FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

    موانعِ ہدایت

 

(ہدایت سے روکنے والے اُمور)

 

                    تحریر:: عبدالرحمن بن یحییٰ

                    ترجمہ :: عطاء الرحمن ضیاء اللہ

 

 

 

 

 

[table=”table”]1 | معرفت کی کمزوری (علم کی کمی )

2 | عدم اہلیت :(نا اہلی)

3 | کبر و حسد :

4 | ریاست اور سرداری :

5 | شہوت اور مال :

6 | اہل و اقارب اور رشتہ داروں کی محبت :

7 | گھر اور وطن کی محبت

8 | (آباؤ و اجداد پر طعنہ زنی کاخود )

9 | کسی دشمن کا حق کی تابعداری کر لینا یا اسلام لے آنا یا اسلام لانے میں پہل کر جانا

10 | الفت ، عادت و منشا اور رسم و رواج

 

 

 

 

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ، وبعد:

 

جب بندہ پر نعمت کی تکمیل ہدایت اور رحمت کے ذریعہ انجام پذیر ہوئی ، اور ان کے دو منافی امور یعنی ضلالت اور غضب ٹھہرے ، تو اللہ سبحانہ نے ہمیں حکم دیا کہ شب و روز کئی بار ہم اس سے یہ سوال کریں کہ وہ ہمیں ان لوگوں کے راستہ کی ہدایت عطا فرمائے جن پر اس کا انعام و اکرام ہوا ، اور وہی لوگ صاحب ہدایت و رحمت ہیں ، اور ہمیں ان لوگوں کے راستے سے دور رکھیے جن پر غضب نازل ہوا ، اور وہ ان لوگوں کے برعکس ہیں جن پر اللہ کی رحمت برستی ہے ، اور گمراہ لوگوں کے راستے سے بھی (دور رکھے ) جو کہ ہدایت یافتہ لوگوں کے برخلاف ہیں ، لہذا یہ دعا جامع ترین ، افضل اور واجب ترین دعاؤں میں سے ہے۔

اسی بناء پر بندی کو اس بات کی اشد حاجت بلکہ ضرورت ہے کہ وہ ہر روز سترہ مرتبہ بطور فرض اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم کی ہدایت کے لئے سوال کرے ، لیکن کبھی کبھار دعا کرنے والے کے نفس میں دعا کی کمزوری کی وجہ سے وہ شرف قبولیت سے باریاب نہیں ہوتی ہے ، کیونکہ نبی یہ حدیث وارد ہے کہ ؛(اللہ تعالیٰ کسی کاہل اور غافل رہنے والے کی دعا قبول نہیں کرتا))۔ چنانچہ دوران دعا دل کی غفلت کی دعا کی قوت (تاثیر ) کو کمزور کر دیتی ہے۔ بہت سے لوگ کہتے رہتے ہیں کہ : کثرت دعا اور یکسوئی کے باوجود ہمیں ہدایت کی کمزوری کی شکایت کیوں ہے ؟

مجھے ہدایت کی رغبت و خواہش کی ہے لیکن میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا ، آخیراس کا سبب کیا ہے ؟

یہ ہے مسئلہ کی صورتحال ، تو اس کے اسباب اور نتائج کیا ہیں ؟ اور اس کا علاج کیا ہے ؟!

بلاشبہ موانعِ ہدایت (ہدایت سے روکنے والے امور )بہت ہیں جو کہ کبھی کبھار یکباری سب کے سب کسی ایک شخص کے اندر جمع ہو جاتے ہیں ، اور کبھی کبھی کچھ موانع نہیں پائے جاتے ہیں ، اور کبھی تو بندہ اور اس کی ہدایت کے درمیان صرف ایک مانع حائل ہوتا ہے۔

بہرکیف یہاں ہم دس موانع کا ذکر کر رہے ہیں۔

 

                1-معرفت کی کمزوری (علم کی کمی )

 

ہدایت کے موانع (روکنے والی چیزوں ) میں سے ایک مانع معرفت کی کمزوری ہے ، کیونکہ بندے کا کمال دو چیزوں میں ہے : باطل سے حق کی معرفت (حق و تمیز اور پہچان ) اور باطل پر حق کو ترجیح دینا۔ اس لئے کہ بعض لوگ حق کی معرفت تو رکھتے ہیں لیکن حق کو باطل پر ترجیح دینے کا داعیہ ان کے اندر کمزور ہوتا ہے اور جاہل کو جب (حق کی ) معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو وہ تابعداری اور اتباع کے قریب ہو جاتا ہے ، اور اس طرح وہ حق کی طرف پہنچنے کا آدھا راستہ طے کر لیتا ہے اور اس کے لئے صرف رشد و ہدایت پر قوت و عزیمت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔

اللہم إنی أسلك العزیمۃ علی الرشد(أحمد)

اے اللہ ! میں تجھ سے رشد و ہدایت پر عزیمت کا سوال کرتا ہوں۔

وَكَیفَ تَصْبِرُ عَلَی مَا لَمْ تُحِطْ بِہِ خُبْرًا (68- سورۃ الكہف)

” اور جس چیز کو آپ نے اپنے علم میں نہ لیا ہو اس چیز پر صبر بھی کیسے کر سکتے ہیں ”

یہی وہ سبب ہے جو بہت سے کفار اور ان کے قبول اسلام کے درمیان حائل بن گیا ، کیونکہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں اور اس کے باوجود اسے ناپسند کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ عربی کا مقولہ ہے کہ : لوگ جس سے ناواقف ہوتے ہیں اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔

افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمان اس دین کی حقیقت سے نابلد ہیں۔ چنانچہ بعض (مسلمان ) لوگ کہتے ہیں کہ :” جب میں نے توبہ کر لیا اور اللہ کی طرف سے انابت اختیار کر لی اور نیک عمل کرنے لگا تو میری روزی تنگ ہو گئی اور معیشت مکدر ہو گئی۔ اور جب میں معصیت کی طرف پلٹ گیا اور اپنے نفس کو اس کی خواہشات کے پیچھے لگا دیا تو میرے پاس روزی اور مدد دوبارہ آ گئی ، اور اسی طرح کی دیگر باتیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگ محض اپنے پیٹ اور خواہش نفس کے لئے اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ جب اس طرح کی صورتحال پیش آتی ہے تو اللہ بندہ کے صدق و صفا اور اس کے صبر کی آزمائش کرتا ہے۔ پس لا الہ الا اللہ ! کتنے جاہل عبادت گزار ، بے بصیرت ، دین پرست اور علم کی طرف انتساب رکھنے والے جنہیں دین کے حقائق کا کچھ پتہ نہیں ، اسی دھوکہ خوری میں فاسد اور برباد ہو گئے۔

کیا آپ نے اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں پڑھا :

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یعْبُدُ اللَّہَ عَلَی حَرْفٍ (الحج :11)

” بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر(کھڑے ) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔”

پس سبحان اللہ ! اس فتنہ نے کتنے ہی لوگوں کو اس دین کی حقیقت کی انجام دہی سے باز رکھا ، اور اس کا سبب دین سے ناواقفیت اور اس نعمت کی حقیقت سے نادانی ہے جس کے لئے کوشاں ہے اور جس تک پہنچنے کے لئے وہ سعی و عمل کر رہا ہے ، ورنہ آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیاوی نعمتوں کی کیا نسبت ہے ؟ البتہ جہاں تک اوامر و نواہی کا تعلق ہے تو یہ رحمت اور بچاؤ ہیں ، اور اللہ تعالی نے دنیا کو مومنوں کے لئے بے کیف و سروربنادیا ہے تاکہ وہ دنیا کی طرف مائل نہ ہوں اور اسی پر مطمئن نہ ہو جائیں بلکہ آخرت کی نعمتوں کی رغبت و خواہش کریں۔

 

                2- عدم اہلیت

 

موانع ہدایت میں سے عدم اہلیت (نااہلی ) بھی ہے ؛ کیونکہ کبھی کبھار (آدمی کو) دین کی مکمل معرفت حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے اندر (حق کو قبول کرنے کی ) اہلیت اور قابلیت ناپید ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

     وَلَوْ عَلِمَ اللَّہُ فِیہِمْ خَیرًا لَأَسْمَعَہُمْ وَلَوْ أَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَہُمْ مُعْرِضُونَ (23- الأنفال)

” اگر اللہ تعالی ان میں کوئی خوبی دیکھتا تو ان کو سننے کی توفیق دے دیتا اور اگر ان ان کو سنادے تو ضرور روگردانی کریں گئے بے رخی برتتے ہوئے۔”

ان کی مثال اس سخت زمین کی طرح ہے جو پانی سے سیراب ہوتی ہے لیکن وہ اپنی نا اہلیت کی بنا پر پودوں کو اگانے کے قابل نہیں رہتی ہے ، لہذا جب دل سخت و سنگ ہو جاتا ہے تو وہ نصیحت قبول نہیں کرتا ہے ، اور اللہ تعالی سے بعید ترین دل وہ ہے جو پتھر کی طرح سخت ہو۔ اسی طرح اگر دل بیمار ہو ، اس کے اندر نہ قوت ہو نہ عزیمت ، تو اس میں علم اثر انداز نہیں ہوتا ہے۔ ان کی صفات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا ہے :

وَإِذَا ذُكِرَ اللَّہُ وَحْدَہُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِینَ لَا یؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِینَ مِنْ دُونِہِ إِذَا ہُمْ یسْتَبْشِرُونَ (45- الزمر)

”اور جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا(اور) کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل خوش ہو جاتے ہیں۔”

 

                3- کبر و حسد

 

موانع ہدایت میں سے کبر وحسد بھی ہے۔ آپ نے کبر کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے : ((حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر و کمتر سمجھنا )) اور اس کی ضد تواضع اور خاکساری ہے یعنی حق کو قبول کرنا خواہ وہ کسی کے بھی ساتھ ہو اور نرم خوئی اختیار کرنا ، اور متکبر شخص اپنے قول و فعل کے لئے متعصب ہوتا ہے ، اور یہی وہ چیز ہے جن نے ابلیس کو جب اسے سجدہ کا حکم دیا گیا اس کی تابعداری نہ کرنے پر برانگخیتہ کیا ، اور یہی اولین و آخرین کی بیماری ہے الا یہ کہ اللہ جس پر رحم فرمائے ، اور اسی وجہ سے یہود بھی رسول پر ایمان لانے سے پیچھے رہے ، حالانکہ وہ آپ کو بخوبی جانتے تھے

(جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے ):

     الَّذِینَ آتَینَاہُمُ الْكِتَابَ یعْرِفُونَہُ كَمَا یعْرِفُونَ أَبْنَاءَہُمْ وَإِنَّ فَرِیقًا مِنْہُمْ لَیكْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یعْلَمُونَ (146- البقرۃ)

” جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ تو اسے ایسا پہنچاتے ہیں جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے ، ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے۔”

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ وہ (یہود) رسول کی صفات کو بالکل ایسے ہی پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ، لیکن وہ جھوٹے لوگ ہیں ، اور اسی بیماری کی وجہ سے عبداللہ بن ابی سلول بھی ایمان لانے سے بازرہا ، اور اسی سبب سے ابوجہل بھی ایمان لانے سے پیچھے رہ گیا ، چنانچہ جب اس ایک آدمی نے پوچھا کہ وہ رسول کو سچا سمجھنے کے باوجود اسلام قبول کیوں نہیں کیا؟ تو اس نے جواب دیا ہم نے اور بنی ہاشم نے شرف (فخر و نسب ) میں مقابلہ کیا یہاں تک کہ ہم دونوں ریس کے دو گھوڑے کے مانند تھے ، انہوں نے دعویٰ کر دیا کہ ہمارے نسب سے ایک نبی ہے ، تو ہم اس مرتبہ کو کب پاس سکتے ہیں ؟ اللہ کی قسم ہم اس پر ایمان نہیں لائیں گئے ، نیز یہی حال بقیہ مشرکین کا بھی تھا کہ وہ سب کے ساتھ آپ کی صداقت میں شک نہیں کرتے تھے ، اور یہ کہ حق آپ ہی کے ساتھ ہے ، لیکن کِبر و حسد نے انہیں کفرو عناد پر آمادہ کر دیا۔

 

                4- ریاست اور سرداری

 

ہدایت سے روکنے والی چیزوں میں سے سرداری اور سربراہی بھی ہے اگرچہ آدمی کے اندر حق کی تابعداری سے کبر وحسد نہ پائی جاتی ہو ، لیکن یہ ممکن نہیں کہ اس کے اندر حق کی پیروی اور حکومت  و اقتدار دونوں ایک ساتھ جمع ہو جائیں اور وہ اپنی بادشاہت اور سرداری کے ساتھ بخیلی سے کام لے ، جیسا کہ ہرقل اور ا سکے ہم مثل لوگوں کا حال ہوا، چنانچہ اس نے ابوسفیان کے ساتھ گفتگو کے آخر میں کہا تھا ((اگر تم جو کچھ کہ رہے ہو وہ سچ ہے تو وہ عنقریب میرے ان دونوں قدموں کے نیچے کی زمین کا مالک بن جائے گا ، اور اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس کی ملاقات کے لئے سفیر کی صعوبتیں برداشت کرتا ، اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پیر دھوتا۔)) اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ آپ تک پہنچنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا ؛ کیونکہ اسے اپنی زندگی اور سلطنت پر اپنی قوم سے خطرہ تھا ، اور اس بیماری۔ اور یہی ارباب ولایت اور اہل اقتدار کی بیماری ہے۔ سے وہی شخص محفوظ رہا جسے اللہ تعالیٰ نے بچا لیا مثلاً نجاشی ، اور یہی بیماری فرعون اور اس کی قوم کی بھی تھی (اللہ تعالیٰ کا ارشاد ):

فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَینِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عَابِدُونَ (المؤمنون-47)

”کہنے لگے کیا ہم اپنے جیسے دو شخصوں پر ایمان لائیں ؟حالانکہ خون ان کی قم (بھی) ہمارے تحت ہے۔”

کہا جاتا ہے کہ : جب فرعون نے موسی علیہ السلام کی تابعداری اور تصدیق کا ارادہ کیا تو اپنے وزیر ہامان سے باہم مشورہ کیا، اس نے فرعون سے کہا : اب جبکہ آپ الہ(معبود) ہیں آپ کی پرستش کی جاتی ہے (اگر آپ نے موسی کی پیروی کر لی تو ) آپ غلام بن جائیں گئے اور خود دوسرے کی پرستش کرنی پڑے گی ، چنانچہ اس نے ہدایت پر ریاست کو ترجیح دی۔

 

                5- شہوت اور مال

 

موانع ہدایت میں سے شہوت اور مال بھی ہے ، اور یہی وہ مانع ہے جن نے بہت سے اہل کتاب کو ایمان لانے سے باز رکھا کہ مبادا ان کے کھانے پینے کی چیزیں اور مال و دولت جو ان کی قوم کی طرف سے ان کے پاس آتی ہے وہ بند نہ ہو جائے ، نیز کفار قریش آدمی کو اس کی شہوت اور خواہش کے مطابق اسے ایمان سے روک دیتے تھے ، وہ اس کے پاس اس کی شہوت کے دروازے سے داخل ہوتے تھے ، چنانچہ وہ زنا پسند کرنے والے شخص سے کہتے تھے کہ : وہ محمد زنا کو حرام قرار دیتا ہے ، اور  شراب کے رسیا سے کہتے تھے کہ :وہ محمد شراب کو حرام قرار دیتا ہے ، اسی وجہ سے انہوں نے اعشٰی نامی شاعر کو اسلام لانے سے روک دیا ، انہوں نے اس باخبر کر دیا کہ وہ محمد شراب کو حرام قرار دیتا ہے ، چنانچہ وہ رسول کے پاس آتے ہوئے راستہ ہی میں تھا کہ وہیں سے واپس لوٹ گیا ، اور وہ اپنی اونٹنی سے گِر کر ہلاک ہو گیا۔

بعض اہل علم کہتے ہیں کہ : میں نے کئی اہل کتاب سے اسلام کے بارے مٰں گفتگو کی ، تو ان میں سے ایک شخص نے جو آخری بات کی وہ یہ تھی کہ : میں شراب پینا نہیں چھوڑ سکتا ، اگر میں اسلام لے آیا تو تم میرے اور شراب کے درمیان حائل ہو جاؤ گے ، اور اس کے پینے پر مجھے کوڑے لگاؤ گے۔ نیز ایک دوسرے شخص پر جب میں نے اسلام پیش کیا تو اس نے کہا کہ: جو کچھ آپ نے کہا وہ حق ہے ، لیکن میرے مالدار اقارب و رشتہ دار ہیں ، اگر میں اسلام لے آیا تو مجھے ان کی مال و دولت سے کچھ نہیں ملے گا ، اور میری آرزو ہے کہ میں ان کا وارث بنوں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے کفار کے دلوں میں (اسلام کے بارے میں ) یہ قدر و عزت پائی جاتی ہے ، لیکن جب ان کے حق میں ایمان کی داعیہ کمزوری کے ساتھ شہوت اور مال کے داعیہ کی قوت کا اجتماع ہو جائے تو بلاشبہ بندہ شہوت اور مال کے داعیہ پر لبیک کہے گا :

وَمَنْ لَا یجِبْ دَاعِی اللَّہِ فَلَیسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْأَرْضِ وَلَیسَ لَہُ مِنْ دُونِہِ أَوْلِیاءُ أُولَئِكَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ (الأحقاف-32)

” اور جو شخص اللہ کے بلانے والے کا کہا نہ مانے گا پس وہ زمین میں کہیں (بھاگ کر اللہ کو ) عاجز نہیں کر سکتا۔”

 

                6- اہل و اقارب اور رشتہ داروں کی محبت :

 

اہل و اقارب اور رشتہ داروں کی محبت بھی ہدایت سے مانع ہے۔ ایسا شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اگر اس نے حق کی پیروی کی اور ان (اہل و اقارب ) کی مخالفت کی تو وہ لوگ اسے الگ تھلگ کر دیں گئے اور بھگا دیں گئے ، اور یہی بہت سے کفار کے اپنی قوم اور اپنے اہل و اقارب اور رشتہ داروں کے درمیان باقی رہنے کا سبب ہے ، یہ صورتحال زیادہ تر یہود و نصاریٰ کے درمیان پیش آتی ہے ، وہ اپنے مذہب کی مخالفت کرنے والے ہر شخص سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں اور سب کے سب اس کے دشمن بن جاتے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ بہت سے ابنائے یہود و نصاریٰ اور ان کی طرف نسبت رکھنے والے حق کو پہچاننے کے بعد بھی اسے ترک کر دیتے ہیں اور اس سے اعراض کرتے ہیں۔

جو شخص بیمار ہوا تو اس کے منہ کا ذائقہ کڑوا ہوا ، وہ آب شیریں کو بھی کڑوا سمجھتا ہے۔

 

                7- گھر اور وطن کی محبت

 

گھر اور وطن کی محبت بھی ہدایت کے موانع میں سے ہے اگرچہ وہاں کوئی رشتہ دار اور اقربا نہ ہوں ، لیکن وہ یہ سمجھتا ہے رسول یا اہل حق کی متابعت کرنے میں جو آپ کے متبع ہیں ، اپنے گھر بار اور مادر وطن سے دیار غربت کی طرف خروج ہے ؛ لہٰذا وہ پُر یقین ہونے کے باوجود حق کی تابعداری یا اسلام میں داخل ہونے پر وطن کی محبت کو ترجیح دیتا ہے۔ جس شخص نے حضرت سلمان فارسیؓ کی سیرت اور ان کے حق تک پہنچنے کے راستہ میں پیش آمدہ کلفتوں اور صعوبتوں کے بارے میں پڑھا ہو گا اسے معلوم ہو گا کہ آپ نے اپنے نفس کے ساتھ کس طرح جہاد کیا ، اور کس طرح اپنے اہل و عیال ، رشتہ داروں اور وطن کو خیر آباد کہ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی ، اور آپ کا نام ہی (حق کی متلاشی ) پڑ گیا ، اور بالکل یہی معاملہ تمام صحابہ کرام ؓ کا بھی ہے ، جنہوں نے اپنے اہل و عیال ، بیٹوں اور مال و دولت کو قربان کر دیا اور اللہ تعالیٰ کی فضل اور رضا مندی کو تلاش کرتے ہوئے مدینہ کی طرف نکل پڑے ، اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کی اور یہی لوگ سچے ہیں۔

 

                8۔ آباؤ و اجداد پر طعنہ زنی کا خود

 

آدمی کا یہ خیال کرنا کہ قبول اسلام اور رسول کی تابعداری میں اپنے آباؤ و اجداد پر عیب لگانا اور طعنہ زنی کرنا ہے ، ہدایت کے موانع میں سے ہے۔ یہی وہ سبب ہے جس نے ابوطالب اور ان کے ہم مثل لوگوں کو اسلام سے باز رکھا ، چنانچہ انہوں نے یہ خیال کیا کہ اگر وہ اسلام لے آئے تو یہ اپنے آباء  و  اجداد کی عقلوں کو بیوقوف68ترئ ٹھہرانے کے مترادف ہے ، اسی وجہ سے اللہ کے دشمنوں نے ابوطالب سے ان کی موت کے وقت کہا تھا : کیا آپ عبدالمطلب کی ملت سے پھر جائیں گئے ؟ تو انہوں نے جو آخری بات کہی وہ یہی تھی کہ وہ عبد المطلب کی ملت پر قائم ہیں ، چنانچہ اس طرح انہوں نے آپ کو قبولِ حق سے روک دیا ؛ اور اس سے پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ وہ آدمی کے پاس اس کی شہوت کے دروازے سے آتے تھے ، اسی لئے ابوطالب نے کہا تھا : اگر بنو عبد المطلب پر لعن طعن کا خوف نہ ہوتا تو میں اس (کلمۂ اسلام ) کے ذریعہ آپ کی آنکھ ٹھنڈی کر دیتا ؛ اس عندیہ کا اظہار انہوں نے اپنے شعر کے اندر کیا ہے :

” مجھے معلوم ہے کہ دین محمد دنیا کا سب سے بہترین دین ہے ، اگر ملامت یا لعن طعن کا ڈر نہ ہوتا تو آپ مجھے برملا اس کی موافقت کرنے والا پاتے۔”

کوئی کہنے والا کہ سکتا ہے کہ : یہ سب گذشتہ لوگوں کی باتیں ہیں جو نیست و نابود ہو چکے (لیکن ) کچھ لوگوں کے نزدیک یہ شبہات (اب بھی ) پائے جاتے ہیں ، ہم نے بعض دیہاتی علاقوں میں لوگوں کو یہ بات کہتے ہوئے سنا ہے کہ : میں اپنے آباء و اجداد کی عادات اور تقالید کو نہیں چھوڑ سکتا۔

    وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا إِلَی مَا أَنْزَلَ اللَّہُ وَإِلَی الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیہِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُہُمْ لَا یعْلَمُونَ شَیئًا وَلَا یہْتَدُونَ(104- المائدۃ)

”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف رسول کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا۔”

یہی وہ سبب ہے جس نے انہیں حق کی معرفت اور اس کا یقینی علم حاصل ہو جانے کے بعد بھی اسلام میں داخل ہونے یا قبولِ حق سے باز رکھا۔

 

 

                9- کسی دشمن کا حق کی تابعداری کر لینا یا اسلام لے آنا یا اسلام لانے میں پہل کر جانا

 

کسی دشمن کا حق کی تابعداری کر لینا یا اسلام لے آنا یا اسلام لانے میں پہل کر جانا بھی ہدایت کے موانع میں سے ہے ، اس چیز نے بہت سے لوگوں کو حق پہچاننے کے بعد بھی ہدایت قبول کرنے سے باز رکھا ہے ؛ وہ اس طرح کہ آدمی کا کوئی دشمن ہوتا ہے جس وہ بغض رکھتا ہے اور اس زمین کو بھی ناپسند کرتا ہے جس پر وہ چلتا ہے اور جان بوجھ کر اس کی مخالفت کرتا ہے ؛ لہذا جب وہ دیکھتا ہے کہ اس نے حق کی پیروی کی لی تو اس سے اس کی بغض و عداوت اسے حق اور اہل حق کو دشمنی پر آمادہ کر دیتی ہے اگرچہ اس کے اور ان (اہل حق ) کے درمیان کوئی دشمنی نہ ہو ، اس طرح کا معاملہ یہود کا انصار کے ساتھ پیش آیا ؛ کیونکہ انصار ، یہود کے دشمن تھے اور یہود انہیں اس بات کی دھمکی دیتے تھے کہ نبی کا ظہور ہونے والا ہے اور وہ آپ کی اتباع کریں گئے اور آپ کے ساتھ مل کر انصار سے قتل کریں گئے ، لیکن انصار اس نبی کی طرف سبقت کر گئے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے تو یہود کو انصار کی دشمنی نے انہیں اپنے کفر اور یہودیت پر باقی رہنے پر آمادہ کر دیا۔

 

                10- الفت ، عادت و منشا اور رسم و رواج

 

یہ سبب اگرچہ معنوی طور پر سب سے کمزور سبب ہے لیکن قوموں اور ارباب ادیان و مذاہب پر یہی سبب غالب ہے ، اور اکثر لوگوں پر ہی نہیں بلکہ شاذ و نادر کو چھوڑ کر تمام لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ ہے ، اور عادات و تقالید اور رسم و رواج ہی اکثر لوگوں پر غالب ہے اور اس (عادت ) سے منتقل ہونا ایک طبیعت سے دوسری طبیعت کی طرف منتقل ہونے کے مترادف ہے ، پس اللہ تعالیٰ کا درود و سلام نازل ہو اس کے انبیاء اور رسولوں پر اور خصوصاً اس کے آخری اور افضل رول محمد پر ؛ کہ کیسے انہوں نے اپنی امتوں کے باطل رسم و رواج کو بدل دیا اور انہیں ایمان کی طرف منتقل کر دیا۔ یہاں تک کے انہوں نے (ان کے اندر ) ایک فطرت ثانیہ پیدا کر دی جس کی وجہ سے وہ اپنی اس فاسد عادات و تقالید اور طبیعت سے کنارہ کش ہو گئے جس کی تصویر ان کے اس قول کے اندر کی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :

     إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَی أُمَّۃ وَإِنَّا عَلَی آثَارِہِمْ مُقْتَدُونَ (23- الزخرف)

” ہم نے اپنے باپ دار کو (ایک راہ پر اور) ایک دین ہر پایا اور ہم تو انہی کے نقش پاکی پیروی کرنے والے ہیں۔”

دلوں پر اس چیز کی گراں باری کو وہی جان سکتا ہے جس نے کسی ایک آدمی کو اس کے دین اور عقیدہ سے (دین) حق کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی ہو ، پس اللہ تعالیٰ رسولوں کو سب سے افضل بدلہ دے جو اس نے دنیا میں کسی شخص کو دی ہو۔

البتہ جہاں تک ہدایت کے اسباب کا تعلق ہے تو یہ بہت زیادہ ہیں ، اور انہی میں سے دعا ، قرآن ، رسول اور عقلی بصیرتیں ہیں۔ اور جس طرح بیماری سے شفا یابی کے کچھ اسباب ہوتے ہیں اسی طرح ہدایت کے بھی اساب ہیں۔ چنانچہ مریض جب بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور شفا یابی اور صحت و عافیت کے حصول کے لئے اسباب اختیار کرتا ہے ، بالکل یہی معاملہ ہدایت کا بھی ہے ، اور اس کے لئے کوشش عمل میں آئی جاتی ہے ، اور اس (ہدایت) سے مانع صرف یہی اسباب ہیں جو دلوں کو اندھا کر دیتے ہیں اگرچہ نگاہیں اندھی نہ ہو۔

٭٭٭

کمپوزنگ اینڈ ابتدائی پروف ریڈنگ :: عُکاشہ

ماخذ: اردو مجلس ڈاٹ نیٹ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید