FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘ کتاب میں مشمولہ ایک طویل کہانی

               مشرف عالم ذوقی

 

کاش عشق زبان رکھتا

تاکہ عاشقوں کے پردے اٹھ جاتے

جب زبان عشق کے راز اور انداز کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے، آسمان پکارتا ہے، اے عشق کو چھپانے والے

کیوں چھپاتا ہے ؟ اون اور روئی میں آگ ہے

جب تو اس کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے، وہ اور زیادہ ظاہر ہو جاتا ہے۔

                          – (مثنوی مولانا روم، دفتر سوم، صفحہ 448)

 

تب کمپیوٹر نہیں تھا

 ’تم اُسے بھول گئے نا؟‘

 ’نہیں کہہ سکتا …‘

 ’لیکن میں یقین سے کہہ سکتی ہوں، اِن پانچ مہینوں میں وہ تمہارے اندر کہیں نہیں ہے …‘

رات کی تاریکی میں ترانہ کی آواز برف کی مانند سرد لگ رہی تھی …

 ’تمہیں ایسا یقین کیوں ہے ؟‘

وہ آہستہ سے ہنسی  — ’کیونکہ وہ صرف ایک تصوراتی دنیا ہے   — ایک پرستان  — پرستان تو بچوں کا ہوتا ہے۔ مگر جب تم جیسے مرد جاتے ہو تو اپنے اندر کے تمام تر چور کے ساتھ  — اندر کی تمام ناکام اور دبی خواہشات کے ساتھ۔ جسے ایک بیوی کے ساتھ بھی شیئر نہیں کر سکتے تم …  وہ تھوڑی سی سنجیدہ ہو گئی تھی۔ لیکن صرف پانچ مہینے میں اُسے بھول جانا۔ سانیال، کم سے کم تم تو دوسرے مردوں کی طرح مت بن جاؤ — ‘

تاریکی مجھ پر حاوی ہو چکی ہے۔ ایک ایسی تاریکی جو چپ چاپ خاموشی سے بالکنی میں آنے کے باوجود، میرے پورے وجود پر حاوی ہے۔ سب کچھ اچانک ہوا تھا نا …  سب کچھ  — جیسے اچانک پوری دنیا بدل گئی۔ اچانک جیسے لہروں کی طرح بدلتے وقت کے ہاتھ میں جادو کا ڈنڈا آ گیا۔ وقت نے اُس جادو کے ڈنڈے کو نچایا۔

 ’سنو عمر۔ اتنا تیز مت بہو۔ وہیں ٹھہر جاؤ …  نہیں پیچھے جاؤ … ؟

زندگی کے جھرنے جیسے، بہتی عمر کی ناؤ کھیتا، چالیس کی پائیدان پر کھڑا شخص پھر سے جوان تھا  — وقت نے جادو کا ڈنڈا پھر سے لہرایا۔ سامنے ایک بے حد حسین اپسرا کھڑی تھی …

لیکن شاید وقت یا جادو کے ڈنڈے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم وہاں، اس دنیا میں جاتے ہی رومانی ہو جاتے تھے   — اُس دنیا میں جہاں بجلی کا ایک معمولی سوئچ آن کرتے ہی، کمپیوٹر اسکرین پر انٹرنیٹ کے دروازے کھل جاتے تھے …

یہاں جادو نہیں تھا —

جادو کا ڈبّہ نہیں تھا —

عمر کا گھوڑا بھی نہیں   — پر اسرار، پریوں کے دیس میں لہراتی ہوئی ایک ندی ہوتی تھی  — حسن کا بازار ہوتا تھا اور اچانک کسی کرشمہ، جادو کی طرح کسی بھی ملک، کسی بھی مذہب، کسی بھی کمیونٹی کی کوئی لڑکی اچانک آپ کے سامنے آ کرپوچھ دیتی تھی  — ڈو یو لائک رومانٹک چیٹ …

اور ایک بے حد حسین اور پر اسرار پرستان کا تصور اپنی تمام تر اداؤں اور جلوہ سامانی کے ساتھ ’کیم‘ یعنی ’نیٹ کیمرے ‘ پر روشن ہو جاتا  — کانوں میں مائیکروفون کے تار ہوتے   — پانی کی لہروں پر جادوئی آواز کے ساتھ، عمر کا بہتا دریا کہیں بہت پیچھے آگ کے انگاروں کے درمیان گم ہو جاتا …

تب یہ دنیا شاید اس قدر نہیں پھیلی تھی …

تب یہ دنیا شاید اس قدر نہیں سکڑی تھی …

آسمان پر چاند روشن تھا۔ تارے ٹمٹما رہے تھے …  نیلے آسمان پر دو ایک بادلوں کے ٹکڑے نظر آئے۔ مگر رم جھم چمکتے تاروں کے قافلوں نے جھومتے ہوئے بادلوں کی اس چادر کو اوڑھ لیا  — پھر اس چادر کو وہیں چھوڑ، جھومتے کارواں کے ساتھ یہ تارے آگے بڑھ گئے …

تب کمپیوٹر نہیں تھا۔

انٹرنیٹ نہیں تھا۔ اپسرائیں نہیں تھیں …  عمر کی اپنی حدیں مقرر تھیں   — اور ان حدوں سے تجاوز کرنا بغاوت سمجھا جاتا تھا۔ تب جادو کا گھوڑا نہیں تھا۔ مگر تب بھی تھی محبت  — شاید موجودہ وقت سے زیادہ آزاد اور پلو ٹونک —جسم کی جگہ سیدھے روح میں اُتر جانے والی محبت — تب چاندنی راتیں تھیں۔ سولہ برس پیچھے لوٹوں تو ہندوستان کے اچھے خاصے چھوٹے شہر کسی گاؤں یا قصبے جیسے لگتے ہیں۔ فون نہیں، ٹیلیفون نہیں۔ موبائیل تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ چھوٹے شہروں میں اپنی تمام تر دقتوں اور پریشانیوں کے باوجود بھی زندگی حسین اور پیاری لگتی تھی۔ تب محبت کی اپنی الگ شکل تھی۔ اپنی ترنگ اور اپنی لہر تھی  — بارش اور خوشبو جیسے تصورات میں محبت کی گنگناتی موجوں کی طرح  — اور آسمان پر دور چمکتے کسی ننھے چمکتے تارے کی طرح  — مگر اس تارے کو دیکھ یا چھو لینا سب کے بس کی بات نہیں تھی —

لیکن شاید عمر کی نازک پائیدان پر ادب سے دوستی ہوتے ہی میرے لیے محبت کے معنیٰ بھی بدل گئے تھے۔ ایک سنسناتی ہوا  — جو آپ کے تمام جسم کو اپنی روانی میں بہا لے جائے۔ بہتے یا اڑتے ہوئے آپ یہ بالکل بھی نہیں سوچیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے   — بلکہ آپ اس لمحہ کی آنچ میں اپنے تمام وجود کو ڈال دیں اور ایک ایک لمحہ کی زندگی اور فنتاسی کو محسوس کریں  —

اور اچانک ترانہ کی شکل میں چھوٹے شہر میں جیسے خود کو خوش قسمت سمجھنے کا موقع مل گیا تھا  — ہرنی سی ترانہ۔ اپنے وجود کی خوشبو کے ساتھ جیسے بس اسی کے لیے بنائی یا لکھی گئی ہو  — چھوٹی چھوٹی دو چند ملاقاتوں کے بعد ہی ہوا میں اڑنے کا احساس  — تب چھوٹے شہر کے لوگ شاید اتنے مہذب نہیں ہوئے تھے۔

یا اتنے زیادہ کمر شیل …

باتیں اڑنے لگی تھی۔ پھیلنے لگی تھیں۔ کالج سے گھر تک قصے کہانیوں کا بازار گرم ہونے لگا تھا۔ سانیال۔ ترانہ —

ترانہ  — سانیال …

لیکن شاید ہم دونوں میں ہی بغاوت بھری تھی۔ یا ہم دونوں کے گھر والے اس بغاوت سے واقف تھے۔ اس دن ترانہ ملی تو جیسے آہستہ آہستہ اپنی روانی میں بڑھتا پیار ایک نئی خوبصورت سی کہانی لکھنے کی تیاری کر رہا تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی تنگ ندی تھی۔ جہاں ہم کھڑے تھے۔ دور ایک ریہڑی والا پیاز اور آلو فروخت کر رہا تھا۔ دو چھوٹے گندے بچے ہماری طرف دیکھتے ہوئے ہنس رہے تھے …

ترانہ نے میرے ہاتھوں کو چھوا  — ’تم گھر کیوں نہیں آئے۔ کیوں ڈرتے ہو …‘

 ’نہیں۔ ڈرتا نہیں …‘

 ’جھوٹ مت بولو۔ ڈر گئے ہو تم۔ کیونکہ شاید ہمارے قصے پھیلنے لگے ہیں۔ معلوم …  اس نے میرے ہاتھوں پر اپنی گرفت سخت کر لی  — میں ساری ساری راتیں جاگتی ہوں۔ گھر کھڑکی، دروازے سب غائب ہو جاتے ہیں   — جیسے کوئی ہوا محل ہو  — میرا پورا چہرہ صرف ایک مسکراہٹ میں بدل جاتا ہے   — اور تم ایک خوبصورت رات کے تصور میں ڈھل جاتے ہو …  میں تمہارا ہاتھ تھامتی ہوں۔ بوسہ لیتی ہوں، اڑتی ہوں۔ اور  …  ہوش کہاں رہتا ہے مجھے۔ گھر کے آنگن میں برسوں پرانا ایک کنواں ہے   — اس کنویں پر خاموش سی آ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ سب سوئے رہتے ہیں۔ اور میں آسمان کے چاند کو دیکھتی رہتی ہوں۔ چاند چھپ جاتا ہے …  اور تم … آ جاتے ہو …  یہ کیا ہے۔ سانیال …  کیا ہے …  یہ؟

 ’سوچنے دو …‘

بتاؤ نا کیا ہے یہ …

ریہڑی والا پیاز لو، آلو لو کی صدائیں لگا رہا ہے۔ دونوں گندے بچے ابھی بھی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں …  ترانہ کے ہاتھ میرے ہاتھوں پر سخت ہو گئے ہیں   — بتاؤ نا، کیا ہے یہ …‘

 ’بتاؤں … ؟‘

 ’ہاں …  بولو نا …‘

 ’تمہارے اندر ’ڈوپامائن‘ اور ’نورے پنیکرین‘ کیمیکل کی سطح بڑھ گئی ہے  — ‘

 ’وہاٹ‘ …  ترانہ چونکتی ہے   — یہ کیا ہے …  ڈوپامائن؟

 ’کیمیکل ہے  … جو دماغ میں خاموشی سے ایک نہیں ختم ہونے والی خوشی کی ترنگیں رکھ دیتا ہے۔ ‘

 ’ترانہ مسکرائی  — یعنی پیار۔ اور وہ۔ نورے … ؟‘

 ’نورے پنیکرین …‘

 ’ہاں وہی …  تم بھی نا سانیال، یہ کیا ہے ؟‘

 ’یہ بھی ایک کیمیکل ہے جو دل میں ہلچل اور جوش پیدا کرتا ہے …‘

ترانہ چونکی  — تو تمہارا پیار بس اتنا ہے۔ ڈوپامائن اور نورے پینکرین کی سطح تک  — اتنا ہی ہے پیار …  ادب سے کیمسٹری کی دنیا کی طرف چلے جانا  — اور کل جو میرے ساتھ ہوا۔ پتہ ہے   — آدھی رات  — گھر کا دروازہ کھول کر خاموشی سے گلی میں تمہاری تلاش میں نکل پڑی۔ پھر اچانک احساس ہوا۔ ارے، یہ میں کیا کر رہی ہوں۔ جاگی تو یکایک ڈر کا احساس ہوا۔ ساری گلی سنسان تھی۔ لوگ اس وقت مجھے دیکھتے تو پتہ نہیں کیا کہتے مجھے۔

 ’کچھ نہیں۔ یہ سیروٹونن کی مسلسل گرتی ہوئی سطح کی وجہ سے ہوا  …‘

 ’مطلب … ؟‘

 ’محبت میں پاگل پن کی حد تک۔ خود کو فنا کر دینے کا احساس …‘

 ’مارونگی تم کو …‘ ترانہ زور سے کھلکھلائی تو ہمیں دیکھنے والے وہ دونوں بچے بھی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

بالکنی سے رات روشن تھی۔ تارے آنکھ مچولی کا کھیل‘ کھیل رہے تھے   — سولہ برس پہلے کا احساس ایک دم بارش کی طرح برس جانا چاہتا تھا۔ تب دل و دماغ پر بس ایک ہی نام کا بسیرا تھا …  ترانہ۔ اور اس نام کے ساتھ ہی جیسے خوشبوؤں کے در کھل جاتے۔ ہوا سرسراتی ہوئی جیسے سارے بدن میں ایک طوفان اٹھا دیتی  — اور تنہائی کے کسی پراسرار لمحے ترانہ کا ایک جملہ میرے ہوش و حواس پر حاوی ہو جاتا۔

 ’میں بس اتنا جانتی ہوں، جسے پیار کروں، وہ مجھے ملنا چاہئے۔ ‘

اس دن دوپہر کے تین بج رہے ہوں گے۔ گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی معلوم ہوا۔ ترانہ اسپتال میں ہے …  بھابھی نے بتاتے ہوئے ایک لمحہ کو میرا چہرہ دیکھا۔ چوکی پر خاموشی سے بیٹھے پاپا نے بھی میری طرف نظریں کر لیں۔ میں نے کتاب وہیں میز پر رکھ دی …

 ’میں جا رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے رات میں بھی نہ آؤں …‘

اتنا کہہ کر میں کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔ میرے لیے کہنا مشکل تھا کہ ترانہ کے اندر ڈوپامائن‘ اور ’نورے پنیکرین‘ کی سطح کتنی بڑھ گئی تھی یا پھر ’سیروٹونن‘ کی سطح کتنی گھٹ گئی تھی  — جو اچانک پاگل پن کی حدوں کو چھوتے ہوئے وہ اسپتال میں بھرتی ہو گئی تھی  — لیکن شاید سب کچھ معمول کے مطابق نہیں تھا۔ کیونکہ گذشتہ ہفتہ ہی اس نے میرے وجود کے ریشے ریشے میں گھلتے ہوئے اپنی جنگ کا اعلان کر دیا تھا …

 ’میری سانسیں سیوئیوں کی طرح ٹوٹتی بکھرتی جا رہی ہیں۔ کیونکہ یہ ہر وقت بس تمہیں دیکھنا چاہتی ہیں   — تم کیوں چلے جاتے ہو سانیال  — کیوں نہیں ایسے رہتے، جیسے میرے کمرے میں میرا ٹھہرا ہوا وقت رہتا ہے۔ اس لمحہ جب تمہیں سوچتے ہوئے تمہارے وجود میں گھل جانے کی خواہش ہوتی ہے …‘

اس کی ہتھیلیوں میں انگارے جمع تھے …  ’کبھی اچانک ایک دھند سی کمرے میں بھر جاتی ہے۔ پھر دنیا بھر کی باتیں میرے کمرے میں گونجنے لگتی ہیں۔ تم یکایک دھند میں کھو جاتے ہو تو لگتا ہے، یہ سانسوں کی سیوئیاں بھی ٹوٹ سی گئی ہوں …  کہیں مت جاؤ پلیز۔ میرے ساتھ رہو۔ اس سے پہلے سانیال، یہ سانسوں کی سیوئیاں بکھر جائیں …‘

قدم تیز تیز اٹھ رہے تھے …  وہ جنرل وارڈ میں تھی۔ جہاں دوچار مریض اور بھی تھے۔ چھوٹے شہروں کی اپنی تاریخ اور تہذیب ہوتی ہے۔ اسے گھیرے ہوئے اس کے محلے کی کئی عورتیں جمع تھیں۔ مجھے دیکھ کر جو اجنبی سی خوشی اس کے چہرے پر لہلہائی، وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ دوسرے ہی لمحہ جنرل وارڈ میں بہت سے لوگوں کی موجودگی کے باوجود وہ میری بانہوں میں تھی …  کمزور بیمار سی …  وہ مجھے بتا رہی تھی …  وہ بول نہیں پا رہی ہے …  آواز چھن گئی ہے۔ میں نے اسے زور سے سینے سے بھینچ لیا  — ترانہ رو رہی تھی …  ’میں اسے سینے سے بھینچے ہوئے محبت میں ڈوبی انگلیوں کو اس کی آنکھوں کے پاس لہراتا کہہ رہا تھا۔ ‘

 ’’میں ہوں نا …  تمہارا سانیال۔ تمہاری آواز۔ تم کہتی تھی نا، ساری دنیا میں کوئی بھی تم سے اچھا نہیں بولتا۔ کسی کی بھی آواز تم سے زیادہ خوبصورت اور سحر انگیز نہیں ہو سکتی۔ ابھی اس لمحہ صرف تمہیں سننا ہے مجھ کو۔ کیونکہ میں اپنی ترانہ کے لیے روح، جسم اور نغمہ سب بن گیا ہوں …  تمہاری آواز …  اس آواز کا سنگیت تمہارے ہونٹوں پر رکھوں گا ترانہ اور تمہارے ہونٹ دنیا کی سب سے حسین لڑکی کے ہونٹ بن جائیں گے …  اور جب تم میرے سُر میں سُر ملا کر جواب دو گی تو یہ کائنات کی سب سے سُریلی آواز ہو گی …  مگر ترانہ …  آج میں تمہاری آواز ہوں۔ اپنی آواز کو بھول کر میری آواز کا لمس محسوس کرو …‘‘

ترانہ سمٹ گئی …  میری پشت پر اس کی ہتھیلیاں سخت ہو گئیں۔ میری شرٹ گیلی ہو رہی تھی۔ میں نے اس کا چہرہ اٹھایا تو وہ مسکرا رہی تھی۔ ایسی مسکراہٹ  — جسے شاید دنیا کی چند عظیم شاہکار مصوری کے نمونے میں ہی تلاش کیا جا سکے۔

اس رات میں جنرل وارڈ میں اس کے پاس والی چوکی پر ہی سویا۔ یہ سب جانتے ہوئے کہ چھوٹے شہر کی سنسنی دیتی ہوائیں ہم دونوں کی کہانی کی خوشبو کو لیتی ہوئی اڑ گئی ہیں۔

اب یہ کہانیاں اڑیں گی۔ پھیلیں گی …  مگر شاید آگے کی صورت حال پر غور و فکر کرتے ہوئے میں مطمئن تھا۔ یا پھر یوں کہنا چاہئے کہ اب مجھے کسی کی بھی پروا نہیں تھی —

تب نیٹ نہیں تھا، موبائیل بھی نہیں تھے …  چھوٹی چھوٹی آسانیاں بھی ہم سے بہت دور تھیں۔ لیکن محبت کا کرشمہ اور جادو اپنی پوری شدت کے ساتھ تب بھی موجود تھا، اور شاید آج سے بھی زیادہ تھا  — باہر بالکنی میں دودھیا چاندنی کی روشنی میں ستاروں کا رقص جاری ہے۔ سولہ برس پہلے کے احساس زندہ ہو گئے ہیں …  میرے پورے وجود پر حاوی —

لیکن جیسے کل تک ایک کہانی شروع ہوتی تھی  — دادی اماں، نانی اماں کے منہ سے نکلی کہانیاں   — چاندنی راتوں میں   — آسمانی چادر کے نیچے بچھی ہوئی پلنگوں پر  — بچوں کی حیران آنکھوں کی اپنی ایک طلسمی دنیا بن جاتی …  ایک تھا راجہ …  ایک تھی رانی …  ایک تھا راکشس …  ایک تھا جادوگر …  سولہ برس بعد جدید ترین دنیا کی یہ کہانی شاید ایسے شروع ہو گی  — ایک تھا کمپیوٹر۔ نیٹ پر ایک اپسرا لہرائی۔ مگر کوئی جادو نہیں۔ اپسرا نے پانی میں تیرتے ہوئے پوچھا …  ڈو یو  لائک رومانٹک چیٹ؟ کی بورڈ پر تیرتے ہاتھوں نے چپکے سے ٹائپ کیا  — اوہ بس …

اور اس اکیسویں صدی کی آغوش میں محبت کی ایک نئی کہانی کی شروعات ہو گئی تھی —

تم سے کیا رشتہ ہے اس کا؟

ترانہ زندگی میں آ گئی۔ ہم مہانگر کی بھیڑ کا حصہ بن گئے۔ پھر ایک چھوٹا سا بیٹا بھی ہو گیا۔ مہا نگر کی بھیڑ کا حصہ بنتے ہوئے بھی اندر کا ادیب مرا یا سویا نہیں، کیونکہ ترانہ نے اس ادیب کو کسی بھی لمحے سونے نہیں دیا۔ اس کی محبت لمحاتی یا چھلاوہ نہیں تھی۔ وہ شادی کے بعد بھی سانیال کو ایک محبوب کے طور پر ہی دیکھتی رہی۔ ادب سے سیریل کی دنیا تک جیسے ترانہ نے اپنا سب کچھ مجھ پر نچھاور کر دیا تھا۔ سولہ برسوں میں اگر کچھ تبدیلی آئی تھی تو صرف ایک جسمانی تبدیلی کہ اپنے ہی جسم سے اپنے پیار کا ایک حصہ نکالتے یا بڑا ہوتے دیکھنے کا احساس اُسے ایک پختہ عورت میں تبدیل کر گیا تھا۔ مگر اپنی تمام تر محسوسات کی سطح پر وہ صرف ترانہ رہی۔ وہی سولہ برس پہلے کی ترانہ …  مگر ایک دن —

گھر میں کمپیوٹر آ گیا۔ نیٹ لگ گیا …  اور ایک نئی کہانی شروع ہو گئی۔ کیا بہت پیار کرنے کے باوجود آپ میں کہیں کوئی ایک دبی ہوئی خواہش باقی رہ جاتی ہے   — بہت پیار کرنے والے بیٹے اور بہت زیادہ چاہنے والی بیوی کے باوجود کیا نیٹ پر اپنی محبتوں کی دنیا آباد کرنے والا شخص کہیں تقسیم نہیں ہوتا ہے ؟ نیٹ کی دنیا نوجوانوں، ادھیڑ اور بچوں کے لیے معصوم اور متجسس ذہن میں، سیکس دیکھنے والی ایک دنیا تھی  — آرکٹ سے لے کر ہائی فائی، لوہیپنس Love Happens)  …  ڈریم کمس ٹو ڈاٹ کام تک …  فرضی ناموں کا سہارا لینے والی لڑکیوں اور لڑکوں کا ایک بڑا ریکیٹ پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔ بچوں سے بوڑھوں تک کے لیے تجسس کا ایک دلفریب سامان  — کہیں کوئی جرم کا احساس بھی تھا میرے اندر  — ترانہ کے رہتے ہوئے یہ دنیائیں کیوں آباد ہو جاتی ہیں ؟ یعنی ہم کسی اجنبی لڑکی سے دوستی کرنا ہی کیوں چاہتے ہیں۔ وہ بھی صرف ایک نہیں …  ہزاروں ملک، کمیونٹی، مذہب …  نیٹ کی ایک پھیلی ہوئی دنیا  — اس جادو نگریا میں سیراب ہونے کا احساس کیا حقیقت میں ایک جرم ہے ؟ کبھی لگتا، سب کرتے ہیں …  پھر لگتا گھر، اپنوں کی بے پناہ محبت کے باوجود نئی تکنالوجی نے یکایک، نہ ختم ہونے والے پیار کا ایک سرچشمہ اندر تک گھول دیا ہے   — آپ محض گھر کے پیار سے سیراب نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ بہت سا پیار چاہئے آپ کو …  کیونکہ خون کے اندر تک شامل ہوس کی آگ کل کی تہذیب تک تو خاموش رہی، لیکن آہستہ آہستہ نئی تکنالوجی کے آتے ہی دھماکہ خیز اور پر تشدد ہو گئی …  لیکن شاید اس دنیا میں بھی بد صورت چہروں کے علاوہ کچھ عام اور بیحد اچھے چہرے بھی ہیں۔ برائیوں کے علاوہ بہت کچھ اچھائیاں بھی ہیں   — سیکس کے علاوہ ایک دوسرے کو جاننے کی چاہت بھی ہے۔ اور اچانک ایک دن …

نیٹ اُپن کرتے ہی یا ہو اسکرین پر ایک میسیج ملا تھا —

معزز قارئین! اور یہیں سے اس کہانی کی شروعات ہو گئی۔ میسیج میں لکھا تھا  — میرا نام مہک ہے۔ مہک احمد۔ لاہور کی ہوں۔ عمر 23سال، پانچ سال کی تھی، ماں گذر گئی۔ چھوٹی عمر سے ہی دو چیزوں کی عادت پڑ گئی۔ ادب پڑھنے کی اور ٹیلی پیتھی  — تمہاری ایک کہانی پڑھی۔ لگا یہ کہانی تو میری ہی ہے۔ پھر مہینہ لگ گیا۔ تمہارا میل آئی ڈی تلاش کرنے میں زیادہ وقت نہیں ہے میرے پاس کچھ بھی کہنے کے لیے۔ شاید یہ پورا نظام اب اڑنے، تیز اڑنے کو مجبور کرتا ہے۔ کیونکہ پیار کرنے لگی ہوں تم سے   — بغیر جانے، بغیر سمجھے۔ کیونکہ تمہاری کہانی کا لمس اندر تک محسوس کیا ہے میں نے۔ تمہاری عمر اگر 80 سال کی ہوئی تب بھی پیار کرتی تم سے۔ میرا میل مل جائے تو فوراً جواب دینا، اور ہاں   — یا ہو میسینجر میں تمہیں ایڈ کر رہی ہوں۔ ہو سکے تو شام میں آنا۔ ۶ بجے۔ پاکستان اور ہندستان کے وقت میں آدھے گھنٹے کا فرق ہے۔ آؤ گے نا؟ تمہاری مہک۔

پتہ نہیں، اس میسیج کو کتنی بار پڑھا۔ پڑھتا گیا، ادب اور سیریل کی اس دنیا میں اس سے پہلے کتنی ہی چٹھیاں آئی تھیں میرے پاس۔ کتنی ہی لڑکیاں ٹکرائی تھیں۔ مگر یہ ای میل جیسے دل و دماغ پر چھا گیا تھا۔ جیسے ہوا میں اڑ رہا تھا۔ جیسے اندر، خون کا دوران بڑھ گیا تھا …  تمہاری عمر اگر ۸۰ سال بھی ہوتی‘ نظریں بار بار اس کے لکھے جملوں پر دوڑ رہی تھی۔ میری عمر ۲۳ سال ہے …  اندر کوئی تشنہ خواہشات والا شخص تھا کیا؟ یا چالیس کی دہلیز پر کھڑا ایک ادھیڑ جسے اس بات سے سکون ملا ہو کہ کوئی ۲۲۔ ۲۳ سال کی لڑکی بھی اس سے پیار کر سکتی ہے۔ میں نہیں جانتا وہ کون سا لمحہ تھا …  ’یورس سانیال‘ لکھنے تک میں اپنا ای میل اسے سینٹ کر چکا تھا۔

اور اسی شام وہ پہلی بار یاہو میسینجر پر آئی اور جیسے حقیقت میں پرستان جیسی کسی نئی دنیا کے دروازے میرے لیے کھلتے چلے گئے   — پھر تھوڑے سے دن گزر گئے۔

جب آپ پیار کرتے ہیں تو پھر آپ کو بتانا نہیں پڑتا۔ مشک کی طرح اس کی خوشبو آپ کے پورے وجود سے پتہ چل جاتی ہے۔ کئی بار ترانہ کے سامنے آتے ہوئے، یا اسے بازوؤں میں لیتے ہوئے چور سا بھی احساس ہوا۔ مگر یہ بات ایک مرد کے طور پر پوری ایمانداری اور سچائی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ترانہ کے ساتھ محبت کے کسی بھی لمحے میں مہک کہیں بھی موجود نہیں تھی۔ تو کیا وہ ایک لمحاتی کشش سے زیادہ نہیں تھی اور ترانہ مکمل طور پر میرے وجود پر حاوی  — یا یہ ترانہ کا پیار تھا کہ مہک میری زندگی میں داخل تو ہونا چاہتی تھی  — مگر ہو نہیں پا رہی تھی  یا یہ کہ ایک خاندان اور اس کی اخلاقیات سے بندھے ہونا بھی میری مجبوری تھی؟ یا پھر یہ کہ نیٹ کی اس چکا چوند دنیا میں ہم مکمل وجود کے ساتھ کہاں ملتے ہیں۔ شاید یہ بات مجھے کسی حد مطمئن کر رہی تھی  — مگر سرحد پار ہی سہی، مہک کا جسم موجود تھا اور میں نیٹ کے کیمرے میں اس کے ہونے کی موجودگی کو پڑھ چکا تھا  — کیا یہ محبت تھی۔ کیا ترانہ کی محبت میں کہیں کوئی کمی آئی تھی، جس نے اچانک مجھے مہک کی طرف موڑ دیا تھا۔ یا پھر ایک چالیس پار کے مرد کی مردانگی کو ملنے والی تھوڑی سی راحت تھی  — ایک کم عمر کی لڑکی کا ساتھ پاکر  — خاص کر ایک ایسی لڑکی کا، جو نہ صرف اس سے پیار کرنے لگی تھی، بلکہ اسے حقیقتاً پانا بھی چاہتی تھی …

شاید ترانہ سے بہت دن تک یہ سب کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کیونکہ جنگل میں آئی آندھی کی طرح ایک دن وہ اس سچ کو جان گئی …  وہ چپ تھی …

 ’کیا تم بھی اسے پیار کرتے ہو؟‘ ترانہ کے لفظ برف کی مانند سرد تھے۔

 ’نہیں جانتا …‘

 ’شاید کرتے ہو …‘ اس نے لمبی سانس کھینچی …  مگر دوسرے ہی لمحہ اس کی آنکھوں میں برسوں کا پیار تھا  — وہی دیوانگی اور جنون  — ایک بار پھر اس نے مجھے میرے گلٹ کی کینچلی‘ میں جانے سے روک دیا تھا۔

جاتے ہوئے وہ صرف اتنا کہہ پائی  — ’کوئی لڑکا اگر میری زندگی میں آ جاتا تو تمہیں کیسا لگتا —؟‘

 ’سانیال‘   — اپنی ہی اگنی پریکشا سے گزرتے ہوئے میں خود سے بولا …  ’سانیال۔ کیا کرو گے   — آگے کیا کرو گے سانیال …  وقت تمہیں بہا لے جانا چاہتا ہے اور یہ، تمہارے اندر کوئی مضبوط سا احساس ہے   — جو تمہیں روک رہا ہے۔

شام میں نیٹ آن کرتے ہی مہک احمد آن لائن مل گئی۔ اے او اے   — آن لائن ہوتے ہی سب سے پہلے اے او اے یعنی السلام علیکم لکھتی تھی۔ پھر الفاظ کا دریا نئے یوٹوپیا کے دروازے کھول دیتا۔ اور اس وقت …  شاید میں کسی پرستان میں تھا۔ مہک کے لفظ خوشبو بن گئے تھے  —

اس نے پوچھا  — اس نے بہت کچھ پوچھا۔ اس نے پوچھا کہ پرندے اور خواب میں بہتر کون ہے۔ جواب تھا …  پرندے۔ کیونکہ پرندے سانس بھی لیتے ہیں اور بارش یا ساون کے موسم میں محبت کا ترانہ بھی گاتے ہیں   — خواب تو ہرجائی ہوتے ہیں   — آتے ہیں اور گم ہو جاتے ہیں۔

اس نے پوچھا  — مور، تتلی اور بارش میں تمہیں کیا پسند ہے ؟

اس نے پوچھا …  ’آسمان میں چمکنے والا، اس کی اپنی پسند کا ایک تارا، چودہویں چاند سے بھی بہتر کیوں نظر آتا ہے ؟‘

اس نے پوچھا  — تم گلاب کیوں نہیں ہو، جسے میں توڑ کر اپنے سینے کے پاس لگا لیتی۔ تم میری دھڑکنیں میری سانس میں خوشبو کی طرح سما جاتے …

 ’تم تتلی کیوں نہیں ہو؟ جسے گلاب کی کیاریوں کے درمیان، مدہوش سی گھومتی ہوئی میں، پکڑنے کی کوشش میں کسی کانٹے سے اپنے ہاتھ زخمی کر لیتی …  اور رسنے والی خون کی ہر بوند میں پاگل کر دینے والی حسرت کے ساتھ محبت لکھ دیتی۔

اس نے پوچھا …  بارش میں دعا جیسی پھیلی ہتھیلی پر گرنے والی پہلی بوند کیوں نہیں ہو تم؟ جسے چوم کر اپنی پیشانی سے لگا لیتی میں …  اور پھر  — نہ جینے کے خواب کے ساتھ  — اسی ایک بارش کے قطرے میں تمہارے احساس کو لے کر گم ہو جاتی میں …

اس نے پوچھا …  تم سے پہلے یہ دنیا اتنی خوبصورت کیوں نہیں تھی۔ یا مجھے نہیں لگتی تھی؟

اس نے پوچھا …  ایک لمحے میں ہزاروں لمحے کیوں نہیں ہوتے ؟ اور ہزاروں ہزار لمحے، تمہارے ساتھ کے   — تمہارے ساتھ ٹھہر جانے والے  —

اس نے پوچھا …  تمہارے ساتھ کی موت تو زندگی سے بھی زیادہ خوبصورت ہو گی نا —؟ ہے نا …  آؤ …  میرا کانپتا ہوا ہاتھ اپنی ہتھیلیوں میں بھر کر آنکھیں موند لو …  ہمیشہ کے لیے   — تمہارے ساتھ کا احساس اور میرا  — زندگی کے سب سے خوبصورت نشے میں، جھومتا ہوا بدن  — اور چمکتی گاتی آنکھیں …  یہ آنکھیں ایک ویران جزیرے میں کھلیں   — جہاں دور تک تمہارے علاوہ کوئی نہ ہو …

اور پھر اس نے پوچھا  — سنو، اتنا پہلے کیوں پیدا ہو گئے  —؟ مجھ سے کافی پہلے  —؟ یہ کیسا انتقام ہے تمہارا —؟ چلو، پیدا ہو گئے …  تو میرا انتظار کیوں نہیں کیا؟ میرے خواب کیوں نہیں دیکھے ؟ میری آہٹ کیوں نہیں محسوس کی؟ اس لیے کہ زمین کے ذرّے ذرّے میں، آگے کے بھی کئی شاندار برسوں تک میں کہیں نہیں تھی؟ مگر   — میری خوشبو تو تھی جان …  میرا احساس تو تھا۔ میری دھوپ …  میرا سایہ تو تھا …  بس تم ہی محسوس نہیں کر پائے …‘

اس نے پوچھا …  تم نے شادی کیوں کر لی مجھ سے پہلے ؟ میرا انتظار کیوں نہیں کیا؟

اس نے پوچھا …  تمہیں کون کون مجھ سے زیادہ جانتا ہے ؟لیکن میں چاہتی ہوں تمہیں کوئی بھی مجھ سے زیادہ نہ جانے   — تمہارے اندر، پھول، خوشبو اور خواب سے زیادہ میری مہک ہو  — بیوی، چاند اور سورج سے زیادہ میں تمہیں دیکھوں   — سرسراتی ہوا سے زیادہ میں تمہیں چھوؤں …  میں تمہارے اندر کسی موسلا دھار بارش سی اُتر کر بس برستی رہوں۔ تا عمر …‘

اور اس نے کہا …  ہماری زندگی کی پالکی کسی ویران جزیرے میں پھولوں کی سیج پر رکھی ہو۔ مرا سر تمہارے شانے پر ہو …  اور تمہاری بانہیں نازک شاخوں کی طرح میرے بدن پر پھیل جائیں …  اور پھر اس نے پوچھا  — سچ کہنا …  میرے سوا اس وقت کوئی اور تو تمہارے اندر سانس نہیں لے رہا ہے   — ہے نا … ؟

اس نے ٹھہر کر پوچھا …  تمہاری بیوی؟

گہرے سنّاٹے اور پر اسرار اُداسی کی اپنی ایک الگ شاعری ہوتی ہے۔ ہوا کی اپنے موسیقی  — خوشبو کے اپنے سر تال  — اور محبت کے اپنے راگ ہوتے ہیں۔ ممکن تھا یہ کہانی جنم ہی نہیں لیتی۔ وہ بھی میرے یعنی سیلان جسے شخص کے لیے جس کی زندگی کے لیے ٹھہرے ہوئے پانی یا سمندر کی، خاموش لہروں کی مثال ہی دی جا سکتی ہے۔ لیکن معاف کیجئے گا، اس کہانی کے شروع ہونے کا وقت سنگین ہے۔ اور اس کہانی کے لیے آج کے سنگین وقت اور وقت سے جڑے انسانی حقوق کو گواہ بنانا ضروری  — اور اس سے بھی ضروری یہ  — کہ محبت کی رواں لہروں پر تیرتے محبوب کا یہ سوچنا …  کہ ہم پرندے یا جانور کیوں نہیں   — اور انسانی حقوق کا آنکھیں تریر کر یہ دیکھنا کہ یہ مردانہ سماج تو ہمیشہ سے حقوق نسواں کا استحصال کرتا رہا ہے   — لیکن معاف کیجئے گا یہاں کسی عورت کے حقوق کا استحصال نہیں ہوا ہے   — بلکہ خاموشی سے چالیس پار کے ایک شوہر کی زندگی میں آہستہ سے ایک اپسرا آ جاتی ہے   — وہ اپسرا پوچھتی ہے …  میرا حق تو صرف محبت ہے …  تو یہ حق مجھے کیوں نہیں دیتے تم …  اور اس سے بھی زیادہ یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ عورت‘ کوئی بیوی نہیں تھی  — ایک 22 سال کی دو شیزہ تھی‘ جس کی آنکھیں میرے یعنی سیلان کے لیے ہر لمحہ بارش، خواب اور اندر دھنش بن جاتے تھے۔

اس نے ٹھہر کر پوچھا …  مجھے میرا حق لاؤ۔

جواب میں کہا گیا  …  یہ حق کسی اور کا ہے۔

 ’نہیں ؟‘

 ’حق دوسرے کا ہوتا تو تم یہاں نہیں ہوتے۔ بولو، کیوں ہو یہاں تم۔ اس کے پاس کیوں نہیں ہو، جس کے پاس تمہیں ہونا چاہئے  — ‘

شاید وہ کھلکھلائی تھی …  لیکن وہ اب بھی پوچھ رہی تھی …  اور اس نے پوچھا …  ’میرا حق مجھے دیتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو۔ محبت کا یہ حق کھو چکے ہوتے تو کیا میں یہاں ہوتی  — تمہارے پاس  — تمہاری سانسوں کے قریب …  تمہاری جنبش، تمہاری بیتابیوں میں   — تمہاری حیرانیوں میں …  اور تمہارے ہاتھوں کی انگلیوں میں …  جو کمپیوٹر پر ٹائپ کرتے ہوئے حرف سے محبت اور لفظ سے شدت بن جاتے ہیں …  آنکھوں سے خواب اور ہونٹوں سے نغمہ بن جاتے ہیں۔ ‘

اور پھر اس نے کہا۔ سنو سیلان …  میں اڑتی ہوں۔ تیرتی ہوں۔ شبنم کے دھاگے سے لہروں کے جال بنتی ہوں۔ وقت چھوٹے چھوٹے رنگین پروں والی تتلیوں کی طرح اڑتا ہے   — میرے آس پاس۔ ان تتلیوں کو تمہارا احساس سمجھ کر اپنی مٹھیوں میں جکڑ لیتی ہوں۔ سارے کا سارا دن میرے جسم پر ’ڈینے ‘ ہوتے ہیں۔ ست رنگے آسمان میں اڑنے کے لیے اور ساری رات …  میں تتلیوں میں اڑتے وقت کو تمہارے احساس کے ساتھ  — ہرے ربن سے اپنے جوڑے میں بند کر لیتی ہوں …

اور پھر اس نے پوچھا …  ’تمہارے بیٹے کو پتہ ہے کہ تمہاری زندگی میں اس کی ماں کے علاوہ بھی کوئی آ گیا ہے ؟‘

یہ وہی وقت تھا، جب وینس کا دل دھڑکا تھا  — اور سیاروں کے جھرمٹ میں نویں سیارے کے روپ میں جانے گئے پلوٹو کو دیس نکالا دیا گیا تھا۔

میں نے خاموشی سے نیٹ بند کر دیا۔ کچھ دیر تک خاموشی سے کمپیوٹر کے خالی اسکرین کو دیکھتا رہا …  حرف غائب تھے۔ نہیں۔ حرف چمک رہے تھے …  اور ان حروف کے میل سے آہستہ آہستہ سپنوں کی وادی سے آئی کسی دوشیزہ کا چہرہ بن رہا تھا  — مہک احمد …  آنکھیں جیسے سیلان کی آنکھوں کے جزیرے میں گم …  پھول کی پنکھڑیوں سے ہونٹوں پر کے سارے لفظ جیسے بس صرف اسی کے لیے تھے …  جسم میں کپکپی تھی۔ میں اٹھا۔ بازو والا دروازہ کھولا اور بالکنی سے جھانکتے نیلگوں آسمان میں، مہک احمد کے ٹائپ کئے الفاظ کو اندر تک محسوس کرنے لگا  — وہ جیسے بالکل سامنے تھی اور پوچھ رہی تھی  — کتنا پیار کرتے ہو مجھے … ؟

جیسے تارے ٹوٹے۔ جیسے دھماکہ ہوا۔ جیسے بدن میں لرزش ہوئی …

 ’کیم‘ پر ٹائپ کرتے دنیا کے سب سے حسین ہاتھوں میں تھرتھراہٹ تھی اور آنکھیں پاکیزہ اور شرارتی، دونوں طرح کی مسکراہٹ لیے اس کی طرف دیکھ رہی تھی …

 ’بولتے کیوں نہیں۔ کتنا پیار کرتے ہو مجھے …‘

 ’نہیں کرتا …‘ میں نے آہستہ سے دو لفظ ٹائپ کیے۔ وہ موسلا دھار بارش کی طرح برس گئی  …  ’کرتے ہو‘ مگر ڈرتے بھی ہو …  اچھا، ترانہ کتنا پیار کرتی ہے تمہیں … ؟‘

 ’بہت۔ ‘

 ’مجھ سے زیادہ۔ ‘

 ’ہاں۔ ‘

 ’نہیں   — مجھ سے زیادہ نہیں کر سکتی …‘ وہ مطمئن تھی …  مجھ سے زیادہ کوئی نہیں کر سکتا۔ خود تمہارے جسم میں دھڑکنے والا دل بھی نہیں …  نگاہوں سے محبت کا ترانہ چھیڑنے والی آنکھیں بھی نہیں …  اور  — میرا نام لینے والے تمہارے ہونٹ بھی تمہیں اتنا پیار نہیں کر سکتے جتنا میں کرتی ہوں …

مہک رک گئی ہے   — ’کیم‘ پر میرے اندر چل رہی ’یہ سونامی‘ یا طوفان کو دیکھا جا سکتا ہے۔ آنکھوں میں ایک لمحہ کو ہزاروں پر چھائیاں آ کر رخصت ہو گئیں …  دوبارہ اس کے ہاتھ ٹائپ پر ہیں۔ میرا دل انجانے سوالوں کے سیلاب سے دھڑک اٹھا ہے …

اس نے پوچھا …  اچھا سنو …  کتنا چھوا ہے ترانہ نے تم کو …  میری بھی خواہش ہوتی ہے۔ ساون بن جانے کی۔ بارش بن جانے کی …  ترانہ کی انگلیاں تمہارے بدن پر کیسے مچلتی ہیں … بہت آہستہ …  بہت خاموشی سے   — پیڑ کے سبز پتّے پر گرنے والی اوس کی بوندوں کی طرح  — کتنا دیکھا ہے اس نے تمہارے جسم کو  — کتنا جانا ہے ترانہ نے   — صرف اتنا ہی نا، جتنا ایک بیوی نبھائے جانے والے رشتوں کی بنیاد پر جان سکتی ہے   — صرف اتنا ہی نا، جتنا کہ ایک جسم کا درد یا بھوک ہوتی ہے …  صرف اتنا ہی نا، کہ ایک وقت، اس بھوک میں ایک ساتھ واسنا کی لہریں بھی شامل ہو جاتی ہوں گی  — لیکن  …  وصال کے کسی بھی لمحے وہ کتنا تم کو دیکھتی ہے۔ تمہارے روم روم میں کتنے خواب دیکھ پاتی ہے  —؟ تمہاری سانسوں کی ہلچل میں کتنا ڈھونڈ پاتی ہے تم کو؟ ترانہ تم میں ہر بار ایک نئے سیلان کو دیکھنے کی کوشش کرتی ہے یا نہیں … ؟ ایک نئے گیت، نئے سپنے، اور نئے سیلان کو …

مہک ٹاپڑ کرتی جا رہی تھی اور جیسے ہر لمحہ حیرتوں کی بارش میں، میں نہاتا جا رہا تھا  — کیا ہے یہ؟ مہک کے آتے ہی اتنا بے بس کیوں ہو جاتا ہوں میں۔ اندر سے سوالوں کے کیکٹس خاموشی سے سر نکال رہے تھے …  ایک بارہ سال کا بیٹا ہے تمہارا …  مکمل جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کی تیاری میں   — مہک اس سے دس ہی سال تو بڑی ہے۔ ایک ہندوستانی خاندان میں جنم لینے کے بعد عمر کی چالیس بہاروں کو پار کرنے کا مطلب جانتے ہو؟ ایک سنجیدہ شخصیت۔ خاندان کے لیے  …  بچوں کے لیے اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرنے والا  — اس عمر میں آنے کے بعد تو ایک پختہ مرد سانس لیتا ہے   — جسے تمہارے مہذب سماج میں عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے …  کیونکہ یہ سماج جانتا ہے، یہ شخص ہمارے مہذب سماج کی علامت ہے   — یہ شخص محبت نہیں کر سکتا۔ کسی دوسرے کے ساتھ سیکس کے بارے میں سوچنا اس کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں۔ اور یہاں کسی بھی طرح کے نا ممکنہ حادثے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ پھر بھی مہک آ چکی تھی۔ ایک ایسے چور دروازے سے، جو پتہ نہیں میرے اندر کیسے کھلا رہ گیا تھا …  وہ آ گئی تھی …  وہ اپنی محبت کا حق مانگ رہی تھی …

محبت ایک عجیب سا سچ ہے کہ اس سچ کو جانے والے راستے بھی نہ سمجھ میں آنے والے اور خوشبو سے مہکے ہوتے ہیں   — اور محبت کی طرح، محبت سے آنے والی زمینی اور جغرافیائی تبدیلیاں بھی اسی سچ کا ایک حصہ ہیں   — ارتقاء کی اس لمبی ریس میں ہماری اس عالمی برادری کے ساتھ چمتکار اور معجزے کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار بھی شامل ہے۔ معجزے سے ایجاد تک، برین کو داؤن کوڈ کئے جانے سے لے کر انسان کے کلون بنائے جانے تک  — جادو کی اس نگری میں عرصہ پہلے وینس کا دل دھڑکنا بند ہو گیا  — آسمان پر چمکتا ایک ننھا سا روشن تارا، جس کا نام محبت تھا، ٹوٹا اور اس کی کرچیاں دور تک آسمانی چادر میں پھیلتی چلی گئیں۔ اور یہ وہی وقت تھا، جب محبت کی یہ نئی کہانی لکھی جا رہی تھی۔ اور یہ وہی وقت تھا، جب کہکشاں میں پھیلی ہوئی نہ ختم ہونے والی اداسی ہماری اور آپ کی اس دنیا سے پوچھ رہی تھی …  کہ محبت گم کہاں ہو گئی  — اور برسوں بعد ایجادو اختراع، معجزہ اور جراسک پارک کے اس عہد میں۔ ایک نئی کہانی خود بہ خود شروع ہوتی چلی گئی  — سیلان کے روپ میں   — ترانہ کے روپ میں   — یا پھر مہک احمد کے روپ میں  —

لیکن اس بار یہ کہانی مختلف تھی۔

جیسے اس دن  — خاموشی کے جلتے ریگستان میں پانی کی ایک بوند ٹپ سے گری اور بھاپ بن کر اڑ گئی۔

مہک غائب تھی  — اور ترانہ اپنے مکمل وجود کے ساتھ وینس کا دھڑکتا ہوا دل بن گئی تھی —

 ’اچھا تم نے کیا سوچا؟‘ ترانہ کی آنکھیں میری آنکھوں میں جھانک رہی تھیں۔

 ’پتہ نہیں۔ ‘

ایک ایمانداری تو ہے تم میں کہ محبت کا اظہار کرنے سے نہیں گھبراتے کہ تمہیں بھی مہک سے پیار ہے …

میں خاموشی سے خلاء میں دیکھتا رہا۔

 ’اچھا بتاؤ، تم اس سے رومانی باتیں بھی کرتے ہو؟‘

 ’ہاں …‘

 ’بہت؟‘

 ’شاید۔ ‘

 ’سامنے ہوتے تو شاید اس کا ہاتھ بھی تھام لیتے …‘ ترانہ کی آواز برف جیسی یخ تھی  —

 ’شاید …‘

 ’شاید نہیں۔ تھام لیتے۔ یا ممکن ہے، اس سے بھی آگے  — ‘ وہ کہتے کہتے رکی …  مہک سے بات کرتے ہوئے ایک لمحہ کو بھی میری یاد نہیں آئی …  مان لو۔ ایک دن میں تم نے اس کے ساتھ تین گھنٹے گذارے تو ایک مہینے میں ۹۰ گھنٹے ہوئے نا …  یاد ہے سانیال —

ترانہ نے میرے ہاتھوں کو تھام لیا۔ اس کی آنکھیں پرانی یادوں کو محسوس کرتے ہوئے تھوڑا سا نم تھیں   — یاد ہے …  تم کہا کرتے تھے …  جو مرد اپنی بیوی کے علاوہ، باہر کی دنیا میں کسی دوسری عورت سے ملا۔ اُسی پیار کے جذبے سے  …  تو سمجھو اس نے اپنا ایک عضو کاٹ لیا۔ یاد ہے نا …  بار بار ملتا رہا تھا تو …  باہر کی دنیا میں۔ پرائی عورتوں سے …  تو اس کے سارے عضو کٹ گئے۔ یاد کرو کہتے تھے نا …  یہ بھی کہتے تھے …  کہ پھر ایسا آدمی، اسی پختہ جذبے کے ساتھ، اپنی بیوی سے بانہیں پھیلا کر کیسے مل سکتا ہے ؟ اور اپنے بچوں سے ؟ کیونکہ اپنے پیار کے سارے اعضاء کو کھو چکا ہے وہ …  ترانہ نے اس کی طرف دیکھا  — مسکرائی تمہارے اعضاء تو سلامت ہیں نا سانیال؟ میرے لیے ؟ اور میرے بچوں کے لیے … ؟

میرے اندر جیسے میری اپنی چیخ ہی برف کی برف کی متعدد سلّیوں کے درمیان لہولہان تھی …  اس ایک لمحہ اپنے ہی درد سے لڑتے، ابھرتے شاید میں نے کوئی فیصلہ لے لیا تھا۔

 ’وہ نیٹ کا سچ ہے، جسم کا نہیں …‘

 ’اوہ!‘ …  ترانہ زور سے ہنس پڑی۔

 ’نیٹ سارے کرتے ہیں۔ کون نہیں کرتا۔ لوگ تو ایسی باتیں اپنی بیویوں سے شیئر بھی نہیں کرتے …‘

 ’میں لوگوں کو نہیں جانتی جان۔ سانیال کو جانتی ہوں ‘ …  ترانہ کی آواز میں کہیں بھی غصہ کا اظہار نہیں تھا …  تم نے کہا، وہ نیٹ کا سچ ہے۔ جسم کا نہیں۔ تم اس سے رومانٹک چیٹ بھی کرتے تھے ؟

ہاں …

ہاتھ تھامتے تھے … ؟

ہاں …

کس (Kiss) … ؟

شاید …

شاید نہیں ہاں بولو

ہاں …

ہونٹوں پر …

ہاں …

چلو ہونٹوں پر، آنکھوں پر یا تمہاری مرضی۔ کیونکہ پیار کے کسی بھی لمحے کی شدت کو بیان کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مگر تم شاید سامنے ہوتے تو …  وہ سب کرتے نا سانیال … ؟‘

 ’سامنے ہوتے تو نا … ؟‘

 ’سامنے ہوتے تو شاید سنامی بن جاتے …  ہے نا۔ ڈرو مت سانیال …  کبھی کبھی بہت چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کل دیر تک سوچتی رہی۔ ہاری کہاں ہیں ؟ سولہ برسوں میں تمہارے اندر کہاں ایک خلا چھوڑ دیا۔ کہاں سانیال‘ بتاؤ مجھے نہ۔ اس سے یہ مت سمجھنا کہ میں تمہیں روکوں گی۔ سمجھاؤں گی۔ کیونکہ محبت تم سے میں نے کیا ہے۔ میں نے بہت محبت کی ہے۔ سانسوں سے سانسوں کی محبت۔ پہلی سانس سے آخری سانس کے سارے پھول۔ بس اسی کچی عمر میں تمہارے نام چن لیے   — روکوں گی نہیں۔ سوچ لوں گی کہ شاید اتنی ہی محبت لکھی تھی میری تقدیر میں   — کیونکہ جہاں محبت پر روک یا بندھن لگ جائے، وہاں محبت نہیں ہوتی۔ خود غرضی آ جاتی ہے …

 ’پھر یہ سب …‘

 ’تم بتاؤ۔ کیا سوچا ہے تم نے …‘

 ’میری آواز جیسے گلے میں پھنس گئی  — مہک شادی کرنا چاہتی ہے مجھ سے …‘

 ’تو …‘

 ’وہ کہتی ہے، وہ انڈیا آ جائے گی …‘

 ’تولے آؤ نا …‘ ترانہ نے آہستہ سے میرا ہاتھ تھام لیا  — لے آؤ مہک کو …

 ’اور تم … ؟‘

ترا نہ آہستہ سے ہنسی …  جانتے ہونا اپنی ترانہ کو  — بچپن سے بٹوارا کبھی پسند نہیں آیا …  بس مہک کا ہاتھ تمہارے ہاتھوں میں پکڑا کر چپکے سے نکل جاؤں گی۔ ‘

اس نے سر گھما لیا تھا …

میرے اندر جیسے زور سے بادل گرجے تھے …  اور اس درمیان سولہ برسوں کی ترانہ کا ہر رنگ و روپ  — ہر سنگار نظروں کے سامنے تھا …  لگا، پرستان میں جانا کہیں زیادہ آسان ہوتا ہے۔ پتھر جیسی حقیقت پر چلنا مشکل   — آنکھوں میں کہیں چھن سے مہک کی پایل بج گئی  — اور آنکھوں کی پتلیوں پر ترانہ چھا گئی …  تو لے آؤ نا اسے …

مجھے نہیں معلوم، داستان، قصے کہانیوں کی اب تک کی تاریخ میں ایک بیوی نائیکا یا ہیروئن کیوں نہیں بنتی —؟

مرد کی زندگی میں آنے والی دوسری یا تیسری عورت ہی ’نائیکا‘ یا ہیروئن کیوں بنتی ہے۔ کیا صرف اس لیے کہ ایک مکمل زندگی کے ساون اور سپنے اپنے مرد کو بانٹتے ہوئے وہ کہیں کھو جاتی ہے۔ مگر اپنی تکمیل کے ساتھ ایک ہی گھر میں ہر لمحہ، دکھ سکھ کی سب سے بڑی ہیروئن وہی رہتی ہے۔

میں کسی بھی طرح کے ایلیوژن یا ڈائیلما میں نہیں تھا —

محبت کے جھرنے اور بارش سے الگ میں ترانہ کے تمام رنگوں کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور اس دن  — شاید میرے جذبات مہک تک پہنچ گئے تھے۔ اس نے آخری بار پوچھا تھا —

 ’بولو۔ میں دہلی آ جاؤں ؟ میں تم پر بوجھ نہیں بنوں گی سانیال۔ معاشی طور سے بھی نہیں۔ بس تمہارا ساتھ، تمہارا وجود چاہئے۔ ہاں۔ یا نا …  مجھے اسی لمحے تمہارا جواب چاہئے۔ ‘

میرے اندر کسی بھی طرح کے پٹاخے یا آتش بازی کے چھوٹنے کی کوئی آواز نہیں تھی …

میں نے آہستہ سے ٹائپ کیا  — بہت سوچ سمجھ کر  — ’نہیں۔ ‘

مہک ’سائن آؤٹ کر گئی تھی۔ کیم پر اندھیرا تھا۔ مہک غائب تھی —

پھر وہ نہیں ملی …

اور دیکھتے ہی دیکھتے لمحے، مہینوں کا سفر کر گئے۔ شاید پانچ مہینے گزر گئے تھے۔

شاید یہ وہی وقت تھا، جب آسمان پر ایک ٹوٹتے تارے کو دور تک لکیر، پھر صفر میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ کر میں گھبرا گیا تھا …  لیکن شاید ایسی ہی کسی دھند، کسی خاموشی سے ایک نہ بھولنے والے، آنسوؤں میں ڈوبے گیت کی تخلیق ہو جاتی ہے …  یا پھر صدیوں میں کوئی ایسا ہی پیار، تاج محل جیسی زندہ تخلیق دے کر محبت کرنے والوں کے لیے ایک مثال بن جاتا ہے۔

کوئی کوئی پیار

 ’تاج محل‘ ہو جاتا ہے۔

لیکن شاید تب سو چا نہیں تھا، آسمان میں ٹوٹتے ہوئے تارے میں آنسوؤں میں ڈوبے ہوئے گیت کو سننا اور پھر محبت کی علامت تاج محل کو محسوس کرنا، آنے والے دنوں میں مجھے اس طرح حیران بھی کر سکتا ہے  —

ترانہ پوچھ رہی تھی۔ تم اسے بھول گئے نا؟

 ’شاید …‘

 ’اگر وہ سچ مچ آ جاتی تو؟‘

 ’نہیں جانتا؟‘

 ’جھوٹ بولتے ہو …‘ پیار کے لمحاتی احساس سے اس کی آنکھیں شرارتی بن جاتیں   — وہ آتی تو خود پر قابو نہیں رکھ پاتے۔

 ’نہیں کہہ سکتا۔ ‘

 ’ایسا کیوں ہوتا ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہوتے ہوئے بھی اچانک زندگی میں خاموشی سے کوئی دوسرا کیوں آ جاتا ہے   — وہ ٹھٹھکی — کہیں کوئی کمی نہیں تھی، شاید؟ کہیں کوئی خالی پن بھی نہیں چھوڑا تھا ہم نے   — جیسے ان رشتوں میں اکثر ایسے خالی پن رہ جاتے ہیں   — خالی دروازے جیسے   — جس چور دروازے سے کوئی بھی آپ تک چھلانگ لگا سکتا ہے   — لیکن شاید ایک بار ملی زندگی کا اپنا کوئی آزاد صفحہ بھی ہوتا ہے۔ اس صفحے پر کسی دوسرے کا نام لکھتے ہوئے شاید کوئی ’گلٹ‘  یا پچھتاوا بھی نہیں جاگتا  — کیونکہ یہ اپنے اور اپنے دل کے درمیان کی بے حد اکیلی اور ذاتی سڑک ہوتی ہے، جس پر اس کی بیوی اور بچے نہیں چل سکتے۔

ترانہ اس کی طرف مڑی  — اچھا مان لو۔ وہ اچانک کسی لمحہ تمہارے سامنے آ کر کھڑی ہو جائے تو —؟ کیا کروگے تم سانیال —؟ منع کر دو گے  —؟ جانے کو کہو گے یا کہو گے کہ اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے تمہارا یا پھر …  بولو … ؟

آسمان میں کتنے میزائل ایک ساتھ چھوٹتے چلے گئے تھے۔

بشنواز نے چوں حکایت می کند

و از جدائی ہا شکایت می کند

             (مولانا روم کی مثنوی سے )

 (بانسری سے سنو وہ کیا بیان کرتی ہے ،

ہماری جدائیوں کا شکوہ بیان کرتی ہے۔ )

وہ ایک عام سی صبح تھی۔ لیکن شاید وہ بے حد عام سی صبح نہیں تھی۔ وہ بیحد عام سی صبح ہو بھی نہیں سکتی تھی  — اور خاص کر سانیال کے لیے   — کہ بس ایک رات پہلے ہی مہک کے گم ہو جانے کا تذکرہ ہوا تھا۔ ایک رات پہلے تک سب کچھ معمول پر تھا۔ دریا کے پانی میں پتھر کی اچھال کے بعد تیز بھنور تو بنے تھے لیکن پھر سناٹا چھا گیا تھا  — لہریں خاموش تھیں   — اور اچانک اس خوبصورت، جگمگاتی صبح جیسے پانی میں ایک کے بعد ایک کتنے ہی  پتھر اچھال دیئے گئے …  اور ندی کے پانی میں لہروں کے کتنے ہی جال بنتے چلے گئے۔

صبح سات بجے کی دستک …

بیل کی گھنٹی جیسے کسی انجانے طوفان کو لے کر آئی تھی۔ دروازہ کھولنے والا بیٹا حیرت سے سامنے کھڑی عورت کو دیکھ رہا تھا  — سانولا چہرہ، آسمانی رنگ کی قمیض اور اس سے میچ کرتی شلوار۔ کندھے سے جھولتا ہوا دوپٹہ …

 ’تم آصف ہو نا … ؟‘

ترانہ کے سامنے آنے تک وہ اس کے گلے سے لگ کر بہنوں کی طرح رو پڑی تھی …  اور آپ ترانہ … ؟ میں مہک ہوں۔ پاکستان سے کل رات ہی آ گئی۔ سانیال کہاں ہے ؟

جیسے کمرے میں اچانک تیز زلزلہ آ گیا ہو۔ بیٹا حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ترانہ کی آنکھیں ابھی بھی معصومیت میں ڈوبی یا اپنی کیفیت کو چھپاتی ہوئی اس کی طرف دیکھ رہی تھیں   — میں باہر نکلا تو دو پر اسرار آنکھیں جیسے مجھے دیکھ کر طلسماتی کہانیوں سے نکلی، پتھر والی ساحرہ میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ وہ انگلی سے میری طرف اشارہ کرتی رہی تھی  — لفظ گونگے تھے اور چہرہ، جسم جیسے جذبات کی کتاب بن گئے تھے   — ایسی کتاب جو شاید آج تک کسی بھی انسانی زندگی کو نصیب نہ ہوئے ہوں گے۔

مہک کی آواز میں لرزش تھی …

 ’ترانہ، ہم کیا دو منٹ کے لیے اکیلے میں مل سکتے ہیں۔ باتیں کر سکتے ہیں … ؟

بیٹا، ماں کی بانہوں میں سہما سا تھا  — ترانہ مسکراتی ہوئی کہہ رہی تھی …

 ’ہاں۔ کیوں نہیں …‘

لیکن شاید ترانہ کی آنکھیں میری طرف دیکھ پانے میں کامیاب نہیں ہوئی تھیں   — یا میں ترانہ، یا بیٹے کی طرف دیکھ پانے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا  — وہ کب اور کیسے میرے قریب آ کر کھڑی ہو گئی، مجھے پتہ بھی نہیں چلا۔

 ’تمہارا کمرہ کون سا ہے ؟‘

اس کی آواز برف جیسی تھی۔ پاکستانی لباس سے اٹھنے والی خوشبو، ہندوستانی خوشبو سے مختلف نہیں لگی۔

٭٭

کمرہ جیسے دنیا کے کسی آٹھویں عجوبے میں تبدیل ہو گیا تھا  — اندر تک جیسے آگ میں ڈوبی ایک لہر تھی  — شاید جس نے میرے پورے وجود کو اس وقت جلا کر رکھ دیا تھا۔ لفظ کسی سرنگ یا گپھا میں کھو گئے تھے۔ باہر بیٹے یا ترانہ کے بارے میں کچھ بھی سوچ پانا مشکل تھا۔ کمرے میں یکایک زلزلہ آ گیا تھا۔

وہ مجھے چھو رہی تھی …  انگلیوں کے پور پور کو، ناخن کو …  میرے لباس کو …  میرے وجود کو …  میری روح کو یا میری سانسوں کو …

 ’تم سانیال ہو …  نا۔ کیسے یقین کروں خود پر …  نہیں، اتنی خوش قسمت نہیں ہو سکتی میں …  تم …  اتنے قریب۔ اتنے پاس۔ نہیں۔ روکو مت …  چھونے دو مجھے۔ یہ تمہاری انگلیاں ہیں۔ یہ تمہارا لباس۔ تمہیں دیکھ سکتی ہوں۔ چھو سکتی ہوں۔ اتنی قریب ہوں تم سے اور تمہیں دیکھتے ہوئے …  زندہ کیسے ہوں …  سانیال  — کاش، مجھے موت آ جاتی، اس لمحے …  تمہیں تم دیکھتے، محسوس کرتے اور جیتے ہوئے …  تم نے کبھی سوچا نہیں تھا نا، کہ مہک یہاں بھی آسکتی ہے۔ ایک دن تمہارے دیس، تمہارے شہر، تمہارے گھر میں   — اپنی سانسوں کی گونج میں خاموشی سے ایک گھروندہ بنا کر رکھ لیا تھا تمہیں   — سوچا بھی نہیں کہ ایسا کرتے ہوئے تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہو گی  — تم ٹھیک ہونا …  بولتے کیوں نہیں سانیال۔ ‘

 ’تم کیسے آئی …‘ آہستہ سے کوہ قاف کی وادیوں سے جیسے کوئی آواز گونجی ہو۔ جیسے جسم میں سمائی سانسوں نے سب کچھ بھول کر اس کے نام کا کلمہ پڑھنا شروع کر دیا ہو۔

 ’یونیورسٹی کی طرف سے دہلی کی قدیم عمارتوں کو دیکھنے کے لیے 20 لڑکے اور لڑکیوں کا ایک وفد آیا ہے۔ ہم کل رات ہی آ گئے تھے۔ رات کا ایک ایک لمحہ جیسے تمہارے نام کی جاگتی تسبیح بن گیا تھا۔ ساری رات تمہارے ہونے کی عبادت سے گزرتی رہی۔ پھر سورج کی پہلی کرن کے ساتھ سجدے سے فارغ ہوئی اور کسی کو بتائے بغیر …‘

 ’تم نے کسی کو بتایا بھی نہیں  … ؟‘

 ’نہیں …‘

اگر کسی نے تمہاری تلاش شروع کی … ؟ زلزلے کا یہ پہلا جھٹکا تھا۔

وہ معصوم سی اب بھی میری انگلیوں کو چھو رہی تھی۔ ’حنا جانتی ہے تمہارے بارے میں …  مگر زیادہ نہیں …‘

 ’حنا کون ہے ؟‘

 ’میری ایک دوست …‘ وہ آہستہ سے بولی …  آج دس بجے ہمیں پولس ہیڈ کوارٹر بھی جانا ہے …  فارملٹی پوری کرنے …  لیکن میں تو جاہی نہیں سکتی …‘ وہ کانپ رہی تھی …  اس کی آنکھیں بند تھیں …  بس تمہارے ہونے کے احساس کو خود میں سمیٹ لینا چاہتی ہوں۔ پھر  …  ’وہ آہستہ سے بولی …  دنیا میں آنکھیں کھولنے کا مقصد پورا ہو جائے گا میرا …‘ وہ بچوں کی طرح میری طرف مڑی …  پھر کمرے کو دیکھنا شروع کیا …  یہ تمہارا بستر ہے نا۔ تم اسی بستر پر سوتے ہونا …  لیٹ جاؤں ؟ تھوڑی دیر …  بستر کی شکن میں بھی تم ہو گے   — ہے نا سانیال؟ تمہارا لمس ہو گا …  لے لوں یہ سارے کے سارے لمس …  بولو نا … ؟

جھٹکے سے وہ آگے بڑھی اور بستر پر لیٹ گئی …  لمحے بھر کو آنکھیں بند کر لیں …  پھر اٹھی …  آنچل برابر کیا۔ وہ ہنس تھی۔ نہیں وہ رو رہی تھی …  ’چلو اپنے گھر بھی آ گئی۔ اپنے بستر پر بھی سو لیا …  مجھے رکھ لو نا یہیں …  ؟مجھے کہیں مت جانے دو  — میں تو بس تمہارے لیے آئی ہوں۔ مجھے روک لو نا یہیں …  مجھے مت جانے دو۔ ‘

کہیں دور مولانا روم کی بانسری کے سر گونج رہے تھے …  بانسری سے سنو، وہ کیا بیان کرتی ہے …  بانسری نے ان لمحوں کو قیامت کے لمحوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ میرا چہرہ کسی بت کا چہرہ تھا۔ باہر ترانہ اور بیٹے کے بارے میں سوچتے ہوئے اندیشے کے ہزاروں گھنے بادلوں کے درمیان کہیں خود کو محسوس کر رہا تھا …  اور مہک قریب، بند آنکھیں لیے میرے سینے پر سر رکھے، آنکھیں بند کیے جیسے کسی اور ہی دنیا میں گم تھی …  میں شاید کانپ رہا تھا …  آہستہ سے اپنا کانپتا ہاتھ اس کی پیٹھ پر رکھا تو وہ جیسے میرے سینے، میری سانسوں میں گم ہوتی چلی گئی  — لیکن اندیشے، سوالوں کی برچھیاں لے کر کھڑے تھے …  ’مہک نہیں گئی تو؟ مہک کو جانے کے لیے کیسے کہوں ؟ مہک کے نہیں جانے سے کتنا بڑا ہنگامہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ ‘ معاملہ پاکستان سے آئی ہوئی ایک لڑکی کا ہے۔ اور لڑکی غائب؟ پھر؟ دہشت گردی سے لے کر سوسائیڈ بم تک کتنی کہانیاں اس ایک لمحے مجھے پریشان کر گئی تھی۔ مگر شاید مہک سے کچھ بھی کہہ پانا ممکن نہیں تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ مہک میرے وجود سے الگ ہو …  اس کی محبت، معمولی نشے سے آگے بڑھ کر، عبادت بن کر میرے وجود میں گھل رہی تھی …  پھر جیسے وقت ٹھہر گیا …  وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی۔ میری طرف مڑی۔ پتھرائی آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک جزیرہ آباد تھا۔

 ’جا رہی ہوں۔ تمہیں پریشان نہیں کروں گی …  اپنے محبوب کو پریشان دیکھ بھی نہیں سکتی۔ مگر تمہیں ایک بار دیکھنا ضروری تھا۔ تمہیں چھونا۔ تمہارے لمس کو اپنے اندر محفوظ کرنا …‘

اس کے چہرے پر انوکھی سی مسکراہٹ تھی …  مجھے روکنا مت …  اور ہاں۔ اس    غلط فہمی میں مت رہنا کہ میں پاکستان واپس چلی جاؤں گی …‘

وہ آہستہ سے ہنسی …  ’تمہارے دیس‘ تمہارے شہر میں رہ نہیں سکتی۔ لیکن …  مر تو سکتی ہوں نا … !‘

آگے بڑھ کر اس نے اپنے گرم ہونٹ میرے ہونٹ پر رکھ دیئے۔ پھر تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا، محسوس ہوا، جیسے پاؤں کے نیچے کی زمین کانپ رہی ہو۔ بانسری کی آواز قریب آ گئی تھی۔

 ’جب تو نے مجھے مست کر دیا، مجھ پر حد جاری نہ کرو

شریعت مستوں پر حد جاری نہیں کرتی ہے۔

چونکہ مستم کر دۂ  حدّم مزن

شرع مستاں رانیاد حد زدن

٭٭٭

ماخذ: ’ایک انجانے خوف کی ریہرسل‘ کتاب میں مشمولہ ایک طویل کہانی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید