FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

یہ وصال و ہجر کا گھر

 

 

 

کلیات کا ایک حصہ

 

                   ثروت حسین

 

پیشکش: تصنیف حیدر

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ثروت حسین کے کلیات کی یہ چوتھی اور آخری پوسٹ اپلوڈ کی جا رہی ہے، اس میں ثروت حسین کا غیر مطبوعہ کلام، گوشہ عقیدت اور کالج کے ایام میں ان کی گئی شاعری پر مشتمل ایک مختصر سا مجموعہ نئے دن کا سورج شامل ہیں۔1؀ ثروت حسین کی شاعری اب انٹرنیٹ پر یونی کوڈ میں موجود ہے۔ ادبی دنیا نے کوشش کی ہے کہ ایسا معیاری ادب جو کہ بے حد اہم ہو اور جسے لوگ پڑھنا، جاننا چاہتے ہوں اور کتاب کی صورت میں انہیں میسر نہ آپارہا ہو، اس طور مل جائے۔ بہت سے افراد پی ڈی ایف کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن جب یہ سارا کلام یونی کوڈ میں موجود ہے تو اسے کاپی کر کے کیا بہت آسانی سے ورڈ یا پی ڈی ایف کی شکل میں سیو نہیں کیا جا سکتا؟ مگر کچھ لوگ کاپی، پیسٹ کرنے اور فائل کو پی ڈی ایف میں کنورٹ کرنے جیسی معمولی مشقت سے بھی بچنا چاہتے ہیں۔ خیر ثروت حسین کا کلام آپ پڑھیں اور ہمیں اپنی رائے سے نوازیں۔ ایک بار پھر واضح کرنا ضروری ہے کہ اگر آپ یہ اہم کلام کتاب کی صورت میں حاصل کرنے چاہتے ہوں تو کلیات ثروت حسین آج پبلیشنز کی جانب سے شائع کر دی گئی ہے اور آپ اس سلسلے میں اجمل کمال سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

بے حد شکریہ

 

1۔ نئے دن کا سورج ایک الگ ای بک کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔ ا ع

 

 

 

 

 

 

پھول، پرندے، چراغ اور شجر رقص میں

تو ہے اُدھر رقص میں، میں ہوں اِدھر رقص میں

 

ناچ رہی ہے زمیں، جھوم رہا ہے فلک

طائرِ نغمہ سرا، دیر نہ کر رقص میں

 

اور ہی منظر ہے اب، ایک سمندر ہے اب

ٹوٹ گئی ساعتِ علم و خبر رقص میں

 

اسم نہیں ہے مرا، جسم نہیں ہے مرا

روح کے چو گرد ہے ایک بھنور رقص میں

٭٭٭

 

 

 

اللہ کی زمیں پر موسم کمال آیا

کچھ پھول آئینے پر میں بھی اُچھال آیا

 

چمکا تھا ایک تارا بادل کی آستیں پر

شامِ مسافرت میں اس کا خیال آیا

 

حدِ نظر تلک تھیں جلتی ہوئی دِشائیں

پت جھڑ کی سلطنت میں خوابِ ملال آیا

 

ثروت گزر رہے ہو آشوب و ابتلا سے

کس کو ملی بلندی، کس کو زوال آیا

(13جون 1987، عصر)

٭٭٭

 

 

مجھے تو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے

زمیں اپنے خزانے اُچھال دیتی ہے

 

سنو کہ برف پگھلنے کی صبح آ پہنچی

خبر شمال کی بادِ شمال دیتی ہے

 

بہار اَب بھی گزرتی ہے اس چمن سے، مگر

ہمیں تو وعدۂ فردا پہ ٹال دیتی ہے

 

وہ اِک نگہ جو بظاہر نِگاہ سے کم ہے

نگار خانۂ ہستی اُجال دیتی ہے

(13جون 1987، مغرب)

٭٭٭

 

 

خاک سے چشمۂ صد رنگ اُبلتے دیکھا

میں نے اُس شوخ کو پوشاک بدلتے دیکھا

 

آتشِ رنگ سے دہکی ہوئی شہزادی کو

ہاتھ میں پھول لیے نیند میں چلتے دیکھا

 

آگ ہی آگ ہے سیارے پہ لیکن ہم نے

شاخِ زیتون، تجھے پھولتے پھلتے دیکھا

 

تھی موذن کی ندا، نیند سے بہتر ہے نماز

میں نے پتھر کو مناجات میں ڈھلتے دیکھا

 

جانیے، کون سی مٹی سے بنے ہیں ثروت

ہم نے عشاق کو دریاؤں پہ چلتے دیکھا

(13 جون 1987، فجر)

٭٭٭

 

دل انگیزیِ مہر و ماہ نہیں جاتی

کس کس آئینے پہ نگاہ نہیں جاتی

 

آؤ اندھیرے جمع کریں کہ اس درگاہ

روشنیوں والی کوئی راہ نہیں جاتی

 

کیسی حضوری ہے کہ اُن پرچھائیوں تک

ہو آتا ہے جسم، نگاہ نہیں جاتی

 

سیرِ دشت کا منظر خوب سہی لیکن

ذہن سے یادِ شہر پناہ نہیں جاتی

 

پھول پھول سرگوشیاں کرتی تنہائی

سنگ سرشتوں کے ہمراہ نہیں جاتی

٭٭٭

 

 

 

بدی کی بارش عجیب ہی برگ و بار لائی

نشیبِ خود آگہی کی جانب پکار لائی

 

فرشتہ ہونے میں دیر تھی کہ گُناہ کی شب

زمیں کی آبادیوں میں مجھ کو اتار لائی

 

اب اس سے آگے سیاہیوں میں سفر رہے گا

یہاں تلک تو رفاقتِ رہ گزار لائی

 

عجب کشش تھی کہ دل گرفتہ سپاہیوں کو

شکار گہ میں قطار اندر قطار لائی

٭٭٭

 

 

 

 

تو اے اسیرِ مکاں، لامکاں سے دور نہیں (اقبال)

 

نشیبِ حلقۂ صحنِ مکاں سے دور نہیں

کہیں بھی ہو وہ ستارہ یہاں سے دور نہیں

 

حدِ سپہر و بیاباں پہ جاگتی ہوئی لو

جو ہم سے دور ہے، آئندگاں سے دور نہیں

 

گزرنے والی ہے گلیوں سے بادِ برگ آثار

کہ اب وہ صبح مری داستاں سے دور نہیں

 

اُسی کے حرفِ نگفتہ سے گونجتے در و بام

جو دور رہ کے بھی پہنائے جاں سے دور نہیں

 

سحاب و سبزۂ نم ناک سے گزرتی ہوئی

یہ شام چشمۂ ریگِ رواں سے دور نہیں

 

میں اپنے حُجرۂ تاریک تر میں رہ کر بھی

سرشتِ حلقۂ آوارگاں سے دور نہیں

 

مگر وہ شاخِ تہی رنگ و بستۂ دیوار

جو گلستاں سے الگ ہے خزاں سے دور نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

آدمی کو رہ دکھانے کے یے موجود ہیں

کچھ ستارے جگمگانے کے لیے موجود ہیں

 

ابر، دیواریں، سمندر اور نادیدہ افق

رہرووں کو آزمانے کے لیے موجود ہیں

 

کیوں گرفتہ دل نظر آتی ہے اے شامِ فراق

ہم جو تیرے ناز اُٹھانے کے لیے موجود ہیں

 

دیکھتا رہتا ہوں اشیائے تصرف کی طرف

یہ کھلونے ٹوٹ جانے کے لیے موجود ہیں

 

پیشِ پا افتادہ قریے، سربرآوردہ شجر

سو بہانے دل لگانے کے لیے موجود ہیں

 

کون کر سکتا ہے ایسے میں کسی دریا کا رُخ

جب وہ آنکھیں ڈوب جانے کے لیے موجود ہیں

 

میں درختوں سے مخاطب ہوں خدائے عز و جل

جو زمیں پر سر اُٹھانے کے لیے موجود ہیں

(18 فروری 1990، فجر)

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مانا کہ گہر نہ ہم نے پائے

پاتال، تری خبر تو لائے

 

ایسا بھی نہیں کہ ریگِ ساحل

آنکھیں مری راہ میں بچھائے

 

شاخوں پہ دوبارہ آ گئے پھول

ساتھی جو گئے تو پھر نہ آئے

 

راتیں اٹھا لائیں بیکرانہ

عرصہ گہہِ خواب کے بجائے

 

آئینہ چراغ سے ہم آغوش

سورج دبے پاؤں لوٹ جائے

 

دن چڑھ بھی چکا ہے میرے مہماں

کیسے تجھے میزباں جگائے

٭٭٭

 

 

 

 

گھر ہے تو کسی کو سونپتا جاؤں

جاتے ہوئے آگ کیوں لگا جاؤں

 

دیواروں کو ڈھال تھے مرے ہاتھ

جنگل ہے تو راستہ بنا جاؤں

 

بانہیں وہ شجر کہ روک لیں راہ

آنکھیں وہ بھنور کہ ڈوبتا جاؤں

 

نشّہ ہو کسی کی قربتوں کا

ایسا بھی نہیں کہ جو چھپا جاؤں

 

جاتا ہوں خزاں کی سلطنت کو

تصویرِ بہار کھینچتا جاؤں

٭٭٭

 

 

 

 

(محمدسلیم الرحمٰن کے لیے )

 

 

لرزاں اسی آئینے میں سب ہیں

میں ہوں مرے جاگنے میں سب ہیں

 

کہتا ہے یہی گزرنے والا

اک میرے سوا مزے میں سب ہیں

 

یکجا کیا دہشتوں نے آخر

وہ دن ہے کہ معرکے میں سب ہیں

 

اے زائرِ صبح کچھ توقف!

اس پل تو مراقبے میں سب ہیں

 

ثروت یہ وصال و ہجر کا گھر

رقصاں اسی دائرے میں سب ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

بیت

 

میں جاؤں جس اور، کارونجھر کی کور

بادل ہے منھ زور، کس تٹ برسے دیکھنا

 

کارونجھر کی کور، ایک خموش تلاؤ

ایک خموش تلاؤ، اوپر جوڑی ہنس کی

 

اُوپر جوڑی ہنس کی، نیچے میں اور آسماں

نیچے میں اور آسماں، بیچ میں ایک لکیر

 

بیچ میں ایک لکیر، سندھو ندی سمان

سندھو ندی سمان، بھاگی مائی کا گیت

 

بھاگی مائی کا گیت، تھر مٹّی کی بھور

تھر مٹّی کی بھور، اور اک زخمی مور

(26مئی 1987، عشاء)

٭٭٭

 

 

 

 

پنج آب

 

 

اے رِدائے آسمانی

میرے دل میں گونجتا ہے

پانچ دریاؤں کا پانی

(15جون 1987، فجر)

٭٭٭

 

 

 

کافی

 

الف اگر بتّی سلگائی

ب کی خبر نہ کائی

تختی کیوں دیتا ہے بھائی

ب کی خبر نہ کائی

چھاج پھٹکتی گرم کلائی

ب کی خبر نہ کائی

بَن وِچ کونج کوئی کُرلائی

ب کی خبر نہ لائی

اندر شاخ شگوفے لائی

ب کی خبر نہ کائی

(13جون 1987، عشاء)

٭٭٭

 

 

زمیں کی انتظار گاہ میں۔ ۔ .۔

 

 

زمیں کی انتظار گاہ میں دراز قامتوں کی پیشگوئیوں نے، قطع کلامی کے دانت بہت تیز ہیں، حروف کی سیاہی سوکھنے سے قبل ہی غذائیں کم یاب، فتوحات کی تہوں سے گزرتی خودکار سیڑھیوں پہ سنی گئی خیر مقدمی دھُنوں کی بازگشت، کوئی پیڑ، کسی آدمی کے پیر کا نشاں، مضافاتی بستیوں میں بارودی سرنگوں کے بچھائے ہوئے جال، سوگوارساحلوں کے الوداعی آثار، حافظے میں شام کے ستارے کا گُمان، کہیں کہیں شاعروں کی خود کلامی کے تیرتے گلاب، لہجوں کی دُرشتگی کے درمیان۔ ۔ . تجارتی ہوائیں لیے جا رہی ہیں آسمان

(جولائی 1977 کی آٹھویں صبح)

٭٭٭

 

 

 

 

ایک نظم

 

 

بتدریج مٹی کی چیزوں پہ گرتی ہوئی ریت کی تازہ کاری، فراموش گاری کی ٹھنڈی ہواؤں میں آنکھیں بہت دور تک دیکھ سکتی نہیں، پیر کے نرم تلووں کے نیچے کسی خشک ندی کا چٹخا ہوا جال، پاتال کی سب کہانی، مگر پیش رو بادلوں تک پہنچنے کی امید میں تیز چلنا ہی ہو گا، مجھے تیز چلنا ہی ہو گا، سیاہی میں تبدیل ہوتی ہوئی آبناؤں، خلیجوں کے پیچاک، نمناک شاموں کی حد پر بھڑکتی ہوئی لالٹینوں کے گھر میں لب بستہ پرچھائیں کودفن کرتے ہوئے ہات، آنکھیں چراغوں سی مدھم۔ ۔ .لگاتار اندھیاؤ، پت جھڑ، ہلاکت زدہ بستیوں میں اکیلی سواری، بتدریج مٹی کی چیزوں پہ گرتی ہوئی ریت کی تازہ کاری۔ ۔

(جولائی 1977 کی سولہویں صبح)

٭٭٭

 

 

 

 

ایک فاتح کا گیت

 

 

سنو آہن گر

مجھے حیرانی سے مت دیکھو!

اک کام تمھارے ذمّے ہے

انہی کالے کُند ذخیروں سے

تلواروں، زرہوں، زنجیروں سے

اور زہر بجھے ان تیروں سے

کچھ چیزیں تم کو ڈھالنی ہیں

 

اک لکڑی کاٹنے کی آری

دو گھنٹیاں اور اک ہل کی اَنی

خمدار درانتی کی جوڑی

گلدان منقش اور سادہ

اور ایک کٹورا پانی کا

سنو آہن گر

مجھے حیرانی سے مت دیکھو

(جولائی 1977 کی اٹھارویں صبح)

٭٭٭

 

 

 

 

                   گوشۂ عقیدت

 

نعت، سلام

 

 

آنکھ روشن تھی، دل معطر تھا

لمحۂ مدحتِ پیمبرؐ تھا

 

آدمی اس بہار سے پہلے

خشت اور خاک کے برابر تھا

 

ذہن و دل تھے مگر غبار آلود

آئینہ تھا مگر مکدر تھا

 

اور پھر آمدِ محمدؐ سے

حلقۂ آب و گل معطر تھا

 

صبح تھی اور خوشبوئے فاراں

شام تھی اور چراغِ منبر تھا

 

خاک اندازِ سطوتِ کسریٰ

پارہ پارہ شکوہِ قیصر تھا

 

اک اُسی در سے ہم کو نسبت تھی

اک وہی نام ہم کو ازبر تھا

٭٭٭

 

 

 

 

کون اس بھید کو پا سکتا ہے

کوئی کہاں تک جا سکتا ہے

 

کب وہ یاد سمٹ سکتی ہے

کب وہ نشاں دھندلا سکتا ہے

 

صدیاں حیرانی میں گم ہیں

کون وہ نام بھُلا سکتا ہے

 

شامِ ابد کا ایک ستارہ

کتنے چراغ جلا سکتا ہے

 

اک انسان اسی دنیا کا

کتنی فصیلیں ڈھا سکتا ہے

 

بپھرے ساگر کی لہروں کو

زنجیریں پہنا سکتا ہے

 

خار و خس و خاشاک دلوں کے

شعلہ بن کے جلا سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

رُتوں کی بجتی گھنٹیاں

صدیوں کی گردان

 

آتے جاتے قافلے

تپتا ریگستان

 

اوجھل سارے راستے

بوجھل پیر، جوان

 

لیکن اس اندھیر میں

ایک وہ نخلستان

 

جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں

سب کو ملے امان

٭٭٭

 

مدحتِ ساقیِ کوثر لکھوں

سوچتا ہوں بھلا کیونکر لکھوں

 

سارے عالم کو جزیرہ ٹھہراؤں

ایک انساں کو سمندر لکھوں

 

کیوں نہ اس مشعلِ شب تاب کو میں

فکر و احساس کا محور لکھوں

 

منبعِ مہر و صداقت جانوں

نکہت و نور کا پیکر لکھوں

 

مختصر یہ کہ میں ان کو ثروت

نوعِ انساں کا مقدر لکھوں

٭٭٭

 

 

پرشکستہ جان طیبہ پر نظر کیسے کرے

یہ کبوتر گنبدِ خضرا میں گھر کیسے کرے

 

دن گزرتے جا رہے ہیں دیدِ طیبہ کے بغیر

عمر کے یہ ثانیے ثروت بسر کیسے کرے

دل مگر اپنی تمنا مختصر کیسے کرے

٭٭٭

ماخذ:

http://adbiduniya.com

ستدوین اور  ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید