مرد نے جماع کیا تو چونکہ حقیقت میں حشفہ پورا داخل نہیں ہوا اور مرد کو انزال بھی نہ ہوا ہو تو مرد پر غسل فرض نہ ہو گا۔

            مسئلہ  :  حقنہ (enema )یعنی انیما کی نلی کے پاخانے کے مقام میں داخل ہونے سے غسل فرض نہیں ہوتا۔

               جن صورتوں میں غسل واجب ہے

            (١)  اگر کوئی کافر اسلام لائے اور حالت کفر میں اس کو حدث اکبر ہو ا ہو اور وہ نہ نہا یا ہو یا نہایا تو  ہو مگر فرائض پورے نہ کرنے کی وجہ سے وہ غسل شرعاً صحیح نہ ہوا ہو تو  اس پر اسلام لانے کے بعد نہانا واجب ہے۔

            (٢)  اگر کوئی شخص پندرہ برس کی عمر سے پہلے بالغ ہو جائے اور اس کو پہلی بار احتلام ہو تو اس پر احتیاطاً غسل واجب ہے اور اس کے بعد جو احتلام ہو یا پندرہ برس کی عمر کے بعد احتلام ہو تو اس پر غسل فرض ہے۔

               جن صورتوں میں غسل سنت (غیر موکدہ) ہے

            (١)  جمعہ کے دن نماز فجر کے بعد سے جمعہ تک ان لو گوں کو غسل کرنا سنت ہے جن پر نماز جمعہ واجب ہو۔

            (٢)  عیدین کے دن فجر کے بعد ان لو گو ں کو غسل کرنا سنت ہے جن پر عیدین کی نماز واجب ہے۔

            (٣)  حج یا عمرہ کے احرام کے لیے غسل کرنا سنت ہے۔

            (٤)  حج کرنے والے کو عرفہ کے دن زوال کے بعد غسل کرنا سنت ہے۔

               جن صورتوں میں غسل کرنا مستحب ہے

            (١)  اسلام لانے کے لیے غسل کرنا اگر حدث اکبر سے پاک ہو۔

            (٢)  کوئی مرد یا عورت پندرہ برس کی عمر کو پہنچے اور اس وقت تک کوئی علامت جوانی کی اس میں نہ پائی جائے تو اس کو غسل کرنا۔

            (٣)  مُردے کو نہلانے کے بعد نہلانے والوں کو غسل کرنا۔

            (٤)  پچھنے لگوانے کے بعد اور جنون اور مستی اور بے ہوشی دور ہو جانے کے بعد غسل کرنا۔

            (٥)   شب برات یعنی شعبان کی پندرھویں رات کو غسل کرنا۔

            (٦)  شب قدر کی رات میں اس شخص کو غسل کرنا مستحب ہے جس کو شب قدر معلوم ہوئی ہو۔

            (٧)  مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے لیے غسل کرنا۔

            (٨)  مزدلفہ میں ٹھہر نے کے لیے دسویں تاریخ کی صبح کو طلوع فجر کے بعد غسل کرنا۔

            (٩)  طواف زیارت کے لیے غسل کرنا۔

            (١٠)  کنکریاں پھینکنے کے لیے غسل کرنا۔

            (١١)  کسوف، خسوف اور استسقاء کی نمازوں کے لیے غسل کرنا۔

            (١٢)  خوف اور مصیبت کی نماز کے لیے غسل کرنا۔

            (١٣)  کسی گناہ سے توبہ کرنے کے لیے غسل کرنا۔

            (١٤)  سفر سے ا پنے وطن واپس پہنچ جانے کے بعد غسل کرنا۔

            (١٥)  مجلس عام میں جانے کے لیے اور نئے کپڑے پہننے کے لیے غسل کرنا۔

            (١٦)جس کو قتل کیا جانا ہو اس کو غسل کرنا مستحب ہے۔

               حدث اکبر کے احکام

            مسئلہ  :  جب کسی پرغسل فرض ہو اس کو مسجد میں داخل ہونا حرام ہے۔ ہاں اگر کوئی سخت ضرورت ہو تو جائز ہے مثلاً کسی کے گھر کا دروازہ مسجدمیں ہو اوردوسرا کوئی راستہ اس کے نکلنے کا اس کے علاوہ نہ ہو اور نہ وہاں کے علاوہ کسی دوسری جگہ رہ سکتا ہو تو اس کو تیمم کر کے مسجد میں جانا جائز ہے۔ یا کسی مسجدمیں پانی کا چشمہ یا کنواں یا حوض ہو اور اس کے علاوہ کہیں پانی نہ ہو تو اس کو تیمم کر کے مسجد میں جانا جائز ہے۔

            مسئلہ  :  اگر کسی کو مسجد میں احتلام ہو جائے تو وہ تیمم کر کے جلد باہر نکلے۔ یہ تیمم جائز ہے واجب نہیں اور اگر دشمن یا جانور کے خوف کی وجہ سے جلد نہ نکلے اور وہیں ٹھہرا رہے تو تیمم کر کے ٹھہرے۔یہ تیمم واجب ہو گا۔

            مسئلہ  :  جنازگاہ اور عیدگاہ اور مدرسہ اور خانقاہ وغیرہ میں جانا جائز ہے۔

            مسئلہ  :جنبی کے لیے ہاتھ بڑھا کر کوئی چیز مسجد سے لینا جائز ہے۔

            مسئلہ  : کسی پر غسل فرض ہو اور پردہ کی جگہ نہیں تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ مرد کو مردوں کے سامنے برہنہ ہو کر نہانا واجب ہے۔اسی طرح عورت کو عورتوں کے سامنے بھی نہانا واجب ہے اور مرد کو عورتوں کے سامنے اور عورت کو مردوں کے سامنے نہانا حرام ہے بلکہ تیمم کرے۔

            مسئلہ  :  جنبی اگر نماز کے وقت تک غسل میں تاخیر کرے تو وہ گناہگار نہیں ہوتا البتہ تاخیر کرنا خلاف اولی ہے۔

            مسئلہ  :  اگر جنبی شخص غسل یا وضو کیے بغیر سوئے یا اپنی بیوی سے دوبارہ جماع کرے تو جائز ہے لیکن وضو کر لینا بہتر ہے۔

            مسئلہ  :  جس پر نہانا واجب ہے اگر وہ نہانے سے پہلے کچھ کھانا پینا چاہے تو پہلے اپنے ہاتھ اور منہ دھو لے اور کلی کر لے تب کھائے پئے اور اگر بے ہاتھ منہ دھوئے کھا پی لے تب بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔

            مسئلہ  :  کوئی عورت جنبی ہوئی پھر اس کو حیض آ گیا تو اس کو اختیار ہے کہ جنابت کا غسل ابھی کر لے یا اس کو حیض سے پاک ہونے تک موخر کر دے اور حیض سے پاک ہونے پر ایک ہی غسل دونو ں کیسوں کے لیے کافی ہے۔

            مسئلہ  :  غسل کے لیے کم سے کم ایک صاع (ساڑھے تین سیر دو چھٹانک ) پانی اور وضو کے لیے ساڑھے چودہ چھٹانک پانی کافی ہوتا ہے۔ رسولﷺ   عام طور پر اتنی مقدار استعما ل فرماتے تھے۔

 

پانی کا بیان

               پانی کی دو قسمیں ہیں

            مطلق پانی  :  وہ ہے جس کو عرف عام میں صرف پانی کہا جاتا ہے۔

            مقید پانی  :  وہ ہوتا ہے کہ صرف پانی کہنے سے جس کی طرف ذہن سبقت نہیں کرتا۔ یہ دو طرح کا ہوتا ہے۔

            (١)   وہ پانی جو نسبت کے ساتھ بولا جاتا ہے مثلاً ناریل کا پانی اور تربوز کا پانی۔

            (٢)  وہ ما ئع جو عرف عام میں پانی نہیں سمجھا جاتا مثلاً شربت،سرکہ، رس وغیرہ۔

مطلق پانی

            مطلق پانی سے نجاست حکمی (یعنی حدث اصغر و حدث اکبر )اور نجاست حقیقی (یعنی ظاہری نجاست جو بدن کپڑے برتن وغیرہ کو لگی ہو)کو دور کیا جا سکتا ہے جبکہ مقید پانی سے نجاست حکمی دور نہیں ہوتی (یعنی اس سے وضو اور غسل درست نہیں ) البتہ اس سے نجاست حقیقی کو دور کیا جا سکتا ہے۔

 مطلق پانی کی پانچ قسمیں ہیں۔

(۱)  طاہر مطہر غیر مکروہ

             یہ  وہ مطلق پانی ہے جو خود پاک ہو اور بلا کراہت پاک کرنے والا ہو۔ اس سے وضو اور غسل وغیرہ کراہت کے بغیر درست ہے اور وہ یہ ہے بارش، دریا،ندی، نالہ، سمندر،چشمہ،کنویں وغیرہ کا پانی پگھلی ہوئی برف یا اولوں کا پانی۔

(۲)  طاہر مطہر مکروہ

            یہ  وہ مطلق پانی ہے جو خود پاک ہو مگر پہلی قسم کے پانی کے ہوتے ہوئے اس سے وضو اورغسل کرنا مکروہ تنزیہی ہے اور اگر وہ نہ ہو تو مکروہ نہیں۔یہ وہ پانی ہے جو دھوپ سے گرم ہو گیا ہو یا وہ قلیل پانی ہے جس میں آدمی کا تھوک یا ناک کی رینٹ مل گئی ہو۔

 (۳)  طاہر غیر مطہر

            یہ   وہ مطلق پانی ہے جو خود پاک ہے مگراس سے وضو یا غسل جائز نہیں اور یہ مستعمل پانی ہوتا ہے جو اُس پانی کو کہتے ہیں جس سے حدث ا صغر یا حدث اکبر کو دور کیا گیا ہو یا ثواب کی نیت سے بدن پر استعمال کیا گیا ہو (یعنی اس سے وضو پر وضو کیا گیا ہو)۔

(۴)   مشکوک

              یہ وہ مطلق پانی ہے جو خود پاک ہے مگر اس کا مطہر یا غیر مطہر ہونا یقینی نہیں جیسے وہ پانی جس میں سے گدھے یا خچر نے منہ ڈال کر پانی پیا ہو۔

(۵)  نجس

            یہ وہ مطلق پانی ہے جو خود ناپاک ہے۔ اس سے وضو و غسل جائز نہیں اور ناپاک چیزیں اس سے پاک نہیں ہوتیں۔

(1)    طاہر مطہر غیر مکروہ

            اس کی تین قسمیں ہیں  :

             (i)  جاری پانی   (ii)  ٹھہر ا ہوا پانی          (iii)  کنویں کا پانی

( i) جاری پانی

            یہ ا س چلتے  اور بہتے ہوئے پانی کو کہتے ہیں جو تنکے کو بہا کر لے جائے۔ اگر اس میں کوئی نجاست گر جائے تو جب تک اس نجاسست کا اثر پانی میں ظاہر نہ ہو یعنی اس کے مزہ یا رنگ یابو میں فرق نہ آئے اس وقت تک وہ پانی نجس نہیں ہو گا اور اگر ان میں سے ایک صفت بھی بدل گئی تو پانی نجس ہو گیا۔ جاری پانی مستعمل نہیں ہوتااس لیے  :

            (١)  اگر بہت سے لوگ نہر کے کنارے پر صف باندھ کر بیٹھیں اور وضو کریں تو ان کا وضو جائز ہے۔

            (ب)  کسی کے پاس ایک برتن میں کچھ پانی ہو اور وہ اس کو ٹین کی ایک طرف سے کچھ اُٹھی ہوئی چادر پر بہائے  اور بہتے ہوئے پانی میں وضو کرے کہ اعضا سے گرنے والامستعمل پانی اسی میں گرے اور یہ سب پانی پھر دوسری طرف سے ایک برتن میں جمع ہو جائے تو اس جمع کیے ہوئے پانی سے دوبارہ وضو کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ جاری پانی تھا۔

            مسئلہ  :  اگر پانی آہستہ آہستہ بہتا ہو تو بہت جلدی جلدی وضو نہ کرے تاکہ جو دھو ون گرتا ہے وہی ہاتھ میں نہ آ جائے۔

(ii)  ٹھہرا ہوا پانی

            یہ قلیل بھی ہو سکتا ہے اور کثیر بھی ہوسکتا ہے۔ضابطہ یہ ہے کہ قلیل (تھوڑے)پانی میں نجاست گر پڑے تو وہ نجس ہو جاتا ہے خواہ اس میں نجاست کا اثر یعنی رنگ بو، مزہ ظاہر ہویا نہ ہو۔ کثیر پانی کا و ہی حکم ہے جو جاری پانی کا ہوتا ہے یعنی اس کے ایک طرف نجاست پڑ جائے تو جب تک اس کا کوئی وصف نہ بدلے وہ پانی سب کا سب ناپاک نہیں ہو گا۔

            قلیل و کثیر  پانی میں امتیاز یہ ہے کہ ا گر استعمال کے وقت ایک طرف کا پانی ہل کر دوسری طرف تک چلا جائے تو وہ پانی قلیل ہے اور اگر دوسری طرف تک نہ جائے تو کثیر ہے اور اس میں اعتباراس شخص کی رائے کاہے جس کو ایسی حالت سے سابقہ پڑ جائے۔عام لوگوں کی آسانی کے لیے کہا جاتا ہے کہ کثیر پانی وہ ہے جو پچیس مربع گز کے رقبہ میں پھیلا ہوا ہو اوراس کی گہرائی کم از کم اتنی ہو کہ چلو سے پانی لینے میں اس کے نیچے کی زمین نہ نکلے۔ اگر ہم اس گہرائی کو دس سینٹی میٹر فرض کر لیں تو پانی کی مقدار دو ہزار پچیس لٹر بنتی ہے۔

            اگر گہرائی زیادہ ہو تو اس سے مذکورہ رقبہ کو کم نہیں کیا جائے گا۔مطلب یہ ہے کہ پانی کے حجم اور اس کی مقدار کا اعتبار نہیں ہے بلکہ پانی کی اوپر کھلی سطح کے رقبہ کا اعتبار ہے۔اگر کوئی تالاب جس کی لمبائی چوڑائی پانچ پانچ گز ہو اور وہ لبالب بھرا ہو اور تالاب پر ڈھکن ہو جو پانی کی سطح کے ساتھ ملا ہو ا ہو اور اس ڈھکن کا ایک سوراخ ہو جو دو فٹ لمبا اور دو فٹ چوڑا ہو تو کھلی سطح چونکہ صرف چار مربع فٹ ہے لہٰذا یہ قلیل پانی سمجھا جائے گا اگرچہ وہ تالاب بہت گہرا  ہُوا۔

قلیل پانی کے مسائل

            مسئلہ  :  جنگل میں کہیں تھوڑا پانی ملا تو جب تک اس کی نجاست کا یقین نہ ہو جائے تب تک اس سے وضو کرے فقط اس وہم پر وضو نہ چھوڑے کہ شاید یہ نجس ہو۔اگر اس کے ہوتے ہوئے تیمم کرے گا تو تیمم نہ ہو گا۔

            مسئلہ  :  اگر کوئی کافر یا بچہ اپنا ہاتھ پانی میں ڈال دے تو پانی نجس نہیں ہوتا۔البتہ اگر معلوم ہو جائے کہ اس کے ہاتھ میں نجاست لگی تھی تو ناپاک ہو جائے گا لیکن چونکہ چھوٹے بچوں کا کچھ اعتبار نہیں اس لیے جب تک کوئی اور پانی ملتا ہواس کے ہاتھ ڈالے ہوئے پانی سے وضو نہ کرنا بہتر ہے۔

            مسئلہ  :  جس پانی میں ایسی جاندار چیز مر جائے جس کے بہتا ہوا خون نہیں ہوتا یا باہر مر کر پانی میں گر پڑے تو پانی نجس نہیں ہوتا۔جیسے مچھر،مکھی،بھڑ،تتیا،بچھو، شہد کی مکھی یا اسی قسم کی اور جو چیز ہو۔

            مسئلہ  :  جس کی پیدائش پانی کی ہو اور ہر دم پانی ہی میں رہا کرتی ہو اس کے مر جانے سے پانی خراب نہیں ہوتا، پاک رہتا ہے جیسے مچھلی،مینڈک،کچھوا، کیکڑا وغیرہ۔

            مسئلہ  :  جو چیز پانی میں رہتی ہو لیکن اس کی پیدائش پانی کی نہ ہو تو اس کے مر جا نے سے پانی نجس و خراب ہو جاتا ہے جیسے بطخ اور مرغابی۔اسی طرح اگر الگ مر کر پانی میں گر پڑے تب بھی نجس ہو جاتا ہے۔

            مسئلہ  :  پاک کپڑا،برتن اور نیز دوسری پاک چیزیں جس پانی سے دھوئی جائیں اس سے وضو اور غسل درست ہے بشرطیکہ پانی کے تین وصفوں میں سے دو وصف باقی ہوں گو ایک وصف بدل گیا ہو اور اگر دو وصف بدل جائیں تو پھر درست نہیں۔

            مسئلہ  :  اگر چھوٹا حوض یا ٹنکی ناپاک ہو جائے پھر اس میں ایک ہی وقت میں ایک طرف سے پانی داخل ہو اور دوسری طرف سے باہر نکلے تو پانی جاری ہونے کی وجہ سے حوض اور ٹنکی وغیرہ پاک ہو جاتے ہیں اگرچہ ابھی بہت تھوڑا سا پانی نکلا ہو۔

کثیر پانی کے مسائل

            مسئلہ  :  بڑا بھاری حوض جو دس ہاتھ لمبا اور  دس ہاتھ چوڑا ہو اور اتنا گہرا ہو کہ اگرچلوسے پانی اُٹھائیں تو زمین نہ کھلے۔یہ بھی بہتے ہوئے پانی کے مثل ہے ایسے حوض کو”دہ دردہ” کہتے ہیں۔ اگر اس میں ایسی نجاست پڑ جائے جو پڑ جانے کے بعد دکھائی نہیں دیتی جیسے پیشاب،خون،شراب وغیرہ تو چاروں طرف وضو کرنا درست ہے،جدھر سے چاہے وضو کرے اور اگر ایسی سنجاست پڑ جائے جو دکھلائی دیتی ہے جیسے مردہ کتا تو جدھر پڑی ہوا س طرف وضو نہ کرے اس کے سوا جس طرف چاہے کر لے۔البتہ اتنے بڑے حوض میں اتنی نجاست پڑ جائے کہ رنگ یا مزہ بدل جائے تو نجس ہو جائے گا۔

            مسئلہ  :   اگر بیس ہاتھ لمبا اور پانچ ہاتھ چوڑا  یا پچیس ہاتھ لمبا اور چار ہا تھ چوڑاہو تو وہ حوض بھی ”دہ دردہ”کے مثل ہے۔

            مسئلہ  :  دہ دردہ حوض میں جہاں پر دھوون گرا ہے اگر وہیں سے پھر پانی اٹھا لے تو یہ بھی جائز ہے۔

(iii)  کنویں کا پانی

            مسئلہ  :  جب کنویں میں کچھ نجاست گر پڑے تو کنواں ناپاک ہو جاتا ہے اور  پانی کھینچ ڈالنے سے پاک ہو جاتا ہے چاہے تھوڑی نجا ست گرے یا بہت،سارا پانی نکالنا چاہیے۔جب سارا پانی نکل جائے تو پاک ہو جائے گا۔ کنویں کے اندر کنکر دیوار وغیرہ کے دھونے کی ضرورت نہیں وہ سب آپ ہی آپ پا ک ہو جائیں گیااسی طرح رسی ڈول جس سے پانی نکالا ہے کنویں کے پاک ہونے سے آپ ہی آپ پاک ہو جائے گا۔  ان دونوں کے بھی دھونے کی ضرورت نہیں۔

            تنبیہ:   سب پانی نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ اتنا نکالیں کہ پانی ٹوٹ جائے اور آدھا ڈول بھی نہ بھرے۔

            مسئلہ  :  اگر کنویں میں اونٹ یا بکری کی ایک دو مینگنیاں گر جائیں اور وہ ثابت نکل آئیں تو کنواں ناپاک نہیں ہوتا خواہ وہ کنواں جنگل کا ہو یا بستی کا اور خواہ من ہو یا نہ ہو۔

            مسئلہ  :  کنویں میں کبوتر یا چڑیا کی بیٹ گر پڑی تو نجس نہیں ہوا اور مرغی اور بطخ کی بیٹ سے نجس ہو جاتا ہے اور سارا پانی نکالنا واجب ہے۔

            مسئلہ  :  کتا، بلی،گائے، بکری، پیشا ب کر دے یا اور کوئی نجاست گرے تو سب پانی نکالنا چاہیے۔

            مسئلہ  :  اگر آدمی،کتا یا بکری یا اسی کے برابر کوئی اور جانور گر کے مر جائے اور پھولے پھٹے نہیں تب تو سارا پانی  نکالا جائے اور اگر باہر مرے پھر کنویں میں گرے تب بھی یہی حکم ہے۔

            مسئلہ  :  اگر کوئی جاندار چیز کنویں میں مر جائے اور پھول جائے یا پھٹ جائے تب بھی سب پانی نکالا جائے چاہے چھوٹا جانور ہو چاہے بڑا۔

            مسئلہ  :  اگر چوہا،چڑیا یا اسی کے برابر کوئی چیز گر کر مر گئی لیکن پھولی پھٹی نہیں تو بیس ڈول نکالنا واجب ہے اور تیس ڈول نکال ڈالیں تو بہتر ہے لیکن پہلے چوہا نکال لیں تب پانی نکالنا شروع کریں۔اگر چوہا نہ نکالا تو اس پانی نکالنے کا کچھ اعتبار نہیں۔ چوہا نکالنے کے بعد پھر اتنا ہی پانی نکالنا پڑے گا۔

            مسئلہ  :   بڑی چھپکلی جس میں بہتا ہوا خون ہو تا ہو ا س کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر گر کر مر جائے اور پھولے پھٹے نہیں تو بیس ڈول نکالیں اور تیس ڈول نکالنا بہتر ہے اور جس میں بہتا ہوا خون نہ ہو تا ہو اس کے مرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔

            مسئلہ  :  اگر کبوتر یا مرغی یا بلی یا اس کے برابر کوئی جانور گر کر مر جائے اور پھولے پھٹے نہیں تو چالیس ڈول نکالنا واجب ہے اور ساٹھ ڈول نکال دینا بہتر ہے۔

            مسئلہ  :  جس کنویں پر جو ڈول پڑا رہتا ہے اسی کے حساب سے نکالنا چاہیے۔ اور اگر اتنے بڑے ڈول سے نکالا جس میں بہت پانی سماتا ہے تو اس کا حساب لگا لینا چاہیے۔ اگراس میں کنویں والے دو ڈول پانی سماتا ہے تو دو ڈول سمجھیں اور اگر چار ڈول سماتا ہے تو چار ڈول سمجھنا چاہیے۔

            مسئلہ  :  اگر کنویں میں اتنا بڑا سوت ہے کہ سب پانی نہیں نکل سکتا جیسے جیسے پانی نکالتے ہیں و یسے ویسے ا س میں سے اور پانی نکلتا آتا ہے تو جتنا پانی اس میں اس وقت موجود ہے اندازہ کر کے اسی قدر نکال ڈالیں۔

            پانی کے اندازہ کر نے کی کئی صورتیں ہیں۔ایک یہ کہ مثلاً پانچ ہاتھ پانی ہے تو ایک دم لگاتارسو ڈول پانی نکال کر دیکھو کہ کتنا پانی کم ہوا اگر ایک ہاتھ کم ہواہوتواس حساب سے پانچ سو ڈول پانی ہوا۔دوسرے یہ کہ جن لوگوں کو پانی کی پہچان ہو اور اس کا اندازہ آتا ہو ایسے دو دیندار مسلمانوں سے اندازہ کرالو جتنا وہ کہیں نکلوا دو اور جہاں یہ دونوں باتیں مشکل معلوم ہوں تو تین سو ڈول نکلوا دیں۔

            مسئلہ  :  کنویں میں مرا ہوا چوہا یا کوئی اور جانور نکلا اور یہ معلوم نہیں کب سے گرا ہے اور وہ ابھی پھولا پھٹا بھی نہیں ہے تو جن لوگوں نے اس کنویں سے وضو کیا ہے وہ ایک دن ایک رات کی نمازیں دہرائیں اور اس پانی سے جو کپڑے دھوئے ہیں ان کو بھی دھونا چاہیے اور اگر پھول گیا ہے یا پھٹ گیا ہے تو تین دن تین را ت کی نمازیں دہرانا چاہئیں۔اور بعضے عالموں نے یہ کہا ہے کہ جس وقت کنویں کا ناپاک ہونا معلوم ہوا ہے اسی وقت سے ناپاک سمجھیں گے اس سے پہلے کی نماز وضو سب درست ہے اگر کوئی اس پر عمل کرے تب بھی درست ہے۔

            مسئلہ  :  جس کو نہانے کی ضرورت ہے وہ ڈول ڈھونڈنے کے واسطے کنویں میں اُتر ا اور اس کے بدن اور کپڑے پر نجا ست کی آلودگی نہیں ہے تو کنو ا ں ناپاک نہ ہو گا ایسے ہی اگر کافر اُترے اور اس کے کپڑے اور بدن پر نجاست نہ ہو تب بھی کنو ا ں پاک ہے البتہ اگر نجاست لگی ہو تو ناپاک ہو جائے گا اور سب پانی نکالنا پڑے گا اور اگر شک ہو کہ معلوم  نہیں کہ کپڑا پاک ہے یا ناپاک تب بھی کنو ا ں پاک سمجھا جائے گا لیکن اگر دل کی تسلی کے لیے بیس یا تیس ڈول نکلوا دیں تب بھی کچھ حرج نہیں۔

            مسئلہ  :  کنویں میں بکری یا چوہا گر گیا اور زندہ نکل آیا تو پانی پاک ہے۔

            مسئلہ  :  چوہے کو بلی نے پکڑا اور اس کے دانت لگنے سے زخمی ہو گیا پھر اس سے چھوٹ کر اسی طرح خون میں بھرا ہوا کنویں میں گر پڑا تو سارا پانی نکالا جائے۔

            مسئلہ  :  چوہا گندی نالی میں سے نکل کر بھاگا اور اس کے بدن میں نجاست بھر گئی پھر کنویں میں گر پڑا تو سب پانی نکالا جائے چاہے چوہا کنویں میں مر جائے یا زندہ نکلے۔

            مسئلہ  :  جس چیز کے گرنے سے کنواں ناپاک ہوا ہے اگر وہ چیز باوجود کوشش کے نہ نکل سکے تو دیکھنا چاہیے کہ وہ  چیز کیسی ہے اگر وہ چیز ایسی ہے کہ خود تو پاک ہوتی ہے لیکن ناپاکی لگنے سے ناپاک ہو گئی ہے جیسے ناپاک کپڑا،ناپاک گیند، ناپاک جوتہ، تب تو اس کا نکالنا معاف ہے ویسے ہی پانی نکال ڈالیں اور اگر وہ چیز ایسی ہے کہ خود ناپاک ہے جیسے مردہ جانور،چوہا وغیرہ تو جب تک یہ یقین نہ ہو جائے کہ یہ گل سڑ کر مٹی ہو گیا ہے تو اس وقت تک کنواں پاک نہیں ہو سکتا اور جب یہ یقین ہو جائے اس وقت ساراپانی نکال دیں کنواں پاک ہو جائے گا۔

            مسئلہ  :  جتنا پانی کنویں میں سے نکالنا ضروری ہو چاہے ایک دم سے نکالیں چاہے تھوڑا تھوڑا کر کے کئی دفعہ نکالیں،ہر طرح سے کنواں پاک ہو جائے گا۔

            مسئلہ  :  کسی کنویں وغیرہ میں درخت کے پتے گر پڑے اور پانی میں بدبو آنے لگی اور رنگ اور مزہ بھی بدل گیا تو بھی اس سے وضو درست ہے جب تک کہ پانی اسی طرح پتلا باقی رہے۔

(٢)  طاہر مطہر مکروہ پانی

            مسئلہ  :  دھوپ میں گرم ہوئے پانی سے سفید داغ ہو جانے کا ڈر ہے اس لیے اس سے وضو اور غسل نہیں کرنا چاہیے۔

            مسئلہ  :  زمزم کا پانی اگرچہ خود تو مکروہ نہیں لیکن اس سے بے وضو کو وضو نہ کرنا چاہیے اور اسی طرح وہ شخص جس کو نہانے کی ضرورت ہو اس سے غسل نہ کرے اور اس سے ناپاک چیزوں کا دھونا اور استنجا کرنا مکروہ ہے ہاں اگر مجبوری ہو اور ضروری طہارت کسی اور طرح سے حاصل نہ ہو سکتی ہو تو یہ سب باتیں زمزم کے پانی سے جائز ہیں۔

            مسئلہ  :  عورت کے وضو اور غسل کے بچے ہوئے پانی سے مرد کو وضو اور غسل نہ کرنا چاہیے بہتر یہی ہے کیونکہ عام طورسے عورتوں میں طہارت اور نفاست کا خیال کم ہوتا ہے اور برتن میں استعمال شدہ پانی کی چھینٹیں پڑنے میں لاپرواہی کرتی ہیں۔

            مسئلہ  :  بلی اور آزاد پھرتی مرغی کا جھوٹا پانی بھی مکروہ ہے۔

(0)    طاہر غیر مطہر پانی

            یہ مستعمل پانی ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

پانی کے مستعمل ہونے کا سبب

            (١)  اس سے حدث اصغر یا حدث اکبر کو دور کیا گیا ہو یعنی طہارت نہ ہونے کی صورت میں اس سے وضو یا غسل کیا گیا ہو خواہ وضو و غسل کا قصد ہو یا نہ ہو۔

            (٢)  ثواب کی نیت سے بدن پر استعمال کیا گیا ہو یعنی طہارت اور وضو ہونے کے باوجود محض ثواب کی نیت سے دوبارہ وضو کیا گیا ہو۔

پانی مستعمل کب بنتا ہے

            جب پانی عضو سے جدا ہوتا ہے تو مستعمل ہو جاتا ہے مثلاً وضو میں پانی سے چہرہ کو دھویا تو چہرہ سے جب پانی جدا ہو گا وہ مستعمل ہو گا۔

مستعمل پانی کی صفت

            یہ پاک ہوتا ہے۔

مستعمل پانی کا حکم

            اس سے وضو اور غسل کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ غیر مطہر ہے لیکن اس سے نجاست حقیقی کو دور کیا جا سکتا ہے۔

            مسئلہ  : چار پانچ سال کا ایسا لڑکا جو وضو کو نہیں سمجھتا وہ اگر وضو کرے یا دیوانہ وضو کرے تو وہ پانی مستعمل نہیں۔

            مسئلہ  :  مستعمل پانی کا پینا اور کھانے کی چیزوں میں استعمال کرنا مکروہ ہے۔

            مسئلہ  :  مستعمل پانی اگر دوسرے طاہر مطہر پانی میں مل جائے تو جب تک مستعمل پانی دوسرے پانی سے زیادہ نہ ہو جائے دوسرے پانی کا حکم غالب رہے گا اور اس ملے جلے پانی سے وضو اور غسل کرنا درست ہے۔

(٤)  مشکوک پانی

            پالتو گدھے اور خچر کا جھوٹا پانی مشکوک ہوتا ہے۔ وہ خود تو پاک ہوتا ہے۔ لیکن شک اس میں ہے کہ وہ پاک کرنے والا ہے یا نہیں۔ اگر مشکوک کے علاوہ اور پاک یا مکروہ پانی نہ ملے تو اس سے وضو کرے اور تیمم بھی کرے۔ان دونوں کو جمع کرنا واجب ہے اس لیے ان میں سے کسی ایک پر اکتفا کرنا جائز نہیں۔ویسے تو وضو اور تیمم میں سے جس کو بھی پہلے کرے وہ جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ پہلے وضو یا غسل کرے پھر تیمم کرے۔

مقید پانی

            مقید پانی وہ ہوتا ہے کہ صرف کہنے سے جس کی طرف ذہن جلدی منتقل نہیں ہوتا اور یہ وہ پانی اور مائع ہے جو  درختوں اور پھلوں اور نباتات (سبزی پتے وغیرہ)سے نچوڑ کر نکالا جائے یا ان سے ٹپک کر نکلے یا گلاب کا پانی وغیرہ اور اسی طرح جب مطلق پانی میں کوئی پاک چیز مل جائے اور اس کے کسی وصف یعنی ذائقہ یا رنگ یا بو کو بدل دے یا اس میں کوئی پاک چیز اس طرح سے مل جائے کہ وہ پانی اس چیز سے مغلوب ہو جائے اور پانی کا نام اس سے زائل ہو جائے تو یہ مقید پانی کے معنی میں ہو جاتا ہے۔

            مسئلہ  :  جس پانی میں کوئی اور چیز مل گئی ہویا پانی میں کوئی چیز پکائی گئی اور ایسا ہو گیا کہ اب بول چال میں اس کو پانی نہیں کہتے بلکہ اس کا کچھ اور نام ہو گیا تو اس سے وضو اور غسل جائز نہیں جیسے شربت، شیرہ،شوربا،سرکہ اور  عرق گاؤ زبان   وغیرہ کہ ان سے وضو درست نہیں ہے۔

            مسئلہ  :  جس پانی میں کوئی پاک چیز پڑ گئی اور پانی کے رنگ یا مزے یا بو میں فرق آ گیا لیکن وہ چیز پانی میں پکائی نہیں گئی،نہ پانی کے پتلے ہونے میں کچھ فر ق آیاجیسے کہ بہتے ہوئے پانی میں کچھ ریت ملی ہوتی ہے یا پانی میں زعفران پڑ گیا اور اس کا بہت خفیف سا رنگ آ گیا یا صابن پڑ گیا یا اسی طرح کی کوئی اور چیز پڑ گئی تو ان سب صورتوں میں وضواورغسل درست ہے۔

            مسئلہ  :  اگر کوئی چیز پانی میں ڈال کر پکائی گئی اس سے رنگ یا مزہ وغیرہ بدلا تو ا س پانی سے وضودرست نہیں،البتہ اگر ایسی چیز پکائی گئی جس سے میل کچیل خوب صاف ہو جاتا ہے اور اس کے پکانے سے پانی گاڑھا نہ ہوا ہو تو اس سے وضو درست ہے جیسے مردے کو نہلانے کے لیے بیری کی پتیاں پکاتے ہیں تو اس میں کچھ حرج نہیں البتہ اگر اتنی زیادہ ڈال دیں کہ پانی گاڑھا ہو گیا تو اس سے وضو اور غسل درست نہیں۔

            مسئلہ  :  کپڑا  رنگنے کے لیے زعفران گھولی یا رنگ گھولا تو اس پانی سے وضو درست نہیں۔

            مسئلہ  :  اگر پانی میں دودھ مل گیا تو اگر دودھ کا رنگ پانی میں اچھی طرح آ گیا ہے تو وضو درست نہیں اور اگر دودھ بہت کم تھا کہ رنگ نہیں آیا تو وضو درست ہے۔

               جانوروں کے جھوٹے کا بیان

            مسئلہ  :  آدمی کا جھوٹا پاک ہے چاہے بے دین ہو یا نا پاک ہویا عورت حیض سے ہو یانفاس میں ہو،ہر حال میں پاک ہے۔ اسی طرح پسینہ بھی ان سب کا پاک ہے۔البتہ اگر اس کے منہ میں کوئی ناپاکی لگی ہو تو اس سے وہ جھوٹا ناپاک ہو گا۔

            مسئلہ  :  حلال جانور جیسے مینڈھا،بکری،بھیڑ،گائے،بھینس،ہرن وغیرہ اور حلال پرندے جیسے مینا، طوطا،فاختہ، گوریا ان سب کا جھوٹا پاک ہے اسی طرح گھوڑے کا جھوٹا بھی پاک ہے۔

            مسئلہ  :  کتے کا جھوٹا نجس ہے اگر کسی برتن میں منہ ڈال دے تو تین مرتبہ دھونے سے پاک ہو جائے گا چاہے مٹی کا برتن ہو چاہے تانبہ وغیرہ کا لیکن بہتر یہ ہے کہ سات مرتبہ دھوئے اور  ایک مرتبہ مٹی لگا کر مانجھ بھی ڈالے تاکہ خوب صاف ہو جائے۔

            مسئلہ  :  سُور کا جھوٹا بھی نجس ہے۔ اسی طرح شیر، بھیڑیا،بندر،گیدڑ وغیرہ جتنے چیر پھاڑ کر کھانے والے جانور ہیں سب کا جھوٹا نجس ہے۔

            مسئلہ  :  دودھ سالن وغیرہ میں بلی نے منہ ڈال دیا تو اگر اللہ نے سب کچھ دیا ہو تواسے نہ کھائے اور اگر غریب آدمی ہو تو کھا لے پھر اس میں کچھ حرج اور گناہ نہیں بلکہ ایسے شخص کے واسطے مکروہ بھی نہیں ہے۔

            مسئلہ  :  بلی نے چوہا کھایا اور فوراً آ کر برتن میں منہ ڈال دیا تو وہ نجس ہو جائے گا اور جو تھوڑی دیر ٹھہر کر منہ ڈالے کہ اپنا منہ زبان سے چاٹ چکی ہو تو نجس نہ ہو گا بلکہ مکروہ ہی رہے گا۔

            مسئلہ  :  کھلی ہوئی مرغی جو ادھر ادھر گندی چیزیں اور پلیدی کھاتی پھرتی ہے اس کا جھوٹا مکروہ ہے اور جو مرغی بند رہتی ہو اس کا جھوٹا مکروہ نہیں بلکہ پاک ہے۔

            مسئلہ  :  شکار کرنے والے پرند ے جیسے شکرہ،باز،وغیرہ کا جھوٹا بھی مکروہ ہے لیکن جو پالتو ہو اور مردار نہ کھائے نہ اس کی چونچ میں نجاست کا شبہہ ہو اس کا جھوٹا پاک ہے۔

            مسئلہ  :  جو چیزیں گھروں میں رہا کرتی ہیں جیسے سانپ، بچھو، چوہا، چھپکلی وغیرہ ان سب کا جھوٹا مکروہ ہے۔

            مسئلہ  :  اگر چوہا روٹی کتر کر کھا لے تو بہتر ہے کہ اس جگہ سے ذرا سی توڑ ڈالے تب کھائے۔

            مسئلہ  :  گدھے اور خچر کا جھوٹا پاک تو ہے لیکن وضو ہونے میں شک ہے۔ سو اگر کہیں فقط گدھے، خچر کا جھوٹا پانی ملے اور اس کے سوا اور پانی نہ ملے تو وضو بھی کرے اور تیمم بھی کرے۔

            مسئلہ  :  جن جانوروں کا جھوٹا نجس ہے ان کا پسینہ بھی نجس ہے اور جن کا جھوٹا پاک ہے ان کا پسینہ بھی پاک ہے اور جن کا جھوٹا مکروہ ہے ان کا پسینہ بھی مکروہ ہے اور گدھے و خچر کا پسینہ پاک ہے کپڑے اور بدن پر لگ جائے تو دھونا واجب نہیں ہے لیکن دھو ڈالنا بہتر ہے۔

            مسئلہ  :  کسی نے بلی پالی وہ پاس آ کر بیٹھی ہے اور ہاتھ وغیرہ چاٹتی ہے تو جہاں چاٹے یا اس کا لعاب لگے تو اس کو دھو ڈالنا چاہیے اگر نہ دھو یا اور یوں ہی رہنے دیا تو مکروہ اور بُرا کیا۔

            مسئلہ  :  غیر مرد کا جھوٹا کھانا اور پانی عورت کے لیے مکروہ ہے جب کہ جانتی ہو کہ یہ اس کا جھوٹا ہے اور اگر معلوم نہ ہو تو مکروہ نہیں۔ اسی طرح غیر عورت کا جھوٹا کھانا اور پانی مرد کے لیے بھی مکروہ ہے۔

               پانی کے استعمال کے احکام

            ایسے ناپاک پانی کا استعمال جس کے تینوں وصف یعنی مزہ،بو اور رنگ نجاست کی وجہ سے بدل گئے ہوں کسی طرح بھی درست نہیں،نہ جانوروں کو پلانا درست ہے نہ مٹی وغیرہ میں ڈال کر گارا بنانا جائز ہے اور اگر تینوں وصف نہیں بدلے تواس کا جانوروں کو پلانا اور مٹی میں ڈال کر گارا بنانا اور مکان میں چھڑکاؤ کرنا جائز ہے مگر ایسے گارے سے مسجد نہ لیپے۔

             مسئلہ  :  دریا، ندی اور وہ تالاب جو کسی کی زمین میں نہ ہو اور وہ جس کو بنانے والے نے وقف کر دیا ہو تو اس تمام پانی سے عام لوگ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی کو اس کے استعما ل سے منع کرے یا اس کے استعمال میں ایسا طریقہ اختیار کرے جس سے عام لوگوں کو نقصان ہو جیسے کوئی شخص دریا یا تالاب سے نہر کھود کر لائے اور اس سے وہ دریا یا تالاب خشک ہو جائے یا کسی گاؤں یا زمین کے غرق ہونے کا اندیشہ ہو تو استعمال کا یہ طریقہ درست نہیں اور  ہر شخص کو اختیار ہے کہ اس نا جائز طریقہ استعمال سے منع کر دے۔

            مسئلہ  :  کسی شخص کی مملوک زمین میں کنواں یا چشمہ یا حوض یا نہر ہو تو دوسرے لوگوں کو پانی پینے یا جانوروں کو پانی پلانے یا وضو،غسل اور کپڑے دھونے کے لیے پانی لینے سے یا گھڑے بھر کر اپنے درخت یا کیاری میں پانی دینے سے منع نہیں کرسکتا کیونکہ پانی میں سب کا حق ہے البتہ اگر جانوروں کی کثرت کی وجہ سے پانی ختم ہونے کا یا نہر وغیرہ کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو روکنے کا اختیار ہے۔

            اور  اگر اپنی زمین میں آنے سے روکنا چاہے تو دیکھا جائے گا کہ پانی لینے والے کا کام دوسری جگہ سے چل سکتا ہے (مثلاً کوئی دوسرا کنواں وغیرہ ایک شرعی میل یعنی دو ہزار گز سے کم فاصلہ پر موجود ہے اور وہ کسی کی مملوک زمین میں بھی نہیں ہے )یا ا س کا کام بند ہو جائے گا اور تکلیف ہو گی۔اگر اس کا کام دوسری جگہ سے ہوسکے تو خیر ورنہ اس کنویں والے سے کہا جائے گا کہ یا تو اس شخص کو اپنے کنویں یا نہر وغیرہ پر آنے کی اس شرط سے اجازت دو کہ نہر وغیرہ کو نہیں توڑے گا ورنہ ا س کو جس قدر پانی کی ضرورت ہے تم خود نکال کر یا نکلوا کر اس کے حوالہ کر دو البتہ پانی لینے والے کو یہ جائز نہیں کہ وہ نہر یا کنویں والے کی اجازت کے بغیر اپنے کھیت یا باغ کو پانی دے۔

            مسئلہ  :  اگر ایک شخص دوسرے کے کنویں یا نہر سے کھیت کو پانی دینا چاہے اور وہ کنویں یا نہر والا اس سے کچھ قیمت لے تو مشائخ بلخ نے اس کے جواز کا  فتویٰ دیا ہے۔

            مسئلہ  :  دریا، تالاب اور کنویں وغیرہ سے جو شخص اپنے کسی برتن میں مثل گھڑے مشک وغیرہ کے پانی بھر لے تو اس پانی کا مالک ہو جائے گا۔ اس پانی سے بغیر اس شخص کی اجازت کے کسی کو استعمال کرنا درست نہیں۔

            مسئلہ  :  لوگوں کے پینے کے لیے جو پانی رکھا ہو جیسے گرمیوں میں راستوں پر پانی رکھ دیتے ہیں اس سے وضو وغسل درست نہیں ہاں اگر زیادہ ہو تو مضائقہ نہیں اور جو پانی وضو کے واسطے رکھا ہو اس میں سے پینا درست ہے۔

 

تیمم کا بیان

            پاک مٹی یا کسی ایسی چیز سے جو مٹی کے حکم میں ہو بدن کو نجاست حکمیہ سے پاک کرنے کو تیمم کہتے ہیں۔

تیمم کے صحیح ہونے کی شرطیں یہ ہیں  :

            (١)  تیمم یا طہارت کی نیت کا ہونا۔

            (٢)  پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہونا۔

            (٣)  پاک مٹی یا جو چیز زمین کی جنس ہے اس پر تیمم کرنا۔

            (٤)  مسح کرنے میں بال برابر جگہ نہ چھوڑنا۔

            (٥)کم از کم تین انگلیوں سے مسح کرنا۔

            (٦)  پانی کے قریب ہونے کے گمان پر پانی طلب کرنا۔

            (٧)  آدمی کا مسلمان ہونا۔

               شرائط سے متعلق مسائل

 (١)  نیت کا ہونا

            مسئلہ  :  تیمم کے لیے تیمم کا ارادہ ہونا ضروری ہے۔ تیمم کرتے وقت اپنے دل میں بس اتنا ارادہ کر لے کہ میں پاک ہونے کے لیے تیمم کرتا ہوں یا نماز پڑھنے کے لیے تیمم کرتا ہوں تو تیمم ہو جائے گا۔

            مسئلہ  :  اگر دوسرے کو سکھانے کے لیے تیمم کر کے دکھایا لیکن دل میں اپنے تیمم کرنے کی نیت نہیں بلکہ فقط دوسرے کو سکھانا مقصود ہے تو اس کا تیمم نہ ہو گا کیونکہ تیمم درست ہونے میں تیمم کا ارادہ ہونا ضروری ہے۔

            مسئلہ  :  اگر ایک نماز کے لیے تیمم کیا دوسرے وقت کی نماز بھی اس سے پڑھنا درست ہے اور قرآن مجید کا چھونا بھی اس تیمم سے درست ہے۔

            تیمم کے ساتھ نماز کے جائز ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ تیمم ایسی عبادت کی نیت سے کیا ہو جو اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ابتدا ء خود مشروع ہو کسی دوسری عبادت کے تابع ہو کر اس کی مشروعیت نہ ہو۔لہٰذا اگر نماز جنازہ یا سجدہ تلاوت کی نیت سے تیمم کیا تو اس سے عام نماز جائز ہے اور اگر قرآن مجید کو چھونے کے لیے یا مسجد میں داخل ہونے کی نیت سے تیمم کیا ہو تو اس سے عام نماز نہیں پڑھ سکتے۔

            البتہ اگر پانی موجود ہو لیکن نماز جنازہ کے فوت ہو جانے کی وجہ سے تیمم کیا ہو تو عام نماز پڑھنے کے لیے وضو ضروری ہو گا۔

 (٢)پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہونا

            اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں۔

 (الف) پانی کا بالکل علم نہ ہونا یا دو ر ہونا

            مسئلہ  :  اگر کوئی جنگل میں ہے اور بالکل معلوم نہیں کہ پانی کہاں ہے نہ وہاں کوئی آدمی ایسا ہے جس سے   دریافت کرے تو ایسے وقت میں تیمم کر لے اور اگر کوئی آدمی مل گیا اور اس نے ایک میل شرعی کے اندر اندر پانی کا پتہ بتایا اور گمان غالب ہے کہ یہ سچا ہے یا آدمی تو نہیں ملا لیکن کسی نشانی سے خود اس کا جی کہتا ہے کہ یہاں ایک میل شرعی کے اندر اندر کہیں پانی ضرور ہے تو پانی کا اس قدر تلاش کرنا کہ اس کو اور اس کے ساتھیوں کو انتظار کرنے وغیرہ کسی قسم کی تکلیف اور حرج نہ ہو تو ضروری ہے اور بے ڈھونڈھے تیمم کرنادرست نہیں ہے۔

            اور اگر خوب یقین ہے کہ پانی ایک میل شرعی کے اندر ہے تو پانی لانا واجب ہے۔ ایک شرعی میل دو ہزار انگریزی گز یا ٨.١ کلو میٹر کے برابر ہوتا ہے۔

            مسئلہ  :  اگر پانی کا پتہ چل گیا لیکن پانی ایک میل سے دور ہے تو اتنی دور جا کر پانی لانا واجب نہیں ہے بلکہ تیمم کر لینا درست ہے۔

            مسئلہ  :  اگر کوئی آبادی سے ایک میل کے فاصلہ پر ہو اور ایک میل سے قریب کہیں پانی نہ ملے تو بھی تیمم کر لینا درست ہے چاہے مسافرہو یا مسافر نہ ہو تھوڑی دور جانے کے لیے نکلا ہو۔

            مسئلہ  :  اگر کہیں پانی مل گیا لیکن بہت تھوڑا ہے تو اگر اتنا ہو کہ ایک ایک دفعہ منہ اور دونوں ہاتھ اور دونوں پیر دھو سکے تو تیمم کرنا درست نہیں بلکہ ایک ایک دفعہ ان چیزوں کو دھو لے اور سر کا مسح کر لے اور وضو کی سنتوں کو چھوڑ دے اور اگر اتنا بھی نہ ہو تو تیمم کر لے۔

            مسئلہ  :  سامان کے ساتھ پانی بندھا تھا لیکن یاد نہ رہا اور تیمم کر کے نماز پڑھ لی پھر یاد آیا تو اب نماز کا دہرانا واجب نہیں۔

            مسئلہ  :  اگر پانی ایک میل شرعی سے دور نہیں لیکن وقت بہت تنگ ہے کہ اگر پانی لینے جائے گا تو نماز کا وقت جاتا رہے گا تب بھی تیمم درست نہیں ہے پانی لا کر وضو کرے اور قضا پڑھے۔

            مسئلہ  :  اگر پانی قریب ہے یعنی ایک میل شرعی سے کم دور ہے تو تیمم کرنا درست نہیں جا کر پانی لانا اور وضو کرنا واجب ہے خواہ وہ عورت ہی ہو لیکن اگر اس جگہ جانے میں جان و مال یا عزت و عصمت کا خوف ہو تو پھر تیمم کرنا جائز ہے۔

            عورت کا محض مردوں سے شرم کی وجہ سے یا پردہ کی وجہ سے پانی لینے کو نہ جانا اور تیمم کر لینا درست نہیں۔ایسا پردہ جس میں شریعت کا کوئی حکم چھوٹ جائے ناجائز اور حرام ہے۔برقع اوڑھ کر یا سارے بدن سے چادر لپیٹ کر جانا واجب ہے البتہ لوگوں کے سامنے بیٹھ کر وضو نہ کرے اور ان کے سامنے ہاتھ منہ نہ کھولے۔

            مسئلہ  :  اگر کسی میدان میں تیمم کر کے نماز پڑھ لی اور پانی وہاں سے قریب ہی تھا لیکن اس کو خبر نہ تھی تو تیمم اور نماز دونوں درست ہیں جب معلوم ہو تو دہرانا ضروری نہیں۔

 (ب)  پیاس کا خوف

            مسئلہ  :  کسی کے پاس پانی تو ہے لیکن راستہ ایسا خراب ہے کہ کہیں پانی نہیں مل سکتا اس لیے راہ میں پیاس کے مارے تکلیف یا ہلاکت کا خوف ہے تو وضو نہ کرے تیمم کر لینا درست ہے۔

 (ج)  درندے یا دشمن کا خوف

            اگر پانی قریب ہے لیکن سانپ وغیرہ کوئی جانور پانی کے پاس ہے جس کی وجہ سے پانی نہیں مل سکتا تو تیمم درست ہے۔

            مسئلہ  :  ڈر ہے کہ اگر ریل پر سے اترے گا تو ریل چل دے گی اور  ریل میں پانی موجود نہیں تب بھی تیمم درست ہے۔

(د)  بیمار ہو جانے یا مرض بڑھ جانے کا خوف

            مسئلہ  :  اگر بیمار ی کی وجہ سے پانی نقصان کرتا ہو کہ اگر وضو یا غسل کرے گا تو بیماری بڑھ جائے گی یا دیر میں اچھا ہو گا تب بھی تیمم درست ہے لیکن اگر ٹھنڈا پانی نقصان کرتا ہو اور گرم پانی نقصان نہ کرے تو گرم پانی سے وضو غسل کرنا واجب ہے۔البتہ اگر ایسی جگہ ہے کہ گرم پانی نہیں مل سکتا تو تیمم کرنا درست ہے۔

            مسئلہ  :  اگر کہیں اتنی سردی پڑتی ہو کہ نہانے سے مر جانے یا بیمار ہو جانے کا خوف ہو اور رضائی لحاف وغیرہ کوئی ایسی چیز بھی نہیں کہ نہا کر اس میں گرم ہو جائے تو اس وقت تیمم کر لینا درست ہے۔

            مسئلہ  :  اگرکسی کے آدھے سے زیادہ بدن پر زخم ہوں یا چیچک نکلی ہو تو نہانا واجب نہیں بلکہ تیمم کر لے۔مطلب یہ ہے کہ جنابت میں اکثر بدن کا (پیمائش کی راہ سے)اعتبار کریں گے جبکہ بے وضو ہونے میں اکثر اعضائے وضو کا (شمار کی راہ سے )اعتبار کریں گے۔جب اکثر حصہ پر زخم ہو ں تو وضو اور غسل ساقط ہو جائے گا اور تیمم کریں گے۔

            اگر آدھے اعضائے وضو صحیح ہوں اور آدھے زخمی ہوں تو صحیح اعضاء کو دھو لے اور زخمی حصہ پر مسح کر لے لیکن اگر صحیح عضو کو دھونے میں زخمی عضو پر بھی پانی پہنچتا ہے تو تیمم کرے۔

            مسئلہ  :  مریض کو مرض کے بڑھ جانے یا صحت کے دیر سے ہونے کا خوف تو نہیں ہے لیکن خود وضو کرنے پر قدرت بھی نہیں تو اگر خدمت کرنے والا ملے یا دستورکے مطابق اجرت دے کر ملتا ہے اور وہ مریض خدمت گار کو اجرت دے سکتا ہے یا اس کے پاس ایسا شخص ہو کہ اگر اس سے مدد لے گا تو وہ مدد کرے گا تو یہ مریض تیمم نہ کرے اس لیے کہ وہ پانی کے استعمال پر قادر ہے اور اگر ایسی کوئی بھی صورت نہ ہو سکے تو تیمم کرے گا۔

            مسئلہ  :  اگر غسل کرنا نقصان کرتا ہو اور وضو نقصان نہ کرے تو غسل کی جگہ تیمم کرے پھر اگر غسل کے تیمم کے بعد وضو ٹوٹ جائے تو وضو کے لیے تیمم نہ کرے بلکہ وضو کرنا چاہیے اور اگر غسل کے تیمم سے پہلے کوئی بات وضو توڑنے والی بھی پائی گئی اور پھر غسل کا تیمم کیا ہو تو یہی تیمم غسل اور وضو دونوں کے لیے کافی ہے۔

 (ھ)  پانی نکالنے کا سامان نہ ہونا

            مسئلہ  :  مسافر جب کنویں پر پہنچے اور اس کے پاس ڈول رسی یا دونوں ہی نہ ہوں تو تیمم کرے۔اسی طرح اگر ڈول تو ہو لیکن ناپاک ہو تب بھی تیمم کرے جبکہ اس کے علاوہ کسی اور طریقے سے بھی پانی نکالنا ممکن نہ ہو۔

            مسئلہ  :  اگر مٹکے وغیرہ میں پانی ہو لیکن کوئی چیز پانی نکالنے کی نہ ہو اور مٹکا جھکا کر بھی پانی نہ لے سکتا ہو اور ہاتھ نجس ہوں اور کوئی دوسرا شخص ایسا نہ ہو جو پانی نکال دے یا اس کے ہاتھ دھلا دے اور کوئی کپڑا اور رومال بھی نہ ہو جو مٹکے میں ڈال کر باہر نکالے اور کپڑے سے گرتے ہوئے پانی سے ہاتھ دھو لے تو ایسی حالت میں تیمم درست ہے۔

            مسئلہ  :  اگر پانی مول بکتا ہے تو اگر اس کے پاس دام نہ ہوں تو تیمم کر لینا درست ہے۔اور اگر دام پاس ہوں اور سفر کے کرایہ کی ضرورت سے زیادہ بھی ہوں تو خریدنا واجب ہے البتہ اگر اتنا گراں بیچے کہ اتنے دام کوئی لگا ہی نہیں سکتا تو خریدنا واجب نہیں تیمم کر لینا درست ہے۔

            مسئلہ  :  اگر سفر میں کسی اور کے پاس پانی ہو تو اپنے جی کو دیکھے اگر اندر سے دل کہتا ہو کہ اگر میں مانگوں تو پانی مل جائے گا تو بے مانگے ہوئے تیمم کر لینا درست نہیں اور اگر اندر سے دل یہ کہتا ہو کہ مانگنے سے یہ شخص پانی نہ دے گا تو بے  مانگے بھی تیمم کر کے نماز پڑھ لینا درست ہے لیکن اگر نماز کے بعداس سے پانی مانگا اور اس نے دے دیا تو نماز کو دہرانا پڑے گا۔

(و)  ایسی نماز کے فوت ہو جانے کا خوف جو بِلا بدل ہو

            جیسے عیدین کی نماز،نماز جنازہ اور سورج و چاند گرہن کے وقت کی نماز

            مسئلہ  :  عید کی نماز میں اگر نماز شروع کرنے سے پہلے وقت جاتے رہنے کا خوف نہ ہو تو امام کے واسطے تیمم جائز نہیں اور اگر وقت چلے جانے کا خوف ہو تو تیمم جائز ہے۔

            مسئلہ  :  مقتدی کو اگر یہ خوف نہ ہو کہ وضو کرنے میں عید کی نماز فوت ہو جائے گی تو تیمم جائز نہیں ورنہ جائز ہے۔

            مسئلہ  :  اسی طرح مقتدی نے وضو سے نمازِ عید شروع کی پھر وضو ٹوٹنے پر خوف ہو کہ وضو کرنے جائے گا تو جماعت نہ ملے گی تو تیمم کر کے بناء کر لے۔

            مسئلہ  :  آج کل عید کی نماز جگہ جگہ ہوتی ہے اور مختلف وقتوں میں ہوتی ہے تو اگر دوسری جگہ جماعت ملنے کی اُمید ہو تو وضو کے ساتھ دوسری جگہ جا کر جماعت سے نماز پڑھ لے۔

(٣)  پاک مٹی یا مٹی کی جنس پر مسح کرنا

            مسئلہ  :  زمین کے سوا اور جو چیز مٹی کی قسم سے ہو، اس پربھی تیمم درست ہے جیسے مٹی،ریت، پتھر،گچ،چونا، ہڑتال،سرمہ، گیر وغیرہ اور جو چیز مٹی کی قسم سے نہ ہو اس سے تیمم درست نہیں جیسے سونا،چاندی،گیہوں،رانگا، لکڑی،کپڑا اور اناج وغیرہ البتہ اگر ان چیزوں پر گرد اور مٹی لگی ہو اس وقت ان پر تیمم درست ہے۔

تنبیہ  :    جو چیز نہ آگ میں جلے نہ گلے وہ چیز مٹی کی قسم سے ہے۔ اس پر تیمم درست ہے اور جو چیز جل کر راکھ ہو جائے یا گل جائے اس پر تیمم درست نہیں اسی طرح راکھ پر بھی تیمم درست نہیں۔

            اگر چہ راکھ جلتی اور پگھلتی نہیں مگر پھر بھی اس پر تیمم درست نہیں اور چونا اگرچہ جل جاتا ہے پھر بھی اس پر تیمم درست ہے اور یہ دونوں چیزیں مذکورہ ضابطے سے مستثنیٰ ہیں،چونا چا ہے پتھر کا ہو یا کنکر کا دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔

            مسئلہ   :  تانبے کے برتن،تکیے،گدے وغیرہ کپڑے پر تیمم کرنا درست نہیں البتہ اگر اس پر اتنی گرد ہے کہ ہاتھ مارنے سے خوب اُ ڑتی ہے اور ہتھیلیوں میں خوب اچھی طرح لگ جاتی ہے تو تیمم درست ہے۔ اور اگر ہاتھ مارنے سے تھوڑی تھوڑی سی گرد اُڑتی ہو تو اس پر تیمم درست نہیں۔

            مسئلہ  :  مٹی کے گھڑے وغیرہ پر تیمم درست ہے چاہے اس میں پانی بھرا ہو یا نہ ہو لیکن اگر اس پر روغن پھرا ہوا ہو تو تیمم درست نہیں۔

            مسئلہ  :  اگر پتھر پر بالکل گرد نہ ہو تب بھی تیمم درست ہے اور اگر پانی سے خوب دھلا ہوا ہو تو تب بھی درست ہے ہاتھ پر گرد کا لگنا کچھ ضروری نہیں اسی طرح پکی اینٹ پر بھی تیمم درست ہے۔

            مسئلہ  :  اگر زمین پر پیشاب وغیرہ کوئی نجاست پڑ گئی اور دھوپ سے سوکھ گئی اور بدبو بھی جاتی رہی تو وہ زمین پاک ہو گئی اس پر نماز درست ہے لیکن اس زمین پر تیمم کرنادرست نہیں جبکہ معلوم ہو کہ یہ زمین ایسی ہے اور اگر معلوم نہ ہو تو وہم نہ کرے۔

            مسئلہ  :  کیچڑ سے تیمم کرنا گو درست ہے مگر مناسب نہیں۔ اگر کہیں کیچڑ کے سوا اور کوئی چیز نہ ملے تو یہ ترکیب کرے کہ اپنے کپڑے میں کیچڑ بھر لے جب سوکھ جائے تو اس سے تیمم کر لے البتہ اگر نماز کا وقت ہی نکلا جاتا ہو تو اس وقت جس طرح بن پڑے ترسے یا خشک سے تیمم کر لے نماز قضا نہ ہونے دے۔

 (٤)  مسح پورا پورا کرنا

            مسئلہ   :  مسح اس طرح کرے کہ کوئی حصہ باقی نہ رہے اگر بال برابر بھی کوئی جگہ رہ گئی تو تیمم نہیں ہوا۔

            مسئلہ  :  اگر کوئی شخص بھوؤں کے نیچے اور آنکھوں کے اوپر جو جگہ ہے اس کا مسح نہ کرے تو تیمم صحیح نہیں ہوا اسی طرح دونوں نتھنوں کے درمیان جو پردہ ہے اس پر بھی مسح کرے۔

            مسئلہ  :  تیمم میں تنگ انگوٹھی،کنگن اور چوڑیاں وغیرہ نکال دینا ضروری ہے تاکہ مسح پوری طرح ہو جائے ان کو محض حرکت دینا کافی نہیں بلکہ اپنی جگہ سے ہٹا کر ان کے نیچے بھی مسح کرے۔

(٥)  کم از کم تین انگلیوں سے مسح کرنا

            مسئلہ  :  پورے ہاتھ یا اکثر ہاتھ سے مسح کرے اور اکثر کا مطلب یہ ہے کہ تین انگلیوں یا زیادہ سے مسح کرے ایک یا دو انگلیوں سے مسح جائز نہیں۔

 (٦)  پانی کے قریب کے گمان پر اس کو طلب کرنا

            مسئلہ  :  جس مسافر کو کسی علامت سے یہ گمان ہو کہ پانی قریب ملے گا مثلاً سبزہ نظر آئے یا پرندے گھومتے ہوں یا کسی متقی آدمی نے خبر دی کہ پانی قریب ہے تو اس کو اتنی دور تک پانی تلاش کرنا اور طلب کرنا ضروری ہے کہ خود اس کو جان و مال کا ضرر نہ ہو اور ساتھیوں کو انتظار کی مشقت نہ ہو اگر ایساہو تو طلب کرنا واجب نہیں۔

            مسئلہ  :  خود طلب کرنا بھی لازمی نہیں بلکہ اگر کسی دوسرے سے تلاش کرایا تب بھی کافی ہے۔

               تیمم کی سنتیں

            تیمم کی سنتیں آٹھ ہیں   :

            (١)  ہاتھوں کو مٹی پر رکھ کر (٢) آگے کو لانا (٣) پھر پیچھے کولے جانا (٤) پھر ان کو جھاڑنا (٥)انگلیاں کھلی رکھنا تاکہ ان کے درمیان میں غبار آ جائے (٦) شروع میں بسم اللہ پڑھنا (٧) ترتیب کا لحاظ رکھنا (٨)پے در پے تیمم کرنا۔

               تیمم کا مسنون طریقہ

            دل میں یہ نیت و ارادہ کر کے کہ میں پاک ہونے یا نماز پڑنے کے لیے تیمم کرتا ہوں بسم اللہ پڑھے اور انگلیاں کھلی رکھتے ہوئے دونوں ہاتھ پاک زمین پر مارے اور ان کو زمین پر پہلے آگے کو پھر پیچھے کو ہلائے۔ پھر ان دونوں کو جھاڑے (تاکہ بازوں اور منہ پر بھبھوت نہ لگ جائے اور صورت نہ بگڑے ) اور سارے منہ کو مل لے مرد اپنی داڑھی کا خلال کرے۔پھر فوراً ہی دوسری مرتبہ حسب سابق دونوں کو زمین پر مارے اور آگے پیچھے کو ہلائے اور جھاڑ کر دونوں  دونوں ہاتھوں پر کہنی سمیت ملے۔ یہ اس طرح کہ پہلے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور انگشت شہادت کو چھوڑ کر تین انگلیوں اور ہتھیلی کے کچھ حصہ کو دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے سوا چاروں انگلیوں کے سرے پر پشت کی جانب رکھ کر کہنی تک کھینچ لائے۔پھر انگوٹھے اور انگشت شہادت اور باقی ہتھیلی کو سامنے کی طرف رکھ کر کلائی تک کھینچے اور دائیں انگوٹھے کا بھی اس کے ساتھ ہی مسح کرے۔ پھر ایسے ہی بائیں ہاتھ کا مسح کرے۔ انگوٹھی چھلے اتار ڈالے تاکہ کوئی جگہ چھوٹ نہ جائے۔عورت بھی چوڑیاں کنگن وغیرہ کے درمیان اچھی طرح ملے اگر اس کے گمان میں بال برابر بھی کوئی جگہ چھوٹ جائے گی تو تیمم نہ ہو گا۔انگلیوں میں خلال کرے۔

               تیمم کو توڑنے والی چیزیں

            مسئلہ  :  جتنی چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان سے تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔اور پانی مل جانے سے بھی ٹوٹ جاتا ہے اسی طرح اگر تیمم کر کے آگے چلا اور پانی ایک میل شرعی سے کم فاصلہ پر رہ گیا تو بھی تیمم ٹوٹ گیا۔

            مسئلہ  :  اگر وضو کا تیمم ہے تو وضو کے موافق پانی ملے گا تب تیمم ٹوٹے گا او اگر غسل کا تیمم ہے تو جب غسل کے موافق پانی ملے گا تب تیمم ٹوٹے گا اگر پانی کم ملا تو تیمم نہیں ٹوٹا۔ اور موافق کا مطلب یہ ہے کہ اتنا پانی مل جائے جس سے غسل اور وضو کے فرائض ادا ہو سکیں خواہ سنتیں ادا ہو سکیں یا نہ ہو سکیں۔

            مسئلہ  :  اگر راستہ میں پانی ملا لیکن اس کو پانی کی کچھ خبر نہ ہو ئی کہ یہاں پانی ہے تو بھی تیمم نہیں ٹوٹا اسی طرح اگر راستہ میں پانی ملا اور معلوم بھی ہو گیا لیکن ریل پر سے نہ اُتر سکا تو بھی تیمم نہیں ٹوٹا۔

            اسی طرح اگر کوئی شخص ریل پر سوار ہو ا ہو اور اس نے پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کیا ہو اورراستہ میں چلتی ہوئی ریل سے اسے پانی کے چشمے تالاب وغیرہ دکھائی دیں تو اس کا تیمم نہ ٹوٹے گا کیونکہ اس صورت میں وہ پانی کے استعمال پر قادر نہیں ریل نہیں ٹھہر سکتی اور چلتی ہوئی ریل سے اُتر نہیں سکتا۔

            مسئلہ  :  اگر بیماری کی وجہ سے تیمم کیا ہے تو جب بیماری جاتی رہے کہ وضو اور غسل نقصان نہ کرے تو تیمم ٹوٹ جائے گا اب وضو کرنا اور غسل کرنا واجب ہے۔

            مسئلہ  : پانی نہیں ملا اس وجہ سے تیمم کر لیا پھر ایسی بیماری ہو گئی جس سے پانی نقصان کرتا ہے پھر بیماری کے بعد پانی مل گیا تو اب وہ تیمم باقی نہیں رہا جو پانی نہ ملنے کی وجہ سے کیا تھا لہٰذا اب بیماری کے لیے پھر سے تیمم کرے۔

               متفرق مسائل

            مسئلہ  :  جب تک پانی سے وضو نہ کر سکے برابر تیمم کرتا رہے چاہے جتنے دن گزر جائیں کچھ خیال ووسوسہ دل میں نہ لائے،جتنی پاکی وضو اور غسل سے ہوتی ہے اتنی ہی پاکی تیمم سے بھی ہو جاتی ہے۔

            مسئلہ  :  جس طرح وضو کی جگہ تیمم درست ہے اسی طرح غسل کی جگہ بھی مجبوری کے وقت تیمم درست ہے۔ ایسے ہی جو عورت حیض یانفاس سے پاک ہوئی ہو مجبوری کے وقت اس کو بھی تیمم درست ہے۔ وضو اور غسل کے تیمم میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں کا ایک ہی طریقہ ہے۔

            مسئلہ  :  اگر زمزم کا پانی زمزمی میں بھرا ہوا ہے تو تیمم کرنادرست نہیں زمزمی کو کھول کر اس پانی سے نہانا اور وضو کرنا واجب ہے۔

            مسئلہ  :  پانی موجود ہوتے وقت قرآن کو چھونے کے لیے تیمم کرنا درست نہیں ہے۔

            مسئلہ  :  جس شخص کو اخیر وقت تک پانی ملنے کا یقین یا گمان غالب ہو اس کو نماز کے اخیر مستحب وقت تک انتظار کرنا مستحب ہے مثلاً کنویں سے پانی نکالنے کی کوئی چیز نہ ہو اور یہ یقین غالب ہو کہ اخیر مستحب وقت تک رسی ڈول مل جائے گا یا کوئی شخص ریل پر سوار ہو اور یقین یا گمان غالب ہو کہ اخیر وقت تک ریل ایسے اسٹیشن پر پہنچ جائے گی جہاں پانی مل سکتا ہے تو اخیر مستحب وقت تک انتظار مستحب ہے اور اگر پانی کا انتظار نہ کیا اول ہی وقت نماز پڑھ لی تب بھی درست ہے۔

            مسئلہ  :  اگر نہانے کی ضرورت تھی اس لیے غسل کیا لیکن ذرا سا بدن سوکھا رہ گیا اور پانی ختم ہو گیا تو ابھی وہ پاک نہیں ہوااس لیے اس کو تیمم کر لینا چاہیے جب کہیں نہانے کو پانی ملے تو اتنی سوکھی جگہ دھو لے پھر سے نہانے کی ضرورت نہیں۔

            مسئلہ  :  کسی کا کپڑا یا بدن نجس ہے اور وضو کی بھی ضرورت ہے اور پانی تھوڑا ہے تو بدن اور کپڑا دھو لے اور وضو کے عوض تیمم کر لے۔

            مسئلہ  :   ایک مقام سے اور ایک ڈھیلے سے چند آدمی یکے بعد دیگرے تیمم کریں تو درست ہے۔

            مسئلہ  :   اگر وہ عذر جس کی وجہ سے تیمم کیا گیا ہے آدمیوں کی طرف سے ہو تو جب وہ عذر جاتا رہے تو جس قدر نمازیں اس تیمم سے پڑھی ہیں سب دوبارہ پڑھنا چاہئیں مثلاً کوئی شخص جیل خانہ میں ہو اور جیل کے ملازم اس کو پانی نہ دیں یا کوئی اس سے کہے کہ اگر تو وضو کرے گا تو میں تجھ کو مار ڈالوں گا تو اس تیمم سے جو نماز پڑھی ہے اس کو پھر دہرانا پڑے گا۔

            مسئلہ  :  جو شخص پانی اور مٹی دونوں کے استعمال پر قادر نہ ہو،خواہ پانی اور مٹی نہ ہونے کی وجہ سے یا بیماری سے تو اس کو چاہئے کہ نماز بلا طہارت پڑھ لے پھر اس کو طہارت سے لوٹا لے مثلاً کوئی شخص ائیر کنڈیشنڈ ریل میں ہو اور نماز کا وقت آ جائے اور پانی اور وہ چیز جس سے تیمم درست ہے جیسے مٹی اور مٹی کا برتن یا گرد و غبار نہ ہو اور نماز کا وقت جاتا ہو تو ایسی حالت میں بلا طہارت نماز پڑھ لے۔اسی طرح جو شخص جیل میں ہو اور وہ پاک پانی اور مٹی پر قادر نہ ہو تو وضو اور تیمم کے بغیر نماز پڑھ لے۔اور دونوں صورتوں میں جو نماز پڑھے گا وہ محض مشابہت ہو گی حقیقت میں نماز نہ ہو گی اور اس میں قرأت نہ کرے گا بعد میں نماز کو لوٹا نا پڑے گا۔

 

 حیض ونفاس کا بیان

               حیض کس کو کہتے ہیں

            عورت کوہر مہینے آگے کی راہ سے بغیر بیماری کے جو معمول کا خون آتا ہے اس کو حیض کہتے ہیں۔حیض کی مدت کے اند ر سرخ،زرد،سبز، خاکی یعنی مٹیالا سیاہ جس رنگ کا خون آئے سب حیض ہے جب تک گدی بالکل سفید نہ دکھائی دے۔ اور جب بالکل سفید دکھائی دے جیسی رکھی گئی تھی تو اب عورت حیض سے پاک ہو گئی ہے۔

               شرائط حیض

            حیض کا خون چند باتوں پر موقوف ہے  :

(١)  وقت حیض

            نو برس سے پہلے حیض بالکل نہیں آتا اس لیے نو برس سے چھوٹی لڑکی کو جو خون آئے وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے اور پچپن برس کے بعد عام طور پر جو عادت ہے وہ یہی ہے کہ حیض نہیں آتا لیکن آنا ممکن ہے۔ اس لیے اگر پچپن برس کے بعد خون نکلے تو اگر خون خوب سرخ یا سیاہ ہو تو حیض ہے اور اگر زرد یا سبزیا خاکی رنگ ہو تو حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے۔ البتہ اگر عورت کو اس عمر سے پہلے بھی زرد یا خاکی رنگ آتا ہو تو پچپن برس کے بعد یہ رنگ حیض سمجھے جائیں گے۔

(۲)  حیض کی مدت

            حیض کی کم سے کم مدت تین دن تین رات ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن اوردس رات ہے۔کسی کو تین دن تین رات سے کم خون آیا تو وہ حیض نہیں ہے بلکہ استحاضہ ہے۔اور اگر دس دن رات سے زیادہ آیا ہے تو جتنے دن دس دن سے زیادہ آیا ہے وہ بھی استحاضہ ہے۔

            اگر تین دن رات سے ذرا بھی کم ہو تو وہ حیض نہیں ہے جیسے جمعہ کو سورج نکلتے وقت خون آیا اور پیر کے دن سورج نکلنے سے ذرا پہلے بند ہو گیا تو وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے۔

(٣)  طہارت کی کامل مدت اس سے پہلے گزر چکی ہو

            دو حیض کے درمیان میں پاک رہنے کی مدت کم سے کم پندرہ دن ہیں اور زیادہ کی کوئی حد نہیں۔سو اگر کسی وجہ سے کسی عورت کو حیض آنا بند ہو جائے تو جتنے مہینے تک خون نہ آئے گا پاک رہے گی۔

            مسئلہ  :  اگر کسی کو تین دن رات خون آیا پھر پندرہ دن پاک رہی پھر تین دن رات خون آیا تو تین دن پہلے کے اور تین دن یہ جو پندرہ دن کے بعد کے ہیں حیض کے ہیں اور بیچ میں پندرہ دن پاکی کا زمانہ ہے۔

            مسئلہ  :  اگر ایک یا دو دن خون آیا پھر پندرہ دن پاک رہی پھر ایک یا دو دن خون آیا تو بیچ میں پندرہ دن تو پاکی کا زمانہ ہی ہے اور اس سے پہلے اور بعد میں جو ایک یا دو دن خون آیا ہے وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے۔

حیض کب سے شروع سمجھا جائے گا

            جب خون سوراخ سے باہر کی طرف کھال میں نکل آئے تب سے حیض شروع ہوتا ہے۔اس کھال سے باہر چاہے نکلے یا نہ نکلے اس کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔

            مسئلہ  :  اگر کوئی سوراخ کے اندر روئی وغیرہ رکھ لے جس سے خون باہر نہ نکلنے پائے تو جب تک خون سور ا خ کے اندر ہی اندر رہے اور باہر والی روئی پر خون کا دھبہ نہ آئے تب تک حیض کا حکم نہ لگائیں گے۔ جب خون کا دھبہ باہر والی کھال میں آ جائے یا روئی وغیرہ کھینچ کر باہر نکال لے تب سے حیض کا حساب ہو گا۔

            مسئلہ  :  پاک عورت نے رات کو فَرج میں گدی رکھ لی۔ جب صبح ہوئی تواس پر خون کا دھبہ دیکھا توجس وقت سے دھبہ دیکھا ہے اسی وقت سے حیض کا حکم لگائیں گے۔

               حیض کی عادت سے متعلق مسائل

            مسئلہ  :  کسی کو ہمیشہ تین یا چار دن خون آتا تھا پھر کسی مہینے میں زیادہ آ گیا لیکن دس دن سے زیادہ نہیں آیا تو وہ سب حیض ہے۔ اور اگر دس دن سے بھی بڑھ گیا تو جتنے دن پہلے سے عادت کے ہیں اتنا تو حیض ہے باقی سب استحاضہ ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کسی کو ہمیشہ تین دن حیض آنے کی عادت ہے لیکن کسی مہینہ میں نو دن یا دس دن رات خون آیا تو یہ سب حیض ہے اور اگردس دن رات سے ایک لمحہ بھی زیادہ خون آئے تو وہی تین حیض کے ہیں اور باقی دنوں کا سب استحاضہ ہے۔

            مسئلہ  :  ایک عورت ہے جس کی کوئی عادت مقرر نہیں ہے کبھی چار دن خون آتا ہے کبھی سات دن،اسی طرح بدلتا رہتا ہے کبھی دس دن بھی آ جاتا ہے تو یہ سب حیض ہے۔ایسی عورت کو اگر کبھی دس دن رات سے زیادہ خون آئے تو دیکھو اس سے پہلے مہینے کتنے دن حیض آیا تھا بس اتنے ہی دن حیض کے ہیں اور باقی سب استحاضہ ہے۔

            مسئلہ  :  کسی کو ہمیشہ چار دن حیض آتا تھا پھر ایک مہینے میں پانچ دن خون آیا اس کے بعد دوسرے مہینے میں بارہ دن خون آیا تواس بارہ دن میں پانچ دن حیض کے ہیں اور سات دن استحاضہ کے ہیں اور پہلی عادت کا اعتبار نہ کریں گے اور یہ سمجھیں گے کہ عادت بدل گئی اور پانچ دن کی عادت ہو گئی،اس صورت میں دس دن خون بند ہونے کا انتظار کرے۔ اب چونکہ دس دن کے بعد خون بند نہیں ہوا تو پانچ دن کی نماز قضا پڑھے اور ان دس دنوں کے بعد نہائے اور نماز ادا کرے۔

            مسئلہ  :  کسی لڑکی نے پہلے پہل خون دیکھا تو اگر دس دن یا اس سے کچھ کم آئے سب حیض ہے اور جودس دن سے زیادہ آئے تو پورے دس دن حیض ہے اور جتنا زیادہ ہو وہ سب استحاضہ ہے۔

            مسئلہ  :  کسی نے پہلے پہل خون دیکھا اور وہ کسی طرح بند نہیں ہوا کئی مہینے تک برابر آتا رہا تو جس دن خون آیا اس دن سے لے کر دس دن رات حیض ہے اس کے بعد بیس دن استحاضہ ہے۔اسی طرح برابر دس دن حیض اور بیس دن استحاضہ سمجھا جائے گا۔

               استحاضہ کا بیان

            استحاضہ کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں  :

              (١)  جو خون حیض کی کم سے کم مدت( یعنی تین دن ) سے کم ہو۔

            (٢)  جو خون حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت ( یعنی دس دن ) سے زیادہ ہو۔

            (٣)  جو خون نفاس کی اکثر مدت (یعنی چالیس دن ) سے زیادہ ہو۔

            (٤)  حیض و نفاس کی عادت سے ز یادہ ہو اور زیادہ سے زیادہ مدت سے بھی تجاوز کر جائے۔

            (٥)  جو خون دورانِ حمل آئے چاہے جتنے دن آئے۔

            (٦)  جو خون نو برس سے کم عمر لڑکی کو آئے۔

            (٧)  جو پچپن برس کی عمر کے بعد آئے بشرطیکہ وہ خوب سرخ و سیاہ نہ ہو۔

            (٨)  جو خون ولادت کے وقت آدھا بچہ باہر آنے سے پہلے آئے۔

            (٩)  جس خون میں پاکی کی کم سے کم مدت سے بھی کمتر وقفہ ہو۔

               استحاضہ کا حکم

            استحاضہ کا حکم ایسا ہے جیسے کسی کو نکسیر پھوٹ جائے۔ایسی عورت نماز بھی پڑھے اور روزہ بھی رکھے قضا نہ کرنا چاہیے اور اس سے صحبت کرنا بھی درست ہے۔

            اگر استحاضہ کی تکلیف اتنی مسلسل ہو کہ معذور میں داخل ہو جائے تو معذور کے احکام اس پر جاری ہوں گے۔

               حیض و استحاضہ کی چند صورتیں اور احکام

            مسئلہ  :  اگر ایک یا دو دن خون آ کر بند ہو گیا تو نہانا واجب نہیں ہے وضو کر کے نماز پڑھے لیکن ابھی صحبت کرنا درست نہیں۔ اگر پندرہ دن گزرنے سے پہلے خون آ جائے گا تو اب معلوم ہو گا کہ وہ حیض کا زمانہ تھا۔حساب سے حیض کے جتنے دن ہوں ان کو حیض سمجھے اور اب غسل کر کے نماز پڑھے اور اگر پورے پندرہ دن بیچ میں گزر گئے اور خون نہیں آیا تو معلوم ہوا کہ استحاضہ تھا سو ایک دن یا دو دن خون آ نے کی وجہ سے جو نمازیں نہیں پڑھیں اب ان کو قضا پڑھنا چاہیے۔

            مسئلہ  :  تین دن حیض آنے کی عادت ہے لیکن کسی مہینے میں ایسا ہوا کہ تین دن پورے ہو چکے اور ابھی خون بند نہیں ہوا تو ابھی غسل نہ کرے نہ نماز پڑھے اگر پورے دس دن را ت پر یااس سے کم میں خون بند ہو جائے تو ان سب دنوں کی نمازیں معاف ہیں کچھ قضا نہ پڑھنی پڑے گی اور یوں سمجھیں گے کہ عادت بدل گئی ہے۔ اس لیے یہ سب دن حیض کے ہوں گے اور اگر گیارہویں دن بھی خون آیا تو اب معلوم ہوا کہ حیض کے فقط تین ہی دن تھے یہ سب استحاضہ ہے۔ لہٰذا گیارہویں دن نہائے اور سات دن کی نمازیں قضا پڑھے اور اب نمازیں نہ چھوڑے۔

            مسئلہ   :  اگر دس دن سے کم حیض آیا اور ایسے وقت خون بند ہوا کہ نماز کا وقت بالکل تنگ ہے کہ جلدی اور پھرتی سے نہا دھو ڈالے یعنی غسل کے فرائض ادا کرے تو نہانے کے بعد بالکل ذرا سا وقت بچے گاجس میں صرف ایک دفعہ اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھ سکتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں پڑھ سکتی تب بھی اس وقت کی نما ز واجب ہو جائے گی اور قضا پڑھنا پڑے گی اور اگر اس سے بھی کم وقت ہو تو نماز معاف ہے اس کی قضا پڑھنا واجب نہیں۔

            مسئلہ  :  اگر پورے دس دن رات حیض آیا اور ایسے وقت خون بند ہوا کہ بالکل اتنا وقت ہے کہ ایک دفعہ اللہ اکبر کہہ سکتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتی اور نہانے کی بھی گنجائش نہیں تو بھی نماز واجب ہو جاتی ہے۔اس کی قضا پڑھنا چاہئے۔

            مسئلہ  :  اگر رمضان شریف میں دن کو پاک ہوئی تو اب پاک ہونے کے بعد کھانا پینا درست نہیں ہے۔ شام تک روزہ داروں کی طرح رہنا واجب ہے لیکن یہ دن روزہ میں شمار نہ ہو گا بلکہ اس کی بھی قضا رکھنا پڑے گی۔

            مسئلہ  :  اور اگر رات کو پاک ہوئی اور پورے دس دن رات حیض آیا ہے تب بھی صبح کا روزہ واجب ہے اور اگر دس دن سے کم حیض آیا ہے تو اگر اتنی رات باقی ہے کہ پھرتی سے غسل کے فرائض پورے کر سکتی ہے تو بھی صبح کا روزہ واجب ہے اگر اتنی رات تو تھی لیکن غسل نہیں کیا تو روزہ نہ توڑے بلکہ روزے کی نیت کر لے اور صبح کو نہا لے اور جو اس سے بھی کم رات ہو یعنی غسل بھی نہ کر سکے تو صبح کا روزہ جائز نہیں لیکن دن کو کچھ کھانا پینا بھی درست نہیں بلکہ سارا دن روزہ داروں کی طرح رہے پھر اس کی قضا رکھے۔

            مسئلہ  :  اگر ایک دن یا کئی دن خون آیا پھر پندرہ دن سے کم پاک رہی ہے اس کا کچھ اعتبار نہیں بلکہ یوں سمجھیں گے کہ گویا اول سے آخر تک برابر خون جاری رہا تب جتنے دن حیض کے آنے کی عادت ہو اتنے دن تو حیض کے ہیں باقی سب استحاضہ ہے۔ مثال اس کی یہ ہے کہ کسی کو ہر مہینے کی پہلی اور دوسری اور تیسری تاریخ کو حیض آنے کا معمول ہے پھر کسی مہینے میں ایسا ہوا کہ پہلی تاریخ کو خون آیا پھر چودہ دن پاک رہی پھر ایک دن خون آیا تو ایسا سمجھیں گے کہ گویا سولہ دن برابر خون آتا رہا۔سو اس میں سے تین دن اول کے تو حیض کے ہیں اور تیرہ دن استحاضہ ہے۔ اور اگر چوتھی پانچویں چھٹی تاریخ حیض کی عادت تھی تو یہی تاریخیں حیض کی ہیں اور پہلے تین دن اور بعد کے دس دن استحاضہ کے ہیں اور اگر اس کی کچھ عادت نہ ہو بلکہ پہلے پہل خون آیا ہو تو د س دن حیض ہے اور چھ دن استحاضہ ہے۔

تنبیہ  :   مگر یہ بات کہ اتنا حیض ہے اور اتنا استحاضہ ہے سولہویں دن سے پہلے معلوم نہ ہو گی تو ایسی حالت میں جب پہلی بار خون دیکھا تو نماز چھوڑ دے اس لیے کہ ظاہر یہ ہے کہ وہ حیض کا خون ہو۔ پھر جب ایک دن کے بعد بند ہو ا تو احتمال ہے کہ ا ستحاضہ کا خون تھا اور احتمال ہے کہ حیض ہو۔اس لیے قاعدہ کی رُو سے اس ایک دن کی نماز قضا پڑھے۔پھر چودہ روز    کے بعد جو خون آیا تو معلوم ہوا کہ وہ پہلا خون حیض کا تھا ا س لیے اس وقت تک کی نمازیں بیکار گئیں جن میں تین دن کی معاف ہو گئیں اور ان تین دن سے زائد کی قضا کرے۔پھر دیکھنا چاہیے کہ ان تین دن کے بعد اس نے غسل کیا تھا یا نہیں۔ اگر غسل کر کے نمازیں پڑھی تھیں تب تو ان تیرہ دنوں کی نمازیں سب درست ہو گئیں اور اگر غسل نہیں کیا تھا تو باقی تیرہ دنوں کی نمازیں قضا پڑھے اور اب جو خون دیکھا ہے تو اس میں نماز نہ چھوڑے غسل کر کے نماز پڑھے اگر پہلے غسل نہ کیا تھا اور اب وہ مستحاضہ شمار ہو گی۔

 

نفاس کا بیان

            بچہ پیدا ہونے کے بعد آگے کی راہ سے جو خون آتا ہے ا س کو نفاس کہتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ نفاس کے چالیس دن ہیں اور کم کی کوئی حد نہیں اگر کسی کو ایک آدھ گھڑی خون آ کر بند ہو جائے تو وہ بھی نفاس ہے۔

            مسئلہ  :  آدھے سے زیادہ بچہ نکل آیا لیکن ابھی پورا نہیں نکلا اس وقت جو خون آئے وہ بھی نفاس ہے۔

            مسئلہ  :  کسی عورت کا حمل گر گیا تو اگر بچہ کا ایک آدھ عضو بن گیا ہو تو گرنے کے بعد جو خون آئے گا وہ بھی نفاس ہے اور اگر بالکل نہیں بنا بس گوشت ہی گوشت ہے تو یہ نفاس نہیں بلکہ اگر وہ خون حیض بن سکے یعنی مدت کے اعتبار سے جبکہ خون تین دن سے کم نہ ہو اور اس سے پہلے کم ا ز کم پندرہ دن پاکی کے گزر چکے ہوں تو حیض ہو گا اور اگر حیض نہ بن سکے مثلاً تین دن سے کم آئے یا پاکی کا زمانہ ابھی پورے پندرہ دن نہیں ہوا تو وہ استحاضہ ہے۔

            مسئلہ  :  اگر ناف کی طرف سے بچہ پیدا ہوا اس طرح کہ حاملہ کے پیٹ میں زخم تھا وہ پھٹ گیا اور اس طرح سے بچہ نکل آیا یا بڑا آپریشن کر کے بچہ حاصل کیا گیا تو بچہ حاصل ہونے کے بعد آگے کی راہ سے جو بھی خون آ جائے وہ نفاس ہو گا۔

            مسئلہ  :  اگر خون چالیس دن سے بڑھ گیا تو اگر پہلے پہل یہی بچہ ہوا تو چالیس دن نفاس کے ہیں اور جتنا زیادہ آیا ہے وہ استحاضہ ہے۔ پس چالیس دن کے بعد نہا ڈالے اور نماز پڑھنا شروع کر دے خون بند ہونے کا انتظار نہ کرے اور اگر یہ پہلا بچہ نہیں بلکہ اس سے پہلے جن چکی ہے اور اس کی عادت معلوم ہے کہ اتنے دن نفاس آتا ہے تو جتنے دن نفاس کی عادت ہو اتنے دن نفاس کے ہیں اور  جو اس سے زیادہ ہے وہ استحاضہ ہے۔ مگر یہ بات چالیس روز کے بعد معلوم ہو گی۔

            مسئلہ  :  اگر چھ مہینے کے اندر اندر آگے پیچھے دو بچے ہوں تو نفاس کی مدت پہلے بچہ سے لی جائے گی اگر دوسرا بچہ دس بیس دن یادو ایک مہینے کے بعد ہوا تو دوسرے بچے سے نفاس کا حساب نہ کریں گے۔مثلاً کسی عورت کے دو بچے پیدا ہوئے اور دونوں کے درمیان چھ مہینے سے کم کا زمانہ ہے تو پہلا ہی بچہ پیدا ہونے کے بعد سے نفاس سمجھا جائے گا۔لہٰذا اگر دوسرا بچہ پہلے بچے کی پیدائش کے بعد سے چالیس دن کے اندر پیدا ہوا ہو اور خون آیا ہو تو پہلے بچہ کی پیدائش سے چالیس دن تک نفاس ہے پھر استحاضہ ہے اور اگر دوسرا بچہ چالیس دن کے بعد پیدا ہوا تو اس دوسرے کے بعد جو خون آیا ہے وہ کُل استحاضہ ہے نفاس نہیں ہے۔ مگر دوسرے بچے کے پیدا ہونے کے بعد بھی نہانے کا حکم دیا جائے گا یعنی دوسرا بچہ پیدا ہونے کے بعد غسل کرے اور نماز پڑھے۔

            اگر دونوں کے درمیان چھ مہینے یا اس سے زیادہ وقفہ ہو تو یہ جڑواں نہ ہوں گے بلکہ یہ دو حمل اور دو نفاس ہوں گے۔یاد رہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ مہینے ہوتی ہے۔

            مسئلہ  :  کسی کی عادت تیس دن نفاس آنے کی ہے لیکن تیس دن گزر گئے اور ابھی خون بند نہیں ہوا تو ابھی نہ نہائے پھر اگر پورے چالیس دن پر خون بند ہو گیا تو یہ سب نفاس ہے اور اگر چالیس دن سے زیادہ ہو جائیں تو فقط تیس دن نفاس کے ہیں اور باقی سب استحاضہ ہے۔

               نفاس کے چند احکام

            مسئلہ  :  اگر چالیس دن سے پہلے خون نفاس بند ہو جائے تو فوراً غسل کر کے نماز پڑھنا شروع کر دے اور اگر غسل نقصان کرے تو تیمم کر کے نماز شروع کر دے ہرگز قضا نہ ہونے دے۔

            مسئلہ  :  نفاس میں بھی نماز بالکل معاف ہے اور ر وزہ معاف نہیں بلکہ قضا رکھنا چاہیے۔

            مسئلہ  :  اگر بچہ پیدا ہونے کے بعد کسی کو بالکل خون نہ آئے تب بھی جننے کے بعد نہانا واجب ہے۔ایسا امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک احتیاط کے طور پر ہے کیونکہ ولادت کے ساتھ کچھ نہ کچھ خون ہوتا ہی ہے۔

               حیض ونفاس کے مشترک احکام

            مسئلہ  :  حیض و نفاس کے زمانہ میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا درست نہیں۔اتنا فرق ہے کہ نماز تو بالکل معاف ہو جاتی ہے پاک ہونے کے بعد بھی اس کی قضا واجب نہیں ہوتی لیکن روزہ معاف نہیں ہوتا پاک ہونے کے بعد قضا رکھنی پڑے گی۔

            مسئلہ  :  فرض نماز پڑھنے میں حیض و نفاس شروع ہو گیا تو وہ نماز بھی معاف ہو گئی۔پاک ہونے کے بعد اس کی قضا نہ پڑھے۔اگر نفل یا سنت نماز میں حیض یا نفاس شروع ہوا تو اس کی قضا پڑھنا ہو گی۔

            مسئلہ  :  اگر نماز کے اخیر وقت میں حیض یا نفاس شروع ہوا اور ابھی نماز نہیں پڑھی تب بھی معاف ہو گئی۔

            مسئلہ  :  اگر کچھ روزہ گزرنے کے بعد حیض یا نفاس شروع ہوا تو وہ روزہ ٹوٹ گیا۔جب پاک ہو اس کی قضا رکھے۔اگر نفلی روزہ ہو تو اس کی قضا بھی کرنی ہو گی۔

            مسئلہ  :  حیض ونفاس کے زمانہ میں نہ تو جماع ہو اور نہ ہی عورت کے ناف سے لے کر گھٹنے تک کا جسم شوہر کے کسی عضو سے مس ہو اور نہ ہی شوہر اتنے جسم پر نظر ڈالے۔اس کے سوا اور سب باتیں درست ہیں یعنی ساتھ کھانا پینا لیٹنا باقی جسم کو چھونا اور اس کا بوسہ لینا وغیرہ درست ہے۔

            مسئلہ  :  کسی کی عادت پانچ دن کی یا نو دن کی تھی سو جتنے دن کی عادت تھی اتنے ہی دن خون آیا پھر بند ہو گیا تو جب تک نہا نہ لے تب تک صحبت کرنا درست نہیں۔اگر غسل نہ کرے تو جب ایک نماز کا وقت گزر جائے یعنی ایک نماز کی قضا اس کے ذمہ واجب ہو جائے تب صحبت درست ہے اس سے پہلے درست نہیں۔

            یہی حکم نفاس کا ہے جب عادت پرنفاس کا خون ختم ہو جائے تو عورت کے نہانے یا ایک نماز کا وقت گزر جانے کے بعد صحبت درست ہے پہلے درست نہیں۔

            مسئلہ  :  اگر عادت پانچ دن کی تھی  اور خون چار ہی دن آ کے بند ہو گیا تو نہا کے نماز پڑھنا واجب ہے لیکن جب تک پانچ دن پورے نہ ہو جائیں تب تک صحبت کرنادرست نہیں کہ شاید پھر خون آ جائے۔

            اسی طرح کا حکم اس وقت ہے جب نفاس کا خون سابقہ عادت سے پہلے ختم ہو جائے۔

            مسئلہ  :  اور اگر پورے دس دن رات حیض آیا تو جب سے خون بند ہوا ہے اسی وقت سے صحبت کرنا درست ہے چاہے نہا چکی ہو یا ابھی نہ نہائی ہو۔

            جب نفاس کا خون بھی پورے چالیس دن پر ختم ہوا ہو تو ا س وقت صحبت کرنا درست ہے۔ لیکن حیض و نفاس دونوں صورتوں میں عورت اگر پہلے نہا لے تو یہ بہتر ہے۔

            مسئلہ  :  جو عورت حیض سے ہو یا نفاس سے ہو اور جس پر نہانا واجب ہو اس کو مسجد میں جانا اور کعبہ شریف کا طواف کرنا اور کلام مجید کا پڑھنا اور کلام مجید کا چھونا درست نہیں۔البتہ اگر کلام مجید جزدان یا رومال میں لپٹا ہویا اس پر کپڑے وغیرہ کی چولی چڑھی ہوئی ہو اور جلد کے ساتھ سلی ہوئی نہ ہو بلکہ الگ ہو کہ اتارنے سے اتر سکے تو اس حال میں قرآن مجید کا چھونا اور اُٹھانا درست ہے۔

            مسئلہ  :  جس روپیہ،پیسہ،طشتری،تعویذ یا کسی اور چیز میں قرآن شریف کی کوئی آیت لکھی ہو اس کو بھی چھونا ان کے لیے درست نہیں۔البتہ اگر تھیلی یا برتن وغیرہ میں رکھے ہوں تواس تھیلی اور برتن کو چھونا اور اُٹھانا اور اُٹھانا درست ہے۔

            مسئلہ  :  کرتہ کے دامن اور دوپٹہ کے آنچل سے بھی قرآن مجید کو پکڑنا اور اُٹھانا درست نہیں۔البتہ اگر بدن سے الگ کوئی کپڑا ہو جیسے رومال،تولیہ وغیرہ اس سے پکڑ کے اُٹھانا جائز ہے۔

            مسئلہ  :  اگر پوری آیت نہ پڑھے بلکہ آیت کا ذرا سا لفظ یا آدھی آیت پڑھے تودرست ہے لیکن آیت اتنی بڑی نہ ہو کہ اس کی آدھی کسی چھوٹی سی آیت کے برابر ہو جائے۔

            مسئلہ  :  اگر الحمد کی پوری سُورت یا معوذ تین دعا کی نیت سے پڑھے یا اور دعائیں جو قرآن میں آئی ہیں ان کو دعا کی نیت سے پڑھے،تلاوت کے ارادہ سے نہ پڑھے تودرست ہے اس میں کچھ گناہ نہیں ہے جیسے یہ دعا ربنا  اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقناعذاب النار اور یہ دعا ربنا لا تؤاخذنا ان نسینا اواخطأ نا آخر تک جو سورۂ بقرہ کے آخر میں لکھی ہے یا اور کوئی دعا جو قرآن شریف میں آتی ہو،دعا کی نیت سے سب کا پڑھنا درست ہے اسی طرح دعا یا ثناء کے طور پر آیۃ الکرسی کا پڑھنا بھی صحیح ہے۔قرآن کے طور پر صحیح نہیں۔

            مسئلہ  :  دعائے قنوت کا پڑھنا بھی درست ہے۔

            مسئلہ  :  اگر کوئی عورت لڑکیوں کو قرآن شریف پڑھاتی ہو تو ایسی حالت میں ہجے کروانا درست ہے اور رواں پڑھاتے وقت پوری آیت نہ پڑھے بلکہ ایک ایک دو دو لفظ کے بعد سانس توڑ دے اور کاٹ کاٹ کر آیت رواں کہلائے۔

            مسئلہ  :  لڑکی حفظ کر رہی ہو اور اس دوران اس کو حیض آنا شروع ہو جائے تو حیض کے دنوں میں قرآن شریف نہ پڑھے۔پڑھا ہوا یاد رکھنے کے لیے دو طریقے ہوسکتے ہیں۔

            (١)  کپڑے وغیرہ سے قرآن پاک کھول کر بیٹھے اور قلم وغیرہ کسی چیز سے ورق پلٹائے اور قرآن پاک میں دیکھ کر دل دل میں پڑھے زبان نہ ہلائے۔

            (٢)  کوئی تلاوت کر رہا ہو اس کے پاس بیٹھ جائے اور سنتی رہے۔سننے سے بھی یاد ہو جاتا ہے۔

            مسئلہ  :  کلمہ اور درود شریف پڑھنا اور خدائے تعالی کا نام لینا،استغفار یا کوئی اور وظیفہ پڑھنا جیسے لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم منع نہیں ہے یہ سب درست ہے۔

            مسئلہ  :  حیض کے زمانہ میں مستحب ہے کہ نماز کے وقت وضو کر کے کسی پاک جگہ تھوڑی دیر بیٹھ کر اللہ اللہ کیا کرے تاکہ نماز کی عادت چھوٹ نہ جائے اور پاک ہونے کے بعد نماز سے جی نہ گھبرائے۔

 

نجاستوں کا بیان

            کپڑے،بدن یا کسی اور چیز کو لگنے والی نجاست کو” نجاستِ حقیقیہ” کہتے ہیں۔

            نجاستِ حقیقیہ کی دو قسمیں ہیں  :

               نجاستِ غلیظہ

            وہ جس کی نجاست زیادہ سخت ہے اور اس کی معاف مقدار تھوڑی ہے اس کو” نجاست غلیظہ ”کہتے ہیں۔

            خون اور آدمی کا پاخانہ،پیشاب،منی اور شراب، کتے،بلی کا پاخانہ اور پیشاب،سور کا گوشت اور اس کے بال و ہڈی وغیرہ یعنی اس کی ساری چیزیں، گھوڑے،گدھے،خچر کی لید اور گائے،بیل،بھینس وغیرہ کا گوبر اور بکری بھیڑ کی مینگنی غرض کہ سب حرام اور حلال جانوروں کا پاخانہ، مُرغی،بطخ اور مُرغابی کی بیٹ،گدھے خچر اور سب حرام جانوروں کا پیشاب   یہ سب چیزیں نجاستِ غلیظہ ہیں۔ چھوٹے دودھ پیتے بچے کا پیشاب، پاخانہ بھی نجاستِ غلیظہ ہیں۔

               نجاستِ خفیفہ

            وہ جس کی نجاست ذرا کم اور ہلکی ہے اور ا س کی معاف مقدار زیادہ ہے۔ اس کو ”نجاست خفیفہ” کہتے ہیں۔

            حرام پرندوں کی بیٹ اور حلال جانوروں کا پیشاب جیسے بکری،گائے،بھینس وغیرہ اور گھوڑے کا پیشاب نجاستِ خفیفہ ہیں۔

            مسئلہ  :  نجاست غلیظہ جس پانی میں پڑ جائے وہ بھی ”نجس غلیظ” ہو جاتا ہے اور نجاست خفیفہ پڑ جائے تو وہ پانی  بھی” نجس خفیف ”ہو جاتا ہے چاہے کم پڑے یا زیادہ۔

            مسئلہ  :  مرغی،بطخ، مرغابی کے سوا اور حلال پرندوں کی بیٹ پاک ہے جیسے کبوتر،چڑیا،مینا وغیرہ اور چمگادڑ کا پیشاب اور بیٹ بھی پاک ہے۔

            مسئلہ  :  مچھلی کا خون نجس نہیں ہے اگر لگ جائے تو کچھ ہرج نہیں۔اسی طرح مکھی،کھٹمل،مچھر کا خون بھی نجس نہیں ہے

            مسئلہ  :  اگر پیشاب کی چھینٹیں سوئی کی نو ک کے برابر پڑ جائیں کہ جب تک غور سے نہ دیکھیں دکھائی نہ دیں تو اس کا کچھ ہرج نہیں۔دھونا واجب نہیں لیکن اگر دھولیں تو بہتر ہے۔

                نجاستوں کا حکم

            نجاست غلیظہ میں سے اگر پتلی اور بہنے والی چیز کپڑے یا بدن پر لگ جائے اور وہ اگر پھیلاؤ میں ایک درہم یعنی ہتھیلی کے گہراؤ (پونے تین سم قطر )کے پھیلاؤ یعنی5.94مربع سم کے رقبے کے برابر یا اس سے کم ہو تو معاف ہے یعنی اس کو دھوئے بغیر اگر نماز پڑھ لے تو نماز ہو جائے گی لیکن نہ دھونا اور اسی طرح نماز پڑھتے رہنا مکروہ اور بُرا ہے۔ اور اگر مذکورہ پھیلاؤ سے زیادہ ہو تو وہ معاف نہیں اُس کو دھوئے بغیر نماز نہ ہو گی اور اگر نجاست غلیظہ میں سے گاڑھی چیز لگ جائے پاخانہ اور مرغی وغیرہ کی بیٹ تو اگر وزن میں ایک درہم یعنی ساڑھے چار ماشہ یعنی 4.35 گرام یااس سے کم ہو تو دھوئے بغیر نماز درست ہے اگرچہ اس کا پھیلاؤ کم ہو یا زیادہ ہو اور  اگر اس سے زیادہ وزن لگ جائے تو دھوئے بغیر نماز درست نہیں

            اگر نجاست خفیفہ کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو جس حصے یا عضو میں لگی ہے اگر اس کے چوتھائی سے کم میں لگی  ہو تو معاف ہے اور اگر پورا چوتھائی یا اس سے زیادہ ہو تو معاف نہیں۔یعنی اگر آستین میں لگی ہے تو آستین کی چوتھائی سے کم ہو۔ اگر کلی میں لگی ہے تو اس کی چوتھائی سے کم ہو۔ اگر دوپٹہ میں لگی ہے اس کی چوتھائی سے کم ہو تب معاف ہے۔اسی طرح اگرنجاست خفیفہ ہاتھ میں لگی ہو تو ہاتھ کی چوتھائی سے کم ہو تب معاف ہے اسی طرح اگر ٹانگ میں لگ جائے تو اس کی چوتھائی سے کم ہو تب معاف ہے۔غرضیکہ جس عضو میں لگے اس کی چوتھائی سے کم ہو اور اگر پورا چوتھائی ہو تو معاف نہیں اور اس کا دھونا واجب ہے یعنی دھوئے بغیر نماز درست نہیں۔

            مسئلہ  :  کپڑے میں نجس تیل لگ گیا اور ہتھیلی کے گہراؤ (پونے تین سم قطر کے پھیلاؤ ) سے کم ہے لیکن وہ ایک دن میں پھیل کر زیادہ ہو گیا تو جب تک پونے تین سم قطر کے پھیلاؤسے زیادہ نہ ہو معاف ہے اور جب بڑھ گیا تو معاف نہیں رہا۔اب اس کا دھونا واجب ہے۔دھوئے بغیر نماز نہیں ہو گی۔

               نجاست لگی چیزوں کے پاک کرنے کا طریقہ

            جو چیزیں خود تو نجس نہیں لیکن نجاست کے لگنے کی وجہ سے ناپاک ہو گئیں ان کے پاک کرنے کے یہ طریقے ہیں  :

(١)  دھونا

            پانی اور پانی کی طرح جو چیز پتلی اور پاک ہو اس سے نجاست کا دھونا درست ہے جیسے عرقِ گلاب،تربوز کا پانی سرکہ وغیرہ یعنی جن سے کپڑا بھگو کر نچوڑیں تو نچڑ جائے۔مستعمل پانی سے بھی نجاست دور کرنا جائز ہے۔

            جس چیز میں چکنائی ہو اور جو نچڑ نہ سکے جیسے گھی،تیل،دودھ وغیرہ اس سے دھونا درست نہیں۔اس کے استعمال کے باوجود وہ چیز ناپاک رہے گی۔

            اگر نجاست ایسی ہو کہ نجاست چھُوٹ جانے اور سادہ ٹھنڈے پانی کے ساتھ کئی دفعہ کے دھونے کے باوجود اس کا اثر یعنی رنگ اور بو یا تو سِرے سے دور نہ ہوتا ہو یا صابن وغیرہ کے استعمال سے ہی دور ہوتا ہو ویسے نہ ہوتا ہو تو صابن کا استعمال ضروری نہیں۔

            اور اگر سادہ پانی کے استعمال سے ہی نجاست کا اثر بھی دور ہو جاتا ہے تو اتنا دھوئے کہ نجاست بھی چھوٹ جائے اور دھبہ بھی جاتا رہے۔

تنبیہ:  اگر نجاست پہلی ہی دفعہ کے دھونے میں چھُوٹ جائے تو دو مرتبہ اور دھو لینا بہتر ہے۔اگر دو مرتبہ میں چھُوٹی تو ایک مرتبہ اور دھوئے۔غرض یہ کہ تین بار پورے کر لینا بہتر ہے۔

(٢)  پونچھنا

            آئینہ کا شیشہ،چھری، چاقو، چاندی،سونے کے زیورات،پیتل، تانبے،لوہے، گلٹ، شیشے وغیرہ کی چیزیں اگر نجس ہو جائیں تو خوب پونچھ لینے اور رگڑ دینے یا مٹی سے مانجھ ڈالنے سے پاک ہو جاتی ہیں۔لیکن اگر نقشین یا کھردری  چیزیں ہوں تو دھوئے بغیر پاک نہ ہوں گی۔

دھونے اور پونچھنے سے متعلق تفصیل

            نجاست دو طرح کی ہوتی ہے۔

            (1)  جو سوکھنے کے بعد بھی نظر آتی ہے یعنی گاڑھی نجاست جیسے پاخانہ اور خون۔

            (2)  جو سوکھنے کے بعد نظر نہیں آتی یعنی پتلی نجاست جیسے پیشاب وغیرہ۔

             پھر جن چیزوں پر نجاست لگے ان کی تین قسمیں ہیں۔

            (١)  وہ چیزیں جو نجاست کو بالکل بھی جذب نہیں کرتیں جیسے لوہے،تانبے وغیرہ کے برتن اور ہر قسم کی دھات کے زیور۔

            (٢)  وہ چیزیں جو قلیل نجاست کو جذب کرتی ہیں مثلاً جوتی،چمڑے کا موزہ اور بدن وغیرہ۔

            (٣)  وہ چیزیں جو کثیر نجاست کو جذب کرتی ہیں جیسے کپڑے وغیرہ۔

            (١)  جو چیزیں نجاست کو بالکل جذب نہیں کرتیں مثلاً برتن زیور وغیرہ۔

            (i) اگر ان پر گاڑھی نجاست لگی ہو تو نجاست کو زائل کرنے سے وہ چیزیں پاک ہو جاتی ہیں۔پھر اگر وہ برتن وغیرہ ہموار ہوں تو ان کے پاک کرنے کے دو طریقے ہیں

            (الف)  کپڑے یا مٹی ان کو خوب پونچھ لیا جائے یا رگڑ لیا جائے۔

            (  ب  )   پانی سے اتنا دھویا جائے کہ وہ نجاست دور ہو جائے۔

             اور اگر وہ برتن وغیرہ نقشین یا کھردرے ہوں تو ان کو پاک کرنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ ان کو دھویا جائے یہاں تک کہ نجاست بالکل دور ہو جائے اور نظر نہ آئے۔ایسے برتنوں اور زیور کو پونچھنا مفید نہ ہو گا کیونکہ نجاست نقوش کے درمیان ریخوں میں جم جائے گی۔

            (ii)  اگر ان پر پتلی نجاست لگی ہو تو خواہ برتن ہموار ہو یا نقشین و کھردرا ہو دونوں صورتوں میں پاک کرنے کے لیے تین مرتبہ دھوئے اور ہر مرتبہ دھو کر اتنی دیر ٹھہرے کہ برتن وغیرہ سے پانی ٹپکنا بند ہو جائے۔

            (٢)  جو چیزیں قلیل نجاست کو جذب کرتی ہیں جیسے جوتی،موزہ وغیرہ۔

            (i) اگر ان پر گاڑھی نجاست لگی ہو جیسے گوبر،پاخانہ،خون وغیرہ تو جوتی موزہ کو زمین پر خوب گھس کر نجاست چھڑا ڈالنے سے پاک ہو جاتا ہے اور اگر اتنا پانی بہا لے کہ نجاست دور ہو جائے تو اس سے بھی پاک ہو جائے گا اور اگر اتنا پانی بہا لے کہ نجاست دور ہو جائے تو اس سے بھی پاک ہو جائے گا۔

            (ii)  اگر ان پر پتلی نجاست لگی ہو مثلاً پیشاب وغیرہ تو صرف تین مرتبہ دھونا پڑے گا،ہر مرتبہ سکھانے کی ضرورت نہیں۔

            البتہ اگر جوتی موزہ نجاست میں اتنی دیر پڑا رہے کہ وہ نجاست کو خوب جذب کر لے تو پھر اس کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو پانی میں خوب اچھی طرح بھگو کر چھوڑ دے جب پانی ٹپکنا بند ہو جائے تو پھر اسی طرح دھوئے اور ٹھہرے،ایسا تین مرتبہ کرے۔

            (٣)  جو چیزیں کثیر نجاست کو جذب کرتی ہیں جیسے کپڑا وغیرہ۔

            ( i )   اگر ان پر گاڑھی نجاسست لگی ہو تو اس کو اتنا دھویا جائے کہ نجاست دور ہو جائے۔ اگر محض پانی کے ساتھ دھونے سے نجاست کا دھبہ بھی چھوٹ جاتا ہے تو اتنا دھوئے کہ دھبہ بھی چھوٹ جائے اور اگر محض پانی سے نہیں چھُوٹتا تو اس کو چھُڑانے کے لیے صابن وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے تو صابن سے دھبہ کو چھُڑانا ضروری نہیں۔دھبہ لگا بھی رہے تب بھی کپڑا پاک ہو جائے گا۔

            (ii)  اگر پتلی نجاست لگی ہو تو اگر وہ چیزیں نچڑ سکتی ہوں تو ہر مرتبہ نچوڑے اور تیسری مرتبہ پوری طاقت لگا کر خوب زور سے نچوڑے تب پاک ہو گا۔ اگر خوب زور سے نہ نچوڑے گا تو کپڑا پاک نہ ہو گا۔

            اور اگر وہ ایسی چیز ہے جس کو نچوڑ نہیں سکتے جیسے قالین،دری،کمبل، گدا وغیرہ تو اس کے پاک کرنے طریقہ یہ ہے کہ تین دفعہ دھوئے اور ہر دفعہ دھو کر ٹھہر جائے۔جب پانی ٹپکنا بند ہو جائے تو پھر دھوئے اس کے پاک ہونے کے لیے تین دفعہ ایسا کرنا شرط ہے۔

            البتہ اگر معلوم ہو کہ دری، قا لین وغیرہ نے نجاست کو جذب نہیں کیا صرف اوپر ہی اوپر لگی ہے تو ازالہ سے یا تین مرتبہ دھونے سے پاک ہو جائے گا۔ہر مرتبہ اتنا ٹھہرنا کہ قطرے ٹپکنا موقوف ہو جائیں اس کی ضرورت نہیں۔

 تنبیہ : تین دفعہ دھونے اور نچوڑنے وغیرہ کا مسئلہ ا ُس وقت ہے جب تھوڑے پانی سے دھویا جائے۔ اگر کھلا پانی ہو مثلاً کھلے نلکے کے نیچے کپڑے کو رکھ دیا یا نہر میں ڈال دیا اور ا تنا پانی اس پر سے بہہ گیا کہ اطمینان ہو گیا کہ نجاست دور ہو گئی ہو گی تو کپڑا پاک ہو جائے گا، نچوڑنے کی بھی ضرورت نہیں۔

            مسئلہ  :  نجس مہندی ہاتھوں پیروں میں لگائی تو تین دفعہ خوب دھو ڈالنے سے ہاتھ پیر پاک ہو جائیں گے۔ رنگ کا چھُڑانا واجب نہیں۔

            مسئلہ  :  ناپاک رنگ اگر جسم یا کپڑے میں لگ جائے یا بال اس ناپاک رنگ سے رنگین ہو جائیں تو صرف اس قدر دھونا کہ پانی صاف نکلنے لگے کافی ہے اگرچہ رنگ دُور نہ ہو۔

            مسئلہ  :  ایسی ناپاک چیز جو چکنی ہو جیسے تیل،گھی،مُردار کی چربی اگر کسی چیز میں لگ جائے اور اس قدر دھوئی جائے کہ پانی صاف نکلنے لگے تو پاک ہو جائے گی اگرچہ اس ناپاک چیز کی چکناہٹ باقی ہو۔

            مسئلہ  :  اگر کورا برتن نجس ہو جائے اور وہ برتن نجاست کو چوس لے تو فقط دھونے سے پاک نہ ہو گا بلکہ اس میں پانی بھر دے۔پھر جب نجاست کا اثر پانی میں آ جائے تو گرا کر پھر بھر دے۔ اسی طرح مسلسل کرتا رہے۔ جب نجاست کا نام و نشان بالکل جاتا رہے۔ رنگ باقی رہے نہ بد بو تب پاک ہو گا۔

            مسئلہ  :  شہد، شیرہ، گھی یا تیل ناپاک ہو گیا ہو تو جتنا تیل وغیرہ ہو، اتنا یا اس سے زیادہ پانی ڈال کر پکائے جب پانی جل جائے تو پھر پانی ڈال کر پکائے اسی طرح تین دفعہ کرنے سے پاک ہو جائے گا یا یوں کرو کہ جتنا گھی تیل ہو اتنا ہی پانی ڈ ال کر ہلاؤ جب وہ پانی کے اوپر آ جائے تو کسی طرح اٹھا لو۔اسی طرح تین دفعہ پانی ملا کر اُٹھاؤ تو پاک ہو جائے گا۔اور گھی اگر جم گیا ہو تو پانی ڈال کر آگ پر رکھ دو جب پگھل جائے تو اس کو نکال لو۔

(٣)  خشک ہو کر اُس کا اثر جاتے رہنا

            زمین پر نجاست پڑ گئی پھر ایسی سوکھ گئی کہ نجاست کا نشان بالکل جاتا رہا،نہ تو نجاست کا دھبہ ہے نہ بد بو آتی ہے  تو اس طرح سُوکھ جانے سے زمین پاک ہو جاتی ہے لیکن ایسی زمین پر تیمم کرنا درست نہیں البتہ نماز پڑھنا درست ہے۔ جو اینٹیں یا پتھر، چونا یا گارے سے زمین میں خوب جما دئیے گئے ہوں کہ بے کھودے زمین سے جدا نہ ہو سکیں ان کا بھی یہی حکم ہے کہ سُوکھ جانے اور نجاست کا نشان نہ رہنے سے پاک ہو جائیں گے۔

            مسئلہ  :  جو اینٹیں زمین پر فقط بچھا دی گئی ہوں چونا یا گارے سے سے ان کی جڑائی نہیں کی گئی ہے تو وہ سوکھنے سے پاک نہ ہوں گی اُن کو دھونا پڑے گا۔

            مسئلہ  :  زمین پر جمی ہوئی گھاس بھی سوکھنے اور نجاست کا نشان جاتے رہنے سے پاک ہو جاتی ہے اگر کٹی ہوئی گھاس ہو تو بغیر دھوئے پاک نہ ہو گی۔

(٤)  جلانا

            مسئلہ  :  نجس چاقو، چھری یا مٹی اور تانبے وغیرہ کے برتن اگر دہکتی آگ میں ڈال دئیے جائیں تو بھی پاک ہو جاتے ہیں۔

            مسئلہ  :  نجس مٹی سے جو برتن کمہار نے بنائے تو جب تک وہ کچے ہیں ناپاک ہیں،جب پکائے گئے تو پاک ہو گئے۔

             مسئلہ  :  تنور ا گر نجس پانی یا پیشاب لگنے سے ناپاک ہو جائے تو اس میں آگ جلانے سے پاک ہو جائے گا بشرطیکہ گرم ہونے کے بعد نجاست کا اثر نہ رہے۔

(۵)  حقیقت کا بدل جانا

            مسئلہ  :  گوبر کے کنڈے اور لید وغیرہ نجس چیزوں کی راکھ پاک ہے اور ان کا دھُواں بھی پاک ہے۔ روٹی  میں لگ جائے تو کچھ حرج نہیں۔

            مسئلہ  :  ناپاک تیل یا چربی کا صابن بنا لیا جائے تو پاک ہو جائے گا۔

            مسئلہ  :  شراب جب سرکہ بن جائے تو پاک ہو جاتی ہے۔

            مسئلہ  :  کوئی جانور نمک کی کان میں گر کر نمک بن جائے یا کسی کنویں یا حوض میں گر کر مٹی کے سا تھ مٹی ہو جائے تو پاک ہے۔

(٦)  چمڑے کا دباغت سے پاک ہونا

            آدمی اور خنزیر کے سوا ہر مُردہ جانور کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے۔آدمی کی کھال اس کے احترام کی وجہ سے اور خنزیر کی کھال اس کے نجس العین ہونے کی وجہ سے پاک نہیں ہوتی۔

 (٧)  ذبح سے پاک ہونا

            جس جانور کا چمڑا دباغت سے پاک ہو جاتا ہے ذبح سے بھی پاک ہو جاتا ہے بشرطیکہ شرعی ذبح ہو۔ البتہ گوشت و چربی میں ترجیح اس کو ہے کہ وہ ذبح سے پاک نہیں ہوتی۔

(٨)  مَلنا کھُرچنا

            منی اگر کپڑے پر لگ جائے تو اگر تر ہے تو دھونا واجب ہے اور اگر کپڑے کو لگ کر خشک ہو گئی تو اس کو مل کر کھرچ دینا بھی کافی ہے اگرچہ بیماری کی وجہ سے پتلی ہو گئی ہو۔یہ حکم اس وقت ہے جب پیشاب کی نلی کا سرا اس سے پہلے پاک ہو پیشاب نہ لگا ہو۔

            مسئلہ  :  منی اگر بدن کو لگ جائے تو اس کا بھی یہ حکم ہے کہ اگر خشک ہو گئی ہو تو کھُرچ دینے سے بدن پاک  ہو جاتا ہے اور تر ہو تو دھونا ضروری ہے۔

(٩)  گِھسنااور رگڑنا

            چمڑے کے موزہ پر اگر نجاست لگ جائے اور وہ نجاست جسم دار ہے جیسے پاخانہ،لید،گوبر اور منی وغیرہ۔اگر وہ خشک ہو جائے توگِھسنے یا رگڑنے سے موزہ پاک ہو جائے گا اور اگر تر ہے تو دھونے کے طریقے کے علاوہ اگر اس کو اچھی طرح پونچھ لیا اور گھس لیا کہ نجاست کا کچھ اثر یعنی رنگ و بو باقی نہ رہے تو پاک ہو جائے گا۔اور اگر نجاست پتلی ہو جیسے پیشاب وغیرہ تو اگر گیلے ہی پرمٹی راکھ یا ریت ڈال کر اس کو رگڑ دیں اور اچھی طرح پونچھ دیں تو پاک ہو جائے گا۔

               متفرقات

             مسئلہ  :  اگر ٹوٹے ہوئے دانت کو جو ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا ہو اس کی جگہ پر رکھ کر جما دیا جائے خواہ پاک چیز سے یا ناپاک چیز سے اور اسی طرح اگر کوئی ہڈی ٹوٹ جائے اور اس کے بدلے کوئی ناپاک ہڈی رکھ دی جائے یا کسی زخم میں کوئی ناپاک چیز بھر دی جائے اور  وہ اچھا ہو جائے تو اس کو نکالنا نہ چاہئے بلکہ وہ خود بخود پاک ہو جائے گا۔

            مسئلہ  :  ناپاک زمین پر مٹی وغیرہ ڈال کر نجاست چھپا دی جائے اس طرح کہ نجاست کی بو نہ آئے تو مٹی کے اوپر کا حصہ پاک ہے۔

            مسئلہ  :  گندے اور نجس پانی کو اگر مشینوں سے صاف و شفاف بنا لیا جائے تب بھی وہ نجس ہی رہے گا پاک نہیں ہو گا۔

            مسئلہ  :  کپڑا ڈرائی کلین کرانے میں اگر کسی دلیل سے گمان غالب یا یقین ہو کہ دوسرا کوئی کپڑا ناپاک تھا تو اپنا  کپڑا بھی ناپاک ہو جائے گا اور اگر محض شک ہے کہ شاید کوئی دوسرا کپڑا ناپاک ہو تو اپنا کپڑا اپنی حالت پر رہے گا۔اگر پہلے سے پاک تھا تو اب بھی پاک ہو گا اور اگر پہلے ناپاک تھا تو ڈرائی کلین کے بعد بھی ناپاک ہو گا۔

            اگر واشنگ مشین میں کپڑے دھوئے اور معلوم ہے کہ ان میں کوئی کپڑا ناپاک تھا تو صابن ڈال کر دھونے میں سب کپڑے نجس ہو جائیں گے۔لیکن پھر بعد میں اگر ہر کپڑے کو علیحدہ علیحدہ تین مرتبہ صاف پانی سے دھویا اور ہر مرتبہ کپڑے کو اچھی طرح نچوڑا تو کپڑے پاک ہو جائیں گے یا کپڑے کو نل کے نیچے رکھ کر اس پر اتنا پانی بہا دیا کہ اطمینان ہو گیا کہ نجاست زائل ہو گئی ہو تو تب بھی کپڑے پاک ہو جائیں گے۔

            مسئلہ  :  مُردار کی کھال کو جب دھوپ میں سُکھا ڈالیں یا کچھ دوا وغیرہ لگا کر درست کر لیں تو پاک ہو جاتی ہے۔ اس پر نماز پڑھنا درست ہے اور مشکیزہ وغیرہ بنا کر اس میں پانی رکھنا بھی درست ہے۔لیکن سُور کی کھال پاک نہیں ہوتی اور سب کھالیں پاک ہو جاتی ہیں مگر آدمی کی کھال سے کام لینا اور برتنا بہت گناہ ہے۔

            مسئلہ  :  مُردار کے بال،سینگ،ہڈی اور دانت یہ سب چیزیں پاک ہیں۔اگر پانی میں پڑ جائیں تو نجس نہ ہو گا البتہ ہڈ ی اور دانت وغیرہ پر اس مُردار جانور کی کچھ چکنائی وغیرہ لگی ہو تو وہ نجس ہے اور پانی بھی نجس ہو جائے گا۔

            مسئلہ  : آدمی کی بھی ہڈی اور بال پاک ہیں لیکن ان کو برتنا اور کام میں لانا جائز نہیں بلکہ عزت سے کسی جگہ دفن کر دینا چاہیے۔

            مسئلہ  : فصد کے مقام یا کسی اور عضو کو جو خون پیپ کے نکلنے سے نجس ہو گیا ہو اور دھونا نقصان کرتا ہو تو تین تر دھجیوں سے پونچھ دینا بھی کافی ہے یہی دھو نے کے برابر ہے۔ اور آرام ہونے کے بعد بھی دھونا ضروری نہیں۔

            مسئلہ  :  ہاتھ میں کوئی نجس چیز لگی تھی اس کو کسی نے زبان سے تین دفعہ چاٹ لیا تو بھی پاک ہو جائے گا مگر چاٹنا منع ہے۔یا عورت کی چھاتی پر بچے کی قے کا دودھ لگ گیا پھر بچے نے تین دفعہ چُوس کر پی لیا تو پاک ہو گیا۔

             مسئلہ  :  نجس سُرمہ یا کاجل آنکھوں میں لگایا تو اُس کا پونچھنا اور دھونا واجب نہیں البتہ اگر پھیل کر آنکھ کے باہر آ گیا ہو تو دھونا واجب ہے۔

            مسئلہ  :  کپڑا اور بدن فقط دھونے سے ہی پاک ہو تا ہے چاہے دل دار نجاست لگے یا بے دل کی کسی اور طرح پاک نہیں ہوتا۔ مگر سُوکھی منی کپڑے یا بدن میں لگی ہو تو خوب کھرچ کر مل ڈالنے سے پاک ہو جائے گا۔بشرطیکہ منی نکلنے

 

               نجاست سے متعلق چند مسائل

            مسئلہ  :  اکہرے کپڑے میں ایک طرف معاف مقدار سے کم نجاست لگے اور دوسری طرف سرایت کر جائے اور ہر طرف مقدار سے کم ہو لیکن دونوں کا مجموعہ اس مقدار سے بڑھ جائے تو وہ کم ہی سمجھی جائے گی اور معاف ہو گی۔ ہاں اگر کپڑا دہرا ہو اوراس مقدار سے بڑھ جائے تو وہ زیادہ سمجھی جائے گی اور معاف نہ ہو گی۔

            مسئلہ  :  نجس پانی میں جو کپڑا بھیگ گیا تھا اس کے ساتھ پاک کپڑے کو لپیٹ کر رکھ دیا اور اس کی تری اس پاک کپڑے میں آ گئی لیکن نہ تو اس میں نجاست کا کچھ رنگ آیا نہ بدبو آئی تو اگر یہ پاک کپڑا اتنا بھیگ گیا ہو کہ نچوڑنے سے ایک آدھ قطرہ ٹپک پڑے یا نچوڑتے وقت ہاتھ بھیگ جائے تو وہ پاک کپڑا بھی نجس ہو جائے گا۔ اور اگر اتنا نہ بھیگا ہو تو پاک رہے گا۔اور اگر پیشاب وغیرہ خاص نجاست کے بھیگے ہوئے کپڑے کے ساتھ لپیٹ دیا تو جب پاک کپڑے میں ذرا بھی اس کی نمی اور دھبہ آ گیا تو نجس ہو جائے گا۔

            مسئلہ  :  بچھو نے کا ایک کونہ نجس ہے اور باقی سب پاک ہے تو پاک کونے پر نماز پڑھنا درست ہے۔

            مسئلہ  :  جس زمین کو گوبر سے لیپا ہو وہ نجس ہے اس پر کوئی پاک چیز بچھائے بغیر نماز درست نہیں۔

            مسئلہ  :  گوبر سے لیپی ہوئی زمین اگرسوکھ گئی ہو تو اس پر گیلا کپڑا بچھا کر بھی نماز پڑھنا درست ہے لیکن وہ اتنا گیلا نہ ہو کہ اس زمین کی کچھ مٹی چھوٹ کر کپڑے میں لگ جائے۔

            مسئلہ  :  پیر دھو کر ناپاک زمین پر چلا، پیر کا نشان زمین پر بن گیا تو اس سے پیر نا پاک نہ ہو گا۔ہاں اگر پیر کے پانی سے زمین اتنی بھیگ جائے کہ زمین کی کچھ مٹی یا نجس پانی پیر میں لگ جائے تو نجس ہو جائے گا۔

            مسئلہ  :  نجس بچھونے پر سو یا اور پسینہ سے وہ کپڑا نم ہو گیا توا س کا بھی یہی حکم ہے کہ اس کا کپڑا اور بدن ناپاک نہ ہو گا۔

            مسئلہ  :  راستوں کی کیچڑ اور ناپاک پانی معاف ہے بشرطیکہ بدن یا کپڑے میں نجاست کا اثر معلوم نہ ہو۔باقی  احتیاط یہ ہے کہ جس شخص کی بازار اور راستوں میں زیادہ آمد و رفت نہ ہو یا ہوتی ہو لیکن وہ آنے جانے کے لیے عام طور سے کاراستعمال کرتا ہو تو یہ شخص ایسی نجاست لگنے سے بدن اور کپڑے پاک کر لیا کرے چاہے ناپاکی کا اثر محسو س نہ بھی ہو۔

            مسئلہ  :  نجاست کے اوپر جو گرد و غبار ہو وہ پاک ہے بشرطیکہ نجاست کی تری نے اس میں اثر کر کے اس کو تر نہ کر دیا ہو۔

            مسئلہ  :  جس پانی سے کوئی نجس چیز دھوئی جائے وہ نجس ہے خواہ وہ پانی پہلی دفعہ کا ہو یا دوسری دفعہ کایا تیسری دفعہ کا لیکن ان پانیوں میں اتنا فرق ہے کہ اگر پہلی دفعہ کا پانی کسی کپڑے میں لگ جائے تو یہ کپڑا تین دفعہ دھونے سے پاک ہو گا اور اگر دوسری دفعہ کا پانی لگ جائے تو صرف دو دفعہ دھونے سے پاک ہو گا اور اگر تیسری دفعہ کا لگ جائے تو ایک ہی دفعہ دھونے سے پاک ہو جائے گا۔

            مسئلہ  :  جب سو کر اُٹھے تو جب تک پہنچوں تک ہاتھ نہ دھو لے اس وقت تک کسی برتن میں موجود پانی میں ہاتھ  نہ ڈالے چاہے ہاتھ پاک ہو چاہے ناپاک ہو۔ اگر پانی چھوٹے برتن میں رکھا ہو جیسے لوٹا،آبخورہ تو اسے بائیں ہاتھ سے اٹھا کر دائیں ہاتھ پر ڈالے اور تین دفعہ دھوئے،پھر برتن داہنے ہاتھ میں لے کر بایاں ہاتھ تین دفعہ دھوئے اور اگر چھوٹے برتن میں پانی نہ ہو، بڑے مٹکے وغیرہ میں ہو تو کسی آبخورے یا گلاس وغیرہ سے نکال لے لیکن انگلیاں پانی میں نہ ڈوبنے پائیں۔

            مسئلہ  :  ناپاک چیز پانی میں گرے اور اس کے گرنے سے چھینٹیں اُڑ کر کسی پر جا پڑیں تو وہ پاک ہیں بشرطیکہ اس نجاست کا کچھ اثر ان چھینٹوں میں نہ ہو۔

            مسئلہ  :  رومالی گیلی ہونے کے وقت ہو ا نکلے تو اس سے کپڑانجس نہیں ہوتا۔

               پاکی ناپاکی کے بعض مسائل

            مسئلہ  :  غلہ گاہنے کے وقت ا گر بیل غلہ میں پیشاب کر دیں تو مجبوری کی وجہ سے وہ معاف ہے یعنی غلہ اس سے ناپاک نہ ہو گا اور اگر اس وقت کے سوا دوسرے وقت میں پیشاب کریں تو ناپاک ہو جائے گا۔اس لیے کہ یہاں مجبوری نہیں۔

            مسئلہ  :  کافر کھانے کی جو شے بناتے ہیں اس کو اور اسی طرح ان کے برتن اور کپڑے وغیرہ کو ناپاک نہ کہیں گے تاوقتیکہ ان کا ناپاک ہونا کسی دلیل یا قرینہ سے معلوم نہ ہو۔

            مسئلہ   :  کھانے کی چیزیں اگر سڑ جائیں اور بو کرنے لگیں تو ناپاک نہیں ہوتیں جیسے گوشت،حلوہ وغیرہ مگر نقصان کے خیال سے ان کو کھانا درست نہیں۔

            مسئلہ  :  مشک اور اس کا نافہ پاک ہے اور اسی طرح عنبر وغیرہ بھی (ہرن کے اندر جس جگہ سے مشک نکلتا ہے اسے نافہ کہتے ہیں )۔

            مسئلہ  :  سوتے میں آدمی کے منہ سے جو پانی نکلتا ہے وہ پاک ہے۔

            مسئلہ  :  گندا انڈا حلال جانور کا پاک ہے بشرطیکہ ٹوٹا نہ ہو۔

            مسئلہ  :  مردہ انسان کے منہ کا لعاب نجس ہے۔

مسئلہ  :  دودھ دوہتے وقت دو ایک مینگنی دودھ میں پڑ جائیں یا تھوڑا سا گوبر بقدر دو ایک مینگنی کے گر جائے تو معاف ہے بشرطیکہ گرتے ہی نکال ڈالا جائے۔

            مسئلہ  :  کتے نے آٹے میں منہ ڈال دیا یا بندر نے جھوٹا کر دیا تو اگر آٹا گندھا ہوا ہو تو جہاں منہ ڈالا ہے اتنا نکال ڈالے باقی کا کھانا درست ہے اور اگر سوکھا آٹا ہو تو جہاں جہاں اس کے منہ کا لعاب لگا ہو نکال ڈالے باقی سب پاک ہے۔

             مسئلہ  :  کتے کا لعاب نجس ہے اور خود کتا نجس نہیں۔سو اگر کتا کسی کے کپڑے یا بدن سے چھو جائے تو نجس نہیں ہوتا چاہے کتے کا بدن سُو کھا ہو یا گیلا۔البتہ اگر کتے کے بدن پر نجاست لگی ہو تو اور بات ہے۔

            مسئلہ  :  سانپ کی کینچلی پاک ہے لیکن اس کی کھال جواس کے جسم کے ساتھ لگی ہوتی ہے وہ نجس ہوتی ہے۔

            مسئلہ  :  نجاست اگر جلائی جائے تو اس کا دھواں پاک ہے اور ا گر جم جائے اور اس سے کوئی چیز بنائی جائے تو وہ بھی پاک ہے۔

            مسئلہ  :  نجاستوں سے جو بخارات اُٹھیں وہ پاک ہیں۔

            مسئلہ  :  پھل وغیرہ کے کیڑے پاک ہیں لیکن ان کا کھانا درست نہیں جب کہ ان میں جان پڑ گئی ہو اور گولر وغیرہ سب پھلوں کے کیڑوں اور سرکہ کے کیڑوں کا بھی یہی حکم ہے۔

               ناپاک چیز کا بطور دوا استعمال

            مسئلہ  :  جو چیز نجس العین ہے یعنی خود ناپاک ہے جیسے پاخانہ،پیشاب،شراب،مردار(یعنی اس کا گوشت اور چربی وغیرہ )اور خنزیر کا گوشت اور ذبح کیے ہوئے حرام جانور کا گوشت اور چربی وغیرہ تو ایسی چیز کا نہ تو خارجی استعمال درست ہے کہ جسم پر کہیں اس کا لیپ کرے یا ملے اور نہ ہی داخلی استعمال درست ہے کہ اس کو کھائے پیئے۔

            اور جو چیز دوسری چیز کے ملانے سے نجس ہوئی ہے اس کا داخلی استعمال درست نہیں البتہ خارجی استعمال    درست ہے جیسے ناپاک پانی یا وہ سرمہ جس میں پتہ کا پانی ( Bile)ملایا گیا ہو جبکہ سرمہ میں دیگر چیزوں کے مقابلے میں یہ پانی کم ہو۔اس استعمال کی صورت میں ہر نماز کے وقت دھونا اور باقاعدہ پاک کرنا ضروری ہے۔

تنبیہ :  ایسی ناپاک چیز کے خارجی استعمال سے بھی پرہیز کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ بعض اوقات شدت مرض میں خیال نہیں رہتا اور کپڑوں میں بھی یہ نجس دو الگ جاتی ہے یا بغیر دھوئے ہاتھ کسی برتن میں پڑ جاتا ہے اور وہ برتن اور  پانی ناپاک نہیں۔ہاں اگر طبیب حاذق دیندار کی یہ رائے ہو کہ اس مرض کا علاج سوائے شیر کی چربی کے اور کچھ نہیں تو ایسی حالت میں بعض علماء کے نزدیک درست ہے لیکن نماز کے وقت اس کو پاک کرنا ضروری ہے۔

استنجا کا بیان

            مسئلہ  :  جو نجاست آگے یا پیچھے کی راہ سے نکلے اور نکلنے کی جگہ سے پھیلی نہ ہو تو اس کی وجہ سے استنجا کرنا سنت موکدہ ہے۔

            مسئلہ  : اگر نجاست بالکل ادر ادھر نہ لگے اور اس لیے پانی سے استنجاء نہ کرے بلکہ پاک پتھر یا ڈھیلے سے استنجا کر لے اور اتنا صاف کر ڈالے کہ نجاست بالکل جاتی رہے تو بھی جائز ہے لیکن یہ بات صفائی مزاج کے خلاف ہے۔البتہ اگر پانی نہ ہو یا کم ہو تو مجبوری ہے۔

            مسئلہ  :  ڈھیلے سے استنجا کرنے کا کوئی خاص طریقہ نہیں بس اتنا خیال رکھے کہ ادھر ادھر نہ پھیلنے پائی اور بدن خوب صاف ہو جائے۔

            تنبیہ  :   حق اور مختار بات یہی ہے کہ استنجے کے لیے کوئی کیفیت مخصوص نہیں اور نہ کوئی عدد مسنون ہے بلکہ مقصود صفائی فقہاء کا کیفیات بتلانا تو ان کا مقصود یہ نہیں ہے کہ یہ کیفیات ہیں بلکہ انہوں نے اپنے ذہن میں جس کی کیفیت کو صفائی میں مدد گار سمجھا اس کو بتلا دیا۔ البتہ استنجا میں تین ڈھیلے استعمال کرنا مستحب ہے۔

            مسئلہ  :  ڈھیلے سے استنجا کرنے کے بعد پانی سے استنجا کرنا سنت ہے لیکن اگر نجاست ہتھیلی کے گہراؤ سے زیادہ پھیل جائے تو ایسے وقت میں پانی سے دھونا واجب ہے۔ دھوئے بغیر نماز نہ ہو گی اور اگر نجاست پھیلی نہ ہو تو صرف ڈھیلے سے پاک کر کے بھی نماز درست ہے لیکن سنت کے خلاف ہے۔

            مسئلہ  :  پانی سے استنجا کرے تو پہلے دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک دھوئے پھر تنہائی کی جگہ جا کر بدن ڈھیلا کر کے بیٹھے اور اتنا دھوئے کہ دل کہنے لگے کہ اب بدن پاک ہو گیا ہے۔البتہ اگر کوئی شکی مزاج ہو تو وہ تین دفعہ یاسات دفعہ دھو لے بس اس سے زیادہ نہ دھوئے۔

            مسئلہ  :  ہڈی اور نجاست جیسے گوبر، لیک وغیرہ اور کوئلہ،کنکر، شیشہ اور پکی اینٹ، کھانے کی چیز اور کاغذ سے اور داہنے ہاتھ سے استنجا کرنا برا اور منع ہے۔ایسا نہ کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی کر لے تو بدن پاک ہو جائے گا۔یعنی استنجاہو جائے گا۔

            مسئلہ  :  کھڑے کھڑے پیشاب کرنا منع ہے۔

            مسئلہ  : چھوٹے بچے کو قبلہ کی طرف بٹھا کر پیشاب پاخانہ کرانا بھی مکروہ اور منع ہے۔

            مسئلہ  :  استنجے کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا درست ہے اور وضو کے بچے ہوئے پانی سے استنجا کرنا بھی درست ہے لیکن نہ کرنا بہتر ہے۔

            مسئلہ  :  جب پاخانہ پیشاب کو جائے تو پاخانہ کے دروازہ سے باہر بِسْمِ اللّٰہِ کہے اور یہ دعا پڑھے اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثْ اور ننگے سرنہ جائے اور اگر کسی انگوٹھی وغیرہ پر اللہ،رسول کا نام ہو تو اس کو اُتار ڈالے اور پہلے بایاں پیر رکھے اور اندر خدا کا نام نہ لے اور اگر چھینک آئے تو فقط دل ہی دل میں الحمد اللہ کہے زبان سے کچھ نہ کہے۔نہ وہاں بولے نہ بات کرے پھر جب نکلے تو پہلے داہنا پیر نکالے اور دروازے سے نکل کر یہ دعا پڑھیغُفْرَ انَکَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْأَذَی وَعَافَانِیْ اور  استنجا کے بعد بائیں ہاتھ کو صابن سے مل کر دھو لے اور اگر صابن نہ ہو تو زمین پر رگڑ کے یا مٹی سے مل کر دھوئے۔

               پیشاب، پاخانہ کے وقت جن اُمور سے بچنا چاہیے

کہ ایسی جگہ جہاں لوگ اُٹھتے بیٹھتے ہوں اور اُن کو تکلیف ہو اورایسی جگہ جہاں سے نجاست بہہ کر اپنی طرف آئے مکروہ ہے۔

جن چیزوں سے استنجا کرنا درست نہیں

             ہڈی،کھانے کی چیزیں، لید اور کل ناپاک چیزیں،وہ ڈھیلا یا پتھر جس سے ایک دفعہ استنجا ہو چکا ہو،پختہ اینٹ،ٹھیکری،شیشہ،کوئلہ،چونا، لوہا،وغیرہ اور ایسی چیزوں سے استنجا کرنا جو نجاست کو صاف نہ کریں جیسے سر کہ وغیرہ وہ چیزیں جن کو جانور وغیرہ کھاتے ہوں جیسے بھس اور گھاس وغیرہ اور ایسی چیزیں جو قیمت دار ہوں خواہ تھوڑی قیمت ہو یا بہت جیسے کپڑا  (یعنی وہ کپڑا جس کو اگر استنجا کے بعد دھویا جائے تو اس کی قیمت میں کمی آ جائے ) عرق وغیرہ، آدمی کے اجزاء جیسے بال،ہڈی،گوشت وغیرہ،مسجد کی چٹائی یا کوڑا یا جھاڑو وغیرہ،درختوں کے پتے، کاغذ خواہ لکھا ہو یا سادہ زمزم کا پانی،روئی اور تمام ایسی چیزیں جن کے انسان یا ان کے جانور نفع اُٹھائیں۔ان تمام چیزوں سے استنجا مکروہ ہے۔

جن چیزوں سے استنجا کرنا درست ہے

            پانی، مٹی کا ڈھیلا،پتھر،بے قیمت کپڑا،ٹشو پیپر اور وہ تمام چیزیں جو پاک ہوں اور نجاست کو دور کریں بشرطیکہ ہل اور قدر و قیمت والی نہ ہوں۔

٭٭٭

ماخذ: جریدے ’انوارِ مدینہ‘ کے مختلف شمارے

تشکر: اردو محفل کے رکن اسد جنہوں نے  ماہنامہ انوار مدینہ کو جلدوں کے متن کی فائلیں فراہم کیں

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید