FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

منٹو کا تصورِ مذہب و اخلاق

 

اسیم کاویانی

منٹو نے احمد ندیم قاسمی کے نام اپنے ایک خط میں لکھا ہے:
’’زندگی کو اُس شکل میں پیش کرنا چاہیے جیسی کہ وہ ہے، نہ کہ وہ جیسی تھی، یا جیسے ہو گی اور ہونی چاہیے۔ ‘‘ اِسے ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے منٹو کے نظریات کو اسی طرح پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس طرح اُس کی تحریروں میں آئے ہیں۔ یوں بھی وہ اپنے خیالات کے اظہار میں اتنا صاف اور واضح واقع ہوا ہے کہ مجھے بہت کم تشریح و تبصرے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ ابتدا میں اجمالاً منٹو کی حیات اور ماحول کا پس منظر بیان کروں گا، جس سے ہمیں اپنے موضوع کے تعلق سے منٹو کے ذہن و فکر کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
Gia)تھے، جو اُس کی تقریباً نصف زندگی پر محیط ہیں۔ اُس کے والد کی محبت، دو بیویوں اور بارہ اولادوں میں بنٹ بنٹا کر اُس کے لیے دردِ تہِ جام کی مثال رہ گئی تھی۔ اُس کے سوتیلے بھائی بہن اُس سے نفرت کرتے تھے۔ صرف والدہ کی محبت ہی اُس کا سہارا تھی، لیکن وہ خود اُس خاندان میں جائز عزت سے محروم تھی۔ (2) اپنے بچپن میں چھوٹی چھوٹی خواہشیں پوری کرنے کے لیے بھی اُسے آنسوؤں اور ہچکیوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ وہ کوئی اچھا طالب علم نہیں تھا۔ نویں جماعت کے امتحان میں اُس نے منتروں کی ایک کتاب خرید کر امتحان پاس کرنے کا ایک منتر ازبر کر لیا تھا، لیکن فیل ہو گیا تھا۔ (3) اُس کے سوانح نگاروں کے بموجب دسویں کے امتحان میں تین بار فیل ہو کر وہ چوتھی کوشش میں کامیاب ہوسکا تھا۔
بہرحال خاندان کی بے مہری اور بے توجہی کے سبب سے اُس نے اپنے دوستوں میں پناہ ڈھونڈی اور لڑکپن ہی میں سگریٹ ، شراب نوشی اور قمار بازی شروع کر دی۔ آغا حشر کشمیری سے متاثر ہو کر اُس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ڈرامیٹک کلب بھی کھولا۔ چوں کہ منٹو کے والد اُس کی حرکتوں سے نالاں تھے، اس لیے ایک دن انھوں نے کلب کے ہارمونیم اور طبلوں کو توڑ پھوڑ کر اُس کا خاتمہ کر دیا۔ (4)1932ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد منٹو کو اِفلاس اور ناداری کا سامنا کرنا پڑا۔ اُس کا دلِ آوارہ اُسے کبھی پیٖروں کے تکیوں پر، کبھی قبرستانوں میں اور کبھی کوٹھوں پر لیے لیے پھرا اور رشتے داروں کے لیے اُس کا وجود مزید ناقابلِ برداشت ہو گیا۔ آخر 1935ء میں منٹو نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخلہ لے لیا، لیکن اُسی سال اُسے ٹی بی کی تشخیص ہو جانے پر کالج چھوڑ دینا پڑا۔ ایک مختصر سی مدّت (تین ماہ) اُس نے بٹوت کے سینی ٹوریم میں گزاری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ٹھیک بیس سال بعد منٹو نے لاہور میں ، جہاں اُس کی سسرال تھی، مفلسی کی حالت میں کثرتِ مے نوشی اور ٹی بی ہی کے عارضے میں جان دے دی۔
درمیان کے بیس سال ہی وہ اہم ترین سال ہیں ، جن میں اُس فن کار منٹو کی تشکیل ہوئی، جس کے فکر و فن پر آج تک گفتگو جاری ہے۔
منٹو کے زمانے کے عالمی اور قومی منظر نامے پر ایک سرسری نگاہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ منٹو کی مدّت حیات میں نوعِ انسانی نے دو عالمی جنگوں کو بھگتا تھا اور ایک زمانے تک سینۂ گیتی پر اُن جنگوں کے لگائے زخم رستے رہے تھے۔ ہٹلر اور مسولینی کی آمریت کی ستم رانیاں ، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی تباہ کاریاں ، روس کا انقلاب اور ایسی کتنی ہی سُرخیاں اُس دور سے جُڑی ہوئی ہیں۔ منٹو کی عمر تقریباً سات برس کی تھی جب ا مرت سر ہی میں جلیان والا باغ کا خوں چکاں سانحہ رونما ہوا تھا۔ پھر قحطِ بنگال، تقسیمِ ہند، ہندو مسلم فسادات، بے شمار انسانی جانوں کی ہلاکت، ہزاروں مغویہ لڑکیوں اور عورتوں کا استحصال، پھر منقسم مملکتوں میں اُن کی ادلا بدلی اور باز آبادکاری کے مسائل کے اشک و خوں کا ایک سیلِ رواں ہے جو سر سے گزر جاتا ہے۔
منٹو کے اپنے گردو پیش اور زمانے کا یہی پس منظر تھا، جس نے اُس کے بے چین دل اور بیدار ذہن کو مروّجہ سیاسی، سماجی اور مذہبی نظام سے بیزار اور برگشتہ کر دیا تھا کہ اُن سے انسان کے دُکھ درد کا مُداوا کرنے میں ناکامی ہی ہاتھ آئی تھی۔
اپنے حالات سے بیزار اور زمانے سے منحرف منٹو کو مشہور اشتراکی ادیب باری علیگ نے اشتراکیت سے آشنا کیا۔ اشتراکی ادیبوں کے مطالعے اور اُن کی تحریروں کے ترجمے پر آمادہ کیا، اور اس طرح منٹو کا ادب کی دنیا میں داخلہ ہوا۔ اسی دور میں منٹو نے اپنے دوستوں ابوسید ، عباس، عاشق علی فوٹو گرافر اور باری علیگ کے ساتھ مل کر ’فری تھنکر‘ کے نام سے ایک انجمن بنائی تھی۔ (5) جس کا پہلا اُصول یہ تھا کہ اس کا کوئی فرد ایک دوسرے کے افعال کی بازپُرس نہیں کرے گا۔ یہ اشتراکیت ہی کا اثر تھا کہ منٹو نے ’عالم گیر‘ اور ’ہمایوں ‘ جیسے جریدوں کے ’روسی ادب نمبر‘ اور ’فرانسیسی ادب نمبر‘ مرتب کیے تھے۔ اُس کی ابتدائی فلمی کہانیوں میں سے ایک ’مڈ‘ (کیچڑ) بھی اشتراکی نظریے کی حامل تھی(جس پر ’اپنی نگریا‘ کے نام سے فلم بنی تھی۔ ) اگرچہ بہت بعد میں اُسے احساس ہوا کہ اشتراکیت میں بھی انسانی مسائل کا مکمل حل موجود نہیں ہے۔ بہرکیف یہ طے ہے کہ اشتراکیت نے منٹو کی فکر و نظر پر گہرا اثر ڈالا تھا۔
اسی فکر و نظر کا فیضان ہے کہ منٹو کے یہاں مذہب کی مدح میں روایتی انداز میں بس کہیں کہیں چند فقرے ہی نظر آتے ہیں۔ (جو منٹو کے تقریباً چار ہزار صفحات کے سرمایۂ قلم میں چار صفحات کی گنجائش کے بھی نہ ہوں گے۔ )مثلاً ایک جگہ اُس نے لکھا ہے کہ ’روحانیت یقینا کوئی چیز ہے، جو لوگ نما ز اور روزے، آرتی کر تن سے روحانی طہارت حاصل کرتے ہیں ، ہم اُنھیں پاگل نہیں کہہ سکتے۔ ‘‘ (6)’میرٹھ کی قینچی‘ نامی افسانے میں ایک محفلِ نشاط کا ذکر ہے، جہاں ایکٹریس پارو نے ٹھمری، گیت، غزل اور بھجن سے حاضرین کا دل بہلاتے ہوئے جب نعت شروع کی تھی تو منٹو نے اُسے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ ’محفلِ شراب میں کالی کملی والے کا ذکر نہ کیا جائے تو اچھا ہے۔ ‘ اپنی تحریروں کی تزئین کے لیے اُس نے کہیں کہیں بڑے حسین مذہبی استعاروں کا استعمال کیا ہے۔ مثلاً تحریک آزادی کی ایک کھدّر پوش مسلم والنٹیر ’نگار‘ کے حسن کی تعریف میں منٹو نے لکھا ہے کہ ’وہ مجھے نماز اور آرتی کا دل فریب مجموعہ دکھائی دیتی ہے، (7) اپنے ایک افسانے میں منٹو نے ماں بننے کے تجربے سے گزرتی ایک لڑکی کے احساس کی وضاحت میں اس کے سینے کی گولائیوں کو مسجد کے مقدس محرابوں سے مشابہ بتایا ہے۔ (8)اپنے ’یزید‘ نامی افسانے میں اُس نے اس نام سے وابستہ روایت کو ایک نیا رُخ دینے کی کوشش کی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ افسانے کا مرکزی کردار اپنے نوزائیدہ بیٹے کا نام ’یزید‘ طے کرتا ہے اور پھر اپنی بیوی کی حیرت اور ہچکچاہٹ کو دیکھ کر جواب دیتا ہے : ’’اُس نے پانی بند کیا تھا، یہ جاری کرے گا۔ ‘‘ اپنے ایک مضمون میں منٹو نے مذہب کا ہوّا کھڑا کرنے والے لیڈروں کے تعلق سے لکھا تھا کہ ’خطرہ اُنھیں ہوسکتا ہے، مذہب کو نہیں۔ مذہب تو ایک چٹان کی طرح ہے، جس پر سمندر کی لہریں اثر نہیں کرتیں۔ ‘ (9)
مذہب کی یہ چٹان جس ٹاپو پر بھی رہی ہو، ہم اس کی چاہ میں منٹو کی بحرِ زندگانی میں کوئی اضطراب نہیں پاتے۔ ہاں ، ایک دو جگہ اُس نے ضمیر کو مذہب کے متبادل کے طور پر قبول کیا ہے اور ضمیر کو انسان کے جسمانی وجود کا نگراں قرار دیتے ہوئے، اُس کے کردار کی یوں وضاحت کی ہے:
’’وہ مثبت اور پسندیدہ افعال میں جسمانی وجود کا شریک بن جاتا ہے، لیکن جب ناپسندیدہ افعال دیکھتا ہے تو متنبّہ کرتا ہے یا پھر علاحدہ ہو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے انسان اپنی زندگی اس طور سے گزارتا ہے کہ کبھی وہ اپنے افعال کو ضمیر کے ساتھ ہم آہنگ کر لیتا ہے اور کبھی ضمیر کی آواز پر اپنے کان بند کر لیتا ہے۔ ‘‘ (10)
یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہر مذہب کے ساتھ خدا کا نام جُڑا ہوا ہے، جب کہ خدا کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ خدا اور مذہب کے بارے میں منٹو نے سنجیدگی سے کم ہی گفتگو کی ہے، اُس کے یہاں جہاں کہیں خدا کا ذکر آیا ہے عموماً طنز یا مزاح کے ہدف کے طور پر آیا ہے۔ مثلاً اپنے ایک مضمون نما افسانے میں یوں رقم طراز ہے:
’’دنیا کی سب سے پہلی عورت جب ماں بنی ہو گی تو خالقِ کائنات کا ردِّ عمل کیا تھا! دنیا کے سب سے پہلے مرد نے کیا آسمان کی طرف تمتماتی ہوئی آنکھوں سے دیکھ کر دنیا کی سب سے پہلی زبان میں بڑے فخر کے ساتھ یہ نہیں کہا تھا کہ ’میں بھی خالق ہوں۔ ‘ (11)
چراغ حسن حسرت کے خاکے میں منٹو نے اُن کی درازیِ عمر کی دعا مانگتے ہوئے لکھا ہے۔
’’خداوند، نہ تو کھاتا ہے نہ پانی پیتا ہے۔ تیرا وجود ہے بھی اور نہیں بھی ہے، یہ کیا مصیبت ہے! تیری دنیا میں ہم کھاتے بھی ہیں اور پیتے بھی ہیں۔ پانی بھی اور شراب بھی۔ ۔ ۔ تیرا ایک بندہ چراغ حسن حسرت ہے، جو صحافت کا چراغ ہے۔ اُس کو پینے کی لت ہے، جس طرح مجھے ہے۔ ۔ ۔ ۔
نماز کبھی میں نے پڑھی ہے، نہ میرے محترم دوست نے۔ بہرحال ہم تیرے قائل ضرور ہیں ، اس لیے کہ تو ہمیں شدید بیماری میں مبتلا کر کے پھر اچھا کر دیتا ہے۔ حسرت صاحب کو اگر تو نے بیس برس اور زندگی عطا فرما دی تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ وہ تیرا جغرافیہ لکھ دیں گے، جو تو اپنے آسمانوں کے اسکولوں میں نصاب مقرر کرسکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ رائلٹی مجھے ملے۔ ‘‘ (12)
’ٹیڑھی لکیر‘ نامی افسانے میں منٹو ہمیں دنیا جہان سے نرالی باتیں کرنے والے جس کردار سے ملاتا ہے، اُس میں بڑی حد تک خود منٹو کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔ خدا کے بارے میں اُس کا خیال کچھ اس طرح کاہے کہ اگر خدا کو انسان کی سی زندگی بسر کرنی پڑے تو پتا چلے!
اگرچہ منٹو نے اپنی ہر تحریر کے آغاز میں رسمی طور پر786لکھنے کا ذکر کیا ہے، لیکن منٹو کی الہیاتی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ روایات اور توہمات کی بنیاد پر قائم رسوم اور اعتقادات کا نظام کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ اُس کی نظر میں زندگی اور موت بھی دو کھردری حقوقتنں کے نام ہیں ، اِن کے ساتھ کوئی ڈِوائن ٹچ اُسے پسند نہیں ہے۔ افسانہ ’شہید ساز‘ میں اُس نے شہادت کی موت کے گِرد بَنے ہوئے تقدیٖس کے ہالے کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ اُس کے مضمون ’پردے کی باتیں ‘ اور افسانے ’برقعے‘ سے اُس کا حجاب مخالف موقف نمایاں ہے۔ خود اپنی شادی کے بعد منٹو نے اپنی بیوی کے پردے کی شکایت کرتے ہوئے احمد ندیم قاسمی کے نام ایک خط میں لکھا تھا:
’’پہلے وہ پردہ نہیں کرتی تھی، مگر جب سے اُس پر میرا حق ہوا ہے، اُس نے پردہ کرنا شروع کر دیا ہے، صرف مجھ سے۔ ‘‘ (13)
’ایمان و یقین‘ نامی ایک مضمون میں منٹو نے ایک دُم دار سیّارے کے زمین کی طرف رُخ کرنے کی اُفتاد پر پنڈتوں اور ملّاؤں کی دافعِ بلیّات کوششوں مثلاً کہیں مہان یگیہ، کہیں ننگے سراجتماعی دُعا اور کہیں کالے بکروں کی قربانی وغیرہ کا مضحکہ اڑاتے ہوئے فرسودہ عقائد کی بے چارگی ظاہر کی ہے۔
ہم غور کریں تو منٹو عام طور پر مذہب کے رسمی روپ یا ظواہر پرستی سے منغّض نظر آتا ہے، لیکن کیا یہ ایک المیہ نہیں ہے کہ عوام الناس کی اکثریت نے آج بھی مذہب کو اسی صورت میں قبول کر رکھا ہے۔ لوگوں کے اسی اندھ وشواس نے جگہ جگہ ’گاڈمین‘ پیدا کر رکھے ہیں۔
منٹو کا کہنا تھا کہ فطرت کے خلاف جانے سے خدا نہیں ملتا۔ فاقہ کشی کرنے، خود کو زمین میں گاڑنے، دَم سادھنے اور کیٖلوں کے بستر پر لیٹنے جیسے کرتبوں کو اس نے مداری پن بتایا ہے۔ (14) اپنے افسانے ’سوراج کے لیے‘ کے ایک کردار کی زبان سے منٹو گویا نظر آتا ہے:
’’یہ لوگ اونچے ہو کر انسان کی فطری کمزوریوں سے غافل ہو جاتے ہیں۔ بالکل بھول جاتے ہیں کہ ان کے کردار، ان کے خیالات اور عقیدے تو ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے، لیکن ان کے منڈے ہوئے سر، ان کے بدن کی راکھ اور ان کے گیروے کپڑے سادہ لوح انسانوں کے دماغ میں رہ جائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ دنیا میں اتنے مصلح پیدا ہوئے ہیں ، اُن کی تعلیم تو لوگ بھول چکے ہیں ، لیکن صلیبیں ، دھاگے، داڑھیاں ، کڑے اور بغلوں کے بال رہ گئے ہیں۔ ایک ہزار برس پہلے جو لوگ یہاں بستے تھے، ہم اُن سے زیادہ تجربہ کار ہیں۔ ‘‘
اسی طرح عجیب الخلقت ہونے کی بنا پر اپنی مختلف ہیئت کی وجہ سے جاہلوں میں تقدس کا درجہ حاصل کرنے والوں اور مذہبی لبادے میں چھپے رنگے سیاروں کو اُس نے اپنی تحریروں میں طشت از بام کیا ہے۔ مثلاً پنجاب کے گھوڑے شاہ بابا جیسے الف ننگے رہنے والے غلیظ ملنگ، لاہور کے دولہ شاہ چوہے یعنی چھوٹے سر کے وہ ناقص العقل لڑکے، جو دولہ شاہ اور ایسے ہی مزاروں کو سونپ دیے جاتے تھے۔ گاما سائیں اور مائی جیواں کا مجہول الجُثّہ بیٹا جس کی ناک سے رینٹھ اور منہ سے لعاب مسلسل بہا کرتا تھا، (15) ایسے ہی کردار ہیں جو جہُلا اور خواتین کی نظروں میں غیب دان کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور وہ لوگ اُن سے مشکل کُشائی کی آس لگا لیتے ہیں۔ اسی قماش کا تہمد پوش غفّار سائیں ہمیں ’بابو گوپی ناتھ‘ کا لیگل اڈوائزر بنا نظر آتا ہے۔
’حافظ حسین دین‘ اور ’صاحبِ کرامات‘ جیسے افسانوں کے رنگا سیار بزرگ مذہبی تقدس کے چولے میں فراڈ کرتے اور عورتوں کا جنسی استحصال کرتے پھرتے ہیں تو ’محمودہ‘ نام کے افسانے میں محمودہ کا شوہر اپنی نامردی چھپانے کے لیے شب بیداری اور مُراقبے کا ناٹک کرتا نظر آتا ہے۔ ’موج دین‘ نامی افسانے میں نام نہاد دینیات کی تعلیم کے مدرسوں اور یتیم خانوں کے نام پر جمع چندوں کے خرد بُرد کا احوال دیکھا جا سکتا ہے۔ منٹو نے اپنے رفیق اور رہنما باری علیگ کو بھی نہیں بخشا تھا۔ بتایا ہے کہ بوتل کھل جانے کے بعد وہ کس طرح کھل کھیلنے لگتے تھے، اور ہیرا منڈی کی پٹھان ٹکھائیوں کے یہاں پھیرا لگا آنے کے بعد کس طرح نمازِ کفّارہ ادا کر کے خود کو پاک صاف کر لیا کرتے تھے۔ (16)
چچا سام کے نام لکھے اپنے خطوں میں منٹو نے رواجی مذہب کو کھل کر تنقید و تضحیک کا نشانہ بنایا ہے۔ کہیں پر وہ شلوار میں ہاتھ ڈال کر ڈھیلا لگانے والے مولوی کو ایٹم بم گرا کر دھواں بنا دینا چاہتا ہے۔ (17) کہیں پر انکل سام کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ اگر امریکا کا سرکاری مذہب اسلام مقرر کر دے تو پھر اُسے جاپان فتح کرنے کے لیے Natural Child پیدا کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اسلام میں اس کا حل موجود ہے کہ ’نکاح پڑھوائیے اور بچے پیدا کیجیے‘۔ (18) منٹو نے تقریباً ساٹھ برس قبل انکل سام کو لکھا تھا کہ ’یہاں کا مُلّا روس کے کمورنزم کا بہترین توڑ ہے۔ اِن ملّاؤں کو مُسلّح کیجیے، پھر دیکھیے سوویت روس کو یہاں سے پاندان اُٹھانا ہی پڑے گا۔ ‘ (19) منٹو کی اس پیشیٖن گوئی کا حقیقی نظارہ آپ اور ہم دیکھ ہی چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ روس تو کب کا جا چکا ملّا اب تک مُسلّح کیا جا رہا ہے!
’اللہ کا بڑا فَضُل ہے‘ نامی مضمون میں منٹو نے ملّاؤں کی قائم کی ہوئی مثالی مملکت کا خاکہ کھینچا ہے، جہاں موسیقی کی لہروں کو قید و قدغن کا سامنا ہے۔ تخیّلِ شعری کے پر پرواز کتر دیے گئے ہیں اور مُصّوری کا موئے قلم توڑ دیا گیا ہے۔ اب وہاں صرف قوالی سُن کر سر دھُننے کی اجازت ہے۔ خدائی کے لیے خطرہ بننے والے سائنس دانوں کو نیست و نابود کر دیا گیا ہے۔ حسن و عشق کی خرافات کو فرو غ دینے والی ادب کی دنیا بھی اُجڑ چکی ہے کہ اب وہاں کسی کو تصورِ حسن تک کا یارا نہیں رہا۔ جسم کی بھوک کا اظہار منع ہے، صرف روح کی بھوک کا ذکر کیا جا سکتا ہے، بقولِ منٹو ’’اللہ کا فضل شامل حال رہا تو صرف روح ہی روح رہ جائے گی اور ہم فانی انسانوں کا جسم سرے سے غائب ہو جائے گا۔ ‘‘
’’اب چاروں طرف سکون ہی سکون ہے۔ کوئی ہنگامہ نہیں ، کوئی واردات نہیں۔ کوئی شاعر نہیں۔ کوئی مصّور نہیں۔ زندگی یوں گزر رہی ہے، جیسے گزر ہی نہیں رہی۔ قلب کے لیے یہ کتنی اطمینان دہ چیز ہے۔ لوگ پیدا ہوتے ہیں ، مر جاتے ہیں۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ (20)
اس مملکت کے پُرسکون مگر گدلے پانی میں چھپاکا سا ہوتا ہے، جب ایک بے چین شخص گلی گلی کوچے کوچے گویا مصنف کی زبان سے یہ شور مچاتا نظر آتا ہے کہ ’’میں اس مملکت میں نہیں رہنا چاہتا، جہاں خدا تو ہے پر شیطان نہیں ہے۔ ‘‘
مزی اندر جہانِ کور ذوقے
کہ یزداں دارد و شیطان ندارد
جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہی ہیں کہ منٹو نے ’بابو گوپی ناتھ، کی زبانی رنڈی کے کوٹھے اور پیر کے مزار کو دو ایسی جگہیں بتایا ہے ، ’جہاں عرش سے لے کر فرش تک دھوکا ہی دھوکا ہوتا ہے۔ ‘ اُس کے بے باک قلم نے لکھا ہے:
’’کون نہیں جانتا رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔ ‘‘
ہم بھی اُن کوٹھوں کا رُخ کرتے ہیں ، جہاں کی عصمت فروشی منٹو کے افسانوں کا اہم موضوع رہا ہے، لیکن اُس نے جنس کو نہ تو گلیمرائز (Glamorize)کیا ہے، نہ ہی ولگرائز (Vulgarize)۔ بلکہ سماجی ناانصافی کے نتیجے میں پیدا ہوئی ایک انسانی ضرورت کے طور پر پیش کیا ہے۔ منٹو نے لکھا ہے کہ عصمت فروشی گناہ ہے یا نہیں ؟ اس پر مذہبی اعتبار سے بحث فضول ہے۔ اُس کے لفظوں میں :
’’گناہ و ثواب اور سزا اور جزا کی بھُول بھلیّوں میں پھنس کر آدمی کسی مسئلے پر ٹھنڈے دل سے غور نہیں کرسکتا۔ مذہب خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ‘‘ (21)
اُس کے ایک دوسرے مضمون ’شریف عورتیں اور فلمی دنیا‘ کا لُبِّ لُباب یہ ہے کہ گناہ و ثواب کے تعلق سے ایک آدمی کا ذاتی تصور چاہے جو بھی ہو، فن سے اِس کا کوئی واسطہ نہیں۔ فلمی پیشے میں ایک عورت کا با عصمت ہونا ضروری نہیں۔ منٹو کا یہ دلچسپ نظریہ آج بھی موضوعِ بحث بن سکتا ہے کہ ’چوں کہ ایک کامیاب ایکٹریس بننے کے لیے گوناگوں کردار ادا کرنے ہوتے ہیں ، اس لیے اس کا آزمودہ کار‘ ہونا ضروری ہے۔ (22)
یہاں اس بات کا ذکر کرنا دل چسپی سے خالی نہ ہو گا کہ منٹو نے اپنے دور میں ضلع موگا (پنجاب) سے دس نمبریوں اور راول پنڈی سے طوائفوں کی ٹریڈ یونین قائم کیے جانے کی خبریں پڑھ کر اور طوائفوں کی تنظیم کے جریدے ’رقص و سرود‘ کے چند شمارے ملاحظہ کر کے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ’ معاشرے میں جب اچھے اور بُرے پہلو بہ پہلو موجود ہیں تو اچھوں کے ساتھ بُروں کو بھی اپنے حقوق کے لیے منظم ہونے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ‘
لیو اِن ریلیشن شپ (Live in relationship)، لیزبین ریلیشن شپ (Lesbian relationship) اور گے ریلیشن شپ (Gay relationship) کی بنیادی اُلجھنوں اور خاص حالات میں اُپجے ایسے فطری تقاضوں کو سمجھنے اور اُن کو تسلیم کرنے کے لیے، قانون کی منظوری کے بعد اب کہیں جا کے ہمارا معاشرہ بے دلی سے متوجہ ہوا ہے اور ہماری اخلاقیات میں ان کے لیے گنجائشیں نکالی جا رہی ہیں ، جب کہ منٹو کی جنسی اخلاقیات نے پون صدی قبل ہی انھیں ہری جھنڈی دے دی تھی۔
جب ایک بار اپنے شوہر کی ہم جنسی (homo-sexuality) کی شاکی ایک خاتون نے منٹو کو خط میں لکھا تھا کہ وہ اس غیر فطری فعل کے خلاف کوئی افسانہ کیوں نہیں لکھتا؟ تو منٹو نے اُسے جواب میں تحریر کیا تھا-
’’یہ کہنا غلط ہے کہ انسان کا فلاں فعل غیر فطری ہے، انسان کبھی اپنی فطرت کے خلاف جاہی نہیں سکتا۔ ‘‘ (23)
عصمت چغتائی کے افسانے ’لحاف‘ کے خلاف ہنگامہ برپا کرنے والوں کو لتاڑتے ہوئے منٹو نے لکھا تھا کہ جو لوگ عصمت کو اخلاق کی امتحانی نلی میں ہِلا ہِلا کر دیکھ رہے ہیں ، ایسی اوندھی کھوپڑیوں کو توپ دم کر دینا چاہیے۔ (24)
افلاطونی محبت کو منٹو نے فالج کی ایک بیماری سے تعبیر کیا ہے اور جسمانی محبت کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’یہ ایک عام چیز ہے، جو حضرت آدم سے لے کر ماسٹر نثار تک کرتے آئے ہیں۔ ‘‘ اپنے دوست شوکت حسین رضوی کو جس کا نور جہاں کے ساتھ معاشقہ چل رہا تھا، شادی سے منع کرتے ہوئے منٹو نے صلاح دی تھی کہ وہ اور نورجہاں جب تک دل چاہے ، ایک دوسرے کے ساتھ رہ لیں اور جب اُکتا جائیں تو اپنی اپنی راہ لیں۔
برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ انگریز دانش ور برٹرینڈرسل (Bertrand Russell) نے اپنی زندگی میں ایک کے بعد ایک تین شادیاں کی تھیں ، پر اُسے کسی سے ذہنی رفاقت نہیں ملی تھی۔ آخر میں اسے بھاری رقمیں ادا کر کے اور مالی خسارہ اُٹھا کر انھیں طلاق دینا پڑا تھا۔ اُس نے پھر کبھی نکاح تو نہیں کیا تھا البتہ ایک غیر منکوحہ عورت کا شوہر ضرور بنا رہا تھا۔ ثابت ہوا کہ ناقابل برداشت رواج تو دھرے رہ جاتے ہیں اور فطرت اپنی آسودگی کے راستے دھونڈ لیتی ہے۔
(25)بادۂ ہر جام ستارہ نے اپنے خاوند ڈیسائی کے علاوہ پی این ارورا، الناصر اور نذیر سے بھی تعلقات استوار کر رکھے تھے۔ منٹو نے اس جواز کے ساتھ اس کی بھی بخشائش کر دی تھی کہ ’’اُس کی جبلّت ہی ایسی ہے کہ وہ اپنی فطرت کے خلاف نہیں جا سکتی تھی۔ ‘‘ (26)
مختصر یہ کہ منٹو اس بات کے خلاف تھا کہ انسان اپنے فطری تقاضوں سے منہ موڑے۔ اُس نے لکھا ہے:
’’انسان کو انسان ہی رہنا چاہیے، نفس ہزاروں میں ایک دو آدمی ماریں۔ سب نے اپنا نفس مار لیا تو یہ کشتہ کام کس کے آئے گا!‘‘ (27)
تجرّد سے منٹو کی بیزاری کے ثبوت میں اُس کے افسانے ’خالی بوتلیں ، خالی ڈبّے‘ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
منٹو کے فلسفۂ خیرو شر کے کچھ اور پہلوؤں پر نگاہ ڈالنے سے پہلے ایک لطیفہ سنتے چلیے۔ ایک بار پونا میں منٹو کے پاس فلموں میں ہیروئن بننے کی خواہش مند جانکی نام کی ایک عورت آئی تھی۔ منٹو نے اُسے بمبئی کی فلم انڈسٹری کے اپنے دو دوستوں کا پتا دے کر وہاں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تھا۔ جانکی نے اُس سے پوچھا تھا: ’’یہ دونوں کیسے آدمی ہیں ؟ میں نے سنا ہے کہ فلموں میں اکثر آدمی بُرے ہوتے ہیں !‘‘ یہ سُن کر منٹو نے جواب میں کہا تھا کہ ’فلموں میں نیک آدمیوں کی ضرورت ہی کہاں ہوتی ہے!‘ (28)
اُسے لفظ ’اخلاق‘ سے چڑ تھی اور وہ اخلاقی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں کا قائل نہ تھا۔ اپنے ایک کردار کی زبانی کہتا ہے:
’’اخلاق۔ ۔ ۔ رُخِ انسانیت کا غازہ۔ ۔ ۔ اخلاق، اخلاق، اخلاق یعنی چہ؟ یہ نہ کر، وہ نہ کر کی بے معنی گردان! انسان کی آزادانہ سرگرمیوں پر بٹھایا ہوا سفیر! (29)
منٹو کا کہنا تھا کہ آدرش، مذہب اور اخلاق آدمی کی اتنی منجھائی بھی نہ کریں کہ وہ آدمی نہ رہے۔ عیسا، بدھ اور گاندھی کی ریاضت ، نفس کشی اور انسان کو فرشتہ بنا دینے والی اخلاقیات اُسے پسند نہ تھی۔ پسند آ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ تو بشر کو بشر دیکھنا چاہتا تھا۔ فرشتہ بنا کر انسان کو اُس کے مرتبۂ بلند سے گِرانا اُسے گوارا نہ تھا۔ سومرسٹ مام (W. Somerset Maugham)کو منٹو نے اپنا پسندیدہ ادیب بتایا ہے۔ سومرسٹ مام نے ’بدی‘ کے سلسلے میں یوں لکھا ہے:
’’بدی کی تشریح غیر واضح ہے یا خیالی۔ اسے ہمارے کائناتی نظام کے لازمی جُز کے طور پر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ اس سے منہ پھیرنا بچکانہ سی بات ہے اور اس کا رونا رونا بے معنی!‘ ‘ معلوم ہوتا ہے منٹو نے مام کی یہ بات اپنی گِرہ میں باندھ لی تھی۔
بٹوت کے سینی ٹوریم میں جہاں وہ کسی کی عیادت کے لیے گیا تھا، اُس کی ملاقات ایک بنگالی مریضہ سے ہوئی تھی۔ قحطِ بنگال میں بے شمار موتوں کی شاہد اُس عورت نے منٹو سے کہا تھا:
’’یہ کال، قحط، جنگ اور بیماریاں سب واہیات ہیں۔ ۔ ۔ ان سے مر جانا بالکل ایسا ہی ہے، جیسے اوپر سے چھت آگرے، لیکن دل کی ایک جائز خواہش کی موت بہت بڑی موت ہے۔ انسان کو مارنا کچھ نہیں ، لیکن اس فطرت کو ہلا ک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ (30)
شاید منٹو کے کسی کردار کے خیالات کو منٹو کے خیالات پر منطبق کرنا مناسب نہ سمجھا جائے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی فطرت کی آزادی کو منٹو نے اپنی تحریروں میں خاص اہمیت دی ہے۔ کہیں کہیں تو انسان کی فطری خواہشات کی کوئی حد مقرر نہیں ملتی، مثلاً:
اُس نے اپنے زمانے کے موسیقار اور اداکار رفیق غزنوی کی خصلتیں بیان کرتے ہوئے اُسے کمینہ، سفلہ، بے غیرت، خود غرض اور تقریباً ایک درجن طوائفوں سے تعلق رکھنے والا شخص بتایا ہے۔ ان میں سے ایک طوائف کی چار بیٹیوں (مشتری، زہرہ، شیداں اور غالباً ہیراں ) تک سے یکے بعد دیگرے اُس کا ٹانکا لگا رہا تھا۔ خود اپنی بیاہتا بیوی سے جنی بیٹی ظاہرہ سے بھی بقولِ منٹو اُس نے خاوند کا تعلق رکھا تھا۔ وہ رفیق غزنوی بھی منٹو کی نظر میں اوباش نہیں ٹھہرتا۔ اُس کی اُفتاد کو وہ ایک آرٹسٹ کی اُفتاد بتلاتا ہے۔
شاید بہت سوں کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ پتا نہیں منٹو کی لغت میں ’اوباش‘ کے کیا معنی درج تھے! اور شاید رفیق کو بخشا جانا بھی ہم پسند نہ کریں ، لیکن ایسا کرنا ہمارے دائرۂ فکر کے حجابات کی بنا پر ہو گا۔ منٹو انسانی نفسیات اور احساسات کا راز داں ہے اور اِن حجابات کا اسیر نہیں ! ’ستارہ‘ کے خاکے میں اُس نے لکھا ہے:
’’میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ یا تو کوئی آدمی ماحول کے باعث مذمومی حرکات کا مرتکب ہوتا ہے یا اپنی جبلّت کے باعث۔ ‘‘
منٹو کی موت کے کوئی چار دہائی بعد ہالی ووڈ کی ایک فلم Basic Instinct (31)میں سیکس اور کرائم (شہوت اور قتل) کو انسان کی فطری جبلّت کے طور پر پیش کیا گیا تھا، اس فلم کا مرکزی خیال اس لیے بھی قابلِ قیاس لگتا ہے کہ تخلیق کائنات کے اولین افسانے میں گناہِ آدم اور ہابیل کے قتل سے اِن فطری جبلّتوں کی نمود ہو چکی تھی۔ منٹو اردو کا اولین افسانہ نگار ہے جو اپنے دور میں انسان کی فطری جبلّتوں کا رمز شناس بن کر اُبھرا ہے۔
اُس نے اپنے افسانے ’سرکنڈوں کے پیچھے میں سوتیا ڈاہ میں نواب (بائی) کے جسم کی بوٹیاں بنانے والی شاہینہ، ’شہید ساز‘ میں زندہ انسانوں کو اُن کی اعتقادی شہادت کی موت سے ہم کنار کرنے والے کاٹھیاواڑی بنیے، اور ’پڑھیے کلمہ‘ میں اپنی شہوانی مطلب برآری کے بعد اپنے عاشقوں کا گلا گھونٹ کر موت کے گھاٹ اُتارنے والی رُکما بائی جیسے اپنی فطری جبلت سے مجبور کئی کردار پیش کیے ہیں۔ اس لیے حقیقی زندگی میں وہ ستارہ جیسی مرد مار اور رفیق غزنوی جیسے عورت خور کرداروں کی اُفتاد کو زیادہ بہتر سمجھتا تھا۔
فطری جبلّت کو مزید سمجھنے کے لیے میں نے سگمنڈ فرائڈ (Sigmund Freud) سے رجوع کیا تو "The Future of the Illusion” میں یہ ملا کہ ’انسان جس قدر مہذب ہوتا جاتا ہے اپنی جبلّت پر قابو پاتا جاتا ہے، لیکن وہ اسے کبھی بھی پوری طرح قابو میں نہیں کرسکتا۔ ۔ ۔ ۔ مزید یہ کہ تحلیلِ نفسی کے رو سے بچپن سے بلوغت کے عبوری دور میں اُسے نفسیاتی طور پر ایک غیر صحت مند Neuroticمرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے، جہاں اسے اپنی (روایتی تربیت کے ماتحت) جبلّی خواہشات کو دبانا پڑتا ہے۔ چوں کہ وہ ان پابندیوں کو سمجھ نہیں پاتا، اس لیے اُن خواہشات کو لاشعور میں جمع کر لیتا ہے۔ وہ نفسیاتی گرہیں بن جاتی ہیں ، یا تو وہ وقت کے ساتھ ساتھ جوانی تک کھل جاتی ہیں جب اُن کا حل نکل آتا ہے، ورنہ انسان نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔
ہماری چاہت یا نفرت کے پیمانے ہمارے ذہنی رجحانات یا نظریات کے تحت کام کرتے ہیں ، جب کہ منٹو ایک سیر بین یا وقائع نویس کی طرح اپنی فکر و نظر کے محسوسات اور نظاروں کو بے کم و کاست منتقل کرنے کا ہُنر رکھتا ہے۔ وہ کسی کے خوب و زشت کا فیصلہ نہیں کرتا اس لیے کہ وہ کسی آئیڈیالوجی کا پابند نہیں ہے۔ اس کے یہاں نہ رومانویت کا فرار ہے، نہ روحانیت کا فریب، شہوانیت کی بُرائی ہے نہ اخلاقیات کی دُہائی، جابر کی مذمت ہے نہ مجبور کی لجاجت، گناہ کی گرفت ہے نہ نجات کی نوید۔ اور یہی بات منٹو کو دوسرے افسانہ نگاروں سے منفرد بناتی ہے اور ممتاز بھی!
لیکن بُرائی سے منٹو کا یہ رومانس، جس میں اس کی رِندی و سرمستی، شوریدگی و کافری کا بھی کچھ حصّہ ہوسکتا ہے، اُس کے افکار کا ایک نرالا پہلو تو ہے، اُس کے مجموعی فن کا ترجمان نہیں !
اُوپیندر ناتھ اشکؔ نے لکھا ہے کہ منٹو نے اُس کے زُہد، حسابیت، پلاننگ، کفایت شعاری، اور ٹھہراؤ سے نفرت کا اظہار کیا تھا، لیکن اسی منٹو نے اشکؔ کے روبرو اُس سے یہ بھی کہا تھا: ’’I like you though I hate you‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ منٹو کو زندگی میں نظم، سلیقے اور مثبت قدروں کی اہمیت کا احساس تھا۔
منٹو اپنے مضامین اور افسانوں میں جہاں تہاں بکھرے الہیاتی افکار سے فلاسفہ کے اس نظریے کا قائل نظر آتا ہے کہ ’چوں کہ ہمارا جسم اس کائنات کا ایک حصّہ ہے، اس لیے ہماری روح بھی اس کائنات کی روح کا ایک حصّہ ہے۔ جس طرح ساری کائنات ایک پائیدار نظم و ضابطے پر قائم ہے۔ اسی طرح روح کی صحت بھی ایک نظم و سلیقے پر مبنی ہونی چاہیے‘۔ اس کی توثیق اس طرح ہوتی ہے کہ منٹو کے یہاں کائنات کے اجزا کی طرح روح کے اجزا میں بھی کہیں کسی طرح کا خلل واقع ہونے کا اقرار ملتا ہے، اس خلل کو نشان زد کرنے اور نیک و بد کو پرکھنے کا اپنا ایک اندازِ نظر بھی ، لیکن وہ کبھی گناہ و ثواب اور سزا و جزا کی مذہبی اصطلاحوں میں بات تک نہیں کرتا۔ نہ ہی کسی فرد کو محض اس کے شغل یا پیشے کی بدنامی کی بِنا پر جہنم رسید کرتا ہے بلکہ اس کی ذات میں چھپی نیکیوں کے گُہر دھونڈ نکالتا ہے۔
کنگزلے مارٹن کا قول ہے کہ چیزیں صرف اچھی یا بُری نہیں ہوتیں بلکہ بہ یک وقت اچھی اور بُری ہوتی ہیں۔ منٹو کو بھی انسانوں کو سیاہ اور سفید خانوں میں بانٹنا پسند نہ تھا۔ سیاہ اور سفید کے درمیان کہیں Grayشیڈ بھی ہوتا ہے۔ منٹو انسانوں کو وہیں تلاش کرتا ہے۔ مثلاً اُس نے ہندستانی فلموں میں ہیرو کو نیکی اور بہادری کا نمائندہ اور ویلن کو جرم اور گناہ کا پُتلا بنا کر پیش کیے جانے کو ’ایک بہت بڑی گپ‘ (32)بتایا ہے۔ اچھائیوں اور بُرائیوں کو اس طرح الگ الگ کمپارٹمنٹ میں بانٹنے پر اس نے اعتراض کیا تھا کہ یہ بھی کیا بات ہوئی کہ ایک ہیروئن کے دو امیدواروں میں ہیرو کا جذبۂ محبت تو ہمیشہ سچا ثابت ہو اور ویلن کا جھوٹا۔ ویلن سچی محبت کا حامل کیوں نہیں ہوسکتا!
اس لیے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ منٹو اپنے بیشتر کرداروں کی صورت گری میں گناہ و ثواب کے سیاہ و سفید رنگوں کی بجائے سُرمئی رنگ سے اُن کے خدوخال اُبھارنا زیادہ پسند کرتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ سماج کے رد کردہ، گناہ اور گندگی میں گھرے ہوئے کرداروں نے بھی اپنی زندگی میں مثبت قدروں کو کس طرح بچا کر رکھا ہے۔ اُس کے کرداروں کے نگار خانے میں جہاں ہندو ویشیائیں اپنے کمروں میں گنیش اور کرشن کی مورتی کے سامنے اپنی شردھا کے چراغ روشن کرنا نہیں بھولتیں ، وہیں مسلم طوائفیں محرم کی عقیدت میں سیاہ پوش ہو کر اور رمضان کے احترام مںش روزے رکھ کر اپنی نجات کے بہانے ڈھونڈ لیا کرتی ہیں۔ ان ہی میں شاردا جیسی طوائف بے غرض ہو کر گرہستن کا فرض ادا کرنے پر مائل ہے تو سوگندھی اپنے ذلیل پیشے میں بھی اپنی ہتک سہنے کے لیے تیار نہیں۔ سلطانہ جیسی مفلس طوائف بے داموں اپنا دل بھی دے سکتی ہے اور جسم بھی۔ عرب گلی کا وہ خطرناک غنڈہ بھی ہے جو اپنی شلوار کے نیفے میں کھلا خنجر اڑسے پھرا کرتا ہے، لیکن کسی کو انجکشن لگتے ہوئے نہیں دیکھ پاتا۔ اپنی بیسوا بہنوں سے کچھ نہ کچھ اینٹھ کر بسر کرنے والا تھیلا کنجر ہے، جو جلیان والا باغ کے سانحے کے ردِّ عمل میں گوروں سے جا بھڑتا ہے اور جس کا سینہ گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ نادرۂ روزگار سٹیلا جیکسن عرف ممی کا دل نواز، غم گسار، اور راحت رساں کردار بھی ہے، جو ’سعیدہ کاٹج‘ میں ٹھہرے ہوئے فلموں میں کام کے متلاشی کلاکاروں کے ہر در د کی دوا کیے جاتی ہے۔ شراب سے بھی ، لڑکیوں سے بھی اور تیمار دار بن کر بھی ، بغیر یہ دیکھے کہ وہ کس صوبے، دھرم یا ذات کے ہیں۔
منٹو نے اپنے یادگار افسانوں میں جہاں ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کے ذریعے علاقائیت کے خلاف انتہائی سخت پیغام دیا ہے، وہیں طبقہ واریت کے خلاف اپنے شاہکار افسانے ’بُو‘ کے ذریعے بتایا ہے کہ انسان کی فطری اور جبلّی قوتوں کا ملاپ کس طرح طبقاتی فرق کو پرے ڈھکیل دیتا ہے۔ فرقہ واریت سے اُس کی نفرت اور مذہبی رواداری کی مثال میں ’موذیل‘ کو کون بھُلا سکتا ہے۔ اُس یہودن نے ایک سکھ تِرلوچن سنگھ کو بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر دی تھی۔ رفیق غزنوی، بابو گوپی ناتھ اور شیام کے خاکوں میں منٹو کی وسیع النظری، رواداری اور کشادہ ذہنی کے کتنے ہی دل آویز رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ رفیق، منٹو کی شکل و صورت میں ڈھلا ہوا نظر آتا ہے تو بابو گوپی ناتھ کے جسم میں منٹو کی روح سمائی ہوئی ملتی ہے۔ شیام تو گویا منٹو کا ہم زاد بنا ہوا ہے۔
منٹو کے مجموعی فنّی سرمایے میں اگر کوئی فکری و حدت ملتی ہے تو اسے انسان دوستی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا اور یہ وہ مقام ہے جہاں رنگ، نسل، ذات اور مذہب کی حد بندیاں بے معنی ہو جاتی ہیں ، اور فنکار کسی بھی مخصوص م ذہب و عقیدے کے ہالے سے آزاد نظر آتا ہے۔
بمبئی کے ہندو مسلم فسادات دیکھ کر منٹو کا جی جلتا تھا۔ اُس نے ان فسادات کے سطحی اسباب اور عوام کی مذہبی جذباتیت پر اپنے تیکھے انداز مںد اظہارِ خیال کیا تھا۔
’’دو ہندو مسلم فساد اس شہر میں دیکھ چکا ہوں۔ بنائے فساد وہی پُرانی تھی۔ مندر اور مسجد۔ گائے اور سور۔ مندر اور مسجد اینٹوں کا ڈھیر۔ گائے اور سور گوشت کا ڈھیر!(33)
اُن فسادات کے دنوں میں منٹو بمبئی کی فلم انڈسٹری سے منسلک تھا۔ اُس نے لکھا ہے کہ ’وہ اور اُس کے ساتھی جب باہر کسی کام سے نکلتے تھے تو اپنے ساتھ دو ٹوپیاں رکھتے تھے۔ ایک ہندو کیپ اور دوسری رومی ٹوپی۔ جب مسلمانوں کے محلّے سے گزرتے تھے تو رو می ٹوپی پہن لیتے تھے اور جب ہندوؤں کے محلّے میں جاتے تھے تو ہندو کیپ لگا لیتے تھے۔ ‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تقسیم ملک کے زمانے میں فسادات روزمرّہ کا معمول بن گئے تھے ، اور اخبارات کے آخری صفحے پر کرکٹ میچوں کے اسکور کی طرح صفحۂ اول پر ہندو مسلم مقتولین کے اعداد و شمار آیا کرتے تھے۔ منٹو نے کہیں پر ان الفاظ میں اپنا ردِّ عمل ظاہر کیا تھا:
’یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں۔ یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔ ‘‘
جس فنکار کی نظر میں انسانوں کے مذہب و عقیدے کی وابستگیاں مرتبۂ انسانیت کے آگے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ، اُس کے قد و قامت پر کسی بھی بندھے ٹکے نظریے یا اخلاقیات کا جامہ موزوں نہ بیٹھے گا اور کسی بھی ٹیلر میڈ مذہب یا عقیدے کی قبا تنگ ہی ثابت ہو گی۔ غالباً یہ بھی ایک اہم وجہ ہے کہ آج منٹو کو اردو دنیا میں ہمہ گیر مقبولیت حاصل ہے۔ کیا آپ نے اور ہم نے نہیں دیکھا جس منٹو کو کبھی ترقی پسندوں نے رد کر دیا تھا بعد میں وہی اُسے سر آنکھوں پر بٹھانے پر مجبور ہوئے۔ ترقی پسندوں کے حریف جدیدیوں نے بھی اُسے اپنا سمجھا اور مابعد جدیدیت والے بھی اس سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں !
***

مآخذ

 

1) منٹو کی ایک خودنوشت قلمی تحریر کی بازیافت سے اب یہ مانا جا رہا ہے کہ منٹو کی پیدائش سمرالہ لدھیانہ میں نہیں بلکہ امرت سر میں ہوئی تھی۔ یہ تحریر جریدہ ’دریافت‘ شمارہ نمبر 4، اسلام آباد، کے بموجب ڈاکٹر سیّد معین الدین کے ذخیرۂ نوادر میں محفوظ ہے۔
2) منٹو کے والد کے عقد ثانی کو خاندان میں پسند نہیں کیا گیا تھا اور پھر سردار بیگم خاندان سے باہر کی تھیں۔ بحوالہ : ’سعادت حسن منٹو‘، از: ڈاکٹر علی ثنا بخاری، اڈیشن 2006ء ص : 14
3) ’بلونت سنگھ مجیٹھیا‘ ، مشمولہ : ’منٹو کے افسانے‘ جلد اوّل۔ ص : 400، نیز منٹو کے میٹرک میں تین مرتبہ فیل ہونے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیے ’’سعادت حسن منٹو‘ ‘ از ’ ڈاکٹر علی ثنا بخاری‘ ، ص : 18
4) ’آغا حشر سے دو ملاقاتیں ‘ مشمولہ ، ’منٹو کے خاکے‘ ، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 61
5) ’باری صاحب‘ ، مشمولہ ، ’منٹو کے خاکے‘ ، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص : 139
6) ’قتل و خوں کی سُرخیاں ‘ مشمولہ : ’منٹو کے مضامین ‘ ، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف، ص: 309
7) ’سوراج کے لیے‘ ، مشمولہ، ’منٹو کے افسانے‘ ، جلد دوم ، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 1156
8) ’سڑک کے کنارے‘ ، مشمولہ : ’منٹو کے افسانے ‘ جلد دوم، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص 1129
9) ’ہندستان کو لیڈروں سے بچاؤ‘، مشمولہ : ’منٹو کے مضامین‘ ، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 462
10) ’لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں ؟‘ مشمولہ : ’منٹو کے مضامین‘ ، ص: 358
11) ’ٹوٹو‘ ، مشمولہ : ’منٹو کے افسانے‘ جلد اوّل، مرتبہ: ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 638
12) ’چراغ حسن حسرت‘ مشمولہ : ’منٹو کے خاکے‘ مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 217 ] چراغ حسن حسرت کا ایک مزاحیہ مضمون (یا پیروڈی) ’پنجاب کا جغرافیہ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ [
13 ) ’منٹو کے خطوط‘ ، مرتبہ : محمد اسلم پرویز۔ ص: 46
14) ’سوراج کے لیے ، مشمولہ : منٹو کے افسانے‘ ، جلد دوم، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 1175
15) ’کبوتر والا سائیں ‘ مشمولہ: منٹو کے افسانے‘ ، جلد سوم، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف
16) ’باری صاحب‘ مشمولہ ، ’منٹو کے خاکے‘ ، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص : 131-139
17) ’چچا سام کے نام تیسرا خط‘ ، مشمولہ، ’منٹو کے مضامین، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 158
18) ’چچا سام کے نام آٹھواں خط‘ مشمولہ، ’منٹو کے مضامین‘ مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص : 182
19) ’چچا سام کے نام چوتھا خط، مشمولہ ، ’منٹو کے مضامین ‘ ، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص : 160
20) مشمولہ ، ’منٹو کے مضامین‘ مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 78
21) عصمت فروشی، مشمولہ : ’منٹو کے مضامین‘ مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 289
22) ’شریف عورتیں اور فلمی دنیا‘ مشمولہ : ’منٹو کے مضامین‘ ، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 276
23) ’خط اور اُس کا جواب ‘ ، مشمولہ : ’منٹو کے افسانے ‘ جلد دوم، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص : 884
24) ’عصمت چغتائی‘ ، مشمولہ : ’منٹو کے خاکے‘ مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص : 284
25) ’نور جہاں ‘ ، مشمولہ : ’منٹو کے خاکے‘ ، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 390
26) ’ستارہ‘ ، مشمولہ : ’منٹو کے خاکے ‘ ، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف
27)’سوراج کے لیے‘ ، مشمولہ : ’منٹو کے افسانے‘ جلد دوم، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 1172
28) ’جانکی‘ ، مشمولہ: ’منٹو کے افسانے‘ جلد دوم، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 683
29) ’نیا سال‘ مشمولہ : ’منٹو کے افسانے‘ جلد سوم، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص: 2008
30) ’پانچ دن‘ ، مشمولہ : ’منٹو کے افسانے ‘ جلد اول ، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ 464
31) Paul Verhoeven کی ڈائرکشن سے سجی اس فلم کے مرکزی کردار مائیکل ڈگلس (پولس ڈیٹکٹیو) اور شیرون اسٹون (مشتبہ حسینہ) نے ادا کیے تھے اور یہ اپنے وقت کی ایک ہنگامہ خیز فلم ثابت ہوئی تھی۔
32) ’ہندستانی صنعت فلم سازی‘ مشمولہ : ’منٹو کے مضامین‘ ، مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف، ص :479
33) ’باتیں ‘ مشمولہ : ’منٹو کے مضامین‘ مرتبہ : ڈاکٹر ہمایوں اشرف، ص: 90,92

(یہ مقالہ ’سعادت حسن منٹو صدی‘ کے موقع پر ساہتیہ اکادمی دہلی کے (نومبر 2012ء میں ) منعقدہ سہ روزہ انٹرنیشنل سیمی نار میں پڑھا گیا تھا)
٭٭٭

ملے جُلے ہیں عذاب و ثواب کے مفہوم
منٹو کا تصورِ مذہب و اخلاق‘ – مزید)

 

اِس دنیائے آب و گِل کو رزم گاہِ خیرو شر بھی کہا گیا ہے، اس لیے کہ اس کی تمام گہما گہمی اور رونقیں خیرو شر کی کشمکش ہی سے قائم ہیں۔ ذرا غور کیجیے! ابتدائے آفرینش سے دنیا کے تمام پیغمبروں اور اُن کی مقدّس تعلیمات کا منتہائے مقصود آدمِ خاکی کو خیرو شر اور عذاب و ثواب کے مضمرات سے آگاہ کرنا ہی رہا ہے۔ اسی طرح تمام مصلحین، مفکرین اور دانش وروں کی مساعیِ فکر اور ادیبوں اور نکتہ سنجوں کی رسائیِ طبع کا ایک اہم مقصد اپنی اپنی بساط پر خیرو شر کی گتھیوں کو سلجھانا بھی رہا ہے۔ ذرا دیکھیے! ہمارا شاعرِ خوش نوا بھی یہی پیغام سُنا رہا ہے:
مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھاے جاتے ہیں
ایسے میں اپنی زبان کے کسی فنکار کے تصورِ مذہب و اخلاق یا فلسفۂ خیر و شر پر گفتگو کرنے کے لیے میں کسی معذرت کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ منٹو پر بالخصوص اس لیے بھی نہیں کہ اُس کی نگارشات تو اُس کے دور ہی سے بحث و توجہ کا مرکز بنی رہی ہیں۔ فی زمانہ اس بحث کا ایک دل چسپ موڑ یہ ہے کہ کل جن عناصر کے لیے اخلاق کی دہائی دے کر منٹو کو ناپسند کرنا آسان تھا، آج اُن کے لیے منٹو کو پسند نہ کرنا دشوار ہے تو وہ اخلاقیات کی بحث ہی کو درکنار کرنے کی دہائی دے رہے ہیں !
میری سمجھ میں نہیں آتا ہم اپنے دور کے مقبول ترین مصنف کے فکر و فن کے اس پہلو سے نظریں کیوں چرائیں۔ میرے اس مقالے کا مقصد منٹو کے تصورِ مذہب اور نظریۂ خیر و شر کو بلا کم و کاست بیان کر دینا ہے بس!
منٹو مروّجہ مذہبی قدروں کا اتنا قائل نظر نہیں آتا جتنا کہ ناقد اور باغی، یہی وجہ ہے کہ اُس کے یہاں مذہب اور مذہبیت پر طنز و تنقید میں پچاسوں صفحات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ طالب علمی کے زمانے میں اُس کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشکیل دی ہوئی ’فری تھنکرس سوسائٹی‘ زیادہ دِنوں قائم نہ رہ سکی تھی، لیکن فکری اعتبار سے منٹو ساری زندگی فری تھنکر ہی بنا رہا تھا۔
فری تھنکر یا آزاد خیال کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ جو شخص مذہب کے مسلّمہ عقائد اُس صورت میں قبول نہ کرے، جس طرح مذہبی رہ نما پیش کرتے رہے ہیں اور وہ خدا اور زندگی کی معنویت کے بارے میں مروّجہ عقائد سے ہٹ کر اپنی خود فہمیدہ رائے رکھتا ہو۔ پہلے پہل 18ویں صدی میں یورپ کے منکرین کے لیے یہ اصطلاح استعمال ہوئی تھی۔ مسلمانوں میں معقولی اور معتزلی لوگوں کو اسی قبیل کا سمجھا جاتا رہا ہے۔
اُن لوگوں سے منٹو کے فکر و فن کے آزادانہ مطالعے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے، جنھوں نے منٹو کے ذریعے اپنی ہر تحریر کے آغاز میں 786لکھے جانے کے اقرار میں نہ صرف اُس کے معلوم و معروف افکار سے انکار کی دلیلیں تراش لی ہیں بلکہ بزعمِ خود اُس کی نجاتِ اُخروی کے اشارے بھی پالیے ہیں۔ اُن لوگوں کی یتیم العقلی پر تو اور سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے جنھوں نے انکل سام کے نام لکھے منٹو کے خطوط اور ایسے دسیوں مضامین سے قطع نظر کرتے ہوئے محض منٹو کے ہجرتِ پاکستان کے واقعے کو بنیاد بنا کر اپنے مذموم سیاسی اور مذہبی رجحانات کی تقویت کا سہارا ڈھونڈ لیا ہے۔ اب منٹو کی موت کے اٹھاون برسوں بعد سُنا ہے کہ خود اُس کے اقربا اُسے نشانِ امتیاز کا شایاں اور اپنی اغراض کا درماں بنائے رکھنے کے لیے اُس کی شخصیت کے بارے میں غیر حقیقی اور مصلحت پسندانہ بیانات دیتے پھر رہے ہیں۔
منٹو نے اپنے دوست بلونت گار گی سے کہا تھا:
’’میرے دوست پوچھتے ہیں میں پاکستان کیوں جا رہا ہوں ؟ کیا میں ڈرپوک ہوں ؟ مسلمان ہوں ؟ لیکن وہ مِرے دل کی بات نہیں سمجھ سکتے۔ میں پاکستان جا رہا ہوں تاکہ وہاں ایک منٹو ہو، جو وہاں کی سیاسی حرام زدگیوں کا پردہ فاش کرسکے۔ ہندستان میں اردو کا مستقبل خراب ہے۔ اب تو ہندی چھا رہی ہے۔ میں لکھنا چاہتا ہوں اور اردو میں لکھ سکتا ہوں۔ چھپنا چاہتا ہوں تاکہ ہزاروں تک پہنچ سکوں۔ ۔ ۔ ‘‘ (1)
جب منٹو نے پاکستان میں ادب اور فنونِ لطیفہ کے فروغ میں مذہبی تنگ نظری کے مظاہرے دیکھے اور جب ریڈیو اور اخبارات نے اُس کا حقّہ پانی بند کر دیا تھا تو منٹو نے کہا تھا ’’مذہب اگر اِسی کا نام ہے تو میرا اسے دُور ہی سے سلام۔ میں لنڈورا ہی بھلا۔ ‘‘ (2)
منٹو کی تحریروں کے آغاز میں 786کے استعمال کی نوعیت اُسی طرح کی ہے، جیسی کہ ایک مشہور لطیفے میں پیر علائی کی ملازمہ کے ذریعے کچن میں ہر صبح غیر ارادی طور پر یہ حمد گنگنانے کی:
اے خدا تو پاک ہے بے عیب ذات
تیری سی کِس میں بھلا ہوں گی صفات
جب ملازمہ نے پیر علائی کا ناشتہ لگایا تو اُنھوں نے خوش ہو کر کہا ، ’’بیٹی، شاید تُم روزانہ یہ حمد گنگناتی ہو؟‘‘
’’جی ہاں مالک، آدھا انڈا اُبالنے کے لیے تین بار اور پورا اُبالنے کے لیے پانچ بار!‘‘ یہ ملازمہ کا جواب تھا۔
منٹو نے اپنی ذات پر جو خاکہ لکھا ہے(3)، اُس میں بھی خدا سے اپنی کسی عقیدت کا اظہار نہیں کیا ہے۔ بس فکاہیہ انداز میں 786لکھ کر کاغذ پر اپنے مومن بن جانے کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا ہے کہ ’یہ ایک کاغذی منٹو ہے، ورنہ وہ (اصل منٹو) تو لوہے کے ہتھوڑے سے بھی ٹوٹنے والا آدمی نہیں۔ ‘ اُس کے ایک افسانے ’میرا نام رادھا ہے‘ کی مرکزی کردار رادھا اپنے اصل نام کو اسکرین کے لیے موزوں نہیں سمجھتی اور اپنا فلمی نام ’نیلم‘ رکھ لیتی ہے۔ وہاں منٹو نے یہ وضاحت ضروری سمجھی ہے کہ ’وہ کوئی مذہبی خیال کی عورت نہیں تھی۔ اُسے مذہب اور اُس کے توہمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ‘ نیلم کے عمل کو ’غیر ارادی‘ قرار دیتے ہوئے منٹو نے مزید لکھا ہے کہ ’یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ وہ خود اپنی ہر تحریر کے آغاز میں (غیر ارادی طور پر) بسم اللہ کے عدد لکھ دیا کرتا ہے۔ ‘(4)
منٹو نے برّصغیر کے مسلمانوں کے مذہبی جوش و جنون کو اپنے ایک افسانے (5) میں مصطفا کمال اتاترک کے ایک ماتمی جلسے کے حوالے سے بخوبی آشکار کیا ہے، جہاں حاضرین جلسہ نے مقرر کی ان باتوں پر تو ’اِسلام زندہ باد‘ کے خوب نعرے لگائے کہ مرحوم اتاترک نے کس طرح انگریزوں سے لوہا لیا اور ترکی کو پامال ہونے سے بچا لیا، لیکن جب ترکی کی نشاۃ الثانیہ کے لیے کمال کے ان اقدامات کا ذکر آیا کہ اُس نے کس طرح ترکی کو زوال پذیر کرنے والی مُلّائیت کو کچلا، تعلیم کو عام کیا اور ترکی میں عہد جدید کے تقاضوں کے تحت روشن خیالی کو راہ دی تو مجمع نے اُس مقرر پر سنگ باری شروع کر دی۔ اگرچہ وہاں یہ زخمی ہو کر گر پڑا تھا، لیکن منٹو کے دوسرے افسانوں میں یہ مقرر روپ بدل بدل کر جلوہ گر ہوتا رہا ہے۔ یہ منٹو کے افسانے ’سہائے‘ کا ممتاز بھی ہے اور ممتاز کے بیان کردہ قصّے کا سہائے بھی۔ کہیں پر یہ ’دیوانہ شاعر‘ کا انقلابی ہے تو کہیں ’انقلاب پسند‘ کا سلیم۔ کہیں یہ ’یزید‘ کا کریم داد ہے تو کہیں ’دیکھ کبیرا رویا‘ کا کبیر، اور کبھی یہ پونے کی پب مالکہ اسٹیلا جیکسن عرف ’ممّی‘ بن گیا ہے۔
ان سب کرداروں کے پیغام کا سَت بھی اُس مقرر سے بہت الگ نہیں ہے اور انجام بھی! ممتاز مذہبی تنگ نظری کی بِنا پر ہندستان چھوڑ رہا ہے تو اسی تنگ نظری اور منافرت کا نشانہ بنے سہائے کا جاں بہ لب وجود بمبئی کی ایک سڑک کے کنارے پڑا ہے۔ انقلابی شاعر کو دیوانہ قرار دیا گیا ہے تو سلیم کو اُس کی تلخ نوائی کے سبب پاگل خانے میں بھیج دیا گیا ہے۔ کبیر اپنی حق بانی کی وجہ سے کمیونسٹ اور ففتھ کالمسٹ کہلایا ہے تو کریم داد کو بھی اپنی راست مزاجی کی داد کی جگہ بیداد ملی ہے اور ہر کسی کی غم گسار ممّی کو شہر کی پولس نے ناپسندیدہ قرار دے کر شہر بدر کر دیا ہے۔
جگدیش چندر وَدھاوَن نے ستّر برس کی عمر میں منٹو پر لکھی اپنی کتاب میں اُس کی شخصیت اور فن کے تعلق سے کافی اہم معلومات اکٹھا کر دی ہیں۔ اُنھوں نے منٹو کے مذہبی رویّے کے بارے میں لکھا ہے:
’’منٹو کو پڑھنے کے بعد ہم لامحالہ اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ منٹو کی نظروں میں مذہب کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ منٹو کی بساط پر سب مہرے انسان ہیں۔ ان کا کوئی مذہب نہیں۔ وہ ہندو ہیں نہ مسلمان نہ عیسائی۔ ۔ ۔ وہ اوّل و آخر انسان ہیں۔ ‘‘ (6)
اُنھوں نے توجہ دلائی ہے کہ منٹو نے اپنے افسانوں میں بِلا لحاظ مختلف المذہب کردار پیش کیے ہیں۔ مثلاً ’ہتک‘ کی سوگندھی (ہندو)، ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ (سکھ)، ’موذیل‘ (یہودی)، ’کالی شلوار ‘ کی سلطانہ(مسلم)، اور ’ممّی‘ (کرسچن)‘ وغیرہ۔ اتنا ہی نہیں اُس کی کہانیوں کے ثانوی کرداروں میں بھی یہی رنگا رنگی موجود ہے۔ سلطانہ کا ٹانکا شنکر سے بھِڑا ہے۔ موذیل ترلوچن سنگھ پر فدا ہے۔ بابو گوپی ناتھ کا مصاحب سینڈو ہے اور داشتہ زینت تو ’شاردا‘ کا عاشق نذیر ہے۔ رندھیر جس گھاٹن لڑکی کی ’بو‘ سے مدہوش ہے وہ عیسائی ہے۔ ’ممّی‘ کے گاہکوں میں ہندو، مسلم، سکھ ، عیسائی گویا سارا ہندستان شامل ہے۔ ’سڑک کے کنارے‘ کی عورت کا کوئی مذہب نہیں ، وہ حوّا کی بیٹی ہے بس۔ (7) ان کرداروں کو کبھی کہیں تو کبھی کہیں حالات کا جبر یا جبلّی تقاضے اِکٹھا کر دیتے ہیں اور یہ اپنی کسی نہ کسی داستان کا نقش اپنی یاد گار چھوڑ جاتے ہیں۔
اہلِ ادب واقف ہیں کہ اقبال اور نتشے انسان کو (بالترتیب) خیر البشر اور فوق البشر سے کم درجے کا بنا کر چھوڑنا نہیں چاہتے، لیکن منٹو انسان کو اُس کی اچھائیوں اور برائیوں ، خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ اُسے ’بشریت‘ اپنی اصلی فطرت میں عزیز ہے۔
خلیل جبران کی گولڈن لائنس میں کہیں درج ہے کہ ’درحقیقت نیک شخص وہ ہے جو اپنی ذات سے اُن لوگوں کو الگ نہیں کرتا جنھیں دنیا بُرا سمجھتی ہے۔ ‘ اُس نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’گناہ، انسان کی حاجت کا دوسرا نام ہے یا اُس کی بیماری کی کوئی صورت۔ ‘ (8)
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ منٹو کے کرداروں میں طوائفوں ، نائیکاؤں ، دلالوں ، اوباشوں ، غنڈوں ، شہدوں ، چپڑقناتیوں ، زوال پذیر رئیسوں ، نودولتیوں ، فلمی کلاکاروں ، سادیت پسندوں ، پیروں فقیروں ، اوہام پرستوں ، فسادیوں ، مغویہ و محبوس عورتوں ، پان اور شراب فروشوں اور تانگے رکشے والوں جیسے متمّدن سماج کے ناپسندیدہ یا حاشیے پر کر دیے گئے کرداروں کا میلہ سا لگا ہے۔ یہ تمام کردار اپنی تمام تر کم زوریوں اور کج رویّوں کے باوجود منٹو کو پسند ہیں۔ اُس نے لکھا ہے کہ سماج کے رد کردہ یہ لوگ بھی ہمارے اسی متمدن اور مہذب سماج کے زائیدہ ہیں اور اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ ابھی ہمارا سماج پوری طرح متمدن نہیں ہوا ہے۔ اگر انسانی معاشرہ اس قابل نہیں کہ ایسے لوگوں کے درد کا درماں کرسکے تو اُسے انھیں رد کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ لوگوں کی جن کمزوریوں سے ہم نفرت کرتے ہیں ، وہ اُن کی کمزوریاں نہیں محرومیاں ہیں اور ضرورت اُن کا مداوا کرنے کی ہے۔
منٹو نے اپنے افسانوں کے علاوہ اپنے کئی مضامین ، مثلاً: ’چھیڑ خوباں سے چلی‘ ، ’شریف عورتیں اور فلمی دنیا‘، ’عصمت فروشی‘ ، اور ’گناہ کی بیٹیاں ، گناہ کے باپ‘ میں ایسے کرداروں خاص طور پر نسوانی کرداروں کے مسائل پر تفصیل سے لکھا ہے اور بتایا ہے کہ عصمت فروشی کا بدنام پیشہ تک کوئی خلافِ عقل یا خلافِ فطرت فعل نہیں ہے۔ بقول منٹو معاشی نابرابری ، صنفی امتیاز اور کمزوروں کے استحصال سے انسانی تاریخ بھری پڑی ہے، یہی وجہ ہے کہ عصمت فروشی، شراب نوشی، گداگری جیسی خرابیوں کا مکمل انسداد انسانی تاریخ کے کسی دور میں بھی نہیں ہوا اور نہ کسی آیندہ دور میں ہو گا۔ (9)ان برائیوں سے کراہیت یا نفرت سے منہ موڑنے سے کام نہیں چلے گا، ضرورت اُن کی جڑ، بنیاد کو ڈھونڈنے اور اُن حالات و اسباب کو بدلنے کی ہے، جن میں یہ پنپتی ہیں اور پھر ہمارا معاشرہ یہ بھی نہ بھولے کہ اُس کی نام نہاد عظمتوں اور نیک کرداریوں کی چمک دمک بھی ان ہی کے دم سے قائم ہے۔
منٹو نے اپنی نگارشات میں جہاں بھی خیرو شر پر بحث کی ہے اور بینِ سطور میں بھی جو کچھ کہنے کی کوشش کی ہے، اس میں اِس حد تک آزاد خیالی کا مظاہرہ کیا ہے کہ کئی مقامات پر وہ بہت سے سلیم الطبع حضرات کو گراں گزر سکتی ہے، لیکن ہم مجبور ہیں کہ منٹو کو معروضیت کے ساتھ وہ جیسا ہے اُسی طرح پیش کر دیں ، نہ یہ کہ اپنی پسند ناپسند کے سانچیں میں ڈھالیں یا اُس کے ساتھ دور دراز کی نسبتیں ڈھونڈیں۔ آیندہ سطور سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی غلط ہو گا کہ منٹو کی ہر فکر سے ہمارا کوئی اتفاق ہے۔
منٹو اِس رزم گاہ خیر و شر میں دونوں ہی کی اہمیت کا قائل ہے۔ لگتا ہے اِس کروکشیتر میں اُس نے کرشنا کی طرح اپنی قوت اور وجود کو دونوں ہی خیموں میں منتقل کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ’شر‘ کے وجود اور جذبۂ مقاومت کو بھی جائز قرار دیتا ہے اور اُسے ایک لازمی حقیقت تسلیم کرتا ہے۔ گذشتہ مضمون میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ اُس نے دس نمبریوں اور طوائفوں کی ٹریڈ یونینیں قائم ہونے کی خبریں سُن کر کس طرح اُن کی پذیرائی کی تھی اور اپنے مسائل کے لیے اُن کے اتحاد کی حمایت کی تھی۔ ایک جگہ رقم طراز ہے:
’’جس طرح انسان کے جسم میں بیماری کے جراثیم علاج کی مدافعت کرتے ہیں ، اسی طرح معاشرے میں انسانوں کے عیوب بھی اپنی زندگی کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور پوری قوت سے ان حملوں کا مقابلہ کرتے ہیں ، جو اُن کے خلاف کیے جاتے ہیں۔ سانپ بڑا موذی جانور ہے، لیکن جب اُس کی جان پر حملہ ہوتا ہے تو وہ اُسے بچانے کے لیے ضرور کوشش کرتا ہے۔ ہم اُس کوشش کو قابلِ مواخذہ قرار نہیں دے سکتے۔ ‘‘ (10)
منٹو نے نیکی کے وجود کی شناخت کے لیے بدی کے وجود کو بھی زندگی کا ایک لازمی جز تسلیم کیا ہے اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اُس نے کہیں کہیں اُس کے ترجمان کا فرض بھی ادا کیا ہے اور وہ بھی ایک استقلال اور اصرار کے ساتھ۔ اپنے اس طرزِ عمل میں وہ ہمیں عروس البلاد کے ایک شاعر کا ہم نوا نظر آتا ہے ؎
ابلیس کو میں اپنے نکالوں گا کس طرح
یہ کام آج تک تو خدا بھی نہ کرسکا!
(احمد سوزؔ)
اُس نے جہاں کہیں بھی خیرو شر کا ذکر کیا ہے۔ مذہبی عقائد کے اہرامی تصورات سے آزاد ہو کر بات کی ہے۔ ایک جگہ تحریر کیا ہے:
’’اخلاقی بے راہ روی ایک دل چسپ موضوع ہے۔ میں اس کے بارے میں سوچتے سوچتے پریشان ہو گیا ہوں ، لیکن اب اس پر غور کرنے کے راستے نکل آئے ہیں۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ انسان کا جانور سے موازنہ کیا جائے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ انسان کا خدا سے موازنہ کیا جائے۔ پہلا راستہ سائینسی ہے، کیونکہ ہم جانوروں کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں ، جب کہ خدا کے بارے میں کم۔ ۔ ۔ انسان اور پروٹوزم کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ‘‘ (11)
ظاہر ہے کہ یہ کوئی بصیرت افروز بات نہیں ہے، لیکن وہ ہمیں خیرو شر کو ایک نئے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی دعوت ضرور دیتا ہے۔ وہ اس بات کا اظہار کرتا رہا ہے کہ وہ ادب (کے کتابی تصّور) سے بہت دور اور زندگی سے قریب تر رہا ہے۔ اسی لیے اُس نے زندگی کے ایسے رنگ بھی دیکھے اور دکھائے ہیں ، جن میں کچھ خیر و شر کی حد بندیوں سے باہر معلّق نظر آتے ہیں تو کچھ ایک دوسرے کے پالے میں آتے جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اُس نے عصمت کے سامنے رفیق غزنوی کی ہمہ رنگ شخصیت کا کئی بار ذکر کیا تھا اور اُسے ایک ’شریف لفنگا‘ بتایا تھا۔ عصمت نے زچ ہو کر منٹو سے کہا تھا کہ ’وہ لفنگے آدمی کو جانتی ہے یا شریف آدمی کو۔ یہ شریف لفنگا کیا ہوتا ہے، نہیں سمجھ سکتی۔ ‘ جو بات عصمت نہیں سمجھ سکی تھی، اُسے جب منٹو نے رفیق غزنوی سے ملایا تو اُس کی سمجھ میں آ گئی اور عصمت کو اعتراف کرنا پڑا کہ منٹو کتنا بڑا مردم شناس ہے۔ دراصل وہ نیک و بد کے اکہرے تصورات سے ہٹ کر نیکی اور بدی کے اشتراک سے گندھی سرشتِ انسانی کو سمجھنے اور انسان کی باطنی پیچیدگیوں کو پہچاننے کی نظر رکھتا تھا، جیسا کہ فراقؔ نے بھی کہا ہے ؎
مِلے جُلے ہیں عذاب و ثواب کے مفہوم
رموزِ عشق ہیں اے شیخ، دینیات نہیں !
منٹو نے اپنے ایک کردار کی زبانی کچھ اس طرح کی بات کہی ہے کہ ’درست آخر ہوتا کیا ہے؟ وہی جِسے ہم درست مان لیں۔ اسی طرح اپنی غلطیوں کو آیندہ درستیوں میں اور درستیوں کو غلطیوں میں تبدیل کر کے کوئی بھی حسبِ منشا اپنے کردار کو جائز ٹھہرا سکتا ہے۔ (12) اُس کا نظریہ یہ تھا کہ معاشرے میں اچھائی اور بُرائی کو پرکھنے کی کوئی ایک کسوٹی نہیں ہے۔ مذاہب کی بھی اپنی اپنی میزان ہے۔ ایسا دھرم کانٹا کوئی نہیں جس میں ہندو ، مسلم، عیسائی اور یہودی سب کے اعمال و عقائد تُل سکیں۔ (13) اور پھر معاشرت کا فرق، طبیعی اختلاف، سیاست کے نشیب و فراز، زمانے کے مصالح انسانی قدروں کو زیرو زبر کرتے رہتے ہیں ، اس لیے نہ تو انسان کی ہر حرکت و عمل کو اخلاقیات کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اخلاقیات کے جا مد اور دائمی اصول بنائے جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مختلف معیار اور مظاہر عام ہیں۔
اِس سلسلے میں یہاں بہ روایت احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی کے بیان کردہ ایک قصّے کا ذکر بے محل نہ ہو گا۔ (14) منٹو نے ایک افسانہ بعنوان ’نُطفہ‘ لکھا تھا۔ کسی نے لاہور میں خان غلام محمد خان لنڈخوار سے کہہ دیا کہ وہ افسانہ منٹو نے اُس کے خلاف لکھا ہے اور اِس میں اُس کی بُرائی کی گئی ہے۔ وہ پٹھان بھلا اسے کیسے برداشت کرتا! اُس نے قاسمی سے منٹو کا پتا معلوم کیا اور بیڈن روڈ پر اُسے ڈھونڈنے نکل پڑا۔ اتفاق سے منٹو اُسے اُسی روڈ پر آتا مل گیا۔ پٹھان نے اُسے روک کر سوال کیا: ’میں نے سُنا ہے تم نے میرے خلاف افسانہ لکھا ہے؟‘ منٹو نے جواب دیا: ’خان صاحب، آپ کے خلاف کہاں لکھا ہے، آپ کے بارے میں لکھا ہے۔ ‘ پٹھان نے پوچھا: ’کیا لکھا ہے؟‘ منٹو نے کہا: ’بس یہی لکھا ہے کہ شراب پیتے ہیں اور عورت بازی کا شوق ہے۔ ‘ پٹھان نے مزید پوچھا: ’اور تو کچھ نہیں لکھا!‘ منٹو نے کہا: ’بالکل نہیں۔ ‘ اور وہ پٹھان ’پھر تو کوئی بات نہیں ‘ کہہ کر اُسے پینے پِلانے کے لیے اپنے گھر لے گیا تھا۔
قاسمی منٹو کا بہت ہی قریبی دوست تھا، لیکن منٹو نے اس پر کوئی خاکہ نہیں لکھا۔ جب ایک بار منٹو کے ایک شناسا نے اس کی وجہ دریافت کی تھی تو منٹو نے جواب دیا تھا: ’’احمد ندیم قاسمی بے حد شریف آدمی ہے، بھلا اُس پر کیا لکھا جا سکتا ہے!‘ (15) منٹو کا خیال تھا کہ جس شخصیت کا خاکہ لکھا جائے اُس میں کوئی کجی یا خامی بھی ہونی چاہیے۔ منٹو نے اپنے لکھے خاکوں کے لیے جن شخصیات کا انتخاب کیا ہے، اُن میں اپنے اسی اُصول کو ملحوظ رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیں آج بھی اتنے دل چسپ اور زندگی سے قریب لگتے ہیں۔
مذکور الصدر تک تو غنیمت ہے، لیکن بُرائی سے اپنے رومانس میں کہیں کہیں منٹو کے فن میں منفیت پسندی اتنی تجاوز کر جاتی ہے کہ وہ devil’s advocateبنا نظر آتا ہے۔ اُس کے کتنے ہی افسانے اُس کی حقیقی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کے زائیدہ ہیں اور کچھ کے کرداروں میں وہ خود بھی شامل ہے۔ (16) ایسا ہی ایک افسانہ ہے، ’ساڑھے تین آنے‘، جس میں دو مجرموں کا ماجرا ہے۔ ایک پھگّو بھنگی جو اپنی انتہائی مجبوری میں ساڑھے تین آنے چُرانے کے جرم میں حوالات میں بند ہے اور دوسرا رضوی، جو اپنے چلتّر سے قتل کرنے کے بعد بھی آزاد گھوم رہا ہے۔ اُس نے اپنا فلسفۂ جرم منٹو کے سامنے جس طرح بیان کیا، دراصل وہ بیان ہی افسانے کا بنیادی حصّہ ہے:
’’ہر جُرم کے پیچھے ایک ہسٹری ہوتی ہے۔ زندگی کے واقعات کا ایک بہت بڑا ٹکڑا ہوتا ہے۔ میں نفسیات کا ماہر نہیں ہوں ، لیکن اتنا جانتا ہوں کہ میں نے بڑی ایمانداری سے قتل کیا تھا اور میرا خیال ہے کہ پھگّو بھنگی نے بھی بڑی ایمان داری سے ساڑھے تین آنے چرائے تھے۔ مرسی سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ ایمان داری کو صرف اچھی باتوں سے کیوں منسوب کرتے ہیں اور سچ پوچھیے تو میں اب یہ سوچنے لگا ہوں کہ اچھائی اور بُرائی ہے کیا! ایک چیز آپ کے لیے اچھی ہوسکتی ہے، میرے لیے بُری۔ ایک سوسائٹی میں ایک چیز اچھی سمجھی جاتی ہے اور دوسری میں بُری۔ ‘‘
منٹو کے اس نقطۂ نظر کے اشارے پچھلی سطروں میں بھی ملتے ہیں ، دراصل منٹو کی یہ تراوشِ فکر کچھ اِسی طرح کی بات ہے، جسے ہمارے دور کے ایک شاعر نے اِن لفظوں میں بیان کیا ہے ؎
سب ہی مقتول کے اندوہ میں کھو جاتے ہیں
دستِ قاتل کا ہُنر یاد کسے رہتا ہے!
ظاہر ہے کہ ’ایمان داری سے کیے گئے قتل‘ یا ’دست قتل کے ہُنر‘ اور ایمان داری سے کئی گئی بے ایمانی (یا چوری) کی داد طلبی اور ایک مجرمانہ ذہنیت کے تحت کسی سوسائٹی میں اُن کے لیے پسندیدہ مقام کی آرزو محض چونکانے والی باتیں ہیں۔ یہ باتیں کسی سوسائٹی کے نظام کا حصّہ بن سکتی ہیں نہ اِن میں کوئی فکری سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ منٹو کی بہ نسبت فرائڈ (Sigmund Freud) نے جرم کو مذہب و عقیدے کی لاگ سے ہٹا کر زیادہ بہتر ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ اُس نے لکھا ہے کہ ’ہم قتل نہ کرنے کے حکم کو مقدس بناتے ہیں اور اس (قتل) پر عمل نہ کرنے کے تصور کو خدا پر ایمان رکھنے سے جوڑ دیتے ہیں۔ اگر ہم اس درمیانی کڑی سے نجات حاصل کر لیں اور قتل نہ کرنے کے لیے مذہبی جواز کی بجائے معاشرتی جواز پیش کریں تو ہم ارتقا کی جانب ایک قدم آگے بڑھائیں گے اور انسانی مسائل کے لیے خدا کی مرضی نہ تلاشتے پھریں گے۔ یوں بھی مختلف قوموں اور مختلف مذاہب میں خدا کی مرضی کو مختلف ہی نہیں متضاد انداز میں پیش کیا گیا ہے اور کسی انسان کے لیے ان کی صحت کی جانچ پڑتال ممکن نہیں۔ ‘(17)
’بابو گوپی ناتھ‘ کی طرح منٹو نے ’نُطفہ‘ کے مرکزی کردار (صادق) کو بھی ڈھالنے کی کوشش کی تھی اور اُس کا گھر پر کوٹھے کی فضیلت کا فلسفۂ زندگی پیش کرتے ہوئے اُس کی رگِ شیطنت ضرور پھڑک گئی ہو گی:
’’رنڈی کا کوٹھا اور گھریلو گھر۔ ۔ ۔ زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہاں سو بکھیڑے ہوتے ہیں۔ اتنا سازوسامان اور اتنے رشتے دار ہوتے ہیں کہ آدمی ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہے تو پوری زندگی اسی کوشش میں بسر ہو جائے، مگر یہاں رنڈی کے کوٹھے پر ایسی کوئی مشکل نہیں۔ ‘‘ غرض کہ رضوی اور صادق کے مرکزی کرداروں کے یہ افسانے کچھ اس طرح کے ہیں کہ منٹو کی تحریر کا جادو انھیں پڑھنے کی دعوت تو دیتا ہے لیکن ان افسانوں کا مرکزی خیال چیونٹیوں بھرا کباب ثابت ہوتا ہے۔
انسانی زندگی میں جنسی جذبے کی اہمیت کا خالقِ کائنات بھی قائل ہے، اسی لیے اُس نے اپنے بندوں کے پرہیز و تقوا کا انعام جنت میں حور و غلماں کی صورت میں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ منٹو نے اپنے ایک مضمون ’چھیڑ خوباں سے چلی جائے‘ میں اس ازلی حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے:
’’دراصل جنسی بھوک کچھ اس قسم کی بھوک ہے کہ مٹائے نہیں مٹ سکتی۔ جب تک مرد اور عورت پاس پاس رہیں گے یہ چھیڑ چھاڑ چلتی رہے گی۔ ‘‘
دراصل منٹو بمبئی میں آنے کے بعد اپنی صحافتی اور فلمی ملازمتوں کے دوران جن حیران کُن مشاہدوں اور تجربوں سے گزرا تھا، اُن ہی کی بنیاد پر اُس نے یہ نظریہ قائم کیا تھا۔ یہاں کے مخلوط معاشرے میں اُس نے لوگوں کے جنسی رویّے میں تنوع پسندی اور فریقِ نو کی خواہش کے نظارے کیے تھے۔ ’پراسرنینا‘ کے خاکے میں اُس نے لکھا ہے:
’’عجیب سلسلہ تھا کہ محسن عبداللہ اِسنیہ پربھا پردھان کے عشق کے چکر میں تھے۔ اُن کی بیوی پر احمد (ڈبلیو، زیڈ احمد) اپنا سکّہ جما رہے تھے۔ ادھر احمد کی بیوی صفیہ، سبط حسن سے رومان لڑا رہی تھی، اور اُن کے جاننے پہچاننے والوں میں بھی اسی قسم کا سلسلہ جاری تھی۔ میں نے جب یہ سب کچھ دیکھا تو بخدا چکرا گیا۔ ‘‘
’جاننے پہچاننے والوں ‘ میں سے ایک کا حوالہ یوں ہے کہ فیض، رشید جہاں سے لو لگائے بیٹھے تھے۔ 1940ء سے قبل کبھی منٹو نے تحریر کیا تھا کہ ’عورتوں کے متعلق اُس نے جو افسانے لکھے ہیں ، وہ مالی ضرورت یا دماغی عیاشی کے لیے لکھے ہیں۔ ‘ اور یہ بھی کہ:
’’ایک خاص طبقے کی عورتیں میرے نظر سے گزری ہیں اور اُن کے متعلق میں نے چند افسانے لکھے ہیں ، اور وہ رومان نہیں ہیں۔ ‘‘ (18)
اُس وقت تک ’ایک خاص طبقے‘ یعنی طوائفوں کی زندگی پر منٹو نے چند ہی افسانے لکھے تھے، جو اُس کے امرت سر اور لاہور کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی تھے۔ اب جو ہم اُس کی کلیات پر نظر کرتے ہیں تو تقریباً 270طویل اور مختصر اور منی افسانوں میں سے ایک تہائی افسانے مرد و زن کے تعلقات کے رنگا رنگ پہلوؤں اور بالاخانوں کی زندگی کے عکاس ملتے ہیں۔ اِس قسم کے اُس کے مشہور افسانوں سے قطع نظر اُس کے یہاں ہم جنس پسندی (homosexuality)پر ’قدرت کا اُصول‘ اور ’ایک خط اور اُس کا جواب‘ ، آغاز شباب کے احساسات پر ’پھاہا‘ اور محرمات کے ساتھ مباشرت (Incest)پر ’کتاب کا خلاصہ‘ اور ’اللہ دتا‘ اور نسوانی ہم جنس پسندی (Lesbianism)پر ’دھواں ‘ نامی افسانے بھی دیکھے جا سکتے ہیں ، اس ضمن میں کہیں اس نے فلم ایکٹریس بیگم پارہ اور پروتیما داس گپتا کے مابین تعلقات کا ذکر بھی کیا تھا۔ اپنے کئی مضامین میں منٹو جنسی آزادی کا مویّد بھی نظر آتا ہے۔ یہ بھی ایک ایسا نظریہ ہے کہ منٹو کی موت کے چھے دہائیوں بعد بھی ہماری مشرقی فکر اس کی روادار نہیں ہوسکتی۔ اس بات کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ اُس نے نورجہاں اور شوکت حسین رضوی کے Live-in-relationship کی تو حمایت کی تھی، پر اُن کی شادی کے ارادے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ اُس کا خیال یہ تھا کہ ایک فلم ایکٹریس کو ؍سے شادی کی ضرورت نہیں۔
نیو تھیٹر کی ایک روایتی طرز کی فلم ’زندگی‘ میں بتایا گیا تھا کہ فلم کی ہیروئن اپنے شرابی اور بدکار شوہر کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر گھر چھوڑ کر نکل جاتی ہے۔ ہندو مذہب میں چونکہ طلاق ممکن نہیں ، اس لیے وہ اپنے مفلس اور بے روزگار عاشق سے شادی نہیں کرسکتی، البتہ اُس کا عارضی سہارا قبول کر لیتی ہے۔ دونوں کو ایک ہی چھت کے نیچے اپنے جذبات کا گلا گھونٹ کر کروٹیں بدل بدل کر ایک رات گزارتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔ پھر ہیروئن کے اپنے مال دار پِتا کے شرن میں بخیریت پہنچ جانے پر فلم ختم ہو جاتی ہے۔ منٹو نے اس فلم پر اپنے ریویو میں ڈائرکٹر بروا کو پھٹکار لگاتے ہوئے لکھا تھا کہ ’جب شریمتی ہیروئن رتن لعل ہیرو کے گھر میں سوئی تھی تو اُن دونوں نے ایک دوسرے کو اپنانے کی کوشش کیوں نہیں کی! سماج نے اُن کی کھاٹ تو نہیں اُلٹ دی تھی؟ کیا شرابی شوہروں کی ٹھکرائی ہوئی بیویاں غیر مردوں کی آغوش میں نہیں چلی جاتیں ! اُن کے ایسا کرنے سے زندگی کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آ جاتا۔ کوئی قیامت نہیں برپا ہو جاتی۔ (19)
منٹو کے مضامین ، ڈراموں اور مکالماتی فیچروں میں بھی اُس کے اِن افکار کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک جگہ اُس نے آتھرچیخوف کا یہ مقولہ درج کیا ہے کہ ’یہ عورتیں اور مرد اُس وقت شادی کر لیتے ہیں ، جب اُنھیں سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اپنے آپ کا کیا کریں ! (20) اپنے ایک ڈرامے میں اپنے ایک کردار کی زبانی وہ یہ کہتا ہوا ملتا ہے کہ ’۔ ۔ ۔ اگر میں کسی عورت کو رفیقۂ حیات بنانا چاہتا ہوں ، اور وہ بھی مجھے اپنا جیون ساتھی بنانے کے لیے تیار ہے تو اس میں مُلّا صاحب کی تشریف آوری کیوں ضروری ہے؟‘(21)
منٹو نے جب افسانہ نگاری کا آغاز کیا تو ادبی حلقوں میں میں برٹرینڈررسل کی کتاب Marriage and Morals (پہلا اڈیشن 1929ء) کے اس قسم کے مندرجات بحث کا موضوع بنے ہوئے تھے کہ ’جنسی تعلق کا معاملہ اب شادی کے تصور سے وابستہ نہیں رہا، اور چونکہ خاندان کی اہمیت بچے کی فلاح و بہبود کے لیے باقی رہ گئی ہے، اس لیے ایک مرد اور عورت کو شادی کی ڈور سے بندھنے کے لیے اپنے پہلے بچے کا نطفہ ٹھہرنے کے بعد غور کرنا چاہیے۔ ‘ اپنے اِن خیالات کے باعث رسل ایک عرصے تک لوگوں کی ملامت کا نشانہ بنا رہا تھا۔ حتّا کہ ایک دہائی بعد بھی جب وہ ’سٹی کالج آف نیویارک‘ میں پروفیسری کا اُمیدوار ہوا تھا تو اُسے اخلاقی طور پر نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔ اس سب کے باوجود آئن اسٹائن جیسے ہم عصر نے اُس کی حمایت میں لکھا تھا کہ ’ہوتا آیا ہے کہ عظیم روحوں کو ہمیشہ ہی عام لوگوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ‘ منٹو کا اُس عہد میں اپنی اشتراکیت پسندی میں ان افکار سے متاثر ہونا غیر ممکن نہیں۔
اِس حقیقت کے پیشِ نظر کہ صنفِ غیر کی کشش مرد اور عورت دونوں کی جبلّی فطرت میں شامل ہے جس سے مفر ممکن نہیں ، منٹو فلم ’بن کی سندری‘ کے ہیرو راج کشور کی پاک بازی کو دیکھ کر اُلجھن میں پڑ گیا تھا۔ راج کشور کا فلم اسٹوڈیو کی ہر عورت کو بہن کہہ کر مخاطب کرنا بھی اسے ایک ڈھونگ نظر آیا تھا۔ منٹو کے نقطۂ نظر سے بہن اور بھائی کے حقیقی رشتے سے ہٹ کر ایسا کوئی رشتہ ممکن نہیں۔ اُس نے تنگ آ کر لکھا ہے کہ ’راج بھائی کے لنگوٹ سے میں تنگ آگیا تھا۔ ‘ جب کہ نیلم نا می ایکٹریس کی مسلسل دعوتِ گناہ اور جابرانہ خود سپردگی سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بڑی حد تک لنگوٹ کا پکّا تھا۔ (22) منٹو کے یہاں سیکس سے اجتناب ریاکاری کے مترادف ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے نام اپنے ایک خط میں منٹو نے لکھا تھا: ’عشق و محبت کے متعلق سوچتا ہوں تو صرف شہوانیت ہی نظر آتی ہے۔ ‘‘ اُس کے افسانوں کا کوئی کردار اگر عورتوں کو نہیں تکتا تو وہ اُسے ’اندھ عورتا‘ کا مریض قرار دے دیتا ہے۔ اُسی کی اصطلاح میں ایک ایسا شخص جو عورت کی طرف نہیں دیکھتا۔ (23)
منٹو کی کلیات کو کھنگالتے ہوئے ذہن میں خیال آیا کہ کیا منٹو نے اپنے افسانوں میں کہیں روایتی انداز میں سماج کی مثبت قدروں کی عظمت کا نقش بھی قائم کیا ہے! کیا اُس نے نیک و بد کرداروں کو ایک ہی افسانے میں پیش کر کے نیکی کو برتر و خوش انجام اور بدی کو سیاہ رو و ناکام دِکھانے کی کوشش کی ہے! تو مجھے صرف دو افسانے ’اِس منجدھار میں ‘ اور ’جھمکے‘ ہی مل سکے۔ ’ماہی گیر‘ کو بھی جوڑ لیں جو وِکٹر ہیوگیو‘ کی ایک نظم پر مبنی ہے اور اگر ایک دو افسانے اور مل جائیں ، تب بھی اُن کی تعداد ڈیڑھ فی صد سے زیادہ نہیں پہنچتی۔
حقیقت یہ ہے کہ منٹو کے یہاں نہ تو کسی نصوح کی توبہ ہے، نہ کسی کی حیاتِ صالحہ۔ (24)اُسے ناصح بننا پسند ہے نہ مصلح اور نہ اُسے زندگی کی برگزیدہ، منتخب اور مدّرسانہ قدروں کے حوالے سے انسانیت کے اُس رُخِ روشن کو ہار پھول پناحنے ہیں ، جہاں پہلے ہی لوگوں کی عقیدوں اور روایتوں نے تقدس کا ہالہ کھینچ رکھا ہے۔
بہر کیف منٹو کی تحریروں میں ان شوخ و شنگ رنگوں سے ہٹ کر بھی بہت سے مقامات موجود ہیں ، جہاں وہ اپنے پیش روؤں ، ہم عصروں سے کہیں زیادہ زندگی کا راز داں نظر آتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ نہ تو انسان کی زندگی اتنی سادہ ہے اور نہ ہی اس دنیا کی بیشتر وارداتیں ماضی کے قصّوں کی طرح کے typicalانجام پر منتج ہوتی ہیں۔ اگلوں کے پاس شر سے نفرت یا اُس کے خاتمے کے سوا کوئی پیغام نہ تھا، جب کہ منٹو نے بدی کے وجود کی وجہ اور اُس کی برقراری کے اسباب پر غور کرنے کی بِنا ڈالی۔ اُس نے لکھا ہے کہ ہر بُرائی کے کچھ اچھے پہلو بھی ہوتے ہیں ، مثلاً عصمت فروشی کے کوٹھے اگر ڈھا دیے جائیں تو ڈر ہے کہ ہمارے گلی محلوں میں پوشیدہ چکلے شروع ہو جائیں گے۔ اسی طرح اگر بھکاریوں کے بھیک مانگنے پر پابندی لگا دی گئی تو ممکن ہے کہ کرائم گراف بڑھ جائے!
ہمیں اُس کے دل درد مند کی فکر مندیوں کو اُس کے افسانوں میں بدنام اور بُرے کرداروں میں بھی دبی انسانیت، تقسیم وطن کے کرب اور مغویہ عورتوں کے مسائل کو اجاگر کرنے میں ، اُس کی انسانی نفسیات کی رمز شناسیوں کو معاصرین پر لکھے اُس کے دل پذیر اور چشم کشا خاکوں میں اور اُس کے فہم و ذکا کی نشانیوں کو اُس کے اُن بصیرت افروز مضامین میں دیکھنے کی ضرورت ہے، جن میں اُس نے عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں ، سیاست و مذہب کی استحصال کاریوں ، فرقہ واریت اور برِّصغیر کے دگرگوں حالات پر بڑی بے باکی سے طنز کے تیر برسائے ہیں۔ اُس کے فن کا ایک انفراد یہ بھی ہے کہ وہ کہیں کس مپرسوں سے آہ و بکا نہیں کراتا لیکن دلوں کو تڑپا دیتا ہے، پند و موعظت نہیں کرتا اور شعور بیدار کر دیتا ہے۔

ذاتی اخلاق و خصائل

اپنے دور کا انتہائی باغی، بولڈ اور بے باک افسانہ نگار اپنی نجی زندگی میں روایتی قسم کا سماجی رسموں کا پابند ایک عام سا انسان تھا۔ منٹو اور اُس کے اہل و عیال کا طرزِ زیست بھی ایک مڈل کلاس مسلم فیمیلی سے الگ نہ تھا۔ اُس کی بیوی صفیہ ایک کم پڑھی لکھی، متوسط طبقے کی با حجاب خاتون تھی، اگرچہ شادی کے بعد اُس نے پردہ ترک کر دیا تھا۔ بہرحال یہ اُسی کی سلیقہ مندی تھی کہ اُس نے منٹو کی بے اعتدالیوں کے باوجود، اپنا سُکھ چین تج کر بھی گھر کو گھر بنائے رکھا تھا۔ وہ منٹو کے ادبی مشاغل سے اتنی بے زار یا بے نیاز تھی کہ حامد جلال نے لکھا ہے: ’منٹو اگر افسانہ نگاری کی بجائے نجّاری (Carpentry)کرتا تو اُسے کوئی غم نہ ہوتا۔ ‘ منٹو کی موت کے بعد صفیہ نے کہا تھا:
’’مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُن کی لکھی ہوئی چیزوں سے مجھے آج تک (نا دہند پبلشروں کی وجہ سے) کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ ۔ ۔ (وہ) ہمارے لیے ایک چیز ضرور چھوڑ گئے ہیں ، وہ ہے نام اور عزت، بس، جس کے لیے میں اُن کی شکر گزار ہوں۔ ‘‘ (25)
حامد جلال نے یہ بھی لکھا ہے کہ گھر میں کبھی تعلیمِ نسواں یا مخلوط سوسائٹی کی بات چھڑتی تو منٹو کا رویّہ قدامت پسندانہ ہوا کرتا تھا۔ بظاہر یہ عجیب سی بات لگتی ہے ، لیکن ناقابلِ یقین نہیں۔ دراصل ایک فنکار بھی ہماری آپ کی طرح اپنی معاشرتی زندگی کی مصلحتوں اور مجبوریوں کا مارا کچھ اچھا، کچھ بُرا ایک عام سا شخص ہوا کرتا ہے۔ بہت سے فنکار تو اپنی مصلحتوں اور مجبوریوں کے خول سے باہر نکل کر کوئی نیا اور دیر پا نقش قائم کرنے کی جرّت ہی نہیں کر پاتے اور سدا لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں۔ کچھ ہی اتنے جری ہوتے ہیں کہ کم از کم اپنے فن کے وسیلے سے زمانے سے اپنی بے اطمینانی اور احتجاج کو، اپنے انحرافی خیالات کو پیش کرنے کا حوصلہ کرتے ہیں۔ گو وہ اپنے آس پاس کا ماحول تک نہ بدل سکیں ، لیکن اپنے فن کے وسیلے سے زمانے کو بدلنے یا اُسے بہ انداز دِگر سمجھنے کے افکار اور تصورات ضرور دے جاتے ہیں۔ منٹو، ایک ایسا ہی فنکار تھا۔ اُس کے خانگی تحفظات کے پیچھے اُس کی فلم اسٹوڈیوز اور چکلوں کی طبقۂ اناث کی زندگی کے اُس کے مشاہدات کا اثر بھی کارفرما ہوسکتا ہے اور پھر اُس کی بیوی بھی ایک روایتی مشرقی خاندان سے آئی تھی۔
منٹو کے دوستوں اور شناساؤں (مثلاً کرشن چندر، عصمت چغتائی، قتیل شفائی، بلونت گارگی اور شورش کشمیری وغیرہ) نے اُس کی شخصیت اور اخلاق و خصائل کے جو پہلو پیش کیے ہیں ، اُن سے ہمارے سامنے ایک مخلص، یار باش، ذکی حِس، نفاست پسند اور مہمان نواز، اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک عاجل، احساس برتری کے حامل اور صرف آج میں یقین رکھنے والے مستقبل نا اندیش شخص کی تصویر اُبھرتی ہے۔ اوپیندر ناتھ اشکؔ نے اُسے خود بیں ، زود رنج، غیر مستقل مزاج، خوشامد پسند اور رَن چھوڑ یا ’باجو کی گلی سے نکل جانے والا‘ (جو پہلے دہلی سے بمبئی اور پھر بمبئی سے لاہور کے لیے نکل گیا۔ ) بتایا ہے تو اِس میں کسی حد تک معاصرانہ رقابت کا پہلو بھی رہا ہو گا۔ عصمت نے منٹو پر لکھے اپنے خاکے میں اُس کی شخصیت کے اچھے بُرے، شوخ، مٹ میلے سارے رنگ سمیٹ کر رکھ دیے ہیں اور جا بجا اپنی محبت اور نفرت کا بھی برملا اظہار کر دیا ہے۔ منٹو نے عصمت کو یہ کہہ کر پاکستان چلنے کی دعوت دی تھی کہ ’پاکستان میں حسین مستقبل ہے۔ ۔ ۔ بھاگے ہوئے لوگوں کی کوٹھیاں ملیں گی۔ ‘ اور پاکستان پہنچ کر بھی اُسے خط میں لکھا تھا کہ اگر وہ آ جائے تو ایک سنیما (گھر ) الاٹ کرانے کی اُمید ہے۔ ‘ عصمت نے اپنے ردِّ عمل میں لکھا ہے کہ ’تب مجھے معلوم ہوا کہ منٹو کتنا بزدل ہے۔ اپنا مستقبل بنانے کے لیے وہ بھاگے ہوئے لوگوں کی زندگی کی کمائی پر دانت لگائے بیٹھا ہے، اور مجھے اُس سے نفرت ہو گئی۔ لیکن عصمت کی نفرت بھی عارضی تھی اور منٹو کے سپنے بھی جھوٹے نکلے۔ یہی منٹو اپنے آخری دنوں میں عصمت کو یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ ’وہ اسے واپس ہندستان بلا لے۔ ‘ بقول عصمت، منٹو کو خودستائی کی بھی عادت تھی۔ وہ (عصمت کے سوا) اپنے کسی ہم عصر کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ کرشن چندر اور دیویندر ستیارتھی کی تعریف سُن کر سلگ اُٹھتا تھا۔ (26) بقول اشکؔ وہ اُس کے مرنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے اُس کی کپال کِریا (مُردے کی کھوپڑی کو توڑنا) کرنا چاہتا تھا، لیکن خود ہی پہلے مرگیا۔
میں کوئی مفتی نہ قاضی جو اُس کے پنچ عیب شرعی (شراب نوشی، قمار بازی، جھوٹ بولنا، چوری اور زنا کرنا) گِنوانے بیٹھوں ، لیکن اسے کیا کہیے کہ یہ سارے ہی اس کی داستانِ حیات میں بکھرے پڑے ہیں اور ان کا ذکر یہاں صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ہم افسانہ نگاری کے اس لڈجنن کو اپنی ہی طرح کے ایک گوشت پوست کے انسان کے روپ میں دیکھیں۔ شراب اور جوئے کی لت تو منٹو نے اپنی طالب علمی ہی کے زمانے میں لگا لی تھی، اگرچہ اُس نے نشے کے محرکات اور تباہ کُن نتائج پر ایک طویل اور عمدہ مضمون لکھا ہے (27) اور اپنے افسانے۔ ۔ ۔ ؟؟۔ میں ایک شرابی کا عبرت خیز خاکہ پیش کیا ہے، لیکن وہ خود شراب سے مرتے دم تک پیچھا نہ چھُڑا سکا تھا۔ اشکؔ کو کسی اور کا سیکنڈ ہینڈ ٹائپ رائٹر فروخت کرتے ہوئے اُس نے جھوٹ بول کر خاصی رقم اُڑا لی تھی۔ اپنی بیوی کو گھر خرچ کے لیے دیے ہوئے روپیوں تک میں وہ ہمیشہ خرد بُرد کرتا رہتا تھا۔ (28) منٹو کی زندگی کے آخری دنوں میں جب اُس کی بڑی بیٹی ٹائیفائڈ کی مریض تھی، اُس کی دوائیوں کے نام پر کسی شناسا سے قرض لے کر منٹو اُن روپیوں سے اپنے لیے وسکی کی بوتل خرید لایا تھا۔ یہ بات اُس کے بھانجے حامد جلال نے تحریر کی ہے۔
عصمت کے روبرو منٹو نے کسی کارنامے کی طرح اپنی رنڈی بازی کا ذکر کیا تھا۔ جب عصمت نے بے یقینی کے عالم میں اُس سے کہا تھا کہ تم یُوں ہی گانا سننے کے لیے کوٹھوں پر جاتے ہو گے، تو منٹو نے زور دے کر کہا تھا کہ ’ وہ وہاں جس کام کے لیے گیا ہے ، اُسی کے دام وصول کر کے آیا ہے۔ ‘ وہ اپنے دعوے پر خدا سے لے کر اپنے مرحوم بچے تک کی قسم کھانے سے باز نہ آیا تھا۔ ایسے میں مشتاق احمد یوسفی جیسے دیدہ ور کے یہاں اُن کوٹھوں کے کوچہ گرد کی گلو خلاصی میں اِس طرح کی سطریں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے:
’’منٹو تو خیر الکحلک بھی تھا۔ کوئے ملامت کے طواف کی اس غریب کو نہ فرصت تھی، نہ استطاعت اور ہوش۔ اسے اس کوچے کا اتنا ہی تجربہ تھا، جتنا ریاض خیرآبادی کو شراب خانے کا۔ ہمارے یہاں شاید یہ اتنا ضروری بھی نہیں۔ ‘‘ (آبِ گم‘ ، ص: 382، اڈیشن : کتاب والا 1991ء)
ہوش کی بات بھی خوب رہی! کیوں کہ ان کوچوں میں تو مدہوش ہو کر جانے کے اِمکان بڑھ جایا کرتے ہیں۔ جہاں تک استطاعت کا سوال ہے تو خود منٹو ہی نہیں ، اس کے کئی ہم عصر ادیب، صحافی اور اقربا اپنی تحریروں میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ بمبئی میں فلم اور صحافت سے اُس کی وابستگی کا 1946ء تک کا دور منٹو کی زندگی کا بہترین زمانہ رہا تھا۔ وہ لاہور کے اسپتال کے بسترِ مرگ پر بھی اپنے آپ کو بمبئی کی بانہوں میں تصور کیا کرتا تھا۔ لاہور میں اُس کے شناسا ادیبوں میں سے قتیل شفائی نے لکھا ہے کہ ’منٹو صاحب جب تک بمبئی میں رہے فلم اور صحافت میں اُن کا نام رہا۔ ۔ ۔ ۔ اچھی خاصی آمدن تھی، چنانچہ اُن کی زندگی میں اُن کی نظر میں جو رنگینیاں ضروری تھیں وہ اُن کی دست رس میں تھیں۔ ‘ (29) اشکؔ نے لکھا ہے کہ ’منٹو نے کٹرہ گھونیاں (امرت سر)، ہیرا منڈی (لاہور) اور فارس روڈ (بمبئی) جیسے بازاروں کی خوب سیر کی تھی، دہلی کے جی بی روڈ (شردھا نند مارگ) اور پونا کی ایسی ہی گلیوں کا حال بھی اس کی نگارشات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک بار کرشن چندر اور منٹو جب پونا سے لوٹتے ہوئے ٹرین میں ملے تھے تو اُن کے درمیان کسی شناسا لڑکی کا ذکر چھڑ گیا تھا ( منٹو کی ایک دو تحریروں میں ’ثمینہ‘ کے نام سے اُس کا ذکر آیا ہے۔ اسیم) اور کرشن نے معنی خیز انداز میں منٹو سے پوچھا تھا ’’تم نے تو اُس (لڑکی) کا مطالعہ کیا ہو گا!‘‘ منٹو نے جواب میں کہا تھا: ’’لاحول ولا قوۃ۔ ۔ ۔ میں تو صرف طوائفوں کا مطالعہ کرتا ہوں۔ شریف لڑکیوں کے نزدیک نہیں پھٹکتا۔ (30) بلونت گار گی ، بازار حسن کے ماحول سے کچھ خائف سا تھا، لیکن جب وہ منٹو اور باری کے ساتھ لاہور کی ہیرا منڈی میں پہلی بار گیا تو بالکل نہیں گھبرایا۔ منٹو کے ساتھ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے ’کوئی مگرمچھ کی پیٹھ پر دریا کی سیر کرے۔ ‘ تینوں نے ایک کوٹھے پر نای و نوش کی محفل تو گرم کی، لیکن وہاں کی طوائفیں پسند نہ آنے پر بلونت اور باری لوٹ آئے تھے۔ منٹو کو نائیکا بھا گئی تھی اور وہ اُس کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔ ‘ (31) وہ باری کی صحبت میں امرت سر اور لاہور کے ان کوچوں کا لذت چشیدہ تھا، اور بمبئی میں قدم رکھتے ہی اُس نے جس علاقے (پیر خاں اسٹریٹ؍کلیر روڈ) میں بود و باش اختیار کی تھی، وہاں سے سیدھی راہ ان کوچہ ہائے ملامت (کھیت واڑی، فارس روڈ، پون پل اور گرانٹ روڈ) ہی کی طرف جاتی تھی ؍ ہے۔ منٹو کے دفتر کی راہ میں ناگپاڑہ بغیچے کے مقابل وہ ایرانی ہوٹل (موجودہ ’رولیکس!‘) تھا، جس کی فٹ پاتھ پر بجلی کے کھمبے سے ٹیک لگائے ’ڈھونڈو‘ کو اُس نے نجانے کتنے ہی طلب گاروں کے کسبیوں سے تار ملاتے ہوئے دیکھا تھا۔
قیاس کہتا ہے کہ یوسفی کی منٹو سے ذاتی طور پر واقفیت نہ رہی ہو گی۔ یُوں بھی جب منٹو کی زندگی کا آفتاب لبِ بام تھا، اُفق ادب پر ماہِ کنعاں طلوع بھی نہ ہوا تھا، لیکن اسے کیا کہیے کہ یوسفی نے منٹو کوبہ نظر تعمق پڑھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ منٹو کو نا آشنائے کوے ملامت قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے کہ ’درمیانِ قعرِ دریا‘ ایک تختہ بند کو خشک دامنی کی سند دینا۔
منٹو اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کہا کرتا تھا کہ ’وہ اپنی اس ذلّت کی زندگی کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔ ’آخر یہ کس بات کی طرف اشارہ تھا؟ حامد جلال کو بھی جسے منٹو کی بیماری کی سنگینی کی خبر سُن سُن کر راول پنڈی سے لاہور کا سفر کرنا پڑتا تھا، یہ اُلجھن پریشان کرتی رہی تھی کہ منٹو نے شراب نوشی کی انتہا کر کے موت کو دعوت کیوں دی تھی؟ منٹو کا جسمانی نظام شراب کا اتنا عادی ہو چکا تھا کہ ڈاکٹروں نے مجبور ہو کر دن میں دو تین بار شراب کے چند قطرے پانی میں ملا کر پینے کی اجازت دے رکھی تھی، لیکن مریض جاں بہ لب کو ایک راز دار دوست باقاعدہ وسکی فراہم کرتا رہا تھا، وہ کون تھا؟
قتیل شفائی نے اپنے اور منٹو کے مشترکہ دوست شاد ؔ امرت سری کی زبانی ان باتوں سے پردہ اُٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ منٹو کا منہ لگا دوست شادؔامرت سری ہی تھا جو ان دنوں منٹو کو وسکی فراہم کر کے بتدریج خودکشی کرنے میں مدد کرتا رہا تھا۔ جب مایوس اور دل شکستہ منٹو نے شادؔ کو راز دار بناتے ہوئے اُسے یہ بتایا تھا کہ کثرت مے خواری کے باعث وہ اتنی عمر (42سال) ہی میں مردانہ اوصاف سے محروم ہو چکا ہے اور جب کبھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر وظیفۂ زوجیت کے لیے بیوی کے پلنگ کے پاس پہنچتا ہے تو ناکامی کے خدشے سے ہمت نہیں جُٹا پاتا۔ ایسے میں کبھی بیوی جاگ پڑتی ہے تو اُس کی بے چارگی دیکھ کر تسلّی دیتے ہوئے اُسے واپس اُس کے پلنگ پر بھیج دیا کرتی ہے۔ کئی مہینوں سے اِس ناقابل برداشت کرب کو جھیلنے کے بعد اب وہ اور جینا نہیں چاہتا۔ ‘ مبادا وہ کہیں خود کشی نہ کر بیٹھے، شاد نے منٹو کی التجا پر اُسے چوری چھپے وسکی پہنچانی شروع کر دی تھی تاکہ وہ تشنہ لبی کی اذّیت میں تو نہ مرے۔ (32) ہم نہیں کہہ سکتے کہ شاد امرت سری کا بیان کتنا معتبر ہے، لیکن اسے بعید از قیاس بھی نہیں کہا جا سکتا۔ (33)
بہ ایں ہمہ
منٹو آج بھی ہمارے لیے اہم ہے۔
اس لیے کہ انسانی زندگی آج بھی خیرہ سری، ریاکاری اور استحصالی عناصر سے دل گرفتہ ہے اور خود غرضی، ہوس پیشگی، اور جور آزمائی کے چنگل سے رِہا نہیں ہو پائی ہے۔ ایسے میں منٹو کا ادب آج بھی جس طرح زندگی نما اور زندگی آمیز بنا نظر آتا ہے ، اس طرح کسی اور کا نہیں۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی انسانی بے راہ رویوں اور استحصال کاریوں کے مظاہرے کم ہوئے ہیں نہ ہی وہ حقائق بدلے ہیں ، جنھیں وہ منکشف کر گیا ہے۔ نہ ہی ہمارے نظامِ اخلاق میں کوئی انقلابی تبدیلی آئی ہے، نہ ہی اس نظام کے درماندہ حالوں کے غم کا مداوا ہوا ہے، اور سب سے بڑی بات یہ کہ اُس کی تمام تر تلخ نگاریوں کے باوجود اس کا سرمایۂ ادب آج بھی انسانیت پر یقین قائم رکھنے میں کام یاب ہے۔
بقول حامد جلال جب منٹو کی عمر بیس برس بھی نہیں تھی، منٹو نے امرت سر میں ماسٹر اللہ رکھا نامی ایک مشہور شعبدہ باز کو مجمع لگائے دیکھا تھا، جو دہکتے انگاروں پر چل رہا تھا اور لوگ دم بخود تھے۔ اللہ رکھا نے صدا لگائی کہ اگر کوئی اُس کے ساتھ آگ پر چلے گا تو اس کا بال بھی بیکا نہ ہو گا۔ مجمع میں صرف منٹو نے جرّت دکھائی تھی اور اُس کے ساتھ انگاروں پر سے گزر گیا تھا۔ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس اڈونچر میں سرعتِ رفتار وہ حکمت عملی ہے، جس نے اُس کے تلوؤں کو سوزش اور آبلوں سے بچایا تھا۔ اگرچہ جلال نے اِسے منٹو کی عملی زندگی کا کوئی اچھا شگون نہیں مانا تھا، پر غور کیجیے تو یہی جرأتِ فکر و فیصلہ اور تیزیِ رفتار منٹو کے قلم کے خاص اوصاف ٹھہرے، (34) اور ان سے وہ کیسے کیسے سلگتے موضوعات کے میدان سر کر گیا۔
اگرچہ پریم چند کے بعد کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کے ساتھ منٹو کو بھی ہمارے ایوان افسانہ کا چوتھا ستون تسلیم کر لیا گیا ہے، لیکن غور کیجیے تو عصمت کے فن کا کینواس کافی محدود ہے۔ کرشن کی رومانیت اکثر اُس کی حقیقت نگاری پر حاوی ہوتی نظر آتی ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کو اُن کی فطری زبان اور انسانی نفسیات کے راز داں کی حیثیت سے منٹو کا مقابل ٹھہرایا جا سکتا ہے، لیکن یہ بات کیفیت کے اعتبار سے ٹھیک ہو گی، کمیت کے لحاظ سے منٹو کے سامنے بیدی کا سرمایۂ قلم ایک تہائی بھی نہیں۔ منٹو نے کفایتِ لفظی کے ساتھ جتنی مقدار میں لکھا اور جتنا فراواں Contentپیش کیا، اس کا مقابل اُس کے ہم عصروں میں کوئی نہیں اور پھر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ منٹو کی جواں مرگی کے باعث اُس کے فن کی مدّتِ عمر، اُن ادیبوں کے مقابلے میں تقریباً نصف رہی تھی۔ شورش کشمیری نے منٹو کی حیات ہی میں کتنی سچی بات لکھ دی تھی کہ ’منٹو مومن کی طرح سوچتا ہے اور کافر کی طرح لکھتا ہے۔ ‘ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس کافر ادا مصنف کی تحریروں میں آج بھی اتنی دل کشی قائم ہے کہ وہ اردو نثر کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا مصنف ہے!
منٹو نے یہ کبھی پسند نہ کیا تھا کہ کسی شخص کے مرنے کے بعد اُس کا کردار اور تشخّص لانڈری میں بھیج کر اُسے اُجلا کر کے رحمۃ اللہ علیہ کی کھونٹی پر لٹکا دیا جائے۔ وہ تو فرشتوں کا بھی مونڈن کر کے اُنھیں اُن کی ہئیتِ اصلی میں پیش کرنے کا مدّعی تھا۔ ان صفحات پر منٹو کے فکرو فن اور شخصیت کے چند اَن دیکھے یا کم دیکھے، اچھے بُرے پہلو ہو بہو پیش کر کے میں نے اُسی کی سنّت ادا کی ہے۔
(اس مضمون کا خلاصہ ’ہندستانی پرچار سبھا‘ (ممبئی) میں 23فروری 2013ء کو منعقد ہوئے سیمی نار (کتنے منٹو) میں پڑھا جا چکا ہے۔ موجود صورت میں اسے میرے سابقہ مقالے ’منٹو کا تصورِ مذہب و اخلاق‘ (جو بہ تقریب’ سعادت حسن منٹو صدی‘ ، نومبر 2012ء میں ’ساہتیہ اکاڈمی-دہلی‘ کے انٹرنیشنل سیمی نار میں پڑھا گیا تھا اور پہلے پہل ’تحریر نو‘ ، بعد ازاں چند دیگر جریدوں میں شائع ہوا تھا۔ ) کا extensionسمجھیے، تتمّہ اِس لیے نہ سمجھیے کہ ع ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است۔ اسیم)

 

حواشی ؍ حوالے

 

1) ’سعادت حسن منٹو‘ از : بلونت گارگی، مشمولہ ’منٹو کے بہترین افسانے‘ ، مرتّبۂ: اطہر پرویز
2) کتاب ’ منٹو نامہ‘ ، از : جگدیش چندر وَدھاوَن ، ص: 218
3) خاکہ : ’سعادت حسن منٹو ‘ از : منٹو
4) میرے ایک غیر مسلم ادب شناس دوست نے بتایا کہ ’ہرے کرشنا‘ کے اعداد بھی 786ہوتے ہیں ، لیکن انھوں نے ایسا کوئی عندیہ ظاہر نہیں کیا کہ منٹو کی دل چسپی ’کرشن پنتھ‘ میں رہی ہو گی۔
5) افسانہ: ’ماتمی جلسہ‘ از :منٹو۔
6) ’منٹو نامہ‘ از : جگدیش چندر وَدھاوَن، ص: 217
7) وَدھاوَن کی بات کو میں نے کچھ اضافے کے ساتھ اپنے لفظوں میں پیش کیا ہے۔
8) Crime is either another name of need or an aspect of disease.
9) مضمون : ’گناہ کی بیٹیاں ، گناہ کے باپ‘، از : منٹو۔
10) ایضاً
11) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
12) ڈراما: ’اِس منجدھار میں ‘ ، از : منٹو
13) مضمون : ’کسوٹی‘ ، مشمولہ ’کامریڈ منٹو‘ ، مرتّبۂ: علی احمد فاطمی، ص: 215
14) آپ بیتی : ’گھنگھرو ٹوٹ گئے‘، از :قتیل شفائی، ص: 527-28کا خلاصہ (تخلیق کار۔ دہلی) 15) مضمون : ’کچھ منٹو کے بارے میں ‘، از : رشید الدین خان، ماہ نامہ ’آج کل‘، جولائی 2003ء
16) مثلاً: ’خالد میاں ‘ منٹو نے اپنے مرحوم بچے عارف کی یاد میں لکھا تھا۔ ’سجدہ‘ کے سجدۂ پشیمانی کا سجدہ گزار حمید، خود منٹو ہے اور یہ افسانہ منٹو کی باری علیگ سے دوستی کے ایک واقعے پر مبنی ہے۔ منٹو نے بٹوت کے سینی ٹوریم میں اپنے تین ماہ کے قیام کے ایک رومان کو ’بیگو‘، ’لالٹین‘، ’موسم کی شرارت‘ ، ’ایک خط‘، مصری کی ڈلی‘ اور ’نامکمل تحریر‘ میں دہرایا ہے اور ’نُطفہ‘ منٹو کے لاہور کے ایک شناسا خان غلام محمد خان لنڈ خوار کی زندگی پر مبنی کہانی ہے۔
17) "The Future of An Illusion”
18) افسانہ: ’بانجھ‘، از : منٹو
(19) ’زندگی‘، فلم پر ریویو کا ملخّص اقتباس، از : منٹو۔
20) ڈراما: ’آؤ بحث کریں ‘، از :منٹو
(21) ڈراما : ’ٹیڑھی لکیر‘ ، از :منٹو۔
22) افسانہ: ’میرا نام رادھا ہے‘ ، از :منٹو
(23) افسانہ : ’والد صاحب‘، از : منٹو
24) جس برس منٹو نے جنم لیا تھا، اُسی برس نذیر احمد نے وفات پائی تھی، اگرچہ پھوپھا کے کام کو تربیتِ بنات کے مشن کی صورت میں علّامہ راشد الخیری نے آگے بڑھایا، لیکن زمانے کے اطوار بدل چکے تھے۔ نذیر بھی بھُلا دیے گئے، راشد الخیری بھی۔
25) کتاب: ’سعادت حسن منٹو- حیات اور کارنامے‘ ، از : ڈاکٹر برج پریمی، ص: 107
26) منٹو نے ایک افسانہ ’ترقی پسند‘ کے نام سے لکھا تھا، جس میں دیویندر ستیارتھی کا ’پرمارتھی‘ کے نام سے خاکہ اُڑایا گیا تھا۔ دیویندرستیارتھی نے انتقاماً راجندر سنگھ بیدی کے ساتھ مل کر ’نئے دیوتا‘ کے نام سے ایک افسانہ لکھا، جس میں سعادت حسن منٹو کو ’نفاست حسن‘ کے کردار میں پیش کیا گیا ہے۔
27) مقالہ : ’لوگ اپنے آپ کو مدہوش کیوں کرتے ہیں ‘، از : منٹو
28) بحوالہ: ’منٹو ماموں ‘ ، از:حامد جلال
29) ’گھنگھرو ٹوٹ گئے‘، از : قتیل شفائی، ص : 521
30) نئے ادب کے معمار: ’سعادت حسن منٹو‘، از : کرشن چندر
31) ’سعادت حسن منٹو‘، از : بلونت گارگی
32) ’گھنگھرو ٹوٹ گئے‘، از : قتیل شفائی، ص: 525-26 (خلاصہ)
33) حمید اختر نے اپنے مضمون: ’منٹو زندہ ہے‘ میں لکھا ہے کہ ایک بار منٹو اُسے راہ میں ملا اور اصرار کر کے اپنے ساتھ تانگے میں بٹھا لیا کہ وہ اس کے گھر چلے اور گھر قریب آنے پر اُسے شراب کی بوتل تھماتے ہوئے اُس نے درخواست کی کہ وہ اسے چھپا کر لے چلے، کیوں کہ صفیہ اُس کی جیبیں دیکھنے لگ جاتی ہے۔ حمید نے یہ کہہ کر منع کر دیا تھا کہ وہ نہیں چاہتا کہ اسے بھی منٹو کے اُن دوستوں میں شمار کیا جائے، جو اُس کی صحت اور زندگی برباد کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
34) منٹو کی تحریر کی تیزیِ رفتار (Instantaneous) دیکھ کر تو اُس کا دشمن اشکؔ بھی حیران رہ گیا تھا۔
٭٭٭
مصنف کے تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید