FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

نئے دن کا سورج

 

 

کلیات کا ایک حصہ

 

                   ثروت حسین

 

پیشکش: تصنیف حیدر

 

 

 

طالب علمی کے دور کا کلام

1968 تا1969

 

 

 

 

علامہ اقبال کالج کے نام

 

 

ثروت حسین

2نومبر1969

کراچی

 

 

 

کچھ ایسے مقامات بھی گزرے ہیں نظر سے

دیکھا کیے اور چپ رہے حالات کے ڈر سے

 

ہم راہ کی دیوار گرا آئے تھے لیکن

جب دھوپ چڑھی سایۂ دیوار کو ترسے

 

یہ شعلۂ احساس فروزاں رکھو یارو

اوجھل ہے وہ خورشید ابھی حدِ نظر سے

 

منزل کا تعین ہے نہ راہوں کا پتا ہے

بے سوچے ہوئے آج نکل آئے ہیں گھر سے

 

احساس اندھیروں کا سمٹ جاتا ہے ثروت

آتی ہے کرن جب بھی کوئی روزنِ در سے

٭٭٭

 

 

 

 

ہات آئے کیسے کھوئی ہوئی سوچ کا سرا

کل رات سو گیا تھا یہی سوچتا ہوا

 

میں دشمنِ وفا کی پذیرائی کے لیے

صحرا کی تیز دھوپ میں پہروں کھڑا رہا

 

محسوس ہو رہا تھا مرے ساتھ ہے کوئی

دیکھا تو دور دور کوئی دوسرا نہ تھا

 

اک آپ ہی کو مجھ سے شکایت نہیں فقط

اس طرزِ گفتگو پہ سبھی ہیں چراغ پا

 

سڑکوں پہ دور تک کوئی آواز بھی نہیں

گزرا ہے میرے شہر پہ کیا کوئی حادثہ

 

بہتا ہوا چلا تھا میں لہروں کے دوش پر

اور جب ہوا چلی تو کنارے سے جا لگا

٭٭٭

 

 

 

 

یارو سمٹ کے جی لیے اب دھوپ کی طرح

اس شہر کی فضا میں بکھر جانا چاہیے

 

خوابوں کی ناؤ ڈولتی موجوں پہ چھوڑ کر

لمحات کے بھنور میں اتر جانا چاہیے

 

ہر شخص فاصلوں کی تھکاوٹ سے چور ہے

اب کون یہ بتائے، کدھر جانا چاہیے

 

ثروت یہ دھوپ اپنا مقدّر سہی مگر

کچھ دیر سائے میں بھی ٹھہر جانا چاہیے

٭٭٭

 

 

 

آہٹ سی کانوں میں گونجے اور کہیں کھو جائے

آڑی ترچھی پگڈنڈی پر آوازوں کے سائے

 

آنے والے دن کا سورج اپنی اور بلائے

بیتے دن کے ہنگاموں پر آنسو کون بہائے

 

شاید اوس میں بھیگی سڑکیں اپنی آنکھیں کھولیں

شاید دروازوں کے لب پر گیت کوئی لہرائے

 

شہر کی اجلی دیواروں کا چہرہ ہم بھی دیکھیں

موسم کی پہلی بارش سے گرد اگر چھٹ جائے

 

ذہن کی جھیلوں پر چمکی ہے سچائی کی دھوپ

تیرہ عقائد کی قبروں پر شمعیں کون جلائے

٭٭٭

 

 

اب کوئی بات نئی بات نہیں

اب کسی بات پہ چونکا نہ کرو

 

میں بھی ہونٹوں کو سیے بیٹھا ہوں

تم بھی اس بات کا چرچا نہ کرو

 

جانے کیا سوچتی ہو گی دنیا

گھر کی دیواروں پہ لکھا نہ کرو

 

آج کے دور نے سمجھایا ہے

کبھی تنہائی میں سوچا نہ کرو

 

بادلو، مجھ پر عنایت کیسی

میری دہلیز پہ سایہ نہ کرو

 

گھر سے نکلو، ذرا دنیا دیکھو

صرف دروازوں سے جھانکا نہ کرو

 

ق

دوستو درد زمانے کے تمام

اپنے چہروں پہ سجایا نہ کرو

اور جب درد سجا ہی بیٹھے

آئنہ دیکھ کے رویا نہ کرو

٭٭٭

 

 

 

 

کھلے جو بند دریچے تو ایک جھونکے سے

کسی کی یاد کے ہر سو بکھر گئے پتّے

 

تجھے خبر ہی نہیں اے بہار کے موسم

تری تلاش میں کس کس کے گھر گئے پتّے

 

زباں تو چپ ہے مگر سوچتی ہیں یہ آنکھیں

وہ پھول کیا ہوئے، جانے کدھر گئے پتّے

 

خزاں کا خوف مسلط ہے اس طرح ثروت

کبھی ہوا بھی چلی ہے تو ڈر گئے پتّے

٭٭٭

 

 

 

مدّت کے بعد آج ملے ہیں تو آئیے

کچھ میرا حال پوچھیے، اپنی سنائیے

 

اک اجنبی خیال کو عنوان کیجیے

جو دل میں قید ہے اسے کاغذ پہ لائیے

 

اتنا سکوت ہے کہ الجھنے لگی ہے سانس

خاموشیوں کی جھیل میں پتھر گرائیے

 

تنہائیوں کی دھوپ نے جھلسا کے رکھ دیا

یادوں کے سائبان میں خود کو چھپائیے

 

پھر آسماں کے رخ پہ بکھرنے لگے ہیں رنگ

پردوں کی گرد جھاڑیے، کمرے سجائیے

٭٭٭

 

راہ سے نا آشنا بھی راہبر ہونے لگے

راستوں کے سنگ بھی اب ہمسفر ہونے لگے

 

کس قدر گمبھیر ہے تاریکیوں کا سلسلہ

چاندنی کے دائرے بھی مختصر ہونے لگے

 

گھر سے باہر شہر کی جلتی ہوئی سڑکوں پہ آ

ہم پہ جو بیتے ہے تجھ کو بھی خبر ہونے لگے

 

وقت کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں ذہن و دل

ہاں مگر ایسا نہ ہو، یوں ہی بسر ہونے لگے

 

نام کی تختی ہماری اور گھر ہے غیر کا

دوستو سنتے ہو اب ایسے بھی گھر ہونے لگے

٭٭٭

 

آنگن تمام نیم کے پتّوں سے بھر گیا

جھونکا ہوا کا پیڑ کو ویران کر گیا

 

چہرہ تھا کوئی جس نے پریشاں رکھا مجھے

لمحہ تھا کوئی جس کے لیے دربدر گیا

 

حدِ نگاہ تک یہ کڑی دھوپ اور آج

بادل کا سائباں بھی جانے کدھر گیا

 

یا لفظ لفظ بھولنا اس کا محال تھا

یا حرف حرف ذہن سے میرے اتر گیا

 

کس طرح سے کٹے گی سفر کی سیاہ رات

ثروت اسی خیال میں دن بھی گزر گیا

٭٭٭

 

 

 

 

میں کہ سورج کے شہر میں رہ کر

روشنی کے لیے ترستا ہوں

 

ہر طرف دھند، کہر، خامشی

کن فضاؤں میں سانس لیتا ہوں

 

سرد خاموشیوں کے جنگل میں

دل بھی دھڑکے تو چونک اٹھتا ہوں

 

ایک بے نام آگ ہے جس میں

دھیرے دھیرے سلگتا رہتا ہوں

 

جب بھی کچھ زخم بھرنے لگتے ہیں

تیری تصویر دیکھ لیتا ہوں

 

دوستو، اپنے گھر کے دھوکے میں

جانے کس گھر پہ آن پہنچا ہوں

٭٭٭

 

 

 

پھر دبے پاؤں کوئی گزرا ہے

وہم ہے یا ہوا کا جھونکا ہے

 

گھر سے نکلے تو یہ ہوا معلوم

گھر سے باہر بھی ایک دنیا ہے

 

دور بادل کے ایک ٹکڑے پر

سائباں کا گمان ہوتا ہے

 

کوئی پتّا گرے جو ٹہنی سے

شب کا سناٹا چیخ اٹھتا ہے

 

خامشی پر نہ جائیے ثروت

یہ بھی حالات کا تقاضا ہے

٭٭٭

 

بھیگی شاخوں پہ سو گیا ہے چاند

آج پتھر کا ہو گیا ہے چاند

 

چاندنی کی پھوار برسا کر

شب کا پیکر بھگو گیا ہے چاند

 

دشتِ ماضی میں چھوڑ کر مجھ کو

جانے کس سمت کو گیا ہے چاند

 

اے ستارو، ذرا تلاش کرو

کن اندھیروں میں کھو گیا ہے چاند

 

اب کسے نیند آئے گی ثروت

دل میں کانٹے چبھو گیا ہے چاند

٭٭٭

 

نیند کا سونا مری آنکھوں سے پگھلا دیر تک

میں گزشتہ رات بھی بے بات جاگا دیر تک

 

لکھ گیا ہے جانے کیا چہرے پہ لمحوں کا غبار

دیکھتا رہتا ہوں آئینے میں چہرہ دیر تک

 

اس گلی کے سارے گھر خاموش تھے، تاریک تھے

جانے کیوں روشن رہا تھا اک دریچہ دیر تک

 

چاپ ابھری اور پھر خاموشیوں میں کھو گئی

اک مدھر نغمہ مرے کانوں میں گونجا دیر تک

 

میں اکیلا تھا سڑک پر دور تک کوئی نہ تھا

وہ نہ جانے کون تھا، کس نے پکارا دیر تک

٭٭٭

 

شاخوں کے زرد ہات لپکتے ہی رہ گئے

پتوں کا تاج پل میں اڑا لے گئی ہوا

 

کل جس نے رکھ دیے گھنے جنگل اجاڑ کر

در آئی بستیوں میں وہی سر پھری ہوا

 

کچھ دور میرے ساتھ چلی تھی خبر نہیں

تھک کر کہاں پہ بیٹھ گئی آپ ہی ہوا

 

چہرے کے نقش درد کی تشہیر بن گئے

مجھ کو نہ راس آئی ترے شہر کی ہوا

 

آیا تھا ایک شخص مجھے پوچھتا ہوا

اک بات تھی ذرا سی مگر لے اڑی ہوا

٭٭٭

 

وہ گیا تو گھر اکیلا ہو گیا

دل بجھا تو شہر سونا ہو گیا

 

ہر نئے غم نے مجھے آواز دی

میں نے کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا

 

تیز تھا جھونکا نئے لمحات کا

بند یادوں کا دریچہ ہو گیا

 

اس کی باتوں پر تو سب خاموش تھے

میں نے لب کھولے تو چرچا ہو گیا

 

گھر سے باہر جانے کیا حالات ہیں

گھر سے نکلے ایک عرصہ ہو گیا

٭٭٭

 

 

روشن ہوں کسی کو کیا خبر ہے

سورج کی طرح دہک رہا ہوں

 

پھولوں کی طرح تھا نرم و نازک

کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہوں

 

خاموش ہیں کھڑکیوں کے پردے

سیلی ہوئی چھت کو تک رہا ہوں

 

محسوس تو کر رہا ہوں ثروت

کچھ کہتے ہوئے جھجک رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نہ جانے کون ہوں، کیسا ہوں، کیا ہوں

سوالوں میں الجھ کر رہ گیا ہوں

 

کچھ ایسے غم دیے ہیں دوستوں نے

خود اپنے سائے سے ڈرنے لگا ہوں

 

انھی کمروں کی رونق تھا مگر اب

میں اک سنّاٹا بن کر گونجتا ہوں

 

اکیلا پن، تھکن، ویران آنکھیں

جو بیتی ہے وہی کچھ لکھ رہا ہوں

 

ہر اک لمحہ نئی الجھن نیا غم

نہ جانے کس مرض میں مبتلا ہوں

 

میں اک اڑتا ہوا پتّا ہوں ثروت

کسی اندھے کنویں میں گر رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کھڑکی کھول کے یارو باہر دیکھ رہا ہوں

دھوپ کھلی ہے شہر کا منظر دیکھ رہا ہوں

 

آج نہ جانے کیسے رستہ بھول گیا ہے

بادل کا اک ٹکڑا چھت پر دیکھ رہا ہوں

 

جانے مجھ سے تنہائی میں کیا کہتی ہیں

لمحوں کی تحریریں پڑھ کر دیکھ رہا ہوں

 

دنیا سے تو روز ہی ملتا رہتا ہوں

آج میں اپنے آپ سے مل کر دیکھ رہا ہوں

 

بازاروں کی اس رونق میں شام ڈھلے

چہروں کا خاموش سمندر دیکھ رہا ہوں

 

آنگن میں سوکھے پتوں کا ڈھیر لگا ہے

ثروت تیز ہوا کے تیور دیکھ رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

کسی آہٹ پہ یارو چونکتا کیا؟

میں اک سائے کے پیچھے دوڑتا کیا؟

 

سڑک کا شور گھر میں آ گیا ہے

ہواؤں سے دریچہ کھل گیا کیا؟

 

مری آنکھیں کہاں تک ساتھ دیتیں

اندھیرا اس قدر تھا، سوجھتا کیا؟

 

میں خود اپنے لیے ہی اجنبی تھا

کسی کو شہر میں پہچانتا کیا؟

 

اندھیرا، آخری گھر تک اندھیرا

گلی کا لیمپ اندھا ہو گیا کیا؟

 

لکھی ہیں چہرہ چہرہ داستانیں

کسی کا حال یارو پوچھتا کیا؟

 

بھلا ان منجمد لہروں پہ ثروت

میں آوازوں کے پتھر پھینکتا کیا؟

٭٭٭

 

 

 

شہر میں اب  تو دور تلک سنّاٹا ہے

سڑکوں سے اک شور اٹھا تھا ڈوب گیا

 

دروازے پر آہٹ سی محسوس ہوئی

کمرے میں اک سایہ ابھرا ڈوب گیا

 

ماچس کی اک تیلی نے سگرٹ سلگایا

پل بھر کو اک شعلہ بھڑکا، ڈوب گیا

 

آنکھوں میں بے خوابی کا طوفان اٹھا

ان دیکھے خوابوں کا جزیرہ ڈوب گیا

 

سُونا گھاٹ تکا کرتا ہے لہروں کو

کشتی کھینے والا لڑکا ڈوب گیا

٭٭٭

 

 

 

 

آج کھڑکی سے جو باہر دیکھا

اپنے سائے کو سڑک پر دیکھا

 

خامشی چھائی تھی گلیوں گلیوں

اور کہرام سا گھر گھر دیکھا

 

یوں تو ہر شخص کو مخلص پایا

ویسے ہر ہات میں پتھر دیکھا

 

کون رکتا ہے کسی کی خاطر

کس نے رستے میں پلٹ کر دیکھا

 

ایک اڑتے ہوئے پتّے کی طرح

خود کو لمحات کی زد پر دیکھا

 

ہم نے جس آنکھ میں جھانکا ثروت

ایک خوابوں کا سمندر دیکھا

٭٭٭

 

 

 

سنتے ہیں زندگی تھی کبھی شوخ و شنگ بھی

اب ایک واہمہ ہے یہاں روپ رنگ بھی

 

خود کو ذرا بچا کے نکلیے کہ اِن دنوں

پھولوں کے ساتھ ساتھ برستے ہیں سنگ بھی

 

یارو چلے ہو جلتی ہوئی دھوپ میں کہاں

دیکھو جھلس گیا ہے کواڑوں کا رنگ بھی

 

چھت ٹین کی تھی، ٹوٹ کے برسی جو کل گھٹا

بارش کے ساتھ ساتھ بجے جلترنگ بھی

 

ہم تازہ واردانِ غزل سے نہ کچھ کہو

آ جائے گا غزل کو برتنے کا ڈھنگ بھی

٭٭٭

 

 

 

 

ہوا کے دوش پہ ٹھہرا ہوا مکان گرا

پہاڑ ٹوٹ کے خوابوں کا مجھ پہ آن گرا

 

بہت اٹھائے تھے سورج کے ناز، لیکن آج

جو سانس لینے کو ٹھہرے تو سائبان گرا

 

سکوتِ شام کو موجِ ہوا نے توڑ دیا

کھلے کواڑ تو کھڑکی سے پھول دان گرا

 

قریب کوئی جزیرہ ہو، کچھ عجب تو نہیں

ٹھہر بھی جا، نہ ابھی سے یہ بادبان گرا

 

بہا کے لے گئی جانے کہاں ندی اس کو

وہ ایک پات جو لہروں کے درمیان گرا

 

کبھی اٹھیں جو یہاں زرد آندھیاں ثروت

گماں ہوا کہ ابھی سر پہ آسمان گرا

٭٭٭

 

 

 

 

کیا جانیے کون ہمسفر تھا

سایہ بھی وہاں بھنور بھنور تھا

 

تا حدِّ نگاہ رہگذر میں

پھیلا ہوا دھوپ کا نگر تھا

 

سڑکوں سے پرے کھلی فضا میں

سنتے ہیں کبھی ہمارا گھر تھا

 

اب شہر میں آ کے سوچتے ہیں

صحرا میں سکون کس قدر تھا

 

یادوں کی کتاب ہات میں تھی

سوکھا ہوا پھول میز پر تھا

 

آواز تھکی تھکی نہیں تھی

رو مال بھی آنسوؤں سے تر تھا

 

کل رات ہوا کا شور سن کر

سہما ہوا جسم کا شجر تھا

 

اب خود سے بھی خوف آ رہا ہے

میں اپنے تئیں بہت نڈر تھا

 

گزری ہوئی رُت خیال میں تھی

بکھرے ہوئے خواب کا اثر تھا

 

راتوں کا طویل درد ثروت

لکھا تو بہت ہی مختصر تھا

٭٭٭

 

 

چلے تھے گھر سے کہ شاید وہ رہگزر آئے

جہاں سکون کی صورت کوئی نظر آئے

 

گھٹا برس بھی گئی اور پیاس بجھ نہ سکی

چلو بہت ہے یہی زخم کچھ نکھر آئے

 

بکھر گیا کوئی احساس تو سمٹ نہ سکا

جو خواب روٹھ گئے پھر نہ لوٹ کر آئے

 

کھلی چھتوں پہ جو سائے چھپے رہے دن بھر

بجھی جو شام تو دہلیز پر اتر آئے

 

ہوا چلی تو خیالوں کے ان گنت چہرے

مرے وجود کی تنہائیوں میں در آئے

 

جو نقش گھلنے لگے رات کی سیاہی میں

تھکن سمیٹے ہوئے لوگ اپنے گھر آئے

 

عذاب اپنے ہی کچھ ایسے نہ تھے ثروت

گناہ گزرے ہوؤں کے بھی اپنے سر آئے

٭٭٭

 

 

 

 

بدن کا بوجھ لیے، روح کا عذاب لیے

کدھر کو جاؤں طبیعت کا اضطراب لیے

 

جلا ہی دے نہ مجھے یہ جنم جنم کی پیاس

ہر ایک راہ کھڑی ہے یہاں سراب لیے

 

یہی امید کہ شاید ہو کوئی چشم براہ

چراغ دل میں لیے، ہات میں گلاب لیے

 

عجب نہیں کہ مری طرح یہ اکیلی رات

کسی کو ڈھونڈنے نکلی ہو ماہتاب لیے

 

سوا ہے شب کے اندھیروں میں دن کی تاریکی

گئے وہ دن جو نکلتے تھے آفتاب لیے

 

کسی کے شہر میں مانندِ برگِ آوارہ

پھرے ہیں کوچہ بہ کوچہ ہم اپنے خواب لیے

 

کہاں چلے ہو خیالوں کے شہر میں ثروت

گئے دنوں کی شکستہ سی یہ کتاب لیے

٭٭٭

 

 

 

پکارتا ہے در و بام سے کسی کا لہو

خراج لے نہ کہیں ہم سے زندگی کا لہو

 

اسی امید پہ آنکھوں میں رات کاٹی ہے

کہ رائے گاں نہیں جاتا کبھی کسی کا لہو

 

ثبوت مہر و درخشاں ہے آج بھی یارو

شبِ فسردہ کی آنکھوں میں چاندنی کا لہو

 

نوید جشن چراغاں ہر اک چراغ کی لو

نمودِ فصلِ بہاراں، ہر اک کلی کا لہو

 

خلوص نہ مہر و وفا کی ہو کس طرح تجدید

کہ دامنوں پر نمایاں ہے دوستی کا لہو

٭٭٭

 

ریزہ ریزہ

 

 

یہ آئنے میں جو چہرہ دکھائی دیتا ہے

نہ جانے کون ہے مجھ سا دکھائی دیتا ہے

جھلستی ریت سے کچھ دور ابر کا ٹکڑا

ہرے درختوں کے ملبوس کو بھگوتا رہا

نہ کوئی چاپ ہی ابھری، نہ کوئی در ہی کھلا

ہوا الجھتی رہی شہر کے مکانوں سے

اس سے پہلے تمھیں نہیں دیکھا

اتنا افسردہ، اس قدر خاموش

کیا دھوپ سے گلہ کہ اب ہم

سائے میں جھلس جھلس گئے ہیں

آئے تھے کبھی جو گھِر کے بادل

کیا جانیے کہاں برس گئے ہیں

مرے قریب اگر بولیے تو آہستہ

تصوّرات کے آئینے ٹوٹ جاتے ہیں

پھر آج تیز ہوا نے بجھا دیے ہیں چراغ

پھر آج حدِ نظر تک دھواں سا پھیلا ہے

نگر نگر تیری یادوں کی باس پھیلی ہے

گلی گلی مری تنہائیوں کا چرچا ہے

دیکھا تو بے کراں تھے یارو

سوچا تو سمٹ گئے اندھیرے

٭٭٭

 

 

 

!

 

میں صدیوں سے اس سوچ میں مبتلا ہوں

کہ جانے کہاں آ گیا ہوں

جہاں ہر گھڑی

سر پہ جلتی ہوئی دھوپ کی تیز یاں ہیں

جہاں ہر طرف

سرد سمٹی ہوئی خامشی ہے

———گھٹن ہے

 

جہاں زندگی

سردیوں کی گھنیری سیہ رات ہے

جس کی یخ بستگی

سب کے جذبات پر چھا گئی ہے

جس کی بے منظری سے ہر اک آنکھ پتھرا گئی ہے

جہاں چاندنی

مِل کی چمنی سے نکلے دھوئیں کی طرح

سانس پر بوجھ ہے

اور میں اب تلک

بس اسی سوچ میں مبتلا ہوں

کہ جانے کہاں آ گیا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

کھڑکیاں کھول دو

 

 

کھڑکیاں کھول دو

بند کمرے میں تازہ ہوا آئے گی

سوچ کی برف پگھلے

نئے دن کا سورج نئی گرمیاں لے کے آئے

خیالات کی نیند ٹوٹے

کوئی گیت ابھرے، گھٹن دور ہو

گھر کی سب کھڑکیاں کھول دو——

٭٭٭

 

 

 

 

تلاش

 

 

جیسے بے کل ہَوا

شہر در شہر، صحرا بہ صحرا پھرے

جانے کیا ڈھونڈتی—

شہر کے لوگ بھی، اس ہوا کی طرح

تنگ گلیوں میں، سڑکوں پہ

بازار میں

جانے کیا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ؟

٭٭٭

 

 

 

سورج کی راکھ

 

دن بجھا

زرد اینٹوں کی دیوار پر

شام لمحہ بہ لمحہ اترنے لگی

اونگھتی کھڑکیوں سے پرے

اک طرف

لیمپ کی ملگجی روشنی

تھرتھرانے لگی

اور پھر، دیکھتے دیکھتے

سائے ابھرے، ہیولے بکھرنے لگے

زرد اینٹوں کی دیوار پر

رقص کرنے لگے

٭٭٭

 

 

چاپ

 

 

دن گزر گیا یارو!

سو گئے ہیں ہنگامے

رات کی پناہوں میں

وقت پا بجولاں ہے

نیم وا دریچوں سے

جھانکتی ہے تاریکی

اونگھتی ہوئی سڑکیں

روشنی گریزاں ہے

سلسلہ خیالوں کا

ٹوٹنے نہیں پاتا

ذہن کی نگاہوں میں

سوچ کا بیاباں ہے

جاگتا تو ہوں لیکن

خواب بُن رہا ہوں میں

آنے والے لمحوں کی

چاپ سن رہا ہوں میں

رات کی پناہوں میں

وقت پا بجولاں ہے

٭٭٭

ماخذ:

http://adbiduniya.com

ستدوین اور  ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید