FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

نظم کے نئے معمار: آفتاب اقبال شمیم

 

               محرک: زیف سید (ظفر سید)

فیس بک کے حاشیہ ادبی گروہ کے آن لائن مباحثے کا سکرپٹ

 

 

 

ایک نظم زید کے نام

آفتاب اقبال شمیم

جن کے ہم راہ چلتا ہوں

چلتا رہا ہوں ، انھی کا وفادار ہوں

دال روٹی کی گردان میں

عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں

رزق اور روزی کی ابجد سے

بنتے ہوئے جن کے ناموں کی رونق سے

یہ،گاؤں ، یہ شہر آباد ہیں

میرے بیٹے ہیں وہ میرے اجداد ہیں

میرا جذبہ انھی کے قبیلے سے ہے

میری دانش انھی کے وسیلے سے ہے

کیا بتاؤں کہ گلیوں محلوں کی یہ لڑکیاں

عشق کے قاف کی وہ پری زاد ہیں

جن کی دل داریوں کے گلاب و سمن

چشم و لب اور جان و بدن کی

عبارت میں

لکھی ہوئی داستانوں میں

دل شاہ زادہ ہے گم نام صدیوں سے

بھٹکا ہوا

اور جیون امر ہے

مجھے دکھ، جنم دکھ کا سہنا گوارا ہے

ان کے لیے

ہم کہ جور و جفا اور بے مہر صدیوں کی

دوزخ میں ہیں

کیا پتا کل نہ ہوں

کیا پتا کل کا دیکھا ہوا خواب

سچا نکل آئے، دنیا بدل جائے

گلیوں محلوں کے

لُچے،لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو

فلاں اور فلاں اور فلاں شہر کی

تنگ دامانیوں کی سزا سے

رہائی ملے

میں زمیں زاد کیوں اس سے شکوہ کروں

خاک خود اپنا آئین ہے

نا مساوی کو ترکیب کے زور سے

جو مساوی کرے

کیسی مایوسیاں

اس مرے خوابِ فردا کو تعبیر ہونا ہی ہے

جھوٹ کو میرے سچ کی لڑائی میں

تسخیر ہونا ہی ہے

٭٭٭

 

ظفر سیّد: حاشیہ کے سلسلے ’’نظم کے نئے معمار’’ کے اجلاس میں آفتاب اقبال شمیم کی نظم تنقید کے لیے پیش کر دی گئی ہے۔ جناب سعید احمد سے گزارش ہے کہ وہ مسندِ صدارت سنبھال کر اجلاس کا باضابطہ آغاز کریں۔

سعید احمد: محترم اراکین حاشیہ! حاشیہ کے اجلاس میں آپ سب کا خیر مقدم ہے ـ اس اجلاس میں عہد ساز نظم نگار جناب آفتاب اقبال شمیم کی نظم بہ عنوان "ایک نظم زید کے نام” آپ کے تجزیاتی مطالعے کی منتظر ہے ـ جناب آفتاب اقبال شمیم کی اردو نظم کے ساتھ طویل تخلیقی وابستگی کسی تعارف کی محتاج نہیں ـ اب تک ان کی نظموں کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ایک طویل نظموں کا مجموعہ "زید سے مکالمہ” بھی شامل ہے – ان کی نظموں میں زید ایک ایسا کردار یا کلیدی استعارہ ہے جس سے ان کا مکالمہ ازل سے جاری ہے اور شاید ابد تک جاری رہے گا -ان کی نظموں کے طلسم کدے کا مرکزی در دریافت کرنے کے لیے زید کی ہمراہی از حد ضروری ہے اس لحاظ سے اس اجلاس کی زیر بحث نظم اراکین حاشیہ کے تجزیوں کی روشنی میں آفتاب اقبال شمیم کی کثیر جہتی نظمیہ شاعری کی تفہیم مین بھی معاون ہو گی – نظم کا ابتدائیہ معروف نظم نگار جناب علی محمد فرشی نے تحریر کیا ہے میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنا ابتدائی تجزیہ پیش کریں

علی محمد فرشی: جنابِ صدر!

 آفتاب اقبال شمیم نے جب شاعری کے شہر میں قدم رکھا تو ترقی پسند تحریک اپنا ساز و سامان سمیٹ رہی تھی۔ میرا جی، راشد اور مجید امجد نظم کو پروپیگنڈے کی مشقت سے آزاد کر کے آرٹ کے منصب پر فائز کر چکے تھے۔ میرا جی کی سیادت میں حلقۂ ارباب ذوق نے جدید نظم کے لیے جو راہیں متعین کی تھیں ان پر نئے سنگِ میل قائم ہو رہے تھے۔ یہاں اس مغالطے کا استرداد ضروری ہے کہ حلقۂ ارباب ذوق کی تحریک اصل میں ترقی پسند تحریک کی ضد یا رد عمل تھی۔ جواز میں جو دلیل دی جاتی ہے وہ بھی خاصی معقول لگتی ہے کہ حلقۂ ارباب ذوق نے ترقی پسند تحریک کی ’خارجیت، کو ’داخلیت، میں بدل دیا۔ ترقی پسندوں نے "ادب برائے زندگی” کے نعرے کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا تھا اور ادب کو پروپیگنڈے کا ذریعہ نہ ماننے والوں کو "ادب براے ادب” کا قائل قرار دے کر ایک طرح سے مہمل اور بے مقصدیت کا اسیر قرار دے کر ادب بدر کرنے کی کوشش کی تھی۔ منٹو جیسے ادیب کو ترقی پسندوں کے ہاتھوں جن اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لہٰذا ردِ عمل میں بھی شدت پسندی کے احتمال سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو خیر جملۂ معترضہ تھا۔ ہوا صرف یہ کہ ترقی پسند تحریک اپنا فعال کردار ادا کر چکنے کے بعد اپنے انجام کی جانب گام زن تھی، ایسی بڑی تحریکوں میں بے اعتدالی کے عناصر کا در آنا بھی کسی اچنبھے کی بات نہیں۔ اور ایسی تحریریں جو ادب کے درجے تک نہیں پہنچتیں ، خود بہ خود زمانہ برد ہو جاتی ہیں ، ان کے لیے تحریک چلانے کی ضرورت نہیں ہوتی!طرفہ یہ ہے کہ ہم ادب کوتو تبدیلی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں لیکن خود اسے تبدیل ہونے سے روکنا چاہتے ہیں۔ جب کہ ادب کا بنیادی وظیفہ ہی یہ ہے کہ وہ یکسانیت اور جمود کی تہ کو توڑے اور تازگی کو پنپنے کا موقع فراہم کرے۔ میرا جی، راشد اور مجید امجد نے نظم کا نیا جہان دریافت کیا تھا، ترقی پسند تحریک کے آباد کردہ شہر کو مسمار کرنے کی سازش نہیں کی تھی۔ یہ درست ہے کہ نئی نظم داخلیت کی کھڑکی سے زندگی کا نظارہ کرتی ہے اور قلم کو عَلَم بنانے پر یقین نہیں رکھتی، لہٰذا اوّل اوّل کہیں کہیں بے اعتدالی کی دھند بھی دبیز ہو گئی تھی۔ لیکن بعد میں آنے والے با شعور نظم نگاروں نے خاصی احتیاط کا مظاہرہ کیا۔

 آفتاب اقبال شمیم کی نظم ’خارجیت، اور ’داخلیت، کی مثبت اقدار کے فنی امتزاج کا نام ہے۔ اُس نے اجتماعی زندگی کو اپنے باطنی فرد کی خرد افروز آنکھ سے دیکھا اور دردمند دل کی کٹھالی میں فن کی آنچ پر پخت کر نے کے بعد سپردِ قرطاس کیا۔ یوں اس کی فکرِ مثبت نعرۂ انقلاب کی بہ جائے ایسے احساس کا سانچ بن گیا جو فن کا خاصہ ہے۔ اس کا یہ نظریۂ فن اس کی نظموں کے پہلے مجموعے ” فردا نژاد”، جو ۱۹۸۴ میں شائع ہوا، سے لے کر، تا حال، آخری مجموعے "میں نظم لکھتا ہوں ” تک اس کی انفرادیت کو مستحکم کرتا دکھائی دیتا ہے۔

 زیرِ بحث نظم "ایک نظم زید کے نام” اپنے عنوان ہی سے قاری کو شاعر کی فکر کے مرکزے تک رسائی فراہم کر دیتی ہے اور ذہن خود بہ خود اس کی دوسری کتاب کے عنوان "زید سے مکالمہ”، جو طویل نظموں کو محیط ہے، کی طرف جست لگاتا ہے۔ زید کا یہ کردار ” فردا نژاد” میں شامل ایک نظم "زید آ” سے شاعر کی فنی زندگی میں اُس کے ساتھ ساتھ منزلیں مارتا یہاں تک پہنچا ہے۔ (جاری ہے )

علی محمد فرشی: (۲)

 اگر ہم سرسری بھی شاعر کے کلام سے گزریں تو "زید”کا استعارہ شاعر کی فکری و فنی کلّیت کو آشکار کرنے کے لیے کافی ثابت ہو گا۔

 ’زید،‘کو شناخت کرنے کے لیے میں "زید آ” کو نقل کر دوں تو بہت سا ابہام دور ہو جائے گا:

 رات کے کھیت سے پھوٹتی رُت کی خوش بُو اڑی

 جسم میں آہٹیں سی ہوئیں

 نوجواں فصل کو کاٹنے کے لیے

 دستِ آئندہ آگے بڑھا

 خون میں ڈوب کر گولیاں گنگنانے لگیں

 روشنی سے سلگتے ہوئے چوک میں جرأتیں

 سر لٹانے لگیں

 زید آ، ہم بھی شامل ہوں بیساکھ کے جشن میں

 ورنہ اس جہل کی اوٹ میں چھپ کے بیٹھے ہوئے

 کیسے بچ پائیں گے

 سچ کی دوپہر

 یلغار کرتی ہوئی ڈھونڈ لے گی ہمیں

 ہم کہ آنکھوں کو اپنے ہی سائے سے ڈھانپے ہوئے

 اور اپنے ہی پیچھے کھڑے

 خود کو خود سے چھپانے کی کوشش میں مصروف ہیں

 خود کلامی کی تکنیک میں لکھی ہوئی یہ نظم ’زید، کی پہلی جہت جو خود شاعر کی اپنی ہی شخصیت کا جمود ہے، کو مخاطب بناتی ہے لیکن موضوع کا خارجی حوالہ جو سیاسی سماجی جبر سے مرکب ہے، اس کردار کی دوسری جہت کو خارج کا نمائندہ بناتا ہے۔ یوں داخلیت اور خارجیت ایک ہی حقیقت کے دو رخ قرار پاتے ہیں۔ نظم کا موضوع بھی اکہرا نہیں۔ سطح کا سوال تو یہ ہے کہ سیاسی سماجی جبریت کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہو چکا ہے لیکن غفلت شعاروں کی روش ہے کہ بدلنے کا نام نہیں لیتی۔ ممکن ہے کہ نظم کا اکھوا ایوبی آمریت کے خلاف عوامی تحریک سے پھوٹا ہو یا ضیائی مارشل لا کے خلاف عوامی سیاسی مزاحمت سے، لیکن اس سے نظم کی کہانی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ چوں کہ نظم کی تخلیق کا زمانہ ہماری قومی تاریخ کے انھی دو سیاہ ادوار کو نشان زد کرتا ہے اس لیے لامحالہ دھیان ادھر جاتا ہے ورنہ نظم اپنی ساخت میں زمانی وسعت کا لامحدود قرینہ لیے ہوئے ہے۔ جیسا کہ منٹو کا "نیا قانون”اپنی زمانی واقعیت سے جڑے ہوئے بھی اپنی علامتی حیثیت میں زمان و مکاں سے آزاد رہتا ہے۔ (جاری ہے )

علی محمد فرشی:(۳)

 فردا نژاد ہی میں شامل نظم "لا (ایک مکالمہ) میں "زید” شاعر کے تخلیقی وجود، اس کے سماجی کردار اور خارج میں فرد مع اجتماع کی کلیت میں ڈھل گیا ہے :

 "آ چلیں ، سامنے بائیں جانب کو مُڑتے ہوئے راستے پہ چلیں۔ کیوں ، وہاں اُس طرف کیوں چلیں ، اِس طرف کیوں نہ جائیں۔۔۔۔۔۔ مگر سوچتا ہوں کہ یہ اور وہ ایک ہی راہ کے دو زمانے ہیں ، دو حالتیں ہیں ، صدی دو صدی کے شعور اور رفتار کے مظہروں کے سوا اور کچھ بھی نہیں ، اور کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ کیوں چلیں ، اُس طرف موسموں کی ہوا۔۔۔۔ چھوڑ، ہم اڑتے پرزوں کے انبوہ سے کس لیے جا ملیں اور پھر زید کے تنگ جوتے مجھے کاٹتے ہیں۔ اُسے یا مجھے زرد آنکھوں کی تکلیف ہے۔ آ یہیں۔۔۔۔ آ یہیں بیٹھ جائیں ، یہیں گھاس پر۔۔۔ جانتے ہو یہ پاؤں میں روندی ہوئی گھاس بنجر زمیں اور زرخیز ماں اور قدموں کی گرمی کی اولاد ہے۔۔۔۔۔ "

 اسی(۸۰)کی دہائی کے اوائل تک سیاسیات اور سماجیات میں کیمونزم کو معاشی/ معاشرتی انصاف کے حصول کے لیے آئیڈیل سمجھا جاتا تھا۔ ادب میں ترقی پسند فکر کے نمائندہ لکھاری استبدادی قوتوں کے خلاف اسے نجات دہندہ خیال کرتے تھے۔ اس نہج پر سوچنے والوں کی نیک نیتی پر شک و شبہے کی گنجائش ہی نہیں۔ ترقی پسندی نے اردو ادب کو نیا خون فراہم کیا، توانا اور مثبت فکر عطا کی۔ آفتاب اقبال شمیم کی فکری ساخت و پرداخت اسی نظریے کی آغوش میں ہوئی۔ لیکن ایک اصیل شاعر کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایک نظریے کے جوتے پہن کر آنکھیں بند کیے کسی ایک راستے پر چلتا رہے۔ جیسا کہ اس شاعر نے کھلی آنکھوں سے زمینی حقائق کا مشاہدہ کیا ہے اور اپنا راستہ ہٹ کر بنایا ہے۔ اس کی وابستگی اپنی زمین سے اور روندے ہوئے عوام سے ہے۔ نظم میں "زرد آنکھیں ” سبز اور سرخ نظریات کو بہ طور ہتھکنڈا استعمال کرنے والی قوتوں پر عدم اعتماد کا مظہر ہیں۔ ایک ایسے وقفے کی علامت ہیں جہاں شاعر اپنی باطنی دانش سے راہ نمائی لیتا ہے۔ نظم آگے بڑھتی ہے تو اِن دونوں بازوؤں پر کھل کر حملہ کرتی ہے :

 "کس طرف! کس طرف!۔۔۔۔ میرے آقا! مجھے دائرے کے مسلسل سفر سے رہائی دلا۔ انگلیاں ، انگلیوں پر لپیٹے ہوئے میں کہاں تک گرہ بندیوں سے نکلنے کی خواہش کروں اور لفظوں کی بارش میں بھیگے ہوئے، آنے والے خطوں کے مضامین بے معتبر نامہ بر کی زباں سے سنوں۔۔۔۔۔۔ اور رنگوں کی آلائشیں۔۔۔۔۔۔ سب منافق ہیں۔ ہر بات سچی بھی ہے اور جھوٹی بھی ہے "

 دائیں بائیں کے دونوں دھڑوں کی منافقت اور دو بڑی غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کاروں کے خلاف یہ ردِعمل ایک خود بین و خود آگاہ دانش ور اور خود مختار شاعر کا کھرا نقطۂ نظر ہے۔

 اس تمہیدِ طولانی کا مدعا یہ تھا کہ شاعر کے ابتدائی فکری و فنی سفر کے نشانات کو بھی ذہن میں رکھا جائے جن پر چل کراس نے اپنی شعری کائنات تخلیق کی۔ (جاری ہے )

علی محمد فرشی: (۴)

 آفتاب اقبال شمیم کی دیگر نظموں کی طرح زیرِ بحث نظم بھی ابہام سے پاک ہے، اور مجھ ایسے شاعر کے لیے جو ابہام کو فن کی خوبی سمجھتا ہو، اس نوع کی نظم کو بحث کے لیے چننا ’ابہام ،کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے وضاحت ضروری ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ نقاد کو کسی خارجی منطق اور طے شدہ تنقیدی نظریے سے لیس ہو کر فن پارے سے نبرد آزما نہیں ہونا چاہیے بل کہ فن پارے کو کھولنے کے لیے کلید بھی اسی فن پارے سے لینی چاہیے۔ میر کتنا ہی عظیم ہو اور اس کا نقاد خواہ کتنا ہی فاضل، اقبال کی تفہیم کے لیے میر پر قائم کیے ہوئے اُس کے اصول اور اوزار ناکارہ ثابت ہوں گے۔ فیض مجھے پسند ہیں البتہ راشد، میرا جی اور مجید امجد بہ طور نظم نگار فیض سے زیادہ پسند ہیں۔ لیکن فیض کا مطالعہ کرتے ہوئے اگر میں راشد، میراجی اور مجید امجد کی شاعری کو ذہن سے نکال کر باہر نہیں رکھوں گا تو فیض سے بھی نا انصافی کروں گا اور خود سے بھی زیادتی کا مرتکب ٹھہروں گا کیوں کہ اس طرح میں فیض کے کلام سے فیض یاب نہیں ہو پاؤں گا۔ میں اقبال کو اردو نظم کا سب سے بڑا شاعر مانتا ہوں جس کے ہاں ابہام نام کو نہیں۔ لہٰذا یقین رکھیے کہ میرے نزدیک ابہام نہ کوئی خامی ہے نہ خوبی، بل کہ یہ تو موضوع کی غایت ہے، اسلوب کی ضرورت ہے اور شاعر کے فنی میلان کا تقاضا ہے۔ ابہام کی موجودگی یا عدم موجودگی کو فن پارے کی داخلی منطق مان لیا جائے تو یہ سوال بے معنی ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات فن پارے کی نامانوسیت کو بھی ابہام کی ذیل میں ڈال کر ہاتھ جھاڑ لیے جاتے ہیں جب کہ ہر اصیل شاعر یا فن پارے کا اپنے نئے پن کے باعث نامانوس ہونا ایک لازمی امر ہے۔ غالب کی شاعری اپنے عہد کے لیے مبہم تھی آج نہیں ہے۔ غزل اور روایتی نظم کے تربیت یافتہ قاری کے لیے جدید نظم نامانوس ہونے کی وجہ سے بھی مبہم ہو سکتی ہے۔ آفتاب اقبال شمیم کی نظم ابہام سے پاک ہونے کے باوجود ناقدین کی ضروری توجہ سے محروم ہے تو اس کے معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم اپنی پسند اورآسانی کے اسیر ہیں۔

 زیرِ بحث نظم شروع ہی میں اپنے موضوع کا دھاگا ہمیں تھما دیتی ہے اور ہم اس کے سہارے نظم کے اندر دور تک سفر کر سکتے ہیں۔ قدم قدم پر زبان کے تازہ اور تخلیقی استعمال سے ہمارے جمالیاتی ذوق کو توانائی ملتی ہے اور شاعر کی محروم طبقات سے دلی وابستگی ہماری فکر کی لو کو فزوں کرتی ہے۔ نظم کا واحد متکلم بہ یک وقت شاعر کی ذات بھی ہے اور اصیل فن کاروں کا استعارہ بھی:

 "چشم و لب اور جان و بدن کی

 عبارت میں

 لکھی ہوئی داستانوں میں

 دل شہ زادہ ہے گم نام صدیوں سے

 بھٹکا ہوا”

 اعلیٰ ادب ہمیشہ معاشرے میں مروج منفی رویوں کے خلاف اور مثبت انسانی اقدار کی حمایت میں جدوجہد کرتا نظر آئے گا۔ مذہبی، سماجی، سیاسی صداقتیں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن ادبی صداقت غیر متغیرہ اصول کے طور پر ادب میں ہمیشہ رائج رہتی ہے۔ کون سا بڑا فن پارہ ہے جو محبت، انسان دوستی، وفاداری، رحم اور ایثار کی دشمنی پر قائم ہوا ہے۔ یہی وہ "دل شہ زادہ” ہے جو "گم نام صدیوں سے ” انسانی ہم دردی کے جذبے سے سرشار تاریخ کے تاریک جنگلوں میں ، عظیم انسانی خواب کی تعبیر کی تلاش میں ، سر گرداں ہے۔ اس نظم کے شاعر نے اپنی ذات کو اسی ادبی روایت سے جوڑ کر اپنے وجود کے جواز کی دلیل دی ہے اور اپنے مقصد حیات اور نظریہ فن کی وضاحت بھی کر دی ہے۔ (جاری ہے )

علی محمد فرشی: (۵)

 نظم کا واحد متکلم، جو نظم کا پرسن بھی ہے، معاشی معاشرتی انصاف کے آدرش کا امین ہے لیکن وہ اپنے آدرش کے حصول کے لیے عوام کو، جن کی عمریں پیٹ کے تندور کا ایندھن بن جاتی ہیں ، ظالموں اور غاصبوں کے تخت گرانے پر اکساتا ہے نہ ان کے تاج اچھالنے کی ترغیب دیتا ہے۔

 "جن کے ہم راہ چلتا ہوں

 چلتا رہا ہوں ، انھی کا وفادار ہوں

 دال روٹی کی گردان میں

 عمر کو جو بسرکرتے رہتے ہیں

 رزق اور روزی کی ابجد سے

 بنتے ہوئے جن کے ناموں کی رونق سے

 یہ گاؤں یہ شہر آباد ہیں

 میرے بیٹے ہیں وہ، میرے اجداد ہیں "

 نظم کی یہ ابتدائی سطور واضح کر دیتی ہیں کہ شاعر کسی بلند سٹیج پر چڑھ کر تقریر نہیں کر رہا بل کہ اس کا ہونا نہ ہونا انھی عوام کے وجود سے وابستہ اور انھی کے ماضی و مستقبل سے پیوستہ ہے۔ خارج اور داخل کی حدود کو مٹاتی ہوئی یہ سطور شعری جمالیات، تازہ اسلوب اور شاعر کی گہری دردمندی کے احساس کا ابلاغ اس قرینے سے کرتی ہیں کہ نظم قاری کے دل و دماغ میں تیز رفتار شارک کی طرح آگے بڑھنے لگتی ہے۔ ” دال روٹی کی گردان میں عمروں کا بیت جانا”، "رزق اور روزی کے ’الف با، سے انسانی وجود کی شناخت کا متعین ہونا” ایک لمحے کو ہمیں ایسے کرب کی چکی سے گزار دیتے ہیں جس میں عوام کی اکثریت مدتِ مدید سے پِس رہی ہے۔ عین اس مقام پر جب درجِ ذیل دو مصرعے سامنے آتے ہیں تو قاری کی سلگتی ہوئی آنکھوں میں شاعر کی وابستگی کے باعث خوشی کے آنسو جھلملا اٹھتے ہیں۔

 "میرا جذبہ انھی کے قبیلے سے ہے

 میری دانش انھی کے وسیلے سے ہے "

 نظم نہ کسی آورد کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے نہ کسی تصنع کا شکار ہوئی ہے۔ بے ساختگی، فطری روانی، فنی تسلسل اور "جذبہ” اور "دانش” میں صنعتِ تضاد کے استعمال اور "قبیلے ” اور "وسیلے ” کے قوافی کا انتہائی بر محل جواز کے ساتھ وارد ہونا شاعرانہ کمال کی نشانی ہے۔

 استبدادی قوتوں کے بنائے ہوئے جہنم میں شاعر کا وجود جمہور کا جز بن کر اذیت کے دن گزارتے ہوئے اس احساس سے بھی دوچار ہے کہ اس صورتِ حال سے نکلنے کا کوئی راستہ شاید اس کی اپنی زندگی میں نہ بن پائے۔ مایوسی کے شعلوں کی لپیٹ میں آئے ہوئے فرد کا یہ خوف دفعتاً ایک خواب گوں احساس سے امکان کا ایک روزن بنا تا ہے :

 "کیا پتا کل کا دیکھا ہوا خواب

 سچا نکل آئے، دنیا بدل جائے

 گلیوں محلوں کے

 لُچے لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو

 فلاں اور فلاں اور فلاں شہر کی

 تنگ دامانیوں کی سزا سے

 رہائی ملے "(جاری ہے )

علی محمد فرشی: (۶)

 "کل کا دیکھا ہوا خواب” نظم کے زمان کا تعین کرتا ہے۔ یہ خواب ایک آزاد، خوش حال اور سیاسی سماجی انصاف کے امین معاشرے کا خواب تھا۔ یہاں نظم نے اپنے عمودی دائرے کے ساتھ ساتھ اپنے افقی دائرے کو بھی کشادہ کیا ہے۔ ایسا فن پارہ جس کی جڑیں زمین میں گہری نہ ہوں ، خلا میں معلق تو ہو سکتا ہے آفاقی نہیں۔ اس نظم نے اسلوبیاتی سطح پرمقامیت سے بھی اپنا رشتہ استوار رکھا ہے اور شعری روایت سے بھی استفادہ کیا ہے لیکن یہ دونوں باہم دست و گریباں نہیں بل کہ شیر و شکر ہو کر نظم کی نامیاتی وحدت کا تخلیقی حصہ بنے ہیں۔ یوں یہ نظم مقامی ثقافت، شعری روایت اور آفاقی اقدار سے آمیز ہو کر ایک زندہ فن پارے میں ڈھل گئی ہے جو نہ صرف شاعر کی نمائندہ قرار پا کر اس کی انفرادیت کو مستحکم کرتی ہے بل کہ اردو کی بہترین نظموں میں بھی اعتماد سے رکھی جا سکتی ہے۔

 نظم کو مختلف بندوں میں تقسیم نہیں کیا گیا لیکن بہ غور مطالعے سے یہ تین حصوں کا مجموعہ ہے۔ پہلا حصہ معاشرے کی زبوں حالی کا نقشہ دکھاتا ہے۔ دوسرا حصہ مزید دو ضمنی اجزا میں بٹا ہوا ہے۔ پہلے جز میں حالات کے تبدیل نہ ہونے کے خوف سے ایک کلائمکس بنتا ہے لیکن نظم پھرتی سے پینترا بدل کراس شکنجے سے نکل جاتی ہے اور خواب کا روشن دان کھول دیتی ہے یوں گھٹا ٹوپ میں امید کی کرنیں نظم کو نیا منظرنامہ عطا کر دیتی ہیں۔ نظم کا تیسرا حصہ نظم کا ماحصل بھی ہے اور غزل کی زبان میں حاصلِ نظم بھی۔

 ” میں زمیں زاد کیوں اس سے شکوہ کروں

 خاک خود اپنا آئین ہے

 نا مساوی کو ترکیب کے زور سے

 جو مساوی کرے

 کیسی مایوسیاں

 اس مرے خوابِ فردا کو تعبیر ہونا ہی ہے

 جھوٹ کو میرے سچ کی لڑائی میں

 تسخیر ہونا ہی ہے "

 نظم نے مصرع بہ مصرع ارتقا کرتے ہوئے ہمیں اب اس منزل پر پہنچا دیا ہے جہاں اس "خراب آباد” سے نکلنے کی تدبیر کی ضرورت کا احساس خود بہ خود زور پکڑنے لگتا ہے۔ یہاں تقدیر کے مروجہ مغالطے کو رد کیا گیا ہے کہ انسان مجبورِ محض ہے اور تاریخ کا پہیا چرخِ نیلی فام کے تابع گھومتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تقدیر کا یہ تصوّر قابض حکم رانوں کی ناجائز بادشاہت کو جواز بخشنے کے لیے، درم پرست اور کم زور شخصیت کے مالک نام نہاد علما کے ذریعے کس طرح پھیلایا گیا۔ اردو شاعری میں اس تصورِ تقدیر پر کاری ضرب اقبال نے لگائی تھی لیکن اقبال کا خواب اس سر زمین پرجس طرح مسمار کیا گیا اس نے نہ صرف عوام بل کہ شعرا کو بھی مایوسی کے اندھیروں کی جانب دھکیل دیا۔ اقبال کے پاس درپیش خرابے سے نکلنے کا واضح راستہ موجود تھا جس کے باعث اس کے ہاں یقین کا محکم اور عمل کا پیہم ہونا عین فطری تھا۔ بٹوارے کے دوران میں فسادات نے انسان کی بہیمت کا وہ کریہہ چہرہ بے نقاب کیا کہ شاعر کو اجالا داغ داغ ہی دکھائی دینا چاہیے تھا اور سحر شب گزیدہ! اقبال کی رجائیت کا یاسیت میں بدل جانا کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ نہیں بل کہ انسانی محسوسات کا سادہ ردِ عمل تھا۔ پاکستان بنتے ہی جعلی کلیموں کے ذریعے جس معاشی کرپشن کی بنیاد رکھی گئی اس کا تسلسل آج تک نہیں ٹوٹا۔ پے در پے مارشل لاؤں نے ہماری قومی تاریخ کو مسخ کر دیا۔ فوجی آمروں نے قرونِ اولیٰ کے غاصبوں کی طرح تقدیر کے اسی منفی تصور کے ہتھکنڈے سے ہر بار عوام کو گم راہ کرنے کی کوشش کی۔ (جاری ہے )

علی محمد فرشی: (۷)

 اقبال سے آفتاب اقبال کی اس نظم تک آتے آتے بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہ گیا تھا۔ خیال رہے کہ زیرِ تجزیہ نظم "میں نظم لکھتا ہوں ” سے لی گئی ہے جو ۲۰۰۹میں منصۂ شہود پر آئی۔ "سرخ سویرا” جو کئی نسلوں کی امیدوں کا چراغ تھا، سرمایہ داری کی تند آندھی کے سامنے اس کی حیثیت اب معمولی خذف ریزے سے زیادہ نہ تھی۔

 آفتاب اقبال شمیم نے اپنی روایت سے روشنی لی اور نظم کو صدیوں کا وسیع تناظر فراہم کر دیا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ فردا نژاد میں شامل نظم "لا (ایک مکالمہ) میں جب اُسے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی تو اُس نے وہاں بھی دائمی حقیقت کی طرف رجوع کیا تھا:

 "کس طرف! کس طرف!۔۔۔۔ میرے آقا!”

 آفتاب اقبال شمیم کے کتنے ہی معاصرین صرف اِس وجہ سے شاعری میں زیادہ دیر نہ چل سکے کہ ان کے قدموں تلے نہ اپنی زمین تھی نہ سر پر اپنا آسمان۔ اپنی روایت کٹے ہوئے ادب کی دل دادہ صرف دیمک ہوتی ہے ! روایت کوئی جامد شے نہیں بل کہ ایک زندہ اور متحرک قوت ہے۔ جس فن کار نے اس کا ہاتھ تھاما وہ کم از کم بھٹکا نہیں اور جس نے اُسے تخلیقی اضافے کے ساتھ آگے بڑھایا وہ کبھی مرا نہیں !

 یہ فردا نژاد زمیں زاد اب اُس مقام پر آ پہنچا ہے جہاں اُسے اپنے آقا سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ درپیش حالات کو انسانی بد اعمالیوں کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ نظم نے اسی داخلی منطق سے یہ نکتہ بھی نکالا ہے کہ اگر گنتی کے کچھ بدکردار افراد پورے معاشرے کو قعرِ مذلت میں پھینک سکتے ہیں تو معاشرے کی اجتماعی مثبت قوت اس سے نکلنے میں کیوں کر ناکام ہو سکتی ہے۔

 نظم کی ایک اور اضافی خوبی اس کی تانیثی فکر بھی ہے۔ مردانہ معاشرے کی جبریت میں عورت کا فعال وجود اپنے جمالیاتی وفور کے ساتھ نمودار ہوتا ہے اور زندگی کی مثبت قوت کو ہمارے داستانوی ادب کی عظیم روایت سے مربوط کر کے خواب کو حقیقت میں بدل دینے کی تخلیقی جہت سے مستنیر کر دیتا ہے :

 "کیا بتاؤں کہ گلیوں محلوں کی

 یہ لڑکیاں

 عشق کے قاف کی وہ پری زاد ہیں

 جن کی دل داریوں کے گلاب و سمن

 چشم و لب اور جان و بدن کی

 عبارت میں

 لکھی ہوئی داستانوں میں

 دل شاہ زادہ ہے گم نام صدیوں سے

 بھٹکا ہوا”

 صدیوں سے بھٹکا ہوا یہ عشق شہ زادہ نظم کی آخری سطور میں تمام مایوسیوں کو روندتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور پورے تیقن سے سچ کی فتح یابی کی بشارت دیتا ہے۔ (تمام نا تمام)

علی محمد فرشی: جنابِ صدر! میری معروضات اختتام کو پہنچیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ میری حاشیہ آرائی اربابِ علم و فن کی علمی بحث کے لیے نقطۂ آغاز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اور اس امید کے ساتھ کہ مجھے احبابِ حاشیہ کے علم سے استفادے کا موقع ملے گا۔ مزید یہ کہ اس نظم پر بحث کے وسیلے سے جدید نظم کی تفہیم کے لیے نئی راہیں کھلیں گی۔ ایک بات اور کہ اس ابتدائی اختصاریے میں اٹھائے گئے نکات کی وضاحت کے لیے احباب مجھے موجود پائیں گے۔

 جنابِ صدر! آپ کا، منتظمِ حاشیہ ظفر سید صاحب اور معزز اربابِ حاشیہ کا شکریہ جنھوں نے مجھے آفتاب اقبال شمیم کی اس نظم کو توجہ سے پڑھنے اور اس سے حظ اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔

محمد یامین: جناب صدر! محترم علی محمد فرشی نے نظم زیر بحث پر بھرپور ابتدائیہ تحریر فرمایا ہے۔ انھوں نے ابتدائیے میں نظم زیر بحث کے فن، عہد، ماحول اور متعلقات پر اپنے خیالات تحریر کیے ہیں جن سے سوالات بھی پھوٹ رہے ہیں اور نظم کے مرکزے تک جاتی راہیں بھی سجھائی دے رہی ہیں۔ نظم زیر بحث جناب آفتاب اقبال شمیم کی تخلیق ہے جن کی شخصیت اور فن کے بارے میں بھی ابتدائیے میں چند جملے ہماری راہ نمائی کرتے ہیں۔ ہم جان چکے ہیں کہ نظم کا بنیادی موضوع سیاسی اور سماجی فکر سے پھوٹا ہے۔ غربت کی چکی میں پستے ہوئے عوام کے حق میں ہم دردی اور خلوص کے اظہار کے لیے یہ موضوع ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کا پسندیدہ رہا ہے۔ لیکن ان میں سے بیش تر جوش اور جذبات میں فن اور نعرہ بازی میں تفریق نہ کرسکے۔ آفتاب اقبال شمیم اس فکر سے وابستہ رہتے ہوئے بھی اپنے فنی نظریے کی پاس داری کرتے رہے ہیں جو کہ ان کے اصیل ہونے کی نشانی ہے۔

،۔ فرشی صاحب نے "ابہام” کے بارے میں جن خیالات کہ اظہار کیا ہے ان سے کئی سوالات پھوٹتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً اگر ابہام کا تعلق موضوع، اسلوب اور شاعر کے فنی میلان سے ہے تو پھر اسے بہ قول فرشی صاحب فن شاعری کی خوبی یا بہ قول شمس الرحمان فاروقی شاعری کے بنیادی خواص میں سے ایک کیوں سمجھا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ شمس الرحمان فاروقی نے اپنی کتاب "شعر، غیر شعر اور نثر” میں موزونیت، اجمال، ابہام اور جدلیاتی لفظ کو شاعری کے بنیادی خواص بتایا ہے۔ دوسرے یہ کہ نامانوس اسلوب کی وجہ سے پیدا ہونے والا ابہام اور وہ ابہام جسے تخلیقی ابہام کہا جا تا ہے کیا یہ دونوں ہی ابہام ہیں یا ایک ابہام ہے اور ایک کچھ اور۔ جناب فرشی صاحب اور دیگر صاحبان حاشیہ سے امید ہے کہ اس بارے میں کھل کر بحث کی جائے گی۔

 اعلیٰ فن پارے کی پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کبھی منفی خیال یا جھوٹ کی بنیاد پر اعلیٰ نہیں بنتا۔

 یہی وجہ ہے کہ اس نظم نے اپنے آخری حصے میں ایک مثبت رویے کی پہچان کروائی ہے۔ اور ایک امید، خواب اور امکان کا دریچہ کھلنے کے ساتھ ساتھ سچائی کی کام یابی اور فتح کا یقین کامل بھی ہمارے احساسات کا حصہ بن کر راہ عمل کا تعین کرتا ہے۔

 کیسی مایوسیاں

 اس مرے خوابِ فردا کو تعبیر ہونا ہی ہے

 جھوٹ کو میرے سچ کی لڑائی میں

 تسخیر ہونا ہی ہے

 فرشی صاحب نے درست لکھا ہے کہ "آفتاب اقبال شمیم نے اپنی روایت سے روشنی لی اور نظم کو صدیوں کا وسیع تناظر فراہم کر دیا۔ "۔۔۔۔ اس نظم کے اختتام پر سچ کی فتح کا اعلان بھی اپنی تہذیب کے بے مثال فکری خزانے ‘جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا’ کے اس تصور سے استفادہ ہے کہ باطل کو ایک دن جانا ہی ہوتا ہے۔

محمد حمید شاہد: صاحب صدارت!

 جناب آفتاب اقبال شمیم کی نظم "ایک نظم زید کے نام” پر گفتگو کو خوب صورت آغاز ملا۔ فرشی صاحب نے نظم کی معنیاتی فضا کو ترقی پسند منظر نامے سے جوڑ کر دیکھا اور اس سے توڑ کر بھی، یہ ٹوٹنا بھی دراصل اپنے باطن کی سچائیوں سے جڑنے کا عمل ہے ایسے میں دل شاہ زادہ جو صدیوں کا بھٹکا ہوا تھا، اس بھٹکنے میں سے بھی ایقان اور امید نکال لاتا ہے تو اس کاسبب شاعر کا اپنے وجود پر کامل یقین ہے۔ آفتاب اقبال شمیم نے بہت پہلے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ان کا حافظہ ان کی فنا اور بقا کا حوالہ ہے ان کی نظم بھی اسی فنا اور بقا کی جدلیت کی دستاویز ہو جاتی ہے خود شاعر کے الفاظ میں

 ” ایک مسلسل تجربہ جو ماضی سے مستقبل کی روشنی تلاش کرتا ہے۔ "

 زید سے اس مکالمہ کا جواز اور ضرورت بھی اسی روشنی کی تلاش رہی ہے۔ سو اس تلاش کے سفر میں اس کے ہاں مفاہمت کی آڑ کہیں بھی اور کسی بھی مرحلہ میں نہیں ہے۔ میں یہ جملہ دعویٰ سے لکھ آیا ہوں جب کہ زیر نظر نظم کا "زید” خود ایک سطح پر آڑ ہو جاتا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس زید کو پہچان لیا جائے کہ اس طرح خود بخود شاعر اور اس کردار کے بیچ کی دیوار بھی ڈھے جائے گی۔ اس باب میں شاعر ایک بار پھر ہماری مدد کو موجود ہے۔ اس کا کہنا ہے :

 "زید وہ فرد اول یا عنصری انسان ہے جس کی بنیاد پر میں نے اپنی معاشرتی شخصیت کی تعمیر کی ہے۔ ہم دونوں جبر کے شاہی قلعے کے زندانی سرد سلوں پر سوتے ہیں اور دور کے اس شہر کی جانب دیکھتے رہتے ہیں۔ جہاں محبت اور آزادی کے مندر میں داسیاں ناچتے ناچتے خود اپنی خوشبو بن جاتی ہیں۔ حسن منکشف ہو کر وصل کی بشارتیں دیتا ہے اور ایک فرد دگر کی آفرینش گزرے ہوئے حوالوں کو نابود کر دیتی ہے۔ "

 صاحب صدارت! زید کو نشان زد کرتے کرتے آفتاب اقبال شمیم نے اپنی شاعری کے قضیے کو بھی نشان زد کر دیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہی زید شاعر کے ساتھ مل کر خواب دیکھ رہا ہے اور جن خوابوں کو دیکھا جارہا ہے ان کی سچائی پر انہیں کامل ایمان بھی ہے۔

محمد حمید شاہد: صدر محترم !

 نظم کے عین آغاز می شاعر نے اپنی دانش اور اپنی فکر کے نہ صرف منبع کو بتا دیا ہے اپنی فکر اور دانش کے سروکاروں کو بھی واضح کر دیا ہے ایسے میں وہ سارے ابہام جو معنیاتی دھارے کا رخنہ ہو سکتے تھے اس نظم کا مسئلہ نہیں رہتے، خوبی ہو جاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ شاعر نے متن کو جہاں جہاں جمالیاتی لپک پیدا کرنے کے لیے اجنبیانے کے عمل سے گزرا ہے وہاں وہاں قاری کے تجسس کو میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے نظم کے منظر میں آگے اور بہت دور تک چلے جانے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ زید جو خود شاعر کا ہم ذات ہے اس نظم میں جن لوگوں کا استعارہ بنتا ہے انہی کے راستوں کی دھول سے خود شاعر کے پاؤں اور سانسیں آلودہ ہیں۔ کافکا کے میٹا مافوسس کے گریگر سمسا کی طرح محض ایک کیڑا بن کر جینے پر مجبور لوگ :

 "دال روٹی کی گردان میں

 عمر کو جو بسرکرتے رہتے ہیں "

 شاعر ان کے ساتھ جڑا ہوا ہے، بلکہ اس کا اصرار ہے کہ وہ انہی میں سے ہے :

 "رزق اور روزی کی ابجد سے

 بنتے ہوئے جن کے ناموں کی رونق سے

 یہ گاؤں ، یہ شہر آباد ہیں

 میرے بیٹے ہیں وہ میرے اجداد ہیں

 میرا جذبہ انھی کے قبیلے سے ہے

 میری دانش انھی کے وسیلے سے ہے "

 گریگر سمسا کی مثال یہاں ایک حد تک درست بیٹھتی ہے کہ شاعر۔۔۔۔۔ جن کے ہم راہ چلتا ہوں۔۔۔۔ چلتا رہا ہوں۔۔۔۔ کی بات کر رہا ہے اور جن کا وفادار ہے ان کے حال اور احوال سے مطمئن نہیں ہے۔ محض نا مطمئن ہونا شاید اس کرب کو پوری طرح واضح نہیں کر پا رہا ہے جو شاعر اور اس کے ہم ذات زید کا مقدر ہو گیا ہے۔ اس شدت کو سمجھنے کے لیے میں آفتاب کی ایک اور نظم”ہم ذات کے نام” کی مدد لے رہا ہوں :

 ” کتنی سفاک تھی

 موج آتش نفس

 جو کہ برسوں کے پتھر کو

 لمحوں کا تنکا بنا کر بہالے گئی

 اور میں درد کے آب پایاب میں

 ڈوبنے کے لیے

 خواہشوں کے خدا سے مناجات کر رہا

 درد کے اس آب پایاب میں ڈوب ڈوب کر پیرنے والے اس شاعر کے لیے اپنے لوگوں سے آباد یہ محلے اور گلیاں ان نوخیز لڑکیوں جیسے ہیں جن کا عشق ایک ابتلا کی صورت اس کے اندر موج زن ہے۔ اس کا ایقان ہے کہ اسی دکھ سے اس کا جیون امر ہے۔

محمد حمید شاہد: صدر محترم اور احباب حاشیہ! آپ نے دیکھا کہ یہاں اجنبیانے کا عمل دراصل شعری حسن کی صورت ظاہر ہو رہا ہے۔ گلیوں اور محلوں کو لڑکیوں سے بدل دینا اور پھر عشق کے قاف کی پری زاد سے جوڑ دینا انہی گلیوں محلوں سے جڑے دکھ کی گہری تاریکی پر عشق کی روشن اور ملائم پھوار برسا کر انہیں مختلف کر دیتی ہے۔ پھر سارے منظر کو داستان سے جوڑ کر اور دل کو بھٹکا ہوا شاہ زادہ قرار دے کر گم نام صدیوں کے بھید بھاؤ جس طرح اس نظم کا حصہ ہوئے ہیں اس میں وقت اور زمان کی گہرائی اور فاصلہ متن میں رخنہ نہیں بنتا ایسا بعد بنتا ہے جو شعری جمالیات کو ڈھال رہا ہے۔

 جناب صدر!

 بے مہر صدیوں کی دوزخ میں اپنے لوگوں کی رفاقت، اور اسی رفاقت کی زائیدہ شاعر کی دانش کسی بھی مرحلہ پر مستقل جھنجھناہٹ کا شکار نہیں ہوتی تو اس کا سبب خود شاعر کا اپنے وجود پر غیر متزلزل ایقان ہے تاہم اس کی اطالت اب اسے کھلنے لگی ہے :

 "ہم کہ جور و جفا اور بے مہر صدیوں کی

 دوزخ میں ہیں

 کیا پتا کل نہ ہوں

 کیا پتا کل کا دیکھا ہوا خواب

 سچا نکل آئے، دنیا بدل جائے

 گلیوں محلوں کے

 لُچے لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو

 فلاں اور فلاں اور فلاں شہر کی

 تنگ دامانیوں کی سزا سے

 رہائی ملے "

 اچھا، "کیا پتا کل نہ ہوں ” کو اگر "ہم” سے جوڑ کر پڑھا جائے تو یہ جھنجھناہٹ متن سے بہہ نکلتی ہے تاہم، دوسرے ہی لمحے ” اس کیا پتا” کو "بے مہر صدیوں کے دوزخ” سے جوڑ کر دیکھنا پڑتا ہے یوں اس "دوزخ” کو کل سے منہا کر کے دیکھنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہاں یقین کی وہ بالاتر سطح اگرچہ نہیں ہے تاہم شاعر نا امید بھی نہیں ہے۔ پھر یوں ہے کہ جورو جفا کے اس سلسلہ کے دراز تر ہوئے چلے جانے کا ذمہ دار شاعر نے اپنی شعری روایت کے محبوب وتیرے کی اتباع میں قسمت اور فلک ناہنجار کو نہیں ٹھہرایا بلکہ اس کا رشتہ خود زمین زادوں سے جوڑا ہے جو اس صورت حال سے نکلنے کے راہیں تراش سکتے ہیں :

 "میں زمیں زاد کیوں اس سے شکوہ کروں

 خاک خود اپنا آئین ہے

 نا مساوی کو ترکیب کے زور سے

 جو مساوی کرے

 کیسی مایوسیاں

 اس مرے خوابِ فردا کو تعبیر ہونا ہی ہے

 جھوٹ کو میرے سچ کی لڑائی میں

 تسخیر ہونا ہی ہے "

 احباب حاشیہ !جھوٹ اور سچ کی اس لڑائی میں اگرچہ بہ قول شاعر "جھوٹ کو تسخیر ہونا ہے ” مگر نظم ایسا معنیاتی سلسلہ بھی ترتیب دی رہی ہے کہ اپنے آپ کو تسلیم نہ کرنے اپنی قوتوں کو بہ جا طور پر شناخت نہ کرنے کا شاخسانہ ہو جانے والا دوزخ ایک المیے کی صورت متن میں جگہ جگہ سے بہہ رہا ہے۔ شاعر نے اس رویے کو ایک اور نظم میں خون میں ضعف کی وجہ سے پڑ جانے والی گرہوں جیسا قرار دیا ہے۔ ان گرہوں کا کھولا جانا اور پرانے جسم کے بوسیدہ جنگلے کو توڑ کر نئی سمتوں کی طرف گرم خون کا بہہ نکلنا تب ہی ممکن ہے کہ خود شناسی کو فرد اور اجتماع کی سطح پر شعار کیا جائے۔ جلال الدین رومی نے کہا تھا:

 بیگاہ شد بیگاہ شد خورشید اندر چاہ شد

 خیزید ای خوش طالعان وقت طلوع ماہ شد

 وقت نا وقت ہو چلا ہو، امید کا سورج چاہے چاہ میں جا پڑا ہو، چاہے تاریکی ہو گھٹا ٹوپ تاریکی، مگر آفتاب کا طلوع ماہتاب کے واسطے دے دے کر جگانے کا عمل ایک اور سطح پر آخرکار طلوع آفتاب سے جڑنے اور نئے اجلے دنوں کی بشارت سے بھی جڑ جاتا ہے۔

سعید احمد: جناب علی محمد فرشی نے اپنے ابتدائیے میں آفتاب اقبال شمیم کی نظم نگاری کا فکری پس منظر بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اسلوب کے حوالے سے بھی اہم نکات کی وضاحت کی ہے ہوں یہ ابتدائیہ اس نظم کے تجزیے سے آگے نکل کر آفتاب اقبال شمیم کی نظمیہ شاعری کے بنیادی قضیے کو دریافت کرنے کی ایک کامیاب کوشش قرار دیا جا سکتا ہے علی محمد فرشی کے ابہام کے حوالے سے اٹھائے گئے نکتے پہ جناب محمد یامین نے بھی اظہار خیال کیا ہے اس سلسلے میں دیگر احباب بھی اپنی آرا سے نوازیں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پہلے زیر بحث نظم پہ ایک بھر پور مکالمہ قائم ہونا ضروری ہے جناب حمید شاہد نے اپنی گفتگو میں آفتاب اقبال شمیم کے تصور وقت کی طرف اہم اشارہ کیا ہے نیز انھوں نے جمالیاتی سطح پر آفتاب صاحب کی نظم میں اجنبیانے کے عمل کا ذکر کیا ہے آفتاب اقبال شمیم کی نظم کے حوالے سے یہ دونوں نکات اہم ہیں احباب سے گزارش ہے کہ وہ اپنی قیمتی آرا کے ساتھ اس بحث میں شریک ہوں

جلیل عالی: صاحبِ صدر اب تک ہو چکی گفتگو کے پس منظر میں چند بے ترتیب معروضات پیشِ خدمت ہیں۔ آفتاب اقبال شمیم کی یہ نظم بھی اس کے انسان مرکز شعری ویژن کو سامنے لاتی ہے۔ وہ انسان کو نا انسان بنانے والی ہر صورت کی مخالفت کرتا ہے۔ وہ مجبور و مقہور لوگوں کے حا لات میں خوش آئند تبدیلی کا آرزو مند ہے۔ مگر اس کا یہ اندازِ نظرکسی منشوری سوچ کا زائدہ نہیں بلکہ اس کے سچے وجودی کرب سے برآمد ہوا ہے۔ اور اس کے نا آسودہ احساسِ جمال کی دین ہے۔ اس میں محض معاشی محرومیوں کی نا آسودگی سے جنم لینے والے جارحانہ ردِ عمل کو کسی انقلابی جد و جہد کی بنیاد نہیں بنایا گیا۔ اپنے ساتھ ہونے والی ایک استفساراتی تقریب میں اس کا یہ کہنا تھا کہ وہ ہر طرح کے ادارہ جاتی اور نظامیاتی جبر کے خلاف ہے اور اشتراکیت کو بھی اپنی تخلیقی ذات کا دشمن تصور کرتا ہے۔ اب اگر ایسے شخص کی سچی شعری تخلیقی واردات سے کسی انقلابی روییے کو بھی تقویت ملتی ہو تو کوئی گناہ کی بات نہیں بلکہ اس سے فن پارے کی معنوی قوت اور ادبی قدر و قیمت میں اضافہ ہی ہو گا۔ دوسری بات یہ کہ وجودی ویژن کا کسی معروضی، تاریخی یا الوہی معیار سے ہم آہنگ ہو جا نا ممکن ہے مگر وجودی ویژن اپنی نوعیت میں معروض اساس، تاریخ اساس یا الٰہیات اساس نہیں ہوتا۔ البتہ با لواسطہ طور پر کسی بڑی تہذیبی روایت کا وجودی شاعر کے تخلیقی تجربے میں منعکس ہو جانا کچھ ایسی انہونی بات نہیں ہے۔ اس نظم کے آخر میں بھی زمینی و ارتقائی عمل کی متوقع نتیجہ خیزی کے حوالے سے جس ما بعدالطبیعیاتی تیقن کی جھلک دکھائی دیتی ہے (اس مرے خوابِ فردا کو تعبیر ہونا ہی ہے / جھوٹ کو میرے سچ کی لڑائی میں /تسخیر ہونا ہی ہے ) اسے بڑی تہذیبی روایت کا اعجاز ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ بے شک تم ہی غالب رہو گے اگر تم سچے ہو توّّ

 یہاں یہ اشارہ کر دینا بھی ضروری ہے کہ شاعر کی رجائیت بھی آخری سات سطروں میں زیادہ بھرپور انداز میں سامنے آئی ہے۔ لڑکیوں والا ٹکڑا تو مقہروں مجبوروں کے ساتھ شاعر کی کومٹمنٹ کے کارِ سخت کو سہل بنانے میں معاونت کر رہا ہے۔

 آفتاب اقبال شمیم ایک خلاق شاعر ہے اس کا تخلیقی تجربہ نہ صرف اپنے انداز کی علامتوں، استعاروں اور تمثالوں کو بروئے کار لاتا ہے بلکہ اپنی مرضی کی الفاظ تراشی سے اپنا الگ لسانی مزاج بھی تشکیلتا ہے۔ اگرچہ اس نظم میں اس کے ایسے اختراعی کمالات کا مظاہرہ کم ہوا ہے تاہم چند مثالیں دیکھئے۔

 دال روٹی کی گردان میں عمر بسر کرنے والے، رزق اور روٹی کی ابجد سے بنتے نام، چشم و لب اور جان و بدن کی عبارت میں لکھی داستانیں ، گلیوں محلوں کے لچے لفنگے گلا کاٹتے جیب کترے دن وغیرہ۔

سعید احمد: جناب جلیل عالی نے آفتاب اقبال شمیم کی ایک اور فکری جہت کی طرف درست رہنمائی فرمائی ہے ان کی آرا اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ انھیں شاعر کی طویل قربت بھی حاصل رہی ہے سوال یہ ہے کہ جس وجودی ویژن کی بات انہوں نے آفتاب صاحب کی مجموعی شاعری کے حوالے سے کی ہے وہ زیر بحث نظم میں بھی نمایاں ہے یا نہیں نیز ان کے خیال میں نظم کا اختتامیہ ما بعدالطبیعاتی تیقن لیے ہوئے ہے کیا واقعی ایسا ہے یا اس حوالے سے کوئی دوسری رائے بھی دی جا سکتی ہے امید ہے احباب ان نکات پہ بھی گفتگو کو آگے بڑھائیں گے

قاسم یعقوب: مجھے خوشی ہو ہی ہے کہ آفتاب شمیم کی نظم کو حاشیہ میں انتخاب کیا گیا ہے۔ فرشی صاحب نے اچھی بحث اٹھائی ہے۔ میں اس نظم کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ جلد اپنی معروضات کے ساتھ شامل ہوتا ہوں

Zahid Imroz: Sahib e sadar, Is nazm per jo tafseeli baat ali farshi sahib nain ki ha, or us k baad aali sahib nain jo jaiza liya ha us k baad ziadya kuch kehnain ki gunjaesh nahi rahi. Mukhtasaran kehna chahon ga k ya nazm "Main nazm likhta hon” sa li gai ha jo 3, 4 bars pehley shaya hoi.  Taraqqi pasand inqalaabi shairi k paspaa ho janain k baad sa ab tak boht mukhtalif nazm likhi ja chuki ha.  jis main fan aur nazm ki wusaat main boht izaafa hoa ha’’ agar us saarey safar ko zehan main rakh ker isey perha jaey to nazm ka climax usi umeed aur khwaab per hota ha jo taraqqi pasandon nain diye they. agarche aftaab shim sahib ki nazm apnain irtaqaai safar main us falsafey ki qaed sa aagey nikal aai ha lakin ye khwahish k zindagi aik din khubsurat ho jaey gi aur sab dukh khat ho jaen ga, zindagi ki jadliat kabhi iskey taabeh nahi rehi. dukh daimi ha so is sa nijaat ki tmana b. nazm ki craft aur mozoo apni akai main nhaet pukhta hain ’’ aur ye nazm aftaab sahib ki nainda nazm to anhi kahi ja sakti lakin un ki ah nazm zaroor ha k is main zaid un ka "humzaad” un ka mukhatib ha”. Nazm per mazeed baat ho gi lakin aik modbaana guzaarish k e-forum per aik hi saans main ziada taweel gufagu kernain ka main hai nahi k yahan guftagu sun’nain ki bajaey perhna perti ha aur perhtey hoye qaari ki saans phool jati ha k kai safhaat main sa sirf chand hi baatain ka ki hoti hain baaqi sab izaafi hoti hain. Is liye is forum per "to the point” raha jaey to guftagu ka lutf aur afaadiat barh jaey.

ظفر سیّد: جنابِ صدر، میں آپ کی وساطت سے جناب زاہد امروز سے درخواست کرنا چاہوں گا کہ حاشیہ کے قواعد کی رو سے یہاں صرف اردو رسم الخط ہی میں لکھا جا سکتا ہے۔ امید ہے وہ اور دوسرے نئے ارکان بھی اس کا خیال رکھیں گے۔

Zahid Imroz darasal main urdu rasm ul khat ki try kerta rha, window main language update b kia but phonatic keyboard nahi mila. main ainda comment urdu main likhnain ki koshish karon ga

ظفر سیّد: زاہد صاحب: آپ اس ویب سائٹ پر فونیٹک کی بورڈ میں اردو ٹائپ کر سکتے ہیں۔

 http://urdu.ca/type

 وہاں لکھنے کے بعد یہاں کاپی پیسٹ کر دیں۔

تصنیف حیدر: محترمی صدر! بحث بہت اچھی چل رہی ہے۔ میں جلد ہی شرکت کرون گا۔

سعید احمد: محترم اراکین حاشیہ! آپ کی خاموشی کچھ طویل ہو رہی ہے نظم کی تفہیم کے بہت سے در وا ہوئے ہیں لیکن ابھی آپ کی تعبیروں کی روشنی میں بہت سے دروازے کھلنے باقی ہیں ـ قاسم یعقوب اور تصنیف حیدر نے اپنی آمد کی خبر دی ہے ہم منتظر ہیں کہ وہ جلد اپنی آرا پیش کریں – ڈاکٹر ستیہ پال آنند ڈاکٹر ناصر عباس نیر اشعر نجمی علی ارمان نعمان شوق اور ظفر سید آپ تمام صاحبان بصیرت کی آرا کا بھی شدت سے انتظار ہے

سحر آفریں : جنا ب صد ر ! محترم علی محمد فرشی صاحب نے اپنے ابتدائیہ میں تمہید طولانی باندھ کر جناب آ فتا ب اقبال شمیم کے فکری ارتکاز کو جس طر ح سا منے لا کھڑا کیا ہے وہ ان (آفتاب اقبال شمیم ) کے شاعرانہ عوامل اور تخلیقی سفر کی ہمہ گیریت واضح کرنے میں معاون ثا بت ہو ا ہے۔

 جنا ب صدر ! محترم آفتاب اقبال شمیم کی شاعری کے شخصی خصائل پہ حاشیہ برداروں نے بھی مفصل بیان قلمبند کئے ہیں۔ ہم نے تمام تاثرات، تبصرے اور تنقید ی آراء بغور ملاحظہ کی ہیں۔ جن سے مستفیض ہو نے کے سا تھ سا تھ ہمارے قلم نے بھی مو شگافی کی جسارت کی ہے۔ ہم پہلی بار اس بزم میں شریک ہو رہے ہیں اس لئے کو ئی نکتہ معترضہ یا جسا رت نا گوار گز رے تو در گز ر کیجئے گا۔

 شکریہ

 سدرہ سحر عمران

سحر آفریں : جنا ب صدر ! ایک عہد سازشخصیت بذات خود ایک علمی میراث ہو تی ہے۔ آ فتا ب اقبا ل شمیم کی نظم ( شاعری)کی معنویت اور فنی حوالے سے ہمیشہ ہی قابل تحسین نقد و نظر دیکھنے کو ملی ہے۔ زیر بحث نظم بھی دلکشی سے بنی گئیں ایسی سطور ہیں جن میں شاعری تو ہے ہی حقیقت نگاری نے لفظی بانکپن مرنے نہیں دیا۔ ورنہ عمو ما ً جن نظموں میں تخیلاتی استعارہ سازی کی بجائے زمینی حقائق یا زمانی تلخی کی آمیزش ہو ان کا باطنی حسن ماند پڑ جا تا ہے۔ جبکہ اس نظم میں شاعری اپنے بھر پور احساس کے سا تھ مو جو د ہے اس لئے ہمیں نظم کا فی پسند آ ئی ہے۔ نظم "زید ” کے نام معنون کی گئی ہے اور زید ایک استعاراتی کردار ہے جو شاعر کی نظم سے منسوب ہو چکا ہے۔۔ نظم کے آغاز میں اسی کردار کے حوالے سے بات کی گئی ہے کہ

 جن کے ہم راہ چلتا ہوں

 چلتا رہا ہوں ، انھی کا وفادار ہوں

 دال روٹی کی گردان میں

 عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں

 رزق اور روزی کی ابجد سے

 بنتے ہوئے جن کے ناموں کی رونق سے

 یہ گاؤں ، یہ شہر آباد ہیں

 میرے بیٹے ہیں وہ میرے اجداد ہیں

 میرا جذبہ انھی کے قبیلے سے ہے

 وہ قبیلہ جس میں شمولیت کی واحد شر ط وفا ٹھہری ہے اس سے نسبت محض جذباتی نہیں بلکہ اس کی نظری ضروریات اور احتیاجات بھی وفاداری کے آئین سے مشروط ہو چکی ہیں۔ اب وہ کون لو گ ہیں جن کے ہمراہ چلنے کے ہنر نے نمک حلالی کا درس دیا اور جن کی زمینوں پہ جا ہ و حشمت کی آ بیا ری کرتے ہوئے زندگی کی کہانی رزق سے آ گے نہیں بڑھ پا ئی جو بیگار کے لئے پیدا کئے جا تے ہیں اور جن کی گنتی سوائے آ بادی میں اضافے میں کسی شما ر میں نہیں آ تی۔ وہ تمام کردار اسی اکا ئی میں ضم ہیں لیکن اس نظم کی خاصیت یہی ہے کہ آغاز میں ایک طبقے کی نمائندگی کرتیں سطروں سے عسرت و بے بسی کی بجائے خلوص نیت کا پسینہ ٹپک رہا ہے۔ پھر آ گے چل کر یہ نظم دم لینے کو ٹھہرتی ہے اور ثا بت کر تی ہے کہ معاشی تنگ دستی اور معاشرتی استعما ر میں آ دم و حوا دونوں ہی شریک اور متاثریں ہیں

 کیا بتاؤں کہ گلیوں محلوں کی یہ لڑکیاں

 عشق کے قاف کی وہ پری زاد ہیں

 جن کی دل داریوں کے گلاب و سمن

 چشم و لب اور جان و بدن کی

 عبارت میں

 لکھی ہوئی داستانوں میں

 دل شاہ زادہ ہے گم نام صدیوں سے

 بھٹکا ہوا

 اور جیون امر ہے

 مجھے دکھ، جنم دکھ کا سہنا گوارا ہے

 ان کے لیے

 ازل کی گدلا ئی ہو ئی آنکھوں کے بوسیدہ خوابوں کو اپنے لہجے میں سمو کر جیون کی سفید چادر پہ سا نسوں کے پھول کاڑھتی لڑ کیوں کے دلوں کی حا لت منکشف کر دی ہے جو خواب کی غیر مرئی دنیا کی مکین ہو تی ہیں اور جن کی جا گتی آنکھوں کی تان خوابوں پہ آ کر ٹو ٹ جا تی ہے۔ اور بدن کی دیواروں پہ کہانیاں خود بخود رقم ہو تی رہتی ہیں۔ اور بدن کی سلطنت کا بے تا ج شاہزادہ دل محبت کے لمس کی تلا ش میں بھٹکا ہوا راہرو بن گیا ہے اور شا عر اس کر ب کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے دکھ، جنم دکھ کا سہنا گوا رہ ہے ان کے لئے

 اور اس کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے گو یا ہے کہ

 ہم کہ جور و جفا اور بے مہر صدیوں کی

 دوزخ میں ہیں

 کیا پتا کل نہ ہوں

 کیا پتا کل کا دیکھا ہوا خواب

 سچا نکل آئے، دنیا بدل جائے

 گلیوں محلوں کے

 لُچے لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو

 فلاں اور فلاں اور فلاں شہر کی

 تنگ دامانیوں کی سزا سے

 رہائی ملے

 بہت معنی آفریں اور احسا س میں گندھی سطریں ہیں۔ کیا پتہ کل نہ ہوں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود کلا می کی کیفیت میں ایک تسلی آ میز ہچکی باندھتے ہوئے گو مگو ہے۔ خوابوں کی بے یقینی امید کے رنگوں میں ڈھلتی ہے اور خوش آئند مستقبل کی جھلک دکھا ئی پڑ تی ہے۔ جیب کترے دنوں کی اصطلا ح کتنی بھلی لگ رہی ہے۔ جنہیں شہروں کی تنگ پڑ تی شبوں کی تنگ دامانی سے رہا ئی کی خواہش ہے اور یہ خوابوں کی اڑن طشتری ہی تو ہے جس پہ سوار ہو کے شاعر کا تخیل وسیع المعا نی جہتوں سے نبرد آزما ہے۔

 میں زمیں زاد کیوں اس سے شکوہ کروں

 خاک خود اپنا آئین ہے

 نا مساوی کو ترکیب کے زور سے

 جو مساوی کرے

 کیسی مایوسیاں

 اس مرے خوابِ فردا کو تعبیر ہونا ہی ہے

 جھوٹ کو میرے سچ کی لڑائی میں

 تسخیر ہونا ہی ہے

 یہاں ہمیں دو سطور

 میں زمیں زاد کیوں اس سے شکوہ کروں

 خاک خود اپنا آئین ہے

 اس لئے بھی زائد لگ رہی ہیں کہ مو ضو ع اور ترتیب سے میل کھا تی محسوس نہیں ہوتیں لیکن یہ صرف ہما را خیا ل بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم اگلی لائنوں میں وہی تسلسل بر قرار ہے جو نا ممکن کو ممکن بنا نے کی سعی کر تا ہے۔ یعنی تقدیر پہ تدبیر حا وی ہے اور شاعر نے ما یوسی کے گھٹا ٹو پ اندھیروں میں ایک کرن خوابوں کے سو رج سے مستعار لے کر پھینکی ہے۔ جسے اپنی سچا ئی پہ پو را اعتماد اور تیقن ہے۔ احباب نے اس نظم میں ” زید” کو اشتراکیت اور نظامیاتی حد بندیوں کے خلا ف جنگ آزما دیکھا ہے اور ہم نے اسے خوابوں کے سہا رے اپنی تفریق سے نفی کے کا نٹے چنتے اور اثبات میں حل ہو تے محسوس کیا ہے۔

قاسم یعقوب: صاحبِ صدر!

 متن پر گفتگو کرتے ہوئے ہم تعبیرِ متن کی مختلف ترجیحات سے گزرتے ہیں۔ نظم کا متن اس حوالے سے اور بھی مشکل شکل اختیار کر لیتا ہے جب متن کے مندرجات کو منشائے مصنف، منشائے قاری، متن کی خود مکتفی حالت اور تشریح کرنے والے کی فکری و فنی و جمالیاتی ترجیحات کے تناظر سے پڑھا جائے۔ یوں کسی بھی تنقیدی ڈسکورس کے اندر تعین قدر کوئی بڑا مسئلہ نہیں جتنا جدید ادبی تھیوری کے ضمن میں یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے۔ نئی تھیوری تو اس حوالے سے خاطر خواہ اہتمام بھی کرتی ہے۔ "ایک نظم زید کے نام "ِ ِ ِ ِ ِ،آفتاب اقبال شمیم کی نمائندہ نظم تو نہیں مگر "زید” اُن کا نمائندہ استعارہ یا کردار ضرور رہا ہے۔ گو "زید”شاعر کے کسی ایک فکری جہت کا احاطہ بھی نہیں کرتا۔ نظم کی پڑھت میں تشریحی دائرہ[Hermencutical Circle] اپنی حدود میں شاعر کے اس کردار کے تمام تخلیقی مفاہیم کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔ آفتاب صاحب خود لکھتے ہیں : "میں اپنی گھمبیر تنہائی میں "زید”سے ملتا ہوں۔ وہ میرا آسیب یا ہمزاد یا ضمیر نہیں۔ شاید وہ میری اصل ہے۔ ناوقت اور نالفظ میں چھپی ہوئی اصل۔۔۔ جس سے گفتگو تو کرتا ہوں لیکن یک طرفہ۔ وہ میرے سامنے ہوتا ہے لیکن میری پہچان سے باہر رہتا ہے۔ پہچانوں بھی کیسے کہ کئی زمانے نوکِ سوزن سے آنکھ پر کھینچی ہوئی خراشیں چھوڑ گئے ہیں۔ وہ اور میں زندگی کے دو اہم کردار ہیں ، ایک دوسرے کی دسترس سے ذرا ہٹے ہوئے۔ اُس کے بہت سے اندھیرے میری حسیات کے ٹٹولنے کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اُس کی بہت سی آوازیں میری سماعت کے منطقوں سے نیچے یا اوپر رہتی ہیں۔ وہ میرا اور میں اس کا محرم نہیں بن سکتا کہ وہ میری پوری سچائی ہے اور میں اپنی آدھی سچائی۔ میں اس سے یک طرفہ مکالمہ کر رہا ہوں۔ ” (میں اور و۰”، دیباچہ”زید سے مکالمہ”)۔ حمید شاہد صاحب نے "زید” کی وضاحت کے لیے فردا نژاد سے آفتاب صاحب کی ایک مثال پیش کی ہے۔ مگر نظم کے اندر وہ ایک مختلف کردار کے ساتھ ابھرتا ہے۔ مذکورہ بالا نظم میں "زید” کا کردار نظم کے Contentمیں تلاش کیا جا سکتا ہے۔

 نظم بنیادی طور پر تین مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلے مرحلے میں وہ اپنے ارد گرد بکھرے لوگوں کو اپنی دانش کا وسیلہ بتاتا ہے، اپنے جذبے کے قبیلے کا انکشاف کرتا ہے۔ (یہ وہ نام ہیں جو دال روٹی کی گردان میں عمر گزار رہے ہیں ) دوسرے مرحلے میں شاعر اپنے آپ کو بھی ان میں شامل کرتے ہوئے "ہم” کا صیغہ استعمال کرتا ہے۔ "ہم کہ جورو جفا اور بے مہر صدیوں کی دوزخ میں ہیں "۔ نظم کے اسی مرحلے میں شاعر منظر نامہ کی تبدیلی کا خواب دیکھتا ہے اور اس شک میں اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ شاید یہ دنیا بدل جائے۔ تیسرے مرحلے میں شاعر کا یہ شک (جو خواہش کی حد تک موجود ہے ) دنیا بدل جانے اور خاک کا آئین بن کر ایک ناگزیر عمل کی صورت سامنے آتا ہے۔ خاک کے آئین نے نامساوی کو مساوی میں بدلنا ہے جھوٹ نے سچ سے تسخیر ہو جانا ہے۔ لہٰذا "کیسی مایوسیاں "ِ

 اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ متن کی ساخت اتنی سادہ اور واضح ہے تو قاری متن کے عرصے [Space]میں خود کو متن کے ایک ہی پرت میں ملفوف رکھنے پر اکتفا کر لے گا۔ نظم کے متن کی جس خوبی کی طرف علی محمد فرشی صاحب نے اشارہ کیا ہے کہ یہ ابہام سے "پاک” ہے میرے خیال میں اس نظم کی یہی خامی بھی ہو سکتی ہے۔ غیر طے شدہ صورتِ حال[Undicidability]کے نہ ہونے سے ہم "زید” کے کردار میں کسی پیچیدگی کی توقع کرنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ زید کا کردار یہاں بہت نمایاں اور نظم کا مرکزی ہیولہ لے کر نظم کو آگے بہاتا ہے۔

 ایک اہم نقطے کی طرف توجہ ضروری ہے۔ علی محمد فرشی صاحب نے تانیثی حوالے سے بھی اس نظم میں ایک اشارہ دیا ہے۔ نظم کے Contentمیں تانیثیت [Feminist]نہیں بلکہ تثنیتی تخالف[Binary Opposition] رویہ ابھارا گیا ہے۔ اور یہ نظم کا اضافی جزو ہے، لازمہ[Essential]نہیں۔ اصل میں شاعر نے "زید” کی قسمت (رزق اور روزی کی ابجد سے بنتے ہوئے جن کے ناموں کی رونق سے یہ گاؤں ، یہ شہر آباد ہیں ) اور اُس کے لوکیل ( گلیوں ، محلوں کے لچے، لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو، فلاں اور فلاں اور شہر کی تنگ دامانیوں کی سزا سے رہائی ملے )میں اپنی رومانی جذباتیت کا لگاؤ بھی تلاش کیا ہُوا ہے۔ اُسے زید کی ان گلیوں سے اس لیے بھی رغبت کہ وہ ان سے زندگی کے معنی کشید کرتا آرہا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اُس کا دُکھ” زید کا دُکھ” ہی نہیں رہتا بلکہ "جنم دُکھ” بن گیا ہے۔ اُس کا دل شاہزادہ ہے چشم ولب اور جان و بدن کی عبارت میں لکھی ہوئی داستانوں میں،زندگی کی معنیاتی توجیح شاعر کو عشق کے قاف کی پری زاد سکھا رہی ہیں وہ کیوں نہ اس تیقن سے گزرے کہ نامساوی نے ترکیب کے زور سے مساوی ہونا ہے ایک دن۔ اسی لیے اُس کا جذبہ زید کے قبیلے سے ہے۔

 نظم کے اندر تانیثی جمال کا بھرپور احساس نظم کے متن میں Disseminationکا تقاضا ہے۔ قاضی افضال نے ڈریڈا کے حوالے سے لکھا ہے کہ”Disseminationمتن کی زرخیزی کی وہ قوت ہے جو کثرتِ معنی بلکہ خود معنی کے مروجہ تصور سے متن کو آزاد کرتی ہے۔ ” میرے خیال میں یہی وہ قوت ہے جو شاعر کو زندگی آشنا اور جمال آفریں جذبات میں چیزوں کو دیکھنے پر مائل کر تی ہے جس نے بے مہر صدیوں کی دوزخ میں یہ تیقن عطا کر دیا ہے کہ جھوٹ کو سچ نے تسخیر کر کے نامساوی کو مساوی کے آئین میں بدل دینا ہے۔

قاسم یعقوب: آفتاب اقبال شمیم کا فن سمجھنے کے لیے ہمیں اُن کی ایک دو نظموں کے تجزیے سے تشفی نہیں ہوتی۔ آفتاب شمیم نے جہاں طویل فارم اختیار کی ہے وہ زیادہ کھل کر اپنا اظہار کر پائے ہیں۔ "فردا نژاد، زید سے مکالمہ، گم سمندر اور یں نظم لکھتا ہوں ” میں اُن کا نظمیہ آرٹ "زید سے مکالمہ” میں زیادہ جان دار سطح پر ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کتاب میں ۶، یا ۷ طویل نظمیں شامل ہیں۔ مجھے تو مذکورہ زیرِ بحث نظم میں ایسے لگ رہا ہے کہ وہ کسی بڑی نظم کی تمہیدی لائنوں کے بعد ہی اختتام کی طرف چلے گئے اور ابھی نظم شروع ہونی تھی۔ "میں نظم لکھتا ہوں ” میں بیشتر نظموں کا یہی حال ہے۔ اس نظم کو پڑھتے اور اس پر بحث اُٹھاتے ہوئے اس نقطے پر دھیان بہت ضروری ہے۔

قاسم یعقوب: صاحبِ صدر!

 نئی نظم، جو راشد کے ساتھ ظہور میں آئی، نے بیک وقت اپنی روایت سے بھی رشتہ جوڑے رکھا اور نئے امکانات کو بھی خوش آمدید کہا۔ اسّی کی دہائی تک یہی منظر نامہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا مگر موجودہ نظم کا ایک المیہ تو یہ ہے کہ وہ روایت سے منقطع ہوتی جا رہی ہے۔ آپ خود نظم کے اچھے شاعر ہیں آپ آفتاب شمیم صاحب پر گفتگو میں اس اہم مسئلے کی طرف بھی توجہ دلاتے جائیں۔ نثری نظم میں یہ المیہ زیادہ شدید ہے۔ عبدالرشید، افضال احمد سید اورزاہد امروزکی نثری نظمیں اس حوالے سے پیش کی جا سکتی ہیں جن میں روایت سے حد درجہ انقطاع موجود ہے مگر نیا امکان زیادہ ہی اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ ظہور کرتا نظر آتا۔ زاہد امروز نے تو کافی حد تک اس ڈھیلے پن کو سنبھالا ہے۔ آفتاب اقبال شمیم نے نئی نسل کو یہ پیغام تو دیا ہے کہ انحراف کے لیے بھی مٹی پر کھڑے ہونا ضروری ہے۔

سعید احمد: جناب زاہد امروز اور جناب قاسم یعقوب کے خیال میں زیر بحث نظم آفتاب اقبال شمیم کی نمائندہ نظم قرار نھیں دی جا سکتی ـ جہاں تک میں نے حاشیہ کے مباحث کا مطالعہ کیا ہے مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوا ہے کہ شعرا کی نمائندہ نظمیں ہی بحث کے لیے منتخب کی جاتی ہیں اس سلسلے میں کیا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے میں اس سے آگاہ نھیں ہوں ـ زیر بحث نظم چونکہ جناب علی محمد فرشی کی منتخب کردہ ہے لہٰذا وہ بہتر انداز میں بتا سکتے ہیں کہ ان کے خیال میں کن وجوھات کی بنا پر اس نظم کو آفتاب اقبال شمیم کی نمائندہ نظم قرار دیا جا سکتا ہے ؟ نیز یہ کہ اس فورم پہ بحث کے لیے نظم کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہے ؟

سعید احمد: جناب زاہد امروز نے "ترقی پسند شاعری کی پسپائی” کا ذکر کیا ہے میری دانست میں اس سے ان کی مراد شاید اشتراکی نظام کی پسپائی ہو گی،جس کی داعی ترقی پسند نظم رہی ہے،کیونکہ کسی عہد اور اس کے تقاضوں میں تبدیلی کی بنا پر نظم کے اسلوب میں آنے والی تبدیلیوں کو ہم "شاعری کی پسپائی” قرار نھیں دے سکتے

علی محمد فرشی: صاحبِ صدر! لگتا ہے حاشیے پر چھایا ہوا جمود ٹوٹنے کے قریب ہے۔ میں ان دنوں کچھ مصروفیات کا شکار ہوں جیسے ہی فرصت ملتی ہے اپنی معروضات تفصیل سے حاشیہ پر رکھوں گا۔ البتہ فوری طور پر دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے : ایک یہ کہ میں نے زیرِ بحث نظم کو شاعر کی نمائندہ نظم سمجھ کر ہی اسے بحث کے لیے چنا ہے۔ (جلد وضاحت بھی کر دوں گا) آپ کے دوسرے سوال کا جواب بھی اسی میں مضمر ہے کہ جب میں آفتاب صاحب پر لکھ رہا ہوں تو نظم کے انتخاب کا حق بھی میرے پاس ہونا چاہیے۔ یقیناً ایک رائے یہ بھی موجود ہے کہ اس معاملے میں شاعر سے مشاورت کرنا چاہیے، اور ایسا ہوا بھی، لیکن اس کا نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے۔ میں نے اب تک جن نظموں کے ابتدائیے لکھے ہیں ان کا انتخاب بھی میں نے خود کیا ہے۔

سعید احمد: جناب قاسم یعقوب کے خیال میں اسی کی دہائی تک جدید نظم نے روایت سے رشتہ برقرار رکھتے ہوئے نئے امکانات کی تلاش جاری رکھی ہے مگر موجودہ نظم کا المیہ یہ ہے کہ وہ روایت سے منقطع ہوتی جا رہی ہے ـ ان کی گفتگو سے واضح نہیں کہ وہ نظم کو کس روایت سے مربوط دیکھنے کے خواہشمند ہیں غزل کی روایت سے یا جدید نظم کی اس روایت سے جو گذشتہ پچاس ساٹھ سالوں میں تشکیل پذیر ہوئی ہے ـ یوں بھی روایت سے واضح انقطاع کا اعلان ساٹھ کی دھائی کے نظم نگاروں نے نئی نظم کی صورت گری کے دوران کیا تھا- بقول اختر احسن "کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نئے فنکار کا رشتہ روایت سے بہت کمزور ہے میں پوچھتا ہوں کون سی روایت—ہماری ذہنی روایت یا ہمارے آبا و اجداد کی روایت —نئے شاعر کو زمان و مکاں کی ضخیم کتاب کے کسی صفحے سے کوئی شغف نہیں ” اسی اور نوے کی دہائی کے شاعروں نے ایسا کوئی اعلان کیا ہے نہ ھی اس عہد کے شاعر روایت کے ایسے انقطاع کے قائل نظر آتے ہیں ـ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ عہد کے نظم نگاروں نے روایت سے تخلیقی اکتساب کرتے ہوئے نظم کو اسلوب کی سطح پر گزشتہ عہد کی نظم سے مختلف اور منفرد کیا ہے ـ آپ نثری نظم کے حوالے سے بھی ایک ہی سانس میں تین مختلف نسلوں کے شاعروں کے نام گنوا گئے ہیں میرا خیال ہے کہ نثری نظم ابھی اسلوبیاتی کشمکش کا شکار ہے اور جن تین شعرا کے نام آپ نے لیے ہیں وہ اپنے اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق فکری و فنی سطح پر نثری نظم کی آبیاری میں مصروف ہیں ـ سر دست ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آفتاب اقبال شمیم،جن کا تعلق ساٹھ کی نسل سے ہے، انھوں نے جدید نظم کو فکری اور اسلوبیاتی حوالوں سے ثروت مند بنانے میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے ؟ ترقی پسند نظریے سے تعلق کے باوجود انھوں نے اپنی نظم کو کیسے ترقی پسند نظم کی بلند آہنگی سے مختلف کیا ہے ؟ نیز یہ کہ ان کی نظم کیسے ساٹھ کی دھائی کے اکثر نظم نگاروں کی طرح بکھراؤ کا شکار ہوئی اور نہ ہی اس میں ایسا ابہام پیدا ہوا جسے بعض ناقدین لایعنیت سے تعبیر کرتے ہیں ؟

علی محمد فرشی: جنابِ صدر! جیسا کہ اربابِ "حاشیہ” کے علم میں ہے کہ اس فورم کے منتظم ظفرسید ہیں اور انھوں نے ہی مجھے آفتاب اقبال شمیم صاحب کی نظم کا ابتدائیہ لکھنے کی ذمہ داری سونپی۔ آپ جانتے ہیں کہ”حاشیہ” کی مجلسِ عاملہ میں حمید شاہد اور راقم الحروف کے نام شامل ہیں۔ احباب اس بات سے بھی آگاہ ہوں گے کہ مجلسَ عاملہ کی تشکیل بہت بعد میں ہوئی، وہ بھی اس لیے کہ ظفر صاحب کی عدم دست یابی کی صورت میں "حاشیہ” کی کارروائی میں خلل نہ آئے۔ اگرچہ ابھی تک اس کی ’نوبت، نہیں آئی اور خدا کرے آئندہ بھی نہ آئے۔۔۔۔ کبھی کبھار ہماری ملاقات ہوتی ہے تو "حاشیہ” کا اجلاس بھی "منعقد” ہو جاتا ہے، ایسے ہی ایک اجلاس میں جنابِ جلیل عالی بھی شریک تھے۔ عالی صاحب کو یاد ہو گا کہ جب انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ کیا میں بھی اجلاس میں شریک ہوسکتا ہوں تو میرا ہنستا ہوا جواب تھا کہ یہاں چوں کہ کوئی خفیہ یا ناجائز کارروائی نہیں ہو رہی اس لیے آپ بہ طور مبصر اجلاس میں شریک ہیں۔ اس اجلاس میں شاعر کا نام حمید شاہد نے پیش کیا اور میں نے نہ صرف تائید کی بل کہ نظم کے انتخاب اور ابتدائیہ لکھنے کی پیش کش بھی کی۔ بعد میں بہ وجوہ یہ اجلاس منعقد نہ ہوسکا۔ جس کا بہ ہر حال مجھے ہمیشہ ملال رہے گا۔ اس فورم نے بحث کے جس معیار کو قائم کیا ہے وہ یقیناً آپ احباب کی سنجیدہ فکری کا مرہونِ منت ہے تاہم اچھے شعرا کی اچھی نظموں کے انتخاب کا معاملہ بھی کسی حد تک اس ’رسوائی، کا باعث ضرور بنا ہے۔ ممکن ہے نظم کا انتخاب کرتے ہوئے مجھ سے کوتاہی ہو گئی ہو لیکن اس میں میرے ارادے کا حاشا و کلّا کوئی عمل دخل نہیں۔ اس کو بھی جانے دیجیے، اس نظم کی ساخت ایسی ہے کہ ہم اس کے وسیلے سے شاعر کی بہترین نظم تک بھی پہنچ سکتے ہیں ، یوں بحث آگے بڑھ سکتی ہے۔ خیال رہے کہ ابتدائیہ حرفِ اول ہوتا ہے، حرفِ آخر نہیں۔

 میں نے بحث کے لیے یہ نظم آفتاب اقبال شمیم کے چوتھے مجموعے "میں نظم لکھتا ہوں ” سے منتخب کی تاکہ اس کے طویل تخلیقی سفر کا جائزہ لینے میں بھی سہولت رہے، کیوں کہ مجھے اس شاعر کے ہاں کہیں ٹھہراؤ نظر نہیں آیا، ارتقا محسوس ہوا ہے۔ کسی نظم کو بحث کے لیے چنتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ شاعر کے بنیادی سوالات اس میں سمٹ آئے ہوں ، مجھے یہ نظم اپنے شاعر کے مرکزی سوالات کے بہت قریب دکھائی دی۔ جلیل عالی صاحب نے بھی اس جانب واضح اشارہ دیا تھا:

 ” آفتاب اقبال شمیم کی یہ نظم بھی اس کے انسان مرکز شعری ویژن کو سامنے لاتی ہے۔ "

 عالی صاحب کے اس بیان میں لفظ "بھی” میرے مؤقف کی تائید کرتا ہے کہ یہ نظم شاعر کی فکری کلیّت کا احاطہ کرتی ہے۔ شاعر کے فکری سوالات اپنی جگہ خواہ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں دیکھنا یہ ہوتا کہ وہ شعری فن پارے کی ہئیت میں بھی ڈھل پائے ہیں کہ نہیں ؟ نظم کا انتخاب کرتے وقت مجھے یہ نظم شعری وسائل کے حوالے سے بھی خاصی متمول لگی۔

 صاحبِ صدر! ہمیں ایسے شاعر کی نظم کا سامنا ہے جس نے روحِ عصر کو اپنے فن سے کبھی جدا نہیں ہونے دیا لہٰذا مجھے ایسی نظم کا انتخاب کرنا تھا جس میں شاعر کے تخلیقی وجود پر بیت جانے والے کم بیش چالیس برسوں کی ملکی و عالمی تاریخ کے نقوش بھی دکھائی دیں اور تبدیل ہوئے ہوئے عالمی منظر نامے میں شاعر کے فرد کے باطن میں رونما ہونے والے تغیرات کا عکس بھی نظر آئے۔ اس نظم نے تو اس سے مزید آگے بڑھ کر، امید ہارے ہوئے فرد کے لیے، تاریخ کی گمبھیرتا میں راستہ بھی بنایا ہے۔

 صاحب صدر! میں نے اپنے ابتدائیے میں "زید” کے حوالے سے منشائے مصنف سے مدد نہیں لی، بل کہ منشاے متن کو زرِ کامل عیار مان کر”زید” کی اصل کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ قاسم یعقوب صاحب نے "زید” کو استعارہ قرار دیا ہے۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے کیوں کہ استعارہ میں "مستعارلہٗ” اور ” مستعار منہٗ” دونوں کی موجودگی لازم ہے "زید” Conceit ہے۔ اردو نظم میں ’کردار، تو بہت ملیں گے لیکنConceit کی مثال خال ہی نظر آئے گی۔ یہ نظم چننے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسConceit کے حوالے سے بھی شاعر کی دیگر نظموں کا جائزہ لینا ممکن ہو گا۔ اس لیے بھی کہ یہConceit اپنے معنیاتی آفاق کے باعث سمبل کی سطح کو بھی مس کرتا ہے۔ (تمام ناتمام)

ظفر سیّد: جنابِ صدر: نظم پر اچھی بحث ہوئی ہے، اور اس کے مختلف پہلوؤں کو شاعر کی مجموعی فکر کے پس منظر میں بھی رکھ کر دیکھا گیا ہے۔

 اس بات پر بھی بہت کچھ کہا گیا ہے کہ زید کون ہے، اور اس ضمن میں خود شاعر کے خیالات بھی پیش کیے گئے ہیں ، جن میں کہا گیا ہے کہ زید نہ تو ان کا ہمزاد ہے، نہ آسیب اور نہ ہی ضمیر، بلکہ ’شاید میری اصل ہے۔ ، اگر ہم صرف نظمِ زیرِ بحث پر توجہ مرکوز کر کے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نظم میں بیان کردہ گروہ اور متکلم نہ صرف مختلف ہیں بلکہ زندگی کے دو الگ دھاروں سے تعلق رکھتے ہیں۔

 جن کے ہم راہ چلتا ہوں

 چلتا رہا ہوں ، انھی کا وفادار ہوں

 دال روٹی کی گردان میں

 عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں

 یہ زیدوں یا ’عام، آدمیوں کا وہ گروہ ہے جو دن رات دال روٹی کی گردان میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ بات کہ وہ خود اس بات کی شکایت نہیں کر رہے، صرف شاعر ہی کو ان کے دکھ کا احساس ہے۔ یہ بات زید اور شاعر کو دو الگ طبقوں کا باسی بنا دیتی ہے (شعر میرے ہیں گو خواص پسند/گفتگو پر مجھے عوام سے ہے )

 یہ سطریں پڑھتے ہوئے مجھے فرانسیسی ادیب فلابئیر سے منسوب ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جب فلابئیر چھوٹے چھوٹے دکان داروں کو اتوار کے دن اپنی اپنی فیملیوں کے ہمراہ پکنک منانے کے لیے خوشی خوشی تیاری کرتے دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے کہ مجھ سے تو یہی لوگ بہتر ہیں۔ یہ معاشرے کا نچلا طبقہ ہے جن کا دامن فلابئیر کی طرح کون و مکاں کے مسائل کی خار دار جھاڑیوں سے الجھا ہوا نہیں ہے اور وہ بے فکری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے اپنے مسائل ہیں ، لیکن وہ کم از کم فلابئیر کی طرح ذہنی اور نفسیاتی اذیت کا شکار نہیں ہیں۔

 آفتاب اقبال شمیم کے ہاں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دم سے دنیا آباد ہے، انھیں مسائلِ روزگار کی چوہا دوڑ کسی اور طرف متوجہ ہونے ہی نہیں دیتی۔ لیکن متکلم واضح طور پر ان کا حصہ نہیں ہے، اس کا تعلق کسی اور طبقے سے ہے، لیکن وہ اپنی جکڑ بندیاں پھلانگ کر ان میں آ ملا ہے۔

 یہاں شاعر کی اذیت دہری ہے، کیوں کہ وہ فلابئیر کی طرح چھت پر بیٹھا ’جنم دکھ، اور ’بے مہر صدیوں ، کا بوجھ دل پر لیے نیچے گلی میں ہونے والا تماشا نہیں دیکھ رہا، بلکہ وہ فکری اور جسمانی طور بھی ’عوام، کے ساتھ ساتھ ہے۔

 شاعر کا یہی احساس ہے جو اس نظم کو عمدہ کی سطح سے اٹھا کر اعلیٰ نظموں کی صف میں لا کھڑا کر دیتا ہے۔

ظفر سیّد: جنابِ صدر: نظموں کے انتخاب پر ایک سوال آیا تھا۔ اس پر فرشی صاحب پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں۔ میں صرف یہ کہتا چلوں کہ حاشیہ کے کسی بھی اجلاس کا سب سے مشکل مرحلہ نظم کا انتخاب ہوا کرتا ہے۔ صرف عمدہ نظم ہی چننے سے کام نہیں چلتا، بلکہ ایسی نظم ڈھونڈنا پڑتی ہے جس پر بحث کی بھی بھرپور گنجائش موجود ہو۔ بعض نظمیں ایسی ہوتی ہیں جو متاثر تو کرتی ہیں لیکن دو تین ہفتے تک بحث ’سہنے ، کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ بعض نظمیں ایسی ہوتی ہیں جن پر بحث تو ہو سکتی ہے لیکن وہ فنی سطح پر متاثر نہیں کرتیں۔

 ظاہر ہے کہ کسی شاعر کی سینکڑوں نظموں میں سے ایک نظم کا جب انتخاب کیا جاتا ہے تو اس پر سب کا اتفاق ممکن نہیں ہے۔ تاہم ’حاشیہ، کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ مندرجہ بالا محدودات کے اندر رہتے ہوئے بہترین نظم چنی جائے۔

نوشابہ شوکت: میں صرف ایک طالبعلم ہوں ادب کی۔ تنقید کے کسی بھی معیار تک آنا میرے لئے ممکن نہیں۔ میں صرف یہاں اپنے تاثرات کا اظہار ہی کر سکتی ہوں

 میرے لئے بہت خوشی کا باعث ہے اس فورم پہ موجود ہونا۔ یہاں آتے ہی ایسی سرشار کر دینے والی نظم اور پھر علی محمد فرشی صاحب کی الہامی تنقید۔ طلبِ علم کی تشنگی کی تسکین بھی کر رہی ہے اور اُسکی افزائش بھی۔

 باقی لوگوں کے تبصرے بعد میں پڑھوں گی کہ ابھی جو پڑھا ہے اس کو جذب کرنا ضروری ہے

ظفر سیّد: جنابِ صدر: اجلاس کا وقت تو ختم ہو گیا ہے لیکن گزارش ہے کہ اسے مزید ایک ہفتہ بڑھا دیا جائے کیوں کہ آفتاب اقبال شمیم صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس نظم اور اس پر ہونے والی بحث کے بارے میں اپنے تاثرات سے آگاہ فرمائیں گے۔ ان کے تاثرات ملتے ہی میں انھیں ٹائپ کر کے یہاں پوسٹ کر دوں گا۔ اس دوران اگر کوئی اور رکنِ حاشیہ بحث میں حصہ لینا چاہے تو بسروچشم۔

رفعت قابال خان: اگر بقول آفتاب اقبال شمیم، واحد متکلم، ’’ میں ‘‘ آدھی یا ادھوری سچائی ہے اور ’’ زید‘‘ کامل صداقت یا ذات کی اصلیت تو اس اعتبار سے زید وجود کو جہان گزراں میں اثبات عطا کرنے والی صداقت کاملہ کی طرف بھی اشارہ کناں ہے۔ ادبیات عالم اور بالخصوص مشرقی تہذیبی تناظر میں وجودی سطح پر عمق باطن میں مستور اس جوہر ذات کی دریافت اور تخاطب و کلام کی سعی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ زیر بحث نظم، کیونکہ زید کے نام ہے، اس لیے تخاطب کی نوعیت موجود ہے جو شاعر کے مخصوص اسلوب سے ہم رشتہ ہے۔ اس لیے فنی طور پر اس کی نمائندگی کرتی ہے۔ ایک اور سطح پر اس نظم کو ایک ایسی خود کلامی بھی کہا جا سکتا ہے جو ’’ میں ‘‘ کے باطنی عکس کا پتہ دیتی ہے۔ یوں ’’ زید‘‘ ایک conceit نہیں ہے۔ یعنی وہ نہ تو کوئی خیالی استعارہ ہے، نہ وہ خود بین پندار ذات ہے، نہ ہی دور از قیاس خیال آرائی ہے۔ اس کے بر عکس اس علامت کی تشکیل میں ، جو کہ زیادہ موزوں لفظ معلوم ہوتا ہے، شاعر کے شعور و یقین اور خود آگاہی کا دخل ہے۔ ان کے یہاں بالعموم اور اس نظم میں بھی ’’ زید‘‘ کا کردار ماورائی یا تخیلی نہیں رہتا بلکہ حقائق حیات سے جڑا ہوا ہے۔ خود شاعر معروضی کشمکش یا حیاتی جدل کاسچا ناظر بھی ہے اور اس میں شامل یا فعال بھی۔ کم از کم اس کا لکھا یہی گواہی دیتا ہے۔ اگر یہاں طبقاتی، کلاس جیسے الفاظ آوٹ آف فیشن نہ محسوس ہوں تو اسے اپنے عوامی طبقات میں سے ہونے کا پورا ادراک ہے۔ بطور فنکار اس کا دل ہمیشہ جینے کا جتن کرتے ہوئے مجبوروں ، محروموں کے لیے دھڑکا ہے۔ اس نظم میں جذبے کی گھن گرج نہیں ، گھمبیرتا ہے۔ میرے نزدیک آفتاب اقبال شمیم کی ایسی نظمیں ترقی پسندانہ ادبی و فکری روایت کا تسلسل ہی نہیں بلکہ اس تسلسل کی عصری شناخت کا مضبوط، معتبر، جدید حوالہ بھی ہیں۔

ظفر سیّد: صاحبِ صدر: میں نے آفتاب صاحب کی خدمت میں اس اجلاس کی کارروائی کا پرنٹ آؤٹ پیش کر دیا ہے۔ انھیں اب تک ہونے والی بحث خاصی پسند آئی ہے، اور وعدہ کیا ہے کہ وہ کل تک اپنے تاثرات کا اظہار کر دیں گے۔

ظفر سیّد: جنابِ صدر: نظمِ زیرِ بحث کے شاعر جناب آفتاب اقبال شمیم نے اپنے خیالات عنایت فرمائے ہیں میں جنھیں ٹائپ کر کے پیش کر رہا ہوں :

 میرے خیال سے زید Elemental Man ہے، کوئی فلسفیاتی معما نہیں۔ ’زید، امید و موجود اور آدمی کے لیے بڑے خواب تک پھیلی ہوئی زندگی کا استعارہ بھی ہے اور حوالہ بھی۔ وہ فرد میں شامل بھی ہے اور اس سے ماورا بھی۔ وہ اپنی جبلتوں میں ثابت او ر تمناؤں میں سیار۔ وہ میری طویل خود کلامی میں مجھے محوِ گفتگو رہتا ہے، اور مجھے مایوس نہیں ہونے دیتا۔

 میری نظم پر علی محمد فرشی صاحب کا ابتدائیہ ایک مختصر مگر جامع مضمون ہے جو نظم میں گہرائی تک اتر کر اور عصر کے سیاق و سباق سے مشورہ کر کے ہی لکھا جا سکتا ہے۔ اس نے ایک آسان سی نظم کو مزید آسان کر دیا ہے۔ جلیل عالی صاحب نے اسے انسان سے میری کمٹمنٹ اور وجودی ویژن کا تخلیقی اظہار قرار دیا ہے۔ حمید شاہد صاحب نے اجنبیائے جانے اور کایا پلٹ کے پس منظر میں اس نظم کا جائزہ لیا ہے۔ قاسم یعقوب صاحب نے دریدا کے حوالے سے (کہا ہے کہ) نظم کے متن کے اندر ہی ایک تخلیقی اور منطقی محرک متن کو معنی کے مروجہ تصور سے آزاد کر دیتا ہے۔

 صدر نشین سعید احمد صاحب خود نظم گو ہیں ، اور ایک نظم گو کی واردات کو سمجھتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں۔ ان کے اٹھائے ہوئے سوالات نظم کی بعض جہتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ میں یامین صاحب، سحر آفرین صاحبہ، ظفر سید، اور دیگر احباب کا بھی شکرگزار ہوں جنھوں نے دوڑتے سمے میں رک کر نظم کو ذرا غور سے دیکھا۔

 کیا کہوں ، بہت پرانا آدمی بھی ہوں اور بہت نیا آدمی بھی ہوں۔ صدیوں میں رہتا ہوں اور گزرتے ہوئے لمحے کی چاپ بھی سنتا ہوں۔ نام وری میرا مسئلہ نہیں۔ گلیوں محلوں میں پلا بڑھا ہوں۔ یہ ہمیشہ سے دکھ سہنے والے اور بے خبری کی قناعت میں رہنے والے لوگ مجھے میرے لگتے ہیں۔ ان سے میرا یک طرفہ سمبندھ ہے، بہت مضبوط، زمین کی استقامت جتنا مضبوط۔

 حسن کا خواب میں لڑکپن میں لڑکیوں کی شکل میں دیکھتا تھا۔ میرا فلیش بیک کا اپریٹس کبھی خراب نہیں ہوا۔ میرا تصور رونقِ حسن میں رہتا ہے اور یہ رونق میرے غم کو معتدل کرتی رہتی ہے۔ وقت کہتا ہے کہ میں پہچان کے سفر میں ہوں۔ اور لاشعور میں مجھ پر جھلکیوں کے روزن کھلتا لاوقت کہتا ہے کہ میں اپنے آپ کو پہچانتا ہوں اور میں بڑے خواب کی تعبیر کی حد و زد میں ہوں۔

 میں سیاسی آدمی نہیں ہوں ، لیکن تاریخ کے جبر کا یہ تماشا بہ چشمِ خود عمر بھر سے دیکھ رہا ہوں کہ اربوں کی آبادیوں پر اشرافیہ، اس کی زر خریدہ دانش، پیر، پروہت، پادری اور اسلحہ بردار قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور اس اندھیر کا کوئی انت دکھائی نہیں دیتا۔ انسانی آزادیوں کا خواب میری خود کلامی کی ایک اہم جہت ہے۔ شاید اسی لیے اس نظم کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ کسی حد تک براہِ راست نظم میرے مزاحمتی شعور کا احاطہ تو کرتی ہے لیکن مجھے اور بھی غم درپیش ہیں۔ وجودی مسائل، سوال اٹھاتی ہوئی فکری پیچیدہ روی، وقت لاوقت اور نہ معلوم کیا کیا۔ قاسم یعقوب صاحب ’ایک نظم زید کے نام، کو میری نمائندہ نظم نہیں گردانتے۔ اگر مجھ سے انتخاب کے لیے کہا جاتا تو میں ’میں نظم لکھتا ہوں ، میں شامل نظم ’وقت نما، پیش کرتا، جو قدرے طویل تو ہے لیکن میری کچھ اور جہتوں کو بھی آشکار کرتی ہے۔

 چلیے، یہ کون سا مشکل مرحلہ ہے، کوئی نظم کسی بھی وقت ’حاشیہ، کے فورم پر دستک دے سکتی ہے۔

 اب کچھ ابہام کے بارے میں ، جس کا تذکرہ فرشی صاحب نے اپنے ابتدائیے میں کیا ہے۔ ابہام شاعری کا وصف ہے، ورنہ ریشنیلٹی کی اقلیم کا تاج دارِ اول افلاطون اپنی خیالی ریاست سے شاعروں کو خارج کرنے کا کیوں سوچتا۔ ابہام شاعروں کا لازمہ ہے جو نظم کے دورانیے میں آدھے آدمی کو پورا آدمی بننے کی آزادی دیتا ہے، ریشنیلٹی کو اِر ریشنیلٹی سے جوڑتا ہے۔ یہ ابہام اتنا بھی کم نہ ہو کہ نظم شروع شروع کی نظموں کی طرح عنوان گرفتہ جواب مضمون بن جائے، اور اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ غزل اور میڈیا کا قاری حواس باختہ ہو جائے۔

 شاعر بھی چالاک ہوتا ہے اور کم و بیش کا حساب خوب جانتا ہے۔ لیکن نظم میں جہاں کمٹمنٹ کی بات ہو وہاں ابہام نہیں چلتا۔

 آفتاب اقبال شمیم

ظفر سیّد: احبابِ حاشیہ: اجلاس کا وقت تو ختم ہو چکا ہے لیکن صاحبِ صدر کچھ ناگزیر مصروفیات میں الجھ کر رہ گئے ہیں جس کی وجہ سے اختتامی خطبے میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔ تاہم انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ دو تین دنوں میں اجلاس کے باضابطہ اختتام کا اعلان کر دیں گے۔ اس دوران اگر کوئی دوست اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہے تو ’موسٹ ویلکم۔ ،

علی محمد فرشی: جنابِ صدر! میری طرح، شاید، آپ بھی آفتاب اقبال شمیم صاحب کی اِس نظم پر ہونے والی اُس متوقع گفت گو کے منتظر ہیں (جس کی دعوت ظفر سید صاحب نے دی ہے ) یا پھر نہ ہوسکنے والی اُس بحث پر (جو اِس شاعر کا حق تھا) دل برداشتہ ہو کر خاموش ہو گئے ہیں۔ امر واقعہ تو یہی ہے کہ اِس فورم کی روایت کے برعکس صرف اِسی نظم پر کھل کر بحث نہ ہوسکی، جس کا مجھے ذاتی طور پر بھی شدید ملال ہے، کیوں کہ قاسم یعقوب صاحب کی شکایت کے پس منظر میں کہ بحث کے لیے شاعر کی نمائندہ نظم کا انتخاب نہیں ہو سکا، میں اپنی ذات کو بھی خطا کار محسوس کرنے لگا ہوں۔ اگرچہ انھوں نے شاعر کی کسی مخصوص نظم کا نام نہیں لیا تھا، حال آں کہ جواباً میں نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ یہ نظم چوں کہ شاعر کے فکری مرکزے سے پیوستہ ہے لہٰذا ہم آگے بڑھ کر اِس سے بہتر نظم تک پہنچ سکتے ہیں (البتہ نظم کے نمائندہ ہونے پر مجھے اب بھی اصرار ہے )۔ اب چوں کہ شاعر نے اپنی نمائندہ نظم کا نام بتا کر ہمارا کام آسان کر دیا ہے لہٰذا اجلاس کا وقت مزید دو ہفتے بڑھا کر "وقت نما” پر بحث کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔

سعید احمد: جناب علی محمد فرشی آپ کی تجویز اچھی ہے لیکن مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ میں اس کوشش میں ہوں کہ کسی طرح آج رات تک اجلاس کی اختتامی معروضات پیش کر دوں اس کے ساتھ ہی آپ کی تجویز سے اتفاق نہ کرنے کی وجوہات بھی بیان کر دوں گا۔

علی محمد فرشی: جنابِ صدر! میں آپ کے استحقاق کا احترام کرتا ہوں۔

سعید احمد: محترم اراکین حاشیہ! مجھے افسوس ہے کہ میری ذاتی مجبوریوں کی بنا پر آپ کو انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی- نظم پر بحث تمام ہوئی نسبتاً کم ارکان کی شرکت کے باوجود زیر بحث نظم اور جناب آفتاب اقبال شمیم کی مجموعی نظم نگاری کے حوالے سے بہت سے اہم نکات پر گفتگو ہوئی- جناب آفتاب اقبال شمیم نظم کے تخلیقی انہماک میں عمر بسر کرنے والے شاعر ہیں – جیسا کہ انہوں نے خود اپنی گفتگو میں اس بات کا ذکر کیا کہ ناموری ان کا مسئلہ نہیں – یہ محض ان کا زبانی کلامی دعوی’ نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی برس کی محبت آمیز آشنائی کے دوران ہم نے یہی دیکھا ہے کہ وہ ہمہ وقت نظم کے تخلیق میں محو رہنے والے شاعر ہیں۔ نام نہاد شہرتوں کی خواہش میں رسوا ہوتے اس عہد میں آفتاب اقبال شمیم جیسے نظم نگار کا ہمارے درمیان ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے – یہی وجہ ہے کہ جناب علی محمد فرشی نے اپنے ابتدائیے میں انہیں بار بار ایک اصیل شاعر قرار دیا ہے نیز انہوں نے نظم کے تجزیے سے بحث کا آغاز کرتے ہوئے آفتاب اقبال شمیم کے نظریۂ فن، فکری ابعاد اور اسلوبیاتی خصائص کی احسن انداز میں وضاحت کی ہے – ان کا یہ کہنا درست ہے کہ آفتاب اقبال شمیم نے نظم نگاری کا آغاز اس وقت کیا جب ترقی پسند تحریک اپنا سازوسامان سمیٹ رہی تھی۔ راشد، میرا جی اور مجید امجد نظم کو پروپیگنڈے سے رہائی دلا کر آرٹ کے منصب پر فائز کر چکے تھے لیکن انھوں نے اس امر کی طرف اشارہ نہیں کیا کہ یہی وہ وقت تھا جب افتخار جالب، جیلانی کامران اور انیس ناگی وغیرہم نئی نظم کا ڈول ڈال چکے تھے۔ آفتاب اقبال شمیم کے حوالے سے نئی نظم کی تحریک کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ انھوں نے جدید نظم کے اس تیسرے دھارے سے بھی اکتساب کیا ہے چاہے یہ اکتساب اس ابہام کے خلاف رد عمل کی صورت میں ہو جو افتخار جالب اور نئی نظم کے دوسرے شاعروں کی نظموں کی تفہیم میں مشکلات پیدا کر رہا تھا یا غزل کی شعریات سے عبارت اس زبان کے خلاف ہو جس کی تبدیلی کے لیے پہلے پہل جیلانی کامران نے "استانزے ” میں تنقیدی و تخلیقی ہر دو سطحوں پر آواز بلند کی تھی۔ اس تناظر میں دیکھیں تو آفتاب اقبال شمیم نے نظم کی ایک نئی تخلیقی جہت دریافت کی ہے جو اپنی پیش رو نظم کے تینوں دھاروں کے فنی و فکری امتزاج کے باوجود ان سے الگ اور منفرد بھی ہے۔ آفتاب اقبال شمیم کی نظم کے مطالعے کے دوران اگر کوئی مشکل پیش آتی ہے تو وہ ان کی یہی انفرادیت ہے جس کی بنا پر ہم انہیں نظم کے مقبول اسالیب کے ساتھ بریکٹ کر کے نہیں دیکھ سکتے اس پر مستزاد یہ کہ ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ "ان کی فکری ساخت و پرداخت ترقی پسند نظریے کی آغوش میں ہوئی ہے ” شاید اس آگاہی کا نتیجہ ہے کہ ہم انہیں ایک جدید نظم نگار سمجھنے کے باوجود ان کی نظموں کی تعبیر ہمیشہ ترقی پسند فکر کے تناظر میں کرتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال زیر بحث نظم کی تفہیم کے ساتھ بھی پیش آئی ہے۔ حالانکہ جناب علی محمد فرشی نے اپنے ابتدائیے میں واضح طور پر یہ کہا تھا کہ” آفتاب اقبال شمیم ایک اصیل شاعر ہے اور کسی اصیل شاعر کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایک نظریے کے جوتے پہن کر آنکھیں بند کیے کسی ایک راستے پر چلتا رہے جیسا کہ اس شاعر نے کھلی آنکھوں سے زمینی حقائق کا مشاہدہ کیا ہے اور اپنا راستہ ہٹ کر بنایا ہے ” پھر جناب جلیل عالی نے آفتاب اقبال شمیم کی نظم کی چند اور جہتوں کے بیان کے لیے شاعر کے "انسان مرکز شعری ویژن”، "وجودی کرب” اور” وجودی ویژن” کی طرف درست انداز میں اشارے کیے ہیں۔ حتیٰ کہ خود آفتاب صاحب نے یہ کہہ کر کہ "شاعر بھی چالاک ہوتا ہے اور کم و بیش کا حساب خوب جانتا ہے "شاید ہمیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ نظم کی بار دگر خواندگی کر کے دیکھیے شاید کوئی اور پرت بھی کھل جائے لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور علی محمد فرشی کے ابتدائیے سے جناب رفعت اقبال کی گفتگو تک نظم کی ( جاری ہے )

سعید احمد: تفہیم معروف ترقی پسند اصطلاحات ” محروم طبقات، معاشی معاشرتی انصاف، ظلم کی چکی میں پستے عوام اور طبقاتی کلاس” وغیرہ کی روشنی ہی میں ہوئی۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ میرا اختلاف ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس نظم کی ایسی تعبیر کی گنجائش نہیں تھی میرا اختلاف اور اصرار یہ ہے کہ اس نظم کے متن کو پیش نظر رکھ کر کسی اور تعبیر کی گنجائش بھی نکل سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور نظم پر ہونے والی ساری گفتگو نظم کے حاوی محرک سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اس کی ایک وجہ تو علی محد فرشی نے اپنے ابتدائیے میں خود ہی بیان کر دی تھی کہ "آفتاب اقبال شمیم کی نظم ابہام سے پاک ہونے کے باوجود ناقدین کی ضروری توجہ سے محروم ہے تو اس کے معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم اپنی پسند اور آسانی کے اسیر ہیں۔ "اور اس آسانی کا ثبوت انھوں نے اگلے ہی جملے میں یہ کہہ کر پیش کر دیا کہ "زیر بحث نظم شروع ہی میں اپنے موضوع کا دھاگا ہمیں تھما دیتی ہے ” جناب حمید شاہد بھی اسی انداز میں نظم کی کسی دوسری پرت کھولنے کے بجائے یہ کہہ کر گفتگو آغاز کرتے ہیں "نظم کے عین آغاز میں شاعر نے اپنی دانش اور اپنی فکر کے نہ صرف منبع کو بتا دیا ہے، اپنی فکر اور دانش کے سروکاروں کو بھی واضح کر دیا ہے ایسے میں وہ سارے ابہام جو معنیاتی دھارے کا رخنہ ہوسکتے تھے اس نظم کا مسئلہ نہیں رہتے ” جناب قاسم یعقوب کی رائے بھی اس سے کچھ مختلف نہیں وہ کہتے ہیں "متن کی ساخت اتنی سادہ اور واضح ہے تو

 )میں خود کو متن کے ایک ہی پرت میں ملفوف رکھنے پر اکتفا کر لے گا۔ ” space قاری متن کے عرصے (

 آپ تمام احباب کی درج بالا آرا میرے لیے معتبر ہیں لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ان تمام آرا میں کہیں نہ کہیں متن کے سرسری مطالعے کا شائبہ ضرور ہوتا ہے اورایسا شاید اس لیے بھی ہوا ہے کہ ہم نہ صرف آفتاب اقبال شمیم کی فکری وابستگیوں سے آگاہ ہیں بلکہ زیر بحث نظم کی پیش منظریت foregrounding بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے : "دال روٹی”، "جور و جفا”، "بے مہر صدیوں کی دوزخ”، "گلا کاٹتے جیب کترے دن”، "خواب فردا” اور”جھوٹ سچ کی لڑائی میں سچ کی فتح” وغیرہ نظم کا ایسا ہی ڈکشن ترتیب دیتے ہیں کہ ذہن خواہ مخواہ خود کو ترقی پسند نظم کے دھارے سے جوڑ کریہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ "معاشی معاشرتی انصاف کے آدرش کا امین شاعر مدت مدید سے کرب کی چکی میں پستے محروم طبقات کی خوشحالی کا خواب دیکھ رہا ہے ” اور دیگر ترقی پسندوں کی طرح امید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور سمجھتا ہے کہ پرولتاری اور بورژوا کی جنگ میں آخر ایک روز مزدور کسان اپنے حقوق کی جنگ جیت جائیں گے اور یوں سچ کی فتح ہو کر رہے گی۔ نظم کے اس پیش منظر کو سامنے رکھ کر جناب علی محمد فرشی نے نظم کی تفہیم خوب کی ہے لیکن اسی تفہیم کے دوران وہ ایک جملہ ایسا بھی لکھ گئے ہیں جس پہ شاید انہوں نے بھی رک غور نہیں کیا کہ آخر ایسا کیوں ہے۔ انہوں لکھا ہے کہ اس نظم کا شاعر "عوام کو جن کی عمریں پیٹ کے تنور کا ایندھن بن جاتی ہیں ظالموں اور غاصبوں کے تخت گرانے پر اکساتا ہے نہ ان کے تاج اچھالنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ” علی محمد فرشی نے اس امر کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ جس ترقی پسند تناظر میں نظم کی تعبیر کی گئی ہے اس کا تو لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ عوام کو غاصبوں کے خلاف انقلاب برپا کرنے پر اکسایا جاتا۔ یہی وہ سوال ہے جس نے مجھے نظم کی بار دگر خواندگی پر مجبور کیا اور میں نے کوشش کی ہے کہ متن پر انحصار کر کے دیکھوں کہ کیا نظم کے deep structure  میں کوئی اور پرت پوشیدہ تو نہیں۔ اس سے پہلے کہ اس (جاری ہے )

سعید احمد: حوالے سے میں اپنی معروضات پیش کروں جناب جلیل عالی کی رائے بھی دیکھتے چلیں۔ وہ شاعر کی فکری

 ساخت و پرداخت کو محض ترقی پسند نظریے سے الگ کر کے دیکھتے ہوئے لکھتے ہیں "وہ انسان کو نا انسان بنانے والی ہر صورت کی مخالفت کرتا ہے ” نیز یہ کہ شاعر کا انسان مرکز شعری ویژن کسی منشوری سوچ کا زائیدہ نہیں بلکہ "اس کے ناآسودہ احساس جمال کی دین ہے اس میں محض معاشی محرومیوں کی ناآسودگی سے جنم لینے والے جارحانہ رد عمل کو کسی جدوجہد کی بنیاد نہیں بنایا گیا۔ ” یہ تمام اوصاف ایک جدید نظم نگار کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ ترقی پسند نظم جس انسان کے المیے کو پیش کرتی رہی ہے اسے اپنے نا انسان ہونے کا ڈر نہیں تھا۔ اسے علم تھا کہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہے اسے یہ امید اور یقین بھی تھا کہ ایک نہ ایک دن ظلم کی طویل رات ڈھل جائے گی اور سرخ سویرا طلوع ہوگا تمام مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا اور زندگی خوشیوں سے عبارت ہو گی جب کہ زیر بحث نظم میں مجھے کہیں ایسی صورتحال دکھائی نہیں دیتی۔ شاید اس لیے نظم کے آغاز ہی سے اس کے موضوع کا دھاگہ اس طرح میرے ہاتھ نہیں آسکا جیسا کہ فرشی صاحب کے ہاتھ آ گیا تھا۔ میرے لیے نظم کی کلیدی سطر "مجھے دکھ، جنم دکھ کا سہنا گوارا ہے ” ہے۔ مجھے یہ دکھ اسی وجودی آگہی سے پھوٹتا نظر آیا جس کے مطابق انسان کو اس کی مرضی کے بغیر اس کرہ ارض پر پھینک دیا گیا ہے۔ نظم میں یہ دکھ شاعر کی اصل یعنی زید کی خود کلامی کی صورت میں آشکار ہوا ہے۔ اسی دکھ کی آگہی کی روشنی میں شاعر اپنی اور اپنے قبیلے کی شناخت کے عمل سے گزرتا ہوا وقت کے جبر کو موضوع بناتا ہے۔ علی محمد فرشی نے نظم کی

 جس مقامیت کا ذکر کیا تھا میرے خیال میں یہ مقامیت مکان (space)  کی ہے۔ مکان جہاں زمان کا جبر طاری ہے اس پر مستزاد وہ پوشیدہ قوتیں جو انسان کو دال روٹی کی "گردان”میں مبتلا کر کے نا انسان بنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

 دال روٹی کی گردان میں

 عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں

 میں سمجھتا ہوں یہاں مسئلہ دال روٹی کی عدم دستیابی اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ بھوک کا نہیں ہے۔ ان سطور میں اصل اہمیت کا حامل لفظ "گردان” ہے۔ جو دہرائی یا تکرار کا عمل ہے۔ یوں یہ سطر دال روٹی کی خواہش میں مبتلا عوام کو موضوع نہیں بناتی بلکہ یہ وہ عوام ہیں جو دال روٹی کے حصول کے بعد اسی کی تکرار کی تکرار میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں۔ سو شاعر کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو رزق کے چکر میں گرفتار ہو کر زندگی کی تکرار میں مبتلا ہیں اور جنھیں یہ خبر بھی نہیں کہ یہ تکرار  routine & cyclic بے رس یکسانیت اور اکتاہٹ میں ڈھلتی جاتی ہے۔ نظم کا واحد متکلم اس اکتاہٹ کو ذاتی اور اجتماعی ہر دو سطح پر دریافت اور شناخت کرنے کے عمل سے گزرتا ہے۔ البتہ اس میں اور اجتماع میں یہ فرق ضرور ہے کہ اجتماع زندگی کی جس غیر تخلیقی گردان کو رٹنے میں مصروف ہے اس کی آگاہی اسے حاصل نہیں۔ نظم کا واحد متکلم یا شاعر کی اصل زید یا خود شاعر نہ صرف محض روز کی اس تکرار میں انسان کو نا انسان ہوتے دیکھ رہا ہے بلکہ اسی حوالے سے اپنی دانش کی آبیاری کرتے ہوئے گھٹن اور حبس میں سانس لینے کے لیے حسن کے نظارے کی کھڑکی کھولنے پربھی قادر ہے۔

سعید احمد: کیا بتاؤں کہ گلیوں محلوں کی

 یہ لڑکیاں

 عشق کے قاف کی وہ پریزاد ہیں

 جن کی دلداریوں کے گلاب و سمن

 چشم ولب اور جان و بدن کی

 عبارت میں

 لکھی ہوئی داستانوں میں

 دل شاہزادہ ہے گم نام صدیوں سے

 بھٹکا ہوا

 نظم کی ان سطور کے حوالے سے آفتاب اقبال شمیم نے اپنی گفتگو میں کہا ہے کہ ان کا  Flash back  کا اپریٹس کبھی خراب نہیں ہوا حالانکہ نظم کے اختتام تک پہنچتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے  Flash forward  کے اپریٹس کی ورکنگ کنڈیشن بھی بہت اچھی ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ نظم کی درج بالا سطور کے حوالے سے مجھے کہنا یہ تھا کہ آفتاب اقبال شمیم نے یہاں وجودی فلسفے کی حرف بہ حرف پیروی کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ ان کا ایسا اختصاص ہے جو کسی فلسفے کی پیروی میں نظم تخلیق کرنے کے بجائے بقول جلیل عالی اپنے ناآسودہ احساس جمال کی پیروی میں نظم تخلیق کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آفتاب اقبال شمیم نے وجودی ادیبوں کی طرح محض زندگی قبیح تصویر کشی سے جا بہ جا گریز کر کے حسن کے نظارے سے امید کے لمحے بھی کشید کیے ہیں۔ نظم کے ان پہلے دو حصوں کا تقابل کر کے دیکھیں تو زندگی کی دو یکسر متضاد تصویریں نمایاں نظر آتی ہیں۔ پہلی تصویر ایک ایسے قبیلے کی ہے جو غیر تخلیقی زندگی کا اسیر ہے جس کا ایک فرد خود شاعر بھی ہے جو نروان کے لمحے سے گزر کر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ زندگی حقیقت میں کچھ اور شے ہے لیکن اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ گوتم کی طرح نروان کے حصول سے پہلے یا بعد میں خود کو اپنے قبیلے سے جدا کر کے دیکھنے کا روادار نہیں۔ شاید اس لیے کہ فرد اور اجتماع اس کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یوں وہ وجودی کرب کا شکار تو ہوتا ہے لیکن وجودی تنہائی سے بچ جاتا ہے۔ ہر چند ایک خود آگاہ فرد ہونے کا ناطے وہ ایک سطح پر اس تنہائی کا شکار ہے بھی۔ اور اسی خود آگاہی کے نتیجے میں وہ دوسری تصویر ہمارے سامنے رکھتا ہے جس میں زندگی کی تکرار، یکسانیت اور اکتاہٹ سے بھاگ کر بھٹکے ہوئے شاہزادۂ دل کے لیے تخلیقی امکانات موجود ہیں۔۔۔۔ نظم کے ان دو حصوں میں بعض سادہ سے الفاظ کا خوبصورت استعمال آفتاب اقبال شمیم کی (جاری ہے )

سعید احمد: فنی دسترس کا ثبوت ہے۔ مثلاً نظم کی چھٹی سطر میں لفظ”رونق” بظاہر تو زندگی کی بھاگ دوڑ کا نمائندہ نظر آتا ہے لیکن اگر اسے دال روٹی کی گردان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تکرار اور یکسانیت کے تناظر میں دیکھیں تو اس طنز کا احساس ہوتا ہے جو ایسی زندگی کی چہل پہل سے وابستہ ہے جس میں سفر کا دائرہ لا حاصلی کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح "عشق کے قاف” کی ترکیب سے کوہ قاف کا خیال پیدا ہونا تو سامنے کی بات ہے لیکن ذرا غور کرنے سے احساس ہوتا ہے کہ "قاف” تو عشق کے انتہا کی علامت بھی ہے۔ مرقع زیست سے دو مختلف اور متضاد تصویروں کے تقابل کے نتیجے میں شاعر کرہ ارض پر حیات کے اس دائمی دکھ کے بیان تک پہنچا ہے جو ہر نئے جنم کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ دکھ چونکہ کسی ایک فرد کا نہیں اس لیے یہاں شاعر نے واحد متکلم کا صیغہ چھوڑ کر جمع کا صیغہ "ہم” استعمال کیا ہے۔

 ہم کہ جور و جفا اور بے مہر صدیوں کی

 دوزخ میں ہیں

 کیا پتا کل نہ ہوں

 کیا پتا کل کا دیکھا ہوا خواب

 سچا نکل آئے، دنیا بدل جائے

 یہ خواب وقت اور حالات کے جبر سے نکلنے کا خواب ہے جسے انسان کل بھی دیکھتا تھا اور آج بھی دیکھتا ہے لیکن زمان و مکان کی قید میں رہتے ہوئے جس کے سچ ثابت ہونے کا اسے کبھی یقین نہیں آتا البتہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ خواب سچ ہو تو اس کی دنیا ہی بدل جائے۔ میرے نزدیک یہاں دنیا بدل جانے سے شاعر کی مراد کسی نظام یا انقلاب کے ذریعے حالات کی بہتری نہیں بلکہ محاورۃً دنیا بدل جانے کی طرف اشارہ ہے یعنی زندگی ایک ایسی تخلیقی سرشاری میں ڈھل جائے جس کا تجربہ شاید لاوقت ہی میں کیا جا سکتا ہے۔ اسی باعث شاعر نے فوراً ہی وقت کے جبر کی ایک اثر انگیز تصویر پیش کی ہے جس میں لاوقت کی خواہش بھی موجزن ہے۔

 گلیوں محلوں کے

 لچے لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو

 فلاں اور فلاں اور فلاں شہر کی

 تنگ دامانیوں کی سزا سے

 رہائی ملے

 شہروں کی تنگ دامانیوں سے رہا ہوتا وسعتوں کا حامل وقت کا یہ لمحہ ہی شاعر کا خواب فردا ہے جسے وہ زندگی کی بڑی حقیقت تصور کرتا ہے جس کے مقابلے میں دال روٹی کی گردان زیادہ معنی نہیں رکھتی سو شاعر زمان و مکان کے محدودات پر غالب آ کر بحر بے کراں بن جانے کا آرزو مند ہے۔ (جاری ہے )

سعید احمد: خواتین و حضرات میں نے close reading کے ذریعے نظم کے متن کی تعبیر کی کوشش کی ہے۔ اور میرے خیال کے مطابق نظم کے تخلیقی چوکھٹے میں اس کا جواز موجود ہے۔

 نظم پر اپنی معروضات پیش کرنے کے علاوہ مجھے چند اور نکات کی وضاحت بھی کرنی ہے جن کا تعلق ان سوالات سے ہے جو نظم کی تعبیر کے دوران احباب کی طرف سے اٹھائے گئے۔۔۔۔ ان میں سب پہلا نکتہ تو ابتدائیے میں علی محمد فرشی نے نظم کے ابہام سے پاک ہونے کے حوالے سے اٹھایا اگرچہ انھوں نے بڑی خوبی سے ابہام کو نظم کی خوبی یا خامی نہ تصور کرتے ہوئے موضوع کی غایت، اسلوب کی ضرورت اور شاعر کے فنی میلان کا تقاضا قرار دیا۔ لیکن بعد میں جناب محمد یامین نے اس نکتے پر خاص زور دیتے ہوئے اسے مختلف حوالوں سے شاعری کے بنیادی اوصاف میں سے ایک قرار دیا اور احباب سے اس پہ کھل کر بحث کی گزارش بھی کی لیکن بعد میں کسی نے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ اس ضمن میں مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ میں خود ان نظم نگاروں میں سے ہوں جو ابہام کو شاعری کا وصف خاص سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود میں فرشی صاحب کی رائے سے متفق ہوں۔ مزید یہ کہ آفتاب اقبال شمیم کی نظموں میں یقیناً اس ابہام کے خلاف رد عمل موجود ہے جو نظم کو چیستان یا معمہ بنا دیتا ہے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ان کی تمام نظمیں ابہام سے یکسر پاک ہیں۔ وہ بڑی خوبی کے ساتھ نظم کا ایسا پیش منظر بناتے ہیں جو سہل اور سادہ دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں بقول غالب "دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں "۔ پھر ابہام کے حوالے سے یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ شاید اردو نظم میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ اور ایذرا پاؤنڈ کے اثرات کے نتیجے میں بہت سے نظم نگاروں کے ہاں ابہام ضرورت سے کچھ زیادہ ہی راہ پا گیا ہے اور ہم اسے نظم کے جدید ہونے کے لیے ایک لازمہ خیال کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ عالمی ادب کے مطالعے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پابلو نرودا، لورکا، رلکے اور سیزر ولیخو ایسے کئی جدید شعرا ہیں جن کی نظموں کی بنیاد ابہام پر نہیں اس کے باوجود انہیں عالمی ادب میں اعلی مقام حاصل ہے۔ یوں بھی ابہام نظم کا ا ایک ایسا وصف ہے جو اپنے تمام حسن کے باوجود نظم کی تعبیر کے دوران تحلیل ہو جاتا ہے۔

 جناب قاسم یعقوب نے زیر بحث نظم کے انتخاب پر سوال اٹھایا۔ ان کے خیال میں یہ نظم آفتاب اقبال شمیم کی نمائندہ نظم نہیں ہے بعد میں خود آفتاب اقبال شمیم نے بھی قاسم یعقوب کے خیال کی تائید کر دی اور اپنی ایک نظم "وقت نما” کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ان سے پوچھا جاتا تو وہ اس نظم کو بحث کے لیے پیش کرتے۔ دراصل کسی شاعر کی نمائندہ نظم کا انتخاب ایک مشکل مرحلہ ہے۔ حاشیہ کی انتظامیہ اس مشکل کو کیسے حل کرتی ہے، مجھے معلوم نہیں لیکن میری یہ تجویز ہے کہ نظم کے انتخاب میں اگر شاعر سے بھی رائے لے لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جناب علی محمد فرشی نے آخر میں یہ رائے بھی پیش کی کہ اجلاس کا وقت دو ہفتے مزید بڑھا کر "وقت نما” کو بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ یہ تجویز معقول تھی لیکن میں نے اس اتفاق نہیں کیا کیونکہ ایک تو "وقت نما” نسبتاً طویل نظم ہے پھر اس کی موضوعاتی ساخت بھی زیادہ گہرائی اور وسیع تناظر کی حامل ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ ایسی گہرائی کی حامل نظم پر یوں اچانک گفتگو شروع کر کے شاید ہم اس سے انصاف نہیں کر سکیں گے اس کے لیے ضروری ہے

 (اگر ممکن ہو تو) کہ اس نظم کو زیر بحث لانے کے لیے کسی مناسب وقت پر نیا جلسہ منعقد کیا جائے۔

 اس اعتراف کے ساتھ اجلاس کے اختتام کا اعلان کرتا ہوں کہ سنجیدہ ادبی مباحث کے فروغ میں حاشیہ جیسے فورم کا کردار نہایت قابل تعریف ہے۔ میں حاشیہ کی انتظامیہ اور ان تمام احباب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس اہم اجلاس کو کامیاب بنایا۔

جلیل عالی: صدرِ محترم ! آپ نے تھوڑا وقت تو لیا مگر بھر پور طریقے سے صدارت کا حق ادا کر دیا۔ آپ کے جائزے میں جہاں نظم پر ہونے والی تمام گفتگو کو عمدگی سے سمیٹا گیا ہے وہاں کچھ نئ جہتوں کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ بے شک یہ ایک جامع صدارتی تحریر ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ اگلی صدارتوں کو زیادہ توجہ اور کاوش سے کام لینے پر اکسائے گی۔

ظفر سیّد: جلیل عالی صاحب: میں آپ کی بات کی بھرپور تائید کرتا ہوں۔ جنابِ صدر نے واقعی صدارت کا حق ادا کر دیا ہے، اور نظم پر ہونے والی بحث میں اگر کوئی تشنگی تھی تو اسے پورا کر دیا ہے۔ ان کے صدارتی خطبے کی بدولت اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اجلاس بھی گذشتہ اجلاسوں کی مانند بھرپور اور کامیاب رہا۔ میں حاشیہ کی طرف سے ان کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

محمد حمید شاہد: بجا طور پر اعتراف کیا جا رہا ہے کہ سعید احمد نے اس اجلاس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سعید نے صدارت کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے نہ صرف بحث کو خوب صورتی سے سمیٹا نظم کی تفہیم کے باب میں لائق اعتنا اضافے کیے۔ میں حاشیہ کے تمام اراکین کو مبارک دیتا ہوں کہ ہمارے اندر بہتر مکالمہ کی تاہنگ اور صلاحیت رکھنے والوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ تخلیق کاروں کے بیچ یہ مکالمہ یقیناً ایک بہتر ادبی فضا بنانے کا باعث ہو گا۔

رحمان حفیظ: میری جانب سے کامیاب اجلاس کی مبارکباد قبول کیجئے، میں اگرچہ بحث میں عملاً سرگرم نہیں رہ پایا مگر وقتاً فوقتاً موجود رہ کر کچھ نہ کچھ سمجھنے اور سیکھنے میں کامیاب رہا۔ یہ نظم مدتوں پہلے پڑھی تھی مگر مجھ پر اس کی تفہیم کے نئے در اسی بحث سے وا ہوئے۔ انتظامیہ، جناب صدر اور شرکا کے لئے دلی داد

 فہیم شناس: تشکیلتا۔۔۔۔۔۔ اجنبیانے ’’ نئے الفاظ اس بحث میں نظر آئے

‎٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید